اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط25%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86077 / ڈاؤنلوڈ: 4552
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

ثانیا : یه که متقدمین نے دلیل عقلی کے مشخص و مصادیق پیش نهیں کیے اسی لئے بعض نے اسے برائت اور بعض نے اسے استصحاب سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے صرف استصحاب میں منحصر مانا ہے

دهرے دھیرے دهرے دھیرے آنے والے قرنوں میں یه بحث کافی حدتک ساف ستھره اور روشن انداز میں پیش کی گئی اور دلیل عقلی کو دو اساسی قسموں میں تقسیم کیا گیا :

۱- وه دلیل جو شارع کی جانب سے کسی خطاب پر متوقف ہو اسے لحن الخطاب ، فحوی الخطاب اور دلیل خطاب میں منحصر جاناگیا ہے ۔

لحن الخطاب یعنی عقل کا الغائے خصوصیت پر دلالت کرنا ۔

فحوی الخطاب یعنی مفهوم اولویت ۔

دلیل الخطاب یعنی مفهوم مخالف ۔

۲- دلیل عقل کی دوسری قسم وه موارد ہیں که جهاں عقل کسی خطاب اور قرآن و سنت کی لفظی دلیل کے بغیر دلالت کرے جیسے حسن وقبح عقلی-(۳) ۔

دلیل عقلی کی ان دو قسموں کو سب سے پهلے شهد اول نے تکمیل کیا شهید اول نے اپنی مایه ء ناز کتاب ذکری میں دوسری قسم کل مباحث پرکی برائت اصلی اور وه موارد که جهاں امر اقل واکثر کے درمیان دائر ہو وهاں اقل کو انتخاب کرنا اور استصحاب میں ان تین بحثوں کو انهوں نے اضافه کیا ہے-(۴) ۔

اس کے بعد متاخرین نے دلیل عقلی کو جامع تر اور روشن تر پیش کرنے کی کوشش کی اور دلیل عقل کے مباحث کو دو بنیادی مراحل میں آگے بڑھایا :

____________________

۳ معتبر محقق حلی ، ص ۶

۴ ذکری ، مقدمه ، ص ۵

۱۰۱

مرحلهء اول :

دلیل عقلی کے موارد و مصادیق کا بیان البته وه مصادیق جو حکم شرعی پر منتهی تمام ہوئی یه یحث صغروی ہے ۔

مرحلهء دوم :

عقلی دلیل کی حجیت کے دلائل (بحث کبروی )

مرحله اول ،حکم عقلی کے موارد ومصادیق:

پهلا مرحله دلیل عقلی کے مصادیق کا مشخص اور معین کرنا ہے علمائے علم اصول کے نزدیک تین مقام ایسے ہیں جهاں دلیل عقلی حکم شرعی پر مشتمل ہوتی ہے ۔

۱- وه موارد که جهاں گفتگو احکام شرعی کے علل و مبادی سے مربوط ہو ۔

۲- وه موارد که جهاں بحث خود احکام شرعی سے مربوط ہو ۔

۳- وه موارد که جهاں پر احکام شرعی کے معلولات کو زیر بحث لایا جائے-(۵) ان تیں موارد میں دلیل عقلی حکم شرعی پر مشتمل ہوتی ہے بهت جلد ان میں ہر ایک کی مثالیں پیش کی جائیں گی ۔

پهلامقام احکام عقلی کا احکام شرعی کے مبادی علل سے مربوط ہونا

اس سلسلے میں علماء فقهاء نے کها ہے که

اولا: احکام و دستورات الهیٰ سے صرف نظر خود انسان کے اختیاری افعال میں حسن و قبح پایا جاتا ہے یعنی بعض افعال عقل کی نظر میں انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں که جنهیں انجام دیاجانا چاہیے (ما ینبغی ان یفعل ) ایسے افعل که جس کا انجام دینے والا عقلا ءکی نظر میں قابل مدح و ستائش او ران افعل کے ترک کرنے والا عقلاء کی نظر میں قابل سرزنش و ملا مت قرار پاتاہے اس کی بهترین مثال عدل ہے چون کیونکه ذاتی طور سےا حسن رکھتاہے اور عقلا ءکی نظر میں عدل برتنے انجام دینے والا قابل مدح ہوتا ہے ۔

اور بعض افعال عقلا قبیح ہوتے ہیں که جن کا ترک کرنا ضروری ہے (مالاینبغی ان یفعل ) اور عقلاء کی نظر میں ان افعال کا انحام دینےوالا قابل مذمت و سرزنش قرار پاتا ہے که جس کی بهترین مثال ظلم ہے ظلم ذاتا قبیح اور ظالم عقلا ءکی نگاہ میں قابل مذمت ہے ۔

____________________

۵ انوار لاصول ، ج۲ ،ص۴۹۵

۱۰۲

ثانیا : یه که حسن و قبح عقلی او رحکم شرعی میں عقلی ملازمه پایا جاتا ہے البته یهاں ایک تیسری بحث بھی ہے که کیا اس ملازمهءعقلی سے حاصل ہونے والا قطع اور یقین شارع کی نظر میں حجت ہے ؟ انشاء الله اسکی بحث آئنده صفحات میں آئے گی ۔

پهلی بحث میں اشاعره نے حسن وقبح وعقلی کا نکار کیا ہے وه حسن وقبح کو شریعت کے اعتبار ی امور میں شمار کرتے ہیں اور کهتے ہیں فعل حسن وه ہے که جسے شارع حسن شمار کرے اور قبح وه ہے جسے شارع قبیح قرار دے چنانچه ان کا یه جمله مشهور ہے :

الحسن ما حسنه الشارع والقبیح ما قبّحه الشارع ۔.

انهوں نے اسی مسئله کو نسخ کی اساس و بنیاد قرار دیتے ہوئے کها که حسن وقبح شرعی کی اساس پر ہی شارع کو حق حاصل ہے که وه کسی فعل کو ایک مدت تک واجب اور پھر حرام قرار دے –(۶) لیکن" عدلیه " کے نزدیک حسن قبح شرعی نهیں بلکه عقلی اور ذاتی ہے-(۷) اور شارع اسی کا حکم دیتاہے جو حسن ہے اور اس فعل سے روکتاہے جو قبیح ہے ۔ شارع ہر گز ظلم کوواجب اور مباح اور عدل کو حرام یا مکروه قرار نهیں دیتا ۔

دوسری بحث میں اخباریوں نے حکم عقلی اور حکم شرعی کے ملازمه کا انکا رکیا وه کهتے ہیں اگر فرض بھی کرلیں که عقل حسن وقبح کو درک کرتی ہےتب بھی شارع پر عقلا لازم نهیں که وه مطابق عقل حکم دے اصولیوں میں صاحب فصول نے اس نظریه کو اختیار کیا ہے –(۸) ۔

اخباریوں نے اپنے اس دعوی کے اثبات میں کئی دلائل پیش کیےهیں ان کی سب سے پهلی دلیل یهی ہے که عقل میں اتنی قدرت و طاقت نهیں ہےکه وه تمام احکام کی حکمتوں کو درک کرسکے شاید بعض ایسی مصلحتیں ہوں جو عقل پر مخفی ہوں اگر ایسا ہے تو ہم حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان ملازمه کو ثابت نهیں کرسکتے ہیں ۔

اس کے علاوه کئی موارد ایسے ہیں جهاں حکم شرعی تو ہے لیکن کوئی مصلحت نهیں جیسے وه احکام و دستورات جو صرف جو انسان کےل امتحان کےلئے جاری کئے گئے اور اسی طرح وه موارد جهان مصلحت تو ہے لیکن حکم شرعی نهیں جیسے مسواک کرنے کے بارے میں رسول خدا (ص)سے نقل ہوا ہے که اگر مشقت نه ہوتی تو میں اسے امت پر واجب کرتا اسی طرح کئی ایسے موارد ہیں جهاں صرف بعض افراد میں ملاک موجود ہے جب که حکم شرعی تمام افراد سے متعلق ہے جیسے نسب کی حفاظت کےلئےعده کا رکھنا واجب ہے ۔

____________________

۶ شرح المقاصد تفتازانی ، ج۴ ، ص۲۸۲ ، سیر تحلیل کلام اہل سنت از حسن بصری تا ابو الحسن الشعری ، ص ۳۶.

۷ مصباح الاصول ، ج۳،ص ۳۴

۸ الفصول الغرویه ، ص ۳۱۹، اصول الفقه ، ج۱ ،ص۲۳۶

۱۰۳

اخباریوں کا جواب یه ہے که : جب شارع خود عاقل بلکه تمام عقلا کا سید و سردار ہے اس کے لئے کوئی معنی نهیں رکھتا که جو چیز تمام عقلا کے نزدیک مورد اتفاق ہو اور ایسے امور میں سے ہو جو حفظ نظام او رنوع انسانی کی بقا سے مربوط ہوں اس چیز کا حکم نه دے بلکه اگرحکم نه دے تو یه خلاف حکمت ہے اور اس کا حکم نه کرنا اس بات کی دلیل ہے که وه حکم عقلا کے نزدیک مورد توافق نهیں ہے یه بات معنی نهیں رکھتی که عقل حکم مستقل ہو او راس پر تمام جوانب روشن ہوں پھر یه دعوی ٰ کریں که حکم کی بعض جهتیں عقل پر مخفی ہیں-(۹) اور مسواک کرنے کی مصلحت میں مشقت خود جزء ملاک ہے یعنی مشقت کی وجه سے شارع نے حکم مسواک کو روک دیا رهی بات ان احکام کی جو امتحان کی غرض سے جاری کئےے گئے تو ان امتحانی احکامات کا شمار حقیقی احکامات میں نهیں ہوتا که ہم اس میں مصلحت تلاش کریں اگرچه ان احکامات کے ل مقدمات میں مصلحت ضرور کار فرما ہے ۔

مدت کے مسئلے میں مصلحت نوعی کافی ہے تاکه تمام موارد میں عورتوں پر مدت کا حکم لگا یا جائے خاص طور پر ان موارد یں میں که جهاں یه امتیاز کرناممکن نه ہو یامشکل ہو کس مورد میں حفظ نسب ، تحقق پائے گا اورکس مورد میں تحقق نهیں پائے گا خلاصه یه که ان مثالوں میں یا تو حکم عقل نهیں ہے یا صحیح تشخص نهیں دیا گیا ورنه حکم عقل کی قطعیت کے بعد شارع کی جانب سے اس کی مخالفت کرنا ناممکن ہے ۔

دوسرا مقام: احکام عقلی حکم شرعی کے دا ئرے میں :

یه مقام ان موارد سے مربو ط ہے که جهان جهاں عقل مستقل حکم نه رکھتی ہو بلکه ابتداء میں ایک شرعی حکم ہو که جس سے دوسرے حکم شرعی کے اثبات میں مدد لی جائے بطور مثال :

اگر کسی عمل کا واجب ہونا ثابت ہو تو عقل حکم کرتی ہے که اس عمل کے وجوب اور اس عمل کے مقدمه کے درمیان ملازمه عقلی موجود ہے نتیجتا یه کها جاسکتا ہے که وه مقدمه، وجوب شرعی رکھتا ہے ۔

یهاں پر مباحث هفتگانه کی بحث آئے گی یعنی وه سات موارد که جهاں حکم عقل کی مد دسے حکم شرعی کے اسنتباط میں مدد لی جاتی ہے که و ه سات موارد یه ہیں ۔

۱- مقدمه واجب کا وجوب ۔

۲- ضد واجب کا حرام ہونا ۔

۳- ایک ہی شئی میں امر و نهی کا امکان یا امتناع ۔

____________________

۹ اجود التقریر ات ،ج ۲ ،ص۳۸

۱۰۴

۴- اجزاء( یعنی امر واجب کی ادائیگی میں مامور کی اطاعت کا کافی ہونا ) ۔

۵- اس عبادت و معامله کا فاسد ہونا جومورد نهی قرار پائے ۔

۶- قیاس اولویت ۔

۷- بحث ترتب ۔-(۱)

تیسرا مقام: احکام عقلی احکام کا احکام کے نتائج احکام سے ارتباط

یهاں پر نتیجه ءحکم کے ذریعه حکم شرعی کا پته لگایا جاتاہے یعنی معلول کے ذریعه علت کا پته لگایا جاتاہے که جسے اصطلاحاً ( کشف انی ّ) کهتے ہیں بعنوان مثال کے طور سے شبه محصور میں علم اجمالی ہو ( یعنی یه معلوم ہو که شراب پینا حرام ہے مگر یه نهیں معلوم یه سامنے جو گلاس رکھا ہو ا ہے اس میں شراب ہے یاپانی ہے اور کیا اس کا پینا جائز ہے یا حرام ) تو ان موارد میں چونکه اس میں نتیجهء حکم ( یعنی صحت عقاب ) کا اجمالی علم ہے اس نتیجهءحکم کی مدد سے حکم شرعی جیسے وجوب احتیاط ( یعنی موافقت قطعیه کے وجوب ) کو کشف کیا جاسکتا ہے-(۲) ۔

مرحلهء دوم: دلیل عقلی کی حجیت کے دلائل

دلیل عقل سے مراد عقل کےوه قطعی قضیے ہیں که جن کی حجیت ایک مسلم امرهے کیونکه ہم ہر چیز کو قطع و یقین کے راستے سے جانتے اور پهنچانتے ہیں یهاں تک کهجیسے اصول دین خدا ،پیغمبر(ص)اور تمام مذهبی عقاید کا تعلق اسی عقل قطع و یقین عقل سے ہے اسی طرح تمام علوم کے علمی مسائل کو اسی راستے سے درک کیا جاتا ہے ۔

دوسری بعبارت دیگر میں قطع و یقین کی حجیت ایک ذاتی امر ہے او راگر لازم ہو که ہم قطع و یقین کی حجیت کو دیگر یقینی دلائل کے ذریعےثابت کریں تو اس سے دور او رتسلسل لازم آئے گا ۔

هاں اگر حجیت عقل سے مراد عقل ظنی ہو نه که عقل قطعی تو اس عقل ظنی کی حجیت کےلئے ایک قطعی اور یقینی دلیل کی ضرورت ہے مثلا اگر کوئی قیاس ظنی یا استحسان اور اس کے مانند جیسے امور کو حجت مانے تو اس کی حجیت کو دلیل قطعی کے ذریعه ثابت کرنا ہوگا ۔

____________________

۱ باوجود یکه تمام مباحث عقلی ہیں لیکن آج انهیں مباحث الفاظ میں ذکر کیا جاتا ہے شاید مباحث الفاظ میں ذکر کرنے کی علت یه ہے که احکام ان احکام کے تابع ہیں جو کتاب و سنت سے لئے جاتے ہیں

