اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط37%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86035 / ڈاؤنلوڈ: 4551
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

اسلامی مذاہب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

ترجمه از کتاب “منابع استنباط فقهی از نظر مذاہب اسلامی ”

مؤلف آیۀ الله مکارم شیرازی

استادراہنما

مولانا اخلاق حسین پکھناروی

دانش پژوه

سید نسیم رضا

زمستان ۱۳۸۸

۳

اہداء

اس ناچیز کوشش کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بھائی ، داماد ، وصی اور حقیقی جانشین امیر المومنین علیہ السلام ، حضرت زہرا علیہا السلام اور ان کی گیارہ اولاد پاک جنہوں نے اپنے لہو سے اسلام کو سینچا

اور

علمائے اسلام ، شہداء ، صلحا ، ذوی الحقوق کو ہدیہ کرتا ہوں

اور

خدا سے دعا کرتا ہوں کہ روز قیامت ائمہ ہدیٰ کو میرا ، میرے والدین کا شفیع قرار دے

اور اس اسلامی ملک کی ہر طرح سے حفاظت فرما ۔

۴

اظہار تشکر

اس خالق کائنات کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں لامتناہی نعمتوں سے نوازا اور ہماری ہدایت کے لئے انبیاء و رسل بھیجے اور ان کی راہ کو باقی رکھنے کے لئے ائمہ کو منتخب کیا ۔

اس کریمۂ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا شکریہ جنہوں نے مجھے اس قابل سمجھا کہ اپنے دستر خوان علم پر مدعو کیا اور مجھے خوشہ چینی کا موقع دیا ، استاد محترم مولانا اخلاق حسین پکھناروی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنی راہنمائی سے کتاب کو مزید مفید بنا دیا ۔ نیز ہمسر محترمہ سکینہ خاتون صاحبہ نے بھی اس کتاب کی تکمیل میں کافی تعاون کیا ۔

آخر میں ان تمام اہل علم کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ جنہوں نے ہر طرح سے میری مدد کی خصوصاً جامعۃ العلوم کے مسؤلین اور اساتید خصوصاً آقای مرادی جنہوں نے واقعاً ہر طرح سے بندۂ ناچیز کی مدد کی اورمیرے علمی مقام کو یہاں تک پہونچایا کہ میں اس قابل بن سکوں ایک فارسی کتاب کو اپنی مادری زبا ن میں منتقل کر کے طلباء و مومنین کے حوالے کرسکوں جو میرے لئے روز آخرت کام آئے ۔

" گر قبول افتدزہ عز و شرف "

۵

عرض مترجم

خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے منابع استنباط فقہی از نظر مذاہب اسلامی مولف آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی دام ظلہ العالی کی کتاب کے ترجمہ کی توفیق دی یقیناً اردو سماج میں ان موضوعات جيسي کتابوں کے ترجمہ کی ضرورت ہے جہاں اہل سنت کے فرقہ اپنے پورے وجود سے اسلام کے صحیح اور حقیقی چہروں کو مخدوش کر رهے ہيں اور ائمہ علیہم السلام کی ان صحیح السند احادیث کو چاہے وہ احکام یا اصول و عقائد کے بارے میں ہو یا کسی او رموضوع کے تحت ہوں ۔ مخدوش کر کے لوگوں کے سامنے پیش کررہےہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا جواب دینے کے لئے بہترین طریقہ اور راستہ ان جیسی کتابوں کی نشر و اشاعت ہے ۔

آخر میں خداوند متعال سے ہم دعا گو ہيں کہ ہمیں ان جیسی کتابوں کے ترجمہ کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مذہب حقہ کی خدمت کرسکيں ۔

سید نسیم رضا زیدی

۶

چكيده :

اس رساله ميں سب سے پهلے مقدمه پيش كيا گيا ہے جس ميں استنباط اصطلاحي اور لغوي تعريف مقدمات استنباط ، تاثير زمان و مكان استنباط خطرات استنباط ، افراط و تفريط استنباط كو پيش كيا گيا ہے اسي طرح اس رساله ميں مورد اتفاق منابع اور مورد اختلافي استنباط سے بحث كي گئي ہے مورد اتفاق منابع استنباط ۔

۱ـ قرآن :

عدم تحريف قرآن كي بحث نيز نصوص اور ظواہر كي حجيت اسي طرح حجيت ظواہر پر قائم ہونے والي دليليں اس مبحث ميں بيان كي گئي هيں ۔

۲ـ سنت :

سنت رسول(ص)كي حجيت اور سنت معصوميں عليهم السلام كي حجيت اور حجيت پر ہونے والے اعترضات و شبهات اور اس كے جوابات پيش كئے گئے هيں ۔ اسي طرح سے سنت صحابه اور اقسام سنت كو بيان كيا گياہے۔

۳ـ اجماع :

تعريف اجماع ، اجماع كي حجيت اہل سنت كي نظر ميں حجيت اجماع اماميه كي نظر ميں اجماع پر ہونے والي قرآني دليليں حجيت اجماع پر قائم ہونے والي روائي دليليں نيز اقسام اجماع كو بيان كيا گيا ہے مزيد مخالفيں اجماع كا جواب بھي مطرح كيا گياہے۔

۴ـ عقل :

عقل كے سلسلے ميں تقريبا ً اكثر فقهي مباحث جس ميں دو گروه هيں اصحاب حديث اور اصحاب راي نيز تشيع كا مسلك عقل كے سلسلے ميں بيان كياگيا ہے عقل كي حجيت اور اس پر ہونے والے اعتراضات كا جواب ديا گيا ہے۔

۷

منابع مورد اختلاف :

قياس :

قياس كي تعريف اس كي حجيت كے سلسلے ميں بحث كي گئي ہے مزيد اس كي جو بھي قسم كے دلايل پر نقد و اعتراض كيا گيا ہے اور قياس كے اقسام كي تحليل كي گئي ہے جيسے قياس منصوص العلة قياس اولويت ، قياس تنقيح المناط ۔

