امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے0%

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 29

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے

مؤلف: محققین کی ایک جماعت
زمرہ جات:

صفحے: 29
مشاہدے: 51662
ڈاؤنلوڈ: 3121

تبصرے:

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51662 / ڈاؤنلوڈ: 3121
سائز سائز سائز
امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے

مؤلف:
اردو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۵- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت

از:زہراءاصغری

امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت یوں تو بہت ہیں اور یہ کہ اس جہان میں کوئی شی اور کام بغیر کسی ہدف اور حکمت و مصلحت کے نہیں ہے حکیم کا کوئی بھی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا غیبت امام مہدی علیہ السلام میں بھی ہدف اور حکمت موجود ہے اصل فلسفہ اور حکمت سے تو صرف خداوندعالم واقف ہے عام لوگ اس حکمت و مصلحت سے واقف نہیں ہے لیکن جس طرح بہت سے واجبات اور احکامات تعبدی محض ہے اور کسی کو اس کی اصل مصلحت اور حکمے کے بارے میں علم نہیں اسی طرح غیبت امام زمانہ علیہ السلام بھی مصلحت و حکمت خداوندی کی بناءپر عمل میں آئی ہے جیسے طواف کعبہ، رمی حمرہ اور تعداد رکعات نماز، تعداد خازنان جہنم وغیرہ جس کی اصل حکمت و فلسفہ سے صرف خدا آگاہ ہے البتہ بعض مصلحتیں حکمتیں اور اہداف قرآنی آیات میں موجود ہے اور پیغمبر اکرم اور آئمہ طاہرین علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے جو خود معلمین و راہنمائے بشریت ہے اور ارشاد خداوندی کے مطابقمن یطلع الرسول فقد اطاع الله (سورہ نباءآیت۰۸) جس نے پیغمبر کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی کیونکہ پیغمبر کوئی قدم خدا کی معثیت کے خلاف نہیں اُٹھاتا اس کی گفتار، کردار اعمال سب کے فرمان کے مطابق ہیں اور اس طرح آیہ تطہیر اور اولی الامر کے مطابق چونکہ اہلبیت علیہ السلام ہر رجس سے پاک ہیں اور ان کی طاعت واجب ہے یہ روایات مدرک قطعی کے مطابق روایات متواترہ میں سے ہیں یہ مسلم ہے کہ زمین حجت خدا اور امام زمانہ علیہ السلام سے خالی نہیں رہ سکتی اور چونکہ حجت خدا اس وقت حضرت مہدی علیہ السلام کے سوا کوئی نہ تھا اور انہیں دشمن قتل کر دینے پر تلے ہوئے تھے اس لیے محفوظ و مستود کر دیا گیا کیونکہ مثیت خداوندی یہی ہے کہ زمین حجت سے خالی نہ ہو حدیث میں وارد ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی اور انہیں کی وجہ سے اور انہیں کے ذریعے روزی تقسیم کی جاتی ہے(بحار) یہ بھی مسلم ہے کہ حضر مہدی علیہ السلام جملہ انبیاءکے مظہر تھے اس لیے ضرورت تھی کہ انہیں کی طرح ان کی غیبت بھی ہوئی یعنی جس طرح بادشاہ وقت کے مظالم کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی اپنے عہد حیات میں مناسب مدت تک غائب رہ چکے تھے اسی طرح یہ بھی غائب رہتے بادشاہ وقت خلیفہ محمد عباسی جو اپنے آباءو اجداد کی طرح ظلم و ستم کا خوگر اور آل محمد کا جانی دشمن تھا اور اس کے کانوں میں مہدی علیہ السلام کی ولادت کی خبر کم و بیش بڑھ چکی تھی اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین و تدفین سے پہلے حضرت کے گھر پر پولیس کا چھاپہ ڈبوایا اور چاہا کہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتار کرا لے اور چونکہ آپ کو اپنی جان کا خوف تھا اور یہ طے شدہ بات ہے کہ جیسے اپنے نفس اور اپنی جان کا خوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کو لازمی جانتا ہے سورہ انا انزلناہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزول ملائکہ شب قدر میں ہوتا رہتا ہے یہ ظاہر ہے کہ نزول ملائکہ انبیاءو اوصیاءہی پر ہوا کرتا ہے لہذا امام مہدی علیہ السلام کو اسی لیے موجود اور باقی رکھا گیا ہے تا کہ نزول ملائکہ کی مرکزی غرض و مقصد پوری ہو سکے اور شب قدر میں انہیں پر نزول ملائکہ ہو سکے حدیث میں ہے کہ شب قدر میں سال بھر کی روزی وغیرہ امام مہدی علیہ السلام تک پہنچا دی جاتی ہے اور وہی اس سے تقسیم کرتے رہتے ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کو اس لیے غائب کیا جائے گا تا کہ خداوند عالم اپنی ساری مخلوقات کاامتحان کر کے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اور باطل پرست کون لوگ ہیں زمانہ غیبت میں