استاد محترم سے چند سوال

استاد محترم سے چند سوال50%

استاد محترم سے چند سوال مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 119

استاد محترم سے چند سوال
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 119 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 101164 / ڈاؤنلوڈ: 5766
سائز سائز سائز
استاد محترم سے چند سوال

استاد محترم سے چند سوال

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

محدثین نے بھی اسے نقل کیا ہے .اور جو لوگ اس علم میں مہارت نہیں رکھتے ،ان کا اس حدیث کو ضعیف قرار دیناکوئی اعتبا ر نہیں رکھتا(۱)

۵ ۔ قرطبی : حدیث مؤاخات ، حدیث خیبر اور حدیث غدیر ساری کی ساری ثابت شدہ ہیں.(۲)

کیا وجہ ہے کہ علمائ و محدثین اسلام کی گواہی کے باوجود ہم اس حدیث کے مطابق حضرت علی(رض) کی خلافت بلا فصل کو ماننے کو تیار نہیں اور ہاں کیا اگر یہی حدیث حضرت ابو بکر (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہوتی تو پھر بھی ہمارا رویہ یہی ہوتا؟ !

۔کیا حضرت معاویہ(رض) کی مخالفت جرم ہے

سوال ۵۵: کیا یہ درست ہے کہ ہمارے علمائ حضرت معاویہ (رض) اور عمرو بن عاص کی مخالفت کو ناقابل بخشش گناہ سمجھتے ہیں جبکہ حضرت علی (رض) کی مخالفت کو اہمیت بھی نہیں دیتے اور اسے ایک معمولی سی بات تصور کرتے ہیں ؟ جیسا کہ امام ذہبی نے دو مقامات پر نسائی اور حریز بن عثمان کے بارے میں لکھا ہے :

امام نسائی کے متعلق لکھا ہے : وہ حضرت معاویہ اور حضرت عمرو بن عاص سے منحرف تھے خدا ان کو معاف کرے(۳) جبکہ حریز بن عثمان جو حضرت علی(رض) پر لعنت کیا کرتا تھا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ثقہ اور عادل تھے!(۴)

۔سفیان ثوری کاحضرت علی(رض) سے کینہ رکھنا

سوال۵۶: کیا یہ درست ہے کہ سفیان ثوری جو ہم اہل سنّت کے بہت بڑے محدّث شمار ہوتے ہیں وہ حضر ت علی(رض) کے فضائل ومناقب کو ناپسند کرتے اور ناراض ہو پڑتے ہیں؟ جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے:

____________________

۱۔ اسنی المطالب : ۷۴.تواتر عن امیرالمؤمنین وهو متواتر أیضا عن النبیّ رواه، الجمّ الغفیر ولا عبرة بمن حاول تضعیفه ممّن لا اطلاع له، فی هذا العلم .

۲۔استیعاب ۲: ۳۷۳.حدیث المواخاةوروایة خیبر والغدیر هذه کلّها آثار ثابتة

۳۔سیر اعلام النبلائ ۴۱: ۲۳۱

۴۔العبر ۱: ۵۸۱؛میزان الاعتدال ۱: ۶۷۴؛ سیر اعلام النبلائ ۷: ۰۸؛تہذیب الکمال ۴:۳۳۲

۴۱

عن سفیان ثوری قال: ترکتنی الرّوافض وأنا أبغض أن أذکر فضائل علیّ رضی اللّٰه عنه (۱)

شیعوں نے مجھے اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ میں حضرت علی (رض) کے فضائل بیان کرنے کو پسند نہیں کرتا

البتہ امام ذہبی نے صحابہ کرام کا یہ قول بھی نقل کیاہے :

ما کنّا نعرف المنافقین الاّ ببغض علیّ (۲)

ہم منافقین کو علی (رض) سے بغض کے ذریعہ پہچانا کرتے تھے

کیا یہ درست ہے کہ ایسے شخص کی روایات پر یقین کرلیا جائے اور اسے ا پنے زمانہ کا ابوبکر (رض) و عمر(رض) سمجھ لیا جائے :کان الثّوری عندنا امام النّاس وکان فی زمانه کأبی بکر وعمر فی زمانهما (۳) یا یہ کہ حضرت ابو بکر (رض)اور حضرت عمر (رض) بھی ایسے ہی تھے ؟

۔ہمارا حضرت فاطمہ(رض) کی مخالفت کرنا

سوال ۵۷: کیا یہ صحیح ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کائنات کی تمام عورتوں میں سے حضرت فاطمہ (رض) سب سے افضل اور سیدہ نسائ العالمین ہیں.(۴)

تو پھر کیا وجہ ہے کہ نماز جمعہ کے خطبے میں حضرت عائشہ (رض) کانام تو لیاجاتا ہے جبکہ سیدہ نسائ العالمین کا کبھی تذکرہ تک نہیں ہوتا ؟

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۷: ۳۵۲؛ حلیۃ الأولیائ ۷: ۷۲

۲۔سیر اعلام ( الخلفائ ): ۶۳۲

۳۔سیر اعلام ( الخلفائ ): ۶۳۲

۴۔ شرح ابن ابی الحدید ۰۲: ۷۱.کیف تکون عائشة أو غیرها فی منزلة فاطمة وقد أجمع المسلمون کلّهم من یحبّها ومن لا یحبّها منهم : أنّهاسیّدة نسائ العالمین .ابوبکر داؤد کہتے ہیں :لاأُفضل ببضعة من رسول الله صلی الله علیه وسلم ۔أحدا. ارشاد الساری فی شرح صحیح بخاری ۶: ۰۱؛ غالیۃ المواعظ ۱: ۰۷۲؛ تاریخ الخمیس ۱: ۵۶۲؛ الروض الأنف ۱:۰۶۱

۴۲

حضرت عائشہ(رض) اور دیگر امہات المؤمنین(رض)

۔کیا ازواج پیغمبر(ص)دوگروہ میں بٹی ہوئی تھیں

سوال ۵۸: کیا یہ صحیح ہے جیسا کہ امام ذہبی وغیرہ نے بیان فرمایا ہے کہ پیغمبر (ص) کی ازواج مطہّرات دو گروہ میں بٹی ہوئی تھیں ایک گروہ میں حضرت عائشہ (رض) وحفصہ (رض) تھیں اور دوسرے میں حضرت امّ سلمہ وبقیہ ازواج مطہرات(۱) اور حکومتیں حضرت عائشہ(رض) کی حمایت کیا کرتیں .جس کے مندرجہ ذیل نمونے ذکر کر رہے ہیں :

۱ ۔ خلیفہ دوم پیغمبر (ص) کی تمام ازواج کو بیت المال میں سے دس ہزار دینار(درہم) دیا کرتے جبکہ حضرت عائشہ(رض) کو دو ہزار ،ان سے زیادہ دیا جاتا.

۲ ۔ حضرت معاویہ (رض) نے ایک لاکھ درہم (دینار) کا حوالہ حضرت عائشہ(رض) کی خدمت میں ارسال کیا ۔

۳ ۔ اسی طرح ایک لاکھ درہم کا ایک گردن بند بھی انہیں دیا۔

۴ ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے ایک لاکھ درہم حضرت عائشہ (رض) کے سپرد کیا(۲)

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۴۱و ۷۸۱؛صحیح بخاری ۲: ۹۸،کتاب الھبہ ؛المعجم الکبیر ۳۲: ۰۵،ح ۲۳۱؛ مقدمہ فتح الباری : ۲۸۲؛ تحفہ احوذی ۰۱: ۵۵۲

۲۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۴۱و ۷۸ا

۴۳

۔حضرت عائشہ(رض) پہلے سے شادی شدہ تھیں

سوال ۵۹:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) حضور علیہ الصلاۃ والسّلام سے پہلے کسی اور سے شادی کر چکیتھیں اور ان کے شوہر کا نام جبیر تھا پھر حضرت ابوبکر نے جبیر سے طلاق دلوا کر پیغمبر سے ان کا نکاح کروا دیا ؟

اور ان کا بار باریہ اصرار کرنا کہ جب رسول خدا سے میری شادی ہوئی تومیں کنواری تھی ،تویہ محض اس لئے تھا تاکہ کوئی ان کی پہلی شادی کے بارے میں شک نہ کر پائے

ابن سعد:خطب رسول الله عائشة الی أبی بکر الصّدیق : فقال : یارسول الله انّی کنت أعطیتها مطعما لابنه جبیر فدعنی حتّی أسلّمها منهم فطلقها ، فتزوّجها رسول الله (۱)

البتہ جہاں تک میرے علم میں ہے کوئی بھی شیعہ ایسا عقیدہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کی کسی کتاب کے اندر کوئی ایسی بات ملتی ہے جبکہ افسوس یہ ہے کہ ہماری قدیمی ترین کتب میں یہ بات موجود ہے

لقد أعطیت تسعا ما أعطیتها امرأة بعد مریم:لقد نزل جبرائیل بصورتی ...ولقد تزوّجنی بکرا وما تزوّج بکرا غیری ...وان کان الوحی لینزل علیه وانّی لمعه فی لحافه (۲)

۔امام حسن (رض) کا جنازہ دفن نہ ہونے دینا

سوال ۶۰:کیا یہ درست ہے کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض)کے حکم پر جوانان جنّت کے سردار حضرت امام حسن مجتبٰی (رض)کاجنازہ پیغمبر (ص) کے روضہ مبارک کے پاس لانے سے روک دیا گیا؟ جبکہ خود حضرت عائشہ (رض) نے دستور دیا کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ کو مسجد میں نبوی میں لا کر اس پر نماز جنازہ ادا کی جائے ) تو کیا حضرت عائشہ (رض) امّ المؤمنین نہ تھیں یا امام حسن (رض)مومن نہ تھے کہ ان کے جنازہ کو روک دیا گیا؟

____________________

۱۔لطبقات الکبرٰی ۸: ۹۵

۲۔ سیر اعلام النبلائ ۲: ۰۴۱و ۱۴۱ ۳۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۵۰۶؛طبقات ابن سعد ۳: ۸۴۱

۴۴

۔ابن زبیر کاحضرت عائشہ(رض) کو گمراہ کرنا

سوال ۶۱:کیا یہ بھی درست ہے کہ عبداللہ ابن زبیر نے حضرت عائشہ (رض) کو فریب دیکر جنگ جمل کے لئے آمادہ کیا جس میں کتنے مسلمانوں کا ناحق خون بہا .جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر(رض) نے یہ تلخ حقیقت حضرت عائشہ(رض) کے گوش گزار فرمائی اور امام ذہبی نے اسے یوں نقل کیا :

قالت عائشه اذا مرّ ابن عمر ، یا عبدالرحمن مامنعک أن تنهانی عن سیری ؟ قال : رأیت رجلا قد غلب علیک یعنی ابن الزّبیر (۱)

ان تمام تر حقائق کے باوجود ہمارے علمائ کس لئے جنگ جمل کی غلط توجیھات کر تے اور عبداللہ بن زبیرکی حمایت کرتے ہیں جو کتنے صحابہ کرام(رض) کے قتل کا باعث بنا ؟

۔حضرت عائشہ (رض) کا حضور(ص) کی توہین کرنا

سوال ۶۲:کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) ایسی ایسی روایات نقل کیا کرتیں جن میں پیغمبر کی توہین کی جاتی اور کوئی بھی غیرت مند مسلمان انہیں برداشت نہیں کر سکتا(۲) یقینا ان میں سے بعض جھوٹی اور شریعت وسیرت پیغمبر کے کاملا مخالف ہیں :

۱ ۔ حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں: تزوّجنی بکرا جب پیغمبر(ص)نے مجھ سے شادی کی تو باکرہ تھی

۲ ۔ وہی فرماتی ہیں:کان رسول الله یأتیه الوحی ، وأنا وهو فی لحاف

جب آپ (ص) پر وحی نازل ہوتی تو ہم ایک ہی لحاف میں ہوتے(۳)

۳ ۔انّ عائشة تخبر النّاس أنّه صلّی الله علیه وسلّم کان یقبّل وهو صائم (۴)

____________________

۱۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۹۱

۲۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۹۱،۱۹۱و ۲۷۱

۳۔ حوالہ سابق

۴۔صحیح بخاری ۲: ۲، کتاب العیدین ، باب الحرب والدرق یوم العید ،اور ۴: ۷۴، کتاب الجھاد ، باب الدرق ؛ صحیح مسلم ۲: ۹۰۶، کتاب الصّلاۃ.

