استاد محترم سے چند سوال

استاد محترم سے چند سوال50%

استاد محترم سے چند سوال مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 119

استاد محترم سے چند سوال
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 119 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 101147 / ڈاؤنلوڈ: 5764
سائز سائز سائز
استاد محترم سے چند سوال

استاد محترم سے چند سوال

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

محدثین نے بھی اسے نقل کیا ہے .اور جو لوگ اس علم میں مہارت نہیں رکھتے ،ان کا اس حدیث کو ضعیف قرار دیناکوئی اعتبا ر نہیں رکھتا(۱)

۵ ۔ قرطبی : حدیث مؤاخات ، حدیث خیبر اور حدیث غدیر ساری کی ساری ثابت شدہ ہیں.(۲)

کیا وجہ ہے کہ علمائ و محدثین اسلام کی گواہی کے باوجود ہم اس حدیث کے مطابق حضرت علی(رض) کی خلافت بلا فصل کو ماننے کو تیار نہیں اور ہاں کیا اگر یہی حدیث حضرت ابو بکر (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہوتی تو پھر بھی ہمارا رویہ یہی ہوتا؟ !

۔کیا حضرت معاویہ(رض) کی مخالفت جرم ہے

سوال ۵۵: کیا یہ درست ہے کہ ہمارے علمائ حضرت معاویہ (رض) اور عمرو بن عاص کی مخالفت کو ناقابل بخشش گناہ سمجھتے ہیں جبکہ حضرت علی (رض) کی مخالفت کو اہمیت بھی نہیں دیتے اور اسے ایک معمولی سی بات تصور کرتے ہیں ؟ جیسا کہ امام ذہبی نے دو مقامات پر نسائی اور حریز بن عثمان کے بارے میں لکھا ہے :

امام نسائی کے متعلق لکھا ہے : وہ حضرت معاویہ اور حضرت عمرو بن عاص سے منحرف تھے خدا ان کو معاف کرے(۳) جبکہ حریز بن عثمان جو حضرت علی(رض) پر لعنت کیا کرتا تھا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ثقہ اور عادل تھے!(۴)

۔سفیان ثوری کاحضرت علی(رض) سے کینہ رکھنا

سوال۵۶: کیا یہ درست ہے کہ سفیان ثوری جو ہم اہل سنّت کے بہت بڑے محدّث شمار ہوتے ہیں وہ حضر ت علی(رض) کے فضائل ومناقب کو ناپسند کرتے اور ناراض ہو پڑتے ہیں؟ جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے:

____________________

۱۔ اسنی المطالب : ۷۴.تواتر عن امیرالمؤمنین وهو متواتر أیضا عن النبیّ رواه، الجمّ الغفیر ولا عبرة بمن حاول تضعیفه ممّن لا اطلاع له، فی هذا العلم .

۲۔استیعاب ۲: ۳۷۳.حدیث المواخاةوروایة خیبر والغدیر هذه کلّها آثار ثابتة

۳۔سیر اعلام النبلائ ۴۱: ۲۳۱

۴۔العبر ۱: ۵۸۱؛میزان الاعتدال ۱: ۶۷۴؛ سیر اعلام النبلائ ۷: ۰۸؛تہذیب الکمال ۴:۳۳۲

۴۱

عن سفیان ثوری قال: ترکتنی الرّوافض وأنا أبغض أن أذکر فضائل علیّ رضی اللّٰه عنه (۱)

شیعوں نے مجھے اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ میں حضرت علی (رض) کے فضائل بیان کرنے کو پسند نہیں کرتا

البتہ امام ذہبی نے صحابہ کرام کا یہ قول بھی نقل کیاہے :

ما کنّا نعرف المنافقین الاّ ببغض علیّ (۲)

ہم منافقین کو علی (رض) سے بغض کے ذریعہ پہچانا کرتے تھے

کیا یہ درست ہے کہ ایسے شخص کی روایات پر یقین کرلیا جائے اور اسے ا پنے زمانہ کا ابوبکر (رض) و عمر(رض) سمجھ لیا جائے :کان الثّوری عندنا امام النّاس وکان فی زمانه کأبی بکر وعمر فی زمانهما (۳) یا یہ کہ حضرت ابو بکر (رض)اور حضرت عمر (رض) بھی ایسے ہی تھے ؟

۔ہمارا حضرت فاطمہ(رض) کی مخالفت کرنا

سوال ۵۷: کیا یہ صحیح ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کائنات کی تمام عورتوں میں سے حضرت فاطمہ (رض) سب سے افضل اور سیدہ نسائ العالمین ہیں.(۴)

تو پھر کیا وجہ ہے کہ نماز جمعہ کے خطبے میں حضرت عائشہ (رض) کانام تو لیاجاتا ہے جبکہ سیدہ نسائ العالمین کا کبھی تذکرہ تک نہیں ہوتا ؟

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۷: ۳۵۲؛ حلیۃ الأولیائ ۷: ۷۲

۲۔سیر اعلام ( الخلفائ ): ۶۳۲

۳۔سیر اعلام ( الخلفائ ): ۶۳۲

۴۔ شرح ابن ابی الحدید ۰۲: ۷۱.کیف تکون عائشة أو غیرها فی منزلة فاطمة وقد أجمع المسلمون کلّهم من یحبّها ومن لا یحبّها منهم : أنّهاسیّدة نسائ العالمین .ابوبکر داؤد کہتے ہیں :لاأُفضل ببضعة من رسول الله صلی الله علیه وسلم ۔أحدا. ارشاد الساری فی شرح صحیح بخاری ۶: ۰۱؛ غالیۃ المواعظ ۱: ۰۷۲؛ تاریخ الخمیس ۱: ۵۶۲؛ الروض الأنف ۱:۰۶۱

۴۲

حضرت عائشہ(رض) اور دیگر امہات المؤمنین(رض)

۔کیا ازواج پیغمبر(ص)دوگروہ میں بٹی ہوئی تھیں

سوال ۵۸: کیا یہ صحیح ہے جیسا کہ امام ذہبی وغیرہ نے بیان فرمایا ہے کہ پیغمبر (ص) کی ازواج مطہّرات دو گروہ میں بٹی ہوئی تھیں ایک گروہ میں حضرت عائشہ (رض) وحفصہ (رض) تھیں اور دوسرے میں حضرت امّ سلمہ وبقیہ ازواج مطہرات(۱) اور حکومتیں حضرت عائشہ(رض) کی حمایت کیا کرتیں .جس کے مندرجہ ذیل نمونے ذکر کر رہے ہیں :

۱ ۔ خلیفہ دوم پیغمبر (ص) کی تمام ازواج کو بیت المال میں سے دس ہزار دینار(درہم) دیا کرتے جبکہ حضرت عائشہ(رض) کو دو ہزار ،ان سے زیادہ دیا جاتا.

