خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض0%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف: غلام مرتضیٰ انصاری
زمرہ جات:

مشاہدے: 15668
ڈاؤنلوڈ: 3015

تبصرے:

خاندان کےاخلا ق و فرائض
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15668 / ڈاؤنلوڈ: 3015
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

دوسرا حصہ

خواتین کا مقام اور حقوق

پہلی فصل

:عورت تاریخ کی نگاہ میں

تاریخ بشریت میں عورت کا مقام

قبل اس کے کہ اصل موضوع عورتوں کے حقوق اسلام کی نگاہ میں گفتگو کروں ، اسلام سے پہلے عورتوں کی وضعیت اور موقعیت کا مختصر سا مطالعہ ضروری ہے تاکہ بہتر سمجھ سکے اور درک کرسکے کہ پیامبر اسلام (ص)نے کتنی زحمتوں کو برداشت کرکے ان کی چھینی ہوئی حیثیت اور حقوق کو دوبارہ انہیں دلادی۔

ابتدائی دورمیں عورت کی حیثیت

قدیمی ترین زمانے میں مختلف ممالک میں کلی طور پر عورتوں پر حکومت کرتے تھے کیونکہ ہر معاشرے میں مخصوص آداب اور رسوم حاکم تھا جو دینی اور قانونی نہ تھا ۔ عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی بلکہ جانوروں کی طرح ان کی دیکھ بہال ہوتی تھی۔ جس طرح بہیڑ بکریوں کو گوشت کی خاطر یا فروخت کیلئے پالتے ہیں اسی طرح عورتوں کو بھی ایک وسیلہ کے طور پر کہ پیسہ کمائیں یا جنسی خواہشات کو پورا کروائیں نگہداری کرتے تھے۔ یہان تک کہ اگر قحط پڑجائے تو ذبح کرکے عورتوں کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ عورت صرف شوہر کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے باپ کے گھر میں بھی مظلوم واقع ہوتی تھی۔ کسی چیز پر اختیار نہیں تھا حتی شوہر کا انتخاب بھی باپ کی مرضی سے ہوتا تھا۔ اور حقیقت میں ایک قسم کا معاملہ تھا باپ اور شوہر کے درمیان۔ اگر گھر کا رئیس ، باپ ہو یا بھائی یا شوہر ،جسے چاہے اسے بخش دیتا یا فروخت کردیتا، یا فقط عیاشی کے عنوان سے نسل بڑھانے اور خدمت گذاری کیلئے کسی اور کو عاریہ دیتا تھا، یا قرض یا اجارہ لیتا تھا۔

ہم یہاں چند ممالک اور جوامع بشری میں عورتوں کی حیثیت کا جائزہ لیں گے:

یونان میں عورت کی حیثیت

یونان اور روم کو متمدن ممالک اور پیش رفتہ جامعہ تصور کرتے ہیں لیکن وہاں پر بھی خواتین کی زبون حالی یہ تھی کہ انہیں شیطان کی نسل اور نجس موجود سمجھتے تھے۔

اسپرٹی نامی ایک شخص کہتا ہے: (عورت ایک بلند بال اور کوتاہ فکر حیوان ہے)۔ یہ مقولہ اس قدر مشہور ہوگئی کہ ادبیات عرب میں ضرب المثل کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ المرئة حیوان طویل الشعر وقصیر الفکر۔

یونان والے جب بھی عورت کے بچہ دینے سے مایوس ہوجاتے تو اسے موت کے گھاٹ اتاردیتے تھے ۔

ان کے ہاں یہ ضرب الامثال موجود ہیں:

: تین شر: طوفان، آگ اور عورت۔

شادی نہ کرو اگر کرلی تو بیوی کو حاکم نہ نباؤ۔

عورت کو جھوٹ اور کتے کو ہڈی کے ذریعے راضی کرو۔

اچھی اور بری بیوی دونوں کو کوڑے کی ضرورت ہے ۔

شوہر کی خوش بختی یا بد بختی اس کی بیوی ہے۔

شریر بیوی سے ہوشیار رہو اور اچھی بیوی پر اعتماد نہ کرو۔

شادی کرنا ایک بلا ہے ، جس کیلئے لوگ دعاکرتے ہیں-(۱)

