اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط0%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف: آیت الله مکارم شیرازی
زمرہ جات:

صفحے: 152
مشاہدے: 73868
ڈاؤنلوڈ: 3005

تبصرے:

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73868 / ڈاؤنلوڈ: 3005
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

استحسان

استحسان منابع اجتهاد میں بعض اہل سنت کی جانب سے بیان کرده ایسی اصطلاح ہے که جس کی مختلف تعریفیں ذکر کی گئیں ہیں

۱ - بعض نے کها که ایسی دلیل جو مجتهد کے ذهن میں خطور کرے لیکن اس کی تبیں کے لئے مجتهد کے پاس مناسب عبارت نه ہو وه استحسان کهلاتی ہے-(۱) ۔

۲- استحسان یعنی وه چیز جومجتهد کو اچھی لگے لیکن اس کی کوئی شرعی دلیل نه ہو-(۲) (۳) بعض نے کها که کسی قیاس کو اس سےقوی تر قیاس سے تخصیص دینے کو استحسان کهتے ہیں یا قیاس مخفی کو قیاس جلی پر مقدم کرنے کو استحسان کهتے ہیں

۳- قیاس سے دلیل اقوی کی جانب عدل کرنے کو استحسان کهتے ہیں اور وجود نص ، سهولت ،مصلحت مصلحت،اجماع ،ضرورت یا عرف و عادت کو محرکات عدول میں شمار کیا گیا ہے ۔(۴)

ان تعریفات میں اختلاف ہی نهیں بلکه تضاد بھی پایا جاتا ہے کیونکه اگر تعریف کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا که بعض تعریفات میں خود مجتهد یا عقل مجتهد کی عقل کوتعریف کی اساسبنیاد تعریف قرار دیا گیا جیساکه پهلی اور دوسری تعریف سے واضح ہوتا ہےکه لیکن دوسری تعریفات میں یه خصوصیت نهیں پائی جاتی اسی طرح بعض تعریفات کے مطابق استحسان کو قیاس کا نقطهء مقابل قرار دیا گیا لیکن دوسری تعریفات میں استحسان کو ایک قسم کاقیاس شمار کیا گیا اور شاید استحسان کامعروف ترین معنی وهی حکم ہے جس پر نص نه ملے لیکن عقل مجتهد کی عقل اسے پسند کرتی ہو ۔ابو حنیفه کی نظر میں استحسان حجت ہے اور یهی نسبت مالک وحنبلی کی جانب بھی دی گئی ہے –(۵) مالک کا یه جمله معروف ہے که ۹۰ در صد فقه استحسان پر استوار ہے لیکن ان کےمقابل بعض دیگر اہل سنت خاص طور سے شافعی-(۷) اور بعض حنفی جسے شاطبی اور طحاوی نے اس کی حجیت کا انکار کیا ہے-(۸) اسی طرح امامیه زیدیه او رظاہر یه کےنزدیک بھی استحسان باطل اور غیر معتبر ہے-(۹) ۔

استحسان کی حجیت پر آیات و روایات دونوں سے استدلال کیا گیا ہے قرآن سے سوره زمر کی تین آیات اور سوره اعراف کی ایک سو پنتالسیویں آیت سے استدلال کیا گیا ہے ۔

"( فَبَشِّرْ عِبادِالَّذينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَه‏ وَاتَّبِعُوا اَحسنَ ما أُنْزِلَ مِنْ رَبِّكُم‏"‏* )

“بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں” ۔(۱۰)

____________________

۱ الاحکام فی اصول الاحکام ،ج۴ ،ص ۱۵۷ .---۲ کتاب قوانین میں اس تعریف کی نسبت اہل سنت کی جانب دی گئی .---۳ المبسوط سید حسنی ،ج۱۰،ص۱۴۵

۴ الموسوعة الفقهیه المیسره ،ج۲،ص۴۳/۴۴.---۵ اصول الفقه ،محمد ابوزهره ، ص ۲۶۳ .---۶ الامام الشافعی ،ج۱۰ ،ص۱۱۹ .---۷ ابطال القیاس ابن حزم ، ص۵۱

۸ الاصول العامر ،ص۳۶۳ .---۹ زمر، ۱۷/۱۸ .---۱۰ الاحکام فی اصول لااحکام ،ج ۳ /۴،ص ۱۶۵

۱۲۱

سوره زمرکی آیت نمبر ۵۵سے بھی یهی استدلال کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سوره اعراف کی آیت نمبر ۱۴۵سےاستدلال کیا گیا که

"( فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا ) "

“مضبوطی کے ساتھ پکڑلو اور اپنی قوم کوحکم دو کہ اس کی اچھی اچھی باتوں کو لے لیں” ۔

ان آیات میں مشاہده سے واضح ہوتاہے که خداوند عالم نے قول احسن کی پیروی کی ترغیب دلاتی دلائی ہے او راحسن کی پیروی کے لئے لازم ہے که پهلے احسن کی شناخت ہو لیکن چونکه مصادیق احسن کو لوگوں کے لئے بیان نهیں کیاگیا اسی لئے اس کی ذمه داری خود لوگوں پر چھوڑدی(۱۱)

جواب

غزالی نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے کها که آیات کا مفاد یه نهیں ہے که جو تم بهتر سمجھو اس کی پیروی کرو بلکه ان آیات کا مفهوم یه ہے که احسن واقعی کی پیروی کرو اور خداوند عالم نے لوگوں کو پهنچوادیا که احسن واقعی کیا ہے احسن واقعی کتا ب و سنت کی موافقت ہے کیونکه احکام ان مصالح اور مفاسد کے تباع ہے جسے شریعت نے کاملا احاطه کیا ہے اور عقل بشر اور عقل بشر کو سوائے خاص موارد کے ان مصالح اور مفاسد تک رسائی نهیں لیکن اس چیز کو جسے لوگ بهتر اور اچھا سمجھتے ہیں صرف ہوا اور ہوس ہے جهت استحسان کی حجیت پرعبدالله بن مسعود کی روایت سے بھی استدلال کیا گیا ہے ۔مارای المسلمون حسنا فهو عبدالله حسن یعنی جس چیز کولو گ بهتر سمجھیں وهی چیز خداکے نزدیک بهترهے ۔(۱۲) مخالفین استحسان کے مخالفوں نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے کها

۱- یه جمله عبدالله بن مسعود کا قول ہے نه پیغمبر (ص)کا فرمان جو حجت ہو مگر یه که ہم قول صحابی کو حجت مانیں.

