دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)23%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68459 / ڈاؤنلوڈ: 4049
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سالت اباعبد اللّٰه عليه السلام عن الحبّ والبغض،امن الایمان هو؟ فقال: وهل الایمان الّاالحبّ والبغض ؟ ( ١)

“ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے محبت اور بغض کے بارے ميں سوال کيا کہ کيا دونوں ایمان ميں سے ہيں ؟ آپ نے فرمایا :کيا محبت اور بعض کے علاوہ ایمان ہو سکتا ہے ؟

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

هل الدین الّاالحبّ؟انّ اللّٰه عزّوجلّ یقول : (٣) ( قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعوني یحببکم الله ) ( ٢)

“کيا دین محبت کے علاوہ ہے ؟بيشک خداوندعالم فرماتا ہے : قل ان کنتم تحبّون اللهفاتبعوني یحببکم الله

“اے پيغمبر کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ الله سے محبت کرتے ہو تو ميری پيروی کرو خدا بهی تم سے محبت کرے گا ”

حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے:الدین هوالحبّ والحبّ هوالدین ( ۴)

“دین محبت ہے اور محبت دین ہے”

____________________

١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ١٢۵ ۔ )

٢)سورئہ آل عمرا ن آیت/ ٣١ ۔ )

٣)بحارالانوار جلد ۶٩ صفحہ / ٢٣٧ )

۴)نور اثقلين جلد ۵ صفحہ/ ٢٨۵ ۔ )

۸۱

محبت کی لذت

عبادت اگرچہ محبت ،شوق اور حسرت ودردکے ذریعہ ہو تی ہے اور اس سے بڑهکر کو ئی لذت وحلاوت نہيں ہے ۔

حضرت امام زین العابد ین عليہ السلام جنهوں نے الله کی محبت اور اس کے ذائقہ اور حلاوت کا مزہ چکها ہے وہ فرماتے ہيں :

الهي مااطيب طعم حبّک ومااعذب شرب قُربک ( ١)

“پروردگار تيری محبت کے ذائقہ سے اچها کو ئی ذائقہ نہيں ہے اور تيری قُربت سے گوارا کو ئی چيز گوارا نہيں ہے ”

یہ حلاوت اور لذت، اوليا ء الله کے دلوں ميں پائی جاتی ہے یہ عارضی لذت نہيں ہے جو ایک وقت ميں ہو اور دوسرے وقت ميں ختم ہوجائے بلکہ یہ دائمی لذت ہے جب کسی بندہ کے دل ميں الله سے محبت کی لذت مستقر ہو جاتی ہے تو اس کا دل الله کی محبت سے زندہ ہو جاتا ہے اور جو دل الله کی محبت سے زندہ ہوجائے خداوند وعالم اس پرعذاب نازل نہيں کرتا اور الله کی محبت اس کے دل ميں گهرکر جاتی ہے ۔

حضرت امير المو منين عليہ السلام فرما تے ہيں :

الهي وعزّتک وجلالک لقد احببتک محبةاستقرّت حلاوتهافي قلبي وماتنعقدضمائرموحّدیک علیٰ انک تبغضُ محبيک ( ٢)

“خدایا! تجه کو تيرے عزت و جلال کی قسم تيری محبت کی مڻهاس ميرے دل ميں گهر کر گئی ہے

____________________

١)بحار الانو ار جلد ٩٨ صفحہ / ٢۶ ۔ )

٢)مناجات اهل البيت صفحہ ٩۶ ۔ ٩٧ ۔ )

۸۲

اور تيرے مو حدین کے ذہن ميں یہ خيال بهی نہيں گذرتا کہ تو ان سے نفرت کرتا ہے ”

الله کی محبت کی اسی مستقر اور ثابت حالت کے بارے ميں حضرت امام علی بن الحسين فرماتے ہيں :

فوعزّتک یاسيدي لوانتهرتني مابرحت من بابک ولاکففت عن تملّقک لماانتهیٰ الي من المعرفةبجودک وکرمک ( ١)

“ تيری عزت کی قسم! اے ميرے مالک اگر مجه کو اپنی بارگاہ سے نکال دے گا تو ميں اس دروازے سے نہ جا ونگا اور نہ تيری خوشامد سے باز رہونگا اس لئے تيرے جود و کرم کو مکمل طور پر پہچان ليا ہے ”

محبت کے گہر ے اور دل ميں مستقر ہو نے کی سب سے بليغ تعبير یہی ہے کہ وہ محبت دائمی ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر مولا اپنے غلام کو ذبح بهی کردے تو بهی وہ محبت اس کے دل سے زائل نہيں ہو سکتی اور جس غلام کے دل ميں اس کے مو لا کی محبت ثابت اور مستقر ہوگئی وہ اپنے غلام کو کبهی قتل نہيں کر سکتا ہے ۔

جب انسان الله سے محبت کے ذائقہ اور اس سے انسيت کی قوت سے آشنا ہوجاتا ہے تو اس پر کوئی اور چيز اثر نہيں کر سکتی حضرت امام زین العا بدین،

امام المحبين عليہ السلام فرما تے ہيں :

مَن ذاالذي ذاق حلاوة محبّتک فرام عنک بدلا؟ومن ذاالذي انس بقربک فابتغیٰ عنک حولا ( ٢)

“وہ کو ن شخص ہے جس نے تيری محبت کی مڻهاس کو چکها ہو اور تيرے بدل کا خواہش مند ہو اور وہ کون شخص ہے جس نے تيری قربت کا انس پایا ہو اور ایک لمحہ کے لئے بهی تجه سے رو گردانی کرے ”

____________________

١)بحا رالانوارجلد ٩٨ صفحہ / ٨۵ ۔ )

٢)بحا رالانوار جلد ٩۴ صفحہ / ١۴٨ ۔ )

۸۳

لوگوں کا مسالک اور مذاہب ميں تقسيم ہونا الله سے محبت کی لذت سے محروم ہونا ہے جو لوگ اپنی زندگی ميں الله سے محبت کی معرفت حاصل کر ليتے ہيں وہ اس کے بعد اپنی زندگی ميں کسی دوسری چيز کی جستجو نہيں کر تے ہيں ۔

حضرت امام حسين بن علی عليہ السلام فرماتے ہيں :

ماذاوجد من فقدک؟وماالذي فقدمن وجدک ؟

“ جس نے تجه کو کهو دیا اس نے کيا پایا ؟اور جس نے تجه کو پاليا اس نے کيا کهو یا”( ١)

حضرت علی بن الحسين زین العا بدین عليہ السلام الله سے محبت کی لذت کے علاوہ محبت سے استغفار کرتے ہيں ،الله کے علاوہ کسی دوسرے ذکر ميں مشغول ہو نے سے استغفار کرتے ہيں اور الله کی قربت کے علاوہ کسی دوسری خوشی سے استغفار کرتے ہيں ،اس اعتبار سے نہيں کہ خداوندعالم نے اس کو اپنے بندوں پر حرام قرار دیاہے بلکہ اس لئے کہ وہ محبت دل کو الله سے منصرف کر دیتی ہے اور انسان الله کے علاوہ کسی دوسرے سے لو لگا نے لگتا ہے اگر چہ بہت کم مدت کيلئے ہی کيوں نہ ہو ليکن جس دل کو الله سے محبت کی معرفت ہو گئی ہے وہ دل الله سے منصرف نہيں ہو تا ہے ۔

اوليا ئے خدا کی زند گی ميں ہر چيز اور ہر کوشش الله سے دائمی محبت، الله کا ذکر اور اس کی اطاعت کے ذریعہ ہی آتی ہے اس کے علاوہ ہر چيز الله کی یاد سے منصرف کرتی ہے اور ہم الله سے استغفار کر تے ہيں ۔

امام عليہ السلام فر ما تے ہيں :

واستغفرک من کل لذة بغيرذکرک ومِن کلّ راحة بغيراُنسک،ومن کل سرور بغيرقربک،ومن کلّ شغلٍ بغيرطاعتک (٢)

____________________

١)بحار الانوار جلد ٩٨ صفحہ / ٢٢۶ ۔ )

٢)بحار الانوار جلد ٩۴ صفحہ / ١۵١ ۔ )

۸۴

“اور ميں تيری یاد سے خالی ہر لذت ،تيرے انس سے خالی ہر آرام ،تيرے قرب سے خالی ہر خو شی ،اور تيری اطاعت سے خالی ہر مشغوليت سے استغفار کرتا ہوں ”

محبت کے ذریعہ عمل کی تلافی

محبت عمل سے جدا نہيں ہے محبت انسان کے عمل ،حر کت اور جد و جہد کی علا مت ہے ليکن محبت ،عمل کا جبران کر تی ہے اور جس شخص نے عمل کرنے ميں کو ئی کو تا ہی کی ہے اس کی شفاعت کر تی ہے وہ الله کے نز دیک شفيع ومشفع ہے ۔

حضرت امام علی بن الحسين عليہ السلام ماہ رمضان ميں سحری کی ایک دعا ميں جو ابو حمزہ ثما لی سے مر وی ہے اور بڑی عظيم دعا ميں شما ر ہو تی ہے فرما تے ہيں :

معرفتي یامولاي دليلي عليک وحبي لک شفيعي اليک وانا واثق من دليلي بدلالتک ومن شفيعي الیٰ شفاعتک ( ١)

“اے ميرے آقا ميری معرفت نے ميری،تيری جانب راہنما ئی کی ہے اور تجه سے ميری محبت تيری بارگاہ ميں ميرے لئے شفيع قرار پا ئيگی اور ميں اپنے رہنما پر بهروسہ کئے ہوئے ہوں نيز مجھے اپنے شفيع پر اعتماد ہے ” معرفت اور محبت بہترین رہنما اور شفيع ہيں لہٰذا وہ انسان ضائع نہيں ہوسکتا جس کی الله کی طرف رہنمائی کرنے والی ذات اسکی معرفت ہے اور وہ بندہ مقصد تک پہنچنے ميں پيچهے نہيں رہ سکتا جس کی خداوند عالم کے سامنے شفاعت کرنے والی ذات محبت ہے ۔

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :الٰهي انّک تعلم انّي وان لم تدم الطاعة منّي فعلاجزما فقددامت محبّة وعزما

____________________

١)بحا ر الانوار جلد ٩٨ صفحہ ٨٢ ۔ )

۸۵

“خدایا تو جانتا ہے کہ ميں اگرچہ تيری مسلسل اطاعت نہ کرسکا پھر بهی تجه سے مسلسل محبت کرتا ہوں ”