مصائب و مشکلات کے ذریعے شیعوں سے امتحان لیا جائے گا آپ کی غیبت کے متعلق قرآن مجید میںارشاد خداوندی ہے: الم ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب مفسر اعظم حضرت محمد فرماتے ہیں کہ ایمان بالغیب سے امام مہدی علیہ السلام کی غیبت مراد ہے نیک بخت وہ لوگ ہیں جو ان کی غیبت پر صبر اور زمانہ غیبت مراد ہے نیک بخت وہ لوگ ہیں جو ان کی غیبت پر صبر اور زمانہ غیبت میں ان پر ہونے والے مشکلات پر صبر کریں گے اور مبارک باد اور آفرین کے قابل ہیں وہ لوگ جو غیبت میں بھی ان کی محبت پر قائم رہیں گے اور شاید آپ کی غیبت اس لیے واقع ہوئی ہے کہ خداوند عالم ایک وقت معین میں آل محمد پر جو مظالم کیے گئے ہیں ان کا بدلہ امام مہدی علیہ السلام کے ذریعے سے لے گا عبدالسلام بن صالح ہروی سے مروی ہے کہ اس نے کہا میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا اے فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملنے والی حدیث میں فرمایا گیا کہ جب ہمارا قائم علیہ السلام ظاہر ہو گا تو وہ قاتلان حسین علیہ السلام کی اولاد کو ان کے اجداد کے جرائم کی پاداش میں قتل کرے گا امام رضا علیہ السلام نے فرمایا یہ درست ہے میں نے کہا خدا نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ولا تزر وازرة وزراخریٰ کوئی شخص کسی دوسرے (گناہ) کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا اس کا کیا مفہوم ہے آپ نے فرمایا خدا نے اپنے تمام کلام میں سچ کہا ہے لیکن چوکہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی اولاد اپنے اجداد کے اعمال پہ راضی اور اس پہ فخر کرتے ہیں اس لیے وہ بھی قتل کیے جائیں گے جو شخص کسی کے عمل پر راضی ہو تو گویا وہ اس عمل کے بجا لانے میں اس کا شریک ہے اگر کوئی انسان مشرق میں قتل کیا جائے اور مغرب میں کوئی اس کے قتل پر خوش ہو تو خداوندعالم کے نزدیک وہ بھی اس قتل کا ساتھی ہے حضرت قائم علیہ السلام ے ہاتھوں ان کے قتل ہونے کا یہی سبب ہے اور شاید ایک سبب اور حکمت امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا یہ بھی ہو بقول محقق طوسی کہ وجودہ لطف وتصرفہ لطف اٰخروعدمہ منا امام زمانہ علیہ السلام کا وجود لطف ہے اور ان کا تصرف دوسرا لطف ہے اور ان کی غیبت ہماری طرف سے ہے مقصد یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا سبب اور ان کا امور مسلمین میں تصرف نہ فرمانا یہ سب اس لیے ہے کہ ابھی تمام مسلمان حضرت کی اطاعت پر آمادہ نہیں ہیں اور مستضعفین کو متکبرین اور طاغوت کے شر سے نجات دلانا اور سارے جہاں میں عدل عمومی کی آمادگی شرط اول ہے اور ابھی تک اس تصرف کی شرائط فراہم نہیں ہوئیں بقول شہید مطہری کہ یہ دنیا کا دستور ہے کہ جب کسی اہم مہمان کو دعوت دیتے ہیں تو بہت اہتمام کرتے ہیں اور اپنے گھر کی صفائی کرتے ہیں لذیذ کھانے تیار کرتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم اس عظیم شخصیت کو دعوت دیں اور اپنے دل کے گھر کو ہر گناہ اور خلاف ورزی سے صاف نہ کریں کیونکہ امام زمانہ علیہ السلام کا ایک شرعی فرض یہ ہے کہ وہ زمانہ غیبت کے لیے اپنے جانشینوں کا تعین فرمائیں خواہ لوگ انہیں تسلیم کریں یا نہ کریں اس سے آپ کا شرعی فریضہ پورا ہو جائے گا اور آپ نے ان جانشینوں کے بارے میں فرمایا ہے ان کی بات رد کرنے والا ہماری بات کو رد کرنے والا ہے اور جس نے ہماری بات کو رد کیا اس نے خدا کے فرمان کو رد کیا اور خدا کے فرمان کو رد کرنے والا حد شرک میں داخل ہو جاتا ہے ایک اور روایت میں امام زمانہ علیہ السلام سے یہ الفاظ مروی ہےں آپ نے فرمایا امورو احکام ان علمائے الہیٰ کے ہاتھوں جاری ہون گے جو حلال و حرام کے لیے اللہ کے امین ہوں گے اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم مسلمانوں میں سے کتنے لوگ ان جانشینوں کی اطاعت کرتے ہیں اور ظہور امام زمانہ علیہ السلام کے لیے اپنے دل کے گھر کو آمادہ کرتے ہیں رہبر کی اطاعت مسلمانوں پر فرض ہے کیونکہ اس سے نظام اسلام کی بقاءوابستہ ہے اور مسلمانوںکے اجتماعی امور اور ان کی فلاح و دستگاری کا انحصار اسی پر ہے کہ وہ ایک مرکز سے وابستہ ہوں تا کہ مضبوط مرکز کی وجہ سے طاغوت و استکبار کے تسلط سے محفوظ رہیں ارشاد خداوندی ہے سورہ بقرہولنبلونکم بشیءمن الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات و بشرالصابرین الذین اذا اصابتهم مصیبة قالو انا لله وانا الیه راجعون ۔

اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف، تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو شہادت دے دیں جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں اس نفسا نفسی اور دہشت گردی کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں محفوظ نہیں ہیں نہ مالی لحاظ سے اور نہ جانی لحاظ سے جس ملک میں بھی اسلامی حکومتیں ہیں اس ملک کو اس کے باشندے اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس کا الزام مسلمانوں کے اوپر ہے یہ سب امتحان نہیں تو اور کیا ہے خدا کریں کہ ہم ان مصائب پر صبر کر کے اور دشمنان اسلام کے نا پاک عزائم کو نا کام بنا کے اس آیت کے مصداق بن جائیں۔

انا وجدناه صابر انعم العبد انه اواب ۔(سورہ ص)

ہم نے اسے صابر پایا بہترین بندہ جو ہماری طرف بہت ہی رجوع کرنے والا ہے علامہ شیخ قندوزی بلخی حنفی لکھتے ہیں کہ سدیر صیرفی کا بیان ہے کہ ہم اور مفضل بن عمر، ابو بصیر، ابان بن تغلب ایک دن صادق آل محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ زمین پر بیٹھے تھے اور رو رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ اے محمد تمہاری غیبت کی خبر نے میرا دل بے چین کر دیا ہے میں نے عرض کی حضور خدا آپ کی آنکھوں کو کبھی نہ رولائے بات کیا ہے کس لیے حضور گریہ کناں ہیں فرمایا اے سدیر میں نے آج کتاب جفر جامع میں بوقت صبح اما مہدی علیہ السلام کی غیبت کا مطالعہ کیا ہے اے سدیر یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب اس میں لکھا ہوا ہے اے سدیر میں نے اس کتاب میں دیکھا ہے کہ ہماری نسل سے امام مہدی علیہ السلام ہوں گے پھر وہ غائب ہو جائیں گے اور ان کے غیبت نیز طول عمر ہو گی ان کی غیبت کے زمانے میں مومنین مصائب میں مبتلا ہوں گے اور ان کے امتحانات ہوتے رہیں گے اور غیبت میں تاخیر کی وجہ سے ان کے دلوں میں شکوک پیدا ہوں گے غیبت کی طویل ہونے اور ظہور میں تاخیر خود ایک بہت سخت اور دشوار امتحان ہے جس مومنین حقیقی اور غیر حقیقی کی پہنچا ہو جائیں گے اس دور میں جب اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور شب و روز کوششوں میں مصروف ہیں اور ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں تا کہ مسلمانوں کو ان کے دین و مذہب سے دور کرکے اور ان کو اسلام سے بدظن کر کے یہ تاثیر دلا دے کہ جو دیندار ہو گا ان کی مال و جان عزت و آبرو خطرے میں ہو گا اسی لیے اب تو بعض نوجوان اس روز کے واقعات و حادثات سے ننگ و آکر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آخر امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور کب ہو گا ہم کب تک انتظار کریں اس مذہب کا کیا فائدہ جس کی وجہ سے ہم ہر روز قتل ہو جائیں عزیزان امتحان بہت مشکل ہے اس لیے تو حدیث میں وارد ہے کہ آخرالزمان علیہ السلام میں ایمان کی حفاظت کرنا گرم لو ہے کو پکڑنے سے زیادہ دشوار ہے اسی طرح کمزور ایمان والے غیبت امام مہدی علیہ السلام اور تاخیر ظہور کی وجہ سے فرامین پیغمبر اور آئمہ علیہ السلام کی تکذیب کر رہے یں اور بلا وجہ اعتراضات کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں اور احادیث میں اپنی طرف سے تاویل و تفسیر کر کے ایک نیا راستہ تلاش کر رہے ہیں جو کہ یقینا ان لوگوں سے قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ سورہ آل عمران آیت ۵۸ میں انہی لوگوں کے بارے ارشاد رب العزت ہے۔ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منه وهو من الاخرة من الخاسرین ۔

اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور قیامت کے دن خسارہ والوں میں سے ہو گا جو لوگ توحید اور ایک خدا کی بندگی کی راہ میں ثابت قدم ہوتے ہیں ان کے قدم نہ مال و مقام کے امتحانج سے ڈگمگاتے ہیں اور نہ شہوت و لزت کے سامنے ٹھوکر کھاتے ہیں جو لوگ ایمان و عمل ثابت قدم ہوتے ہیں وہ دنیا کے تمام امتحانات میں ثابت قدم ہوتے ہیں اور دشمن کے کسی حربے اور طاقت سے مرعوب نہیں ہوتے حتیٰ کہ قتل ہو جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں مگر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کے لیے حاضر نہیں ہوتے اس لیے کہ اسلام و مسلمین کے ساتھ خیانت دراصل خدا کے ساتھ خیانت ہے پس حقیقت صرف یہ ہے کہ دنیا کی تمام مشکلات کا حل تمام دکھوں دردوں اور پسماندگیوں کا علاج اور مسلم امر کی ترقی و خوشحالی کا واحد راستہ تمسک بالثقلین ہے یعنی قرآن مجید اور عترت رسول کی پیروی ہے حضرت محمد و ال محمد سے بہتر کوئی پیشوا نہیں اور کوئی ان کے برابر نہیں امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت یہ بھی ہے کہ خداوند متعال چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کی تربیت کر کے انہیں ظہور مہدی علیہ السلام کے لیے آمادہ کرین کیونکہ انتظار ظہور مہدی علیہ السلام تربیت کنندہ بھی ہے اور افضل ترین عمل بھی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:افضل اعمال امتی انتظار الفرج من الله عزوجل ۔

