خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض18%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17434 / ڈاؤنلوڈ: 4323
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل

خاندان کے متعلق معصومین کی سفارش

خاندان پر خرچ کریں

امام سجاد(ع) نے فرمایا: خدا تعالی سب سے زیادہ اس شخص پر راضی ہوگا جو اپنے اہل وعیال پر سب سے زیادہ خرچ کرتاہے

عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع قَالَ الَّذِي يَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا يَكُفُّ بِهِ عِيَالَهُ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ -(۱) ۔

امام رضا سے منقول ہے کہ جو شخص اپنے اہل وعیال کے خاطر خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے کسب کرتا ہے تو اس کے لئے اس مجاہد سے زیادہ ثواب ملے گا ،جو راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں۔آپ ہی سے منقول ہے :

أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى عِيَالِهِ كَيْلَا يَتَمَنَّوْا مَوْتَه -(۲) یعنی جس کو بھی خدا تعالی کی نعمتوں پر دست رسی حاصل ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، تاکہ اس کی موت کی تمنا نہ کریں۔ امام صادق(ع) نے فرمایا: مؤمن خدا تعالی کے آداب پر عمل کرتا ہے جب بھی خدا تعالی اسے نعمت اور رزق میں وسعت عطا کرتاہے تو وہ بھی اپنے زیردست افراد پر زیادہ خرچ کرتاہے۔اور جب خدا وند نعمت کو روکتا ہے تو وہ بھی روکتا ہے-(۳) اور فرمایا: جو میانہ روی اختیار کرے گا اس کی میں ضمانت دونگا کہ وہ کبھی بھی مفلس نہیں ہوگا۔

پہلے گھر والے پھر دوسرے

ایک شخص نے امامباقر (ع) سے عرض کیا ، مولا !میرا ایک باغ ہے جس کی سالانہ آمدنی تین ہزار دینار ہے۔ جس میں سے دو ہزار دینار اہل و عیال پر خرچ کرتا ہوں ایک ہزار فقراء میں صدقہ دیتا ہوں۔ تو امام نے فرمایا: اگر دوہزاردینار سے اہل و عیال کا خرچہ پورا ہوتا ہے تو بہت اچھا ہے۔ کیونکہ تو اپنی آخرت کیلئے وہی کام کر رہے ہو جو تیرے مرنے اور وصیت کرنے کے بعد وارثوں نے کرنا تھا۔ تو اپنی زندگی میں اس سے نفع حاصل کر رہے ہو(۴)

اسراف نہ کرو

امام زین العبدین (ع)نے فرمایا: مرد کو چاہئے کہ اندازے سے خرچ کرے اور زیادہ تر اپنی آخرت کیلئے بھیجا کرے۔ یہ نعمتوں کا دوام اور زیادتی کیلئے زیادہ مفید ہے اور روز قیامت کیلئے زیادہ سود مند ہے۔

امام صادق(ع) نے فرمایا؛ میانہ روی ایسی چیز ہے جسے خدا تعالی بہت دوست رکھتا ہے۔ اور اسراف ایسی چیز ہے جس سے خدا تعالی نفرت کرتا ہے ، اسراف ایک دانہ کھجورہو یا بچا ہوا پانی کیوں نہ ہو۔(۵)

روز جمعہ کا پھل

قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع أَطْرِفُوا أَهَالِيَكُمْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْفَاكِهَةِ كَيْ يَفْرَحُوا بِالْجُمُعَةِ(۶) المؤمنین (ع) نے فرمایا: اپنے اہل و عیال کیلئے ہر جمعہ کوئی نہ کوئی تازہ پھل کھلایا کرو تاکہ روز جمعہ سے خوش ہوں۔

خاندان کیساتھ نیکی اورلمبی عمر

امامصادق (ع)نے فرمایا: من حسن برّ ہ باھلہ زاداللہ فی عمرہ ۔جو بھی اپنے خاندان کیساتھ نیکی کرے گا خدا تعالی اس کی زندگی میں برکت عطا کریگا۔اس کے مقابلے میں پیامبر اکرم(ص) نے فرمایاوَ قَالَ ع مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ ضَيَّعَ مَنْ يَعُولُ(۷) لعنتی ہے لعنتی ہے وہ شخص جو اپنے زیر دست افراد کے حقوق دینے میں کوتاہی کرتا ہے۔

خاندان اور آخرت کی بربادی

قال علی (ع) : لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ وَ وُلْدِكَ فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ وَ وُلْدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَهُ وَ إِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّهِ فَمَا هَمُّكَ وَ شُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّهِ(۸)

آپ نے اپنے بعض اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: اپنے بیوی بچوں کے خاطر اپنے آپ کو زیادہ زحمت میں نہ ڈالو ، اگر وہ لوگ خدا کے صالح بندوں میں سے ہوں تو خدا تعالی اپنے نیک بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اگر وہ خدا کے دشمنوں میں سے ہوں تو کیوں خدا کے دشمنوں کے خاطر خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہو۔ پس ایسا نہ ہو کہ ان کی خاطر ہم خدا اور دین خدا کو فراموش کر بیٹھیں اور حلال حرام کی رعایت کئے بغیر ان کو کھلائیں اور پلائیں۔

محبت خاندان کی کامیابی کا راز

خاندان کی بنیاد ،عشق و محبت پر رکھنا چاہئے کیونکہ محبت کا اظہار میاں بیوی کے درمیان آرام و سکون کا باعث بنتا ہے۔ جس کا نتیجہ دونوں کی سعادت اور خوش بختی کی صورت میں پیدا ہوتاہے۔ اورمحبت کی پہلی شرط ایک دوسرے کی روش اور سوچ کی شناخت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان لیں کہ کن چیزوں سے خوش ہوتے ہیں اور کن چیزوں سے ناراض۔بیوی کومعلوم ہو کہ اس کا شوہرکس وقت تھکا ہوتا ہے اور کس وقت اس کے ساتھ گفتگو کرنا ہے۔اور یہ ایسے امور ہیں کہ ہر فرد میں مختلف ہیں ۔ معیار محبت یہ نہیں ہے کہ کسی بھی وقت غصہ میں نہ آئے بلکہ اگر گھر کا کوئی فرد غیر اخلاقی کام کربیٹھتا ہے تو سربراہ کو چاہئے کہ اپنی ناراضگی کا احساس دلائے اور نصیحت کرے۔ ہاں جب محبت زیادہ ہوجاتی ہے جسے عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے غصّہ کرنے میں مانع بنتا ہے۔ لیکن کبھی بھی میاں بیوی ایک دوسرے سے ایسی گہری اور عمیق محبت کا انتظارنہ رکھے۔ میاں بیوی کے درمیان حد اعتدال میں محبت ہو تو کافی ہے۔ بہر حال جس قدر یہ محبت ارزشمند ہے اسی قدر اس کی حفاظت کرنا بھی ارزشمند ہے۔پس ہمیشہ میاں بیوی کو اس محبت کی مراقبت اور پاسداری کرنی چاہئے ، ایسا نہ ہو کہ گھر کی اندرونی اور بیرونی مشکلات ہمیں اس قدر مشغول کردے کہ صفا اور وفا سے دور ہوجائیں ۔ لذا دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے درمیان پیار و محبت ، صلح و صفا اور مہرووفا کاسماں پیداکرے۔