۲ انوار الاصول ، ج ۲ ، ص۵۱۵

۱۰۵

دلیل عقل کی حجیت پر اشکالات

جس طرح دلیل عقل کی حجیت کو ثابت کیا گیا اس کے پیش نظر دلیل عقل کی حجیت پر اشکال نهیں ہونا چاہئیے لیکن اس کے باوجود اخباریوں نے دلیل عقلی کی حجیت پر اعتراضات کیے ہیں ان کے اعتراضات سے اندازه ہوجائے گا که یه تمام شبهات عقل قطعی کی جانب توجه نه کرنے کی وجه سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان کے اہم اعتراضات کچھ اس طرح ہیں،

۱- استنباط میں عقل کی دخالت کا نتیجه یه ہوگا که قیاس و استحسان حجیت پاجائیں گے اخباریوں کی جانب سے اصولیوں کی ایک مذمت یهی ہے خاص طور سے بعض اہل سنت جو ادلهء اربعه کے بیان میں چوتھی دلیل قیاس اور استحسان کو قرار دیتے ہیں پس یهیں سے روشن ہوجاتا ہے که اخباریوں کے نزدیک دلیل عقل کا تنها فائده حجیت قیاس کی حجیت ہے نهیں تو کم ازکم اہم ترین ثمره ضرور ہے اس اشکال کا جواب روشن ہے کیونکه شیعه اصولیوں کا اتفاق ہے که قیاس و استحسان حجت نهیں رکھتے اس کے علاوه یه دونوں دلیلیں دلائل ظنی میں شمار ہوتیے ہیں اس لئے محل بحث سے خارج ہیں ۔

۲-عقلی استدلال دو طرح ہیں

بعض عقلی دلیلوں کے فقط حسی نهیں یا حس کے نزدیک ہیں جیسے ریاضیات اور هندسه کے مسائل اس قسم کی عقلی دلائل میں خطاب کا امکان نهیں اور یه مسائل دانشمندوں کے در میان اختلاف کا سبب نهیں بنتے کیونکه فکری خطاؤں کا تعلق ماده سے ملی ہوئی صورت سے ہے لیکن جن دلائل کے مواد حس یا اس سے نزدیک به حس ہوں ان میں ماده اور صور کے ذریعه خطا کا امکان نهیں ہے کیونکه جن قضیوں کا تعلق شناخت صور سے ہے وه قضیے دانشمندوں کے نزدیک واضح امور میں شمار ہوتے ہیں ۔

لیکن بعض مواد ، عقلی مسائل میں حس سے دور ہیں جیسےحکمت طبیعی اور حکمت الهیٰ کے مسائل یا علم اصول فقه یا وه مسائل جو فقهی مگر عقلی ہوں ان مسائل میں صرف عقل پر تکیه نهیں کیا جاسکتا اور نه منطق کے ذریعه اسے ثابت کیا جاسکتا ہے کیونکه علم منطق ذهن کو صور میں خطا در صور کرنے سے محفوظ رکھتا ہے نه مواد میں خطا سے اور فرض یه ہے که یه قضیے احساس سے دور ہیں اسی لئے اس قسم کے قضیوں میں دانشمندوں کے درمیان کافی اختلافات پائے جاتے ہیں اور اگر کها جائے که ادله ءنقلی میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کا جواب یه ہےکه مسائل شرعی میں اختلاف مقدمات عقلیه کے اضافه سے پیدا ہوتا ہے ۔

۱۰۶

جواب

اولا : جیساکه گذر چکا دلیل عقلی کی حجیت اس کے قطعی ہونے کی صورت میں ہے اور جس شخص کو کسی چیز کا قطع و یقین ہو اس میں خلاف کا احتمال نهیں دیاجاتا لیکن دلیل ظنی جو که خطا پذیر ہے محل بحث سے خارج ہے ۔

ثانیا : بهت سے اخباری آپس میں اختلاف رکھتے ہیں جب که وه حجیت عقل کے منکر ہیں اور عقل کو ادلهء نقلیه میں بھی داخل بھی نهیں کرتے ۔

۲- ایک اور اشکال ان روایات کی وجه سے ہے جس میں ظاہر استنباط احکام میں عقل کے استعمال کی سرزنش کی گئی ہے او ران ان روایات کے تین گروه ہیں –(۱) ۔

گروه اول

وه روایات که جن میں رائے پرعمل به کرنے رائے سے منع کیا گیا ہو مثلا روایات میں آیا ہے که مؤمن کی علامت یه ہے که وه اپنے دین کو اپنے پروردگار سے لے نه که لوگوں کی رائے سے-(۲) ۔

ایک اور روایت میں آیا ہے : فقط پیغمبر اکرم(ص)کی رائے حجت ہے نه کسی اور کی –(۳)

کیونکه خداوند عالم نے سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا :

"لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ "

“لوگوں کے درمیان حکم خدا کے مطابق فیصلہ کریں” ۔(۴)

ایک اور حدیث میں آیا ہے که جس وقت سوره "اذا جاء نصر الله والفتح " نازل ہوا تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

خداوند عالم نے میرے بعد اٹھنے والے فتنوں میں جهاد کو مؤمنین پر واجب قرار دیا

وه میرے بعد دین میں بدعت در دین ( یعنی جس وقت لوگ اپنی رأئے پر عمل کریں گے ) سے جهاد کریں گے –(۵) ۔

____________________

۱ انوار الاصول ،ج۲ ،ص۲۷۵

۲ ان المؤمن اخذ دینه عن ربه ولم یا خذه عن رأیه ، وسایل شیعه ،ج۱۸ ، باب ۶، از ابواب صفات القاضی ،ج۱۱،اسی طرح حدیث ۱۴ ہے

۳ .گزشته،ح۲۸

۴ نساء ،۱۰۵

۵ .گزشته ، باب ،۶،ح ۵۰

۱۰۷

گروه دوم

وه روایات که جن میں حقائق قرآن او راحکام کو عقل کے ذریعه درک کرنا غیرممکن بتایا گیا ہے عبدالرحمن بن حجاج کهتے ہیں : میں نے امام صادق علیه السلام سے سنا ہے که آپ نے فرمایا:

لیس شئی ابعد من عقول الرجال عن القرآن ”۔.(۶)

قواعد فقهیه

فقیه کےلئے مهم ترین امو رمیں سے ایک امر که جس میں تحقیق و جستجو لازم ہے ، قواعد فقه ہیں ۔ قواعد فقه سے کئی ایک مباحث او راستنباط احکام میں استفاده کیا جاتاہے او رکبھی خارجی موضوعات میں مشکلات کے حل کےلئے ان سے مدد لی جاتی ہے ۔

مهم ترین قواعد که جن کی تعداد تیس سے زیاده ہے ان میں سے چند قاعدے یه ہیں قاعده ضرر ولاحرج ،قاعده صحت ،قاعده میسور ،قاعده ید، قاعده تجاوز وفراغ ،قاعده ضمان ، قاعده اتلاف ، قاعده غرر ، قاعده اقرار ، وغیره ان قواعد کے مدارک و مستندات قرآن او روه ورایات ہیں جو پیامبر اعظم و ائمه معصومین علیهم السلام سے وارد ہوئے ہیں اور ان میں بعض قواعد وه ہیں جو تمام عقلائے عالم کے درمیان رائج ہیں جسے اسلام نے بھی صحیح ماناہے مثال کے طور پر قاعده لاحرج ( یعنی جن تکالیف میں انسان عسروحرج اور ضرر و زیان میں گرفتار ہو ، جب تک وه عسرو حرج باقی ہے وه تکالیف مکلف کی گردن سے ساقط ہیں ) ۔

اس قاعده کو سورۂحج کی ایک آیت سے اخذ کیا گیا ہے جس میں ارشاد ہے :

"( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ) "(۷)

“اور دین میں کوئی زحمت قرار نهیں دی ہے” ۔

اس کے علاوه رسول اسلام(ص)کی معروف حدیث ، حدیث“" لاضر ولاضرار...”" که جس کا ذکر تمام منابع اسلامی میں آیا ہے استفاده ہوتاہے که وه احکام جو مسلمانوں کےلئے ضرر و زیان کا سبب ہیں ان کی گردن سے ساقط ہیں اسی طرح قاعده "حجیت قول ذی الید" ایسا قاعده ہے جو تمام عقلا کے درمیان جاری ہے اور شارع مقدس نے اسے صحیح ماناہے ۔

یه قواعد بهت اہم اور مفید ہیں ، فقیه ان قواعد کی مدد سے انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے متعدد مشکلات اور جدید مسائل کو ( بالخصوص و ه مسائل که جن کے بارے میں کوئی خاص روایت وارد نهیں ہوئی ہے ) آسانی سے حل کرسکتا ہے اگر کوئی فقیه قواعد فقه پر کامل تسلط نه رکھے وه ابواب فقیه کے اکثر بالخصوص جدید مسائل کے حل میں عاجز رهے گا-(۸) ۔

____________________

۶ گزشته حواله ، باب ۱۰ ،ح۲۲، باب ۱۱ ،ح ۳۲ ، باب ۶ ، ح ۷ .---۷ حج ، ۷۸

۸ قواعد فقه سے بیشتر اشنائی اور ان کے مدرک دلائل اور تقسیمات سے کامل وافقیت کے لئے آیة الله مکارم شیرازی کی کتاب القواعد الفقیه کی جانب رجوع کیا جاسکتاہے

۱۰۸

اصول عملیه

اصول عملیه سے مراد وه قواعد واصول ہیں که جس وقت فقیه معتبر شرعی دلائل جیسے کتاب و سنت و اجماع دلیل و عقلی تک دسترسی پیدا نه کرسکے ایسی صورت میں وه انهی اصول عملیه کی جانب رجوع کرتاہے مثال کےطور پر جب بھی یه شک کرے که کیا فلاں موضوع خمس و زکات سے متعلق ہے یا نهیں اور اس سلسله میں ادلهء اربعه سے بھی کوئی دلیل نه ملے تو وه ایسی صورت میں ( اصل برائت ) کی جانب رجوع کرتاہے اصل برائت یعنی اصل یه ہے که جب تک کسی معتبر دلیل سے تکلیف شرعی ثابت نه ہو تب تک مکلف پر کوئی ذمه داری نهیں ہے ۔

اسی طرح اگرفقیه کو کسی فعل کے وجوب یا حرمت عملی میں شک ہو یعنی یه نه معلوم ہو که یه عمل واجب ہے یا حرام اور اس عمل کی حرمت و وجوب پر کوئی دلیل بھی موجود نه ہو تو ایسی صورت میں فقیه ( اصل تخییر) کی جانب رجوع کرتاہے جس میں مکلف مختار ہوتا ہے که اس فعل کو انجام دے یا اجتناب کرے۔ اگر موارد شک کےموارد میں کوئی سابقه پهلے سے کوئی حالت موجود ہو ، بعنوان مثال کے طور پر مکلف یه جانتاہو که عصیر عنبی ( انگور کارس آگ ) پر پکنے اور غلیان سے پهلے پاک تھا ، جب بھی اسے یه شک ہو که غلیان باعث نجاست ہے یا نهیں اور اس کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی نه ہو تو سابقه پهلی والی حالت سے( استصحاب) کرکے اس پر طهارت کا حکم لگائے گا ۔

اور کبھی کسی چیز میں شک کرے لیکن اس مشکوک کے اطراف میں واجب و حرام کا اجمالی علم ہو مثال کے بطور مثال پر مکلف یه جانتاہے که کام معیشت کے مقدمات فراہم کرنے کےلئے کیا جائے اس میں نماز واجب ہے لیکن یه نهیں معلوم که آیا نماز قصر ہے یا تمام ، پس حالت سفر میں وجوب نماز کا اجمالی علم تو ہے لیکن نماز کے قصر یا تمام ہونے میں شک ہے ۔. اور نماز کے قصر یا تمام ہونے پر کوئی معتبر دلیل بھی نهیں ایسی صورت میں مکلف اصل احتیاط کی بنیاد پر اپنا عملی وظیفه مشخص کرتے ہوئے دونوں حکم بجالائے گا یعنی نماز کو تمام اور قصر دونوں طرح سے انجام دے گا تاکه اسے برائت ذمه یعنی ذمه داری کی ادائیگی کا یقین ہوجائے کیونکه شبهات محصوره میں علم اجمالی کاہونا احتیاط کا باعث ہوتا ہے ۔ برائت و استصحاب تخییر و احتیاط یه چاورں اصول اصول عملیه کهلاتے ہیں جنهیں مجتهد معتبر شرعی دلیل نه ہونے کی صورت میں اور شک میں موجود ه شرائط کے مطابق ان میں سے کسی ایک اصل کی مدد سے اپنے اور مقلدین کے عملی وظفیه کو مشخص کرتاہے ۔

۱۰۹

ب دوسری عبارت دیگر میں کسی بھی حالت میں فقیه پر کشف احکام کشف کرنے کے راستے مسدود نهیں بلکه کھلے ہوئے ہیں فقیه استنباط کی اس میں سنگلاخ وادی میں کبھی معتبر اجتهادی دلائل تک پهنچتاہے اور ان دلائل کی مدد سے احکام کو کشف کرتاہے .اور کبھی کسی حکم میں شک و شبه کا شکار ہوتاہے پهلی صورت میں وه دلیل کے مطابق فتوی دیتاہے اور دوسری صورت میں ان چار اصولوں کی مدد سے وظیفه عملی معین کرتاہے پس جن امور میں اصل حکم میں شک ہو که واجب ہے یا حرام تو وهاں اصل برائت جاری کرتاہے اور جن موارد میں واجب یا حرام میں سے کسی ایک امر کے درمیان شک ہو تو اصل تخییر سے مدد لی جاتی ہے اور جن موارد میں حکم سابقه پهلی حالت رکھتا ہو ( چاہے وجوب ہو یا حرمت ) تو ان موارد میں استصحاب کے مطابق سابقه پهلی حالت پر حکم لگایاجائے گا او رجن موارد میں واجب دو یا چند احتمال میں محصور ہو یا یه که حرام چند احتمالات میں محصور ہو تو ایسی صورت میں احتیاط کا حکم لگایاجائے گا یعنی اصل احتیاط کے حساب سے واجب کے تمام احتمالات انجام دینے ہوں گے اور دوسری صورت میں حرام کے تمام احتمالات سے اجتناب کرنا ہوگا ۔

یهاں پر دو نکته قابل توجه ہیں

الف : اصول عملیه (یعنی برائت و استصحاب و تخییر و احتیاط ) کی ہر اصل محکم او رمعتبر دلیل پر استوار ہے فقط فرق اتنا ہے که کسی اصل کی دلیل عقلی ہے جسے اصل تخییر او رکسی اصل کی دلیل شرعی ہے جیسے اصل استصحاب اور کسی اصل کی دلیل عقلی اور شرعی دونوں ہے جیسے اصل برائت و احتیاط ہے ان چاروں اصولوں کو علم اصول کی کتابوں میں ان کے دلائل کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔(۹)