یعنی میری امت ترین اعمال میں سے ظہور کا انتظار کرنا ہے۔

کسی نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو ہادیان بر حق کی ولایت رکھتا ہے اور حکومت حق کے ظہور کے انتظار میں رہتا ہے اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: وہ اس شخص کی طرح ہے جو اس رہبر انقلاب کے خیمہ میں اس کی فوج کے سپاہیوں میں ہو پھر آپ نے کچھ توقف کیا پھر فرمایا اسی شخص کی طرح جو پیغمبر اسلام کے ساتھ ان کے معرکوں میں شریک ہو حضرت رسول اور آئمہ علیہ السلام طاہرین علیہ السلام کہ جو شخص قیام مہدی علیہ السلام کا انتظار کرتے ہوئے مر جائے اس کی مثال ایسی ہے گویا وہ امام علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شریک ہے جب کہ اس کا ثواب پچیس شہیدوں کے ثواب کے برابر محی الدین اردبیلی کہتا ہے کہ ایک دن میں بیٹھا اُونگھ رہا ہے ایسی حالت میں یکایک اس کے سر سے عمامہ گر گیا اس کے سر پر زخم کا نشان نمایاں تھا میرے والد نے پوچھا یہ زخم کیسا ہے؟ اس نے جواب دیا یہ جنگ صفین کے زخم کا نشان ہے میرے والد نے اس سے پوچھا تم نے کہاں اور جنگ صفین کہاں؟ یہ کیا معاملہ ہے اس نے جواب دیا میں مصر کی طرف سفر کر رہا تھا غزہ کا رہنے والا شخص بھی ہمراہ ہو گیا اثنائے راہ میں جنگ صفین پر گفتگو چھڑ گئی میرا ساتھی کہنے لگا اگر میں جنگ صفین میں ہوتا تو اپنی تلوار کو علی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے خون سے سیراب کرتا میں نے بھی اس کے جواب میں کہا اگر میں جنگ صفین میں ہوتا تو اپنی تلوار کی پیاش کو معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے خون سے بچھاتا اب میں اور تم علی علیہ السلام اور معاویہ کے ساتھیوں میں سے ہیں کیوں نہ باہم جنگ کر لیں آپس میں اچھی خاصی جنگ ہوئی یکایک میں نے محسوس کیا کہ میرے سر پر زخم لگا اور فوراً ہی میں بیہوش ہو گیا اسی اثنا میںمیں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے نیزے کے سرے سے مجھے بیدار کر دیا ہے جب میں نے آنکھ کھولی تو وہ سوار گھوڑے سے اتر آیا اور اپنا ہاتھ میرے سر کے زخم پر پھیرا میرا زخم ٹھیک ہو گیا فرمایا اسی مقام پر رک جاو کچھ دیر بعد سوار غائب ہو گیا میں نے دیکھا ان کے ہاتھ مین میرے اس ساتھی کا کٹا ہوا سر ہے جو میرے ساتھ سفر کر رہا تھا اور اس کے مال مویشی بھی ان کے ساتھ ہیں واپس آکر مجھ سے فرمانے لگے یہ تیرے دشمن کا سر ہے تو نے ہماری نصرت میں قیام کیا پس ہم نے بھی تمہاری مدد کی جو بھی خداوند عالم کی مدد کرتا ہے خدا اس کی نصرت کرتا ہے میں نے پوچھا آپ کون ہے؟ تو فرمایا میں ہی صاحب الامر علیہ السلام تمہارے زمانے کا امام علیہ السلام ہوں پھر فرمانے لگے جو بھی اس زخم کے متعلق سوال کرے اسے بتانا کہ یہ جنگ صفین کا زخم ہے حضرت مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت اور عالمی مصلح کے قیام کا انتظار دو عناصر کا مرکب ہے ایک نفی کا عنصر اور دوسرا مثبت کا عنصر، منفی عنصر موجودہ حالت کی ناپسندیدگی ہے اور مثبت عنصر بہتر اور اچھی حالت کی آرزو ہے اب اگرچہ دونوں پہلو روح انسانی میں اتر جائیں تو دو قسم کے وسیع اعمال کا سر چشمہ بن جائیں گے ان دو قسم کے اعمال میں ایک طرف تو ظلم و فساد کے عوامل سے ہر طرح کا تعلق ترک کرنا ہے یہاں تک کہ ان سے مقابلہ اور جنگ کرنا ہے اور دوسری طرف خودسازی ہے اگرہم اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ اس کے دونوں حصے اصلاح کن، تربیت کنندہ اور تحرک، آگاہی اور بیداری کے عوامل ہیں سچے انتظار کرنے والوں کی ساتھ ساتھ یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ فقط اپنی اصلاح نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کے حالات پر بھی نظر رکھیں اور اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں کیونکہ جس عظیم پروگرام کی تکمیل کے وہ منتظر ہیں انفرادی نہیں بلکہ ایسا پروگرام ہے جس میں تمام عناصر انقلاب کو شرکت کرنا ہو گی ایک اجتماعی اور وسیع جنگ کے میدان میں کوئی شخص دوسرں کے حال سے غافل نہیں رہ سکتا بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ کمزوری کا کوئی نقطہ اسے جہاں نظر آئے اس کی اصلاح کرے تنہا جو چیز انسان میں امید کی روح پھونک سکتی ہے انہیں مقابلے اور کھڑے رہنے کی دعوت دے سکتی ہے اور انہیں فاسد ماحول میں گھل مل جانے سے رک سکتی ہے وہ ہے مکمل اصلاح کی امید صرف یہی صورت ہے کہ جس میں وہ اپنی پاکیزگی کی حفاظت کر سکتے ہیں اور دوسروں کی اصلاح کی جدوجہد کو جاری رکھ سکتے ہیں خلاصہ یہ کہ جس قدر دنیا فاسد اورخراب ہو گی مصلح کے ظہور کے انتظار میں امید بڑھے گی جو معتقدین پر زیادہ روحانی اثر ڈالے گی برائی اور خرابی کی طاقتور موجوں کے مقابلے میں یہ امید ان کی حفاظت کرے گی اور وہ نہ صرف ماحول کے دامن فساد کی وسعت سے مایوس نہیں ہوں گے بلکہ وعدہ وصل کی نزدیکی سے ان کی آتش عشق تیز ہوں گی بقول شاعر

وعدئہ وصل چون شود نزدیک

آتش عشق تیز نستر گردد

یہ تھی فلسفہ و حکمت غیبت امام زمانہ علیہ السلام خدا سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کو اپنے محبوب و معشوق امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے اور ان کے سچے پیروکار اور منظر حقیقی ہونے کی توفیق عطا فرمائیں مضمون کے اختتام میں فرزندان اسلام سے بالعموم اور شیعیان حیدر کرار علیہ السلام سے بالخصوص دردمندانہ اپیل کرتی ہوں ہ خدا را اپنے اعمال پر نظر ڈالیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں اور اپنی دو عملی سے اسلام و مسلمین کی بد نامی کا ذریعہ نہ بنیں جناب رسالت مآب اور ہادیان دین نے ہمیشہ اپنے کردار سے اسلام کی تبلیغ کی اور آج دنیا آپ کے عمل کو دیکھ رہی ہے آج کا دور جو کہ الیکٹرانک میڈیا اور پریس کی بے تحاشا قوت کا دور ہے دنیا اپنے ذرائع ابلاغ سے آپ کی بد اعمالیوں کو نمایاں کر رہی ہے اور آپ کی بد عملی اسلام کی نشرواشاعت میں رکاٹ بن رہی ہے آج کے اس دور میں وحدت و اتحاد اور بھائی چارہ کی اشد ضرورت ہے ہمیں چاہتے کہ اپنے آپ کو ظہور مہدی علیہ السلام کے لیے آمادہ کریںخداوند ہم سب کو دیدار مہدی علیہ السلام کا شرف عطا فرمائیں۔

الہیٰ بہ امید شفاعت فاطمہ علیہ السلام

مآخذ: منتہی الآمال، مہدی علیہ السلام موعود، سیرہ آئمہ تفسیر نمونہ کتاب آیت اللہ دستغیب۔

۲۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۶- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت

از: سید راحت کاظمی

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مبعوث کرنا چاہا تو فرمایا:”انی جاعل فی الارض خلیفه

میں زمین پر قائم مقام مقرر کرنے والا ہوں اس سے صاف ظاہر ہے کہ جب تک زمین رہے گی اس کا کوئی نہ کوئی قائم مقام ضرور رہے گا کواہ اس کانسبی و رسول ہو یا خلیفہ و امام اس لےے قرآن مجید نے اعلان فرما دیا ہے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے جو خالص ایمان والے ہیں اور ان کے تمام عمل صالح و نیک ہیں وہ انہیں زمین پر ضرور اس طرح سے خلیفہ بنائے گا اس سے قبل خلیفہ بناتا رہا ہے کس نبی کے خلیفہ کا انتخاب امت کے سپرد نہیں کیا گیا اور نہ کسی کا انتخاب اجماع سے اور نہ شوریٰ اور نہ قیاس وغیرہ سے سب کا انتخاب خدا ہی کرتا رہا ہے اور ہر پہلے آنے والا بعد میں آنے والے کے صفات و کمالات و خصوصیت بلکہ اس کے نام سے قوم کو مطلع و با خبر کرتا رہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمارے نبی کا اپنی امت کے سامنے ان الفاظ مین اعلان فرمایا ہے۔

