خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض27%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17796 / ڈاؤنلوڈ: 4574
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

دوسرا حصہ

خواتین کا مقام اور حقوق

پہلی فصل

:عورت تاریخ کی نگاہ میں

تاریخ بشریت میں عورت کا مقام

قبل اس کے کہ اصل موضوع عورتوں کے حقوق اسلام کی نگاہ میں گفتگو کروں ، اسلام سے پہلے عورتوں کی وضعیت اور موقعیت کا مختصر سا مطالعہ ضروری ہے تاکہ بہتر سمجھ سکے اور درک کرسکے کہ پیامبر اسلام (ص)نے کتنی زحمتوں کو برداشت کرکے ان کی چھینی ہوئی حیثیت اور حقوق کو دوبارہ انہیں دلادی۔

ابتدائی دورمیں عورت کی حیثیت

قدیمی ترین زمانے میں مختلف ممالک میں کلی طور پر عورتوں پر حکومت کرتے تھے کیونکہ ہر معاشرے میں مخصوص آداب اور رسوم حاکم تھا جو دینی اور قانونی نہ تھا ۔ عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی بلکہ جانوروں کی طرح ان کی دیکھ بہال ہوتی تھی۔ جس طرح بہیڑ بکریوں کو گوشت کی خاطر یا فروخت کیلئے پالتے ہیں اسی طرح عورتوں کو بھی ایک وسیلہ کے طور پر کہ پیسہ کمائیں یا جنسی خواہشات کو پورا کروائیں نگہداری کرتے تھے۔ یہان تک کہ اگر قحط پڑجائے تو ذبح کرکے عورتوں کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ عورت صرف شوہر کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے باپ کے گھر میں بھی مظلوم واقع ہوتی تھی۔ کسی چیز پر اختیار نہیں تھا حتی شوہر کا انتخاب بھی باپ کی مرضی سے ہوتا تھا۔ اور حقیقت میں ایک قسم کا معاملہ تھا باپ اور شوہر کے درمیان۔ اگر گھر کا رئیس ، باپ ہو یا بھائی یا شوہر ،جسے چاہے اسے بخش دیتا یا فروخت کردیتا، یا فقط عیاشی کے عنوان سے نسل بڑھانے اور خدمت گذاری کیلئے کسی اور کو عاریہ دیتا تھا، یا قرض یا اجارہ لیتا تھا۔

ہم یہاں چند ممالک اور جوامع بشری میں عورتوں کی حیثیت کا جائزہ لیں گے:

یونان میں عورت کی حیثیت

یونان اور روم کو متمدن ممالک اور پیش رفتہ جامعہ تصور کرتے ہیں لیکن وہاں پر بھی خواتین کی زبون حالی یہ تھی کہ انہیں شیطان کی نسل اور نجس موجود سمجھتے تھے۔

اسپرٹی نامی ایک شخص کہتا ہے: (عورت ایک بلند بال اور کوتاہ فکر حیوان ہے)۔ یہ مقولہ اس قدر مشہور ہوگئی کہ ادبیات عرب میں ضرب المثل کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ المرئة حیوان طویل الشعر وقصیر الفکر۔

یونان والے جب بھی عورت کے بچہ دینے سے مایوس ہوجاتے تو اسے موت کے گھاٹ اتاردیتے تھے ۔

ان کے ہاں یہ ضرب الامثال موجود ہیں:

: تین شر: طوفان، آگ اور عورت۔

شادی نہ کرو اگر کرلی تو بیوی کو حاکم نہ نباؤ۔

عورت کو جھوٹ اور کتے کو ہڈی کے ذریعے راضی کرو۔

اچھی اور بری بیوی دونوں کو کوڑے کی ضرورت ہے ۔

شوہر کی خوش بختی یا بد بختی اس کی بیوی ہے۔

شریر بیوی سے ہوشیار رہو اور اچھی بیوی پر اعتماد نہ کرو۔

شادی کرنا ایک بلا ہے ، جس کیلئے لوگ دعاکرتے ہیں-(۱)

اٹلی میں عورت کی حیثیت

عورت اور گائے کو اپنے ہی شہر یا گاؤں سے انتخاب کرو۔

خوبصورت عورت کا مسکرانا شوہر کے بٹوے کا رونا ہے۔

تین چیزیں قانون سے بالاتر ہے : عورت، خچر،اور سور۔

خوک بکرے سے زیادہ مزاحم ہے اور عورت ان دونوں سے بھی زیادہ۔

شیطان کو بھی خبر نہیں کہ عورت خنجر کو کہاں تیز کرتی ہے۔

اگر ساری عمر بیوی کو اپنے دوش پر اٹھاتے رہو اور ایک لمحہ کیلئے اسے اگر زمین پر رکھ دیا تو کہے گی : میں تھک گئی ہوں۔

ایران باستان میں عورت کی حیثیت

عورت ایک بلا ہے لیکن کوئی گھر اس بلا کے بغیر نہیں ہونا چاہئے۔

گھوڑا ،تلوار اور بیوی کیا کسی کا وفادار بنا ؟!

عورت اور اژدھا دونوں مٹی کے اندر ہی اچھا۔

عورت کا خدا اس کا شوہر ہے۔

بیوی ایک ، خدا ایک۔

عورت قلعہ ہے اور شوہر اس کا قیدی۔

روم میں عورت کی حیثیت

روم والے اگرچہ قوانین اور حقوق میں بڑی ترقی کرچکے لیکن عورتوں کے بارے میں عام لوگوں کی خشونت آمیز رویّے اورسر سخت نظریہ تھا ۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ چونکہ عورت میں روح انسانی نھیں پائی جاتی لہذا روز قیامت دوبارمحشور ہونے کے لائق بھی نہیں ہے۔ بلکہ وہ مکمل طور پر شیطان اور مختلف روحوں کا مظہر ہے۔ اسلئے عورت کو ہنسنے اور بات کرنے کا حق نھیں تھا۔

رومی عورت کو ایک جنس تجارت شمار کرتے تھی اسلئے جب بھی گھر کا سردار یا مالک مرجاتا تھا تو عورتوں کو وراثت کے طور پر تقسیم کرتے تھے-(۲)

کہاوتیں:

عورتوں کو رونا آتا ہے تاکہ وہ جھوٹ بول سکیں۔

بہترین عورتیں بھی شیطان کی آلہ کار ہیں۔

اگر بوڑھی عورت کو دھوکہ دے سکے تو سمجھ لو شیطان کو جال میں پھنسا دیا۔

عورت صرف اپنی عمر اور ان چیزوں کو چھپاتی ہے جنہیں نہیں جانتی ۔

عورت اور بکری کو جلد ہی گھر میں بند کردینا چاہئے ، ورنہ وہ بھیڑیے کا شکار ہونگے۔

قرون وسطی میں عورت کا مقام

قرون وسطی میں بھی عورت کو اجتماعی حقوق حاصل نہ تھا ۔ بلکہ وہ ایک بردہ اور کنیز کی حیثیت سے زندگی گزارتی تھی ۔ یہاں تک کہ عورت کو عامل فساد اور منفور خدا تصور کرتے تھے اور معتقد تھے کہ آدم کو بھشت سے نکالنے کا سبب بھی یہی عورت ہے ۔

جب قرون وسطی میں ایک کشیش سے پوچھا گیا:کیا اس گھر میں داخل ہوسکتا ہے جس میں نامحرم عورت موجود ہو؟ جواب دیا ہرگز ہرگز۔ حتی محرم بھی داخل ہوجائے ، تب بھی حرام ہے اگرچہ نگاہ نہ بھی کرے-(۳) ۔

حضرت مسیح A نے بھی عورت کے بغیر زندگی کی ہے اگر کوئی حقیقی مسیح بننا چاہتے ہیں تو کبھی بھی شادی نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی پادری(روحانی پاپ) زندگی بھر شادی نہیں کرتے ۔ دلیل یہ ہے کہ شادی کرنا خدا کو ناراض کرنے کا سبب ہے کیونکہ ایک ہی دل میں خدا کی محبت اور عورت کی محبت جمع نہیں ہوسکتی۔ اور شادی شدہ روح القدس کا حامل نہیں ہوسکتا۔

روس میں عورت کی حیثیت

روس کی ثقافت میں بھی عورت کو ایک حیوان سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی کہاوتیں کچھ یوں ہے:

نہ چوزے کو مرغی کہہ سکتے ہیں اور نہ عورت کو انسان۔

جب بچی کی ولادت ہوتی ہے تو چار دیواریں رونے لگتی ہیں۔

عورت سایہ کی مانند ہے اگر اس کے پیچھے دوڑیں تو وہ بھاگ جاتی ہے اور

اگر اس سے دور بھاگیں گے تو وہ پیچھے پیچھے آنے لگتی ہے۔

جس نے جواب بیوہ عورت سے شادی نہیں کی اس نے بدبختی کو نہیں چشا ہے۔

عورت کی بال لمبی ہے اور عقل پیچیدہ ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی خبر پوری دنیا تک پھیل جائے تو بیوی کو سناؤ۔

خوبصورت عورت آنکھوں کیلئے جنت ہے ، روح کیلئے جہنم اور جیب کیلئے برزخ ہے۔

آزادی نیک عورت کو بھی فاسد کرتی ہے۔

عورت صرف دو دن پیاری ہے : جس دن تیرے گھر پہلی مرتبہ قدم رکھے اور جس دن اسے دفن کردے۔

اپنی بیوی کو اپنی جان سے زیادہ پیار کرو ، لیکن اسے ڈرانے میں بھی کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو۔

جتنا اسے زیادہ مارو گے اتنی ہی اچھی غذا کھاؤ گے۔

عورت ایک ہی وقت ۷۷ چیزوں کے بارے میں سوچتی ہے۔

عورت بےجا شکایت کرتی ہے ، عمداً جھوٹ بولتی ہے ، آشکارا روتی ہے اور چھپ چھپ کے خوشی مناتی ہے۔

عورت کے رونے اور کتے کے لنگڑانے سے دھوکہ نہ کھائیں۔

اگر شوہر اپنی خوبصورت بیوی کو دن میں تین بار نہ ماریں تو وہ چھت سے بھی اوپر جانے لگتی ہے ۔

عاقل انسان عورت کے رونے میں پانی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا۔

عورت کو ہتھوڑی کے ساتھ مارو اور سونے کے پانی سے علاج کرو-(۴)

مغربی دنیا میں عورت کی حیثیت

فرانس یورپی ممالک میں تمدن کا گہوارہ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان ممالک میں عورت کی حیثیت کا صرف اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی عورت شوہر سے جدا ہوجائے یا طلاق دی جائے تو اسے زرّہ برابر اپنے بچوں پر حق حاصل نہیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ماں کی عطوفت کو پس پشت ڈال کرایک سادہ ترین اورطبیعی ترین حق جو ماں اور بیٹے کے درمیان رابطہ قائم کرنا ہے، ماں کو حاصل نہ ہو کہ وہ اپنے لخت جگر سے مل سکے ۔ جبکہ یہ حق تو حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ تمدن نہیں بلکہ توحّش یا وحشت گری ہے۔

موجودہ تورات میں عورت کو موت سے زیادہ تلخ معرفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت کمال انسانی تک نہیں پہنچ سکتی ۔ یہودی جو اپنے آپ کو بہترین اور پاک ترین قوم کہلاتے ہیں ، معتقد ہیں کہ عورتوں کی گواہی ، نذر ، قسم،۔۔۔ قبول نہیں ۔ اور نہ ارث کا مستحق ہے-(۵)

کہاوتیں:

عورت مردوں کیلئے صابون کی حیثیت رکھتی ہے۔

اگر کوئی مرد بہت زیادہ بوڑھا ہوجائے تو اس کی بیوی کی وجہ سے ہے۔

بدشکل عورت عشق کی بہترین دوا ہے۔

عورت کا انتخاب کرنا اور ہندوانہ کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہے۔

ہمیشہ پرہیزگاری کا دم بھرنے والی عورت پر اعتماد نہ کر۔

انگلستان میں عورت کی حیثیت

عورت ایک شر ہے لیکن ضرورت بھی۔

جو شخص کی بیوی ہو ایسا ہے جیسے وہ بندر پال رہا ہے ۔یعنی خراب کاری کا وہ وہ خود مسؤل ہے۔

عورت کے پاس زبان کے علاوہ کوئی اور اسلحہ نہیں ہے۔

بدشکل عورت درد دل ہے اور خوبصورت عورت دردسر۔

عورت دس سالگی میں فرشتہ ، پندرہ سالگی میں طاہرہ، چالیس سالگی میں ابلیس اور اس کے بعد عفریتہ (چالاک ) ہے۔

جسے عورت سے پیار نہیں اس نے سور کے پستان سے دودھ پیا ہے۔

کتا ہمیشہ قابل اعتماد ہے اور عورت پہلی فرصت ملنے تک۔

عورت تیرے سامنے مسکراتی ہے اور پیٹھ پیچھے تیرا گلہ کاٹ رہی ہوتی ہے۔

بیوی سے کہو بہت خوبصورت ہو ، تاکہ وہ خوشی سے دیوانہ ہو جائے۔

عورت جس قدر اپنی شکل وصورت میں زیادہ دقت کرتی ہے اسی قدر وہ گھر یلو زندگی سے بے قید ہوجاتی ہے۔

عورت کی مثال کشتی کے بادنما کی ہے ، کہ ہوا کا رخ جس طرف پھرجائے اسی طرف یہ بھی پھر جاتی ہے۔

عورت کی نصیحت کوئی مہم تو نہیں لیکن اگر کسی نے اسے قبول نہیں کیا تو وہ پاگل انسان ہے۔

عورت جب چاہے خوب روتی ہے اور جب چاہے ہنستی ہے۔

چونکہ عورت کے پاس منطقی دلیل نہیں ہے گھر میں اس کی بات ہی حرف آخر ہے۔

اگر اپنی بیوی سے تو نے خچر بنایا تو وہ تمہیں گائے بنادے گی۔

اچھی بیوی ، اچھے شوہر کی مرہون منت ہے۔

بیوہ عورت سے شادی نہ کرو ، مگر یہ کہ اس کے پہلے شوہر کو پھانسی دی گئی ہو۔

جس نے بھی اس بیوہ عورت سے شادی کی ،جس کے تین بیٹے ہو ؛ تو سمجھ لو اس نے چار چوروں سے شادی کی ہے۔

چین میں عورت کی حیثیت

بدشکل عورت اور کم مال کیلئے محافظ یا قلعے کی ضرورت نہیں۔

اگر عورت نے شوہرسے خیانت کی تو گویا گلی سے تھوک گھر کے اندر پھینکا ہے اور اگر مرد نے عورت سے خیانت کی ہے تو گھر سے تھوک گلی میں پھینگا ہے۔

بیٹے کو گھر میں اور بیوی کو بسترمیں نصیحت کریں۔

جس طرح گندم کے دانے توے پر پھولتے ہیں اسی طرح عورت بھی گھر کے راز کو افشا کرتی ہے۔

اگر کوئی کسی عورت پر دیوانہ ہوجائے تو صبر کر لو کہ وہ عورت ہی اسے عاقل بنا دے گی۔

عورت ہونٹوں سے جب نہ کہہ رہی ہے تو آنکھوں سے وہ ہاں کر رہی ہوتی ہے۔

جاپان میں عورت کی حیثیت

عورت کی زبان ایک ایسی تلوار ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا۔

جوشخص اپنی بیوی کو مارے تو وہ تین دن بھوکا اور تین دن کا م سے فارغ ہوجاتا ہے۔

رات، عشق اور عورت انسان کو اشتباہ میں ڈال دیتا ہے۔

جس کی بیوی باوفا ہو اور شہد کی مکھی اس پر مہربان ہو تو وہ دولت مند ہوجاتا ہے۔

جب تک غلات کو گودام میں اور عورت کو قبر میں نہ اتارے ؛ اعتماد نہ کرو۔

جب خدا تعالی کسی پر اپنا غضب نازل کرنا چاہتا ہے تو اس کا عقد کسی کی اکلوتی بیٹی سے کراتا ہے۔

جرمنی میں عورت کی حیثیت

جہاں عورت کی حکومت ہے وہاں شیطان اس کی فرمان برداری کے لئے آمادہ ہے۔

عورت شکل سے فرشتہ ہے ، دل سے سانپ اور شعور کے لحاظ سے وہ گدھی ہے ۔

جو بھی مال دار عورت سے شادی کرے گا وہ اپنی آزادی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

جب بھی ایک عورت مرجاتی ہے تو ایک فساد یا فتنہ ختم ہوجاتی ہے ۔

بوڑھا مرد اگر جوان لڑکی سے شادی کرے تو اس کی موت خوشی اور قہقہ میں بدل جاتی ہے۔

عورت کے ہاں اور نہ کرنے کے درمیان ایک سوئی کے برابر بھی فاصلہ نہیں ہوتا۔

عورت منہ کبھی بند نہیں ہوتا۔

شیطان کیلئے ایک مرد کو گمراہ کرنے کے لئے دس گھنٹے کی ضرورت ہے لیکن ایک عورت کے لئے دس مرد کو فریب دینے کے لئے ایک گھنٹہ درکار ہے۔

عورت جو رورہی ہوتی ہے وہ چھپ کر ہنس رہی ہوتی ہے(۶)

ہندوستان میں عورت کی حیثیت

ہندو مذہب کے پیروکار معتقد ہیں کہ عورت کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اور کوئی روح ان میں نہیں پائی جاتی، اسلئے جب بھی شوہر مرجاتا تہا تو اسی کے ساتھ بیوی کو بھی جلایا جاتا تھا۔ اور شوہر پر تشریفاتی طور پر قربان کیا جاتا تھا ۔ اس سنت کا نام ستی ( sati ) ہے گذشتہ ایک قرن تک یہ سنت جاری رہی۔ اور اب بھی بعض متعصب ہندو اس سنت کو انجام دیتے ہیں۔

کہاوتیں:

عورت کو تعلیم دینا بندر کے ہاتھوں خنجر دینے کے مترادف ہے۔

عورت کے بغیر گھر شیطان رہنے کی جگہ ہے۔

عورت کا گھر میں داخل ہونا سعادت کی ابتدا ہے ۔

عورت شوہر کی عدم موجودگی میں روتی رہتی ہے اور زمین پانی کے نہ ہونے پر روتی رہتی ہے ۔

ہزار آدمی ایک بات پر متفق ہو سکتے ہیں لیکن دو بہنوں کا اتفاق ہونا محال ہے۔

مرد کوشہوت سے دلچسپی ہے اور عورت کو مرد سے ۔

بیوی اور بٹوا کو سخت طریقے سے باندھ کر اپنے ساتھ لیکر جائیں۔

خوبصورت عورت ہر کسی کی ہے اور بدشکل عورت اپنے شوہر کی ۔

اچھی عورت وہ ہے جو یا گھر میں رہے یا قبر میں۔

لوگ پہاڑ کی مانند ہے اور عورتیں اہرم کی ۔

____________________

۱ ۔ بہشت خانوادہ، ص ۳۳۵۔۲ ۔ حقوق زن در اسلام و جہان،ص٩ ۳ ۔ علی شریعتی؛ فاطمہ فاطمہ است،ص ٥٩۔۴ ۔ بہشت خانوادہ، ص ۳۲۹۔