ب: مذکوره چار اصول کو کبھی شبهات حکمیه اور کبھی شبهات موضوعیه میں جاری کیا جاتاہے ۔ شبهات حکمیه یعنی وه مقامات که جهاں حکم شرعی معلوم ومشخص نه ہو (جیسے اوپر بیان کی گئی تمام مثالیں ) شبهات موضوعیه یعنی وه مقام که جهاں حکم شرعی تو مشخص ہے لیکن موضوع خارجی کی وضعیت روشن نهیں بطور مثال کے طور پر: ہم جانتے ہیں که اسلام میں مست کرنےوالے مشروبات اسلام میں بطور قطعی طور پرحرام نهیں لیکن ہمیں شک ہے که کیا یه مایع و مشروب جو ہمارے سامنے ہے مسکر ہے یا نهیں اس قسم کے موارد میں برائت او راسی طرح مناسبت کے حساب سے دوسرے اصولوں کو جاری کیا جائے گا ، اصول عملیه کے شرائط و خصوصیات او رکیفیت اجراء کے سلسله میں مباحث بهت زیاده دقیق ہیں : اسی لئے صرف ایک مشّاق مجتهد ہی نهایت دقت و مشق کے بعد انهیں جاری کرسکتاہے اور اصول اجراء کرنےئے اصول کے راستے تلاش کرسکتاہے ۔

____________________

۹ کتاب انوار اصول اور دیگر کتابوں کی جانب رجوع کیا جائے

۱۱۰

استنباط کے مورد اختلاف منابع

اب تک جن منابع کے بارے میں گفتگو ہوئی وه سارے منابع استنباط کے مورد اتفاق منابع ہیں ان کے علاوه اور بھی منابع ہیں که جن میں فقهاء اتفاق نظر نهیں رکھتے پهلے یه بات گذر چکی که مصادر اور منابع احکام ایسے ہونے چاہئیے جس سے قطع و یقین حاصل ہو اور اگر ان سے ظن و گمان حاصل ہوتا ہوتو اس صورت میں کوئی ایسی قطعی دلیل ہو جو اس ظن و گمان کے اعتبار و حجیت کو ثابت کرے ۔

کتاب کے اس حصه میں جن منابع اسنتباط پر گفتگو ہوگی یه وه موارد ہیں که جس پر (اجتهاد رائے) کا کلمه صادق آتاہے۔ اس لئے که اجتهاد کی دو اصطلاح ہیں :

الف : عام طور پر اجتهاد اسے کهتے ہیں جس میں فقیه ادلهءشرعیه کے ذریعه حکم شرعی کو کشف کرنے کی کوشش کرتاہے اس طریقه کا اجتهاد تمام علمائے اسلام کے نزدیک معتبر اور مورد اتفاق ہے ۔

ب: اجتهاد به معنای خاص وه اجتهاد ہے که جسے اجتهاد بالرأئے کها جاتا ہے اس اجتهاد میں مجتهد استحسان، مصالح مرسله اور وه موارد که جن میں نص موجود نه ہو سد و فتح ذرایع سے کام لیتاہے اسی لئے بعض افراد کلمه اجتهاد کو قیاس کا مترادف مانتے ہیں –(۱)

اجتهاد کی یه دوسری قسم اہل سنت سے مخصوص ہے ، اخباریوں کی جانب سے شیعه اصولیوں پر جو اعتراضات ہوئے او راجتهاد کو مذموم قرار کیا دیا گیا اس کی وجه یهی تھی که وه ان دو قسم کے اجتهاد میں فرق کے قائل نهیں ہوئے اور یه سمجھ بیٹھے که شیعه مجتهدین کا اجتهاد اہل سنت کے اجتهاد کی طرح اجتهاد بالرأئے پر استورا ہے اسی لئے انهوں نے مجتهدین اور ان کے اجتهاد کی سخت مخالفت کی ۔

اگرچه (اجتهاد بالرأئے )کے طرفداروں نے استحسان ،قیاس او ردیگر تمام موارد کے اعتبار و حجیت پر کتاب و سنت سے دلیلیں پیش کی ہیں لیکن ہماری نظر میں اس قسم کے اجتهادات کی دو وجهیں ہیں :

الف : ایک وجه خود صحابه ءکرام ہیں بعض صحابه ءکرام کا اجتهاد بالرأئے سے کام لینا جب که دیگر صحابه ءاس قسم کے اجتهاد کے سخت مخالفت تھے جناب ابن عباس اور عبدالله بن مسعود کے بارے میں نقل ہوا ہے که وه اجتهاد بالرأئے کرنے والوں کو مباہل ه کی دعوت دیتے تھے حضرت علی علیه السلام سے روایت ہےکه آپ نے فرمایا :

____________________

۱ روضة الناضر ، ج۲ ،ص۱۴۱

۱۱۱

لوکان الدین بالرأی لکان المسح علی باطنة الخف اولی من ظاهره ”۔.

اگر نظام دین اجتهاد بالرأئ پر قائم ہوتا تو تلوے پر مسح کرنا پیر کی پشت پا پر مسح کرنے سے بهتر سمجھاجاتا-(۲) ۔ وه افراد جو اجتهاد بالرائے میں سرفهرست ہیں اورشهرت رکھتے ہیں ان میں سب سے پهلے عمرابن خطاب ہے اور اصحاب کے بعد ابو حنیفه کو امام اہل الرأئے کا امام کهاگیا اسی وجه سے اکثر علماء و محدثین نے ابو حنیفه کی مذمت کی ہے-۳ مکتب رائےکی نسبت فقهائے کوفه کی جانب دی گئی جب که ان کے مقابل فقهائے مدینه کو مکتب حدیث سے یاد کیا گیا-(۴) . وه افراد که جن کا نام اصحاب الرأئے میں آتا ہے ان میں سے چند نام یه ہیں ابو یوسف ابن سماء ابو مطیع بلخی اور بشیر مرلسی-(۵) ۔

ب: اجتهاد بالرأئے کے رواج کی دوسری وجه یه که رحلت پیغمبر (ص)کے بعد وصول احکام کے راستے بند ہوگئے جیسے ہی آپ نے وفات پائی وحی کا سلسله منقطع ہوگیا اور لوگ خاندان وحی یعنی اہل بیت پیغمبر(ص)سے دور ہوگئے جس کی وجه سے وه حقیقی احکام جو شارع کے مورد نظر تھے ان تک پهنچنے کا راسته بند ہوگیا اور یهی بات اجتهاد بالرائے کی تقویت کا سبب بنی ب دوسری عبارت دیگر میں انسداد احکام کا تصور اجتهاد بالرائے کا سبب بنا کیونکه روز مره کے حوادث و واقعات سے حالات کی تبدیلی اور وسائل و آلات کی ترقی کی وجه سے ہر روز نئے نئے مسائل وجود میں آتے رهے که جس کی تعداد کم نه تھی او ریه تصور کیا جانے لگا تھا که ایک طرف نصوص دینی ان مسائل کے جواب کےلئے کافی نهیں دوسری طرف دین اسلام آخری دین الهیٰ ہے جو رهتی دینا تک قائم و دائم رهنے اور تمام وظایف کو بیان کرنے والا ہے پس لازم ہے که اس قسم کے اجتهاد ات کو حجت قرار دے کر جدید مسائل میں استنباط احکام کا رسته کھولاجائے ۔

اس کے برعکس پیروان مکتب اہل بیت علیهم السلام ائمه معصومین علیهم السلام کی سنت کو پیغمبر(ص)کی سنت کے برابر جانتے تھے اس لئے انهیں احادیث کی دسترسی میں کوئی مشکل یپش نهیں آئی اور وه اس لحاظ سے غنی رهے اور واضح ہے که سنت میں ایسے کلی اور عام قواعد موجود ہوتے ہیں جنهیں جزئی موارد پر تطبیق دیاجاسکتا ہے کیونکه ان کلی قواعد میں موارد شک ، فقدان نص یا تعارض نصوص کی صورت میں مکلفین کے وظائف کو بیان کیا گیا ہے-(۶) اسی لئے اجتهاد بالرائے کی نوبت ہی نهیں آئی اس لئے که وه اصول جن کا ذکر اوپر گذر چکا وه رفع انسداد کو دور کرنے کےلئے کافی ہیں ۔

بهرحال ہم یهان اجتهاد بالرائے کے چند مصادیق کو بیان کرتے ہیں ۔

____________________

۲ الاحکام فی اصول ا لااحکام ، ج ۴ ، ص ۴۷ ، سنن بهیقی ، ج۱ ، ۲۹۲ .--۳ تاریخ بغدادی ،ج ۱۳ ، ص ۴۱۳ ---.۴ مناہج الاجتهاد فی الاسلام ، ص ۱۱۵ .---۵ مناہج الاجتهاد فی الاسلام ، ص ۱۱۷ .--۶ اسی کتاب میں مسائل مستحدثه کے عنوان کے تحت جو مطالب آئے ہیں ان کی جانب رجوع کریں

۱۱۲

قیاس (مترجم)

کسی خاص موضوع کےحکم کو دوسرےموضوعات پر جاری کرنے کو قیاس کهتے ہیں(مترجم)-(۱) . قیاس کی چار قسمیں ہیں:-(۲)

۱ (مترجم) قیاس کی تعریف :

قیاس لغت میں اندازه گیری کے معنی میں آیاہے مثلا کهاگیاہے که قست الثوبُ بالذراع ،کپڑے کو ذرایع کے ذریعه ناپا

لیکن اصطلاح میں اس کی مختلف تعریفین کی گئی ہیں الاصول العامه للفقه المقارن نامی کتاب میں آیا ہے که “قیاس عبارت ہے که فرع کا حکم شرعی کی حالت میں اپنے اصل کے برابر ہونا ”.

استاد عبدالوهاب خلاّف قیاس کی تعریف میں کهتے ہیں :

قیاس اصولیوں کے نزدیک ایسا مسئله که جس پر نص موجود نه ہو اسے کسی ایسے مسئله سے که جس پر نص آئی ہےملحق کرنا او ریه الحاق اس حکم سے ہے که جس کے لئے نص وارد ہوئی ہے اس لئے که دونوں مسئله علت حکم کے اعتبار سے مساوی ہیں(۲)

مرحوم مظفر فرماتے ہیں :

امامیه کی نظر میں قیاس کی بهترین تعریف یه ہے که :

هواثبات حکم فی محّل بعلة لثبوته فی محّل آخر بتلک العلةّ .(۳)

قیاس یعنی ایک حکم کو جو اس کی علت کی وجه سے ثابت ہے اسے دوسرے مقام پر اسی علت کی وجه سے ثابت کرنا

۲ (مترجم) قیاس کے ارکان :

قیاس کے چار رکن ہیں :

۱- اصل که وهی مقیس علیه ہے حکم اصل شارع کی جانب سے صادر ہوا ہے اور روشن ہے جسیے شراب کی حرمت

____________________

۱-(مترجم) الاصول العامه للفقه المقارن ، ص ۳۰۵

۲ .علم اصول الفقه ، ص۵۲

۳ اصول الفقه مظفر ، ج۳ ،ص۸۳

۱۱۳

۲- فرع وهی مقیس ہے که جس کا حکم شرعی معلوم نهیں اور قیاس کرنے والا یه چاہتاہے که اس کے حکم شرعی کو ثابت کرے مثال میں فرع یا مقیس وهی فقاع ہے.

۳- علت یعنی وه جهت مشترک جو اصل و فرع کے درمیان ہے که جسے اصطلاح میں جامع بھی کهتے ہیں مثال میں “جامع” وهی مسکر ہوناہے جو که شراب اور فقاع میں مشترک ہے

۴- حکم ، حکم سے مراد وهی حکم شرعی ہے که جو اصل پر وارد ہوا دوسری عبارت میں حکم اصل روشن اور معتبر شرعی دلیل سے ثابت ہواہو جیسے شرب کا حرام ہونا مخالفوں کی.

۱- قیاس منصوص العله

یه ہے که شارع کسی حکم میں علت کا ذکر کرے اور چونکه حکم کا دار و مدار علت پر ہوتاہے .پس فقیه ان موضوعات میں که جن میں وه علت موجود ہے حکم کو ایک موضوع سےدوسرے موضوعات پر جاری کرتا ہے مثال کے طورپر شارع کهے :

لاتشرب الخمر لا نه مسکر.

شراب مت پیو کیونکه شراب نشه آور اور مست کرنے والی ہے ۔

اگر یهاں پر فقیه حرمت کے حکم کو دیگر مست کننده اشیاء پر جاری کرے تو یه عمل قیاس مصنوص العله کهلائے گا-(۱) کیونکه لاتشرب الخمر در حقیقت “لاتشرب المسکر” ہے ۔

۲- قیاس اولویت

اس قیاس کو کهتے ہیں جس میں ایک موضوع کے حکم کو اولویت قطعی کی بنیاد پر دوسرےموضوع پر جاری کیا جاتا ہے جیسا که خداوند عالم نے فرمایا:

"( فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ ) "

“ ماں باپ کے آگے اف نه کرنا ” ۔(۲)

یه جمله اولویت قطعی کی بنیاد پر دلالت کرتاہے که ماں باپ کو برا بھلا کهنا حرام ہے کیونکه جب اف کرنا حرام ہے تو برابھلا کهنا کیسے جایز ہو سکتاہے ۔

____________________

۱ اصطلاحات الاصول ، ص۲۲۶.

۲ اسراء ، ۲۳

۱۱۴

۳- قیاس ہمراہ تنقیح مناط کے ساتھ

یه قیاس وهاں جاری ہوتاہے جهاں موضوع کے ساتھ حالات و خصوصیات کا ذکر ہو لیکن ان حالات و خصوصیات کا اصل حکم میں کوئی دخل نه ہو پس ایسی صورت میں فقیه ان حالات و خصوصیات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف حکم کو نظر میں رکھتاہے اور اس حکم کو دوسرے حکم پر جاری کرتاہے مثال کے طور پر آیه تیمم میں مذکو ر ہے :

"( فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ ) "

“اگر پانی نه ملے تو تیمم کرو” ۔(۳)

جب که ہم جانتے ہیں خود پانی کا ہونا یا نه ہونا حکم تیمم میں موضوعیت نهیں رکھتا اسی لئے اگر پانی ہو اور وضو کرنے والے کے لئے ضرر رساں ہو تب بھی حکم تیمم جاری ہے یعنی پانی کے ضرر رساں ہونےکی صورت میں اس پر تیمم واجب ہے اور مثال بالکل اس مثال جیسی ہے که کوئی شخص یه سوال کرے که اگر کوئی مرد مسجد میں نماز ظهر پڑھ رها ہو اور اسے تیسری اور چوتھی رکعت کے درمیان شک ہوتو ایسی صورت میں نماز گزار کا کیا وظیفه ہے ؟ امام اس کے جواب میں یه کهے که وه چوتھی رکعت پر بنا قرار دے اور ایک رکعت نماز احتیاط بجلائے اب یهاں پر فقیه تنقیح مناط کا سهار الیتے ہوئے اس حکم کو ہر چار رکعتی نماز پر جاری کرسکتاہے کیونکه نماز ظهر یا مسجد کا ہونا اور شک کرنے والے کا مرد ہونا ان میں سے کوئی بھی مورد موضوع کے لئے قید نهیں بلکه ایک حالت ہے پس ان حالات کو حذف کرکے خود اصل حکم کو مشابه موضوع مشابه پر جاری کیا جاسکتاہے ۔

قیاس مستنبط العله

اس قیاس کو کهتے ہیں جس میں اپنے ظن و گمان سے علت کشف کرتاہے اور حکم کو ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر جاری کرتا ہے پهلے موضوع کو اصل یا مقیس علیه کهتے ہیں اور اس موضوع کا حکم مسلم و مفروض ہے دوسرے موضع کو فرع یا مقیس کهتے ہیں کیونکه اس موضوع کا کوئی حکم نهیں فقط اصل حکم میں مشترک ہونے کے گمان پر پهلے موضوع کے حکم کو اس پر جاری کیا جاتاہے ابتدائی تین قسموں میں قیاس تمام فقها کے نزدیک حجت ہے کیونکه کسی میں بھی اصل وقوع کا وجود نهیں بلکه مقیس اور مقیس علیه دونوں اصل ہیں ب دوسری عبارت دیگر میں خود دلیل کے ذریعے ہر دو موضوع کے لئے حکم ثابت کیاجاسکتاہے-(۴)(۵)(۶)

____________________

۳ نساء ، ۱۱۵ .---۴ انوار الاصول ، ج ۲،ص ۵۱۹ ---۵ اتحاف زری البصائر ، شرح روضة الناظر ، ج ۴،ص۲۱۴۴.