۲ ۔ حضرت معاویہ (رض) نے ایک لاکھ درہم (دینار) کا حوالہ حضرت عائشہ(رض) کی خدمت میں ارسال کیا ۔

۳ ۔ اسی طرح ایک لاکھ درہم کا ایک گردن بند بھی انہیں دیا۔

۴ ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے ایک لاکھ درہم حضرت عائشہ (رض) کے سپرد کیا(۲)

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۴۱و ۷۸۱؛صحیح بخاری ۲: ۹۸،کتاب الھبہ ؛المعجم الکبیر ۳۲: ۰۵،ح ۲۳۱؛ مقدمہ فتح الباری : ۲۸۲؛ تحفہ احوذی ۰۱: ۵۵۲

۲۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۴۱و ۷۸ا

۴۳

۔حضرت عائشہ(رض) پہلے سے شادی شدہ تھیں

سوال ۵۹:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) حضور علیہ الصلاۃ والسّلام سے پہلے کسی اور سے شادی کر چکیتھیں اور ان کے شوہر کا نام جبیر تھا پھر حضرت ابوبکر نے جبیر سے طلاق دلوا کر پیغمبر سے ان کا نکاح کروا دیا ؟

اور ان کا بار باریہ اصرار کرنا کہ جب رسول خدا سے میری شادی ہوئی تومیں کنواری تھی ،تویہ محض اس لئے تھا تاکہ کوئی ان کی پہلی شادی کے بارے میں شک نہ کر پائے

ابن سعد:خطب رسول الله عائشة الی أبی بکر الصّدیق : فقال : یارسول الله انّی کنت أعطیتها مطعما لابنه جبیر فدعنی حتّی أسلّمها منهم فطلقها ، فتزوّجها رسول الله (۱)

البتہ جہاں تک میرے علم میں ہے کوئی بھی شیعہ ایسا عقیدہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کی کسی کتاب کے اندر کوئی ایسی بات ملتی ہے جبکہ افسوس یہ ہے کہ ہماری قدیمی ترین کتب میں یہ بات موجود ہے

لقد أعطیت تسعا ما أعطیتها امرأة بعد مریم:لقد نزل جبرائیل بصورتی ...ولقد تزوّجنی بکرا وما تزوّج بکرا غیری ...وان کان الوحی لینزل علیه وانّی لمعه فی لحافه (۲)

۔امام حسن (رض) کا جنازہ دفن نہ ہونے دینا

سوال ۶۰:کیا یہ درست ہے کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض)کے حکم پر جوانان جنّت کے سردار حضرت امام حسن مجتبٰی (رض)کاجنازہ پیغمبر (ص) کے روضہ مبارک کے پاس لانے سے روک دیا گیا؟ جبکہ خود حضرت عائشہ (رض) نے دستور دیا کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ کو مسجد میں نبوی میں لا کر اس پر نماز جنازہ ادا کی جائے ) تو کیا حضرت عائشہ (رض) امّ المؤمنین نہ تھیں یا امام حسن (رض)مومن نہ تھے کہ ان کے جنازہ کو روک دیا گیا؟

____________________

۱۔لطبقات الکبرٰی ۸: ۹۵

۲۔ سیر اعلام النبلائ ۲: ۰۴۱و ۱۴۱ ۳۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۵۰۶؛طبقات ابن سعد ۳: ۸۴۱

۴۴

۔ابن زبیر کاحضرت عائشہ(رض) کو گمراہ کرنا

سوال ۶۱:کیا یہ بھی درست ہے کہ عبداللہ ابن زبیر نے حضرت عائشہ (رض) کو فریب دیکر جنگ جمل کے لئے آمادہ کیا جس میں کتنے مسلمانوں کا ناحق خون بہا .جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر(رض) نے یہ تلخ حقیقت حضرت عائشہ(رض) کے گوش گزار فرمائی اور امام ذہبی نے اسے یوں نقل کیا :

قالت عائشه اذا مرّ ابن عمر ، یا عبدالرحمن مامنعک أن تنهانی عن سیری ؟ قال : رأیت رجلا قد غلب علیک یعنی ابن الزّبیر (۱)

ان تمام تر حقائق کے باوجود ہمارے علمائ کس لئے جنگ جمل کی غلط توجیھات کر تے اور عبداللہ بن زبیرکی حمایت کرتے ہیں جو کتنے صحابہ کرام(رض) کے قتل کا باعث بنا ؟

۔حضرت عائشہ (رض) کا حضور(ص) کی توہین کرنا

سوال ۶۲:کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) ایسی ایسی روایات نقل کیا کرتیں جن میں پیغمبر کی توہین کی جاتی اور کوئی بھی غیرت مند مسلمان انہیں برداشت نہیں کر سکتا(۲) یقینا ان میں سے بعض جھوٹی اور شریعت وسیرت پیغمبر کے کاملا مخالف ہیں :

۱ ۔ حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں: تزوّجنی بکرا جب پیغمبر(ص)نے مجھ سے شادی کی تو باکرہ تھی

۲ ۔ وہی فرماتی ہیں:کان رسول الله یأتیه الوحی ، وأنا وهو فی لحاف

جب آپ (ص) پر وحی نازل ہوتی تو ہم ایک ہی لحاف میں ہوتے(۳)

۳ ۔انّ عائشة تخبر النّاس أنّه صلّی الله علیه وسلّم کان یقبّل وهو صائم (۴)

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۹۱

۲۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۹۱،۱۹۱و ۲۷۱

۳۔ حوالہ سابق

۴۔صحیح بخاری ۲: ۲، کتاب العیدین ، باب الحرب والدرق یوم العید ،اور ۴: ۷۴، کتاب الجھاد ، باب الدرق ؛ صحیح مسلم ۲: ۹۰۶، کتاب الصّلاۃ.

