خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض0%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف: غلام مرتضیٰ انصاری
زمرہ جات:

مشاہدے: 15651
ڈاؤنلوڈ: 3006

تبصرے:

خاندان کےاخلا ق و فرائض
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15651 / ڈاؤنلوڈ: 3006
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

تیسری فصل

خواتین کے حقوق

قرآن مجید نے مرد وعورت کو ابتدای خلقت سے لیکر بہشت میں سکونت اختیار کرنے تک برابر اور یکسان قرار دیا ہے۔ اور مؤمنہ عورتوں کو عالم بشریت کیلئے بعنوان نمونہ پیش کیا ہے: حضرت آسیہ (زن فرعون) اور حضرت مریم کو تمام مؤمنین کیلئے نمونہ قرار دیا ۔ قرآن نے رحمت ،مودت اور محبت کو زوجیت کا فلسفہ قرار دیاہے اور والدین کیساتھ احسان کرنے کو خدا کی عبادت کرنے کے باربر سمجھا ہے۔ اجتماعی امور میں بھی عورتوں کی مشارکت کو یاد کرتے ہوئے ملکۂ سباکا عاقلانہ فیصلہ اور حضرت شعیب A کی بیٹیوں کی کہانی کو بیان کیا ہے۔ جس میں ان کی شرم وحیا کو ان کی نیک رفتار و کردار کی نشانی کے طور پر دنیا کیلئے پیش کیا ہے۔

اجتماعی حقوق

اسلام نے خواتین کو مکمل طور پر اپنا حقوق دیا ہے جیسے حق حیات،حق تعلیم وتعلم،حق مالکیت،حق آزادی، حق انتخاب، حق معاملہ وتجارت،حق تصرف،حق نفقہ ،حق ارث ومہریہ و...اسلام نے مردوں سے زیادہ خواتین کے حقوق کا انتظام کیا ہے ۔

عورتوں کے حقوق اورامام خمینی R

اسلامی جمہوری ایران کے قانون اساسی میں عورت کے حقوق کو یوں مشخص کیا گیا ہے:

عورتوں کے مادی اور معنوی حقوق کا احیاء اور ان کی شخصیت کو رشدونکھار پیدا کرنے کیلئے مناسب زمینہ فراہم کرنا۔

ماؤں کی حمایت ،خصوصاً حاملگی اور بچوں کی حضانت کے دوران ان کا خاص خیال رکھنا۔ اور بچوں کی سرپرستی کے حوالے سے مشکلات کا دفع کرنا۔

خاندان کی بقا کیلئے صالح عدالت گاہ کا انعقاد کرنا۔

بیواؤں اور عمر رسیدہ عورتوں اور بے سرہرستوں کیلئے انشورنس کا قیام۔

امام خمینی(رح)کا امریکی خبر نگار کو انٹرویو

امام خمینی(رح)امریکی لاس انجلس ٹائمزمفسر کو ١٣٥٧ش میں یوں انٹرویو دے رہے ہیں :

س: عورتوں کے اجتماعی مسائل جیسے، یونیورسٹیز میں کام کرنا اورتعلیم حاصل کرنا آپکے نزدیک کیسا ہے؟آپ نے جواب دیا: خواتین ، اسلامی معاشرے میں آزاد ہیں ۔ اور یونیورسٹیز یا دوسرے سرکاری اداروں میں کام کرنے سے کبھی نہیں روکا جاسکتاہے ، جس چیز سے روکا جاسکتا ہے وہ اخلاقی مفاسد ہیں جو مرد اور عورت دونوں پر حرام ہے-(۱)

متخصص عورت اور واجب کفائی

اسلام نے نہ صرف عورتوں کو کام کرنے سے نہیں روکا بلکہ بعض مقام پر ان کی موجودگی کو واجب کفائی قراردیا ہے۔ جیسے ڈاکٹرنی اور جراح عورت کا ہسپتال میں ہونا ، اسی طرح استانی کا بچیوں کے سکول میں ہونا، خواتین کیلئے درزی عورت کا ہونا یا ایسے موارد جہاں خود عورتوں کے ساتھ لین دین ہو، وہاں خواتین کی فعلیت اور موجودگی کو اسلام واجب کفائی سمجھتا ہے۔

خواتین کے فرہنگی حقوق

فرہنگ اسلام میں جیسے تعلیم وتربیت ، ہنر وغیرہ کے حصول میں بھی خواتین کو آزادی دی گئی ہے۔ خصوصاًتعلیم وتربیت کے میدان میں تو اسلام نے اسی صراحت کیساتھ عورتوں پر تعلیم واجب قرار دیا ہے جس طرح مردوں پر ۔قال۷: طلب العلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة -(۲)

