شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات 0%

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

مؤلف: الشیعہ ڈاٹ او آر جی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8260
ڈاؤنلوڈ: 2140

تبصرے:

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8260 / ڈاؤنلوڈ: 2140
سائز سائز سائز
شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

ماخذ: الشیعہ ڈاٹ او آر جی

خيرمقدم

شہر مقدس قم ميں آپ کی آمد پر ہم خوش آمدید کہتے ہيں ۔ہماری سعی وکوشش ہے کہ ہم آپ کی خدمت عاليہ ميں نفع بخش معلومات پيش کرسکيں ۔

یہاں اس ملکوتی خاتو ن اور شفيعہ روز جزا کی آرامگاہ ہے کہ ہمارے معصوم ائمہ عليہم السلام نے جس کی زیارت کی جزا کو فردوس بریں قرار دیاہے ،اور ان کی عالمگير شفاعت کی بشارت دیا ہے ۔

اس بارگاہ مقدس کے سونے کا گنبد عاشقوں کے دلوں کا کعبہ ہے ، اس کی ضریح مطہر بے چين دلوں کی بوسہ گاہ ہے ،اس کے سونے کے ایوان اور آئينے خستہ دلوں کی منزل ہيں ۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں ملکہ عقيدت علم وفضيلت و معارف دینی کی ميزبانی فرماتی ہيں ۔بيشک وہ افراد خوش نصيب ہيں جو معصومہ قم سلام الله عليہا کے مقام و منزلت کی معرفت کے ساته زیارت کرتے ہيں ۔

آپ کی منزلت و فضيلت کے لئے یہی کافی ہے کہ آٹهویں امام عليہ لسلام نے آپ کو معصومہ کا لقب دیا ہے ۔اور فرمایا:

”من زر المعصومہ بقم کمن زارنی” جس نے قم ميں معصومہ کی زیارت کی گویا اس نے ميری زیارت کی۔

خدا وند عالم سے دعا ہے کہ آپ حضرات سلامتی کے ساته اس مقدس جگہ سے اپنی دنيوی و اخروی مرادیں اور معنوی تحفہ لے کر اپنے وطن واپس ہوں ۔

التماس دعا

قم کی تاريخ:

تاریخی شواہد کی روشنی ميں شہر قم اسلام سے پہلے ایران کے آباد شہروں ميں شمار کيا جاتاہے ۔اور اس شہرکی پہلی بنيادکی نسبت بادشاہ “ تہمورث پيشدادی ” کی طرف دی گئی ہے ۔ اور اسی کے مقابلے ميں بہت سے مورخين نے اس شہر کو اول قرن ہجری کے شہروں ميں شمار کيا ہے۔ لہٰذا اس قول ميں کچه حقيقت پائی جاتی ہے۔ قم کا علاقہ چوں کہ ایک لق و دق بے آب و گياہ صحراء سے متصل ہے ،اس لئے اس شہر کی آب و ہوا بہت اچھی نہيں ہے بعض صاحبان علم کا کہنا ہے کہ خداوند عالم نے اس مقدس شہر کو ظالم و جابر حکام سے محفوظ رکهنے کے لئے یہاں کی آب و ہوا کو مرغوب نہيں بنایا ۔ چنانچہ قم ميں کبهی کسی ظالم و جابر نے رہائش اختيار نہيں کی ہے ۔

موجودہ قم آج جہاں آباد ہے ماضی بعيد ميں وہاں آباد نہيں تھا کسی منصوبہ کی تحت نہيں بسا تھا بلکہ سر سبز علاقہ اور مجمع البحرین ہونے کی وجہ سے صحرانشين اور چرواہوں نے مستقل رہایش کے لئے گھر بنا لئے تھے ان گھروں کو “کومہ ” کہتے تھے ۔یہی لفظ کومہ “ کثرت استعمال سے “کم” ہوگيا پھر جب اسے معرب کیا گياتو “ قم ” بن گيا ایک شيعہ روایت ميں ہے کہ رسول خدا معراج پر تشریف لے گئے تو اس مقدس شہر کی سرزمين پر ابليس ملعون کو دوزانو اور افسوس کی حالت ميں بيٹهے ہوئے دیکھاتوآپ نے فرما یا “قم یاملعون ” اے ملعون یہاں سے اٹه جا ۔ اس لئے اس شہر کو قم کہا جانے لگا۔

بعض حضرات قم کو قدیم شہروں ميں شمار کرتے ہيں اور اسے آثار قدیمہ ميں سے ایک قدیم اثر سمجهتے ہيں نيز شواہد و قرائن کے ذریعہ استدلال بهی کرتے ہيں مثلا قمی زعفران کا تذکرہ بعض ان کتابوں ميں ملتا ہے کہ جو عہد ساسانی سے مربوط ہيں ۔ نيز شاہنامہ فردوسی ميں ٢٣ ء ه کے حوادث ميں قم کا ذکر بهی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہ قم اور ساوہ بادشاہ “ تہمورث پيشدادی ” کے ہاتھوں بنا ہے ۔

ليکن حقيقت تو یہ ہے کہ یہ تمام دليليں مدعا کو ثابت نہيں کرتيں کيونکہ عہد ساسانی ميں قم کی جغرافيائی و طبيعی حالت ایسی نہ تھی کہ وہاں شہر بنایا جا تا بلکہ ایسا شہر تہمورث کے ہاتھوں بنا یا جا نا ایک قدیم افسانہ ہے جس کی کوئی تاریخی اہميت نہيں ہے علاوہ ازیں شاہنامہ فردوسی ميں ٢٣ ء ه کے حوادث ميں قم کا ذکر اس بات کی دليل نہيں ہے کہ اس دور ميں بهی یہ زمين اسی نام سے موسوم تھی کيونکہ فردوسی نے اپنے اشعار ميں محل فتوحات کے نام اس زمانے کے شہرت یافتہ و معروف ناموں سے یاد کيا ہے نہ کہ وہ نام کہ جو زمان فتوحات ميں موجود تھے ۔ اسناد تاریخ اور فتوحات ایران کہ جو خليفہ مسلمين کے ہاتھوں ہوئی اس ميں سرزمين قم کو بنام “ شق ثميرة ” یاد کيا گيا ہے ۔ اس بنا پر شہر قم بهی نجف اشرف ، کربلامعلی ، مشہد مقدس کی طرح ان شہروں ميں شمار ہوتا ہے جو اسلام ميں ظاہر ہوئے ہيں ایسی صورت ميں اس کے اسباب وجود کو مذہبی و سياسی رخ سے دیکھنا ہوگا ۔