استحسان :

تعريف استحسان اس كے اقسام مزيد اس كي حجيت پر ہونے والي بحث مطرح كي گئي ہے اسي طرح استحسان كے اقسام كا جزئي جايزه ليا گيا جيسے مصالح معتبر ،مصالح ملغي اور مصالح مرسله كے سلسلے ميں مكمل بحث كي گئي ہے۔

سد و فتح ذرايع:

تعريف سد و فتح ذرايع اور اس كے اقسام و حجيت كے سلسلے ميں بحث كي گئي ہے۔

عرف :

عرف كي تعريف اس كے اقسام اور اس كے متعلق ہونے والي بحث كو بيان كيا گياہے۔

۸

مقدمه:

استنباط:

استخراج احکام کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ میں ایک لفظ استباط ہے استنباط کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ و مفهوم کی وضاحت کے لئے لغت اور فقه و اصول کی کتابوں سے مدد لی جائے گی

استنباط کے لغوی معنی :

راغب اصفهانی اپنی کتاب المفردات غریب القرآن میں لکھتے ہیں :نبط لفظ قرآن مجید میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچه ارشاد خداوندی ہے :

( وَإِذَا جَاءهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاً )

حالانکہ اگر رسول اور صاحبانِ امر کی طرف پلٹا دیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کرلیتے ، یهاں( يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ) -(۱) سے مرادیستخرجونه منهم (یعنی وه اپنےعلم سے حقیقت کا پته لگالتے ہیں )

اور استنباط باب استفعال سے ہےجو جس ریشه نبط ہے اور نبط وه پانی ہے جو نکلا ہوا ہے اور فرس نبط اس گھوڑے کو کهتے ہیں جس کے بغل اور پیٹ پر سفیدی نمودار ہو-(۲)

صاحب منجدالطلاب اس کلمه کے بارے میں لکھتے ہیں :نبط نبطًا و نبوطاً الماء ؛ پانی جاری ہو ناشروع ہوگیا

نبط و نبط و انبطُ تنبط و استنبط البئر یعنی اس نے کیویں کا پانی نکالااستنبط الشئ یعنی مخفی چیزکو آشکار کیا استنبطه یعنی اس نے اختراع اور ایجاد کیااستنبط من فلان خیرا یعنی اس نے فلاں شخص سے کیا خوب چیزنکالی استنبط الفقیه یعنی فقیه نے اپنے استنباط سے احکام کو کشف کیا –(۲)

____________________

۱ نساء ، آیه ، ۸۳

۲ .راغب المفردادات فی غریب القرآن ، ص ۴۸۱.

۳ منجد الطلاب ترجمه محمد بندریگی ، ص۵۵۹

۹

المعجم العربی الحدیث ( فرهنگ لاروس ) میں آیا ہے :

نبط البئر یعنی کنویں سے پانی نکالانبط العلم یعنی علم کو آشکار کیا اور پھیلایاانّبط یعنی گھوڑے کے بغل اور پیٹ پر سفیدی کا ابھرنا یا بھیڑکے پهلو اسی سفیدی کا نشان اسی طرح سب سے پهلا پانی جوکنویں کی ته میں دکھائی دے(۲)

ابن منظور نے لسان العرب میں لکھا :انبط :

الماء الذی بنبطُ من قعر البئر اذا حفرت : نبط ایسا پانی جوکنواں کھودتے وقت ظاہر ہو

نبط الماء نبع : یعنی پانی ابلااستنبطه و استنبط منه علماً و خیراً و مالا استخرجه : اس کو استنباط کیا یعنی اس سے علم خیر اور مال کو کشف کیا یعنی اس سے نکالا.

الاستنباط : الاستخراج کرنا استباط یعنی استخراج ،استنبط الفقیه یعنی فقیه نے باطن کو اپنے اجتهاد اور دانائی کے ذریعه استخراج کیا.

قال الزجاج معنیٰ َ ا سْتَنبِطُونَك فی اللغة یستخرجونک ، لغت میں اس کو استنباط کیا یعنی اس سے استخراج کرنا اور استنباط کاریشه نبط ہے اور نبط وه پهلا پانی ہے جو کنویں کی تیه سے نکلے.

استباط کے اصطلاحی معنی :

دراسات فی ولایةالفقیه و فقه الدولة الاسلامیه کےمؤلف لسان العرب کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں میں کهتاہوں : خداوند متعال کا حکم آپ حیات یا ایک نفیس اور قمتی شئ ہے جو مصادرو منابع کے سینے میں دفن ہے جسے فقیه کشف کرتا ہے(۲)

____________________

۱ خلیل اجر فرهنگ لاروس ، ج ۲ ، ص۲۰۲۱

۲ منطور دراسات فی ولایۀ الققیه وفقه الدولۀ الاسلامیه ، ج ۲ ٌ۷۲

۱۰

استاد شهیدمرتضیٰ مطهری فرماتے ہیں :

(فقها نے فقهی جستجو کے لئے) جو دوسرا لفظ استعما ل کیا ہے وه کلمه استنباط ہے یه لفظ اس بات کی حکایت کرتاہے که علماء اسلام احکام کے سلسلے میں ایک خاص احسا س کے حامل ہیں.