یہ امام عليہ السلام کے کلا م ميں سے ایک لطيف و دقيق مطلب کی طرف اشارہ ہے بيشک کبهی کبهی اطاعت انسان کو قصور وار ڻهہرا تی ہے اور وہ الله کی اطاعت پر اعتماد کر نے پر متمکن نہيں ہو تا ہے ليکن الله سے محبت کر نے والے انسانوں کے یقين و جزم ميں شک کی کو ئی راہ نہيں ہے اور جس بندے کے دل ميں الله کی محبت گهر کر جا تی ہے اس ميں شک آہی نہيں سکتا ۔بندہ بذات خود ہی اطاعت ميں کو تا ہی کر تا ہے اور وہ ان چيزوں کا مرتکب ہو تا ہے جن کو خدا وند عالم پسند نہيں کر تا اور نہ ہی اپنی معصيت کرنے کو دو ست رکهتا ہے ليکن اس کےلئے یہ امکان نہيں ہے کہ (بندہ اطاعت ميں کو تا ہی کرے اور معصيت کا ارتکاب کرے )اطاعت کو نا پسند کرے اور معصيت کو دوست رکهے ۔

بيشک کبهی اعضا و جوارح معصيت کی طرف پهسل جاتے ہيں ،ان ميں شيطان اور خو ا ہشات نفسانی داخل ہو جا تے ہيں اور اعضاء و جوارح الله کی اطاعت کرنے ميں کو تا ہی کر نے لگتے ہيں ليکن الله کے نيک و صالح بندوں کے دلوں ميں الله کی محبت ،اس کی اطاعت سے محبت اور اس کی معصيت کے نا پسند ہو نے کے علا وہ اور کچه داخل ہی نہيں ہو سکتا ہے ۔

ایک دعا ميں آیا ہے :

الٰهي احبّ طاعتک وانْ قصرت عنهاواکره معصيتک وانْ رکبتها فتفضل عليّ بالجنّة (١)

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٩۴ صفحہ ١٠١ ۔ )

۸۶

“خدایا! ميں تيری اطاعت کرنا چا ہتا ہوں اگر چہ ميں نے اس سلسلہ ميں کو تا ہی کی ہے اور مجھے تيری معصيت کرنا نا گوار ہے اگر چہ ميں تيری معصيت کاارتکاب کر چکا ہوں لہٰذا مجه کو بہشت کرامت فرما ”

جوارح اور جوانح کے درميان یہی فرق ہے بيشک جوارح کبهی جوانح سے ملحق ہو نے سے کوتاہی کر تے ہيں اور کبهی جوانح اپنے پروردگار کی محبت ميں مکمل طور پر خاضع وخاشع ہو جا تے ہيں اور جوارح ایسا کرنے سے کوتاہی کر تے ہيں ليکن جب دل پاک وپاکيزہ اور خالص ہو جاتاہے تو جوارح اسکی اطاعت کرنے کيلئے نا چار ہوتے ہيں اور ہمارے لئے جوارح اور جوانح کی مطلوب چيز کا نافذکرنا ضروری ہے اور ہم جوارح اور جوانح کے درميان کے اس فا صلہ کو اخلاص قلب کے ذریعہ ختم کر سکتے ہيں

محبت انسان کو عذاب سے بچاتی ہے

جب انسان گناہوں کے ذریعہ الله کی نظروں سے گرجاتا ہے اور انسان کو الله کے عذاب اور عقاب کيلئے پيش کيا جاتا ہے تو محبت ا نسان کو الله کے عذاب اور عقاب سے نجات دلاتی ہے ۔

حضرت علی بن الحسين زین العا بدین عليہ السلام منا جات ميں فرماتے ہيں:

الهي انّ ذنوبي قداخافتني ومحبّني لک قد اجارتني ( ١)

“خدایا! ميرے گناہوں نے مجھے ڈرادیا ہے اور تجه سے ميری محبت نے مجھے پناہ دے رکهی ہے ”

____________________

١)بحار الانو ار جلد ٩۵ صفحہ/ ٩٩ ۔ )

۸۷

محبت کے درجات اور اس کے طریقے

بندوں کے دلو ں ميں محبت کے درجے اور مراحل ہوتے ہيں :

یعنی دل ميں اتنی کم محبت ہو تی ہے کہ محبت کر نے والے کو اصلا اس محبت کا احساس ہی نہيں ہوتا ہے۔

ایک محبت ایسی ہو تی ہے جس سے بند ے کا دل اس طرح پُر ہو جاتا ہے کہ انسان کے دل ميں کوئی ایسی جگہ باقی نہيں رہ جاتی جس سے انسان لہو و لعب ميں مشغول ہو اور الله کا ذکر نہ کرے ۔

اور ایک محبت ایسی ہوتی ہے کہ انسان الله کے ذکر ،اس سے مناجات کر نے اور اس کی بارگاہ ميں کهڑے ہونے ميں مہنمک ہو جاتا ہے اور وہ ذکر ،دعا ،نماز اور فی سبيل الله عمل کر نے اور اس کے سامنے کهڑے ہو کر نماز پڑهنے سے سيراب نہيں ہوتا ہے۔

ایک دعا ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرما تے ہيں : سيّدی انامن حبّک جائع لااشبع ،وانامن حبک ظماٰن لااُرویٰ واشوقاہ الیٰ مَن یراني ولااراہ

“ميرے آقا و سردار ميں تيری محبت کا بهو کا ہوں کہ سير نہيں ہوسکتا ،اور تيری محبت کا اتنا پياسا ہوں کہ سيراب نہيں ہو سکتااور ميں کسی ذات کے دیدار کا مشتاق ہوںليکن وہ مجھے اپنا دیدار نہيں کراتا ”

حضر ت امام علی بن الحسين زین العابدین مناجات ميں فرماتے ہيں :

وغُلتی لایبردهاالاّوصلُک ولوعتی لایطفئوهاالَّالقاءُ ک وشوقی اليک لایُبُلُّهُ الاالنَّظَرُاِلَيکَْ ( ١)

“اور ميری حرارت اشتياق کو تيرے وصال کے علاوہ کو ئی اور چيزڻھنڈا نہيں کرسکتی اور ميرے شعلہ شوق کو تيری ملاقات کے علاوہ کو ئی اور چيز بجها نہيں سکتی اور ميرے شوق کو تر نہيں کر سکتا ہے مگر تيری طرف نظر کرنا ”

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩۴ صفحہ ١۴٩ ۔ )

۸۸

الله کی محبت ميں والہانہ پن بهی ہے ،زیارت امين ميں آیا ہے :اللهم انّ قلوب المخبتين اليک والهة ( ١)

“ تيرے سامنے تواضع کرنے والوں کے دل مشتاق ہيں ” حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام سے دعا ميں مروی ہے :

الهی بک هامت القلوب الوالهة فلا تطمئنّ القلوب الابذکراک ولا تسکن النفوس الاعند رویاک ( ٢)

“خدایا !محبت بهرے دل تجه ہی سے وابستہ ہيں ۔۔۔ دل تيرے ذکر کے بغير مطمئن نہيں ہو تے اور نفسوں کو تيرے دیدار کے بغير سکون نہيں ملتا ” ان والهہ اور ہائمہ قلوب کی یہ خاصيت ہے کہ ان کو الله کے ذکر کے بغير سکون و اطمينان نہيں ہو تا۔

ہم کو محبت کی آخری حد کا سبق اميرالمو منين علی بن ابی طالب عليہ السلام کی اس دعا کے کلمات ميں ملتا ہے جس کی آپ نے کميل بن زیادہ نخعی کو تعليم دی تهی جو دعاء کميل کے نام سے مشہور ہے:

فهبني یاسيّدي ومولاي وربي صبرت علیٰ عذابک فکيف اصبرعلیٰ فراقک ،وهبني صبرت علی حرنارک فکيف اصبرعن النظر الیٰ کرامتک ام کيف اسکن فی النار ورجائي عفوک؟ !( ٣)

“تو اے ميرے خدا!ميرے پروردگار !ميرے آقا!ميرے سردار! پھر یہ بهی طے ہے کہ

____________________

١)مفاتيح الجنان دعا ء ابو حمزہ ثمالی۔ )

٢)بحار ا لا نو ار جلد صفحہ/ ١۵١ ۔ )

٣)مفا تيح الجنان دعائے کميل ۔ )

۸۹

اگر ميں تيرے عذاب پر صبر بهی کر لوں تو تيرے فراق پر صبر نہيںکر سکتا۔اگر آتش جہنم کی گرمی برداشت بهی کر لوں تو تيری کرامت نہ دیکهنے کو برداشت نہيں کر سکتا ۔بهلا یہ کيسے ممکن ہے کہ ميں تيری معافی کی اميدرکهوں اورپهرميں آتش جہنم ميںجلادیاجاوں ”

یہ بندہ کی توجہ کو مبذول کر نے کے بہت ہی پاک وپاکيز ہ اور سچے نمونے ہيں یعنی بندہ اپنے مولا وآقا کی طرف سے جہنم کے عذاب پر تو صبر کر سکتا ہے ليکن وہ اسکی جدائی اور غضب پر کيسے صبر کرسکتا ہے ؟! کبهی محب اپنے مولا کے عقاب کو برداشت کرتاہے ليکن اس کے غضب کو برداشت نہيں کرتا کبهی وہ سب سے سخت عذاب دوزخ کو تو برداشت کر ليتا ہے ليکن مولا وآقا کے فراق کو برداشت نہيں کرپا تا ہے ۔

جہنم کی آگ بندہ کا ڻهکانا کيسے ہو سکتی ہے حا لانکہ بندہ اپنے مولا وآقا سے مہربانی وعطوفت اور جہنم سے نجات دینے کی اميدر کهتا ہے ؟ محبت اور رجاء واميد یہ دونو ں چيزیں بند ے کے دل سے جدُا نہيں ہوسکتی ہيں (حالا نکہ اس کو الله کے غضب کی وجہ سے جہنم کی بهڻی ميں جهو نک دیا جاتا ہے )اس عظيم وجليل دعا کی یہ پاک و پا کيزہ صورتيں ہيں ۔ کبهی بندہ اپنے مولا سے محبت کر تا ہے اور اس کا مولا و آقا اس کو اپنی نعمت اور فضل سے نوازتا ہے یہ محبت کی تاکيد کا ہی اثر ہے ليکن وہ محبت جس کو بندے کے دل سے جدا کر نے اور جدا نہ کرنے سے اس کی محبت ميں کو ئی اضافہ نہ ہوتاہو تواس کو بندے کے مولا وآقا کے عذاب جہنم ميں جهونک دیاجا ئيگا ۔

امام زین العا بدین نے جس دعا ء سحر کی ابو حمزہ ثمالی کو تعليم دی تهی اس ميں فرماتے ہيں :

۹۰

فوعزّتک لوانتهرتني مابرحت من بابک ولاکففت عن تملّقک لما اُلهم قلبي من المعرفة بکرمک وسعة رحمتک الی مَن یذهب العبد الاّ الی مولاه؟ والی مَن یلتجی المخلوق الاّالی خالقه ؟!الهي لوقرنتني بالاصفاد،ومنعتني سيبک من بين الاشهاد،ودللت علیٰ فضائحي عيون العباد،وامرت بي الی النار وحلت بيني وبين الابرارماقطعتُ رجائي منک،وماصرفتُ تاميلي للعفوعنک، ولاخرج حبّک من قلبي ( ١)