اٹلی میں عورت کی حیثیت

عورت اور گائے کو اپنے ہی شہر یا گاؤں سے انتخاب کرو۔

خوبصورت عورت کا مسکرانا شوہر کے بٹوے کا رونا ہے۔

تین چیزیں قانون سے بالاتر ہے : عورت، خچر،اور سور۔

خوک بکرے سے زیادہ مزاحم ہے اور عورت ان دونوں سے بھی زیادہ۔

شیطان کو بھی خبر نہیں کہ عورت خنجر کو کہاں تیز کرتی ہے۔

اگر ساری عمر بیوی کو اپنے دوش پر اٹھاتے رہو اور ایک لمحہ کیلئے اسے اگر زمین پر رکھ دیا تو کہے گی : میں تھک گئی ہوں۔

ایران باستان میں عورت کی حیثیت

عورت ایک بلا ہے لیکن کوئی گھر اس بلا کے بغیر نہیں ہونا چاہئے۔

گھوڑا ،تلوار اور بیوی کیا کسی کا وفادار بنا ؟!

عورت اور اژدھا دونوں مٹی کے اندر ہی اچھا۔

عورت کا خدا اس کا شوہر ہے۔

بیوی ایک ، خدا ایک۔

عورت قلعہ ہے اور شوہر اس کا قیدی۔

روم میں عورت کی حیثیت

روم والے اگرچہ قوانین اور حقوق میں بڑی ترقی کرچکے لیکن عورتوں کے بارے میں عام لوگوں کی خشونت آمیز رویّے اورسر سخت نظریہ تھا ۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ چونکہ عورت میں روح انسانی نھیں پائی جاتی لہذا روز قیامت دوبارمحشور ہونے کے لائق بھی نہیں ہے۔ بلکہ وہ مکمل طور پر شیطان اور مختلف روحوں کا مظہر ہے۔ اسلئے عورت کو ہنسنے اور بات کرنے کا حق نھیں تھا۔

رومی عورت کو ایک جنس تجارت شمار کرتے تھی اسلئے جب بھی گھر کا سردار یا مالک مرجاتا تھا تو عورتوں کو وراثت کے طور پر تقسیم کرتے تھے-(۲)

کہاوتیں:

عورتوں کو رونا آتا ہے تاکہ وہ جھوٹ بول سکیں۔

بہترین عورتیں بھی شیطان کی آلہ کار ہیں۔

اگر بوڑھی عورت کو دھوکہ دے سکے تو سمجھ لو شیطان کو جال میں پھنسا دیا۔

عورت صرف اپنی عمر اور ان چیزوں کو چھپاتی ہے جنہیں نہیں جانتی ۔

عورت اور بکری کو جلد ہی گھر میں بند کردینا چاہئے ، ورنہ وہ بھیڑیے کا شکار ہونگے۔

قرون وسطی میں عورت کا مقام

قرون وسطی میں بھی عورت کو اجتماعی حقوق حاصل نہ تھا ۔ بلکہ وہ ایک بردہ اور کنیز کی حیثیت سے زندگی گزارتی تھی ۔ یہاں تک کہ عورت کو عامل فساد اور منفور خدا تصور کرتے تھے اور معتقد تھے کہ آدم کو بھشت سے نکالنے کا سبب بھی یہی عورت ہے ۔

جب قرون وسطی میں ایک کشیش سے پوچھا گیا:کیا اس گھر میں داخل ہوسکتا ہے جس میں نامحرم عورت موجود ہو؟ جواب دیا ہرگز ہرگز۔ حتی محرم بھی داخل ہوجائے ، تب بھی حرام ہے اگرچہ نگاہ نہ بھی کرے-(۳) ۔

حضرت مسیح A نے بھی عورت کے بغیر زندگی کی ہے اگر کوئی حقیقی مسیح بننا چاہتے ہیں تو کبھی بھی شادی نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی پادری(روحانی پاپ) زندگی بھر شادی نہیں کرتے ۔ دلیل یہ ہے کہ شادی کرنا خدا کو ناراض کرنے کا سبب ہے کیونکہ ایک ہی دل میں خدا کی محبت اور عورت کی محبت جمع نہیں ہوسکتی۔ اور شادی شدہ روح القدس کا حامل نہیں ہوسکتا۔

روس میں عورت کی حیثیت

روس کی ثقافت میں بھی عورت کو ایک حیوان سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی کہاوتیں کچھ یوں ہے:

نہ چوزے کو مرغی کہہ سکتے ہیں اور نہ عورت کو انسان۔

جب بچی کی ولادت ہوتی ہے تو چار دیواریں رونے لگتی ہیں۔

عورت سایہ کی مانند ہے اگر اس کے پیچھے دوڑیں تو وہ بھاگ جاتی ہے اور

اگر اس سے دور بھاگیں گے تو وہ پیچھے پیچھے آنے لگتی ہے۔

جس نے جواب بیوہ عورت سے شادی نہیں کی اس نے بدبختی کو نہیں چشا ہے۔

عورت کی بال لمبی ہے اور عقل پیچیدہ ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی خبر پوری دنیا تک پھیل جائے تو بیوی کو سناؤ۔

خوبصورت عورت آنکھوں کیلئے جنت ہے ، روح کیلئے جہنم اور جیب کیلئے برزخ ہے۔

آزادی نیک عورت کو بھی فاسد کرتی ہے۔

عورت صرف دو دن پیاری ہے : جس دن تیرے گھر پہلی مرتبہ قدم رکھے اور جس دن اسے دفن کردے۔

اپنی بیوی کو اپنی جان سے زیادہ پیار کرو ، لیکن اسے ڈرانے میں بھی کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو۔

جتنا اسے زیادہ مارو گے اتنی ہی اچھی غذا کھاؤ گے۔

عورت ایک ہی وقت ۷۷ چیزوں کے بارے میں سوچتی ہے۔

عورت بےجا شکایت کرتی ہے ، عمداً جھوٹ بولتی ہے ، آشکارا روتی ہے اور چھپ چھپ کے خوشی مناتی ہے۔

عورت کے رونے اور کتے کے لنگڑانے سے دھوکہ نہ کھائیں۔

اگر شوہر اپنی خوبصورت بیوی کو دن میں تین بار نہ ماریں تو وہ چھت سے بھی اوپر جانے لگتی ہے ۔

عاقل انسان عورت کے رونے میں پانی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا۔

عورت کو ہتھوڑی کے ساتھ مارو اور سونے کے پانی سے علاج کرو-(۴)

مغربی دنیا میں عورت کی حیثیت

فرانس یورپی ممالک میں تمدن کا گہوارہ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان ممالک میں عورت کی حیثیت کا صرف اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی عورت شوہر سے جدا ہوجائے یا طلاق دی جائے تو اسے زرّہ برابر اپنے بچوں پر حق حاصل نہیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ماں کی عطوفت کو پس پشت ڈال کرایک سادہ ترین اورطبیعی ترین حق جو ماں اور بیٹے کے درمیان رابطہ قائم کرنا ہے، ماں کو حاصل نہ ہو کہ وہ اپنے لخت جگر سے مل سکے ۔ جبکہ یہ حق تو حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ تمدن نہیں بلکہ توحّش یا وحشت گری ہے۔

موجودہ تورات میں عورت کو موت سے زیادہ تلخ معرفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت کمال انسانی تک نہیں پہنچ سکتی ۔ یہودی جو اپنے آپ کو بہترین اور پاک ترین قوم کہلاتے ہیں ، معتقد ہیں کہ عورتوں کی گواہی ، نذر ، قسم،۔۔۔ قبول نہیں ۔ اور نہ ارث کا مستحق ہے-(۵)

کہاوتیں:

عورت مردوں کیلئے صابون کی حیثیت رکھتی ہے۔

اگر کوئی مرد بہت زیادہ بوڑھا ہوجائے تو اس کی بیوی کی وجہ سے ہے۔

بدشکل عورت عشق کی بہترین دوا ہے۔

عورت کا انتخاب کرنا اور ہندوانہ کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہے۔

ہمیشہ پرہیزگاری کا دم بھرنے والی عورت پر اعتماد نہ کر۔

انگلستان میں عورت کی حیثیت

عورت ایک شر ہے لیکن ضرورت بھی۔

جو شخص کی بیوی ہو ایسا ہے جیسے وہ بندر پال رہا ہے ۔یعنی خراب کاری کا وہ وہ خود مسؤل ہے۔

عورت کے پاس زبان کے علاوہ کوئی اور اسلحہ نہیں ہے۔

بدشکل عورت درد دل ہے اور خوبصورت عورت دردسر۔

عورت دس سالگی میں فرشتہ ، پندرہ سالگی میں طاہرہ، چالیس سالگی میں ابلیس اور اس کے بعد عفریتہ (چالاک ) ہے۔