لفظ استنباط زمین کے نچلے حصه سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے علماء اسلام نے اس بات کی جانب توجه کی که الفاظ کے سینے میں معانی کا صاف و شفاف پانی رواں دواں ہے جس کو کشف کرنے کے لئے خاص فن اور جهاد کی ضرورت ہے عربی زبان اور اس کے قواعد کو جاننے و الاعصر آدمی سے واقف آدمی اس بات کا دعوی نهیں کرسکتا که میں قرآن وسنت کی مدد سے اسلامی دستورات و قوانین کو کشف کرسکتا ہوں استنباط کا هنر زمین کے نچلے حصه سے پانی کا نکالناہے غزالی نے اپنی کتاب المستصفی میں ایک لطیف تعبیر کا استعمال کیا ہے وه ادله شرعی کو درخت احکام کو اس کاپھل اور عمل استنباط جوکه ادله شرعی سے استخراج احکام کا نام ہے کو استثمار یعنی (پته) سے تعبیر کرتے ہیں(۱)

شهید مطهر ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :

کلمه استنباط معنا کے اعتبار سے (فقه وفقیه) سے مشابه ہے یه کلمه ماده نبط سے مشتق ہے اور زمین سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے گویا فقهاء نے استخراج احکام میں اپنی تلاش و کوشش کو زمین سے پانی نکالنے سے تشبیه دی کیونکه وه بھی گهرائی سے احکام کے صاف و شفاف پانی کو استخراج کرتے ہیں(۲)

ادوار استنباط از دیدگاہ مذاہب اسلامی نامی کتاب میں آیا ہے :

کلمه استنباط ماده نبط سے ماخوز ہے اور لغت میں زمین کی گهرائی سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے اور اصطلاح میں احکام شرعی کو استخراج کرنے کے معنیٰ میں ہے یعنی ادله معتبر اور خاص عنصر سے جدید مسائل اور ہونے والے محادثوں کا استخراج کرنا اسی بناپر استنباط اجتهاد کا مترادف ہے مجتهد عرف متشرعه میں اس پراطلاق ہوتاہے جو احکام شرعیه کو عناصر خاصه اور عناصر مشترک سے اسنتباط اور استخراج کرے تو اس پر مستبط اور مفتی کابھی اطلاق ہوتاہے.(۳)

____________________

۱ علی دوانی ، عصندالله، شیخ طوسی ، مقاله ( النهامی ، از شیخ طائفه ، از مرتضی مطهری ، ص۳۴۳

۲ مطهری ، علوم و اصول سے شناخت ، اصول فقه ، و فقیه ،ص۱۰

۳ جناتی ، اورد لااحتیاط ، ص ۲۴

۱۱

عمید زنجانی کهتے ہیں :

استنباط ریشه نبط سے ماخوذ ہے اور لغت میں زمین کی گهرائیوں سے پانی نکالنے کے معنی میں آیا ہے اور اصطلاح میں الفاط کے باطنی معنی کو نکالنے کے لئے استعمال ہوتاہے(۱)

ابوالحسن محمدی بھی کهتے ہیں :

استنباط استخراج کے معنیٰ میں ہے اور حقوق کی اصطلاح میں اجتهاد کا مترادف ہے اور اس سے مراد یه ہے که قواعد کلی کو مصادیق فرعی پر منطبق کرنا اور احکام فرعی کو اصول سے اور قواعد کلی سے استخراج کرنا.

استنباط کا تاریخچه:

اس سے پهلے که استنباط کے معنی و مفهوم بیان ہو ، مناسب ہے که ابتدائی اجتهاد و استنباط کی مختصر تاریخ بیان کریں تا که معلوم ہو که طول تاریخ میں اجتهاد کن ادوار سے گذرا اور کن مراحل کو پشت سر گذارکر یهاں تک پهنچا

اجتهاد تاریخ میں مختلف مراحل و ادوار سے گذراہے جیسا که محمد علی انصاری تاریخ حصر الاجتهاد نامی کتاب کے مقدمه میں لکھتے ہیں :

بهت مشکل ہے که اجتهاد کے تمام ادوار کو بطور کامل بیان کیا جائے لیکن کلی طور پر سنی اور شیعه مکتب فقه میں اس کی جستجو کی جاسکتی ہے

سنی مکتب :

حقیقت میں سنی مدرسه فقه تین تاریخی مراحل سے گذرا ہے

۱- رسول خد(ص)کا دور

۲- صحابه و تابعیں کا دور.

۳- ائمه اربعه کا دور

۴- باب اجتهاد کے انسداد کا دور ( تقلید کا دور ).

ان تمام مراحل کی تفصیل اس رساله کی قدرت سے باہر ہے

____________________

۱ عباس علی ، زنجانی ، اصول فقه کی بحث سے ، ص۱۰

۱۲

مقدمات استنباط :

فقهای شیعه کے نظریات:

شهید ثانی ، علم فقه کو باره علوم پر استورا جانتے ہیں : تصریف لغت ، اشتقاق ،معانی بیان، بدیع، اصول فقه،منطق، رجال ،حدیث ،تفسیر آیات الاحکام

صاحب معالم استنباط مطلق کو نو چیز پر متوقف جانتے ہیں

۱- ادبیات عرب اعم از لغت و صرف و نحو سے آشنائی.

۲- آیات الاحکام کا علم چاہیے وه مراجعه کتاب کے ذریعه ہی کیوں نه ہو

۳- سنت معصومین اور کتب حدیث کی جا کناری اور ہر موضوع سے مربوط احادیث کو ڈھونڈنے اور مراجعه کرنے کی قدرت و صلاحیت.

۴- علم رجال اور راویان کے حالات کی جانکاری.

۵- اصول فقه کا علم او رمسائل اصول میں استنباط کی قدرت کیونکه استنباط احکام اسی علم پر متوقف ہیں اور ایک مجتهد کے لئے یه علم تمام علوم سے مهم ترهے

۶- انعقاد اجماع کے موارد کی آشنائی.

۷- علم منطق کی واقفیت کیونکه اقامه برهان اور صحت استدلال اسی پر متوقف ہے

۸- فروع مسائل کو اصول کی جانب لوٹانے اورتعارض ادله کی صورت میں راجح کو مرجوح پر تشخیص دینے اور نتیجه گیری کی صورت

۹- دیگر امور کے علاوه فروع فقهی کا جاننا اس دور میں لازم ہے.(۱)

فاضل نے کتاب الوافیه کے تقریبا چالس صفحه اسی بحث سے مخصوص کیے ہیں. وه بھی مجتهد کے لئے مذکوره علوم میں نو علوم کو لازم جانتے ہیں ، لغت ،صرف ،نحو، اصول ، کلام اورعلوم عقلی ، تفسیر آیات الاحکام اور علوم نقلی میں احکام کی احادیث اور رجال کا علم

____________________

۱ معالم الاصول ، المطالب التاسع فی الاجتهاد و التقلید.