۲- کلمه روئیت در حقیقت میں علم و اطمینان کے معنی میں ہے یعنی جو چیز مسلمانوں کے نزدیک بطور قطع طور پرنیکو ہو خدا کے نزدیک بھی نیکو ہوگی اور یه بات استحسان جو دلیل ظنی ہے میں شامل نهیں ہوگی اسی لئے ماننا پڑے گا که حدیث حسن و قبح عقلی سے مربوط ہے که جس کا در ک کرنا سب کےلئے ممکن ہے پس موارد ظن وگمان کے موارد جو که ہمارا موردعادی بحث میں ہے شامل نهیں ہوگا(۱۳)

۳- آمدی او رغزالی اس حدیث کا جواب دیتے ہوئے کهتے ہیں که یه حدیث اجماع مسلمین پر دلالت کرتی ہے نه اس بات پر که جسے افراد مسلمین بهتر سمجھیں خدا بھی اسے بهتر سمجھے گا(۱۴)

۴- یه بھی غزالی کا قول ہے که یه حدیث خبر واحد ہے اور خبر واحد سے اصول کو ثابت نهیں کیا جاسکتا ۔(۱۵)

____________________

۱۱ .المستصفی ، ج ۱ ،ص۴۱۱ ، روضة الناظر ،ج۱ ،ص۴۷۵ .---۱۲ مسند احمد ،ج۱ ص۳۷۹ .---۱۳ انوار الاصول ،ج۲ ،ص۵۳۳ .--۱۴ الاحکام ،ج۴ ،ص۱۵۹، المستصفی ،ص ۱۷۲ .--۱۵ المستصفی ، ص ۱۷۲

۱۲۲

مصالح مرسله

یه اصطلاح ان مصلحتوں کےلئے استعمال ہوتی ہے جسے کے بارے میں شریعت کا کوئی خاص یا عام خطاب موجود نه ہولیکن شریعت کے مزاج اور مذاق شریعت سے اسے مشخص کیا جاسکتاہے ۔وه مصلحتیں دوقسم کی ہوتی ہیں :

۱- مصالح معتبره

وه مصلحتیں جن کے اعتبار اور رعایت میں شرعی دلائل موجود ہوں ۔

۲- مصالح ملغی

وه مصلحتیں جسے شارع مقدس نے بے ارزش سمجھا اور ان کی رعایت کو لازم نهیں جانا جسے دشمن کے آگے تسلیم ہونا اگرچه اس میں حفظ جان کی مصلحت ہے لیکن چونکه اسلام خطر ے میں پڑرها ہے اس لئے حفظ نفس کی مصلحت کو لغو کرکے جهاد کا دستور دیا پس دین کا بچانا مصلحت ہے چاہے اس میں جان ہی کیوں نه چلی جائے ۔

۳- مصالح مرسله

وه مصلحتیں جو اجتبار یا الغاء شرعی سے آزاد ہیں-(۱) مصالح مرسله کو بطور مطلق حجت مانتے ہیں جب که جمهور اہل سنت اس کی حجیت کے منکر ہیں یهاں تک که بعض مالکیوں نے کها که مالک سے بعید ہے که مصالح مرسله کو حجت مانے-(۲) لیکن بعض اس میں تفصیل کے قابل ہیں اور کهتے ہیں : فقط وه ضروری مصلحتیں جو قطعی اور بدیهی ہوں معتبر ہیں-(۳) مصالح مرسله کےلئے جو مثال پیش کی گئی وه یه ہے که اگر کفار جنگ کے دوران ان کی آڑ میں مسلمانوں کو نقصان پهچانا چاہیں ایسی صورت میں ان سے مقابله لازمی ہے کیونکه اگر ان سے مقابله نه کیا گیا تو وه مسلمانوں کو بھی نقصان پهنچائیں گے اور خود اسیروں کو بھی قتل کردیں گے لیکن اگر ان سے مقابله کیا جائے تو ایسی صورت میں اسیر مارے جائیں گے چاہے کفار کے هاتھوں مارے جائیں یا مسلمانوں کے هاتھوں تو یهاں مصالح مرسله کے مطابق مسلمانوں کا قتل جائز ہے کیونکه شریعت کا مزاج یهی ہے که مسلمانوں کے مصالح کو مقدم رکھا جائے اور مسلمان اسیروں کا قتل مصالح مسلمین سے نزدیک تر ہے –(۴)

____________________

۱ .اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۸۶

۲ ارشاد العقول ، ج ۲ ،ص ۱۸۴

۳ اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۸۹

۴ المستصفی ، ج۱ ، ص ۴۲۴

۱۲۳

مصالح مرسله اور استحسان کا فرق یه تبایا گیاکه استحسان میں غالبا قواعد و نصوص عامه سے ایک قسم کا استثناء پایا جاتا ہے دوسری بعبارت دیگر میں استحسان ثابت شده احکام سے ایک قسم کا عدول ہے لیکن مصالح مرسله ان موارد سے مربوط ہے که جهاں حکم کے لئے کوئی شرعی دلیل نهیں ہے بلکه فقیه مزاج شریعت کے پیش نظر مصلحت کی بنیاد پر حکم لگاتاہے البته استحسان میں بھی مصلحت پائی جاتی ہے لیکن یه مصلحت اکثرا وقات استثنائی شکل اختیار کرجاتی ہے –(۵) ۔

مصالح مرسله کو حجت ماننے والوں کی دلیل یه ہے که احکام مصالح کے تابع ہیں اور تمام مصالح نصوص میں مذکور نهیں ہیں کیونکه مصلحتیں زمان و مکان کے لحاظ سے بدلتی رهتی ہیں اگر صرف ان مصلحتوں پر تکیه کیا جائے جس کا ذکر نصوص میں ہو تو ایسی صورت میں گئی ایک مصلحتیں که جن کا ذکر نصوص میں نهیں آیا ہے ان سے هاتھ دھونا پڑے گا اور یه بات شارع کی غرض وهدف کے خلاف ہے –(۶) ۔

جواب :

مسلما احکام مصالح کے تابع ہیں اور اگر وه مصلحتیں نصوص اور ادله شرعیه میں معتبر شمار کی گئیں یا یه مصلحتیں ادراک عقلی کے اعتبار سے مستقلات عقلیه کامقام رکھتی ہوں اور فقیه کے لئے یقین آور ہوں تو یهی قطع و یقین فقیه کے لئے حجت ہوگا لیکن اگر مصلحت ایسی ہو که جس کو معتبر جاننے یا الغاء کرنے کے لئے کوئی دلیل نه ہو اور صرف حکم شرعی کا گمان پیدا ہوتا ہو تو ایسی مصلحت کی بنیاد پر کسی حکم کو معتبر ماننے کے لئے دلیل قطعی کی ضرورت ہے اور ایسی کوئی دلیل نهیں جو اس حکم کو ثابت کرے کیونکه ظن و گمان میں اصل عدم حجیت ہے –(۷) جیساکه قرآن میں ارشاد ہے :

"( وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ) "

“ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے” ۔(۸)

خلاصه یه که اگر مصالح مرسله قطع و یقین تک پهنچ جائیں تو ان کی حجیت مسلم ہے لیکن مصالح ظنی میں اشکال ہے کیونکه ان کے اعتبار پر کوئی قطعی دلیل ہمارے پاس نهیں ہے ۔

____________________

۵ اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۹۹/۲۹۸

۶ اصول الفقه اسلامی ،ص ۲۵۹

۷ انوار الا صول ،ج۲ ، ص۵۳۸

۸ نجم ، ۲۸

۱۲۴

سد و فتح ذرایع

“"ذرایع ”" ذریعه کی جمع اور وسیله کے معنی میں ہے ۔(مترجم )-(۱) سد اور فتح کھو لنے اور بند کرنے کے معنا میں ہے اور یه اصطلاح علماء اور فقهائےاہل سنت کے درمیان رائج ہے اہل سنت کاکهنا ہے چونکه مصلحتوں کا جلب کرنا اورمفاسد کا دفع کرنا لازم ہے اس لئے بعض افعال کو بطورر مستقیم حرام قرار دیاگیا جیسے چوری اور زنا لیکن بعض افعال کو براہ راست حرام قرار نهیں دیا گیا کیونکه وه اعمال بذات خود حرام نهیں ہیں لیکن چونکه ارتکاب حرام کا سبب بنیں گے اس لئے شارع نے انهیں حرام کردیا جیسے اجنبی عورت کی ہم نشینی ۔ چون چوں که افراد سد ذرایع کی حجیت کے قائل ہیں وه کهتے ہیں جو راستے محرمات الهیٰ تک پهنچاتے ہیں یا حرام کا موں کا سبب بنتے ہیں ان راستوں کو بند کردینا چاہیے اسی طرح جود افراد “"فتح ذرایع” " کو حجت جانتے ہیں وه کهتے که وه وسائل اور وه راستے جو واجبات الهیٰ کے انجام دینے کاسبب بنتے ہیں انهیں کھلا رکھنا چاہئیے مالک سد وفتح ذرایع کے ساتھ قاعده کو فقه کے اکثر ابواب میں قابل اجراء جانتاہے معروف ہے که مالک نے کها : تکالیف شرعی کا ایک چوتھا ئی حصه سد وفتح ذرایع کے ذریعه استخراج ہوتا ہے ۔ ظاہر یه دو اصطلاحیں (مقدمه حرام کی حرمت ) اور مقدمه واجب کے وجوب کی جانب لوٹتی ہیں شیعون شیعوں نے اپنی اصول فقه کی کتابوں میں اس بحث کو مقدمه واجب کی بحث میں پیش کیا ہے ۔

