خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض0%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف: غلام مرتضیٰ انصاری
زمرہ جات:

مشاہدے: 15507
ڈاؤنلوڈ: 2894

تبصرے:

خاندان کےاخلا ق و فرائض
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15507 / ڈاؤنلوڈ: 2894
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

بچوں کے درمیان عادلانہ قضاوت

ِ أَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ كَانَا يَكْتُبَانِ فَقَالَ الْحَسَنُ لِلْحُسَيْنِ خَطِّي أَحْسَنُ مِنْ خَطِّكَ وَ قَالَ الْحُسَيْنُ لَا بَلْ خَطِّي أَحْسَنُ مِنْ خَطِّكَ فَقَالَا لِفَاطِمَةَ احْكُمِي بَيْنَنَا فَكَرِهَتْ فَاطِمَةُ أَنْ تُؤْذِيَ أَحَدَهُمَا فَقَالَتْ لَهُمَا سَلَا أَبَاكُمَا فَسَأَلَاهُ فَكَرِهَ أَنْ يُؤْذِيَ أَحَدَهُمَا فَقَالَ سَلَا جَدَّكُمَا رَسُولَ اللَّهِ ص فَقَالَ ص لَا أَحْكُمُ بَيْنَكُمَا حَتَّى أَسْأَلَ جَبْرَئِيلَ فَلَمَّا جَاءَ جَبْرَئِيلُ قَالَ لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ إِسْرَافِيلَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ إِسْرَافِيلُ لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَحْكُمَ بَيْنَهُمَا فَسَأَلَ اللَّهَ تَعَالَى ذَلِكَ فَقَالَ تَعَالَى لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ أُمَّهُمَا فَاطِمَةَ تَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ فَاطِمَةُ أَحْكُمُ [احْكُمْ‏] بَيْنَهُمَا يَا رَبِّ وَ كَانَتْ لَهَا قِلَادَةٌ فَقَالَتْ لَهُمَا أَنَا أَنْثُرُ بَيْنَكُمَا جَوَاهِرَ هَذِهِ الْقِلَادَةِ فَمَنْ أَخَذَ منهما [مِنْهَا] أَكْثَرَ فَخَطُّهُ أَحْسَنُ فَنَثَرَتْهَا وَ كَانَ جَبْرَئِيلُ وَقْتَئِذٍ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ فَأَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ وَ يُنَصِّفَ الْجَوَاهِرَ بَيْنَهُمَا كَيْلَا يَتَأَذَّى أَحَدُهُمَا فَفَعَلَ ذَلِكَ جَبْرَئِيلُ إِكْرَاماً لَهُمَا وَ تَعْظِيماً(۱)

امام حسن اور امام حسین (ع)اپنے بچپن کے دوران اکثر علوم وفنون اور معارف اسلامی میں مسابقہ کرتے تھے ۔ ایک دن دونوں نے خوشخطی کا مقابلہ کیا اور ،پیغمبر۷کے پاس لائے اور کہا :نانا جان ہم دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے؟ فرمایا: عزیزان میں لکھنا تو نہیں جانتا ،میں نے کبھی لکھا بھی نہیں نہ کسی مکتب میں پڑھا ہواہے اسے بابا علی (ع) کے پاس لے جاؤ وہ کاتب وحی بھی ہیں۔ دونوں نے فرمایا آپ کی بات بالکل درست ہیں ۔گئے اور بابا کے سامنے رکھ دئے۔علی (ع)نے فرمایا: دونوں لکھائی اچھی اور خوبصورت ہیں۔ بچوں نے کہا آپ یہ بتائیں کونسی لکھائی بہتر ہے ؟فرمایا اگر آپ دونوں مدرسہ جاتے اور اپنے استاد کو دکھاتے تو اچھا تھا ۔ لیکن آپ دونوں نے خود سیکھے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اپنی ماں کے پاس لے جاؤ جو فیصلہ وہ کرے گی ،ہمارے لئے قبول ہے ۔ حسنین (ع)نے کہا ٹھیک ہے ۔جب اپنی ماں سے اسی طرح سوال کیا تو فرمایا:دونوں کی لکھائی اچھی ہیں۔ ان دونوں خطوں کے درمیان فرق پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ جو چیز نانا اور بابا نے میرے پاس بھیجی ہیں اس میں مجھے زیادہ دقّت کی ضرورت ہے۔حضرتزہرا (س)نے اپنی گردن بند کو کھولا جس میں سات دانے تھے۔ کہا : میں یہ دانے زمین پر گراتی ہوں ،آپ دونوں میں سے جس نے بھی دانے زیادہ اٹھائے اسی کا خط بہتر ہوگا۔ جب گرائی تو دونوں نے ساڑھے تین ساڑھے تین دانے اٹھائے۔ نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئے۔ آخر جواب تو وہی نکلاجو بابا اور نانا نے دئے تھے۔اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا یہ دانہ توڑ دے ۔ تو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑے بلکہ خدا نے دوبرابر کیا۔ اور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے۔

