خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض18%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17779 / ڈاؤنلوڈ: 4572
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

بچوں کے درمیان عادلانہ قضاوت

ِ أَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ كَانَا يَكْتُبَانِ فَقَالَ الْحَسَنُ لِلْحُسَيْنِ خَطِّي أَحْسَنُ مِنْ خَطِّكَ وَ قَالَ الْحُسَيْنُ لَا بَلْ خَطِّي أَحْسَنُ مِنْ خَطِّكَ فَقَالَا لِفَاطِمَةَ احْكُمِي بَيْنَنَا فَكَرِهَتْ فَاطِمَةُ أَنْ تُؤْذِيَ أَحَدَهُمَا فَقَالَتْ لَهُمَا سَلَا أَبَاكُمَا فَسَأَلَاهُ فَكَرِهَ أَنْ يُؤْذِيَ أَحَدَهُمَا فَقَالَ سَلَا جَدَّكُمَا رَسُولَ اللَّهِ ص فَقَالَ ص لَا أَحْكُمُ بَيْنَكُمَا حَتَّى أَسْأَلَ جَبْرَئِيلَ فَلَمَّا جَاءَ جَبْرَئِيلُ قَالَ لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ إِسْرَافِيلَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ إِسْرَافِيلُ لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَحْكُمَ بَيْنَهُمَا فَسَأَلَ اللَّهَ تَعَالَى ذَلِكَ فَقَالَ تَعَالَى لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ أُمَّهُمَا فَاطِمَةَ تَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ فَاطِمَةُ أَحْكُمُ [احْكُمْ‏] بَيْنَهُمَا يَا رَبِّ وَ كَانَتْ لَهَا قِلَادَةٌ فَقَالَتْ لَهُمَا أَنَا أَنْثُرُ بَيْنَكُمَا جَوَاهِرَ هَذِهِ الْقِلَادَةِ فَمَنْ أَخَذَ منهما [مِنْهَا] أَكْثَرَ فَخَطُّهُ أَحْسَنُ فَنَثَرَتْهَا وَ كَانَ جَبْرَئِيلُ وَقْتَئِذٍ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ فَأَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ وَ يُنَصِّفَ الْجَوَاهِرَ بَيْنَهُمَا كَيْلَا يَتَأَذَّى أَحَدُهُمَا فَفَعَلَ ذَلِكَ جَبْرَئِيلُ إِكْرَاماً لَهُمَا وَ تَعْظِيماً(۱)

امام حسن اور امام حسین (ع)اپنے بچپن کے دوران اکثر علوم وفنون اور معارف اسلامی میں مسابقہ کرتے تھے ۔ ایک دن دونوں نے خوشخطی کا مقابلہ کیا اور ،پیغمبر۷کے پاس لائے اور کہا :نانا جان ہم دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے؟ فرمایا: عزیزان میں لکھنا تو نہیں جانتا ،میں نے کبھی لکھا بھی نہیں نہ کسی مکتب میں پڑھا ہواہے اسے بابا علی (ع) کے پاس لے جاؤ وہ کاتب وحی بھی ہیں۔ دونوں نے فرمایا آپ کی بات بالکل درست ہیں ۔گئے اور بابا کے سامنے رکھ دئے۔علی (ع)نے فرمایا: دونوں لکھائی اچھی اور خوبصورت ہیں۔ بچوں نے کہا آپ یہ بتائیں کونسی لکھائی بہتر ہے ؟فرمایا اگر آپ دونوں مدرسہ جاتے اور اپنے استاد کو دکھاتے تو اچھا تھا ۔ لیکن آپ دونوں نے خود سیکھے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اپنی ماں کے پاس لے جاؤ جو فیصلہ وہ کرے گی ،ہمارے لئے قبول ہے ۔ حسنین (ع)نے کہا ٹھیک ہے ۔جب اپنی ماں سے اسی طرح سوال کیا تو فرمایا:دونوں کی لکھائی اچھی ہیں۔ ان دونوں خطوں کے درمیان فرق پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ جو چیز نانا اور بابا نے میرے پاس بھیجی ہیں اس میں مجھے زیادہ دقّت کی ضرورت ہے۔حضرتزہرا (س)نے اپنی گردن بند کو کھولا جس میں سات دانے تھے۔ کہا : میں یہ دانے زمین پر گراتی ہوں ،آپ دونوں میں سے جس نے بھی دانے زیادہ اٹھائے اسی کا خط بہتر ہوگا۔ جب گرائی تو دونوں نے ساڑھے تین ساڑھے تین دانے اٹھائے۔ نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئے۔ آخر جواب تو وہی نکلاجو بابا اور نانا نے دئے تھے۔اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا یہ دانہ توڑ دے ۔ تو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑے بلکہ خدا نے دوبرابر کیا۔ اور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے۔

والدین نظم و حقوق کی رعایت کریں

المؤمنین (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیامبر اسلام (ص)میرے گھر پر آرام فرمارہے تھے، امام حسن (ع)نے پانی مانگا ۔ آپ اٹھے اور کچھ دودھ لیکر آئے اور امام حسن (ع)کو پیش کی ،امام حسین (ع)نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کاسہ خود لیکر پینا چاہا ۔ پیامبر اسلام (ص)کے امام حسن کی حمایت کی اور امام حسین کو نہیں دیا۔یہ منظر حضرت زہرا (س) دیکھ رہی تھی ،کہنے لگی: یا رسول اللہ(ص)!کیا حسن سے زیادہ محبت ہے؟تو فرمایا :نہیں بلکہ اس لئے حسن کا دفاع کررہا ہوں کہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا۔میں نے اس کی نوبت کی رعایت کی ہے-(۲)

ایک شخص رسول خدا کی خدمت میں اپنے دو بچوں کیساتھ حاضر ہوا ،ایک بچے کو پیار کیا دوسرے سے کوئی محبت کا اظہار نہیں کیا ۔ تو آپ نے فرمایا: یوں اپنے بچوں میں غیر عادلانہ رفتار نہ کرو،بلکہ ان کے ساتھ اسی طرح مساوات اوربرابری کا رویہ اختیار کرو جس طرح دوسرے تمھارے ساتھ رویہ اختیار کرنا چاہتے ہو(۳)

بچے کو خدا شناسی کا درس دیں

بیٹے کے حقوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :و اما حق ولدک ، فتعلم انه منک، ومضاف الیک فی عاجل الدنیا بخیره و شره؛ وانک مسؤل عما ولیته من حسن الادب و الدلالة علی ربه ، والمعونة علی طاعته فیک و فی نفسه ، فمثاب علی ذالک و معاقب، فاعمل فی امره عمل المتزین بحسن اثره علیه فی عاجل الدنیا المعذر الی ربه فیما بینک وبینه بحسن القیام علیه، والاخذ له منه ولاقوة الا بالله -(۴) یعنی بیٹے کا حق باپ پر یہ ہے کہ اسے اپنی اولاد سمجھے اور اس دنیا میں اس کی نیکی اور بدی کو تیری طرف نسبت دی جائے گی ، اور تو ہی اس کا ولی ہوگا ، اور تم پر لازم ہے کہ اسے با ادب بنائے اسے اصول دین کا سبق سکھائے اور خدا کی اطاعت اور بندگی کی راہ پر لگائے اور اس سلسلے میں ان کی مدد کرے تاکہ خدا کے نزدیک تو سرخ رو ہو سکے اور اجر پا سکے، اگر ان امور میں سستی کی تو عذاب الہی کو اپنے لئے آمادہ کیا ہے ، پس ضروری ہے کہ ان کو کچھ اس طرح تربیت دیں کہ تیرے مرنے کے بعد جب لوگ اسے دیکھے تو تجھے اچھے نام سے یاد کریں ، اور تو بھی خداکے سامنے جواب دہ ہو اور اجر وثواب پا سکے۔

شیخ شوشتری جو اپنے زمانے کے نامور عرفاء میں سے تھے ٨٠ سال کی عمر میں ٢٨٣ھ میں وفات پاچکے ہیں، کہتے ہیں: میں تین سال کا تھا کہ دیکھا میرے ماموں محمد بن سواد رات کے وقت نماز شب میں مصروف ہیں۔ مجھ سے کہا بیٹا کیا اپنےخدا کو یاد نہیں کروگے جس نے تجھے پیدا کیا ہے؟ میں نے کہا: کیسے اسے یاد کروں؟ تو جواب دیا جب سونے کا وقت آئے تو ٣بار دل سے کہو: (خدا میرے ساتھ ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کے حضور میں ہوں )۔ کچھ راتیں گزر گئیں پھر مجھ سے کہا اس جملے کو سوتے وقت ٧ مرتبہ پڑھ لیا کرو۔ میں نے ایساکیا تو اس ذکر کی لذت اور مٹھاس کو میں محسوس کرنے لگا۔ ایک سال کے بعد مجھ سے کہا اسے اپنی پوری زندگی پڑھا کرو۔ یہی ذکر تمھیں دنیا و آخرت دونوں میں سرخ رو کریگا۔ اس طرح میرے پورے وجود میں بچپنے میں ہی خدا پر ایمان مضبوط ہوگیا تھا(۵)