زمانہ انقلاب اہل قم نے ١٩ /دی ماہ ١٣ ۵۶ ئه ش شاہ کے خلاف قيام کرکے اس شہر کے لئے سند افتخار حاصل کيا ہے۔ایران عراق جنگ ميں اس شہر نے تقریبا ۵ ٢٠٠ شہيد دیئے ہيں اور تقریبا ٧ ۶ ٠٠ جانباز وں نے جنگ ميں شرکت کرکے اس شہر کا سر بلندکر دیا ہے۔اور آج بهی رہبر انقلاب حضرت آیت الله خامنہ ای اندرونی اور بيرونی دشمنوں کے مقابل ميں ایک سيسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کهڑے ہوئے ہيں اور خدا وند عالم کے لطف و کرم کے اميد وار ہيں کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے زمينہ ہموار ہو جائے انشاء الله۔

قم کے بارے ميں زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کی طرف مراجعہ فرمائيں ۔

١۔تاریخ قم ۔ انتشارات زائر

٢۔ تربيت پاکان ۔ انتشارات زائر

٣۔ فروغی از کوثر۔ انتشارات زائر

۴ ۔ کریمہ اہلبيت ،انتشارات حاذق

۵ ۔تاریخ مذہبی قم ۔ انتشارات زائر

۶ ۔حضرت معصومہ فاطمہ دوم ۔ انتشارات علامہ

صوبہ قم کا مختصرجغرابيائی خاکہ

صوبہ قم کا رقبہ حدودا ١١٢٣٨ کلو ميٹر مربع ہے ۔ یہ صوبہ ایران کے مرکز ميں واقع ہے ۔

اس کے شمال ميں صوبہ تہران ، مشرق ميں صوبہ سمنان ، جنوب ميں صوبہ اصفہان اور مغرب ميں صوبہ مرکزی (اراک) واقع ہے۔

سمندر کی سطح سے اس شہر کا ارتفاع تقریبا ٩٢٨ ميٹر ہے ۔ اس صوبہ کا بلند ترین نقطہ مناطق کوہستانی ہے (کوہ وليجا) کہ تقریبا ٣٣٣٠ ميٹر بلند ہے اور پست ترین نقطہ دریاچہ نمک ہے کہ حدودا ٧٠٠ ميٹر نيچا ہے۔

شہر قم کی آبادی تقریبا دس لاکه ہے ۔

قم کے دستی صنعت اور سوغات

فرش ابريشم

ہاتھ کی بنی ہوئی قالين ابریشم ایران کے نفيس ترین صناع دستی ميں شمار ہوتا ہے۔اس کے رنگ آميزی اور نقشہ کے اعتبار سے اصل ایرانی طرز پر ہوتا ہے اور کيفيت کے اعتبار سے درجہ یک شمار کيا جاتا ہے۔اس کے بنانے والی اکثر عورتيں ہوتی ہيں ۔

مٹی کی بنی ہوئی اشيائ

یہ دستی ہنر اباو اجداد سے چلا آرہا ہے ، اس شہر کا یہ تاریخی پيشہ ہے ۔داخل ملک اور بيرون ملک قم کی مٹی کے ظروف بهی بہت ہی مشہور ہيں اور اس کے خاص طرفدار ہيں ۔

کاشی کاری

یہ اسلامی ہنر بہت ہی زیبا و خوشنما ہيں دیکھنے والوں کو اپنی طرف جذب کر ليتے ہيں ۔ کاشی کاری کا کام بہت ہی استادانہ کام ہے جس کو قم کے ہنر منداسلامی طرز پر خوبصورت انداز ميں خاک و گل کی صورت ميں لوگوں کے سامنے پيش کرتے ہيں ۔

لکڑی کے اشياء پر نقش و نگار

مختلف قسم کے ميز ،کرسی اور لکڑی کی دوسری چيزوں بہترین و خوبصورت نقش و نگار بنانا قم کے ماہرین استاد کے ذریعہ انجام پاتا ہے ۔اور یہ اشياء یورپ اور ایشيا کے مختلف ممالک سے آرڈر پر بنایا جاتا ہے اس کے بعد اسپورٹ کيا جاتا ہے۔

سوہان (سوہن حلوہ)

سوہان قم کی بہترین ميٹهائيوں ميں شمار کيا جاتا ہے ۔ اس مٹهائی کو دنيا کے تمام لوگ پسند کرتے ہيں ۔اس ميٹهائی کے اجزا ميدا ، شکر ،روغن ،پستہ ،بادام اور زعفران ہے ۔

قم کی فضيلت

امام جعفر صادق عليہ السلام کا ارشاد ہے: ”ان لعلیٰ قم ملکا یرفوف عليها بجناحيه لا یرید ها جبار بسوء الا اذا به الله کذوب الملح فی الماء “

قم کے اوپر ایک فرشتہ اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہے جو جابر و ظالم بهی قم کے بارے ميں برا ارادہ کرتا ہے خدا اسے ایسے ہی پگهلا دیتا ہے جسے پانی ميں نمک گهل جاتا ہے ۔ (بحار ) ۶ ٠/ الانوار،ج/ ٢١٧