۴۵

حضرت عائشہ (رض) لوگوں کو یہ بتایا کرتیں کہ آںحضرت (ص) حالت روزہ میں (اپنی بیوی کا) بوسہ لیا کرتے ۔

۴ ۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں:ایک دن حضور (ص) تشریف لائے تو میرے پاس گانے والی دو کنیزیں گانے میں مشغول تھیں لیکن آپ(ص) توجہ کئے بغیر اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئے .اتنے میں حضرت ابو بکر (رض) تشریف لائے تو ناراض ہوتے ہوئے فرمایا: گانا اور وہ بھی پیغمبر(ص) کے گھر میں !! آںحضرت (ص) نے فرمایا: انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو .(تاکہ وہ گانے گا سکیں)جیسے ہی حضرت ابوبکر (رض) نے توجہ ہٹائی تو میں نے ان دونوں کنیزوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔دخل علیّ رسول الله وعندی جاریتان تغنّیان بغنائ بعاث فاضطجع علی الفراش وحوّل وجهه ودخل أبو بکر فانتهزنی وقال مزمار الشیطان عند النبیّ فأقبل علیه رسول الله وقال دعها ...(۱)

۵ ۔ عید کے د ن پیغمبر(ص) نے مجھے کٹھ پتلیوں کا کھیل دکھایا(۲)

۶ ۔ ایک دن عید کے روز حبشہ سے کچھ رقص کرنے والی آئیں تو آنحضرت (ص) نے مجھے بلا کر میرا سر اپنے شانے پر رکھا اور ان کا رقص دیکھنا شروع کیا(۳)

۔جوان کا رضاعی بھائی بن سکنا

سوال ۶۳:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کا نظریہ یہ تھا کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کا پانچ مرتبہ دودھ پی لے تو وہ اس کا رضائی بیٹا اور محرم بن جائے گا یہی وجہ ہے کہ جب بھی حضرت عائشہ (رض) کسی مردکو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینا چاہتیں تو وہ اس سے کہتیں کہ پہلے جاؤ میری بہن اسمائ کادودھ پیو تا کہ اس طرح آپ ان کی خالہ اور محرم بن جائیں. جبکہ دوسری طرف پیغمبر اکرم کی تمام ترا زواج مطہّرات اس نظریے کی شدید مخالف تھیں جیسا کہ ابودؤود سے نقل ہوا ہے :

____________________

۱۔حوالہ سابق

۲۔ صحیح بخاری ۲: ۲۰۲

۳۔ صحیح مسلم ۲: ۹۰۶ ، کتاب صلاۃ العیدین

۴۶

عن عائشة واُمّ سلمة أنّ أبا حذیفة کان تبنّیٰ سالما وأنکحه، ابنةأخیه...فجائت امرأة أبی حذیفة فقالت : یا رسول الله ! انّاکنّا نریٰ سالما ولدا وکان یأوی معی ومع أبی حذیفة فی بیت واحد ویرانی فضلا .وقد أنزل الله فیهم ماقد علمت فکیف ترٰی فیه ؟

فقال لها النبیّ : أرضعیه ، فأرضعته خمس رضاعات فکان بمنزلة ولدها من الرّضاعة .فبذٰلک کانت عائشة تأمر بنات أخواتها وبنات اخوتها أن یرضعن من أحبّت عائشة أن یراها ویدخل علیها وان کان کبیرا ، خمس رضاعات ثمّ یدخل علیها وأبت اُمّ سلمة وسائرأزواج النّبی أن یدخلن علیهنّ بتلک الرّضاعةأحدا حتّٰی یرضع فی المهد(۱)

حضرت عائشہ اورحضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ نے سالم کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا اور اس کا نکاح اپنی بھتیجی سے کیا ایک دن اس کی بیوی آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کرنے لگی : ہم نے سالم کو اپنا بیٹا بنا رکھا ہے جبکہ وہ ہمارے ساتھ رہتا اور ہمیں گھر کے لباس میںبھی دیکھتا ہے جبکہ حکم پروردگار بھی اس بارے میں نازل ہو چکا ہے جیسا کہ آپ (ص) (ص) جانتے ہیں تو اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟

آنحضرت نے فرمایا : اسے پانچ مرتبہ دودھ پلا دو تو وہ تمہارا رضاعی بیٹا بن جائے گا .یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) جب کسی کو اپنے پاس بلانا چاہتیں یا اسے دیکھنا چاہتیں تو اپنی بھتیجیوں اور بھانجیوں سے فرماتیں کہ اسے پانچ بار دودھ پلا دیں اگرچہ وہ شخص جوان ہی کیوں نہ ہوتا جبکہ پیغمبر

____________________

۱۔سنن ابوداؤد ۲: ۲۲۲؛ صحیح مسلم ۷: ۴

۴۷

کی باقی بیویاں اس کی مخالفت کیا کرتیں اور ایسے افراد کو گھر میں داخل نہ ہونے دیتیں.

۔مصحف حضرت عائشہ(رض)

سوال ۶۴:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس ایک مصحف تھا جسے مصحف عائشہ کہا جاتا(۱) اور اسی طرح بعض صحابہ کرام کے پاس بھی اپنے اپنے مصحف موجود تھے جیسے مصحف سالم مولٰی حذیفہ ، مصحف ابن مسعود ، مصحف ابی بن کعب ، مصحف مقداد ، مصحف معاذ بن جبل ، مصحف ابو موسٰی اشعری وغیرہ(۲)

ان مصحف اور حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھما کے مصحف میں کیا فرق ہے ؟ اگر ایک ہی چیز ہیں تو پھر ہم شیعوں پر کیوں اعتراض کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں حضرت فاطمہ (رض) کے پاس ایک مصحف تھا !

۔ صحابہ کرام(رض)کا حضرت عائشہ(رض) پر زناکی تہمت لگانا

سوال ۶۵: کیا یہ حقیقت ہے کہ رسالت مآب کے بعض صحابہ جیسے مسطح بن اثاثہ ، حسان بن ثابت اور حمنہ(۳) نے اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر زنا کی تہمت لگائی تھی اور رسول نے ان پر تہمت کی حد بھی جاری کی تھی ؟ ایسی بری بات شیعوں کی کتب میں موجود نہیں ہے جبکہ ہم اس تہمت کو ان کی طرف نسبت دیتے ہیں تاکہ کوئی ہمارے بارے میںایسا گمان ہی نہ کرنے پائے!