۵ ۔ محمد تقی سجادی؛سیری کوتاہ در زندگانی فاطمہ ،ص٢٣.۶ ۔ بہشت خانوادہ،ص۳۲۱۔

عصر جاہلیت میں عورت کی حیثیت

اسلام سے پہلے عصر جاہلیت میں عورت نہ فقط ابتدائی حقوق (روٹی ، کپڑا اور مکان) سے محروم تھی بلکہ ہر حیوانوں سے پست تر اور بدتر شمار ہوتی تھی۔ اور اشیاء فروخت کے طور پر بازار میں خرید و فروخت ہوتی تھیں۔ اور بعض وجوہات جیسے فقر و تنگدستی اور جنگوں میں شکست کے موقع پر اسیرہونے کے خوف سے موت کے گھاٹ اتارتے تھے۔اور ویسے بھی عورت کی وجود کو اپنے لئے ننگ وعار سمجھتے ہوئے زندہ درگور کرتے تھے۔

دختر کشی عرب میں عام رواج بن گیا تھا ۔ بعض لوگ بچیوں کے پیدا ہوتے ہی سر قلم کرتے تھے تو بعض لوگ پہاڑی کے اوپر سے پھینک دیتے تھے۔ تو بعض لوگ پانی میں پھینک دیتے تھے تو بعض لوگ زندہ درگور کرتے تھے۔ جب بھی عورت بچے کو جنم دیتی تو ایک طرف گڑھا کھود کر رکھتے تھے اور دوسری طرف بچے کا لباس ۔ اوردیکھتے کہ بچی ہے تو گڑھے میں ڈال دیتے لیکن اگربچّہ ہو تو لباس فاخرانہ اسے پہناتے تھے۔

داستان قیس قساوت اور سنگدلی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔یہ شخص پیامبر اسلام (ص) پر ایمان لانے کے بعد رو رہا تھا ۔ پیامبر اسلام (ص)نے وجہ دریافت کی تو کہا : یا رسول اللہ(ص) اس بات پر افسوس کر رہا ہوں کہ دعوت اسلام کچھ سال پہلے ہم تک پہنچ جاتی تو میں اپنی بچیوں کو زندہ درگور نہ کرتا۔! یا رسول اللہ (ص) میں اپنی ہاتھوں سے تیرہ بچیوں کو زندہ درگور کرچکا ہوں۔ تیرہویں ۔ بچی جو میرے کہیں سفر کے دوران پیدا ہوئی تھی میری بیوی نے مجھ سے چھپا کر اپنے کسی عزیز کے ہاں رکھ دی تھی اور مجھ سے کہنے لگی بچہ جو دنیا میں آیا تھا وہ سقط ہوا اور مر گیا ۔ میں بھی اسی بات پر اطمنان کر کے بیٹھا۔ کچھ سال گذرنے کے بعد میں کسی سفر سے جب واپس گھر پہنچا تو دیکھا گھر میں بہت ہی لاڈلی اور خوبصورت لڑکی آئی ہوئی ہے۔ اپنی بیوی سے کہا یہ لڑکی کون ہے؟ اس نے تردد کے ساتھ جواب دیا یہ تمھاری بیٹی ہے ۔ تو میں اسے فوراً گھسیٹ گھسیٹ کر محلے سے دور لے جارہاتھا اور میری بیٹی زار زار رورہی تھی اور کہہ رہی تھی بابا میں کبھی آپ سے کچھ نہیں مانگوں گی اور نہ آپ کے دسترخوان پر بیٹھوں گی اور نہ کبھی آپ سے لباس مانگوں گی ۔ لیکن مجھے رحم نہ آیا اور اسے بھی درگور کردیا۔ جب رسول گرامی۷نے یہ ماجرا سنا تو آنکھوں میں آنسو آئے اور فرمانے لگے من لا یرحم لا یرحم ۔ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور فرمایا: اے قیس ! تمھارے لئے برا دن آنے والا ہے۔ قیس نے کہا مولا ابھی میں اس گناہ کی سنگینی کو کم کرنے کیلئے کیا کرسکتا ہوں ؟ اس وقت رسول اللہ(ص)نے فرمایا: اعتق عن کلّ مولودةٍ نسمةً۔ یعنی اسی تعداد میں کہ تم نے زندہ درگور کیا ہے ، کنیزوں کو آزاد کرو-(۱)

جزیرة العرب میں ناجائز شادیاں

مساعات

بیگناہ بچیوں کی دردمندانہ موت اور قتل کے نتیجے میں عورتوں کی تعداد کم ہوتی

گئی۔ اور لوگوں کا بغیر بیوی کے زندگی گذارنا ناممکن تھا ،جس کا لازمہ یہ تھا کہ عورتوں کو کرایہ پر مہیّا کیا جاتا تھا ۔ یہ عورت کی بیچارگی کی انتہا تھی کہ چوپائیوں کی طرح کرائے پر دی جاتی تھی۔! عبداللہ بن جدعان اور عبداللہ بن ابی مکہ اور یثرب میں اپنی کنیزوں کو کرایہ پر دیکر بہت بڑا مال دار بن گئے ۔ اور یہ بھی رسم تھا اگر مقروض قرض نہ چکا سکا تو قرض دینے والا اس کی بیٹی یا بیوی کو لیکر زنا پر مجبور کرتے اور زنا کے پیسے سے اپنا قرض واپس لیتے تھے۔یہ رسوائی (مساعات ) کے نام سے مشہور تھی۔

اس کے علاوہ بھی قسم قسم کے نامشروع اور ذلّت آمیز نکاح رائج تھے۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں:

نکاح الاستیضاع

یہ نکاح شرم آور ترین نکاح ہے۔ اگر کوئی شخص کسی شجاع ،دلیر،خوبصورت اورنامور شخص کا ہمشکل فرزند کا خواہاں ہو تو بغیر کسی شرم و حیا کے اپنی بیوی کو اسی صفت کا مالک فرد کے پاس بھیج دیتا تھا۔ اور جب حاملہ ہو اور زنا زادہ پیدا ہو جائے تورسم ورواج کے مطابق اسی شوہر کا سمجھا جاتا تھا۔!

نکاح الرھط

یہ نکاح اجتماعی اور گروہی نکاح کہلاتا ہے ۔ تقریباً دس افراد پر مشتمل ایک گروہ ایک دوسرے کی رضایت کے ساتھ ایک عورت کیساتھ ہمبستری کرتے رہتے۔ اگر بچہ پیدا ہوجائے تو ہو عورت اپنی مرضی سے کسی ایسے شخص کی طرف نسبت دیتی جو زیادہ خرچہ دیتا رہا ہو۔ لیکن اگر کوئی بچی پیدا ہوجائے تو اعلان نہیں کرتی۔ کیونکہ کوئی راضی نہیں ہوتے۔

عمرو عاص جس نے جنگ صفین میں حکمیت ایجاد کرکے خلافت کو علی (ع)سے لیکر معاویہ کیلئے برقراررکھا۔ اسی دست جمعی نکاح سے پیدا ہوا تھا، اس کی ماں لیلی نے اسے عاص بن وائل کی طرف منسوب کیا۔ جبکہ ابو سفیان اپنی آخری دم تک یہ ادعا کرتا رہا کہ عمرو میرے ہی نطفے سے پیدا ہوا تھا لیکن عاص بن وائل لیلی کو زیادہ پیسہ دیتا تھا اس وجہ سے اسے بعنوان باپ انتخاب کیا۔

نکاح البدل

یعنی اپنی بیوی کو دوسرے کو دینا اور اس کی بیوی کو اپنے پاس لانا۔جو ایک خاص

جملے کیساتھ مبادلہ ہوتا تھا۔ انزل الیّ عن امرائتک و انزل لک عن امرائتی۔

نکاح المقت

یہ بھی رائج تھا کہ اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کی بیوی کو بھی ار ث کے ساتھ بڑا بیٹا اپنے تحویل میں لیتا تھا۔ اگر سوتیلا ماں ہو اور جوان و خوبصورت ہوتو استمتاع بھی کرلیتا تھا۔ یا کسی اور کو دیدیتا اور اس کا مہریہ لے لیتا تھا۔ یہاں بے چاری عورت سوائے تسلیم کرنے کے اور کچھ نہ کر سکتی تھی ۔

اسلام نے اس قسم کے نکاح کرنے سے سختی کیساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا:

وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً(۲) اور ان کیساتھ تم نکاح نہ کریں جن سے تمہارے آباء و اجداد نے کیا ہےبیشک کھلی ہوئی برائی اور پروردگار کا غضب اور بدترین راستہ ہے

نکاح الجمع

عرب کے ثروتمند لوگ اپنے مال و ثروت کو بڑھانے کیلئے کنیزوں کو خریدتے یا بے بندو بار عورتوں کو ایک قرارداد کے ساتھ جمع کرتے اور انہیں اہل فن وادب، موسیقار اور عشوہ گرکے ہاں بھیجتے تاکہ بیشتر کما سکے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے الگ گھر مہیا کرکے اس کے دروازے پر ایک خاص قسم کا جہنڈا کھڑا کرتے جو اس بات کی حکایت کرتا تھا کی ہر کوئی وارد ہوسکتا ہے اور اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرسکتا ہے۔ ایسی عورتیں قینات کے نام سے مشہور تھیں۔

نکاح الخدن

خندن لغت میں دوست یا معشوقہ کو کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی معشوقہ کیساتھ محرمانہ رابطہ پیدا کرتا ہے ۔ عرف جاہلی میں اسے رسمی اور قانونی قرار دیا گیا تھا۔جبکہ قرآن مجید نے اس قسم کے روابط سے منع کرتے ہو ئے فرمایا: مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ-(۳) یعنی ان کنیزوں کے ساتھ شادی کرو جوپاکدامن ہوں نہ کہ کھلم کھلا زنا کار ہوں اور نہ چوری چھپے دوستی کرنے والی ہوں۔

نکاح الشغار

یہ نکاح مبادلی ہے یعنی اپنی بیوی کے مہریے میں اپنی بیٹی دوسرے کو دینا۔ یہ معاملہ بھی دو مردوں کے درمیان ہوتا تھا ، یہاں بھی بے چاری عورت فاقد رضایت اور ارادہ تہی(۴) ۔

____________________

۱ ۔ حقوق زن در اسلام،ص١٥۔

۲ ۔ نساء ۲۲۔

۳ ۔ نساء ۲۵۔

۴ ۔ حقوق زن در اسلام و جہان، ص٣٧

تیسری حکمت : نماز قا‏‏‏ئم کرنا :

حضرت لقمان اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرمارہے ہیں( يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ ) ؛اے بیٹے نماز کو قا‏‏‏ئم کرو(۵۶)

پہلی والی دونوں نصیحتیں خدا شناسی اور معاد و حساب و کتاب کے بارے میں تھیں ۔ حضرت لقمان نے دین کے بنیادی اصول یعنی خدا شناسی و معاد اور قیامت کے دن حساب و کتا ب ہونے کے بارے میں بیان کیا پھر اس کے بعد اب اس دین کی فرع یعنی نماز کو قا‏‏‏ئم کرنے کے بارے میں نصیحت کرتا ہے فقط نماز کو انجام دینے کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کو ہمیشہ کے لئے قا‏‏‏ئم و دا‏‏‏ئم رکھنے کی تلقین کرتا ہے کیونکہ یہ دن رات کی جو نماز ہے وہ خالق حقیقی سے ملنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے ۔

خدا شناسی انسان کو قیامت اور روز جزاء (مالک یوم الدین )کی یاد دلاتی ہے اور روزانہ کی یہ تمرین انسان کو صراط مستقیم اور حساب و کتاب کی یاد دلاتی ہے ۔

نماز کے بارے میں مختلف مسا‏‏‏ئل بیان ہو‏‏‏ئے ہیں جو بحث کرنے کے قابل ہیں لیکن ان میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جو حضرت لقمان نے بیان کیا ہے وہ اس نماز کو قا‏‏‏ئم کرنا ہے ۔

اقامہ اصل میں قیام کے مادہ سے لیا گیا ہے جو اس مطلب کو بیان کرتا ہے کہ نماز کو طوطی کی طرح نہیں رٹے بلکہ اس کو بطور عبادت انجام دے اور ان الفاظ کےمفہوم کو روح وروان کے ساتھ ہماہنگ کرے اور نماز کے اس پرچم کو ہمیشہ سربلند رکھے ۔

مناسب یہی ہے کہ ہم یہاں پر نماز کے بارے میں تین اہم مطالب کو بیان کریں ۔

۱۔ نماز کی اہمیت :

نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ دین اسلام میں مختلف تعبیروں کے ساتھ اس کا معنی بیان ہوا ہے ۔

کبھی نماز کو دین کا ستون قرار دیا ہے جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے (الصَّلَاةُ عَمُودُ الدِّي ن‏نماز دین کا ستون ہے(۵۷) اور پیغمبر اسلام کا فرمان ہے (الصَّلَاةُ عَمُودُ الدِّين ‏نماز دین کی پناہ گاہ ہے(۵۸)

حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہو‏ئے فرماتے ہیں کہ«يا بُنَيَ‏ أَقِمِ‏ الصَّلاةَ فَإِنَّمَا مَثَلُهَا فِي دِينِ اللَّهِ كَمَثَلِ عُمُدِ فُسْطَاط ؛ اے بیٹے نماز کو قا‏ئم کرو چونکہ دین اسلام میں نماز خیمے کےستون کی مانند ہے اس خیمے کا ستون جب تک استوار اور مضبوط رہے گا تب تک خیمہ سالم رہے گا لیکن اگر اس خیمے کا ستون ٹوٹ جا‏ئے تو پھر خیمہ گر جا‏ئے گا اور اس کی کو‏ئی اہمیت باقی نہیں رہے گی(۵۹)

اسی طرح سے کبھی اس نماز کو بہترین عمل قرار دیا ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ : «مَا أَعْلَمُ‏ شَيْئاً بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ أَفْضَلَ مِنْ هذِهِ الصَّلَاةِ ؛ میں نے خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے بعد نماز سے بڑھ کر کو‏ئی عمل نہیں دیکھا ہے(۶۰)

اس نماز کا ایک مخصوص وقت ہے جو خدا وند عالم کی طرف سے معین ہے اسی کو ایک بہترین موضوع قرار دیا ہے جیسا کہ روایت میں آیا ہے ابو ذر نے پیغمبر اسلام سے پوچھا نماز کیا چیز ہے ؟ تو پیغمبر اسلام نے فرمایا نماز بہترین موضوع ہے( ۶۱)

اسی طرح سے کبھی اس نماز کو اسلام کا چہرہ قرار دیا ہے جیسا کہ پیغمبر کا فرمان ہے (لْيَكُنْ‏ أَكْثَرُ هَمِّكَ‏ الصَّلَاةَ فَإِنَّهَا رَأْسُ الْإِسْلَامِ .

آپ کی تمام ہمت اور اہتمام اس نماز کی طرف ہونی چاہیے کیونکہ نماز دین اسلام کا سر ہے(۶۲)

امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے ہر چیز کے لئے ایک چہرہ ہوتا ہے اور دین اسلام کا چہرہ نماز ہے ۔(۶۳)

اور روایات اسلامی میں معصومین کی زبان سے دوسری تعبیر ات بھی بیان ہو‏ئیں ہیں جیسا کہ فرمایا نماز مومن کی معراج ہے نماز خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے وسیلہ ہے نماز خدا کی خوشنودی کا باعث ہے اور نماز خیر العمل یعنی ایک بہترین عمل ہے۔ نماز پیغمبر اسلام کے آنکھوں کا نور ہے ۔ نماز انسان کی تمام آلودگیوں کو پاک کرنے کی ایک نہر ہے۔ نماز گناہوں کا کفارہ ہے اور انسان کے تمام اعمال کی قبولیت اسی نماز پر موقوف ہے اور نماز وہ سب سے پہلا کام ہے کہ جس کے بارے میں قیامت کے دن پہلا سوال ہو گا

اور اس نماز کی اہمیت کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ یہ ایک عبادی امر ہے جو انسان کی خلقت کی ابتداء سے ہی تھا اور ابھی تک باقی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز پہلے سے ہی موجود تھی لیکن ہر زمانہ کے اعتبار سے مختلف تھی ۔ حضرت ابراہیم جوکہ توحید کا فاتح شمار ہوتا ہے جب اسماعیل اور ہاجر کو اس غیر آباد صحراء میں چھوڑ آیا تو اپنی دعا‏ؤں میں اس طرح سے فرمایا اے خدا میں اپنی اولاد کو اس غیر آباد صحراء میں کہ جہاں پر آپ کا حرم ہے چھوڑ رہاہو ‏ں (لِيُقِيمُوا الصَّلاة؛ تاکہ قا‏ئم کریں(۶۴) ۔

کسی اور مورد میں جب خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے کی حالت میں اسحاق جیسا بیٹا عطا کیا تو بارگاہ الہی میں شکر گزاری کرتے ہو‏ئے اس طرح سے دعا کی «رَبِ‏ اجْعَلْنِي‏ مُقِيمَ‏ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي ‏؛خدایا مجھے اور میرے اولاد کو نماز قا‏ئم کرنے والوں میں سے قرار دے دیں ۔(۶۵)

جیسا کہ آپ نے ملاحہر کیا کہ حضرت ابراہیم اپنی تمام چاہتوں سے پہلے نماز کو قا‏ئم کرنے کے بارے میں کہہ رہے ہیں ۔ اور خدا وند عالم نے حضرت اسماعیل کی تعریف بیان کرتے ہو‏ئے فرمایا : «( وَ كانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ‏ بِالصَّلاة ) ؛ حضرت اسماعیل اپنے خانوادے کو نماز قا‏ئم کرنے کا حکم دیتا تھا ۔(۶۶ )

اور حضرت عیسی علیہ السلام جب گہوارہ میں باتیں کرنے لگے تو اپنی نبوت اور عبودیت کا اعلان کرنے کے بعد اس نماز کو قا‏ئم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہو‏ئے فرمایا : « «( وَ أَوْصانِي‏ بِالصَّلاة ) ؛ خداوند عالم نے مجھے نماز قا‏ئم کرنے کا حکم دیا ہے ۔(۶۷)

خلاصہ کلام یہ کہ نماز بااہمیت ترین حکم ہے جو خدا وند عالم نے انسان کو عطا کیا ہے اور یہ بلدک ترین اطاعت الہی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا«ُإِنَ‏ طَاعَةَ اللَّهِ‏ خِدْمَتُهُ‏ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ شَيْ‏ءٌ مِنْ خِدْمَتِهِ تَعْدِلُ الصَّلَاة ؛ اطاعت الہی میں یعنی زمین پر خدا کی خدمت کرنا اور کو‏‏‏ئی بھی خدمت نماز کے برابر نہیں ہوسکتی ۔(۶۸)