والدین نظم و حقوق کی رعایت کریں

المؤمنین (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیامبر اسلام (ص)میرے گھر پر آرام فرمارہے تھے، امام حسن (ع)نے پانی مانگا ۔ آپ اٹھے اور کچھ دودھ لیکر آئے اور امام حسن (ع)کو پیش کی ،امام حسین (ع)نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کاسہ خود لیکر پینا چاہا ۔ پیامبر اسلام (ص)کے امام حسن کی حمایت کی اور امام حسین کو نہیں دیا۔یہ منظر حضرت زہرا (س) دیکھ رہی تھی ،کہنے لگی: یا رسول اللہ(ص)!کیا حسن سے زیادہ محبت ہے؟تو فرمایا :نہیں بلکہ اس لئے حسن کا دفاع کررہا ہوں کہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا۔میں نے اس کی نوبت کی رعایت کی ہے-(۲)

ایک شخص رسول خدا کی خدمت میں اپنے دو بچوں کیساتھ حاضر ہوا ،ایک بچے کو پیار کیا دوسرے سے کوئی محبت کا اظہار نہیں کیا ۔ تو آپ نے فرمایا: یوں اپنے بچوں میں غیر عادلانہ رفتار نہ کرو،بلکہ ان کے ساتھ اسی طرح مساوات اوربرابری کا رویہ اختیار کرو جس طرح دوسرے تمھارے ساتھ رویہ اختیار کرنا چاہتے ہو(۳)

بچے کو خدا شناسی کا درس دیں

بیٹے کے حقوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :و اما حق ولدک ، فتعلم انه منک، ومضاف الیک فی عاجل الدنیا بخیره و شره؛ وانک مسؤل عما ولیته من حسن الادب و الدلالة علی ربه ، والمعونة علی طاعته فیک و فی نفسه ، فمثاب علی ذالک و معاقب، فاعمل فی امره عمل المتزین بحسن اثره علیه فی عاجل الدنیا المعذر الی ربه فیما بینک وبینه بحسن القیام علیه، والاخذ له منه ولاقوة الا بالله -(۴) یعنی بیٹے کا حق باپ پر یہ ہے کہ اسے اپنی اولاد سمجھے اور اس دنیا میں اس کی نیکی اور بدی کو تیری طرف نسبت دی جائے گی ، اور تو ہی اس کا ولی ہوگا ، اور تم پر لازم ہے کہ اسے با ادب بنائے اسے اصول دین کا سبق سکھائے اور خدا کی اطاعت اور بندگی کی راہ پر لگائے اور اس سلسلے میں ان کی مدد کرے تاکہ خدا کے نزدیک تو سرخ رو ہو سکے اور اجر پا سکے، اگر ان امور میں سستی کی تو عذاب الہی کو اپنے لئے آمادہ کیا ہے ، پس ضروری ہے کہ ان کو کچھ اس طرح تربیت دیں کہ تیرے مرنے کے بعد جب لوگ اسے دیکھے تو تجھے اچھے نام سے یاد کریں ، اور تو بھی خداکے سامنے جواب دہ ہو اور اجر وثواب پا سکے۔

شیخ شوشتری جو اپنے زمانے کے نامور عرفاء میں سے تھے ٨٠ سال کی عمر میں ٢٨٣ھ میں وفات پاچکے ہیں، کہتے ہیں: میں تین سال کا تھا کہ دیکھا میرے ماموں محمد بن سواد رات کے وقت نماز شب میں مصروف ہیں۔ مجھ سے کہا بیٹا کیا اپنےخدا کو یاد نہیں کروگے جس نے تجھے پیدا کیا ہے؟ میں نے کہا: کیسے اسے یاد کروں؟ تو جواب دیا جب سونے کا وقت آئے تو ٣بار دل سے کہو: (خدا میرے ساتھ ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کے حضور میں ہوں )۔ کچھ راتیں گزر گئیں پھر مجھ سے کہا اس جملے کو سوتے وقت ٧ مرتبہ پڑھ لیا کرو۔ میں نے ایساکیا تو اس ذکر کی لذت اور مٹھاس کو میں محسوس کرنے لگا۔ ایک سال کے بعد مجھ سے کہا اسے اپنی پوری زندگی پڑھا کرو۔ یہی ذکر تمھیں دنیا و آخرت دونوں میں سرخ رو کریگا۔ اس طرح میرے پورے وجود میں بچپنے میں ہی خدا پر ایمان مضبوط ہوگیا تھا(۵)

____________________

۱ ۔ بحار الانوار،ج۴۳،ص۳۰۹۔

۲ ۔ ہمان،ج٢٣،ص٢٧٣۔

۳ ۔ بحار،ج٢٣،ص١١٣۔

۴ ۔ حقوق اسلامی،ص ۱۵۶۔

۵ ۔ الگوہائی تربیت کودکان ونوجوانان،ص٤٩۔

کاشف الغط(رح)اور بیٹے کی تربیت

حضرت آیةاللہ شیخ جعفر کاشف الغطاء(رح) اپنے بچے کی تربیت کرنے کیلئے ایک مؤثر طریقہ اپناتے ہیں ، وہ یہ ہے: آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا بھی سحر خیزی اور نماز شب کا عادی ہوجائے۔ اور آخر عمر تک اس عمل کو انجام دیتے رہے۔ ایک رات اذان صبح سے پہلے بیٹے کے بسترے کے قریب آئے اور بالکل آرام سے اسے بیدار کرنے لگا اور کہا عزیزم !اٹھو اور مولا علی (ع)کے حرم مطہر میں شرف یاب ہوجائیں ۔ بیٹے نے کہا بابا آپ جائیں میں بعد میں آوں گا ۔ کہا نہیں بیٹا میں منتظر رہوںگا۔ بیٹا اٹھا اور حرم کی طرف وضو کرکے روانہ ہوئے۔ ایک فقیرحرم مطہر کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا۔