البته سد ذرایع کے لئے ایک اور معنی ذکر کیا گیا ہے اور وه شرعی چارۂکار یا شرعی حیله کے راستے کو بند کرنا ہے مثال کے طور پر اگر کوئی ربا سے فرار کی خاطر اپنے مال کو اونچی قمیت پر ادھار بیچ دے اور یه شرط لگائے که خریدار اسے سستے داموں پر دوباره اسی شخص کو بیچ دے که جس سے خریدا ہے سد ذرایع کے طرفداروں نے اسی سدذرایع کی اساس پر عمل کو حرام قرار دیا ہے کیونکه اس کے ذریعه ربا میں گرفتار ہونے کا خطره ہے اس بات پر یه اشکال وارد ہوتا ہے که اگر سد و فتح ذرایع پهلے معنا کے مطابق ہو تو یه بحث حکم عقلی کے موارد میں نوع دوم سے مربوط ہے که جسکی بحث گزشته مباحث میں گذر چکی اور جهاں مقدمه واجب و حرام کی بحث کو وهاں بیان کیا جاچکا اور اگر سد وفتح ذرایع سے مراد دوسرا معنی ہو ، تو ربا میں حیله شرعی کا استعمال دوسری جهتوں سے معامله کو باطل کرتاہے ۔. اور وه یه ہےکیوں که ان شموارد میں طرفین کی جانب سے انشاء اورمعامله میں قصد جدی نهیں پایا جاتا اسی دلیل کی وجه سے معامله عقلا باطل ہے۔ پس سد وفتح ذرایع کامسئله استنباط احکام کا کوئی منابع نهیں بلکه عقل کے حکم قطعی کا ایک جزء ہے ۔ (مترجم )-(۶)

____________________

. اعلام الموقعین ،ج۳،ص۱۷۶ .---۲ اصول الفقه الاسلامی ،ص۳۰۰ .---۳ الموافقات ،ج ۴ ،ص ۱۴۱ .--۴ البته سد وفتح ذرایع اور مقدمه حرام و واجب ، کے درمیان جو کچھ تفاوت ہے اسے ہم نے اختلاف فتاوی کی علتوں میں بیان کیا ہے .--۵ انوارالا صول، ج۲ ،ص۵۴۲

۶ .(مترجم)

۱۲۵

۱۶- ذرایع کی قسمیں اور انکا حکم :

ابتداء میں ذرایع کو دوقسموں میں تقسیم کرنے کے بعد منع اور منع نه ہونے کے حواله سے اس کا حکم بیان کریں گے

ذرایع کی دو قسمیں :

ایک تو وه سه گانه تقسیم ہے جو مالکی فقیه قرافی نے انجام دی دوسیری چھار گانه تقسیم ہے جو ابن قیّم کی جانب سے پیش ہوئی

الف - قرافی تقسیم :

شوکانی اپنی کتاب ارشاد الفحول میں قرافی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں .صرف مالک ہی سدذرایع کا قائل نهیں بلکه تمام علماء اس کے قائل ہیں اور مالکیه کا اس کے علاوه کوئی اعتبار نهیں که وه بهت زیاده سدذرایع کے قائل ہیں.

پھر وه قرافی کی سه گانه تقسیم بیان کرتے ہوئے کها ہے

۱- جو چیز علماء کی نظر میں معتبر ہے (یعنی علماء کا سدذرایع پر اتفاق ہے ) جیسے مسلمانوں کی گذرگاہ پر کنواںکھودنا اور ان کے کھانے میں زهرملانا اور ایسے شخص کے سامنے بتوں کو برابھلا کهنا که جس کے لئے معلوم ہے که وه اپنے بتوں کی توهین سن کر خدا کو برابھلا کهتاہے

۲- وه موارد جو علماء کے نزدیک غیر معتبر ہیں ( یعنی سدذرایع کے عنوان سے حکم کا مبنا قرار نهیں پاتے)جیسے درخت انگور کا اگانا اور اس ڈرسے کهیں انگور شراب میں تبدیل نه کی جائے درخت انگور کو اگانے سے روکنا یه مورد علماء کے نزدیک غیر معتبر ہے گرچه ممکن ہے که یه درخت حرام کے تحقق کا وسیله بنے.

۳- وه موارد که جهاں سد کےلازم ہونے یا نه ہونے میں اختلاف ہو جیسے بیع اجال یعنی مهلت دار بیع یه ہمارے نزدیک حرام میں پڑنے کا ذریعه ہے اس لئے ہم اس مورد میں سدذرایع کے قائل ہیں لیکن دوسرے اس مساله میں ہمارے مخالف ہیں

ب- ابن قیّم کی تقسیم :

۱- ابن قیّم نےاپنی کتاب اعلام الموقعین میں ذریعه کو نتائج کے اعتبار سے چار قسمتوں میں تقسیم کیا ہے.

ایسا وسیله اور ذریعه که جس کا وضع کرنا اس لئے ہو که مفسد ه دور ہو جائے جیسے شراب کا پینا اس کا مفسده مستی اور عقل کی تباہی ہے اسی طرح قذف که اس کا مفسده دوسروں پر تهمت لگانا ہے یا زنا که اس کا مفسده نسب کا درهم و برهم ہونا اور خاندانی روابط کا بگاڑ ہے

۱۲۶

۲- ایسا وسیله اور ذریعه جو که ایک مباح امر کے لئے وضع ہوا ہے لیکن اس کا فساد اس کی مصلحت سے کهیں زیاده ہے اور اکثر اوقات مفسده کا سبب بنتاہے جیسے آیام وفات میں بیوه عورت کا سجنا سنورنا

۳- ایسا ذریعه جو امر مباح کے لئے وضع ہوا لیکن لوگ خواہ نحواہ اسے حرام تک پهنچنے کا ذریعه قرار دیں گےجیسے ایسا عقد جو تحلیل کی نیت سے باندها جائے یا ایسا کاروبار جو ربا کی نیت سے انجام دیا جائے

۴- ایسا ذربعه جو امر مباح کے لئے وضع ہوا لیکن ایسی میں مفسده بھی ممکن ہے پھر بھی اس کی مصلحت مفسده سے کهیں زیاده ہے جیسے منگنی شده لڑکی کو دیکھنا یا اس عورت کی جانب نگاہ کرنا جو اس کے حق میں گواہی دے رهی ہو

ابن قیّم کی نظر میں پهلی اور چوتھی قسم محل نزاع و بحث نهیں ہے کیونکه شارع نے قسم اول کو منع اور قسم دوم کو مباح جانا ہے .لیکن دوسری او رتیسری قسم میں اختلاف ہے که کیا شریعت نے ان موارد کو مباح جانا یا حرام .(مترجم)