____________________

۱ ۔ بحار الانوار،ج۴۳،ص۳۰۹۔

۲ ۔ ہمان،ج٢٣،ص٢٧٣۔

۳ ۔ بحار،ج٢٣،ص١١٣۔

۴ ۔ حقوق اسلامی،ص ۱۵۶۔

۵ ۔ الگوہائی تربیت کودکان ونوجوانان،ص٤٩۔

کاشف الغط(رح)اور بیٹے کی تربیت

حضرت آیةاللہ شیخ جعفر کاشف الغطاء(رح) اپنے بچے کی تربیت کرنے کیلئے ایک مؤثر طریقہ اپناتے ہیں ، وہ یہ ہے: آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا بھی سحر خیزی اور نماز شب کا عادی ہوجائے۔ اور آخر عمر تک اس عمل کو انجام دیتے رہے۔ ایک رات اذان صبح سے پہلے بیٹے کے بسترے کے قریب آئے اور بالکل آرام سے اسے بیدار کرنے لگا اور کہا عزیزم !اٹھو اور مولا علی (ع)کے حرم مطہر میں شرف یاب ہوجائیں ۔ بیٹے نے کہا بابا آپ جائیں میں بعد میں آوں گا ۔ کہا نہیں بیٹا میں منتظر رہوںگا۔ بیٹا اٹھا اور حرم کی طرف وضو کرکے روانہ ہوئے۔ ایک فقیرحرم مطہر کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا۔

اس وقت آیةاللہ کاشف الغطاء (رح)نے کہا: بیٹا ! یہ شخص کس لئے یہاں کھڑا ہے؟

کہا : بھیک مانگنے کیلئے۔

کہا :اس کو کتنا درہم ملتا ہوگا؟

بیٹا :شاید کچھ رقم ملتا ہوگا اور واپس جاتا ہوگا۔

کیا یقینا اسے دینار ملتا ہوگا؟

بیٹا:البتہ یقینا تو پیش بینی نہیں کرسکتا لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور ملتا ہوگا ۔یا ممکن ہے خالی ہاتھ بھی جاتا ہوگا۔

یہاں جس نکتے کی طرف آپ بچے کو متوجہ کرانا چاہتے تھے ٹھیک اسی جگہ پر آگئے اوراپنے مطلب کیلئے زمینہ فراہم ہوگیااور فرمایا: بیٹا دیکھ یہ گدا گر کمانے کیلئے سویرے سویرے یہاں آتا ہے جبکہ اسے سوفیصد یقین تونہیں پھر بھی اتنی جلدی نیند سے بیدار ہوکر آتا ہے؛ لیکن تمھیں تو اس ثواب پر پورا پورا یقین ہے کہ جو خدا تعالی نے سحر خیزی کیلئے معین کیا ہے اور ائمہ طاہرین کے فرامین پر بھی یقین رکھتے ہو ، پس کیوں سستی کرتے ہو؟!!

اس خوبصورت تمثیل نے اتنا اثر کیا کہ بیٹے نے زندگی کے آخری لمحات تک نماز شب کو ترک نہیں کیا-(۱)

ہمارے لئے بھی یہی درس ملتا ہے کہ اگر چاہتے ہوں کہ ہمارے بچے بھی سحر خیز ہوں تو پہلے ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ(ص)کے پاس ایک ماں اپنے بیٹے کو لے آئی کہ اسے نصیحت کرے کہ وہ خرما نہ کھائے۔ کیونکہ حکیموں نے اس کیلئے منع کیا ہے۔ یا رسول اللہ (ص) اسے نبوت کی مبارک زبان سے سمجھائیں ممکن ہے وہ باز آجائے۔ آپ نے فرمایا:بہت اچھا آج اس کو لیجائیں کل لے آئیں۔ دوسرے دن جب آئی تو بڑی نرمی سے نصیحت کی : بیٹا ماں کی باتوں کو سنا کرو اور کھجور کھانے سے پرہیز کرو تاکہ تمھاری بیماری ٹھیک ہوجائے اور بعد میں تم زیادہ کھجور کھا سکے۔اور زیادہ کھیل کود سکے۔اور خوش وخرم زندگی کرسکے اور تیری ماں بھی تجھ پر راضی ہوسکے۔ بچے نے آپ کی باتوں کو قبول کرلی اور کہا: اب بات سمجھ میں آئی کہ کیوں کھجور نہ کھاؤں۔ اب میں دلیل سمجھ گیا ۔ جب باتیں ختم ہوئیں تو ماں نے تشکر کرنے کے بعدکہا:یا رسول اللہ (ص)یہی باتیں کل بھی تو آپ بتا سکتے تھے ۔ فرمایا : کیونکہ کل میں خود کھجور کھا چکا تھا ۔ اچھی بات اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب خود اس پر عمل کرے(۲)

امام خمینی(رح)اور بچوں کے دینی مسائل

امام خمینی کی بیٹی نقل کرتی ہے کہ امام خمینی(رح)بچوں پر بہت مہربان تھے۔ ہم گھر میں بڑے مہر ومحبت کیساتھ رہتے تھے لیکن ہم جب کوئی خلاف کام کرتے تو سختی سے منع کرتے تھے۔ عملی طور پر ہمیں سمجھایا ہوا تھا کہ کوئی کام ان کے میل یا مرضی کے خلاف نہیں کریں گے۔ ہم بھی فروعی کاموں میں آزاد لیکن اصولی کاموں میں سخت مقید تھے۔ ہم میں سے کسی کی مجال نہیں تھی کہ مخالفت کرے۔ ہمیشہ ہمیں مقید رکھتے تھے کہ کوئی گناہ نہ کریں اورآداب اسلامی کی پابندی کریں۔ اس کے علاوہ ہم جتنا شوروغل مچائیں کچھ نہیں کہتے تھے اور نہ کوئی اعتراض کرتے۔ ہاں اگر کسی پڑوسی کی طرف سے کوئی شکایت آئے تو سختی سے اعتراض کرتے تھے۔ ہم گھر کے صحن میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے۔ نماز کے وقت بھی اگر کھیلتے رہے تو کبھی نہیں کہا ،بچو اذان کا وقت ہوگیا ہے آؤ وضو کریں نماز پڑھیں۔بلکہ خود اذان سے آدھا گھنٹہ پہلے مصلّی پر کھڑے ہو جاتے تھے اورآپ کو دیکھ کر ہم بھی نماز کیلئے تیار ہوجاتے۔اور جب بھی ہمیں کسی کام سے روکتے تھے زندگی بھر میں وہ کام انہیں انجام دیتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھے،حجاب اور پردے کے بارے میں سخت حساس تھے، اور گھر میں کوئی بھی غیر اخلاقی باتیں جیسے غیبت،جھوٹ ،کسی بڑے کی بے احترامی یا کسی مسلمان کی توہین نہیں کرنے دیتے ۔ آپ معتقد تھے کہ بچے آزادانہ کھیل کود کریں۔ فرماتے تھے اگر بچے شرارت نہ کرے تو وہ بیمار ہے اس کی علاج کرنا چاہئے۔

آپ کے بیٹے سید احمد خمینی(رح)سے جب انٹرویو لیا گیا تو فرمایا: میری بیوی گھریلو عادت کے مطابق بچی کو میٹھی نیند سے نماز صبح کیلئے اٹھایا کرتی تھی۔ جب امام خمینی کو یہ معلوم ہواتو پیغام بھیجا کہ : اسلام کی مٹھاس کو بچے کیلئے تلخ نہ کرو۔! یہ باتاس قدر مؤثر تھی کہ میری بیٹی اس دن کے بعد خود تاکید کرتی تھی کہ انھیں نماز صبح کیلئے ضرور جھگایا کریں ۔ اس وقت میں نے لااکراہ فی الدین کو سمجھا(۳)

بچوں کومستحبات پر مجبور نہ کریں

والدین کو چاہئے کہ ان پر سختی نہ کریں اور مستحبات پر مجبور نہ کریں، کیونکہ اس کا نتیجہ منفی ہوگا جیسا کہ اس مسیحی کا قصہ مشہور ہے کہ مسلمان بھائی نے جسے صبح سے لیکر رات تک مسجد میں قید رکھا ،دوسرے دن جب اسے جگانے گیا تو اس نے کہا : بھائی مجھے بال بچے بھی پالنا ہے تواورکسی بے کار آدمی کو تلاش کرو ۔ اس طرح وہ دوبارہ مسیحیت کی طرف چلاگیا۔

ایک جوان کہتا ہے کہ ہمارے والد صاحب ہم تمام بہن بھائیوں کو نماز شب کیلئے جگایا کرتے تھے۔میں بہت چھوٹا تھا نیند سے اٹھنا میرے لئے سخت ہوتاتھا، جب مجھے آواز دیتا تھا، حسن اٹھوتو میں بستر میں لیٹ کر ہی زور سےولا الضالین یا الله اکبر

کہتا تھا(۴)