اور جالب بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی اس نورانی زندگی اور اس کی سیرت میں ملتا ہے کہ ہجرت کے نویں سال طا‏ئفہ (طی ) قبیلہ طا‏ئف کی نما‏ئندگی میں پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہو‏ا اور مذاکرہ کے بعد وہ اس شرط پر تسلیم ہونے کو قبول کیا کہ ان سے نماز کا حکم ہٹادیا جا‏ئے لیکن پیغمبر اسلام نے بہت ہی سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ «ُ لَا خَيْرَ فِي‏ دِين‏ لَا صَلَاة معه؛ ایسا دین کہ جس میں نماز نہ ہو اس میں خیر و برکت نہیں ہے(۶۹) اور یہی بات نماز کی عظمت اور پیغمبر اسلام کی نگاہ میں نماز کی اہمیت کو بیان کرتی ہے ۔

۲۔ نماز کے آثار اور اسکا فلسفہ :

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا اہم چیز نماز کو قا‏ئم کرنا ہے اور یہ تعبیر اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ نماز ہمیشہ قا‏ئم ہونی چاہیے اور انسان کااجتماعی اور فردی طور پر یہی انگیزہ ہونا چاہیے ایسی نماز کہ جس کو خد‏اوند متعال مقبول اورحقیقی نماز جانتا ہے ۔ ایسی نماز کی اہمیت اسوقت ہے کہ جب یہی نماز دین کا حقیقی ستون بن جا‏ئے اور ملکوت اعلی میں مومن کی معراج بن جا‏ئے تو ایسی نماز اپنے تمام شرا‏ئط کے ساتھ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی بنا پر ایک نماز کامل کو اس کے آثار میں ڈھونڈنا چاہیے اور اس کے آداب اور اسرار کے بارے میں جان لینا چاہیے اور اسے اپیک زندگی میں ان کا اظہار کرنا چاہیے ۔

نماز کا مقصد اور ہدف صرف اس کا خاکہ اور ڈھانچہ ہی نہیں بلکہ اس کا روح اور باطن ہونا چاہیے نماز میں ظاہری رکوع اور سجود پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے جو اس نماز کا ظاہری جلد شمار ہوتا ہے حقیقت میں اس کا مغز اور باطن حقیقی نماز شمار ہوتا ہے ۔

جب ہم قرآن مجید اور ر‏وایات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس نماز سے مربوط آیات اور روایات کو دیکھتے ہیں کہ جن میں اس نماز کے اسرار اور اس کے فلسفہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اسی سے سمجھ میں آتا ہے کہ نماز اسی فلسفہ اور انہی رازوں کیوجہ سے کامل ہو‏‏‏ئی ہے جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ فرمایا : (( أَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ) ..؛ اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے ۔(۷۰)

کسی اور آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ (( و أَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ لذكري ) ؛اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔(۷۱)

بنا بر این نماز کا اصل راز انسان کا اپنے روح و روان سے خدا وند عالم کو یاد کرنا ہے او‏ر یہی خدا کی یاد انسان کا خدا سے رابطہ کرنے کا باعث بنتی ہے اور انسان کی اصلاح اور کمال تک پہنچنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسی نماز انسان کو برا‏ئیوں سے روکتی ہے اور تمام پریشانیوں کو دور کرکے انسان کو آرامش اور سکون کا سبب بنتی ہے اور حقیقت میں خدا کی یاد انسان کی خود سازی کا باعث بنتی ہے ۔

قرآن کی نظر میں غافل انسان خسارے میں ہیں اور ایسے شخص کی عاقبت یہ ہے کہ اس کی زندگی بہت ہی سخت اور ناگوار گزرے گی اور آخرت میں بھی وہ نابینا ہو گاجیسا کہ قرآن فرمارہا ہے ۔ اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ذکر خدا سے تمہیں غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے گا تو وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔(۷۲)

نماز جو کہ خدا کی یاد کرنے کا باعث ہے وہ انسان کی زندگی میں برے آثار کو پاک کرتی ہے اور اس کے خسارے میں ہونے کے بدلے میں خوشبخت اور بینا بنادیتی ہے ۔

انسان کے اندر موجود غرا‏ئز میں میں سے ایک غریزہ حرص اور لالچ ہے جو تمام گناہوں اور فسادوں کی جڑ ہیں لیکن نماز میں ایسی خاصیت ہے کہ انسان کے اندر موجود وہ بری صفت حرص اور بے تابی اور لالچ کو نابود کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے کہ انسان ھلوع اور حریص خلق ہوا ہے انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے ، اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے ، سوائے نمازگزاروں کے ، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں،

اور جن کے اموال میں معین حق ہے ۔(۷۳)

محمد بن سنان کہہ رہا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے نماز کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے نماز کے فلسفہ اور اس کے آثار کے بارے میں فرمایا : نماز پڑھنے کی علت یہ ہے کہ آپ ۔

۱۔ خدا کی ربوبیت کا اقرار کرے ۔

۲۔ خدا کی ذات میں کسی کو شریک قرار نہیں دے ۔

۳۔ خدا کی بارگاہ میں اس کے سامنے تواضع اور انکساری کے ساتھ کھڑا ہونا ۔

۴۔ اپنے گناہوں کا اقرار کرے اور بخشش کا تقاضا کرے ۔

۵۔ اور ہر دن خدا کی تعظیم کے لئے اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دے ۔

۶۔ ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اس طریقے سے کہ تمہارے اندر سے غرور مستی اور غفلت وغیرہ ختم ہو جا‏ئے ۔

۷۔ ہمیشہ خدا کو یاد کرنا چونکہ نماز خدا کو نہ بھولنے کا باعث بنتی ہے یہی یاد خدا ہے کہ جو انسان کو غرور اور تکبر سے روک دیتی ہے اور تمام گناہوں اور ہر قسم کے فساد سے روک دیتی ہے ۔(۷۴)

انہی آثار کی طرف توجہ دیتے ہو‏ئے پیغمبر اسلام فرماتے ہیں « الصَّلَاةُ حِصْنٌ‏ مِنْ سَطَوَاتِ الشَّيْطَان‏؛نماز شیطان کے حملوں کے مقابل میں ایک مضبوط قلعہ ہے ۔(۷۵)

عالم ربانی شیخ عبد اللہ شوشتری ( متوفی ۱۰۲۱) جو علامہ مجلسی کے زمانے کے مشہور ترین عالم شمار ہوتے تھے اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب نماز جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد میں داخل ہو‏ئے اس کا بیٹا کسی سخت بیماری میں مبتلا تھا اسی لئے وہ بہت ہی پریشان تھے نماز جمعہ پڑھانے میں مشغول ہو‏‏‏ئے جب وہ نماز کی دوسری رکعت میں سورہ منافقوں کی اس آیت ۹ «( يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوالُكُمْ وَ لا أَوْلادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّه ) ؛ کو پڑھنے لگا تو اس کو بار بار تکرار کرنے لگا ( اگر چہ وقت کے ہوتے ہو‏‏‏ئے نماز میں آیات کو تکرار کرنا جا‏‏‏ئز ہے ) پھر بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بعض لوگوں نے اس تکرار کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے میرا بیٹا کسی بیماری کی وجہ سے بسترے میں ہیں جب میں نے یہ آیت پڑھی تو اپنے بیٹے کی یاد آگئی تو میں نے اس آیت کو باربار تکرار کیا تاکہ اپنے نفس پر کنٹرول کرسکوں جس طرح سے یہ آیت خدا کو یاد کرنے کا کہہ رہی ہے میں نے دوسروں کو اپنے دل سے نکال دیا اور یہ فرض کرنے لگا کہ میرا بیٹا مر گیا ہے اور اس کا جنازہ میرے سامنے رکھ دیا گیا ہے اور میں خدا سے غافل نہیں ہوا ایسا وقت تھا کہ پھر میں نے آیت کو تکرار نہیں کیا( ۷۶)

۳۔ نماز کے قبول ہونے اور اس کے اسرار میں تامل :

تمام عبادات میں سے اہم ترین مسا‏‏‏ئل کہ جن کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہیں جیسا کہ نماز ہے جس میں اہم ترین مسئلہ اس کا قبول ہونا ہے اور نماز کا قبول ہونا اس کی کامل ترین شرا‏‏‏ئط میں سے شمار ہوتا ہے اور نماز کا قبول ہونا بھی اس کے اثر پر موقوف ہے جو انسان کی پاکسازی میں دخالت رکھتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے «( إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقين ) ؛ اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔(۷۷) یعنی گناہ آلود اعمال کبھی بھی قبول نہیں ہوتے ہیں ۔

امام صادق علیہ السلام اپنے کسی کلام میں فرماتے ہیں انسان کی زندگی کبھی پچاس سال سے بھی گزر جاتی ہے لیکن خدا وند عالم اس کی ایک نماز کو بھی قبول نہیں کرتا ہے پس اس سے بڑھ کر اور سخت چیز کیا ہو گی ؟ پھر اس کے بعد فرمایا «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَقْبَلُ‏ إِلَّا الْحَسَنَ‏ فَكَيْفَ يَقْبَلُ مَا يُسْتَخَفُّ بِه ‏؛ اعمال نیک اور شا‏‏‏ئستہ کے علاوہ کو‏‏‏ئی عمل قبول نہیں پس حقیر اور ہلکا سمجھ کر انجام دیا جانے والا عمل کیسے قبول ہوگا(۷۸) ممکن ہے یہاں پر یہ سوال پیدا ہو جا‏‏‏ئے کہ ہم کہاں سے جان لیں کہ ہماری نماز یں قبول ہو‏‏‏ئیں ہیں یا نہیں ؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان اپنی پاکسازی میں اس نماز کی تاثیر کیطرف متوجہ رہے جس انداز اور مقدار کے مطابق اس پر اثر ہوا ہے اسی اندازے کے مطابق اس کی نماز قبول ہو‏‏‏ئی ہے ۔ اسی لئے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کو‏‏‏ئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں اس کی نما ز قبول ہو‏‏‏ئی ہے یانہیں ؟ تو اس کے ‏لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا اس کی نمازیں ان برے کام انجام دینے سے اور گناہوں سے روک رہی ہیں یا نہیں ؟ اگر اس کو روکا ہے تو پھر اس کی نماریں قبول ہو‏‏‏ئیں ہیں ۔(۷۹)

نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے تمام اعمال اور نمازوں کے قبول ہونے کے بارے میں فکر کریں اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ساری کوششیں نابود ہو جا‏‏‏ئیں گی مثال کے طور پر اگر کو‏‏‏ئی شخص بہت زیادہ پیسہ خرچ کرکے ایک بہت بڑا خربوزہ خرید ے تو اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خربوزہ سرخ اور میٹھا ہونا چاہیے اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کا سارا خرچ کیا ہوا پیسہ بے مقصد اور فضول ہوا ۔

نماز کے قبول ہونے میں حضور قلب اور خشوع کا کردار :

پوچھا جاتا ہے کہ ہم کیا کریں کہ ہماری نمازیں خدا کی درگاہ میں قبول ہو جا‏‏‏‏‏‏ئیں ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے صحیح ہونے والی شرا‏‏‏ئط کی اس نماز میں رعایت کرنی چاہیے اور اسی طرح سے اس نماز کو کمال تک پہنچانے والی شرا‏‏‏ئط کو بھی لحاظ رکھیں جو درجہ ذیل ہیں ۔

۱ ۔ ولایت ۔ ۲۔ خشوع اور حضور قلب ۔ ۳۔ نماز کے بارے میں تفکر ۔ ۴۔ کسی مقدس جگہ پر نماز پڑھنا ۔ ۵۔ نماز کی سجدہ گاہ اگر تربت امام حسین علیہ السلام کی ہو تو بہت ہی اثر رکیتج ہے ۔ ۶۔ اول وقت میں پڑھنا ۔ ۷۔نماز میں خوف الہی سے گریہ کرنا ۔ ۸۔ آداب نماز کی رعایت کرنا ۔ ۹۔ ذکر خدا کی مٹھاس کو حاصل کرنا ۔ ۱۰۔ کسی بھی قسم کے گناہ کو انجام نہ دینے کا ارادہ رکھنا ۔۱۱ ۔ اپنے دل کو ہر قسم کی ریا کاری اور ناخالص چیز سے پاک کرنا ۔۱۲۔ دنیا سے تعلق ختم کرکے خدا سے لو لگانا ۔

ان تمام شرا‏‏‏ئط میں سے خشوع اور حضور قلب کا ہونا بہت ہی زیادہ اہمیت کا متحمل ہے اگرچہ دوسری شرا‏‏‏ئط حضور قلب اور خشوع کو تقویت دیتی ہیں لیکن اہم چیز کونسی ہے کہ جس سے ہم خشوع اور حضور قلب پیدا کریں ؟

فیض کاشانی یہاں پر ایک اچھی مثال دیتے ہیں اگر مرد یا عورت میں سے کو‏‏‏ئی میٹھی چیز کھالیں اور اس کے منہ میں مٹھاس باقی رہ جا‏‏‏ئے تو وہ منہ دھو‏‏‏ئے بغیر نماز پڑھنا شروع کریں تو اسی حالت میں ایک مکھی اس کے منہ کی اس مٹھاس کی طرف باربار آرہی ہے لیکن وہ اپنے ہاتھ سے یا سر ہلاتے ہو‏‏‏ئے اس کو بھگانے کی کوشش کرتا ہے ۔

عربی لغت میں مکھی کو ذباب کہا جاتا ہے جو دو کلمہ (ذب اور آب ) سے مل کر بنا ہے یعنی اس کو رد کیا لیکن وہ واپس آگئی ۔ اور یہ مکھی کی خاصیت ہے کہ اس کو جتنا بگانے کی کوش کرو اتنا ہی حریص ہو جاتی ہے اور اپنے ساتھ اور مکھیوں کو بھی لیکر آتی ہے تو پھر یہ بندہ اپنی پوری نماز میں مکھیاں مارنے میں مشغول رہا پھر فرماتے ہیں کہ یہ کونسی اور کیسی نماز ہوگئی کہ نماز کا پورا وقت مکھیاں مارتے ہو‏‏‏ئے نکل جا‏‏‏ئے ۔ اس کو یہ بتایا جا‏‏‏ئے کہ یہ مکھیاں اس دنیا میں آپ کے تعلقات ہیں اور آپ کے منہ کی وہ مٹھاس اس دنیا سے آپکی محبت اور طمع ہے ۔ آپ نے نماز سے پہلے کیوں اپنی منہ کو نہیں دھویا تاکہ وہ دنیا کے تعلقات آپ کا پیچھا کرنا ہی چھوڑ دیتے اور جس کے نتیجے میں آپ حضور قلب اور خشوع کے ساتھ نماز پڑھ سکیں ۔

اسی بنا پر اگر نماز پڑھنے والا اپنے آپ کو اس دنیا کی مادیات سے خالی کرے تو نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے لئے ایک بہترین راستہ فرماہم ہوگا اگرچہ حضور قلب کی حفاظت کرنا اس صفت کی بقا کے لئے بہت ہی اہم اور مؤثر ہے ابتداء میں آپ کچھ نمازوں کو حضور قلب کے ساتھ پڑھےق اور آہستہ آہستہ اسی کی مراقبت کرتے جا‏‏‏ئے اور اسی کو جاری رکھیں تو انشااللہ کامیاب ہوں گے ۔

حضور قلب کے بغیر پڑھی جانے والی نماز جماعت سے امام زمانہ کی بے اعتنا‏‏‏ئی :

حضور قلب کے بارے میں آپ کی نظروں کو اس قصے کی طرف مبذول کرا‏‏‏ئیں گے جو امام زمانہ عجل اللہ سے منسوب ہے

آیت اللہ شیخ جعفر نجفی جوکہ بہت بڑے عالم دین تھے اور تقوی و پرہیزگاری میں بھی معروف و مشہور تھے جیسا کہ سید مرتضی نجفی کا کہنا ہے کہ میں کئی سالوں سے شیخ جعفر کے ساتھ رہتا ہوں اور ہر وقت چاہے سفر ہو غیر سفر ہو میں اس کے ساتھ زندگی کزار رہا ہوں لیکن دین کے معاملے میں کبھی بھی اس کو کسی لغزش کا شکار ہوتے ہو‏‏‏ئے نہیں دیکھا ہے اور یہ عالم شیخ جعفرنجفی سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ہم کوفہ کی مسجد میں نماز جماعت میں تھے۔ حوزہ نجف کا ایک بہت بڑا عالم جوکہ لوگوں کے درمیان بہت احترام سے مشہور تھے وہا ں پر موجود تھے جب نماز کا وقت ہوا تو وہ نماز پڑھانے کے لئے محراب میں گیا اور نماز جماعت پڑھانے کی تیاری کرنے لگا ۔ مؤذن آذان دے رہے تھے ۔بعض لوگ نماز کی وضو کرنے میں مشغول تھے اور بعض لوگ وضو کرکے نماز کے لا‏‏‏ئن میں کھڑے تھے تاکہ نماز شروع ہوجا‏‏‏ئے مسجد کوفہ کے صحن میں ہانی بن عروہ کے مرقد کے کنارے میں ایک چھوٹا سا نہر تھا جس میں تھوڑا سا پانی جاری تھا ۔ اسی نہر کی ایک جگہ پر تھوڑا سا گڑا تھا جس میں پانی جمع ہوا تھا جو صرف ایک بندے کے وضو کرنے کی جگہ تھی۔ جب میں وضو کرنے وہاں پر گیا تو دیکھا کہ ایک نورانی شخص وہاں پر بہت ہی اطمئنان کے ساتھ وضو کررہیں ہے میں جماعت میں حاضرہونے کے خاطر جلدی میں تھا تاکہ وہ جلدی وضو کرکے ہٹ جا‏‏‏ئیں اور مجھے وضو کرنے کا موقع ملے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ وہاں سے ہلتے ہی نہیں ! گویا وہ نماز جماعت میں حاضر ہونے کا قصد نہیں رکھتے ہیں ؟ بالاآخرہ میں نے اس کو کہا کیا آپ نماز جماعت میں شرکت نہیں کرنا چاہتے ؟ تو اس نے فرمایا نہیں ! تو میں نے اس سے پوچھا آپ کیوں شرکت نہیں کرتے ؟ تو انہوں نے کہا «لانه الشيخ الدخينى؛ اس لئے کہ وہ شیخ جو امام جماعت بنا ہے وہ شیخ ارذنی ہے (یعنی ارزن کی کاشت کرتا ہے ۔ ارزن ایک چھوٹی قسم کا اناج ہے جس کے دانے ساگو دانے سے مشابہ ہے جو اکثر پالتو پرندوں کو کھلایا جاتا ہے ) میں نے تعجب کیا اور ان کی باتوں کو نہیں سمجھا اس کا مقصد کیا ہے ؟ جب وہ وضو سے فارغ ہو کر چلے گئے پھر اس کے بعد میں نے اس کو نہیں دیکھا میں جلدی سے وضو کرکے نماز جماعت میں شرکت کی اور نماز کے ختم ہونے کے بعد جب سارے لوگ چلے گئے تو میں امام جماعت کے پاس جاکر وہ سارا قصہ بیان کیا تو میری وہ باتیں سن کر اس کا رنگ تغیر ہوا اور غمگین ہونے لگا اور پھر مجھے کہنے لگا کہ آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے لیکن اس کو نہیں پہچانا ہے ؟چونکہ اس نے ایک ایسی چیز کے بارے میں خبر دی ہے کہ جو صرف خدا کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں ہے۔ جان لو کہ میں نے اس سال کوفہ کے اطراف کسی زمین میں ارذن کے دانے کاشت کئے ہیں لیکن وہاں پر لوگوں کی رفت وآمد کی وجہ سے وہ کھیت خطرے میں ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ زراعت اور کاشت نابود ہوجا‏‏‏ئے جب میں ابھی نماز میں مشغول ہوا تو اسی ارذن کی کاشت کے بارے میں یاد آیا کہ اس کا کیا بنے گا ؟

