خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض27%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17774 / ڈاؤنلوڈ: 4571
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب :خاندان کےاخلا ق و فرائض

مصنف:غلام مرتضیٰ انصاری

مقدمہ

اللہ تعالی کے فضل و کرم سے یہ توفیق ہوئی کہ خاندان کے اخلاق وفرائض کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کروں ، جس میں مبتلا نہ خاندانی اور معاشرتی چیدہ چیدہ مسائل کا ذکر کرکے ان کا حل بیان کروں ۔ یہ مختصر کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ۔

پہلا حصہ ایک کلیات اور پانچ فصلوں پر مشتمل ہے۔ کلیات میں حقوق کا مفہوم ،اور اس کے منابع کے ساتھ خاندان کی تعریف ،اور اس کی ضرورت وآداب، اور اصول کو بیان کیا گیا ہے۔

پہلی فصل میں والدین پر بچوں کی ذمہ داریاں اور اولاد کی تربیت کے مختلف (پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعدکے) مراحل کو مختلف اور موزون مثالوں اور واقعات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

دوسری فصل میں میاں بیوی کے متقابل حقوق اور فرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

تیسری فصل میں خاندانی اخلاق اور اس کا اثر ، خاندانی خوش بختی کے اصول اور بداخلاقی کا سنگین نتیجہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

چوتھی فصل میں خاندان کے متعلق معصومین کے فرامین اور سفارشات کو بیان کیا گیا ہے۔

پانچویں فصل میں خاندانی اختلافات اور اس کا علاج اور اس کے ساتھ ان خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے جسے خواتین اپنے شوہر میں دیکھنا پسند کرتی ہیں ، بیان کیا گیا ہے۔

دوسرے حصے میں خواتین کا مقام اور ان کے حقوق کو تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

پہلی فصل میں مختلف ممالک اور معاشرے خصوصاً دور جاہلیت میں عورت کی حیثیت اور مقام کو بیان کرکے ان کا اسلامی معاشرے میں عورت کو دی گئی حیثیت اور مقام سے مقایسہ کیا گیا ہے۔

دوسری فصل میں اسلام میں عورت کو مختلف زاویے ( ماں ، بیوی ، بیٹی ) سے دی ہوئی قدر منزلت، اجتماعی روابط کے ضوابط اور اصول اور حدود کوبیان کیا گیا ہے۔

تیسری فصل میں خواتین کے اجتماعی ، فرہنگی ، سیاسی، اور اقتصادی حقوق کو مختلف زاویے سے بیان کیا گیا ہے۔

چوتھی فصل میں خواتین کی اسلامی آزادی اورمغربی آزادی میں فرق کو بیان کیا گیا ہے۔

انشاء اللہ یہ کتاب اردو زبان میں ایک منفرد اور مفید کتاب ثابت ہوگی۔خدا وند اس معمولی سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں چہاردہ معصومین (ع) کے صدقے میں قبول فرمائے۔ ۔ آمین۔

غلام مرتضیٰ انصاری

یکم رجب المرجب

۱۴۳۰ ھ

پہلا حصہ

کلیات

حقوق کیا ہیں؟

حقوق سے مراد ا ن قواعد اور اصول کا مجموعہ ہے جن کی رعایت ایک معاشرہ یا خاندان کے افراد ایک دوسرے سے روابط کے دوران کرتے ہیں اور انہیں قواعد کے مطابق ہر ایک کے اختیارات اور آزادی کو متعین کیا جاتاہے(۱)

انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جو ہمیشہ ایک دوسرے کا محتاج ہے،اجتماعی اور خاندانی زندگی اس وقت ممکن ہے کہ معاشرہ یا خاندان پر ایک جامع قانون حا کم ہو ، ورنہ ہر کوئی اپنی مرضی سے چلے گا، جس کا نتیجہ خاندان اورمعاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہوجائےگا۔اس لئے ہر ایک پر لازم ہے کہ ان قوانین کا احترام کریں۔انہی قوانین کو علمی اصطلاح میں حقوق کہتے ہیں۔جس کا مقصد لوگوں کی مکمل آزادی کیلئے حدود کا تعین کرنا ہے۔جن کی رعایت کرنے سے اجتماعی اور خاندانی زندگی محفوظ ہوسکتی ہے۔عورت بھی خاندان کا ایک اہم رکن ہے بلکہ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ وہ خاندان کا محورہے، ان کے حقوق بھی اسلامی معاشرے میں بہت اہم ہے،جس کی رعایت کرنا باپ،شوہر اور اولاد پر فرض ہی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خاندان کے وجود میں آنے کی بنیاد تولید نسل کا انگیزہ ہے،کہ اس طریقے سے انسان اپنے وجود کی بقا کو محفوظ کرتا ہے ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عورتوں میں طبیعی طور پر ماں بننے کا شوق پایا جاتاہے اور یہی انگیزہ اسے خاندان کی تشکیل پر ابھارتا ہے۔ٹھیک ہے کہ یہ انگیزے اسباب بن توسکتے ہیں لیکن علت تامہ نہیں،کیونکہ بہت سے خاندان ایسے ہیں جن میں اولاد نہیں ہوتی یا زندہ نہیں رہتی،پھر بھی مرد اور عورت دونوں میں ایک دوسرے کیلئے عشق و محبت پائی جاتی ہے۔ اور کبھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دی جاتی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کرنے اور خاندان تشکیل دینے کے اور بھی علل و اسباب ہیں۔ چنانچہ پیامبراسلام فرماتے ہیں:جس نے شادی کرلی اس نے آدھا دین بچا لیا(۲)

کیونکہ شادی جوانوںکو لغزش ، انحرافات ،بے عفتی اور برائی سے بچاتی ہے۔

پس ان مشکلات کا حل قرآن مجید میں موجود ہے کہ انسان کی فطرت اور طبیعت میں جفت خواہی اور جنسی خواہشات ڈال دی جس کے نتیجے میں خاندان وجود میں آئی۔

میاں بیوی ایسے دو عنصر ہیں جو جب تک ایک دوسرے کو نہیں چاہتے یا آمیزش نہیں کرتے اور تعاون نہیں کرتے ،دونوں ناقص ہیں۔ یہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی زندگی کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔یہ نہ صرف دو فزیکل یا جسمانی رابطہ اور تولید فرزند ہے کہ جو خوشیوں کا باعث ہے ۔اورنہ صرف ظاہری اور مادی امور ،جو میاں بیوی کو ایک دوسرے کے نزدیک کرے بلکہ ایک بہت ظریف نکتہ چھپا ہوا ہے کہ وہ وہی روحی اور جسمی احتیاج ہے کہ خالق کائنات نے تمام جانداروں کوایک دوسرے کا محتاج خلق کیا ہے۔

قرآن کی رو سے خلقت انسان ابتدا ہی سے جفت جفت وجود میں آئی ہے۔اورہر ایک اپنی فطرت کے مطابق اپنی جفت اور ہمسر کی تلاش میں رہتاہے ۔ اور دونوں اپنے خاص طور و طریقے سے فطری وظیفہ کو انجام دیتے ہیں نتیجتا ایک دوسرے کو کامل کر تے ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے( وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا ) کہ ہم نے تمہیں جفت جفت پیدا کیا(۳)

( وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) ۔(۴)

یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ تمہارے لئے اپنے جنس میں سے ہمسر خلق کیا تاکہ سکون اور آرامش کا سبب بنے اور تمہارے درمیان دوستی اور محبت ایجاد کیاور فرمایا :( وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا )

یعنی خدا نے تمہیں مٹی سے پیدا کیاپھر نطفہ سے اور پھر جفت جفت قرار دیا(۵)

____________________

۱ ۔ باقر عاملی ؛حقوق خانوادہ ،ص٢٠١.

۲ مجلسی،محمد تقی؛ روضةالمتقین،ج٨،ص٣٨.

۳. سورہ نبأ٨.

۴. سورہ روم٢١.

۵. فاطر١١.

پیدائش حقوق کی وجوہات:

انسان کو چونکہ اپنے آپ سے زیادہ محبت ہے اس لئے چاہتا ہے کہ جتنا ہوسکے زندگی کی نعمات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے اور بہتر زندگی کرنے کیلئے ان وسائل سے فائدہ اٹھائے، لیکن دیکھتا ہے کہ جس طرح بچہ بغیر ماں باپ کے اپنی زندگی کو جاری نہیں رکھ سکتا اور اکیلا زندگی کے تمام مسائل کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے وہ خاندانی اور اجتماعی طور پر زندگی کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے ،اور اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق مسئولیت اور ذمہ داری کو قبول کر لیتا ہے۔ایک شخص زمینداری کرتا ہے تو دوسرا مستری کا کام، ایک دفتر میں کام کرتا ہے تو دوسرا ہسپتال میں، اور جب اجتماعی زندگی کا دارومدار ایک دوسرے کے تعاون پر ہے تو ذمہ داریاں بھی متعین ہوتی ہیں ۔اس طرح معاشرے میں قوانین نافذ ہوتے ہیں تاکہ معاشرے میں افراط و تفریط پیدا نہ ہو۔

حقوق کے منابع

بعض دانشمندوں کا خیال ہے کہ قانون عقل اور وجدان کی وجہ سے قائم ہوا ہے، کہ ہماری عقل لوگوں کے اچھے اور برے اعمال میں تشخیص دے سکتی ہے یہی وجہ ہے عقل کہتی ہے کہ برائیوں سے روکنا اور اچھائیوں کی طرف رغبت پیدا کرناچاہئے۔

بعض کہتے ہیں کہ قانون خالق کائنات کی طرف سے عالم بشریت کیلئے بنایاگیا ہے جسے انبیاء کے ذریعے لوگوں پر لاگو کیاگیا ہے۔