جسے عورت سے پیار نہیں اس نے سور کے پستان سے دودھ پیا ہے۔

کتا ہمیشہ قابل اعتماد ہے اور عورت پہلی فرصت ملنے تک۔

عورت تیرے سامنے مسکراتی ہے اور پیٹھ پیچھے تیرا گلہ کاٹ رہی ہوتی ہے۔

بیوی سے کہو بہت خوبصورت ہو ، تاکہ وہ خوشی سے دیوانہ ہو جائے۔

عورت جس قدر اپنی شکل وصورت میں زیادہ دقت کرتی ہے اسی قدر وہ گھر یلو زندگی سے بے قید ہوجاتی ہے۔

عورت کی مثال کشتی کے بادنما کی ہے ، کہ ہوا کا رخ جس طرف پھرجائے اسی طرف یہ بھی پھر جاتی ہے۔

عورت کی نصیحت کوئی مہم تو نہیں لیکن اگر کسی نے اسے قبول نہیں کیا تو وہ پاگل انسان ہے۔

عورت جب چاہے خوب روتی ہے اور جب چاہے ہنستی ہے۔

چونکہ عورت کے پاس منطقی دلیل نہیں ہے گھر میں اس کی بات ہی حرف آخر ہے۔

اگر اپنی بیوی سے تو نے خچر بنایا تو وہ تمہیں گائے بنادے گی۔

اچھی بیوی ، اچھے شوہر کی مرہون منت ہے۔

بیوہ عورت سے شادی نہ کرو ، مگر یہ کہ اس کے پہلے شوہر کو پھانسی دی گئی ہو۔

جس نے بھی اس بیوہ عورت سے شادی کی ،جس کے تین بیٹے ہو ؛ تو سمجھ لو اس نے چار چوروں سے شادی کی ہے۔

چین میں عورت کی حیثیت

بدشکل عورت اور کم مال کیلئے محافظ یا قلعے کی ضرورت نہیں۔

اگر عورت نے شوہرسے خیانت کی تو گویا گلی سے تھوک گھر کے اندر پھینکا ہے اور اگر مرد نے عورت سے خیانت کی ہے تو گھر سے تھوک گلی میں پھینگا ہے۔

بیٹے کو گھر میں اور بیوی کو بسترمیں نصیحت کریں۔

جس طرح گندم کے دانے توے پر پھولتے ہیں اسی طرح عورت بھی گھر کے راز کو افشا کرتی ہے۔

اگر کوئی کسی عورت پر دیوانہ ہوجائے تو صبر کر لو کہ وہ عورت ہی اسے عاقل بنا دے گی۔

عورت ہونٹوں سے جب نہ کہہ رہی ہے تو آنکھوں سے وہ ہاں کر رہی ہوتی ہے۔

جاپان میں عورت کی حیثیت

عورت کی زبان ایک ایسی تلوار ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا۔

جوشخص اپنی بیوی کو مارے تو وہ تین دن بھوکا اور تین دن کا م سے فارغ ہوجاتا ہے۔

رات، عشق اور عورت انسان کو اشتباہ میں ڈال دیتا ہے۔

جس کی بیوی باوفا ہو اور شہد کی مکھی اس پر مہربان ہو تو وہ دولت مند ہوجاتا ہے۔

جب تک غلات کو گودام میں اور عورت کو قبر میں نہ اتارے ؛ اعتماد نہ کرو۔

جب خدا تعالی کسی پر اپنا غضب نازل کرنا چاہتا ہے تو اس کا عقد کسی کی اکلوتی بیٹی سے کراتا ہے۔

جرمنی میں عورت کی حیثیت

جہاں عورت کی حکومت ہے وہاں شیطان اس کی فرمان برداری کے لئے آمادہ ہے۔

عورت شکل سے فرشتہ ہے ، دل سے سانپ اور شعور کے لحاظ سے وہ گدھی ہے ۔

جو بھی مال دار عورت سے شادی کرے گا وہ اپنی آزادی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

جب بھی ایک عورت مرجاتی ہے تو ایک فساد یا فتنہ ختم ہوجاتی ہے ۔

بوڑھا مرد اگر جوان لڑکی سے شادی کرے تو اس کی موت خوشی اور قہقہ میں بدل جاتی ہے۔

عورت کے ہاں اور نہ کرنے کے درمیان ایک سوئی کے برابر بھی فاصلہ نہیں ہوتا۔

عورت منہ کبھی بند نہیں ہوتا۔

شیطان کیلئے ایک مرد کو گمراہ کرنے کے لئے دس گھنٹے کی ضرورت ہے لیکن ایک عورت کے لئے دس مرد کو فریب دینے کے لئے ایک گھنٹہ درکار ہے۔