۴۵

حضرت عائشہ (رض) لوگوں کو یہ بتایا کرتیں کہ آںحضرت (ص) حالت روزہ میں (اپنی بیوی کا) بوسہ لیا کرتے ۔

۴ ۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں:ایک دن حضور (ص) تشریف لائے تو میرے پاس گانے والی دو کنیزیں گانے میں مشغول تھیں لیکن آپ(ص) توجہ کئے بغیر اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئے .اتنے میں حضرت ابو بکر (رض) تشریف لائے تو ناراض ہوتے ہوئے فرمایا: گانا اور وہ بھی پیغمبر(ص) کے گھر میں !! آںحضرت (ص) نے فرمایا: انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو .(تاکہ وہ گانے گا سکیں)جیسے ہی حضرت ابوبکر (رض) نے توجہ ہٹائی تو میں نے ان دونوں کنیزوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔دخل علیّ رسول الله وعندی جاریتان تغنّیان بغنائ بعاث فاضطجع علی الفراش وحوّل وجهه ودخل أبو بکر فانتهزنی وقال مزمار الشیطان عند النبیّ فأقبل علیه رسول الله وقال دعها ...(۱)

۵ ۔ عید کے د ن پیغمبر(ص) نے مجھے کٹھ پتلیوں کا کھیل دکھایا(۲)

۶ ۔ ایک دن عید کے روز حبشہ سے کچھ رقص کرنے والی آئیں تو آنحضرت (ص) نے مجھے بلا کر میرا سر اپنے شانے پر رکھا اور ان کا رقص دیکھنا شروع کیا(۳)

۔جوان کا رضاعی بھائی بن سکنا

سوال ۶۳:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کا نظریہ یہ تھا کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کا پانچ مرتبہ دودھ پی لے تو وہ اس کا رضائی بیٹا اور محرم بن جائے گا یہی وجہ ہے کہ جب بھی حضرت عائشہ (رض) کسی مردکو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینا چاہتیں تو وہ اس سے کہتیں کہ پہلے جاؤ میری بہن اسمائ کادودھ پیو تا کہ اس طرح آپ ان کی خالہ اور محرم بن جائیں. جبکہ دوسری طرف پیغمبر اکرم کی تمام ترا زواج مطہّرات اس نظریے کی شدید مخالف تھیں جیسا کہ ابودؤود سے نقل ہوا ہے :

____________________

۱۔حوالہ سابق

۲۔ صحیح بخاری ۲: ۲۰۲

۳۔ صحیح مسلم ۲: ۹۰۶ ، کتاب صلاۃ العیدین

۴۶

عن عائشة واُمّ سلمة أنّ أبا حذیفة کان تبنّیٰ سالما وأنکحه، ابنةأخیه...فجائت امرأة أبی حذیفة فقالت : یا رسول الله ! انّاکنّا نریٰ سالما ولدا وکان یأوی معی ومع أبی حذیفة فی بیت واحد ویرانی فضلا .وقد أنزل الله فیهم ماقد علمت فکیف ترٰی فیه ؟

فقال لها النبیّ : أرضعیه ، فأرضعته خمس رضاعات فکان بمنزلة ولدها من الرّضاعة .فبذٰلک کانت عائشة تأمر بنات أخواتها وبنات اخوتها أن یرضعن من أحبّت عائشة أن یراها ویدخل علیها وان کان کبیرا ، خمس رضاعات ثمّ یدخل علیها وأبت اُمّ سلمة وسائرأزواج النّبی أن یدخلن علیهنّ بتلک الرّضاعةأحدا حتّٰی یرضع فی المهد(۱)

حضرت عائشہ اورحضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ نے سالم کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا اور اس کا نکاح اپنی بھتیجی سے کیا ایک دن اس کی بیوی آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کرنے لگی : ہم نے سالم کو اپنا بیٹا بنا رکھا ہے جبکہ وہ ہمارے ساتھ رہتا اور ہمیں گھر کے لباس میںبھی دیکھتا ہے جبکہ حکم پروردگار بھی اس بارے میں نازل ہو چکا ہے جیسا کہ آپ (ص) (ص) جانتے ہیں تو اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟

آنحضرت نے فرمایا : اسے پانچ مرتبہ دودھ پلا دو تو وہ تمہارا رضاعی بیٹا بن جائے گا .یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) جب کسی کو اپنے پاس بلانا چاہتیں یا اسے دیکھنا چاہتیں تو اپنی بھتیجیوں اور بھانجیوں سے فرماتیں کہ اسے پانچ بار دودھ پلا دیں اگرچہ وہ شخص جوان ہی کیوں نہ ہوتا جبکہ پیغمبر

____________________

۱۔سنن ابوداؤد ۲: ۲۲۲؛ صحیح مسلم ۷: ۴

۴۷

کی باقی بیویاں اس کی مخالفت کیا کرتیں اور ایسے افراد کو گھر میں داخل نہ ہونے دیتیں.

۔مصحف حضرت عائشہ(رض)

سوال ۶۴:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس ایک مصحف تھا جسے مصحف عائشہ کہا جاتا(۱) اور اسی طرح بعض صحابہ کرام کے پاس بھی اپنے اپنے مصحف موجود تھے جیسے مصحف سالم مولٰی حذیفہ ، مصحف ابن مسعود ، مصحف ابی بن کعب ، مصحف مقداد ، مصحف معاذ بن جبل ، مصحف ابو موسٰی اشعری وغیرہ(۲)

ان مصحف اور حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھما کے مصحف میں کیا فرق ہے ؟ اگر ایک ہی چیز ہیں تو پھر ہم شیعوں پر کیوں اعتراض کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں حضرت فاطمہ (رض) کے پاس ایک مصحف تھا !

۔ صحابہ کرام(رض)کا حضرت عائشہ(رض) پر زناکی تہمت لگانا

سوال ۶۵: کیا یہ حقیقت ہے کہ رسالت مآب کے بعض صحابہ جیسے مسطح بن اثاثہ ، حسان بن ثابت اور حمنہ(۳) نے اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر زنا کی تہمت لگائی تھی اور رسول نے ان پر تہمت کی حد بھی جاری کی تھی ؟ ایسی بری بات شیعوں کی کتب میں موجود نہیں ہے جبکہ ہم اس تہمت کو ان کی طرف نسبت دیتے ہیں تاکہ کوئی ہمارے بارے میںایسا گمان ہی نہ کرنے پائے!

۔امّ المؤمنین کا بیس ہزار اولادکو قتل کروادینا

سوال ۶۶: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے جنگ جمل میں مؤمنین اور اپنی اولاد کے بیس ہزار افراد مروا ڈالے اور اگر کوئی ان پر اس بارے میں اعتراض کرتا تو اسے دشمن خداقرار دے کر اس سے انتہائی سختی سے پیش آتیں .یہاں تک کہ امّ اوفٰی کو اسی بات کی وجہ سے اپنی محفل سے نکال دیا؟ جیسا کہ ابن عبد ربُہ

____________________

۱۔تفسیر نسائی ۲: ۰۷۳؛ تفسیر بغوی ۲: ۱۳۳۲۔اسدالغابہ ۴: ۶۱۲

۳۔اسد الغابہ ۵: ۸۲۴.کانت ممّن قال فی الافک علی عائشة ...انّهاجلدت مع من جلد فیه.اور ۴: ۵۵۳،شهد مسطح بدرا وکان ممّن خاض فی الافک علی عائشة فجلده، النبّی فیمن جلده اور ۲:۶، وکان حسان بن ثابت ممّن خاض فی الافک فجلد فیه.

۴۸

نے لکھا ہے:

دخلت اُمّ اوفٰی العبدیة بعد الجمل علی عائشة فقالت لها:ما تقولین فی امرأة قتلت ابنا لها صغیرا؟ فقالت: وجبت لها النّار .قالت : فما تقولین فی امرأة قتلت من أولادها الأکابرعشرین ألفا فی صعید واحد : فقالت خذوا بید عدّوة الله (۱)

جنگ جمل کے بعدامّ اوفیٰ حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : ایسی عورت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس نے اپنے چھوٹے بچے کو قتل کر ڈالا ہو ؟ تو فرمایا: اس کی سزا جہنّم ہے .عرض کیا : اگر کوئی عورت اپنی بیس ہزار نوجوان اولاد مروا دے تو اس کا کیا حکم ہو گا ؟ تو اس پر حضرت عائشہ (رض) (ناراض ہو گئیں اور)فرمایا: اس دشمن خداکو پکڑلو.

۔بعض امّہات المؤمنین کا مرتدہوجانا

سوال۶۷:کیا یہ صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعض بیویاں یعنی امّہات المؤمنین مرتد ہو گئی تھیں ؟ جیسے اشعث بن قیس کی بہن قتیلہ کہ جب اس نے پیغمبر کی وفات کی خبر سنی تو مرتد ہو گئی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ سے جاکر شادی کر لی .یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) چاہتے تھے کہ عکرمہ کو آگ میں جلا دیں اس لئے کہ اس نے پیغمبر کی تو ہین کی تھی.جیسا کہ ابن اثیر نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے :

انّ النبّی توفّٰی وقد ملک امرأة من کندة، یقال لها قتیلة فارتدّت مع قومها فتزوّجها بعد ذلک عکرمة بن أبی جهل بکرا ، فوجد أبوبکر من ذلک وجدا شدیدا .(۲)

۔حضرت عمر (رض) کا نبی (ص) کی بیوی کو طلاق دینا

سوال ۶۸:کیا یہ درست ہے کہ حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ کی بعض بیویوں کو طلاق دے کر انہیں

____________________

۱۔لعقد الفرید ۴: ۵۰۳

۲۔اسد الغابہ ۷: ۰۴۲؛ السمتدرک علی الصحیحین ۴: ۰۴؛ کنزالعمال ۳۱: ۴۰۳؛ دلائل النبوّۃ ۷: ۸۸۲؛ الاصابۃ ۸:۲۹۲؛عن ابن عباس : أنّ النّبیّ تزوّج قتیلة أخت الأشعث ومات قبل أن یخبرها وهذا موصول قوی الاسناد

۴۹

ام المومنین ہونے سے خارج کر دیا تھا ؟جیسا کہ علاّمہ طحاوی نے لکھا ہے:

عن الشعبی : أن نبیّ الله تزوّج قتیلة بنت قیس ومات عنها ثمّ تزوّج عکرمة فأراد أبو بکر أن یقتله، فقال له، عمر أنّ النّبی لم یحجبها ولم یقسّم لها ولم یدخل بها وارتدّت مع أخیها عن الاسلام وبرئت من الله تعالٰی ومن رسوله ،فلم یزل به حتّی ترکه ، (۱)ففی هذا الحدیث أنّ أبابکر أراد أن یقتل عکرمة لمّا تزوّج هذه المرئة لأنّها کانت عنده، من أزواج النبّی الّاتی کنّ حرمن علی النّاس بقول الله تعالٰی : وما کان لکم أن تؤذوا رسول الله ...وانّ عمر أخرجها من أزواج النبّی بردتها الّتی کانت منها اذاکان لایصلح لها معها أن تکون للمسلمین (۲)

____________________

۱۔مشکل الآثار ۲: ۹۱۱

۲۔مشکل الآثار ۲: ۳۲۱؛ دلائل النبوّۃ ۷:۸۸۲

۵۰

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم

۔پیغمبر (ص) نے فقط عبداللہ بن سلام کو جنّت کی بشارت دی

سوال ۶۹:کیا یہ صحیح ہے کہ حضور علیہ الصلاّۃ والسّلام نے عبداللہ بن سلام کے علاوہ کسی کو جنّت کی بشارت نہیں دی ؟ جیسا کہ سعد وقاص نے بیان کیا ہے :

ما سمعت النبیّ یقول لأحد یمشی علی الأرض انّه من أهل الجنّة الاّ لعبدالله بن سلام (۱) وبہ نقل صحیح مسلم :لاأقول لأحد من الأحیائ أنّه من أهل الجنّة الاّ لعبدالله بن سلام (۲)

پس اس حدیث کو عشرہ مبشرہ والی حدیث سے کیسے مطابقت دی جاسکتی ہے جب کہ یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں اسے نقل کیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس عشرہ مبشرہ والی حدیث ضعیف ہونے کے علاوہ نہ تو اسے امام بخاری نے نقل کیا ہے اور نہ ہی مسلم نے ؟

۔کیا بعض صحابہ کرام(رض) منافق تھے

سوال ۷۰:کیا یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر کے کچھ صحابی منافق تھے اور کبھی بھی جنّت میں نہیں جا پائیں گے ؟ جیسا کہ ہماری معتبر کتاب صحیح مسلم میں پیغمبر (ص) کا فرمان نقل ہوا ہے:

فی أصحابی اثنا عشر منافقا ، فیهم ثمانیة لا یدخلون الجنّة حتٰی یلج الجمل فی

____________________

۱۔صحیح بخاری باب المناقب ، مناقب عبداللہ بن سلام

۲۔ صحیح مسلم ،باب فضائل عبداللہ بن سلام،ح ۳۸۴۲؛ فتح الباری ۷: ۰۳۱؛ سیر اعلام النبلائ ۴: ۹۴۳

۵۱

سمّ الخیاط (۱)

میرے صحابہ میں بارہ افراد منافق ہیں جن میں سے آٹھ ایسے ہیں کہ جن کا جنّت میں جانا محال ہے.