ان دونوں نظریات کے ماننے والوں نے اپنےاپنے دعوے کوثابت کرنے کیلئے مختلف دلائل پیش کئے ہیں۔

ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حقوق کا سرچشمہ وہی قوانین اسلامی ہے جسے خدا تعالی نے نبیوں کے ذریعے خود تعیّن کیا ہے۔کیونکہ خدا کی ذات ہے جو افعال انسانی کے مصالح اور مفاسد سے زیادہ آ گاہ ہے۔اور ان قوانین کو دریافت کرنے کیلئے مکتب تشیع کے مطابق چار منبع اور سرچشمہ ہیں:

١۔ قرآن مجید

قرآن مجید میں حقوق کے بارے میں تقریبا پانچ سو آیات ذکر ہوئی ہیں،جنہیں آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔یہ راہ ہدایت تک پہنچنے کیلئے محکم ذریعہ ہے،جو بھی اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجرملے گا،اور جس نے بھی اس کتاب کے مطابق فیصلہ کیااس نے عدل سے کام لیا ۔ اور جس نے بھی اس کتاب کی طرف کسی کی راہنمائی کی تو گویا اس نے صراط مستقیم کی طرف بلایا۔

٢۔ سنت

ممکن ہے یہ پانچ سو آیات قوانین زندگی کی تمام جزئیات پر تو دلالت نہیں کرتی،کیونکہ احکام جیسے نماز روزہ حج جھاد خمس و ۔۔۔کی بہت سی جزئیات پائی جاتی ہیں اور ان جزئیات کو بیان کرنا سنت کا کام ہے۔ہاں البتہ ان جزئیات کا بیان انہی آیات کی تفسیر ہوسکتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ انبیاء اپنی طرف سے بیان کرتے ہوں،چنانچہ قرآن مجید گواہی د ے رہا ہے:( وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ) ۔ "(۱) اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے"اس طرح شیعہ عقیدے کے مطابق سنت سے مراد گفتار و رفتار و تقریر معصوم (ع)ہے ۔

____________________

۱ ۔ النجم٤،۳.

٣۔اجماع

اصطلاح میں اجماع سے مراد یہ ہے کہ تمام اسلامی دانشمندوں کا کسی شرعی حکم پر اتفاق نظر اور وحدت عقیدہ ہو۔لیکن اہل سنت کے نزدیک اجماع؛ قرآن و سنت سے ہٹ کر ایک مستقل اصل ہے یعنی امت کا اجماع اور اھل حلّ و عقد بھی اسلامی قانون کا سرچشمہ ہے۔بنا بر ایں اگر کتاب اور سنت سے کسی حکم پر دلیل نہ ملے لیکن علماء کا اتفاق رائے معلوم ہو جائے تو اسی اجماع پر بنا رکھ کر فقیہ فتوی دیتا ہے۔

لیکن شیعوں کے نزدیک اجماع، کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی اور مستقل اصل نھیں ، بلکہ معتقد ہیں کہ یہ اجماع نظررأے معصوم کے درکار ہونے پر دلالت کرتا ہو۔قاعدۂ لطف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مجتہدین کسی غلط حکم پر متّفق ہو جائے تو امام پرلازم ہے کہ وہ اس میں اختلاف ڈالدے اور اجتماع کرنے سے بچائے۔

٤۔ عقل

اہل سنت کہتے ہیں کہ رأے ،اجتہاد اور قیاس وہی عقلی تشخیص ہے جو قوانین اسلامی کا

ایک الگ سرچشمہ ہے۔

اخبارئین کہتے ہیں چونکہ عقل ناقص اور خطاکار ہے اسلئے لوگوں کیلئے عقل حلال اور حرام کا تعین نہیں کر سکتی۔ ہاں صرف یہ کہ عقل کومددگار کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مجتہدین فرماتے ہیں عقل اور شریعت کے درمیان ایک مستحکم اور نہ ٹوٹنے والا رابطہ ہے ، اور کہا جاتا ہے :کلّما حکم به العقل حکم به الشرع و کلّما حکم به الشرع حکم به العقل ۔

امام سجاد(ع) منشأحقوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بندوں کے تمام حقوق کا سرچشمہ وہی حقو ق اللہ ہے اور باقی حقوق اسی کی شاخیں ہیں ۔اگر سارے حقوق کو ایک درخت شمار کرلے تو اس درخت کی جڑ حق اللہ ہے۔اور باقی لوگوں کے حقوق اس کی شاخیں اور پتے ہیں(۱) ۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح انسانوں پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں اسی طرح اللہ تعالی کے حقوق بھی ہیں کیونکہ خداوندانسان کا مالک حقیقی ہے جسے حق تصرف حاصل ہے ۔ جس کی اجازت کے بغیر ہم کسی دوسرے کے حقوق میں تصرف نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام حقوق خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی،اخلاقی ہو یا فقہی، حق الہی کے تابع ہے۔پس انسان کبھی بھی اپنے لئے کسی حق کا خدا سے مطالبہ نہیں کرسکتا کیونکہ جب کسی چیز کا مالک ہی نہیں تو کس حق کا مطالبہ کرے گا ؟ یہاں تک کہ ہم اپنے اعضائے بدن پر تصرف نہیں کرسکتے۔مگر یہ کہ خدانے ہمارے لئے جائز قرار دیا ہو۔ کیونکہ یہ سب خدا کی دین اور عطا ہے۔اگر ہم ان حقوق خدا کو درک کرلیں گے تو اپنی ذمہ داریوں کوبھی ہر مرحلے میں پہچان سکیں گے۔ اس بحث سے جو نتیجہ نکلتا ہے و ہ یہ ہے کہ ہر قسم کے حقوق خواہ وہ حقوق والدین ہو یا حقوق اولاد یا بیوی کے حقوق ، سب کچھ خدا کی طرف سے عطا کردہ حقوق ہیں اور خدا ہی کا حکم ہے کہ ان حقوق کی رعایت کریں۔ تاکہ قیامت کے دن ہمیں جزا دی جائے۔

____________________

۱ ۔ محمد تقی مصباح یزدی؛نظریہ حقوقی اسلام،ص٢١١.

خاندان کی تعریف

خاندان ایک اجتماعی گروہ کا نام ہے جس کا مقصد لوگوں کی روحی اور ذہنی سلامتی کو برقرار رکھتا ہے۔

تاریخ بشریت کی ابتدا سے لیکر آج تک اس ر وئے زمین پر مرد اور عورت دونوں نے خاندان کو تشکیل دے کرایک دوسرے کیساتھ زندگی گزارتے ہوئے پیار و محبت کیساتھ اپنی اولاد کی پرورش کی ہیں۔اور اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھ لئے ہیں۔ اور تمام مصلحین جہاںجیسے انبیاء الہی کی یہی کوشش رہی ہے کہ خاندان کا نظام اتنا پائیدار اور مستحکم کرے کہ کوئی بھی اسے متلاشی اور درہم برہم نہ کرسکے۔

مختلف نظریوں اورزاویوں سے خاندان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں،جن میں سے بعض سطحی ہیں اور بعض عمیق۔ یعنی جس قدر ہماری معرفت اور شناخت خاندان کی نسبت زیادہ ہوگی اتنا ہی اس مقدس اجتماع میں ہم رونق پیدا کر سکیں گے اور ناپائیداری کا خاتمہ کرسکیں گے۔جیسا کہ بیان کرچکا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خاندانی تشکیل کا واحد سبب جنسی خواہشات ہے کہ مرد اور عورت صرف اسی سلسلے میں پابندہیں کہ ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کریں ۔اس کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔درحا لیکہ اسلام میں اس کی بنیاد اس سے کہیں اہم چیز پر استوار ہے۔جس کی معرفت اور پہچان بہت ضروری ہے۔ تاکہ مرد اور عورت دونوں اس اہم اصول سے منحرف نہ ہو۔

خاندان کی ضرورت

مرد اور عورت کی سعادت اور خوشیاں اسی میں ہے کہ الہی سنت کے دائرے میں رہیں اور سطحی جذبات سے متأثر نہ ہوں۔اور دونوں کو جان لینا چاہئے کہ اب ایک جان دو قالب ہوگئے ہیں۔ اورہونے والی اولاد دونوں کا جگر کے ٹکڑے ہیں۔امام صادق سے روایت ہے کہ پیامبر اسلام (ص)نے ازدواجی زندگی کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا :عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَا بُنِيَ بِنَاءٌ فِي الْإِسْلَامِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ التَّزْوِيجِ (۱)

یعنی اسلامی نقطہ نگاہ سے ازدواج کی بنیاد سے بڑھ کر زیادہ پسندیدہ بنیاد نہیں ڈالی گئی

کیونکہ ازدواج کی بنیاد عشق و محبت کی بنیاد ہے۔ اور اگر اسلامی معیاروں کے مطابق ہو تو یہ خاندان کبھی دربدر نہیں ہوگا ۔

اور فرمایا۷ :وہ بدترین شخص ہے جو غیر شادی شدہ مر جائے،اس کی پوری رات کی عبادت سے شادی شدہ کی دو رکعت نماز بہتر ہے۔اس با مقصد خاندان کی تشکیل دینے سے پہلے ضروری ہے کہ نیک اور با سیرت بیوی کا انتخاب ہو۔ کیونکہ پوری زندگی اور آنے والی نسلوں کی پرورش انہی کے ہاتھوں میں ہے۔اسی لئے بیوی کے انتخاب کرنے کا ایک معیار اس کی خاندان کی اصالت ہے۔ یعنی نہ صرف بیوی کا ایمان اور اخلاق دیکھا جائے بلکہ ان کے خاندان کو بھی مد نظر رکھا جائے۔ کیونکہ خاندان کی صفات از طریق وراثت اولاد میں منتقل ہوتی ہے۔ اس لئے حقیقی ،با تقوی اور پسندیدہ صفات جیسے شجاعت و کرامت کے مالک خاندان میں شادی کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ پیامبر(ص)نے فرمایا:اخْتَارُوا لِنُطَفِكُمْ فَإِنَّ الْخَالَ أَحَدُ الضَّجِيعَيْنِ (۲) - یعنی ہمسر کا انتخاب میں خاندانی اصالت کا خیال رکھنا، کیونکہ اقرباء اور رشتہ دار تمھاری اولاد کی صفات میں تیرے شریک ہیں۔اسی طرح کم ذات خاندان میں شادی کرنے سےروکتے ہوئے فرمایا:قَالَ لِلنَّاسِ إِيَّاكُمْ وَ خَضْرَاءَ الدِّمَنِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا خَضْرَاءُ الدِّمَنِ قَالَ الْمَرْأَةُ الْحَسْنَاءُ فِي مَنْبِتِ السَّوْءِ (۳) - لوگو! تم لوگ خضراء دمن سے بچو ۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! خضراء دمن سے کیا مراد ہے؟! تو فرمایا: وہ خوبصورت عورت جو برے گھر اور ماحول میں پلی ہو۔

____________________

۱ ۔ روضةالمتقین ج٨،ص٨٢ا.من لا یحضرہ ج۳، ص۳۸۳۔

۲ ۔ مستدرک الوسائل ج١٤، ص۱۷۴.

