شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات 0%

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

مؤلف: الشیعہ ڈاٹ او آر جی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8332
ڈاؤنلوڈ: 2271

تبصرے:

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8332 / ڈاؤنلوڈ: 2271
سائز سائز سائز
شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

مؤلف:
اردو

۶ ۔ عبد الرزاق مرحوم نے اپنی کتاب “ العباس” ميں حضرت ابو الفضل العباس عليہ السلا کی عصمت کی دليليں اور “ علی الاکبر ” ميں حضرت علی اکبر عليہ السلام کی عصمت کے دلائل پيش کئے ہيں(٢) اور اس سلسلہ ميں ایت الله شيخ محمد حسين اصفحانی اورعلامہ ميرزا محمد علی اردو بادی کے نظریات سے استفادہ کيا ہے ۔(٣)

٧۔ نقدی مرحوم نے اپنی کتاب “زینب الکبریٰ ” ميں اسی موضوع کو ثابت کيا اگرچہ حضرت زینب(س) کی عصمت کا دعوی نہيں کيا ہے ۔( ۴)

٨۔ اس بناپر اگر کوئی معصومہ کی عصمت کا دعوی کر تاہے تو وہ کو ئی بے جابات نہيں کہتاہے ۔ واضح ہے کہ حضرت معصومہ کا نام فاطمہ ہے ،اوردوران حيات آپ کو معصومہ کا لقب نہيں ملا تھا ، بلکہ معصومہ آپ کے اوصاف کے لحاظ سے کہا گيا ہے بنا براین حدیث کے یہ معنی ہوں گے :

جوشخص بهی قم ميں معصومہ کی زیارت کرے گویا اس نے ميری زیارت کی کيونکہ وہ معصومہ ہيں ۔ا س حدیث کی بنا پر معصومہ کی عصمت ميں کوئی شک باقی نہيں رہتاہے ۔ آپ کی عصمت پر ایک دليل یہ بهی ہے ک آپ کی تجہيز وتشييع ميں امام رضا وامام جواد عليہما السلام شریک تھے ۔اور شيعہ اعتقاد کی روسے معصوم کو معصوم ہی غسل وکفن دے سکتاہے اور دفن کرسکتا ہے ۔( ۵)

____________________

٢۔ العباس / ١٢٩ و ١٣٣ ۔ علی الاکبر / ۴٣

٣۔ سردار کربلا / ٢۴٨ و ٢۵٣

۴۔ زینب کبریٰ / ٣٣ و ٣۶

۵-بحار الانوار ،ج/ ۴٨ ص/ ٢٩٠ وج/ ۶٠ ص/ ٢١٩

کریمہ اہل بيت (س)

حضرت معصومہ (س) کے عقيدت مند شيعہ عہد قدیم سے آج تک نظم و نثر ميں کریمہ اہل بيت (س) کہتے چلے آرہے ہيں ،ليکن ایک بزرگ کے رویائے صادقہ کی رو سے یہ لقب معصومين عليہم السلام سے آپ کو ملا ہے۔

نساب عالی قدر آیت الله سيد محمود مرعشی نجفی متوفی ١٢٢٨ هء حضرت صدیقہ طاہرہ کی قبر کا سراغ لگانے کے سلسلہ ميں بہت ہی کوشاں تهے ،اس مقصد ميں کاميابی کے لئے انهوں نے چاليس شبوں کا ایک چلہ کيا ۔ چاليس شب ميں وظيفہ ختم کرنے اور بے پناہ دعا مانگنے کے بعد جب سو گئے تو امام محمد باقر عليہ السلام و امام جعفر صادق عليہ السلام کو خواب ميں دیکھا امام (س) نے فرمایا: “ عليک بکریمہ اهل بيت ” تم کریمہ اہلبيت (س) سے توسل کرو،انهوں نے یہ سوچ کر کہ کریمہ اہل بيت سے حضرت زہرا سلام الله عليہا مرادہيں عرض کی : یہ چلہ ميں نے ان ہی کی قبر مبارک معلوم کرنے کے لئے کيا ہے تاکہ قبر کا صحيح نشان معلوم ہو جائے ،جس سے ميں زیارت قبر سے مشرف ہو سکوں ۔امام (س) نے فرمایا: ميری مراد قم ميں حضرت معصومہ کی قبر ہے ۔ اس کے بعداضافہ فرمایا: کہ خدا وند عالم نے مصلحت کی بنا پر حضرت زہرا (س) کی قبر کو مخفی رکها ہے اور اس کی جلوہ گاہ حضرت معصومہ (س) کی قبر کو قرار دیا ہے ۔

