خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض18%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17393 / ڈاؤنلوڈ: 4310
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب :خاندان کےاخلا ق و فرائض

مصنف:غلام مرتضیٰ انصاری

مقدمہ

اللہ تعالی کے فضل و کرم سے یہ توفیق ہوئی کہ خاندان کے اخلاق وفرائض کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کروں ، جس میں مبتلا نہ خاندانی اور معاشرتی چیدہ چیدہ مسائل کا ذکر کرکے ان کا حل بیان کروں ۔ یہ مختصر کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ۔

پہلا حصہ ایک کلیات اور پانچ فصلوں پر مشتمل ہے۔ کلیات میں حقوق کا مفہوم ،اور اس کے منابع کے ساتھ خاندان کی تعریف ،اور اس کی ضرورت وآداب، اور اصول کو بیان کیا گیا ہے۔

پہلی فصل میں والدین پر بچوں کی ذمہ داریاں اور اولاد کی تربیت کے مختلف (پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعدکے) مراحل کو مختلف اور موزون مثالوں اور واقعات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

دوسری فصل میں میاں بیوی کے متقابل حقوق اور فرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

تیسری فصل میں خاندانی اخلاق اور اس کا اثر ، خاندانی خوش بختی کے اصول اور بداخلاقی کا سنگین نتیجہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

چوتھی فصل میں خاندان کے متعلق معصومین کے فرامین اور سفارشات کو بیان کیا گیا ہے۔

پانچویں فصل میں خاندانی اختلافات اور اس کا علاج اور اس کے ساتھ ان خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے جسے خواتین اپنے شوہر میں دیکھنا پسند کرتی ہیں ، بیان کیا گیا ہے۔

دوسرے حصے میں خواتین کا مقام اور ان کے حقوق کو تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

پہلی فصل میں مختلف ممالک اور معاشرے خصوصاً دور جاہلیت میں عورت کی حیثیت اور مقام کو بیان کرکے ان کا اسلامی معاشرے میں عورت کو دی گئی حیثیت اور مقام سے مقایسہ کیا گیا ہے۔

دوسری فصل میں اسلام میں عورت کو مختلف زاویے ( ماں ، بیوی ، بیٹی ) سے دی ہوئی قدر منزلت، اجتماعی روابط کے ضوابط اور اصول اور حدود کوبیان کیا گیا ہے۔

تیسری فصل میں خواتین کے اجتماعی ، فرہنگی ، سیاسی، اور اقتصادی حقوق کو مختلف زاویے سے بیان کیا گیا ہے۔

چوتھی فصل میں خواتین کی اسلامی آزادی اورمغربی آزادی میں فرق کو بیان کیا گیا ہے۔

انشاء اللہ یہ کتاب اردو زبان میں ایک منفرد اور مفید کتاب ثابت ہوگی۔خدا وند اس معمولی سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں چہاردہ معصومین (ع) کے صدقے میں قبول فرمائے۔ ۔ آمین۔

غلام مرتضیٰ انصاری

یکم رجب المرجب

۱۴۳۰ ھ

پہلا حصہ

کلیات

حقوق کیا ہیں؟

حقوق سے مراد ا ن قواعد اور اصول کا مجموعہ ہے جن کی رعایت ایک معاشرہ یا خاندان کے افراد ایک دوسرے سے روابط کے دوران کرتے ہیں اور انہیں قواعد کے مطابق ہر ایک کے اختیارات اور آزادی کو متعین کیا جاتاہے(۱)

انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جو ہمیشہ ایک دوسرے کا محتاج ہے،اجتماعی اور خاندانی زندگی اس وقت ممکن ہے کہ معاشرہ یا خاندان پر ایک جامع قانون حا کم ہو ، ورنہ ہر کوئی اپنی مرضی سے چلے گا، جس کا نتیجہ خاندان اورمعاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہوجائےگا۔اس لئے ہر ایک پر لازم ہے کہ ان قوانین کا احترام کریں۔انہی قوانین کو علمی اصطلاح میں حقوق کہتے ہیں۔جس کا مقصد لوگوں کی مکمل آزادی کیلئے حدود کا تعین کرنا ہے۔جن کی رعایت کرنے سے اجتماعی اور خاندانی زندگی محفوظ ہوسکتی ہے۔عورت بھی خاندان کا ایک اہم رکن ہے بلکہ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ وہ خاندان کا محورہے، ان کے حقوق بھی اسلامی معاشرے میں بہت اہم ہے،جس کی رعایت کرنا باپ،شوہر اور اولاد پر فرض ہی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خاندان کے وجود میں آنے کی بنیاد تولید نسل کا انگیزہ ہے،کہ اس طریقے سے انسان اپنے وجود کی بقا کو محفوظ کرتا ہے ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عورتوں میں طبیعی طور پر ماں بننے کا شوق پایا جاتاہے اور یہی انگیزہ اسے خاندان کی تشکیل پر ابھارتا ہے۔ٹھیک ہے کہ یہ انگیزے اسباب بن توسکتے ہیں لیکن علت تامہ نہیں،کیونکہ بہت سے خاندان ایسے ہیں جن میں اولاد نہیں ہوتی یا زندہ نہیں رہتی،پھر بھی مرد اور عورت دونوں میں ایک دوسرے کیلئے عشق و محبت پائی جاتی ہے۔ اور کبھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دی جاتی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کرنے اور خاندان تشکیل دینے کے اور بھی علل و اسباب ہیں۔ چنانچہ پیامبراسلام فرماتے ہیں:جس نے شادی کرلی اس نے آدھا دین بچا لیا(۲)

کیونکہ شادی جوانوںکو لغزش ، انحرافات ،بے عفتی اور برائی سے بچاتی ہے۔

پس ان مشکلات کا حل قرآن مجید میں موجود ہے کہ انسان کی فطرت اور طبیعت میں جفت خواہی اور جنسی خواہشات ڈال دی جس کے نتیجے میں خاندان وجود میں آئی۔

میاں بیوی ایسے دو عنصر ہیں جو جب تک ایک دوسرے کو نہیں چاہتے یا آمیزش نہیں کرتے اور تعاون نہیں کرتے ،دونوں ناقص ہیں۔ یہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی زندگی کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔یہ نہ صرف دو فزیکل یا جسمانی رابطہ اور تولید فرزند ہے کہ جو خوشیوں کا باعث ہے ۔اورنہ صرف ظاہری اور مادی امور ،جو میاں بیوی کو ایک دوسرے کے نزدیک کرے بلکہ ایک بہت ظریف نکتہ چھپا ہوا ہے کہ وہ وہی روحی اور جسمی احتیاج ہے کہ خالق کائنات نے تمام جانداروں کوایک دوسرے کا محتاج خلق کیا ہے۔

قرآن کی رو سے خلقت انسان ابتدا ہی سے جفت جفت وجود میں آئی ہے۔اورہر ایک اپنی فطرت کے مطابق اپنی جفت اور ہمسر کی تلاش میں رہتاہے ۔ اور دونوں اپنے خاص طور و طریقے سے فطری وظیفہ کو انجام دیتے ہیں نتیجتا ایک دوسرے کو کامل کر تے ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے( وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا ) کہ ہم نے تمہیں جفت جفت پیدا کیا(۳)

( وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) ۔(۴)

یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ تمہارے لئے اپنے جنس میں سے ہمسر خلق کیا تاکہ سکون اور آرامش کا سبب بنے اور تمہارے درمیان دوستی اور محبت ایجاد کیاور فرمایا :( وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا )

یعنی خدا نے تمہیں مٹی سے پیدا کیاپھر نطفہ سے اور پھر جفت جفت قرار دیا(۵)

____________________

۱ ۔ باقر عاملی ؛حقوق خانوادہ ،ص٢٠١.

۲ مجلسی،محمد تقی؛ روضةالمتقین،ج٨،ص٣٨.

۳. سورہ نبأ٨.

۴. سورہ روم٢١.

۵. فاطر١١.