“تيری عزت کی قسم !اگرتو مجه کو جهڑک بهی دے گا تو ہم تيرے دروازے سے کہيں جا ئيں گے نہيں اور تجه سے آس نہيں توڑیں گے ہمارے دل کو تيرے کرم کا یقين ہے اور ہميشہ تيری وسيع رحمت پر اعتماد ہے ميرے مالک بندہ اپنے مالک کوچهوڑکرکدهر جا ئے اور مخلوق خالق کے ماسوا کس کی پناہ لے!ميرے معبود اگر تو مجه کو زنجير وں ميںجکڑ بهی دے گا اور مجمع عام ميں عطا سے انکاربهی کر دیگا اور لوگوں کو ہمارے عيوب سے آگاہ بهی کردیگا اور ہم کو جہنم کا حکم بهی دیدیگا اور اپنے نيک بندوں سے الگ بهی کر دیگا تو بهی ميں اميد کوتجه سے منقطع نہيں کرونگا اور جو تيری معافی سے آس نہيں توڑونگا اور تيری محبت کو دل سے نہ نکالونگا ”

یہ بات ذہن نشين کرليجئے کہ یہی محبت سچی محبت ،اميد،آرزو ،اور پاک صاف محبت ہے یہ بندہ کے دل سے کبهی نکل نہيں سکتی چاہے مولا اس کو زنجيروں ميں ہی کيوں نہ جکڑ دے اور اس کولوگوں کے سامنے رسوا ہی کيوں نہ کرے ۔

ہم محبت اور رجاء کی ان بہترین صورتوں کو قارئين کرام کی خدمت ميں پيش کرتے ہيں جن کو مولائے کائنات نے جليل القدر دعا کميل ميں بيان فرمایاہے :

____________________

١)دعا ابو حمزہ ثمالی ۔ )

۹۱

ن تَرَکتَْنِي نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينَْ فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدي وَمَولَْاي اُقسِْمُ صَادِقاً لَا اَهلِْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاصرُْخَنَّ صُرَاخَ المُْستَْصرِْخِينَْ وَلَابکِْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفَْاقِدِینَْ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِيَّ المُْومِْنِينَْ یَاغَایَةَ آمَالِ العَْارِفِينَْ یَاغَيَاثَ المُْثستَغِيثِْينَْ یَاحَبِيبَْ قُلُوبِْ الصَّادِقِينَْ وَ یَااِ هٰلَ العَْا لَمِينَْ

اَفَتُرَاکَ سُبحَْانَکَ یَااِ هٰلِي وَبِحَمدِْکَ تَسمَْعُ فِيهَْاصَوتَْ عَبدٍْمُسلِْمٍ سُجِنَ فِيهَْابِمُخَالَفَتِهِ وَذَاقَ طَعمَْ عَذَاِبهاَبِمَعصِْيَتِهِ وَحُبِسَ بَينَْ اَطبَْاقِهَابِجُرمِْهِ وَجَرِیرَْتِهِ وَهُوَیَضِجُّ اِلَيکَْ ضجٍيجَ مُُومِّلٍ لرَحمَْتِکَ وَی اْٰندیکَ بِلِ سٰانِ اهلِْ تَوحْيدِکَ وَیَتَوَسَّلُ اِلَيکَْ بِرُبُوبِيَّتِکَ یاٰمَولْايَ فَکَيفَْ یَب قْٰی فِی الْعَ اٰ ذبِ وَهُوَ یَرجُْو اٰ مسَلَفَ مِن حِلمِْکَ اَم کَيفَْ تُولِمُهُ الناٰرُّوَهُوَیَامُْلُ فَضلَْکَ وَرَحمَْتَکَ ام کَيفَْ یُحرِْقُهُ لَهيبُ هٰاوَاَنتَْ تَسمَْعُ صَوتَْه وَتَر یٰ مَ اٰ کنَهُ اَم کَيفَْ یَشتَْمِل عَلَيهِْ زَفيرُ هٰا وَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفَْهُ اَم کَيفَْ یَتَقَلقَْلُ بَينَْ اَط بْٰقٰاِ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ صِدقَْهُ اَم کَيفَْ تَزجُْرُهُ ز اٰبنِيَتُ هٰاوَهُوَیُ اٰندیکَ ی رَٰابَّهُ اَم کَيفَْ یَرجُْو فَضلَْکَ فی عِتقِْهِ مِن هْٰا فَتَترُْکُهُ في هٰاهَي هْٰاتَ اٰ م اٰ ذلِکَ الظَّنُّ بِکَ وَلَاالمَْعرْوُفُ مِن فَضلِْکَ وَ اٰلمُشبِْهٌ لِ مٰا عٰامَلتَْ بِهِ المُْوَحِّدینَ مِن بِرِّکَ وَاِح سْٰانِکَ ( ١)

“تيری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے ميری گویائی کو باقی رکها تو ميں اہل جہنم کے درميان بهی اميدواروں کی طرح فریاد کروں گااور فریادیوں کی طرح نالہ و شيون کروں گااور “عزیز گم کردہ ”کی طرح تيری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بهی ہوگا تجهے آوازدوں گا کہ تو مومنين کا سرپرست، عارفين کا مرکز اميد،فریادیوں کا فریادرس ،صادقين کا محبوب اور عالمين کا معبودہے ۔

____________________

١)مفاتيح الجنان دعاء کميل۔ )

۹۲

اے ميرے پاکيزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کيا یہ ممکن ہے کہ تواپنے بندہ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جہنم ميں گرفتار اور معصيت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکهنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جہنم کے طبقات کے درميان کروڻيں بدلنے والا بنادے اور پھر یہ دیکهے کہ وہ اميد وار رحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل توحيد کی طرح پکارنے والا ،ربوبيت کے وسيلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس کی آواز نہيں سنتا ہے۔

خدایا تيرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب ميں رہے گا اور تيرے فضل وکرم سے اميدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا۔جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور اس کی منزل کو دیکه رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپيٹ ميں ليں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکه رہا ہوگا۔وہ جہنم کے طبقات ميں کس طرح کروڻيں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ۔ جہنم کے فرشتے اسے کس طرح جهڑکيں گے جبکہ وہ تجهے آواز دے رہا ہوگا اور تو اسے جہنم ميں کس طرح چهوڑ دے گا جب کہ وہ تيرے فضل و کرم کا اميدوار ہوگا ،ہر گز تيرے بارے ميں یہ خيال اور تيرے احسانات کا یہ انداز نہيں ہے تونے جس طرح اہل توحيد کے ساته نيک برتاو کيا ہے اس کی کوئی مثال نہيں ہے۔ميں تویقين کے ساته کہتا ہوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق ميں عذاب کا فيصلہ نہ کردیا ہوتا اور اپنے دشمنوں کوہميشہ جہنم ميں رکهنے کا حکم نہ دے دیا ہوتا تو ساری آتش جہنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس ميں کسی کا ڻهکانا اور مقام نہ ہوتا”

۹۳

ہمارے ایک دوست نے ہم سے کہا :شجاعت حضرت علی عليہ السلام کی اصلی خصلت ہے اور یہ خصلت ان سے جدا نہيں ہوسکتی یہاں تک کہ آپ رب العالمين کی بارگاہ ميں اس شہامت کے ساته دعا کرتے ہيں۔آپ نے جناب کميل کوجو دعا تعليم فرمائی تهی اس ميں اس بات کی تعليم دی ہے کہ جب گناہکار بندہ یہ خيال کرتا ہے کہ وہ آگ کے جنگل ميں پهنس گيا ہے اور چاروں طرف سے اسکو آگ نے گهير لياہے تو وہ اس وقت نہ توخاموش رہ سکتا ہے نہ کسی جگہ پر اسکو سکون ملتا ہے اور نہ ہی عذاب اور عقوبت کے لئے تسليم ہوسکتا ہے اور یہی حال اس شخص کا ہے جس پر عذاب کا ہورہاہو اور آگ کے شعلے اس کو ڈرا رہے ہوں تو وہ روتا ہے چلاتا ہے افسوس کرتا ہے اور آواز بلند کرتا ہے ۔

قارئين! کيا آپ نے ملاحظہ نہيں فرمایا کہ اس حالت کی دعاميں کس طرح تعبير کی گئی ہے؟

ن تَرَکتَْني نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينَْ فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدي وَمَولَْاي اُقسِْمُ صَادِقاً لَا اَهلِْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاصرُْخَنَّ صُرَاخَ المُْصتَْسرِْخِينَْ وَلَابکِْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفَْاقِدِینَْ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِیَّ المُْومِْنِينْ

ہم نے عرض کيا :تم نے مولائے کائنات کے کلام کو صحيح طور پر نہيں سمجها ۔اگر مولائے کائنات یہ بيان فرماتے جوتم نے خيا ل کيا ہے تو اس خطاب کے مقدمہ ميںلوتَرَکتَْنِی نَاطِقاً نہ فرماتے ليکن ميں اس مقام پر حضرت علی عليہ السلام کی فطری حالت کا احساس کررہا ہوں جو آپ نے ان کلمات ميں الله کی بارگاہ ميں حاضر ہوکر فرمایا ہے کہ انسان الله کی بارگاہ ميں اس شير خوار بچہ کے مانند ہے جو دنيا ميں اپنی ماں کی عطوفت ،مہربانی ،رحمت اور محبت کے علاوہ کوئی پناہگاہ نہيں رکهتا ہے جب بهی اسکوکوئی امرلاحق ہوتا ہے یاکوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ دوڑکر اپنی ماں کی آغوش ميں چلاجاتا ہے اسی سے فریاد کرتا ہے اور جب وہ کسی مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے اور اسکی ماں اسکو کوئی سزادینا چاہتی ہے اور وہ اپنی ماں کی سزا سے بچ کر کسی اور پناہگاہ ميں جانا چاہتا ہے تو اسکے پاس اسکی ماں کے علاوہ کوئی اور پناہگاہ ہوتی ہی نہيں ہے لہٰذا اسکے لئے اسی سے فریاد کرناضروری ہو تا ہے اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اسکو اذیت و تکليف دیتا ہے تو اسکے پاس اسکی ماں کے علاوہ کوئی اور پناہگاہ نہيں ہوتی ہے۔

۹۴

یہی حال مولائے کائنات کا اس دعا ميں ہے آپ نے اپنے عظيم قلب سے اس دعا کی تعليم فرمائی :الله سے پناہ مانگو ،اس سے فریاد کرو اور اسکے علاوہ کسی اور کو اپنا ملجاوماوی نہ بناؤ۔

فقط خداوند تبارک وتعالی یکتا اسکا ملجاوماوی ہے جس کے علا وہ وہ کسی کو پہچانتا ہی نہيں ہے جب بندہ یہ خيال کرتا ہے کہ خداوند عالم کا عذاب اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے( ١)

کيا خداوند تبارک وتعالیٰ اسکا ملجاوماویٰ نہيں ہے؟تو پھر کيوں اس خدا سے استغاثہ کرنے ميں تردد کرتا ہے؟

امام زین العابدین عليہ السلام مناجات ميں اسی معنی کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتے ہيں:

فان طردتنی مِن بابک فبمن الوذ؟وان ردّدتنی عن جنابک فبمن اعوذ؟الهي هل یرجع العبدالابق الَّاالٰی مولاه؟ام هل یجيره من سخطه احد سواه ( ٢)

“پس اگر تو مجه کو اپنے در وازے سے ہڻا دے گا تو ميں کس کی پناہ لونگا اور اگر تو نے مجه کو اپنی درگاہ سے لو ڻا دیا تو کس کی پناہ ميں رہونگا کيا فراری (بها گا ہوا)غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے پاس پلڻتا ہے یا اس کو آقا کی ناراضگی سے خود آقا کے علاوہ کوئی اور بچاتا ہے ”

اور آپ نے ابوحمزہ ثمالی کو جو دعا کی تعليم فرمائی تهی اس ميں آ پ فرماتے ہيں :وانایاسيدي عائذ بفضلک هارب منک اليک (٣) “اور ميں تيرے فضل کی پناہ چا ہنے والا ہوں اور تجه سے بهاگ کر تيری طرف آنے والا ہوں۔

____________________

١)یہاں ہم خود مو لا علی کے کلمات سے مذکورہ مطالب کو اخذ کر رہے ہيں اگر مو لائے کا ) ئنات سے یہ کلمات صادر نہ ہوئے ہوتے تو اس طرح مو لائے کا ئنات اور خداوند عالم کے درميان رابطہ کے سلسلہ ميں گفتگو کی ہم جرات نہيں کر سکتے ہيں ۔

٢)بحاالانوار جلد ٩۴ ص ۴٢ ا۔ )

٣)بحار الانوار جلد ٩٨ ص ٨۴ ۔ )

۹۵

اسی دعا ميں حضرت امام زین العابدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :الیٰ مَن یذ هب العبد إِلا إِلیٰ مولاه والی مَن یذهب المخلوق الاا لیٰ خالقه (١)

“کياغلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے پاس جا سکتا ہے اور کيا مخلوق اپنے خالق کے علاوہ کسی اور کے پاس جا تی ہے ” بندہ کے خدا وند عالم سے لو لگا نے کے سلسلہ ميں بندہ کا الله سے الله کی طرف بهاگ کر جانا یہ بہت دقيق معانی اوربلند افکار ہيں حضرت علی عليہ السلام نے بندہ کے الله سے لو لگا نے کی جومنظر کشی فر ما ئی ہے یہ محبت اور رجا و اميد کے سب سے زیادہ دقيق اورلطيف مشاعر ہيں اور محبت کرنے والوں کے دلوں ميں سچے دل سے گهر کرتی ہيں ۔

حضرت علی عليہ السلام نے دعا کے اس فقرے ميں استغاثہ کر تے وقت شعراء کا طریقہ اختيار نہيں فرمایا ہے بلکہ دعا کے اس مرحلہ کو پوار کيا ہے آپ خدا کی بار گاہ ميں اپنے احساس اور شعور کی تعبير کرنے ميں بالکل سچے ہيں ۔ یہ ممکن ہی نہيں ہے کہ ہمارے، الله کی رحمت اور اسکے فضل کی معرفت رکهتے ہوئے بهی خدا اپنے بندہ سے رجا اور محبت ميں سچے اور پاک وصاف احساس کواس بندہ کی محبت اور اسکی اميد کو رد فرما دے ۔

حضرت علی عليہ السلام فرماتے ہيں :

فَکَيفَْ یَب قْٰی فِی الْعَ اٰ ذبِ وَهُوَیَرجُْو اٰ مسَلَفَ مِن حِلمِْکَ اَم کَيفَْ تُولِمُهُ الناٰرُّوَهُوَیَامُْلُ فَضلَْکَ وَرَحمَْتَکَ ام کَيفَْ یُحرِْقُهُ لَهيبُ هٰاوَاَنتَْ تَسمَْعُ صَوتَْه وَتَر یٰ

____________________

١) بحاالانوار جلد ٩٨ صفحہ / ٨٨ ۔ )

۹۶

مَ اٰ کنَهُ اَم کَيفَْ یَشتَْمِل عَلَيهِْ زَفيرُ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفَْهُ اَم کَيفَْ یَتَقَلقَْلُ بَينَْ اَط بْٰقٰاِ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ صِدقَْهُ اَم کَيفَْ تَزجُْرُهُ ز اٰبنِيَتُ هٰاوَهُوَیُ اٰندیکَ ی رَٰابَّهُ

“خدایا تيرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب ميں رہے گا اور تيرے فضل وکرم سے اميدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا۔جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور اس کی منزل کو دیکه رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپيٹ ميں ليں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکه رہا ہوگا۔وہ جہنم کے طبقات ميں کس طرح کروڻيں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ۔ جہنم کے فرشتے اسے کس طرح جهڑکيں گے جبکہ وہ تجهے آواز دے رہا ہوگا ”

کيا یہ ممکن ہے کہ خداوند عالم بندہ کی گردن ميں اگ کا طوق ڈالدے ،اسکو اس ميں جلائے حالانکہ وہ خدا کو پکاررہا ہوا پنے کئے پر پچهتا رہاہو اور اپنی زبان سے اس کی وحدانيت کا اقرار کررہاہو ؟

ہما ری زندگی ميں جو کچه اس کا حلم و فضل گذر چکا ہم اس کی مطلق اور قطعی و یقينی طور پر نفی کرتے ہيں ليکن حضرت علی عليہ السلام خدا وند عالم کے حلم و فضل پر اس کے فضل سے اسطرح استدلال فر ماتے ہيں :وَهُوَیَرجُْو اٰ مسَلَفَ مِن حِلمِْکَ امام عليہ السلام قضيہ کے دو نوں طرف یعنی خدا وند عالم کے بندہ سے رابطہ برقرار رکهنے اور بندہ کے خداوند عالم سے لو لگا نے ميں قاطع اور صاف صاف طور پر بيان فر ما تے ہيں۔

۹۷

جس طرح اس کو یقين ہے کہ اگر بندہ کو جہنم ميں بهی ڈالدیاجائيگا تو اس کی محبت اور اميد اس سے جدا نہيں ہوسکتی ہے اور ہرگز خداوندعالم کے علاوہ اس کا کوئی ملجاوماویٰ نہيں ہوسکتا ہے اسی طرح اس کو بهی یقين ہے کہ خداوندعالم سچی محبت اور اميد کو بندے کے دل سے ختم نہيں کرتا ہے ۔ اس جزم ،قاطعيت اور صاف گوئی کے متعلق مولائے کائنات کے کلام ميں غور فرمائيں :

هيهات ماذلک الظّنُ بکَ وَلَاالمَْعرُْوفُْ مِن فَضلِْکَ وَلَامُشبِْهٌلِّمَا عَامَلتَْ بِهِ المُْوَحِّدِینَْ مِن بِرِّکَ وَاِحسَْانِکَ فَبِاليَْقِينِْ اَقطَْعُ لَولَْامَاحَکَمتَْ بِهِ مِن تَعذِْیبِْ جَاحِدِیکَْ وَقَضَيتَْ بِهِ مِن اِخلَْادِ مُعَانِدِیکَْ لَجَعَلتَْ النَّارَکُلَّهَا بَردْاً وَسَلَاماًوَمَاکَانَ لِاَحَدٍ فِيهَْامَقَرّاًوَلَامُقَاماً (ا)

“ہر گز تيرے بارے ميں یہ خيال اور تيرے احسانات کا یہ انداز نہيں ہے ۔تونے جس طرح اہل توحيد کے ساته نيک برتاو کيا ہے اس کی کوئی مثال نہيں ہے۔ميں تویقين کے ساته کہتا ہوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق ميں عذاب کا فيصلہ نہ کردیا ہوتا اور اپنے دشمنوں کوہميشہ جہنم ميں رکهنے کا حکم نہ دے دیا ہوتا تو ساری آتش جہنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس ميں کسی کا ڻهکانا اور مقام نہ ہوتا” یہ جزم ویقين جو بندہ خداوندعالم سے لولگانے ميں رکهتا ہے یہ بلند مرتبہ ہے اور مو لا کا اپنے بند ے سے تعلق رکهنا یہ مرتبہ پائين ہے ۔ہم ان دونوں باتوں کا مو لائے کا ئنات کے دو سرے کلام ميں مشاہدہ کرتے ہيں جہاں پر آپ نے اپنی مشہور مناجات ميں خداوند عالم کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :

الهي وعزّتک وجلالک لقداحببتک محبّة استقرّت حلاوتها في قلبي،وماتنعقدضمائرموحّدیک علیٰ انک تبغض محبيک ( ٢)

“خدایا !تجه کو تيرے عزت و جلال کی قسم تيری محبت کی مڻهاس ميرے دل ميں گهر کر گئی ہے اور تيرے مو حدین کے ذہن ميں یہ خيال بهی نہيں گذرتا کہ تو ان سے نفرت کرتا ہے ”

حضرت امام علی بن الحسين عليہ السلام کی مناجات ميں آیا ہے :الهي نفس اعززتهابتوحيدک کيف تذ لّهابمهانة هجرانک وضمير

____________________

١)مفاتيح الجنان دعائے کميل ۔ )

٢)مناجات اہل البيت صفحہ ۶٨ ۔ ۶٩ ۔ )

۹۸

انعقد علیٰ مودّتک کيف تحرقه بحرارة نيرانک ( ١)

“اے خدا جس نفس کو تونے اپنی توحيد سے عزت دی ہے اسے کيسے اپنے فراق کی ذلت سے ذليل کرے گا اور جس نے عشق و محبت کی گرہ با ندهی ہے اس کو اپنی آگ کی حرارت سے کيسے جلا ئے گا ” حضرت سجاد عليہ السلام ابو حمزہ ثمالی کو تعليم دینے والی دعا ميں فرماتے ہيں :

افتراک یاربّ تخلف ظنوننااوتخيّب آمالنا؟کلّا یاکریم ،فليس هٰذا ظننابک،ولا هٰذاطمعنافيک یاربّ اِنَّ لَنَافِيکَْ اَمَلاًطَوِیلْاً کَثِيرْاً،اِنَّ لَنَافِيکَْ رَجَاءً عَظِيمْاً ۔۔۔( ٢)

“اور تو یقيناہمارے ےقين کوجهوڻا نہيں کرے گااور ہماری اميد کو نااميدنہيں کرے گا ؟ہر گز نہيں کریم تيرے بارے ميں یہ بد گمانی نہيں ہے ہم تجه سے بہت اميد رکهتے ہيں اور بہت کچه اميد لگائے بيڻهے ہيں ”

____________________

١)بحار الانوار جلد ٩۴ صفحہ ١۴٣ ۔ )

٢)مفا تيح الجنان دعائے ابو حمزہ ثما لی ۔ )