۔امّ المؤمنین کا بیس ہزار اولادکو قتل کروادینا

سوال ۶۶: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے جنگ جمل میں مؤمنین اور اپنی اولاد کے بیس ہزار افراد مروا ڈالے اور اگر کوئی ان پر اس بارے میں اعتراض کرتا تو اسے دشمن خداقرار دے کر اس سے انتہائی سختی سے پیش آتیں .یہاں تک کہ امّ اوفٰی کو اسی بات کی وجہ سے اپنی محفل سے نکال دیا؟ جیسا کہ ابن عبد ربُہ

____________________

۱۔تفسیر نسائی ۲: ۰۷۳؛ تفسیر بغوی ۲: ۱۳۳۲۔اسدالغابہ ۴: ۶۱۲

۳۔اسد الغابہ ۵: ۸۲۴.کانت ممّن قال فی الافک علی عائشة ...انّهاجلدت مع من جلد فیه.اور ۴: ۵۵۳،شهد مسطح بدرا وکان ممّن خاض فی الافک علی عائشة فجلده، النبّی فیمن جلده اور ۲:۶، وکان حسان بن ثابت ممّن خاض فی الافک فجلد فیه.

۴۸

نے لکھا ہے:

دخلت اُمّ اوفٰی العبدیة بعد الجمل علی عائشة فقالت لها:ما تقولین فی امرأة قتلت ابنا لها صغیرا؟ فقالت: وجبت لها النّار .قالت : فما تقولین فی امرأة قتلت من أولادها الأکابرعشرین ألفا فی صعید واحد : فقالت خذوا بید عدّوة الله (۱)

جنگ جمل کے بعدامّ اوفیٰ حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : ایسی عورت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس نے اپنے چھوٹے بچے کو قتل کر ڈالا ہو ؟ تو فرمایا: اس کی سزا جہنّم ہے .عرض کیا : اگر کوئی عورت اپنی بیس ہزار نوجوان اولاد مروا دے تو اس کا کیا حکم ہو گا ؟ تو اس پر حضرت عائشہ (رض) (ناراض ہو گئیں اور)فرمایا: اس دشمن خداکو پکڑلو.

۔بعض امّہات المؤمنین کا مرتدہوجانا

سوال۶۷:کیا یہ صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعض بیویاں یعنی امّہات المؤمنین مرتد ہو گئی تھیں ؟ جیسے اشعث بن قیس کی بہن قتیلہ کہ جب اس نے پیغمبر کی وفات کی خبر سنی تو مرتد ہو گئی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ سے جاکر شادی کر لی .یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) چاہتے تھے کہ عکرمہ کو آگ میں جلا دیں اس لئے کہ اس نے پیغمبر کی تو ہین کی تھی.جیسا کہ ابن اثیر نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے :

انّ النبّی توفّٰی وقد ملک امرأة من کندة، یقال لها قتیلة فارتدّت مع قومها فتزوّجها بعد ذلک عکرمة بن أبی جهل بکرا ، فوجد أبوبکر من ذلک وجدا شدیدا .(۲)

۔حضرت عمر (رض) کا نبی (ص) کی بیوی کو طلاق دینا

سوال ۶۸:کیا یہ درست ہے کہ حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ کی بعض بیویوں کو طلاق دے کر انہیں

____________________

۱۔لعقد الفرید ۴: ۵۰۳

۲۔اسد الغابہ ۷: ۰۴۲؛ السمتدرک علی الصحیحین ۴: ۰۴؛ کنزالعمال ۳۱: ۴۰۳؛ دلائل النبوّۃ ۷: ۸۸۲؛ الاصابۃ ۸:۲۹۲؛عن ابن عباس : أنّ النّبیّ تزوّج قتیلة أخت الأشعث ومات قبل أن یخبرها وهذا موصول قوی الاسناد

۴۹

ام المومنین ہونے سے خارج کر دیا تھا ؟جیسا کہ علاّمہ طحاوی نے لکھا ہے:

عن الشعبی : أن نبیّ الله تزوّج قتیلة بنت قیس ومات عنها ثمّ تزوّج عکرمة فأراد أبو بکر أن یقتله، فقال له، عمر أنّ النّبی لم یحجبها ولم یقسّم لها ولم یدخل بها وارتدّت مع أخیها عن الاسلام وبرئت من الله تعالٰی ومن رسوله ،فلم یزل به حتّی ترکه ، (۱)ففی هذا الحدیث أنّ أبابکر أراد أن یقتل عکرمة لمّا تزوّج هذه المرئة لأنّها کانت عنده، من أزواج النبّی الّاتی کنّ حرمن علی النّاس بقول الله تعالٰی : وما کان لکم أن تؤذوا رسول الله ...وانّ عمر أخرجها من أزواج النبّی بردتها الّتی کانت منها اذاکان لایصلح لها معها أن تکون للمسلمین (۲)

____________________

۱۔مشکل الآثار ۲: ۹۱۱

۲۔مشکل الآثار ۲: ۳۲۱؛ دلائل النبوّۃ ۷:۸۸۲

۵۰

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم

۔پیغمبر (ص) نے فقط عبداللہ بن سلام کو جنّت کی بشارت دی

سوال ۶۹:کیا یہ صحیح ہے کہ حضور علیہ الصلاّۃ والسّلام نے عبداللہ بن سلام کے علاوہ کسی کو جنّت کی بشارت نہیں دی ؟ جیسا کہ سعد وقاص نے بیان کیا ہے :

ما سمعت النبیّ یقول لأحد یمشی علی الأرض انّه من أهل الجنّة الاّ لعبدالله بن سلام (۱) وبہ نقل صحیح مسلم :لاأقول لأحد من الأحیائ أنّه من أهل الجنّة الاّ لعبدالله بن سلام (۲)

پس اس حدیث کو عشرہ مبشرہ والی حدیث سے کیسے مطابقت دی جاسکتی ہے جب کہ یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں اسے نقل کیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس عشرہ مبشرہ والی حدیث ضعیف ہونے کے علاوہ نہ تو اسے امام بخاری نے نقل کیا ہے اور نہ ہی مسلم نے ؟

