اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط37%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86029 / ڈاؤنلوڈ: 4551
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

اسلامی مذاہب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

ترجمه از کتاب “منابع استنباط فقهی از نظر مذاہب اسلامی ”

مؤلف آیۀ الله مکارم شیرازی

استادراہنما

مولانا اخلاق حسین پکھناروی

دانش پژوه

سید نسیم رضا

زمستان ۱۳۸۸

۳

اہداء

اس ناچیز کوشش کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بھائی ، داماد ، وصی اور حقیقی جانشین امیر المومنین علیہ السلام ، حضرت زہرا علیہا السلام اور ان کی گیارہ اولاد پاک جنہوں نے اپنے لہو سے اسلام کو سینچا

اور

علمائے اسلام ، شہداء ، صلحا ، ذوی الحقوق کو ہدیہ کرتا ہوں

اور

خدا سے دعا کرتا ہوں کہ روز قیامت ائمہ ہدیٰ کو میرا ، میرے والدین کا شفیع قرار دے

اور اس اسلامی ملک کی ہر طرح سے حفاظت فرما ۔

۴

اظہار تشکر

اس خالق کائنات کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں لامتناہی نعمتوں سے نوازا اور ہماری ہدایت کے لئے انبیاء و رسل بھیجے اور ان کی راہ کو باقی رکھنے کے لئے ائمہ کو منتخب کیا ۔

اس کریمۂ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا شکریہ جنہوں نے مجھے اس قابل سمجھا کہ اپنے دستر خوان علم پر مدعو کیا اور مجھے خوشہ چینی کا موقع دیا ، استاد محترم مولانا اخلاق حسین پکھناروی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنی راہنمائی سے کتاب کو مزید مفید بنا دیا ۔ نیز ہمسر محترمہ سکینہ خاتون صاحبہ نے بھی اس کتاب کی تکمیل میں کافی تعاون کیا ۔

آخر میں ان تمام اہل علم کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ جنہوں نے ہر طرح سے میری مدد کی خصوصاً جامعۃ العلوم کے مسؤلین اور اساتید خصوصاً آقای مرادی جنہوں نے واقعاً ہر طرح سے بندۂ ناچیز کی مدد کی اورمیرے علمی مقام کو یہاں تک پہونچایا کہ میں اس قابل بن سکوں ایک فارسی کتاب کو اپنی مادری زبا ن میں منتقل کر کے طلباء و مومنین کے حوالے کرسکوں جو میرے لئے روز آخرت کام آئے ۔

" گر قبول افتدزہ عز و شرف "

۵

عرض مترجم

خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے منابع استنباط فقہی از نظر مذاہب اسلامی مولف آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی دام ظلہ العالی کی کتاب کے ترجمہ کی توفیق دی یقیناً اردو سماج میں ان موضوعات جيسي کتابوں کے ترجمہ کی ضرورت ہے جہاں اہل سنت کے فرقہ اپنے پورے وجود سے اسلام کے صحیح اور حقیقی چہروں کو مخدوش کر رهے ہيں اور ائمہ علیہم السلام کی ان صحیح السند احادیث کو چاہے وہ احکام یا اصول و عقائد کے بارے میں ہو یا کسی او رموضوع کے تحت ہوں ۔ مخدوش کر کے لوگوں کے سامنے پیش کررہےہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا جواب دینے کے لئے بہترین طریقہ اور راستہ ان جیسی کتابوں کی نشر و اشاعت ہے ۔

آخر میں خداوند متعال سے ہم دعا گو ہيں کہ ہمیں ان جیسی کتابوں کے ترجمہ کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مذہب حقہ کی خدمت کرسکيں ۔

سید نسیم رضا زیدی

۶

چكيده :

اس رساله ميں سب سے پهلے مقدمه پيش كيا گيا ہے جس ميں استنباط اصطلاحي اور لغوي تعريف مقدمات استنباط ، تاثير زمان و مكان استنباط خطرات استنباط ، افراط و تفريط استنباط كو پيش كيا گيا ہے اسي طرح اس رساله ميں مورد اتفاق منابع اور مورد اختلافي استنباط سے بحث كي گئي ہے مورد اتفاق منابع استنباط ۔

۱ـ قرآن :

عدم تحريف قرآن كي بحث نيز نصوص اور ظواہر كي حجيت اسي طرح حجيت ظواہر پر قائم ہونے والي دليليں اس مبحث ميں بيان كي گئي هيں ۔

۲ـ سنت :

سنت رسول(ص)كي حجيت اور سنت معصوميں عليهم السلام كي حجيت اور حجيت پر ہونے والے اعترضات و شبهات اور اس كے جوابات پيش كئے گئے هيں ۔ اسي طرح سے سنت صحابه اور اقسام سنت كو بيان كيا گياہے۔

۳ـ اجماع :

تعريف اجماع ، اجماع كي حجيت اہل سنت كي نظر ميں حجيت اجماع اماميه كي نظر ميں اجماع پر ہونے والي قرآني دليليں حجيت اجماع پر قائم ہونے والي روائي دليليں نيز اقسام اجماع كو بيان كيا گيا ہے مزيد مخالفيں اجماع كا جواب بھي مطرح كيا گياہے۔

۴ـ عقل :

عقل كے سلسلے ميں تقريبا ً اكثر فقهي مباحث جس ميں دو گروه هيں اصحاب حديث اور اصحاب راي نيز تشيع كا مسلك عقل كے سلسلے ميں بيان كياگيا ہے عقل كي حجيت اور اس پر ہونے والے اعتراضات كا جواب ديا گيا ہے۔