۶ ر.ضة الناظر ،ج۲ ،ص۱۵۱.

۱۱۵

قیاس کی چوتھی قسم یعنی مستنبط العله اہل سنت کے نزدیک حجت ہے خاص طور پر ابو حینفه کے پیروکار که انهیں قیاس پر بهت زیاده اعتماد ہے لیکن مکتب اہل بیت علیهم السلام کے ماننے والے اس قیاس کا انکار کرتے ہیں اسی طرح اہل سنت میں نظام اور اس کے تابعین اسی طرح گروه ظاہریه جس میں ا بن حزم او رداود وغیره شامل ہیں اور بعض معتزله که جس میں جعفربن حرب ، جعفر بن مبشر ، محمد بن عبدالله اسکا فی کا نام آتا ہے یه سب قیاس کو باطل جانتے ہیں بلکه ابن حزم نے قیاس کے خلاف ابطال القیاس نامی مستقل کتاب بھی لکھی –(۷) حنبلیوں کی جانب سے بطلان قیاس کی نسبت دی گئی ہے اور احمدبن حنبل کا کلام بھی اسی معنی کی جانب اشاره کرتا ہے کیونکه انهوں نے کها :

یحتسب المتکلم فی الفقه هذین الاصلین المجمل والقیاس ۔.

فقیه مجمل اور قیاس سے اجتناب کرتا ہے ۔

لیکن اس کے اس کلام کی توجیه یوں کی گئی که اس سے مراد بطلان قیاس د رمقابل نصنفی کے مقابل میں قیاس باطل ہے –(۸)

آج وهابی جو اپنے اپ کو حنبلی مسلک کهتے ہیں وه دین میں قیاس در دین پر اعتماد کرتے ہیں اور اسے حجت مانتے ہیں ۔

قیاس کی چوتھی قسم ککی ے دلائل حجیت کے دلائل پر نتقید

فرض یه ہے که قیاس کی یه قسم حکم شرعی پر یقین نهیں دلاتی بلکه فقط حکم کے احتمال کو بیان کرتی ہے کیونکه موضوعات کا ایک یا چند جهت سے مشترک اور مشابه ہونا اس بات کی دلیل نهیں ہے که وه حکم میں بھی مشترک ہوں اور جن مواردمیں عقل بھی حسن وقبح کی اساس بنیاد پر مستقل اور قطعی حکم نه لگا سکے ایسی صورت میں احکام شرعی کے ملاک کو قطعی طور پر کشف کرنا نا ممکن ہے بلکه یهاں پر صرف شارع ہے جو احکام کے ملاک اور فلسفه کو بیان کرسکتاہے اسی لئے اس قیاس کی حجیت پر دلیل ضروری ہے اہل سنت نے جو دو دلیلیں پیش کیں ہیں وه کچھ اس طرح ہیں ۔

۱- قرآن میں آیا ہے :

"( فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ ) "

“اے صاحبان خرد عبرت حاصل کرو” ۔(۹)

____________________

۷ .حشر ، ۲

۸ اصول الفقه،ج۲ ،ص ۱۹۲

۹ ابطال القیاس ، ص ۳۰

۱۱۶

اس دلیل کی تفصیل یه ہے که اعتبار عبورکے معنی میں ہے ایک چیز سے دوسری چیز تک عبور کرنا دوسری بعبارت دیگر میں ایک شبیه سے دوسری شبیه تک عبور کرنا او رقیاس بھی ایک طرح کا عبور ہے اس میں اصل کے حکم سے فرع کے حکم تک عبور کیا جاتاہے مذکوره آیت میں ہمیں اس عبور یعنی قیاس کی ترغیب دی گئی ہے ۔

جواب :

اس آیت سے استدلال کی کمزوری اور ضعف واضح ہے کیونکه اعتبار حوادث و وقایع سے عبرت لینے اور نصیحت لینے کے معنی میں ہے خاص طور پر اس آیت پر اگر توجه کی جائے تو معلوم ہوگا که یه آیت اہل کتاب اور کفار کی شرنوشت کو بیان کررهی ہے که خدا نے اس طرح ان کے دل میں و حشت ڈال دی که وه خود اپنے اور مؤمنین کے هاتھوں اپنے گھروں کو توڑ رهے تھے اور قرآن یه چاہتاہے که اس واقعه سے عبرت لو پس معلوم ہو ا که اس آیت کا دین کے احکام فرعی میں قیاس سے کوئی تعلق نهیں-(۱۰) ابن حزم اپنی کتاب (البطال القیاس ) میں کهتاہے : کیسے ممکن ہے که خداوند اس آیت میں ہم کو دین میں قیاس کا حکم دے اور یه بیان نه کرے که ہم کهاں کس چیز کا کس چیزسے قیاس کریں اس قیاس کے حدود و شرائط کیا ہیں ؟ اور اسے بغیر کسی توضیح کے مبهم چھوڑدے-(۱۱) ۔

۲- اہل سنت کی دوسری قرآنی دلیل یه ہے که خداوند عالم ارشاد فرماتاہے :

"قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ، قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ "

“ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا ”۔(۱۲)

منکرین معاد نے پیغمبر سے سوال کیا کون ہے جو بوسیده هڈیوں میں جان ڈال دے ؟

خدانے فرمایا:

اے پیغمبر! آپ کهدیجئے که جس نے تمهیں عدم سے وجود بخشا وهی تمهیں دو باره زنده کرے گا ۔

قیاس کے طرفداران قیاس کهتے ہیں که اس آیت میں قیاس کے ذریعه استدلال کیا گیا کیونکه یه آیت وه دو چیزیں که جن کا حکم مشابه ہو ان کے مساوی ہونے پر دلالت کرتی ہے اسی لئے جو شخص یه انکار کررهاہے که بوسیده هڈیاوں قیامت میں دوباره زنده نهیں ہوسکتیں اسے کها جارها ہے که ان هڈیاں کا زنده کرنا انسان کو عدم سے وجود بخشنے جیسا ہے یعنی جیسے وه ممکن تھا ویسے یه بھی ممکن ہے ۔

____________________

۱۰ یسٰ،۷۹/۷۸.---۱۱ روم ، ۲۷

۱۲ مسند احمد ،باب حدیث معاذبن جبل ،ج۵،ص ۲۳۰، ح۲۱۵۹۵

۱۱۷

جواب :

قیاس کے مخالفین قیاس جواب دیتے ہیں که اس آیت میں امر تکوینی میں قیاس کیاگیا ہے اور امر تکوینی کا قیاس قطعی ہوتاہے کیونکه عقل کهتی ہے که جو آغاز آفرنیش میں یه قدرت رکھتا ہے که اس کائنات کو عدم سے وجود بخشے یقینا وه یه قدرت بھی رکھتاہے که قیامت کے بعد اسے دوباره لوٹا دے بلکه یه کام اس کےلئے پچھلے کام سے آسان ترهے جیسا که خود قرآن کا ارشاد ہے :

"( وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ) "

“اور وہی وہ ہے جو خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور پھر دوبارہ بھی پیدا کرے گا اور یہ کام اس کے لئے بے حد آسان ہے” ۔(۱۳)

یه قیاس حقیقت میں قطعی عقلی ہے در حالیکه ہماری بحث قیاسات ظنی میں ہے ۔

۳- روایات کے اعتبار سے حجیت قیاس پر مهم ترین استدلال معاذبن جبل کی حدیث سے کیاگیا اس حدیث کے ذریعه قیاس ظنی کے علاوه باب استحسان، مصالحه مرسله ،سد وفتح ذرایع کی حجیت پر نیز استدلال کیا گیا ہے

اس حدیث میں آیا ہے که جس وقت پیغمبر (ص)نے معاذبن جبل کو یمن میں قضاوت کے لئے بھیجنا چاہا تو ان سے کها :

اے معاذ !کس طرح قضاوت کروگے ؟

معاذ نے کها :

کتاب وسنت کے ذریعه

آپ نے فرمایا:

اگر وه حکم کتاب و سنت میں نه ہو تو کیا گروگے ؟

کها که :

اجتهد رأیی ولا الوِ ”۔.(۱۴)

“" میں اپنی رأئے کے ذریعے اجتهاد کروں گا اور مسئله کو بلا حکم نهیں چھوڑوں گا ”" ۔

اس حدیث سے یه استدلال کیا گیا که کلمه (اجتهاد رأئے ) سے ظاہر ہوتاہے که کتاب و سنت پر تکیه کئے بغیر حکم لگانے کو اجتهادبالرائے کهتے ہیں اور اسی طرح کا اجتهاد عمومیت رکھتا ہے جس میں قیاس ظنی بھی شامل ہوجاتا ہے ۔

____________________

۱۳ وهی مدرک

۱۴ ملخص البطال القیاس ، ص ۱۴، تهذیب التهذیب ،ج۲ ،ص ۲۶۰

۱۱۸

جواب :

قیاس ظنی کے مخالفین نے اس حدیث کا جواب یوں دیا که

۱- اول تو یه روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکه اسے حارث بن عمر کے واسطه سے بیان کیا ہے بخاری اورترمذی نے حارث کو مجهول جانا ہے اور دوسروں نے بھی اسے ضعفا میں شمار کیا ہے اس کے علاوه خود حارث نے اسے "حمص کے کچھ لوگوں " سے نقل کیا ہے اس لئے یه روایت مرسل اور غیر متصل ہے

۲- دوسری یه که یه روایت ان تمام روایات سے تعارض رکھتی ہے جس میں اجتهاد رای کی مذمت کی گئی خاص طور سے معاذ کی وه روایت جس میں پیغمبر (ص)نے معاذ کو یمن کی جانب حرکت کرنے سے پهلے کها :

جس چیز کا علم نه ہو اس کے بارے میں قضاوت مت کرنا اور اگر کسی حکم میں مشکل پیش آجائے تو اس وقت تک صبر کرنا جب تک تمهیں صحیح حکم سے آگاہ نه کروں یا پھر مجھے خط بھیجنا تاکه میں اس کا جواب بھیجوں چنانچه مذکوره روایت کی عربی عبارت یه ہے که

لمابعثنی رسول الله الی یمن قال : لاتقضین ولاتفصلن الا بماتعلم و ان اشکل علیک امر فقف حتی تبینه او تکتب الی فیه ”۔(۱۵)

ایک اور روایت که جسے ابوهرهره نے نقل کیا اس میں آیا ہے :

تعمل هذه الامة برهة من کتاب الله ثم تعمل برهة بسنة رسول الله ثم تعمل بالرأی فاذا عملوا بالرأی فقد ضلوا واضلو ” ۔.(۱۶)

“"یه امت ایک مدت تک کتاب خدا پر عمل کرے گی پھر ایک مدت تک سنت پر عمل پیرا ہوگی اس کے بعد خود اپنے آراء پر عمل کرنے لگے گی اور جب ایسا ہونے لگے تو وه تو خود کو بھی گمراہ کریں گے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنیں گے” ۔(۱۷) (مترجم)

____________________

۱۵ سنن ابن ماجه ،ج۱ ،ص ۲۱ ، ح ۵۰

۱۶ کنز العمال ، ج ۱ ف ص۱۸۰ ، ح ۹۱۰

۱۷ (مترجم)

۱۱۹

۱۵-نتیجهء بحث :

گذشته مطالب کے پیش نظر علماء امامیه اور دوسرے قیاس کےمخالفوں کی نظر میں استنباط احکام میں قیاس کی کوئی ارزش و اہمیت نهیں ہے اور اس قیاس سے حاصل ہونے والے ظن و گمان کے لئے ایسی عام اور روشن دلیلیں ہیں جو ظن پر عمل کرنے کو حرام جانتی ہیں قیاس پر عمل کی حرمت پر قطعی دلیلوں میں وه روایات ہیں جو نمونه کےطور پر آپ کے سامنے پیش کیے گئے .لیکن جیسا پهلے بھی بیان ہوچکا ہے که علماء اہل سنت کے ایک گروه جیسے حنفیوں اور دوسروں نے قیاس کو حکم شرعی کے لئے مصدر ومبنا مانا ہے اور اس کی حجیت و اعتبار پر کتاب وسنت و اجماع سے دلیلں پیش کی ہیں ، قیاس مخالفوں کے نزدیک یه لیلیں ناقص اور مردود ہیں طولانی بحث کے خوف سے مخالفین کی دلیلوں سے صرف نظر کرتے ہوئے فقط ایک اشاره ان باتوں کی جانب کیا جارها ہے جو سر خسی نےاپنے اصول میں کهیں ہیں

جمهور علماء نے حجیت قیاس پر کتاب و سنت وعقل سے دلیلیں پیش کی ہیں مثلا قرآن سے( فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ.* إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصار*إِن كنتم للرُّيَّا تَعْبُرون )

اور دوسری آیات سے استدلال کیاہے

میری نظر میں یه ان آیات کا قیاس سے کوئی ربط نهیں ہے اور سنت میں جو دلیل پیش کی گئی که پیغمبر(ص) کی جانب سے معاذبن یمن کو بھیجا جانا اور حکم صادر کرنے کے بارے میں پیغمبر(ص) کا سوال تھا اس کے جواب میں کهنا میں خود اجتهاد کرتاہوں اور پیغمبر(ص) کا اپنے اصحاب سے امور جنگ میں مشورت کرنا یه تمام باتیں جو قیاس کے اعتبار و حجیت کے لئے دلیل بناکر پیش کی گئیں اس کا قیاس سے کوئی ربط نهیں ہے