۔کیا بعض صحابہ کرام(رض) منافق تھے

سوال ۷۰:کیا یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر کے کچھ صحابی منافق تھے اور کبھی بھی جنّت میں نہیں جا پائیں گے ؟ جیسا کہ ہماری معتبر کتاب صحیح مسلم میں پیغمبر (ص) کا فرمان نقل ہوا ہے:

فی أصحابی اثنا عشر منافقا ، فیهم ثمانیة لا یدخلون الجنّة حتٰی یلج الجمل فی

____________________

۱۔صحیح بخاری باب المناقب ، مناقب عبداللہ بن سلام

۲۔ صحیح مسلم ،باب فضائل عبداللہ بن سلام،ح ۳۸۴۲؛ فتح الباری ۷: ۰۳۱؛ سیر اعلام النبلائ ۴: ۹۴۳

۵۱

سمّ الخیاط (۱)

میرے صحابہ میں بارہ افراد منافق ہیں جن میں سے آٹھ ایسے ہیں کہ جن کا جنّت میں جانا محال ہے.

۔کیا حضرت عثمان (رض) کے قاتل صحابہ کرام (رض) تھے

سوال ۷۱:کیا یہ درست ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی صحابہ کرام ہی تھے جیسا کہ ہماری کتب میں نقل ہواہے :

۱ ۔فروہ بن عمرو انصاری جو بیعت عقبہ میں بھی موجود تھے(۲)

۲ ۔محمد بن عمرو بن حزم انصاری .یہ وہ صحابی رسول ہیں جن کا نام بھی پیغمبر (ص) نے رکھا تھا(۳)

۳ ۔جبلہ بن عمرو ساعدی انصاری بدری .یہ وہ صحابی رسول (ص) تھے جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کے جنازہ کو بقیع میں دفن نہیں ہونے دیاتھا(۴)

۴ ۔ عبدا للہ بن بُدیل بن ورقا ئ خزاعی .یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لاچکے تھے امام بخاری کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کا گلا کاٹا تھا(۵)

____________________

۱۔صحیح مسلم ۸: ۲۲۱، کتاب صفات المنافقین ؛ مسند احمد ۴: ۰۲۳؛البدایۃ والنھایۃ ۵: ۰۲

۲۔استیعاب ۳: ۵۲۳؛ اسدالغابہ ۴: ۷۵۳.قال ابن وضاح : انّما سکت مالک فی الموطأ عن اسمه لأنه ، کان ممّن أعان علی قتل عثمان

۳۔ استیعاب۳: ۲۳۴.ولد قبل وفاة رسو ل الله بسنتین ...فکتب الیه أی الی والده رسول الله سمّه محمد ...وکان أشدّ النّاس علی عثمان المحمّدون : محمد بن أبی بکر ،محمد بن حذیفة ،ومحمد بن عمرو بن حزم

۴۔انساب ۶:۰۶۱؛ تاریخ المدینۃ ۱: ۲۱۱.هو أوّل من أجترأ علی عثمان ...لمّا أرادوا دفن عثمان ، فانتهوا الی البقیع ، فمنهم من دفنه جبلة بن عمرو فانطلقوا الی حش کوکب فدفنوه ، فیه .

۵۔تاریخ الاسلام ( الخلفائ): ۷۶۵.أسلم مع أبیه قبل الفتح وشهد الفتح ومابعدها ...انّه ممّن دخل علی عثمان فطعن عثمان فی ودجه

۵۲

۵ ۔ محمد بن ابو بکر(رض) : یہ حجۃ الوداع کے سال میں پیدا ہوئے اور امام ذہبی کے بقول انہوں نے حضرت عثمان(رض) کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کی ڈاڑھی کو پکڑ کر کہا : اے یہودی ! خدا تمہیں ذلیل و رسوا کرے(۱)

۶ ۔عمروبن حمق : یہ بھی صحابی پیغمبر(ص)تھے جنہوں نے امام مزی کے بقول حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر (ص) کی بیعت کی تھی اور امام ذہبی کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان (رض) پرخنجر کے پے در پے نو وار چلاتے ہوئے کہا: تین خنجر خداکے لئے مار رہا ہوں اور چھ اپنی طرف سے :

وثب علیه عمرو بن الحمق وبه عثمان رمق وطعنه، تسع طعنات وقال : ثلاث لله وستّ لمّا فی نفسی علیه .(۲)

۷ ۔ عبدالرحمن بن عدیس : یہ اصحاب بیعت شجرہ میں سے ہیں اور قرطبی کے بقول مصر میں حضرت عثمان(رض) (رض)کے خلاف بغاوت کرنے والو ں کے لیڈر تھے یہاں تک کہ حضرت عثمان(رض) کو قتل کر ڈالا(۳)

۔کیا ہم صحابہ کرام (رض) کو گالیاں دیتے ہیں

سوال ۷۲: کیا یہ درست ہے کہ ہم اہل سنّت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو گالیاں دیتے اور ان پر لعنت

____________________

۱۔تاریخ الاسلام : ۱۰۶.ولدته اسمائ بنت عمیس فی حجة الوداع وکان أحد الرّؤوس الّذین ساروا الی حصا ر عثمان.

۲تهذیب الکمال۴۱:۴۰۲؛ تهذیب التهذیب ۸:۲۲.بایع النبیّ فی حجة الوداع وصحبه، ...کان أحد من ألّب علی عثمان بن عفان.وقال الذّهبی انّ المصریین أقبلوا یریدون عثمان ...وکان رؤوسائهم أربعة : ...وعمرو بن حمق الخزاعی ...تاریخ الاسلام (الخلفائ):۱۰۶و ۱۴۴

۳۔استیعاب ۲: ۳۸۳؛ تاریخ الاسلام ( الخلفائ): ۴۵۶.عبدالرّحمن بن عدیس مصری شهد الحدیبیة وکان ممّن بایع تحت الشجرة رسول الله وکان أمیر علی الجیش القادمین من مصر الی المدینة الّذین حصروا عثمان وقتلوه،