عورت جو رورہی ہوتی ہے وہ چھپ کر ہنس رہی ہوتی ہے(۶)

ہندوستان میں عورت کی حیثیت

ہندو مذہب کے پیروکار معتقد ہیں کہ عورت کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اور کوئی روح ان میں نہیں پائی جاتی، اسلئے جب بھی شوہر مرجاتا تہا تو اسی کے ساتھ بیوی کو بھی جلایا جاتا تھا۔ اور شوہر پر تشریفاتی طور پر قربان کیا جاتا تھا ۔ اس سنت کا نام ستی ( sati ) ہے گذشتہ ایک قرن تک یہ سنت جاری رہی۔ اور اب بھی بعض متعصب ہندو اس سنت کو انجام دیتے ہیں۔

کہاوتیں:

عورت کو تعلیم دینا بندر کے ہاتھوں خنجر دینے کے مترادف ہے۔

عورت کے بغیر گھر شیطان رہنے کی جگہ ہے۔

عورت کا گھر میں داخل ہونا سعادت کی ابتدا ہے ۔

عورت شوہر کی عدم موجودگی میں روتی رہتی ہے اور زمین پانی کے نہ ہونے پر روتی رہتی ہے ۔

ہزار آدمی ایک بات پر متفق ہو سکتے ہیں لیکن دو بہنوں کا اتفاق ہونا محال ہے۔

مرد کوشہوت سے دلچسپی ہے اور عورت کو مرد سے ۔

بیوی اور بٹوا کو سخت طریقے سے باندھ کر اپنے ساتھ لیکر جائیں۔

خوبصورت عورت ہر کسی کی ہے اور بدشکل عورت اپنے شوہر کی ۔

اچھی عورت وہ ہے جو یا گھر میں رہے یا قبر میں۔

لوگ پہاڑ کی مانند ہے اور عورتیں اہرم کی ۔

____________________

۱ ۔ بہشت خانوادہ، ص ۳۳۵۔۲ ۔ حقوق زن در اسلام و جہان،ص٩ ۳ ۔ علی شریعتی؛ فاطمہ فاطمہ است،ص ٥٩۔۴ ۔ بہشت خانوادہ، ص ۳۲۹۔

۵ ۔ محمد تقی سجادی؛سیری کوتاہ در زندگانی فاطمہ ،ص٢٣.۶ ۔ بہشت خانوادہ،ص۳۲۱۔

عصر جاہلیت میں عورت کی حیثیت

اسلام سے پہلے عصر جاہلیت میں عورت نہ فقط ابتدائی حقوق (روٹی ، کپڑا اور مکان) سے محروم تھی بلکہ ہر حیوانوں سے پست تر اور بدتر شمار ہوتی تھی۔ اور اشیاء فروخت کے طور پر بازار میں خرید و فروخت ہوتی تھیں۔ اور بعض وجوہات جیسے فقر و تنگدستی اور جنگوں میں شکست کے موقع پر اسیرہونے کے خوف سے موت کے گھاٹ اتارتے تھے۔اور ویسے بھی عورت کی وجود کو اپنے لئے ننگ وعار سمجھتے ہوئے زندہ درگور کرتے تھے۔

دختر کشی عرب میں عام رواج بن گیا تھا ۔ بعض لوگ بچیوں کے پیدا ہوتے ہی سر قلم کرتے تھے تو بعض لوگ پہاڑی کے اوپر سے پھینک دیتے تھے۔ تو بعض لوگ پانی میں پھینک دیتے تھے تو بعض لوگ زندہ درگور کرتے تھے۔ جب بھی عورت بچے کو جنم دیتی تو ایک طرف گڑھا کھود کر رکھتے تھے اور دوسری طرف بچے کا لباس ۔ اوردیکھتے کہ بچی ہے تو گڑھے میں ڈال دیتے لیکن اگربچّہ ہو تو لباس فاخرانہ اسے پہناتے تھے۔