۳ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، ج۳، ۳۹۱

تشکیل خاندان کے آداب

قرآن مجید نے متعدد بار خاندانی امور ،ارکان،احکام ،اخلاق اور اس کی حفاظت کے بارے میں ارشاد فرمایا : میاں بیوی پاکدامن ہوں اور نامحرم کیساتھ ہنسی مذاق نہ کرے کیونکہ خواتین کی کرامت ، شرافت اور عزت اسی میں ہے۔

اسی طرح خاندان کی چاردیواری اورمعاشرے کی عفت اور حرمت کے تجاوز کرنے والوں کو ڈرایا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس سورہ میں آنے والے بچے کی ذہنی اور روانی صحت سے بحث کی گئی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ .(۱)

اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں خاندانی مسائل کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا:"اے ایمان والو! ضروری ہے تمہاری کنیزیں اور وہ بچے جو ابھی حدّبلوغ کو نہیں پہنچے ہیں ،تین اوقات میں تم سے اجازت لیکرکمرے میں داخل ہوا کریں:فجر کی نماز سے پہلے ، دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہواور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں ، اس کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر۔اللہ تعالی اس طرح تمہارے لئے نشانیان کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا ،حکمت والاہے"۔

اور جب تمہارے بچےّ بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اجازت لیا کریں ۔جس طرح پہلے (ان سے بڑے ) لوگ اجازت لیا کرتے تھے۔

ان آیات سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:

۱. جب بیوی کیساتھ خلوت میں بیٹھنے لگو تو بچوں کو بغیر اجازت اندر آنے سے منع کریں۔

۲. کبھی بھی ماں باپ نازک لباس( sleeping dress ) میں بچوں کے پاس نہ جائیں۔ نہ باپ کو حق پہنچتا ہے کہ نامناسب لباس پہن کربچوں کے سامنے آئے اور نہ ماں کو۔ تاکہ معمولی سی بھی تحریک آمیز منظر اولادوں کے سامنے پیدا نہ ہو۔

امام صادق(ع) سے منقول ہے :لا یجامع الرجل امرئته وفی البیت صبی فانّ ذالک یورث الزنا -(۲) یعنی کسی شخص کو حق نہیں ہے کہ وہ ایسے کمرے میں بیوی کیساتھ ہمبستری کرے جس میں بچہ بیدار ہو، کیونکہ یہ منظر بچے کا فساد اور فحشاء کی طرف انحراف کا باعث بنتا ہے۔اور آپ پیامبرخدا (ص)سےنقل کرتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِذَا كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة -(۳)

امام صادق نے پیامبر اسلام سے روایت کی ہے : اس ذات کی قسم جس کی قبضہٗ قدرت میں میری جان ہے ؛ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے اور اس کمرے میں کوئی بچہ جاگ رہا ہو اور ان دونوں کو دیکھ رہا ہو اور ان دونوں کی آواز اور سانسوں کوسن رہا ہو، تو وہ پیدا ہونے والا کبھی نیک انسان نہیں ہوگا ، اگر وہ بچہ ہو تو زانی ہوگااور اگر بچی ہو تو زانیہ ہوگی۔

____________________

۱ ۔ سورہ نور، ۵۹ ۔۵۸

۲ ۔ وسائل الشیعہ،ج١٤،ص٩٤.

۳ ۔ الکافی ، ج۵، ص۵۰۰۔

خاندان تشکیل دینے کے تین اصول

شوہر اور بیوی کا باہمی عشق و محبت

یہ چیز اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں پوشیدہ رکھا ہے۔ اور یہ ضرورت ہم دوسرے جانداروں میں بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ انسان اگر تنہائی میں زندگی کرنے

پر مجبور ہوجائے تو زیادہ مغموم اورفکر مند ہوجاتا ہے .اسی لئے اپنے ہم نوع کے عطوفت و محبت کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈالتا ہے۔خدا تعالی نے تشکیل خاندان سے پہلے میاں بیوی کے درمیان کچھ یوں محبت اور مودت ایجاد کی ہے کہ جس کے بغیردونوں کو سکون نہیں ملتا۔ یہی محبت ہے جس کی وجہ سے مرد اور عورت ازدواجی زندگی میں داخل ہونے کیلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ایک شخص نے حضرت رسولخدا (ص) کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ(ص)! اس ازدواجی کام نے مجھے تعجب میں ڈال دیا ہے کہ ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہیں، جیسے ہی عقد ازدواج میں داخل ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کیلئے انتہائی محبت اور پیارکرنے لگتے ہیں۔رسولخدا (ص)نے فرمایا: ازدواجی امر کی بنیاد کو خدا نے انسانی فطرت میں رکھاہے جس کی ضرورت کو اپنے اندرشدت سے احساس کرتے ہیں ، اس کے بعد یہ آیہ شریفہ تلاوت فرمائی:( وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) .(۱)

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں.

الصَّدُوقُ فِي الْهِدَايَةِ، عَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ قَالَ مِنْ سُنَّتِي التَّزْوِيجُ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ۔(۲)

یہ عشق و محبت خدا تعالی کی عظیم عنایت ہے کہ جس پر رسولخدا (ص)نے فخر کرتے ہوئے فرمایا:نکاح میری سنت ہے جو بھی اس سنت سے منہ پھیرے گا وہ مجھ میں سے نہیں ہوگا۔ قرآن مجید نے بھی اس کام کی طرف شوق دلاتے ہوئے فرمایا:( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ )(۳) اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنا دے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے۔

____________________

۱ ۔ روم ۲۱.-۲ ۔ مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۱۵۲۔۳ ۔ نور ٣٢.

خاندان میں مرد کا احساس ذمہ داری

علامہ طباطبائی(رح) فرماتے ہیں :فا لنساء هن الرکن الاول والعامل الجوهری للاجتماع الانسانی -(۱) خواتین خاندانی اجتماع کی تشکیل اوراستحکام کی اصلی اور واقعی سنگ بنیاد ہیں، اس عظیم جاذبہ کو خدا نے عورت کے وجود میں قرار دیا ہے اور اسے آرام و سکون کا باعث قرار دیا ہے ۔ اور اس رکن اصلی کی حفاظت اور حراست کو مردوں کے ذمہ لگایا ہے،کیونکہ خدا نے مرد میں وہ توانائی اور قدرت پیدا کی ہے جس کے ذریعے وہ اس کی حفاظت کر سکتا ہے۔قرآن مجید کہہ رہا ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ (۲) ۔ مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خدا نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انھوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے ۔ پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی ہے۔

اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔اور ازدواجی زندگی میں مادی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی مردوں کے ذمہ لگایا۔اور ناموس کی حفاظت اور دفاع بھی مرد پر واجب کردیا،جس کیلئے وہ اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا.

____________________

۱ ۔ المیزان ،ج٤،ص٢٢٣.

۲ ۔ نساء ٣٤

دوام زندگی اور اس کی حفاظت

سب جانتے ہیں کہ ایک کامیاب زندگی وہ ہے جس میں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے پر راضی اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں اپنے آپ کو برابر کے شریک جانتے ہوں۔ اور یہ رؤوف ورحیم اللہ کی انسانوں پر بہت بڑی مہربانی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان وہ محبت ڈال دی جس کی وجہ سے دونوں میں فداکاری کا جذبہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ دونوں میاں بیوی ان اسباب سے پرہیز کرتے ہیں جو ان میں جدائی کا باعث ہوں۔اور دونوں کی یہی خواہش رہتی ہے کہ اس رشتے کی بنیادیں مستحکم تر ہوں ، اور آیہ شریفہ( وجعل بینکم مودة و رحمة) کا مصداق بنیں۔

آیہ شریفہ میں مودت سے کیا مراد ہے ؟ مفسرین نے تین احتمال ذکر کئے ہیں :

مودت یعنی ازدواجی زندگی کے آغاز میں ایک دوسرے سے مرتبط ہونے کا شوق، لیکن ممکن ہے زندگی کو دوام بخشنے یا آخر تک پہنچانے میں دونوں میں سے کوئی ایک ناتوان اور ضعیف ہو جائے۔ اور دوسرے کی خدمت کرنے پر قادر نہ ہو۔ اس طرح رحمت بھی مودت کا جانشین بنے گی۔ یہ دونوں اس قدر ایک دوسرے سے عشق و محبت رکھتے ہیں کہ اگر کوئی اور آکر اس ناتوان کی مدد کرے تو اس مدد گار کا بھی احترام کرنے لگتے ہیں۔اور یہ دونوں ایک دوسرے کے خاطر اپنے آپ کو آب و آتش میں ڈال دیتے ہیں تاکہ دوسرا آرام و راحت میں رہے۔جبکہ اس وقت نہ خواہشات جنسی اور شہوانی درکار ہے اور نہ کوئی جوانی مسائل ۔ اس ضعف اور ناتوانی کے دور میں فقط ایک دوسرے کی حفاظت اور نگہداری ان کیلئے زیادہ اہم ہے۔