اسلام نے اس مسئلہ پر اس قدر زور دیا ہے کہ شوہربھی بیوی کو تعلیم وتعلم سے نہیں روک سکتا اگرچہ دوسرے موارد میں شوہر کی اجازت کے بغیر وہ گھر سے وہ گھر سے نہیں نکل سکتی۔ چناچہ فقہاء نے بھی فتوے دئے ہیں:یحرم علی الزوج منع الزوجة من الخروج للتعلم ۔ –(۳) حرام ہے مرد پر کہ وہ بیوی کو علم سیکھنے کیلئے گھرسے باہر جانے نہ دے۔

خواتین کے سیاسی حقوق

اسلام نے مرد وعورت دونوں کو ان کے جو مشترکہ سیاسی حقوق دلایا ہے ،ان میں سے کچھ حقوق یہ ہیں:حق بیعت، حق انتخاب، حق شراکت ، حق رائی دہی ، حق دفاع وغیرہ۔

حق بیعت

اسلام نے چودہ سو سال پہلے خواتین کی سیاسی مسئولیت اور استقلال کا اعلان کیا ہے۔

اور اجازت دی ہے کہ اپنی تقدیر بدلنے ،ملکی سالمیت کو معین کرنے ،رہبریت کا انتخاب کرنے کیلئے پیامبر اسلام (ص)کی بیعت کرے۔ اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ابتداے اسلام میں خواتین نے پیامبر اسلام (ص)کے ہاتھوں بیعت کی ہیں۔ چنانچہ قرآن فرمارہاہے :( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )(۴)

پیمبر اگرایمان لانے والی عورتین آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی۔ اور چوری نہیں کریں گی۔ زنا نہیں کریں گی۔ اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لے کر نہیں آئیں گی۔ اور کسی نیکی میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی۔ تو آپ ان سے بیعت کا معاملہ کر لیں اور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خد ابڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔

یعنی پیامبر اسلام (ص) خدا کی طرف سے مأمور تھے کہ مردوں کیساتھ ساتھ عورتوں سے بھی بیعت لے۔

فاطمہ(س) محافظ ولایت

وفات پیامبر گرامی۷کے بعد خلافت علی (ع) کی بیعت لینے میں فاطمہ کی دن رات کوشش اور مہاجرین و انصار کے دروازوں پر حسنین (ع) کے ہاتھوں کوتھام کر جانا آپ کی سیاسی فعالیت کی عکاسی کرتا ہے۔

واقعہ فدک میں آپ کی حق طلبی اور مقام ولایت کی حمایت میں مصیبتیں برداشت کرنا ، یہاں تک کہ آپ کا محسن شہید ہوا اور آپ مجروح ہوگئیں ۔ اور شھادت پاگئیں۔ یہ سب آپ کی سیاسی فعالیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اپنی سیاسی بصیرت اور علم وحکمت کے ذریعے ایک مفصّل خطبہ مسجد نبوی میں ابوبکر و عمر اور دیگر مہاجرین و انصار کی موجودگی میں دینا کہ جس سے مسجد کی در ودیوار بھی ہلنے لگی۔ آپ کی اور دیگر خواتین کی معاشرے میں سیاسی فعالیت کی نشاندہی کرتی ہے۔

اگر مختصر جملے میں کہنا چاہے تو یوں کہہ سکتے ہیں : خلافت و حکومت اسلامی کے مسئلے کو لوگوں کے سامنے ترسیم کرنے والی آپ ہی کی ذات مبارک تھی۔

اسی طرح جنگ صفین ، نہروان اور جمل میں بھی امام حسن اور علی H کی شکل میں آپ کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔

کربلا میں سید شھداء کی شکل میں آپ ہی کا فاتحانہ کردار نظر آتا ہے۔ کوفہ و شام میں دیکھ لو حضرت زینب کی صورت میں آپ کا حکیمانہ نقش نظرآتا ہے۔ حتی خود پیامبر اسلام (ص)کی سیرت میں آپ کا کردار متجلّی ہورہا ہے، پیامبر اسلام (ص) فرماتے ہیں :فاطمة امّ ابیھا۔ ماں سے مراد جنم دینے والی نہیں بلکہ خاندان رسالت کی جڑ،اساس اور محور اصلی فاطمہ(س) کی ذات ہے۔ جب کفار قریش پیامبر اسلام (ص) کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیتے تھے تو آپ کی مغموم اور اداس دل کی تسلی کی خاطر خدا وند متعال نے فاطمہ(س) کی شکل میں کوثر عطا کیا اور آپ ہی کے ذریعے پیامبر اسلام (ص) کی اولاد تا قیامت باقی رہ گئی۔

حدیث کساء میں تو آپ کی محوریت پر چار چاند لگا دیا ہے۔ جب سوال ہو ا : یہ پنجتن کون لوگ ہیں؟ تو جواب آیا :هم فا طمة وابوها وبعلها وبنوها ۔