اس وقت آیةاللہ کاشف الغطاء (رح)نے کہا: بیٹا ! یہ شخص کس لئے یہاں کھڑا ہے؟

کہا : بھیک مانگنے کیلئے۔

کہا :اس کو کتنا درہم ملتا ہوگا؟

بیٹا :شاید کچھ رقم ملتا ہوگا اور واپس جاتا ہوگا۔

کیا یقینا اسے دینار ملتا ہوگا؟

بیٹا:البتہ یقینا تو پیش بینی نہیں کرسکتا لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور ملتا ہوگا ۔یا ممکن ہے خالی ہاتھ بھی جاتا ہوگا۔

یہاں جس نکتے کی طرف آپ بچے کو متوجہ کرانا چاہتے تھے ٹھیک اسی جگہ پر آگئے اوراپنے مطلب کیلئے زمینہ فراہم ہوگیااور فرمایا: بیٹا دیکھ یہ گدا گر کمانے کیلئے سویرے سویرے یہاں آتا ہے جبکہ اسے سوفیصد یقین تونہیں پھر بھی اتنی جلدی نیند سے بیدار ہوکر آتا ہے؛ لیکن تمھیں تو اس ثواب پر پورا پورا یقین ہے کہ جو خدا تعالی نے سحر خیزی کیلئے معین کیا ہے اور ائمہ طاہرین کے فرامین پر بھی یقین رکھتے ہو ، پس کیوں سستی کرتے ہو؟!!

اس خوبصورت تمثیل نے اتنا اثر کیا کہ بیٹے نے زندگی کے آخری لمحات تک نماز شب کو ترک نہیں کیا-(۱)

ہمارے لئے بھی یہی درس ملتا ہے کہ اگر چاہتے ہوں کہ ہمارے بچے بھی سحر خیز ہوں تو پہلے ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ(ص)کے پاس ایک ماں اپنے بیٹے کو لے آئی کہ اسے نصیحت کرے کہ وہ خرما نہ کھائے۔ کیونکہ حکیموں نے اس کیلئے منع کیا ہے۔ یا رسول اللہ (ص) اسے نبوت کی مبارک زبان سے سمجھائیں ممکن ہے وہ باز آجائے۔ آپ نے فرمایا:بہت اچھا آج اس کو لیجائیں کل لے آئیں۔ دوسرے دن جب آئی تو بڑی نرمی سے نصیحت کی : بیٹا ماں کی باتوں کو سنا کرو اور کھجور کھانے سے پرہیز کرو تاکہ تمھاری بیماری ٹھیک ہوجائے اور بعد میں تم زیادہ کھجور کھا سکے۔اور زیادہ کھیل کود سکے۔اور خوش وخرم زندگی کرسکے اور تیری ماں بھی تجھ پر راضی ہوسکے۔ بچے نے آپ کی باتوں کو قبول کرلی اور کہا: اب بات سمجھ میں آئی کہ کیوں کھجور نہ کھاؤں۔ اب میں دلیل سمجھ گیا ۔ جب باتیں ختم ہوئیں تو ماں نے تشکر کرنے کے بعدکہا:یا رسول اللہ (ص)یہی باتیں کل بھی تو آپ بتا سکتے تھے ۔ فرمایا : کیونکہ کل میں خود کھجور کھا چکا تھا ۔ اچھی بات اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب خود اس پر عمل کرے(۲)

امام خمینی(رح)اور بچوں کے دینی مسائل

امام خمینی کی بیٹی نقل کرتی ہے کہ امام خمینی(رح)بچوں پر بہت مہربان تھے۔ ہم گھر میں بڑے مہر ومحبت کیساتھ رہتے تھے لیکن ہم جب کوئی خلاف کام کرتے تو سختی سے منع کرتے تھے۔ عملی طور پر ہمیں سمجھایا ہوا تھا کہ کوئی کام ان کے میل یا مرضی کے خلاف نہیں کریں گے۔ ہم بھی فروعی کاموں میں آزاد لیکن اصولی کاموں میں سخت مقید تھے۔ ہم میں سے کسی کی مجال نہیں تھی کہ مخالفت کرے۔ ہمیشہ ہمیں مقید رکھتے تھے کہ کوئی گناہ نہ کریں اورآداب اسلامی کی پابندی کریں۔ اس کے علاوہ ہم جتنا شوروغل مچائیں کچھ نہیں کہتے تھے اور نہ کوئی اعتراض کرتے۔ ہاں اگر کسی پڑوسی کی طرف سے کوئی شکایت آئے تو سختی سے اعتراض کرتے تھے۔ ہم گھر کے صحن میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے۔ نماز کے وقت بھی اگر کھیلتے رہے تو کبھی نہیں کہا ،بچو اذان کا وقت ہوگیا ہے آؤ وضو کریں نماز پڑھیں۔بلکہ خود اذان سے آدھا گھنٹہ پہلے مصلّی پر کھڑے ہو جاتے تھے اورآپ کو دیکھ کر ہم بھی نماز کیلئے تیار ہوجاتے۔اور جب بھی ہمیں کسی کام سے روکتے تھے زندگی بھر میں وہ کام انہیں انجام دیتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھے،حجاب اور پردے کے بارے میں سخت حساس تھے، اور گھر میں کوئی بھی غیر اخلاقی باتیں جیسے غیبت،جھوٹ ،کسی بڑے کی بے احترامی یا کسی مسلمان کی توہین نہیں کرنے دیتے ۔ آپ معتقد تھے کہ بچے آزادانہ کھیل کود کریں۔ فرماتے تھے اگر بچے شرارت نہ کرے تو وہ بیمار ہے اس کی علاج کرنا چاہئے۔