مودت بڑوں سے ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی خدمت کرسکے لیکن رحمت چھوٹوں کیساتھ مربوط ہے کہ جو رحمت کے سائے میں پرورش پاتے ہیں۔چنانچہ رسولخدا (ص)نے فرمایا: ارحموا صغارکم۔تم اپنے چھوٹوں پر رحم کریں۔

مودت غالبا دو طرفہ ہوتی ہے لیکن رحمت یک طرفہ۔ لیکن کسی بھی معاشرہ ، اجتماع یا خاندان کی بقاء متقابل خدمات پر منحصر ہے جو مودت ہی سے ممکن ہے نہ محبت سے۔(۱)

____________________

۱ ۔ تفسیر نمونہ،ج١٦،ص٣٩١

پہلی فصل

والدین پر بچوں کی ذمہ داریاں

اولاد کی تعریف

قال الله تعالی :( وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ) -(۱) ۔ اور جان لو یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموا ل ایک آزمائش ہیں اور خدا کے پاس اجر عظیم ہے۔ قال رسول اللہ(ص):انّهم ثمرة القلوب وقرة الاعین(۲) رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اولاد دلوں کا ثمرہ ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اور فرمایا:انّ لکل شجرة ثمرة وثمرةالقلب الولد -(۳)

ہر درخت کا پھل ہوتا ہے اور دل کا پھل اولاد ہے۔اولاد کی اتنی فضیلت کے باوجود ایک دن حسن بصری نے کہا: اولاد کتنی بری چیز ہے !اگر وہ زندہ رہے تو مجھے زحمت میں ڈالتی ہے اور اگر مرجائے تو مجھے مغموم کرجاتی ہے۔ امام سجاد(ع) نے یہ سنا تو فرمایا:

رُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ بِئْسَ الشَّيْ‏ءُ الْوَلَدُ إِنْ عَاشَ كَدَّنِي وَ إِنْ مَاتَ هَدَّنِي فَبَلَغَ ذَلِكَ زَيْنَ الْعَابِدِينَ ع فَقَالَ كَذَبَ وَ اللَّهِ نِعْمَ الشَّيْ‏ءُ الْوَلَدُ إِنْ عَاشَ فَدَعَّاءٌ حَاضِرٌ وَ إِنْ مَاتَ فَشَفِيعٌ سَابِقٌ(۴)

خدا کی قسم اس نے جھوٹ بولا ہے بہترین چیز اولاد ہے اگر یہ زندہ رہے تو چلتی پھرتی دعا ہے، اور اگر مر جائے تو شفاعت کرنے والا ہے۔یہی وجہ ہے کہ روایت میں ملتا ہے کہ حضور (ص)نے فرمایا: سقط شدہ بچے سے جب قیامت کے دن کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہوجاؤ۔ تو وہ کہے گا : حتی یدخل ابوای قبلی -۵ خدایا جب تک میرے والدین داخل نہیں ہونگے تب تک میں داخل نہیں ہونگا۔

____________________

۱ ۔ انفال٢٨.

۲ ۔ بحار الانوار،ج ١٠٤،٩٧.

۳ ۔ میزان الحکمة،٢٨٦٠٨.

۴ ۔ مستدرک الوسائل،ج١٥،ص١١٢

۵ ہمان،ص٩٦.

تربیت اولاد کیلئے زمینہ سازی

تربیت اولاد کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ہر مکتب اور مذہب انسانی تربیت کی ضرورت کو درک کرتے ہیں اگر اختلاف ہے تو روش اور طریقے میں ہے۔تربیت کی اہمیت کو پیامبر اسلام (ص)یوں فرماتے ہیں:وَ كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ يَدُورُ فِي سِكَكِ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ وَ هُوَ يَقُولُ عَلِيٌّ خَيْرُ الْبَشَرِ فَمَنْ أَبَى فَقَدْ كَفَرَ يَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ أَدِّبُوا أَوْلَادَكُمْ عَلَى حُبِّ عَلِيٍّ فَمَنْ أَبَى فَانْظُرُوا فِي شَأْنِ أُمِّهِ -(۱) جابر بن عبداللہ انصاری مدینے میں انصار کے کانوںمیں یہ کہتے ہوئے گھوم رہے تھے : علی سب سے بہتر اور نیک انسان ہیں ۔پس جس نے بھی ان سے منہ پھیرا وہ کافر ہوگیا ۔ اے انصارو! تم لوگ اپنے بچوں کومحبت علی کی تربیت دو ،اگر ان میں سے کوئی قبول نہیں کرتا ہے تواس کی ماں کو دیکھو کہ وہ کیسی عورت ہے ۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: اپنی اولادوں کو تین چیزوں کی تربیت دو: اپنے نبی(ص) اور اس کی آل پاک A کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں اور قرآن مجید کی تعلیم دیں۔

رَوَى فُضَيْلُ بْنُ عُثْمَانَ الْأَعْوَرُ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ اللَّذَانِ يُهَوِّدَانِهِ وَ يُنَصِّرَانِهِ وَ يُمَجِّسَانِه (۲)

امام صادق نےپیامبر اسلام (ص)سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:دنیا میں آنے والا ہربچہ فطرت (توحید) پر پیداہوتا ہے۔لیکن اس کے والدین یا اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔

اسی لئے اسلام نے بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے سے تربیت کرنے کا حکم دیا :

____________________

۱ ۔ من لا یحضر ،ج۳، ص ۴۹۳۔

۲ ۔ من لایحضرہ الفقیہ،ج۲، ص۴۹۔

واقعہ غدیر کاپیش خیمہ

غدیر کاعمیق مطالعہ کر نے کےلئے اس عظیم واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے وقت معا شرہ کے سماجی،اعتقادی اور اخلاقی حالات سے آگاہ ہو نا ضروری ہے ،تا کہ معلوم ہو کہ غدیر خم میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سا تھ کون لو گ تھے ؟ اور وہ کیسے مسلمان تھے ؟ان کا عقیدہ کیسا تھا ؟اور وہ کتنے گروہوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں ؟

یہ فکری آمادگی واقعہ غدیر کے جزئیات اور اس کی خاص کیفیت کاتجزیہ و تحلیل کر نے میں مدد گار اور نتیجہ خیز ثابت ہو گی ۔

۱.ہجرت کے پہلے عشرہ میں اسلامی معا شرے کی تشکیل

دین اسلام کی تبلیغ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت( ۱ )

دین اسلام آخری دین ہے جو گزشتہ تمام ادیان کو منسوخ کر دینے والا اور معارف الٰہی کے سب سے بلند وبالا مطالب کا حا مل ہے جو کسی زمان و مکان میں محدود نہیں ہیں ۔لہٰذا ان معارف کو پوری دنیا میں ہمیشہ کےلئے لوگوں کی فکر و روح کی تعمیر کرنے والی اور انسانیت ساز قانونی دستاویز کے طور پر ہونی چا ہئے

اس عظیم رسالت کی ذمہ داری خا تم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کاندھوں پرڈالی گئی ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی احکام و معارف لوگوں کےلئے آہستہ آہستہ بیان فر ما تے تھے اور ہر اقدام سے پہلے اس کےلئے ماحول کوسازگار بناتے تھے ۔جیسے جیسے اسلام کی قدرت و طاقت اورترقی میں اضافہ ہو تا جاتا تھا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی سنگین تر اسلامی مطالب کو لو گو ں کے سامنے بیان فر ما تے تھے ،اور یہ طریقہ آپ کی حیات طیبہ کے آخری وقت تک جاری و ساری رہا ۔

ہجرت سے پہلے مسلمان( ۲ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیرہ سال کی تبلیغ کے دوران مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعدادبہت کم تھی اور اس کی وجہ ظا ہر ی طور پر اسلام کاکمزور ہوناتھا ،لہٰذا دنیوی خواہشات کے خواھاں اسلام کی طرف بہت کم ما ئل ہو تے تھے ۔

اگر چہ اس دور میں بھی کچھ منا فقین اپنا مستقبل بنا نے کی غرض سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے تھے ، اپنے جاہلیت والے مقاصدکوحاصل کرنے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقدامات کو نابود کر نے کےلئے دل ہی دل میں منصوبہ بنایا کر تے تھے ،لیکن دوسرے افراد کی نیک نیتی ان کے تمام ارادوں پر پانی پھیر دیتی تھی ۔

ہجرت کے بعد مسلمان( ۳ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ تشریف آوری ،آپ کے استقبال اور مسلمانوں کےلئے امن و امان کی جگہ فراہم ہو جا نے کے بعدروز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔اسلام اس قدر ترقی کی راہ پر گا مزن تھا کہ گروہ گروہ اور کبھی توساراقبیلہ مسلمان ہو جا تا تھا ۔مدینہ کے گرد و نواح سے بھی افراد آنحضرتعليه‌السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر ہو تے تھے اور اسلام قبول کر تے تھے ۔اس بنا پر مسلمانوں کی آبادی میں ایک بنیادی تبدیلی ہو رہی تھی ،مشرکین ،یہودی اور عیسائی ایمان لا کرمسلمان معاشرہ میں داخل ہو چکے تھے اور یہ معاشرہ مختلف قبائل اورمختلف گرو ہوں کو اپنے اندر جگہ دے رہا تھا۔ان لوگوں میں سے بعض لوگ اپنے قبیلہ کے سرداروں کی اتباع میں ، کچھ جنگو ں میں شرکت کر کے مال غنیمت حا صل کر نے کے قصد و ارادہ سے مسلمان ہوئے اور بعض دوسرے افرادعھدہ ومنصب وغیرہ حاصل کرنے کی غرض سے اسلام لا ئے ۔