اسی طرح فاطمہ زہرا (س) کی چاہنے والی خواتین نے بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے ولایت فقیہ کی حکومت کے قیام میں اور اہلبیت اطہار کے فرامین کو معاشرے میں عام کرنے کیلئے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنہوں نے اپنے عزیزوں اور جگر پاروں کو میدان جنگ میں بہیجنے سے کبھی گریز نہیں کیا، کیونکہ انہوں نے درسگاہ حضرتزہرا (س)سے سبق حاصل کی تھی ۔ اور جس نے بھی آپ کی پیروی کی کامیاب ہوا۔

انقلاب اسلامی ایران میں دیکھ، خمینی بت شکن کی شکل میں آپ کا کردار نظر آتا ہے کیونکہ جس نے سب سے پہلے ولایت اور رہبری کی حمایت کی وہ فاطمہ I کی ذات تھی۔ اور خمینی(رح)کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ولایت فقیہ اور اہل بیت کی حکومت قائم ہونا چاہئے اور بفضل الہی قائم ہوکر ہی رہی۔ خدا تعالی اس انقلاب کو انقلاب امام زمان(عج) سے ملا دے اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما اور انہی کی رکاب میں شہادت نصیب فرما ۔آمین۔

اما م خمینی(رح)اور خواتین کے سیاسی مسائل

امام خمینی(رح)فرماتے ہیں: خواتین کو بھی چاہئے کہ ملک کی بنیادی مقدرات اور اپنی تقدیر معین کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلامی قوانین مرد وعورت دونوں کے مفاد میں ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ خواتین بھی انسانیت کے عظیم مقام پر فائزہوں۔ آپ فرماتے ہیں خواتین ہمارے انقلاب اور نہضت کی رہنما ہیں اور ہم ان کے پیچھے پیچھے ہیں۔ اور میں خواتین کی رہبری کو قبول کرتا ہوں-(۵)

مقام معظم رہبری حضرت آیةاللہ خامنہ ای(مدظلہ) فرماتے ہیں : ایرانی قوم اور انقلاب اسلامی کی آزادی وکامیابی میں خواتین کا نمایاںکردار ہے۔ اگر خواتین شریک نہ ہوتیں تو انقلاب اسلامی اس قدر کامیاب نہ ہوتا، یا اصلاً کامیاب نہ ہوتا یا بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا-(۶) ۔

خواتین کے اقتصادی حقوق

اسلام نے جس قدر مردوں کو اپنی دولت اور ثروت میں حق تصرف اور مالک ہونے کی مکمل اجازت دی ہے اسی طرح خواتین کو بھی اجازت دی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں صراحتاً فرمایا ہے:( للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن )(۷) شوہر یا کسی اورکوحق تصرف نہیں اور نہ یہ لوگ عورت کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک سکتے ہیں:( لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ )(۸) کیونکہ ملکیت ایک مستقل حق ہے اور ہرمرد وعورت اپنے اموال پر خودحق تصرف رکھتا ہے۔ عورت بھی مشروع اور جائزتجارت اور کسب وکار میں مردوں کی طرح آزاد ہے۔ حتی بعض شعبوں میں جو ان کی استعداد کیلئے مناسب ہیں۔ اور بہتر شرائط موجود ہیں وہاں ان کا ہونا زیادہ بہتر ہے۔

ملک سازی میں عورتوں کا کردار

امام خمینی R فرماتے ہیں کہ ملک سازی میں ہماری خواتین کا بڑا کردار رہا ہے۔ جب اش ایران کو نکال دیا گیا تو اپنی تقریر میں فرمایا: اے ایران کے خواتین و حضرات!آؤ ہم سب مل کر اس کھنڈر میں تبدیل شدہ ملک کو دوبارہ تعمیر کرتے ہیں۔ جس طرح آپ خواتین ،انقلاب اسلامی میں حصہ دار تہیں اسی طرح اس خرابہ کی تعمیر میں بھی حصہ دار بنیں اور مردوں کا ہاتھ بٹائیں-(۹)

حق ارث

خواتین کی اقتصادی اور مالی حقوق میں سے ایک ، حق ارث ہے کہ ظہور اسلام سےقبل دینا کے اکثر ممالک میں عورت اس حق سے محروم تھی ۔ حتی عرب جاہلیت میں تو انہیں ارث کے طورپر آپس میں تقسیم کیاکرتے تھے، اسلام نے آکر دور جاہلیت کی ان غلط رسومات کو توڑ کر انہیں باقاعدہ وارث متعارف کرایا ۔ چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:( لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ) (۱۰)