یاتی من یعد اسمه احمد

میرے بعد آنے والے نبی کا نام احمد ہو گا ظاہر ہے جو وعدہ کرتا ہے ایفائے عہد کا بھی وہی ذمہ دار ہوتا ہے جب رب العزت نے وعدہ فرمایا ہے پچھلے انبیاءکے خلفاءکی خلق کا انتخاب خدا پر ہے نہ کہ امت پر انتخاب کرنا خدا کا کام نہیں ہے چنانچہ رسول اکرم بار بار فرماتے ہیں کہ میرے بعد بارہ امام ہوں گئے اور سب قریش سے ہوں گئے پھر آپ نے متعدد بارہ اصحاب کے سامنے نام لے کر فرمایا کہ ان بارہ کے اول علی مرتضیٰ علیہ السلام ہیں ان کے بعد فرزند امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں نو ہوں گئے جن کا آخری اس امت کا مہدی علیہ السلام ہو گا ان کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہو گی وہ انقلاب زمانہ کی وجہ سے ایک پردہ غیبت میں رہیں گے امام مہدی علیہ السلام وہ مبارک مولود ہے جو اج سے ایک ہزار ایک سو پینتیس برس پہلے س دنیا میں آچکا ہے آج تک زندہ و پائندہ ہیں روئے ارض پر زندگی گزار رہا ہے نعمات الہیٰ سے مستفید ہو رہا ہے عبادات الہیہ میں مصروف ہے اور ظہور میں امر الہیٰ کا انتظار کر رہے ہیں آنکھوں سے غائب ہیں اور جب آپ علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کردےں گے آپ علیہ السلام یہ بھی بار بار فرماتے ہیں ۔

من مات ولم یعرف امام زمانه علیه السلام مات میته الجاهلیه ۔

جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرا اس فرمان سے ظاہر ہو گیا ہے کہ ہر زمانہ کا امام الگ ہے جس کی معرفت اس زمانہ والوں پر فرض ہے جو اس کی معرفت سے محروم رہے گا وہ کفر کی موت مرے گا امام مہدی علیہ السلام کی غیبت تویہ خدا کا کام ہے اس کی قدرت میں کون شک کر سکتا ہے جس نے آدم علیہ السلام کی مجرم اولاد سے بچا کر ادریس علیہ السلام کو ساتویں آسمان پر زندہ بلا لیا اور فرمایا:”ورفعا مکانا علیا

ہم نے انہیں بلند مقام پر اُٹھا لیا جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے شر سے نجات دینے کے لےے چوتھے آسمان پر بلا لیا اورفرمایا۔”انی متوفیک ورافعک الی“میں تمہیں یوں پورا لے کر اپنی طرف بلند کرنے والا ہوں جس نے حضرت خضر علیہ السلام و الیاس علیہ السلام کو ہزاروں سال غائب رکھا جس نے اصحاب کہف کو ہزاروں سال غائب رکھا جس نے حضور اکرم کو شب ہجرت محاصرہ کرنے والوں کے بیچ سے غائب کر کے نکال دیا اور وہ محسوس بھی نہ کر سکے تو اس کےا تعجب کی بات ہے اگر اللہ تعالیٰ ایک مقررہ وقت امام مہدی علیہ السلام کو حسب ضرورت غائب رکھے بلکہ متقین کا معیار ہی یہ ہے کہ وہ غیبت پر ایمان رکھیں ہمارا خدا غائب روز حشر غائب جنت غائب دوزخ غائب صراط غائب میزان غائب اعراف غائب حوریں غائب غلمان غائب ملائکہ غائب جن جو اس زمی نپر موجود ہیں مگر نظروں سے غائب تو امام مہدی علیہ السلام کی غیبت پر کیا تعجب ہے حضور اکرم نے فرمایا جب قیامت کا ایک دن باقی رہ جائے گا اس سے قبل بارہویں امام علیہ السلام کا ظہور ضرور ہو گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کی اقتدار میں نماز پڑھیں گے اس طرح اگر اس نے امام علیہ السلام کو غائب رکھ کر یہ فرما دیا۔

الم ذالک الکتاب لا ریب فیه هدی للمتقین الذین یومنون بالغیب ۔

اس کتاب میں کوئی ریب و شک نہیں ہے یہ عین ہدایت ہے متقین کے لیے جو غائب پر ایمان رکھتے ہیں تو اس کے لیے کیا تعجب ہے کہ امام علیہ السلام کو ایک وقت مقررہ تک حسب و ضرورت غائب رکھے بلکہ متقین کا معیار یہ ہے کہ وہ غیبت پر ایمان رکھیں اگر مانع نہ ہونا تو آپ کا ظہور زیادہ مفید و بہتر ہوتا لیکن چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوندعالم نے اس مقدس وجود کو آنکھوں سے پنہاں رکھا ہے اور خدا کے افعال نہایت ہی استحکام اور مصلحت و واقع کے مطابق ہوتے ہیں لہذا امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کی بھی یقینا کوئی وجہ ضرور ہو گی اگرچہ ہمیں اس کی تفصیل معلوم نہیں ہے درج ذیل حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کا بنیادی سبب لوگوں کو نہیں بتایا گیا صرف آئمہ علیہ السلام کو معلوم ہے عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا صاحب الامر علیہ السلام کے لیے غیبت ضروری ہے تا کہ گمراہ لوگ شک میں مبتلا ہو جائیں میں نے عرض کی کیوں آپ علیہ السلام نے فرمایا ہمیں اس کی علت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے اس کا فلسفہ کیا ہے وہی فلسفہ جو گزشتہ حجت خدا کی غیبت میں تھااس کی حکمت ظہور کے بعد معلم ہو گی بالکل ایسے ہی جیسے جناب خضر علیہ السلام کا کشتی میں سوراخ سرنا بچہ کے قتل اور دیوار کرو تعمیر کرنے کی علت جناب موسیٰ علیہ السلام کو جدا ہوتے وقت معلوم ہوئی تھی اے فضل کے بیٹے غیبت کا موضوع مری ہے یہ خدا کے اسرار اور الہیٰ غیوب میں سے ایک ہے چونکہ ہم خدا کو تسلیم کرتے ہیں اس بات کا اعتراض بھی کرنا چاہےے کہ اس کے امور حکمت کی رو سے انجام پاتے ہیں اگرچہ ہم اس کی تفصیل نہیں جانتے(بحارالانوار ج۲۵ ص۱۹) مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی اصلی حقیقت و سبب اس لیے بیان نہیں ہے کہ لوگوں کو بنانے میں فلاح نہیں تھی یا وہ اس کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے پہلا فائدہ امتحان و آزمائش ہے تا کہ جن لوگوں کا ایمان قوی نہٰں ہے ان کی باطنی حالت ظاہر ہو جائے اور جن لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں ایمان کی جڑیں اتر چکی ہیں غیبت پر ایمان انتظار فرج اور مصیبتوں پر صبر کے ذریعہ ان کی قدر و قیمت ظاہر ہو جائے اور ثواب کے مستحق قرار پائیں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں ساتویں امام علیہ السلام کے جب پانچویں بیٹے غائب ہو جائیں اس وقت تم اپنے دین کی حفاظت کرنا ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے صاحب الامر علیہ السلام عقیدے سے منحرف ہو جائے گا خدا امام زمانہ کی غیبت کے ذریعے اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے (بحارالانوار ج۲۵ ص۳۱۱) اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ غیبت کے ذریعے ستمگروں کی بیعت سے محفوظ رہیں گے حسن بن فضال کہتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا گویا میں اپنے تیسرے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات پر اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے امام مہدی علیہ السلام کو یہ جگہ تلاش کر رہے ہیں لیکن اس بارے میں نے عرض کی فرزند رسول کیوں آپ نے فرمایا ان کے امام مہدی علیہ السلام غائب ہو جائیں گے عرض کی کیوں غائب ہوں گے فرمایا تا کہ جب تلوار کے ساتھ قیام کریں تو اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو گی (بحارالانوار ج۱۵ص۴۵۱)اس کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ غیبت کی وجہ سے قتل نجات پائی زرارہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا قائم علیہ السلام کے لیے غیبت ضروری ہے عرض کی کیوں مول علیہ السلام فرمایا قتل ہو جانے کا خوف ہے اور اپنے شکم مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا مذکورہ تینوں حکمتیں اہل بیت علیہ السلام کی احادیث میں منقول ہیں (اثبات الہدیٰ ج۴ص۷۳۴)