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگیں اوج پر پہنچیں اورمسلمانوں کی معاشرتی اور فوجی طاقت بڑھی اور مسلمان جنگوں کو فتح کر نے لگے ،تو کثرت سے لوگ اپنی جان و مال کی حفا ظت کے لئے اسلام قبول کر نے لگے اور کچھ لوگو ں نے رسوا و ذلیل نہ ہونے کی خاطرخود کو اکثریت کے ساتھ ملحق کر لیا ۔

اگرچہ مخلص اور فدا کار مسلمانوں کی تعدادبھی کم نہیں تھی اور یھی وہ افراد تھے جو منافقین کے منصوبوں اور دنیا پرستوں کی خوا ھشات میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔

فتح مکہ کے بعد مسلمان( ۴ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مکہ فتح ہو نے کے بعدیہ صورت حال نے مزیدپیچیدہ ہوگئی۔یہ بڑی فتح جس میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی علیہ السلام نے بت پرستی اور شرک کی کمر توڑ دی تھی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے عام طور پر در گزرکر نے کے اعلان کے بعد بہت سے وہ افراد جو کل تک جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف تلوار چلاتے تھے ،مسلمانوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اس طرح مسلمان معاشرہ نے نئی شکل اختیارکرلی ۔

حجةالوداع کے سال اسلامی معاشرہ( ۵ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سال میں جھاں آپ کے ساتھ ایک طرف سلمان ابوذر اور مقداد جیسے مخلص مسلمان تھے تو دو سری طرف وہ نئے مسلمان بھی تھے جو کل تک اسلام کے خلا ف تلواراٹھایا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ خواہشات نفسانی کے پابند ہویٰ و ہوس کے غلام اور دنیا کے خواھاں افراد بھی تھے جن کامقصددنیاحا صل کر نا تھا۔

کچھ افراد کی افکار پر دور جا ہلیت کے تعصبات کا غلبہ ،بدر و احد وحنین اور خیبر کے کچھ باقیماندہ عُقدے اور دنیاوی لالچ نے کچھ لوگوں کے دلوں سے ایمان راسخ کو ختم کر دیا تھااس کے علاوہ مخفی حسد جو روز بروز آشکار ہو تا جا رہا تھا حجة الوداع کے وقت سب چیزیں مسلمانوں کے معا شرہ پرحکم فرما تھیں اور اس وقت کی فضا انہیں اسباب کی دین تھی۔

مسلم معا شرے میں منا فقین( ۶ )

مسلم معاشرے کی سب سے بڑی مشکل، نفاق تھاجوان افراد کی مختل کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ان کے اندر سے روح ایمان کو سلب کرکے انہیں اپنی طرف مائل کر لیتاتھا ۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے لیکن قانونی طور پر ان سے پیش آنامشکل تھا ۔

یہ گروہ بعثت کی ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مو جودتھا اور بعض تو ابتدا ہی سے منا فقانہ نیت سے مسلمان ہو ئے تھے ،لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔جیسے جیسے اسلام کی قوت بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے منا فقین بھی اپنے کو منظم کر تے جا رہے تھے اور اسلام کی ظاہر ی عبا زیب تن کئے ہو ئے اسلام کے نئے پودے پر کفار و مشرکین سے بھی زیادہ مہلک وار کر تے تھے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخر ی سالوں میں منا فقین عملی طور پر میدان میں آگئے تھے ،وہ مٹینگیں کیا کر تے تھے ،اسلام اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف سا زش کر تے اور ماحول خراب کیا کر تے تھے جس کی بہترین گواہ قرآن کریم کی آیات ہیں ۔ اگر ہم قرآن کر یم کی آیات کے نا زل ہو نے کی تر تیب کا جا ئزہ لیں تو منا فقین سے متعلق اکثرآیات پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سالو ں میں نا زل ہو ئی ہیں ۔( ۷ )

منافقین ظا ہر ی طور پرتو مسلمان تھے لیکن با طنی طور پر کفر والحاد اور شرک کی طرف ما ئل تھے ان کے دل میں یہ آرزو تھی کہ دین اسلام کو ہر اعتبار سے نقصان پہنچا یا جا ئے اورکسی طرح اپنی پرانی حا لت پرپلٹ جا ئےں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جا نتے تھے کہ ہم اس ہدف کو آسانی سے نہیں حا صل کر سکتے اور کم سے کم پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں تو ایسا ہو نا نا ممکن ہے ۔لہٰذا انھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا ۔

انھوں نے حجةالوداع کے سال میں اپنے درمیان کئی عہد نا موں پر دستخط کئے تھے اور ان میں اسلام کے خلاف کئی دقیق اور پیچیدہ سازشیں تیارکی تھیں ۔( ۸ )

غدیر ،سازشوں کی ناکامی کی بنیاد

جو چیزاس ماحول میں منا فقو ں کی سازشوں کو بالکل نیست و نا بود ،اسلام کواس کی اصلیت اور حقیقت کے ساتھ محفوظ رکھ سکتی تھی وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کے جا نشین کااعلان تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی ہر منا سب مو قع پراس کا اعلان فر ما یا تھا یھاں تک کہ متعدد مر تبہ سند کے طور پرمعاشرہ کی پشت پناھی کے ساتھ بیان فرمایا ،یھاں تک کہ ایک روز امیر المو منینعليه‌السلام کو بلایا اسکے بعد اپنے خادم کو حکم فرما یا کہ قریش کے سو افراد ،دیگرعربوں سے اسّی افراد عجم سے ساٹھ افراد اور حبشہ کے چالیس افراد جمع کریں جب یہ افراد جمع ہو گئے تو آپ نے ایک کاغذ لا نے کا حکم دیا ۔

اس کے بعد سب کو ایک دو سرے کے پہلو میں نماز کی طرح صف میں کھڑے ہو نے کا حکم دیا اور فر مایا: ”ایھا الناس ، کیا تم اس بات کو تسلیم کر تے ہو کہ خداوند عالم میرا ما لک ہے اور مجھ کو امر اور نھی کر تا ہے اور میںخدا وند عالم کے قو ل کے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں رکھتا“؟

انھو ں نے کہا :ھاں ، یا رسول اللہ ۔آپ نے فر مایا :کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیا دہ حا کم نہیں ہوں ، تم کو امر و نھی کرتاہوں اور تم کو میرے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : ھاں ،یا رسول اللہ ۔

فرمایا :جس شخص کا خداوند عالم اور میں صاحب اختیار ہوں یہ علی بھی اس کے صاحب اختیار ہیں یہ تم کو امر و نھی کر نے کا حق رکھتے ہیں اور تمہیں ان کو امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ۔خدایا علیعليه‌السلام کے دوست کو دوست رکھ اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دے ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر،جو اس کو ذلیل و رسوا کر ے تو اُس کو ذلیل و رسوا کر۔ خدایا تو اس بات کا شاہد ہے کہ میں نے تبلیغ کی اور ان تک پیغام پہونچا دیا اور ان کے سلسلہ میں پریشان رہا۔

اس کے بعد اس کاغذ(جس میں یہ مطالب تحریر تھے )کو ان افراد کے سا منے تین مر تبہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد تین مر تبہ فر مایا :تم میں کون شخص اس عہد سے پھرجائے گا؟انھوں نے تین مرتبہ کہا : ہم خدا اور اس کے رسول کی پناہ چا ہتے ہیں اگر ہم اپنے عہد سے پھریں۔

اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کاغذکو لپیٹا اور اس پر مجمع میں موجودسب افراد کے دستخط کرائے اور فرمایا: اے علیعليه‌السلام اس نوشتہ (تحریر ) کو اپنے پاس رکھو،اور اگر ان میں سے کسی نے عہد شکنی کی تو یہ تحریر اس کو پڑھ کر سنا ناتا کہ میں قیامت میں اس کے خلاف مبغوض رہوں ۔( ۹ )

ان تمام اقدامات کے با وجود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علیعليه‌السلام کو قا نونی طور پر اپناجانشین و خلیفہ معین فر ما نے کےلئے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایا م میں زمان ،مکان اور تا ریخ کے اس عظیم جم غفیر کے منتظر تھے منافقین کو بھی اس چیز کا خطرہ تھا اور متعدد طریقو ں سے اس اعلان میں رو ڑے اٹکا رہے تھے ۔

قانونی طور پر زمان و مکان کے اعتبار سے اعلان کر نے کا سب سے بہترین مو قع ’غدیر خم“تھا جس نے منافقین کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا، ان کی کئی سالو ں سے چلی آرھی سازشوں کوچکنا چور کر دیااور ان کے شیطانی منصوبوں پرپانی پھیر دیا ۔( ۱۰ )

حضرت فا طمہ زھراءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سلسلہ میں فر ما تی ہیں :

”وَ اللهِ لَقَدْ عَقَدَ لَهُ یَوْ مَئِذٍ الْوِلَا ءَ لِیَقْطَعَ مِنْکُمْ بِذلِکَ الرَّجَا ءَ “ ( ۱۱ )

”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر کے دن عقد ولایت کو حضرت علیعليه‌السلام کےلئے محکم و استوار فرما یا تا کہ اس طرح تمھا ری آرزوئیں اس سے منقطع ہو جا ئیں “

غدیر عرصہ دراز کےلئے اتمام حجت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دین اسلام کے قیامت تک باقی رہنے اور پوری دنیا میںمسلمانوں کے پھیل جا نے کے بعدقیا مت تک باقی رہنے والے اپنے جانشینوں (یعنی بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام)کا اپنے ایک خطبہ میں تعارف کرا یا ۔