آپ کے بیٹے سید احمد خمینی(رح)سے جب انٹرویو لیا گیا تو فرمایا: میری بیوی گھریلو عادت کے مطابق بچی کو میٹھی نیند سے نماز صبح کیلئے اٹھایا کرتی تھی۔ جب امام خمینی کو یہ معلوم ہواتو پیغام بھیجا کہ : اسلام کی مٹھاس کو بچے کیلئے تلخ نہ کرو۔! یہ باتاس قدر مؤثر تھی کہ میری بیٹی اس دن کے بعد خود تاکید کرتی تھی کہ انھیں نماز صبح کیلئے ضرور جھگایا کریں ۔ اس وقت میں نے لااکراہ فی الدین کو سمجھا(۳)

بچوں کومستحبات پر مجبور نہ کریں

والدین کو چاہئے کہ ان پر سختی نہ کریں اور مستحبات پر مجبور نہ کریں، کیونکہ اس کا نتیجہ منفی ہوگا جیسا کہ اس مسیحی کا قصہ مشہور ہے کہ مسلمان بھائی نے جسے صبح سے لیکر رات تک مسجد میں قید رکھا ،دوسرے دن جب اسے جگانے گیا تو اس نے کہا : بھائی مجھے بال بچے بھی پالنا ہے تواورکسی بے کار آدمی کو تلاش کرو ۔ اس طرح وہ دوبارہ مسیحیت کی طرف چلاگیا۔

ایک جوان کہتا ہے کہ ہمارے والد صاحب ہم تمام بہن بھائیوں کو نماز شب کیلئے جگایا کرتے تھے۔میں بہت چھوٹا تھا نیند سے اٹھنا میرے لئے سخت ہوتاتھا، جب مجھے آواز دیتا تھا، حسن اٹھوتو میں بستر میں لیٹ کر ہی زور سےولا الضالین یا الله اکبر

کہتا تھا(۴)

____________________

۱ ۔ ہمان،ص٢٠٨۔

۲ ۔ ہماں،ص٣١٦۔

۳ ۔ خاطرات فریدہ خانم مصطفوی ،پابہ پای آفتاب،١٠٠۔

۴ ۔ قصص العلما،ص١٨٥۔

بچوں کی تربیت میں معلم کا کردار

ابوسفیان کا بیٹا معاویہ نے ٤١ھ میں مسند خلافت پر آنے کے بعد یہ ٹھان لی کہ علی (ع)کو لوگوں کے سامنے منفورترین آدمی کے طور پر پہچنوائیں ۔ اس مکروہ ہدف کے حصول کیلئے علی (ع)کے دوستوں کو تلوار اور نیزوں کے ذریعے فضائل على (ع)بیان کرنے سے منع کیا گیا، دوسری طرف علی (ع)کے دشمنوں کو بیت المال میں سے جی بھر کے مال وزر دیا گیا تاکہ آپ کے خلاف پیامبر(ص) کی طرف سے احادیث گڑھیں۔ اس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں یہ حکم جاری کردیا گیاکہ نمازجمعہ کے بعد ہر مسجد سے ان پر لعن کیا جائے ۔یہ عملی بھی ہوا اور بچے باتوں باتوں میں آپ پر لعن کرنے لگے۔ عمر عبد العزیز جو اموی خلفاء میں سے ہے،بچپن میں دوسرے بچوں کے ساتھ علی (ع) پر لعن کررہا تھا اس وقت وہاں سے ان کے استاد جو ایک مؤمن اور صالح انسان تھا کا گزر ہوا ۔ وہاں سے توخاموش نکل گئے،لیکن جب مدرسہ کا وقت ہوااور عمر آیا تو استاد نماز میں مشغول ہوا ۔ نماز کو طول دینا شروع کیا ، عمر سمجھ گیا کہ نماز تو صرف بہانہ ہے۔

عمر نے پوچھا :حضرت استاد کیا میں ناراضگی کی علت دریافت کر سکتا ہوں؟

تو استاد نے کہا : بیٹا کیا آج تم نے علی پر لعن کی؟

کہا: ہاں ۔

کب سے تمہیں معلوم ہوا کی اہل بدر پر خدا غضبناک ہوا ہے؟ جبکہ ان پر خدا راضی ہے۔کیا علی اہل بدر میں سے نہیں تھے؟