____________________

۱ ۔ ہمان،ص٢٠٨۔

۲ ۔ ہماں،ص٣١٦۔

۳ ۔ خاطرات فریدہ خانم مصطفوی ،پابہ پای آفتاب،١٠٠۔

۴ ۔ قصص العلما،ص١٨٥۔

بچوں کی تربیت میں معلم کا کردار

ابوسفیان کا بیٹا معاویہ نے ٤١ھ میں مسند خلافت پر آنے کے بعد یہ ٹھان لی کہ علی (ع)کو لوگوں کے سامنے منفورترین آدمی کے طور پر پہچنوائیں ۔ اس مکروہ ہدف کے حصول کیلئے علی (ع)کے دوستوں کو تلوار اور نیزوں کے ذریعے فضائل على (ع)بیان کرنے سے منع کیا گیا، دوسری طرف علی (ع)کے دشمنوں کو بیت المال میں سے جی بھر کے مال وزر دیا گیا تاکہ آپ کے خلاف پیامبر(ص) کی طرف سے احادیث گڑھیں۔ اس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں یہ حکم جاری کردیا گیاکہ نمازجمعہ کے بعد ہر مسجد سے ان پر لعن کیا جائے ۔یہ عملی بھی ہوا اور بچے باتوں باتوں میں آپ پر لعن کرنے لگے۔ عمر عبد العزیز جو اموی خلفاء میں سے ہے،بچپن میں دوسرے بچوں کے ساتھ علی (ع) پر لعن کررہا تھا اس وقت وہاں سے ان کے استاد جو ایک مؤمن اور صالح انسان تھا کا گزر ہوا ۔ وہاں سے توخاموش نکل گئے،لیکن جب مدرسہ کا وقت ہوااور عمر آیا تو استاد نماز میں مشغول ہوا ۔ نماز کو طول دینا شروع کیا ، عمر سمجھ گیا کہ نماز تو صرف بہانہ ہے۔

عمر نے پوچھا :حضرت استاد کیا میں ناراضگی کی علت دریافت کر سکتا ہوں؟

تو استاد نے کہا : بیٹا کیا آج تم نے علی پر لعن کی؟

کہا: ہاں ۔

کب سے تمہیں معلوم ہوا کی اہل بدر پر خدا غضبناک ہوا ہے؟ جبکہ ان پر خدا راضی ہے۔کیا علی اہل بدر میں سے نہیں تھے؟

کہا: کیا بدر اور اہل بدر کیلئے ان کے صالح اعمال کے سوا کوئی اور چیزباعث افتخار ہے؟

عمر نے کہا: میں آپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد زندگی بھر ان پر لعن نہیں کرونگا۔ کئی سال اسی طرح گزرگئے۔ ایک دن ان کے والد جو حاکم مدینہ تھا نماز جمعہ کا خطبہ فصیح وبلیغ انداز میں دیتا تھا۔ لیکن جب علی پر لعن کرنے کا وقت آتا تھا تو اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوجاتی جس سے عمر کو بہت تعجب ہوا۔

کہا بابا جان میں نہیں جانتا کہ کیوں کر آپ کی فصاحت وبلاغت ادھر آکر ماند پڑ جاتی ہے اور زبان بند ہوجاتی ہے؟!

کہا میرے بیٹے؛ اس پر تو متوجہ ہوا؟!

بیٹے نے کہا:جی ہاں۔

باپ نے کہا: میرے بیٹے صرف تمہیں اتنا بتادوں کہ اگر اس مرد الہی (علی (ع)) کے فضائل میں سے جتنا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو پتہ چل جاتے تو یہ سب ان کی اولادوں کے گرویدہ ہوجاتے اور ہمارے پیچھے کوئی نہیں آتے۔

جب عمر بن عبدالعزیز نے یہ سنا تو اپنے استاد کی نصیحت پربھی یقین ہوگیا۔اس وقت اس نے یہ عہد کرلیا کہ اگر کبھی برسر اقتدار آئے تو ضرور اس نازیبا عمل کو روک دوں گا۔

اور جب ٩٩ھ میں یہ برسر اقتدار آیا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ علی پر لعن وشتم کو ممنوع قرار دیا ۔ اس لعن کے بدلے انّ اللہ یأمر بالعدل والاحسان کی تلاوت کرنے کا حکم دیا۔

بچوں کو تعلیم دینے کا ثواب

پیامبر اسلام (ص) نے فرمایا: جب استاد بچے کو تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھواتا ہے تو اس وقت خدا وند اس بچے اور اس کے والدین اور معلّم کو آتش جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتا ہے-(۱)

امام صادق(ع) نے رسولخدا (ص)کے روایت کی ہے: ایک دن حضرت عیسیٰ A ایک قبر کے قریب سے گزرے اس صاحب قبر پر عذاب ہورہا تھا دوسرے سال جب وہاں سے گذرے تو عذاب ٹل چکا تھا۔ سوال کیا پروردگارا کیا

ماجراہے؟وحی آئی اس کے بیٹے نے ایک راستے کی مرمت کی اور ایک یتیم کو پناہ دی، اس نیک عمل کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات دی۔

علم دین سکھانے پرثواب

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین (ع) کے بیٹے کو سورۂ حمد یاد کرایا تو امام نے معلم کی قدر دانی کرتے ہوئے کچھ پیسے اور کپڑے دئے اور اس معلم کے منہ کو جواہر سے بھر دیا ۔ تو وہاں پر موجود لوگوں نے تعجب کیساتھ کہا: اتنا زیادہ انعام؟!تو امام (ع) نے فرمایا : کہاں یہ مالی انعام اس معلم کی عطا کے برابر ہوسکتا ہے؟(۲)

والدین سے زیادہ استاد کا حق

سکندر اپنے استاد کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا ، جب اس سے وجہ پوچھی گءی تو کہا: کیونکہ میرے باپ نے مجھے عالم ملکوت سے زمین پر لایا اور استاد نے زمین سے اٹھا

کرآسمان پر لے گیا-(۳)

امام سجاد(ع) فرماتے ہیں : تیرے استاد کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو اسے بزرگ سمجھے اور مجالس میں اس کا احترام کرے۔ اس کی باتیں غور سے سنے اور ان پر توجہ دے۔ اپنی آواز اس سے بلند نہ کرے اور اگر کوئی شخص اس سے کچھ پوچھے تو تو جواب نہ دے اور لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے دے اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرے اور جب کوئی تیرے سامنے اس کی برائی کرے توتواس کا دفاع کرے ، تو اس کے عیوب پر پردہ ڈالے اور اس کی اچھائیاں ظاہر کرے۔ اس کے دشمنوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کا آغاز نہ کرے۔ اگر تو اس طرح کرے گا تو خدا تعالی کے فرشتے گواہی دینگے کہ تو نے اس جانب توجہ دی ہے اور تو نے علم لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کیلئے نہیں بلکہ خدا کیلئے حاصل کیا ہے۔اور شاگردوں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو یہ جان لے کہ خدا تعالی نے تجھے جو علم بخشا ہے اور اس کی جو راہیں تجھ پر کھولی ہیں اس کے سلسلے میں تجھے ان کا سرپرست قرار دیا ہے ۔لہذا اگر تو انھیں اچھی طرح پڑھائے اور نہ انہیں ڈرائے اور نہ ہی ان پر غضبناک ہو تو خدا تعالی اپنے فضل سے تیرا علم بڑھائے گا اور اگر تو لوگوں کو اپنے علم سے دور رکھے اور جب وہ تجھ سے اس کی خواہش کریں تو انھیں ڈرائے اور ان پر غضبناک ہو تو عین مناسب ہوگا کہ خدا تعالی تجھ سے علم کی روشنی چھین لے اور لوگوں کے دلوں میں تیری حیثیت گھٹادے(۴)

والدین کی ظلم ستانی اور فراری بچّے

یہ ایک ستم رسیدہ بچی کا خط ہے جو اپنے باپ کے ظلم وستم سے دل برداشتہ ہوکر گھر سے فرارہونے سے پہلے لکھا ہے:

بابا یہ اولین اور آخرین خط ہے جسے غور سے پڑھ لو شاید آپ کا ضمیر جو مردہ ہوچکاہے بیدا ر ہوجائے اور سمجھے کہ کس قدر تو خود خواہ اور پست فطرت انسان ہو!بابا میں تجھ سے متنفر ہوں دوبارہ تیرے منحوس چہرے کو نہیں دیکھوں گی،تو اس قابل نہیں کہ تجھے باپ کہہ کر پکاروں۔بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تو باپ ہونے کیلئے کبھی خلق نہیں ہوا۔تو ایک پلید اور کثیف بلا ہو۔ تو نے مجھے بچپن سے لیکر اب تک ساری چیزوں سے محروم رکھا ، میری پیاری ماں کو طلاق دیکر خوشی اور نشاط کا دروازہ مجھ پر بند کردیا۔جبکہ میرے لئے میری ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔ ایک بیٹی کیلئے ماں سے بڑھ کر اور کون دل سوز ہوسکتا ہے؟ میں کبھی بھی اس دن کو فراموش نہیں کروں گی جس دن تو نے میری ماں کو طلاق دی اور انہوں نے مجھے آخرین بار اپنے آغوش میں لے کرگرم آنسؤں سے میرے چہرے کو تر کرکے چلی گئی ۔ اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلی گئی وہ زندہ ہے یا مردہ؟

لیکن اس دن جب تو نے مجھے آواز دی بیٹی میں تیرے لئے خوش خبری لایا ہوں ، کہ میری ماں مر گئی ہے ۔یہ کہہ کر قہقہہ لگانا شروع کیا ۔ اس دن ماں سے ملنے کی امید بالکل ختم ہوگئی ۔ اور جب میں اپنی ماں کی جدائی میں رونے لگی تو تو نے ٹھوکر مجھے ماری اور میں بیہوش ہوگئی اور میں نہ جان سکی کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟!بابا کیا مجھے ماں کی جدائی میں رونے کا بھی حق نہ تھا؟ ارے بابا اب میں وہ نو سالہ نہیں رہی اب میں تیرے اس وحشی رویّے کو برداشت اور تحمل نہیں کرسکتی ۔ یہ رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے ہیں۔ جب کہ تو اور تیری بیوی فلم ہال سے واپس گھر نہیں پہنچے ہیں ۔ کل صبح میں اس جہنم سے ہمیشہ کیلئے نکل جاؤں گی۔ اور دنیا والوں کو بتادوں گی کہ ایسے ظالم ،بے رحم اور سنگدل باپ بھی دنیا میں

موجود ہیں ۔ مگر لوگوں کو یقین نہیں آئے گا-(۵)

____________________

۱ ۔ جامع احادیث شیعہ،ج١٥، ص٩۔

۲ ۔ مستدرک الوسائل،ج١، ص٢٩٠

۳. کشکول شیخ بہائی، ص٢٧۔

۴ ۔ مکارم الاخلاق،ص٤٨٤.