”اذا اصابتکم بلية وعناء فعليکم بقم فانهاماوی الفاطميين و مستراح المومنين و سياتی زمان ینفراولياء نا و محبونا عناویبعدون منا و ذالک مصلحة لهم لکن لا یعرفوا بولایتنا یحقنوا بذالک وما لهم و اموالهم وما اراد احدبقم و اهلها سو الا آله اللّٰه ابعده من رحمته “ - جب تم پر کوئی مصيبت آئے تو قم پہچ جا و کيو نکہ وہ فاطميوں کے لئے پناہ گاہ اور مومنين کے لئے پر سکون ہے ۔ عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ ہمارے دوستدار ہم سے کنارہ کشی کرےں گے ۔ہم سے دور ہو جائيں گے ، کہ اسی ميں ان کی مصلحت ہے تاکہ وہ ہماری ولایت کے قائلےن کی حيثيت سے نہ پہچانے جائيں اور اس طرح وہ اپنی جان و مال کی حفاظت کر سکيں ۔ اور جو بهی قم اور اس کے باشندوں کے لئے برا چاہے گا خدا اسے ذليل کرے گا اور اپنی رحمت سے دور کر دے گا۔(بحار الانوار،ج/ ٢١ ۵/۶ ٠/)

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

”سلام الله علیٰ اهل قم سقی اللّٰه بلادهم الغيث وینزل عليهم البرکات ویبدل الله سيئاتهم حسنات هم اهل رکوع و سجود و قيام و قعود، هم الفقهاء العلماء الفهماء هم اهل الدرایة و الروایة و حسن العبادة

قم والوں پر خدا کا سلام ہو ، خدا وند عالم ان کے شہروں کو بارش سے سيراب کرتاہے اور ان پر برکات نازل کرتاہے اور ان کی برائيوں کو حسنات سے بدلتا ہے یہ لوگ اہل رکوع وسجود وقعوداور قيام ہيں ۔یہ لوگ فقہا ،علماء اور بافہم ہيں ، یہ لوگ صاحبان حقایق وروایت ہيں اور اچھی عبادت کرنے والے ہيں ۔

( ۶ ٠/ بحار الانوار،ج/ ٢١٧)

امام موسیٰ کاظم عليہ السلام کا ارشاد ہے:

رجل من اهل قم یدع الناس الیٰ الحق یجتمع معه قوم کزبر الحدید لا تزلهم الریاح العواصف ولا یکلون من الحرب ولا یجبنون و علی الله یتوکلون والعاقبة للمتقين “ ”قم والوں ميں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف بلائے گا ایک گروہ اس کے پاس جمع ہو جائيں گے جو فولاد کی مانند ہوں گے انهيں تيز ہوائيں متزلزل نہيں کر سکے گا ، وہ جنگ سے نہيں اکتائيں گے ، وہ صرف خداپر توکل کریں گے ،آخر کار متقين کا مياب ہوں گے۔

( بحار الانوار ج/ ۶٠ ص/ ٢١۶)

قم اور اہل قم کی فضيلت ميں رسول اکرم اور ائمہ معصومين (س) سے بہت سی روایات وارد ہوئی ہيں ۔ امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (س) نے فرمایا: ”الا ان اللّٰه حرما وهو مکة الا ان لرسول اللّٰه حرما وهو مدینة الا ان لا مير المومنين حرما وهو الکوفة الا ان حرمی و حرم ولدی من بعدی قم الا ان قم کوفة صغيرة الا ان للجنه ثمانية ابواب ثلثة منها الیٰ قم تقبض فيها امراة هی من ولدی و اسماها فاطمة بنت موسیٰ یدخل شفاعتها شعتی الجنة باجمعهم

آگاہ ہو جاؤ خدا کا ایک حرم ہے اور وہ ہے مکہ اور رسول اسلام کا حرم مدینہ ہے اور حضرت علی کا حرم کوفہ (نجف) ہے ميرا اور ميری اولاد کا حرم قم ہے ۔قم چھوٹا کوفہ (نجف) ہے۔ جنت کے آٹه دروازے ہيں جن ميں سے تين دروازے قم طرف کھلتے ہيں ميری اولاد ميں سے ایک خاتون فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر قم ميں وفات پائے گی کہ جس کی شفاعت سے ميرے تمام شيعہ جنت ميں داخل ہوں گے۔

آپ کا ارشاد ہے: ”اذا عمت البلدان الفتن ولبلایا فعليکم یقم وهو اليها و نواحيها فان لبلابامدفوع عنها “ جب شہروں ميں ميں فتنے پهيل جائيں تو تم قم اور اس کے اطراف و اکناف ميں پناہ لينا کيوں کہ قم سے بلا کا گزر نہيں ہوگا۔

امام رضا عليہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ”للجنة ثمانية ابواب فثلث منها الیٰ اهل قم فطوبیٰ لهم ثم طوبیٰ لهم “ جنت کے آٹه دروازے ہيں ان ميں سے تين اہل قم کی طرف کھلتے ہيں خوش نصيب ہيں وہ درحقيقت وہ خوش نصيب ہيں ۔

قم کی فضيلت و قداست کے سلسلہ ميں متواتر روایات وارد ہوئی ہيں چنانچہ قم کو عش و حرم اہل بيت سے تعبير کيا گيا ہے ۔

امام جعفر صادق عليہ السلام کا ارشاد ہے:

تربة قم مقدسة واهلها مناونحن منهم لا یرید هم جبارا لا عجلت عقوبة مالم یخونوا اخوانهم فاذا فعلوا ذالک سلط الله عليهم جبابرة سوا ما انهم انصار قائمنا و دعاة حقن(١) قم کی خاک مقدس و مطہر ہے اس کے باشندے ہم ميں سے ہيں جو ظالم و جابر ان کی طرف بڑهنے کا ارادہ کرتا ہے اس کی گوش مالی ميں عجلت ہو جاتی ہے ۔ اس لئے ہو تا ہے کہ مومن اپنے بهائيوں سے خيانت نہيں کرتے ہيں ۔ اور جب خيانت کریں گے تو خدا ان پر برے ظالموں کو مسلط کرے گا ۔ واضح رہے قم والے ہمارے قائم کے ناصر و مددگار اور ہمارے حق کے مبلغ ہيں ۔

اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”اللّٰهم اعصمهم من کل فتنه و بخهم من کل هلکة “ اے الله انهيں ہر فتنے سے محفوظ رکه اور ہر خطرے سے بچالے۔(٢) قم عش آل محمدوماسیٰ شيعتهم ولکن سيهلک جماعة من شبابهم بمعصية ابائهم والا ستحقاف والسخية بکبرائهم و مشائخهم مع ذالک یدفع الله عنهم الشرالاعادی وکل سوء “ قم آل محمد کا گھر ہے اور ان کی پيروی کرنے وا لوں کی پناہ گاہ ہے ۔ليکن کچه جوان اپنے بزرگوں کی نافرمانی ، مسخرہ بازی اور بزگوں کی تعظيم نہ کرنے کی پاداش ميں ہلاک ہوں گے۔ اس کے باوجود خدا انهيں دشمنوں کے شر سے بچائے گا اور ان سے ہر برائی کو دوررکهے گا ۔(٣)

آپ (س)ہی کا ارشاد ہے: ”اهل خراسان اعلا منا واهل قم انصا رنا واهل الکوفه اوتادنا واهل هذا السوادمنا ونحن منهم ۔”(۴)

اہل خراسان ہمارے سرخيل ہيں ، قم والے ہمارے انصارومعين ہيں اور کوفہ والے ہمارے پشت پناہ ہيں ۔

____________________

١ ۔بحار الانوار ،ج/ ۶ص/ ٢١٨ ، سفينة البحار ج/ ٢ص/ ۴۴٧

٢۔ تاریخ قم ص/ ٩٣ منقول از کریمہ اہل بيت(س)

٣۔ بحار الانوار ج/ ۶٠ ،ص/ ٢١۴ ۔سفينة البحار ج/ ٢ص/ ۴۴۶ ،تاریخ قم ص/ ٩٨ منقول از حضرت فاطمہ معصومہ قم

۴۔ تاریخ قم ص/ ٩٨

حضرت معصومہ کی زيارت کی فضيلت

حضرت معصومہ عليہا السلام کے سلسلہ ميں یہ بات قابل غور ہے کہ چودہ معصومين عليہم السلام کی زیارت کے بعد جتنی ترغيب آپ کی زیارت کے سلسلہ ميں دلائی گئی ہے اتنی ترغيب کسی بهی نبی یا اوليا ء خدا کے سلسلے ميں نہيں ملتی ۔ تين معصوم شخصيت نے آپ کی زیارت کی تشویق دلائی ہے ۔ جن روایات ميں آپ کی زیارت کی ترغيب دلائی گئی ہے ان ميں سے بعض آپ کی ولادت سے قبل معصوم سے صادر ہوئی تھيں ، بعض روایات ميں تو اس بات کی بهی وضاحت کی ہے کہ اس وقت آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم عليہ السلام کی بهی ولادت نہيں ہوئی تھی۔

تين معصومين عليہم السلام کا ارشاد ہے کہ حضرت معصومہ کی زیارت کے ثواب ميں جنت نصيب ہوگی ۔ معصومين عليہم السلام کی زبان سے حضرت معصومہ کی زیارت کی فضيلت کے سلسلہ ميں چند حدیثيں ملاحظہ فرمائيں : شيخ صدوق نے صحيح سند کے ساته حضرت امام رضا عليہ السلام سے روایت کی ہے کہ:

من زارها فله الجنة (١) جو ان کی زیارت کرے گا اسے جنت نصيب ہوگی ۔ حضرت امام محمد تقی عليہ السلام کا ارشاد ہے: من زارعمتی بقم فلہ الجنة جس شخص نے بهی قم ميں ميری پهوپهی کی زیارت کی وہ جنتی ہے ۔

حضرت امام صادق عليہ السلام کا ارشاد ہے :ان زیارتها تعادل الجنة زیارت معصومہ جنت کے برابر ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام کا ارشاد ہے :یا سعد ! من زارها فله الجنة او هو من اهل الجنة اے سعد جو شخص بهی ان کی زیارت کرے گا اسے جنت نصيب ہوگی یا وہ اہل بہشت سے ہے ۔

علامہ مجلسی نے بحار الانوار ميں امام رضا عليہ السلام کے اصحاب کی کتابوں سے روایت کی ہے کہ امام رضا عليہ السلام نے سعد بن سعد اشعری کو مخاطب کر کے فرمایا : ”اے سعد تمهارے یہاں ہم ميں سے ایک کی قبر ہے ” سعد نے کہا ميں نے عرض کيا : ميں قربان ! وہ دختر امام موسی کاظم عليہ السلام حضرت فاطمہ (س)کی قبر ہے ؟ فرمایا :نعم من زارها عارفا بحقها فله الجنة ، فاذا اتيت القبر فقم عند راسها مستقبل القبلة کبرا ربعا و ثلاثين تکبيرة و سبح ثلاثا و ثلاثين تسبيحة و احمد الله ثلاثا و ثلاثين تحميدة ثم قل : السلام علی آدم صفوة الله الخ

ہاں جس شخص نے ان کے حق کی معرفت کے ساته ان کی زیارت کی وہ جنتی ہے ۔

جب تم قبر مطہر کے پاس جاو تو سر اقدس کے پاس قبلہ رخ کهڑے ہوکر ٣ ۴ مرتبہ الله اکبر ٣٣ مرتبہ سبحان الله اور ٣٣ مرتبہ الحمد لله پڑهو اس کے بعد اس طرح زیارت پڑهو :السلام علی آدم صفوة الله الخ