(مترجم)

____________________

۱. معارج الاصول ، ص ۱۸۷و ۱۸۸

. اصول سرفسی ، ج ۳ ص۱۲۵ تا ۱۳۰

۱۲۰

استحسان

استحسان منابع اجتهاد میں بعض اہل سنت کی جانب سے بیان کرده ایسی اصطلاح ہے که جس کی مختلف تعریفیں ذکر کی گئیں ہیں

۱ - بعض نے کها که ایسی دلیل جو مجتهد کے ذهن میں خطور کرے لیکن اس کی تبیں کے لئے مجتهد کے پاس مناسب عبارت نه ہو وه استحسان کهلاتی ہے-(۱) ۔

۲- استحسان یعنی وه چیز جومجتهد کو اچھی لگے لیکن اس کی کوئی شرعی دلیل نه ہو-(۲) (۳) بعض نے کها که کسی قیاس کو اس سےقوی تر قیاس سے تخصیص دینے کو استحسان کهتے ہیں یا قیاس مخفی کو قیاس جلی پر مقدم کرنے کو استحسان کهتے ہیں

۳- قیاس سے دلیل اقوی کی جانب عدل کرنے کو استحسان کهتے ہیں اور وجود نص ، سهولت ،مصلحت مصلحت،اجماع ،ضرورت یا عرف و عادت کو محرکات عدول میں شمار کیا گیا ہے ۔(۴)

ان تعریفات میں اختلاف ہی نهیں بلکه تضاد بھی پایا جاتا ہے کیونکه اگر تعریف کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا که بعض تعریفات میں خود مجتهد یا عقل مجتهد کی عقل کوتعریف کی اساسبنیاد تعریف قرار دیا گیا جیساکه پهلی اور دوسری تعریف سے واضح ہوتا ہےکه لیکن دوسری تعریفات میں یه خصوصیت نهیں پائی جاتی اسی طرح بعض تعریفات کے مطابق استحسان کو قیاس کا نقطهء مقابل قرار دیا گیا لیکن دوسری تعریفات میں استحسان کو ایک قسم کاقیاس شمار کیا گیا اور شاید استحسان کامعروف ترین معنی وهی حکم ہے جس پر نص نه ملے لیکن عقل مجتهد کی عقل اسے پسند کرتی ہو ۔ابو حنیفه کی نظر میں استحسان حجت ہے اور یهی نسبت مالک وحنبلی کی جانب بھی دی گئی ہے –(۵) مالک کا یه جمله معروف ہے که ۹۰ در صد فقه استحسان پر استوار ہے لیکن ان کےمقابل بعض دیگر اہل سنت خاص طور سے شافعی-(۷) اور بعض حنفی جسے شاطبی اور طحاوی نے اس کی حجیت کا انکار کیا ہے-(۸) اسی طرح امامیه زیدیه او رظاہر یه کےنزدیک بھی استحسان باطل اور غیر معتبر ہے-(۹) ۔

استحسان کی حجیت پر آیات و روایات دونوں سے استدلال کیا گیا ہے قرآن سے سوره زمر کی تین آیات اور سوره اعراف کی ایک سو پنتالسیویں آیت سے استدلال کیا گیا ہے ۔

"( فَبَشِّرْ عِبادِالَّذينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَه‏ وَاتَّبِعُوا اَحسنَ ما أُنْزِلَ مِنْ رَبِّكُم‏"‏* )

“بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں” ۔(۱۰)

____________________

۱ الاحکام فی اصول الاحکام ،ج۴ ،ص ۱۵۷ .---۲ کتاب قوانین میں اس تعریف کی نسبت اہل سنت کی جانب دی گئی .---۳ المبسوط سید حسنی ،ج۱۰،ص۱۴۵

۴ الموسوعة الفقهیه المیسره ،ج۲،ص۴۳/۴۴.---۵ اصول الفقه ،محمد ابوزهره ، ص ۲۶۳ .---۶ الامام الشافعی ،ج۱۰ ،ص۱۱۹ .---۷ ابطال القیاس ابن حزم ، ص۵۱

۸ الاصول العامر ،ص۳۶۳ .---۹ زمر، ۱۷/۱۸ .---۱۰ الاحکام فی اصول لااحکام ،ج ۳ /۴،ص ۱۶۵

۱۲۱

سوره زمرکی آیت نمبر ۵۵سے بھی یهی استدلال کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سوره اعراف کی آیت نمبر ۱۴۵سےاستدلال کیا گیا که

"( فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا ) "

“مضبوطی کے ساتھ پکڑلو اور اپنی قوم کوحکم دو کہ اس کی اچھی اچھی باتوں کو لے لیں” ۔

ان آیات میں مشاہده سے واضح ہوتاہے که خداوند عالم نے قول احسن کی پیروی کی ترغیب دلاتی دلائی ہے او راحسن کی پیروی کے لئے لازم ہے که پهلے احسن کی شناخت ہو لیکن چونکه مصادیق احسن کو لوگوں کے لئے بیان نهیں کیاگیا اسی لئے اس کی ذمه داری خود لوگوں پر چھوڑدی(۱۱)

جواب

غزالی نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے کها که آیات کا مفاد یه نهیں ہے که جو تم بهتر سمجھو اس کی پیروی کرو بلکه ان آیات کا مفهوم یه ہے که احسن واقعی کی پیروی کرو اور خداوند عالم نے لوگوں کو پهنچوادیا که احسن واقعی کیا ہے احسن واقعی کتا ب و سنت کی موافقت ہے کیونکه احکام ان مصالح اور مفاسد کے تباع ہے جسے شریعت نے کاملا احاطه کیا ہے اور عقل بشر اور عقل بشر کو سوائے خاص موارد کے ان مصالح اور مفاسد تک رسائی نهیں لیکن اس چیز کو جسے لوگ بهتر اور اچھا سمجھتے ہیں صرف ہوا اور ہوس ہے جهت استحسان کی حجیت پرعبدالله بن مسعود کی روایت سے بھی استدلال کیا گیا ہے ۔مارای المسلمون حسنا فهو عبدالله حسن یعنی جس چیز کولو گ بهتر سمجھیں وهی چیز خداکے نزدیک بهترهے ۔(۱۲) مخالفین استحسان کے مخالفوں نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے کها

۱- یه جمله عبدالله بن مسعود کا قول ہے نه پیغمبر (ص)کا فرمان جو حجت ہو مگر یه که ہم قول صحابی کو حجت مانیں.

۲- کلمه روئیت در حقیقت میں علم و اطمینان کے معنی میں ہے یعنی جو چیز مسلمانوں کے نزدیک بطور قطع طور پرنیکو ہو خدا کے نزدیک بھی نیکو ہوگی اور یه بات استحسان جو دلیل ظنی ہے میں شامل نهیں ہوگی اسی لئے ماننا پڑے گا که حدیث حسن و قبح عقلی سے مربوط ہے که جس کا در ک کرنا سب کےلئے ممکن ہے پس موارد ظن وگمان کے موارد جو که ہمارا موردعادی بحث میں ہے شامل نهیں ہوگا(۱۳)

۳- آمدی او رغزالی اس حدیث کا جواب دیتے ہوئے کهتے ہیں که یه حدیث اجماع مسلمین پر دلالت کرتی ہے نه اس بات پر که جسے افراد مسلمین بهتر سمجھیں خدا بھی اسے بهتر سمجھے گا(۱۴)

۴- یه بھی غزالی کا قول ہے که یه حدیث خبر واحد ہے اور خبر واحد سے اصول کو ثابت نهیں کیا جاسکتا ۔(۱۵)

____________________

۱۱ .المستصفی ، ج ۱ ،ص۴۱۱ ، روضة الناظر ،ج۱ ،ص۴۷۵ .---۱۲ مسند احمد ،ج۱ ص۳۷۹ .---۱۳ انوار الاصول ،ج۲ ،ص۵۳۳ .--۱۴ الاحکام ،ج۴ ،ص۱۵۹، المستصفی ،ص ۱۷۲ .--۱۵ المستصفی ، ص ۱۷۲

۱۲۲

مصالح مرسله

یه اصطلاح ان مصلحتوں کےلئے استعمال ہوتی ہے جسے کے بارے میں شریعت کا کوئی خاص یا عام خطاب موجود نه ہولیکن شریعت کے مزاج اور مذاق شریعت سے اسے مشخص کیا جاسکتاہے ۔وه مصلحتیں دوقسم کی ہوتی ہیں :

۱- مصالح معتبره

وه مصلحتیں جن کے اعتبار اور رعایت میں شرعی دلائل موجود ہوں ۔

۲- مصالح ملغی

وه مصلحتیں جسے شارع مقدس نے بے ارزش سمجھا اور ان کی رعایت کو لازم نهیں جانا جسے دشمن کے آگے تسلیم ہونا اگرچه اس میں حفظ جان کی مصلحت ہے لیکن چونکه اسلام خطر ے میں پڑرها ہے اس لئے حفظ نفس کی مصلحت کو لغو کرکے جهاد کا دستور دیا پس دین کا بچانا مصلحت ہے چاہے اس میں جان ہی کیوں نه چلی جائے ۔

۳- مصالح مرسله

وه مصلحتیں جو اجتبار یا الغاء شرعی سے آزاد ہیں-(۱) مصالح مرسله کو بطور مطلق حجت مانتے ہیں جب که جمهور اہل سنت اس کی حجیت کے منکر ہیں یهاں تک که بعض مالکیوں نے کها که مالک سے بعید ہے که مصالح مرسله کو حجت مانے-(۲) لیکن بعض اس میں تفصیل کے قابل ہیں اور کهتے ہیں : فقط وه ضروری مصلحتیں جو قطعی اور بدیهی ہوں معتبر ہیں-(۳) مصالح مرسله کےلئے جو مثال پیش کی گئی وه یه ہے که اگر کفار جنگ کے دوران ان کی آڑ میں مسلمانوں کو نقصان پهچانا چاہیں ایسی صورت میں ان سے مقابله لازمی ہے کیونکه اگر ان سے مقابله نه کیا گیا تو وه مسلمانوں کو بھی نقصان پهنچائیں گے اور خود اسیروں کو بھی قتل کردیں گے لیکن اگر ان سے مقابله کیا جائے تو ایسی صورت میں اسیر مارے جائیں گے چاہے کفار کے هاتھوں مارے جائیں یا مسلمانوں کے هاتھوں تو یهاں مصالح مرسله کے مطابق مسلمانوں کا قتل جائز ہے کیونکه شریعت کا مزاج یهی ہے که مسلمانوں کے مصالح کو مقدم رکھا جائے اور مسلمان اسیروں کا قتل مصالح مسلمین سے نزدیک تر ہے –(۴)

____________________

۱ .اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۸۶

۲ ارشاد العقول ، ج ۲ ،ص ۱۸۴

۳ اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۸۹

۴ المستصفی ، ج۱ ، ص ۴۲۴

۱۲۳

مصالح مرسله اور استحسان کا فرق یه تبایا گیاکه استحسان میں غالبا قواعد و نصوص عامه سے ایک قسم کا استثناء پایا جاتا ہے دوسری بعبارت دیگر میں استحسان ثابت شده احکام سے ایک قسم کا عدول ہے لیکن مصالح مرسله ان موارد سے مربوط ہے که جهاں حکم کے لئے کوئی شرعی دلیل نهیں ہے بلکه فقیه مزاج شریعت کے پیش نظر مصلحت کی بنیاد پر حکم لگاتاہے البته استحسان میں بھی مصلحت پائی جاتی ہے لیکن یه مصلحت اکثرا وقات استثنائی شکل اختیار کرجاتی ہے –(۵) ۔

مصالح مرسله کو حجت ماننے والوں کی دلیل یه ہے که احکام مصالح کے تابع ہیں اور تمام مصالح نصوص میں مذکور نهیں ہیں کیونکه مصلحتیں زمان و مکان کے لحاظ سے بدلتی رهتی ہیں اگر صرف ان مصلحتوں پر تکیه کیا جائے جس کا ذکر نصوص میں ہو تو ایسی صورت میں گئی ایک مصلحتیں که جن کا ذکر نصوص میں نهیں آیا ہے ان سے هاتھ دھونا پڑے گا اور یه بات شارع کی غرض وهدف کے خلاف ہے –(۶) ۔

جواب :

مسلما احکام مصالح کے تابع ہیں اور اگر وه مصلحتیں نصوص اور ادله شرعیه میں معتبر شمار کی گئیں یا یه مصلحتیں ادراک عقلی کے اعتبار سے مستقلات عقلیه کامقام رکھتی ہوں اور فقیه کے لئے یقین آور ہوں تو یهی قطع و یقین فقیه کے لئے حجت ہوگا لیکن اگر مصلحت ایسی ہو که جس کو معتبر جاننے یا الغاء کرنے کے لئے کوئی دلیل نه ہو اور صرف حکم شرعی کا گمان پیدا ہوتا ہو تو ایسی مصلحت کی بنیاد پر کسی حکم کو معتبر ماننے کے لئے دلیل قطعی کی ضرورت ہے اور ایسی کوئی دلیل نهیں جو اس حکم کو ثابت کرے کیونکه ظن و گمان میں اصل عدم حجیت ہے –(۷) جیساکه قرآن میں ارشاد ہے :

"( وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ) "

“ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے” ۔(۸)

خلاصه یه که اگر مصالح مرسله قطع و یقین تک پهنچ جائیں تو ان کی حجیت مسلم ہے لیکن مصالح ظنی میں اشکال ہے کیونکه ان کے اعتبار پر کوئی قطعی دلیل ہمارے پاس نهیں ہے ۔

____________________

۵ اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۹۹/۲۹۸

۶ اصول الفقه اسلامی ،ص ۲۵۹

۷ انوار الا صول ،ج۲ ، ص۵۳۸

۸ نجم ، ۲۸

۱۲۴

سد و فتح ذرایع

“"ذرایع ”" ذریعه کی جمع اور وسیله کے معنی میں ہے ۔(مترجم )-(۱) سد اور فتح کھو لنے اور بند کرنے کے معنا میں ہے اور یه اصطلاح علماء اور فقهائےاہل سنت کے درمیان رائج ہے اہل سنت کاکهنا ہے چونکه مصلحتوں کا جلب کرنا اورمفاسد کا دفع کرنا لازم ہے اس لئے بعض افعال کو بطورر مستقیم حرام قرار دیاگیا جیسے چوری اور زنا لیکن بعض افعال کو براہ راست حرام قرار نهیں دیا گیا کیونکه وه اعمال بذات خود حرام نهیں ہیں لیکن چونکه ارتکاب حرام کا سبب بنیں گے اس لئے شارع نے انهیں حرام کردیا جیسے اجنبی عورت کی ہم نشینی ۔ چون چوں که افراد سد ذرایع کی حجیت کے قائل ہیں وه کهتے ہیں جو راستے محرمات الهیٰ تک پهنچاتے ہیں یا حرام کا موں کا سبب بنتے ہیں ان راستوں کو بند کردینا چاہیے اسی طرح جود افراد “"فتح ذرایع” " کو حجت جانتے ہیں وه کهتے که وه وسائل اور وه راستے جو واجبات الهیٰ کے انجام دینے کاسبب بنتے ہیں انهیں کھلا رکھنا چاہئیے مالک سد وفتح ذرایع کے ساتھ قاعده کو فقه کے اکثر ابواب میں قابل اجراء جانتاہے معروف ہے که مالک نے کها : تکالیف شرعی کا ایک چوتھا ئی حصه سد وفتح ذرایع کے ذریعه استخراج ہوتا ہے ۔ ظاہر یه دو اصطلاحیں (مقدمه حرام کی حرمت ) اور مقدمه واجب کے وجوب کی جانب لوٹتی ہیں شیعون شیعوں نے اپنی اصول فقه کی کتابوں میں اس بحث کو مقدمه واجب کی بحث میں پیش کیا ہے ۔