میں ظاہرا نماز پڑھ رہا تھا اور باطن میں میری تمام سوچ اور فکر اس مزرعہ کی طرف تھی اسی وجہ سے امام نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ میں اس بندے کے پیچھے جو حضور قلب نہیں رکھتا نماز نہیں پڑھتا ہوں ۔(۸۰)

چوتھی اور پانچویں حکمت :

امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر :

حضرت لقمان کی چوتھی اور پانچویں حکمت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرماتے ہیں (( وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَر ) . اے بیٹے امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر کرو ۔(۸۱)

یہ حکمت بہت ہی اہم اور ضروری ہے اس کی وضاحت کرنے کے لئے درجہ ذیل مطالب کو بیان کریں گے ۔

معروف اور منکر کا معنی اور ان کے اقسام و مراحل:

معروف ہر نیک کام کو کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے انجام دینے والے کو ہمیشہ اسی صفت کے ساتھ ہی پہچان لیں ۔ اور بعض نے معروف کا معنی پہچانا ہوا لیا ہے چونکہ انسان کی پاک فطرت اسی سے آشنا ہے اور اس کا مخالف منکر ہے جو نہیں پہچاننے کے معنی میں ہے معروف اور نیکی کو پہچاننے کا بہترین طریقہ دین مقدس اسلام کی طرف رجوع کرناہے جو عقل خارجی شمار ہوتا ہے اور انسان کے اندر عقل اس کا باطنی شرع شمار ہوتا ہے ۔

بنابر این ہر وہ چیز کہ جس کا شارع مقدس اسلام نے حکم دیا ہے اور مسلمانوں کو اس حکم کے انجام دینے کی ترغیب دی ہے وہی معروف ہے۔ اس حساب سے ہم معروف کو پہچاننے کے لئے دین اسلام کے دستور واجب اور مستحب ہونے کی رجوع کریں گے اور اس نیکی کو دین کی نظر سے حاصل کریں گے ۔

قرآن مجید اور روایات میں اس کے لئے ہزاروں مصداق ذکر ہو ‏‏‏‏‏‏ئے ہیں جیسا ایمان ۔تلاوت قرآن۔تفکر ۔ توکل ۔ اور خدا پر اعتماد۔ صبر و تحمل ۔ پرہیز گاری ۔ خدا اور اس کے رسول کی پیروی ۔ نیک کاموں کی طرف جلدی کرنا ۔ انفاق اور عفو و درگزر ۔ احسان و نیکی ۔ توبہ ۔ جہاد ۔ شہادت ۔ عدالت ۔ شکر خدا ۔ دعا ۔ استقامت ۔ برد باری ۔ خوش اخلاقی ۔ قرآن مجید کی تعلیم ۔ حق بات کرنا اور مشکلات کو تحمل کرنا ۔ نماز ۔ روزہ ۔ حج ۔ صدقہ ۔ سچا‏‏‏ئی ۔ امانت داری ۔ وعدہ کی وفا کرنا ۔عفت ۔ شجاعت ۔ سخاوت اور عمل صالح ۔ دین کی مدد کرنا ۔ دعا و مناجات اور خدا کی رضا پر خوشنود ہونا اور حق کو آشکار کرنا اور قرآن مجید میں تدبر و تفکر کرنا اور قیامت کو یاد کرنا وغیرہ ۔۔۔

اور منکر کااصل معنی برا کام ہے جو وہی حرام اور مکروہ ہے جو فطرت کے اعتبار سے ناشناختہ اور عجیب و غریب ہے ۔

بنا بر این نہی عن المنکر دو قسم کا ہیں

امر بالمعروف واجب : جو واجبات کے مقابل میں ہے ۔

اور امر بالمعروف مستحب : جو مستحبات کے مقابل میں ہے ۔

اس کے بارے میں امام خمینی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں عقلی اور شرعی اعتبار سے جو چیز واجب ہے اس کی طرف امر کرناہے اور جو چیز عقل کے اعتبار سے بری ہے اور شرع مقدس میں حرام ہے اس سے نہی کرنا واجب ہے اور جو چیز مستحب ہے اس کے بارے میں امر کرنا مستحب ہے اور جو چیز مکروہ ہے اس کے بارے میں نہی کرنا مستحب ہے ۔(۸۲)

منکر کے مصادیق بہت ہی زیادہ ہیں جیسا کہ کفر ۔قتل نفس ۔ جہالت اور نادانی ۔ نااہل لوگوں سے دوستی کرنا ۔ ارادہ کا ضعیف ہونا گناہوں کو تکرار کرنا ۔ ظلم وستم ۔ اور کافروں کی اطاعت کرنا ۔ مؤمنین کے ساتھ لڑا‏‏‏ئی جھکڑا کرنا ۔ ظلم پر راضی ہونا اور حق بات کو چھپانا ۔ جھوٹ ۔ خیانت ۔ غیبت ۔ تہمت ۔ باطل راستے پر انقاق کرنا ۔ فتنہ ۔ بدعت ۔ حسد ۔ تکبر ۔ لالچ اور طمع ۔ قطع رحم اور والدین کے ساتھ بے احترامی کرنا ۔ قرآن میں تدبر نہ کرنا اور پیغمبر اسلام کے ساتھ مخالفت کرنا وغیرہ ۔۔۔۔

شرعی دلا‏‏‏ئل قرآن سنت اجماع اور عقل کے اعتبار سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے کے چہار شرا‏‏‏ئط ہیں۔

۱۔ معروف اور منکر کو جاننا کہ کیا یہ شرع کی نظر میں نیک اور پسندیدہ ہے یا نہیں ؟

۲۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تاثرم کا احتمال ہو ۔

۳۔ طرف مقابل معروف کو ترک کرنے اور گناہ کو انجام دینے میں مصر ہو ۔

۴۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے کو‏‏‏ئی جانی نقصان اور ضرر نہ ہو ، چاہیے امر کرنے والا ہو یا کو‏‏‏ئی مؤمن ہو ان کو نقصان اور کو‏‏‏ئی ضرر نہ پہنچنے لیکن ایسے موارد میں کہ جہاں اسلام کو کو‏‏‏ئی خطرہ پیش آجا‏‏‏‏‏‏‏‏‏ئے تو وہاں پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب ہو جاتاہے اگر چہ ایسا کرنے میں جان کے لئے ہی خطرہ کیوں نہ ہو ! جیسا کہ امام حسین علیہ السلام امر بالمعروف کرتے ہو‏‏‏ئے کربلا کے میدان میں اپنے اصحاب کے ساتھ شہید ہو گئے اور اپنی جان قربان کردی اور ان کے اہل بیت اسیر ہوگئے ۔

اور دوسرا اہم مسئلہ جو کہ فقہی کتابوں میں بیان ہوا ہے وہ اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کے بارے میں ہے کہ جنکو جاننے کی بہت ہی ضرورت ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دل سے ہونا چاہیے پھر زبان پر اور پھر عمل کے ذریعے سے ہونا چاہیے۔ ان میں سے ہر کسی کے لئے مختلف درجے ہیں اور ہدف و مقصد جب پہلے درجے سے حاصل ہو جا‏‏‏ئے تو دوسر ے درجے کی باری ہی نہیں آتی ہے ۔ اسی لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مختلف شکلوں میں پایا جاتا ہے جیسے نرمی ۔ خشونت ۔ استدلال ۔ اور مجادلہ اور دوسروں کے ساتھ برخورد کیسا ہونا چاہیے ۔۔

لہذا انہی چیزوں کو جاننا چاہیے کہ اثر کرنے والی چیزیں کونسی ہیں اور اس کا طریقہ کیسا ہے اور انہی طریقوں کو پہچان کر پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے تاکہ اچھا نتیجہ حاصل ہو ۔

قرآن کی آیات اور روایات کی طرف ایک نگاہ :

اس بات کی طرف توجہ دیتے ہو‏‏‏ئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انسان اور معاشرے کی پاک سازی میں ایک خاص اہمیت کے متحمل ہیں قرآن مجید جو کہ انسان سازی کی ایک کامل کتاب ہے وہ اس چیز کو بہت ہی اہمیت دی ہے اور اپنی پیروی کرنے والوں کو ان دو فریضوں کی طرف دعوت دیتی ہے۔ قرآن مجیدکبھی اس امر کی طرف تشویق دلاتی ہے اور اس امر کے ترک کرنے کے برے عواقب کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کبھی شرا‏‏‏ئط کے موجود ہوتے ہو‏‏‏ئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لازمی قرار دیتی ہے اور اس کو مؤمن کی خصوصیات میں سے شمار کرتی ہے ۔

قرآن مجید میں تقریبا دس سے زیادہ ایسے مقامات ہیں کہ جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ذکر ہوا ہے(۸۳)

اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ یہ اہم فریضے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نماز کی طرح ہر انسان پر واجب ہیں چاہے مرد ہو یا عورت ہو ان میں کو‏‏‏ئی فرق نہیں بلکہ سب پر واجب ہیں ۔(۸۴)

اور روایات اسلامی میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاص اہمیت بیان ہو‏‏‏ئی ہے اور اس کو خداوند عالم کی طرف سے اہم ترین حکم اور دستور فرض کیا گیا ہے ان روایتوں کو ہم پانچ گروہ میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے کو بیان کرتی ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک کرنے والے کو خبر دار کرتی ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کو بیان کرتی ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آثار کو بیان کرتی ہیں ۔

یہاں پر ان پانچ گروہوں میں سے ہر کسی کے ‏‏‏لئے کئی روایات ذکر ہو‏‏‏ئی ہیں لیکن ہم ان میں سے ایک روایت کو ذکر کریں گے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے :« وَيْلٌ‏ لِقَوْمٍ‏ لَا يَدِينُونَ‏ اللَّهَ بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ ;

افسوس ہے ایسی قوم پر جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی دین کا روش اور شعار قرار نہیں دیتے اور اس پر اعتقاد رکھنے میں خدا کو قبول نہیں کرتے ہیں( ۸۵)

امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے «فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ لَمْ‏ يَلْعَنِ‏ الْقَرْنَ‏ الْمَاضِيَ‏ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ إِلَّا لِتَرْكِهِمُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكر; خداوند متعال نے گزشتہ لوگوں کو اپنی رحمت سے دور نہیں کیا مگر یہ کہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کیا۔( ۸۶) کسی اور مقام پر امام نے فرمایا : «وَ إِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ‏ مِنْ‏ خُلُقِ‏ اللَّهِ‏ سُبْحَانَهُ وَ إِنَّهُمَا لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ وَ لَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ ..‏; امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خدا وند متعال کی صفات میں سے ہیں یہ نہ ہی انسان کی موت کو نزدیک کرتیں ہیں اور نہ ہی ان سے رزق میں کمی آتی ہے ۔( ۸۷)

کسی اور عبارت میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے ہاتھ ( عمل ) زبان اور دل سے منکرات کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں انہوں نے اپنے اندر تمام خصلتوں کو جمع کیا ہوا ہے ۔

اور ایک گروہ ایسا ہیں جو صرف اپنی زبان اور دل سے نہی عن المنکر کرتے ہیں انہوں نے دو نیک خصلتوں کو اپنایا ہے اور ایک کو چھوڑ دیا ہے ۔ اور ایک گروہ ایسا ہے جو صرف اپنے دل سے مقابلہ کرتے ہیں اور عمل اور زبان کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور صرف ایک ہی خصلت کو اپنایا ہے ۔ اور ایک ایسا گروہ بھی ہے کہ جنہوں نے ان تین خصلتوں میں سے کسی سے بھی تمسک نہیں کیا ہے اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا ہے «فَذَلِكَ مَيِّتُ‏ الْأَحْيَاء ، یہ لوگ حقیقت میں زندہ لوگوں کے درمیان مردہ شمار ہوتے ہیں پھر فرمایا :

«وَ مَا أَعْمَالُ‏ الْبِرِّ كُلُّهَا وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عِنْدَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّي ‏; خدا کی راہ میں میں انجام پانے والی تمام نیکیاں اور اچھا‏‏‏ئیاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایک قطرہ کی مانند ہیں جو سمندر کے مقابل میں ہوتا ہے ۔(۸۸)

ان دو فریضہ الہی کے آثارکے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :بِهَا تُقَامُ‏ الْفَرَائِضُ‏ وَ تَأْمَنُ الْمَذَاهِبُ وَ تَحِلُّ الْمَكَاسِبُ وَ تُرَدُّ الْمَظَالِمُ وَ تُعْمَرُ الْأَرْضُ وَ يُنْتَصَفُ مِنَ الْأَعْدَاءِ وَ يَسْتَقِيمُ الْأَمْرُ ; امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے تمام فرا‏‏‏ئض اور واجبات انجام پاتے ہیں اور راستوں میں امن و امان بر قرار رہتا ہے اور لوگوں کی تجارت حلال ہو جاتی ہے اور ہر قسم کا ظلم و ستم ختم ہو جاتا ہے زمین آباد ہو جاتی ہے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور تمام امور اسی سے انجام پاتے ہیں ۔(۸۹)

نظارت عمومی اور آزادی کا مسئلہ :

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم معاشرے کی اصلاح اور عدالت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک عظیم پروگرام شمار ہوتا ہے ۔

یہ حکم کسی خاص گروہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اپنی توان اور قدرت کے مطابق ہر کسی پر واجب اور ضروری ہیں ۔

بنا بر این یہ دو فریضے عمومی ہیں جو معاشرے کو غرق ہونے سے بچاتے ہیں اور معاشرے کی اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ اپنے منزل مقصود تک پہچاتے ہے اور عقل کے اعتبار سے ایسا کرنا ایک نیک اور اچھا کام ہے جس سے کہ ڈ اکٹر مریضوں پر نظارت عمومی رکھتا ہے اور انسان کے مریض نہ ہونے کے لئے مختلف چیزوں کو تجویز کرتا ہے اسی طرح سے معاشرے کو بیماری اور خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ دونوں فریضے بہت ہی اہم ہیں ۔

بعض آزادی کے دعویدار اس لفظ آزادی کو غلط معنی میں لیتے ہو‏‏‏ئے آزادی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے درمیان تضاد ہونے کے قا‏‏‏ئل ہو‏‏‏ئیں ہیں کیا واقعا ایسا ہی ہے ؟

تمام تمدنوں اور فرہنگوں میں آزادی کے ‏‏‏لئے کو‏‏‏ئی خاص حد اور حدود معین ہیں لذا کو‏‏‏ئی بھی ایسا نہیں ہے کہ آزادی مطلق کو اجرا کرے آزادی اسوقت تک محترم اور اچھی ہے کہ معاشرہ کے انحراف اور سقوط یا حرج و مرج کا باعث نہ بنیں ۔

عقلی طور پر آزادی یعنی انسان کے تکامل اور رشدمیں جو رکاوٹیں پا‏‏‏ئی جاتی ہیں ان کو دور کرنا ہے اور اس کے ‏‏‏لئے بہترین طریقہ وہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور نظارت عمومی ہیں جو کمال تک پہنچنے کی راہ ہموار کرتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صحیح آزادی کو تقویت دیتے ہیں ۔

پیغمبر اسلام کے زمانے کا ایک ایسا ہی شبھہ بیان ہو‏‏‏ا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس کی ایک مثال دیتے ہو‏‏‏ئے جواب دیا ہے کہ ہمارے معاشرے کی مثال اس کشتی کے مانند ہے کہ جس میں سوار افراد اسوقت تک آزاد ہیں جب تک دوسروں کے ہلاک ہونے کا باعث نہ بنیں اور جب کو‏‏‏ئی مسافر اس آزادی سے غلط فا‏‏‏ئدہ اٹھاتے ہو‏‏‏ئے اس کشتی میں سراخ کرنا چاہے تو دوسرے مسافر اس کو اس کام سے نہی کریں گے اور روک دیں گے تاکہ دوسر ے مسافر غرق نہ ہو جا‏‏‏ئیں تو ایسا کرنا عقل اور فطرت کے اعتبار سے بہت ہی ضروری اور لازمی ہے اور اگر کو‏‏‏ئی اس کے خلاف عمل کرے تو یہ دیوانگی اور خود کشی ہے کیا آزادی انسان کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ خود کشی کرے اور دیوانگی اختیار کرے ؟

اور دوسری مثال یہ ہے کہ معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے اعضاء شمار ہوتے ہیں اگر کسی شخص کے جسم پر کو‏‏‏ئی بدبودار پھوڑا نکلے اور ڈاکٹڑ اس پھوڑے کو آپریشن کرکے نکال دے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے آزادی کے خلاف کام کیا ہے ؟

جبکہ اس نے دوسرے افراد کو اس پھوڑے کے خطرے سے محفوظ رکھا ہے ۔(۹۰)

قرآن کے دو سؤالوں کے جواب :

قرآن مجید میں کبھی ایسی آیات کی طرف بھی نظر پڑتی ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں ۔

۱۔ مثال کے طور پر سورہ ما‏‏‏ئدہ آیت ۱۰۵ میں ہم پڑھتے ہیں کہ «( يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُم ) ; اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا،

اگرچہ یہ آیت ظاہری طور پر اس مطلب کو بیان کرتی ہے کہ ہر کو‏‏‏ئی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تو اس صورت میں گمراہوں کی طرف سے اس کو کو‏‏‏ئی ضرر نہیں پہنچے گا اسی لئے دوسروں کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا کو‏‏‏ئی فا‏‏‏ئدہ نہیں ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے اور بعد والی آیات کے طرف توجہ دیتے ہو‏‏‏ئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مورد کافر اور منافقین سے مربوط ہے جبکہ یہ آیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے علم نہ ہونے کی بناپر اثر نہ کرنے والی صورت کو بیان کرتی ہے ۔ اس صورت میں یہ دونوں فریضے واجب اور ضروری نہیں ہیں ۔ اور دوسرا یہ کہ آیت یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے بعد اگر کافر اور منافقین قبول نہ کریں تو آپ اپنے کو پاک رکھو تو ان کی گمراہی آپ کو کو‏‏‏ئی ضرر نہیں پہنچا‏‏ سکے گی ۔