پیدائش حقوق کی وجوہات:

انسان کو چونکہ اپنے آپ سے زیادہ محبت ہے اس لئے چاہتا ہے کہ جتنا ہوسکے زندگی کی نعمات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے اور بہتر زندگی کرنے کیلئے ان وسائل سے فائدہ اٹھائے، لیکن دیکھتا ہے کہ جس طرح بچہ بغیر ماں باپ کے اپنی زندگی کو جاری نہیں رکھ سکتا اور اکیلا زندگی کے تمام مسائل کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے وہ خاندانی اور اجتماعی طور پر زندگی کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے ،اور اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق مسئولیت اور ذمہ داری کو قبول کر لیتا ہے۔ایک شخص زمینداری کرتا ہے تو دوسرا مستری کا کام، ایک دفتر میں کام کرتا ہے تو دوسرا ہسپتال میں، اور جب اجتماعی زندگی کا دارومدار ایک دوسرے کے تعاون پر ہے تو ذمہ داریاں بھی متعین ہوتی ہیں ۔اس طرح معاشرے میں قوانین نافذ ہوتے ہیں تاکہ معاشرے میں افراط و تفریط پیدا نہ ہو۔

حقوق کے منابع

بعض دانشمندوں کا خیال ہے کہ قانون عقل اور وجدان کی وجہ سے قائم ہوا ہے، کہ ہماری عقل لوگوں کے اچھے اور برے اعمال میں تشخیص دے سکتی ہے یہی وجہ ہے عقل کہتی ہے کہ برائیوں سے روکنا اور اچھائیوں کی طرف رغبت پیدا کرناچاہئے۔

بعض کہتے ہیں کہ قانون خالق کائنات کی طرف سے عالم بشریت کیلئے بنایاگیا ہے جسے انبیاء کے ذریعے لوگوں پر لاگو کیاگیا ہے۔

ان دونوں نظریات کے ماننے والوں نے اپنےاپنے دعوے کوثابت کرنے کیلئے مختلف دلائل پیش کئے ہیں۔

ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حقوق کا سرچشمہ وہی قوانین اسلامی ہے جسے خدا تعالی نے نبیوں کے ذریعے خود تعیّن کیا ہے۔کیونکہ خدا کی ذات ہے جو افعال انسانی کے مصالح اور مفاسد سے زیادہ آ گاہ ہے۔اور ان قوانین کو دریافت کرنے کیلئے مکتب تشیع کے مطابق چار منبع اور سرچشمہ ہیں:

١۔ قرآن مجید

قرآن مجید میں حقوق کے بارے میں تقریبا پانچ سو آیات ذکر ہوئی ہیں،جنہیں آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔یہ راہ ہدایت تک پہنچنے کیلئے محکم ذریعہ ہے،جو بھی اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجرملے گا،اور جس نے بھی اس کتاب کے مطابق فیصلہ کیااس نے عدل سے کام لیا ۔ اور جس نے بھی اس کتاب کی طرف کسی کی راہنمائی کی تو گویا اس نے صراط مستقیم کی طرف بلایا۔

٢۔ سنت

ممکن ہے یہ پانچ سو آیات قوانین زندگی کی تمام جزئیات پر تو دلالت نہیں کرتی،کیونکہ احکام جیسے نماز روزہ حج جھاد خمس و ۔۔۔کی بہت سی جزئیات پائی جاتی ہیں اور ان جزئیات کو بیان کرنا سنت کا کام ہے۔ہاں البتہ ان جزئیات کا بیان انہی آیات کی تفسیر ہوسکتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ انبیاء اپنی طرف سے بیان کرتے ہوں،چنانچہ قرآن مجید گواہی د ے رہا ہے:( وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ) ۔ "(۱) اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے"اس طرح شیعہ عقیدے کے مطابق سنت سے مراد گفتار و رفتار و تقریر معصوم (ع)ہے ۔

____________________

۱ ۔ النجم٤،۳.

٣۔اجماع

اصطلاح میں اجماع سے مراد یہ ہے کہ تمام اسلامی دانشمندوں کا کسی شرعی حکم پر اتفاق نظر اور وحدت عقیدہ ہو۔لیکن اہل سنت کے نزدیک اجماع؛ قرآن و سنت سے ہٹ کر ایک مستقل اصل ہے یعنی امت کا اجماع اور اھل حلّ و عقد بھی اسلامی قانون کا سرچشمہ ہے۔بنا بر ایں اگر کتاب اور سنت سے کسی حکم پر دلیل نہ ملے لیکن علماء کا اتفاق رائے معلوم ہو جائے تو اسی اجماع پر بنا رکھ کر فقیہ فتوی دیتا ہے۔

لیکن شیعوں کے نزدیک اجماع، کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی اور مستقل اصل نھیں ، بلکہ معتقد ہیں کہ یہ اجماع نظررأے معصوم کے درکار ہونے پر دلالت کرتا ہو۔قاعدۂ لطف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مجتہدین کسی غلط حکم پر متّفق ہو جائے تو امام پرلازم ہے کہ وہ اس میں اختلاف ڈالدے اور اجتماع کرنے سے بچائے۔

٤۔ عقل

اہل سنت کہتے ہیں کہ رأے ،اجتہاد اور قیاس وہی عقلی تشخیص ہے جو قوانین اسلامی کا

ایک الگ سرچشمہ ہے۔

اخبارئین کہتے ہیں چونکہ عقل ناقص اور خطاکار ہے اسلئے لوگوں کیلئے عقل حلال اور حرام کا تعین نہیں کر سکتی۔ ہاں صرف یہ کہ عقل کومددگار کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مجتہدین فرماتے ہیں عقل اور شریعت کے درمیان ایک مستحکم اور نہ ٹوٹنے والا رابطہ ہے ، اور کہا جاتا ہے :کلّما حکم به العقل حکم به الشرع و کلّما حکم به الشرع حکم به العقل ۔

امام سجاد(ع) منشأحقوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بندوں کے تمام حقوق کا سرچشمہ وہی حقو ق اللہ ہے اور باقی حقوق اسی کی شاخیں ہیں ۔اگر سارے حقوق کو ایک درخت شمار کرلے تو اس درخت کی جڑ حق اللہ ہے۔اور باقی لوگوں کے حقوق اس کی شاخیں اور پتے ہیں(۱) ۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح انسانوں پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں اسی طرح اللہ تعالی کے حقوق بھی ہیں کیونکہ خداوندانسان کا مالک حقیقی ہے جسے حق تصرف حاصل ہے ۔ جس کی اجازت کے بغیر ہم کسی دوسرے کے حقوق میں تصرف نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام حقوق خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی،اخلاقی ہو یا فقہی، حق الہی کے تابع ہے۔پس انسان کبھی بھی اپنے لئے کسی حق کا خدا سے مطالبہ نہیں کرسکتا کیونکہ جب کسی چیز کا مالک ہی نہیں تو کس حق کا مطالبہ کرے گا ؟ یہاں تک کہ ہم اپنے اعضائے بدن پر تصرف نہیں کرسکتے۔مگر یہ کہ خدانے ہمارے لئے جائز قرار دیا ہو۔ کیونکہ یہ سب خدا کی دین اور عطا ہے۔اگر ہم ان حقوق خدا کو درک کرلیں گے تو اپنی ذمہ داریوں کوبھی ہر مرحلے میں پہچان سکیں گے۔ اس بحث سے جو نتیجہ نکلتا ہے و ہ یہ ہے کہ ہر قسم کے حقوق خواہ وہ حقوق والدین ہو یا حقوق اولاد یا بیوی کے حقوق ، سب کچھ خدا کی طرف سے عطا کردہ حقوق ہیں اور خدا ہی کا حکم ہے کہ ان حقوق کی رعایت کریں۔ تاکہ قیامت کے دن ہمیں جزا دی جائے۔

____________________

۱ ۔ محمد تقی مصباح یزدی؛نظریہ حقوقی اسلام،ص٢١١.