۔کیا حضرت عثمان (رض) کے قاتل صحابہ کرام (رض) تھے

سوال ۷۱:کیا یہ درست ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی صحابہ کرام ہی تھے جیسا کہ ہماری کتب میں نقل ہواہے :

۱ ۔فروہ بن عمرو انصاری جو بیعت عقبہ میں بھی موجود تھے(۲)

۲ ۔محمد بن عمرو بن حزم انصاری .یہ وہ صحابی رسول ہیں جن کا نام بھی پیغمبر (ص) نے رکھا تھا(۳)

۳ ۔جبلہ بن عمرو ساعدی انصاری بدری .یہ وہ صحابی رسول (ص) تھے جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کے جنازہ کو بقیع میں دفن نہیں ہونے دیاتھا(۴)

۴ ۔ عبدا للہ بن بُدیل بن ورقا ئ خزاعی .یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لاچکے تھے امام بخاری کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کا گلا کاٹا تھا(۵)

____________________

۱۔صحیح مسلم ۸: ۲۲۱، کتاب صفات المنافقین ؛ مسند احمد ۴: ۰۲۳؛البدایۃ والنھایۃ ۵: ۰۲

۲۔استیعاب ۳: ۵۲۳؛ اسدالغابہ ۴: ۷۵۳.قال ابن وضاح : انّما سکت مالک فی الموطأ عن اسمه لأنه ، کان ممّن أعان علی قتل عثمان

۳۔ استیعاب۳: ۲۳۴.ولد قبل وفاة رسو ل الله بسنتین ...فکتب الیه أی الی والده رسول الله سمّه محمد ...وکان أشدّ النّاس علی عثمان المحمّدون : محمد بن أبی بکر ،محمد بن حذیفة ،ومحمد بن عمرو بن حزم

۴۔انساب ۶:۰۶۱؛ تاریخ المدینۃ ۱: ۲۱۱.هو أوّل من أجترأ علی عثمان ...لمّا أرادوا دفن عثمان ، فانتهوا الی البقیع ، فمنهم من دفنه جبلة بن عمرو فانطلقوا الی حش کوکب فدفنوه ، فیه .

۵۔تاریخ الاسلام ( الخلفائ): ۷۶۵.أسلم مع أبیه قبل الفتح وشهد الفتح ومابعدها ...انّه ممّن دخل علی عثمان فطعن عثمان فی ودجه

۵۲

۵ ۔ محمد بن ابو بکر(رض) : یہ حجۃ الوداع کے سال میں پیدا ہوئے اور امام ذہبی کے بقول انہوں نے حضرت عثمان(رض) کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کی ڈاڑھی کو پکڑ کر کہا : اے یہودی ! خدا تمہیں ذلیل و رسوا کرے(۱)

۶ ۔عمروبن حمق : یہ بھی صحابی پیغمبر(ص)تھے جنہوں نے امام مزی کے بقول حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر (ص) کی بیعت کی تھی اور امام ذہبی کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان (رض) پرخنجر کے پے در پے نو وار چلاتے ہوئے کہا: تین خنجر خداکے لئے مار رہا ہوں اور چھ اپنی طرف سے :

وثب علیه عمرو بن الحمق وبه عثمان رمق وطعنه، تسع طعنات وقال : ثلاث لله وستّ لمّا فی نفسی علیه .(۲)

۷ ۔ عبدالرحمن بن عدیس : یہ اصحاب بیعت شجرہ میں سے ہیں اور قرطبی کے بقول مصر میں حضرت عثمان(رض) (رض)کے خلاف بغاوت کرنے والو ں کے لیڈر تھے یہاں تک کہ حضرت عثمان(رض) کو قتل کر ڈالا(۳)

۔کیا ہم صحابہ کرام (رض) کو گالیاں دیتے ہیں

سوال ۷۲: کیا یہ درست ہے کہ ہم اہل سنّت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو گالیاں دیتے اور ان پر لعنت

____________________

۱۔تاریخ الاسلام : ۱۰۶.ولدته اسمائ بنت عمیس فی حجة الوداع وکان أحد الرّؤوس الّذین ساروا الی حصا ر عثمان.

۲تهذیب الکمال۴۱:۴۰۲؛ تهذیب التهذیب ۸:۲۲.بایع النبیّ فی حجة الوداع وصحبه، ...کان أحد من ألّب علی عثمان بن عفان.وقال الذّهبی انّ المصریین أقبلوا یریدون عثمان ...وکان رؤوسائهم أربعة : ...وعمرو بن حمق الخزاعی ...تاریخ الاسلام (الخلفائ):۱۰۶و ۱۴۴

۳۔استیعاب ۲: ۳۸۳؛ تاریخ الاسلام ( الخلفائ): ۴۵۶.عبدالرّحمن بن عدیس مصری شهد الحدیبیة وکان ممّن بایع تحت الشجرة رسول الله وکان أمیر علی الجیش القادمین من مصر الی المدینة الّذین حصروا عثمان وقتلوه،

۵۳

کرتے ہیں ؟جیسا کہ حضرت عثمان(رض) کے قاتلوں پر لعنت اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں جبکہ وہ سارے کے سارے صحابہ کرام ہی تھے ان میں سے بعض بدری ، بعض اصحاب شجری، بعض اصحاب عقبہ اور بعض نے جنگ احد و حنین میں رسالت مآب کے ساتھ شرکت کی

امام ذہبی فرماتے ہیں :کلّ من هؤلائ نبرئ منهم ونبغضهم فی الله ...نرجو له ، النّار (۱) ہم ان سب سے بری الذمہ ہیں ،ان سے خدا کی خاطر بغض رکھتے ہیں اور ان کے لئے جہنّم کی آرزو کرتے ہیں

امام ابن حزم لکھتے ہیں:

لعن الله من قتله، والرّاضین بقتله ...بل هم فسّاق محاربون سافکون دما حراما عمدا بلا تأویل علی سبیل الظّلم والعدوان فهم فسّاق ملعونون (۲)

خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا اور جو ان کے قتل پر راضی ہیں ...یہ لوگ فاسق ، محارب اور بغیر تاویل کے محترم خون بہانے والے ہیں لہذافاسق و ملعون ہیں

اسی طرح ہمارے ایک اور عالم دین لکھتے ہیں: کوفہ اور بصرہ کے بے دین باغیوں نے حضرت عثمان (رض) کے خلاف بغاوت کی ...یہ باغی اور ظالم جہنّمی ہیں(۳)

کیا وجہ ہے کہ جب امام حسین(رض) کے قاتلوں کی بات آتی ہے تو ہمارے علمائ فرماتے ہیں یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے اور ہمیں حق حاصل نہیں ہے کہ ہم یزید یا کسی دوسرے کو برابھلا کہیں جبکہ حضرت عثمان(رض) کے قاتل صحابہ کرام (رض) تھے پھر بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں کیا یہ امام حسین(رض) سے دشمنی کی علامت نہیں ہے؟

۔کیا صحابہ کرام(رض) ، پیغمبر (ص) کو قتل کردینے میں ناکام ہو گئے

سوال ۷۳ : کیا یہ حقیقت ہے کہ عقبہ والی رات جنگ تبوک سے واپسی پر جب پیغمبر ایک گھاٹی

____________________

۱۔تاریخ الاسلام ( الخلفائ ) ۴۵۶

۲۔الفصل ۳: ۴۷و ۷۷

۳۔شہسوار کربلا : ۱۲، ۲۲اور ۵۲

۵۴

سے گذرنے لگے تو بارہ صحابہ کرام(رض) نے انہیں قتل کرنے کی خاطران پر حملہ کردیا...ہاں یہ کونسے صحابہ تھے ؟ جب میں نے امام حزم کا یہ قول پڑھا کہ جس میں انہوں نے ان میں سے پانچ کے نام ذکر کئے ہیں تو مجھے بہت تعجب ہوا:

أنّ أبا بکر وعمر وعثمان وطلحه وسعد بن أبی وقاص أرادوا قتل النبّی والقائه، من العقبة فی تبوک (۱)

اگرچہ امام ابن حزم نے اس حدیث کے راوی ولید بن جمیع کو ضعیف لکھا ہے لیکن ہمارے علمائے رجال جیسے ابو نعیم ، ابو زرعہ ، یحیٰی بن معین ، امام احمد بن حنبل ، ابن حبان ، عجلی اور ابن سعد اسے مؤثق راوی شمار کرتے ہیں(۲)

استاد بزرگوار یہ حدیث پڑھ کر مجھے بہت حیرانگی ہوئی کہ ہمارے سلف صالح صحابہ کرام(رض) کا اپنے نبی کے ساتھ کیسا رویہ تھا ؟!

۔کیا بعض صحابہ کرام (رض) خارجی تھے

سوال۷۴ : کیا یہ بھی صحیح ہے کہ کچھ صحابہ کرام (رض)خارجی اور حدیث پیغمبر کے مطابق کافر(۳) اور جہنّم کے کتّے تھے.(۴)

ان صحابہ کرام(رض) کے نام کچھ اس طرح ہیں :

۱ ۔ عمران بن حطان : اس نے عبدالرحمن بن ملجم حضرت علی(رض) کے قاتل کی تعریف کی ہے(۵)

____________________

۱۔المحلّیٰ ۱۱: ۴۲۲

۲۔ الثقات : ۵۶۴؛ تاریخ الاسلام ( خلفائ) : ۴۹۴؛ البدایۃ والنھایۃ ۵: ۵۲

۳۔سنن ابن ماجہ: ۲۶،ح۶۷۱، مقدمہ ، ب ۲۱

۴۔مسند احمد ۴۱: ۵۵۳،الخوارج کلاب اھل النّار.