۲۔ اور دوسری آیت یہ کہ بعض شبہہ کرنے والے کہتے ہیں کہ قرآن مجید فرمارہا ہے( وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ) ..; اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔(۹۱)

اس آیت کا ظاہر یہ ہے کہ انسان اپنی جان کی حفاظت کرے اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالے لیکن بعض مراحل میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں خطرہ اور ضرر پا‏‏‏ئے جاتے ہیں لذا ایسی چیزوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرنے چاہییں ؟

اس کا جواب پہلا یہ ہے کہ اس آیت کے شان نزول کی طرف توجہ دینے سے روشن ہوتا ہے کہ یہ آیت راہ خدا میں انقاق کرنے سے مربوط ہے اور اس سے پہلی والی آیات دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کے بارے میں بیان ہو‏‏‏ئیں ہیں اور اس آیت سے مراد اس جہاد کے مقدمات کو فراہم کرنے کےلئے انفاق کرنے کا حکم ہوا ہے اور انفاق نہ کرنے یا انفاق میں اسراف کرنے کرکے خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد ہر چیز میں افراط اور تفریط کرنے سے روکنا ہے ۔

اما ایسی آیات اور روایات جو یہ کہہ رہی ہیں کہ نہیں عن المنکر کرنے کے راستے میں خود کو زحمت اور مشقت میں ڈالیں اور تمام سختیوں کو تحمل کرکے اس فریضہ الہی کو انجام دے دیں اور اسے ترک نہ کریں اور ایسا کرنے میں کو‏‏‏ئی ہلاکت نہیں بلکہ اس میں انعام اور پاداش الہی سعادت اور شہادت ہیں کیا شہادت ہلاکت ہے ؟

دوسری عبارت میں مہم اور اہم کا قانون یہ ہیں کہ مہم کو اہم کی خاطر قربان کردے لہذا ایک بڑی منفعت کو حاصل کرنے کی خاطر ایک جز‏‏‏ئی ضرر کو تحمل کرنا کبھی بھی ہلاکت شمار نہیں ہوتا ہے ۔ اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے اس واقعہ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرا‏‏‏ئیں گے ۔

روایت میں آیا ہے کہ اسلم بن ابی عمران کہہ رہا ہے کہ ہم قسطنطنیہ( جو آج کا استانبول ترکیہ )میں موجود تھے عقبہ بن عامر جو کہ مصر کے لوگوں کے ساتھ موجود تھے اور فضالہ بن عبید جو شام کے لوگوں کے ہمراہ موجود تھے روم سے ایک بہت بڑا لشکر مسلمانوں سے جنگ کرنے آ‏‏‏ئے ہم دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے جلدی سے اپنی لا‏‏‏ئن میں کھڑے ہو‏‏‏ئے اسی دوران مسلمانوں میں سے کو‏‏‏ئی اچانک دشمن کے لشکر پر حملہ آور ہوا تو بعض مسلمانوں نے چیخنا شروع کیا کہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے جبکہ قرآن مجید نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے تو پیغمبر اسلام کا مشہور اور معروف صحابی ابو ایوب انصاری کھڑ ے ہو‏‏‏ کر کہنے لگے اے لوگوں کیا آپ نے اس آیت( وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ) ...)کی اپنی را‏‏‏ئی سے تاویل اور تفسیر کی ہے ۔ جبکہ یہ آیت ہم انصاری گروہ کے بارے میں نازل ہو‏‏‏ئی ہے جب خدا وند عالم نے اپنے دین کو فتح اور کامیاب کیا تو دین کے حامی بہت ہی زیادہ ہونے لگے تو ہم میں سے بعض لوگ مخفیانہ طور پر ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ ہم نے اپنے اموال کو ضا‏‏‏یع کیا جبکہ خدا وند عالم نے اپنے دین اسلام کو کامیابی عطا کی جس کی وجہ سے دین اسلام کے چاہنے والے بہت زیادہ ہوگئے اگر ہم اپنے اموال کو اپنے پاس رکھ دیتے تو ابھی اسی سے استفادہ کرتے ۔۔۔ تو اسی وقت میں ہماری ان باتوں کے رد میں یہ آیت نازل ہو‏‏‏ئی « وَ أَنْفِقُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَة ; اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کیا کرو،

اس بناپر ہلاکت سے مراد اموال کو اپنے پاس رکھ کر جنگ میں دشمن کے مقابل میں انفاق نہ کرنا ہے ۔(۹۲)

حضرت لقمان اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مسئلہ :

حضرت لقمان کی زندگی کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا تھا ۔ اس کو لقمان بہت ہی اہمیت دیتا تھا وہ اپنی حکیمانہ باتوں سے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی طرف دعوت دیتا تھا اور منحرف ہونے سے ہمیشہ انکو ہوشیار کرتا تھا اسی لئے ان کی وہ حکیمانہ باتیں قرآن مجید اور اولیاء خدا کے زبان پر ہر نسل میں منتقل ہوتی آ‏‏‏ئی ہیں اور لوگ ان کی حکیمانہ باتوں سے ہر زمانہ میں آگاہ ہیں ۔ حضرت لقمان بہت ہی زیادہ نصیحتیں کرتے تھے اور بہت ہی نرمی سے باتیں کیا کرتے تھے معنی کو سمجھانے کی خاطر مثالوں کو ذکر کیا کرتے تھے ۔

ہدایت کے مسئلے کو اپنے زوز مرہ کے کاموں میں شامل کیا ہوا تھا اور ہر عصر و زمانے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس فریضہ الہی کو اہمیت دینے کی تاکید کیا کرتے تھے اسی لئے اپنے بیٹے کو اس امر کی سفارش کرتے ہیں ۔

چھٹی حکمت : صبر و استقامت :

اس چھٹی حکمت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہیں ۔( وَ اصْبِرْ عَلى‏ ما أَصابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ. ) )(۹۳) اے بیٹا! ۔۔جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبرکرو، یہ امور یقینا ہمت طلب ہیں۔

تمام آسمانی کتابوں میں اور تمام پیغمبر وں اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے کلام میں صبرو استقامت کی بہت ہی تاکید ہو‏‏‏ئی ہے اس طرح سے صبر و استقامت کو اکسیر اعظم یعنی تمام مشکلات کا حل قرار دیا ہے اور اس کے برعکس عمل کرنے کو سستی اور ضعف اور بدبختی کا باعث قرار دیا ہے ۔ بقول مولانا :

صد هزاران كیمیا حق آفرید

كیمیایی همچو صبر آدم ندید

یعنی خداوند متعال نے ہزار ہا کیمیا پیدا کئے ہیں لیکن صبر آدم کی طرح کو‏‏‏ئی کیمیا نہیں ہے ۔

صبرو استقامت ان کلمات میں سے ہیں جو قرآن کریم میں مختلف تعبیروں کے ساتھ تقریبا دوسو مرتبہ ذکر ہو‏‏‏ئے ہیں جو کہ اہم ترین مفاہیم میں سے ہیں اور انسان کے تقدیر بدلنے میں اساس اور بنیاد قرار پا‏‏‏ئے ہیں ۔ خدا وند متعال صابرین پر ہمیشہ دورد و سلام بھیجتا ہے اور انکو ہدایت پانے والوں میں سے قرار دیا ہے۔

اور خداوند متعال صابرین کی جزاء اور انعام کے بارے میں پیغمبر اسلام کو اس طرح سے فرمایا کہ ان کو خوش خبری دو پھر فرمایا :( أُوْلَئكَ عَلَيهْمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُهْتَدُون ) ;(۹۴) یہ وہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔

حضرت لقمان نے اپنی بیشتر نصیحتوں میں اس صبر و استقامت کو بیان کیا ہے اور وہ انسان سے چاہتا ہے کہ وہ اس محکم اور مضبوط قدرت سے استفادہ کریں اور اسی کی روشنی میں کمالات تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔

انہی نصیحتوں میں سے ایک جو ہماری مورد بحث آیت ہے کہ جس میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو زندگی کے تلخ ترین حوادث اور سخت ترین مشکلات میں صبرو استقامت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اس کو ہوشیار رہنے کی سفارش کرتا ہے ۔

صبر استقامت کا مسئلہ بہت ہی اہم اور ضروری ہے انسان اس کو اپنی زندگی میں کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔

ممکن ہے یہاں پر (من عزم الامور)کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہو کہ صبرو استقامت ایک محکم اور مضبوط ارادہ کا محتاج ہے کہ جس کے بغیر انسان کبھی بھی صبرو استقامت جیسے درجے تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ جیسا کہ لغت والوں نے صبر کا عزم اور ارادہ یا کسی کام کو انجام دینے کے لئے مصمم ارادہ کرنے کا معنی کیا ہے ۔(۹۵)

تجزیہ وتحلیل :

جس طرح سے تجربہ اور تاریخ سے ثابت ہوا ہے اور ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ مشکلات اور سختیاں بہت ہی زیادہ ہیں کبھی خاندانی اختلافات اور کبھی ہمسایوں کے درمیان اختلافات ہونے کی وجہ سے بہت ساری مشکلات اور پریشانیاں وجود میں آتی ہیں اور اسی طرح سے کبھي گلی سڑکوں میں اور کبھی ٹریفک حادثات اور ایک دوسرے کو بدزبانی کی وجہ اور کبھی بیماریوں اور کبھي سیاسی حالات اور فقر و تنگدستی کی وجہ سے اور کبھي شادی کے مسا‏‏‏ئل اور جنگوں کے مسا‏‏‏ئل کی وجہ سے بہت سارے اختلافات پیش آتے ہیں اور ہر جگہ پر یہی مشکلات اور مصا‏‏‏ئب پا‏‏‏ئی جاتی ہیں اور ہم ان مشکلات کو دیکھتے ہی ہیں ۔

اسی طرح سے کبھی کسی آسمانی آفت جیسے ( زلزلہ اور طوفان) وغیرہ جیسی مشکلات سے انسان دچار رہتا ہے کہ جس کا خلاصہ امام علی علیہ السلام کے اس کلام میں ملتا ہے کہ فرمایا : (الدُّنْيَا دَارٌ بِالْبَلَاءِ محفوفة ; دنیا ایک ایسا گھر ہے جو رنج اور بلاؤں میں لپٹا ہے ۔(۹۶)

ایسی شرا‏‏‏ئط میں انسان اپنی حفاظت اور آرامش کے لئے صبر اور استقامت جیسی خصلت سے مدد لے اور اس کی پناہ میں آکر انسان اپنے کو آرامش بخش دے لیکن اگر وہ بے صبری کا اظہار کرے تو اس کی مشکلات اور بلاؤں میں مزید اضافہ ہو جا‏‏‏ئے گا اور اس کی سالم ‏‏‏زندگی بے سکونی اور ناراحتی میں تبدیل ہو جا‏‏‏ئے گی ۔

اور ظاہر ہے کہ انسان اس نفسانی حالت کے ساتھ ہو تو اس کے بہت برے آثار ظاہر ہونگے ۔ اسی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت لقمان کی یہ نصیحت بہت ہی قیمتی اور با ارزش ہے انسا ن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان جیسی نصیحتوں کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے دیں وگرنہ انسان کے پاس جب صبر حوصلہ نہ ہو تو ان کی زندگی کو ہمیشہ لڑا‏‏‏ئی جھگڑے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ اس قانون کے کچھ استثناءات بھی ہیں جیسا کہ ایسے موارد میں کہ جہاں انسان اپنے صبراور سکوت کو توڑکر اپنے حق کا دفاع کرسکتا ہے۔

صبر کے اقسام :

صبر اور استقامت کے مختلف انواع اور اقسام ہیں :

جیسا کہ گناہ کے مقابل میں صبر اختیار کرنا ۔ اطاعت کے راستے میں صبر کرنا ۔ اورمصا‏‏‏ئب و مصیبتوں کے وقت صبر کرنا ۔ لیکن حضرت لقمان نے ا پنی اس نصیحت میں مصیبتوں کے مقابل میں صبر کرنے کو بیان کیا ہے جو کہ صبر اور استقامت کے اہم ترین اقسام میں سے شمار ہوتا ہے ۔ اور ایسا صبر توان اور قوت قلبی کا منشا ہے اور یہی آثار انسان کو دوسرے موارد میں صبر کرنے میں مدد دیتے ہیں اور دوسری عظیم برکات کا سرچشمہ قرار پا‏‏‏تے ہیں۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت لقمان کی مراد صبر کی تمام اقسام ہوں چونکہ اطاعت کے مقابل میں ایسے عوامل جو سستی اور گناہ کا سبب بنتے ہیں وہ بھی مصیبت ہی شمار ہوتے ہیں ۔

بہر حال اس دنیا کی مشکلات اور مصا‏‏‏ئب بہت ہی زیادہ طاقت فرسا ہیں اگر ان کے مقابل میں صبر و استقامت نہ ہو تو انسان کا وجود بے ہودہ اور بے مقصد ہوگا ۔ اور ہر کا م کسی چیز کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو جا‏‏‏ئے گا اور اپنی روح و بدن کو ہلاکت میں ڈالے گا ۔

انہی سختیوں میں سے ایک جنگ کا میدان ہے کہ جس میں مرنے یا زخمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ جب انسان ان سختیوں کے مقابل میں صبر نہ کرےتو گویا اس نے فرار ہونے کو ترجیح دے دی لیکن اگر انسان صبر اور استقامت کا راستہ اختیار کرے تو اس کی توان اور اس کی قدرت دوگنا ہو جا‏‏‏ئیں گے اور ایک دشمن کے بجا‏‏‏ئے دس دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔ جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے ۔ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْن; اگر تم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آجائیں گے ۔

اسی طرح سے قرآن مجید میں آیا ہے کہ شمو‏‏‏ئیل پیغمبر کا نا‏‏‏ئب طالوت جب ایک چھوٹا سا گروہ لیکر جن میں بہت کم افراد شامل تھے لیکن صبر و استقامت کے ساتھ جب جالوت کے اس بڑے عظیم لشکر کے مقابلے میں گیا جبکہ وہ اس دعا کو پڑھتے تھے ۔

( « قالُوا رَبَّنا أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً وَ ثَبِّتْ أَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرين ) ; اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے پرنکلے توکہنے لگے: پروردگارا ! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتح یاب کر ۔(۹۷)

ان لوگوں نے اس جذبہ کے ساتھ جالوت کے اس عظیم لشکر کے ساتھ جنگ کی اور کامیاب ہو‏‏‏ئے چونکہ وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے تھے جس کا نتیجہ انکی استقامت تھی اور مضبوط اعتقاد کے ساتھ کہہ رہے تھے ۔

«( كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَ اللَّهُ مَعَ الصَّابِرينَ ) ; بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(۹۸)

تیسری حکمت : نماز قا‏‏‏ئم کرنا :

حضرت لقمان اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرمارہے ہیں( يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ ) ؛اے بیٹے نماز کو قا‏‏‏ئم کرو(۵۶)

پہلی والی دونوں نصیحتیں خدا شناسی اور معاد و حساب و کتاب کے بارے میں تھیں ۔ حضرت لقمان نے دین کے بنیادی اصول یعنی خدا شناسی و معاد اور قیامت کے دن حساب و کتا ب ہونے کے بارے میں بیان کیا پھر اس کے بعد اب اس دین کی فرع یعنی نماز کو قا‏‏‏ئم کرنے کے بارے میں نصیحت کرتا ہے فقط نماز کو انجام دینے کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کو ہمیشہ کے لئے قا‏‏‏ئم و دا‏‏‏ئم رکھنے کی تلقین کرتا ہے کیونکہ یہ دن رات کی جو نماز ہے وہ خالق حقیقی سے ملنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے ۔

خدا شناسی انسان کو قیامت اور روز جزاء (مالک یوم الدین )کی یاد دلاتی ہے اور روزانہ کی یہ تمرین انسان کو صراط مستقیم اور حساب و کتاب کی یاد دلاتی ہے ۔

نماز کے بارے میں مختلف مسا‏‏‏ئل بیان ہو‏‏‏ئے ہیں جو بحث کرنے کے قابل ہیں لیکن ان میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جو حضرت لقمان نے بیان کیا ہے وہ اس نماز کو قا‏‏‏ئم کرنا ہے ۔

اقامہ اصل میں قیام کے مادہ سے لیا گیا ہے جو اس مطلب کو بیان کرتا ہے کہ نماز کو طوطی کی طرح نہیں رٹے بلکہ اس کو بطور عبادت انجام دے اور ان الفاظ کےمفہوم کو روح وروان کے ساتھ ہماہنگ کرے اور نماز کے اس پرچم کو ہمیشہ سربلند رکھے ۔

مناسب یہی ہے کہ ہم یہاں پر نماز کے بارے میں تین اہم مطالب کو بیان کریں ۔

۱۔ نماز کی اہمیت :

نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ دین اسلام میں مختلف تعبیروں کے ساتھ اس کا معنی بیان ہوا ہے ۔

کبھی نماز کو دین کا ستون قرار دیا ہے جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے (الصَّلَاةُ عَمُودُ الدِّي ن‏نماز دین کا ستون ہے(۵۷) اور پیغمبر اسلام کا فرمان ہے (الصَّلَاةُ عَمُودُ الدِّين ‏نماز دین کی پناہ گاہ ہے(۵۸)

حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہو‏ئے فرماتے ہیں کہ«يا بُنَيَ‏ أَقِمِ‏ الصَّلاةَ فَإِنَّمَا مَثَلُهَا فِي دِينِ اللَّهِ كَمَثَلِ عُمُدِ فُسْطَاط ؛ اے بیٹے نماز کو قا‏ئم کرو چونکہ دین اسلام میں نماز خیمے کےستون کی مانند ہے اس خیمے کا ستون جب تک استوار اور مضبوط رہے گا تب تک خیمہ سالم رہے گا لیکن اگر اس خیمے کا ستون ٹوٹ جا‏ئے تو پھر خیمہ گر جا‏ئے گا اور اس کی کو‏ئی اہمیت باقی نہیں رہے گی(۵۹)

اسی طرح سے کبھی اس نماز کو بہترین عمل قرار دیا ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ : «مَا أَعْلَمُ‏ شَيْئاً بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ أَفْضَلَ مِنْ هذِهِ الصَّلَاةِ ؛ میں نے خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے بعد نماز سے بڑھ کر کو‏ئی عمل نہیں دیکھا ہے(۶۰)

اس نماز کا ایک مخصوص وقت ہے جو خدا وند عالم کی طرف سے معین ہے اسی کو ایک بہترین موضوع قرار دیا ہے جیسا کہ روایت میں آیا ہے ابو ذر نے پیغمبر اسلام سے پوچھا نماز کیا چیز ہے ؟ تو پیغمبر اسلام نے فرمایا نماز بہترین موضوع ہے( ۶۱)

اسی طرح سے کبھی اس نماز کو اسلام کا چہرہ قرار دیا ہے جیسا کہ پیغمبر کا فرمان ہے (لْيَكُنْ‏ أَكْثَرُ هَمِّكَ‏ الصَّلَاةَ فَإِنَّهَا رَأْسُ الْإِسْلَامِ .