خاندان کی تعریف

خاندان ایک اجتماعی گروہ کا نام ہے جس کا مقصد لوگوں کی روحی اور ذہنی سلامتی کو برقرار رکھتا ہے۔

تاریخ بشریت کی ابتدا سے لیکر آج تک اس ر وئے زمین پر مرد اور عورت دونوں نے خاندان کو تشکیل دے کرایک دوسرے کیساتھ زندگی گزارتے ہوئے پیار و محبت کیساتھ اپنی اولاد کی پرورش کی ہیں۔اور اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھ لئے ہیں۔ اور تمام مصلحین جہاںجیسے انبیاء الہی کی یہی کوشش رہی ہے کہ خاندان کا نظام اتنا پائیدار اور مستحکم کرے کہ کوئی بھی اسے متلاشی اور درہم برہم نہ کرسکے۔

مختلف نظریوں اورزاویوں سے خاندان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں،جن میں سے بعض سطحی ہیں اور بعض عمیق۔ یعنی جس قدر ہماری معرفت اور شناخت خاندان کی نسبت زیادہ ہوگی اتنا ہی اس مقدس اجتماع میں ہم رونق پیدا کر سکیں گے اور ناپائیداری کا خاتمہ کرسکیں گے۔جیسا کہ بیان کرچکا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خاندانی تشکیل کا واحد سبب جنسی خواہشات ہے کہ مرد اور عورت صرف اسی سلسلے میں پابندہیں کہ ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کریں ۔اس کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔درحا لیکہ اسلام میں اس کی بنیاد اس سے کہیں اہم چیز پر استوار ہے۔جس کی معرفت اور پہچان بہت ضروری ہے۔ تاکہ مرد اور عورت دونوں اس اہم اصول سے منحرف نہ ہو۔

خاندان کی ضرورت

مرد اور عورت کی سعادت اور خوشیاں اسی میں ہے کہ الہی سنت کے دائرے میں رہیں اور سطحی جذبات سے متأثر نہ ہوں۔اور دونوں کو جان لینا چاہئے کہ اب ایک جان دو قالب ہوگئے ہیں۔ اورہونے والی اولاد دونوں کا جگر کے ٹکڑے ہیں۔امام صادق سے روایت ہے کہ پیامبر اسلام (ص)نے ازدواجی زندگی کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا :عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَا بُنِيَ بِنَاءٌ فِي الْإِسْلَامِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ التَّزْوِيجِ (۱)

یعنی اسلامی نقطہ نگاہ سے ازدواج کی بنیاد سے بڑھ کر زیادہ پسندیدہ بنیاد نہیں ڈالی گئی

کیونکہ ازدواج کی بنیاد عشق و محبت کی بنیاد ہے۔ اور اگر اسلامی معیاروں کے مطابق ہو تو یہ خاندان کبھی دربدر نہیں ہوگا ۔

اور فرمایا۷ :وہ بدترین شخص ہے جو غیر شادی شدہ مر جائے،اس کی پوری رات کی عبادت سے شادی شدہ کی دو رکعت نماز بہتر ہے۔اس با مقصد خاندان کی تشکیل دینے سے پہلے ضروری ہے کہ نیک اور با سیرت بیوی کا انتخاب ہو۔ کیونکہ پوری زندگی اور آنے والی نسلوں کی پرورش انہی کے ہاتھوں میں ہے۔اسی لئے بیوی کے انتخاب کرنے کا ایک معیار اس کی خاندان کی اصالت ہے۔ یعنی نہ صرف بیوی کا ایمان اور اخلاق دیکھا جائے بلکہ ان کے خاندان کو بھی مد نظر رکھا جائے۔ کیونکہ خاندان کی صفات از طریق وراثت اولاد میں منتقل ہوتی ہے۔ اس لئے حقیقی ،با تقوی اور پسندیدہ صفات جیسے شجاعت و کرامت کے مالک خاندان میں شادی کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ پیامبر(ص)نے فرمایا:اخْتَارُوا لِنُطَفِكُمْ فَإِنَّ الْخَالَ أَحَدُ الضَّجِيعَيْنِ (۲) - یعنی ہمسر کا انتخاب میں خاندانی اصالت کا خیال رکھنا، کیونکہ اقرباء اور رشتہ دار تمھاری اولاد کی صفات میں تیرے شریک ہیں۔اسی طرح کم ذات خاندان میں شادی کرنے سےروکتے ہوئے فرمایا:قَالَ لِلنَّاسِ إِيَّاكُمْ وَ خَضْرَاءَ الدِّمَنِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا خَضْرَاءُ الدِّمَنِ قَالَ الْمَرْأَةُ الْحَسْنَاءُ فِي مَنْبِتِ السَّوْءِ (۳) - لوگو! تم لوگ خضراء دمن سے بچو ۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! خضراء دمن سے کیا مراد ہے؟! تو فرمایا: وہ خوبصورت عورت جو برے گھر اور ماحول میں پلی ہو۔

____________________

۱ ۔ روضةالمتقین ج٨،ص٨٢ا.من لا یحضرہ ج۳، ص۳۸۳۔

۲ ۔ مستدرک الوسائل ج١٤، ص۱۷۴.

۳ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، ج۳، ۳۹۱

تشکیل خاندان کے آداب

قرآن مجید نے متعدد بار خاندانی امور ،ارکان،احکام ،اخلاق اور اس کی حفاظت کے بارے میں ارشاد فرمایا : میاں بیوی پاکدامن ہوں اور نامحرم کیساتھ ہنسی مذاق نہ کرے کیونکہ خواتین کی کرامت ، شرافت اور عزت اسی میں ہے۔

اسی طرح خاندان کی چاردیواری اورمعاشرے کی عفت اور حرمت کے تجاوز کرنے والوں کو ڈرایا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس سورہ میں آنے والے بچے کی ذہنی اور روانی صحت سے بحث کی گئی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ .(۱)

اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں خاندانی مسائل کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا:"اے ایمان والو! ضروری ہے تمہاری کنیزیں اور وہ بچے جو ابھی حدّبلوغ کو نہیں پہنچے ہیں ،تین اوقات میں تم سے اجازت لیکرکمرے میں داخل ہوا کریں:فجر کی نماز سے پہلے ، دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہواور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں ، اس کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر۔اللہ تعالی اس طرح تمہارے لئے نشانیان کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا ،حکمت والاہے"۔

اور جب تمہارے بچےّ بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اجازت لیا کریں ۔جس طرح پہلے (ان سے بڑے ) لوگ اجازت لیا کرتے تھے۔

ان آیات سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:

۱. جب بیوی کیساتھ خلوت میں بیٹھنے لگو تو بچوں کو بغیر اجازت اندر آنے سے منع کریں۔

۲. کبھی بھی ماں باپ نازک لباس( sleeping dress ) میں بچوں کے پاس نہ جائیں۔ نہ باپ کو حق پہنچتا ہے کہ نامناسب لباس پہن کربچوں کے سامنے آئے اور نہ ماں کو۔ تاکہ معمولی سی بھی تحریک آمیز منظر اولادوں کے سامنے پیدا نہ ہو۔

امام صادق(ع) سے منقول ہے :لا یجامع الرجل امرئته وفی البیت صبی فانّ ذالک یورث الزنا -(۲) یعنی کسی شخص کو حق نہیں ہے کہ وہ ایسے کمرے میں بیوی کیساتھ ہمبستری کرے جس میں بچہ بیدار ہو، کیونکہ یہ منظر بچے کا فساد اور فحشاء کی طرف انحراف کا باعث بنتا ہے۔اور آپ پیامبرخدا (ص)سےنقل کرتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِذَا كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة -(۳)

امام صادق نے پیامبر اسلام سے روایت کی ہے : اس ذات کی قسم جس کی قبضہٗ قدرت میں میری جان ہے ؛ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے اور اس کمرے میں کوئی بچہ جاگ رہا ہو اور ان دونوں کو دیکھ رہا ہو اور ان دونوں کی آواز اور سانسوں کوسن رہا ہو، تو وہ پیدا ہونے والا کبھی نیک انسان نہیں ہوگا ، اگر وہ بچہ ہو تو زانی ہوگااور اگر بچی ہو تو زانیہ ہوگی۔

____________________

۱ ۔ سورہ نور، ۵۹ ۔۵۸

۲ ۔ وسائل الشیعہ،ج١٤،ص٩٤.