۷

منابع مورد اختلاف :

قياس :

قياس كي تعريف اس كي حجيت كے سلسلے ميں بحث كي گئي ہے مزيد اس كي جو بھي قسم كے دلايل پر نقد و اعتراض كيا گيا ہے اور قياس كے اقسام كي تحليل كي گئي ہے جيسے قياس منصوص العلة قياس اولويت ، قياس تنقيح المناط ۔

استحسان :

تعريف استحسان اس كے اقسام مزيد اس كي حجيت پر ہونے والي بحث مطرح كي گئي ہے اسي طرح استحسان كے اقسام كا جزئي جايزه ليا گيا جيسے مصالح معتبر ،مصالح ملغي اور مصالح مرسله كے سلسلے ميں مكمل بحث كي گئي ہے۔

سد و فتح ذرايع:

تعريف سد و فتح ذرايع اور اس كے اقسام و حجيت كے سلسلے ميں بحث كي گئي ہے۔

عرف :

عرف كي تعريف اس كے اقسام اور اس كے متعلق ہونے والي بحث كو بيان كيا گياہے۔

۸

مقدمه:

استنباط:

استخراج احکام کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ میں ایک لفظ استباط ہے استنباط کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ و مفهوم کی وضاحت کے لئے لغت اور فقه و اصول کی کتابوں سے مدد لی جائے گی

استنباط کے لغوی معنی :

راغب اصفهانی اپنی کتاب المفردات غریب القرآن میں لکھتے ہیں :نبط لفظ قرآن مجید میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچه ارشاد خداوندی ہے :

( وَإِذَا جَاءهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاً )

حالانکہ اگر رسول اور صاحبانِ امر کی طرف پلٹا دیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کرلیتے ، یهاں( يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ) -(۱) سے مرادیستخرجونه منهم (یعنی وه اپنےعلم سے حقیقت کا پته لگالتے ہیں )

اور استنباط باب استفعال سے ہےجو جس ریشه نبط ہے اور نبط وه پانی ہے جو نکلا ہوا ہے اور فرس نبط اس گھوڑے کو کهتے ہیں جس کے بغل اور پیٹ پر سفیدی نمودار ہو-(۲)

صاحب منجدالطلاب اس کلمه کے بارے میں لکھتے ہیں :نبط نبطًا و نبوطاً الماء ؛ پانی جاری ہو ناشروع ہوگیا

نبط و نبط و انبطُ تنبط و استنبط البئر یعنی اس نے کیویں کا پانی نکالااستنبط الشئ یعنی مخفی چیزکو آشکار کیا استنبطه یعنی اس نے اختراع اور ایجاد کیااستنبط من فلان خیرا یعنی اس نے فلاں شخص سے کیا خوب چیزنکالی استنبط الفقیه یعنی فقیه نے اپنے استنباط سے احکام کو کشف کیا –(۲)

____________________

۱ نساء ، آیه ، ۸۳

۲ .راغب المفردادات فی غریب القرآن ، ص ۴۸۱.

۳ منجد الطلاب ترجمه محمد بندریگی ، ص۵۵۹

۹

المعجم العربی الحدیث ( فرهنگ لاروس ) میں آیا ہے :

نبط البئر یعنی کنویں سے پانی نکالانبط العلم یعنی علم کو آشکار کیا اور پھیلایاانّبط یعنی گھوڑے کے بغل اور پیٹ پر سفیدی کا ابھرنا یا بھیڑکے پهلو اسی سفیدی کا نشان اسی طرح سب سے پهلا پانی جوکنویں کی ته میں دکھائی دے(۲)

ابن منظور نے لسان العرب میں لکھا :انبط :

الماء الذی بنبطُ من قعر البئر اذا حفرت : نبط ایسا پانی جوکنواں کھودتے وقت ظاہر ہو

نبط الماء نبع : یعنی پانی ابلااستنبطه و استنبط منه علماً و خیراً و مالا استخرجه : اس کو استنباط کیا یعنی اس سے علم خیر اور مال کو کشف کیا یعنی اس سے نکالا.

الاستنباط : الاستخراج کرنا استباط یعنی استخراج ،استنبط الفقیه یعنی فقیه نے باطن کو اپنے اجتهاد اور دانائی کے ذریعه استخراج کیا.

قال الزجاج معنیٰ َ ا سْتَنبِطُونَك فی اللغة یستخرجونک ، لغت میں اس کو استنباط کیا یعنی اس سے استخراج کرنا اور استنباط کاریشه نبط ہے اور نبط وه پهلا پانی ہے جو کنویں کی تیه سے نکلے.

استباط کے اصطلاحی معنی :

دراسات فی ولایةالفقیه و فقه الدولة الاسلامیه کےمؤلف لسان العرب کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں میں کهتاہوں : خداوند متعال کا حکم آپ حیات یا ایک نفیس اور قمتی شئ ہے جو مصادرو منابع کے سینے میں دفن ہے جسے فقیه کشف کرتا ہے(۲)

____________________

۱ خلیل اجر فرهنگ لاروس ، ج ۲ ، ص۲۰۲۱

۲ منطور دراسات فی ولایۀ الققیه وفقه الدولۀ الاسلامیه ، ج ۲ ٌ۷۲

۱۰

استاد شهیدمرتضیٰ مطهری فرماتے ہیں :

(فقها نے فقهی جستجو کے لئے) جو دوسرا لفظ استعما ل کیا ہے وه کلمه استنباط ہے یه لفظ اس بات کی حکایت کرتاہے که علماء اسلام احکام کے سلسلے میں ایک خاص احسا س کے حامل ہیں.