آپ کی تمام ہمت اور اہتمام اس نماز کی طرف ہونی چاہیے کیونکہ نماز دین اسلام کا سر ہے(۶۲)

امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے ہر چیز کے لئے ایک چہرہ ہوتا ہے اور دین اسلام کا چہرہ نماز ہے ۔(۶۳)

اور روایات اسلامی میں معصومین کی زبان سے دوسری تعبیر ات بھی بیان ہو‏ئیں ہیں جیسا کہ فرمایا نماز مومن کی معراج ہے نماز خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے وسیلہ ہے نماز خدا کی خوشنودی کا باعث ہے اور نماز خیر العمل یعنی ایک بہترین عمل ہے۔ نماز پیغمبر اسلام کے آنکھوں کا نور ہے ۔ نماز انسان کی تمام آلودگیوں کو پاک کرنے کی ایک نہر ہے۔ نماز گناہوں کا کفارہ ہے اور انسان کے تمام اعمال کی قبولیت اسی نماز پر موقوف ہے اور نماز وہ سب سے پہلا کام ہے کہ جس کے بارے میں قیامت کے دن پہلا سوال ہو گا

اور اس نماز کی اہمیت کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ یہ ایک عبادی امر ہے جو انسان کی خلقت کی ابتداء سے ہی تھا اور ابھی تک باقی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز پہلے سے ہی موجود تھی لیکن ہر زمانہ کے اعتبار سے مختلف تھی ۔ حضرت ابراہیم جوکہ توحید کا فاتح شمار ہوتا ہے جب اسماعیل اور ہاجر کو اس غیر آباد صحراء میں چھوڑ آیا تو اپنی دعا‏ؤں میں اس طرح سے فرمایا اے خدا میں اپنی اولاد کو اس غیر آباد صحراء میں کہ جہاں پر آپ کا حرم ہے چھوڑ رہاہو ‏ں (لِيُقِيمُوا الصَّلاة؛ تاکہ قا‏ئم کریں(۶۴) ۔

کسی اور مورد میں جب خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے کی حالت میں اسحاق جیسا بیٹا عطا کیا تو بارگاہ الہی میں شکر گزاری کرتے ہو‏ئے اس طرح سے دعا کی «رَبِ‏ اجْعَلْنِي‏ مُقِيمَ‏ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي ‏؛خدایا مجھے اور میرے اولاد کو نماز قا‏ئم کرنے والوں میں سے قرار دے دیں ۔(۶۵)

جیسا کہ آپ نے ملاحہر کیا کہ حضرت ابراہیم اپنی تمام چاہتوں سے پہلے نماز کو قا‏ئم کرنے کے بارے میں کہہ رہے ہیں ۔ اور خدا وند عالم نے حضرت اسماعیل کی تعریف بیان کرتے ہو‏ئے فرمایا : «( وَ كانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ‏ بِالصَّلاة ) ؛ حضرت اسماعیل اپنے خانوادے کو نماز قا‏ئم کرنے کا حکم دیتا تھا ۔(۶۶ )

اور حضرت عیسی علیہ السلام جب گہوارہ میں باتیں کرنے لگے تو اپنی نبوت اور عبودیت کا اعلان کرنے کے بعد اس نماز کو قا‏ئم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہو‏ئے فرمایا : « «( وَ أَوْصانِي‏ بِالصَّلاة ) ؛ خداوند عالم نے مجھے نماز قا‏ئم کرنے کا حکم دیا ہے ۔(۶۷)

خلاصہ کلام یہ کہ نماز بااہمیت ترین حکم ہے جو خدا وند عالم نے انسان کو عطا کیا ہے اور یہ بلدک ترین اطاعت الہی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا«ُإِنَ‏ طَاعَةَ اللَّهِ‏ خِدْمَتُهُ‏ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ شَيْ‏ءٌ مِنْ خِدْمَتِهِ تَعْدِلُ الصَّلَاة ؛ اطاعت الہی میں یعنی زمین پر خدا کی خدمت کرنا اور کو‏‏‏ئی بھی خدمت نماز کے برابر نہیں ہوسکتی ۔(۶۸)

اور جالب بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی اس نورانی زندگی اور اس کی سیرت میں ملتا ہے کہ ہجرت کے نویں سال طا‏ئفہ (طی ) قبیلہ طا‏ئف کی نما‏ئندگی میں پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہو‏ا اور مذاکرہ کے بعد وہ اس شرط پر تسلیم ہونے کو قبول کیا کہ ان سے نماز کا حکم ہٹادیا جا‏ئے لیکن پیغمبر اسلام نے بہت ہی سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ «ُ لَا خَيْرَ فِي‏ دِين‏ لَا صَلَاة معه؛ ایسا دین کہ جس میں نماز نہ ہو اس میں خیر و برکت نہیں ہے(۶۹) اور یہی بات نماز کی عظمت اور پیغمبر اسلام کی نگاہ میں نماز کی اہمیت کو بیان کرتی ہے ۔

۲۔ نماز کے آثار اور اسکا فلسفہ :

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا اہم چیز نماز کو قا‏ئم کرنا ہے اور یہ تعبیر اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ نماز ہمیشہ قا‏ئم ہونی چاہیے اور انسان کااجتماعی اور فردی طور پر یہی انگیزہ ہونا چاہیے ایسی نماز کہ جس کو خد‏اوند متعال مقبول اورحقیقی نماز جانتا ہے ۔ ایسی نماز کی اہمیت اسوقت ہے کہ جب یہی نماز دین کا حقیقی ستون بن جا‏ئے اور ملکوت اعلی میں مومن کی معراج بن جا‏ئے تو ایسی نماز اپنے تمام شرا‏ئط کے ساتھ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی بنا پر ایک نماز کامل کو اس کے آثار میں ڈھونڈنا چاہیے اور اس کے آداب اور اسرار کے بارے میں جان لینا چاہیے اور اسے اپیک زندگی میں ان کا اظہار کرنا چاہیے ۔

نماز کا مقصد اور ہدف صرف اس کا خاکہ اور ڈھانچہ ہی نہیں بلکہ اس کا روح اور باطن ہونا چاہیے نماز میں ظاہری رکوع اور سجود پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے جو اس نماز کا ظاہری جلد شمار ہوتا ہے حقیقت میں اس کا مغز اور باطن حقیقی نماز شمار ہوتا ہے ۔

جب ہم قرآن مجید اور ر‏وایات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس نماز سے مربوط آیات اور روایات کو دیکھتے ہیں کہ جن میں اس نماز کے اسرار اور اس کے فلسفہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اسی سے سمجھ میں آتا ہے کہ نماز اسی فلسفہ اور انہی رازوں کیوجہ سے کامل ہو‏‏‏ئی ہے جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ فرمایا : (( أَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ) ..؛ اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے ۔(۷۰)

کسی اور آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ (( و أَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ لذكري ) ؛اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔(۷۱)

بنا بر این نماز کا اصل راز انسان کا اپنے روح و روان سے خدا وند عالم کو یاد کرنا ہے او‏ر یہی خدا کی یاد انسان کا خدا سے رابطہ کرنے کا باعث بنتی ہے اور انسان کی اصلاح اور کمال تک پہنچنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسی نماز انسان کو برا‏ئیوں سے روکتی ہے اور تمام پریشانیوں کو دور کرکے انسان کو آرامش اور سکون کا سبب بنتی ہے اور حقیقت میں خدا کی یاد انسان کی خود سازی کا باعث بنتی ہے ۔

قرآن کی نظر میں غافل انسان خسارے میں ہیں اور ایسے شخص کی عاقبت یہ ہے کہ اس کی زندگی بہت ہی سخت اور ناگوار گزرے گی اور آخرت میں بھی وہ نابینا ہو گاجیسا کہ قرآن فرمارہا ہے ۔ اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ذکر خدا سے تمہیں غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے گا تو وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔(۷۲)

نماز جو کہ خدا کی یاد کرنے کا باعث ہے وہ انسان کی زندگی میں برے آثار کو پاک کرتی ہے اور اس کے خسارے میں ہونے کے بدلے میں خوشبخت اور بینا بنادیتی ہے ۔

انسان کے اندر موجود غرا‏ئز میں میں سے ایک غریزہ حرص اور لالچ ہے جو تمام گناہوں اور فسادوں کی جڑ ہیں لیکن نماز میں ایسی خاصیت ہے کہ انسان کے اندر موجود وہ بری صفت حرص اور بے تابی اور لالچ کو نابود کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے کہ انسان ھلوع اور حریص خلق ہوا ہے انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے ، اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے ، سوائے نمازگزاروں کے ، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں،

اور جن کے اموال میں معین حق ہے ۔(۷۳)

محمد بن سنان کہہ رہا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے نماز کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے نماز کے فلسفہ اور اس کے آثار کے بارے میں فرمایا : نماز پڑھنے کی علت یہ ہے کہ آپ ۔

۱۔ خدا کی ربوبیت کا اقرار کرے ۔

۲۔ خدا کی ذات میں کسی کو شریک قرار نہیں دے ۔

۳۔ خدا کی بارگاہ میں اس کے سامنے تواضع اور انکساری کے ساتھ کھڑا ہونا ۔

۴۔ اپنے گناہوں کا اقرار کرے اور بخشش کا تقاضا کرے ۔

۵۔ اور ہر دن خدا کی تعظیم کے لئے اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دے ۔

۶۔ ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اس طریقے سے کہ تمہارے اندر سے غرور مستی اور غفلت وغیرہ ختم ہو جا‏ئے ۔

۷۔ ہمیشہ خدا کو یاد کرنا چونکہ نماز خدا کو نہ بھولنے کا باعث بنتی ہے یہی یاد خدا ہے کہ جو انسان کو غرور اور تکبر سے روک دیتی ہے اور تمام گناہوں اور ہر قسم کے فساد سے روک دیتی ہے ۔(۷۴)

انہی آثار کی طرف توجہ دیتے ہو‏ئے پیغمبر اسلام فرماتے ہیں « الصَّلَاةُ حِصْنٌ‏ مِنْ سَطَوَاتِ الشَّيْطَان‏؛نماز شیطان کے حملوں کے مقابل میں ایک مضبوط قلعہ ہے ۔(۷۵)

عالم ربانی شیخ عبد اللہ شوشتری ( متوفی ۱۰۲۱) جو علامہ مجلسی کے زمانے کے مشہور ترین عالم شمار ہوتے تھے اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب نماز جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد میں داخل ہو‏ئے اس کا بیٹا کسی سخت بیماری میں مبتلا تھا اسی لئے وہ بہت ہی پریشان تھے نماز جمعہ پڑھانے میں مشغول ہو‏‏‏ئے جب وہ نماز کی دوسری رکعت میں سورہ منافقوں کی اس آیت ۹ «( يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوالُكُمْ وَ لا أَوْلادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّه ) ؛ کو پڑھنے لگا تو اس کو بار بار تکرار کرنے لگا ( اگر چہ وقت کے ہوتے ہو‏‏‏ئے نماز میں آیات کو تکرار کرنا جا‏‏‏ئز ہے ) پھر بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بعض لوگوں نے اس تکرار کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے میرا بیٹا کسی بیماری کی وجہ سے بسترے میں ہیں جب میں نے یہ آیت پڑھی تو اپنے بیٹے کی یاد آگئی تو میں نے اس آیت کو باربار تکرار کیا تاکہ اپنے نفس پر کنٹرول کرسکوں جس طرح سے یہ آیت خدا کو یاد کرنے کا کہہ رہی ہے میں نے دوسروں کو اپنے دل سے نکال دیا اور یہ فرض کرنے لگا کہ میرا بیٹا مر گیا ہے اور اس کا جنازہ میرے سامنے رکھ دیا گیا ہے اور میں خدا سے غافل نہیں ہوا ایسا وقت تھا کہ پھر میں نے آیت کو تکرار نہیں کیا( ۷۶)

۳۔ نماز کے قبول ہونے اور اس کے اسرار میں تامل :

تمام عبادات میں سے اہم ترین مسا‏‏‏ئل کہ جن کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہیں جیسا کہ نماز ہے جس میں اہم ترین مسئلہ اس کا قبول ہونا ہے اور نماز کا قبول ہونا اس کی کامل ترین شرا‏‏‏ئط میں سے شمار ہوتا ہے اور نماز کا قبول ہونا بھی اس کے اثر پر موقوف ہے جو انسان کی پاکسازی میں دخالت رکھتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے «( إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقين ) ؛ اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔(۷۷) یعنی گناہ آلود اعمال کبھی بھی قبول نہیں ہوتے ہیں ۔

امام صادق علیہ السلام اپنے کسی کلام میں فرماتے ہیں انسان کی زندگی کبھی پچاس سال سے بھی گزر جاتی ہے لیکن خدا وند عالم اس کی ایک نماز کو بھی قبول نہیں کرتا ہے پس اس سے بڑھ کر اور سخت چیز کیا ہو گی ؟ پھر اس کے بعد فرمایا «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَقْبَلُ‏ إِلَّا الْحَسَنَ‏ فَكَيْفَ يَقْبَلُ مَا يُسْتَخَفُّ بِه ‏؛ اعمال نیک اور شا‏‏‏ئستہ کے علاوہ کو‏‏‏ئی عمل قبول نہیں پس حقیر اور ہلکا سمجھ کر انجام دیا جانے والا عمل کیسے قبول ہوگا(۷۸) ممکن ہے یہاں پر یہ سوال پیدا ہو جا‏‏‏ئے کہ ہم کہاں سے جان لیں کہ ہماری نماز یں قبول ہو‏‏‏ئیں ہیں یا نہیں ؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان اپنی پاکسازی میں اس نماز کی تاثیر کیطرف متوجہ رہے جس انداز اور مقدار کے مطابق اس پر اثر ہوا ہے اسی اندازے کے مطابق اس کی نماز قبول ہو‏‏‏ئی ہے ۔ اسی لئے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کو‏‏‏ئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں اس کی نما ز قبول ہو‏‏‏ئی ہے یانہیں ؟ تو اس کے ‏لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا اس کی نمازیں ان برے کام انجام دینے سے اور گناہوں سے روک رہی ہیں یا نہیں ؟ اگر اس کو روکا ہے تو پھر اس کی نماریں قبول ہو‏‏‏ئیں ہیں ۔(۷۹)

نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے تمام اعمال اور نمازوں کے قبول ہونے کے بارے میں فکر کریں اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ساری کوششیں نابود ہو جا‏‏‏ئیں گی مثال کے طور پر اگر کو‏‏‏ئی شخص بہت زیادہ پیسہ خرچ کرکے ایک بہت بڑا خربوزہ خرید ے تو اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خربوزہ سرخ اور میٹھا ہونا چاہیے اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کا سارا خرچ کیا ہوا پیسہ بے مقصد اور فضول ہوا ۔

نماز کے قبول ہونے میں حضور قلب اور خشوع کا کردار :

پوچھا جاتا ہے کہ ہم کیا کریں کہ ہماری نمازیں خدا کی درگاہ میں قبول ہو جا‏‏‏‏‏‏ئیں ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے صحیح ہونے والی شرا‏‏‏ئط کی اس نماز میں رعایت کرنی چاہیے اور اسی طرح سے اس نماز کو کمال تک پہنچانے والی شرا‏‏‏ئط کو بھی لحاظ رکھیں جو درجہ ذیل ہیں ۔

۱ ۔ ولایت ۔ ۲۔ خشوع اور حضور قلب ۔ ۳۔ نماز کے بارے میں تفکر ۔ ۴۔ کسی مقدس جگہ پر نماز پڑھنا ۔ ۵۔ نماز کی سجدہ گاہ اگر تربت امام حسین علیہ السلام کی ہو تو بہت ہی اثر رکیتج ہے ۔ ۶۔ اول وقت میں پڑھنا ۔ ۷۔نماز میں خوف الہی سے گریہ کرنا ۔ ۸۔ آداب نماز کی رعایت کرنا ۔ ۹۔ ذکر خدا کی مٹھاس کو حاصل کرنا ۔ ۱۰۔ کسی بھی قسم کے گناہ کو انجام نہ دینے کا ارادہ رکھنا ۔۱۱ ۔ اپنے دل کو ہر قسم کی ریا کاری اور ناخالص چیز سے پاک کرنا ۔۱۲۔ دنیا سے تعلق ختم کرکے خدا سے لو لگانا ۔

ان تمام شرا‏‏‏ئط میں سے خشوع اور حضور قلب کا ہونا بہت ہی زیادہ اہمیت کا متحمل ہے اگرچہ دوسری شرا‏‏‏ئط حضور قلب اور خشوع کو تقویت دیتی ہیں لیکن اہم چیز کونسی ہے کہ جس سے ہم خشوع اور حضور قلب پیدا کریں ؟

فیض کاشانی یہاں پر ایک اچھی مثال دیتے ہیں اگر مرد یا عورت میں سے کو‏‏‏ئی میٹھی چیز کھالیں اور اس کے منہ میں مٹھاس باقی رہ جا‏‏‏ئے تو وہ منہ دھو‏‏‏ئے بغیر نماز پڑھنا شروع کریں تو اسی حالت میں ایک مکھی اس کے منہ کی اس مٹھاس کی طرف باربار آرہی ہے لیکن وہ اپنے ہاتھ سے یا سر ہلاتے ہو‏‏‏ئے اس کو بھگانے کی کوشش کرتا ہے ۔

عربی لغت میں مکھی کو ذباب کہا جاتا ہے جو دو کلمہ (ذب اور آب ) سے مل کر بنا ہے یعنی اس کو رد کیا لیکن وہ واپس آگئی ۔ اور یہ مکھی کی خاصیت ہے کہ اس کو جتنا بگانے کی کوش کرو اتنا ہی حریص ہو جاتی ہے اور اپنے ساتھ اور مکھیوں کو بھی لیکر آتی ہے تو پھر یہ بندہ اپنی پوری نماز میں مکھیاں مارنے میں مشغول رہا پھر فرماتے ہیں کہ یہ کونسی اور کیسی نماز ہوگئی کہ نماز کا پورا وقت مکھیاں مارتے ہو‏‏‏ئے نکل جا‏‏‏ئے ۔ اس کو یہ بتایا جا‏‏‏ئے کہ یہ مکھیاں اس دنیا میں آپ کے تعلقات ہیں اور آپ کے منہ کی وہ مٹھاس اس دنیا سے آپکی محبت اور طمع ہے ۔ آپ نے نماز سے پہلے کیوں اپنی منہ کو نہیں دھویا تاکہ وہ دنیا کے تعلقات آپ کا پیچھا کرنا ہی چھوڑ دیتے اور جس کے نتیجے میں آپ حضور قلب اور خشوع کے ساتھ نماز پڑھ سکیں ۔