داستان قیس قساوت اور سنگدلی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔یہ شخص پیامبر اسلام (ص) پر ایمان لانے کے بعد رو رہا تھا ۔ پیامبر اسلام (ص)نے وجہ دریافت کی تو کہا : یا رسول اللہ(ص) اس بات پر افسوس کر رہا ہوں کہ دعوت اسلام کچھ سال پہلے ہم تک پہنچ جاتی تو میں اپنی بچیوں کو زندہ درگور نہ کرتا۔! یا رسول اللہ (ص) میں اپنی ہاتھوں سے تیرہ بچیوں کو زندہ درگور کرچکا ہوں۔ تیرہویں ۔ بچی جو میرے کہیں سفر کے دوران پیدا ہوئی تھی میری بیوی نے مجھ سے چھپا کر اپنے کسی عزیز کے ہاں رکھ دی تھی اور مجھ سے کہنے لگی بچہ جو دنیا میں آیا تھا وہ سقط ہوا اور مر گیا ۔ میں بھی اسی بات پر اطمنان کر کے بیٹھا۔ کچھ سال گذرنے کے بعد میں کسی سفر سے جب واپس گھر پہنچا تو دیکھا گھر میں بہت ہی لاڈلی اور خوبصورت لڑکی آئی ہوئی ہے۔ اپنی بیوی سے کہا یہ لڑکی کون ہے؟ اس نے تردد کے ساتھ جواب دیا یہ تمھاری بیٹی ہے ۔ تو میں اسے فوراً گھسیٹ گھسیٹ کر محلے سے دور لے جارہاتھا اور میری بیٹی زار زار رورہی تھی اور کہہ رہی تھی بابا میں کبھی آپ سے کچھ نہیں مانگوں گی اور نہ آپ کے دسترخوان پر بیٹھوں گی اور نہ کبھی آپ سے لباس مانگوں گی ۔ لیکن مجھے رحم نہ آیا اور اسے بھی درگور کردیا۔ جب رسول گرامی۷نے یہ ماجرا سنا تو آنکھوں میں آنسو آئے اور فرمانے لگے من لا یرحم لا یرحم ۔ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور فرمایا: اے قیس ! تمھارے لئے برا دن آنے والا ہے۔ قیس نے کہا مولا ابھی میں اس گناہ کی سنگینی کو کم کرنے کیلئے کیا کرسکتا ہوں ؟ اس وقت رسول اللہ(ص)نے فرمایا: اعتق عن کلّ مولودةٍ نسمةً۔ یعنی اسی تعداد میں کہ تم نے زندہ درگور کیا ہے ، کنیزوں کو آزاد کرو-(۱)

جزیرة العرب میں ناجائز شادیاں

مساعات

بیگناہ بچیوں کی دردمندانہ موت اور قتل کے نتیجے میں عورتوں کی تعداد کم ہوتی

گئی۔ اور لوگوں کا بغیر بیوی کے زندگی گذارنا ناممکن تھا ،جس کا لازمہ یہ تھا کہ عورتوں کو کرایہ پر مہیّا کیا جاتا تھا ۔ یہ عورت کی بیچارگی کی انتہا تھی کہ چوپائیوں کی طرح کرائے پر دی جاتی تھی۔! عبداللہ بن جدعان اور عبداللہ بن ابی مکہ اور یثرب میں اپنی کنیزوں کو کرایہ پر دیکر بہت بڑا مال دار بن گئے ۔ اور یہ بھی رسم تھا اگر مقروض قرض نہ چکا سکا تو قرض دینے والا اس کی بیٹی یا بیوی کو لیکر زنا پر مجبور کرتے اور زنا کے پیسے سے اپنا قرض واپس لیتے تھے۔یہ رسوائی (مساعات ) کے نام سے مشہور تھی۔

اس کے علاوہ بھی قسم قسم کے نامشروع اور ذلّت آمیز نکاح رائج تھے۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں:

نکاح الاستیضاع

یہ نکاح شرم آور ترین نکاح ہے۔ اگر کوئی شخص کسی شجاع ،دلیر،خوبصورت اورنامور شخص کا ہمشکل فرزند کا خواہاں ہو تو بغیر کسی شرم و حیا کے اپنی بیوی کو اسی صفت کا مالک فرد کے پاس بھیج دیتا تھا۔ اور جب حاملہ ہو اور زنا زادہ پیدا ہو جائے تورسم ورواج کے مطابق اسی شوہر کا سمجھا جاتا تھا۔!