غیبت پر ایمان لانا نہایت عظمت رکھتا ہے اور یہ نعمت یقین کامل کے ساتھ ایمان والوں کو ہی حاصل ہے ابن قاسم کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےالم ذالک الکتب لاریب فیه هدی للمتقین الذین ۔

ترجمہ: الم یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔

جو غیبت پر ایمان رکھتے ہیں کے بارے میں دریافت کیا آپ علیہ السلام نے فرمایا متقین سے مراد علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں اور بالغیب سے مراد حجت غائب ہیں اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ اس (رسول) پر اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نازل نہیں ہوتا۔

اے رسول کہہ دو کہ غائب کا مالک تو صرف اللہ تعالیٰ ہے پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں (سورہ یونس آیت نمبر۰۲)

امام جعفر صادق علیہ السلام اور آپ علیہ السلام نے اپنے آبائے کرام سے روایت نقل کی کہ رسول خدا نے ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا اے علی علیہ السلام تمہیں معلوم کہ لوگوں میں سے سب سے بڑا صاحب یقین ہو گا جو آخرزمانہ میں پیدا ہو گا انہوں نے اپنے نبی کو نہ دیکھا ہو گا اور حجت خدا امام علیہ السلام بھی پردہ غیبت میں ہوں گے مگراس کے باوجود یہ سیاہ و سفید پر ایمان رکھتے ہوں گے۔(اکمال الدین)

کہتا ہے کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ غیبت امام علیہ السلام کا فائدہ کیا ہے یوں تو بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جن میں امام غائب کا شمار کیا گیا ہے جابر جعفی نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے پیغمبر خدا سے سوال کیا کہ کیا شیعہ غیبت کے زمانہ میں حضرت قائم علیہ السلام کے وجود سے فائدہ اُٹھائیں گے یا نہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اس کی قسم جس نے مجھے پیغمبری پر مبعوث کیا ہے آپ علیہ السلام کی غیبت میں شیعہ اس کے نور ولایت سے اس طرح مستفید ہوں گے جس طرح بادل کے باوجود سورج کی روشنی سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے (صواعق محرقہ) میں حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا سے روایت بیان کی ہے ستارے اہل آسمان کے لیے آمان ہیں جب یہ ستارے ختم ہوئے تو اہل آسمان ختم ہو جائیں گے اور میرے اہل بیت علیہ السلام اہل ارض کے لیے امان ہیں جب اہل بیت علیہ السلام نہ رہے تو اہل ارض نہ رہیں گے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں ہم مسلمانوں کے امام علیہ السلام دنیا پر حجت مومنین کے سردار نیکوکاروں کے رہبر اور مسلمانوں کے رہبر اور مسلمانوں کے مولا ہیں ہم زمین والوں کے لیے امان ہیں جیسا کہ آسمان والوں کے لیے ستارے امان ہیں ہماری وجہ سے آسمان اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے جب خدا چاہتا ہے ہمارے لیے باران رحمت نازل کرتا ہے اور زمین سے برکتیں ظاہر کرتا ہے کہ اگر ہم روئے زمین پر نہ ہوتے تو اہل زمین دھنس گئے ہوتے پھر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہین جس دن سے خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ہے اس دن سے آج تک زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہ ہو گی حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ رب ذوالجلال کی قسم کہ وہ ذات جلیل جدوجہد کے ذریعے اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور امتحان میں مبتلا کرتا ہے تا کہ ان کے دلوں سے تکبر نکلے اور ان میں عاجزی و انکساری پیدا ہو اس طرح اس کو اپنے فضل و کرم اور ان کی بخشش کا ذریعہ بنائے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