۵ ۔ الگوئی تربیت کودکان و نوجوانان،ص٢٤٨۔

اولاد صالح خدا کی بہترین نعمت

حسن بن سعید کہتاہے کہ خدا نے ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست کو بیٹی عطا کی تو وہ بہت افسردہ حالت میں امامصادق (ع) کی خدمت میں آیا۔ امام (ع) نے فرمایا:کیوں مغموم ہو؟اگر خدا تعالی تجھ پر وحی نازل کرے اور کہے کہ تمہارے بارے میں میں فیصلہ کروں یا تم فیصلہ کروگے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟اس نے عرض کیا: میں کہوں گا بار خدایا! جو تو انتخاب کرے وہی میرے لئے ٹھیک ہے۔امام نے قرآن کی اس آیہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت خضر A کی داستان ذکر ہوئی ہے، کہ حضرت خضر (ع) نے ایک لڑکے کو پکڑ کر مارڈالا جس پر حضرت موسی (ع)کو سخت اعتراض کیا تھا،جس کی علت یوں بتائی :

( فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا )(۱) ۔

"تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی"

خدا تعالی نے اس بیٹے کے بدلے میں انہیں ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے ٧۰ ستّر پیامبران الہی وجود میں آئے-(۲)

دوران جاہلیت میں بچیوں کی ولادت پر ماں باپ بہت مغموم ہوجاتے تھے۔ ایک دن امیر اسحاق بن محمد کو خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹی ہوئی ہے، تو ہو بہت مغموم ہوگیا اور کھانا پینا بھی چھوڑدیا۔ بہلول عاقل نے جب یہ خبر سنی تو کہا : اے امیر! کیا خدا نے سالم اور بے عیب ونقص بیٹی عطا کی اس لئے تم مغموم ہوگئے؟!کیا تیرا دل چاہتا تھا کہ مجھ جیسا ایک پاگل بچہ تجھے عطا ہو؟!

اسحاق بے اختیار اس حکیمانہ باتوں کو سن کر مسکرانے لگا اور خواب غفلت سے بیدار ہوا-(۳)

تحفہ بیٹی کو پہلے دے

رسولخدا (ص)نے فرمایا:جو بھی بازار جائے اور کوئی تحفہ اپنے گھر والوں کیلئے خریدے تو ایسا ہے کہ مستحق افراد میں صدقہ دیا ہو۔ اس تحفہ کو تقسیم کرتے وقت بیٹیوں کو بیٹوں پر مقدم رکھے۔کیونکہ جو بھی اپنی بیٹی کو خوش کرے تو ایسا ہے جیسے اولاد اسماعیل (ع) میں سے ایک غلام آزاد کیا ہو۔ اور اگر بچے کو خوش کیا تو خوف خدا میں گریہ کرنے کا ثواب ہے۔ اور جو بھی خوف خدا میں روئے وہ بہشتی ہے-(۴)

____________________

۱ ۔ الکہف،٨١.۲ ۔ سفینة البحار،ج١،ص١٠٨ ۳ ۔ مجموعہ قصص و حکایات بہلول عاقل .۴ ۔ آثار الصادقین،ج١٥،ص٣١٠۔

بچوں پر باپ کے حقوق

باپ تمام نعمتوں کا باعث

واما حق ابیک ، فتعلم انه اصلک ، وانک فرعه ؛ اونک لولاه ، لم تکن؛ فمهما رایت فی نفسک مما یعجبک فاعلم ان اباک اصل النعمة علیک فیه ، واحمدالله و اشکره علی قدر ذالک ولاقوة الا بالله -(۱)

اولاد پر باپ کا حق یہ ہےکہ جان لو وہ تمھارا اصل اور جڑ ہے اور تو اس کا فرع اورشاخ ۔ اگر وہ نہ ہوتا تو تو بھی نہ ہوتا ۔ اور خدا کی تچھ پر نعمتوں کا موجب وہ تھا ، اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو۔اور کوئی بھی طاقت خدا کی طاقت سے زیادہ نہیں ہے ۔

اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر انسان یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کا مہربان باپ نے اسے بہت ساری مشکلات اور سختیوں سے نجات دلائی ہے اور محفوظ رکھا ہے ، ہمارے بچپنے کازمانہ لیجئے کہ ہماری جسمانی طور پر پرورش کرنے کیلئے دن رات کوشش اور محنت کرتے ہیں اور اپنا سکون اور چین کھو دیتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کہ خدا کی عبادت اور شکر گزاری کے بعد والدین کی شکر گزاری بھی ضرور کرنا چاہئے۔لیکن حدیث شریف کی روشنی میں پھر بھی کما حقہ ان کا شکر ادا نہیں کرسکتے:عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا فِي خَصْلَتَيْنِ أَنْ يَكُونَ الْوَالِدُ مَمْلُوكاً فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيَهُ عَنْه -(۲) حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ امام محمد باقر سے سوال کیا کہ کیا بیٹا اپنے باپ کا حق ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟! تو فرمایا : صرف دو صورتوں میں ممکن ہے : پہلا یہ کہ اگر باپ کسی کا غلام ہو اور اسے بیٹا خرید کر آزاد کردے ، یا اگر کسی کا باپ مقروض ہو اور بیٹا اس کا قرض ادا کرے ۔

باپ کا احترام واجب

قرآن مجید کی آیتوں کے علاوہ روایات اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق اور احترام کا سختی سے حکم دیا گیا ہے، اور ساتھ ہی احترام کرنے کا ثواب اور اثر اور نہ کرنے کا عقاب اور اثر بھی جگہ جگہ ملتا ہے۔ چنانچہ امام صادق سے منقول ہے :ان یوسف لما قدم علیه الشیخ یعقوب دخله عزالملک فلم ینزل الیه فهبط علیه جبرئیل فقال : یا یوسف ابسط راحتک فخرج منها نور ساطع فصار فی جوالسماء فقال یوسف : یا جبرائیل ما هذا النور الذی خرج من راحتی؟!! قال: نزعت النبوة من عقبک عقوبة لما لم تنزل الی الشیخ یعقوب فلا یکون من عقبک نبی -(۳) امام صادق (ع) سے مروی ہے کہ جب حضرت یعقوب مصر میں وارد ہوئے حضرت یوسف (ع) بھی بہت سارے لوگوں کے ساتھ ان کی استقبال کے لئے نکلے ۔ جب نزدیک ہوئے تو مقام و جلالت شہنشاہی سبب بنی کہ آپ سواری سے نیچے نہیں اترے ۔(اگرچہ نہ بعید نظر آتا ہے کہ خدا کا نبی ایسا کرے ! بہرحال روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے بررسی کرنے کی ضرورت ہے) تو جبرئیل امین نے کہا : اے یوسف! ہاتھ کھولو۔اور جب یوسف نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک نور آسمان کی طرف ساطع ہونے لگا۔ تو حضرت یوسف نے سوال کیا جبرئیل یہ کیا ہے؟! جبرئیل نے کہا : یہ نبوت کا نور تھا کہ تیری نسل سے خارج ہوگیا۔ اور یہ اس لئے تیری نسل سے خارج ہوگیا کہ تم اپنے باپ کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اترے۔اسی لئے سلسلہ نبوت آپ کے بھائی کے صلب سے جاری ہوا۔ پیامبر اسلام کے ایک قریبی رشتہ دار نے سوال کیا : میرے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا میرے اوپر حق ہے کیسے اسے اتاروں؟ تو فرمایا: ان کے لئے نماز پڑھو، مغفرت طلب کرو، اور ان کی وصیت پر عمل کرو، اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رکھو،اور فرمایا : ماں کا حق باپ کےحقوق کے دوبرابر ہے-(۴)

بچوں پر ماں کے حقوق

وحق امک ان تعلم انها حملتک حیث لا یحتمل احد احدا ، وطاعتک من ثمره قلبها ما لا یعطی احد احدا ، ووقتک بجمیع جوارحها ، ولم تبال انتجوع وتطعمک ، وتعطش وتسقیک ، وتعریٰ وتکسوک ، وتضحیٰ وتظلک ، وتهجر النوم لاجلک ، ووفقتک الحروا البرد لتکون لها ، فانک لا تطیق شکرها ال یعون الله وتوفیقه(۵)

تیری ماں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تجھے اٹھاتی رہی کہ کوئی بھی کسی کو اس طرح نہیں اٹھاتا۔ اور اپنےدل کا پھل کھلاتی رہی کہ آج تک کسی نے کسی کو نہیں کھلایا۔ اور وہ اپنی پوری طاقت اور پورے وجود کے ساتھ تمھاری حفاظت کرتی رہی۔ اور اپنی بھوک اور پیاس کی پروانہیں کی لیکن تجھے وہ سیر اور سیراب کرتی رہی۔ اور خود برہنہ رہی لیکن تجھے لباس کا بندوبست کرتی رہی ۔ اور خود کو دھوپ میں اورتجھے اپنی محبت کےسایہ میں رکھتی رہی،اور خود اپنی رات کی نیند اور آرام کی پروا نہیں لیکن تمھاری نیند اور آرام وسکون اور گرمی اور سردی سے محفوظ رکھتی رہی، تاکہ تو اس کا بن کے رہے، پس تو کسی بھی صورت میں اس کی شکرگزاری