۱۷- سد ذرایع کی حجیت کی دلیلیں :

جوافراد سد ذرایع کی حجیت کے قائل ہیں اور اسے احکام فقهی کا مصدر و مبنع سمجھتے ہیں انهوں نے اس کے اثبات میں بعضی آیات روایات کا سهار لیا ہے ہم یهاں پر ان کی چند نقلی دلیلیں بغیر کسی توضیح و نقد کے ذیل میں بیان کرتے ہیں

قرطبی نے اپنی تفسیر میں کها :

قد دل علی هذا الااصل الکتب والسنة ” اس اصل پر کتاب وسنت دلالت کرتی ہے

اس کے بعد وه قرآن سے چند آیات بطور استناد پیش کرتے ہیں :

۱-( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

۲- ایمان والو! راعنا (ہماری رعایت کرو) نہ کہا کرو “انظرنا ” کہا کرو اور غور سے سنا کرو اور یاد رکھو کہ کافرین کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے”.(۲)

اس آیت سے وجه تمسک یه بتاتے ہیں که یهود کلمه (راعنا) کو اپنی زبان پر لاتے تھے یه کلمه ان زبان میں سب و دشنام کے معنی میں ہے چونکه خدا جانتا تھا که یهود اس کلمه کو سب و دشنام کے لئے استعمال کرتے ہیں اسی لئے خدا نے اس لفظ کے استعمال سے روکا

_____________________

۱۲۷

۲-( وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

“اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے”(۳)

اس آیت میں وجه تمسک کے بارے میں کهتے ہیں خدانے اس آیت میں بت پرستوں کو برابھلا کهنے سے روکا ہے تاکه کهیں بت پرست بھی جواب میں خداوند عالم ( معاذالله ) مورد سب و دشنام قرار دیں

۳- مورد استدلال آیات میں ایک آیت یه بھی ہے

( وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) (۴)

“اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے ”

قرطبی نے سنت سے کئی ایک روایات کوسد ذرایع کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے

۱- صحیح مسلم میں پیغمبر(ص) سے روایت ہے که آپ نے فرمایا: “الحلال بین والحرام بین و بینهما امور متشابهات فمن اتقّی الشبهات استبرا الدینه و عرضه و من وقع فی الشبهات وقع فی الحرام کالراعی یّرعی حوال حمی یوشک ان یقع فیه(۵)

حلال بھی واضح اور حرام بھی روشن ہے اور ان کے درمیان شبهناک امور بھی ہیں لهذا جو کوئی شبهناک چیزوں سے پرهز کرے اس نے اپنے دین اور آبرو کو حفظ کرلیا اور جو شبهناک امور میں پڑگیا در حقیقت حرام چیزوں میں گرفتار ہوگیا بالکل اس کسان کی طرح جو اپنے بھیڑ،بکریوں کو ایسی کھائی کے پاس سے چڑانے لے جائے که جهاں عنقریب ان کا گرنا قطعی ہو

____________________

۱- الجامع الاحکام القرآن ، ج ۲ ، ص۵۸

۲ سوره ،بقره، آیه ، ۱۰۴

۳ سوره انعام ، آیه ، ۱۰۸

۴ سوره نور ، آیه ۳۱

۵ .الجامع الاحکام القرآن ، ج ۲ ف ص ۵۹

۱۲۸

۲- پیغمبر(ص) نے فرمایا:

اِن من الکبائر شتم الرجل والدیه قالوا: یا رسول الله و هل یشتم الرجل والدیه ؟ قال : نعم یسب أباه و یُسب أمکم(۶)

گناہ کبیره میں سے انسان اپنے ماں باپ کو برا بھلا کهے پیغمبر(ص) کے اطرافیوں نے کها اے رسول خدا کیا انسان اپنے والدین کو برا بھلا کهتاہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا هاں انسان کسی کے باپ کو گالی دیتاہے وه اس کے باپ کو گالی دیتا ہے یه دوسروں کی والده کو گالی دیتاہے دوسروں اس کی ماں کو گالی دیتے ہیں

حیساکه اس سے واضح ہے دوسروں کے والدین کو برا بھلا کهنا یا گالی دینا اس بات کا سبب ہے که گالی دینے والے کے ماں باپ کو گالی پڑے گی اس لئے سدذرایع کے ذریعه دوسروں کو گالی دینے سے روکا گیا ہے

قرطبی نے آیات روایات سے استدلال کے بعد کها :

یه سدذرایع کی دلیلیں تھیں جو ہم نے بیان کی اورمالکیوں نے کتاب آجال ( مهلت دار بیع ) اور دوسرے مسایل بیع کو اسی سد ذرایع کی اساس پر حل کرتے ہیں لیکن شافعی کتاب آجال کے قائل نهیں ہیں کیونکه ان کے نزدیک بیع آجال مختلف اور مستقل عقود میں سے ہے .(مترجم)

____________________

۶ گذشته حواله سے ، ج۲ ، ص ۵۹

۱۲۹

تعارض ادله

منابع استنباط کے مباحث میں آخری گفتگو تعارض ادله کے بارے میں ہے ۔

مقدمه کے عنوان میں اس مطلب کا ذکر ضروری ہے که کبھی دولیلوں کے درمیان (تعارض اتبدائی ) نظر آتا ہے لیکن چونکه اس قسم کے تعارض ابتدائی میں جمع عرفی موجود ہوتاہے یا ان دو دلیلوں میں ایک دوسری دلیل پر حاکم ہوتی ہے اس لئے یه تعارض کی ابتدائی بحث تعارض سے خارج ہے۔ اسی لئے دلیل عام یه کهے، سارے دانشمندوں کا احترام کرو اور اسی کے مقابل دلیل خاص وارد ہو که بے عمل عالم کا احترام مت کرنا این دو دلیلوں یا ان جیسی دلیلوں میں عرف کی نظر میں کوئی تعارض نهیں بلکه جمع عرفی کا تقاضا یه ہے که دلیل خاص کو دلیل عام پر مقدم کیا جائے خاص کو عام پر مقدم کرنے کانتیجه یه ہوتا ہے که عالم بے عمل کے سلسلے میں ہم دلیل خاص پر عمل کریں گے اور عالم بے عمل کے علاوه تمام علماء کے احترام کے لئے دلیل عام حجت ہوگی دوسری بعبارت دیگر میں سارے افراد دلیل عام کی عمومیت پر باقی ہوں گے-(۱)

. اسی طرح جن موارد میں دو دلیلوں کے درمیان ابتداء میں تعارض نظر آتا ہے لیکن ایک دلیل جو دوسری دلیل پر حاکم ہوتی ہے جیسے عناوین اولی پر عناوین ثانوی حاکم ہوتے ہیں یهاں بھی پچھلے موردکی طرح کوئی تعارض نهیں پایا جاتا جیسےے کوئی دلیل یه کهے-(۲)

غیر اسلامی ذبیحه کا کھانا حرام ہے لیکن دوسری دلیل میں یه آئے که مجبوری کی صورت میں اس کا کھانا جائز ہے ۔

ایسی دو دلیلیں آپس میں تعارض نهیں رکھتیں بلکه دوسری دلیل پهلی دلیل پر حاکم اور مقدم ہوتی ہے-(۳)

اسی طرح اگر اماره اوراصل کے درمیان تعارض ہو تو یه تعارض بھی ابتدائی تعارض ہے جسے در حقیقت تعارض شمار نهیں کها کیا جاتا کیونکه اماره کے ہوتے ہوئے اصل کی نوبت نهیں آتی اس لئے که اماره اصل پر حکومت یا ورود رکھتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر قاعده صحت (اصاله الصحة ) که جسے اکثر افراد اماره شمار کرتے ہیں استصحاب فساد سے تعارض رکھے (مثلا ہمیں یه شک ہوکه فلاں انجام شده معامله صحیح تھا یا فاسد ) یهاں پر اصالة الصحة استصحاب پر یعنی اصل عدم انعقاد معامله کے منعقد نه ہونے پر مقدم ہے ۔

____________________

۱ البته یه تذکر لازم ہے که جهاں کهیں دو دلیلں مل جائیں.