لفظ استنباط زمین کے نچلے حصه سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے علماء اسلام نے اس بات کی جانب توجه کی که الفاظ کے سینے میں معانی کا صاف و شفاف پانی رواں دواں ہے جس کو کشف کرنے کے لئے خاص فن اور جهاد کی ضرورت ہے عربی زبان اور اس کے قواعد کو جاننے و الاعصر آدمی سے واقف آدمی اس بات کا دعوی نهیں کرسکتا که میں قرآن وسنت کی مدد سے اسلامی دستورات و قوانین کو کشف کرسکتا ہوں استنباط کا هنر زمین کے نچلے حصه سے پانی کا نکالناہے غزالی نے اپنی کتاب المستصفی میں ایک لطیف تعبیر کا استعمال کیا ہے وه ادله شرعی کو درخت احکام کو اس کاپھل اور عمل استنباط جوکه ادله شرعی سے استخراج احکام کا نام ہے کو استثمار یعنی (پته) سے تعبیر کرتے ہیں(۱)

شهید مطهر ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :

کلمه استنباط معنا کے اعتبار سے (فقه وفقیه) سے مشابه ہے یه کلمه ماده نبط سے مشتق ہے اور زمین سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے گویا فقهاء نے استخراج احکام میں اپنی تلاش و کوشش کو زمین سے پانی نکالنے سے تشبیه دی کیونکه وه بھی گهرائی سے احکام کے صاف و شفاف پانی کو استخراج کرتے ہیں(۲)

ادوار استنباط از دیدگاہ مذاہب اسلامی نامی کتاب میں آیا ہے :

کلمه استنباط ماده نبط سے ماخوز ہے اور لغت میں زمین کی گهرائی سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے اور اصطلاح میں احکام شرعی کو استخراج کرنے کے معنیٰ میں ہے یعنی ادله معتبر اور خاص عنصر سے جدید مسائل اور ہونے والے محادثوں کا استخراج کرنا اسی بناپر استنباط اجتهاد کا مترادف ہے مجتهد عرف متشرعه میں اس پراطلاق ہوتاہے جو احکام شرعیه کو عناصر خاصه اور عناصر مشترک سے اسنتباط اور استخراج کرے تو اس پر مستبط اور مفتی کابھی اطلاق ہوتاہے.(۳)

____________________

۱ علی دوانی ، عصندالله، شیخ طوسی ، مقاله ( النهامی ، از شیخ طائفه ، از مرتضی مطهری ، ص۳۴۳

۲ مطهری ، علوم و اصول سے شناخت ، اصول فقه ، و فقیه ،ص۱۰

۳ جناتی ، اورد لااحتیاط ، ص ۲۴

۱۱

عمید زنجانی کهتے ہیں :

استنباط ریشه نبط سے ماخوذ ہے اور لغت میں زمین کی گهرائیوں سے پانی نکالنے کے معنی میں آیا ہے اور اصطلاح میں الفاط کے باطنی معنی کو نکالنے کے لئے استعمال ہوتاہے(۱)

ابوالحسن محمدی بھی کهتے ہیں :

استنباط استخراج کے معنیٰ میں ہے اور حقوق کی اصطلاح میں اجتهاد کا مترادف ہے اور اس سے مراد یه ہے که قواعد کلی کو مصادیق فرعی پر منطبق کرنا اور احکام فرعی کو اصول سے اور قواعد کلی سے استخراج کرنا.

استنباط کا تاریخچه:

اس سے پهلے که استنباط کے معنی و مفهوم بیان ہو ، مناسب ہے که ابتدائی اجتهاد و استنباط کی مختصر تاریخ بیان کریں تا که معلوم ہو که طول تاریخ میں اجتهاد کن ادوار سے گذرا اور کن مراحل کو پشت سر گذارکر یهاں تک پهنچا

اجتهاد تاریخ میں مختلف مراحل و ادوار سے گذراہے جیسا که محمد علی انصاری تاریخ حصر الاجتهاد نامی کتاب کے مقدمه میں لکھتے ہیں :

بهت مشکل ہے که اجتهاد کے تمام ادوار کو بطور کامل بیان کیا جائے لیکن کلی طور پر سنی اور شیعه مکتب فقه میں اس کی جستجو کی جاسکتی ہے

سنی مکتب :

حقیقت میں سنی مدرسه فقه تین تاریخی مراحل سے گذرا ہے

۱- رسول خد(ص)کا دور

۲- صحابه و تابعیں کا دور.

۳- ائمه اربعه کا دور

۴- باب اجتهاد کے انسداد کا دور ( تقلید کا دور ).

ان تمام مراحل کی تفصیل اس رساله کی قدرت سے باہر ہے

____________________

۱ عباس علی ، زنجانی ، اصول فقه کی بحث سے ، ص۱۰

۱۲

مقدمات استنباط :

فقهای شیعه کے نظریات:

شهید ثانی ، علم فقه کو باره علوم پر استورا جانتے ہیں : تصریف لغت ، اشتقاق ،معانی بیان، بدیع، اصول فقه،منطق، رجال ،حدیث ،تفسیر آیات الاحکام

صاحب معالم استنباط مطلق کو نو چیز پر متوقف جانتے ہیں

۱- ادبیات عرب اعم از لغت و صرف و نحو سے آشنائی.

۲- آیات الاحکام کا علم چاہیے وه مراجعه کتاب کے ذریعه ہی کیوں نه ہو

۳- سنت معصومین اور کتب حدیث کی جا کناری اور ہر موضوع سے مربوط احادیث کو ڈھونڈنے اور مراجعه کرنے کی قدرت و صلاحیت.