نہیں کرسکتا مگر یہ کہ خدا تجھے اس کی توفیق دے۔

امام سجاد کے کلام میں باپ کے حقوق پر ماں کے حقوق کو مقدم کیا ہے ، شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بیٹے کی شخصیت سازی میں ماں کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ اور زیادہ زحمتیں اور مشقتیں برداشت کرتی ہیں۔اور یہ دین مبین اسلام کا طرہ امتیاز ہے وگرنہ دوسرے مکاتب فکر اور ادیان والے اتنی عظمت اور احترام کے قائل نہیں ہیں۔

عورت کو ماں کی حیثیت سے جو حقوق اسلام نے دئے ہیں وہ مغربی دنیا میں وجود نہیں رکھتے۔وہاں جب بچہ قانونی طور پر حد بلوغ کو پہنچتا ہے تو خاندان کو چھوڑ جاتا ہے۔ اور ماں باپ سے بالکل الگ زندگی کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور ایسا رویہ خاندانی ماحول کو بالکل بے مہر و محبت ماحول میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کئی کئی سال گذرجاتے ہیں لیکن اولاد اپنے والدین کو دیکھنے اور ملنے بھی نہیں آتے ۔ اور حکومت بھی مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسے والدین کو بوڑھوں کے گھر منتقل کریں۔

افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیگانوں کی اندھی تقلید نے اسلامی معاشروں میں بھی یہ حالت وکیفیت پیدا کردی ہے۔ جہاں والدین خاندان کے چشم و چراغ ہیں وہاں آہستہ آہستہ انھیں خاندان سے دور اور الگ کرتے جارہے ہیں۔اور بوڑھوں کے گھر بھیجنا شروع کیا ہے۔

قرآن مجید نے اس غلط ثقافت پر مہر بطلان لگادی ہے ۔اور ماں باپ کے حقوق کے بارے میں سختی سے تاکید کی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنی عبادت کا حکم دینے کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی اللہ کی عبادت کے فورا بعد والدین کے حقوق کا خیال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان حقوق کو ہم چند عناوین میں بیان کریں گے۔

____________________

۱ ۔ حقوق اسلامی۔ ص۱۴۶۔

۲ ۔ بحار الانوار ، ج ۱۷، ص ۶۶۔

۳ ۔ حقوق اسلامی ص ۱۴۸۔

۴ ۔ ترجمہ رسالۃ الحقوق،ص۱۳۹۔

۵ ۔ ہمان ، ص ۱۳۱۔

تیسرا سبق

زندگی کے حقائق کا صحیح ادراک اور عمر کا بہتر استفادہ

* فرصتوں کے مواقع سے استفادہ اور طولانی آرزوؤں سے کنارہ کشی

* لاپروائی کے مراحل

* ترکِ دنیا اور اس کی بے جاتفسیر

* ترکِ دنیا اور آخرت کو اصل جاننا

* فرائض اور تکالیف کی بروقت انجام دہی ۔

*موت کی یا دطولانی آرزوؤں کا خاتمہ

* دنیا سے وابستگی کے نتائج

زندگی کے حقائق کا صحیح ادراک اور عمر کا بہتر استفادہ

'' یَا اباَذَر ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیفَ بِاَمَلِکَ فَاِنَّکَ بِیَومِکَ وَ لَسْتَ بِمَا بَعْدَهُ فَاِنْ یَکُنْ غَد فَکُنْ فِی الْغَدِکَمَا کُنْتَ فِی الْیَومِ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ غَد لَکَ لَمْ تنَدَمْ عَلٰی مَافَرَّطْتَ فِی الْیَومِ

یَا اَبَاذَر ! کَمْ مِنْ مُسْتَقبِلٍ یَوْماً لَا یَسْتَکْمِلُهُ وَ مُنْتَظِرٍ غَداًلاَ یَبْلُغُهُ ، یَا اَباذرَ ! لَوْ نَظَرْتَ اِلَی الاَجلِ وَ مَسِیرِهِ لَاَبغَضْتَ الْاَمَلَ وَ غُرُوْرَهُ یَا اَبَاذَر!کُنْ کَاَنَّکَ فِی الدُّنْیَا غَرِیب اَوْ کَعَابِرِ سَبِیلٍ وَ عُدَّ نَفْسَکَ مِنْْ اَصْحَابِ الْقُبُورِ یَا اَبَاذَر ! اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالمَسَائِ وَ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ وَ خُذْ مِنْ صِحَّتِکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَ مِنْ حَیٰوتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ لِاَنَّکَ لَا تَدْرِی مَااسْمُکَ ''

فرصتوں کے مواقع سے استفادہ اور طولانی آرزوئوں سے کنارہ کشی

'' یَا اباَذَر ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیفَ بِاَمَلِکَ فَاِنَّکَ بِیَومِکَ وَ لَسْتَ بِمَا بَعْدَهُ ''

اے ابوذر ! ایسانہ ہو کہ طولانی آرزوئوں کی وجہ سے نیک کام انجام دینے میں تاخیر کرو ۔

( یہ بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گزشتہ فرمائشات کو مکمل کرتاہے اور فرصتوں سے استفادہ کرنے اور اپنی عمر کے اوقات کو ہاتھ سے نہ دینے پرایک تاکیدہے )

'' تسویف '' ان آفتوں میں سے ہے جو نیک اور شائستہ کام انجام دینے میں رکاوٹ بنتی ہیں ، اسی لئے روایتوں میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ تسویف کاموں کو تاخیر میں ڈالنے کے معنی میں ہے ، اس امید کے ساتھ کہ بعد میں انجام دیئے جائیںگے اس حالت کیلئے بہت سے دلائل ہوسکتے ہیں ، لیکن اس کا خاص اور اصلی سبب ( جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہوا ہے ) انسان کی آرزوئیں ہیں یعنی جس کام کو آپ کو انجام دینا چاہیئے انسان اس امید میں کہ کل تک زندہ ہے اوراکل انجام دے ، آج اسے انجام نہیں دیتا جب دوسرا دن ہوتا ہے تو پھر تیسرے دن کی امید میں اور اسی طرح دوسرے مہینے اور آئندہ سال کی امید میں کام کو تاخیر میں ڈالتا رہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : اگر چاہتے ہو تمہاری یہ حالت اور داخلی خصوصیت تم سے دور ہوجائے تو تصور کرناکہ صرف اسی دن اسی لمحہ اورآج کی فرصت رکھتے ہو اور اس کے بعد زندگی کی کوئی اور فرصت نہیں ملے گی ۔

'' تسویف'' کا مفہوم بہت سے دوسرے اخلاقی مفاہیم خواہ نیک ہوں یا بد کی طرح تشکیکی اور گوناگوں مراتب کا حامل مفہوم ہے یہ تشکیلی مفاہیم مختلف افراد کی نسبت ، مومن سے لے کر غیر مؤمن تک ، حتی مراتب ایمان کی نسبت ، متفاوت ہیں ، ان کے بعض مراتب واجب عمومی ہیں اور بعض واجب موکد ہیں ، ، بعض مستحب عمومی ہیں اور بعض مستحب موکد ہیں ، بعض مراتب اس قدر دقیق ہیں کہ عام لوگوں کیلئے ان کا تصور ممکن نہیں ۔

لاپروائی کے مراحل :

''تسویف '' کا پہلا مرحلہ : دنیوی کاموں کے بارے میں آرام طلبی اور سستی ہے جس کے سبب انسان اپنے کاموں میں تاخیر کرتا ہے اس بری عادت کا اعتقادی مسائل سے کوئی ربط نہیں ہے مؤمن بھی اس میں مبتلا ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کافر بھی مبتلا ہوجائے ،کیونکہ کافر بھی بعض اوقات دنیوی کاموں کے سلسلہ میں سستی اور لاپروائی کرتا ہے یہ عادت جو انسان کو اپنے کام میں تاخیر ڈالنے کا سبب بنتی ہے مومن اور کافر دونوں کیلئے ایک بری صفت شمارہوتی ہے البتہ چونکہ اگر مومن اپنے کام کو بر وقت انجام نہ دینے کی عادت کرے تو رفتہ رفتہ یہ عادت اس میں ملکہ کی حالت پیدا کرتی ہے اور اس کے دینی مسائل میں بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس امر کاسبب بنتی ہے کہ وہ اپنے دینی فرائض کو بھی وقت پر انجام نہ دے ، اس لئے اس عادت کی برائی مومن کیلئے شدید تر ہے اگر ایسے عادات سے مقابلہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اگر انسان دینی امور میں سستی اور لاپروائی کرے تو رفتہ رفتہ یہ عادت اس میں ملکہ پیدا کرے گی اور وہ اخروی امور میں بھی سستی اور لاپروائی کرنے پر اتر آئے گا۔

'' تسویف '' کا دوسرا مرحلہ : فرائض اور واجبات کی انجام دہی میں لاپروائی ہے کہ یہ لاپروائی واجبات کی تین اقسام کی بنا پر تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے ۔