۲ دلیل حاکم و محکوم کی توضیحات ادله لفظی کی تقسیمات میں گذر چکی ہے

۳ انوار الاصول ، ج ۳،ص ۵۰۶

۱۳۰

بهر حال کبھی تعارض دو شرعی دلیلوں کے درمیان واقع ہوتاہے اور کبھی دو اصل کے درمیان، اگر استصحاب اور دیگر تین اصول ( یعنی اصل برائت و تخییر و احتیاط ) سے تعارض ہو تو استصحاب کومقدم کیا جائے گا کیونکه حجیت استصحاب کے دلائل کا تقاضا یه ہے که زمان دوم ( یعنی در شک کے زمانے میں ) سابقه پهلے یقینی امر پر بنا رکھی جائے بعبارت دیگر اصل استصحاب اصل محرز ہے

اس لئے دیگر اصول پر مقدم ہوگی دو استصحاب کے درمیان تعارض ہو اور ان کے درمیاان سببیت اور مسببیت پائی جائے تو استصحاب سببیی مقدم ہوگا ور نه ہر دو اصل ساقط و بی اثر ہوجائیں گی جیسے وه پانی جو پهلے کر تھا اور اب اس کی کریت میں شک ہو اور پانی سے نجس لباس دھویا جائے ایسی صورت میں استصحاب سببی(یعنی پانی کی کریت کا استصحاب )جاری ہوگا اور لباس میں نجاست کےاستصحاب ( جو که استصحاب مسببی ہے ) کی جانب توجه نهیں کی جائے گی ۔.

دو دلیلوں کے تعارض کی صورت میں کچھ ترجیحات پیش کی گئی ہیں اگر ان دو دلیلوں میں کسی بھی دلیل میں ترجیحات پائی جائیں تو اسی دلیل کو مقدم رکھا جائے گا اور اگر کوئی دلیل دوسری دلیل پر کسی قسم کا امتیاز رکھے اور ان میں تعادل برقرار ہو تو ایسی صورت میں یا تو دونوں دلیلیں ساقط ہوجائیں گی یا ان میں سےایک دلیل کو حجت مانا جائے گا یا پھر احتیاط کی جائے گی اور ان تینوں فیصلوں میں فقهاء اور اصولیوں کے مبنا فرق کرتے ہیں ہر کسی نے-(۴)

ایک راسته چنا ہے اکثر فقهاء کے نزدیک مذکوره بالا قاعده یعنی خصوصیت کی صورت میں ترجیح اور تعادل کی صورت میں تخییر،احتیاط کو تمام امارات میں جاری اور ساری جانتے ہیں-(۵)

لیکن یهاں اہم ترین بحث یه ہے که اگر دو روایتوں میں تعارض ہو که ایسا تعارض اکثر وبیشتر پیش آتاہے او رفقیه کے مختلف ابواب میں متعارض روایات کا سامنا کرنا پڑتاہے مثال کےطور پر وه روایات جس میں وزن اورمساحت کے لحاظ سے کر کی مقدار بتائی گئی ہے یا وه روایات که جن میں اہل کتاب خواتین سے ازواج کی حرمت یا عدم حرمت بیان کی گئی ہے ۔. ان روایات میں تعارض پایا جاتا ہے گذشته مباحث میں سنت ائمه پر جو اشکالات ہوئے ہیں وهاں ہم نے تعارض روایات کی مختلف علتوں کو بیان کیا ہے لیکن یهاں پر تعارض کے علاج اور دو متعارض حدیثوں سے برخورد کے طریقوں پر گفتگوهے ۔

___________________

۴ رسائل ، فرائد الاصول ، ص ۴۱۴

۵ گزشته حواله ، ص ۴۴۱

۱۳۱

روایات و اخبار میں قواعد تعارض کے اجراء کا طریقه بیان کیا گیا ہے اجمالی طور پر اکثر فقهاء تاثیر مرجحات کو جانتے ہیں صرف باقلانی ابو علی اور ابو هاشم جبانی ان امتیازات او رمزیتوں کو بے اثر جانتے ہیں اور ہر مقام پر احکام تعادل کو جاری مانتے ہیں لیکن فریقین کے نزدیک مشهور ہے اور اخبار متواتر کا تقاضا بھی یهی ہے که جس روایات کو مقدم کیا جائے ۔

روایات میں کئی ایک مرجحات اور امتیازات روایات کو بیان کیا گیاہے که جن میں بعض مرجحات سند سے اور بعض امتیازات دلالت سے مربوط ہیں ے۔.جیسے روایت کا مشهور ہونا اور فقهاء کا اس پر عمل کرنا ، راوی کا عادل تر ہونا یا اس کا اصدق اور افقه ہونا اسی طرح روایت کا کتاب وسنت سے موافقت رکھنا اور اسی طرح کے دوسرے امتیازات اہل سنت نے دیگر امتیازات ،اور ترجحات بیان کیے ہیں

جیسے راوی کا زمان پیغمبر (ص)سے نزدیک تر ہونا یا مدت صحبت کا طولانی تر ہونا اور رسول خدا (ص)سے مستقیم حدیث کا سننا ،حکم روایت کا راوی سے مرتبط ہونا ، راوی کا مشهور ہونا راوی کا مُسن ہونا ، راوی کے اسلام کا متاخر ہونا ، راوی کالغت عرب سے واقف اور اعلم ہونا ، راویوں کی کثرت ہونا ، واسطوں کی قلت اور نقل معنا کے بجائے روایت میں عین الفاظ کا ہونا ، روایت کا قولی ہونا یعنی فعل پیغمبر کی حکایت کے مقابل قول پیغمبر کا ہونا-(۶)

اس بات کی توجه کرتے ہوئے اکثر مرجحات منصوص نهیں ہیں اورروایات میں ان کا ذکر نهیں ہے ان مرجحات کو اپنے مبنا کے حساب سے قبول کریں گے که قبول مرحجات میں ہمارا مبنا کیا ہے ؟ کیا قول مرجحات میں موارد منصوص سے ( یعنی وه موارد جو متن حدیث میں ذکر ہوئے ہیں )تجاوز کرسکتے ہیں یا نهیں ؟ اگر کرسکتے ہیں تو یه مرجحات ہمارے لئے قابل قبول ہون ہوں گے و رنه نهیں ہونگے لیکن اگر دو روایتوں میں تعادل برقرار ہواور کسی بھی روایت کو ایک دوسرےپر ترجیح حاصل نه ہو ، تو ایسی صورت میں علماء کے درمیان اختلاف نظر موجود ہے یعنی بعض ددونوں روایتوں کو حجیت سے ساقط جانتے ہیں اور نتیجتاً اصول عملیه کی جانب رجوع کرتے ہیں کیونکه دلیل اجتهادی کے ساقط ہونے کی صورت میں اصل عملی کی جانب رجوع کیا جاتاہے ۔