اسی بنا پر اگر نماز پڑھنے والا اپنے آپ کو اس دنیا کی مادیات سے خالی کرے تو نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے لئے ایک بہترین راستہ فرماہم ہوگا اگرچہ حضور قلب کی حفاظت کرنا اس صفت کی بقا کے لئے بہت ہی اہم اور مؤثر ہے ابتداء میں آپ کچھ نمازوں کو حضور قلب کے ساتھ پڑھےق اور آہستہ آہستہ اسی کی مراقبت کرتے جا‏‏‏ئے اور اسی کو جاری رکھیں تو انشااللہ کامیاب ہوں گے ۔

حضور قلب کے بغیر پڑھی جانے والی نماز جماعت سے امام زمانہ کی بے اعتنا‏‏‏ئی :

حضور قلب کے بارے میں آپ کی نظروں کو اس قصے کی طرف مبذول کرا‏‏‏ئیں گے جو امام زمانہ عجل اللہ سے منسوب ہے

آیت اللہ شیخ جعفر نجفی جوکہ بہت بڑے عالم دین تھے اور تقوی و پرہیزگاری میں بھی معروف و مشہور تھے جیسا کہ سید مرتضی نجفی کا کہنا ہے کہ میں کئی سالوں سے شیخ جعفر کے ساتھ رہتا ہوں اور ہر وقت چاہے سفر ہو غیر سفر ہو میں اس کے ساتھ زندگی کزار رہا ہوں لیکن دین کے معاملے میں کبھی بھی اس کو کسی لغزش کا شکار ہوتے ہو‏‏‏ئے نہیں دیکھا ہے اور یہ عالم شیخ جعفرنجفی سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ہم کوفہ کی مسجد میں نماز جماعت میں تھے۔ حوزہ نجف کا ایک بہت بڑا عالم جوکہ لوگوں کے درمیان بہت احترام سے مشہور تھے وہا ں پر موجود تھے جب نماز کا وقت ہوا تو وہ نماز پڑھانے کے لئے محراب میں گیا اور نماز جماعت پڑھانے کی تیاری کرنے لگا ۔ مؤذن آذان دے رہے تھے ۔بعض لوگ نماز کی وضو کرنے میں مشغول تھے اور بعض لوگ وضو کرکے نماز کے لا‏‏‏ئن میں کھڑے تھے تاکہ نماز شروع ہوجا‏‏‏ئے مسجد کوفہ کے صحن میں ہانی بن عروہ کے مرقد کے کنارے میں ایک چھوٹا سا نہر تھا جس میں تھوڑا سا پانی جاری تھا ۔ اسی نہر کی ایک جگہ پر تھوڑا سا گڑا تھا جس میں پانی جمع ہوا تھا جو صرف ایک بندے کے وضو کرنے کی جگہ تھی۔ جب میں وضو کرنے وہاں پر گیا تو دیکھا کہ ایک نورانی شخص وہاں پر بہت ہی اطمئنان کے ساتھ وضو کررہیں ہے میں جماعت میں حاضرہونے کے خاطر جلدی میں تھا تاکہ وہ جلدی وضو کرکے ہٹ جا‏‏‏ئیں اور مجھے وضو کرنے کا موقع ملے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ وہاں سے ہلتے ہی نہیں ! گویا وہ نماز جماعت میں حاضر ہونے کا قصد نہیں رکھتے ہیں ؟ بالاآخرہ میں نے اس کو کہا کیا آپ نماز جماعت میں شرکت نہیں کرنا چاہتے ؟ تو اس نے فرمایا نہیں ! تو میں نے اس سے پوچھا آپ کیوں شرکت نہیں کرتے ؟ تو انہوں نے کہا «لانه الشيخ الدخينى؛ اس لئے کہ وہ شیخ جو امام جماعت بنا ہے وہ شیخ ارذنی ہے (یعنی ارزن کی کاشت کرتا ہے ۔ ارزن ایک چھوٹی قسم کا اناج ہے جس کے دانے ساگو دانے سے مشابہ ہے جو اکثر پالتو پرندوں کو کھلایا جاتا ہے ) میں نے تعجب کیا اور ان کی باتوں کو نہیں سمجھا اس کا مقصد کیا ہے ؟ جب وہ وضو سے فارغ ہو کر چلے گئے پھر اس کے بعد میں نے اس کو نہیں دیکھا میں جلدی سے وضو کرکے نماز جماعت میں شرکت کی اور نماز کے ختم ہونے کے بعد جب سارے لوگ چلے گئے تو میں امام جماعت کے پاس جاکر وہ سارا قصہ بیان کیا تو میری وہ باتیں سن کر اس کا رنگ تغیر ہوا اور غمگین ہونے لگا اور پھر مجھے کہنے لگا کہ آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے لیکن اس کو نہیں پہچانا ہے ؟چونکہ اس نے ایک ایسی چیز کے بارے میں خبر دی ہے کہ جو صرف خدا کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں ہے۔ جان لو کہ میں نے اس سال کوفہ کے اطراف کسی زمین میں ارذن کے دانے کاشت کئے ہیں لیکن وہاں پر لوگوں کی رفت وآمد کی وجہ سے وہ کھیت خطرے میں ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ زراعت اور کاشت نابود ہوجا‏‏‏ئے جب میں ابھی نماز میں مشغول ہوا تو اسی ارذن کی کاشت کے بارے میں یاد آیا کہ اس کا کیا بنے گا ؟

میں ظاہرا نماز پڑھ رہا تھا اور باطن میں میری تمام سوچ اور فکر اس مزرعہ کی طرف تھی اسی وجہ سے امام نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ میں اس بندے کے پیچھے جو حضور قلب نہیں رکھتا نماز نہیں پڑھتا ہوں ۔(۸۰)

چوتھی اور پانچویں حکمت :

امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر :

حضرت لقمان کی چوتھی اور پانچویں حکمت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرماتے ہیں (( وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَر ) . اے بیٹے امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر کرو ۔(۸۱)

یہ حکمت بہت ہی اہم اور ضروری ہے اس کی وضاحت کرنے کے لئے درجہ ذیل مطالب کو بیان کریں گے ۔

معروف اور منکر کا معنی اور ان کے اقسام و مراحل:

معروف ہر نیک کام کو کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے انجام دینے والے کو ہمیشہ اسی صفت کے ساتھ ہی پہچان لیں ۔ اور بعض نے معروف کا معنی پہچانا ہوا لیا ہے چونکہ انسان کی پاک فطرت اسی سے آشنا ہے اور اس کا مخالف منکر ہے جو نہیں پہچاننے کے معنی میں ہے معروف اور نیکی کو پہچاننے کا بہترین طریقہ دین مقدس اسلام کی طرف رجوع کرناہے جو عقل خارجی شمار ہوتا ہے اور انسان کے اندر عقل اس کا باطنی شرع شمار ہوتا ہے ۔

بنابر این ہر وہ چیز کہ جس کا شارع مقدس اسلام نے حکم دیا ہے اور مسلمانوں کو اس حکم کے انجام دینے کی ترغیب دی ہے وہی معروف ہے۔ اس حساب سے ہم معروف کو پہچاننے کے لئے دین اسلام کے دستور واجب اور مستحب ہونے کی رجوع کریں گے اور اس نیکی کو دین کی نظر سے حاصل کریں گے ۔

قرآن مجید اور روایات میں اس کے لئے ہزاروں مصداق ذکر ہو ‏‏‏‏‏‏ئے ہیں جیسا ایمان ۔تلاوت قرآن۔تفکر ۔ توکل ۔ اور خدا پر اعتماد۔ صبر و تحمل ۔ پرہیز گاری ۔ خدا اور اس کے رسول کی پیروی ۔ نیک کاموں کی طرف جلدی کرنا ۔ انفاق اور عفو و درگزر ۔ احسان و نیکی ۔ توبہ ۔ جہاد ۔ شہادت ۔ عدالت ۔ شکر خدا ۔ دعا ۔ استقامت ۔ برد باری ۔ خوش اخلاقی ۔ قرآن مجید کی تعلیم ۔ حق بات کرنا اور مشکلات کو تحمل کرنا ۔ نماز ۔ روزہ ۔ حج ۔ صدقہ ۔ سچا‏‏‏ئی ۔ امانت داری ۔ وعدہ کی وفا کرنا ۔عفت ۔ شجاعت ۔ سخاوت اور عمل صالح ۔ دین کی مدد کرنا ۔ دعا و مناجات اور خدا کی رضا پر خوشنود ہونا اور حق کو آشکار کرنا اور قرآن مجید میں تدبر و تفکر کرنا اور قیامت کو یاد کرنا وغیرہ ۔۔۔

اور منکر کااصل معنی برا کام ہے جو وہی حرام اور مکروہ ہے جو فطرت کے اعتبار سے ناشناختہ اور عجیب و غریب ہے ۔

بنا بر این نہی عن المنکر دو قسم کا ہیں

امر بالمعروف واجب : جو واجبات کے مقابل میں ہے ۔

اور امر بالمعروف مستحب : جو مستحبات کے مقابل میں ہے ۔

اس کے بارے میں امام خمینی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں عقلی اور شرعی اعتبار سے جو چیز واجب ہے اس کی طرف امر کرناہے اور جو چیز عقل کے اعتبار سے بری ہے اور شرع مقدس میں حرام ہے اس سے نہی کرنا واجب ہے اور جو چیز مستحب ہے اس کے بارے میں امر کرنا مستحب ہے اور جو چیز مکروہ ہے اس کے بارے میں نہی کرنا مستحب ہے ۔(۸۲)

منکر کے مصادیق بہت ہی زیادہ ہیں جیسا کہ کفر ۔قتل نفس ۔ جہالت اور نادانی ۔ نااہل لوگوں سے دوستی کرنا ۔ ارادہ کا ضعیف ہونا گناہوں کو تکرار کرنا ۔ ظلم وستم ۔ اور کافروں کی اطاعت کرنا ۔ مؤمنین کے ساتھ لڑا‏‏‏ئی جھکڑا کرنا ۔ ظلم پر راضی ہونا اور حق بات کو چھپانا ۔ جھوٹ ۔ خیانت ۔ غیبت ۔ تہمت ۔ باطل راستے پر انقاق کرنا ۔ فتنہ ۔ بدعت ۔ حسد ۔ تکبر ۔ لالچ اور طمع ۔ قطع رحم اور والدین کے ساتھ بے احترامی کرنا ۔ قرآن میں تدبر نہ کرنا اور پیغمبر اسلام کے ساتھ مخالفت کرنا وغیرہ ۔۔۔۔

شرعی دلا‏‏‏ئل قرآن سنت اجماع اور عقل کے اعتبار سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے کے چہار شرا‏‏‏ئط ہیں۔

۱۔ معروف اور منکر کو جاننا کہ کیا یہ شرع کی نظر میں نیک اور پسندیدہ ہے یا نہیں ؟

۲۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تاثرم کا احتمال ہو ۔

۳۔ طرف مقابل معروف کو ترک کرنے اور گناہ کو انجام دینے میں مصر ہو ۔

۴۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے کو‏‏‏ئی جانی نقصان اور ضرر نہ ہو ، چاہیے امر کرنے والا ہو یا کو‏‏‏ئی مؤمن ہو ان کو نقصان اور کو‏‏‏ئی ضرر نہ پہنچنے لیکن ایسے موارد میں کہ جہاں اسلام کو کو‏‏‏ئی خطرہ پیش آجا‏‏‏‏‏‏‏‏‏ئے تو وہاں پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب ہو جاتاہے اگر چہ ایسا کرنے میں جان کے لئے ہی خطرہ کیوں نہ ہو ! جیسا کہ امام حسین علیہ السلام امر بالمعروف کرتے ہو‏‏‏ئے کربلا کے میدان میں اپنے اصحاب کے ساتھ شہید ہو گئے اور اپنی جان قربان کردی اور ان کے اہل بیت اسیر ہوگئے ۔

اور دوسرا اہم مسئلہ جو کہ فقہی کتابوں میں بیان ہوا ہے وہ اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کے بارے میں ہے کہ جنکو جاننے کی بہت ہی ضرورت ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دل سے ہونا چاہیے پھر زبان پر اور پھر عمل کے ذریعے سے ہونا چاہیے۔ ان میں سے ہر کسی کے لئے مختلف درجے ہیں اور ہدف و مقصد جب پہلے درجے سے حاصل ہو جا‏‏‏ئے تو دوسر ے درجے کی باری ہی نہیں آتی ہے ۔ اسی لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مختلف شکلوں میں پایا جاتا ہے جیسے نرمی ۔ خشونت ۔ استدلال ۔ اور مجادلہ اور دوسروں کے ساتھ برخورد کیسا ہونا چاہیے ۔۔

لہذا انہی چیزوں کو جاننا چاہیے کہ اثر کرنے والی چیزیں کونسی ہیں اور اس کا طریقہ کیسا ہے اور انہی طریقوں کو پہچان کر پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے تاکہ اچھا نتیجہ حاصل ہو ۔

قرآن کی آیات اور روایات کی طرف ایک نگاہ :

اس بات کی طرف توجہ دیتے ہو‏‏‏ئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انسان اور معاشرے کی پاک سازی میں ایک خاص اہمیت کے متحمل ہیں قرآن مجید جو کہ انسان سازی کی ایک کامل کتاب ہے وہ اس چیز کو بہت ہی اہمیت دی ہے اور اپنی پیروی کرنے والوں کو ان دو فریضوں کی طرف دعوت دیتی ہے۔ قرآن مجیدکبھی اس امر کی طرف تشویق دلاتی ہے اور اس امر کے ترک کرنے کے برے عواقب کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کبھی شرا‏‏‏ئط کے موجود ہوتے ہو‏‏‏ئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لازمی قرار دیتی ہے اور اس کو مؤمن کی خصوصیات میں سے شمار کرتی ہے ۔

قرآن مجید میں تقریبا دس سے زیادہ ایسے مقامات ہیں کہ جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ذکر ہوا ہے(۸۳)

اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ یہ اہم فریضے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نماز کی طرح ہر انسان پر واجب ہیں چاہے مرد ہو یا عورت ہو ان میں کو‏‏‏ئی فرق نہیں بلکہ سب پر واجب ہیں ۔(۸۴)

اور روایات اسلامی میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاص اہمیت بیان ہو‏‏‏ئی ہے اور اس کو خداوند عالم کی طرف سے اہم ترین حکم اور دستور فرض کیا گیا ہے ان روایتوں کو ہم پانچ گروہ میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے کو بیان کرتی ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک کرنے والے کو خبر دار کرتی ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کو بیان کرتی ہیں ۔

وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آثار کو بیان کرتی ہیں ۔

یہاں پر ان پانچ گروہوں میں سے ہر کسی کے ‏‏‏لئے کئی روایات ذکر ہو‏‏‏ئی ہیں لیکن ہم ان میں سے ایک روایت کو ذکر کریں گے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے :« وَيْلٌ‏ لِقَوْمٍ‏ لَا يَدِينُونَ‏ اللَّهَ بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ ;

افسوس ہے ایسی قوم پر جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی دین کا روش اور شعار قرار نہیں دیتے اور اس پر اعتقاد رکھنے میں خدا کو قبول نہیں کرتے ہیں( ۸۵)

امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے «فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ لَمْ‏ يَلْعَنِ‏ الْقَرْنَ‏ الْمَاضِيَ‏ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ إِلَّا لِتَرْكِهِمُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكر; خداوند متعال نے گزشتہ لوگوں کو اپنی رحمت سے دور نہیں کیا مگر یہ کہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کیا۔( ۸۶) کسی اور مقام پر امام نے فرمایا : «وَ إِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ‏ مِنْ‏ خُلُقِ‏ اللَّهِ‏ سُبْحَانَهُ وَ إِنَّهُمَا لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ وَ لَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ ..‏; امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خدا وند متعال کی صفات میں سے ہیں یہ نہ ہی انسان کی موت کو نزدیک کرتیں ہیں اور نہ ہی ان سے رزق میں کمی آتی ہے ۔( ۸۷)

کسی اور عبارت میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے ہاتھ ( عمل ) زبان اور دل سے منکرات کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں انہوں نے اپنے اندر تمام خصلتوں کو جمع کیا ہوا ہے ۔

اور ایک گروہ ایسا ہیں جو صرف اپنی زبان اور دل سے نہی عن المنکر کرتے ہیں انہوں نے دو نیک خصلتوں کو اپنایا ہے اور ایک کو چھوڑ دیا ہے ۔ اور ایک گروہ ایسا ہے جو صرف اپنے دل سے مقابلہ کرتے ہیں اور عمل اور زبان کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور صرف ایک ہی خصلت کو اپنایا ہے ۔ اور ایک ایسا گروہ بھی ہے کہ جنہوں نے ان تین خصلتوں میں سے کسی سے بھی تمسک نہیں کیا ہے اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا ہے «فَذَلِكَ مَيِّتُ‏ الْأَحْيَاء ، یہ لوگ حقیقت میں زندہ لوگوں کے درمیان مردہ شمار ہوتے ہیں پھر فرمایا :

«وَ مَا أَعْمَالُ‏ الْبِرِّ كُلُّهَا وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عِنْدَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّي ‏; خدا کی راہ میں میں انجام پانے والی تمام نیکیاں اور اچھا‏‏‏ئیاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایک قطرہ کی مانند ہیں جو سمندر کے مقابل میں ہوتا ہے ۔(۸۸)

ان دو فریضہ الہی کے آثارکے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :بِهَا تُقَامُ‏ الْفَرَائِضُ‏ وَ تَأْمَنُ الْمَذَاهِبُ وَ تَحِلُّ الْمَكَاسِبُ وَ تُرَدُّ الْمَظَالِمُ وَ تُعْمَرُ الْأَرْضُ وَ يُنْتَصَفُ مِنَ الْأَعْدَاءِ وَ يَسْتَقِيمُ الْأَمْرُ ; امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے تمام فرا‏‏‏ئض اور واجبات انجام پاتے ہیں اور راستوں میں امن و امان بر قرار رہتا ہے اور لوگوں کی تجارت حلال ہو جاتی ہے اور ہر قسم کا ظلم و ستم ختم ہو جاتا ہے زمین آباد ہو جاتی ہے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور تمام امور اسی سے انجام پاتے ہیں ۔(۸۹)

نظارت عمومی اور آزادی کا مسئلہ :

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم معاشرے کی اصلاح اور عدالت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک عظیم پروگرام شمار ہوتا ہے ۔

یہ حکم کسی خاص گروہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اپنی توان اور قدرت کے مطابق ہر کسی پر واجب اور ضروری ہیں ۔

بنا بر این یہ دو فریضے عمومی ہیں جو معاشرے کو غرق ہونے سے بچاتے ہیں اور معاشرے کی اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ اپنے منزل مقصود تک پہچاتے ہے اور عقل کے اعتبار سے ایسا کرنا ایک نیک اور اچھا کام ہے جس سے کہ ڈ اکٹر مریضوں پر نظارت عمومی رکھتا ہے اور انسان کے مریض نہ ہونے کے لئے مختلف چیزوں کو تجویز کرتا ہے اسی طرح سے معاشرے کو بیماری اور خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ دونوں فریضے بہت ہی اہم ہیں ۔