١۔ واجبات موسع ( جن واجبات کے انجام دینے کا وقت کا فی ہوتا ہے ) میں غفلت اور لاپروائی ، جیسے نماز پنجگانہ کہ ہر ایک نماز کا ایک وسیع وقت ہے ۔ بعض لوگ ان نمازوں کو انجام دینے میں غفلت اور لا پروائی کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کو انجام دینے میں تاخیر کرتے ہیں اور آخری لمحات میں انجام دیتے ہیں ، اگرچہ یہ لاپروائی اور غفلت حرام نہیں ہے لیکن ایک ناپسند کام شمار ہوتا ہے ۔

٢۔ ان واجبات میں لاپروائی ، جنہیں فوراً انجام دینا چاہیئے ، اگر چہ ایسے واجبات اس معنی سے بالکل ہی فوری نہیں ہوتے کہ اگر پہلی فرصت میں ترک ہو تو انہیںدوسری اور اسی طرح بعد والی فرصتوں میں انجام دیا جائے ، جیسے کہ توبہ کا وجوب ، یہ پہلی ہی فرصت میں واجب ہے کہ انجام پائے اور اس میں تاخیر کرنا حرام ہے ، اگر اس میں تاخیر ہوئی تو ایسا نہیں ہے کہ اس کا وجوب اور فوریت ساقط ہوجائے ۔

٣۔ مضیق واجبات ( یعنی ایسے واجبات جن کے بجا لانے کا وقت کم اور محدود ہے ) میں لاپروائی اور غفلت جیسے : روزہ ، کہ اس کا وقت محدود ہے ۔ بعض لوگ اس واجب کو اس کے اداکے وقت میں انجام دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں اور اپنی جگہ پر کہتے ہیں کہ بعد میں اسے قضا کے طور پرانجام دیں گے ۔ اگرچہ اس قسم کے شخص کا گناہ ایسے واجب کی قضا بجالانے کاارادہ نہ کرنے والے سے کم تر ہے لیکن اس کا یہ عمل حرام ہے ۔

ترک دنیا اور اس کے بے جا تفسیریں :

ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہت سی آیات اور روایات میں ایسے مطالب ذکر ہوئے ہیں کہ ان کی گوناگوں اور بعض اوقات متضاد تفسیریں کی جاسکتی ہیں ،ان کی تفسیر کرنے میں دینی امور میں مہارت اور تفقہ کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے مواقع پر غلطی کے امکانات اور نامناسب نتائج کا احتمال زیادہ ہے ۔ نمونہ کے طورپر دنیا اور اس کی مذمت میں یا گوشہ نشینی اور ترکِ دنیا کے بارے میں بعض آیات و روایات ذکر ہوئی ہیں کہ ان کے بارے میں گوناگوں ، بعض اوقات متضاد تفسیریں کی گئی ہیں ۔ ان تفسیروں میں صوفیانہ تفسیر بھی ہے جو اسلام کے تمام جوانب اور قطعی معارف کو مد نظر رکھے بغیر انجام پائی ہے اس عقیدہ کے مطابق انسان کو ترکِ دنیا کرنا چاہیئے، لوگوں سے دور تنہائی میں عبادت کرنی چاہیئے یا ایسے لوگ حیوانوں سے الفت رکھتے ہیں جبکہ اس قسم کا استنباط قرآن مجید کی آیات ، روایات اور دین کی قطعی بنیادوں سے متضاد ہے ۔

اگر گوشہ نشینی ، تنہائی اور ترکِ دنیا بنیاد ہے تو دین کی اجتماعی تکالیف جیسے :انفاق ، ظلم کا مقابلہ ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلامی حکومت برقرار کرنے کی تلاش جو اسلام کے قطعی ضروریات میں سے ہیں کا کیا ہوگا؟

اور انھیں کہاں عملی جامہ پہنایا جائے گا ؟ کیا خلوت اور تنہائی میں ان فرائض کو انجام دیا جاسکتا ہے ؟ لہذا ایک معرفت دینی کے استنباط کیلئے تمام معارف دینی میں تفقہ اور اس کے تمام جوانب پر توجہ کرنالازم اور ضروری ہے ۔

اس غلط فہمی کے جواب میں کہنا چاہیئے :اگر دنیا طلبی زندگی کے مقصد کے طور پر پیش کی جائے تو قابل مذمت ہے لیکن اگر دنیا اخروی کمال تک پہنچنے کا وسیلہ بن جائے تو نہ صرف قابل مذمت نہیں ہے بلکہ قابل تعریف و ستائش بھی ہے ۔ دنیا کو وسیلہ قرار دینے کے چند مراتب ہیں کہ ان میں سے بعض مراتب لازم ہیں اور بعض مراتب کمالات کے جز شمار ہوتے ہیں اس کی ضروری حد بندی یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں سے استفادہ کرنا اور مادی امور میں مشغول ہونا ترکِ واجب یا فعل حرام انجام دینے کا سبب نہ بنیں وہ دنیا طلبی حرام ہے جو ارتکاب گناہ یا ترکِ واجب کا سبب بنے اور اگر دنیا طلبی انسان میں ایک نا پسند عادت بن جائے تو اس کے ساتھ مقابلہ کرنا واجب ہے ۔

اسلام کی نظر میں ،مثالی انسان وہ ہے جو کسی بھی صورت میں دنیوی امور کو بنیاد قرار نہ دے اور کسی بھی دنیوی کام کو اگرچہ مباح بھی ہو مادی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے انجام نہ دے ۔ دور اندیش اورہوشیار انسان اس مقام پر جو بلند ترین انسانی مقام ہے فائز ہوئے ہیں یعنی وہ اس طرح عمل کرتے ہیں کہ ان کے تمام کردار و رفتار ، حتی سانس لینا بھی عبادت شمار ہوئے ہیں ان کے تمام جسمانی اعمال و رفتار ، جیسے کھانا پینا، ورزش کرنا حتی حلال جنسی لذتیں بھی اخروی امور کا مقدمہ ہیں اور اس لحاظ سے واجب یا مستحب عبادت شمار ہوتی ہیں ۔

ترک دنیا اور آخرت کو اصل جاننا :

بہر صورت مادی اور دنیوی امو رکو بنیاد قرار دینا یا بنیاد قرار نہ دینا ایک ظریف اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کا معیار گفتگو میں معلوم نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس کا انحصار افراد کی نیت پر ہے : مثال کے طورپراگر انسان لذت کی غرض سے کھانا کھائے تو اس نے مادیت کو بنیاد قرار دیا ہے ، اگرچہ زبان سے انکار بھی کرے اور اگر اس کی نیت یہ ہو کہ کھانے کے مزہ سے لذت پاکر خداکا شکر بجالائے تو اس نے آخرت کو بنیاد قرار دیا ہے ، کیونکہ اس کا مقصد اللہ تعالی کا شکر بجالانا ہے اسی لحاظ سے قرآن مجید میں بعض نعمتوں کا ذکرکرنے کے بعد ، بارگاہ الٰہی میں شکر گزاری ، نعمتوں سے استفادہ کرنے کے مقصد کے طور پر بیان ہوئی ہے پس مقصد ، شکر گزاری ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب تمام مادی کام خدائی رنگ پیدا کریں ۔

اکثر لوگ اپنی رفتار کے معنوی پہلو کی طرف توجہ نہیں رکھتے اور اس قدر مادی لذتوں میں غرق ہوتے ہیں کہ مادیات اور مادی لذتوں کے علاوہ کسی اور مقصدکو مدنظر نہیں رکھ سکتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معنوی مقامات تک پہنچنے اور اخروی امو ر کو بنیاد قرارد ینے کیلئے انسان کو مربی کی ضرورت ہے ، کیونکہ ممکن ہے اعتدال کی راہ سے بھٹک کر افراط و تفریط کا شکار ہوجائے ۔

جولوگ نفس کے تکامل وترقی اور اس کی تربیت کے بارے میں قدم اٹھانا چاہیں انھیں اپنے ذہن میں دنیوی پہلوؤں کو ضعیف کرنے ، مادی لذتوں کی چاہت کو کم کرنے اورا خروی لذتوں کے رجحان اور برتری کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،دنیوی لذتوں سے چشم پوشی کرنے کیلئے اپنے آپ کو تلقین کرے کہ مادی لذتیں اخروی لذتوں کے مقابلہ میں حقیر اور ناچیزہیں ۔ اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام اپنی فرمائشات میں لوگوں کو آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کی ترغیب دیتے ہیں ترک دنیا کی حوصلہ افزائی نہیںکرتے کہ مکمل طور پر دنیا کو چھوڑدیں ،کیونکہ اگرانسان دنیا کو اخرت کا مقدمہ قرار دے ، تو نہ صرف یہ کہ وہ دنیا طلب نہیں ہے بلکہ آخرت طلب ہے مباحات سے استفادہ کرنا بذات خود حرام میں مبتلا نہ ہونے کا مقدمہ ہے اس لحاظ سے عبادت میں شمار ہوتا ہے اس کے علاوہ بعض اوقات مباحات سے استفادہ کرنا بلند ترین فرائض انجام دینے میں تقویت اور آمادگی کا سبب بن جاتا ہے ۔

حضرت اما م موسیٰ بن جعفر علیہ السلام روزانہ اوقات کی تقسیم بندی کے بارے میں فرماتے ہیں:

'' ایک گھنٹہ حلال لذتوں سے استفادہ کرنے کیلئے مخصوص رکھنا چاہیئے کیونکہ حلال کے استفادہ سے ہی انسان تمام فرائض کو انجام دینے کی طاقت پیدا کرسکتا ہے ''