۱۳

پھر وه علم کلام کے سلسله میں فرماتے ہیں :

بعض مسائل کلامی استنباط میں دخیل ہیں جیسے تکلیف میں قدرت کی شرط کا ہونا اور اسی طرح متکلم حکیم کے کلام میں خلاف ظاہر اراده کا قبیح ہونا اور بعض دوسرے مسائل جیسے “خدا و رسول کا صدق گفتار صحت اعتقادیں دخیل ہے نه که استنباط احکام” ان کی نظر میں احادیث احکام میں معتبر کتابوں کا ہونا بھی کافی ہے ان کی نظر میں دس علوم ایسے بھی ہیں جن کی دخالت استنباط میں جزئی ہے اور ان علوم کو استنباط کے تکمیل شرط میں قرار دیا جاسکتا ہے که عبارت ہیں:

۱- معانی

۲- بیان.

۳- بدیع ،که بعض موارد میں دلیل لفظی سے استفاده کے لئے ان تین علوم کی ضرورت ہے

۴- ریاضیات کا علم،ریاضیات مالی اور اقتصادی مباحث بالخصوص ارث دین ارو وصیت کی بحث میں کام آتاہے

۵- علم ہی ئت، یه علم وقت اور قبله کی بحث میں بهت ضروری ہے

۶- هندسه کا علم ، یه علم اندازه گیری کے کام آتا ہے مثلا آب کرکی اندازه گیری کے لئے یه علم مددگار ہے.

۷- علم طب ، خاص طور پر نکاح کی بحث میں جهاں عورت اور مرد کے جسمانی عیوب کے مسائل پیش آتے ہیں

۸- فروع فقهی کا علم یعنی مسائل فقهی اور اس سلسلے میں پیش کئے سوالات کی آشنائی ، حقیقت میں اس کام کے لئے قواعد کے مواقع ،موادر خلاف اور اقوال وفتاوا سے آشنائی

۹- فروع جزئی کو قواعد اور اصول کلی کی جانب لوٹانے کی قدرت لیکن فقهای معاصر کے نزدیک استنباط کے لئے صرف یه علم کافی ہیں :

۱- ادبیات عرب.

۲- علم رجال

۳- اصول فقه

اور مجتهد کے لئے ضروری نهیں که وه ادبیات عرب میں صاحب نظر ہو پس اس اعتبار سے استنباط کے لئے صرف رجال اور اصول فقه کافی ہیں

۱۴

مقدمات استنباط اہل سنت کی نظر میں :

اہل سنت کی نظر میں استنباط کے عمومی شرائط کچھ اس طرح ہیں

۱- بلوغ

۲- عقل

۳- نظافت

۴- ایمان

اور استنباط کے اساسی شرائط میں وه علوم ہیں که جن سے آگاہهی لازم ہے

۱- ادبیات عرب.

۲- قرآن کریم

۳- سنت نبوی

۴- اصول فقه

۵- قواعد فقهی

۶- استعداد فطری

استنباط کے تکمیلی شرائط :

۱- مورد استنباط دلیل قطعی سے فاقد ہو

۲- فقها ءکے موارد اختلاف امور سے آگاہی

۳- عرف سے واقفیت (عرف در زمان حاضر).

۴- اصل برائت سے آشنا ئی.

۵- عدالت اور صلاحیت

۶- ورع اور تقوا

۷- درگاہ رب العزت میں الهام صواب کے لئے نیازی مندی احساس

۸- اعتماد به نفس

۹- عمل اور علم و گفتار میں موافقت

۱۵

ضرورت استنباط:

وه موضوعات که جس پر گفتگو ہوجانی چاہیئے ان میں سے ایک بحث اہمیت و ضرورت استباط ہے مکتب اسلام استنباط پذیر مکتب ہے اور استنباط اسلام میں ایک لازم عمل ہے فقه شیعه میں صدر اسلام ہی سے استنباط کا دروازه کھلا تھا اور آج بھی کھلا ہے اور ہمیشه زنده مجتهد کی تقلید واجب ہے اسی بناپر فقه تشیع زنده اور کامل فقه ہے اور ہر زمانے میں تمام مشکلات کا جواب دینے والی ہے مسلمانوں نے قرن اول ہی سے استنباط کرنا شروع کردیا تھا استنباط اپنے صحیح مفهوم کے ساتھ اسلام کے لازمی امور میں سے ایک ہے اس کے کلیات کچھ اس طرح تنظیم ہوئے ہیں که یه کلیات استنباط پذیر ہیں استنباط یعنی اصول کلی اور اصول ثابت کا کشف کرنا اور انهیں جزئی اورمتغیر موارد پر تطبیق دینا ہے استنباط پذیر کلیات کے علاوه عقل کا منابع اسلامی قرار پانے سے استنباط آسان ہوگیاہے ،(۱)

اسلام میں استنباط کی ضرورت کے اثبات کے لئے کافی دلائل موجود ہیں جس میں سے ہم اس حصه میں صرف پانچ دلیلوں کو پیش کریں گے

الف : خاتمیت؛

ب: احکام اسلام اور ان کے اہداف کا کلی ہونا؛

ج: ابدی ہونا؛

د: جهان شمول ہونا ؛

ھ: جامعیت.