۵۔الاصابۃ ۳: ۹۷۱

۵۵

۲ ۔ ابووائل شقیق بن سلمہ : اس نے رسول اللہ سے ملاقات کی اور ان سے روایت بھی نقل کی ہے(۱)

۳ ۔ ذوالخویصرۃ : یہ خوارج کا سردار تھا(۲)

۴ ۔ حرقوص بن زہیرسعدی :یہ بھی خوارج کے بڑوں میں سے تھا(۳)

۵ ۔ ذوالثدیۃ : یہ جنگ نہروان میں مارا گیا تھا(۴)

۶ ۔ عبداللہ بن وہب راسبی : یہ بھی خوارج کے سرداروں میں سے تھا(۵)

کیا ایسے لوگ جنہیں پیغمبر نے کافر اور جہنّمی کتّے قرار دیا ہو وہ بھی عادل ہو سکتے ہیں جیسا کہ ہمارا نظریہ ہے کہ سارے کے سارے صحابہ عادل تھے اور ان میں سے جس کی پیروی کی جائے درست ہے!!(۶)

۔کیا حضرت ابوبکر وعمر (رض) کے فضائل جھوٹ ہیں

سوال ۷۵: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت ابو بکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی شان میں نقل کی جانے والی بہت سی احادیث جھوٹی اور جعلی ہیں جیسا کہ ا مام عسقلانی فرماتے ہیں :

ینبغی أن یضاف الیها الفضائل، فهذه أودیة الاحادیث الضعیفة والموضوعة ...أمّا الفضائل فلا تحصٰی کم من وضع الرّافضة فی فضل اهل بیت وعارضهم

____________________

۱۔اسد الغابہ ۳: ۳؛ الاصابہ ۲: ۸۴. دارالکتب العلمیۃ

۲۔البتہ کہا جاتا ہے کہ اس نے بعد میں توبہ کر لی تھی. شرح ابن ابی الحدید۴: ۹۹

۳۔حوالہ سابق

۴۔ تاریخ طبری : ۴؛ مسند احمد ۵۵۷۴۱؛ ااصابہ ۲: ۴۷۱

۵۔ الاصابۃ ۵: ۶۹؛ مختصرمفید ۱۱: ۶۳۱

۶۔الاصابۃ ۱: ۹

۵۶

جهلة أهل السّنة بفضائل معاویة ، بدؤا بفضائل الشیخین (۱)

۔کیا حضرت ابو ہریرہ (رض) چور تھے

سوال ۷۶: کیا یہ حقیقت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) چور تھے اور انہوں نے بیت المال سے بہت زیادہ مال چرا یاتھا ؟ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے انہیں دشمن خدا کے لقب سے نوازتے ہوئے فرمایا :

یا عدوّ الله وکتابه، سرقت مال الله (۲)

اے دشمن خدا و قرآن ! تو نے مال خدا کو چرا لیا

کیا ایسے شخص کو احادیث رسول اور دین کا امین بنایا جاسکتا ہے جودنیا کے مال میں خیانت کر رہاہو اور پھر فاروق (رض) کی نظر میں شمن خداہو ؟!

۔ کیا ابوہریرہ(رض) کی روایات مردود ہیں

سوال ۷۷:کیا یہ درست ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جو پانچ ہزار احادیث کے راوی اور امام بخاری نے بھی چار سو سے زیادہ احادیث انہیں سے بخاری شریف میں نقل کی ہیں وہ حضرت علی(رض) ، حضرت عمر (رض) اور حضرت عائشہ (رض) اُمّ المؤمنین کے نزدیک قابل اعتماد انسان نہیں تھے ؟ )

اسی طرح امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں : تمام صحابہ عادل ہیں سوا ابو ہریرہ اور انس بن مالک و...کے.(۴)

حضرت عمر (رض) نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا:یا عدوّ الله وعدوّ کتابه

اے دشمن خدا و قرآن(۵)

____________________

۱۔ لسان المیزان ۱: ۶۰۱، طبعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت

۲۔الطبقات الکبرٰی ۴: ۵۳۳؛ سیر اعلام النبلائ ۲: ۲۱۶

۳۔شرح ابن ابی الحدید ۰۲: ۱۳

۴۔شرح ابن ابی الحدید ۴: ۹۶.الصحابة کلّهم عدول ماعدا رجالا منهم ابو هریرة و انس بن مالک.

۵۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۲۱۶؛ الطبقات الکبرٰی ۴: ۵۳۳

۵۷

حضرت عائشہ(رض) نے ا س پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا:أکثرت عن رسول الله

تو نے رسول خدا(ص) سے احادیث نقل کرنے میں مبالغہ کیا ہے(۱) ایک اور مقام پر فرمایا:

ما هذه الاحادیث الّتی تبلغنا أنّک تحدّث بها عن النّبی هل سمعت الّا ما سمعنا ؟ وهل رأیت الاّ ما رأینا ؟ (۲) یہ کیسی احادیث ہیں جو ہم تک تمہارے واسطے سے پہنچی ہیںجنہیں تو پیغمبر (ص) سے نقل کرتا ہے. کیا تو نے کوئی ایسی بات آنحضرت (ص) سے سن لی تھی جو ہم نے نہ سنی یا کوئی ایسی چیز دیکھ لی تھی جو ہم نے نہ دیکھی ؟

مروان بن حکم نے اعتراض کرتے ہوئے ابوہریرہ سے کہا :

انّ النّاس قد قالوا: أکثر الحدیث عن رسول الله(ص) وانّما قد قبل وفاته بیسیر

لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس قدراحادیث کیسے رسول (ص) سے نقل کرلیں جبکہ وہ تو آن حضرت کی وفات سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہوا ہے ؟(۳)

کبھی کبھار کہا کرتے میرے خلیل ابولقاسم (پیغمبر (ص))نے مجھ سے فرمایا،توحضرت علی (رض) روکتے ہوئے ان سے فرماتے : متی کان خلیلا لک کب پیغمبر (ص) تمہارے خلیل رہے ہیں !!(۴)

فخر رازی کہتے ہیں:انّ کثیرا من الصحابة طعنوا فی أبی هریرة وبیّناه من وجوه: أحدها : أنّ أبا هریرة روی أنّ النبیّ قال : من أصبح جنبا فلا صوم له، .فرجعوا الی عائشة وامّ سلمة فقالتا: کان النبّی یصبح ثمّ یصوم فقال: هما أعلم بذلک ،أنبأنی

____________________

۱۔ سیر اعلام النبلائ ۲: ۴۰۶

۲۔ حوالہ سابق

۳۔سیر اعلام النبلائ ۲: ۳۱۶

۴۔ اسرار الامامۃ ۵۴۳،(حاشیہ) ،المطالب العا لیۃ ۹: ۵۰۲

۵۸

هذالخبر الفضل بن عباس واتّفق أنّه، کان میّتا فی ذلک الوقت (۱)

بہت سے صحابہ کرام(رض) ابو ہریرہ کو اچھا نہ سمجھتے اور اس کی چند ایک وجوہات بیان کی ہیں:

ان میں سے ایک یہ کہ ایک مرتبہ ابو ہریر ہ نے کہا : آنحضرت نے فرمایا: جو شخص جنابت کی حالت میں فجرکے بعد بیدار ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے جب یہی سوال حضرت عائشہ(رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: پیغمبر ایسی صورت میں بھی روزہ رکھا کرتے تھے جب ابو ہریرہ کو اس کی خبر ملی تو کہنے لگے : وہ مجھ سے بہتر جانتی ہیں اور مجھے تو فضل بن عباس نے یہ خبر دی تھی جبکہ اس وقت فضل فوت ہو چکے تھے

ابراہیم نخعی اس کی ان کی احادیث کے بارے میں کہتے ہیں:

کان أصحابنا یدعون من حدیث أبی هریرة (۲)

ہمارے ہم مذہب ابوہریرہ کی احادیث کو ترک کر دیتے تھے

اسی طرح کہا ہے:ماکانوا یأخذون من حدیث أبی هریرة الاّ ماکان من حدیث جنّة أو نار (۳) ہمارے ہم مذہب افراد ابو ہریرہ کی احادیث میں سے فقط انہیں کو نقل کیا کرتے جو جنّت یا جہنّم کے متعلق ہوا کرتیں

۔حضرت ابوہریرہ(رض) کا توہین آمیز روایات نقل کرنا

سوال ۷۸: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت ابو ہریرہ (رض) انبیائ علیہم السّلام کے متعلق ایسی ایسی احادیث نقل کیا کرتے جن سے ان کی توہین ہوتی .جیسا کہ امام بخاری نے ان روایات کو اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے:

____________________

۱۔حوالہ سابق

۲۔سیراعلام النبلائ ۲: ۹۰۶؛تاریخ ابن عساکر۹۱: ۲۲۱

۳۔حوالہ سابق

۵۹

۱ ۔لم یکذب ابراهیم الاّ ثلاثة کذبات

حضرت ابراہیم (ص) نے تین بار جھوٹ بولا (نعوذ باللہ).(۱)

جبکہ امام فخر رازی فرماتے ہیں:لا یحکم بنسبة الکذب الیهم الاّ الزّندیق

انبیائ (ع)کی طرف جھوٹ کی نسبت زندیق ہی دے سکتا ہے(۲)

دوسرے مقام پر فرمایا: حضرت ابراہیم (ص) کی طرف جھوٹ کی نسبت دینے سے آسان یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی (ابوہریرہ) کو ہی جھوٹا کہا جائے(۳)

۲ ۔ ابوہریرہ کہتے ہیں :ایک دن حضرت موسٰی (ع) غسل کرنے کے بعد ننگے بنی اسرائیل کے درمیان پہنچ گئے .(نعوذ باللہ)(۴)

۔کیا عشرہ مبشرہ والی حدیث جھوٹی ہے

سوال۷۹: کیا یہ درست ہے کہ حدیث عشرہ مبشرہ جھوٹی اور بنو امیہ و بنو عباس کی گھڑی ہوئی احادیث میں سے ہے اس لئے کہ اگر صحیح حدیث ہوتی تو صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بھی اسے نقل کیا جاتا ؟

اور اگریہ حدیث صحیح تھی تو پھر روزسقیفہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے اس سے استدلال کیوں نہ کیاجبکہ اس کے علاوہ ہر ضعیف حدیث کا سہارا لیا درحالانکہ اس حدیث سے استدلال کرنا ان کے مدّعا کو بہت فائدہ پہنچا سکتا تھا ؟

کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ہیں ایک میں حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف ہے جس نے اس حدیث کو اپنے باپ سے نقل کیا ہے جبکہ وہ اپنے باپ کی وفات کے وقت ایک سال کا تھا(۵)

____________________

۱۔صحیح بخاری ۴: ۲۱۱

۲۔تفسیر رازی ۲۲: ۶۸۱و۶۲: ۸۴۱ ۳۔حوالہ سابق

۴۔صحیح بخاری ۴: ۹۲۱؛ بدئ الخلق ۲: ۷۴۲،طبع دارالمعرفۃ

۵۔تہذیب التہذیب ۳: ۰۴

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

مستحب ہے کہ جب انسان اپنے گھرسے نمازکے لئے مسجدکی طرف روانہ ہو تو بہترین لباس پہن کراورعطر وخوشبو لگاکرمسجدمیں آئے اوراگرگھرمیں بھی نمازپڑھے توخشبولگاکرنمازپڑھے،عورت کے لئے مستحب ہے کہ جب گھرمیں نمازاداکرے توعطرخوشبوکااستعمال کرے ،عطرلگاکرنماز پڑھنے کے بارے میں روایت میں آیاہے:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم رکعتان علیٰ اثرطیب افضل من سبعین رکعة لیست کذلک (۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خوشبوکے ساتھ دورکعت نمازپڑھناان ستررکعت نمازوں سے افضل ہیں جوعطرلگائے بغیر پڑھی جاتی ہیں ۔قال الرضاعلیه السلام :کان یعرف موضع جعفرعلیه السلام فی المسجد بطیب ریحه وموضع سجوده ۔(۲)

حضرت امام صادق کے بارے میں امام رضا فرماتے ہیں:کہ امام صادق کی محل نمازوسجدہ کومسجدمیں ان کی خوشبوکے ذریعہ پہچان لیاجاتاتھا۔حسین دیلمی نے اپنی کتاب“ہزارویک نکتہ دربارہ ”میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت امام زین العابدین جب بھی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتے تھے اور محل نمازپر کھڑے ہوتے تھے تو ) اپنے آپ کو اس عطرسے جو آپ کے مصلّے میں رکھا رہتا تھا معُطّرکر تے تھے۔(۳)

حمام ، گِل،نمک زارزمین،کسی بیٹھے یاکھڑے ہوئے انسان کے مقابلے میں،کھلے ہوئے دروازے کے سامنے ،شاہروں اورسڑکوں پر،گلیوں میں جبکہ آنے جانے والے کے لئے باعث زحمت نہ ہو، اگرباعث زحمت ہوتوحرام ہے،آگ اورچراغ کے سامنے ،باورچی خانہ میں،جہاں اگ کی بھٹی ہو، کنویں کے سامنے ،ایسے گڑھے کے سامنے کہ جہاں حمام ولیٹرین وغیرہ کاپانی پہنچتاہے ،ذی روح کی تصویریامجمسہ کے سامنے،جس کمرہ میں مجنب موجودہو، قبرکے اوپریاقبرکے سامنے یاقبرستان میں نمازپڑھنامکروہ ہے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:عشرة مواضع لایصلی فیها:الطین والماء والحمام والقبورومسان الطریق وقری النمل ومعاطن الابل ومجری الماء والسبخ والثلج .