۹۹

محبت ميں انسيت اور شوق کی حالت

محبت کا اظہار دو طرح سے ہوتا ہے ۔کبهی محبت شوق کی صورت ميں ظا ہر ہو تی ہے اور کبهی محبت کسی سے انسيت کی صورت ميں ظاہر ہو تی ہے اور ان دونوں حا لتوں کو محبت سے تعبير کيا جا تا ہے مگر دونوں ميں یہ فرق ہے کہ بندے کے اندر شوق کی حالت اس وقت زور پکڑ تی ہے جب وہ اپنے محب سے دور ہو تا ہے اور انس کی حالت اس وقت زور پکڑتی ہے جب وہ اپنے حبيب کے پا س موجود ہوتاہے۔

یہ دونوں حالتيں بندے کے قلب پر اس وقت طاری ہو تی ہيں جب وہ الله سے لو لگاتا ہے بيشک خدا وند عالم کبهی بندے پر دور سے تجلی کرتا ہے اور کبهی نزدیک سے تجلی کرتا ہے:

اَلَّذِی بَعُدَ فَلَایُر یٰ وَقَرُبَ فَشَهَدَ النَّجوْ یٰ (١) “جو اتنا دور ہے کہ دکهائی نہيں دیتا ہے اور اتنا قریب ہے کہ ہر راز کا گواہ ہے ”

جب وہ بندے پر دور سے تجلی کرتا ہے تو بندے ميں شوق کی حالت پيدا ہو تی ہے اور جب وہ بندے پر قریب سے تجلی کرتا ہے اور بندہ اپنے مو لا کی بارگاہ ميں حا ضر ہو نے کا احساس کرتا ہے :

وَهُوَمَعَکُم اَینَْ مَاکُنتُْم ( ٢)

“وہ تمہا رے ساته ہے تم جہاں بهی رہو ”

( وَنَحنُْ اَقرَْبُ مِن حَبلِْ الوَْرِیدِْ ) ( ٣)

“اور ہم اس کی رگ گردن سے زیادہ قریب ہيں ”

( وَاِذَاسَالَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌْ ) ( ۴)

“اور اے پيغمبر اگر ميرے بندے تم سے ميرے بارے ميں سوال کریں تو ميں ان سے قریب ہوں ”تو بندہ ميں انسيت کی حالت پيدا ہو تی ہے ۔

دعا ئے افتتاح ميں ان دو نوں حالتوں کی امام حجت المہدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف سے دقيق طور پر عکا سی کی گئی ہے :

____________________

١) مفا تيح الجنان دعائے ابو حمزہ ثمالی ۔ )٢)سورئہ حدید آیت/ ۴۔ )

٣)سورئہ ق آیت/ ۶ا۔ )۴)سورئہ بقرہ آیت/ ٨۶ ا۔ )

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

طول پکڑگئی لیکن ہر روز آپ کی حالت سخت تر ہوتی جا رہی تھی اور آپ کی بیماری میں شدت آتی جارہی تھی_ آپ نے ایک دن حضرت علی (ع) سے کہا اے ابن عم ___ میں موت کے آثار اور علامتیں اپنے آپ میں مشاہدہ کر رہی ہوں مجھے گمان ہے کہ میں عنقریب اپنے والد سے ملاقات کروں میں آپ کو وصیت کرنا چاہتی ہوں_ حضرت علی (ع) جناب فاطمہ (ع) کے بستر کے قریب آبیٹھے اور کمرہ کو خالی کردایا اور فرمایا اے دختر پیغمبر (ص) جو کچھ آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کیجئے اور یقین کیجئے کہ میں آپ کی وصیت پر عمل کروں گا_ آپ کی وصیت کی انجام دہی کو اپنے ذاتی کاموں پر مقدم کروں گا_ حضرت علی (ع) نے جناب زہراء (ع) کے افسردہ چہرے اور حلقے پڑی ہوئی آنکھوں پر نگاہ کی اور رودیئے، جناب فاطمہ (ع) نے پلٹ کر اپنی ان آنکھوں سے حضرت علی (ع) کے غمناک اور پمردہ مہربان چہرے کو دیکھا اور کہا اے ابن عم میں نے آج تک آپ کے گھر میں جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی خیانت کی ہے اور نہ کبھی آپ کے احکام اور دستورات کو پس پشت ڈالا ہے_

حضرت علی (ع) نے فرمایا آپ کو اللہ تعالی کی معرفت اور آپ کا تقوی اتنا قوی اور عالی ہے کہ آپ کے بارے میں اس کا احتمال تک نہیں دیا جاسکتا خدا کی قسم آپ کی جدائی اور فراق مجھ پر بہت سخت ہے لیکن موت کے سامنے کسی کا چارہ نہیں_ خدا کی قسم تم نے میرے مصائب تازہ کردیئے ہیں، تمہاری بے وقت موت میرے لئے ایک دردناک حادثہ ہے_ ''انا للہ و انا الیہ راجعون'' یہ مصیبت کتنی ناگوار اور دردناک ہے؟ خدا کی قسم اس ہلاک کردینے والی مصیبت کو میں کبھی نہیں فراموش کروں گا _ کوئی چیز اس مصیبت سے تسلی بخش نہیں ہوسکتی، اس

۲۲۱

وقت دونو بزرگوار رو رہے تھے(۱) _

جناب زہراء (ع) نے اپنے مختصر جملوں میں اپنی زندگی کے برنامے کو سمودیا اپنی صداقت کے مقام اور پاکدامنی اور شوہر کی اطاعت کو اپنے شوہر سے بیان کیا حضرت علی (ع) نے بھی آپ کے علمی عظمت اور پرہیزگاری و صداقت اور دوستی و زحمات کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بے پنا محبت اور لگاؤ کو آپ کی نسبت ظاہر کیا، اس وقت عواطف اور احساسات پھر سے دونوں زن و شوہر ہیں ''جو اسلام کے نمونہ اور مثال تھے'' اس طرح ابھرے کہ دونوںاپنے رونے پر قابو نہ پاسکے اور کافی وقت تک دونوں روتے رہے اور اپنی مختصر سی ازدواجی زندگی پر جو محبت و صفا اور مہر و صداقت سے پر تھی گریہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو غیر معمولی زحمات اور گرفتاریوں اور مصائب پر روتے رہے تا کہ یہی آنکھوں کے آنسو ان کی اندرونی آگ جو ان کے جسم کو جلا دینے کے نزدیک تھی ٹھنڈا کرسکیں_

جب آپ کا گریہ ختم ہوا حضرت علی (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کا سر مبارک اپنے زانو پر رکھا اور فرمایا، اے پیغمبر(ص) کی عزیز دختر جو آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کریں اور مطمئن رہین کہ میں آپ کی وصیتوں سے تخلف نہ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے یہ وصیتیں کیں_

۱_ مرد بغیر عورت کے زندگی نہیں بسر کرسکتا اور آپ بھی مجبور ہیں کہ شادی کریں میری خواہش ہے کہ آپ میرے بعد امامہ سے شادی کیجئے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۱_

۲۲۲

گا، کیونکہ یہ میرے بچوں پر زیادہ مہربان ہے(۱) _

۲_ میرے بچے میرے بعد یتیم ہوجائیں گے ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ان کو سخت لہجہ سے نہ پکارنا، ان کی دلجوئی کے لئے ایک رات ان کے پاس رہنا ایک رات اپنی بیوی کے پاس(۲) _

۳_ میرا اس طرح اور کیفیت کا تابوت بناناتا کہ میرا جنازہ اٹھاتے وقت میرا جسم ظاہر نہ ہو پھر آپ نے اس تابوت کی کیفیت بیان کی(۳) _

۴_ مجھے رات کو غسل دینا اور کفن پہنانا اور دفن کرنا اور ان آدمیوں کو اجازت نہ دینا جنہوں نے میرا حق غصب کیا ہے اور مجھے اذیت اور آزار دیا ہے کہ وہ میر نماز جنازہ یا تشیع میں حاضر ہوں(۴) _

۵_ رسول خدا کی بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ وقیہ (گندم کا وزن) دینا _

۶_ بنی ہاشم کی ہر ایک عورت کو بھی بارہ وقیہ دینا_

۷_ امامہ کو بھی کچھ دینا(۵) _

۸_ ذی الحسنی نامی باغ اور ساقیہ اور دلال اور غراف اور ہیشم اور ام ابراہیم نامی باغات جو سات عدد بنتے ہیں میرے بعد آپ کے اختیار میں ہوں گے اور آپ کے بعد حسن (ع) اور حسن (ع) کے بعد حسین (ع) اور حسین (ع) کے بعد ان کے بڑے لڑکے کے اختیار میں ہوں گے اس وصیت کے لکھنے والے

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ ص ۳۶۲_

۲) بحار الانوارء ج ۴۳ ص ۱۷۸_

۳،۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۵) دلائل الامامہ ص ۴۲_

۲۲۳

علی (ع) اور گواہ مقداد اور زبیر تھے(۱) _

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ یہ تحریری وصیت بھی آنحضرت(ص) سے ہاتھ لگی ہے_

بسم اللہ الرحمن الرحیم_ یہ وصیت نامہ فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کی دختر کا ہے میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد(ص) خدا کے رسول ہیں_ بہشت و دوزخ حق ہیں، قیامت کے واقع ہونے میں شک نہیں ہے_ خدا مردوں کو زندہ کرے گا، اے علی (ع) خدا نے مجھے آپ کا ہمسر قرار دیا ہے تا کہ دنیا اور آخرت میں اکٹھے رہیں، میرا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے، اے علی (ع) رات کو مجھے غسل و کفن دینا اور حنوط کرنا اور دفن کرنا اور کسی کو خبر نہ کرنا اب میں آپ سے وداع ہوتی ہوں، میرا سلام میری تمام اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہوگی پہنچا دینا(۲)

آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں

جناب فاطمہ (ع) کی بیماری شدید ہوگئی اور آپ کی حالت خطرناک ہوگئی حضرت علی (ع) ضروری کاموں کے علاوہ آپ کے بستر سے جدا نہ ہوتے تھے_ جناب اسماء بنت عمیس آپ کی تیمار داری کیا کرتی تھیں_ جناب امام حسن اور امام حسین اور زینب و ام کلثوم ماں کی یہ حالت دیکھ کر آپ سے

____________________

۱) دلائل الامامہ، ص ۴۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۱۴_

۲۲۴

بہت کم جدا ہوا کرتے تھے، جناب فاطمہ (ع) کبھی مرض کی شدت سے بیہوش ہوجایا کرتی تھیں، کبھی آنکھیں کھولتیں اور اپنے عزیز فرزندوں پر حسرت کی نگاہ ڈالتیں_

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے احتضار کے وقت آنکھیں کھولیں اور ایک تند نگاہ اطراف پر ڈالی اور فرمایا السلام علیک یا رسول اللہ (ص) اے میرے اللہ مجھے اپنے پیغمبر(ص) کے ساتھ محشور کر خدایا مجھے اپنی بہشت اور اپنے جوار میں سکونت عنایت فرما اس وقت حاضرین سے فرمایا اب فرشتگان خدا اور جبرئیل موجود ہیں میرے بابا بھی حاضر ہیں اور مجھ سے فرما رہے ہیں کہ میرے پاس جلدی آو کہ یہاں تمہارے لئے بہتر ہے(۱) _