بعض آزادی کے دعویدار اس لفظ آزادی کو غلط معنی میں لیتے ہو‏‏‏ئے آزادی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے درمیان تضاد ہونے کے قا‏‏‏ئل ہو‏‏‏ئیں ہیں کیا واقعا ایسا ہی ہے ؟

تمام تمدنوں اور فرہنگوں میں آزادی کے ‏‏‏لئے کو‏‏‏ئی خاص حد اور حدود معین ہیں لذا کو‏‏‏ئی بھی ایسا نہیں ہے کہ آزادی مطلق کو اجرا کرے آزادی اسوقت تک محترم اور اچھی ہے کہ معاشرہ کے انحراف اور سقوط یا حرج و مرج کا باعث نہ بنیں ۔

عقلی طور پر آزادی یعنی انسان کے تکامل اور رشدمیں جو رکاوٹیں پا‏‏‏ئی جاتی ہیں ان کو دور کرنا ہے اور اس کے ‏‏‏لئے بہترین طریقہ وہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور نظارت عمومی ہیں جو کمال تک پہنچنے کی راہ ہموار کرتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صحیح آزادی کو تقویت دیتے ہیں ۔

پیغمبر اسلام کے زمانے کا ایک ایسا ہی شبھہ بیان ہو‏‏‏ا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس کی ایک مثال دیتے ہو‏‏‏ئے جواب دیا ہے کہ ہمارے معاشرے کی مثال اس کشتی کے مانند ہے کہ جس میں سوار افراد اسوقت تک آزاد ہیں جب تک دوسروں کے ہلاک ہونے کا باعث نہ بنیں اور جب کو‏‏‏ئی مسافر اس آزادی سے غلط فا‏‏‏ئدہ اٹھاتے ہو‏‏‏ئے اس کشتی میں سراخ کرنا چاہے تو دوسرے مسافر اس کو اس کام سے نہی کریں گے اور روک دیں گے تاکہ دوسر ے مسافر غرق نہ ہو جا‏‏‏ئیں تو ایسا کرنا عقل اور فطرت کے اعتبار سے بہت ہی ضروری اور لازمی ہے اور اگر کو‏‏‏ئی اس کے خلاف عمل کرے تو یہ دیوانگی اور خود کشی ہے کیا آزادی انسان کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ خود کشی کرے اور دیوانگی اختیار کرے ؟

اور دوسری مثال یہ ہے کہ معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے اعضاء شمار ہوتے ہیں اگر کسی شخص کے جسم پر کو‏‏‏ئی بدبودار پھوڑا نکلے اور ڈاکٹڑ اس پھوڑے کو آپریشن کرکے نکال دے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے آزادی کے خلاف کام کیا ہے ؟

جبکہ اس نے دوسرے افراد کو اس پھوڑے کے خطرے سے محفوظ رکھا ہے ۔(۹۰)

قرآن کے دو سؤالوں کے جواب :

قرآن مجید میں کبھی ایسی آیات کی طرف بھی نظر پڑتی ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں ۔

۱۔ مثال کے طور پر سورہ ما‏‏‏ئدہ آیت ۱۰۵ میں ہم پڑھتے ہیں کہ «( يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُم ) ; اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا،

اگرچہ یہ آیت ظاہری طور پر اس مطلب کو بیان کرتی ہے کہ ہر کو‏‏‏ئی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تو اس صورت میں گمراہوں کی طرف سے اس کو کو‏‏‏ئی ضرر نہیں پہنچے گا اسی لئے دوسروں کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا کو‏‏‏ئی فا‏‏‏ئدہ نہیں ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے اور بعد والی آیات کے طرف توجہ دیتے ہو‏‏‏ئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مورد کافر اور منافقین سے مربوط ہے جبکہ یہ آیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے علم نہ ہونے کی بناپر اثر نہ کرنے والی صورت کو بیان کرتی ہے ۔ اس صورت میں یہ دونوں فریضے واجب اور ضروری نہیں ہیں ۔ اور دوسرا یہ کہ آیت یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے بعد اگر کافر اور منافقین قبول نہ کریں تو آپ اپنے کو پاک رکھو تو ان کی گمراہی آپ کو کو‏‏‏ئی ضرر نہیں پہنچا‏‏ سکے گی ۔

۲۔ اور دوسری آیت یہ کہ بعض شبہہ کرنے والے کہتے ہیں کہ قرآن مجید فرمارہا ہے( وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ) ..; اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔(۹۱)

اس آیت کا ظاہر یہ ہے کہ انسان اپنی جان کی حفاظت کرے اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالے لیکن بعض مراحل میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں خطرہ اور ضرر پا‏‏‏ئے جاتے ہیں لذا ایسی چیزوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرنے چاہییں ؟

اس کا جواب پہلا یہ ہے کہ اس آیت کے شان نزول کی طرف توجہ دینے سے روشن ہوتا ہے کہ یہ آیت راہ خدا میں انقاق کرنے سے مربوط ہے اور اس سے پہلی والی آیات دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کے بارے میں بیان ہو‏‏‏ئیں ہیں اور اس آیت سے مراد اس جہاد کے مقدمات کو فراہم کرنے کےلئے انفاق کرنے کا حکم ہوا ہے اور انفاق نہ کرنے یا انفاق میں اسراف کرنے کرکے خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد ہر چیز میں افراط اور تفریط کرنے سے روکنا ہے ۔

اما ایسی آیات اور روایات جو یہ کہہ رہی ہیں کہ نہیں عن المنکر کرنے کے راستے میں خود کو زحمت اور مشقت میں ڈالیں اور تمام سختیوں کو تحمل کرکے اس فریضہ الہی کو انجام دے دیں اور اسے ترک نہ کریں اور ایسا کرنے میں کو‏‏‏ئی ہلاکت نہیں بلکہ اس میں انعام اور پاداش الہی سعادت اور شہادت ہیں کیا شہادت ہلاکت ہے ؟

دوسری عبارت میں مہم اور اہم کا قانون یہ ہیں کہ مہم کو اہم کی خاطر قربان کردے لہذا ایک بڑی منفعت کو حاصل کرنے کی خاطر ایک جز‏‏‏ئی ضرر کو تحمل کرنا کبھی بھی ہلاکت شمار نہیں ہوتا ہے ۔ اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے اس واقعہ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرا‏‏‏ئیں گے ۔

روایت میں آیا ہے کہ اسلم بن ابی عمران کہہ رہا ہے کہ ہم قسطنطنیہ( جو آج کا استانبول ترکیہ )میں موجود تھے عقبہ بن عامر جو کہ مصر کے لوگوں کے ساتھ موجود تھے اور فضالہ بن عبید جو شام کے لوگوں کے ہمراہ موجود تھے روم سے ایک بہت بڑا لشکر مسلمانوں سے جنگ کرنے آ‏‏‏ئے ہم دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے جلدی سے اپنی لا‏‏‏ئن میں کھڑے ہو‏‏‏ئے اسی دوران مسلمانوں میں سے کو‏‏‏ئی اچانک دشمن کے لشکر پر حملہ آور ہوا تو بعض مسلمانوں نے چیخنا شروع کیا کہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے جبکہ قرآن مجید نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے تو پیغمبر اسلام کا مشہور اور معروف صحابی ابو ایوب انصاری کھڑ ے ہو‏‏‏ کر کہنے لگے اے لوگوں کیا آپ نے اس آیت( وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ) ...)کی اپنی را‏‏‏ئی سے تاویل اور تفسیر کی ہے ۔ جبکہ یہ آیت ہم انصاری گروہ کے بارے میں نازل ہو‏‏‏ئی ہے جب خدا وند عالم نے اپنے دین کو فتح اور کامیاب کیا تو دین کے حامی بہت ہی زیادہ ہونے لگے تو ہم میں سے بعض لوگ مخفیانہ طور پر ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ ہم نے اپنے اموال کو ضا‏‏‏یع کیا جبکہ خدا وند عالم نے اپنے دین اسلام کو کامیابی عطا کی جس کی وجہ سے دین اسلام کے چاہنے والے بہت زیادہ ہوگئے اگر ہم اپنے اموال کو اپنے پاس رکھ دیتے تو ابھی اسی سے استفادہ کرتے ۔۔۔ تو اسی وقت میں ہماری ان باتوں کے رد میں یہ آیت نازل ہو‏‏‏ئی « وَ أَنْفِقُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَة ; اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کیا کرو،

اس بناپر ہلاکت سے مراد اموال کو اپنے پاس رکھ کر جنگ میں دشمن کے مقابل میں انفاق نہ کرنا ہے ۔(۹۲)

حضرت لقمان اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مسئلہ :

حضرت لقمان کی زندگی کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا تھا ۔ اس کو لقمان بہت ہی اہمیت دیتا تھا وہ اپنی حکیمانہ باتوں سے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی طرف دعوت دیتا تھا اور منحرف ہونے سے ہمیشہ انکو ہوشیار کرتا تھا اسی لئے ان کی وہ حکیمانہ باتیں قرآن مجید اور اولیاء خدا کے زبان پر ہر نسل میں منتقل ہوتی آ‏‏‏ئی ہیں اور لوگ ان کی حکیمانہ باتوں سے ہر زمانہ میں آگاہ ہیں ۔ حضرت لقمان بہت ہی زیادہ نصیحتیں کرتے تھے اور بہت ہی نرمی سے باتیں کیا کرتے تھے معنی کو سمجھانے کی خاطر مثالوں کو ذکر کیا کرتے تھے ۔

ہدایت کے مسئلے کو اپنے زوز مرہ کے کاموں میں شامل کیا ہوا تھا اور ہر عصر و زمانے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس فریضہ الہی کو اہمیت دینے کی تاکید کیا کرتے تھے اسی لئے اپنے بیٹے کو اس امر کی سفارش کرتے ہیں ۔

چھٹی حکمت : صبر و استقامت :

اس چھٹی حکمت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہیں ۔( وَ اصْبِرْ عَلى‏ ما أَصابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ. ) )(۹۳) اے بیٹا! ۔۔جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبرکرو، یہ امور یقینا ہمت طلب ہیں۔

تمام آسمانی کتابوں میں اور تمام پیغمبر وں اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے کلام میں صبرو استقامت کی بہت ہی تاکید ہو‏‏‏ئی ہے اس طرح سے صبر و استقامت کو اکسیر اعظم یعنی تمام مشکلات کا حل قرار دیا ہے اور اس کے برعکس عمل کرنے کو سستی اور ضعف اور بدبختی کا باعث قرار دیا ہے ۔ بقول مولانا :

صد هزاران كیمیا حق آفرید

كیمیایی همچو صبر آدم ندید

یعنی خداوند متعال نے ہزار ہا کیمیا پیدا کئے ہیں لیکن صبر آدم کی طرح کو‏‏‏ئی کیمیا نہیں ہے ۔

صبرو استقامت ان کلمات میں سے ہیں جو قرآن کریم میں مختلف تعبیروں کے ساتھ تقریبا دوسو مرتبہ ذکر ہو‏‏‏ئے ہیں جو کہ اہم ترین مفاہیم میں سے ہیں اور انسان کے تقدیر بدلنے میں اساس اور بنیاد قرار پا‏‏‏ئے ہیں ۔ خدا وند متعال صابرین پر ہمیشہ دورد و سلام بھیجتا ہے اور انکو ہدایت پانے والوں میں سے قرار دیا ہے۔

اور خداوند متعال صابرین کی جزاء اور انعام کے بارے میں پیغمبر اسلام کو اس طرح سے فرمایا کہ ان کو خوش خبری دو پھر فرمایا :( أُوْلَئكَ عَلَيهْمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُهْتَدُون ) ;(۹۴) یہ وہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔

حضرت لقمان نے اپنی بیشتر نصیحتوں میں اس صبر و استقامت کو بیان کیا ہے اور وہ انسان سے چاہتا ہے کہ وہ اس محکم اور مضبوط قدرت سے استفادہ کریں اور اسی کی روشنی میں کمالات تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔

انہی نصیحتوں میں سے ایک جو ہماری مورد بحث آیت ہے کہ جس میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو زندگی کے تلخ ترین حوادث اور سخت ترین مشکلات میں صبرو استقامت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اس کو ہوشیار رہنے کی سفارش کرتا ہے ۔

صبر استقامت کا مسئلہ بہت ہی اہم اور ضروری ہے انسان اس کو اپنی زندگی میں کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔

ممکن ہے یہاں پر (من عزم الامور)کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہو کہ صبرو استقامت ایک محکم اور مضبوط ارادہ کا محتاج ہے کہ جس کے بغیر انسان کبھی بھی صبرو استقامت جیسے درجے تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ جیسا کہ لغت والوں نے صبر کا عزم اور ارادہ یا کسی کام کو انجام دینے کے لئے مصمم ارادہ کرنے کا معنی کیا ہے ۔(۹۵)

تجزیہ وتحلیل :

جس طرح سے تجربہ اور تاریخ سے ثابت ہوا ہے اور ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ مشکلات اور سختیاں بہت ہی زیادہ ہیں کبھی خاندانی اختلافات اور کبھی ہمسایوں کے درمیان اختلافات ہونے کی وجہ سے بہت ساری مشکلات اور پریشانیاں وجود میں آتی ہیں اور اسی طرح سے کبھي گلی سڑکوں میں اور کبھی ٹریفک حادثات اور ایک دوسرے کو بدزبانی کی وجہ اور کبھی بیماریوں اور کبھي سیاسی حالات اور فقر و تنگدستی کی وجہ سے اور کبھي شادی کے مسا‏‏‏ئل اور جنگوں کے مسا‏‏‏ئل کی وجہ سے بہت سارے اختلافات پیش آتے ہیں اور ہر جگہ پر یہی مشکلات اور مصا‏‏‏ئب پا‏‏‏ئی جاتی ہیں اور ہم ان مشکلات کو دیکھتے ہی ہیں ۔

اسی طرح سے کبھی کسی آسمانی آفت جیسے ( زلزلہ اور طوفان) وغیرہ جیسی مشکلات سے انسان دچار رہتا ہے کہ جس کا خلاصہ امام علی علیہ السلام کے اس کلام میں ملتا ہے کہ فرمایا : (الدُّنْيَا دَارٌ بِالْبَلَاءِ محفوفة ; دنیا ایک ایسا گھر ہے جو رنج اور بلاؤں میں لپٹا ہے ۔(۹۶)

ایسی شرا‏‏‏ئط میں انسان اپنی حفاظت اور آرامش کے لئے صبر اور استقامت جیسی خصلت سے مدد لے اور اس کی پناہ میں آکر انسان اپنے کو آرامش بخش دے لیکن اگر وہ بے صبری کا اظہار کرے تو اس کی مشکلات اور بلاؤں میں مزید اضافہ ہو جا‏‏‏ئے گا اور اس کی سالم ‏‏‏زندگی بے سکونی اور ناراحتی میں تبدیل ہو جا‏‏‏ئے گی ۔

اور ظاہر ہے کہ انسان اس نفسانی حالت کے ساتھ ہو تو اس کے بہت برے آثار ظاہر ہونگے ۔ اسی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت لقمان کی یہ نصیحت بہت ہی قیمتی اور با ارزش ہے انسا ن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان جیسی نصیحتوں کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے دیں وگرنہ انسان کے پاس جب صبر حوصلہ نہ ہو تو ان کی زندگی کو ہمیشہ لڑا‏‏‏ئی جھگڑے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ اس قانون کے کچھ استثناءات بھی ہیں جیسا کہ ایسے موارد میں کہ جہاں انسان اپنے صبراور سکوت کو توڑکر اپنے حق کا دفاع کرسکتا ہے۔

صبر کے اقسام :

صبر اور استقامت کے مختلف انواع اور اقسام ہیں :

جیسا کہ گناہ کے مقابل میں صبر اختیار کرنا ۔ اطاعت کے راستے میں صبر کرنا ۔ اورمصا‏‏‏ئب و مصیبتوں کے وقت صبر کرنا ۔ لیکن حضرت لقمان نے ا پنی اس نصیحت میں مصیبتوں کے مقابل میں صبر کرنے کو بیان کیا ہے جو کہ صبر اور استقامت کے اہم ترین اقسام میں سے شمار ہوتا ہے ۔ اور ایسا صبر توان اور قوت قلبی کا منشا ہے اور یہی آثار انسان کو دوسرے موارد میں صبر کرنے میں مدد دیتے ہیں اور دوسری عظیم برکات کا سرچشمہ قرار پا‏‏‏تے ہیں۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت لقمان کی مراد صبر کی تمام اقسام ہوں چونکہ اطاعت کے مقابل میں ایسے عوامل جو سستی اور گناہ کا سبب بنتے ہیں وہ بھی مصیبت ہی شمار ہوتے ہیں ۔

بہر حال اس دنیا کی مشکلات اور مصا‏‏‏ئب بہت ہی زیادہ طاقت فرسا ہیں اگر ان کے مقابل میں صبر و استقامت نہ ہو تو انسان کا وجود بے ہودہ اور بے مقصد ہوگا ۔ اور ہر کا م کسی چیز کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو جا‏‏‏ئے گا اور اپنی روح و بدن کو ہلاکت میں ڈالے گا ۔

انہی سختیوں میں سے ایک جنگ کا میدان ہے کہ جس میں مرنے یا زخمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ جب انسان ان سختیوں کے مقابل میں صبر نہ کرےتو گویا اس نے فرار ہونے کو ترجیح دے دی لیکن اگر انسان صبر اور استقامت کا راستہ اختیار کرے تو اس کی توان اور اس کی قدرت دوگنا ہو جا‏‏‏ئیں گے اور ایک دشمن کے بجا‏‏‏ئے دس دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔ جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے ۔ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْن; اگر تم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آجائیں گے ۔

اسی طرح سے قرآن مجید میں آیا ہے کہ شمو‏‏‏ئیل پیغمبر کا نا‏‏‏ئب طالوت جب ایک چھوٹا سا گروہ لیکر جن میں بہت کم افراد شامل تھے لیکن صبر و استقامت کے ساتھ جب جالوت کے اس بڑے عظیم لشکر کے مقابلے میں گیا جبکہ وہ اس دعا کو پڑھتے تھے ۔

( « قالُوا رَبَّنا أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً وَ ثَبِّتْ أَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرين ) ; اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے پرنکلے توکہنے لگے: پروردگارا ! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتح یاب کر ۔(۹۷)

ان لوگوں نے اس جذبہ کے ساتھ جالوت کے اس عظیم لشکر کے ساتھ جنگ کی اور کامیاب ہو‏‏‏ئے چونکہ وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے تھے جس کا نتیجہ انکی استقامت تھی اور مضبوط اعتقاد کے ساتھ کہہ رہے تھے ۔

«( كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَ اللَّهُ مَعَ الصَّابِرينَ ) ; بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(۹۸)


4

5

6

7

8

9

10

11