اور جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت ، عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے۔لیکن بعض اسلام دشمن عناصر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو مرد کی نسبت کم ارث دیتا ہے۔ اور یہ اسلام ہے جس نے مرد اور عورتوں کے حقوق میں مساوات اور برابری کو نظراندازکیا ہے۔ تو ہم جواب دینگے کہ انہوں نے صرف ایک زاویہ سے نگاہ کی ہے۔ اگردوسرے نکتہ نگاہ سے بھی دیکھتے تو وہ خود سمجھ جاتے کہ خواتین کا جو حصہ نسبتاً مردوں سے کم ہے پھر بھی زیادہ ہے۔! کس طرح؟! کیونکہ مرد کو جو ارث ملتا ہے وہ خود بیوی بچوں پر خرچ کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ لیکن جو ارث عورت کو ملتا ہے وہ خرچ کرنے کیلئے نہیں بلکہ جمع کرنے کیلئے ہے ۔ کیونکہ اسلام نے ان کا نان و نفقہ مردوں کے ذمہ لگا دیا ہے۔دوسرے الفاظ میں عورتوں کو جو ارث ملتا ہے وہ ان کا جیب خرچ ہے ۔ اب اعتراض کرنے والے خود بتائیں کہ کس کا حق اور حصہ زیادہ ہے۔

____________________

۱ ۔ صحیفہ نور،ج٤،ص٣٩۔

۲ ۔ محجة البیضائ،ج١،ص١٨۔

۳ ۔ جواہر الکلام،کتاب النکاح۔

۴ ۔ الممتحنہ ۱۲۔

۵ ۔ صحیفہ نور،ج٦،ص٨٥۔

۶ ۔ روزنامہ قدس، ٢٧ شھریور ١٣٧١ش۔

۷ ۔ نساء ۳۱۔

۸ ۔ بقرہ ۲۸۶۔

۹ ۔ صحیفہ نور،ج ١١،٢٥٤۔

۱۰ ۔ نساء ۷۔

چوتھی فصل

اسلام کی نگاہ میں خواتین کی آزادی

جب عورت قبیلہ کے سردار ،باپ،بھائی یا دوسرے لوگوں کی ظالمانہ ارادہ کے ما تحت ہوتی تھی اور ہر قسم کے حقوق سے بھی محروم تھی، اسلام نے اسے آزادی جیسی نعمت عطا کی ۔ اس طرح ہمسر کا انتخاب کرنے ، اپنے مال ودولت خرچ کرنے ، اور اظہار خیال کرنے میں استقلال اور آزادی عطا کی۔ تاکہ ان کی قدروقیمت پہچان سکے۔

پھر بھی اسلام دشمن عناصر کہتے ہیں: کبھی اسلام نے انھیں مکمل آزادی نہیں دی ہے۔ جیسے شادی کرنے میں باپ یا دادا کی رضایت کو لازمی ٹھہرا کر لڑکیوں کی خودمختاری سلب کی ہے۔ ٹھیک ہے اسلام نے باپ یا دادا کی رضایت کو لازمی ٹھہرا یا لیکن اس کی حکمت عملی اور فلسفہ پر نگاہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں بھی خود لڑکی کے فائدے کا لحاظ رکھا گیاہے۔ کیونکہ لڑکے اور لڑکیاں اپنی جوانی کے دور میں احساسات اور شاعرانہ تخیّلات اور میٹھی خوابوں میں مست رہتے ہیں، انہیں اس دوران ،زندگی کی نشیب وفراز ، تلخ یا مٹھاس کا خاص احساس نہیں ہوتا ۔ احساسات اور جذبات میں آکر انہیں نفع و نقصان ایک ہی نظر آنے لگتا ہے۔ اب اس حالت میں ایک دلسوز، مہربان اور تجربہ کار نگاہ کی ضرورت ہے جو اپنی تجربات کی روشنی میں لڑکی یا لڑکے کی منفعت اور مصلحت کے تحت قدم اٹھائے۔اگرچہ روایات مختلف ہیں : بعض روایات میں باپ یا دادا کی اجازت کو ضروری سمجھا گیا ہے ۔ جیسے: امامصادق (ع)فرماتے ہیں :( لا تزوّج ذوات الآباء من الابکار الّا باذن آبائهن- ) (۱)

امام (ع) نے فرمایا کہ ان باکرہ لڑکیوں سے شادی ان کے آباء و اجداد کی اجازت کے بغیرنہ کرو۔ لیکن بعض روایات اس کے برعکس ہیں: امام صادق(ع) سے ہی مروی ہے:لا بئس بتزویج البکر اذا رضیت من غیراذن ابیها -(۲)

فرمایا: باکرہ لڑکیوں سے ان کے آباء واجداد کی اجازت بغیر شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

ان دونوں روایات کو اگر جمع کریں تو باپ کی رضایت اور موافقت کو لڑکے یا لڑکی کی رضایت کیساتھ منضم کرکے عقد برقرار کرسکتا ہے۔

ایک تیسری روایت میں ایک شخص نے امام A سے اپنی بیٹی کی شادی کے بارے میں سوال کیا تو امام A نے جواب دیا :افعل و یکون ذالک برضاها فانّ لها فی نفسها نصیباً و حظاً -(۳)

فرمایا :تو اسی شخص کو اپنی بیٹی کیلئے انتخاب کر جسے تیری لڑکی پسند کرے،اور لڑکی کی مرضی کے خلاف دوسرے کی زوجیت میں نہ دو۔