کہا: کیا بدر اور اہل بدر کیلئے ان کے صالح اعمال کے سوا کوئی اور چیزباعث افتخار ہے؟

عمر نے کہا: میں آپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد زندگی بھر ان پر لعن نہیں کرونگا۔ کئی سال اسی طرح گزرگئے۔ ایک دن ان کے والد جو حاکم مدینہ تھا نماز جمعہ کا خطبہ فصیح وبلیغ انداز میں دیتا تھا۔ لیکن جب علی پر لعن کرنے کا وقت آتا تھا تو اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوجاتی جس سے عمر کو بہت تعجب ہوا۔

کہا بابا جان میں نہیں جانتا کہ کیوں کر آپ کی فصاحت وبلاغت ادھر آکر ماند پڑ جاتی ہے اور زبان بند ہوجاتی ہے؟!

کہا میرے بیٹے؛ اس پر تو متوجہ ہوا؟!

بیٹے نے کہا:جی ہاں۔

باپ نے کہا: میرے بیٹے صرف تمہیں اتنا بتادوں کہ اگر اس مرد الہی (علی (ع)) کے فضائل میں سے جتنا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو پتہ چل جاتے تو یہ سب ان کی اولادوں کے گرویدہ ہوجاتے اور ہمارے پیچھے کوئی نہیں آتے۔

جب عمر بن عبدالعزیز نے یہ سنا تو اپنے استاد کی نصیحت پربھی یقین ہوگیا۔اس وقت اس نے یہ عہد کرلیا کہ اگر کبھی برسر اقتدار آئے تو ضرور اس نازیبا عمل کو روک دوں گا۔

اور جب ٩٩ھ میں یہ برسر اقتدار آیا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ علی پر لعن وشتم کو ممنوع قرار دیا ۔ اس لعن کے بدلے انّ اللہ یأمر بالعدل والاحسان کی تلاوت کرنے کا حکم دیا۔

بچوں کو تعلیم دینے کا ثواب

پیامبر اسلام (ص) نے فرمایا: جب استاد بچے کو تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھواتا ہے تو اس وقت خدا وند اس بچے اور اس کے والدین اور معلّم کو آتش جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتا ہے-(۱)

امام صادق(ع) نے رسولخدا (ص)کے روایت کی ہے: ایک دن حضرت عیسیٰ A ایک قبر کے قریب سے گزرے اس صاحب قبر پر عذاب ہورہا تھا دوسرے سال جب وہاں سے گذرے تو عذاب ٹل چکا تھا۔ سوال کیا پروردگارا کیا

ماجراہے؟وحی آئی اس کے بیٹے نے ایک راستے کی مرمت کی اور ایک یتیم کو پناہ دی، اس نیک عمل کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات دی۔

علم دین سکھانے پرثواب

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین (ع) کے بیٹے کو سورۂ حمد یاد کرایا تو امام نے معلم کی قدر دانی کرتے ہوئے کچھ پیسے اور کپڑے دئے اور اس معلم کے منہ کو جواہر سے بھر دیا ۔ تو وہاں پر موجود لوگوں نے تعجب کیساتھ کہا: اتنا زیادہ انعام؟!تو امام (ع) نے فرمایا : کہاں یہ مالی انعام اس معلم کی عطا کے برابر ہوسکتا ہے؟(۲)

والدین سے زیادہ استاد کا حق

سکندر اپنے استاد کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا ، جب اس سے وجہ پوچھی گءی تو کہا: کیونکہ میرے باپ نے مجھے عالم ملکوت سے زمین پر لایا اور استاد نے زمین سے اٹھا

کرآسمان پر لے گیا-(۳)

امام سجاد(ع) فرماتے ہیں : تیرے استاد کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو اسے بزرگ سمجھے اور مجالس میں اس کا احترام کرے۔ اس کی باتیں غور سے سنے اور ان پر توجہ دے۔ اپنی آواز اس سے بلند نہ کرے اور اگر کوئی شخص اس سے کچھ پوچھے تو تو جواب نہ دے اور لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے دے اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرے اور جب کوئی تیرے سامنے اس کی برائی کرے توتواس کا دفاع کرے ، تو اس کے عیوب پر پردہ ڈالے اور اس کی اچھائیاں ظاہر کرے۔ اس کے دشمنوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کا آغاز نہ کرے۔ اگر تو اس طرح کرے گا تو خدا تعالی کے فرشتے گواہی دینگے کہ تو نے اس جانب توجہ دی ہے اور تو نے علم لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کیلئے نہیں بلکہ خدا کیلئے حاصل کیا ہے۔اور شاگردوں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو یہ جان لے کہ خدا تعالی نے تجھے جو علم بخشا ہے اور اس کی جو راہیں تجھ پر کھولی ہیں اس کے سلسلے میں تجھے ان کا سرپرست قرار دیا ہے ۔لہذا اگر تو انھیں اچھی طرح پڑھائے اور نہ انہیں ڈرائے اور نہ ہی ان پر غضبناک ہو تو خدا تعالی اپنے فضل سے تیرا علم بڑھائے گا اور اگر تو لوگوں کو اپنے علم سے دور رکھے اور جب وہ تجھ سے اس کی خواہش کریں تو انھیں ڈرائے اور ان پر غضبناک ہو تو عین مناسب ہوگا کہ خدا تعالی تجھ سے علم کی روشنی چھین لے اور لوگوں کے دلوں میں تیری حیثیت گھٹادے(۴)