کلام معصوم میں محبت کے عوامل

ایمان محبت کا محور

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَ أَبْغَضَ لِلَّهِ وَ أَعْطَى لِلَّهِ فَهُوَ مِمَّنْ كَمَلَ إِيمَانُهُ -(۹) امام صادق(ع) فرماتے ہیں جو بھی خدا کے خاطر کسی سے محبت کرے یا دشمنی کرے اور خدا ہی کے خاطرکسی کو کچھ دیدے تو وہ ان افراد میں سے ہوگا جن کا ایمان کامل ہوگیا ہو۔ امام باقر (ع)نے فرمایا: اگر تو جاننا چاہتا ہے کہ تیرے اندر کوئی خوبی موجود ہے یا نہیں تو اپنے دل کی طرف نگاہ کرو ، اگر اہل اطاعت اور خدا کے فرمان بردار وں سے محبت اور اہل معصیت سے نفرت موجودہے تو سمجھ لینا کہ تو اہل خیر ہو اور تجھ میں خوبی موجود ہے۔

خوش آمدید کہنا اور استقبال کرنا

ایک دوسرے کو ہاتھ ملانا ، مصافحہ کرنا اور خوش آمدید کہنا محبت میں اضافے کا سبب ہے۔قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص:تَصَافَحُوا فَإِنَّ الْمُصَافَحَةَ تَزِيدُ فِي الْمَوَدَّةِ -(۱۰)

چنانچہ رسولخدا (ص)نے فرمایا : لوگو!ایک دوسرے کیساتھ مصافحہ کروکیونکہ مصافحہ محبت میں اضافہ کرتا ہے۔

حسن ظن رکھنا

امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا:من حسن ظنّه بالناس حازمنهم المحبة -(۱۱)

جو بھی لوگوں پر حسن ظن رکھتا ہے ان کی محبت کو اپنے لئے مخصوص کرتا ہے۔یعنی دوسروں کا دل جیت لیتا ہے۔

بے نیاز ی کا اظہار کرنا

امیرالمؤمنین (ع)نے فرمایا: لوگوں کے ہاتھوں میں موجود مال و متاع سے بے رغبت ہو کر اپنے کو ہر دل عزیز بناؤ(۱۲)

جب ایک شخص پیامبر اسلام (ص) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ (ص)! کیا کروں کہ لوگ مجھ سے محبت کریں؟ آپنے فرمایا: لوگوں کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے مال و متا ع پر نظر نہ جماؤ۔ اور طمع ولالچ نہ کر،تو تم ہر دل عزیز ہو جاؤ گے(۱۳)

سخاوت کرنا

حضرت علی (ع) نے فرمایا:لسخاء يكسب المحبة و يزين الأخلاق يمحص الذنوب و يجلب محبة القلوب -(۱۴) ۔ یعنی سخاوت محبت پیدا کرتی ہےاوراخلاق کی زینت ہے، اورگناہوں کو پاک کرتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں محبت ڈالتی ہے۔

رُوِيَ أَنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَى مُوسَى ع أَنْ لَا تَقْتُلِ السَّامِرِيَّ فَإِنَّهُ سَخِيٌّ (۱۵)

خدا تعالی نے حضرتموسی(ع) پر وحی نازل کی کہ سامری کو قتل نہ کرو،کیونکہ وہ سخاوت مند ہے۔ اور اگر یہی سخاوت مندی ایک مسلمان یا مؤمن میں ہوتو کتنی بڑی فضیلت ہے۔

امام صادق(ع) نے فرمایا:اے معلّی اپنے بھائیوں کی خدمت کرکے ان کی محبت اور دوستی حاصل کر،کیونکہ خدا تعالی نے محبت کو بخشش میں اور دشمنی کو عدم بخشش میں رکھا ہے۔(۱۶)

____________________

۱ ۔ الکافی ،ج۵، ص۸۸۔۲ ۔ الکافی ، ج۴ ، ص۱۱۔۳ ۔ ھمان، ص ٢٥٩۔۴ ۔ ہمان،ص٢٥٧۔۵ ۔ ہمان،ج٢٥، ص٢٤٩ ۔ ۲۵۰۔

۶ ۔ بحار، ج١٠١،ص ٧٣۔۷ ۔ من لایحضرہ ،ج۳، ص ۵۵۵۔۸ ۔ بحار ج ۱۰۱، ص ۷۳۔ ۹ ۔ الکافی،ج۲، ص۱۲۴۔

۱۰ ۔ مستدرک الوسائل،ج۹، ص۵۷۱۱ ۔ غرر الحکم،ص۲۵۳ ۔۱۲ ۔ دار السلام ،ص٤١٣۔۱۳ ۔ سفینة البحار،باب سجد۔

۱۴ ۔ غرر الحکم،ص۳۷۸۔۱۵ ۔ وسائل الشیعہ،ج۹، ص۱۸۔۱۶ ۔ ہمان، ص ٤٢١۔

پانچویں فصل

خاندانی اختلافات اور اس کا عل

خاندانی اختلافات

جس طرح مختلف معاشرے اورممالک ایک جیسے نہیں ہوتے اسی طرح سب خاندان کے افراد بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ بعض اوقات اختلافات اور مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اور دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پر غم و غصہ نکالنا شروع کرتے ہیں۔اس طرح گلے شکوے سے اپنے سینوں کو خالی کرکے اپنے کو ہلکا کرتے ہیں۔کبھی کبھی یہ گلے شکوے بھی مفید ثابت ہوتے ہیں۔اگر اظہار کا موقع نہ ملے تو شعلے کی مانند انسان کو اندر سے جلاتے ہیں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب میاں بیوی ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوںکو درک کرلیتے ہیں تو ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا گلے شکوے کو چھپانا مسئلہ کا حل نہیں ہے ،بلکہ ان پر پردہ ڈالنا مشکلات میں مزید اضافے کاباعث بنتا ہے۔۔لیکن دونوں کو احتیاط کرنا چاہئے کہ ان اعتراضات اور گلے شکوے کو انتقام جوئی اور جھگڑا فساد کی بنیاد قرار نہ دیں۔بلکہ ان کو باہمی تفاہم اور عشق و محبت کی ایجاد کیلئے زمینہ قرار دیں۔ کیونکہ زندگی کی لطافت اور خوشی ،صلح و صفا میں ہے نہ جنگ و جدل اور فسادمیں۔یہاں دونوں کو جان لینا چاہئے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد پیار و محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہے۔

خواتین کو جاننا چاہئے کہ اگر مردوں کا جہاد محاذوں پر لڑنا اور دشمن پر حملہ آور ہونا اوردشمن کے تیروں کو اپنے سینوں پر لینا ہے تو خواتین کا جہاد جتنا ممکن ہو سکے اپنے شوہر کی خدمت کرنا اور بچوں کی تربیت کرنا ہے ۔ امام موسی کاظم(ع)نے فرمایا:جِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّل‏ -(۱) عورت کا جہاد اچھی شوہر داری ہے ۔

جب اسماء بنت یزید کو مدینہ کی عورتوں نے اپنا نمائندہ بنا کرپیامبر اسلام (ص)کے پاس بھیجا اور اس نے عرض کی : یا نبی اللہ ! خدا نے آپ کو مقام نبوت پر فائز کیا ہم آپ پر ایمان لے آئیں، اور ہم گھروں میں بیٹھ کر اپنے شوہروں کی خدمت اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں جبکہ مرد لوگ نماز جماعت میں شریک ہوتے ہیں، بیماروں کی عیادت کیلئے جاتے ہیں ،تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں،جھاد میں حصہ لیتے ہیں، مراسم حج کی ادائیگی کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر ثواب کماتے ہیں اور ہم بیچاری عورتیں مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے اموال کی حفاظت ،بچوں کی تربیت، گھر کی صفائی اور کپڑے دھونے میں مصروف رہتی ہیں،کیا ہم بھی ان کے ثواب میں برابر کی شریک ہیں ؟ پیامبر اسلام (ص)نے اپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا :کیاتم لوگوں نے کبھی دینی مسائل اور مشکلات میں کسی خاتون کی زبان سے اس سے بہتر کوئی گفتگوسنی ہے؟