البته سد ذرایع کے لئے ایک اور معنی ذکر کیا گیا ہے اور وه شرعی چارۂکار یا شرعی حیله کے راستے کو بند کرنا ہے مثال کے طور پر اگر کوئی ربا سے فرار کی خاطر اپنے مال کو اونچی قمیت پر ادھار بیچ دے اور یه شرط لگائے که خریدار اسے سستے داموں پر دوباره اسی شخص کو بیچ دے که جس سے خریدا ہے سد ذرایع کے طرفداروں نے اسی سدذرایع کی اساس پر عمل کو حرام قرار دیا ہے کیونکه اس کے ذریعه ربا میں گرفتار ہونے کا خطره ہے اس بات پر یه اشکال وارد ہوتا ہے که اگر سد و فتح ذرایع پهلے معنا کے مطابق ہو تو یه بحث حکم عقلی کے موارد میں نوع دوم سے مربوط ہے که جسکی بحث گزشته مباحث میں گذر چکی اور جهاں مقدمه واجب و حرام کی بحث کو وهاں بیان کیا جاچکا اور اگر سد وفتح ذرایع سے مراد دوسرا معنی ہو ، تو ربا میں حیله شرعی کا استعمال دوسری جهتوں سے معامله کو باطل کرتاہے ۔. اور وه یه ہےکیوں که ان شموارد میں طرفین کی جانب سے انشاء اورمعامله میں قصد جدی نهیں پایا جاتا اسی دلیل کی وجه سے معامله عقلا باطل ہے۔ پس سد وفتح ذرایع کامسئله استنباط احکام کا کوئی منابع نهیں بلکه عقل کے حکم قطعی کا ایک جزء ہے ۔ (مترجم )-(۶)

____________________

. اعلام الموقعین ،ج۳،ص۱۷۶ .---۲ اصول الفقه الاسلامی ،ص۳۰۰ .---۳ الموافقات ،ج ۴ ،ص ۱۴۱ .--۴ البته سد وفتح ذرایع اور مقدمه حرام و واجب ، کے درمیان جو کچھ تفاوت ہے اسے ہم نے اختلاف فتاوی کی علتوں میں بیان کیا ہے .--۵ انوارالا صول، ج۲ ،ص۵۴۲

۶ .(مترجم)

۱۲۵

۱۶- ذرایع کی قسمیں اور انکا حکم :

ابتداء میں ذرایع کو دوقسموں میں تقسیم کرنے کے بعد منع اور منع نه ہونے کے حواله سے اس کا حکم بیان کریں گے

ذرایع کی دو قسمیں :

ایک تو وه سه گانه تقسیم ہے جو مالکی فقیه قرافی نے انجام دی دوسیری چھار گانه تقسیم ہے جو ابن قیّم کی جانب سے پیش ہوئی

الف - قرافی تقسیم :

شوکانی اپنی کتاب ارشاد الفحول میں قرافی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں .صرف مالک ہی سدذرایع کا قائل نهیں بلکه تمام علماء اس کے قائل ہیں اور مالکیه کا اس کے علاوه کوئی اعتبار نهیں که وه بهت زیاده سدذرایع کے قائل ہیں.

پھر وه قرافی کی سه گانه تقسیم بیان کرتے ہوئے کها ہے

۱- جو چیز علماء کی نظر میں معتبر ہے (یعنی علماء کا سدذرایع پر اتفاق ہے ) جیسے مسلمانوں کی گذرگاہ پر کنواںکھودنا اور ان کے کھانے میں زهرملانا اور ایسے شخص کے سامنے بتوں کو برابھلا کهنا که جس کے لئے معلوم ہے که وه اپنے بتوں کی توهین سن کر خدا کو برابھلا کهتاہے

۲- وه موارد جو علماء کے نزدیک غیر معتبر ہیں ( یعنی سدذرایع کے عنوان سے حکم کا مبنا قرار نهیں پاتے)جیسے درخت انگور کا اگانا اور اس ڈرسے کهیں انگور شراب میں تبدیل نه کی جائے درخت انگور کو اگانے سے روکنا یه مورد علماء کے نزدیک غیر معتبر ہے گرچه ممکن ہے که یه درخت حرام کے تحقق کا وسیله بنے.

۳- وه موارد که جهاں سد کےلازم ہونے یا نه ہونے میں اختلاف ہو جیسے بیع اجال یعنی مهلت دار بیع یه ہمارے نزدیک حرام میں پڑنے کا ذریعه ہے اس لئے ہم اس مورد میں سدذرایع کے قائل ہیں لیکن دوسرے اس مساله میں ہمارے مخالف ہیں

ب- ابن قیّم کی تقسیم :

۱- ابن قیّم نےاپنی کتاب اعلام الموقعین میں ذریعه کو نتائج کے اعتبار سے چار قسمتوں میں تقسیم کیا ہے.

ایسا وسیله اور ذریعه که جس کا وضع کرنا اس لئے ہو که مفسد ه دور ہو جائے جیسے شراب کا پینا اس کا مفسده مستی اور عقل کی تباہی ہے اسی طرح قذف که اس کا مفسده دوسروں پر تهمت لگانا ہے یا زنا که اس کا مفسده نسب کا درهم و برهم ہونا اور خاندانی روابط کا بگاڑ ہے

۱۲۶

۲- ایسا وسیله اور ذریعه جو که ایک مباح امر کے لئے وضع ہوا ہے لیکن اس کا فساد اس کی مصلحت سے کهیں زیاده ہے اور اکثر اوقات مفسده کا سبب بنتاہے جیسے آیام وفات میں بیوه عورت کا سجنا سنورنا

۳- ایسا ذریعه جو امر مباح کے لئے وضع ہوا لیکن لوگ خواہ نحواہ اسے حرام تک پهنچنے کا ذریعه قرار دیں گےجیسے ایسا عقد جو تحلیل کی نیت سے باندها جائے یا ایسا کاروبار جو ربا کی نیت سے انجام دیا جائے

۴- ایسا ذربعه جو امر مباح کے لئے وضع ہوا لیکن ایسی میں مفسده بھی ممکن ہے پھر بھی اس کی مصلحت مفسده سے کهیں زیاده ہے جیسے منگنی شده لڑکی کو دیکھنا یا اس عورت کی جانب نگاہ کرنا جو اس کے حق میں گواہی دے رهی ہو

ابن قیّم کی نظر میں پهلی اور چوتھی قسم محل نزاع و بحث نهیں ہے کیونکه شارع نے قسم اول کو منع اور قسم دوم کو مباح جانا ہے .لیکن دوسری او رتیسری قسم میں اختلاف ہے که کیا شریعت نے ان موارد کو مباح جانا یا حرام .(مترجم)

۱۷- سد ذرایع کی حجیت کی دلیلیں :

جوافراد سد ذرایع کی حجیت کے قائل ہیں اور اسے احکام فقهی کا مصدر و مبنع سمجھتے ہیں انهوں نے اس کے اثبات میں بعضی آیات روایات کا سهار لیا ہے ہم یهاں پر ان کی چند نقلی دلیلیں بغیر کسی توضیح و نقد کے ذیل میں بیان کرتے ہیں

قرطبی نے اپنی تفسیر میں کها :

قد دل علی هذا الااصل الکتب والسنة ” اس اصل پر کتاب وسنت دلالت کرتی ہے

اس کے بعد وه قرآن سے چند آیات بطور استناد پیش کرتے ہیں :

۱-( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

۲- ایمان والو! راعنا (ہماری رعایت کرو) نہ کہا کرو “انظرنا ” کہا کرو اور غور سے سنا کرو اور یاد رکھو کہ کافرین کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے”.(۲)

اس آیت سے وجه تمسک یه بتاتے ہیں که یهود کلمه (راعنا) کو اپنی زبان پر لاتے تھے یه کلمه ان زبان میں سب و دشنام کے معنی میں ہے چونکه خدا جانتا تھا که یهود اس کلمه کو سب و دشنام کے لئے استعمال کرتے ہیں اسی لئے خدا نے اس لفظ کے استعمال سے روکا

_____________________

۱۲۷

۲-( وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

“اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے”(۳)

اس آیت میں وجه تمسک کے بارے میں کهتے ہیں خدانے اس آیت میں بت پرستوں کو برابھلا کهنے سے روکا ہے تاکه کهیں بت پرست بھی جواب میں خداوند عالم ( معاذالله ) مورد سب و دشنام قرار دیں

۳- مورد استدلال آیات میں ایک آیت یه بھی ہے

( وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) (۴)

“اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے ”

قرطبی نے سنت سے کئی ایک روایات کوسد ذرایع کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے

۱- صحیح مسلم میں پیغمبر(ص) سے روایت ہے که آپ نے فرمایا: “الحلال بین والحرام بین و بینهما امور متشابهات فمن اتقّی الشبهات استبرا الدینه و عرضه و من وقع فی الشبهات وقع فی الحرام کالراعی یّرعی حوال حمی یوشک ان یقع فیه(۵)

حلال بھی واضح اور حرام بھی روشن ہے اور ان کے درمیان شبهناک امور بھی ہیں لهذا جو کوئی شبهناک چیزوں سے پرهز کرے اس نے اپنے دین اور آبرو کو حفظ کرلیا اور جو شبهناک امور میں پڑگیا در حقیقت حرام چیزوں میں گرفتار ہوگیا بالکل اس کسان کی طرح جو اپنے بھیڑ،بکریوں کو ایسی کھائی کے پاس سے چڑانے لے جائے که جهاں عنقریب ان کا گرنا قطعی ہو

____________________

۱- الجامع الاحکام القرآن ، ج ۲ ، ص۵۸

۲ سوره ،بقره، آیه ، ۱۰۴

۳ سوره انعام ، آیه ، ۱۰۸

۴ سوره نور ، آیه ۳۱

۵ .الجامع الاحکام القرآن ، ج ۲ ف ص ۵۹

۱۲۸

۲- پیغمبر(ص) نے فرمایا:

اِن من الکبائر شتم الرجل والدیه قالوا: یا رسول الله و هل یشتم الرجل والدیه ؟ قال : نعم یسب أباه و یُسب أمکم(۶)

گناہ کبیره میں سے انسان اپنے ماں باپ کو برا بھلا کهے پیغمبر(ص) کے اطرافیوں نے کها اے رسول خدا کیا انسان اپنے والدین کو برا بھلا کهتاہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا هاں انسان کسی کے باپ کو گالی دیتاہے وه اس کے باپ کو گالی دیتا ہے یه دوسروں کی والده کو گالی دیتاہے دوسروں اس کی ماں کو گالی دیتے ہیں

حیساکه اس سے واضح ہے دوسروں کے والدین کو برا بھلا کهنا یا گالی دینا اس بات کا سبب ہے که گالی دینے والے کے ماں باپ کو گالی پڑے گی اس لئے سدذرایع کے ذریعه دوسروں کو گالی دینے سے روکا گیا ہے

قرطبی نے آیات روایات سے استدلال کے بعد کها :

یه سدذرایع کی دلیلیں تھیں جو ہم نے بیان کی اورمالکیوں نے کتاب آجال ( مهلت دار بیع ) اور دوسرے مسایل بیع کو اسی سد ذرایع کی اساس پر حل کرتے ہیں لیکن شافعی کتاب آجال کے قائل نهیں ہیں کیونکه ان کے نزدیک بیع آجال مختلف اور مستقل عقود میں سے ہے .(مترجم)

____________________

۶ گذشته حواله سے ، ج۲ ، ص ۵۹

۱۲۹

تعارض ادله

منابع استنباط کے مباحث میں آخری گفتگو تعارض ادله کے بارے میں ہے ۔

مقدمه کے عنوان میں اس مطلب کا ذکر ضروری ہے که کبھی دولیلوں کے درمیان (تعارض اتبدائی ) نظر آتا ہے لیکن چونکه اس قسم کے تعارض ابتدائی میں جمع عرفی موجود ہوتاہے یا ان دو دلیلوں میں ایک دوسری دلیل پر حاکم ہوتی ہے اس لئے یه تعارض کی ابتدائی بحث تعارض سے خارج ہے۔ اسی لئے دلیل عام یه کهے، سارے دانشمندوں کا احترام کرو اور اسی کے مقابل دلیل خاص وارد ہو که بے عمل عالم کا احترام مت کرنا این دو دلیلوں یا ان جیسی دلیلوں میں عرف کی نظر میں کوئی تعارض نهیں بلکه جمع عرفی کا تقاضا یه ہے که دلیل خاص کو دلیل عام پر مقدم کیا جائے خاص کو عام پر مقدم کرنے کانتیجه یه ہوتا ہے که عالم بے عمل کے سلسلے میں ہم دلیل خاص پر عمل کریں گے اور عالم بے عمل کے علاوه تمام علماء کے احترام کے لئے دلیل عام حجت ہوگی دوسری بعبارت دیگر میں سارے افراد دلیل عام کی عمومیت پر باقی ہوں گے-(۱)

. اسی طرح جن موارد میں دو دلیلوں کے درمیان ابتداء میں تعارض نظر آتا ہے لیکن ایک دلیل جو دوسری دلیل پر حاکم ہوتی ہے جیسے عناوین اولی پر عناوین ثانوی حاکم ہوتے ہیں یهاں بھی پچھلے موردکی طرح کوئی تعارض نهیں پایا جاتا جیسےے کوئی دلیل یه کهے-(۲)

غیر اسلامی ذبیحه کا کھانا حرام ہے لیکن دوسری دلیل میں یه آئے که مجبوری کی صورت میں اس کا کھانا جائز ہے ۔

ایسی دو دلیلیں آپس میں تعارض نهیں رکھتیں بلکه دوسری دلیل پهلی دلیل پر حاکم اور مقدم ہوتی ہے-(۳)

اسی طرح اگر اماره اوراصل کے درمیان تعارض ہو تو یه تعارض بھی ابتدائی تعارض ہے جسے در حقیقت تعارض شمار نهیں کها کیا جاتا کیونکه اماره کے ہوتے ہوئے اصل کی نوبت نهیں آتی اس لئے که اماره اصل پر حکومت یا ورود رکھتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر قاعده صحت (اصاله الصحة ) که جسے اکثر افراد اماره شمار کرتے ہیں استصحاب فساد سے تعارض رکھے (مثلا ہمیں یه شک ہوکه فلاں انجام شده معامله صحیح تھا یا فاسد ) یهاں پر اصالة الصحة استصحاب پر یعنی اصل عدم انعقاد معامله کے منعقد نه ہونے پر مقدم ہے ۔

____________________

۱ البته یه تذکر لازم ہے که جهاں کهیں دو دلیلں مل جائیں.