والدین کی ظلم ستانی اور فراری بچّے

یہ ایک ستم رسیدہ بچی کا خط ہے جو اپنے باپ کے ظلم وستم سے دل برداشتہ ہوکر گھر سے فرارہونے سے پہلے لکھا ہے:

بابا یہ اولین اور آخرین خط ہے جسے غور سے پڑھ لو شاید آپ کا ضمیر جو مردہ ہوچکاہے بیدا ر ہوجائے اور سمجھے کہ کس قدر تو خود خواہ اور پست فطرت انسان ہو!بابا میں تجھ سے متنفر ہوں دوبارہ تیرے منحوس چہرے کو نہیں دیکھوں گی،تو اس قابل نہیں کہ تجھے باپ کہہ کر پکاروں۔بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تو باپ ہونے کیلئے کبھی خلق نہیں ہوا۔تو ایک پلید اور کثیف بلا ہو۔ تو نے مجھے بچپن سے لیکر اب تک ساری چیزوں سے محروم رکھا ، میری پیاری ماں کو طلاق دیکر خوشی اور نشاط کا دروازہ مجھ پر بند کردیا۔جبکہ میرے لئے میری ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔ ایک بیٹی کیلئے ماں سے بڑھ کر اور کون دل سوز ہوسکتا ہے؟ میں کبھی بھی اس دن کو فراموش نہیں کروں گی جس دن تو نے میری ماں کو طلاق دی اور انہوں نے مجھے آخرین بار اپنے آغوش میں لے کرگرم آنسؤں سے میرے چہرے کو تر کرکے چلی گئی ۔ اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلی گئی وہ زندہ ہے یا مردہ؟

لیکن اس دن جب تو نے مجھے آواز دی بیٹی میں تیرے لئے خوش خبری لایا ہوں ، کہ میری ماں مر گئی ہے ۔یہ کہہ کر قہقہہ لگانا شروع کیا ۔ اس دن ماں سے ملنے کی امید بالکل ختم ہوگئی ۔ اور جب میں اپنی ماں کی جدائی میں رونے لگی تو تو نے ٹھوکر مجھے ماری اور میں بیہوش ہوگئی اور میں نہ جان سکی کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟!بابا کیا مجھے ماں کی جدائی میں رونے کا بھی حق نہ تھا؟ ارے بابا اب میں وہ نو سالہ نہیں رہی اب میں تیرے اس وحشی رویّے کو برداشت اور تحمل نہیں کرسکتی ۔ یہ رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے ہیں۔ جب کہ تو اور تیری بیوی فلم ہال سے واپس گھر نہیں پہنچے ہیں ۔ کل صبح میں اس جہنم سے ہمیشہ کیلئے نکل جاؤں گی۔ اور دنیا والوں کو بتادوں گی کہ ایسے ظالم ،بے رحم اور سنگدل باپ بھی دنیا میں

موجود ہیں ۔ مگر لوگوں کو یقین نہیں آئے گا-(۵)

____________________

۱ ۔ جامع احادیث شیعہ،ج١٥، ص٩۔

۲ ۔ مستدرک الوسائل،ج١، ص٢٩٠

۳. کشکول شیخ بہائی، ص٢٧۔

۴ ۔ مکارم الاخلاق،ص٤٨٤.

۵ ۔ الگوئی تربیت کودکان و نوجوانان،ص٢٤٨۔

اولاد صالح خدا کی بہترین نعمت

حسن بن سعید کہتاہے کہ خدا نے ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست کو بیٹی عطا کی تو وہ بہت افسردہ حالت میں امامصادق (ع) کی خدمت میں آیا۔ امام (ع) نے فرمایا:کیوں مغموم ہو؟اگر خدا تعالی تجھ پر وحی نازل کرے اور کہے کہ تمہارے بارے میں میں فیصلہ کروں یا تم فیصلہ کروگے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟اس نے عرض کیا: میں کہوں گا بار خدایا! جو تو انتخاب کرے وہی میرے لئے ٹھیک ہے۔امام نے قرآن کی اس آیہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت خضر A کی داستان ذکر ہوئی ہے، کہ حضرت خضر (ع) نے ایک لڑکے کو پکڑ کر مارڈالا جس پر حضرت موسی (ع)کو سخت اعتراض کیا تھا،جس کی علت یوں بتائی :

( فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا )(۱) ۔

"تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی"

خدا تعالی نے اس بیٹے کے بدلے میں انہیں ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے ٧۰ ستّر پیامبران الہی وجود میں آئے-(۲)

دوران جاہلیت میں بچیوں کی ولادت پر ماں باپ بہت مغموم ہوجاتے تھے۔ ایک دن امیر اسحاق بن محمد کو خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹی ہوئی ہے، تو ہو بہت مغموم ہوگیا اور کھانا پینا بھی چھوڑدیا۔ بہلول عاقل نے جب یہ خبر سنی تو کہا : اے امیر! کیا خدا نے سالم اور بے عیب ونقص بیٹی عطا کی اس لئے تم مغموم ہوگئے؟!کیا تیرا دل چاہتا تھا کہ مجھ جیسا ایک پاگل بچہ تجھے عطا ہو؟!