چنانچہ ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جملۂ ''ِیَاکَ و التسویف''میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ '' تسویف '' کے پیدا ہونے کا سبب انسان کی لذتیں حاصل کرنے کی آرزوئیں ہیں ۔ یعنی انسان ہمیشہ دنیوی لذتوں کو حاصل کرنے کی تلاش میں ہوتا ہے اور یہ امر بذات خود دینی فرائض کو تاخیر اور التوا میں ڈالنے کا سبب ہے دوسرے الفاظ میں انسان اس دوراہے سے دوچار ہوتا ہے کہ فرصت کو فوری اور مادی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کرے یا اخروی نتائج حاصل کرنے کیلئے ، چونکہ لذات دنیا کو نقد اور آخرت کو ادھار سمجھتا ہے اس لئے فرضت کو اسی کیلئے صرف کرتا ہے ، حقیقت میں اس کا ایمان آخرت کی نسبت دنیا پرزیادہ ہے اور عارضی اور فوری لذتوں کو آخرت کی پائدارلذتوں پر ترجیح دیتا ہے ۔

حیرت کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر کافی حد تک شرک میں مبتلا ہیں کیونکہ ہم آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کے قائل نہیں ہیں :

( وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُهُمْ بﷲ اِلَّا وَ همُ مُشْرِکُونَ' ) ( یوسف ١٠٢)

'' اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ ''

اگر انسان کسی کام کوغیر خدا کیلئے انجام دے ، حتی اگر وہ کام اخروی ثواب حاصل کرنے کیلئے بھی ہوشرک ہے ۔ خالص توحید میں ، خدا کے سوا کوئی اور مقصد نظر میں نہیں ہوتا ہے ، حتی جہنم کا خوف اور بہشت کا شوق بھی مقصد نہیں ہے ، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''اِلٰهی مَا عَبَدْتُکَ خَوفاً مِنْ عِقَابِکَ وَ لَا طَمْعاً فِی ثَوَابِکَ وَ لٰکِنْ وَجَدْتُکَ اَهْلاً لِلْعِبَادةِ فَعَبَدْتُکَ ''(۱)

میرے پروردگار ! تیرے لئے میری عبادت نہ جہنم کے خوف کی وجہ سے ہے اور نہ بہشت کی طمع کے سبب ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ میں تجھے عبادت کے لائق جانتا ہوں ''

طولانی آرزوئیں ، انسان کی سعادت کو خطرہ میں ڈالتی ہیں ، اس لئے حضرت علی علیہ السلام اکثر اس بات سے خائف تھے کہ لوگ اپنی طولانی آرزوؤں میں مبتلا ہوکر فرائض الہی کو اپنی نفسانی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھائیں :

''وَ اِنَّ اَخْوَفَ مَا أَخَافَ عَلَیکُمْ اِثْنَانُ: اِتِّبَاعُ الْهَویٰ وَ طُولُ الْاَمَلِ ، لِاَنَّ اِتِّبَاعَ الْهَویٰ یَصُدُّ عَنِ الْحَقَّ وَ طُولَ الْاَمَلَ یُنْسِی الآخِرَةَ ''(۲)

'' مجھے تم لوگوں کے بارے میں دو چیزوں کا زیادہ خوف ہے ایک نفسانی خواہشات کی

پیروی اور دوسری طولانی آرزوئیں ، کیونکہ نفسانی خواہشات کی پیروی حق کی راہ میں رکاوٹ اور طولانی آرزوئیں آخرت کو فراموش کرنے کا سبب بنتی ہیں ''

فرائض و تکالیف کی بروقت انجام دہی :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم '' تسویف '' سے پرہیز کرنے کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''فانک بِیَومِکَ و لست بما بعده ''

'' کیونکہ تمہیں صرف آج کے دن کی فرصت ہے اور کل کا دن تمھارے اختیار میں نہیں ہے ''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے نصیحت فرماتے ہیں کہ آج کے فریضہ کو کل پر نہ چھوڑنا ، کیونکہ کل کے آنے کی کوئی ضمانت اور اطمینان نہیں ہے ، اوراگربالفرض کل آبھی جائے تو تمہیں دوسرے فرائض انجام دینے ہیں ، کل کے نہ آنے کا تجھے افسوس نہیں ہے ، لیکن اگر تم نے اپنے فریضہ کو تاخیر میں ڈال دیا اور کل کا دن نہ آیا تو کیسے اسے انجام دو گے تو اس حسرت اور افسوس کو اپنے ساتھ دوسری دنیا میں لے جاؤ گے۔

لہذا اسی لمحہ کے بارے میں سوچنا چاہیئے اور اسی لمحہ کو غنیمت سمجھنا چاہیئے نیز '' تسویف'' اور کاموں کو اس امید سے التوا میں ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کہ انہیں کل انجام دیں گے ، مطالعہ اور تحقیق کے دوران اپنے آپ سے یہ نہ کہیں کہ وقت کافی ہے کل مطالعہ کریں گے ، کیونکہ آنے والے کل کے دن بھی ہمیں دوسرے فرائض انجام دینے ہیں:

''فَاِنْ یَکُنْ غَدلک فَکُنْ فِی الْغَدِکَمَا کُنْتَ فِی الْیَومِ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ غَد لَکَ لَمْ تنَدَمْ عَلٰی مَافَرَّطْتَ فِی الْیَومِ ''

اگرتمھارے لئے کوئی آنے والا کل ہے تو اس دن بھی آج کے مانند فریضہ انجام دینے کی فکر میں رہو اور اگر کوئی آنے والا کل تمھارے لئے نہیں ہے تو صرف آج کے دن کو بطور فرصت پانے پر پشیمان نہیں ہوگے ۔

ممکن ہے کوئی شخص اپنے روز مرہ کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس بات پر پشیمان ہوجائے کہ وہ زیادہ کامیابی حاصل نہیںکرسکا ہے لیکن اس کی طاقت کی محدودیت کے پیش نظر یہ کہ اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق فرائض انجام دئے ہیں ، پشیمان نہیں ہوگا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی گزشتہ نصیحتوں کو مکمل کرتے ہوئے اور اس امر کی تاکید فرماتے ہوئے کہ آنے والے کل کے انتظار میں نہیں بیٹھا جا سکتا ہے ، فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَر ! کَمْ مِنْ مُسْتَقبِلٍ یَوْماً لَا یَسْتَکْمِلُهُ وَ مُنْتَظِرٍ غَداًلاَ یَبْلُغُهُ ''

اے ابو ذر ! کتنے ایسے لوگ ہیں جو صبح سے شام تک نہیں پہنچتے اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو آنے والے کل کے انتظار میں ہوتے ہیں لیکن اس تک نہیں پہنچتے۔

غوروفکر کا مقام ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے تربیتی بیانات میں کس طرح مخاطب کو آمادہ فرمارہے ہیں تاکہ اپنی عمر کے لمحات سے کیسے بہترین فائدہ اٹھائیں ۔ ابتداء میں اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کس قدر مستقبل پر بھروسہ اور امید کرسکتا ہے تاکہ اس آنے والے زمانہ کیلئے کسی کام کو التوا میں رکھے ۔ اگر وہ اپنے آنے والے کل پر بھروسہ نہیں رکھتا ہے تو کیوں اپنے کام کو التوا میں ڈالتا ہے : ظہر کی ابتدا میں ظہر کی نماز کا وقت ہے ، کونسی گارنٹی ہے کہ اسے مزید ایک گھنٹہ زندہ رہنا ہے تا کہ نماز کو التوا میں ڈال دے ؟ واضح ہے کہ اگر اول وقت پر نماز پڑھے ، تو بعد میں پشیمان نہیں ہو گا ، اس کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دے سکتا ہے ۔

موت کی یاد ،طولانی آرزؤں کا خاتمہ:

'' یَا اَباذرَ ! لَوْ نَظَرْتَ اِلَی الاَجلِ وَ مَسِیرِهِ لَاَبغَضْتَ الْاَمَلَ وَ غُرُوْرَه''ُ

اے ابوذر! اگر موت کے بارے میں سوچ لواور یہ کہ کس تیز رفتاری سے تیری طرف آرہی ہے ، تو آرزو اور اس کی فریب کاری سے دشمنی کرو گے ۔

آرزوؤں اور ان کی فریب کاریوں سے مقابلہ اور جنگ کرنے کی بہترین راہ یہ ہے کہ اپنی موت کی فکر میں رہو اور جان لو کہ اجل ، طولانی آرزوئوں کو ناکام بنا دیتی ہے اور انسان کو ناامیدی کے عالم میں دوسری دنیا کی طرف لے جاتی ہے ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' وَمَنِ اسْتَشْعَاَرَ الشَّغَفَ بِهَا ، مَلَاَتْ ضَمِیْرَهُ اَشْجاناًلَهُنَّ رَقْص عَلٰی سُوَیْدائِ قَلْبِهِ هَمُّ یَشْغَلُهُ وَ غَمّ یَحْزُنُهُ ، کَذٰلِکَ حَتّٰی یُوْخَذَ بِکَظْمِهِ فَیُلْقیٰ بِالْفَضَائِ '' (۳)

'' اور جس نے دنیا کی محبت کو دل میں جگہ دی ، وہ اندر سے غم و اندوہ سے بھر جائے گا اور یہ غم و آلام اس کے دل میں موجزن ہوں گے ، ایک مسلسل اور حزن سے بھرا غم یہاں تک اس کی سانس رک جائے گی اور ایک گوشہ میں پڑی اس کی زندگی کی رگیں کٹ جائیں گی ۔'''