ان کے مقابل دوسرا گروه اس بات کا قائل ہے که دونوں روایتیں قابل عمل ہیں اور تیسرا گروه احتیاط کا قائل ہے اور چوتھا گروه توقف اور پانچواں گروه تخییر کا قائل ہے ۔

یه بحثیں اصول کی معروف کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔(مترجم(۷) )

الحمد لله الرب العالمین

____________________

۶ رسائل فرائد الاصول ، ص ۴۴۹ ؛ کفایة الاصول ،ج۲ ، ص ۳۹۲

۷ (مترجم)

۱۳۲

عرف :

فقهاء کے نزدیک عرف بھی ادله استنباط میں شمار ہوتاہے جس کی تعریف میں کهتے ہیں وه چیز جو لوگوں کے درمیان متعارف معمول ہو ں اور ان کی عملی اور گفتاری سیرت کا جز ہوں

عرف اگر مذکوره معنی میں ہو تو عادت کا مترادف ہوگا اسی لئے عرف کی تعریف میں کها گیا “ عاده جمهور قوم فی قول ا و عملی”

قول و فعل میں کسی قوم کی عادت کو عرف کهتے ہیں

عرف کی تقسیمات :

۱- عرف خاص اور عرف عام :

عرف خاص کسی خاص زمانے یا منطقه یا اہل فن کے عرف کو عرف خاص کهتے ہیں ، مثلا زمان پیغمبر(ص)کے عربوں کا عرف شهر مدینه کے لوگوں کا عرف یا اہل بازار کا عرف

عرف عام :

عام لوگوں کا عرف که جس میں زمان مکان یا کسی خاص فن کی قید نه ہو

توجه رهے که عرف عام یا خاص ہونا ایک امر نسبی ہے ، کبھی ایک ہی عرف ایک لحاظ خاص سے اور دوسرے لحاظ سے عام ہوتا ہے

۲- عرف عملی اور عرف قولی :

عرف عملی جیسے بیع معاطاتی یعنی خرید و فروش میں لوگوں کی عادت یه ہے که صیغه جاری کرنے کے بغیر ہی معاملات انجام دیتے ہیں یه عادت کئی قوموں کے عوام و خواص میں اور ہر زمانےمیں رائج رهی ہے

عرف قولی :

جیسے عراقیوں کی عادت ہے که لفظ ولد کو فقط بیٹوں کے لئے استعمال کرتے ہیں بیٹیوں کے لئے ہیں یا بعض مناطق کے لوگ مچھلی کے لئے گوشت کا لفظ استعمال نهیں کرتے اب اگر کوئی قسم کھائے که میں گوشت نهیں کھاؤں گا اور کھالے تو عرف قولی کی بنا پر نه اس نے اپنی قسم توڑی ہے اور نه اس پر کفاره لگے گا

۱۳۳

عرف صحیح اور عرف فاسد :

عرف صحیح اس عرف کو کهتے ہیں جو دوسری شرعی دلیل جیسے قرآن یا سنت کے مخالف نه ہو مثال کے طور ر بعض علاقه کے لوگوں کی عادت یه ہے که دلهن والے رخصتی سے پهلے دلهے سے نقدی مھرلیتے ہیں تا دلهن کا جهیز خرید سکیں

عرف فاسد :

جیسے معاملات میں ربا انجام دینا یا شراب پینا یا اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں عورتوں کا پرده کے معامله میں سهل انگاری سے کام لینا

مذاہب اسلامی میں عرف کی حجیت :

اہل سنت کے اکثر مذاہب کے نزدیک عرف کی جانب رجوع کرنامورد قبول واقع ہوا ہے

حنفیوں کے نزدیک عرف کے ذریعه احکام شرعی کا اثبات خاص طور سے معاملات میں بهت رائج ہے ان کے نزدیک جب تک عرف پر عمل سے روکنے والی کوئی نص نه ہو تب تک عرف ثبوت احکام میں دلیل تام سمجھی جائے گی یهاں تک که اگر قیاس عرف کے خلاف ہو تو قیاس کو رد کردیاجائے گا کیوں که قیاس پر عمل کرنا لوگوں کی زحمت کا باعث ہے اسی لئے کبھی کبھی عرف مصالح مرسله میں شمار ہوتا ہے

ابو حنیفه اور اس کے ماننے والے کابعض احکام میں اختلاف ہے کیونکه انھونےعرف کو مختلف دیکھا ہے.

مالک بن انس اکثر موارد میں شرعی احکاام کو اہل مدینه کے عرف پر معین کرتے تھے

اما م شافعی جب مصر میں وارد ہوئے تو انهوں نے اکثر احکام بدل دیے کیوں که وه اہل مصر کی عرف کو عراق و حجاز کے عرف سے جدا پاتے تھے.

۱۳۴

اہل سنت کے فقهائ نے کچھ قواعد ایسے بنائے ہیں جو عرف کے اعتبار ہونے کی وجه سے دلیل شرعی کے عنوان سے بنائے گئے ہیں ان میں سے بعض قواعد که جس کا ذکر مجله الاحکام العدلیه میں ہوا ہے وه عبارت ہیں :

العادة محکمة؛ استعمال الناس حجة یجب العمل بها ؛ المعروف و عرفا کا لمشروط شرطا ؛ التعیین بالعرف کالتعیین بالنص ؛ لاینکر تغیر الاحکام بتغیر الازمان ؛ الثابت بالعرف کالثابت بالنص

عرف فاسد کی رعایت واجب نهیں کیونکه دلیل شرعی کے خلاف ہے مگر یه که (عرف ضرورت کے باب سے آیا ہو) ایسی صورت میں کهتے ہیں( الضرورات تبیح المحذورات )لیکن مجتهد کو چاہئیے که صحیح کا لحاظ کرے جیسا که رسول خد(ص)نے لوگوں کی کئی ایک اچھی عادتوں کا لحاظ کیا اور کبھی سکوت کے ذریعه اور کبھی صراحت کے ساتھ ان عادتوں کی تائید کی

عرف کی جانب رجوع کرنے میں ایک مورد باب خیار عیب ہے کون سی چیز عیب اور موجب فسخ ہے اور کون سی چیز عیب نهیں ہے اس کی تشخیص کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جائے گا اسی طرح ودیعه کی دیکھ دیکھ کتنی مدت تک ہونی چاہیئے که کوئی یه نه کهے که ودیعه کی حفاظت میں کوتاہی کی گئی اس مسئله میں بھی عرف کی جانب رجوع کرنا ہوگا لیکن شیعوں کی نظر میں عرف کی جانب رجوع کے موارد ایک جیسے نهیں ہیں

۱- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتاہے که ظهور لفظی کو تشخیص دیا جائے جیسے لفظ ولد یا گوشت که جس کی مثال گذر چکی ان جیسے موارد میں عرف قولی کی جانب رجوع کرنا ظهور عرفی کی تشخیص کے لئے قابل قبول ہے لیکن روشن ہے که یهاں عرف حکم شرعی کی دلیل نهیں ہے

۲- کبھی کسی حکم شرعی کے موضوع کامصداق تلاش کرنے کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جاتا ہے جیسے فقه میں آیا ہے که ودیعه کی حفاظت واجب ہے اور اس میں کوتاہی ضمان کا موجب ہوگا لیکن زمان و مکان کے اعتبار سے عرف بھی اسی زمان و مکان کے مطابق ہوگا اس لئے اسی عرف کی روشنی میں حفظ یا کوتاہی کا مصداق تلاش کیا جائے گا یهاں بھی عرف کا حکم کی شناخت میں کوئی کردار نهیں