____________________

۱ مرتضی مطهری ، مقدمه چستی اسلام،۳ و حی نبوت ، ص۱۵۰

۱۶

خاتمیت :

ہر مسلمان جوپیغمبر(ص)کی رسالت اور خاتمیت کا مقصد ہے اسے شرع وعقل کی روشنی میں استنباط کو بھی ماننا پڑے گا قراں مجید میں ختم نبوت کے سلسله میں آیا ہے

( مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا )

” محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء علیھم السّلام کے خاتم ہیں.(۱)

آیت کا تیور بتارها ہے که اس آیت کے نزول سے پهلے بھی پیغمبر اسلام کے ذریعه نبوت کا اختتام مسلمانوں کےدرمیان ایک شناخته شده بات تھی ، مسلمان جس طرح آپ کو رسول خدا جانتے تھے اسی طرح آپ کے خاتم الانبیاء ہونے سےبھی واقف تھے یه آیت فقط اس بات کی یاد آوردی کرادتی ہےت که پیغمبر کو فلاں شخص کے منه بولےباپ سے مت پکارو بلکه اسے اسی حقیقی عنوان یعنی رسول الله اور خاتم النبین سے خطاب کرو.(۲)

احکام اسلامی اور اس کے اہداف کا کلی ہونا:

رسول اکرم (ص)نے اپنے اور اپنے کلام کے بارےمیں فرمایا:أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ أُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ مجھے جامع اور کلی کلام عطا کیا گیا(۳)

عبدالله ا بن عباس کهتے ہیں :میں نے رسول خدا سے سناکه آپ نے فرمایا:

و أَعْطَانِي اللَّهُ خَمْساً وَ أَعْطَى عَلِيّاً خَمْساً أَعْطَانِي جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ أَعْطَى عَلِيّاً جَوَامِعَ الْعِلْمِ .(۴) . آیات قرآن سے استفاده ہوتا ہے که قرآن میں اصول احکام اور کلی قواعد بیان کئے گئے ہیں اور مجتهد خاتم النبین کے دور میں اصول احکام اور قواعد کلی کی مدد سے استنباط کرتے ہوئے احکام جزئی کو کشف کرسکتے ہیں(۵)

____________________

۱ .احزاب ، ۴۰

۲ مرتضیٰ مطهری ختم نبوت ، ص۱۰

۳ مجلسی ، بحارالانوار ،ج۱۶، ص ۳۲۳

۴ .مجلسی ، گذشته،ص۳۱۷

۵ .محمد ابراہیم جناتی ، منابع استناط از دیدگاہ اسلامی ، ص ۲۸۸.

۱۷

جاودانگی اسلام :

خاتم النبین کی رسالت کی ایک خصوصیت یه ہے که ان کی حکومت ان کی شریعت ان کے لائے گئے احکام ہمیشه باقی رهنے والے ہیں-(۱)

قرآن میں صریحًا یه بات آئی ہے که خدا کی ذات وه ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور آئین حق کے ساتھ بھیجا تاکه ، آئین محمد(ص)کو تمام آئین پر غالب قراردے چاہے یه بات مشرکین پر گران کیوں نه گذرے.(۲)

دین اسلام کلی بھی ہےاور دائمی بھی ، اسلام ایک ابدی مکتب ہے جو کره زمین کے تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے جو روز قیامت تک اس دنیا میں آتے رهیں گے فقه میں استنباط شریعت کی بقا اور اس کی ترقی کی ضامن ہے استنباط اسلام کے جاویدانی ہونے کی ایک شرط ہے اس لئے که ہر موضوع اور ہر نئے مسئله میں قرآن و سنت کی مدد سے استنباط کرکے نئے احکام کشف اور استخراج کئے جا سکتے ہیں اور اس طرح دوسرے قوانین سے بے نیاز ہو سکتے ہیں اور صحیح استنباط ہر زمانے میں اور قیامت تک آنے والے سوالوں کا جوا دینے کی صلاحیت رکھتاہے

اسلام کا جهانی ہونا :

پیامبر اسلام تمام انسانوں کے پیامبر ہیں اس کی رسالت کا دایره اتنا وسیع ہے جس میں ساری دنیا سمیٹ جاتی ہے قرآن نے بھی اس حقانیت کی تصریح کردی ہے خدانے پیغمبر (ص)کو حکم دیا که اپنی رسالت کے جهانی ہونے کا اعلان کردیجئے ، کهه دیجئے ای لوگو میں تم سب کی جانب خدا کا فرستاده پیغمبر ہوں.(۳)

اسلام ایسا دین ہے که جو انسان کی زندگی تا قیام قیامت استوار نے کے لئے آیا ہے. اسلام کے قوانین میں اتنی قدرت ہے که ہمیشه ہر ملیت کی راہنمائی اور ان کے امور کو اداره کرسکتا ہے اسلام اس عتبار سے ایک جهانی نظام ہے اور کسی خاص جماعت یا معین مکان سے مخصوص نهیں ہے اسلام میں صحیح استنباط کی روشنی تمام ضرورتوں کا کامل جواب ہے

____________________

۱ مجلسی ، بحارلانوار ، ج۱۶ ،ص۳۳۲

۲ .سوره توبه ، آیه ، ۳۳ ،سوره فتح ، آیه ،۲۸ ، سوره صف آیه ، ۹،سوره اعراف آیه،۱۵۸

۳ سباء ، ۲۸

۱۸

جامعیت:

اسلام ایک جامع مذهب جس میں انسانی زندگی کےتمام ابعاد کو مورد توجه قرار دیا گیاہے ، اسلام انسان کی فردی اور اجتماعی مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتاہے قرآن بھی اس بات کی تصریح کرتے ہوئے سوره نحل کی ایک آیت میں فرماتاہے :

( وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ )

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے-(۱)

اسی بناپر ہمارا عقیده ہے که اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جو تمام ابعاد فردی، اجتماعی اقتصادی سیاسی اور ثقافتی اور تمام امور میں منظم نظام کا حامل ہے اسلام میں انسان کی زندگی کا کوئی عمل حکم سے خالی نهیں ہے

صاحب کشف القناع کهتے ہیں :تکلیف شرعی اور استقرار شریعت کے عقلی او رنقلی دالائل سے ثابت ہوجانے کے بعد ہمارے لئے مسلم ہے که زندگی کا کوئی ایسا مسئله نهیں ہے جس میں خدا کا حکم اولی نه ہو که اس میں اختلاف نهیں ہے(۲)