آداب زيارت

خاندان عصمت و طہارت کے زائرین کو چاہئے کہ اماکن مقدسہ اور روضات مشرفہ پر حاضری سے قبل مندرذیل آداب زیارت کی رعایت کریں :

١۔ پورے سفر ميں گناہ و لغزشوں سے اجتناب کریں کيونکہ اس سے زیارت قبول نہيں ہوتی ہے ۔

٢۔ اس سرزمين پر قدم رکهنے سے قبل غسل کریں ۔

٣۔ زیارت با وضو کریں ۔

۴ ۔ طاہر و پاک لباس پہنيں ۔

۵ ۔ خوشبو لگائيں

۶ ۔ زیارت سے قبل ایسی چيز نہ کهائيں جس سے دوسروں کو اذیت ہو ۔

٧۔ معصومين کے مرقدوں کی زیارت سے قبل رجاء غسل کریں ۔

٨۔ روضہ امام حسين ميں زیارت وارث ، زیارت عاشورا ، جامعہ کبيرہ ، امين الله و غيرہ پڑهيں ۔

٩۔ جو شخص شب ميں غسل زیارت کرے وہ غسل صبح تک اور جو شخص دن ميں غسل زیارت کرے وہ شام تک کافی ہے ۔ ليکن بہتر یہ ہے کہ وضو کے باطل ہوجانے کے بعد دوبارہ غسل کرلے ۔

١٠ ۔ حرم کے اندر داخل ہوتے وقت اذن دخول پڑهے ۔ اگر پڑهنے والے کے دل پر رقت طاری ہوجائے اور اشک جاری ہوجائيں تو اسے اذن دخول سمجهے ۔

١١ ۔ اس بات کے پيش نظر کہ حرم ، رسول کا دولت کدہ اور ملائکہ کا محل نزول ہے اس لئے خضوع و خشوع اور بهر پور توجہ کے ساته حرم ميں داخل ہونا چاہئے ۔

١٢ ۔رجحان قلبی اور خضوع کے ساته ظاہری ادب کی رعایت بهی ضروری ہے ۔

١٣ ۔ حرم ميں بلند آواز سے گفتگو نہ کریں ۔

١ ۴ ۔ دوسرے زائرین کے لئے مشکل ایجاد نہ کریں ۔

١ ۵ ۔ اگر کوئی زائر کچه معلوم کرنا چاہتا ہے تو اس کی کامل راہنمائی کریں ۔

١ ۶ ۔ زائروں اور خادموں کا احترام کریں ۔

١٧ ۔ معصومين کے حرم ميں سامنے کهڑے ہو کر زیارت پڑهيں ۔

١٨ ۔ معصوم سے منقول زیارت کے متن کو کامل توجہ اور صحيح تلفظ کے ساته پڑهيں ۔

١٩ ۔ زیارت کے بعد مسجد بالائے سر یا کسی متصل مسجد ميں دو رکعت نماز زیارت ادا کریں ۔

٢٠ ۔ نماز زیارت ميں بہتر ہے کہ پہلی رکعت ميں الحمد کے بعد سورہ یٰس اور دوسری رکعت ميں الحمد کے بعد سورہ رحمن پڑهيں ۔

٢١ ۔ نماز زیارت کے قنوت ميں خدا سے اپنی اور دیگر مومنين کی حاجتوں کو طلب کریں کہ یہاں دعا قبول ہوتی ہے ۔

٢٢ ۔ نماز زیارت کے بعد معصومين سے ماثور ، دعا ، مکارم اخلاق عاليہ المضامين و غيرہ پڑهيں ۔

٢٣ ۔ سب سے پہلے حضرت بقية الله الاعظم کے فرج کی دعا کریں ۔

٢ ۴ ۔ نماز زیارت اور دعا و نماز کے بعد ادب اور دوسروں کے حق کی رعایت کرتے ہوئے ضریح مقدس کے قریب جائيں اور بوسہ دے کر خدا سے راز و نياز کریں ۔

٢ ۵ ۔ دور سے زیارت پڑهنے ميں بهی ادب کی رعایت ضروری ہے ۔

٢ ۶ ۔والدین ،بہن ،بهائی ،احباب و اساتذہ ، شيعيان امير المومنين اور ان لوگوں کی طرف

سے زیارت پڑهيں جنهوں نے پڑهنے کی درخواست کی ہو۔

٢٧ ۔ حرم مطہر اور اولياء الله کے مرقد ميں پورے غور و خوض کے ساته قرآن پڑهيں اور صاحب مرقد کو ہدیہ کریں ۔

٢٨ ۔ معصومين عليہم السلام سے آگے بڑه کر واجب و مستحب نماز نہ پڑهيں ۔ ٢٩ ۔ اگر نماز زیارت کے دوران نماز جماعت شروع ہو جائے تو نماز زیارت کو ترک کرکے نماز جماعت بجا لائيں ۔

٣٠ ۔ حرم سے نکلتے وقت ضریح کی طرف پشت نہ کریں ۔

٣١ ۔ جب تک حرم ميں رہيں خضوع و خشوع کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔

٣٢ ۔ اماکن مقدسہ ميں گزشتہ گناہوں پر پشيمانی اور توبہ کے ساته مستقبل ميں مرتکب نہ ہونے کا قصد کریں ۔

٣٣ ۔ حرم سے رخصت ہوتے وقت زیارت و دعائے وداع پڑهيں اور خدا سے دعا کریں کہ ہمارے لئے یہ زیارت آخری نہ ہو۔

٣ ۴ ۔ لوٹنے کے بعد زیارت کے نور کو اپنی پيشانی پر باقی رکهيں یعنی گناہ کے مرتکب نہ ہوں ۔