۳ ۔ الکافی ، ج۵، ص۵۰۰۔

خاندان تشکیل دینے کے تین اصول

شوہر اور بیوی کا باہمی عشق و محبت

یہ چیز اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں پوشیدہ رکھا ہے۔ اور یہ ضرورت ہم دوسرے جانداروں میں بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ انسان اگر تنہائی میں زندگی کرنے

پر مجبور ہوجائے تو زیادہ مغموم اورفکر مند ہوجاتا ہے .اسی لئے اپنے ہم نوع کے عطوفت و محبت کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈالتا ہے۔خدا تعالی نے تشکیل خاندان سے پہلے میاں بیوی کے درمیان کچھ یوں محبت اور مودت ایجاد کی ہے کہ جس کے بغیردونوں کو سکون نہیں ملتا۔ یہی محبت ہے جس کی وجہ سے مرد اور عورت ازدواجی زندگی میں داخل ہونے کیلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ایک شخص نے حضرت رسولخدا (ص) کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ(ص)! اس ازدواجی کام نے مجھے تعجب میں ڈال دیا ہے کہ ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہیں، جیسے ہی عقد ازدواج میں داخل ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کیلئے انتہائی محبت اور پیارکرنے لگتے ہیں۔رسولخدا (ص)نے فرمایا: ازدواجی امر کی بنیاد کو خدا نے انسانی فطرت میں رکھاہے جس کی ضرورت کو اپنے اندرشدت سے احساس کرتے ہیں ، اس کے بعد یہ آیہ شریفہ تلاوت فرمائی:( وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) .(۱)

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں.

الصَّدُوقُ فِي الْهِدَايَةِ، عَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ قَالَ مِنْ سُنَّتِي التَّزْوِيجُ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ۔(۲)

یہ عشق و محبت خدا تعالی کی عظیم عنایت ہے کہ جس پر رسولخدا (ص)نے فخر کرتے ہوئے فرمایا:نکاح میری سنت ہے جو بھی اس سنت سے منہ پھیرے گا وہ مجھ میں سے نہیں ہوگا۔ قرآن مجید نے بھی اس کام کی طرف شوق دلاتے ہوئے فرمایا:( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ )(۳) اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنا دے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے۔

____________________

۱ ۔ روم ۲۱.-۲ ۔ مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۱۵۲۔۳ ۔ نور ٣٢.

خاندان میں مرد کا احساس ذمہ داری

علامہ طباطبائی(رح) فرماتے ہیں :فا لنساء هن الرکن الاول والعامل الجوهری للاجتماع الانسانی -(۱) خواتین خاندانی اجتماع کی تشکیل اوراستحکام کی اصلی اور واقعی سنگ بنیاد ہیں، اس عظیم جاذبہ کو خدا نے عورت کے وجود میں قرار دیا ہے اور اسے آرام و سکون کا باعث قرار دیا ہے ۔ اور اس رکن اصلی کی حفاظت اور حراست کو مردوں کے ذمہ لگایا ہے،کیونکہ خدا نے مرد میں وہ توانائی اور قدرت پیدا کی ہے جس کے ذریعے وہ اس کی حفاظت کر سکتا ہے۔قرآن مجید کہہ رہا ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ (۲) ۔ مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خدا نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انھوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے ۔ پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی ہے۔

اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔اور ازدواجی زندگی میں مادی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی مردوں کے ذمہ لگایا۔اور ناموس کی حفاظت اور دفاع بھی مرد پر واجب کردیا،جس کیلئے وہ اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا.

____________________

۱ ۔ المیزان ،ج٤،ص٢٢٣.

۲ ۔ نساء ٣٤

دوام زندگی اور اس کی حفاظت

سب جانتے ہیں کہ ایک کامیاب زندگی وہ ہے جس میں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے پر راضی اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں اپنے آپ کو برابر کے شریک جانتے ہوں۔ اور یہ رؤوف ورحیم اللہ کی انسانوں پر بہت بڑی مہربانی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان وہ محبت ڈال دی جس کی وجہ سے دونوں میں فداکاری کا جذبہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ دونوں میاں بیوی ان اسباب سے پرہیز کرتے ہیں جو ان میں جدائی کا باعث ہوں۔اور دونوں کی یہی خواہش رہتی ہے کہ اس رشتے کی بنیادیں مستحکم تر ہوں ، اور آیہ شریفہ( وجعل بینکم مودة و رحمة) کا مصداق بنیں۔

آیہ شریفہ میں مودت سے کیا مراد ہے ؟ مفسرین نے تین احتمال ذکر کئے ہیں :

مودت یعنی ازدواجی زندگی کے آغاز میں ایک دوسرے سے مرتبط ہونے کا شوق، لیکن ممکن ہے زندگی کو دوام بخشنے یا آخر تک پہنچانے میں دونوں میں سے کوئی ایک ناتوان اور ضعیف ہو جائے۔ اور دوسرے کی خدمت کرنے پر قادر نہ ہو۔ اس طرح رحمت بھی مودت کا جانشین بنے گی۔ یہ دونوں اس قدر ایک دوسرے سے عشق و محبت رکھتے ہیں کہ اگر کوئی اور آکر اس ناتوان کی مدد کرے تو اس مدد گار کا بھی احترام کرنے لگتے ہیں۔اور یہ دونوں ایک دوسرے کے خاطر اپنے آپ کو آب و آتش میں ڈال دیتے ہیں تاکہ دوسرا آرام و راحت میں رہے۔جبکہ اس وقت نہ خواہشات جنسی اور شہوانی درکار ہے اور نہ کوئی جوانی مسائل ۔ اس ضعف اور ناتوانی کے دور میں فقط ایک دوسرے کی حفاظت اور نگہداری ان کیلئے زیادہ اہم ہے۔

مودت بڑوں سے ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی خدمت کرسکے لیکن رحمت چھوٹوں کیساتھ مربوط ہے کہ جو رحمت کے سائے میں پرورش پاتے ہیں۔چنانچہ رسولخدا (ص)نے فرمایا: ارحموا صغارکم۔تم اپنے چھوٹوں پر رحم کریں۔

مودت غالبا دو طرفہ ہوتی ہے لیکن رحمت یک طرفہ۔ لیکن کسی بھی معاشرہ ، اجتماع یا خاندان کی بقاء متقابل خدمات پر منحصر ہے جو مودت ہی سے ممکن ہے نہ محبت سے۔(۱)

____________________

۱ ۔ تفسیر نمونہ،ج١٦،ص٣٩١

پہلی فصل

والدین پر بچوں کی ذمہ داریاں

اولاد کی تعریف

قال الله تعالی :( وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ) -(۱) ۔ اور جان لو یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموا ل ایک آزمائش ہیں اور خدا کے پاس اجر عظیم ہے۔ قال رسول اللہ(ص):انّهم ثمرة القلوب وقرة الاعین(۲) رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اولاد دلوں کا ثمرہ ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اور فرمایا:انّ لکل شجرة ثمرة وثمرةالقلب الولد -(۳)

ہر درخت کا پھل ہوتا ہے اور دل کا پھل اولاد ہے۔اولاد کی اتنی فضیلت کے باوجود ایک دن حسن بصری نے کہا: اولاد کتنی بری چیز ہے !اگر وہ زندہ رہے تو مجھے زحمت میں ڈالتی ہے اور اگر مرجائے تو مجھے مغموم کرجاتی ہے۔ امام سجاد(ع) نے یہ سنا تو فرمایا:

رُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ بِئْسَ الشَّيْ‏ءُ الْوَلَدُ إِنْ عَاشَ كَدَّنِي وَ إِنْ مَاتَ هَدَّنِي فَبَلَغَ ذَلِكَ زَيْنَ الْعَابِدِينَ ع فَقَالَ كَذَبَ وَ اللَّهِ نِعْمَ الشَّيْ‏ءُ الْوَلَدُ إِنْ عَاشَ فَدَعَّاءٌ حَاضِرٌ وَ إِنْ مَاتَ فَشَفِيعٌ سَابِقٌ(۴)

خدا کی قسم اس نے جھوٹ بولا ہے بہترین چیز اولاد ہے اگر یہ زندہ رہے تو چلتی پھرتی دعا ہے، اور اگر مر جائے تو شفاعت کرنے والا ہے۔یہی وجہ ہے کہ روایت میں ملتا ہے کہ حضور (ص)نے فرمایا: سقط شدہ بچے سے جب قیامت کے دن کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہوجاؤ۔ تو وہ کہے گا : حتی یدخل ابوای قبلی -۵ خدایا جب تک میرے والدین داخل نہیں ہونگے تب تک میں داخل نہیں ہونگا۔

____________________

۱ ۔ انفال٢٨.