البته واضح ہے که اسلام میں ان تمام نیازمندیوں کا جواب صرف استنباط کی روشنی میں ممکن ہے مجتهد یں کرام جو اس فن کے ماہر ہیں وه ہمیشه لوگوں کے فکری اور اجتماعی مشکلات کا جواب دیتے ہیں اس لئےمر جعیت اور استنباط مکتب اسلام کے لازمی امور میں شمار ہوتے ہیں

____________________

۱ نحل ، ۸۹

۲ اسدالله تستری ، معروف به محقق کاظمی ، کشف القناع عن وجوه حجیۀ االاجماع ، ص ۶۰

۱۹

استنباط اصحاب کو استنباط کی تعلیم :

مکتب اہل بیت کی روایات میں صاف نظر آتاہے که خود پیغمبرگرامی اسلام(ص)اور ائمه معصومیں علیهم السلام نے اپنے صحابیوں کو استنباط اور اس کی روشوں کی تعلیم دی ہے وه روایات جن میں آیاہے که خود ائمه علیهم السلام نے بنفس نفیس استنباط کے راستے کو انتخاب کیا اور استنباط کی صحیح راہ اور فقه اسلامی کی روشنی کے ذریعه قرآن وسنت سے استنباط کیا اور اس شیوه پر اپنے اصحاب کو بھی تعلیم دی یه روایات اس حقیقت سے پرده اٹھاتی ہیں که ائمه اطهار علیهم السلام کے زمانے میں اصحاب امام کے درمیان استنباط رائج اور معمول تھا اور ائمه اپنے اصحاب کو اس کام کی دعوت کرتے اور بعض موارد میں امام سے سوال کے بجائے خود استنباط کرنے کا حکم دیتے تھے .اور کبھی کسی سوال کے جواب میں ان کویاد دلاتے تھے که یه حکم استدلال اور استنباط کے ذریعے قابل استخراج ہے اس دلیل کی وجه سے ہمارا اعتقاد ہے که اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جس کے پاس اجتماعی ، ثقافتی اقتصادی اور سیاسی پروگرام ہیں حکم شرعی زندگی کی تمام آنے والی ضرورتوں کو پورا کرتاہے اور انسان کی زندگی میں کوئی حادثه بھی حکم سے خالی نهیں ہے(۱)

____________________

۱ یاد نامه علامه امینی ، ص۲۷۳و ۲۷۲

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عقیدۂ اختیار

اہل تشیع نے اس عقیدہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں اختیار کیا ہے، یعنی انسانوں کے کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور وہ صاحب اختیار ہے لیکن خواستہ الٰہی بھی اس کے شامل حال ہے او رقضا ء وقدر الٰہی کا اثر بھی ہے۔ جس طرح تمام موجودات کاوجود خدا کے وجود کی بنا پر ہے اور ہر صاحب قدرت کی قوت اور ہر صاحب علم کا علم مرہون لطف الٰہی ہے اسی طرح سے ہر صاحب اختیار کا ارادہ اوراختیار خد ا کے ارادے اور اختیارکے سایہ میں جنم لیتا ہے ۔اسی لئے جب انسان کسی کام کاارادہ کرتاہے تویہ اختیار اور قدرت خداکی طرف سے ہے یا یوں کہاجائے کہ ارادہ وقدرت خدا وندی کے سایہ میں انسان کسی کام کا ارادہ کرکے اس کو انجام دے سکتا ہے اوریہی معنی ہیں۔( وما تشاؤن الا أن یشاء اللّه رب العالمین ) ( ۱ ) ''تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ عالمین کاپرور دگا ر خدا چاہے''(یعنی تمہا را ارادہ خدا کی چاہت ہے نہ یہ کہ تمہارا کام خدا کی درخواست اور ارادہ کی وجہ سے ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ تکویر آخری آیة

(۲) گم شدہ شما ۔محمد یزدی

۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام

احمد بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلا م کی خدمت میں عرض کیا مولا بعض لوگ جبر اور''تفویض ''اختیار مطلق کے قائل ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا لکھو !

قال علی ابن الحسینںقال عزوجل:''یا بن آدم بمشیتی کنت انت الذی تشاء بقوتی ادیت الی فرائضی وبنعمتی قویت علی معصیتی جعلتک سمیعاً بصیراً ما أصابکَ من حسنة فمِن اللّه وما أصابکَ من سیئةٍ فمن نفسک وذلکَ أنِّی أولیٰ بحسناتکَ منکَ وأنت أولیٰ بسیئاتک منیِ وذلکَ أنِّی لاأسئل عماأفعل وهم یُسئلون قد نظمت لکَ کلّ شیئٍ تُرید''

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا وند کریم کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم !تم ہمارے خواہش کے تحت ارادہ کرتے ہو اور ہماری دی ہو ئی طاقت سے ہما رے واجبات پر عمل کرتے ہو اور ہماری عطا کردہ نعمتوں کے نا جائز استعمال سے گناہ ومعصیت پر قدرت حاصل کرتے ہو ہم نے تم کو سننے او ر دیکھنے والا بنایا جو بھی نیکی تم تک پہنچے وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائی وجود میں آئے اس کے ذمہ دار تم ہو کیونکہ میں تمہاری نیکیو ں کے سلسلہ میں تم سے زیادہ حق دار ہوں اور تم اپنی برائی کے بابت مجھے سے زیادہ مستحق ہوکیونکہ میں کچھ بھی انجام دوںگا جو اب دہ نہیں ہوںگا لیکن وہ جو اب دہ ہو ں گے تم نے جو کچھ سوچا ہم نے تمہارے لئے مہیا کر دیا۔( ۱ )