اصحاب نے عرص کیا یا نبی اللہ! اس قدر فصیح و بلیغ گفتگو آج تک کسی خاتون سے نہیں سنی تھی۔ اس کے بعد پیامبر(ص)نے فرمایا: جاؤ خواتین سے کہہ دو ، کہ اگر تم اپنے شوہروں کے ساتھ حسن سلوک کروگی اور اپنی ذمہ داری اچھی طرح انجام دوگی اور اپنے شوہروں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گی تو ان کے تمام اجر اور ثواب میں تم بھی برابر کی شریک ہونگی۔

یہ سن کر اسماء بنت یزید اللہ اکبر اور لاالہ الا اللہ کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پیامبر اسلام (ص) کی خدمت سے اٹھی اور مدینہ کی عورتوں کو یہ خوش خبری سنادی-(۲)

اس حقیقت کی طرف مرد اور عورت دونوں کو توجہ کرنی چاہئے کہ عورتوں کے وجود میں جنگی ، سیاسی ، اور ورزشی میدانوں میں بہادری نہیں پائی جاتی بلکہ انہیں اسلام نے ریحانۂ زندگی یعنی زندگی کی خوشبو کا لقب دیا ہے۔ جس میں خوبصورت پھولوں کی طرح لطافت اور طراوت پائی جاتی ہے۔ اور اس لطافت اور طراوت کو ظالم ہاتھوں میں نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ پھول کی جگہ گلدستہ ،گلدان اور انس و محبت والی محفلیں ہواکرتی ہیں۔

امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا:فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَيْحَانَةٌ وَ لَيْسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ -(۳) ۔

بیشک عورت گلزار زندگی کا پھول ہے نہ پہلوان۔لیکن یاد رکھو کہ مرد حضرات اپنی جسمانی قدرت اور طاقت کے زور پر کبھی بھی اس گلستان خلقت کے پھولوں کوجنہیں ما ں،بہن،بیٹی اور شریک حیات کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں، جو طراوت اور شادابی کیساتھ کھلا کرتی ہیں ؛اپنے مکہ، طمانچہ اور ٹھوکر کا نشانہ نہ بنائیں ۔دین مقدس اسلام مردوں کو اپنی ناموس خصوصاً شریک حیات کے بارے میں خبردار کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو اس لطیف اور نازک بیوی کو جوتیری زندگی کی خوشی ،سکون اور آرام کا باعث ہے ، ضائع کرے ۔:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِنَّمَا الْمَرْأَةُ لُعْبَةٌ مَنِ اتَّخَذَهَا فَلَا يُضَيِّعْهَا(۴) پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا عورت گھر میں خوشی کا سبب ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے اپنے تحویل میں لے لے اور اسے ضائع کردے۔

خاندانی اختلافات کا علاج

گھریلو اختلافات کا طولانی ہونا ایک سخت بیماری ہے جو خاندان کے جسم پر لاحق ہوتی ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا اور علاج کرنا بہت ضروری ہے۔

۱. پہلا علاج تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے وضائف کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں ۔

۲. دوسرا علاج توقّعات کو کم کرنا ہے حقیقی اکسیر اوردوایہی ہے اور یہ شرطیہ علاج ہے۔ صرف ایک دفعہ آزمانا شرط ہے۔

۳. تیسرا علاج اپنی خواہشات نفسانی ، خودخواہی اور غرور و خودپسندی کے خلاف قیام کرنا ہے۔ جس سے نہ صرف اختلافات ختم ہوسکتی ہے بلکہ موجودہ اختلافات صلح و صفائی میں بدل سکتی ہے۔

۴. چوتھا علاج ایک دوسرے کے اعتراضات اور اشکالات کو سننا اور موافقت اور مفاہمت کیلئے قدم اٹھانا ۔چنانچہ قرآن مجید مردوں کو نصیحت کرتا ہے کہ طبیب اور حکیم کی طر ح علاج اور معالجہ کریں۔ اور گھریلو ماحول میں جزّابیت ، طراوت اور شادابی کو برقرار رکھیں۔

قرآن مجید کہہ رہا ہے کہ اگر بیوی نے نافرمانی شروع کی تو فوراً مارنا پیٹنا شروع نہ کریں بلکہ پہلے مرحلے میں وعظ و نصیحت کرکے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کریں اور اگر پھر بھی نہ مانے تو دوسرا راستہ اختیار کریں۔یعنی ایک ساتھ سونا چھوڑدیں۔ اور پھر بھی بات نہ مانے تو مار کر اسے مہار کرلو۔ لیکن گھریلو اور خاندانی زندگی میں بہترین قاعدہ یہ ہے کہ شوہر مظہر احسان ہو ۔ بہترین انسان وہ ہے کہ اگر عورت خطا اور نافرمانی کا مرتکب ہو جائے تو اسے معاف کرتے ہوئے اس کی اصلاح شروع کرے۔اور راہ اصلاح اس سے دوری اختیار کرنا نہیں جو محبت اور آشتی کی راہوں کو بند کرتا ہوبلکہ صحیح راستہ وہی ہے جو محبت اور آشتی کی راہوں کو کھول دے۔قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا الَّذِي إِذَا فَعَلَهُ كَانَ مُحْسِناً قَالَ يُشْبِعُهَا وَ يَكْسُوهَا وَ إِنْ جَهِلَتْ غَفَرَ لَهَا -(۵) ۔ کسی نے امام صادق(ع) سے سوال کیا کہ بیوی کا مرد پر کیا حق ہے جسے اگر وہ ادا کرے تو مظہر احسان بن جائے؟ امام نے فرمایا : اسے کھانا دے بدن ڈھانپنے کیلئے کپڑا دے اور اگر کوئی جہالت یا نافرمانی کرے تو اسے معاف کردے۔

اوپر آیہ شریفہ میں تیسرے مرحلہ پر مارنے کا حکم آیا ہے ،لیکن مارنے کی کوئی حد بھی مقرر کی ہے یا نہیں؟یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جس چیز کی اطاعت کرنا عورت پر واجب ہے وہ فقط مباشرت اور ہمبستری کیلئے تیار رہنا ہے کہ شوہر جب بھی اس چیز کا تقاضا کرے عورت تیار رہے اور انکار نہ کرے۔باقی کوئی کام بھی اس کے ذمہ نہیں ہے یہاں تک کہ بچے کو دودھ پلانا بھی۔ اور شوہر کو حق نہیں پہنچتا کہ اسے جھاڑو لگانے ، کپڑے دہلانے اور کھانا پکانے پر مجبور کرے بلکہ یہ وہ کام ہیں جو باہمی تفاہم اور رضامندی سے انجام دیے جائیں۔ورنہ شوہر کو ان کاموں میں مار پیٹ کرکے اپنی بات منوانا تو دور کی بات ،مواخذہ تک کرنا جائز نہیں ہے۔مرد کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ بیوی کو کنیز اور نوکرانی کی حیثیت سے گھر نہیں لائی گئی ہے بلکہ بحیثیت ہمسراور یار و مددگارلائی گئی ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ مار پیٹ کی حد کیا ہے ؟جواب یہ ہے کہ یہاں بھی مرد مارپیٹ کے حدود کو معین نہیں کرسکتا بلکہ اسلام نے اس کی مقدار اور حدود کو معین کیا ہے ۔اس قسم کی مار پیٹ کو ہم تنبیہ بدنی کے بجائے نوا زش اور پیار سے تشبیہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