۲ دلیل حاکم و محکوم کی توضیحات ادله لفظی کی تقسیمات میں گذر چکی ہے

۳ انوار الاصول ، ج ۳،ص ۵۰۶

۱۳۰

بهر حال کبھی تعارض دو شرعی دلیلوں کے درمیان واقع ہوتاہے اور کبھی دو اصل کے درمیان، اگر استصحاب اور دیگر تین اصول ( یعنی اصل برائت و تخییر و احتیاط ) سے تعارض ہو تو استصحاب کومقدم کیا جائے گا کیونکه حجیت استصحاب کے دلائل کا تقاضا یه ہے که زمان دوم ( یعنی در شک کے زمانے میں ) سابقه پهلے یقینی امر پر بنا رکھی جائے بعبارت دیگر اصل استصحاب اصل محرز ہے

اس لئے دیگر اصول پر مقدم ہوگی دو استصحاب کے درمیان تعارض ہو اور ان کے درمیاان سببیت اور مسببیت پائی جائے تو استصحاب سببیی مقدم ہوگا ور نه ہر دو اصل ساقط و بی اثر ہوجائیں گی جیسے وه پانی جو پهلے کر تھا اور اب اس کی کریت میں شک ہو اور پانی سے نجس لباس دھویا جائے ایسی صورت میں استصحاب سببی(یعنی پانی کی کریت کا استصحاب )جاری ہوگا اور لباس میں نجاست کےاستصحاب ( جو که استصحاب مسببی ہے ) کی جانب توجه نهیں کی جائے گی ۔.

دو دلیلوں کے تعارض کی صورت میں کچھ ترجیحات پیش کی گئی ہیں اگر ان دو دلیلوں میں کسی بھی دلیل میں ترجیحات پائی جائیں تو اسی دلیل کو مقدم رکھا جائے گا اور اگر کوئی دلیل دوسری دلیل پر کسی قسم کا امتیاز رکھے اور ان میں تعادل برقرار ہو تو ایسی صورت میں یا تو دونوں دلیلیں ساقط ہوجائیں گی یا ان میں سےایک دلیل کو حجت مانا جائے گا یا پھر احتیاط کی جائے گی اور ان تینوں فیصلوں میں فقهاء اور اصولیوں کے مبنا فرق کرتے ہیں ہر کسی نے-(۴)

ایک راسته چنا ہے اکثر فقهاء کے نزدیک مذکوره بالا قاعده یعنی خصوصیت کی صورت میں ترجیح اور تعادل کی صورت میں تخییر،احتیاط کو تمام امارات میں جاری اور ساری جانتے ہیں-(۵)

لیکن یهاں اہم ترین بحث یه ہے که اگر دو روایتوں میں تعارض ہو که ایسا تعارض اکثر وبیشتر پیش آتاہے او رفقیه کے مختلف ابواب میں متعارض روایات کا سامنا کرنا پڑتاہے مثال کےطور پر وه روایات جس میں وزن اورمساحت کے لحاظ سے کر کی مقدار بتائی گئی ہے یا وه روایات که جن میں اہل کتاب خواتین سے ازواج کی حرمت یا عدم حرمت بیان کی گئی ہے ۔. ان روایات میں تعارض پایا جاتا ہے گذشته مباحث میں سنت ائمه پر جو اشکالات ہوئے ہیں وهاں ہم نے تعارض روایات کی مختلف علتوں کو بیان کیا ہے لیکن یهاں پر تعارض کے علاج اور دو متعارض حدیثوں سے برخورد کے طریقوں پر گفتگوهے ۔

___________________

۴ رسائل ، فرائد الاصول ، ص ۴۱۴

۵ گزشته حواله ، ص ۴۴۱

۱۳۱

روایات و اخبار میں قواعد تعارض کے اجراء کا طریقه بیان کیا گیا ہے اجمالی طور پر اکثر فقهاء تاثیر مرجحات کو جانتے ہیں صرف باقلانی ابو علی اور ابو هاشم جبانی ان امتیازات او رمزیتوں کو بے اثر جانتے ہیں اور ہر مقام پر احکام تعادل کو جاری مانتے ہیں لیکن فریقین کے نزدیک مشهور ہے اور اخبار متواتر کا تقاضا بھی یهی ہے که جس روایات کو مقدم کیا جائے ۔

روایات میں کئی ایک مرجحات اور امتیازات روایات کو بیان کیا گیاہے که جن میں بعض مرجحات سند سے اور بعض امتیازات دلالت سے مربوط ہیں ے۔.جیسے روایت کا مشهور ہونا اور فقهاء کا اس پر عمل کرنا ، راوی کا عادل تر ہونا یا اس کا اصدق اور افقه ہونا اسی طرح روایت کا کتاب وسنت سے موافقت رکھنا اور اسی طرح کے دوسرے امتیازات اہل سنت نے دیگر امتیازات ،اور ترجحات بیان کیے ہیں

جیسے راوی کا زمان پیغمبر (ص)سے نزدیک تر ہونا یا مدت صحبت کا طولانی تر ہونا اور رسول خدا (ص)سے مستقیم حدیث کا سننا ،حکم روایت کا راوی سے مرتبط ہونا ، راوی کا مشهور ہونا راوی کا مُسن ہونا ، راوی کے اسلام کا متاخر ہونا ، راوی کالغت عرب سے واقف اور اعلم ہونا ، راویوں کی کثرت ہونا ، واسطوں کی قلت اور نقل معنا کے بجائے روایت میں عین الفاظ کا ہونا ، روایت کا قولی ہونا یعنی فعل پیغمبر کی حکایت کے مقابل قول پیغمبر کا ہونا-(۶)

اس بات کی توجه کرتے ہوئے اکثر مرجحات منصوص نهیں ہیں اورروایات میں ان کا ذکر نهیں ہے ان مرجحات کو اپنے مبنا کے حساب سے قبول کریں گے که قبول مرحجات میں ہمارا مبنا کیا ہے ؟ کیا قول مرجحات میں موارد منصوص سے ( یعنی وه موارد جو متن حدیث میں ذکر ہوئے ہیں )تجاوز کرسکتے ہیں یا نهیں ؟ اگر کرسکتے ہیں تو یه مرجحات ہمارے لئے قابل قبول ہون ہوں گے و رنه نهیں ہونگے لیکن اگر دو روایتوں میں تعادل برقرار ہواور کسی بھی روایت کو ایک دوسرےپر ترجیح حاصل نه ہو ، تو ایسی صورت میں علماء کے درمیان اختلاف نظر موجود ہے یعنی بعض ددونوں روایتوں کو حجیت سے ساقط جانتے ہیں اور نتیجتاً اصول عملیه کی جانب رجوع کرتے ہیں کیونکه دلیل اجتهادی کے ساقط ہونے کی صورت میں اصل عملی کی جانب رجوع کیا جاتاہے ۔

ان کے مقابل دوسرا گروه اس بات کا قائل ہے که دونوں روایتیں قابل عمل ہیں اور تیسرا گروه احتیاط کا قائل ہے اور چوتھا گروه توقف اور پانچواں گروه تخییر کا قائل ہے ۔

یه بحثیں اصول کی معروف کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔(مترجم(۷) )

الحمد لله الرب العالمین

____________________

۶ رسائل فرائد الاصول ، ص ۴۴۹ ؛ کفایة الاصول ،ج۲ ، ص ۳۹۲

۷ (مترجم)

۱۳۲

عرف :

فقهاء کے نزدیک عرف بھی ادله استنباط میں شمار ہوتاہے جس کی تعریف میں کهتے ہیں وه چیز جو لوگوں کے درمیان متعارف معمول ہو ں اور ان کی عملی اور گفتاری سیرت کا جز ہوں

عرف اگر مذکوره معنی میں ہو تو عادت کا مترادف ہوگا اسی لئے عرف کی تعریف میں کها گیا “ عاده جمهور قوم فی قول ا و عملی”

قول و فعل میں کسی قوم کی عادت کو عرف کهتے ہیں

عرف کی تقسیمات :

۱- عرف خاص اور عرف عام :

عرف خاص کسی خاص زمانے یا منطقه یا اہل فن کے عرف کو عرف خاص کهتے ہیں ، مثلا زمان پیغمبر(ص)کے عربوں کا عرف شهر مدینه کے لوگوں کا عرف یا اہل بازار کا عرف

عرف عام :

عام لوگوں کا عرف که جس میں زمان مکان یا کسی خاص فن کی قید نه ہو

توجه رهے که عرف عام یا خاص ہونا ایک امر نسبی ہے ، کبھی ایک ہی عرف ایک لحاظ خاص سے اور دوسرے لحاظ سے عام ہوتا ہے

۲- عرف عملی اور عرف قولی :

عرف عملی جیسے بیع معاطاتی یعنی خرید و فروش میں لوگوں کی عادت یه ہے که صیغه جاری کرنے کے بغیر ہی معاملات انجام دیتے ہیں یه عادت کئی قوموں کے عوام و خواص میں اور ہر زمانےمیں رائج رهی ہے

عرف قولی :

جیسے عراقیوں کی عادت ہے که لفظ ولد کو فقط بیٹوں کے لئے استعمال کرتے ہیں بیٹیوں کے لئے ہیں یا بعض مناطق کے لوگ مچھلی کے لئے گوشت کا لفظ استعمال نهیں کرتے اب اگر کوئی قسم کھائے که میں گوشت نهیں کھاؤں گا اور کھالے تو عرف قولی کی بنا پر نه اس نے اپنی قسم توڑی ہے اور نه اس پر کفاره لگے گا

۱۳۳

عرف صحیح اور عرف فاسد :

عرف صحیح اس عرف کو کهتے ہیں جو دوسری شرعی دلیل جیسے قرآن یا سنت کے مخالف نه ہو مثال کے طور ر بعض علاقه کے لوگوں کی عادت یه ہے که دلهن والے رخصتی سے پهلے دلهے سے نقدی مھرلیتے ہیں تا دلهن کا جهیز خرید سکیں

عرف فاسد :

جیسے معاملات میں ربا انجام دینا یا شراب پینا یا اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں عورتوں کا پرده کے معامله میں سهل انگاری سے کام لینا

مذاہب اسلامی میں عرف کی حجیت :

اہل سنت کے اکثر مذاہب کے نزدیک عرف کی جانب رجوع کرنامورد قبول واقع ہوا ہے

حنفیوں کے نزدیک عرف کے ذریعه احکام شرعی کا اثبات خاص طور سے معاملات میں بهت رائج ہے ان کے نزدیک جب تک عرف پر عمل سے روکنے والی کوئی نص نه ہو تب تک عرف ثبوت احکام میں دلیل تام سمجھی جائے گی یهاں تک که اگر قیاس عرف کے خلاف ہو تو قیاس کو رد کردیاجائے گا کیوں که قیاس پر عمل کرنا لوگوں کی زحمت کا باعث ہے اسی لئے کبھی کبھی عرف مصالح مرسله میں شمار ہوتا ہے

ابو حنیفه اور اس کے ماننے والے کابعض احکام میں اختلاف ہے کیونکه انھونےعرف کو مختلف دیکھا ہے.

مالک بن انس اکثر موارد میں شرعی احکاام کو اہل مدینه کے عرف پر معین کرتے تھے

اما م شافعی جب مصر میں وارد ہوئے تو انهوں نے اکثر احکام بدل دیے کیوں که وه اہل مصر کی عرف کو عراق و حجاز کے عرف سے جدا پاتے تھے.

۱۳۴

اہل سنت کے فقهائ نے کچھ قواعد ایسے بنائے ہیں جو عرف کے اعتبار ہونے کی وجه سے دلیل شرعی کے عنوان سے بنائے گئے ہیں ان میں سے بعض قواعد که جس کا ذکر مجله الاحکام العدلیه میں ہوا ہے وه عبارت ہیں :

العادة محکمة؛ استعمال الناس حجة یجب العمل بها ؛ المعروف و عرفا کا لمشروط شرطا ؛ التعیین بالعرف کالتعیین بالنص ؛ لاینکر تغیر الاحکام بتغیر الازمان ؛ الثابت بالعرف کالثابت بالنص

عرف فاسد کی رعایت واجب نهیں کیونکه دلیل شرعی کے خلاف ہے مگر یه که (عرف ضرورت کے باب سے آیا ہو) ایسی صورت میں کهتے ہیں( الضرورات تبیح المحذورات )لیکن مجتهد کو چاہئیے که صحیح کا لحاظ کرے جیسا که رسول خد(ص)نے لوگوں کی کئی ایک اچھی عادتوں کا لحاظ کیا اور کبھی سکوت کے ذریعه اور کبھی صراحت کے ساتھ ان عادتوں کی تائید کی

عرف کی جانب رجوع کرنے میں ایک مورد باب خیار عیب ہے کون سی چیز عیب اور موجب فسخ ہے اور کون سی چیز عیب نهیں ہے اس کی تشخیص کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جائے گا اسی طرح ودیعه کی دیکھ دیکھ کتنی مدت تک ہونی چاہیئے که کوئی یه نه کهے که ودیعه کی حفاظت میں کوتاہی کی گئی اس مسئله میں بھی عرف کی جانب رجوع کرنا ہوگا لیکن شیعوں کی نظر میں عرف کی جانب رجوع کے موارد ایک جیسے نهیں ہیں

۱- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتاہے که ظهور لفظی کو تشخیص دیا جائے جیسے لفظ ولد یا گوشت که جس کی مثال گذر چکی ان جیسے موارد میں عرف قولی کی جانب رجوع کرنا ظهور عرفی کی تشخیص کے لئے قابل قبول ہے لیکن روشن ہے که یهاں عرف حکم شرعی کی دلیل نهیں ہے

۲- کبھی کسی حکم شرعی کے موضوع کامصداق تلاش کرنے کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جاتا ہے جیسے فقه میں آیا ہے که ودیعه کی حفاظت واجب ہے اور اس میں کوتاہی ضمان کا موجب ہوگا لیکن زمان و مکان کے اعتبار سے عرف بھی اسی زمان و مکان کے مطابق ہوگا اس لئے اسی عرف کی روشنی میں حفظ یا کوتاہی کا مصداق تلاش کیا جائے گا یهاں بھی عرف کا حکم کی شناخت میں کوئی کردار نهیں