۵۳

کرتے ہیں ؟جیسا کہ حضرت عثمان(رض) کے قاتلوں پر لعنت اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں جبکہ وہ سارے کے سارے صحابہ کرام ہی تھے ان میں سے بعض بدری ، بعض اصحاب شجری، بعض اصحاب عقبہ اور بعض نے جنگ احد و حنین میں رسالت مآب کے ساتھ شرکت کی

امام ذہبی فرماتے ہیں :کلّ من هؤلائ نبرئ منهم ونبغضهم فی الله ...نرجو له ، النّار (۱) ہم ان سب سے بری الذمہ ہیں ،ان سے خدا کی خاطر بغض رکھتے ہیں اور ان کے لئے جہنّم کی آرزو کرتے ہیں

امام ابن حزم لکھتے ہیں:

لعن الله من قتله، والرّاضین بقتله ...بل هم فسّاق محاربون سافکون دما حراما عمدا بلا تأویل علی سبیل الظّلم والعدوان فهم فسّاق ملعونون (۲)

خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا اور جو ان کے قتل پر راضی ہیں ...یہ لوگ فاسق ، محارب اور بغیر تاویل کے محترم خون بہانے والے ہیں لہذافاسق و ملعون ہیں

اسی طرح ہمارے ایک اور عالم دین لکھتے ہیں: کوفہ اور بصرہ کے بے دین باغیوں نے حضرت عثمان (رض) کے خلاف بغاوت کی ...یہ باغی اور ظالم جہنّمی ہیں(۳)

کیا وجہ ہے کہ جب امام حسین(رض) کے قاتلوں کی بات آتی ہے تو ہمارے علمائ فرماتے ہیں یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے اور ہمیں حق حاصل نہیں ہے کہ ہم یزید یا کسی دوسرے کو برابھلا کہیں جبکہ حضرت عثمان(رض) کے قاتل صحابہ کرام (رض) تھے پھر بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں کیا یہ امام حسین(رض) سے دشمنی کی علامت نہیں ہے؟

۔کیا صحابہ کرام(رض) ، پیغمبر (ص) کو قتل کردینے میں ناکام ہو گئے

سوال ۷۳ : کیا یہ حقیقت ہے کہ عقبہ والی رات جنگ تبوک سے واپسی پر جب پیغمبر ایک گھاٹی

____________________

۱۔تاریخ الاسلام ( الخلفائ ) ۴۵۶

۲۔الفصل ۳: ۴۷و ۷۷

۳۔شہسوار کربلا : ۱۲، ۲۲اور ۵۲

۵۴

سے گذرنے لگے تو بارہ صحابہ کرام(رض) نے انہیں قتل کرنے کی خاطران پر حملہ کردیا...ہاں یہ کونسے صحابہ تھے ؟ جب میں نے امام حزم کا یہ قول پڑھا کہ جس میں انہوں نے ان میں سے پانچ کے نام ذکر کئے ہیں تو مجھے بہت تعجب ہوا:

أنّ أبا بکر وعمر وعثمان وطلحه وسعد بن أبی وقاص أرادوا قتل النبّی والقائه، من العقبة فی تبوک (۱)

اگرچہ امام ابن حزم نے اس حدیث کے راوی ولید بن جمیع کو ضعیف لکھا ہے لیکن ہمارے علمائے رجال جیسے ابو نعیم ، ابو زرعہ ، یحیٰی بن معین ، امام احمد بن حنبل ، ابن حبان ، عجلی اور ابن سعد اسے مؤثق راوی شمار کرتے ہیں(۲)

استاد بزرگوار یہ حدیث پڑھ کر مجھے بہت حیرانگی ہوئی کہ ہمارے سلف صالح صحابہ کرام(رض) کا اپنے نبی کے ساتھ کیسا رویہ تھا ؟!

۔کیا بعض صحابہ کرام (رض) خارجی تھے

سوال۷۴ : کیا یہ بھی صحیح ہے کہ کچھ صحابہ کرام (رض)خارجی اور حدیث پیغمبر کے مطابق کافر(۳) اور جہنّم کے کتّے تھے.(۴)

ان صحابہ کرام(رض) کے نام کچھ اس طرح ہیں :

۱ ۔ عمران بن حطان : اس نے عبدالرحمن بن ملجم حضرت علی(رض) کے قاتل کی تعریف کی ہے(۵)

____________________

۱۔المحلّیٰ ۱۱: ۴۲۲

۲۔ الثقات : ۵۶۴؛ تاریخ الاسلام ( خلفائ) : ۴۹۴؛ البدایۃ والنھایۃ ۵: ۵۲

۳۔سنن ابن ماجہ: ۲۶،ح۶۷۱، مقدمہ ، ب ۲۱

۴۔مسند احمد ۴۱: ۵۵۳،الخوارج کلاب اھل النّار.

۵۔الاصابۃ ۳: ۹۷۱

۵۵

۲ ۔ ابووائل شقیق بن سلمہ : اس نے رسول اللہ سے ملاقات کی اور ان سے روایت بھی نقل کی ہے(۱)

۳ ۔ ذوالخویصرۃ : یہ خوارج کا سردار تھا(۲)

۴ ۔ حرقوص بن زہیرسعدی :یہ بھی خوارج کے بڑوں میں سے تھا(۳)

۵ ۔ ذوالثدیۃ : یہ جنگ نہروان میں مارا گیا تھا(۴)

۶ ۔ عبداللہ بن وہب راسبی : یہ بھی خوارج کے سرداروں میں سے تھا(۵)

کیا ایسے لوگ جنہیں پیغمبر نے کافر اور جہنّمی کتّے قرار دیا ہو وہ بھی عادل ہو سکتے ہیں جیسا کہ ہمارا نظریہ ہے کہ سارے کے سارے صحابہ عادل تھے اور ان میں سے جس کی پیروی کی جائے درست ہے!!(۶)

۔کیا حضرت ابوبکر وعمر (رض) کے فضائل جھوٹ ہیں

سوال ۷۵: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت ابو بکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی شان میں نقل کی جانے والی بہت سی احادیث جھوٹی اور جعلی ہیں جیسا کہ ا مام عسقلانی فرماتے ہیں :

ینبغی أن یضاف الیها الفضائل، فهذه أودیة الاحادیث الضعیفة والموضوعة ...أمّا الفضائل فلا تحصٰی کم من وضع الرّافضة فی فضل اهل بیت وعارضهم