مذکورہ آداب تمام اماکن مقدسہ کے لئے ہيں ليکن حرم معصومہ کے زائرین کو مذکورہ نکات کی رعایت کے علاوہ اس بات پر بهی توجہ رکهنا چاہئے کہ قم خاندان عصمت و طہارت اہل بيت عليہم السلام کا حرم ہے لہٰذا جہاں تک ہو سکے تمام معصومين عليہم السلام کو یاد رکهيں اور کم از کم سب پر سلام و درود بهيجيں مفاتيح الجنان ميں محدث قمی نے صلوٰت بر حجج طاہرہ کے عنوان سے نقل کی ہے ۔

معصومہ کے پہلو ميں خاندان عصمت و طہارت کی کچه اور بی بياں بهی مدفون ہيں ۔ ان کی زیارت سے بهی غفلت نہ کریں ۔ کم از کم زیارت کی نيت سے اتنا ضرور پڑهيں : ”اَلسَّْلاَمُ عَلَيکُْنَّ اٰی بَنَاتِ رَسُولِ اللهّٰ وَ رَحمَْةُ اللهِّٰ وَ بَرَکَاتُه

زیارت کا طریقہ

اس سے قبل ہم وہ حدیث نقل کر چکے ہيں جو علامہ مجلسی نے امام رضا عليہ السلام سے نقل کی ہے اس حدیث شریف ميں امام ( ع ) نے معصومہ (س) کی زیارت کی فضيلت و کيفيت بيان کی ہے ۔ زیارت کا طریقہ یہ ہے کہ قبر مطہر کے پاس پہنچ کر آپ (س) کے سر اقدس کے نزدیک رو بہ قبلہ کهڑے ہو ں ۔ اس کے بعد ٣ ۴ مرتبہ الله اکبر ، ٣٣ مرتبہ سبحان الله اور ٣٣ مرتبہ الحمد لله بڑهيں پھر اس طرح زیارت شروع کریں :

اَلسَّلاَمُ عَلَی آدَمَ صَفوَْةِ اللهِّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَی نُوحِْ نَبِیِّ اللهِّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَی ابراهيم خليل اللهّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَی عِيسَْی رُوحِْ اللهّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی رَسُولُْ اللهّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی خَيرَْ خَلقِْ اللهِّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی صَفِیَّ اللهِّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی مُحَمَّدَ بنَْ عَبدِْ اللهِّٰ خَاتَمَ النَّبِيِّينَْ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی امِيرَْ المُْومِْنِينَْ عَلِیِّ بنَْ ابِيطَْالِب وَصِیَّ رَسُولِْ اللهِّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکِْ اٰی فَاطِمَةُ سَيِّدَةَ نِسَاءِ العَْالَمِينَْ اَلسَّلاَمُ عَلَيکُْمَا اٰی سِبطَْی نَبِیِّ الرَّحمَْةِ وَ سَيِّدَی شَبَابِ اهلِْ الجَْنَّةِ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی عَلِیِّ بنِْ الحُْسَينِْ سَيِّدَ العَْابِدِینَْ وَ قُرَّةَ عَينِْ النَّاظِرِینَْ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی مُحَمَّدَ بنَْ عَلِیٍّ بَاقِرَ العِْلمِْ بَعدَْ النَّبِی اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی جَعفَْرَ بنَْ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ البَْارِّ الامَينِْ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی مُوسَْ یٰ بنَْ جَعفَْرٍ الطَّاهِرَ الطُّهرِْ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی عَلِیِّ بنَْ مُوسَْ یٰ الرِّضَا المُْرتَْض یٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی مُحَمَّد بنَْ عَلِیٍّ التَّقِی اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی عَلِیَّ بنَْ مُحَمَّدٍ النَّقِیَّ النَّاصِحَ الامِينَْ اَلسَّلاَمُ عَلَيکَْ اٰی حَسَنَ بنَْ عَلِیٍّ اَلسَّلاَمُ عَلَی الوَْصِیِّ مِن بَعدِْهِ اللهُّٰمَّ صَلِّ عَلَی نُورِْکَ وَ سِرَاجِکَ وَ وَلِیِّ وَلِيِّکَ وَ وَصِیِّ وَصِيِّکََ وَ حُجَّتِکَ عَلَی خَلقِْکَ

اَلسَّلاَمُ عَلَيکِْ اٰی بِنتَْ رَسُولِْ اللهّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکِِْ اٰی بِنتَْ فَاطِمَةَ وَ خَدِیجَْةَ اَلسَّلاَمُ عَلَيکِِْ اٰی بِنتَْ امِيرِْ المُْومِْنِينَْ اَلسَّلاَمُ عَلَيکِِْ اٰی بِنتَْ الحَْسَنِ وَ الحُْسَينِْ اَلسَّلاَمُ عَلَيکِِْ اٰی بِنتَْ وَلِیِّ اللهِّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکِِْ اٰی اختَْ وَلِیِّ اللهِّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکِِْ اٰی عَمَّةَ وَلِیِّ اللهِّٰ اَلسَّلاَمُ عَلَيکِِْ اٰی بِنتَْ مُوسَْی بنِْ جَعفَْرٍ وَ رَحمَْةُ اللهِّٰ وَ بَرَکَاتُه