۲ ۔ بحار الانوار،ج ١٠٤،٩٧.

۳ ۔ میزان الحکمة،٢٨٦٠٨.

۴ ۔ مستدرک الوسائل،ج١٥،ص١١٢

۵ ہمان،ص٩٦.

تربیت اولاد کیلئے زمینہ سازی

تربیت اولاد کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ہر مکتب اور مذہب انسانی تربیت کی ضرورت کو درک کرتے ہیں اگر اختلاف ہے تو روش اور طریقے میں ہے۔تربیت کی اہمیت کو پیامبر اسلام (ص)یوں فرماتے ہیں:وَ كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ يَدُورُ فِي سِكَكِ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ وَ هُوَ يَقُولُ عَلِيٌّ خَيْرُ الْبَشَرِ فَمَنْ أَبَى فَقَدْ كَفَرَ يَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ أَدِّبُوا أَوْلَادَكُمْ عَلَى حُبِّ عَلِيٍّ فَمَنْ أَبَى فَانْظُرُوا فِي شَأْنِ أُمِّهِ -(۱) جابر بن عبداللہ انصاری مدینے میں انصار کے کانوںمیں یہ کہتے ہوئے گھوم رہے تھے : علی سب سے بہتر اور نیک انسان ہیں ۔پس جس نے بھی ان سے منہ پھیرا وہ کافر ہوگیا ۔ اے انصارو! تم لوگ اپنے بچوں کومحبت علی کی تربیت دو ،اگر ان میں سے کوئی قبول نہیں کرتا ہے تواس کی ماں کو دیکھو کہ وہ کیسی عورت ہے ۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: اپنی اولادوں کو تین چیزوں کی تربیت دو: اپنے نبی(ص) اور اس کی آل پاک A کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں اور قرآن مجید کی تعلیم دیں۔

رَوَى فُضَيْلُ بْنُ عُثْمَانَ الْأَعْوَرُ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ اللَّذَانِ يُهَوِّدَانِهِ وَ يُنَصِّرَانِهِ وَ يُمَجِّسَانِه (۲)

امام صادق نےپیامبر اسلام (ص)سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:دنیا میں آنے والا ہربچہ فطرت (توحید) پر پیداہوتا ہے۔لیکن اس کے والدین یا اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔

اسی لئے اسلام نے بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے سے تربیت کرنے کا حکم دیا :

____________________

۱ ۔ من لا یحضر ،ج۳، ص ۴۹۳۔

۲ ۔ من لایحضرہ الفقیہ،ج۲، ص۴۹۔

پیدائش سے پہلے

باایمان ماں کاانتخاب

آپ (ص)نے فرمایا: اپنے نطفوں کیلئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کرو۔پہلے ذکر کرچکا کہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بری۔ اسی لئے حضرت زہرا کی شھادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کرو۔تاکہ ابوالفضل جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں۔

دلہن باعث خیر و برکت

رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِذَا دَخَلَتِ الْعَرُوسُ بَيْتَكَ فَاخْلَعْ خُفَّيْهَا حِينَ تَجْلِسُ وَ اغْسِلْ رِجْلَيْهَا وَ صُبَّ الْمَاءَ مِنْ بَابِ دَارِكَ إِلَى أَقْصَى دَارِكَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْ بَيْتِكَ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْفَقْرِ وَ أَدْخَلَ فِيهِ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْبَرَكَةَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ سَبْعِينَ رَحْمَةً وَ تَأْمَنَ الْعَرُوسُ مِنَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ أَنْ يُصِيبَهَا مَا دَامَتْ فِي تِلْكَ الدَّارِ (۱)

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خد نے علی ابن ابی طالب نصیحت کی اور فرمایا : یا علی ! جب دلہن آپ کے گھر میں داخل ہوجائے تو اس کا جوتا اتارکر اس کے پاؤں دھلائیں ۔ اور اس پانی کو گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکائیں ۔ جب آپ ایسا کروگے تو خدا تعالی ستر قسم کے فقر اور مفلسی کو آپ کے گھر سے دور کرے گا ، اور ستر قسم کی برکات کو نازل کرے گا، اور دلہن بھی جب تک تیرے گھر میں ہوگی ؛دیوانگی، جزام او ر برص کی بیماری سے محفوظ رہےگی۔

دلہن کچھ چیزوں سے پرہیز کرے

وَ امْنَعِ الْعَرُوسَ فِي أُسْبُوعِهَا مِنَ الْأَلْبَانِ وَ الْخَلِّ وَ الْكُزْبُرَةِ وَ التُّفَّاحِ الْحَامِضِ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِأَيِّ شَيْ‏ءٍ أَمْنَعُهَا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ الْأَرْبَعَةَ قَالَ لِأَنَّ الرَّحِمَ تَعْقَمُ وَ تَبْرُدُ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ عَنِ الْوَلَدِ وَ لَحَصِيرٌ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَالُ الْخَلِّ تَمْنَعُ مِنْهُ قَالَ إِذَا حَاضَتْ عَلَى الْخَلِّ لَمْ تَطْهُرْ أَبَداً بِتَمَامٍ وَ الْكُزْبُرَةُ تُثِيرُ الْحَيْضَ فِي بَطْنِهَا وَ تُشَدِّدُ عَلَيْهَا الْوِلَادَةَ وَ التُّفَّاحُ الْحَامِضُ يَقْطَعُ حَيْضَهَا فَيَصِيرُ دَاءً عَلَيْهَا (۲)

دلہن کو پہلے ہفتے میں دودھ، سرکہ ،پودینہ اور ترش سیب کھانے سے منع کریں ۔ امیر المؤمنین نے عرض کیا : یا رسول اللہ کس لئے ان چار چیزوں کے کھانےسے اسے منع کروں؟! تو فرمایا: ان چار چیزوں کے کھانے سے اس کی بچہ دانی ٹھنڈی اور نازا ہوجاتی ہے،اور گھر کے کونے میں محصور ہوکر رہنا بھانج عورت سے بہتر ہے۔پھر امیرالمؤمنین نے سوال کیا یا رسول اللہ !سرکہ یا ترشی سے کیوں روکا جائے؟ تو فرمایا: اگر ترشی پر حیض آجائے تو کبھی حیض سے پاک نہیں ہوگی۔اور پودینہ تو حیض کو عورت کے پیٹ میں پھیلاتی ہےاور بچہ جننے میں سختی پیدا کرتی ہے۔اور ترش سیب حیض کو بند کردیتا ہے، جو عورت کے لئے بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

____________________

۱ ۔ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱۔

۲ ۔ ہمان۔

آداب مباشرت

آپ (ص)نے حضرت علی (ع)سےمخاطب ہوکر ایک طویل خطبہ دیا جس کا پہلا حصہ اوپر کے دو عناوین میں بیان ہوا اور بقیہ حصہ مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان آداب کی رعایت کا سختی سے حکم دیا گیا ہے:

مہینے کی تاریخوں کا خیال رکھے:

یا علی !یاد کرلو ھ سے میری وصیت کو جس طرح میں نے اسے میرے

بھائی جبرائیل سے یاد کیا ہے۔

ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ وَ وَسَطِهِ وَ آخِرِهِ فَإِنَّ الْجُنُونَ وَ الْجُذَامَ وَ الْخَبَلَ لَيُسْرِعُ إِلَيْهَا وَ إِلَى وَلَدِهَا ۔

اے علی! مہینے کی پہلی ،درمیانی اور آخری تاریخ کو اپنی بیوی کیساتھ مباشرت نہ کرو کیونکہ ان ایام میں ٹھہرا ہوا بچّہ پاگل، جزام اور ناقص الاعضاء پیدا ہوگا۔

* بعد از ظہر مباشرت ممنوع :يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بَعْدَ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَكُونُ أَحْوَلَ وَ الشَّيْطَانُ يَفْرَحُ بِالْحَوَلِ فِي الْإِنْسَانِ ۔ اے علی! ظہرین کے بعد ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس سے اگر حمل ٹھہرے تو وہ نامرد ہوگا ۔ اور شیطان انسانوں میں نامرد پیدا ہونے سے بہت خوش ہوتا ہے ۔

ذکر الہی میں مصروف رہے:

يَا عَلِيُّ لَا تَتَكَلَّمْ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَكُونَ أَخْرَسَ ۔

اے علی ! ہمبستری کرتے وقت باتیں نہ کرو ۔ اگر اس دوران بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ گونگا ہوگا۔

شرم گاہ کو نگاہ نہ کرے :

وَ لَا يَنْظُرَنَّ أَحَدٌ إِلَى فَرْجِ امْرَأَتِهِ وَ لْيَغُضَّ بَصَرَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّ النَّظَرَ إِلَى الْفَرْجِ يُورِثُ الْعَمَى فِي الْوَلَدِ(۳) اے علی ! مباشرت کرتے وقت شرم گاہ کو نہ دیکھو ۔ اس دوران اگر حمل ٹھہر جائے تو وہ اندھا پیدا ہوگا۔

اجنبی عورت کا خیال ممنوع :

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بِشَهْوَةِ امْرَأَةِ غَيْرِكَ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ أَنْ يَكُونَ مُخَنَّثاً أَوْ مُؤَنَّثاً مُخَبَّلًا يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ جُنُباً فِي الْفِرَاشِ مَعَ امْرَأَتِهِ فَلَا يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْهِمَا نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتُحْرِقَهُمَا قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ اللَّهُ يَعْنِي بِهِ قِرَاءَةَ الْعَزَائِمِ دُونَ غَيْرِهَا(۴) اے علی! اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرتے وقت کسی اور نامحرم کا خیال نہ آنے پائے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی بچہ حمل ٹھہر جائے تو وہ خنثیٰ پیدا ہوگا اور اگر بچی ہو تو وہ بھانج ہوگی۔

میاں بیوی الگ تولیہ رکھے:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ إِلَّا وَ مَعَكَ خِرْقَةٌ وَ مَعَ أَهْلِكَ خِرْقَةٌ وَ لَا تَمْسَحَا بِخِرْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَتَقَعَ الشَّهْوَةُ عَلَى الشَّهْوَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُعْقِبُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَكُمَا ثُمَّ يُؤَدِّيكُمَا إِلَى الْفُرْقَةِ وَ الطَّلَاقِ(۵) اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرتے وقت الگ الگ تولیہ رکھے ۔ ایک ہی تولیہ سے صاف نہ کرے کیونکہ ایک شہوت دوسری شہوت پر واقع ہوجاتی ہے جو میاں بیوی کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے اور بالآخرہ جدائی اور طلاق کا سبب بنتا ہے۔

کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا:

َیا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ مِن قِيَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الْحَمِيرِ فَإِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ كَانَ بَوَّالًا فِي الْفِرَاشِ كَالْحَمِيرِ الْبَوَّالَةِ فِي كُلِّ مَكَانٍ -(۶) اے علی! کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا کیونکہ یہ گدھے کی عادت ہے ۔ ایسی صورت میں اگر بچہ ٹھہر جائے تو وہ بستر میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائے گا ۔

شب ضحی کو مباشرت نہ کرو:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي لَيْلَةِ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ يَكُونُ لَهُ سِتُّ أَصَابِعَ أَوْ أَرْبَعُ(۷) اے علی ! عید الضحیٰ کی رات کو مباشرت کرے تو اگر بچہ ٹھہر جائے تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوگی۔

مضطرب حالت میں نہ ہو :

امام حسن مجتبی (ع) فرماتے ہیں:اگر آرامش ، سکون اور اطمنان قلب وغیر مضطرب حالت میں مباشرت کرے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کی شکل میں پیدا ہوگا –(۸) لیکن اگر مضطرب حالت میں ہو تو ماموں اور ننھیال کی شکل و صورت میں پیدا ہوگا۔

جب ایک عورت نے پیامبر(ص)کی خدمت میں آکر عدالت الہی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: کہ میں خدا کو عادل نہیں مانتی کیونکہ اس نے ہمیں نابینا بیٹا دیا ، میرے بیٹے اور میرے شوہر کا کیا قصور تھا؟آپ (ص)نے کچھ تأمل کرنے کے بعد فریایا: کیا تیرا شوہر تیرے پاس آتے وقت نشے کی حالت میں تو نہیں تھا؟ تو اس نے کہا : ہاں ایسا ہی تھا کہ وہ شراب پیا ہوا تھا۔ تو اس وقت فرمایا: بس تو اپنے آپ پر ملامت کرو۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مباشرت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ بچہ اندھا پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو جسمانی تأثیر ہے ۔روحانی تأثیر کے بارے میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِنْ كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة(۹)

اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی

کیساتھ مباشرت کرے اور اس کمرے میں چھوٹا بچہ جاگ رہا ہو اور انہیں دیکھ رہا ہو اور ان کی باتوں اور سانسوں کو سن رہا ہو تو کبھی بھی وہ نیک اولاد نہیں ہوگی، اگر بچہ ہو تو وہ زانی ہوگا اور اگر وہ بچی ہو تو وہ زانیہ ہوگی۔

____________________

۱ ۔ ہمان، مکارم الاخلاق،ص.١٢٩

۲ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔

۳ ۔ ہمان۔

۴ ۔ ہمان

۵ ۔ ہماان

۶ ۔ ہمان

۷ ۔ ہمان

۸ ۔ بحارالانوار۔

۹ ۔ وسائل الشیعہ ج۲۰، ص۱۳۳۔،الکافی،ج۵، ص۵۰۰۔

ہم فکرو ہم خیال بیوی

یعنی اعتقاد اور فکری لحاظ سے یک سو ہو۔ اور ایمان و عمل کے لحاظ سے برابر اور مساوی ہو۔ایک شخص نے امام حسن (ع) سے اپنی بیٹی کے رشتے کے بارے میں

رأے مانگی تو آپ نے فرمایا:زوّجها من رجل تقیّ فانّه ان احبّها اکرمها وان ابغضها لم یظلمها (۱)

اس کی شادی کسی پرہیزگار شخص کیساتھ کرو اگر وہ تیری بیٹی کو چاہتا ہے تو اس کا احترام کریگا ، اور اگر پسند نہیں کرتا ہے تو تیری بیٹی پر ظلم نہیں کریگا۔

____________________

۱. طبرسی، مکارم الاخلاق،ص۲۰۴۔

دلسوزاور مہربا ن ما ں

دلسوزاور مہربان ہونا پیامبر اسلام (ص) کا شیوہ ہے۔ چنانچہ آپ اس قدر اپنی امت پر دلسوز اور مہربان تھے کہ خدا تعالی کو کہنا پڑا :لعلّک باخع نفسک ۔ اے پیامبر ! تو اپنے آپ کو اپنی امت کے خاطر مت جلاؤ کیونکہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔

پیدائش کے بعد

کانوں میں اذان واقامت

امام حسن (ع) جب متولد ہوئے تو پیامبر اسلام (ص)نے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھی۔ اور علی سے فرمایا :یا علی (ع) اذا ولد لک غلام اوجاریة فاذّن فی اذنه الیمنی و اقم فی الیسری فانّه لا یضرّه الشیطان ابداً -(۱)

اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے۔اور فرمایا:من ساء خلقہ فاذّنوا فی اذنہ –(۲) اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو۔

اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ نوزائدہ بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہے۔ ماں کے دل کی دھڑکن جو بچے کیلئے دینا میں آنے کے بعد آرام کا سبب بنتی ہے۔ جب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصاً بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔اسی لئے اگر ماں حاملہ گی کے دوران قرآن سنا یا پڑھا کرے تو بچے میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی ۔ اس کی بہت ساری مثال دی جاسکتی ہے:

قم مقدس میں ایک قرآنی جلسے میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا سبب بنی کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قرآن بنا؟ تو

فرمایا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قرآن کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی۔

گذشتہ علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو ان میں بھی ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، ان میں سے ایک سید رضی اور سید مرتضی کا واقعہ ہے۔ خود سید مرتضی R فرماتے ہیں: جب اپنے استاد محترم شیخ مفید (رح)کے درس میں حاضر ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دروس پہلے سے ہی پڑھا ہوا ہے۔ جب اپنی مادر گرامی کے پاس آکر یہ ماجرا بیان کیا تو وہ کچھ تأمل کے بعد کہنے لگی: درست ہے جب آپ گہوارے میں تھے اس وقت آپ کے والد گرامی یہ دروس اپنے شاگردوں کو دیا کرتے تھے۔یہی ماں تھی کہ جب ان کو بیٹے کے مجتہد ہونے کی خبر دی گئی تو کہا : اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ میں نے کبھی بھی انہیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلائی ۔ اور یہی ماں جناب شیخ مفید (رح)کی خواب کی تعبیر تھی، جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کوخواب میں دیکھا تھا کہ آپ حسن و حسین کے ہاتھوں کو پکڑ کے آپ کے پاس لاتی ہیں اور فرماتی ہیں : اے شیخ میرے ان دو بیٹوں کو دینی تعلیم دو۔ جب خواب سے بیدار ہوا تو بڑا پریشان حالت میں ، کہ میں اور حسنین کو تعلیم؟!!!

جب صبح ہوئی تو سید رضی اور مرتضی کے ہاتھوں کو اسی طرح سے جیسے خواب میں دیکھا تھا ، ان کی مادر گرامی پکڑ کے لاتی ہیں اور کہتی ہیں : جناب شیخ ! آپ میرے ان دو بیٹوں کو فقہ کی تعلیم دیں۔

ایک عالم کہتا ہے کہ ایک صابئی نے مجھ سے کہاکہ مجھے اسلام کی تعلیم دو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ مجھے بچپنے سے ہی اسلام سے بہت لگاؤ ہے اور اسلام کا بہت بڑا شیدائی ہوں۔ اور جب بھی اذان کی آواز آتی ہے تو سکون ملتا ہے اور جب تک اذان تمام نہ ہو ، اذان کے احترام میں کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے اس کی ماں سے وجہ دریافت کی تو اس کی ماں نے کہا : درست ہے جب میرا بیٹا اس دنیا میں آیا تو ہمارے ہمسائے میں ایک مسلمان مولانا رہتا تھا جس نے

اسکے کانوں میں اذان و اقامت پڑہی تھی(۳)

____________________

۱. تحف العقول،ص١٦ ۔

۲ ۔ محاسن برقی ج٢،ص٤٢٤

۳ ۔ مجمع البحرین، ص ٥٩٠.

دودھ کی تأثیر

بچے کی شخصیت بنانے میں ماں کی دودھ کا بڑا اثر ہے۔ اسی لئے امام المتقین –(۱) نے فرمایا:فانظروا من ترضع اولادکم انّ الولد یشبّ علیہ۔

دیکھ لو کون تمھاری اولادوں کو دودھ پلارہی ہے؟ کیونکہ بچے کی پرورش اسی پر منحصر ہے۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں:عَنْ أُمِّهِ أُمِّ إِسْحَاقَ بِنْتِ سُلَيْمَانَ قَالَتْ نَظَرَ إِلَيَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا أُرْضِعُ أَحَدَ ابْنَيَّ مُحَمَّدٍ أَوْ إِسْحَاقَ فَقَالَ يَا أُمَّ إِسْحَاقَ لَا تُرْضِعِيهِ مِنْ ثَدْيٍ وَاحِدٍ وَ أَرْضِعِيهِ مِنْ كِلَيْهِمَا يَكُونُ أَحَدُهُمَا طَعَاماً وَ الْآخَرُ شَرَاباً (۲) ۔

اے ام اسحاق بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیا کرو کیونکہ ایک چھاتی کا دودھ روٹی اور دوسری چھاتی کا دودھ پانی کا کام دیتا ہے۔

بچپنے کا دور

قَالَ الصَّادِقُ ع: دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۳)

امام صادق(ع) : فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے ،

دوسرے سات سال اسے ادب سکھائیں پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادے۔

صَالِحُ بْنُ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيماً فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ إِلَّا هَكَذَا -(۴)

امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: اپنے بچوں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دو

تاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں۔

____________________

۱ ۔ وسائل،ج٢١،ص٤٥٣.

۲ ۔ ھمان

۳ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۴۹۲۔

۴ ۔ الکافی،ج۶، ص۵۱۔

پاک اور حلال غذا کی تأثیر

اگر بچوں کو لقمہ حرام کھلائیں گے تو فرزند کبھی صالح نہیں ہوگا۔کیونکہ حرام لقمہ کا بہت برا اثر پڑتا ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، چنانچہ امام حسین (ع) نے عاشور کے دن کئی مرتبہ فوج اشقیا کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہیں سنی توامام نے فرمایا:قد ملئت بطونکم من الحرام۔ تمہارے پیٹ لقمہ حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تم پر حق بات اثر نہیں کرتی۔ پس جو ماں باپ اپنے بچوں کو لقمہ حرام کھلائے وہ بچوں کی اصلاح کی امید نہ رکھیں۔

بچے کی کفالت

قَالَ الصادق : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ تُوُفِّيَ وَ لَهُ صِبْيَةٌ صِغَارٌ وَ لَيْسَ لَهُ مَبِيتُ لَيْلَةٍ تَرَكَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَ قَدْ كَانَ لَهُ سِتَّةٌ مِنَ الرَّقِيقِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُمْ وَ إِنَّهُ أَعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ مَا صَنَعْتُمْ بِهِ قَالُوا دَفَنَّاهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُهُ مَا تَرَكْتُكُمْ تَدْفِنُونَهُ مَعَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ تَرَكَ وُلْدَهُ صِغَاراً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ(۱)

حدیث میں ہے کہ اصحاب پیامبر(ص) میں سے ایک نے مرتے وقت زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کروایا۔ اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بالکل خالی ہاتھ چھوڑ دیا ، جو لوگوں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جب یہ خبر رسولخدا (ص) تک پہنچی تو آپ سخت ناراض ہوگئے اور پوچھا : اس کے جنازے کیساتھ کیا کیا؟ لوگوں نے کہا قبرستان میں دفن کیا گیا۔ پیامبر (ص)نےفرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے نہ دیتا۔کیونکہ اس نے اپنے بچوں کو دوسروں کا دست نگر بنادئے بچوں کا احترام بچوں کو جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہو تو میرے بیٹے کہہ کر بلاؤ۔ قرآن بچوں کی تربیت اور نصیحت پر بہت زور دیتا ہے ۔ ائمہ کی سیرت میں بھی ہمیں یہی چیز ملتی ہے۔ایک دن امام حسین (ع) نماز کے دوران پیامبر اسلام (ص)کے کندھوں پرسوار ہوئے تو رسولخدا (ص)نے انہیں نیچے اتارا ۔جب دوسرے سجدے میں گئے تو دوبارہ سوار ہوئے۔ یہ منظر ایک یہودی دیکھ رہا تھا،کہنے لگا آپ اپنے بچوں سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟ ہم اتنی محبت نہیں کرتے۔ تو آپ (ص)نے فرمایا: اگر تم خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے آتے تو تم بھی اپنے بچوں سے اسی طرح محبت کرتے ، اس شخص نے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا(۲)