____________________

۱۔اسد الغابہ ۳: ۳؛ الاصابہ ۲: ۸۴. دارالکتب العلمیۃ

۲۔البتہ کہا جاتا ہے کہ اس نے بعد میں توبہ کر لی تھی. شرح ابن ابی الحدید۴: ۹۹

۳۔حوالہ سابق

۴۔ تاریخ طبری : ۴؛ مسند احمد ۵۵۷۴۱؛ ااصابہ ۲: ۴۷۱

۵۔ الاصابۃ ۵: ۶۹؛ مختصرمفید ۱۱: ۶۳۱

۶۔الاصابۃ ۱: ۹

۵۶

جهلة أهل السّنة بفضائل معاویة ، بدؤا بفضائل الشیخین (۱)

۔کیا حضرت ابو ہریرہ (رض) چور تھے

سوال ۷۶: کیا یہ حقیقت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) چور تھے اور انہوں نے بیت المال سے بہت زیادہ مال چرا یاتھا ؟ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے انہیں دشمن خدا کے لقب سے نوازتے ہوئے فرمایا :

یا عدوّ الله وکتابه، سرقت مال الله (۲)

اے دشمن خدا و قرآن ! تو نے مال خدا کو چرا لیا

کیا ایسے شخص کو احادیث رسول اور دین کا امین بنایا جاسکتا ہے جودنیا کے مال میں خیانت کر رہاہو اور پھر فاروق (رض) کی نظر میں شمن خداہو ؟!

۔ کیا ابوہریرہ(رض) کی روایات مردود ہیں

سوال ۷۷:کیا یہ درست ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جو پانچ ہزار احادیث کے راوی اور امام بخاری نے بھی چار سو سے زیادہ احادیث انہیں سے بخاری شریف میں نقل کی ہیں وہ حضرت علی(رض) ، حضرت عمر (رض) اور حضرت عائشہ (رض) اُمّ المؤمنین کے نزدیک قابل اعتماد انسان نہیں تھے ؟ )

اسی طرح امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں : تمام صحابہ عادل ہیں سوا ابو ہریرہ اور انس بن مالک و...کے.(۴)

حضرت عمر (رض) نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا:یا عدوّ الله وعدوّ کتابه

اے دشمن خدا و قرآن(۵)

____________________

۱۔ لسان المیزان ۱: ۶۰۱، طبعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت

۲۔الطبقات الکبرٰی ۴: ۵۳۳؛ سیر اعلام النبلائ ۲: ۲۱۶

۳۔شرح ابن ابی الحدید ۰۲: ۱۳

۴۔شرح ابن ابی الحدید ۴: ۹۶.الصحابة کلّهم عدول ماعدا رجالا منهم ابو هریرة و انس بن مالک.

۵۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۲۱۶؛ الطبقات الکبرٰی ۴: ۵۳۳

۵۷

حضرت عائشہ(رض) نے ا س پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا:أکثرت عن رسول الله

تو نے رسول خدا(ص) سے احادیث نقل کرنے میں مبالغہ کیا ہے(۱) ایک اور مقام پر فرمایا:

ما هذه الاحادیث الّتی تبلغنا أنّک تحدّث بها عن النّبی هل سمعت الّا ما سمعنا ؟ وهل رأیت الاّ ما رأینا ؟ (۲) یہ کیسی احادیث ہیں جو ہم تک تمہارے واسطے سے پہنچی ہیںجنہیں تو پیغمبر (ص) سے نقل کرتا ہے. کیا تو نے کوئی ایسی بات آنحضرت (ص) سے سن لی تھی جو ہم نے نہ سنی یا کوئی ایسی چیز دیکھ لی تھی جو ہم نے نہ دیکھی ؟

مروان بن حکم نے اعتراض کرتے ہوئے ابوہریرہ سے کہا :

انّ النّاس قد قالوا: أکثر الحدیث عن رسول الله(ص) وانّما قد قبل وفاته بیسیر

لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس قدراحادیث کیسے رسول (ص) سے نقل کرلیں جبکہ وہ تو آن حضرت کی وفات سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہوا ہے ؟(۳)

کبھی کبھار کہا کرتے میرے خلیل ابولقاسم (پیغمبر (ص))نے مجھ سے فرمایا،توحضرت علی (رض) روکتے ہوئے ان سے فرماتے : متی کان خلیلا لک کب پیغمبر (ص) تمہارے خلیل رہے ہیں !!(۴)

فخر رازی کہتے ہیں:انّ کثیرا من الصحابة طعنوا فی أبی هریرة وبیّناه من وجوه: أحدها : أنّ أبا هریرة روی أنّ النبیّ قال : من أصبح جنبا فلا صوم له، .فرجعوا الی عائشة وامّ سلمة فقالتا: کان النبّی یصبح ثمّ یصوم فقال: هما أعلم بذلک ،أنبأنی

____________________

۱۔ سیر اعلام النبلائ ۲: ۴۰۶

۲۔ حوالہ سابق

۳۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۱۶

۴۔ اسرار الامامۃ ۵۴۳،(حاشیہ) ،المطالب العا لیۃ ۹: ۵۰۲

۵۸

هذالخبر الفضل بن عباس واتّفق أنّه، کان میّتا فی ذلک الوقت (۱)

بہت سے صحابہ کرام(رض) ابو ہریرہ کو اچھا نہ سمجھتے اور اس کی چند ایک وجوہات بیان کی ہیں:

ان میں سے ایک یہ کہ ایک مرتبہ ابو ہریر ہ نے کہا : آنحضرت نے فرمایا: جو شخص جنابت کی حالت میں فجرکے بعد بیدار ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے جب یہی سوال حضرت عائشہ(رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: پیغمبر ایسی صورت میں بھی روزہ رکھا کرتے تھے جب ابو ہریرہ کو اس کی خبر ملی تو کہنے لگے : وہ مجھ سے بہتر جانتی ہیں اور مجھے تو فضل بن عباس نے یہ خبر دی تھی جبکہ اس وقت فضل فوت ہو چکے تھے

ابراہیم نخعی اس کی ان کی احادیث کے بارے میں کہتے ہیں:

کان أصحابنا یدعون من حدیث أبی هریرة (۲)