مرعشی مرحوم بيدار ہوئے تو وہ حضرت معصومہ کی زیارت کے لئے ایران کی طرف روانہ ہو گئے ۔

عالمہ آل عبائ

نجف اشرف ميں شوشتریوں کے کتب خانہ ميں ایک قلمی نسخہ ميں یہ حدیث دیکھی گئی تھی کہ ایک مرتبہ کچه شيعيان امير المومنين حضرت امام موسیٰ کاظم عليہ السلام کے زمانہ ميں مدینہ آئے اور اپنے شرعی مسائل دریافت کرنے کے سلسلہ ميں امام کے در دولت پر پہنچے ۔ جب انهيں یہ معلوم ہو ا کہ امام موسیٰ کاظم عليہ السلام مدینہ ميں تشریف فرما نہيں ہيں تو انهوں نے چند روز اور مدینہ ميں قيام کرنے کا ارادہ کر ليا ،ليکن امام اس مدت ميں تشریف نہيں لائے ۔ جب وہ رخصت کے لئے امام کے در دولت پر گئے تو حضرت معصومہ نے فرمایا: اگر کوئی شرعی مسئلہ دریافت کرنا چاہتے ہو تو پوچه سکتے ہو ۔ انهوں نے مسائل لکه کر پيش کئے تھوڑی دیر بعد معصومہ نے اس کے مسائل کا جواب بهيج دیا۔ قافلہ والے شکریہ ادا کرکے چلے گئے مدینہ سے نکلتے وقت امام موسیٰ کاظم عليہ السلام سے ان کی ملاقات ہوئی ۔ مدینہ آنے کی وجہ بيان کی جب امام نے مسائل کا جواب دیکھا تو تائيد فرمائی اور فرمایا:“ فداها ابوها فداها ابوها”(١)

محدثہ آل محمد

طبقات رواة ميں بہت سی عورتيں بهی شامل ہيں جن ميں سر فہرست حضرت فاطمہ زہرا(س) اور ازواج نبی ہيں ۔ چنانچہ صاحب اسنی المطالب نے مناقب علی بن ابی طالب (س) کے سلسلے ميں ایک حدیث نقل کی ہے کہ جس کے سلسلہ سند ميں حضرت معصومہ قم ہيں سلسلہ یہ ہے ۔

ابو بکر بن عبدالله بن محب مقدسی نے ام محمد ،زینب دختر احمد بن عبد الرحيم مقدسی سے انهوں نے ابو مظفر محمد بن فتيان بن مسينی سے انهوں نے ابو موسیٰ بن ابی بکر حافظ سے انهوں نے قاضی ابو القاسم عبد الواحد بن محمد بن عبد الواحد مدینی سے انهوں نے ظفر بن داعی علوی سے انهوں نے اپنے والد داعی بن مہدی اور ابو احمد بن مطرف مطرفی سے اور ان دونوں نے ابو سعيد ادریسی سے انهوں نے ابو العباس محمد بن محمد بن حسن رشيدی سے انهوں نے ابو الحسن محمد بن جعفر حلوانی سے انهوں نے علی بن محمد بن جعفر اہوازی سے انهوں نے بکر بن احمد قصری سے انهوں نے دختر علی بن موسیٰ الرضا فاطمہ سے انهوں نے فاطمہ زینب و ام کلثوم بنت موسیٰ بن جعفر سے ۔ انهوں نے فاطمہ بنت جعفر صادق سے انهوں نے فاطمہ زینب و ام کلثوم بنت موسیٰ بن جعفر سے ۔ انهوں نے فاطمہ بنت جعفر صادق سے انهوں نے فاطمہ بنت محمد باقر سے انهوں نے فاطمہ بنت علی بن الحسين بن ابی طالب سے انهوں نے فاطمہ بنت الحسين بن علی ابن ابی طالب سے انهوں نے ام کلثوم بنت فاطمہ بنت رسول اکرم صلى الله عليه وسلم سے انهوں نے فاطمہ بنت رسول سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

ا نسيتم قول رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه و آله و سلم یوم غدیر خم ، من کنت مولاه فعلی مولاه وقوله انت منی منزلة هارون من موسیٰ“