امام صادق فرماتے ہیں:دس مقام ایسے کہ جہاں نمازنہ پڑھی جائے : گِل،پانی،حمام،قبور، گذرگاہ ،چیونٹی خانہ ،اونٹوں کی جگہ ،(گندے )پانی کی نالی یاگڑھے کے پاس ،نمک زارزمین پر،برف پر۔(۴)

____________________

. ١)آثارالصادقین /ج ١٢ /ص ١٠٢

٢)مکارم الاخلاق /ص ۴٢

. ٣)ہزارویک نکتہ دربارہ نماز/ش ٢٢٣ /ص ۶٩

۴)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۴۴١

۱۰۱

عن معلی بن خنیس قال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن الصلاة علی ظهرالطریق؟فقال:لا،اجت نبواالطریق .

معلی بن خنیس سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے راستے پر نمازکے پڑھنے کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:صحیح نہیں ہے ،او رفرمایا:راستے پرنمازپڑھنے سے پرہیزکرو۔(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:لاتصل فی بیت فیه خمرولامسکرلان الملائکة لاتدخله . امام صادق فرماتے ہیں:کسی ایسے گھرنمازنہ پڑھوکہ جس میں شراب یاکوئی مسکرشے مٔوجودہوکیونکہ ایسے گھروں میں ملائکہ داخل نہیں ہوتے ہیں۔(۲)

____________________

.۱) وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۴۴۶

. ۲)استبصار/ج ١/ص ١٨٩

۱۰۲

مسجد

مسجدکی اہمیت

مسجدروئے زمین پرالله کاگھرہے اورزمین کی افضل ترین جگہ ہے ،اہل معارف کی جائیگاہ اورمحل عبادت ہے،صدراسلام سے لے کرآج تک مسجدایک دینی والہٰی مرکزثابت ہوئی ہے،مسجد مسلمانوں کے درمیان اتحادپیداکرنے کامحورہے اوران کے لئے بہترین پناہگاہ بھی ہے، مسجدخانہ ہدایت و تربیت ہے مسجدمومنین کے دلوں کوآباداورروحوں کوشادکرتی ہے اورمسجدایک ایساراستہ ہے جوانسان کوبہشت اورصراط مستقیم کی ہدایت کرتاہے ۔ دین اسلام میں مسجد ایک خاص احترام ومقام رکھتی ہے ، کسی بھی انسان کو اس کی بے حرمتی کرنے کا حق نہیں ہے اور اسکا احترام کرنا ہر انسان پر واجب ہے ۔ ا بو بصیر سے مروی ہے: میں نے حضرت امام صادق سے سوال کیا کہ: مسجدوں کی تعظیم واحترام کاحکم کیوں دیاگیاہے ؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا:

انّماامربتعظیم المساجدلانّهابیوت اللهفی الارض ۔(۱)

مسجدوں کے احترام کا حکم اس لئے صادرہواہے کیونکہ مسجدیں زمین پر خداکا گھر ہیں اور خدا کے گھر کا احترام ضروری ہے۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنے ایک طولانی خطبہ اورگفتگومیں ارشادفرماتے ہیں:من مشیٰ الی مسجد من مساجدالله فله بکل خطوة خطاهاحتی یرجع الی منزله عشرحسنات ،ومحی عنه عشرسیئات ، ورفع له عشردرجات.

ہروہ جوشخص کسی مسجدخداکی جانب قدم اٹھائے تواس کے گھرواپسی تک ہراٹھنے والے قدم پردس نیکیان درج لکھی جاتی ہیں اوردس برائیاں اس نامہ أعمال سے محوکردی جاتی ہیں اوردس درجہ اس کامقام بلندہوجاتاہے۔(۲)

قال النبی صلی الله علیه وآله:من کان القرآن حدیثه والمسجدبیته بنی الله له بیتافی الجنة.

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کی گفتگوقرآن کریم ہواورمسجداس کاگھرہوتوخداوندعالم اس کے لئے جنت میں ایک عالیشان گھرتعمیرکرتاہے۔(۳)

____________________

. ١)علل الشرئع /ج ٢/ص ٣١٨

۲). ثواب الاعمال/ص ٢٩١

۳). تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵۵

۱۰۳

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من مشی الی المسجد لم یضع رجلاعلی رطب ولایابسالّاسبحت له الارض الی الارض السابعة.

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص مسجد کی طرف قدم اٹھائے اب وہ زمین کی جس خشک وترشے بٔھی قدم رکھے توساتوںزمین تک ہرزمین اس کے لئے تسبیح کرے گی۔(۱)

عن الصادق علیه السلام:ثلٰثة یشکون الی الله عزوجل مسجدخراب لایصلی فیه اهله وعالم بین الجهال ومصحف معلق قدوقع علیه غبارلایقرء فیه ۔(۲)

امام جعفر صادق فرماتے ہیں : تین چیزیں الله تبارک وتعالی کی بار گاہ میں شکوہ کرتی ہیں:

١۔ویران مسجدکہ جسے بستی کے لوگ آباد نہیں کر تے ہیں اور اس میں نماز نہیں پڑھتے ہیں

٢۔وہ عالم دین جو جاہلوں کے درمیان رہتا ہے اور وہ لوگ اس کے علم سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں

٣۔ وہ قرآن جو کسی گھر میں گرد وغبارمیں آلودہ بالا ئے تاق رکھا ہوا ہے اور اہل خانہ میں سے کوئی شخص اس کی تلاوت نہیں کرتا ہے۔

قال النبی صلی الله علیه وآله وسلم :من سمع النداء فی المسجد فخرج من غیرعلة فهومنافق الّاان یریدالرجوع الیه ۔(۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: منافق ہے وہ شخص جو مسجد میں حاضر ہے اور اذان کی آواز سن کر بغیر کسی مجبوری کے نماز نہ پڑھے اور مسجد سے خارج ہو جائے مگر یہ کہ وہ دوبارہ مسجد میں پلٹ آئے۔

____________________

۱) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵۵

. ۲)سفینة البحار/ج ١/ص ۶٠٠

. ۳)امالی(شیخ صدوق )/ص ۵٩١

۱۰۴

قال رسول الله صلی الله علیه وآله :ان اللهجل جلاله اذارا یٔ اهل قریة قداسرفوافی المعاصی وفیهاثلاثة نفرمن المومنین ناداهم جل جلاله وتقدست اسمائه:یااهل معصیتی !لولامَن فیکم مِن المومنین المتحابّین بجلالی العامرین بصلواتهم ارضی ومساجدی والمستغفرین بالاسحارخوفاًمِنّی ،لَاَنزَلْتُ عَذَابِیْ ثُمَّ لااُبَالِی ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب خداوندعالم کسی بستی کے لوگوں کوگناہوں میں آلودہ دیکھتاہے او راس بستی میں فقط تین افرادمومن باقی رہ جاتے ہیں تواس وقت خدائے عزوجل ان اہل بستی سے کہتاہے:

اے گنا ہگا ر انسانو ! اگرتمھارے درمیان وہ اہل ایمان جومیری جلالت کے واسطے سے ایک دوسرے کودوست رکھتے ہیں،اورمیری زمین ومساجدکواپنی نمازوں کے ذریعہ آبادرکھتے ہیں،اورمیرے خوف سے سحرامیں استغفارکرتے ہیں نہ ہوتے تومیں کسی چیزکی پرواہ کئے بغیرعذاب نازل کردیتا۔

وہ لوگ جومسجدکے ہمسایہ ہیں مگراپنی نمازوں کومسجدمیں ادانہیں کرتے ہیں ان کے بارے میں چندروایت ذکرہیں:

قال النبی صلی الله علیه وآله:لاصلاة لجارالمسجدالّافی المسجده ۔(۲) .

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مسجد کے ہمسایو ں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ اپنی نمازوں کو اپنی مسجد میں اداکریں۔

عن الصادق علیه السلام انه قال::شکت المساجدالی الله الّذین لایشهدونهامن جیرانهافاوحی الله الیهاوعزتی جلالی لاقبلت لهم صلوة واحدة ولااظهرت لهم فی الناس عدالة ولانالتهم رحمتی ولاجاورنی فی الجنة ۔(۳)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں: مسجد وں نے ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ہمسایہ ہیں اور بغیر کسی مجبوری کے نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہو تے ہیں درگاہ خداوندی میں شکایت کی ،خدا وندعالم نے ان پر الہام کیا اور فرمایا : میں اپنے جلال وعزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، میں ایسے لوگوں کی ایک بھی نماز قبول نہیں کر تا ہوں اور ان کو معا شرے میں اور نیک اورعادل آدمی کے نام سے شہرت وعزت نہیں دیتا ہوں اور وہ میری رحمت سے بہرہ مندنہ ہونگے اوربہشت میں میرے جوار میں جگہ نہیں پائیں گے ۔

____________________

. ۱)علل الشرایع /ج ٢/ص ۵٢٢

۲)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ۴٧٨

. ۳)سفیتة البحار/ج ١/ص ۶٠٠

۱۰۵

عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:لاصلاة لمن لایشهدالصلاة من جیران المسجد الّامریض ا ؤمشغول.

امام محمدباقر فرماتے ہیں:ہروہ مسجدکاہمسایہ جونمازجماعت میں شریک نہیں ہوتاہے اس کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے مگریہ کہ وہ شخص مریض یاکوئی عذرموجہ رکھتاہو۔(۱)

مسجدکوآبادرکھنااورکسی نئی مسجدکی تعمیرکرنابہت زیادہ ثواب ہے،اگرکوئی مسجدگرجائے تواس کی مرمت کرنابھی مستحب ہے اوربہت زیادہ ثواب رکھتاہے، اگر مسجدچھوٹی ہے تواس کی توسیع کے لئے خراب کرکے دوبارہ وسیع مسجدبنانابھی مستحب ہے( اِنَّمَایَعْمُرُمَسَاْجِدَاللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الآخِروَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَلَمْ یَخْشَ اِلّااللّٰهَ فَعَسَیٰ اُوْلٰئِکَ اَنْ یَکُوْنُوامِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ) .(۲)

الله کی مسجدوں کوصرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہیں اورجنھوں نے نمازقائم کی ہے اورزکات اداکی ہے اور خداکے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو عنقریب ہدایت یافتہ لوگوں میں شمارکئے جائیں گے۔

عن ابی عبیدة الحذاء قال سمعت اباعبدالله علیه السلام یقول :من بنیٰ مسجدا بنی اللهله بیتاًفی الجنة ۔(۳)

ابوعبیدہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:ہروہ شخص جو کسی مسجدکی بنیادرکھے توخداوندعالم اسکے لئے بہشت میں ایک گھربنادیتاہے ۔

تاریخ میں لکھاہے کہ جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ نے سب سے پہلے ایک مسجدکی بنیادرکھی (جو مسجد النبی کے نام سے شہرت رکھتی ہے )اوراس کے تعمیرہونے کے بعدحضرت بلال /نے اس میں بلندآوازسے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کاحکم دیا ۔