۴- علم رجال اور راویان کے حالات کی جانکاری.

۵- اصول فقه کا علم او رمسائل اصول میں استنباط کی قدرت کیونکه استنباط احکام اسی علم پر متوقف ہیں اور ایک مجتهد کے لئے یه علم تمام علوم سے مهم ترهے

۶- انعقاد اجماع کے موارد کی آشنائی.

۷- علم منطق کی واقفیت کیونکه اقامه برهان اور صحت استدلال اسی پر متوقف ہے

۸- فروع مسائل کو اصول کی جانب لوٹانے اورتعارض ادله کی صورت میں راجح کو مرجوح پر تشخیص دینے اور نتیجه گیری کی صورت

۹- دیگر امور کے علاوه فروع فقهی کا جاننا اس دور میں لازم ہے.(۱)

فاضل نے کتاب الوافیه کے تقریبا چالس صفحه اسی بحث سے مخصوص کیے ہیں. وه بھی مجتهد کے لئے مذکوره علوم میں نو علوم کو لازم جانتے ہیں ، لغت ،صرف ،نحو، اصول ، کلام اورعلوم عقلی ، تفسیر آیات الاحکام اور علوم نقلی میں احکام کی احادیث اور رجال کا علم

____________________

۱ معالم الاصول ، المطالب التاسع فی الاجتهاد و التقلید.

۱۳

پھر وه علم کلام کے سلسله میں فرماتے ہیں :

بعض مسائل کلامی استنباط میں دخیل ہیں جیسے تکلیف میں قدرت کی شرط کا ہونا اور اسی طرح متکلم حکیم کے کلام میں خلاف ظاہر اراده کا قبیح ہونا اور بعض دوسرے مسائل جیسے “خدا و رسول کا صدق گفتار صحت اعتقادیں دخیل ہے نه که استنباط احکام” ان کی نظر میں احادیث احکام میں معتبر کتابوں کا ہونا بھی کافی ہے ان کی نظر میں دس علوم ایسے بھی ہیں جن کی دخالت استنباط میں جزئی ہے اور ان علوم کو استنباط کے تکمیل شرط میں قرار دیا جاسکتا ہے که عبارت ہیں:

۱- معانی

۲- بیان.

۳- بدیع ،که بعض موارد میں دلیل لفظی سے استفاده کے لئے ان تین علوم کی ضرورت ہے

۴- ریاضیات کا علم،ریاضیات مالی اور اقتصادی مباحث بالخصوص ارث دین ارو وصیت کی بحث میں کام آتاہے

۵- علم ہی ئت، یه علم وقت اور قبله کی بحث میں بهت ضروری ہے

۶- هندسه کا علم ، یه علم اندازه گیری کے کام آتا ہے مثلا آب کرکی اندازه گیری کے لئے یه علم مددگار ہے.

۷- علم طب ، خاص طور پر نکاح کی بحث میں جهاں عورت اور مرد کے جسمانی عیوب کے مسائل پیش آتے ہیں

۸- فروع فقهی کا علم یعنی مسائل فقهی اور اس سلسلے میں پیش کئے سوالات کی آشنائی ، حقیقت میں اس کام کے لئے قواعد کے مواقع ،موادر خلاف اور اقوال وفتاوا سے آشنائی

۹- فروع جزئی کو قواعد اور اصول کلی کی جانب لوٹانے کی قدرت لیکن فقهای معاصر کے نزدیک استنباط کے لئے صرف یه علم کافی ہیں :

۱- ادبیات عرب.

۲- علم رجال

۳- اصول فقه

اور مجتهد کے لئے ضروری نهیں که وه ادبیات عرب میں صاحب نظر ہو پس اس اعتبار سے استنباط کے لئے صرف رجال اور اصول فقه کافی ہیں

۱۴

مقدمات استنباط اہل سنت کی نظر میں :

اہل سنت کی نظر میں استنباط کے عمومی شرائط کچھ اس طرح ہیں

۱- بلوغ

۲- عقل

۳- نظافت

۴- ایمان

اور استنباط کے اساسی شرائط میں وه علوم ہیں که جن سے آگاہهی لازم ہے

۱- ادبیات عرب.

۲- قرآن کریم

۳- سنت نبوی

۴- اصول فقه

۵- قواعد فقهی

۶- استعداد فطری

استنباط کے تکمیلی شرائط :

۱- مورد استنباط دلیل قطعی سے فاقد ہو

۲- فقها ءکے موارد اختلاف امور سے آگاہی

۳- عرف سے واقفیت (عرف در زمان حاضر).

۴- اصل برائت سے آشنا ئی.

۵- عدالت اور صلاحیت

۶- ورع اور تقوا

۷- درگاہ رب العزت میں الهام صواب کے لئے نیازی مندی احساس

۸- اعتماد به نفس

۹- عمل اور علم و گفتار میں موافقت

۱۵

ضرورت استنباط:

وه موضوعات که جس پر گفتگو ہوجانی چاہیئے ان میں سے ایک بحث اہمیت و ضرورت استباط ہے مکتب اسلام استنباط پذیر مکتب ہے اور استنباط اسلام میں ایک لازم عمل ہے فقه شیعه میں صدر اسلام ہی سے استنباط کا دروازه کھلا تھا اور آج بھی کھلا ہے اور ہمیشه زنده مجتهد کی تقلید واجب ہے اسی بناپر فقه تشیع زنده اور کامل فقه ہے اور ہر زمانے میں تمام مشکلات کا جواب دینے والی ہے مسلمانوں نے قرن اول ہی سے استنباط کرنا شروع کردیا تھا استنباط اپنے صحیح مفهوم کے ساتھ اسلام کے لازمی امور میں سے ایک ہے اس کے کلیات کچھ اس طرح تنظیم ہوئے ہیں که یه کلیات استنباط پذیر ہیں استنباط یعنی اصول کلی اور اصول ثابت کا کشف کرنا اور انهیں جزئی اورمتغیر موارد پر تطبیق دینا ہے استنباط پذیر کلیات کے علاوه عقل کا منابع اسلامی قرار پانے سے استنباط آسان ہوگیاہے ،(۱)