ایک اور جگہ پر حضر ت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' وَ مِنْ عِبَرِهَا اَنَّ الْمَرْئَ یُشْرِفُ عَلَی اَمَلِهِ فَیَقْتَطعِاُهُ حَضُوْرُ اَجَلِهِ ، فَلَا اَمَلاً یُدْرَکُ وَ لَا مُوْمِّل یُترَکَ ...'' (۴)

دنیا کی عبرتوں میں سے یہ بھی ایک عبرت ہے کہ جب تک انسان اپنی آرزوئوں تک پہنچنا چاہتا ہے ، موت پہنچ کر اسے ناامید کردیتی ہے ، پس نہ آرزو اس کے ہاتھ آتی ہے اور نہ موت کے چنگل سے بچ سکتا ہے ۔

دنیا سے وابستگی کے نتائج :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَر!کُنْ کَاَنَّکَ فِی الدُّنْیَا غَرِیب اَوْ کَعَابِرِ سَبِیلٍ وَ عُدَّ نَفْسَکَ مِنْاْ اَصْحَابِ الْقُبُور''

'' ا ے ابوذر ! دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی صورت میں زندگی گزارنا اور خود کو ایک مردہ شمار کرنا''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نصیحت فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک ایسے اجنبی کی طرح رہنا جو کسی شہر میں داخل ہوتا ہے ، سوچ لو کہ اگر اس کا اس شہر میں کوئی دوست یا آشنا نہ ہو تو وہ کیسے زندگی گزارے گا کیا اس کے باوجود کہ کسی سے الفت پیدا نہیں کرسکتا ہے ، عیش و عشرت میں زندگی بسر کرسکتا ہے ؟ مومن کا وطن آخرت ہے اور دنیا میں مسافر اور راہی کے مانند ہے ، اس لئے وہ اس فکر میں نہیں ہے کہ اپنے لئے عیش و عشرت کی بساط کو پھیلائے ، اسی طرح پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نصیحت فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک راہی کے مانند رہنا کہ جوراستہ پر چلتا ہے لیکن رکنے کی مجال نہیں رکھتا ۔

ممکن ہے اس قسم کے جملوں پر ظاہری توجہ کرنے سے انسان غلط فہمی کا شکار ہوجائے اور یہ فکر کرنے لگے کہ دوسروں سے کنارہ کشی کرنی چاہیئے اور گھر بنانے اور خاندان کو تشکیل دینے کی فکر کو ذہن سے نکال دینا چاہیئے او ر بالآخر دنیا کی نعمتوں سے دوری اختیار کرکے صرف اخروی دنیا کی فکر کرنی چاہیئے ، کیونکہ وہاں پر انسان کی ابدی قیام گاہ ہے ! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اس قسم کا طرز تفکر اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق نہیں ہے ، کیونکہ ممکن ہے دوست و احباب کا انتخاب ، خاندان کی تشکیل ، مال و دولت اور گھر بنانا و.. سب آخرت کے محور بن جائیں اور دنیا کی محبت انسان کا مقصد قرار نہ پائے بلکہ آخرت کی توجہ اور حکم خدا کی اطاعت انسان کا مقصد قرار پائے ، کیونکہ دنیا کے ذریعہ اور اس کی لذتوں سے فائدہ اٹھا کر اخروی کمالات اور قرب الہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

حقیقت میں جس نے آخرت کو اپنا مقصد قرار دیا ہے اس نے دنیا کو وسیلہ کے طور پرا نتخاب کیا ہے ، اب اگر کوئی انسان دنیا سے چشم پوشی کرکے اسے آخرت کیلئے وسیلہ قرار نہیں دے سکتا ہے ، تو کم از کم اسے ایک راہی کا رول ادا کرنا چاہیئے کہ راستہ سے چلتے ہوئے تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے قدرے رک کر آرام کرے ۔اگرچہ ایسے شخص کی نظر میں دنیوی امور اصلیت کے حامل ہیں اور مکمل طور پر انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، کم از کم ان سے مدد حاصل کرے اور ضرورت کو پورا کرنے کی حد تک دنیوی مباحات سے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ حضرت امام موسی بن جعفرعلیہ السلا م نے اس مطلب کے پیش نظر فرمایا ہے :

'' اپنے وقت کے ایک حصہ کو حلال لذتوں سے استفادہ کرنے کیلئے مخصوص کرو ''

جملۂ '' وَعُدَّ نَفْسَک من اصحاب القبور '' بلند ترین تعبیر ہے جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استعمال کیا ہے، لیکن ممکن ہے اس سے بھی غلط مطلب لیا جائے ، جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : '' اپنے آپ کو مردہ قرار دو '' اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ چونکہ مرد ے ضروری ترین نعمتوں ، جیسے کھانے پینے سے محروم ہیں ، اور تم بھی دنیا اور اس کے امکانات سے فائدہ اٹھانے سے اجتناب کرنا۔ جبکہ یہ ایسی صورت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل قیام گاہ کی طرف توجہ رکھے ۔ جب دنیوی زندگی آخرت کی گزرگاہ اوردوسری دنیا میں پہنچنے کیلئے ایک پل ہے ، تو انسان کی توجہ اصلی مقصد اور ابدی قیام گاہ کی طر ف رہنا چاہیئے اور ایک د ن کیلئے اپنے آپ کو آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور کافی زادراہ اپنے ساتھ اٹھانے کی فکر کرے تا کہ وہاں پر پشیمان اور شرمندہ نہ ہوجائے۔پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد یہ نہیں ہے کہ انسان دنیوی امو رکو مکمل طور پر چھوڑدے اور ذریعہ معاش اوراپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کیلئے مستقبل کے وسائل و آسائش کی کوئی فکر نہ کرے ۔

آیات و روایات سے غلط مطلب نکالنے کی عادت ، مسلمانوں میں زمانہ قدیم سے رہی ہے ، چنانچہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں عذاب کے بارے میں ایک آیت نازل ہوئی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض اصحاب ، گھر بار ، ازدواجی زندگی ، کھانا پینا اور لباس وغیرہ کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول ہوگئے تو جب یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنے پاس بلاکر فرمایا: ' ' ایسا کیوں کرتے ہو؟ میں جو تمہارا پیغمبر ہوں ،عبادت و روزہ داری کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی بھی چلا رہا ہوں اور دنیوی لذتوں سے بھی استفادہ کرتا ہوں ،تم لوگ بھی میرے نقش قدم پر چل کر گھر بار اور اپنی زندگی کو نہ چھوڑو ''

مذکورہ مطلب کے پیش نظر اس بات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ممکن ہے کوئی انسان دنیا میں کثرت سے مالی و مادی امکانات کا مالک ہو، لیکن دنیا پرست نہ ہو، کیونکہ تمام مادی امکانات کو حق کی راہ ڈھونڈنے میں وسیلہ کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب دنیا کی مذمت کا مسئلہ ہو تو اس مذمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قدرتی وسائل کو حقیر سمجھا جائے ، کیونکہ وہ سب خدا کی پیدا کردہ اور الٰہی آیات ہیں ۔ بلکہ درحقیقت مذمت انسان کی فکراور نیت کے بارے میں کی گئی ہے جو اسے دنیا کی نعمتوں سے وابستہ کردیتی ہے اور انہیں اصلی مقصدکے طورپر انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کے وسیلہ کے رول سے غافل ہوتا ہے ، پس حقیقت میں انسان کی مادی وسائل سے استفادہ کی نا پسندیدہ طریقہ سے مذمت کی گئی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توصیف میں فرماتے ہیں:

'' فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنیا بِقَلبِهِ وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا عَنْ نَفْسِهِ '' (۵)

'' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہ تھی اور آپ نے اس (دنیا ) کے نام اور یاد کو اپنے نفس میں مار ڈالا تھا''

'' یَا اَبَاذَر ! اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالمَسَائِ وَ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ''

اے ابوذر ! صبح کے وقت شام کی خوش فہمی میں نہ رہو اور شام کے وقت اپنے آپ کو صبح کی نوید نہ دو ۔

'' یہ بات گزشتہ مطالب کی ایک تاکید ہے کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے مستقبل کے بارے میں مطمئن نہیں ہوسکتا ''

'' وَ خُذْ مِنْ صِحَتِّکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَ مِنْ حَیٰوتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ لِاَنَّکَ لَا تَدْرِی مَااسْمُکَ ''

اس وقت بیمار ہونے سے پہلے اپنی تندرستی سے اور مرنے سے پہلے اپنی زندگی سے فائدہ اٹھائو کیونکہ تم نہیں جانتے ہو کہ کل تمھارا انجام کیا ہوگا۔

یہاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نصیحت فرماتے ہیں : فرصت سے استفادہ کرو اور آج کی زندگی کو غنیمت جانو کیونکہ نہیں معلوم کہ تم کل زندہ رہوگے کہ نہیں ۔ اس طرح بیمار ہونے سے پہلے اپنی تندرستی سے استفادہ کرو۔

____________________

۱۔بحار الانوار ، ج ٤١، ص ١٤

۲۔ بحار الانوار ، ج ٧٧ ، ص ٤١٩

۳۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، حکمت نمبر ٣٥٩، ص ١٢٥٦۔

۴۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،خ١١٣،٣٥٣

۵۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، خططہ ١٠٨ ، ص ٢٩٤۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11