ترجمہ: کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ صرف یہ کہنے پر ان کو چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کاامتحان نہیں لیا جائے گا خداوند عالم نے مسلمانوں کا کبھی ہجرت کے ذریعے امتحان لیا جائے گا خداوندعالم نے کبھی جنگوں اور جہاد کے ذریعے کبھی فتح و نصرت دے کر اور کبھی شکست میں مبتلا کر کے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسلمانوں کو ساری جنگوں میں فتح و نصرت سے ہم کنار کرتا مگر یہ سب امتحان اور آزمائش کے ذریعے ہی تھے صدر اسلام رسول اعظم کے بعد اللہ تعالیٰ نے تابعین اور نبع تابعین کا امتحان اس طرح لیا کہ وہ ایسے زمانے میں زندگی گزاریں جب بلا وجہ ان کے امام مظلومیت میں گرفتار ہوں اور قید و بند در بدری جلا وطنی اور آخر کار ارشادات کی منزلوں سے گزر رہے ہوں یہ ان کا کیسا امتحان تھا کہ موسیٰ بن جعفر کو تو قید و بند میںمبتلا دیکھیں اور ان پر عورتیں اور خادم حکومت کر رہے ہوں آج ہم خدائے عزوجل نے ہمارے امام علیہ السلام کی غیبت اور ہمارے رہبر بر حق فائدہ امام مہدی علیہ السلام کے عیاں نہ ہونے کے ذریعے آزماتا ہے اور امتحان لیا ہے تا کہ اس امتحان کے ذریعے یہ دونوں باتیں واضح ہو جائیں مبداءاور خدا کے اعتقاد پر ہم قائم ہیں اور اسلام سے ہمارا تمسک ہے زندگی کی بہت سی سختیاں شدائد اور مصائب اور تکالیف ہمارے نفوس کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہیں اور ہماری اچھی صفات ان سے اُجا گر ہوتی ہیں یہ مشکلیں اور تکالیف اس بات کا باعث بنتی ہین کہ ہم اس دنیا سے رشتہ کم سے کم کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ کا رخ موڑ دیں ہمارے امام علیہ السلام کی غیبت بھی ان مصیبتوں میں سے ایک ہے جو ان سے زیادہ بڑی نہ ہو تو کم بھی نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی جانب توجہ کے لیے حق کی نصرت معاشرے کی اصلاح اور فرج میں تعجیل کی تمنا اور خدا کی طرف رخ موڑنے کے لیے ہے اس امتحان میں کتنے ہی نفوس کی تکمیل صفات کی درستگی اور طائع کی اصلاح مضمر ہے دور غیبت میں آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی محبت میں شیعوں کی سخت آزمائش ہو گی اور شیعوں کے سر کی قیمت رکھی جائے گی احوال و اولاد بلا اور آفات کے ذریعے ان کو آزمایا جائے گا۔

قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

ترجمہ: ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں کلمہ باقیہ قرار دے دیا ہے نسل ابراہیم علیہ السلام دو فرزندوں سے چلی ہے ایک اسحاق اور دوسرے اسماعیل اسحاق کی نسل سے خداوندعالم نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ و باقی قرار دے کر آسمان پر محفوظ کر چکا تھا انصاف کی بھی ضرورت تھی کہ نسل اسماعیل علیہ السلام سے بھی کسی ایک کو باقی رکھے اور وہ بھی زمین پر کیونکہ آسمان پر ایک باقی موجود تھا لہذا امام مہدی علیہ السلام جو نسل اسماعیل سے ہیں زمین پر زندہ اور باقی رکھا اور انہیں بھی اسی طرح دشمنوں کے شر سے محفوظ کر دیا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو محفوظ کیا تھا یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا اورامام زمانہ علیہ السلام سے خالی نہیں رہ سکتی اُصول کافی ج۳۰۱ طبع نولکشور چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی علیہ السلام کے سوا کوئی نہ تھا اور انہیں دشمن قتل کر دینے پر تلے ہوئے تھے اس لیے انہیں محفوظ و مستور کر دیا گیا حدیث میں ہے کہ حجت خد علیہ السلام کی وجہ سے بارش ہوتی اور انہیں کے ذریعہ سے روزی تقسیم کی جاتی ہے(بحار) یہ مسلم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام جملہ انبیاءکے مظہر تھے اس لیے ضرورت تھی کہ انہیں کی طرح ان کی غیبت بھی ہوتی یعنی جس طرح بادشاہ وقت کے مظالم کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد اپنے عہد حیات میں مناسب مدت تک غائب رہ چکے ہیں اسی طرح امام مہدی علیہ السلام بھی غائب ہیں ۔

امام عصر علیہ السلام سے یوں منسلک ہوتی ہے حیات

حیات خلق ہوئی جیسے ہی کے لیے

دلیل عظمت آدم علیہ السلام آب اور کیا ہو گی

رکی ہے قیامت ایک آدمی کے لیے

عجب حسن ہے شمع امام آخر ولی

چھپا ہوا ہے زمانے میں روشنی کے لیے

امام علیہ السلام کی غیبت ہمارے لیے مقرر کی گئی ہے در حقیقت آنجناب دیگر جہانوں کی نسبت اور اولیاءاللہ کے لیے غائب نہیں ہیں ۔

۲۲

فہرست

۱-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۴

از: حب علی مہرانی ۴

محزون و رنجیدہ رہنما: ۴

انتظار حکومت و سکون آل محمد: ۵

امام علیہ السلام کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے پروردگار احدیت میں دست بدعا رہنا: ۶

امام علیہ السلام کی سلامتی کے لےے صدقہ دینا: ۶

امام عصرعلیہ السلام کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا: ۷

امام عصرعلیہ السلام کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا: ۷

دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لےے دعا کرتے رہنا: ۷

اما زمانہ علیہ السلام سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا: ۸

۲-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۹

از:علی عباس ۹

۳-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۱۲

از:سید ریاض حسین اختر ولد سید سلیم اختر حسین شاہ ۱۲

۴-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۲۴

از:سید عمران عباس نقوی ولد سید عابد حسین نقوی ۲۴

حضرت سلمان فارسی کا وارد کوفہ ہونا۔ ۲۶

امام قائم علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کے فضائل: ۲۸

معرفت امام علیہ السلام زمانہ کیوں ضروری ہے: ۳۰

۲۳

دور غیبت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے: ۳۲

۵-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۳۴

از:سید احمد علی شاہ رضوی ۳۴

پہلی ذمہ داری: ۳۴

دوسری ذمہ داری: ۳۶

تیسری ذمہ داری: ۳۷

چوتھی ذمہ داری: ۳۷

پانچویں ذمہ داری: ۳۸

چھٹی ذمہ داری: ۳۹

ساتویں ذمہ داری: ۳۹

آٹھویں ذمہ داری: ۳۹

۶-امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ غیبت کبریٰ میں ہماری ذمہ داریاں ۴۱