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٧۶

. ٢)سورہ تٔوبہ/آیت ١٨

۳)تہذیب الاحکام /ج ٣/ص ٢۶۴

۱۰۶

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:اذادخل المهدی علیه السلام الکوفة قال الناس: یاابن رسول الله(ص انّ الصلاة معک تضاهی الصلاة خلف رسول الله(ص، وهذا المسجد لایسعنا فیخرج الی العزی فیخط مسجدا له الف باب یسع الناس ویبعث فیجری خلف قبر الحسین علیه السلام نهرایجری العزی حتی فی النجف.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زمانہ (ظہورکے بعد)کوفہ میں واردہونگے تووہاں کے لوگ آپ سے نماز پڑھانے کی فرمائش کریں گے ،اورکہیں گے آپ پیچھے نمازپڑھنارسول خدا(ص)کے پیچھے نمازپڑھنے کے مانندہے مگریہ مسجد بہت چھوٹی ہے پ،یہ سن کرامام (علیه السلام) عزیٰ کے جانب حرکت کریں گے اورزمین ایک خط کھینچ کرمسجدکاحصاربنائیں گے اوراس مسجدکے ہزاردروازے ہونگے جس میں تمام (شیعہ)لوگوں کی گنجائش کی جگہ ہوگی اورسب لوگ اس میں حاضرہوجائیں،امام حسینکی قبرمطہرکی پشت سے ایک نہرجاری ہوگی جوعزی تک پہنچے گی یہاں تک کہ شہرنجف میں بھی جار ی ہوگی۔(۱)

.عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ان قائمنااذاقام یبنی له فی ظهرالکوفة مسجدله الف باب.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زماں قیام کریں گے توپشت کوفہ میں ایک مسجدتعمیرکریں گے جسکے ہزاردروازے ہونگے ۔(۲)

مساجدفضیلت کے اعتبارسے

سنت مو کٔدہ ہے کہ انسان اپنی نمازوں کومسجدمیں اداکرے اورمسجدوں میں سب سے افضل مسجدالحرام ہے جس میں نمازپڑھناسوہزارثواب رکھتاہے اس کے بعدمسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)ہے اس کے مسجدکوفہ اس کے بعدبیت المقدس اس کے بعدہرشہرکی جامع مسجداس کے بعدمحلہ اوربازار کی مسجدہے اورجیسے ہی مسجدمیں داخل ہوتودورکعت نمازتحیت مسجدپڑھے۔

عن النبی صلی الله علیه انه قال:اذادخل احدکم المسجد فلایجلسحتی یصلی رکعتین

رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:تم میں جب بھی کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تومحل نمازپر بیٹھنے سے پہلے دورکعت نماز(تحیت مسجد) پڑھے ۔(۳)

____________________

۱) بحارالانوار/ج ٩٧ /ص ٣٨۵

۲). بحارالانوار/ج ٩٧ /ص ٣٨۵

۳) المبسوط/ج ٨/ص ٩٠

۱۰۷

مسجدالحرام میں نمازپڑھنے کاثواب

عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:من صلی فی المسجد الحرام صلاة مکتوبة قبل اللهبهامنه کل صلاة صلاهامنذیوم وجبت علیه الصلاة وکل صلاة یصلیهاالی ان یموت .

امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص مسجدالحرام میں ایک واجب کواداکرے توخداوندعالم اس کی ان تمام نمازوں کوجواس نے واجب ہونے کے بعدسے اب تک انجام دی ہیں قبول کرتاہے اوران تمام کوبھی قبول کرلیتاہے جووہ آئندہ مرتے دم تک انجام دے گا۔(۱)

قال محمدبن علی الباقرعلیه السلام: صلاة فی المسجدالحرام ا فٔضل من مئة الف صلاة فی غیره من المساجد ۔(۲)

امام باقر فرماتے ہیں:مسجدالحرام میں ایک نمازپڑھنادوسری مسجدوں میں سوہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔

مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں نمازپڑھنے کاثواب

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:صلاة فی مسجدی تعدل عندالله عشرة آلاف فی غیره من المساجدالّامسجدالحرام فانّ الصلاة فیه تعدل ما ئٔة ا لٔف صلاة ۔

( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری مسجد(مسجدالنبی)میں ایک نمازپڑھنامسجدالحرام کے علاوہ دوسری مساجدمیں ایک ہزارنمازپڑھنے سے افضل ہے کیونکہ مسجدالحرام میں ایک نمازپڑھنادوسری مساجدمیں سوہزارنمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔(۳)

قال ابوعبدالله علیه السلام : صلاة فی مسجد النبی صلی الله علیه وآله تعدل بعشرة آلاف صلاة .

امام صادق فرماتے ہیں:مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں ایک نمازپڑھناہزارنمازوں کے برابرہے۔(۴)

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٨

. ۲) ثواب الاعمال /ص ٣٠

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٨

۴). کافی/ج ۴/ص ۵۵۶

۱۰۸

مسجدکوفہ میں نمازپڑھنے کاثواب

مسجدکوفہ وہ مسجدہے کہ جس ایک ہزارانبیا ء اورایک ہزاراوصیاء نے نمازیں پڑھیں ہیں ،وہ ت نوربھی اسی مسجدمیں ہے کہ جس سے حضرت نوح کے زمانے میں پانی کاچشمہ جاری ہوااورپوری دنیامیں پانی ہی پانی ہوگیاتھا،یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے کشتی نوح (علیه السلام)نے حرکت کی اوراس میں سوارہونے والے لوگوں نے نجات پائی،یہ وہ مسجدہے کہ جسے معصومین نے جنت کاایک باغ قراردیاہے ،یہ وہ مسجدہے کہ جس میں امام اول علی ابن ابی طالب کو شہیدکیاگیاہے ،اس مسجدمیں نمازپڑھنے کے بارے میں روایت میں ایاہے:

عن محمدبن سنان قال: سمعت اباالحسن الرضاعلیه السلام یقول:الصلاة فی مسجدالکوفة فرداا فٔضل من سبعین صلاة فی غیرها جماعة ۔

محمدبن سنان سے مروی کہ میں نے امام علی رضا کویہ فرماتے ہوئے سناہے: مسجدکوفہ میں فرادیٰ نمازپڑھنا(بھی)دوسری مساجدمیں جماعت سے سترنمازیں پڑھنے سے افضل ہے ۔(۱)

عن المفضل بن عمرعن ابی عبدالله علیه السلام قال:صلاة فی مسجدالکوفة تعدل الف صلاة فی غیره من المساجد ۔

مفضل ابن عمر سے مروی کہ امام صادق فرماتے ہیں: مسجدکوفہ میں ایک نمازپڑھنادوسری مساجدمیں جماعت سے پڑھنے سے افضل ہے ۔(۲)

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:صلاة فی مسجدالکوفة،الفریضة تعدل حجة مقبولة والتطوع فیه تعدل عمرة مقبولة

امام محمدباقر فرماتے ہیں:مسجدکوفہ میں ایک واجب نمازپڑھناایک حج مقبولہ کاثواب ہے اورایک مستحبی نمازپڑھناایک عمرہ مٔقبولہ کاثواب ہے۔(۳)

____________________

۱). بحارالانوار/ج ٨٠ /ص ٣٧٢

۲). ثواب الاعمال/ص ٣٠

.۳) کامل الزیارات/ص ٧١

۱۰۹

امام صادق سے مروی ہے :حضرت علی مسجدکوفہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص مسجدمیں داخل ہوااورکہا:“السلام علیک یاامیرالمومنین ورحمة الله وبرکاتہ ”امام علی (علیه السلام)نے اس کے سلام کے جواب دیا،اس کے بعداس شخص نے عرض کیا:اے میرے مولا! آپ پرقربان جاؤں،میں نے مسجدالاقصیٰ جانے کاارادہ کیاہے ،لہٰذامیں نے سوچاکہ آپ کو سلام اورخداحافظی کرلوں ،امام (علیه السلام) نے پوچھا:تم نے کس سبب سے وہاں جانے کاقصدکیاہے ؟جواب دیا:خداکافضل کرم ہے اوراس نے مجھے ات نی مال ودولت عطاکی ہے میںفلسطین جاکرواپسآسکتاہوں ،پسامام (علیه السلام)نے فرمایا:

فبع راحلتک وکلّ ذادک وصلّ فی هذاالمسجدفانّ الصلاة المکتوبة فیه مبرورةوالنافلة عمرة مبرورة ۔

تم اپنے گھوڑے اورزادسفرکوفروخت کردواوراس مسجدکوفہ میں نمازپڑھوکیونکہ اس مسجدمیں ایک واجب نمازاداکرناایک مقبولی حج کے برابرثواب رکھتاہے اورمستحبی نمازپڑھناایک مقبولی عمرہ کے برابرثواب رکھتاہے۔(۱)

قال النبی صلی الله علیه وآله:لمااسری بی مررت بموضع مسجدکوفة واناعلی البراق ومعی جبرئیل علیه السلام فقال:یامحمد!انزل فصل فی هذاالمکان ، قال: فنزلتُ فصلیتُ .

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب مجھے آسمانی معراج کے لئے لے جایاگیاتومیں براق پہ سوارتھااورجبرئیل (علیه السلام)بھی میرے ساتھ تھے ،جب ہم مسجدکوفہ کے اوپرپہنچے توجبرئیل (علیه السلام) نے مجھ سے کہا:اے محمد!زمین پراترجاؤاوراس جگہ پرنمازپڑھو،میںزمین پرنازل ہوااور(مسجدکوفہ میں)نمازپڑھی۔(۲)

____________________

۱). کافی/ج ١/ص ۴٩١

۲). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٣١

۱۱۰

حرم آئمہ اطہار میں نمازپڑھنے کاثواب

آئمہ اطہار کے حرم میں نمازپڑھنابہت ہی زیادہ فضیلت رکھتاہے ،یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں نمازپڑھنے کابہت زیاد ہ ثواب ہے ، دعائیں مستجاب ہوتی ہیں،رویات میں ایاہے کہ امام علی کے حرم میں ایک نمازپڑھنادولاکھ نمازوں کے برابرثواب رکھتاہے۔ حرم آئمہ اطہار میں نمازپڑھنے اوردعاکرنے کے بارے میں دعاکے باب میں ذکرکریں گے۔

مسجدقبااورمسجدخیف میں نمازپڑھنے کاثواب

مدینہ میں ایک مسجدقباہے کہ جس کی بنیادروزاول تقویٰ وپرہیزگاری پررکھی گئی ہے ، مسجدفضیح جسے مسجدردّشمس بھی کہاجاتاہے اسی مسجدکے پاس ہے مسجدقبامیں نمازپڑھنے کے بارے میں روایت میں ایاہے:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:من اتیٰ مسجدی قبافصلی فیه رکعتین رجع بعمرة

. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص میری مسجدمسجدقبامیں دورکعت نمازپڑھے وہ ایک عمرہ کے برابرثواب لے کرواپسہوتاہے ۔(۱)

مسجدخیف وہ مسجدہے کہ جومنی میں واقع ہے اوراس مسجدمیں ایک ہزارانبیاء نے نمازیں پڑھی ہیں اوربعض روایت کے مطابق اس میں سات سوانبیائے الٰہی نے نمازپڑھی ہیں معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:اس مسجدکومسجدکہنے وجہ کیاہے ؟

امام (علیه السلام) نے فرمایا:لانه مرتفع عن الوادی وکل ماارتفع عن الوادی سمی خیفا . کیونکہ یہ مسجدوادی منی کی بلندجگہ ہے اوروادی میں جوچیزبلندہوتی ہے اسے خیف کہتے ہیں(۲)

عن ابوجمزة الثمالی عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:من فی مسجد الخیف بمنی مئة رکعة قبل ان یخرج منه عدلت سبعین عاما ومن سبح فیه مئة تسبیحة کتب له کاجرعتق رقبة

. ابوحمزہ ثمالی سے روایت ہے امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص مسجدخیف میں منی میں اس سے باہرآنے سے پہلےسورکعت نمازپڑھے اس کی وہ نمازسترسال کی عبادت کے برابرثواب رکھتی ہے اورجوشخص اس میں سومرتبہ تسبیح پروردگارکرے اس کے لئے راہ خدامیں ایک غلام آذارکرنے کاثواب لکھاجاتاہے۔(۳)

____________________

۱) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٩

۲). علل الشرائع /ج ٢/ص ۴٣۶

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٣٠

۱۱۱

مسجدسہلہ میں نمازپڑھنے ثواب

مسجدسہلہ کوفہ میں واقع ہے ،جس میں حضرت ابراہیماورحضرت ادریس کاگھرہے ،روایت میں ایاہے کہ وہ سبزپتھرکہ جس پرتمام انبیائے کرام کی تصویربنی ہے اسی مسجدمیں واقع ہے اوروہ پاک پتھربھی اسی مسجدمیں ہے کہ جس کے نیچے کی خاک سے خداوندعالم نے انبیاء کوخلق کیاہے۔

عن الصادق علیه السلام قال:اذادخلت الکوفة فات مسجدالسهلة فضل فیه واسئل الله حاجتک لدینک ودنیاک فانّ مسجدالسهلة بیت ادریس النبی علیه السلام الذی یخیط فیه ویصلی فیه ومن دعالله فیه بمااحبّ قضی له حوائجه ورفعه یوم القیامة مکاناعلیاالی درجة ادریس علیه السلام واجیرمن الدنیاومکائد اعدائه.