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھ سے وفات کی رات فرمایا کہ اے ابن عم ابھی جبرئیل مجھے اسلام کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ خدا بعد از سلام فرماتا ہے کہ عنقریب تم بہشت میں والد سے ملاقات کروگی اس کے بعد آپ نے فرمایا و علیکم السلام_ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے ابن عم ابھی میکائیل نازل ہوئے اور اللہ کی طرف سے پیغام لائے اس کے بعد فرمایا و علیکم السلام_ اس وقت آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ابن عم خدا کی قسم عزرائیل آگئے ہیں اور میری روح قبض کرنے کے لئے آئے ہیں، اس وقت عزرائیل سے فرمایا کہ میری روح قبض کرلو لیکن نرمی سے_ آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں فرمایا خدایا تیری طرف آوں نہ آ گ کی طرف، یہ کلمات آپ نے فرمائے اور اپنی نازنین آنکھوں کو بند کرلیا اور

____________________

۱) دلائل الامامہ ص ۴۴_

۲۲۵

اور جان کو خالق جان کے سپرد کردیا_

اسماء بنت عمیس نے جناب زہراء (ع) کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے والد کی وفات کے وقت جبرئیل (ع) کچھ کا فور لے کرئے تھے آپ (ص) نے اسے تین حصّوں میں تقسیم کردیا تھا، ایک حصّہ اپنے لئے رکھا تھا ایک حصّہ حضرت علی (ع) کے لئے اور ایک حصّہ مجھے دیا تھا اور میں نے اسے فلاں جگہ رکھا ہے اب مجھے اس کی ضرورت ہے اسے لے آؤ_ جناب اسماء وہ کافور لے آئیں_ آپ نے اس کے بعد_ آپ نے غسل کیا اور وضو کیا اور اسماء سے فرمایا میرے نماز کے کپڑے لے آؤ اور خوشبو بھی لے آؤ_

جناب اسماء نے لباس حاضر کیا آپ نے وہ لباس پہنا اور خوشبو لگائی اور قبلہ رخ ہو کر اپنے بستر پر لیٹ گئیں اور اسماء سے فرمایا کہ آرام کرتی ہوں تھوڑی دیر___ بعد مجھے آواز دینا اگر میں نے جواب نہ دیا تو سمجھ لینا کہ میں دنیا سے رخصت ہوگئی ہوں اور علی (ع) کو بہت جلدی اطلاع دے دینا، اسماء کہتی ہیں کہ میں تھوڑی دیر صبر کیا اور پھر میں کمرے کے دروازے پر آئی جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی لیکن جواب نہ سنا تب میں نے لباس کو آپ کے چہرے سے ہٹایا تو دیکھا آپ د نیا سے گزر گئی ہیں_ میں آپ کے جنازے پر گرگئی آپ کو بوسہ دیا اور روئی اچانک امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) وارد ہوگئے اپنی والدہ کی حالت پوچھی اور کہا کہ اس وقت ہماری ماں کے سونے کا وقت نہیں ہے میں نے عرض کی اے میرے عزیز و تمہاری ماں دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں_

۲۲۶

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) ماں کے جنازے پر گرگئے بوسہ دیتے اور روتے جاتے، امام حسن (ع) کہتے تھے اماں مجھ سے بات کیجئے، امام حسین (ع) کہتے تھے اماں جان میں تیرا حسین (ع) ہوں قبل اس کے میری روح پرواز کرجائے مجھ سے بات کیئجے، جناب زہرا (ع) کے یتیم مسجد کی طرف دوڑے تا کہ باپ کو ماں کی موت کی خبردیں، جب جناب زہراء (ع) کی موت کی خبر علی (ع) کی ملی تو آپ نے شدت غم اور اندوہ سے بیتاب ہوکر فرمایا_ پیغمبر(ص) کی دختر آپ میرے لئے سکون کا باعث تھیں، اب آپ کے بعد کس سے سکون حاصل کروں گا؟(۱)

آپ کا دفن اور تشیع جنازہ

جناب زہراء (ع) کے گھر سے رونے کی آواز بلند ہوئی اہل مدینہ کو علم ہوگیا اور تمام شہر سے رونے اور گریہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں لوگوں نے حضرت علی (ع) کے گھر کا رخ کیا، حضرت علی (ع) بیٹھے ہوئے تھے جناب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) آپ کے اردگرد بیٹھے گریہ کر رہے تھے_ جناب ام کلثوم روتی اور فرماتی تھیں یا رسول اللہ (ص) گویا آپ ہمارے پاس سے چلے گئے لوگ گھر کے باہر اجتماع کئے ہوئے تھے اور وہ حضرت زہراء (ع) کے جنازے کے باہر آنے کے منتظر تھے، اچانک جناب ابوذر گھر سے باہر نکلے اور کہا لوگو چلے جاؤ کیونکہ جنازے کی تشیع میں دیر کردی گئی ہے(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۲۲۷

جناب ابوبکر اور عمر نے حضرت علی (ع) کو تعزیب دی اور عرض کیا یا اباالحسن مبادا ہم سے پہلے جناب فاطمہ (ع) پر نماز پڑھیں(۱) _

لیکن حضرت علی (ع) نے اسماء کے ساتھ مل کر اسی رات جناب زہراء (ع) کو غسل و کفن دیا، جناب زہرا کے چھوٹے چھوٹے بچے جنازے کے اردگرد گریہ کر رہے تھے، جب آپ غسل و کفن سے فارغ ہوگئے تو آواز دی اے حسن (ع) و حسین (ع) اے زینب و ام کلثوم آو ماں کو وداع کرو کہ پھر ان کو نہ دیکھ سکو گے، جناب زہراء (ع) کے یتیم، ماں کے نازنین جنازے پر گرے اور بوسہ دیا اور روئے_ حضرت علی (ع) نے ان کو جنازے سے ہٹایا(۲) _

جنازے پر نماز پڑھی اور جناز اٹھایا، جناب عباس، فضل، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، حسن (ع) اور حسین (ع) ، عقیل، بریدہ، حذیفہ، ابن مسعود جنازے کی تشیع میں شریک ہوئے(۳) _

جب تمام آنکھیں ہو رہی تھیں اندھیرے میں جنازے کو آہستہ آہستہ اور خاموشی کے ساتھ قبر کی طرف لے گئے تا کہ منافقین کو علم نہ ہوجائے اور دفن کرنے سے روک نہ دیں، جنازے کو قبر کے کنارے زمین پر رکھا گیا_ امیرالمومنین حضرت علی (ع) نے خود اپنی بیوی کے نازنین جسم کو اٹھایا اور قبر میں رکھ دیا اور قبر کو فوراً بند کردیا(۴) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۹_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۲۲۸

حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کی قبر پر

جناب زہراء (ع) کے دفن کو مخفی اور بہت سرعت سے انجام دیا گیا تا کہ دشمنوں کو اطلاع نہ ہو اور وہ _ آپ کے دفن میں مانع نہ ہوں لیکن جب حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کے دفن سے فارغ ہوئے آپ پر بہت زیادہ غم و اندوہ نے غلبہ کیا آپ نے فرمایا اے خدا کس طرح میں نے پیغمبر (ص) کی نشانی کو زمین میں دفن کیا ہے، کتنی مہربان بیوی، باصفا، پاکدامن اور فداکار کو اپنے ہاتھ سے دے بیٹھا ہوں خدایا اس نے میرا دفاع کرنے میں کتنے مصائب برداشت کئے ہیں کتنی میرے گھر میں زحمت اٹھائی ہے_ آہ زہراء (ع) کا اندرونی درد افسوس ان کے ٹوٹے ہوئے پہلو پر اور ان کے ورم کئے ہوئے بازو پر ان کے ساقط شدہ بچے پر، اے میرے خدا میری امید تھی کہ آخری زندگی تک اس مہربان بیوی کے ساتھ گزاروں گا لیکن افسوس اور صد افسوس کو موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی ہے_ آہ میں زہراء (ع) کے یتیم چھوٹے بچوں کا کیا کروں؟

رات کے اندھیرے میں آپ جناب رسول خدا (ص) کی قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی سلام ہو آپ پر اے رسول خدا (ص) میری طرف سے اور آپ کی پیاری دختر کی طرف سے جو ابھی آپ کی خدمت میں پہنچنے والی ہے اور آپ کے جوار میں دفن ہوئی ہے اور سب سے پہلے آپ سے جاملی ہے، یا رسول اللہ میرا صبر ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہے، جیسے آپ کی مصیبت پر صبر کیا ہے زہراء کے فراق پر بھی صبر کروں گا

۲۲۹

یا رسول اللہ (ص) آپ کی روح میرے دامن میں قبض کی گئی میں آپ کی آنکھوں کو بند کرتا تھا میں تھا کہ جس نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں التارا ہاں صبر کروں گا اور پڑھوں گا انا للہ و انا الیہ راجعون، یا رسول اللہ وہ امانت جو آپ نے میرے سپرد کی تھی اب آپ (ص) کے پاس لوٹ گئی ہے_ زہراء (ع) میرے ہاتھ سے چھینی گئی ہے، آسمان اور زمین کی رونق ختم ہوگئی ہے، یا رسول اللہ (ص) میرے غم کی کوئی انتہا نہیں رہی میری آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے میرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا مگر جب کہ میں مروں گا اور آپ (ص) کے پاس پہنچوں گا یہ ایسے غم اور مصائب ہیں جو دل کے زخموں سے پیدا ہوئے ہیں، ہماری باصفا گھریلو زندگی کتنی جلدی لٹ گئی ہیں اپنے دل کے درد کو خدا سے بیان کرتا ہوں_

یا رسول اللہ (ص) آپ کی دختر آپ کو خبر دے گی کہ آپ کی امت نے اتفاق کر کے خلافت کو مجھ سے چھیں لیا اور زہراء (ع) کے حق پر قبضہ کرلیا_ یا رسول اللہ (ص) حالات اور اوضاع کو اصرار سے جناب فاطمہ (ع) سے پوچھنا کیوں کہ ان کے دل میں بہت زیادہ درد موجود ہے جو یہاں ظاہر یہ کرسکیں لیکن آپ سے وہ بیان کریں گی، تا کہ خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان قضاوت کرے_ یا رسول اللہ(ص) آپ کو وداع کرتا ہوں اس لئے نہیں کہ آپ (ص) کی قبر پر بیٹھنے سے تھک گیا ہوں اور آپ سے رخصت ہوتا ہوں، اس لئے نہیں کہ یہاں ملول خاطر ہوگیا ہوں اور اگر آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہوں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالی کے اس وعدے پر ''جو صبر کرنے والوں کو دیا گیا ہے'' یقین نہیں رکھتا پھر بھی صبر کرنا تمام چیزوں سے بہتر ہے_