اسحاق بے اختیار اس حکیمانہ باتوں کو سن کر مسکرانے لگا اور خواب غفلت سے بیدار ہوا-(۳)

تحفہ بیٹی کو پہلے دے

رسولخدا (ص)نے فرمایا:جو بھی بازار جائے اور کوئی تحفہ اپنے گھر والوں کیلئے خریدے تو ایسا ہے کہ مستحق افراد میں صدقہ دیا ہو۔ اس تحفہ کو تقسیم کرتے وقت بیٹیوں کو بیٹوں پر مقدم رکھے۔کیونکہ جو بھی اپنی بیٹی کو خوش کرے تو ایسا ہے جیسے اولاد اسماعیل (ع) میں سے ایک غلام آزاد کیا ہو۔ اور اگر بچے کو خوش کیا تو خوف خدا میں گریہ کرنے کا ثواب ہے۔ اور جو بھی خوف خدا میں روئے وہ بہشتی ہے-(۴)

____________________

۱ ۔ الکہف،٨١.۲ ۔ سفینة البحار،ج١،ص١٠٨ ۳ ۔ مجموعہ قصص و حکایات بہلول عاقل .۴ ۔ آثار الصادقین،ج١٥،ص٣١٠۔

بچوں پر باپ کے حقوق

باپ تمام نعمتوں کا باعث

واما حق ابیک ، فتعلم انه اصلک ، وانک فرعه ؛ اونک لولاه ، لم تکن؛ فمهما رایت فی نفسک مما یعجبک فاعلم ان اباک اصل النعمة علیک فیه ، واحمدالله و اشکره علی قدر ذالک ولاقوة الا بالله -(۱)

اولاد پر باپ کا حق یہ ہےکہ جان لو وہ تمھارا اصل اور جڑ ہے اور تو اس کا فرع اورشاخ ۔ اگر وہ نہ ہوتا تو تو بھی نہ ہوتا ۔ اور خدا کی تچھ پر نعمتوں کا موجب وہ تھا ، اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو۔اور کوئی بھی طاقت خدا کی طاقت سے زیادہ نہیں ہے ۔

اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر انسان یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کا مہربان باپ نے اسے بہت ساری مشکلات اور سختیوں سے نجات دلائی ہے اور محفوظ رکھا ہے ، ہمارے بچپنے کازمانہ لیجئے کہ ہماری جسمانی طور پر پرورش کرنے کیلئے دن رات کوشش اور محنت کرتے ہیں اور اپنا سکون اور چین کھو دیتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کہ خدا کی عبادت اور شکر گزاری کے بعد والدین کی شکر گزاری بھی ضرور کرنا چاہئے۔لیکن حدیث شریف کی روشنی میں پھر بھی کما حقہ ان کا شکر ادا نہیں کرسکتے:عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا فِي خَصْلَتَيْنِ أَنْ يَكُونَ الْوَالِدُ مَمْلُوكاً فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيَهُ عَنْه -(۲) حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ امام محمد باقر سے سوال کیا کہ کیا بیٹا اپنے باپ کا حق ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟! تو فرمایا : صرف دو صورتوں میں ممکن ہے : پہلا یہ کہ اگر باپ کسی کا غلام ہو اور اسے بیٹا خرید کر آزاد کردے ، یا اگر کسی کا باپ مقروض ہو اور بیٹا اس کا قرض ادا کرے ۔

باپ کا احترام واجب

قرآن مجید کی آیتوں کے علاوہ روایات اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق اور احترام کا سختی سے حکم دیا گیا ہے، اور ساتھ ہی احترام کرنے کا ثواب اور اثر اور نہ کرنے کا عقاب اور اثر بھی جگہ جگہ ملتا ہے۔ چنانچہ امام صادق سے منقول ہے :ان یوسف لما قدم علیه الشیخ یعقوب دخله عزالملک فلم ینزل الیه فهبط علیه جبرئیل فقال : یا یوسف ابسط راحتک فخرج منها نور ساطع فصار فی جوالسماء فقال یوسف : یا جبرائیل ما هذا النور الذی خرج من راحتی؟!! قال: نزعت النبوة من عقبک عقوبة لما لم تنزل الی الشیخ یعقوب فلا یکون من عقبک نبی -(۳) امام صادق (ع) سے مروی ہے کہ جب حضرت یعقوب مصر میں وارد ہوئے حضرت یوسف (ع) بھی بہت سارے لوگوں کے ساتھ ان کی استقبال کے لئے نکلے ۔ جب نزدیک ہوئے تو مقام و جلالت شہنشاہی سبب بنی کہ آپ سواری سے نیچے نہیں اترے ۔(اگرچہ نہ بعید نظر آتا ہے کہ خدا کا نبی ایسا کرے ! بہرحال روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے بررسی کرنے کی ضرورت ہے) تو جبرئیل امین نے کہا : اے یوسف! ہاتھ کھولو۔اور جب یوسف نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک نور آسمان کی طرف ساطع ہونے لگا۔ تو حضرت یوسف نے سوال کیا جبرئیل یہ کیا ہے؟! جبرئیل نے کہا : یہ نبوت کا نور تھا کہ تیری نسل سے خارج ہوگیا۔ اور یہ اس لئے تیری نسل سے خارج ہوگیا کہ تم اپنے باپ کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اترے۔اسی لئے سلسلہ نبوت آپ کے بھائی کے صلب سے جاری ہوا۔ پیامبر اسلام کے ایک قریبی رشتہ دار نے سوال کیا : میرے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا میرے اوپر حق ہے کیسے اسے اتاروں؟ تو فرمایا: ان کے لئے نماز پڑھو، مغفرت طلب کرو، اور ان کی وصیت پر عمل کرو، اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رکھو،اور فرمایا : ماں کا حق باپ کےحقوق کے دوبرابر ہے-(۴)