امام صادق فرماتے ہیں:جب آپ شہرکوفہ میں داخل ہوں اورمسجدسہلہ کادیدارکریں تومسجدمیں ضرورجائیں اوراس میں مقامات مقدسہ پرنمازپڑھیں اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی دینی اوردنیاوی مشکلات کوحل کرنے کی دعاکریں،کیونکہ مسجدسہلہ حضرت ادریس کاگھرہے جسمیں خیاطی کرتے تھے اورنمازبھی پڑھتے تھےجوشخص اس مسجدمیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں ہراس چیزکے بارے میں جسے وہ دوست رکھتاہے دعاکرے تواس کی وہ حاجت پوری ہوگی اورروزقیامت حضرت ادریس کے برابرمیں ایک بلندمقام سے برخوردارہوگااوراس مسجدمیں عبادت کرنے اورنیازمندی کااظہارکرنے کی وجہ سے دنیاوی مشکلیں اوردشمنوں کے شرسے خداکی امان میں رہے گا۔(۱)

روی ان الصادق علیه السلام انه قال:مامن مکروب یاتی مسجدسهلة فیصلی فیه رکعتین بین العشائین ویدعوالله عزوجل الّافرج الله کربته.

امام صادق فرماتے ہیں:ہروہ شخص جوکسی بھی مشکل میں گرفتارہو مسجدسہلہ میں ائے اورنمازمغرب وعشاکے میں درمیان دورکعت نمازپڑھ کرخدائے عزوجل سے دعاکرے توخداوندعالم اس کی پریشانی دورکردے گا۔(۲)

قال علی بن الحسین علیهماالسلام :من صل فی مسجدالسهلة رکعتین ، زادالله فی عمره سنتین .

امام زین العابدین فرماتے ہیں:جوشخص مسجدسہلہ میں دورکعت نمازپڑھے ،خداوندعالم اس کی عمرمیں دوسال کااضافہ کردیتاہے۔(۳)

____________________

۱) بحارالانوار/ج ١١ /ص ٢٨٠

۲). تہذیب الاحکام/ج ۶/ص ٣٨

۳). مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ۴١٧

۱۱۲

مسجدبراثامیں نماپڑھنے کاثواب

مسجدبراثاعراق کے شہربغدامیں واقع ہے ،اس مسجدکی چندفضیلت یہ ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ کی زمین ہے ،جب حضرت علی جنگ نہروان سے واپس ہورہے تھے اوراس جگہ پرپہنچے توآپ نے یہاں پرنمازپڑھی اورحسن وحسین نے بھی اس مسجدمیں نمازپڑھی ہے ،اس مسجدمیں ایک پتھرہے کہ جس پرحضرت مریم نے حضرت عیسیٰ کوقراردیاتھا،اسی جگہ پرحضرت مریم کے لئے چشمہ حاری ہواتھا،یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت علی کے لئے سورج پلٹااورآپ نے نمازعصرکواس کے وقت میں اداکیا، اورکہاجاتاہے کہ حضرت یوشع اسی مسجدمیں دفن ہیں(۱)

بیت المقدس ، مسجدجامع ،محله وبازارکی مسجدمیں نمازپڑهنے کاثواب

عن السکونی عن جعفربن محمدعن آبائه عن علی علیهم السلام قال:صلاة فی البیت المقدس تعدل ا لٔف صلاة ، وصلاة فی مسجدالاعظم مائة صلاة ، وصلاة فی المسجدالقبیلة خمس وعشرون صلاة ، وصلاة فی مسجدالسوق اثنتاعشرة صلاة ، وصلاة الرجل فی بیته وحده صلاة واحد ۔

حضرت علی فرماتے ہیں:بیت المقدس میں ایک نمازپڑھناہزارنمازوں کے برابرہے اورشہرکی جامع مسجد میں ایک نمازپڑھناسونمازوں کے برابرہے اورمحلہ کی مسجدمیں ایک نمازپڑھنا پچیس نمازوں کے برابرہے اوربازارکی مسجدمیں ایک نمازپڑھنابارہ نمازوں کے بابرہے اورگھرمیں ایک نمازپڑھناایک ہی نمازکاثواب رکھتاہے ۔(۲)

مسجدکے میں مختلف حصوں میں نمازپڑھنے کی وجہ

جب انسان مسجدمیں جائے اوراپنی نمازکی جگہ کوبدلنامستحب ہے یعنی دوسری کودوسری پرپڑھے

عن الصادق جعفربن محمد علیهما السلام انّه قال:علیکم بِاتْیَان الْمساجد فانّهابیوت الله فی الارض،مَن اَتاهامتطهراًطَهره الله مِن ذنوبه،وکتب من زوّارهِ، فاکثروفیهامن الصلاة والدعاء وصلوا المساجدفی بقاع المختلفة فان کل بقعة تشهد للمصلی علیهایوم القیامة تم مسجد میں حاضر ہوا کروکیونکہ مسجد یں زمین پر خدا کا گھر ہیں پس جو شخص طہارت کے ساتھ مسجدمیں داخل ہو تا ہے خدا وند عالم اس کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کا نام زائرین خدا میں لکھاجاتاہے پس تم مسجدمیں بہت زیادہ نمازیں پڑھاکرواوردعائیں کرواورمسجدمیں مختلف جگہوں پرنمازپڑھاکروکیونکہ مسجدکاہرقطعہ روزقیامت اپنے اوپرنمازپڑھنے والے کے لئے نمازکی گواہی دے گا(۳)

____________________

.۱) رہنمائے زائرین کربلا/ص ٢۵---.۲) ثواب الاعمال /ص ٣٠

.۳)امالی(شیخ صدوق )/ص ۴۴٠

۱۱۳

مسجدمیں داخل ہوتے ہوئے دائیں قدم رکھنے کی وجہ

مستحب ہے کہ مسجدمیں داخل ہوتے وقت پہلے داہناقدم اندررکھیں اورمسجدسے نکلتے وقت بایاں قدم باہررکھیں کیونکہ داہناقدم بائیں قدم سے اشرف ہوتاہے،اورتاکہ خداوندعالم اسے اصحاب یمین میں قراردے اورقدم رکھتے وقت بسم الله کہیں ،حمدوثنائے الٰہی کریں محمدوآل محمد علیہم الصلاة والسلام پردرودبھیجیں اورخداسے اپنی حاجتوں کوطلب کریں

عن یونس عنهم علیهم السلام قال قال:الفضل فی دخول المسجد ان تبدا بٔرجلک الیمنی اذادخلت وبالیسری اذاخرجت .

یونس سے روایت ہے ،معصوم(علیه السلام) فرماتے ہیں:مسجدمیں داخل ہونے کے لئے بہترہے کہ آپ دائیں پیرسے داخل ہواکریں اوربائیں پیرسے باہرآیاکریں۔(۱)

روایت میں ایاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجدمیں داخل ہوتے تھے وقت “بسم الله اللہمّ صل علی محمدوآل محمد ، واغفرلی ذنوذبی وافتح لی ابواب رحمتک”اورمسجدسے کے باہرآتے وقت دروازے کے پاس کھڑے ہوکر“اللهمّ اغفرلی ذنوذبی وافتح لی ابواب فضلک ”کہتے تھے(۲)

اہل مدینہ کی ایک بزرگ شخصیت ابوحفص عطارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے :رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب بھی تم میں سے کوئی شخص نمازواجب پڑھے اورمسجدسے باہرآنے لگے تودروازہ میں کھڑے ہوکریہ دعاپڑھے:

اَللّٰهُمَّ دَعَوْت نی فَاَجَبْتُ دَعْوَتَکَ وَصَلَّیْتُ مَکْتُوْبَتَکَ وَانْتَشَرْتُ فِیْ اَرْضِکَ کَمَااَمَرْت نیْ فَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَمَلَ بِطَاعَتِکَ وَاجْت نابَ مَعْصِیَتِکَ وَالْکِفَافَ مِنَ الرِّزقِْ بِرَحْمَتِکَ .

ترجمہ:بارالٰہا!تونے مجھے دعوت دی ،پس میں نے تیری دعوت پرلبیک کہااورتیرے واجب کواداکیااورمیں تیرے فرمان کے مطابق تیری زمین پر(روزی کی تلاش میں)نکلا، پس میں تیرے فضل وکرم سے تجھ سے اپنے عمل میں تیری اطاعت کی درخواست کرتاہوں اورگناہ ومعصیت سے دوری چاہتاہوں اورتجھ سے تیری رحمت کے وسیلے سے رزق وروزی میں کفاف ) چاہتاہوں۔(۳)

____________________

۱) کافی/ج ٣/ص ٣٠٩

.۲) مستدرک الوسائل/ج ٣/ص ٣٩۴

. ۳)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۵١٧

۱۱۴

مسجدکے صاف وتمیزرکھنے کی وجہ

مسجدمیں جھاڑولگانااوراس کی صفائی کرناسنت مو کٔدہ ہے اوراسے نجس کرناحرام ہے۔

مسجدمیںصفائی کرنے اوراس میں چراغ کے جلانے سے انسان کے دل میں نورانیت پیدا،خضوع وخشوع اورتقرب الٰہی ہوتی ہے اورلوگ اسے ایک اچھاانسان محسوب کرتے ہیں

قال رسول الله صلی الله صلی الله علیه وآله:من کنس فی المسجدیوم الخمیس لیلة الجمعة فاخرج منه التراب قدرمایذر فی العین غفرالله له ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص جمعرات کے دن شب جمعہ مسجدمیں جھاڑولگائے اورآنکھ میں سرمہ لگانے کے برابرگردوخاک کومسجدسے باہرنکالے توخداوندعالم اس کے گناہوں بخشدیتاہے ۔

حکایت کی گئی ہے کہ ایک مجوسی اپنی کمرپرمجوسی کمربندباندھے اورسرپرمجوسی ٹوپی لگائے ہوئے مسجدالحرام میں داخل ہوا،جب وہ خانہ کعبہ کے گردگھوم رہاتھاتواس نے دیکھاکہ دیوارکعبہ پرکسی کالعاب دہن لگاہواہے ،اس نے دیوارکعبہ سے لعاب دہن کوصاف کردیااورمسجدالحرام سے باہرنکل آیا،جیسے ہی وہ باہرآیاتوناگہان ہواکاایک تیزجھونکاآیااوراس کے سرپہ لگی ہوئی ٹوپی ہوامیں اڑھ گئی،اس نے اپنی ٹوپی کوہرچندپکڑنے کی کوشش کی مگروہ اس کے ہاتھ نہ آئی ،ناگاہ ہاتف غیبی سے ایک آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی :جب تجھے ہمارے گھرپہ کسی کالعاب دہن لگے ہوئے دیکھناپسندنہیں ہے توہمیں بھی تیرے سرپرکفرکی نشانی لگے ہوئے دیکھناپسندنہیں ہے ،یہ بات سن کراس آتش پرست نے اپنی کمرسے وہ کمربندبھی کھول کرپھینک دیااورمسلمان ہوگیا۔(۲)