اس لئے اگر اس دن اکثر مسلمانوں نے اپنے ھمدرد پیغمبرکے کلام کوتسلیم نہ کیاا ور امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کو قبول نہیں کیا لیکن مسلمانوں کی بعد میں آنے والی نسلوںکے اکثر افرادنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی کی معرفت حا صل کرلی ۔یھی غدیر کا سب سے اہم اور بنیادی ہدف تھا ۔

اگر چہ منا فقین نے اپنے ارادوں کو عملی جا مہ پہنایا لیکن یہ غدیر کا ہی نور ہے کہ جس نے چودہ صدیا ں گذر جانے کے با وجود دنیا کی اس وسیع و عریض زمین پر تاریخ کے ہر دورمیں کروڑوں شیعوں اور اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والوں کوباقی رکھا اور اسی طرح نور ولایت کودنیا کے مختلف مقامات پر روشن اورتابناک محفوظ رکھا ہے ۔

اسی طرح اگر عر صہ دراز تک مسلمانو ں کے گروہ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جا نشینوں کے سا منے سر تسلیم خم نہ کیا اور نہیں کر تے ہیں لیکن شیعوں کی یہ بہت بڑی تعداد فقط علی بن ابی طالبعليه‌السلام اور ان کی نسل سے گیارہ فرزندوں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جا نشین سمجھتی ہے ۔

اس مقدمہ سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ خطبہ غدیر کچھ محدود گروہ اور خاص زمانہ کےلئے نہیں بیان کیا گیا تھا ،بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود یہ ارشاد فر مایا کہ حا ضرین غائبین کو ،شھر میں رہنے والے گاوں میں رہنے والوں کو اورباپ اپنی اولاد کوقیامت تک یہ خبر پہنچا تے رہیں اور سب اس پیغام کو پہنچا نے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں ۔( ۱۲ )

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کر دی ،تو اب یہ صرف لو گو ں کے اوپر ہے کہ وہ چا ہے جنت کو اختیار کر یں یا جہنم کو ،اور ان کا ولایت علیعليه‌السلام کو قبول کر نا یا قبول نہ کرنا ایک الٰہی امتحان ہے ۔

اس سلسلہ میں امام علی رضا علیہ السلام فر ما تے ہیں :

(مَثَلُ الْمُومِنِیْنَ فِیْ قَبُوْلِهِمْ وِلَاءَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلّا مُ فِیْ یَوْمِ غَدِیْرِخُمٍّ کَمَثَلِ الْمَلَا ئِکَةِ فِیْ سُجُوْدِهِمْ لِآدَمَ،وَمَثَلُ مَنْ اَبیٰ وِلَایَةَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ مَثَلُ اِبْلِیْسَ )

”غدیر خم کے دن حضرت علیعليه‌السلام کی ولایت کو قبول کر نیوالے مو منین کی مثال حضرت آدم کو سجدہ کر نےوالے ملا ئکہ جیسی ہے ،اور ولایت امیر المو منینعليه‌السلام کا انکار کرنے والوں کی مثال ابلیس جیسی ہے ‘( ۱۳ )

اس مختصر سی بحث سے اسلامی معا شرے پر حکم فرما فضااور وہ حالات جن میں واقعہ غدیررونما ہوا اور وہ اھداف و مقاصدجوغدیرکے مد نظر تھے واضح ہو جا تے ہیں ۔

۲. خطبہ غدیر کی اہمیت کے پھلو

پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ہے جو اتنے تفصیلی مقد مات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان ہو ا ہے دیگر تمام احکام الٰہی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان ہو تے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جا تی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلا م کا یہ الٰہی حکم دوسرے تمام الٰہی احکام سے ممتاز اور اہم ہے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فر ما تے ہیں :

لَمْ یُنَادِبِشَيء مِثْلَ مَانُوْدِیَ بِالْوِلَایَةِ یَوْمَ الْغَدِیْر

”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نہیں ہوا “

ہم ذیل میں فھر ست وار خطبہ غدیر کی اہمیت کے اسباب بیان کر رہے ہیں :

جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میں اس مقام سے پہلے ہے جھاں سے تمام راستے الگ الگ ہوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے ۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنااور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اوریہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔

خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حا جیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعداور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے نزدیک ہو نے کااعلان اس لئے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فر ما گئے ۔

خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نا زل ہوا ہے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ہی انجام نہیں دیا “یعنی فرامین الٰہی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نہیں ہوا ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کاقطعی فیصلہ ، اس حکم الٰہی کو پہنچا نے کی خصوصیات میں سے ہے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ ہو ئے ۔

خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ہے اور احکام الٰہی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نہیں دی گئی ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔

اس دستور الٰہی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰہی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانانا ممکن ہو گیا تھا۔

مسئلہ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ہی خطبہ کی صورت میں نہیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفر مان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عہد کے ذریعہ سے عمل میںآیا ۔

وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کوبیان کر تے وقت خطبہ میںذکرکئے گئے ہیں ۔

خطبہ سے پہلے اور بعد واقع ہو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اہمیت پر دلالت کر تے ہیں ۔

خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نہیں فر مایا گیا ۔

ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمو منین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر میں کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نہیں چھو ڑا “(۱۴) نیز علماء کا ائمہ ہدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کر نا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ہے ۔

تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کر نے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جا ناجو روایات ولایت میں ممتاز اوربے مثال ہے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ہیں اور تمام مسلمان چا ہے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے ہوں اس حدیث کے صحیح ہو نے کااعتراف کرتے ہیں

خطبہ غدیر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند و بالا مقاصد

۱ ۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کانتیجہ اخذکرنے کےلئے اپنا جا نشین معین کر نا جس کے ذریعہ اس راہ کوبرقرار رکہے گا۔

۲ ۔اسلام کو کفار و منافقین سے ہمیشہ کےلئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جا نشینوں کا معین فر مانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔

۳ ۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ہمیشہ رائج رھاہے اور تاریخ میںبطورسندثابت ہے ۔

۴ ۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔

۵ ۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔

۶ ۔لوگوں پر حجت تمام کرناجو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اہل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوںاور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اہمیت کا بہترین گواہ ہے ۔

____________________

[۱] بحا ر الانوار جلد :۱۸،۱۹،۲۰۔

[۲] بحا ر الانوار جلد :۱۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۲۴۳ ، جلد ۱۹ صفحہ ۱۔۲۷۔

[۳] بحا ر الانوار جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۴ ۔۱۳۳ ، جلد ۲۰ ،جلد ۲۱ صفحہ ۱ ۔۹۰۔

[۴] بحا ر الانوار :جلد۲۱ صفحہ ۹۱۔۱۸۵۔

[۵] بحا ر الانوار :جلد ۲۱ صفحہ ۱۸۵۔۳۷۸۔

[۶] بحا رالانوار :جلد ۲۲۔اسی طرح منا فقین سے متعلق آیات ،قرآن کریم میں ملا حظہ فر ما ئیں ۔

[۷] اس سلسلہ میں سورہ آل عمران ،نساء ،ما ئدہ، انفال ، تو بہ، عنکبوت ، احزاب ،محمد ، فتح ، مجا دلہ، حدید ، منافقین و حشر میں رجوع کریں۔

[۸] منافقوں کی سازشوں کی تفصیل اس کتاب کے تیسرے حصہ میں بیان کی جا ئے گی ۔

[۹] فیض الغدیر :صفحہ ۳۹۴۔

[۱۰] اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصہ میں رجوع فر ما ئیں ۔

[۱۱] عوالم : جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۸۔

[۱۲] اس سلسلہ میں خطبہ غدیر کے گیا رہویں حصہ میں رجوع کیجئے ۔

[۱۳] عوالم : جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴ ۔

[۱۴] بحا ر الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶۔عوالم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۹۔

واقعہ غدیر کاپیش خیمہ

غدیر کاعمیق مطالعہ کر نے کےلئے اس عظیم واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے وقت معا شرہ کے سماجی،اعتقادی اور اخلاقی حالات سے آگاہ ہو نا ضروری ہے ،تا کہ معلوم ہو کہ غدیر خم میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سا تھ کون لو گ تھے ؟ اور وہ کیسے مسلمان تھے ؟ان کا عقیدہ کیسا تھا ؟اور وہ کتنے گروہوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں ؟

یہ فکری آمادگی واقعہ غدیر کے جزئیات اور اس کی خاص کیفیت کاتجزیہ و تحلیل کر نے میں مدد گار اور نتیجہ خیز ثابت ہو گی ۔

۱.ہجرت کے پہلے عشرہ میں اسلامی معا شرے کی تشکیل

دین اسلام کی تبلیغ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت( ۱ )

دین اسلام آخری دین ہے جو گزشتہ تمام ادیان کو منسوخ کر دینے والا اور معارف الٰہی کے سب سے بلند وبالا مطالب کا حا مل ہے جو کسی زمان و مکان میں محدود نہیں ہیں ۔لہٰذا ان معارف کو پوری دنیا میں ہمیشہ کےلئے لوگوں کی فکر و روح کی تعمیر کرنے والی اور انسانیت ساز قانونی دستاویز کے طور پر ہونی چا ہئے

اس عظیم رسالت کی ذمہ داری خا تم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کاندھوں پرڈالی گئی ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی احکام و معارف لوگوں کےلئے آہستہ آہستہ بیان فر ما تے تھے اور ہر اقدام سے پہلے اس کےلئے ماحول کوسازگار بناتے تھے ۔جیسے جیسے اسلام کی قدرت و طاقت اورترقی میں اضافہ ہو تا جاتا تھا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی سنگین تر اسلامی مطالب کو لو گو ں کے سامنے بیان فر ما تے تھے ،اور یہ طریقہ آپ کی حیات طیبہ کے آخری وقت تک جاری و ساری رہا ۔