۳- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتا ہے تاکه اس سے حکم شرعی کو کشف کیا جائے حیسے منقولات کے وقف کا جائز ہونا یا اخذ ظاہر کا جائز ہونا یا عقد فضولی کا صحیح ہونا شیعه اصولیوں میں سیره عقلا اور سیره متشرعه کی بحث اور حکم شرعی میں ان کا کردار اسی عرف سے مربوط ہے

۱۳۵

لیکن عرف کی طرف رجوع یعنی سیره کی طرف رجوع سےمراد یه نهیں ہے که عرف ایک دوسری مستقل دلیل جو ادله شرعی کے عرض میں ہے کیونکه سیره عقلا یا سیره متشرعه اس وقت حجت ہے جب شارع کے مخالف نه ہو اور شارع کی مخالف سمجھنے اور نه سمجھنے کے ہے شرعی دلیل یعنی کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنا ہوگا لهذا سیره عقلا کی حجیت معتبر دلیل شرعی کی حجیت کی وجه ہے یعنی کتاب و سنت کی حجیت کی وجه سے

لیکن سیره متشرعه کی حجیت کے لئے شارع کی تائید کی ضرورت نهیں کیونکه سیره مشترعه شارع کی راہنمائی کے بغیر وجود میں اہی نهیں سکتی کسی گروه کا متشرعه ہونا اس بات کی دلیل ہے که یه سیرت دستور شرعی سے ماخوذ ہے اور دلیل شرعی کی بنا پر صورت پاتی ہے

عرف کی حجیت کے دلایل اور ان کا جواب :

اہل سنت میں عرف کے قائل فقهاء نے اس کی حجیت پر چند دلیلیں پیش کی ہیں

۱- عبدالله بن مسعود کی روایت

ماراه المسلمون حسناً فهو عندالله حسن

اگثر فقهاء نے اسی حدیث پر اعتماد کیا ہے اس حدیث کی سند میں جو تھامناقشه اس سندی کی بحث گذر چکی بعض نے اس روایت کی سند کے صحیح ہونے کے بارے میں کها ہے که صحابی جب بھی مقام تشریع میں کچھ کهیں تو اسے قول رسول سے ماخو ذ سمجھنا چاہیئے پس اگر عبدالله بن مسعود نے اپنے سے یه بات کهی تو اس کے حدیث نبوی ہونے کے لئے کافی ہے

جواب :

اس بات کا تعلق قول صحابی یا مذهب صحابه کی حجیت سے ہے.

اسلام نے مختلف مواردمیں عرف جاہل ی کی تائید کی ہے جیسے ازدواج میں عورت اور مرد کا کفو ہونا یا قاتل که پدری رشته داروں پر قتل خطا ئی کا دیه قرار دینا

جواب :

اگر سیره عقلا ء کی حجیت شارع کی تائید سے ہے تو اس حجیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اگر اس سے مراد ہر عرف کی حجیت کا اثبات ہےتو یه تسلیم نهیں کرتے بلکه تمهارے نزدیک بھی یه قابل قبول نهیں کیونکه اگر قبول ہوتا تو عرف صحیح اور عرف فاسد میں تقسیم نهیں کرتے

۱۳۶

فهرست منابع اور ماخذ

v آلاءالرحمن فی تفسیر القرآن ، شیخ محمد جواد بلاغی ، مرکز الطاعة و النشر فی مؤسسة البعثه ، مطبوعه اول ،۱۴۲۰ ق ۔

v ابطال القیاس ، ابن حزم اندلسی ۔

v اتحاف ذوی البصائر ،شرح روضة الناظر ، فی اصول الفقه ، ڈاکٹر عبدالکریم بن علی بن محمد النمله ، مکتبة الرشد ، ریاض،۱۴۲۲ ق ۔

v الاتقان فی علوم القرآن ، جلال الدین سیوطی ، مطبوعه ، دوم ، منشورات رضی ۔

v اجود التقریرات ، تقریرات درس آیة الله میرزا محمد حسین نائینی ، سید ابوالقاسم خویی ، کتابفروشی مصطفوی، قم۔

v احکام القرآن ، ابوبکر احمدبن علی رازی جصاص ، دارالکتب العلمیه ، بیروت ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ ۔

v الاحکام فی الاصول الاحکام ، سیف الدین ابوالحسن علی بن علی محمد آمدی ، دارلکتب العلمیه ۔

v الادلة العقلیه و علاقتھا بالنقلیه ، ڈاکٹر محمد سعید شخاته ۔

v ارشاد الفحول ، محمد بن علی بن محمد شوکانی ، تحقیق احمد عزوعنانه ، دارالکتاب العربی ، بیروت ، چاپ دوم ۱۴۲۱ ق۔

v الاصابة فی تمییز الصحابة ، ابن حجر عسقلانی ، دار احیاء التراث ، بیروت مطبوعه اول ۔

v الاصو ل العامة للفقه المقارن ، سید محمد تقی حکیم ، تحقیق مجمع جهانی اہل بیت علیهم السلام قم ، پاپ دوم،۱۴۱۸ق ۔

v اصول الفقه ، شیخ محمد رضا مظفر ، دارالنعمان ، نجف اشرف ، مطبوعه دوم ، ۱۳۸۶ق ۔

v اصول الفقه الاسلامی ، محمد ابوزهره ، دارالفکر العربی ،۱۳۷۷ق ۔

v اصول مذهب الشیعة الاثنی عشریه ، ڈاکٹر ناصر بن عبدالله بن علی القفاری ، دارالرضاللنشر و التوزیع،مطبوعه سوم ، ۱۴۱۸ ق ۔

v امالی مفید ، ابو عبدالله محمدبن محمدبن نعمان ُعکبری بغدادی ، انتشارات جامعه مدسین حوزه علیمه قم ،چاپ چھارم،۱۴۱۸ ق ۔

v انوار الاصول ، تقریرات درس آیة الله مکارم شیرازی ، احمد قدسی ، انتشارات نسل جوان ، مطبوعه دوم ، ۱۴۱۶ ق۔

v انوار الفقاھة ، آیة الله ناصر مکارم شیرازی ، مدرسه الامام امیرالمؤمنین علیه السلام مطبوعه دوم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v اوائل المقالات ، محمدبن محمدبن نعمان عکبری ،شیخ مفید قدس سره ۔

v بحارالانوار ، محمدباقر مجلسی ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ،مطبوعه سوم ، ۱۴۰۳ ق ۔

v بحوث فی الاصول ، تقریرات درس شهید آیة الله صدر ، سید محمود هاشمی ، المجمع العلمی للشهید صدر ،مطبوعه اول، ۱۴۰۵ق ۔

v بصائر الدرجات ، ابوجعفر محمدبن حسن بن فروخ الصفار القمی ۔

۱۳۷

v البیان فی تفسیر القرآن ابوالقاسم الخویی ، مطبعة العلیمه قم ، چاپ۱۳۹۴ق۔

v تاریخ ابن خلدون ، عبدالرحمن بن خلدون ، مغربی ، دارالکتاب اللبنانی ۔

v تاویل مختلف الحدیث ، عبدالله بن مسلم ، ابن قتیبه ، دارالجیل ، بیروت ، ۱۴۱۱ق ۔

v تعارض الادله الشرعیه ، تقریرات درس آیة الله سید محمد باقر صدر ، سید محمود هاشمی ، لمکتبة الاسلامیه الکبری، مطبوعه دوم ، ۱۳۹۶ ق ۔