نکاح الرھط

یہ نکاح اجتماعی اور گروہی نکاح کہلاتا ہے ۔ تقریباً دس افراد پر مشتمل ایک گروہ ایک دوسرے کی رضایت کے ساتھ ایک عورت کیساتھ ہمبستری کرتے رہتے۔ اگر بچہ پیدا ہوجائے تو ہو عورت اپنی مرضی سے کسی ایسے شخص کی طرف نسبت دیتی جو زیادہ خرچہ دیتا رہا ہو۔ لیکن اگر کوئی بچی پیدا ہوجائے تو اعلان نہیں کرتی۔ کیونکہ کوئی راضی نہیں ہوتے۔

عمرو عاص جس نے جنگ صفین میں حکمیت ایجاد کرکے خلافت کو علی (ع)سے لیکر معاویہ کیلئے برقراررکھا۔ اسی دست جمعی نکاح سے پیدا ہوا تھا، اس کی ماں لیلی نے اسے عاص بن وائل کی طرف منسوب کیا۔ جبکہ ابو سفیان اپنی آخری دم تک یہ ادعا کرتا رہا کہ عمرو میرے ہی نطفے سے پیدا ہوا تھا لیکن عاص بن وائل لیلی کو زیادہ پیسہ دیتا تھا اس وجہ سے اسے بعنوان باپ انتخاب کیا۔

نکاح البدل

یعنی اپنی بیوی کو دوسرے کو دینا اور اس کی بیوی کو اپنے پاس لانا۔جو ایک خاص

جملے کیساتھ مبادلہ ہوتا تھا۔ انزل الیّ عن امرائتک و انزل لک عن امرائتی۔

نکاح المقت

یہ بھی رائج تھا کہ اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کی بیوی کو بھی ار ث کے ساتھ بڑا بیٹا اپنے تحویل میں لیتا تھا۔ اگر سوتیلا ماں ہو اور جوان و خوبصورت ہوتو استمتاع بھی کرلیتا تھا۔ یا کسی اور کو دیدیتا اور اس کا مہریہ لے لیتا تھا۔ یہاں بے چاری عورت سوائے تسلیم کرنے کے اور کچھ نہ کر سکتی تھی ۔

اسلام نے اس قسم کے نکاح کرنے سے سختی کیساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا:

وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً(۲) اور ان کیساتھ تم نکاح نہ کریں جن سے تمہارے آباء و اجداد نے کیا ہےبیشک کھلی ہوئی برائی اور پروردگار کا غضب اور بدترین راستہ ہے

نکاح الجمع

عرب کے ثروتمند لوگ اپنے مال و ثروت کو بڑھانے کیلئے کنیزوں کو خریدتے یا بے بندو بار عورتوں کو ایک قرارداد کے ساتھ جمع کرتے اور انہیں اہل فن وادب، موسیقار اور عشوہ گرکے ہاں بھیجتے تاکہ بیشتر کما سکے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے الگ گھر مہیا کرکے اس کے دروازے پر ایک خاص قسم کا جہنڈا کھڑا کرتے جو اس بات کی حکایت کرتا تھا کی ہر کوئی وارد ہوسکتا ہے اور اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرسکتا ہے۔ ایسی عورتیں قینات کے نام سے مشہور تھیں۔

نکاح الخدن

خندن لغت میں دوست یا معشوقہ کو کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی معشوقہ کیساتھ محرمانہ رابطہ پیدا کرتا ہے ۔ عرف جاہلی میں اسے رسمی اور قانونی قرار دیا گیا تھا۔جبکہ قرآن مجید نے اس قسم کے روابط سے منع کرتے ہو ئے فرمایا: مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ-(۳) یعنی ان کنیزوں کے ساتھ شادی کرو جوپاکدامن ہوں نہ کہ کھلم کھلا زنا کار ہوں اور نہ چوری چھپے دوستی کرنے والی ہوں۔

نکاح الشغار

یہ نکاح مبادلی ہے یعنی اپنی بیوی کے مہریے میں اپنی بیٹی دوسرے کو دینا۔ یہ معاملہ بھی دو مردوں کے درمیان ہوتا تھا ، یہاں بھی بے چاری عورت فاقد رضایت اور ارادہ تہی(۴) ۔

____________________

۱ ۔ حقوق زن در اسلام،ص١٥۔

۲ ۔ نساء ۲۲۔

۳ ۔ نساء ۲۵۔

۴ ۔ حقوق زن در اسلام و جہان، ص٣٧