اس سلسلے میں قرآن مجید میں ایک بہت دلچسپ اور سبق آموز داستان موجودہے جوحضرت ایوب اور ا ن کی زوجہ محترمہ کا قصہ ہے: حضرت ایوب A طویل عرصے تک بیمار رہے آپ کا اللہ اور اپنی زوجہ کے سوا کوئی اور سہارا نہ رہا۔وہ خادمہ سخت پریشان تھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان ملعون نے آکر کہا: اگر ایوب مجھ سے شفاء طلب کرے تو میں کوئی ایسا کام کروں گا کہ ایوب ٹھیک ہوجائے۔ جب یہ کنیز خدا اپنے شوہر کے پاس آئی اور اس بات کا اظہار کیا تو حضرت ایوب A(۶) سخت ناراض ہوئے اور قسم کھائی کہ اگر میں ٹھیک ہوجاؤں تو تجھے سو کوڑے ماروں گا۔درحالیکہ آپ کی مہربان بیوی کے علاوہ کوئی اور دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا۔ اور جب آپ بیماری سے شفایاب ہوگئے تو خدا نے انھیں دستور دیا:وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ

اور ایوب A تم اپنے ہاتھوں میں سینکوں کا مٹھا لے کر اس سے مار و اور قسم کی خلاف ورزی نہ کرو - ہم نے ایوب A کو صابر پایا ہے - وہ بہترین بندہ اور ہماری طرف رجوع کرنے والا ہے ۔ صبر ایوب دنیا میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے اور روایات کی بنا پر انہوں نے واقعاً صبر کیا ہے ۔ اموال سب ضائع ہوگئے اولاد سب تلف ہوگئی ۔ اپنے جسم میں بھی طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوگئیں لیکن مسلسل صبر کرتے رہے ۔ ا ور کبھی فریاد نہ کی۔ ۔

اس واقعہ سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی ایسا موقع آئے تو ہاتھ اٹھانے سے پہلے یہ سوچ کراسے درگذر کرے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ہمیں معاف کریگا۔

جہنمی مرد

رسول اللہ(ص)نے فرمایا :مَنْ أَضَرَّ بِامْرَأَةٍ حَتَّى تَفْتَدِيَ مِنْهُ نَفْسَهَا لَمْ يَرْضَ اللَّهُ لَهُ بِعُقُوبَةٍ دُونَ النَّارِ لِأَنَّ اللَّهَ يَغْضَبُ لِلْمَرْأَةِ كَمَا يَغْضَبُ لِلْيَتِيم‏ -(۷)

ہر وہ شخص جو اپنی بیوی کو اس قدر اذیت و آذار دے کہ وہ اپنا حق مہر سے دست بردار ہونے پر مجبور ہو جائے تو خدا تعا لی اس کیلئے آتش جہنم سے کم عذاب پر راضی نہیں ہوگاکیونکہ خداوند عورت کے خاطر اسی طرح غضبناک ہوتا ہے جس طرح یتیم کے خاطر غضبناک ہوتا ہے ۔

بس ہمیں چاہئے کہ اپنی آخرت کی فکر کرے۔ ثانیاًمرد اپنی مردانگی دکھاتے ہوئے اسے کچھ اضافی چیز دیکر آزاد کرے تاکہ اپنا وقار اور تشخّص برقرار رکھ سکے۔ چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت سلیمان A نے دیکھا کہ ایک چڑا چڑیا سے کہہ رہا ہے کہ اگرتوچاہے تو میں تخت سلیمان A کوتیرے قدموں میں نچھاور کردوں۔ جب یہ باتیں حضرت سلیمان۷ نے سنی تو فرمایا: کیا تجھ میں اتنی ہمّت ہے؟ توچڑے نے کہا یا نبی اللہ! اتنی ہمت تو کہاں ۔ لیکن مادہ کے سامنے نر کو اپنا وقار برقرار رکھنا چاہئے۔

جن ہاتھوں سے باہوں میں لیتے ہو!

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا : َقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَ يَضْرِبُ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ ثُمَّ يَظَلُّ مُعَانِقَهَا ؟(۸)

یعنی کیسے بیوی کو ان ہاتھوں سے باہوں میں لیتے ہو جن سے ان پر تشدد کرتے ہو؟! اور کیا تم میں سے کوئی ہے جو بیوی کو مارے اور پھراسے گلے لگائے؟!

بہت ہی احمقانہ رویّہ ہے کہ شخص اپنے ہاتھوں کو اپنی شریک حیات کے اوپر کبھی غیض و غضب اور مار پیٹ کا ذریعہ بنائے اورکبھی انہی ہاتھوں سے اپنی جنسی خواہشات پوری کرنےکیلئے اسے باہوں میں لے!

یہ مارنا پیٹنا بڑا گناہ ہے کیونکہ مارنے کا ہمیں حق نہیں ہے، اور مارنے کی صورت میں شریعت نے دیت واجب کردیا ہے۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

۱. شوہر کے مارنے کی وجہ سے بیوی کے چہرے پر صرف خراش آجائے تو ایک اونٹ دیت واجب ہے۔

۲. اگر خون بھی جاری ہوا تو دو اونٹ واجب ہے۔

۳. اگر بیوی کا چہرہ مارنے کی وجہ سے کالا ہوجائے تو چھ مثقال سونا واجب ہے۔

۴. اگر چہرہ سوجھ جائے تو تین مثقال سونا واجب ہے۔

۵. اگر صرف سرخ ہوگیاتو ڈیڑھ مثقال سونا واجب ہے۔ ہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان دیات کے ساتھ قصاص لینے کا بھی حق رکھتی ہے۔

مار نا اور گالی دینا جہالت

کس قدر نادان اور جاہل ہیں وہ لوگ جو اپنی شریک حیات کومارتے اور گالی دیتے ہیں۔ایسے شوہر پر تعجب کرتے ہوئے رسول اسلام (ص) نے فرمایا:إِنِّي أَتَعَجَّبُ مِمَّنْ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ وَ هُوَ بِالضَّرْبِ أَوْلَى مِنْهَا لَا تَضْرِبُوا نِسَاءَكُمْ بِالْخَشَبِ فَإِنَّ فِيهِ الْقِصَاصَ وَ لَكِنِ اضْرِبُوهُنَّ بِالْجُوعِ وَ الْعُرْيِ حَتَّى تُرِيحُوا [تَرْبَحُوا] فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة -(۹) ۔

میں اس شخص پر تعجب کرتا ہوں جو اپنی بیوی کو مارتاہے جبکہ وہ خود زیادہ سزا کا مستحق ہے۔ہاں مسلمانو!اپنی بیویوں کو لاٹھی سے نہ مارنا اگر ان کو تنبیہ کرنے پر مجبور ہوجائے تو انہیں بھوکے اور ننگے رکھ کر تنبیہ کرو۔ یہ طریقہ دنیا اور آخرت دونوں میں تیرے فائدے میں ہے۔

اور یہ حدیث اس آیہ شریفہ کی تفسیرہے جس میں فرمایا :وَ الَّاتىِ تخََافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فىِ الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُواْ عَلَيهِْنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللَّهَ كاَنَ عَلِيًّا كَبِيرًا .(۱۰)

اور جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اگر باز نہ آئیں تو خواب گاہ الگ کردو(اور پھر بھی باز نہ آئیں تو )انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو کہ خدا بلنداور بزرگ ہے ۔

____________________

۱ ۔ تفسیر المیزان،ج٤،ص٣٧٣۔،الکافی،ج۶، ص۹۔

۲ ۔ ہمان

۳ ۔ بحار الانوار،ج۷۴، ص۲۱۵۔

۴ ۔ ھمان

۵ ۔ وسائل الشیعہ،ج ۲۱، ص۵۱۱۔

۶ سورہ ص ۴۴۔

۷ ۔ وسائل الشیعہ،ج۲۲ ص ۲۸۲۔

۸ وسائل ،ج ۲۰ص ۱۶۷۔

۹. بحار،ج ۱۰۰، ص۲۴۹۔

۱۰ نساء ۳۴۔

شوہر میں بیوی کی پسندیدہ خصوصیات

مال و دولت

کیونکہ یہ گھریلو آرام وسکو ن اور زندگی میں رونق کا سبب بنتا ہے ، لہذا لوگوں کو چاہئے کہ معقول اور مشروع طریقے سے رزق و روزی کیلئے کوشش اور تلاش کریں۔اور گھر والوں کی ضروریات پوری کریں۔