اسلام میں استنباط کی ضرورت کے اثبات کے لئے کافی دلائل موجود ہیں جس میں سے ہم اس حصه میں صرف پانچ دلیلوں کو پیش کریں گے

الف : خاتمیت؛

ب: احکام اسلام اور ان کے اہداف کا کلی ہونا؛

ج: ابدی ہونا؛

د: جهان شمول ہونا ؛

ھ: جامعیت.

____________________

۱ مرتضی مطهری ، مقدمه چستی اسلام،۳ و حی نبوت ، ص۱۵۰

۱۶

خاتمیت :

ہر مسلمان جوپیغمبر(ص)کی رسالت اور خاتمیت کا مقصد ہے اسے شرع وعقل کی روشنی میں استنباط کو بھی ماننا پڑے گا قراں مجید میں ختم نبوت کے سلسله میں آیا ہے

( مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا )

” محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء علیھم السّلام کے خاتم ہیں.(۱)

آیت کا تیور بتارها ہے که اس آیت کے نزول سے پهلے بھی پیغمبر اسلام کے ذریعه نبوت کا اختتام مسلمانوں کےدرمیان ایک شناخته شده بات تھی ، مسلمان جس طرح آپ کو رسول خدا جانتے تھے اسی طرح آپ کے خاتم الانبیاء ہونے سےبھی واقف تھے یه آیت فقط اس بات کی یاد آوردی کرادتی ہےت که پیغمبر کو فلاں شخص کے منه بولےباپ سے مت پکارو بلکه اسے اسی حقیقی عنوان یعنی رسول الله اور خاتم النبین سے خطاب کرو.(۲)

احکام اسلامی اور اس کے اہداف کا کلی ہونا:

رسول اکرم (ص)نے اپنے اور اپنے کلام کے بارےمیں فرمایا:أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ أُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ مجھے جامع اور کلی کلام عطا کیا گیا(۳)

عبدالله ا بن عباس کهتے ہیں :میں نے رسول خدا سے سناکه آپ نے فرمایا:

و أَعْطَانِي اللَّهُ خَمْساً وَ أَعْطَى عَلِيّاً خَمْساً أَعْطَانِي جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ أَعْطَى عَلِيّاً جَوَامِعَ الْعِلْمِ .(۴) . آیات قرآن سے استفاده ہوتا ہے که قرآن میں اصول احکام اور کلی قواعد بیان کئے گئے ہیں اور مجتهد خاتم النبین کے دور میں اصول احکام اور قواعد کلی کی مدد سے استنباط کرتے ہوئے احکام جزئی کو کشف کرسکتے ہیں(۵)

____________________

۱ .احزاب ، ۴۰

۲ مرتضیٰ مطهری ختم نبوت ، ص۱۰

۳ مجلسی ، بحارالانوار ،ج۱۶، ص ۳۲۳

۴ .مجلسی ، گذشته،ص۳۱۷

۵ .محمد ابراہیم جناتی ، منابع استناط از دیدگاہ اسلامی ، ص ۲۸۸.

۱۷

جاودانگی اسلام :

خاتم النبین کی رسالت کی ایک خصوصیت یه ہے که ان کی حکومت ان کی شریعت ان کے لائے گئے احکام ہمیشه باقی رهنے والے ہیں-(۱)

قرآن میں صریحًا یه بات آئی ہے که خدا کی ذات وه ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور آئین حق کے ساتھ بھیجا تاکه ، آئین محمد(ص)کو تمام آئین پر غالب قراردے چاہے یه بات مشرکین پر گران کیوں نه گذرے.(۲)

دین اسلام کلی بھی ہےاور دائمی بھی ، اسلام ایک ابدی مکتب ہے جو کره زمین کے تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے جو روز قیامت تک اس دنیا میں آتے رهیں گے فقه میں استنباط شریعت کی بقا اور اس کی ترقی کی ضامن ہے استنباط اسلام کے جاویدانی ہونے کی ایک شرط ہے اس لئے که ہر موضوع اور ہر نئے مسئله میں قرآن و سنت کی مدد سے استنباط کرکے نئے احکام کشف اور استخراج کئے جا سکتے ہیں اور اس طرح دوسرے قوانین سے بے نیاز ہو سکتے ہیں اور صحیح استنباط ہر زمانے میں اور قیامت تک آنے والے سوالوں کا جوا دینے کی صلاحیت رکھتاہے

اسلام کا جهانی ہونا :

پیامبر اسلام تمام انسانوں کے پیامبر ہیں اس کی رسالت کا دایره اتنا وسیع ہے جس میں ساری دنیا سمیٹ جاتی ہے قرآن نے بھی اس حقانیت کی تصریح کردی ہے خدانے پیغمبر (ص)کو حکم دیا که اپنی رسالت کے جهانی ہونے کا اعلان کردیجئے ، کهه دیجئے ای لوگو میں تم سب کی جانب خدا کا فرستاده پیغمبر ہوں.(۳)