۳- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتا ہے تاکه اس سے حکم شرعی کو کشف کیا جائے حیسے منقولات کے وقف کا جائز ہونا یا اخذ ظاہر کا جائز ہونا یا عقد فضولی کا صحیح ہونا شیعه اصولیوں میں سیره عقلا اور سیره متشرعه کی بحث اور حکم شرعی میں ان کا کردار اسی عرف سے مربوط ہے

۱۳۵

لیکن عرف کی طرف رجوع یعنی سیره کی طرف رجوع سےمراد یه نهیں ہے که عرف ایک دوسری مستقل دلیل جو ادله شرعی کے عرض میں ہے کیونکه سیره عقلا یا سیره متشرعه اس وقت حجت ہے جب شارع کے مخالف نه ہو اور شارع کی مخالف سمجھنے اور نه سمجھنے کے ہے شرعی دلیل یعنی کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنا ہوگا لهذا سیره عقلا کی حجیت معتبر دلیل شرعی کی حجیت کی وجه ہے یعنی کتاب و سنت کی حجیت کی وجه سے

لیکن سیره متشرعه کی حجیت کے لئے شارع کی تائید کی ضرورت نهیں کیونکه سیره مشترعه شارع کی راہنمائی کے بغیر وجود میں اہی نهیں سکتی کسی گروه کا متشرعه ہونا اس بات کی دلیل ہے که یه سیرت دستور شرعی سے ماخوذ ہے اور دلیل شرعی کی بنا پر صورت پاتی ہے

عرف کی حجیت کے دلایل اور ان کا جواب :

اہل سنت میں عرف کے قائل فقهاء نے اس کی حجیت پر چند دلیلیں پیش کی ہیں

۱- عبدالله بن مسعود کی روایت

ماراه المسلمون حسناً فهو عندالله حسن

اگثر فقهاء نے اسی حدیث پر اعتماد کیا ہے اس حدیث کی سند میں جو تھامناقشه اس سندی کی بحث گذر چکی بعض نے اس روایت کی سند کے صحیح ہونے کے بارے میں کها ہے که صحابی جب بھی مقام تشریع میں کچھ کهیں تو اسے قول رسول سے ماخو ذ سمجھنا چاہیئے پس اگر عبدالله بن مسعود نے اپنے سے یه بات کهی تو اس کے حدیث نبوی ہونے کے لئے کافی ہے

جواب :

اس بات کا تعلق قول صحابی یا مذهب صحابه کی حجیت سے ہے.

اسلام نے مختلف مواردمیں عرف جاہل ی کی تائید کی ہے جیسے ازدواج میں عورت اور مرد کا کفو ہونا یا قاتل که پدری رشته داروں پر قتل خطا ئی کا دیه قرار دینا

جواب :

اگر سیره عقلا ء کی حجیت شارع کی تائید سے ہے تو اس حجیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اگر اس سے مراد ہر عرف کی حجیت کا اثبات ہےتو یه تسلیم نهیں کرتے بلکه تمهارے نزدیک بھی یه قابل قبول نهیں کیونکه اگر قبول ہوتا تو عرف صحیح اور عرف فاسد میں تقسیم نهیں کرتے

۱۳۶

فهرست منابع اور ماخذ

v آلاءالرحمن فی تفسیر القرآن ، شیخ محمد جواد بلاغی ، مرکز الطاعة و النشر فی مؤسسة البعثه ، مطبوعه اول ،۱۴۲۰ ق ۔

v ابطال القیاس ، ابن حزم اندلسی ۔

v اتحاف ذوی البصائر ،شرح روضة الناظر ، فی اصول الفقه ، ڈاکٹر عبدالکریم بن علی بن محمد النمله ، مکتبة الرشد ، ریاض،۱۴۲۲ ق ۔

v الاتقان فی علوم القرآن ، جلال الدین سیوطی ، مطبوعه ، دوم ، منشورات رضی ۔

v اجود التقریرات ، تقریرات درس آیة الله میرزا محمد حسین نائینی ، سید ابوالقاسم خویی ، کتابفروشی مصطفوی، قم۔

v احکام القرآن ، ابوبکر احمدبن علی رازی جصاص ، دارالکتب العلمیه ، بیروت ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ ۔

v الاحکام فی الاصول الاحکام ، سیف الدین ابوالحسن علی بن علی محمد آمدی ، دارلکتب العلمیه ۔

v الادلة العقلیه و علاقتھا بالنقلیه ، ڈاکٹر محمد سعید شخاته ۔

v ارشاد الفحول ، محمد بن علی بن محمد شوکانی ، تحقیق احمد عزوعنانه ، دارالکتاب العربی ، بیروت ، چاپ دوم ۱۴۲۱ ق۔

v الاصابة فی تمییز الصحابة ، ابن حجر عسقلانی ، دار احیاء التراث ، بیروت مطبوعه اول ۔

v الاصو ل العامة للفقه المقارن ، سید محمد تقی حکیم ، تحقیق مجمع جهانی اہل بیت علیهم السلام قم ، پاپ دوم،۱۴۱۸ق ۔

v اصول الفقه ، شیخ محمد رضا مظفر ، دارالنعمان ، نجف اشرف ، مطبوعه دوم ، ۱۳۸۶ق ۔

v اصول الفقه الاسلامی ، محمد ابوزهره ، دارالفکر العربی ،۱۳۷۷ق ۔

v اصول مذهب الشیعة الاثنی عشریه ، ڈاکٹر ناصر بن عبدالله بن علی القفاری ، دارالرضاللنشر و التوزیع،مطبوعه سوم ، ۱۴۱۸ ق ۔

v امالی مفید ، ابو عبدالله محمدبن محمدبن نعمان ُعکبری بغدادی ، انتشارات جامعه مدسین حوزه علیمه قم ،چاپ چھارم،۱۴۱۸ ق ۔

v انوار الاصول ، تقریرات درس آیة الله مکارم شیرازی ، احمد قدسی ، انتشارات نسل جوان ، مطبوعه دوم ، ۱۴۱۶ ق۔

v انوار الفقاھة ، آیة الله ناصر مکارم شیرازی ، مدرسه الامام امیرالمؤمنین علیه السلام مطبوعه دوم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v اوائل المقالات ، محمدبن محمدبن نعمان عکبری ،شیخ مفید قدس سره ۔

v بحارالانوار ، محمدباقر مجلسی ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ،مطبوعه سوم ، ۱۴۰۳ ق ۔

v بحوث فی الاصول ، تقریرات درس شهید آیة الله صدر ، سید محمود هاشمی ، المجمع العلمی للشهید صدر ،مطبوعه اول، ۱۴۰۵ق ۔

v بصائر الدرجات ، ابوجعفر محمدبن حسن بن فروخ الصفار القمی ۔

۱۳۷

v البیان فی تفسیر القرآن ابوالقاسم الخویی ، مطبعة العلیمه قم ، چاپ۱۳۹۴ق۔

v تاریخ ابن خلدون ، عبدالرحمن بن خلدون ، مغربی ، دارالکتاب اللبنانی ۔

v تاویل مختلف الحدیث ، عبدالله بن مسلم ، ابن قتیبه ، دارالجیل ، بیروت ، ۱۴۱۱ق ۔

v تعارض الادله الشرعیه ، تقریرات درس آیة الله سید محمد باقر صدر ، سید محمود هاشمی ، لمکتبة الاسلامیه الکبری، مطبوعه دوم ، ۱۳۹۶ ق ۔

v تفسیر القرآن بالقرآن عندالعلامة الطباطبایی ، ڈاکٹر خضیر جعفر ، دارالقرآن الکریم ، قم مطبوعه اول ،۱۴۱۱ق۔

v تفسیر بیضاوی ، ناصر الدین ابو سعید عبدالله بن عمربن محمد شیرازی بیضاوی ، مؤسسة الاعلمی ، بیروت،۱۴۱۰ق۔

v تفسیر عیاشی ، ابو نصر محمدبن مسعود بن عیاشی سمرقندی ، المکتبة العلمیة الاسلامیه ۔

v تفسیر قاسمی (محاسن التأویل ) محمد جمال الدین القاسمی ، دارالفکر ، بیروت ، مطبوعه اول ، ۱۴۱۱ ق ۔

v التفسیرالکبیر ، فخررازی ، مکتب الاعلام الاسلامی ، قم مطبوعه سوم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v توحید صدوق ، ابو جعفر محمدبن علی بن حسین بن بابویه قمی ، مؤسسة الاعلمی ، بیروت ۔

v تهذیب التھذیب ، ابن حجرعسقلانی ، دارالکتب العلمیة ، بیروت ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ ق ۔

v جامع احادیث الشیعه ، اسماعیل معزی ملایری ، نشر صحف ، قم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v الجامع الاحکام القرآن ، ابو عبدالله محمدبن احمد الانصار القرطبی ، دارالکتب العلمیة ، بیروت مطبوعه پنجم۔

v الحدائق الناصرة فی احکام العترة الطاہره ، شیخ یوسف بحرانی ، انتشارات جامعه مدرسین حوزه علمیه قم ،مطبوعه اول ، ۱۳۶۳ش ۔

v الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور ، جلال الدین سیوطی ، دارالفکر بیروت ،۱۴۱۴ ق ۔

v الدرایة فی علم مصطلح الحدیث ، زین الدین عاملی ( شهید ثانی ) مطبعة النعمان ، نجف اشرف ۔

v الذریعة الی تصانیف الشیعه ، شیخ آقای بزرگ تهرانی ، دارالاضواء بیروت ، مطبوعه سوم ، ۱۴۰۳ق ۔

v ذکریٰ الشیعة فی احکام الشریعه ، ابو عبدالله محمدبن مکی عاملی ، مکتبة بصیرتی ۔

v رجال کشی ، اختبار معرفة الرجال ، مؤسسة آل البیت علیهم السلام لاحیاء التراث ۔

۱۳۸

v روضة الناظر و جنة المناظر فی اصول الفقه علی مذهب احمدبن حنبل ، موفق الدین عبدالله بن احمد بن قدامه.مؤسسة الریان ، بیروت ۔

v السرائر الحاوی التحریر الفتاوی ، ابو جعفر محمدبن منصور بن احمدبن ادریس حلی ، انتشارات جامعه مدرسین حوزه علمیه قم ، مطبوعه چهارم ،۱۴۱۷ ق ۔

v سنن ابن ماجه ، حافظ ابو عبدالله محمد بن یزید قزوینی ، دارالفکر بیروت ۔

v سنن الکبری ، حافظ ابوبکر احمدبن حسین بن علی بیهقی ، دارالفکر بیروت ،مطبوعه اول ۔

v شرح المعالم فی اصول الفقه لابن التلمسانی ، عبدالله محمدبن علی شرف الدین ابو محمد الفهری المصری ، عالم الکتب بیروت ، مطبوعه اول ۱۴۱۹ق ۔

v شرح المقاصر تفتازانی ، مسعود بن عمربن عبدالله ، سعد الدین تفتازانی ، تحقیق ڈاکٹر عبدالرحمن عمیره ، عالم الکتب بیروت ، مطبوعه ، اول ، ۱۴۰۹ق

v شرح نووی بر مسلم ، محیی الدین نووی ، دارالکتاب العربی ، بیروت مطبوعه دوم ، ۱۴۰۷ ق ۔

v شرح نهج البلاغه ، لابن الحدید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v صحیح بخاری ، ابو عبدالله محمدابن اسماعیل بخاری ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v صحیح ترمذی ، ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ الترمذی ،۔

v صحیح مسلم ، امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری ، داراحیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v الصواعق المحرقه علی اہل الرفض والضلال والذندقه ، ابوالعباس احمدبن محمدبن علی بن حجر ہی تمی ، مؤسسة الرساله ، مطبوعه اول ، ۱۴۱۷ ق ۔

v الطبقات الکبری معروف به طبقات ابن سعد ، محمدبن سعد ،مطبوعه دارالصادق ، بیروت ۔

v طیب بصری معتزلی ، دارالکتب العلمیه ، بیروت ۔

v عوالی اللئالی ، محمدبن علی بن ابراہیم الاحسائی ، معروف به ابن ابی جمهور ، مطبعة سیدالشهدا علیه السلام،مطبوعه اول.۱۴۰۳ق ۔

۱۳۹

v فرائد الاصول (رسائل ) شیخ مرتضیٰ انصاری ،مطبوعه محشی به حاشیه ملارحمت الله ، کتابفروشی مصطفوی ، قم،۱۳۷۶ق۔

v الفوائد الحائریه ، محمدباقر بن محمد اکمل ( وحید بهبهانی ) مجمع الفکر الاسلام ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ق ۔

v فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت (حاشیه کتاب المستصفی ) ۔

v الفهرست فی اخبار العلماء الصنفین من القدما و المحدثین و اسماء کتبهم ، محمدبن اسحق الندیم ۔

v قاعدة الفراغ والتجاوز ، سید محمود هاشمی ، مطبوعه اول ، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم ، ۱۴۰۸ ق ۔

v قرآن کریم ۔

v القواعد الفقهیه ، آیة الله ناصر مکارم شیرازی ، منشورات دارالعلم ، بیروت مطبوعه چهارم ، ۱۴۰۱ق ۔

v قوانین الاصول ، ابوالقاسم بن حسن گیلانی معروف به میرازی قمی ، دارالطباعة استاد علی قلیخان ، ۱۲۹۹ ق ۔

v الکافی ، ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی ،مصحح : علی اکبر غفاری ، دارالاضواء، بیروت ، ۱۴۰۵ ق ۔

v الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوه التأویل ، جارالله محمود بن عمر زمخشری۔

v کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون ، ملاکاتب شلبی معروف حاجی خلیفه ، دارالکتب العلمیة بیروت ۔

v کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد ، جمال الدین حسن بن یوسف بن علی بن مطهر (علامه حلی ) مؤسه الاعلمی ، بیروت مطبوعه اول ، ۱۳۹۹ ق ۔

v کفایة الاصول ، آخوند ملامحمد کاظم خراسانی ، به خط طاہر خوشنویس ، انتشارات علمیه اسلامیه ۔

v کنز العرفان فی فقه القرآن ، جمال الدین مقدادبن عبدالله سیوری ۔

v کنز الفوائد الاما م الفتح شیخ محمدبن علی بن عثمان الکراجکی الطرابلسی ، دار الاضواء بیروت ۱۴۰۵ق ۔

v کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال ، علی متقی هندی ، مؤسسة الرساله ، ۱۴۱۳ق ۔

v اللباب فی اصول الفقه ، صفوان عدنان داودی ، دارالقلم ، دمشق ، مطبوعه اول ، ۱۴۲۰ق۔

v المبسوط ، شمس الدین سرخی ، دارالمعرفة بیروت ۱۴۱۴ ق ۔

v مجمع البحرین طریحی ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152