ان فرامیں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں عورتوں پر کوئی جبر اور قید و بند نہیں بلکہ دین مقدس اسلام نے ان کی مرضی کو ہرچیز پر مقدّم رکھتے ہوئے انھیں مکمل آزادی عطا کی ہے۔

مسلمان خواتین کی آزادی سے کیا مراد ؟

اسلام میں عورت کی آزادی اور حریت کے پیش نظر اسلامی ممالک میں خواتین کا ، آزادی کا نعرہ بلند کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم ان خواتین سے سوال کرتے ہیں کہ : کس حق کے حصول کیلئے نعرہ بلند کرتی ہوجو تم سے چھین چکا ہے؟ کونسی مشکلات ہے جسے اسلام نے حل نہیں کئے ہوں؟

اگر مسلمان عورتوں کا مقصد یہ ہو کہ انھیں شریک حیات کا انتخاب کا حق نہیں ملا ہے تو اسلام نے ابتداء ہی سے یہ حق عطا کیاہے ۔چنانچہ حضرت خدیجہ I کی سوانح حیات کا مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے شریک حیات انتخاب کرنے کا حق بھی دیا گیا اور اپنے اموال میں پورا پورا تصرف کرنے کا حق بھی۔ آپ اسلام میں پہلی خاتون ہے جس نے اپنے رشتے کیلئے پیغام بھیجا۔ اگر مسلمان عورتوں کا مقصد حق طلب العلم فریضة علی کلّ مسلم ومسلمة تعلیم و تعلّم کا مطالبہ ہے تو اسلام نے نہ صرف یہ حق انھیں عطا کیا ہے بلکہ ، کہہ کر ان پر بھی واجب قرار دیا ہے۔

اگر مسلمان عورتوں کا مقصد قانون اسلامی میں مرد و عورت میں برابری ہے تو اسلام نے یہ حق تمام انسانی گروہوں ،خواہ وہ حبشی ہوں یا قرشی، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ،سب کو برابر اور مساوی دیا ہے۔ اسلام کے اس پیغام کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے:

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایا ز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نوازاور اگر مسلمان خواتین کا غوغا اور شور وشرابہ کرنے کا مقصد ایک آبرو مندانہ زندگی گذارنا ہے جہاں کوئی اجنبی اس کی طمع نہ کرے، اور ایک شرافت مندانہ خاندان کی تشلیکل دینا ہے جو بے بندوبار افراد کی شر سے محفوظ رہے تو اسلام نے بہترین طریقے سے اس ماحول کو عورتوں کیلئے فراہم کیا ہے ،شاید کسی اور مکتب نے فراہم نہیں کیا ہے۔

لیکن اگر ان کا مقصد بے عفّتی ، شہوت رانی ، اخلاقی حدود کو پامال کرنا ،بے پردہ ہو کر گھر سے نکلنا ،محرم نا محرم کی تمیز کئے بغیر لوگوں میں مغربی طرز پر رہن سہن رکھنا ہو اور خاندانی آشیانے کو ویران کرکے نسلوں کو خراب اور بے سرپرست قراردینا ہے تو ہم قبول کرتے ہیں کہ اسلام نے ایسی آزادی عورت کو نہیں دی ہے۔یہ آزادی تو اسلام میں مردوں کیلئے بھی نہیں دی گئی ۔

اس قسم کی ننگین آزادی کے حصول کیلئے پارلیمنٹ ۔ اسمبلی اور دوسرے سرکاری ادارے بنانے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ کافی ہے کہ شرم وحیا کے پردے کو اتار پھینک دیں تاکہ مکمل طور پر بدن برہنہ اور عریان ہو جائے ۔ بجائے اس کے کہ ابھی سینہ اور ٹانگین عریان ہے، اور اس طرح بجای اس کے کہ رات کی تاریکی میں نامحرموں کے ساتھ رقص اور جنسی خواہشات پوری کرے، علنی طور پر دن کو ایسا کرے!!!(۴)

امام خمینی(رح)اور یوم خواتین

اس دن کی مناسبت سے ٢٦ .٢ ١٣٥٨ش کو خواتین کو اپنے پیغام میں یوں مخاطب ہوا :افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کی خواتین تاریخ بشریت میں دو مرحلے میں مظلوم واقع ہوئی ہیں:

١. دور جاہلیت میں کہ جس کی تفصیل گذر گئی۔ اور اسلام نے ان پر بڑا احسان کرکے انہیں اس مظلومیت سے نکالا، کہ جہاں عورت حیوان بلکہ اس سے بھی پست تر سمجھتی جاتی تھی۔