۲۳۰

یا رسول اللہ (ص) اگر دشمنوں کی شماتت کا خوف نہ ہوتا تو آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہتا اور اس مصیبت عظمی پر روتا رہتا، یا رسول اللہ (ص) ہمارے حالات ایسے تھے کہ ہم مجبور تھے کہ آپ کی بیٹی کو مخفی طور سے رات کی تاریکی میں دفن کریں_ اس کا حق لے لیا گیا اور اسے میراث سے محروم رکھا گیا، یا رسول اللہ (ص) میں اپنے اندرونی درد کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس دردناک مصیبت پر آپ (ص) کو تسلیت پیش کرتا ہوں آپ(ص) پر اور اپنی مہربانی بیوی پر میرا درد رہو(۱) _

حضرت علی (ع) نے دشمنوں کے خوف سے جناب زہراء (ع) کی قبر مبارک کو ہموار کردیا اور سات یا چالیس تازہ قبریں مختلف جگہ پر بنادیں تا کہ حقیقی قبر نہ پہچانی جاسکے(۲) _

اس کے بعد آپ اپنے گھر واپس لوٹ آئے، جناب ابوبکر اور عمر اور دوسرے مسلمان دوسری صبح کو تشیع جنازہ کے لئے حضرت علی (ع) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، لیکن مقداد نے اطلاع دی کہ جناب فاطمہ (ع) کو کل رات دفن کردیا گیا ہے جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کہا ہیں نے نہیں کہا تھا کہ وہ ایسا ہی کریں گے؟ جناب عباس نے اس وقت کہا کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے وصیت کی تھی کہ مجھے رات کو دفن کردیا جائے اور ہم نے آپ(ع) کی وصیت کے مطابق عمل کیا ہے_ جناب عمر نے کہا، کہ بنی ہاشم کی دشمنی اور حسد ختم ہونے والا نہیں میں فاطمہ (ع) کی قبر کو کھودونگا

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۲۳۱

اور اس پر نماز پڑھوں گا_

حضرت علی (ع) نے فرمایا اے عمر خدا کی قسم اگر تم ایسا کروگے تو میں تیرا خون تلوار سے بہادوں گا ہرگز اجازت نہیں دوں گا کہ فاطمہ (ع) کے جنازے کو قبر سے باہر نکالاجائے_ جناب عمر نے حالت کو خطرناک پھانپ لیا اور اپنے اس ارادے سے منحرف ہوگئے(۱) _

وفات کی تاریخ

بظاہر اس امر میں شک کی گنجائشے نہیں کہ جناب زہراء (ع) کی وفات گیا رہ ہجری کو ہوئی ہے کیونکہ پیغمبر (ص) دس ہجری کو حجة الوداع کے سفر پر تشریف لے گئے اور گیارہویں ہجری کے ابتدا میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ ے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کی وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

دلائل الامامہ کے مولّف اور کفعی نے مصباح یں اور سید نے اقبال م یں اور محدّث قمی نے منتہی الامال میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ کے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کی وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

لائل الامامہ کے مولّف اور کفعی نے مصباح میں اور سید نے اقبال م یں اور محدّث قمی نے منتہی الامال میں آپ کی وفات تیسری جمادی الثانی کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کی وفات تیرہ ربیع الثانی کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کی وفات تیرہ ربیع الثانی میں بتائی ہے_

ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۹_

۲۳۲

فرمایا ہے کہ جناب زہراء (ع) نے تیسرے رمضان المبارک کو وفات پائی مجلسی نے بحار الانوار میں بھی یہ محمد بن عمر سے نقل کیا ہے_

مجلسی نے ___ بحار الانوار میںمحمد بن میثم سے نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کی وفات بیس جمادی الثانی کو ہوئی_

محمد تقی سپہر نے ناسخ التواریخ میں ستائیس جمادی الاوّل کو آپ کی وفات بتلائی ہے_

یہ اتنا بڑا اختلاف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد کتنے دن زندہ رہیں_ / دن: کلینی نے کافی ہیں اور دلائل الامامہ کے مولّف نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہی ہیں_ سید مرتضی نے عیون المعجزات میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اس قول کی دلیل وہ روایت ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) ، پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہیں_ /دن : ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) باپ کے بعد بہتر دن زندہ رہیں_

۳ مہینے: ابوالفرج نے مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ جناب زہرا (ع) کی زندگی میں پیغمبر (ص) کے بعد اختلاف ہے، لیکن آٹھ مہینہ سے زیادہ اور چالیس دن سے کمتر نہ تھی، لیکن صحیح قول وہی ہے کہ جو جعفر صادق علیہ السلام

____________________

۱) اصول کافی، ج ۱ ص ۲۴۱_

۲۳۳

سے روایت ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت زہرا ء (ع) رسول خدا (ص) کے بعد تین مہینے زندہ رہیں(۱) _ اس قول کو صاحب کشف الغمہ نے دولابی سے اور ابن جوزی نے عمر ابن دینار سے بھی نقل کیا ہے_ دن: مجلسی نے بحار الانوار میں جناب فضّہ سے جو جناب زہراء (ع) کی کنیز تھیں اور کتاب روضة الواعظین میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد چالیس دن زندہ رہی ہیں شہر ابن آشوب نے مناقب میں اسی قول کو قربانی سے نقل کیا ہے_

۶ مہینے: مجلسی نے بحار الانوار میں امام محمد باقر (ع) سے روایت کی ہے کہ حضرت زہراء (ع) باپ کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں، کشف الغمہ میں اسی قول کو ابی شہاب اور زہری اور عائشےہ اور عروہ بن زبیر سے نقل کیا ہے_ ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں ایک قول چھ مہینے سے دس دن کم کا نقل کیا ہے_

۴ مہینے: ابن شہر آشوب نے مناقب میں چہار مہینے کا قول نقل کیا ہے_ دن: امام محمد باقر (ع) سے روایت کی گئی ہے کہ آپ زندہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد پنچانوے دن زندہ رہیں_ دن: ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد ستّر دن زندہ رہیں_

۲ مہینے، ۸ مہینے اور ۱۰۰ دن: مجلسی نے بحار الانوار میں دو مہینے اور آٹھ مہینے اور سو دن کا قول بھی نقل کیا ہے_

____________________

۱) مقاتل الطالبین، ص ۳۱

۲۳۴

پیغمبر (ص) کی وفات کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے شیعہ علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آپ کی وفات اٹھائیس صفر کو ہوئی لیکن اہل سنت کے اکثر علماء نے آپ کی وفات کو بارہ ربیع الاوّل کہی ہے اور دوسری ربیع الاوّل بھی گہی گئی ہے_

حضرت زہراء (ع) کا والد کی وفات کے بعد زندہ رہنے میں تیرہ قول ہیں اور جب ان کو جناب رسول خدا (ص) کی وفات کے اقوال کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو پھر جناب فاطمہ (ع) کی وفات میں دن اور مہینے کے لحاظ سے بہت کافی احتمال ہوجائیں گے یعنی تیرہ کو جب تین سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب انتالیس اقوال ہوجائیں گے، لیکن محققین پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اس معالے میں آئمہ علیہم السلام کے اقوال اور آراء ہی دوسرے اقوال پر مقدم ہوں گے کیوں کہ حضرت زہراء (ع) کی اولاد دوسروں کی نسبت اپنی ماں کی وفات سے بہتر طور باخبر تھی_ لیکن جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے خود آئمہ علیہم السلام کی روایات اس باب میں مختلف وارد ہوئی ہیں اس لئے کہ روایات میں پچہتر دن اور پنچانوے دن اور ستر دن اور تین مہینے اور چھ مہینے بھی وارد ہوئے ہیں_

اگر پیغمبر (ص) کی وفات کو اٹھائیس صفر تسلیم کرلیں اور پھر پچہتر دن کی روایت کا لحاظ کریں تو آپ (ع) کی وفات اس لحاظ سے ۱۳/ اور ۱۵/ جمادی الاوّل کو ہی محتمل ہوگی اور اگر پنچانوے دن کی روایت کا لحاظ کریں تو پھر تیسری یا پانچویں جمادی الثانی کو آنحضرت کی وفات ممکن ہوگی_

اسی طرح آپ خود حساب کرسکتے ہیں اور جو احتمال بن سکتے ہیں انہیں معلوم کرسکتے ہیں_

جناب زہراء (ع) کی عمر کے بارے میں بھی ۱۸، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۵ سال

۲۳۵

جیسے اختلافات موجود ہیں اور چونکہ پہلے ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں لہذا یہاں دوبارہ تکرار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہیتی_

جناب فاطمہ (ع) کی قبر مبارک

ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ آپ کی قبر مخفی رہے اسی لئے حضرت علی (ع) نے آپ (ص) کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور آپ کی قبر کو زمین سے ہموار کردیا اور چالیس تازہ قبروں کی صورت بنادی تا کہ دشمن اشتباہ میں رہیں اور آپ کی حقیقی قبر کی جگہ معلوم نہ کرسکیں گرچہ خود حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد اور خاص اصحاب اور رشتہ دار آپ کی قبر کی جگہ جانتے تھے_ لیکن انہیں جناب زہراء (ع) کی شفارش تھی کہ قبر کو مخفی رکھیں لہذا ان میں سے کوئی بھی حاضر نہ ہوتا تھا کہ آپ (ع) کی قبر کی نشاندہی کرتا یہاں تک کہ ایسے قرائن اور آثار بھی نہیں چھوڑے گئے کہ جس سے آپ کی قبر معلوم کی جاسکے_ آئمہ طاہرین یقینی طور سے آپ کی قبر سے آگاہ تھے لیکن انہیں بھی اس کی اجازت نہ تھی کہ وہ اس راز الہی کو فاش اور ظاہر کریں لیکن اس کے باوجود اہل تحقیق نے اس کی جستجو میں کمی نہیں کی اور ہمیشہ اس میں بحث و گفتگو کرتے رہے لہذا بعض قرائن اور امارات سے آپ کے دفن کی جگہ کو انہوں نے بتلایا ہے_

۱_ بعض علماء نے کہا ہے کہ آپ جناب پیغمبر (ص) کے روضہ میں ہی دفن ہیں_ مجلسی نے محمد بن ہمام سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کو رسول (ص) کے روضہ میں دفن کیا ہے لیکن قبر کے آثار کو بالکل

۲۳۶

مٹادیا_ نیز مجلسی نے جناب فضہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے کہا کہ جناب فاطمہ (ع) کی نماز جنازہ روضہ رسول میں پڑھی گئی اور آپ کو رسول (ص) کے روضہ میں ہی دفن کردیا گیا_

شیخ طوسی نے فرمایا ہے کہ بظاہر جناب فاطمہ (ع) کو جناب رسول خدا (ص) کے روضہ میں ی اپنے گھر میں دفن کیا گیا ہے اس احتمال کے لئے مزید دلیل جولائی جاسکتی ہے وہ وہ روایت ہے کہ جو رسول خدا (ص) سے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے(۱) _

دوسری دلیل یہ ہے کہ لکھا ہے کہ حضرت علی (ع) نے روضہ پیغمبر پر فاطمہ (ع) کی نماز پڑھی اور اس کے بعد پیغمبر کو مخاطب کیا اور فرمایا میرا اور آپ کی دختر کا آپ پر سلام ہو جو آپ کے جوار میں دفن ہے_