اسلام ایسا دین ہے که جو انسان کی زندگی تا قیام قیامت استوار نے کے لئے آیا ہے. اسلام کے قوانین میں اتنی قدرت ہے که ہمیشه ہر ملیت کی راہنمائی اور ان کے امور کو اداره کرسکتا ہے اسلام اس عتبار سے ایک جهانی نظام ہے اور کسی خاص جماعت یا معین مکان سے مخصوص نهیں ہے اسلام میں صحیح استنباط کی روشنی تمام ضرورتوں کا کامل جواب ہے

____________________

۱ مجلسی ، بحارلانوار ، ج۱۶ ،ص۳۳۲

۲ .سوره توبه ، آیه ، ۳۳ ،سوره فتح ، آیه ،۲۸ ، سوره صف آیه ، ۹،سوره اعراف آیه،۱۵۸

۳ سباء ، ۲۸

۱۸

جامعیت:

اسلام ایک جامع مذهب جس میں انسانی زندگی کےتمام ابعاد کو مورد توجه قرار دیا گیاہے ، اسلام انسان کی فردی اور اجتماعی مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتاہے قرآن بھی اس بات کی تصریح کرتے ہوئے سوره نحل کی ایک آیت میں فرماتاہے :

( وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ )

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے-(۱)

اسی بناپر ہمارا عقیده ہے که اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جو تمام ابعاد فردی، اجتماعی اقتصادی سیاسی اور ثقافتی اور تمام امور میں منظم نظام کا حامل ہے اسلام میں انسان کی زندگی کا کوئی عمل حکم سے خالی نهیں ہے

صاحب کشف القناع کهتے ہیں :تکلیف شرعی اور استقرار شریعت کے عقلی او رنقلی دالائل سے ثابت ہوجانے کے بعد ہمارے لئے مسلم ہے که زندگی کا کوئی ایسا مسئله نهیں ہے جس میں خدا کا حکم اولی نه ہو که اس میں اختلاف نهیں ہے(۲)

البته واضح ہے که اسلام میں ان تمام نیازمندیوں کا جواب صرف استنباط کی روشنی میں ممکن ہے مجتهد یں کرام جو اس فن کے ماہر ہیں وه ہمیشه لوگوں کے فکری اور اجتماعی مشکلات کا جواب دیتے ہیں اس لئےمر جعیت اور استنباط مکتب اسلام کے لازمی امور میں شمار ہوتے ہیں

____________________

۱ نحل ، ۸۹

۲ اسدالله تستری ، معروف به محقق کاظمی ، کشف القناع عن وجوه حجیۀ االاجماع ، ص ۶۰

۱۹

استنباط اصحاب کو استنباط کی تعلیم :

مکتب اہل بیت کی روایات میں صاف نظر آتاہے که خود پیغمبرگرامی اسلام(ص)اور ائمه معصومیں علیهم السلام نے اپنے صحابیوں کو استنباط اور اس کی روشوں کی تعلیم دی ہے وه روایات جن میں آیاہے که خود ائمه علیهم السلام نے بنفس نفیس استنباط کے راستے کو انتخاب کیا اور استنباط کی صحیح راہ اور فقه اسلامی کی روشنی کے ذریعه قرآن وسنت سے استنباط کیا اور اس شیوه پر اپنے اصحاب کو بھی تعلیم دی یه روایات اس حقیقت سے پرده اٹھاتی ہیں که ائمه اطهار علیهم السلام کے زمانے میں اصحاب امام کے درمیان استنباط رائج اور معمول تھا اور ائمه اپنے اصحاب کو اس کام کی دعوت کرتے اور بعض موارد میں امام سے سوال کے بجائے خود استنباط کرنے کا حکم دیتے تھے .اور کبھی کسی سوال کے جواب میں ان کویاد دلاتے تھے که یه حکم استدلال اور استنباط کے ذریعے قابل استخراج ہے اس دلیل کی وجه سے ہمارا اعتقاد ہے که اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جس کے پاس اجتماعی ، ثقافتی اقتصادی اور سیاسی پروگرام ہیں حکم شرعی زندگی کی تمام آنے والی ضرورتوں کو پورا کرتاہے اور انسان کی زندگی میں کوئی حادثه بھی حکم سے خالی نهیں ہے(۱)

____________________

۱ یاد نامه علامه امینی ، ص۲۷۳و ۲۷۲

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

(14) فرشتہ صفت

اذ قالت الملائکة یا مریم انَّ اللّٰه یُبَشِّرُکَ بِکَلمَةٍ مِنْه' اسمهُ المسیحُ عِیْسٰی ابْنِ مَرْیَم---(سوره مبارکه آل عمران،٤٠)

ترجمہ:

اور اُس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے کہا کہ اے مریم خدا تم کو اپنے کلمہ مسیح عیسی بن مریم کی بشارت دے رہا ہے۔

پیغام:

جبرائیل فرشتہ صفت انسان سے ہم کلام ہوتا ہے چاہے وہ انسان مرد ہو جیسے انبیاء یا عورت ہو جیسے حضرت مریم ـ۔

حضرت مریم ـ جیسی پاک و پاکیزہ خاتون ہی حضرت عیسیٰ ـ جیسے عظیم بچے کی پرورش کرسکتی تھیں۔

(15) عورت اور ذمہ داری

قَالَتْ یَا ایُّهَا الْمَلَؤا أَفْتونِی فِیْ امْرِی ---(سوره مبارکه نمل ، ٣٢)

ترجمہ:

اس عورت نے کہا میرے زعماء مملکت ! میرے مسئلہ میں رائے دو۔۔۔

۱۴۱

پیغام:

ملکہ بلقیس نہایت ذہین اور تیز بین ہونے کے باوجود اہم مسائل میں دوسروں سے بھی مشورہ کرتی تھی۔

بعض افراد نے ملکہ کو جنگ کے لیے اُبھارا مگر ملکہ نے عقلمندی سے کام لیا اور خود جناب سلیمانـ سے ملنے کے لیے چلی آئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بلاوجہ جنگ میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی جائیں۔ صحیح مدیریت ایک اچھی چیز ہے اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔

(16) برگزیدہ

وَ اذ قَالَتِ المَلَائِکَةُ یٰا مَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصطفیک و طَهّرکِ وَاصطفیٰکِ عَلٰی نسائِ العٰالمین-(سوره مبارکه آل عمران ، ٤٢)

ترجمہ:

اور اُس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تم کو چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دیدیا ہے۔

پیغام:

عورت ایسے بلند و بالا مقام پر پہنچ سکتی ہے کہ جہاں خدا اس کے لیے پیغام بھیجے فرشتے اُس ے ہم کلام ہوں اور آیات قرآن اس کی مدح سرائی کریں۔

کائنات میں چار برگزیدہ عورتیں ہیں۔ جناب مریم ، جناب آسیہ،جناب خدیجہ اور جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام کہ یہ سب کی سب کائنات کی خواتین کے لیے نمونہ عمل ہیں۔

جناب مریم کا نام مریم گیارہ مرتبہ قرآن میں آیا ہے اور یہ وہ نام ہے جسے خدا نے ان کے لیے منتخب کیا ہے۔

۱۴۲

(17) رضایت

وَالْوالِدٰاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کامِلَیْنِ----(سوره مبارکه بقره ، ٢٣٣)

ترجمہ:

اور مائیں اپنے بچوں کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی۔

پیغام:

والدہ بچہ کی پیدائش میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ معاشرے میں ماں کا کردار ایک اہم کردار ہے ماں کے دودھ کے قطرے بچے کی جان کے لیے حیات نو کا کام کرتے ہیں۔ ماں کا دودھ بچہ کی جسمانی نشوونما کے علاوہ مہر و محبت کا عظیم شہکار ہے۔

(18) احترام میں مساوی

وَقَضَیٰ رَبُّکَ ألّا تَعبُدُوا اِلَّا ایّاه وَ بالْوٰالِدِیْنِ اِحْسَانَا---(سورئه مبارکه اسراء ، ٢٣)

ترجمہ:

اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔۔

۱۴۳

پیغام:

جس طرح والد کے ساتھ نیکی کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح والدہ کے ساتھ بھی نیکی اور احسان کا حکم دیا گیا ہے اس لحاظ سے دونوں یکساں ہیں اور ان کے ساتھ نیکی کو خدا نے اپنی عبادت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ بچے کی پرورش اور تربیت میں ماں نہایت مشقت کا سامنا کرتی ہے اس لئے احترام اور خدمت میں اُسے باپ پر فوقیت حاصل ہے۔

(19) درجات میں مساوی

وَعَدَ اللّٰهُ المومنینَ وَالمُؤمِنَاتِ جنَّات ---(سورئه مبارکه توبه ، ٧٢)

ترجمہ:

اللہ نے مومن مرد اور مومن عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے۔

پیغام:

جس طرح مرد اور عورت کمال و سعادت تک پہنچنے میں یکساں ہیں اسی طرح جنت کے حصول میں بھی اُن میں کوئی فرق نہیں ہے جو جتنے نیک اور اچھے کام انجام دے گا اتنا ہی بلند درجہ پائے گا۔

(20) پاکیزہ زندگی

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أنْثٰی وَهُوَ مؤمِن فَلَنُحَیِیَنَّه' حیاةً طَیّبة- (سوره مبارکه نحل،٩٧)

۱۴۴

ترجمہ:

جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اُسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے۔

پیغام:

کمال اور سعادت تک پہنچنے کے لیے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جوچیز انسان کو کمال تک پہنچاتی ہے وہ اس کی روح ہے جو مرد اور عورت میں یکساں ہیں۔

(21) حق ملکیت

لِلرِّجٰالِ نَصِیْب مِمَّا اکتَسِبُوا وَلِلنِّسَائِ نَصِیْب مِمَّا اکتسبن ---(سوره مبارکه نسائ، ٣٢)

ترجمہ:

مردوں کے لیے وہ حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لیے وہ حصہ ہے جو انہوں نے حاصل کیا ہے۔

پیغام:

دورِ جاہلیت میں عورتوں کو حق ملکیت حاصل نہ تھا جب کہ قرآن نے عورتوں کے لیے بھی اُسی طرح حق ملکیت کو بیان کیا ہے جس طرح مردوں کے لیے۔ عورت کا حق ملکیت اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اُسے اپنی درآمدات میں اضافے اور اقتصادی اور معاشی امور میں دخالت کا حق حاصل ہے۔

۱۴۵

دسویں فصل(راہِ زندگی)

۱۴۶

(1) صدق نیت

وَ قُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقً- (سوره مبارکه اسراء ، ٨٠)

ترجمہ:

اور کہہ دیجئے کہ پروردگار مجھے اچھی طرح سے آبادی میں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال۔

پیغام:

اگر انسان مطالعہ کرنا، درس پڑھنا ، یا کوئی اور کام کرنا چاہتا ہے تو کامیابی کیلئے شروع سے آخر تک صدق نیت اور اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔

کسی بھی کام میں صدق نیت یہ ہے کہ خودبینی اور ستم گری سے پرہیز کریں اور نیک اہداف کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے تلاش وکوشش کرتے رہیں اور آخر تک اُس پر قائم رہیں اور کامیابی کیلئے خدا سے دعا کرتے رہیں۔

(2) پاک و پاکیزہ نفس

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکّٰاها- وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاها- (سوره مبارکه شمس ،٩-١٠)

۱۴۷

ترجمہ:

بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے۔

پیغام:

قرآن مجید نے اچھے اور برے راستہ کی نشاندہی کی ہے تاکہ ہم اپنے ارادہ و اختیار سے ان میں سے ایک کا انتخاب کریں جیسا کہ ایک انسان اگر یہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح و سالم اور تندرست رہے تو اس کے لیے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اگر وہ اُن اصولوں کی رعایت نہ کرے تو مریض ہوجائے گا، بالکل اسی طرح ہم عقل اور وحی کے بتائے ہوئے اصولوں کے ذریعہ سعادت اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں لیکن اگر ان اصولوں کی پابندی نہ کریں تو ناکام ہوجائیں گے۔

(3) صبر و استقامت

اِنَّمَا یُوٰفَّی الصّٰبِرُونَ أَجُرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ- (سوره مبارکه زمر، ١٠)

ترجمہ:

بس صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کو بے حساب اجراء دیا جاتا ہے۔

پیغام:

اگر ہم کمال انسانیت اور حقیقی معرفت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں صبر و استقامت سے کام لینا ہوگا۔ اور جس قدر ارادہ پختہ اور مضبوط ہوگا صبر و استقامت میں کمال حاصل ہوتا جائے گا۔

۱۴۸

(4) پر اُمید

لَا تَقْنِطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ----(سوره مبارکه زمر،٥٣)

ترجمہ:

اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

پیغام:

اگر ہمارے دل میں چراغ امید روشن نہ ہو تو ہم ایک لمحہ کے لیے بھی آگے قدم نہیں بڑھاسکتے خدا کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے، وہ اپنی تمام مخلوق سے محبت کرتا ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ وہ ہمارے ساتھ اور ہماری مدد کرنے والا ہے اگر ہمیں دنیا کی تمام مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہو تب بھی اُس پر امید کے سہارے آگے بڑھتے رہنا چاہیئے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سب پر غالب ہے۔

(5) نہ ظالم نہ مظلوم

لَا تَظْلِمُونَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ-

۱۴۹

ترجمہ:

نہ ظلم کرو اور نہ ظلم سہو۔

پیغام:

یہ مختصر اور عمیق کلام قرآن کے نظریہ کی عکاسی کرتا ہے۔ بعض مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ظلم کے خلاف سکوت اختیار کرلیتے ہیں جبکہ بعض لوگ خود ظلم کرتے ہیں لیکن قرآن کے ماننے والے نہ ظلم کرتے ہیں اور نہ ظلم سہتے ہیں۔

(6) وحدت و بھائی چارگی

اِنَّمٰا الْمُوْمِنُونَ اِخْوَة-

ترجمہ:

مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں۔

پیغام:

وحدت ، پیار ومحبت، الفت و ہمدردی ایک معاشرے کے لیے خیمے میں ستون کی مانند ہیں۔ اگر کسی معاشرے کے افراد میں اخوت و برادری کا رشتہ قائم نہ ہو تو تمام صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ آپس میں پیار محبت کے ساتھ پیش آنا فرمان الٰہی کے ساتھ ساتھ عقل سلیم کا تقاضا بھی ہے۔لڑائی جھگڑا شیطان اور پیار ومحبت خدا کی طرف سے ہے۔

۱۵۰

(7) تلاش و کوشش

لَیْسَ للانْسٰانَ اِلَّا مٰا سَعٰی-(سوره مبارکه نجم،٣٩)

ترجمہ:

انسان کے لیے اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔

پیغام:

ہماری آئندہ زندگی آج کی تلاش اور کوشش کی مرہون منت ہے۔ ہمیں محکم و استوار ارادہ کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے ہماری تمام تر جدوجہد نیک نیتی پر مبنی ہونی چاہیے جو ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

(8) عزت و سربلندی

مَنْ کَاْنَ یُرِیْدُ العِزَّهَ فَلِلّٰهِ العِزَّةُ جَمِیْعًا-(سوره مبارکه فاطر،١٠)

ترجمہ:

جو شخص بھی عزت کا طلبگار ہے وہ سمجھ لے کہ عزت سب پروردگار کے لیے ہے۔

۱۵۱

پیغام:

ہمیشہ خدا کی اطاعت کریں ، اس سے محبت کریں اور زندگی کے کسی بھی مرحلہ پر اس کی یاد سے غافل نہ ہوں تاکہ اس کی عزت کے وسیلہ سے ہم بھی سربلند ہوجائیں۔

وہ تمام کمالات کا مخزن اور سرچشمہ ہے ۔ ہمیشہ اس سے رابطے میں رہیں تاکہ اس کے کمالات کے وسیلہ سے ہم بھی باکمال ہوجائیں۔

(9)وفائے عہد

أَوْفُوْا بِالْعَهدِ اِنَّ الْعَهدَ کَاْنَ مَسْئُوْلا-(سوره مبارکه اسرائ،٣٤)

ترجمہ:

اپنے عہدوں کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

پیغام:

اس بات کا عہد کریں کہ آج کے بعد جو عہد بھی کریں گے اُسے پورا کریں گے چاہے وہ عہد ہم نے خود اپنے آپ سے کیا ہو یا کسی اور سے۔

۱۵۲