از: ملک غلام حسنین مونڈ پپلاں ۴۱

۷-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۴۵

از:سید محمد عباس نقوی ۴۵

زمانہ غیبت میں ہماری چند ذمہ داریاں: ۴۵

۸-زمانہ غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۴۸

از:رضیہ صفدر ۴۸

غیبت صغریٰ غیبت کبریٰ ۴۸

مخزون و رنجیدہ رہنا: ۴۸

۲۴

انتظار حکومت آل محمد ۵۰

امام عصرعلیہ السلام کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا: ۵۱

دور غیبت میں ایمان کی حفاظت کیلئے دعا کرتے رہنا: ۵۴

حضرت کی سلامتی کی نیت سے صدقہ نکالنا: ۵۵

امام زمانہ علیہ السلام سے مصائب کے موقع پر فریاد کرنا: ۵۵

امام زمانہ علیہ السلام کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ احدیت میں دست بدعا رہنا: ۵۶

امام زمانہ علیہ السلام پر زیادہ سے زیادہ سلام و درود پڑھا جائے: ۵۷

آپ علیہ السلام کے ظہور اور فرج و فتح کا انتظار کرنا افضل ترین اعمال ہے: ۵۸

تمام محافل و مجالس میں ذاکرین امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ضرور کریں: ۶۱

۹-زمانہ غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۶۳

از:تسنیم جہان ۶۳

پہلی ذمہ داری: ۶۳

مخزون و رنجیدہ رہنا: ۶۳

دوسری ذمہ داری: ۶۵

تیسری ذمہ داری: ۶۶

چوتھی ذمہ داری: ۶۷

پانچویں ذمہ داری: ۶۸

چھٹی ذمہ داری: ۶۸

ساتویں ذمہ داری: ۶۹

آٹھویں ذمہ داری: ۶۹

۲۵

استغاثہ برای امام زمانہ علیہ السلام: ۷۰

۱۰-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۷۲

از:سیماب بتول ولد حاجی شاہد اقبال ۷۲

۱۱-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۷۸

از:سیدہ فہمیدہ زیدی ۷۸

معرفت: ۷۸

اطاعت: ۷۸

تعجیل ظہور کی دعا: ۷۹

انتظار: ۷۹

اشتیاق زیارت: ۷۹

دعا برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام: ۷۹

صدقہ برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام: ۸۰

اتباع نائبین امام علیہ السلام: ۸۰

امام علیہ السلام کا نام لینے کی ممانعت: ۸۰

احتراماً کھڑے ہونا: ۸۱

مشکلات میں امام زمانہ علیہ السلام کو وسیلہ بنانا: ۸۱

امام علیہ السلام پر کثرت سے درود بھیجنا: ۸۱

غیبت میں کثرت سے امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کرنا: ۸۱

دشمنوں سے مقابلے کے لیے مسلح رہنا: ۸۲

امام علیہ السلام کی نیابت میں مستحبات کی انجام دہی: ۸۲

۲۶

حضرت مہدی علیہ السلام کی زیارت پڑھنا: ۸۲

تجدید بیعت: ۸۳

توبہ کے پروگرام: ۸۳

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں: ۸۳

جھوٹے دعویداروں کو جھٹلانا: ۸۴

ظہور کا وقت معین نہ کرنا: ۸۴

مال امام علیہ السلام کی ادائیگی: ۸۴

امام العصر علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرنا: ۸۴

آپ علیہ السلام کے فراق میں غمگین رہنا: ۸۴

آپ علیہ السلام کی غیبت پر اظہار رضایت: ۸۵

امام علیہ السلام کی مظلومیت پر افسردہ ہونا: ۸۵

ایمان پر ثابت قدم رہنا: ۸۵

مصائب کو برداشت کرنا: ۸۶

۱۲-امام زمانہ کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۸۸

از: سیدہ تعزین فاطمہ موسوی ۸۸

صدقہ: ۹۰

حج کرنا: ۹۱

دعا مانگنا: ۹۱

عریضہ: ۹۱

انتظار امام علیہ السلام: ۹۲

۲۷

دعائے ظہور امام زمانہ علیہ السلام: ۹۲

۱۳-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں ۹۴

از:بی بی آسیہ حیدری ۹۴

۱- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ ۱۱۶

از: رخسانہ بتول ۱۱۶

غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ ۱۱۶

غیبت بارہویں امام علیہ السلام ہی کے ساتھ کیوں مخصوص ہوتی اور امام بارگاہ ہی کیوں ہوتے؟ ۱۱۷

۲- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت ۱۲۰

از: شرافت حسین شمسی ۱۲۰

۳- حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت ۱۲۵

از: حماد رضا شاہ ۱۲۵

تعارف امام زمانہ علیہ السلام: ۱۲۵

ادوار غیبت: ۱۲۵

غیبت صغریٰ: ۱۲۵

غیبت کبریٰ: ۱۲۵

غیبت اسلام کے مفادات کے عین مطابق: ۱۲۶

خداوند متعال حقیقی رازدان: ۱۲۶

مصلحت خداوندی: ۱۲۶

مختلف اور متضاد نظریات کا جائزہ اور حقیقت: ۱۲۷

غلط استدلال کا ثبوت: ۱۲۷

۲۸

گزشتہ حکمتیں اور غیبت امام علیہ السلام: ۱۲۸

غیبت کبریٰ سے پہلے غیبت صغریٰ کیوں؟ ۱۲۸

امتحان و آزمائش مومنین: ۱۲۹

ظالم حکمرانوں کی بیعت اور ظلم سے محفوط: ۱۲۹

حیات امام علیہ السلام کی محافظت: ۱۳۰

کذاب مدعی نبوت، حقیقی امام علیہ السلام کی حفاطت: ۱۳۱

جواب: ۱۳۲

غلبہ دین اور وعدہ الہیٰ: ۱۳۳

زمین حجت خدا کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی: ۱۳۳

تقاضا عدل خدا (کلمہ یافتہ): ۱۳۳

نزول ملائکہ: ۱۳۴

مظلوموں کا حقیقی سہارا: ۱۳۴

امام علیہ السلام کے غائب کا فائدہ: ۱۳۴

سورج سے تشبیہہ ایک پاکیزہ پہلو: ۱۳۵

۴- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت ۱۳۷

از: مولانا محمد آصف رضا ۱۳۷

۵- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت ۱۴۰

از:زہراءاصغری ۱۴۰

۶- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت ۱۴۶

از: سید راحت کاظمی ۱۴۶

۲۹