قدرت اور توانائی

کیونکہ عورت مرد کو اپنا نگہبان اور محافظ سمجھتی ہے اور محافظ کو قوی ہونا چاہئے۔

باغیرت ہو

کیونکہ عورت چاہتی ہے کہ اس کا شوہر ہر کام میں دوسرے مردوں سے کمزور نہ رہے۔ خواہ دینی امور میں ہوں یا دنیوی امور میں ۔ اگر غیرت نہ ہو تو وہ شخص یقینا سست ہوگا۔ حدیث میں ملتا ہے کہ جس میں غیرت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔

مستقل زندگی گزارے

یعنی بیوی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر خود مستقل زندگی کرے اور کسی پر محتاج نہ ہو ، تاکہ دوسرے کی منّت و سماجت نہ کرنا پڑے ۔

معاشرے میں معززہو

یہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن بیوی کی زیادہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر معاشرے میں معزز ہو ۔ اور اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھتی ہے۔

نرم مزاج ہو

عورت کبھی نہیں چاہتی کہ اس کا شوہر خاموش طبیعت ہو کیونکہ خاموش بیٹھنے سے عورت کو سخت تکلیف ہوتی ہے لہذا وہ چاہتی ہے کہ اس کے ساتھ نرم لہجے میں میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہے ۔

صاف ستھرا رہے

یہ بات ہر انسان کی طبیعت میں اللہ تعالی نے ودیعت کی ہے کہ وہ صفائی کو پسند کرتا ہے اور گندگی اور غلاظت سے نفرت کرتا ہے ۔اس بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں : النضافة من الایمان۔ صفائی نصف ایمان ہے ۔ عورت بھی اپنے شوہر کو پاک و صاف دیکھنا پسند کرتی ہے، لہذا مردوں کو چاہئے کہ اپنی داڑھی اور بالوں کی اصلاح کرتے رہیں۔خوشبو استعمال کریں ۔سیرت پیامبر (ص)میں بھی ہمیں یہی درس ملتاہے۔

خوش سلیقہ ہو

وہ چاہتی ہے کہ اگر وہ کوئی کام کرے تو اس کوشوہر سراہاکرے اور اس سے غافل نہ رہے۔اگر بچّے گھر میں بد نظمی پیداکریں تو اس کی اصلاح کرے۔ اور منظّم کرے۔

مؤمن ہو

یہ ساری صفات میں سب سے اہم ترین صفت ہے ۔ اگر ایمان ہے تو سب کچھ ہے اور اگر ایمان نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ۔کیونکہ یہی ایمان ہے جو تمام خوبیوں اور اچھائیوں کی جڑ ہے۔ لہذا خدا تعالی سے یہی دعا ہے کہ ہمیں بھی ایمان کے زیور سے آراستہ اور مزیّن فرمائے۔

آمین یا رب العالمین ۔

پیدائش سے پہلے

باایمان ماں کاانتخاب

آپ (ص)نے فرمایا: اپنے نطفوں کیلئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کرو۔پہلے ذکر کرچکا کہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بری۔ اسی لئے حضرت زہرا کی شھادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کرو۔تاکہ ابوالفضل جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں۔

دلہن باعث خیر و برکت

رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِذَا دَخَلَتِ الْعَرُوسُ بَيْتَكَ فَاخْلَعْ خُفَّيْهَا حِينَ تَجْلِسُ وَ اغْسِلْ رِجْلَيْهَا وَ صُبَّ الْمَاءَ مِنْ بَابِ دَارِكَ إِلَى أَقْصَى دَارِكَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْ بَيْتِكَ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْفَقْرِ وَ أَدْخَلَ فِيهِ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْبَرَكَةَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ سَبْعِينَ رَحْمَةً وَ تَأْمَنَ الْعَرُوسُ مِنَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ أَنْ يُصِيبَهَا مَا دَامَتْ فِي تِلْكَ الدَّارِ (۱)

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خد نے علی ابن ابی طالب نصیحت کی اور فرمایا : یا علی ! جب دلہن آپ کے گھر میں داخل ہوجائے تو اس کا جوتا اتارکر اس کے پاؤں دھلائیں ۔ اور اس پانی کو گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکائیں ۔ جب آپ ایسا کروگے تو خدا تعالی ستر قسم کے فقر اور مفلسی کو آپ کے گھر سے دور کرے گا ، اور ستر قسم کی برکات کو نازل کرے گا، اور دلہن بھی جب تک تیرے گھر میں ہوگی ؛دیوانگی، جزام او ر برص کی بیماری سے محفوظ رہےگی۔

دلہن کچھ چیزوں سے پرہیز کرے

وَ امْنَعِ الْعَرُوسَ فِي أُسْبُوعِهَا مِنَ الْأَلْبَانِ وَ الْخَلِّ وَ الْكُزْبُرَةِ وَ التُّفَّاحِ الْحَامِضِ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِأَيِّ شَيْ‏ءٍ أَمْنَعُهَا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ الْأَرْبَعَةَ قَالَ لِأَنَّ الرَّحِمَ تَعْقَمُ وَ تَبْرُدُ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ عَنِ الْوَلَدِ وَ لَحَصِيرٌ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَالُ الْخَلِّ تَمْنَعُ مِنْهُ قَالَ إِذَا حَاضَتْ عَلَى الْخَلِّ لَمْ تَطْهُرْ أَبَداً بِتَمَامٍ وَ الْكُزْبُرَةُ تُثِيرُ الْحَيْضَ فِي بَطْنِهَا وَ تُشَدِّدُ عَلَيْهَا الْوِلَادَةَ وَ التُّفَّاحُ الْحَامِضُ يَقْطَعُ حَيْضَهَا فَيَصِيرُ دَاءً عَلَيْهَا (۲)

دلہن کو پہلے ہفتے میں دودھ، سرکہ ،پودینہ اور ترش سیب کھانے سے منع کریں ۔ امیر المؤمنین نے عرض کیا : یا رسول اللہ کس لئے ان چار چیزوں کے کھانےسے اسے منع کروں؟! تو فرمایا: ان چار چیزوں کے کھانے سے اس کی بچہ دانی ٹھنڈی اور نازا ہوجاتی ہے،اور گھر کے کونے میں محصور ہوکر رہنا بھانج عورت سے بہتر ہے۔پھر امیرالمؤمنین نے سوال کیا یا رسول اللہ !سرکہ یا ترشی سے کیوں روکا جائے؟ تو فرمایا: اگر ترشی پر حیض آجائے تو کبھی حیض سے پاک نہیں ہوگی۔اور پودینہ تو حیض کو عورت کے پیٹ میں پھیلاتی ہےاور بچہ جننے میں سختی پیدا کرتی ہے۔اور ترش سیب حیض کو بند کردیتا ہے، جو عورت کے لئے بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

____________________

۱ ۔ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱۔

۲ ۔ ہمان۔

آداب مباشرت

آپ (ص)نے حضرت علی (ع)سےمخاطب ہوکر ایک طویل خطبہ دیا جس کا پہلا حصہ اوپر کے دو عناوین میں بیان ہوا اور بقیہ حصہ مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان آداب کی رعایت کا سختی سے حکم دیا گیا ہے:

مہینے کی تاریخوں کا خیال رکھے:

یا علی !یاد کرلو ھ سے میری وصیت کو جس طرح میں نے اسے میرے

بھائی جبرائیل سے یاد کیا ہے۔

ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ وَ وَسَطِهِ وَ آخِرِهِ فَإِنَّ الْجُنُونَ وَ الْجُذَامَ وَ الْخَبَلَ لَيُسْرِعُ إِلَيْهَا وَ إِلَى وَلَدِهَا ۔