v تفسیر القرآن بالقرآن عندالعلامة الطباطبایی ، ڈاکٹر خضیر جعفر ، دارالقرآن الکریم ، قم مطبوعه اول ،۱۴۱۱ق۔

v تفسیر بیضاوی ، ناصر الدین ابو سعید عبدالله بن عمربن محمد شیرازی بیضاوی ، مؤسسة الاعلمی ، بیروت،۱۴۱۰ق۔

v تفسیر عیاشی ، ابو نصر محمدبن مسعود بن عیاشی سمرقندی ، المکتبة العلمیة الاسلامیه ۔

v تفسیر قاسمی (محاسن التأویل ) محمد جمال الدین القاسمی ، دارالفکر ، بیروت ، مطبوعه اول ، ۱۴۱۱ ق ۔

v التفسیرالکبیر ، فخررازی ، مکتب الاعلام الاسلامی ، قم مطبوعه سوم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v توحید صدوق ، ابو جعفر محمدبن علی بن حسین بن بابویه قمی ، مؤسسة الاعلمی ، بیروت ۔

v تهذیب التھذیب ، ابن حجرعسقلانی ، دارالکتب العلمیة ، بیروت ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ ق ۔

v جامع احادیث الشیعه ، اسماعیل معزی ملایری ، نشر صحف ، قم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v الجامع الاحکام القرآن ، ابو عبدالله محمدبن احمد الانصار القرطبی ، دارالکتب العلمیة ، بیروت مطبوعه پنجم۔

v الحدائق الناصرة فی احکام العترة الطاہره ، شیخ یوسف بحرانی ، انتشارات جامعه مدرسین حوزه علمیه قم ،مطبوعه اول ، ۱۳۶۳ش ۔

v الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور ، جلال الدین سیوطی ، دارالفکر بیروت ،۱۴۱۴ ق ۔

v الدرایة فی علم مصطلح الحدیث ، زین الدین عاملی ( شهید ثانی ) مطبعة النعمان ، نجف اشرف ۔

v الذریعة الی تصانیف الشیعه ، شیخ آقای بزرگ تهرانی ، دارالاضواء بیروت ، مطبوعه سوم ، ۱۴۰۳ق ۔

v ذکریٰ الشیعة فی احکام الشریعه ، ابو عبدالله محمدبن مکی عاملی ، مکتبة بصیرتی ۔

v رجال کشی ، اختبار معرفة الرجال ، مؤسسة آل البیت علیهم السلام لاحیاء التراث ۔

۱۳۸

v روضة الناظر و جنة المناظر فی اصول الفقه علی مذهب احمدبن حنبل ، موفق الدین عبدالله بن احمد بن قدامه.مؤسسة الریان ، بیروت ۔

v السرائر الحاوی التحریر الفتاوی ، ابو جعفر محمدبن منصور بن احمدبن ادریس حلی ، انتشارات جامعه مدرسین حوزه علمیه قم ، مطبوعه چهارم ،۱۴۱۷ ق ۔

v سنن ابن ماجه ، حافظ ابو عبدالله محمد بن یزید قزوینی ، دارالفکر بیروت ۔

v سنن الکبری ، حافظ ابوبکر احمدبن حسین بن علی بیهقی ، دارالفکر بیروت ،مطبوعه اول ۔

v شرح المعالم فی اصول الفقه لابن التلمسانی ، عبدالله محمدبن علی شرف الدین ابو محمد الفهری المصری ، عالم الکتب بیروت ، مطبوعه اول ۱۴۱۹ق ۔

v شرح المقاصر تفتازانی ، مسعود بن عمربن عبدالله ، سعد الدین تفتازانی ، تحقیق ڈاکٹر عبدالرحمن عمیره ، عالم الکتب بیروت ، مطبوعه ، اول ، ۱۴۰۹ق

v شرح نووی بر مسلم ، محیی الدین نووی ، دارالکتاب العربی ، بیروت مطبوعه دوم ، ۱۴۰۷ ق ۔

v شرح نهج البلاغه ، لابن الحدید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v صحیح بخاری ، ابو عبدالله محمدابن اسماعیل بخاری ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v صحیح ترمذی ، ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ الترمذی ،۔

v صحیح مسلم ، امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری ، داراحیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v الصواعق المحرقه علی اہل الرفض والضلال والذندقه ، ابوالعباس احمدبن محمدبن علی بن حجر ہی تمی ، مؤسسة الرساله ، مطبوعه اول ، ۱۴۱۷ ق ۔

v الطبقات الکبری معروف به طبقات ابن سعد ، محمدبن سعد ،مطبوعه دارالصادق ، بیروت ۔

v طیب بصری معتزلی ، دارالکتب العلمیه ، بیروت ۔

v عوالی اللئالی ، محمدبن علی بن ابراہیم الاحسائی ، معروف به ابن ابی جمهور ، مطبعة سیدالشهدا علیه السلام،مطبوعه اول.۱۴۰۳ق ۔

۱۳۹

v فرائد الاصول (رسائل ) شیخ مرتضیٰ انصاری ،مطبوعه محشی به حاشیه ملارحمت الله ، کتابفروشی مصطفوی ، قم،۱۳۷۶ق۔

v الفوائد الحائریه ، محمدباقر بن محمد اکمل ( وحید بهبهانی ) مجمع الفکر الاسلام ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ق ۔

v فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت (حاشیه کتاب المستصفی ) ۔

v الفهرست فی اخبار العلماء الصنفین من القدما و المحدثین و اسماء کتبهم ، محمدبن اسحق الندیم ۔

v قاعدة الفراغ والتجاوز ، سید محمود هاشمی ، مطبوعه اول ، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم ، ۱۴۰۸ ق ۔

v قرآن کریم ۔

v القواعد الفقهیه ، آیة الله ناصر مکارم شیرازی ، منشورات دارالعلم ، بیروت مطبوعه چهارم ، ۱۴۰۱ق ۔

v قوانین الاصول ، ابوالقاسم بن حسن گیلانی معروف به میرازی قمی ، دارالطباعة استاد علی قلیخان ، ۱۲۹۹ ق ۔

v الکافی ، ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی ،مصحح : علی اکبر غفاری ، دارالاضواء، بیروت ، ۱۴۰۵ ق ۔

v الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوه التأویل ، جارالله محمود بن عمر زمخشری۔

v کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون ، ملاکاتب شلبی معروف حاجی خلیفه ، دارالکتب العلمیة بیروت ۔

v کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد ، جمال الدین حسن بن یوسف بن علی بن مطهر (علامه حلی ) مؤسه الاعلمی ، بیروت مطبوعه اول ، ۱۳۹۹ ق ۔

v کفایة الاصول ، آخوند ملامحمد کاظم خراسانی ، به خط طاہر خوشنویس ، انتشارات علمیه اسلامیه ۔

v کنز العرفان فی فقه القرآن ، جمال الدین مقدادبن عبدالله سیوری ۔

v کنز الفوائد الاما م الفتح شیخ محمدبن علی بن عثمان الکراجکی الطرابلسی ، دار الاضواء بیروت ۱۴۰۵ق ۔

v کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال ، علی متقی هندی ، مؤسسة الرساله ، ۱۴۱۳ق ۔

v اللباب فی اصول الفقه ، صفوان عدنان داودی ، دارالقلم ، دمشق ، مطبوعه اول ، ۱۴۲۰ق۔

v المبسوط ، شمس الدین سرخی ، دارالمعرفة بیروت ۱۴۱۴ ق ۔

v مجمع البحرین طریحی ۔

۱۴۰