روایت میں آیاہے کہ ایک بوڑھی اوربےنوا عورت اس مسجد میں کہ جس میں پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نمازپڑھتے تھے ، جھاڑو لگا یا کرتی تھی اورمسجدکوصاف رکھتی تھی ،وہ عورت بہت ہی زیادہ غریب وفقیرتھی اورمسجد کے کسی ایک گوشہ میں سویا کرتی تھی ، نمازجماعت میں حاضرہونے والے لوگ اس کے لئے آب وغذا کا انتظام کرتے تھے ،ایک دن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)اور مسجد میں داخل ہوئے اوراس ضعیفہ کو مسجد میں نہ پایاتومسجدموجودلوگوں سے اس عورت کے بارے میں دریافت کیا،حاضرین مسجدنے جواب دیا:

____________________

١)ثواب الاعمال/ص ٣١

. ۲)نماز،حکایتہاوروایتہا/ص ١۴

۱۱۵

یانبی الله! وہ عورت شب گذشتہ انتقال کر گئی ہے اور اسے دفن بھی کردیا گیا ہے ،پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) اس کے انتقال کی خبر سن کر بہت زیادہ غمگین ہوئے اور کہا : تم نے مجھ تک اس کے مرنے کی خبر کیوں نہیں پہنچائی تھی تم مجھے اس عورت کی قبرکاپتہ بتاؤ، ان لوگوں نے آنحضرت کو اس ضعیفہ کی قبرکاپتہ بتایااورنمازکے بعدچندلوگ آپ کے ہمراہ اس کی قبر پرپہنچے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کی قبرنمازپڑھنے کے لئے کہا،آنحضرت آگے کھڑے ہوئے اورآپ کے ساتھ آئے ہوئے لوگ صف باندھ کرپیچھے کھڑے ہوگئے اور سب نے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ کھڑے ہوکرنمازمیت پڑھی اور ) اس کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگی ۔(۱)

بدبودارچیزکھاکرمسجدمیں انے کی کراہیت کی وجہ

مسجدمیں کوئی ایسی چیزکھاکرآنایاساتھ میں لانامکروہ ہے کہ جس کی بوسے مومنین کواذیت پہنچے ، لہسن یاپیازوغیرہ کھاکرمسجدمیں آنے سے پرہیزکیاجائے ۔

عن محمدبن مسلم عن ابی جعفرعلیه السلام قال:سئلته عن اکل الثوم فقال:انمانهی رسول صلی الله علیه واله عنه لریحه فقال:من اکل هذه البقلة المنت نة فلایقرب مسجدنا .

محمدابن مسلم سے مروی ہے کہ میں امام باقر سے لہسن کے بارے میں معلوم کیاتوامام (علیه السلام) نے فرمایا: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله):نے اس کی بدبوکی وجہ سے (اسے کھاکرمسجدمیں جانے کو)منع کیاہے اورفرمایاہے :جوشخص اس بدبودارگھاس کوکھائے تووہ ہمارے مسجدوں کے قریب بھی نہ آئے ۔(۲)

عن محمدبن سان قال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن اکل البصل الکراث، فقال:لاباس باکله مطبوخاوغیرمطبوخ ،ولکن ان اکل منه ماله اذافلایخرج الی المسجد کراهیة اذاه علی من یجالس .

محمدابن سان سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پیازاورترہ کے بارے میں سوال کیاتوامام (علیه السلام) نے فرمایا:ان دوچیزوں کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ پختہ استعمال کیاجائے یاغیرپختہ ، لیکن اگر انھیں کھاکرمسجدمیں نہ جائے کیونکہ اس کی بدبوسے مسجدمیں بیٹھے والوں کواذیت ہوتی ہے۔(۳)

____________________

. ١)ہزاریک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٧۵٨ /ص ٢٣٨

. ۲)علل الشرائع/ج ٢/ص ۵١٩

. ۳)علل الشرائع/ج ٢/ص ۵٢٠

۱۱۶

مسجدوں کااس طرح بلندبناناکہ اس سے اطراف میں موجودگھروں کے اندرنی حصے نظرآتے ہوں مکروہ ہے

عن جعفربن محمد عن ابیه علیه السلام : انّ علیارا یٔ مسجدا بالکوفة قدشرف فقال:کانهابیعة ،وقال:ان المساجدلاتشرف تبنی جما.

روایت میں آیاہے کہ حضرت علی نے کوفہ میں ایک مسجدکو اطراف کے گھروں سے بلنددیکھاتوآپ نے فرمایا:یہ گرجاگھر(معبدیہودونصاریٰ )ہے اورفرمایا:مسجدوں کوبلندنہیں بناناچاہئے بلکہ انھیں پست وکوتاہ بنایاجائے۔(۱)

قبلہ

جب بندہ مومن اس چیزکاعلم رکھتاہے کہ خداوندعالم ہرجگہ اورہرسمت میں موجودہے،نہ اس کے رہنے کی کوئی جگہ مخصوص ہے وہ لامکان ہے ،ہم جدھربھی اپنا رخ رکھیں وہ ہمیں دیکھ رہاہے اورسن رہاہے پھرکیاضروری ہے کہ انسان کسی ایک مخصوص سمت رخ کرکے پروردگارکی عبادت کرے اوراس سے رازونیازکرے؟ صرف ظاہری طورسے جس طرف بھی کھڑے ہوکر نمازپڑھنے ،رکوع وسجودکرنے کوعبادت نہیں کہتے ہیں بلکہ باطنی طورسے بھی عبادت کرناضروری ہے یعنی دل کوپروردگارعالم کی طرف متوجہ کرناضروری ہے ،اگردل خداکی طرف نہ ہوتواسے عبادت نہیں کہتے ہیں

خداوندعالم یہی چاہتااوردوست رکھتاہے اوراسی چیرکاامرکرتاہے میرابندہ باطنی طورسے بھی میری ہی عبادت کرے اورظاہری طورکے علاوہ معنوی اعتبارسے بھی میری طرف توجہ رکھے اورغیرخداکاخیال بھی نہ کرے لہٰذاپروردگارنے زمین پرایک جگہ معین کیاتاکہ بندے اس طرف رخ کرکے اس کی عبادت کریں اوراپنے دل میںغیراخداکاارادہ بھی نہ کریں۔ خداوندعالم کی حمدوثنااورتسبیح وتقدیس کرنے میں کسی دوسرے کادل میں خیال بھی نہیں آناچاہئے بلکہ دل کوپروردگار کی طرف مائل رکھنازیادہ ضروری ہے ،کیونکہ اگرکتاب وسنت کی طرف رجوع کیاجائے توسب کاحکم یہی ہے کہ انسان رب دوجہاں کی عبادت کرنے میں اپنے دل کوبھی متوجہ رکھے بلکہ کتاب وسنت میں دل وباطن کوخداکی طرف متوجہ رکھنے کوزیادہ لازم قراردیاگیاہے

____________________

۱) علل الشرئع/ ٢/ص ٣٢٠

۱۱۷

قرآن وسنت میں کسی چیزکوقبلہ قراردینے کاجوحکم دیاگیاہے اس کی اصلی وجہ دل وباطن کوخداکی طرف توجہ کرنامقصودہے، تاکہ انسان کے تمام اعضاوجوارح میںثبات پایاجائے کتاب وسنت میں ایک مخصوص سمت رخ کرکے نمازپڑھنے کاحکم دیا ہے کیونکہ جب دل ایک طرف رہے گاتواس میںزیادہ سکون واطمینان لیکن اگراعضاوجوارح مختلف جہت وسمت میں ہوں توپھردل بھی ایک طرف نہیں رہے گااوربارگاہ خداوندی میں حاضرنہیں رہ سکے گااورعبادت میں اصلی چیزدل وباطن کوخداکی طرف توجہ کرناہے اوروہ آیات وروایات کہ جن میں ذکروعبادت اورتقوائے الٰہی اختیارکرنے کی تاکیدکی گئی ہے وہ سب قلب کے متوجہ ہونے کولازم قراردیتی ہیں۔

جس سمت رخ کرکے تمام مسلمان اپنی نمازوں اورعبادتوں کوانجام دیتے ہیں ،اورجس کی طرف اپنے دلوں کومتوجہ کرتے ہیں اسے قبلہ کہاجاتاہے اسی لئے کعبہ کوقبلہ کہاجاتاہے کیونکہ تمام مسلمان اپنی نمازوعبادت کواسی کی سمت انجام دیتے ہیں خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے جوپوری دنیاتمام مسلمانوں کا مرکزاورقبلہ ہے خانہ کعبہ کے بارے میں چند اہم نکات وسوال قابل ذکرہیں:

١۔خانہ کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے؟

اس بارے میں روایت میں آیاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں ائی اورانھوں نے آنحضرتسے چندسوال کئے ،ان میں سے ایک یہودی نے معلوم کیا:کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے ؟نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:لانّهاوسط الدنیا ۔ کیونکہ کعبہ دنیاکے درمیان میں واقع ہے ۔(۱)

٢۔خانہ کعبہ کے چارگوشہ کیوں ہیں؟

یہودی نے بنی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کوچارگوشہ بنائے جانے کی وجہ کیاہے؟

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:کلمات اربعہ(سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّالله ، والله اکبر )کی وجہ سے ۔(۲)

____________________

۱). امالی (شیخ صدوق )/ص ٢۵۵

۲). امالی (شیخ صدوق )/ص ٢۵۵

۱۱۸

روایت میں آیاہے کہ کسی نے امام صادق سے معلوم کیا:کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے ؟آپ نے فرمایا؟کیونکہ کعبہ کے چارگوشہ ہیں،اس نے کہا:کعبہ کے چارگوشہ بنائے جانے کی وجہ کیاہے ؟ امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ کعبہ بیت المعمور کے مقابل میں ہے اوراس کے چارگوشہ (لہٰذاکعبہ کے بھی چارگوشہ ہیں)اس نے معلوم کیا:بیت المعورکے چارگوشہ کیوں ہیں؟فرمایا:کیونکہ وہ عرش کے مقابل میں ہیں اوراس کے چارگوشہ ہیں (لہٰذابیت المعمور کے بھی چارگوشہ ہیں)روای نے پوچھا:عرش کے چارگوشہ کیوں ہیں؟فرمایا:کیوں وہ کلمات کہ جن پراسلام کی بنیادرکھی گئی ہے وہ چارہیں جوکہ یہ ہیں:

سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّالله ، والله اکبر .(۱)

٣۔خانہ کعبہ کو“بیت الله الحرام ”کیوں کہاجاتاہے؟

حسین بن ولیدنے حنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں نے امام صادق سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کو“بیت الله الحرام ”کیوں کہاجاتاہے ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس میں مشرکوں کاداخل ہوناحرام ہے اس لئے کعبہ کو“بیت الله الحرام” کہاجاتاہے

۴ ۔خانہ کعبہ کوعتیق کیوں کہاجاتاہے ؟

ابوخدیجہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کوعتیق کیوں کہاجاتاہے ؟ آپ نے فرمایا:کعبہ اس لئے عتیق کہاجاتاہے کہ یہ جگہ سیلاب میں عرق ہونے سے آزاداورمحفوظ ہے (جب طوفان نوح (علیه السلام) آیاتھاتواسوقت بھی کعبہ غرق نہیں ہواتھااورنوح نے کشتی میں بیٹھے ہوئے کعبہ کادیدارکیاتھا(۲)

ابن محاربی سے مروی ہے امام صادق فرماتے ہیں:

خداوندعالم نے حضرت نوح کے زمانہ میںطوفان کے وقت کعبہ کے علاوہ پوری زمین کوپانی میں غرق کردیاتھااسی لئے اس بقعہ مبارکہ کوبیت عتیق کہاجاتاہے کیونکہ یہ جگہ اس وقت بھی غرق ہونے سے آزادومحفوظ تھی ،راوی کہتاہے کہ میں نے امام (علیه السلام) سے عرض کیا:کیایہ بقعہ مبارکہ اس دن آسمان پرجلاگیاتھاجوغرق ہونے سے محفوظ رہا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:نہیں بلکہ اپنی جگہ پرتھااورپانی اس تک نہیں پہنچااوریہ بیت پانی سے مرتفع قرارپایا۔(۳)

____________________

. ۱)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٩٨

۲). علل الشرئع /ج ٢/ص ٣٩٨

۳) تفسیرنورالتقلین/ج ٣/ص ۴٩۵

۱۱۹