اَلسَّلاَمُ عَلَيکِِْ عَرَّفَ اللهُّٰ بَينَْنَا وَ بَينَْکُم فِی الجَْنَّةِ وَ حَشَرنَْا فِی زُمرَْتِکُم وَ اورَْدَنَا حَوضَْ نَبِيِّکُم وَ سَقَانَا بِکَاسِ جَدِّکُم مِن یَّدِ عَلِی بنِْ ابِيطَْالِب صَلَوَاتُ اللهِّٰ عَلَيکُْم اسالُ اللهِّٰ ان یُّرِیَنَا فِيکُْمُ وَ ان لا یَسلُْبَنَا السُّرُورَْ وَ الفَْرَجَ وَ ان یَّجمَْعَنَا وَ اِیَّاکُم فِی زُمرَْةِ جَدِّکُم مُحَمَّدَ صَلَّی اللهُّٰ عَلَيهِْ وَ آلِه وَلِیٌّ قَدِیرٌْ اتَقَرَّبُ اِلَی اللهِّٰ بِحُبِّکُم وَ البَْرَائَةِ مِن اعدَْائِکُم وَ التَّسلِْيمِْ اِلَی اللهِّٰ رَاضِياً مَعرِْفَتِکُم اِنَّه رَاضٍ نَّطلُْبُ بِذَالِکَ وَجهِْکَ یَا مُحَمَّدٌ وَ بِه غَيرَْ مُنکِْرٍ وَ لاٰ مُستَْکبِْرٍ وَ عَلَی یَقِينِْ مَا اتَی بِه بِه سَيِّدِی اللهُّٰمَّ وَ رِضَاکَ وَ الدَّارَ الآْخِرَةَ اٰی فَاطِمَةُ اشفَْعِی لِی فِی الجَْنَّةِ فَاِنَّ لَکِ عِندَْ اللهِّٰ شَانْاً مِّنَ الشَّانِْ اللهُّٰمَّ اِنِّی اسئَْلُکَ ان تَختِْمَ لِی بِالسَّعَادَةِ فَ لاٰ تَسلُْب مِنِّی مَا انَا فِيهِْ وَ لاٰ حَولَْ وَ لاٰ قُوَّةَ اِلا بِاللهِّٰ العَْلِیِّ العَْظِيمِْ اللهُّٰمَّ استَْجِب لَنَا وَ تَقَبَّلهُْ بِکَرَمِکَ وَ عِزَّتِکَ وَ بِرَحمَْتِکَ وَ عَافِيَتِکَ وَ صَلَّی اللهُّٰ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ اجمَْعِينَْ وَ سَلَّمَ تَسلِْيمْاً اٰی ارحَْمَ الرَّاحِمِينَْ

حضرت معصومہ (س)کے مختصر حالات

تاريخ ولادت

حضرت معصومہ (س) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ ميں کئی اقوال ہيں بعض نے لکهاہے کہ حضرت فاطمہ بنت امام موسیٰ ابن جعفر (س) ابتدائے ذیقعدہ الحرام ١٨٣ هء ميں مدینہ منورہ ميں ولادت پائی۔

صاحب مستدرک سفينہ لکهتے ہيں کہ حضرت فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر (س)نے یکم ذیقعدہ الحرام کو ولادت پائی(١) ۔ ولادت کے سلسلہ ميں تو بعض صاحبان قلم نے قطعی طور پر لکها ہے کہ یکم ذیقعدہ کو ولادت پائی ،ليکن ولادت کے سال ميں علماء تاریخ متردد ہيں ۔ بعض نے ١٧٣ هء اور بعض نے ١٨٣ هء کو سنہ ولادت تحریر کيا ہے ليکن آخری قول کا بطلان بدیہی ہے کيوں کہ اس سال حضرت موسیٰ بن جعفر (س) نے شہادت پائی اور شہادت سے قبل آپ نے چار سال قيد خانہ ميں گزارے ۔(٢) اس کی تصریح موجود ہے کہ آپ کو ١٧٩ ئه ميں گرفتار کيا گيا ہے ۔(٣)

دوسرے یہ بهی مسلم ہے کہ حضرت موسیٰ بن جعفر (س) کی چار بيٹياں تھيں اور سب کے نام فاطمہ سے مرکب تھے چنانچہ بعض مورخين نے تحریر کيا ہے کہ:

١۔ فاطمہ کبریٰ ،ملقب بہ معصومہ قم ۔ قم ميں مدفون ہيں ۔

____________________

١۔مستدرک سفينہ منقول از کریمہ اہل بيت

٢۔ اصول کافی / ١ص/ ٣١٢

٣۔ اصول کافی / ١ص/ ٣٩٧

٢۔ فاطمہ صغریٰ ،ملقب بہ بی بی ہيبت ۔ روس ميں آذربائيجان کے شہر باکو ميں مدفون ہيں ۔

٣۔ فاطمہ وسطیٰ ، ملقب بہ ستی فاطمہ ۔ اصفہان ميں مدفون ہيں ۔(١)

۴ ۔ فاطمہ اخریٰ ، معروف بہ خواہر امام (س) ۔ایران کے شہر رشت ميں مدفون ہيں ۔ اس لحاظ سے معصومہ قم (س) اپنی چار بہنوں ميں سب سے بڑی ہيں چنانچہ یقينا آپ (س) نے ١٧٩ هء سے چند سال قبل ولادت پائی ہوگی لہٰذا ١٨٣ هء آپ کا سنہء ولادت نہيں ہو سکتا۔

اسماء و القاب

شریعت اسلاميہ ميں نام گزاری کو بہت اہميت دی گئی ہے ۔بہت سی روایت ميں وارد ہوا ہے کہ والدین پر اولاد کا ایک حق یہ بهی ہے کہ وہ ان کےلئے نام کا انتخاب کریں ۔(٢)

نيک نام کے انتخاب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اسلام صلى الله عليه وسلم نے ان لوگوں کو نام تبدیل کرنے کی تاکيد کی تھی جن کانام شائستہ نہيں تھا ۔(٣) اسی طرح یعقوب سراج سے امام حضرت موسیٰ بن جعفر (س) نے فرمایا تھا کہ جاؤ اپنی لڑکی کے اس نام کو بدل دو جو تم نے کل رکها تھا کيوں کہ اس نام کو خدا پسند نہيں کرتا ہے ۔( ۴)

یعقوب سراج کہتے ہيں کہ ميں نے اپنی نوزاد لڑکی کا نام “ حميراء” رکها تھا لہٰذا اپنے مولا کے حکم سے اپنی بيٹی کا نام بدل دیا ۔( ۵)