۲_ مجلسی نے ابن بابویہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بات صحیح ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو اپنے گھر میں دفن کیا تھا اور جب بنی امیہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو جناب فاطمہ (ع) کی قبر مسجد میں آگئی_ مجلسی نے محمد ابن ابی نصر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے جناب ابوالحسن (ع) سے پوچھا کہ جناب فاطمہ (ع) کی قبر کہاں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر میں مدفون ہیں اور بعد میں مسجد میں آگئی ہیں جب مسجد کی توسیع کی گئی _

۳_ صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں کہ مشہور یہی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو بقیع میں دفن کیا گیا_ سید مرتضی نے بھی عیون المعجزات میں یہی قول اختیار کیا ہے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۵_

۲۳۷

ابن جوزی لکھتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) بقیع میں مدفون ہیں یہ مطلب شاید اس لئے سمجھا گیا ہو کہ حضرت علی (ع) نے چالیس تازہ قبریں بقیع میں بنائی تھیں اور جب بعض نے ان قبروں میں جناب فاطمہ (ع) کے جنازے کو نکالنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی (ع) خشمناک اور غصّے میں آگئے تھے اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دے دی تھی پس معلوم ہوتا ہے کہ ان قبروں میں سے ایک قبر جناب زہراء (ع) کی تھی_

۴_ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ بعض نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو عقیل کے گھر کے قریب دفن کیا گیا تھا آپ کی قبر سے راستے تک سات ذرع کا فاصلہ ہے_ عبداللہ بن جعفر نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب فاطمہ (ع) کی قبر عقیل کے گھر کے قریب واقع ہے_ ان چار احتمالات میں سے پہلا اور دوسرا احتمال ترجیح رکھتا ہے_

۲۳۸

حصّہ ہفتم

حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف اور اس کی تحقیق

۲۳۹

واقعہ فدک اور جناب زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے_ اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان تمام مباحث کا ذکر کرنا جب کہ اس کتاب کی غرض جناب فاطمہ (ع) کی زنگی کے ان واقعات کی تشریح کرنے ہے جو لوگوں کے لئے عملی درس ہوں، بہت زیادہ مناسبت نہیں رکھتا اور اہم پہلے سادہ اور مختصر طور پر اس کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات نہیں رکھتے بلکہ ان میں بعض حضرات محقق ہوا کرتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ اس حساس اور مہم موضوع پر جو صدر اسلام سے مورد بحث رہا ہے زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہیئے اور اس واقعہ کو علمی لحاظ سے مورد بحث اور تحقیقی لحاظ سے ہونا چاہیئے لہذا اہم اس حصے کو سابقہ بحث کی بہ نسبت تفصیل سے بحث کرنے کے لئے اس موضوع میں وارد ہو رہے ہیں تا کہ اس موضوع پر زیادہ بحث کی جائے_

۲۴۰

اختلاف اور نزاع کا موضوع

جو لوگ اس بحث میں وارد ہوئے ہیں اکثر نے صرف فدک کے اطراف میں بحث کی ہے کہ گویا نزاع اور اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر ہے اسی وجہ سے یہاں پر کافی اشکالات اور ابہام پیدا ہوگئے ہیں لیکن جب اصلی مدارک کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے امور میں بھی اختلاف اور نزاع موجود ہے _ مثلاً:

جناب عائشےہ نے نقل کیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا، جناب فاطمہ (ع) نے اس وقت کئی چیزوں کا مطالبہ کیا تھا_ اول: پیغمبر (ص) کے وہ اموال جو مدینہ میں موجود تھے_ دوم: فدک_ سوم: خیبر کا باقیماندہ خمس_ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو جواب بھجوایا کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی رہ جائے وہ صدقہ ہوگا اور آل محمد بھی اس سے ارتزاق کرسکیں گے_

خدا کی قسم میں رسول خدا(ص) کے صدقات کو تغییر نہیں دوں گا اور اس کے مطابق_ عمل کروں گا_ جناب ابوبکر تیار نہ ہوئے کہ کوئی چیز جناب فاطمہ کو دیں اسی لئے جناب فاطمہ (ع) ان پر غضبناک ہوئیں اور آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وفات تک ان سے گفتگو اور کلام نہ کیا(۱) _

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۷_

۲۴۱

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کو پیغام دیا کہ کیا تم رسول خدا (ص) کے وارث یا ان کے رشتہ دار اور اہل ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ وارث ان کے اہل اور رشتہ دار ہیں جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ پس رسول خدا (ص) کا حصہ غنیمت سے کہاں گیا؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے پیغمبر (ص) کے لئے طعمہ (خوارک) قرار دیا ہے اور جب اللہ ان کی روح قبض کرلیتا ہے تو وہ مال ان کے خلیفہ کے لئے قرار دے دیتا ہے میں آپ کے والد کا خلیفہ ہوں مجھے چاہیئے کہ اس مال کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں(۱) _

عروہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا اختلاف اور نزاع جناب ابوبکر سے فدک اور ذوی القربی کے حصّے کے مطالبے کے سلسلے میں تھا لیکن جناب ابوبکر نے انہیں کچھ بھی نہ دیا اور ان کو خدا کے اموال کا جز و قرار دے دیا(۲) _

جناب حسن بن علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) اور بنی ہاشم کو ذوی القربی کے سہم اور حصے سے محروم کردیا اور اسے سبیل اللہ کا حصہ قرار دے کر ان سے جہاد کے لئے اسلحہ اور اونٹ اور خچر خریدتے تھے(۳) _

ان مطالب سے معلوم ہوجائے گا کہ حضرت فاطمہ (ع) فدک کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات میں جیسے رسول خدا کے ان اموال میں جو مدینے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۹_

۲) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۲۴۲

میں تھے اور خبیر کے خمس سے جو باقی رہ گیا تھا اور غنائم سے رسول خدا(ص) کے سہم اور ذوی القربی کے سہم میں بھی جناب ابوبکر کے ساتھ نزاع رکھتی تھیں لیکن بعد میں یہ مختلف موضوع خلط ملط کردیئے گئے کہ جن کی وجہ سے جناب فاطمہ (ع) کے اختلاف اور نزاع میں ابہامات اور اشکالات رونما ہوگئے حقیقت اور اصل مذہب کے واضح اور روشن ہوجانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام موارد نزاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا جائے اور ہر ایک میں علیحدہ بحث اور تحقیق کی جائے_

پیغمبر (ص) کے شخصی اموال

پیغمبر (ص) کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی اس کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کا وہ کمرے کہ جس میں آپ (ص) اور آپ(ص) کی ازواج رہتی تھیں آپ کی شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن و غیرہ، تلوار، زرہ، نیزہ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گائے و غیرہ_ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں(۱) _

بظاہر اس میں کوئی شک نہ ہوگا کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملک تھیں اور آپ کی وفا کے بعد یہ اموال آپ کے ورثا کی طرف منتقل ہوگئے_

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب، ج ۱ ص ۱۶۸ _ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۲۲_

۲۴۳

حسن بن علی و شاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑ تھا؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء اور صہبا، اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا، اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والی گوسفند، چالیس اونٹیاں دودھ دینے والی، ایک تلوار ذوالفقار نامی، ایک زرہ بنا م ذات الفصول عمامہ بنام سحاب، دو عدد عبا، کئی چمڑے کے تکئے_ پیغمبر(ص) یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں جناب فاطمہ (ع) کی طرف سوائے زرہ، شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی (ع) کو دیئے گئے(۱) _

پیغمبر(ص) کے وارث آپ کی ازواج او رجناب فاطمہ زہراء (ع) تھیں_ تاریخ میں اس کا ذکر نہیں آیا کہ پیغمبر (ص) کے ان اموال کو ان کے ورثا میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن بظاہر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے امکانات آپ کی ازواج ہی کو دے دیئے گئے تھے کہ جن میں وہ آپ کے بعد رہتی رہیں، بعض نے یہ کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں یہ مکانات اپنی ازواج کو بخش دیئے تھے اور اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے_

''و قرن فی بیوتکن وَلا تبرّجن تبرّج

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۲۲_

۲۴۴

الجاهلیة الاولی '' (۱)

گہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاہلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو_ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تب تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتی ہو، لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کی نسبت دے دینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہے اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا_ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر مرد ہوا کرتا ہے_ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لئے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کرائے پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہاجاتا ہے تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوی کے لئے ایک ایک کمرہ مخصوص کر رکھا تھا اس لئے کہا جاتا تھا جناب عائشےہ کا گھر یا جناب ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیئے تھے_ اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلائے کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا، لہذا کہنا پڑے گا کہ ازدواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام

____________________

۱) سورہ احزاب آیت ۳۳_

۲۴۵

میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص) کی زندگی میں رہ رہیں تھی_ جناب فاطمہ (ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیئےکھا_ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہیئے کہ رسول خدا(ص) نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ور ثاء کی طرف منتقل ہوئے اور ان کو قانون وراثت اور آیات وراثت شامل ہوئیں_

فدک

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے کہ جس کا نام فدک ہے مدینہ سے وہاں تک دودن کا راستہ ہے_ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا_ معجم البلدان والے لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا ہم نے پہلے بھی ثابت کیا ہے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ تھا_

یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب ۷ سنہ ہجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے اس سے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی_

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا_ جناب رسول خدا(ص) نے ان کی خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ

۲۴۶

تحریر کیا اس صلح کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگئے_

صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، معجم البلدان میں لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص) کو دے دیا_

تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرارداد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص) کو دے دیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر(ص) کی ذات کا ہوگیا کیونکہ جیسا کہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ علاقہ بغیر جنگ کئے پیغمبر(ص) کے ہاتھ آیا ہے اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کئے فتح ہوجائے وہ رسول(ص) کا خالص مال ہوا کرتا ہے_

یہ قانون اسلام کے مسلمہ قانون میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے_ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وما افاء الله علی رسوله منهم فما اوجفتم علیه من ذل: و لارکاب و لکن الله یسلط رسله علی من یشاء و الله علی کل شیء قدیر، ما افاء الله علی رسوله من اهل القوی فلله و للرسول '' (۱) _

یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کے لئے عائد کردیا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو

____________________

۱) سورہ حشر آیت ۶_

۲۴۷

جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے او رخدا تمام چیزوں پر قادر ہے_ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر کے لئے مخصوص ہیں_

لہذا اس میں کسی کو شک نہیں ہونا کہ فدک پیغمبر(ص) کے خالص اموال سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص) کو ملا تھا اور پیغمبر(ص) اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں آپ اس مال سے حکومت کا ارادہ کرنے میں بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تا کہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے، آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلاعوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں، اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لئے فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دے دیں_ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کر رکھا تھا آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگائے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر بازیار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص) نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگائے تھے_

۲۴۸