ہجرت سے پہلے مسلمان( ۲ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیرہ سال کی تبلیغ کے دوران مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعدادبہت کم تھی اور اس کی وجہ ظا ہر ی طور پر اسلام کاکمزور ہوناتھا ،لہٰذا دنیوی خواہشات کے خواھاں اسلام کی طرف بہت کم ما ئل ہو تے تھے ۔

اگر چہ اس دور میں بھی کچھ منا فقین اپنا مستقبل بنا نے کی غرض سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے تھے ، اپنے جاہلیت والے مقاصدکوحاصل کرنے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقدامات کو نابود کر نے کےلئے دل ہی دل میں منصوبہ بنایا کر تے تھے ،لیکن دوسرے افراد کی نیک نیتی ان کے تمام ارادوں پر پانی پھیر دیتی تھی ۔

ہجرت کے بعد مسلمان( ۳ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ تشریف آوری ،آپ کے استقبال اور مسلمانوں کےلئے امن و امان کی جگہ فراہم ہو جا نے کے بعدروز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔اسلام اس قدر ترقی کی راہ پر گا مزن تھا کہ گروہ گروہ اور کبھی توساراقبیلہ مسلمان ہو جا تا تھا ۔مدینہ کے گرد و نواح سے بھی افراد آنحضرتعليه‌السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر ہو تے تھے اور اسلام قبول کر تے تھے ۔اس بنا پر مسلمانوں کی آبادی میں ایک بنیادی تبدیلی ہو رہی تھی ،مشرکین ،یہودی اور عیسائی ایمان لا کرمسلمان معاشرہ میں داخل ہو چکے تھے اور یہ معاشرہ مختلف قبائل اورمختلف گرو ہوں کو اپنے اندر جگہ دے رہا تھا۔ان لوگوں میں سے بعض لوگ اپنے قبیلہ کے سرداروں کی اتباع میں ، کچھ جنگو ں میں شرکت کر کے مال غنیمت حا صل کر نے کے قصد و ارادہ سے مسلمان ہوئے اور بعض دوسرے افرادعھدہ ومنصب وغیرہ حاصل کرنے کی غرض سے اسلام لا ئے ۔

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگیں اوج پر پہنچیں اورمسلمانوں کی معاشرتی اور فوجی طاقت بڑھی اور مسلمان جنگوں کو فتح کر نے لگے ،تو کثرت سے لوگ اپنی جان و مال کی حفا ظت کے لئے اسلام قبول کر نے لگے اور کچھ لوگو ں نے رسوا و ذلیل نہ ہونے کی خاطرخود کو اکثریت کے ساتھ ملحق کر لیا ۔

اگرچہ مخلص اور فدا کار مسلمانوں کی تعدادبھی کم نہیں تھی اور یھی وہ افراد تھے جو منافقین کے منصوبوں اور دنیا پرستوں کی خوا ھشات میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔

فتح مکہ کے بعد مسلمان( ۴ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مکہ فتح ہو نے کے بعدیہ صورت حال نے مزیدپیچیدہ ہوگئی۔یہ بڑی فتح جس میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی علیہ السلام نے بت پرستی اور شرک کی کمر توڑ دی تھی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے عام طور پر در گزرکر نے کے اعلان کے بعد بہت سے وہ افراد جو کل تک جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف تلوار چلاتے تھے ،مسلمانوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اس طرح مسلمان معاشرہ نے نئی شکل اختیارکرلی ۔

حجةالوداع کے سال اسلامی معاشرہ( ۵ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سال میں جھاں آپ کے ساتھ ایک طرف سلمان ابوذر اور مقداد جیسے مخلص مسلمان تھے تو دو سری طرف وہ نئے مسلمان بھی تھے جو کل تک اسلام کے خلا ف تلواراٹھایا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ خواہشات نفسانی کے پابند ہویٰ و ہوس کے غلام اور دنیا کے خواھاں افراد بھی تھے جن کامقصددنیاحا صل کر نا تھا۔

کچھ افراد کی افکار پر دور جا ہلیت کے تعصبات کا غلبہ ،بدر و احد وحنین اور خیبر کے کچھ باقیماندہ عُقدے اور دنیاوی لالچ نے کچھ لوگوں کے دلوں سے ایمان راسخ کو ختم کر دیا تھااس کے علاوہ مخفی حسد جو روز بروز آشکار ہو تا جا رہا تھا حجة الوداع کے وقت سب چیزیں مسلمانوں کے معا شرہ پرحکم فرما تھیں اور اس وقت کی فضا انہیں اسباب کی دین تھی۔

مسلم معا شرے میں منا فقین( ۶ )

مسلم معاشرے کی سب سے بڑی مشکل، نفاق تھاجوان افراد کی مختل کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ان کے اندر سے روح ایمان کو سلب کرکے انہیں اپنی طرف مائل کر لیتاتھا ۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے لیکن قانونی طور پر ان سے پیش آنامشکل تھا ۔

یہ گروہ بعثت کی ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مو جودتھا اور بعض تو ابتدا ہی سے منا فقانہ نیت سے مسلمان ہو ئے تھے ،لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔جیسے جیسے اسلام کی قوت بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے منا فقین بھی اپنے کو منظم کر تے جا رہے تھے اور اسلام کی ظاہر ی عبا زیب تن کئے ہو ئے اسلام کے نئے پودے پر کفار و مشرکین سے بھی زیادہ مہلک وار کر تے تھے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخر ی سالوں میں منا فقین عملی طور پر میدان میں آگئے تھے ،وہ مٹینگیں کیا کر تے تھے ،اسلام اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف سا زش کر تے اور ماحول خراب کیا کر تے تھے جس کی بہترین گواہ قرآن کریم کی آیات ہیں ۔ اگر ہم قرآن کر یم کی آیات کے نا زل ہو نے کی تر تیب کا جا ئزہ لیں تو منا فقین سے متعلق اکثرآیات پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سالو ں میں نا زل ہو ئی ہیں ۔( ۷ )

منافقین ظا ہر ی طور پرتو مسلمان تھے لیکن با طنی طور پر کفر والحاد اور شرک کی طرف ما ئل تھے ان کے دل میں یہ آرزو تھی کہ دین اسلام کو ہر اعتبار سے نقصان پہنچا یا جا ئے اورکسی طرح اپنی پرانی حا لت پرپلٹ جا ئےں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جا نتے تھے کہ ہم اس ہدف کو آسانی سے نہیں حا صل کر سکتے اور کم سے کم پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں تو ایسا ہو نا نا ممکن ہے ۔لہٰذا انھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا ۔

انھوں نے حجةالوداع کے سال میں اپنے درمیان کئی عہد نا موں پر دستخط کئے تھے اور ان میں اسلام کے خلاف کئی دقیق اور پیچیدہ سازشیں تیارکی تھیں ۔( ۸ )

غدیر ،سازشوں کی ناکامی کی بنیاد

جو چیزاس ماحول میں منا فقو ں کی سازشوں کو بالکل نیست و نا بود ،اسلام کواس کی اصلیت اور حقیقت کے ساتھ محفوظ رکھ سکتی تھی وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کے جا نشین کااعلان تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی ہر منا سب مو قع پراس کا اعلان فر ما یا تھا یھاں تک کہ متعدد مر تبہ سند کے طور پرمعاشرہ کی پشت پناھی کے ساتھ بیان فرمایا ،یھاں تک کہ ایک روز امیر المو منینعليه‌السلام کو بلایا اسکے بعد اپنے خادم کو حکم فرما یا کہ قریش کے سو افراد ،دیگرعربوں سے اسّی افراد عجم سے ساٹھ افراد اور حبشہ کے چالیس افراد جمع کریں جب یہ افراد جمع ہو گئے تو آپ نے ایک کاغذ لا نے کا حکم دیا ۔

اس کے بعد سب کو ایک دو سرے کے پہلو میں نماز کی طرح صف میں کھڑے ہو نے کا حکم دیا اور فر مایا: ”ایھا الناس ، کیا تم اس بات کو تسلیم کر تے ہو کہ خداوند عالم میرا ما لک ہے اور مجھ کو امر اور نھی کر تا ہے اور میںخدا وند عالم کے قو ل کے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں رکھتا“؟

انھو ں نے کہا :ھاں ، یا رسول اللہ ۔آپ نے فر مایا :کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیا دہ حا کم نہیں ہوں ، تم کو امر و نھی کرتاہوں اور تم کو میرے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : ھاں ،یا رسول اللہ ۔

فرمایا :جس شخص کا خداوند عالم اور میں صاحب اختیار ہوں یہ علی بھی اس کے صاحب اختیار ہیں یہ تم کو امر و نھی کر نے کا حق رکھتے ہیں اور تمہیں ان کو امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ۔خدایا علیعليه‌السلام کے دوست کو دوست رکھ اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دے ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر،جو اس کو ذلیل و رسوا کر ے تو اُس کو ذلیل و رسوا کر۔ خدایا تو اس بات کا شاہد ہے کہ میں نے تبلیغ کی اور ان تک پیغام پہونچا دیا اور ان کے سلسلہ میں پریشان رہا۔

اس کے بعد اس کاغذ(جس میں یہ مطالب تحریر تھے )کو ان افراد کے سا منے تین مر تبہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد تین مر تبہ فر مایا :تم میں کون شخص اس عہد سے پھرجائے گا؟انھوں نے تین مرتبہ کہا : ہم خدا اور اس کے رسول کی پناہ چا ہتے ہیں اگر ہم اپنے عہد سے پھریں۔

اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کاغذکو لپیٹا اور اس پر مجمع میں موجودسب افراد کے دستخط کرائے اور فرمایا: اے علیعليه‌السلام اس نوشتہ (تحریر ) کو اپنے پاس رکھو،اور اگر ان میں سے کسی نے عہد شکنی کی تو یہ تحریر اس کو پڑھ کر سنا ناتا کہ میں قیامت میں اس کے خلاف مبغوض رہوں ۔( ۹ )

ان تمام اقدامات کے با وجود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علیعليه‌السلام کو قا نونی طور پر اپناجانشین و خلیفہ معین فر ما نے کےلئے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایا م میں زمان ،مکان اور تا ریخ کے اس عظیم جم غفیر کے منتظر تھے منافقین کو بھی اس چیز کا خطرہ تھا اور متعدد طریقو ں سے اس اعلان میں رو ڑے اٹکا رہے تھے ۔

قانونی طور پر زمان و مکان کے اعتبار سے اعلان کر نے کا سب سے بہترین مو قع ’غدیر خم“تھا جس نے منافقین کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا، ان کی کئی سالو ں سے چلی آرھی سازشوں کوچکنا چور کر دیااور ان کے شیطانی منصوبوں پرپانی پھیر دیا ۔( ۱۰ )

حضرت فا طمہ زھراءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سلسلہ میں فر ما تی ہیں :

”وَ اللهِ لَقَدْ عَقَدَ لَهُ یَوْ مَئِذٍ الْوِلَا ءَ لِیَقْطَعَ مِنْکُمْ بِذلِکَ الرَّجَا ءَ “ ( ۱۱ )

”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر کے دن عقد ولایت کو حضرت علیعليه‌السلام کےلئے محکم و استوار فرما یا تا کہ اس طرح تمھا ری آرزوئیں اس سے منقطع ہو جا ئیں “

غدیر عرصہ دراز کےلئے اتمام حجت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دین اسلام کے قیامت تک باقی رہنے اور پوری دنیا میںمسلمانوں کے پھیل جا نے کے بعدقیا مت تک باقی رہنے والے اپنے جانشینوں (یعنی بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام)کا اپنے ایک خطبہ میں تعارف کرا یا ۔

اس لئے اگر اس دن اکثر مسلمانوں نے اپنے ھمدرد پیغمبرکے کلام کوتسلیم نہ کیاا ور امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کو قبول نہیں کیا لیکن مسلمانوں کی بعد میں آنے والی نسلوںکے اکثر افرادنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی کی معرفت حا صل کرلی ۔یھی غدیر کا سب سے اہم اور بنیادی ہدف تھا ۔

اگر چہ منا فقین نے اپنے ارادوں کو عملی جا مہ پہنایا لیکن یہ غدیر کا ہی نور ہے کہ جس نے چودہ صدیا ں گذر جانے کے با وجود دنیا کی اس وسیع و عریض زمین پر تاریخ کے ہر دورمیں کروڑوں شیعوں اور اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والوں کوباقی رکھا اور اسی طرح نور ولایت کودنیا کے مختلف مقامات پر روشن اورتابناک محفوظ رکھا ہے ۔

اسی طرح اگر عر صہ دراز تک مسلمانو ں کے گروہ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جا نشینوں کے سا منے سر تسلیم خم نہ کیا اور نہیں کر تے ہیں لیکن شیعوں کی یہ بہت بڑی تعداد فقط علی بن ابی طالبعليه‌السلام اور ان کی نسل سے گیارہ فرزندوں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جا نشین سمجھتی ہے ۔

اس مقدمہ سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ خطبہ غدیر کچھ محدود گروہ اور خاص زمانہ کےلئے نہیں بیان کیا گیا تھا ،بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود یہ ارشاد فر مایا کہ حا ضرین غائبین کو ،شھر میں رہنے والے گاوں میں رہنے والوں کو اورباپ اپنی اولاد کوقیامت تک یہ خبر پہنچا تے رہیں اور سب اس پیغام کو پہنچا نے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں ۔( ۱۲ )

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کر دی ،تو اب یہ صرف لو گو ں کے اوپر ہے کہ وہ چا ہے جنت کو اختیار کر یں یا جہنم کو ،اور ان کا ولایت علیعليه‌السلام کو قبول کر نا یا قبول نہ کرنا ایک الٰہی امتحان ہے ۔

اس سلسلہ میں امام علی رضا علیہ السلام فر ما تے ہیں :

(مَثَلُ الْمُومِنِیْنَ فِیْ قَبُوْلِهِمْ وِلَاءَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلّا مُ فِیْ یَوْمِ غَدِیْرِخُمٍّ کَمَثَلِ الْمَلَا ئِکَةِ فِیْ سُجُوْدِهِمْ لِآدَمَ،وَمَثَلُ مَنْ اَبیٰ وِلَایَةَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ مَثَلُ اِبْلِیْسَ )

”غدیر خم کے دن حضرت علیعليه‌السلام کی ولایت کو قبول کر نیوالے مو منین کی مثال حضرت آدم کو سجدہ کر نےوالے ملا ئکہ جیسی ہے ،اور ولایت امیر المو منینعليه‌السلام کا انکار کرنے والوں کی مثال ابلیس جیسی ہے ‘( ۱۳ )

اس مختصر سی بحث سے اسلامی معا شرے پر حکم فرما فضااور وہ حالات جن میں واقعہ غدیررونما ہوا اور وہ اھداف و مقاصدجوغدیرکے مد نظر تھے واضح ہو جا تے ہیں ۔

۲. خطبہ غدیر کی اہمیت کے پھلو

پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ہے جو اتنے تفصیلی مقد مات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان ہو ا ہے دیگر تمام احکام الٰہی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان ہو تے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جا تی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلا م کا یہ الٰہی حکم دوسرے تمام الٰہی احکام سے ممتاز اور اہم ہے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فر ما تے ہیں :

لَمْ یُنَادِبِشَيء مِثْلَ مَانُوْدِیَ بِالْوِلَایَةِ یَوْمَ الْغَدِیْر

”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نہیں ہوا “

ہم ذیل میں فھر ست وار خطبہ غدیر کی اہمیت کے اسباب بیان کر رہے ہیں :

جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میں اس مقام سے پہلے ہے جھاں سے تمام راستے الگ الگ ہوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے ۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنااور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اوریہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔

خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حا جیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعداور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے نزدیک ہو نے کااعلان اس لئے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فر ما گئے ۔

خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نا زل ہوا ہے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ہی انجام نہیں دیا “یعنی فرامین الٰہی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نہیں ہوا ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کاقطعی فیصلہ ، اس حکم الٰہی کو پہنچا نے کی خصوصیات میں سے ہے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ ہو ئے ۔

خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ہے اور احکام الٰہی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نہیں دی گئی ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔

اس دستور الٰہی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰہی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانانا ممکن ہو گیا تھا۔

مسئلہ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ہی خطبہ کی صورت میں نہیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفر مان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عہد کے ذریعہ سے عمل میںآیا ۔

وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کوبیان کر تے وقت خطبہ میںذکرکئے گئے ہیں ۔

خطبہ سے پہلے اور بعد واقع ہو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اہمیت پر دلالت کر تے ہیں ۔

خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نہیں فر مایا گیا ۔

ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمو منین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر میں کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نہیں چھو ڑا “(۱۴) نیز علماء کا ائمہ ہدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کر نا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ہے ۔

تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کر نے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جا ناجو روایات ولایت میں ممتاز اوربے مثال ہے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ہیں اور تمام مسلمان چا ہے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے ہوں اس حدیث کے صحیح ہو نے کااعتراف کرتے ہیں

خطبہ غدیر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند و بالا مقاصد

۱ ۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کانتیجہ اخذکرنے کےلئے اپنا جا نشین معین کر نا جس کے ذریعہ اس راہ کوبرقرار رکہے گا۔

۲ ۔اسلام کو کفار و منافقین سے ہمیشہ کےلئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جا نشینوں کا معین فر مانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔

۳ ۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ہمیشہ رائج رھاہے اور تاریخ میںبطورسندثابت ہے ۔

۴ ۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔

۵ ۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔

۶ ۔لوگوں پر حجت تمام کرناجو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اہل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوںاور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اہمیت کا بہترین گواہ ہے ۔

____________________

[۱] بحا ر الانوار جلد :۱۸،۱۹،۲۰۔

[۲] بحا ر الانوار جلد :۱۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۲۴۳ ، جلد ۱۹ صفحہ ۱۔۲۷۔

[۳] بحا ر الانوار جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۴ ۔۱۳۳ ، جلد ۲۰ ،جلد ۲۱ صفحہ ۱ ۔۹۰۔

[۴] بحا ر الانوار :جلد۲۱ صفحہ ۹۱۔۱۸۵۔

[۵] بحا ر الانوار :جلد ۲۱ صفحہ ۱۸۵۔۳۷۸۔

[۶] بحا رالانوار :جلد ۲۲۔اسی طرح منا فقین سے متعلق آیات ،قرآن کریم میں ملا حظہ فر ما ئیں ۔

[۷] اس سلسلہ میں سورہ آل عمران ،نساء ،ما ئدہ، انفال ، تو بہ، عنکبوت ، احزاب ،محمد ، فتح ، مجا دلہ، حدید ، منافقین و حشر میں رجوع کریں۔

[۸] منافقوں کی سازشوں کی تفصیل اس کتاب کے تیسرے حصہ میں بیان کی جا ئے گی ۔

[۹] فیض الغدیر :صفحہ ۳۹۴۔

[۱۰] اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصہ میں رجوع فر ما ئیں ۔

[۱۱] عوالم : جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۸۔

[۱۲] اس سلسلہ میں خطبہ غدیر کے گیا رہویں حصہ میں رجوع کیجئے ۔

[۱۳] عوالم : جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴ ۔

[۱۴] بحا ر الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶۔عوالم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۹۔


4

5

6

7

8

9

10

11