اس بات کی بهی تاکيد کی گئی ہے کہ اپنے بيٹوں کے لئے انبياء و ائمہ کا نام انتخاب کرو خصوصا محمد وعلی نام رکهو اور بيٹيوں کے لئے بہترین نام فاطمہ ہے ۔( ۶) اور چوں کہ ائمہ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام الله عليہا کی عظمت و منزلت کو جانتے اور سمجهتے تھے لہٰذا نام فاطمہ (س) کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (س) کو جب یہ خبر ملی کہ آپ کے صحابی “ سکونی” نے اپنی بيٹی کا نام فاطمہ رکها ہے ،تو فرمایا: آہ آہ اس کے بعد فرمایا: تم نے اپنی بيٹی کا فاطمہ نام رکها ہے لہٰذا اسے گالی نہ دینا ،اس کو طمانچہ نہ مارنا اور برا بهلا نہ کہنا ۔(٧) چنانچہ ائمہ معصومين (س) نے اپنی ایک یا سب بيٹيوں کا نام فاطمہ ضرور رکها ہے ۔ حضرت علی (س) نے جن کی ماں اور زوجہ کا نام فاطمہ تھا ،اپنی ایک بيٹی کا نام فاطمہ رکها تھا۔(٨)

____________________

١۔ بحار الانوار ج/ ۴٨ ص/ ٢٨۶

٢۔فروع کافی ،ج ۶ ص/ ١٨

٣۔ناسخ التواریخ ،ج/ ٢ص/ ۶٨

۴۔ ٢۔فروع کافی ،ج ۶ ص/ ١٨ ۔تہذیب ،ج/ ٧ص/ ۴٣٧

۵۔ وسائل الشيعہ ،ج/ ٢١ ص/ ٣٩٠

۶۔فروع کافی ،ج ۶ ص/ ١٩

٧۔ فروع کافی ،ص/ ۴٣٨

٨۔ارشاد مفيد ،ج/ ١ص/ ٣۵۵

اہل سنت کے مشہور عالم سبط بن جوزی نے اپنی کتاب تذکرة الخواص ميں امام موسیٰ بن جعفر (س) کی اولاد کے نام تحریر کئے ہيں اور آپ کی چار بيٹيوں کے نام اس طرح تحریر کئے ہيں ۔

١ (فاطمہ کبریٰ

٢ (فاطمہ صغریٰ

٣ (فاطمہ وسطیٰ

۴ ( فاطمہ اخریٰ(١)

لقب معصومہ

صاحب ناسخ التواریخ تحریرفرماتے ہيں کہ معصومہ کا لقب آپ کو حضرت امام رضا عليہ السلام نے دیا تھا۔ اس سلسلہ ميں آپ کا ارشاد ہے:

”من زار المعصومة بقم کمن زارنی(٢)

جس نے قم ميں معصومہ کی زیارت کی گویا اس نے ميری زیارت کی۔ ميرزا نوری نے اپنی کتاب “ دارالسلام ” ميں رویائے صادقہ نقل کيا ہے کہ جس کو صحيح تسليم کيا ہے جس کو ہم آئندہ بيان کریں گے۔

____________________

١۔ تذکرة الخواص ،ص/ ٣١۵

٢۔ناسخ التواریخ ،ص/ ۶٨

کيا لقب معصومہ آپ کی عصمت پر دلالت کرتا ہے ؟ اس سوال کا جواب لکهنے سے قبل مقدمہ کے طور پر ہم چند چيزیں سپر د قلم کرتے ہيں ۔

١۔ اس بات پر شيعوں کا اجماع ہے کہ انبياء وملائکہ سب معصوم ہيں ۔ ان سے ہرگز کوئی گناہ کبيرہ و صغيرہ سرزد نہيں ہوتا ہے ۔ نہ قبل از بعثت نہ بعد از بعثت نہ امامت سے پہلے نہ امامت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد نہ عمدا نہ سہواً(١)

٢۔ حضرت رسول خدا صلى الله عليه وسلم ،حضرت فاطمہ زہرا (س) اور ائمہ عليہم السلام عصمت کے آخری و اعلیٰ درجہ پر فائز ہيں ۔ مذکورہ حضرات سے نہ صرف پوری زندگی ميں کوئی گناہ کبيرہ و صغيرہ سرزد نہيں ہوا بلکہ ترک اولیٰ بهی نہيں ہوا ہے جب کہ ترک اولیٰ عصمت کے منافی نہيں ہے ۔ اسی لئے انهيں چودہ معصوم کے نام سے یاد کيا جاتا ہے ۔

بنا بر ایں عصمت ان ہی چودہ اشخاص ميں منحصر نہيں ہے بلکہ ان کے علاوہ بهی معصوم ہيں ، جيسا کہ ہم نے مقدمہ کی پہلی شق ميں بيان کيا ہے کہ انبياء ، ائمہ اور تمام فرشتوں کی عصمت پر علماء اماميہ کا اجماع ہے ۔

٣۔ اسی لحاظ سے عصمت کے مدارج و مراتب اور اس کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر چودہ معصوم فائز ہيں اور اس کے بعد والے درجہ پر انبياء و فرشتے فائز ہيں ۔

۴ ۔ علماء اسلام ميں سے کسی نے اس بات کا دعویٰ نہيں کيا ہے کہ معصوم صرف چودہ اشخاص ہی ہيں ۔

۵ ۔ اور کسی دانشور نے حضرت ابوالفضل العباس (س)و حضرت علی (س)اکبر ،حضرت زینب (س) اورحضرت معصومہ کے بارے ميں یہ دعویٰ نہيں کيا ہے کہ وہ معصوم نہيں تھے بلکہ بعض نمایاں شخصيتوں نے ان کی عصمت کو ثابت کيا ہے ۔(٢)

____________________

١۔ اعتقادات ،شيخ صدوق ،ص/ ١٠۵ ،نہج الحق ، علامہ حلی ،ص/ ١۴٢ و ١۶۴

٢۔ اتقان المقال،/ ٧۵