کيا تم لوگ رسول کی اس قول کو بهول گئے جو غدیر خم کے روز فرمایا تھا کہ : جس کا ميں مولاہوں اس کے علی (س) مولا ہيں اور آپ کی حدیث اے علی (س) تم ميرے لئے ایسے ہی ہو جيسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے ۔

____________________

١۔ یہ واقعہ انصاری قمی نے بيان کيا ہے ۔ صاحب کریمہ اہل بيت نے بهی ص/ ۶٢ پر نقل کيا ہے۔

آپ کے دیگر القاب

١ (طاہرہ

٢ (حميدہ

٣(رشيدہ

۴ ( تقييہ

۵ ( رضيہ

۶ ( نقية

٧ (مرضيہ

٨ (سيدہ

٩(اخت الرضا(س)

یہ القاب اس زیارت نامہ ميں مندرج ہيں جس کو شيخ محمد علی نے انوار المشعشعيں ميں نقل کيا ہے ۔ یہ کتاب ١٣٢٧ هء ميں طبع ہو چکی ہے حيدر خوانساری نے اپنی کتاب زبدة التصانيف ميں ایک اور زیارت نامہ نقل کيا ہے اور اس ميں آپ کے دیگر لقب صدیقہ اور سيدة نساء العالمين بهی تحریر کئے ہيں ۔

ایران کی طرف روانگی

ابهی آپ کی عمر دس سال ہی تھی کہ آپ کے والد ماجد کو ہارون رشيد نے قيد خانہ ميں زہر جفا سے شہيد کر دیا اور معصومہ کے قلب پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ صرف امام رضا عليہ السلام ہی سے آپ کو سہارا تھا کےونکہ امام رضا (س) ہی آپ (س)کے حقيقی (یعنی دونوں ایک ماں اور باپ سے ) بھائی تھے(١) اور پدر بزرگوار کی شہادت کے بعد حجت خدا ،امت کے مددگار اور مظلوم کے حامی تھے ليکن ان پر بهی ہارو ن رشيد کی نگرانی تھی۔ ہارون رشيد کی موت کے بعد اس کے بيٹے مامون نے بهی وہی راستہ اختيار کيا جو کہ اس کے باپ تھا ۔ چنانچہ اس نے آٹهویں امام کو اہل بيت سے جدا کيا ظاہرا احترام کے ساته خراسان بلاليا۔حضرت معصومہ(س) نے تقریبا ایک سال تک داغ جدائی برداشت کيا ۔اس کے بعد صبر نہ ہو سکا لہٰذا بھائی سے ملاقات کی غرض سے “مرو ”کی طرف روانہ ہوئيں ۔ظا ہر ہے کہ جس با فضيلت آغوش عصمت ميں اس خاتون نے تربيت پا ئی تھی اور جس کی تربيت امام موسی کاظم (س)و امام رضا (س)عليہ السلام نے کی تھی وہ دین وار ساتهيوں کے بغير مدینہ سے “مرو”کا قصد نہيں کر سکتی تھيں ۔آپ کے بھائی بھتيجے سب ہی ایران کے سفر کے لئے تيار تھے ۔ان کی ہمراہی ميں آپ نے اپنے بھائی سے ملاقات کی خاطر پر خطر سفر کا ارادہ کر ليا ۔

اس سفر ميں حضرت معصومہ (س)کے پانچ بھائی :فضل ،جعفر ،ہادی ،قاسم ،زید اور کچه غلام اور کنيزیں آپ کے ہمراہ تھيں ۔اس زمانہ کے سفر کی دشواریوں کو برداشت کرتے ہوئے آپ “ساوہ”پہنچيں ۔

آج تو شہر ساوہ کے باشندے سب ہی شيعہ اور خاندان عصمت و طہارت کے شيدا ئی ہيں ليکن اس زمانہ ميں سخت ترین دشمن تھے ۔لہٰذا جب حضرت معصومہ (س)کا قافلہ “ساوہ ”پہنچا تو “اہل ساوہ”نے ان پر حملہ کردیا اور شدید جنگ ہوئی ۔اور آپ کے بھائی بھتيجے سب ہی شہيد ہو گئے ۔حضرت معصومہ (س) نے اپنے ٣٢ بھائی بهتيجوں کو خون ميں غرق دیکھا تو اس غم ميں عليل ہو گئيں ۔(٢)

____________________

١۔ دلائل الاماميہ ،ص/ ٣٠٩

٢۔ریاض الانسان ،ص/ ١۶٠ منقول از کریمہ اہل بيت ،ص/ ١٧۵