اے علی! مہینے کی پہلی ،درمیانی اور آخری تاریخ کو اپنی بیوی کیساتھ مباشرت نہ کرو کیونکہ ان ایام میں ٹھہرا ہوا بچّہ پاگل، جزام اور ناقص الاعضاء پیدا ہوگا۔

* بعد از ظہر مباشرت ممنوع :يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بَعْدَ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَكُونُ أَحْوَلَ وَ الشَّيْطَانُ يَفْرَحُ بِالْحَوَلِ فِي الْإِنْسَانِ ۔ اے علی! ظہرین کے بعد ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس سے اگر حمل ٹھہرے تو وہ نامرد ہوگا ۔ اور شیطان انسانوں میں نامرد پیدا ہونے سے بہت خوش ہوتا ہے ۔

ذکر الہی میں مصروف رہے:

يَا عَلِيُّ لَا تَتَكَلَّمْ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَكُونَ أَخْرَسَ ۔

اے علی ! ہمبستری کرتے وقت باتیں نہ کرو ۔ اگر اس دوران بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ گونگا ہوگا۔

شرم گاہ کو نگاہ نہ کرے :

وَ لَا يَنْظُرَنَّ أَحَدٌ إِلَى فَرْجِ امْرَأَتِهِ وَ لْيَغُضَّ بَصَرَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّ النَّظَرَ إِلَى الْفَرْجِ يُورِثُ الْعَمَى فِي الْوَلَدِ(۳) اے علی ! مباشرت کرتے وقت شرم گاہ کو نہ دیکھو ۔ اس دوران اگر حمل ٹھہر جائے تو وہ اندھا پیدا ہوگا۔

اجنبی عورت کا خیال ممنوع :

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بِشَهْوَةِ امْرَأَةِ غَيْرِكَ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ أَنْ يَكُونَ مُخَنَّثاً أَوْ مُؤَنَّثاً مُخَبَّلًا يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ جُنُباً فِي الْفِرَاشِ مَعَ امْرَأَتِهِ فَلَا يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْهِمَا نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتُحْرِقَهُمَا قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ اللَّهُ يَعْنِي بِهِ قِرَاءَةَ الْعَزَائِمِ دُونَ غَيْرِهَا(۴) اے علی! اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرتے وقت کسی اور نامحرم کا خیال نہ آنے پائے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی بچہ حمل ٹھہر جائے تو وہ خنثیٰ پیدا ہوگا اور اگر بچی ہو تو وہ بھانج ہوگی۔

میاں بیوی الگ تولیہ رکھے:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ إِلَّا وَ مَعَكَ خِرْقَةٌ وَ مَعَ أَهْلِكَ خِرْقَةٌ وَ لَا تَمْسَحَا بِخِرْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَتَقَعَ الشَّهْوَةُ عَلَى الشَّهْوَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُعْقِبُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَكُمَا ثُمَّ يُؤَدِّيكُمَا إِلَى الْفُرْقَةِ وَ الطَّلَاقِ(۵) اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرتے وقت الگ الگ تولیہ رکھے ۔ ایک ہی تولیہ سے صاف نہ کرے کیونکہ ایک شہوت دوسری شہوت پر واقع ہوجاتی ہے جو میاں بیوی کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے اور بالآخرہ جدائی اور طلاق کا سبب بنتا ہے۔

کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا:

َیا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ مِن قِيَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الْحَمِيرِ فَإِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ كَانَ بَوَّالًا فِي الْفِرَاشِ كَالْحَمِيرِ الْبَوَّالَةِ فِي كُلِّ مَكَانٍ -(۶) اے علی! کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا کیونکہ یہ گدھے کی عادت ہے ۔ ایسی صورت میں اگر بچہ ٹھہر جائے تو وہ بستر میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائے گا ۔

شب ضحی کو مباشرت نہ کرو:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي لَيْلَةِ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ يَكُونُ لَهُ سِتُّ أَصَابِعَ أَوْ أَرْبَعُ(۷) اے علی ! عید الضحیٰ کی رات کو مباشرت کرے تو اگر بچہ ٹھہر جائے تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوگی۔

مضطرب حالت میں نہ ہو :

امام حسن مجتبی (ع) فرماتے ہیں:اگر آرامش ، سکون اور اطمنان قلب وغیر مضطرب حالت میں مباشرت کرے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کی شکل میں پیدا ہوگا –(۸) لیکن اگر مضطرب حالت میں ہو تو ماموں اور ننھیال کی شکل و صورت میں پیدا ہوگا۔

جب ایک عورت نے پیامبر(ص)کی خدمت میں آکر عدالت الہی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: کہ میں خدا کو عادل نہیں مانتی کیونکہ اس نے ہمیں نابینا بیٹا دیا ، میرے بیٹے اور میرے شوہر کا کیا قصور تھا؟آپ (ص)نے کچھ تأمل کرنے کے بعد فریایا: کیا تیرا شوہر تیرے پاس آتے وقت نشے کی حالت میں تو نہیں تھا؟ تو اس نے کہا : ہاں ایسا ہی تھا کہ وہ شراب پیا ہوا تھا۔ تو اس وقت فرمایا: بس تو اپنے آپ پر ملامت کرو۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مباشرت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ بچہ اندھا پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو جسمانی تأثیر ہے ۔روحانی تأثیر کے بارے میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِنْ كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة(۹)

اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی

کیساتھ مباشرت کرے اور اس کمرے میں چھوٹا بچہ جاگ رہا ہو اور انہیں دیکھ رہا ہو اور ان کی باتوں اور سانسوں کو سن رہا ہو تو کبھی بھی وہ نیک اولاد نہیں ہوگی، اگر بچہ ہو تو وہ زانی ہوگا اور اگر وہ بچی ہو تو وہ زانیہ ہوگی۔

____________________

۱ ۔ ہمان، مکارم الاخلاق،ص.١٢٩

۲ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔

۳ ۔ ہمان۔

۴ ۔ ہمان

۵ ۔ ہماان

۶ ۔ ہمان

۷ ۔ ہمان

۸ ۔ بحارالانوار۔

۹ ۔ وسائل الشیعہ ج۲۰، ص۱۳۳۔،الکافی،ج۵، ص۵۰۰۔

ہم فکرو ہم خیال بیوی

یعنی اعتقاد اور فکری لحاظ سے یک سو ہو۔ اور ایمان و عمل کے لحاظ سے برابر اور مساوی ہو۔ایک شخص نے امام حسن (ع) سے اپنی بیٹی کے رشتے کے بارے میں

رأے مانگی تو آپ نے فرمایا:زوّجها من رجل تقیّ فانّه ان احبّها اکرمها وان ابغضها لم یظلمها (۱)

اس کی شادی کسی پرہیزگار شخص کیساتھ کرو اگر وہ تیری بیٹی کو چاہتا ہے تو اس کا احترام کریگا ، اور اگر پسند نہیں کرتا ہے تو تیری بیٹی پر ظلم نہیں کریگا۔

____________________

۱. طبرسی، مکارم الاخلاق،ص۲۰۴۔

دلسوزاور مہربا ن ما ں

دلسوزاور مہربان ہونا پیامبر اسلام (ص) کا شیوہ ہے۔ چنانچہ آپ اس قدر اپنی امت پر دلسوز اور مہربان تھے کہ خدا تعالی کو کہنا پڑا :لعلّک باخع نفسک ۔ اے پیامبر ! تو اپنے آپ کو اپنی امت کے خاطر مت جلاؤ کیونکہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔

پیدائش کے بعد

کانوں میں اذان واقامت

امام حسن (ع) جب متولد ہوئے تو پیامبر اسلام (ص)نے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھی۔ اور علی سے فرمایا :یا علی (ع) اذا ولد لک غلام اوجاریة فاذّن فی اذنه الیمنی و اقم فی الیسری فانّه لا یضرّه الشیطان ابداً -(۱)

اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے۔اور فرمایا:من ساء خلقہ فاذّنوا فی اذنہ –(۲) اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو۔

اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ نوزائدہ بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہے۔ ماں کے دل کی دھڑکن جو بچے کیلئے دینا میں آنے کے بعد آرام کا سبب بنتی ہے۔ جب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصاً بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔اسی لئے اگر ماں حاملہ گی کے دوران قرآن سنا یا پڑھا کرے تو بچے میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی ۔ اس کی بہت ساری مثال دی جاسکتی ہے:

قم مقدس میں ایک قرآنی جلسے میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا سبب بنی کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قرآن بنا؟ تو

فرمایا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قرآن کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی۔

گذشتہ علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو ان میں بھی ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، ان میں سے ایک سید رضی اور سید مرتضی کا واقعہ ہے۔ خود سید مرتضی R فرماتے ہیں: جب اپنے استاد محترم شیخ مفید (رح)کے درس میں حاضر ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دروس پہلے سے ہی پڑھا ہوا ہے۔ جب اپنی مادر گرامی کے پاس آکر یہ ماجرا بیان کیا تو وہ کچھ تأمل کے بعد کہنے لگی: درست ہے جب آپ گہوارے میں تھے اس وقت آپ کے والد گرامی یہ دروس اپنے شاگردوں کو دیا کرتے تھے۔یہی ماں تھی کہ جب ان کو بیٹے کے مجتہد ہونے کی خبر دی گئی تو کہا : اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ میں نے کبھی بھی انہیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلائی ۔ اور یہی ماں جناب شیخ مفید (رح)کی خواب کی تعبیر تھی، جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کوخواب میں دیکھا تھا کہ آپ حسن و حسین کے ہاتھوں کو پکڑ کے آپ کے پاس لاتی ہیں اور فرماتی ہیں : اے شیخ میرے ان دو بیٹوں کو دینی تعلیم دو۔ جب خواب سے بیدار ہوا تو بڑا پریشان حالت میں ، کہ میں اور حسنین کو تعلیم؟!!!

جب صبح ہوئی تو سید رضی اور مرتضی کے ہاتھوں کو اسی طرح سے جیسے خواب میں دیکھا تھا ، ان کی مادر گرامی پکڑ کے لاتی ہیں اور کہتی ہیں : جناب شیخ ! آپ میرے ان دو بیٹوں کو فقہ کی تعلیم دیں۔

ایک عالم کہتا ہے کہ ایک صابئی نے مجھ سے کہاکہ مجھے اسلام کی تعلیم دو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ مجھے بچپنے سے ہی اسلام سے بہت لگاؤ ہے اور اسلام کا بہت بڑا شیدائی ہوں۔ اور جب بھی اذان کی آواز آتی ہے تو سکون ملتا ہے اور جب تک اذان تمام نہ ہو ، اذان کے احترام میں کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے اس کی ماں سے وجہ دریافت کی تو اس کی ماں نے کہا : درست ہے جب میرا بیٹا اس دنیا میں آیا تو ہمارے ہمسائے میں ایک مسلمان مولانا رہتا تھا جس نے

اسکے کانوں میں اذان و اقامت پڑہی تھی(۳)

____________________

۱. تحف العقول،ص١٦ ۔

۲ ۔ محاسن برقی ج٢،ص٤٢٤

۳ ۔ مجمع البحرین، ص ٥٩٠.

دودھ کی تأثیر

بچے کی شخصیت بنانے میں ماں کی دودھ کا بڑا اثر ہے۔ اسی لئے امام المتقین –(۱) نے فرمایا:فانظروا من ترضع اولادکم انّ الولد یشبّ علیہ۔

دیکھ لو کون تمھاری اولادوں کو دودھ پلارہی ہے؟ کیونکہ بچے کی پرورش اسی پر منحصر ہے۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں:عَنْ أُمِّهِ أُمِّ إِسْحَاقَ بِنْتِ سُلَيْمَانَ قَالَتْ نَظَرَ إِلَيَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا أُرْضِعُ أَحَدَ ابْنَيَّ مُحَمَّدٍ أَوْ إِسْحَاقَ فَقَالَ يَا أُمَّ إِسْحَاقَ لَا تُرْضِعِيهِ مِنْ ثَدْيٍ وَاحِدٍ وَ أَرْضِعِيهِ مِنْ كِلَيْهِمَا يَكُونُ أَحَدُهُمَا طَعَاماً وَ الْآخَرُ شَرَاباً (۲) ۔

اے ام اسحاق بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیا کرو کیونکہ ایک چھاتی کا دودھ روٹی اور دوسری چھاتی کا دودھ پانی کا کام دیتا ہے۔

بچپنے کا دور

قَالَ الصَّادِقُ ع: دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۳)

امام صادق(ع) : فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے ،

دوسرے سات سال اسے ادب سکھائیں پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادے۔

صَالِحُ بْنُ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيماً فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ إِلَّا هَكَذَا -(۴)

امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: اپنے بچوں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دو

تاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں۔

____________________

۱ ۔ وسائل،ج٢١،ص٤٥٣.

۲ ۔ ھمان

۳ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۴۹۲۔

۴ ۔ الکافی،ج۶، ص۵۱۔

پاک اور حلال غذا کی تأثیر

اگر بچوں کو لقمہ حرام کھلائیں گے تو فرزند کبھی صالح نہیں ہوگا۔کیونکہ حرام لقمہ کا بہت برا اثر پڑتا ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، چنانچہ امام حسین (ع) نے عاشور کے دن کئی مرتبہ فوج اشقیا کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہیں سنی توامام نے فرمایا:قد ملئت بطونکم من الحرام۔ تمہارے پیٹ لقمہ حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تم پر حق بات اثر نہیں کرتی۔ پس جو ماں باپ اپنے بچوں کو لقمہ حرام کھلائے وہ بچوں کی اصلاح کی امید نہ رکھیں۔

بچے کی کفالت

قَالَ الصادق : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ تُوُفِّيَ وَ لَهُ صِبْيَةٌ صِغَارٌ وَ لَيْسَ لَهُ مَبِيتُ لَيْلَةٍ تَرَكَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَ قَدْ كَانَ لَهُ سِتَّةٌ مِنَ الرَّقِيقِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُمْ وَ إِنَّهُ أَعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ مَا صَنَعْتُمْ بِهِ قَالُوا دَفَنَّاهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُهُ مَا تَرَكْتُكُمْ تَدْفِنُونَهُ مَعَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ تَرَكَ وُلْدَهُ صِغَاراً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ(۱)

حدیث میں ہے کہ اصحاب پیامبر(ص) میں سے ایک نے مرتے وقت زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کروایا۔ اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بالکل خالی ہاتھ چھوڑ دیا ، جو لوگوں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جب یہ خبر رسولخدا (ص) تک پہنچی تو آپ سخت ناراض ہوگئے اور پوچھا : اس کے جنازے کیساتھ کیا کیا؟ لوگوں نے کہا قبرستان میں دفن کیا گیا۔ پیامبر (ص)نےفرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے نہ دیتا۔کیونکہ اس نے اپنے بچوں کو دوسروں کا دست نگر بنادئے بچوں کا احترام بچوں کو جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہو تو میرے بیٹے کہہ کر بلاؤ۔ قرآن بچوں کی تربیت اور نصیحت پر بہت زور دیتا ہے ۔ ائمہ کی سیرت میں بھی ہمیں یہی چیز ملتی ہے۔ایک دن امام حسین (ع) نماز کے دوران پیامبر اسلام (ص)کے کندھوں پرسوار ہوئے تو رسولخدا (ص)نے انہیں نیچے اتارا ۔جب دوسرے سجدے میں گئے تو دوبارہ سوار ہوئے۔ یہ منظر ایک یہودی دیکھ رہا تھا،کہنے لگا آپ اپنے بچوں سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟ ہم اتنی محبت نہیں کرتے۔ تو آپ (ص)نے فرمایا: اگر تم خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے آتے تو تم بھی اپنے بچوں سے اسی طرح محبت کرتے ، اس شخص نے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا(۲)