ایک صحابی نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ کیا خدا نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال پر مجبور کیا ہے ۔ اما م نے فرمایا :''اللّهُ أعدل مِن أَن یجبر عبداً علیٰ فعلٍ ثُمَّ یعذّبه علیه''خدا عادل مطلق ہے اس کے لئے یہ بات روانہیں کہ وہ بندو ں کو کسی کا م پر مجبور کرے پھر انہیں اسی کام کے باعث سزادے۔( ۲ )

دوسری حدیث میں امام رضاںنے جبر وتفویض کی تردید کی ہے اور جس صحابی نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا خدا نے بندوں کو ان کے اعمال میں مکمل اختیار دیا ہے تو آپ نے جو اب میں فرمایا تھا ۔

''اللّه أعدلُ وأحکم من ذلک'' خدا اس سے کہیں زیادہ صاحب عدل وصاحب حکمت ہے کہ ایسا فعل انجام دے۔( ۳ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب امربین الامرین حدیث ۱۲

(۲) بحار الانوار ج ۵ ص ۵۱

(۳) اصول کا فی باب امر بین الامرین حدیث ۳

۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل

عمومی فکر اور عالمی فطرت ،دونوں اختیار پر ایک واضح دلیل ہیں اور اختیار وجبر کے معتقد یں بھی ،عملی میدان میں آزادی اور اختیار ہی کو مانتے ہیںلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ !

۱۔ تمام لوگ اچھا ئی کرنے والوں کی مدح اور تحسین کرتے ہیں اور برائی کرنے والے کی تحقیر اورتوہین کرتے ہیں ،اگر انسان مجبور ہوتا اور اس کے اعمال بے اختیار

ہو تے تو مدح وتحسین، تحقیر وتوہین کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔

۲۔ سبھی لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوشش کرتے ہیں اگر انسان مجبور ہو تا تو تعلیم و تربیت کا کوئی مقصد نہیں باقی رہتا ہے۔

۳۔ کبھی انسان اپنے ماضی سے شرمندہ ہو تاہے اور اس بات کاارادہ کرتا ہے کہ ماضی کے بحرانی آئینہ میں مستقبل کو ضرور سنوارے گا ، اگر انسان مجبور ہوتا تو ماضی سے پشیمان نہ ہو تا اور مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو تا ۔

۴۔ پوری دنیا میں مجرموںپر مقدمہ چلا یا جاتاہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اگر وہ لوگ اپنے کاموں میں مجبور تھے تو ان پر مقدمہ چلانا یاسزا دینا سراسر غلط ہے ۔

۵۔ انسان بہت سارے کاموں میں غور و خو ض کرتا ہے اور اگر اس کی پرواز فکر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتی تو دوسرے افراد سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر انسان مجبور ہو تا توغور وفکر او رمشورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے( ۱ )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ جلد ۲۶ ص ،۶۴ خلاصہ کے ساتھ۔'' عدالت کے سلسلہ میں ان کتب سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ اصول کا فی ،نہج البلا غہ ،پیام قران ،تفیسر نمونہ ،اصول عقائد ''

۱۰۳

سوالا ت

۱۔ جبروتفویض اور عقیدہ اختیار کی تعریف کریں ؟

۲۔ انسان کے مختار ہونے کے بارے میں شیعہ عقیدہ کیا ہے ؟

۳۔ عقیدۂ اختیار کے بارے میں سید سجا د کی حدیث پیش کریں ؟

۴۔ عقیدہ ٔجبر واختیار کاکوئی واضح راہ حل بیان کریں ؟

۱۰۴

پندرہواں سبق

نبوت عامہ (پہلی فصل )

اصول دین کی تیسری قسم نبوت ہے توحید وعدل کی بحث کے بعد انسان کی فطرت ایک رہبر ورہنما اور معصوم پیشوا کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔

یہاں وحی، حاملا ن وحی ا ور جو افراد لوگوں کو سعادت وکمال تک پہنچاتے ہیں ان کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی ۔

اس بحث میں سب سے پہلے انسان کووحی کی ضرورت اور بعثت انبیاء کے اغراض ومقاصد نیز ان کی صفات وخصوصیا ت بیان کئے جائیں گے جس کو علم کلام کی زبان میں نبوت عامہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور ان کی خاتمیت کی بحث ہوگی کہ جس کو نبوت خاصہ کہتے ہیں ۔

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت

۱) مخلوقات کو پہچاننے کے لئے بعثت لا زم ہے ۔

اگر انسان کا ئنات کو دیکھے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ دنیا کی خلقت بغیر ہدف ومقصد کے ہوئی ہے گزشتہ بحث میں یہ بات گذر چکی ہے کہ خدا حکیم ہے اور عبث وبیکا ر کام نہیں کرتا ۔ کا ئنات کا نظم ،موجودات عالم کا ایک ساتھ چلنا بتاتا ہے کہ تخلیق کا کوئی معین ہدف ومقصد ہے لہٰذا یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ :

۱۔ خدا نے اس دنیا کو کس لئے پیدا کیا او رہما ری خلقت کا سبب کیا ہے ؟

۲۔ ہم کس طر ح سے اپنے مقصد تخلیق تک پہنچیں ، کامیا بی اور سعادت کا راستہ کون سا ہے اور اسے کس طرح سے طے کریں۔ ؟

۱۰۵

۳۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا کیا مو ت فنا ہے یا کوئی دوسری زندگی ؟ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ا ن سارے سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی خدا کی جانب سے آئے جو سبب خلقت اور راہ سعا دت کی نشان دہی کرے اور موت کے بعد کی زندی کی کیفیت کو ہما رے سامنے اجا گر کرے، انسان اپنی عقل کے ذریعہ دنیوی زندگی کے مسائل حل کر لیتا ہے، لیکن سعادت وکمال تک پہنچنے سے مربوط مسائل اور موت کے بعد کی زندگی اور اخروی حیات جو موت کے بعد شروع ہوگی یہ سب اس کے بس کے باہر ہے ۔

لہٰذا اس حکیم خدا کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم نبیوں کو ان تما م مسائل کے حل اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے ۔