٢. شاہ سابق رضا شاہ اور ان کے بیٹے کے دورن ایران میں عورت مظلوم واقع ہوئی۔اس نعرے کیساتھ کہ عورت کو آزادی دلائیں گے، بڑا ظلم کیا۔عورت کو اپنی شرافت اور عزت والی حیثیت سے گرایا ۔ اور ان کی آزادی اور مقام کو آزادی ہی کے نام سے ان سے سلب کیا۔ جوان لڑکے اور لڑکیوں کو فاسد کیا۔ اور عورت کو ایک کھلونا بنایا درحالیکہ عورت شائستہ اور برجستہ افراد کی مربّی ہوا کرتی ہے۔ کسی بھی ملک کی سعادت یا شقاوت عورت ہی کے وجود سے وابستہ ہے۔ ان باپ بیٹے (شاہ سابق ولاحق) نے خصوصاً بیٹے نے جس قدر خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اس قدر مردوں پر نہیں توڑے۔ جوانوں کیلئے فحشاء اور منکرات کے مراکز بنائے گئے۔ آزادی اور تمدن کے نام سے مرد و عورت کی آزادی کو ان سے چھین لیا گیا-(۵)

ہمیں چاہئے کہ اسلام کے حقیقی احکام کو بیان کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق اور مقامات عوام تک پہنچائیں اور مختلف شخصیات کی غیر اسلامی نظریے اور افکار کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ مسئلہ بہت ہی پیچیدہ ہے اگر تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے خواتین پر دو طریقوں سے ظلم ہوا ہے:

١. قدرت مند افراد کی طرفسے ، کیونکہ ہر لحاظ سے جامعہ میں کچھ لوگ قوی تر ہوا کرتے ہیں یہ لوگ اپنی خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کے خاطر معاشرے میں موجود خواتین کی طرف دستدرازی کرتے ہیں، اس لحاظ سے معاشرہ مغربی ہونے یا مشرقی ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی معاشروں میں بھی ایسی ہی وضعیت پائی جاتی ہے۔

٢. عورت کو مال و دولت کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ تفصیلی گفتگو گذر گئی ۔ آج بھی عورت کے حقوق کا دفاع کے نام پر پہلے سے زیادہ ان پر ظلم ہورہا ہے۔ یورپی ممالک میں جو عورت کے حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں اور ان کیلئے قانون وضع کرتے ہیں ۔تو یہ سب کچھ اسلئے ہے کہ عورت کو کا رخا نو ں ، ملوں اور دفتروں میں ملازمت دے کر بد اخلا قی کی جڑوں کو پہلایا جا ئے۔ اور آذاد ی کا مطلب اس طرح ذہن نشین کر ایا جائے کہ زیا دہ سے زیا دہ سے عو رت اپنی جسما نی نمائش کریں۔ اس کا منہ بولتا ثبو ت آپ کوہر سال مغر بی حتیٰ مشر قی دنیا نیں بھی خو بصورتی کے مقا بلے کی شکل میں ملے گا کہ کو نسی عور ت زیادہ خوبصورت ہے تاکہ دنیا میں سب سے خو بصور ت خا تو ںکہلا سکے۔ اس طرح آزاد ی کے نام سے نا مشروع اور نا جائز طر یقے سے عورتوں اور مرد وں کے درمیان زیادہ سے زیا دہ تعلقات پید ا کرنے کیلئے زمینہ فراہم کرتے ہیں۔جوان لڑکیا ں کا لجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے لئے بوائے فرینڈ انتخاب کرتی ہیں، لڑکی کے والدین بھی اس چیز کو معیوب نہیں سمجھتے ۔ حتی مشاہدہ ہو ا ہے کہ لڑکی اپنے گھر پر اس بوائے فرینڈ کو لیکر آتی ہے اور ماں باپ سے ملاتی ہے اور ماں باپ بھی فاخرانہ انداز میں کہتے ہیں یہ لڑکا ہماری بیٹی کا دوست ہے۔ اور جان لو یہ سب مغربی فرہنگ ہماری طرف منتقل ہوئی ہے۔ ایسے میں ہمیں چاہئے کہ اسلامی افکارلوگوں تک پہنچائے اور بتا دے کہ یہ آزادی نہیں بلکہ نفسانی خواہشات کی غلامی ہے۔ اصل آزادی جو دین مقدس اسلام نے عورتوں کو عطا کی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو ایسے مطلوب مواقع فراہم کیا جائے جہاں پر وہ اپنی پوشیدہ استعداد اور صلاحیتوں کو اجاگر کرسکیں ۔تاکہ وہ لوگ بھی مردوں کی طرح کمال انسانیت کے مقام پر فائز ہو سکیں ۔ اسلام نے جس دن عورتوں کے بارے میں خطاب کیا اور اپنی تعالیم اور مطالب کو دنیا کے سامنے پیش کیا تو عورت کو ان دونوں قسم کے مظالم سے نجات مل گئی۔