امام حسن مجتبی (ع) اور بچے

ایک مرتبہ آپ کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں بچے کھیل کود میں مشغول تھے اور ایک روٹی ان کے پاس تھی اسے کھانے میں مصروف تھے۔ امام کو بھی دعوت دی ، امام نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔ پھر سارے بچوں کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو کھانا کھلایا اور لباس بھی دیا پھر فرمایا: ان بچوں کی فضیلت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ میرے لئے حاضر کئے،کہ ان کے پاس ایک روٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن میں نے جو بھی کھلایا،اس کے علاوہ میرے پاس اور بھی موجود ہے(۳)

امام زین العبدین (ع)نے ایک بار نماز جلدی جلدی پڑھ لی ۔ لوگوں نے سوال کیا مولا ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا : کیونکہ صفوں میں بچے بھی نماز پڑھ رہے تھے جن کی رعایت کرتے ہوئے نماز جلدی جلدی تمام کی۔

اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع)نے ایک یتیم بچے کو غمگین حالت میں دیکھا تو ان کو خوش کرنے کیلئے ان کیساتھ پیار سے باتیں کرنے لگے ، لیکن یتیمی کی اداسی کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوا تو امیر المؤمنین (ع) اپنے گٹھنے ٹیک کر بھیڑ کی آوازیں نکالنے لگے تو تب جا کر یتیم بچے کی چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، یہ منظر کسی نے دیکھ کر کہنے لگا مولا ! یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ایک حکومت اسلامی کا سربراہ چوپائیوں کی آوازیں نکالے!۔ تو میرے مولا نے فرمایا : کوئی بات نہیں اس کے بدلے میں ایک یتیم کو میں نے خوش کیا۔

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیموں کی پرورش اور دیکھ بھال ہوتی ہو۔ اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں کی اہانت ہوتی ہو۔مزید فرمایا:وَ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ وَ أَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَ الْوُسْطَى ومن مسح یده برأس یتیم رفقاً به جعل الله له فی الجنة لکل شعرة مرّت تحت یده قصراًاوسع من الدنیا بمافیها وفیها ماتشتهی الانفس وتلذّالاعین وهم فیها خالدون (۴)

اور جو بھی یتیموں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کرے گا وہ قیامت کے دن میرے

ساتھ ان دو انگلیوں کی مانند ہوگا۔اور جو بھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو خدا تعالی اس کیلئے ہربال جو اس کے ہاتھوں کے نیچے آئے ، کے بدلے بہشت میں ایک محل عطا کرے گا جو اس دنیا و مافیھا سے بھی بڑا ہوگا اور اس قصر میں وہ چیزیں ہونگی جنہیں نہ کسی نے چکھا ہوگا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا۔علامہ رضی نے اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھا ہے کہ آپ کی مراد کافل سے ابوطالب ہے(۵)

اسی طرح امام حسن مجتبی (ع) ایک دن دوش نبی پر سوار تھے۔ کوئی آکر کہنے لگا : اے حسن مجتبی !کتنی خوبصورت آپ کی سواری ہے؟ تو رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اسے نہ کہو کہ تیری سواری کتنی اچھی ہے بلکہ مجھ سے کہو کہ تیرا شہسوار کتنا اچھا ہے؟! صرف وہ فخر نہیں کرتا کہ اس نے دوش نبوت پر پاؤں رکھا ہے ،بلکہ میں بھی فخر کرتا ہوں کہ وہ میرے دوش پر سوار ہے۔

____________________

۱ ۔ بحار،ج١٠٠، ص١٩٧

۲ ۔ بحار،ج١٠، ص ٨٣۔

۳ ۔ شرح ابن ابی الحدید،ج١١،ص۔١٩.

۴ ۔ میزان الحکمہ ،باب الیتیم۔ح۶۸۱۱۔

۵ ۔ الاقبال ، ص۶۶۲۔

بچوں کو ان کے ا حترام کی یقین دہانی

اگر ماں باپ ان کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے اورنہ ان کی باتیں سنیں گے۔اگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوں کیلئے احترام کے قائل ہوں ۔اور ان سے مشورت مانگیں ،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں ۔ ہمارے لئے قرآن مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچے سے مشورہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!

بچوں کی تحقیر، ضد بازی کا سبب

ایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو ٹوک دیتے ۔ مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔ اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے ۔ اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوا ۔ اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگا۔ اور اپنے آپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگا ۔ اب جبکہ میں بڑاہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں ۔ اگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا ۔ اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی ۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعاً فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۱) اسی لئے امام باقر (ع)نے فرمایا:بچے کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح ، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو اور ان سے بھی مشورہ لیا کرو۔ اگر بچے احساس حقارت کرنے لگے تو نہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں ۔

ایک بچی کہتی ہے کہ :میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ امتحانات میں کم نمبر آنے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کی تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !ان کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گی۔ ماں نے کہا یہ ایسی ہے تو ویسی ہے۔ میری خالہ نے ماں سے اجازت لیکر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئی۔میری خالہ زاد بہن مہری میری ہمکلاس تھی ۔ان کے ساتھ تیاری کی تو مہری حسب سابق irst اور میں third آئی ۔جس پر مجھے خود یقین نہیں آرہی تھی۔

بچوں کی مختلف استعدادوں پر توجہ

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو آپ اس کو مجبور نہ کریں ، بلکہ دیکھ لیں کہ کس میدان (فیلڈ) میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ بہزاد نامی ایک شخص تھا۔جو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا ۔ یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا۔ لیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنے لگا۔ بہزاد خاموشی کے ساتھ ان کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی جو درخت پر بیٹھا ہے ۔ جب اس ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہے۔ اس شعبے سے ان کو لگاو اوردلچسپی ہے۔انہیں نقاشی کی کلاس میں بھیج دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دینا میں مشہور ہوا۔(۲)

تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہ

اگر آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو آپ ان کی تحقیر نہ کریں ۔ کیونکہ خدا تعالی نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہن۔ ایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھا۔میں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ و۔۔۔)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سی کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلا کراور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہے۔جب جنگلی اور وحشی جانوروں میں تشویق اس قدر مؤثر ہے تو کیا انسانوں میں مؤثر نہیں ہوگا؟!۔

بچوں سے محبت

اسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوں کو پیا رو محبت دیا کریں۔ رسول خدا (ص) ایک دن اپنے بچوں کو زانو پر اٹھائے پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا آدمی وہاں پہنچا ۔ اور کہامیرے دس بیٹے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی ایک بار بوسہ نہیں دیا۔یہ سن کر آپ (ص) سخت ناراض ہوگئے۔ اور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ اور فرمایا: من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور تیرے دل سے رحم نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!

ایک دفعہ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی (ع) کاندوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:حسن میرے کاندہے پر سوار ہوا تھا اور میں انہیں اتارنا نہیں چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اترآے(۳)

بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیاتو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل پر رسولخدا (ص) تأیید نہ کرے۔ میرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا :تو آپ نے فرمایا: کیا سب کو دئے؟ کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرو۔ اور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش آؤ۔میں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(۴)

____________________

۱ ۔ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی،ج۶، ص۴۶۔

۲ ۔ جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص١١.

۳ ۔ بحار،ج١٠، ص٨٤.

۴ میزان الحکمة،ج١٠،ص٧٠.


3

4

5

6

7

8

9

10

11