ہمارے ہم مذہب ابوہریرہ کی احادیث کو ترک کر دیتے تھے

اسی طرح کہا ہے:ماکانوا یأخذون من حدیث أبی هریرة الاّ ماکان من حدیث جنّة أو نار (۳) ہمارے ہم مذہب افراد ابو ہریرہ کی احادیث میں سے فقط انہیں کو نقل کیا کرتے جو جنّت یا جہنّم کے متعلق ہوا کرتیں

۔حضرت ابوہریرہ(رض) کا توہین آمیز روایات نقل کرنا

سوال ۷۸: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت ابو ہریرہ (رض) انبیائ علیہم السّلام کے متعلق ایسی ایسی احادیث نقل کیا کرتے جن سے ان کی توہین ہوتی .جیسا کہ امام بخاری نے ان روایات کو اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے:

____________________

۱۔حوالہ سابق

۲۔سیراعلام النبلائ ۲: ۹۰۶؛تاریخ ابن عساکر۹۱: ۲۲۱

۳۔حوالہ سابق

۵۹

۱ ۔لم یکذب ابراهیم الاّ ثلاثة کذبات

حضرت ابراہیم (ص) نے تین بار جھوٹ بولا (نعوذ باللہ).(۱)

جبکہ امام فخر رازی فرماتے ہیں:لا یحکم بنسبة الکذب الیهم الاّ الزّندیق

انبیائ (ع)کی طرف جھوٹ کی نسبت زندیق ہی دے سکتا ہے(۲)

دوسرے مقام پر فرمایا: حضرت ابراہیم (ص) کی طرف جھوٹ کی نسبت دینے سے آسان یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی (ابوہریرہ) کو ہی جھوٹا کہا جائے(۳)

۲ ۔ ابوہریرہ کہتے ہیں :ایک دن حضرت موسٰی (ع) غسل کرنے کے بعد ننگے بنی اسرائیل کے درمیان پہنچ گئے .(نعوذ باللہ)(۴)

۔کیا عشرہ مبشرہ والی حدیث جھوٹی ہے

سوال۷۹: کیا یہ درست ہے کہ حدیث عشرہ مبشرہ جھوٹی اور بنو امیہ و بنو عباس کی گھڑی ہوئی احادیث میں سے ہے اس لئے کہ اگر صحیح حدیث ہوتی تو صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بھی اسے نقل کیا جاتا ؟

اور اگریہ حدیث صحیح تھی تو پھر روزسقیفہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے اس سے استدلال کیوں نہ کیاجبکہ اس کے علاوہ ہر ضعیف حدیث کا سہارا لیا درحالانکہ اس حدیث سے استدلال کرنا ان کے مدّعا کو بہت فائدہ پہنچا سکتا تھا ؟

کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ہیں ایک میں حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف ہے جس نے اس حدیث کو اپنے باپ سے نقل کیا ہے جبکہ وہ اپنے باپ کی وفات کے وقت ایک سال کا تھا(۵)

____________________

۱۔صحیح بخاری ۴: ۲۱۱

۲۔تفسیر رازی ۲۲: ۶۸۱و۶۲: ۸۴۱ ۳۔حوالہ سابق

۴۔صحیح بخاری ۴: ۹۲۱؛ بدئ الخلق ۲: ۷۴۲،طبع دارالمعرفۃ

۵۔تہذیب التہذیب ۳: ۰۴

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (1) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت 165

(2)۔ بحارا لانوار، ج38، ص 335

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(1)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (2) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (3)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (4)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(5)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح ابن الحدید، ج15، ص 215؛ بحار الانوار، ج20، ص 121 (2)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت 101

(3)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت 57 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 176

(5)۔ بحار، ج75، ص 167 (6)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت 67

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (1)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(2)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(3)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(4) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار ، ج78، ص 71 (2)۔ میزان الحکمہ

(3)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (5)۔ اصول کافی، ج2، ص 133

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

1۔ عفو و درگزر 2۔ راز داری

3۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا 5۔ عذر قبول کرنا

5۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا 5۔ خیر خواہی کرنا

7۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا 8۔ عیادت کرنا

9۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا 10۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

11۔ اسکے تحفے کی جزا دینا 12۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

13۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا 15۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

15۔ اسکی حاجت روائی کرنا 16۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

17۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا 18۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

19۔ اسکے سلام کا جواب دینا 20۔ اسکی بات کا احترام کرنا

21۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا 22۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

23۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

25۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

25۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(1)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (2)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(3)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (4) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج75، ص 236 (1)۔ تفسیر قمی، ج1، ص 73

(3)۔ تحف العقول ص 171 (5)۔ بحارالانور، ج10، ص 23ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(1)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

1۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(2)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ 56

(2)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

صلح ''والصُّلح خَیر'' (1) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (2)

2۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (3)

3۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (4)

5۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (5)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (6) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (2)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت 1

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 35

(5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (6)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (1) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (2)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

1۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (3)

2۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (4)

3۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 129 (2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 85

(3)۔بحارا الانوار،ج69، ص 252 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 115

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (1)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

5۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (2)

5۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (3)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 225

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 182 (3)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت 9

۱۰۹

1۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (1) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (2) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

2۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (3) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

3۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

1۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (4) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (2)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 91

(3)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (5)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 132

(5)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت 155

۱۱۰

2۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (1)

3۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

5۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (2)

5۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (3)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (4)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

2۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت 56 (2)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت 56

(3)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت 205 (5)۔ وسائل الشیعہ، ج2، ص 515 (5)۔ مستدرک، ج9، ص 55

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

3۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

5۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(1)

5۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص 31

(2)۔کافی، ج2، ص 206

۱۱۲

آیت نمبر 11

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(1) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کتاب العین (2)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

1۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

2۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

3۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

5۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

5۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

6۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

7۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

8۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

9۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

10۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (1) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

11۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

1۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (2) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 160

(2)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ 1۔2

۱۱۶

2۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (1) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

3۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (2) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

5۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (3)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

5۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

6۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ غافر 83

(2)۔ سورئہ مبارکہ فصلت 15

(3)۔ سورئہ مبارکہ ھود 27

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (1) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

7۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (2) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 58

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 67

(3)۔مستدرک الوسائل ج/9، ص 105

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (1)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(2)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 65 (2)۔ وسائل الشیعہ ج/ 12،ص270

۱۱۹