بچوں پر ماں کے حقوق

وحق امک ان تعلم انها حملتک حیث لا یحتمل احد احدا ، وطاعتک من ثمره قلبها ما لا یعطی احد احدا ، ووقتک بجمیع جوارحها ، ولم تبال انتجوع وتطعمک ، وتعطش وتسقیک ، وتعریٰ وتکسوک ، وتضحیٰ وتظلک ، وتهجر النوم لاجلک ، ووفقتک الحروا البرد لتکون لها ، فانک لا تطیق شکرها ال یعون الله وتوفیقه(۵)

تیری ماں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تجھے اٹھاتی رہی کہ کوئی بھی کسی کو اس طرح نہیں اٹھاتا۔ اور اپنےدل کا پھل کھلاتی رہی کہ آج تک کسی نے کسی کو نہیں کھلایا۔ اور وہ اپنی پوری طاقت اور پورے وجود کے ساتھ تمھاری حفاظت کرتی رہی۔ اور اپنی بھوک اور پیاس کی پروانہیں کی لیکن تجھے وہ سیر اور سیراب کرتی رہی۔ اور خود برہنہ رہی لیکن تجھے لباس کا بندوبست کرتی رہی ۔ اور خود کو دھوپ میں اورتجھے اپنی محبت کےسایہ میں رکھتی رہی،اور خود اپنی رات کی نیند اور آرام کی پروا نہیں لیکن تمھاری نیند اور آرام وسکون اور گرمی اور سردی سے محفوظ رکھتی رہی، تاکہ تو اس کا بن کے رہے، پس تو کسی بھی صورت میں اس کی شکرگزاری

نہیں کرسکتا مگر یہ کہ خدا تجھے اس کی توفیق دے۔

امام سجاد کے کلام میں باپ کے حقوق پر ماں کے حقوق کو مقدم کیا ہے ، شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بیٹے کی شخصیت سازی میں ماں کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ اور زیادہ زحمتیں اور مشقتیں برداشت کرتی ہیں۔اور یہ دین مبین اسلام کا طرہ امتیاز ہے وگرنہ دوسرے مکاتب فکر اور ادیان والے اتنی عظمت اور احترام کے قائل نہیں ہیں۔

عورت کو ماں کی حیثیت سے جو حقوق اسلام نے دئے ہیں وہ مغربی دنیا میں وجود نہیں رکھتے۔وہاں جب بچہ قانونی طور پر حد بلوغ کو پہنچتا ہے تو خاندان کو چھوڑ جاتا ہے۔ اور ماں باپ سے بالکل الگ زندگی کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور ایسا رویہ خاندانی ماحول کو بالکل بے مہر و محبت ماحول میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کئی کئی سال گذرجاتے ہیں لیکن اولاد اپنے والدین کو دیکھنے اور ملنے بھی نہیں آتے ۔ اور حکومت بھی مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسے والدین کو بوڑھوں کے گھر منتقل کریں۔

افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیگانوں کی اندھی تقلید نے اسلامی معاشروں میں بھی یہ حالت وکیفیت پیدا کردی ہے۔ جہاں والدین خاندان کے چشم و چراغ ہیں وہاں آہستہ آہستہ انھیں خاندان سے دور اور الگ کرتے جارہے ہیں۔اور بوڑھوں کے گھر بھیجنا شروع کیا ہے۔

قرآن مجید نے اس غلط ثقافت پر مہر بطلان لگادی ہے ۔اور ماں باپ کے حقوق کے بارے میں سختی سے تاکید کی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنی عبادت کا حکم دینے کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی اللہ کی عبادت کے فورا بعد والدین کے حقوق کا خیال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان حقوق کو ہم چند عناوین میں بیان کریں گے۔

____________________

۱ ۔ حقوق اسلامی۔ ص۱۴۶۔

۲ ۔ بحار الانوار ، ج ۱۷، ص ۶۶۔

۳ ۔ حقوق اسلامی ص ۱۴۸۔

۴ ۔ ترجمہ رسالۃ الحقوق،ص۱۳۹۔

۵ ۔ ہمان ، ص ۱۳۱۔