اسلام نے اجازت نہیں دی کہ عورت پر ظلم کرے ،حتی اس سے گھریلوکام لے لے یا انہیں برا بلا کہے۔ واقعاً جاہل معاشرے کیلئے یہ بات قابل تعجب ہے کہ کیوں مردوں کو یہ حق حاصل نہیں؟ اسلام نے قطعی طور پر ان ناجائز نظریے کو کہ( عورت کو صرف مردوں کے آرام وسکون کیلئے پیدا کیا ہے) باطل قرار دیا ۔ اور کہا میاں بیوی کے درمیان حقوق دوطرفہ ہیں ۔ جسے باہمی تفاہم اور محبت کیساتھ ادا کریں ۔ اسلام نے میان بیوی کے وظائف کے حدود کو بھی معیں کیا ہے جو کاملاً مرد و عورت کی طبیعت کے مطابق ہے۔

لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب والوں کی غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے ان اسلامی حدود کی رعایت کرنا مسلمان خواتین بھی اپنے لئے ننگ وعار سمجھتی ہیں۔یہاں تک کہ اخباروں ، میگزین اور سنیما گروں اور مجالس ومحافل میں چادر کوکالا کفن کے طور پر تشہیر کرنے لگیں۔ اور بے حجاب اور بے پردہ عورتوں کو متمدن اور ترقی یافتہ سمجھنے لگیں۔ اسی طرح نیم عریانی کو آزادی کا نام دینے لگیں۔ ان کے غلط پروپیگنڈے اس قدر مؤثر تھے کہ عورتیں واقعا حجاب اور چادر کو اپنے لئے اہانت سمجھنے لگیں۔

رہبر معظم (مد ظلہ) اور یوم خواتین

رہبر معظم انقلاب حضرت آیة اللہ العظمی خامنہ ای(مدظلہ العالی)نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے: کہ جب آپ بعنوان صدر بیرون ملک کے دورے پر افریقہ میں پہنچے تو مختلف ممالک کے اخباری نمائندے آپ سے انٹرویو لینے لگے جن میں ایک بے پردہ نوجوان لڑکی بھی تھی اسے کہا گیا کہ دوپٹہ کو صحیح طور پر سر پر رکھیں ۔ یہ بات ان کیلئے بہت گراں گذری ۔ جب مجھ سے خواتین کے بارے میں سوال ہورہاتھا تو یہ خاتون اپنی جہگہ سے اٹھی اور دو سوال کی ۔ اس کے بعد رونا شروع کیا۔ اس کی احساسات کو اس قدر ٹھیس لگی تھی کہ کہنے لگی : کیوں آپ نے حکم دیا کہ دوپٹہ سر پر رکھوں؟یہ عورت اسے حقیقتا اپنے لئے بے عزتی اور اہانت سمجھ بیٹھی تھی۔ واقعا اگریہ ان کیساتھ اہانت تھی تو یہ اس پر ظلم ہوا۔ لیکن یہ دنیا میں رائج غلط فرہنگ ہے جو عورتوں اور مردوں کی ذہنوں پر سوار ہوچکی ہے-(۶)

جبکہ حجاب کو ضروری قرار دینے کا اسلام کا مقصد یہ تھا کہ یہ مسلمان خواتین کی حرمت اور شخصیت کا پاسبان ہے۔ جو اجنبی لوگوں کی مزاحمتوں سے اسے دور رکھتاہے۔ جب اسلام نے عورت کی شخصیت اور حرمت کو گرانبہا گوہر سے تعبیر کیا تو اس کی حفاظت کا انتظام بھی ضروری سمجھا۔ اس لئے عورت کو حجاب میں مستور کیا ۔ کیونکہ تکوینی طور پر عورت میں کشش اور جازبہ پایا جاتاہے۔ اگر حجاب اور پردہ نہ ہوتو طمع کاروں کا شکار بنتی ہے۔ جس طرح بادام اور اخروٹ کے مغز کی حفاظت کیلئے مناسب چھلکے خدا نے خلق کیا اور جواہرات کو سمندر کے تہہ میں رکھا ، اسی طرح عورت کو پردے میں رکھ کر تجا وزگروں سے دور رکھنا مقصود تھا۔

مغربی آزادی کا تلخ تجربہ

آج اس جدید اور متمدن دور میں خواتین پرظلم و ستم بھی جدید طریقے سے ہورہا ہے۔ جھوٹے نعرے اور دہوکہ کے ذریعے ڈیموکریسی اور خواتین کی آزادی وحقوق کے نام پر عورتوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں خصوصاً یورپی ممالک میں عورت کو اپنا سرمایہ اور مال و دولت کی خرید وفروخت کیلئے پبلسٹی کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ سوپر مارکٹوں دفتروں، بینکوں ، دکانوں ، میں عورتوں کو اسی لئے رکھا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں اور خریداروں کو اپنی طرف مائل کرسے۔ اور اسی طرح شہوت رانی ، فحشا اور فلموں میں لا کر زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس طرح خاندان جو ہر انسان کی تشخص برقرار رکھنے کا ایک شرافت مندانہ وسیلہ تھا، درہم برہم کردیا ۔یہاں نمونے کے طور پر کچھ نام نہادترقی یافتہ اور متمدن ممالک کا تذکرہ کریں گے:

روس

اعداد وشمار کے مطابق روس میں پچاس فی صدناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں۔ عورتیں اپنے بچوں سے نفرت کرنے لگتی ہیں۔

١٩٨٠ع کے اعداد وشمار کے مطابق ساٹھ ہزارعورتیں شراب کا نشہ کرتی ہیں۔

١٩٩٠ع کے اعداد وشمار کے مطابق سالانہ تین لاکھ سے پانچ لاکھ خواتین جنسی تجاوزات کا شکار ہوتی ہیں۔

امریکہ

کچھ سال پہلے کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں تین لاکھ لڑکیاں جو اٹھارہ سال سے کم عمر والی ہیں اور ہر تیسری عورت ، تجاوز کا شکار ہوتی ہے۔اور ناجائزجنسی ملاپ کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہزاروں عورتیں اور مرد ہر سال لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔اس کے علاوہ چند سالوں کے دوران اٹھارہ ملین بچے کو سقط کرکے قتل کردئے گئے-(۷)

انگلستان

انگلستان نے اعلان کیا کہ ہر ہفتہ پچاس حاملہ لڑکیاں جو چودہ سال سے کمتر عمر والی ہیں ،حمل گرادیتی ہیں ۔ ایک اعلامیہ کے مطابق ہر تیسری شوہر دار خاتون اجنبی مرد کیساتھ دوستی قائم کی ہوئی ہوتی ہے۔

جاپان

جاپان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو پانچ لاکھ فاحشہ عوروں کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے گزارش دی ہے کہ سالانہ دنیا کی اسّی ملین خواتین نہ چاہتے ہوئے حاملہ ہوتی ہیں-(۸)

تھائلینڈ

ہفتہ وار مجلہ اشپیگل یکم جولائی ١٩٨٥ع میں ایک گزارش دی تھی کہ جس کے مطابق دلالوں کے ذریعے تھائلینڈ کی فقیر دیہاتوں سے دوشیزہ جوان لڑکیوں کی ظاہرا خدمت گزاری کیلئے لیکن درحقیقت فاحشہ گری کیلئے ایک ہزار مارک میں فروخت ہوتی ہیں ۔ جو بنکاک اور ہانکونگ،جاپان اور جرمن کے نائٹ کلب میں لائی جاتی ہیں ۔ بنکاک پولیس کے ایک اعداد وشمار کے مطابق تھائلینڈ سے سولہ ہزار عورتیں اور لڑکیاں دوسرے ممالک میں صادر ہوتی ہیں۔ان میں سے مغربی جرمنی میں تین ہزار درآمد ہوتی ہیں۔ جہاں پر قانونی طور پر ایجنسیاں پائی جاتی ہیں جن کا کام فاحشہ عورتوں اور لڑکیوں کو ملک میں وارد کرنا ہے۔ بہت سے لوگ ان ایجنسیوں کے ہاں رجوع کرتی ہیں اور لڑکیوں یا عورتوں کو خریدنے کے بعد انہیں بازاروں میں بہیجتے ہیں، تاکہ بدن فروشی کرکے مالک کیلئے پیسہ جمع کرے۔ اور مالک کا اقتصاد بحال ہوجائے۔

مغربی جرمنی

صرف مغربی جرمنی میں دوہزار کمپنیاں موجود ہیں جو عورتوں اور لڑکیوں کو خریداروں کیلئے فراہم کرتی ہیں ۔ اور پانچ ہزار سے بارہ ہزار تک عورتیں اور لڑکیاں تیار رکھتی ہیں۔ ہر مہینہ میں تین ہزار کے قریب عوتوں اور لڑکیوں کا معاملہ ہوتا ہے-(۹)

افسوس کا مقام ہے کہ آج بھی آزادی کے نام سے عورتوں کی یہ درد ناک حالت باقی ہے اور خود عورتیں بھی اسے آزادی سمجھ کر بہت خوش ہیں۔

خدا تعالی سے یہی دعا ہے کہ جناب زینب I کی لٹی ہوئی چادر کا واسطہ ہماری ماں بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی چادر اور پردے کی حفاظت کرنے کی توفیق اور باپ بیٹوں اور بھائیوں کو غیرت ناموس عطا فرما۔

آمین یا ربّ العالمین

____________________

۱ من لایحضرالفقیہ ،ج٣، ص٣٩٥ ۔

۲ ۔ التھذیب،ج٥۔

۳ ۔ ہمان۔

۴ ۔ حقوق زن در اسلام وجہاں ،ص١٦٠ ۔

۵ ۔ فاطمہ گل واژہ آفرینش،ص٦٧۔

۶ ۔ حجاب و آزادی،ص٢٤۔

۷ ۔ اخبار جمہوری اسلامی۔٨.٣.١٣٦٤ ۔

۸ ۔ فقہ و حقوق، ج٣، ص١٨۔

۹ ۔ حجاب و آزادی، ص١٣٧۔