امام حسن مجتبی (ع) اور بچے

ایک مرتبہ آپ کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں بچے کھیل کود میں مشغول تھے اور ایک روٹی ان کے پاس تھی اسے کھانے میں مصروف تھے۔ امام کو بھی دعوت دی ، امام نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔ پھر سارے بچوں کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو کھانا کھلایا اور لباس بھی دیا پھر فرمایا: ان بچوں کی فضیلت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ میرے لئے حاضر کئے،کہ ان کے پاس ایک روٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن میں نے جو بھی کھلایا،اس کے علاوہ میرے پاس اور بھی موجود ہے(۳)

امام زین العبدین (ع)نے ایک بار نماز جلدی جلدی پڑھ لی ۔ لوگوں نے سوال کیا مولا ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا : کیونکہ صفوں میں بچے بھی نماز پڑھ رہے تھے جن کی رعایت کرتے ہوئے نماز جلدی جلدی تمام کی۔

اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع)نے ایک یتیم بچے کو غمگین حالت میں دیکھا تو ان کو خوش کرنے کیلئے ان کیساتھ پیار سے باتیں کرنے لگے ، لیکن یتیمی کی اداسی کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوا تو امیر المؤمنین (ع) اپنے گٹھنے ٹیک کر بھیڑ کی آوازیں نکالنے لگے تو تب جا کر یتیم بچے کی چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، یہ منظر کسی نے دیکھ کر کہنے لگا مولا ! یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ایک حکومت اسلامی کا سربراہ چوپائیوں کی آوازیں نکالے!۔ تو میرے مولا نے فرمایا : کوئی بات نہیں اس کے بدلے میں ایک یتیم کو میں نے خوش کیا۔

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیموں کی پرورش اور دیکھ بھال ہوتی ہو۔ اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں کی اہانت ہوتی ہو۔مزید فرمایا:وَ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ وَ أَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَ الْوُسْطَى ومن مسح یده برأس یتیم رفقاً به جعل الله له فی الجنة لکل شعرة مرّت تحت یده قصراًاوسع من الدنیا بمافیها وفیها ماتشتهی الانفس وتلذّالاعین وهم فیها خالدون (۴)

اور جو بھی یتیموں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کرے گا وہ قیامت کے دن میرے

ساتھ ان دو انگلیوں کی مانند ہوگا۔اور جو بھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو خدا تعالی اس کیلئے ہربال جو اس کے ہاتھوں کے نیچے آئے ، کے بدلے بہشت میں ایک محل عطا کرے گا جو اس دنیا و مافیھا سے بھی بڑا ہوگا اور اس قصر میں وہ چیزیں ہونگی جنہیں نہ کسی نے چکھا ہوگا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا۔علامہ رضی نے اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھا ہے کہ آپ کی مراد کافل سے ابوطالب ہے(۵)

اسی طرح امام حسن مجتبی (ع) ایک دن دوش نبی پر سوار تھے۔ کوئی آکر کہنے لگا : اے حسن مجتبی !کتنی خوبصورت آپ کی سواری ہے؟ تو رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اسے نہ کہو کہ تیری سواری کتنی اچھی ہے بلکہ مجھ سے کہو کہ تیرا شہسوار کتنا اچھا ہے؟! صرف وہ فخر نہیں کرتا کہ اس نے دوش نبوت پر پاؤں رکھا ہے ،بلکہ میں بھی فخر کرتا ہوں کہ وہ میرے دوش پر سوار ہے۔

____________________

۱ ۔ بحار،ج١٠٠، ص١٩٧

۲ ۔ بحار،ج١٠، ص ٨٣۔

۳ ۔ شرح ابن ابی الحدید،ج١١،ص۔١٩.

۴ ۔ میزان الحکمہ ،باب الیتیم۔ح۶۸۱۱۔

۵ ۔ الاقبال ، ص۶۶۲۔

بچوں کو ان کے ا حترام کی یقین دہانی

اگر ماں باپ ان کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے اورنہ ان کی باتیں سنیں گے۔اگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوں کیلئے احترام کے قائل ہوں ۔اور ان سے مشورت مانگیں ،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں ۔ ہمارے لئے قرآن مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچے سے مشورہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!

بچوں کی تحقیر، ضد بازی کا سبب

ایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو ٹوک دیتے ۔ مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔ اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے ۔ اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوا ۔ اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگا۔ اور اپنے آپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگا ۔ اب جبکہ میں بڑاہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں ۔ اگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا ۔ اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی ۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعاً فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۱) اسی لئے امام باقر (ع)نے فرمایا:بچے کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح ، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو اور ان سے بھی مشورہ لیا کرو۔ اگر بچے احساس حقارت کرنے لگے تو نہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں ۔

ایک بچی کہتی ہے کہ :میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ امتحانات میں کم نمبر آنے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کی تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !ان کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گی۔ ماں نے کہا یہ ایسی ہے تو ویسی ہے۔ میری خالہ نے ماں سے اجازت لیکر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئی۔میری خالہ زاد بہن مہری میری ہمکلاس تھی ۔ان کے ساتھ تیاری کی تو مہری حسب سابق irst اور میں third آئی ۔جس پر مجھے خود یقین نہیں آرہی تھی۔

بچوں کی مختلف استعدادوں پر توجہ

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو آپ اس کو مجبور نہ کریں ، بلکہ دیکھ لیں کہ کس میدان (فیلڈ) میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ بہزاد نامی ایک شخص تھا۔جو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا ۔ یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا۔ لیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنے لگا۔ بہزاد خاموشی کے ساتھ ان کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی جو درخت پر بیٹھا ہے ۔ جب اس ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہے۔ اس شعبے سے ان کو لگاو اوردلچسپی ہے۔انہیں نقاشی کی کلاس میں بھیج دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دینا میں مشہور ہوا۔(۲)

تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہ

اگر آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو آپ ان کی تحقیر نہ کریں ۔ کیونکہ خدا تعالی نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہن۔ ایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھا۔میں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ و۔۔۔)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سی کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلا کراور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہے۔جب جنگلی اور وحشی جانوروں میں تشویق اس قدر مؤثر ہے تو کیا انسانوں میں مؤثر نہیں ہوگا؟!۔

بچوں سے محبت

اسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوں کو پیا رو محبت دیا کریں۔ رسول خدا (ص) ایک دن اپنے بچوں کو زانو پر اٹھائے پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا آدمی وہاں پہنچا ۔ اور کہامیرے دس بیٹے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی ایک بار بوسہ نہیں دیا۔یہ سن کر آپ (ص) سخت ناراض ہوگئے۔ اور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ اور فرمایا: من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور تیرے دل سے رحم نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!

ایک دفعہ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی (ع) کاندوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:حسن میرے کاندہے پر سوار ہوا تھا اور میں انہیں اتارنا نہیں چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اترآے(۳)

بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیاتو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل پر رسولخدا (ص) تأیید نہ کرے۔ میرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا :تو آپ نے فرمایا: کیا سب کو دئے؟ کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرو۔ اور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش آؤ۔میں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(۴)

____________________

۱ ۔ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی،ج۶، ص۴۶۔

۲ ۔ جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص١١.

۳ ۔ بحار،ج١٠، ص٨٤.

۴ میزان الحکمة،ج١٠،ص٧٠.


3

4

5

6

7

8

9

10

11