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک لا مذہب شخص نے امام صادق سے سوال کیاکہ بعثت انبیا ء کی ضرورت کو کیسے ثابت کریں گے۔ ؟

آپنے فرمایا :ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس ایساخالق ہے جوتمام مخلوقات سے افضل واعلی ،حکیم وبلند مقام والا ہے چونکہ لوگ براہ راست اس سے رابطہ نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ ا پنی مخلوقات میں رسولو ں کو مبعوث کرتا ہے جو لوگو ں کو ان کے فائدے اور مصلحت کی چیزوں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح ان چیزوں سے بھی آگا ہ کرتے ہیں جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہیں اور ترک میں فناونابودی ہے، لہٰذایہ بات ثابت ہو چکی کہ جو خدا کی جانب سے لوگو ں کے درمیان حکم دینے والے او ربرائیو ں سے روکنے والے ہیں، انہیں کو پیغمبر کہا جا تا ہے۔( ۱ )

امام رضا فرماتے ہیں:جبکہ وجود انسان میں مختلف خواہشات اور متعدد رمزی قوتیں ہیں، مگر وہ چیز جو کما ل تک پہنچا سکے اس کے اندر نہیں پا ئی جا تی اور چونکہ خدا دکھا ئی نہیں دیتا اور لوگ اس سے براہ راست رابطہ نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خد اپیغمبروں کو مبعوث کرے جو اس کے احکا م کوبندوں تک پہنچا ئیں اور بندو ں کو اچھا ئیوں کاحکم دیں اور برائیو سے بچنا سکھائیں۔( ۲ )

____________________

(۱) اصو ل کا فی کتاب الحجة با ب اضطرار ا لی الحجة حدیث ،۱

(۲) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۰

۱۰۶

۲) انسان کے لئے قانو ن تکا مل لا نے کے لئے پیغمبر کی ضرورت۔

انسان کو اپنے مقصد خلقت جوکہ کمال واقعی ہے اس تک پہنچنے کے لئے کچھ قانو ن گذار افراد کی ضرورت ہے جو ان شرائط کا حامل ہو۔

۱۔ انسان کو مکمل طریقہ سے پہچانتا ہو اور اس کے تمام جسمانی اسرار ورموز اس کے احساسات و خواہشات ارادے وشہوات سے مکمل آگاہ ہو ۔

۲۔ انسان کی تمام صلا حیت ، اس کے اندر پو شیدہ خصو صیات اور وہ کمالا ت جو امکا نی صورت میں پائے جا سکتے ہیں سب سے باخبر ہو ۔

۳ ۔انسان کو کمال تک پہنچانے والے تمام اصولو ں کو جانتاہو راہ سعادت میں آڑے آنے والی تمام رکاوٹوں سے آگاہ ہو ، اور شرائط کمال سے باخبر ہو ۔

۴۔ کبھی بھی اس سے خطا ،گناہ اور نسیا ن سرزد نہ ہو ۔ اس کے علا وہ وہ نرم دل مہربان ،شجاع ہو او ر کسی بھی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔

۵۔ لوگو ں سے کسی قسم کی منفعت کی توقع نہ رکھتا ہو تاکہ اپنی ذاتی منفعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے لئے خلاف مصلحت قانون تیار کردے ۔

جس کے اندر مذکورہ شرائط پائے جاتے ہو ں وہ بہترین قانون گذار ہے کیا آپ کسی ایسے شخص کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو جرأت کے ساتھ اس بات کادعوی کر سکے کہ میں انسان کے تمام رموز واسرار سے واقف ہو ں، اس کے بر خلا ف تمام علمی شخصیتوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ ہم ابھی تک انسان کے اندر پائے جا نے والے بعض رموز تک پہنچ بھی نہیں سکے ہیں ۔ اور بعض نے انسان کو لا ینحل معمہ بتایاہے کیا آپ کی نظر میں کو ئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے انسان کے تمام کمالات کو سمجھ لیا ہے ۔اور کمال تک پہنچنے والے تمام شرائط وموانع کو جانتا ہو ں ۔کیا کوئی ایسا ہے جس سے کسی بھی خطاکا امکان نہ پایا جاتا ہو۔ ؟

۱۰۷

یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیامیں تلاش کر یں تب بھی کسی کو نہ پا ئیں گے جس میں مذکورہ تمام شرائط پائے جاتے ہوں یابعض شرطیں ہو ں ،اس کی سب سے بڑی دلیل مختلف مقامات پر متعدد قوانین کا پا یا جاناہے ۔لہٰذا ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ بہترین قانون بنا نے والا صرف اور صرف خدا ہے جوانسان کی خلقت کے تمام اسرار ورموز سے واقف ہے، صرف وہ ہے جودنیا کے ماضی، حال ،مستقبل کو جانتا ہے ۔فقط وہ ہر چیز سے بے نیا زہے اور لوگو ں سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا وہ خد اہے جو سب کے لئے شفیق و مہربان ہے او رانسانوں کے کمال تک پہنچنے کے تمام شرائط کو جانتا ہے ۔

لہٰذا صرف خدا یا وہ افراد جو براہ راست اس سے رابطہ میں ہیں، وہی لوگ قانون بنانے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور اصو ل وقانون کو صرف مکتب انبیاء اور مرکز وحی سے سیکھنا چاہئے ۔

قرآن نے اسی حقیقت کی جا نب اشارہ کیا ہے :(وَلَقَد خَلَقنَا النسانَ وَنَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسُہُ)( ۱ ) اور ہم نے ہی انسان کو خلق کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیاکیا وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

( وَمَا قَدرُوا اللّهَ حَقَّ قَدرِهِ اِذ قَالُوا مَا أنَزَلَ اللّهُ علیٰ بَشَرٍ مِّن

) ____________________

(۱) سورہ ق آیة: ۱۶

۱۰۸

( شیئٍ ) ( ۱ ) اور ان لوگو ں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نہیں نازل کیا ۔

نتیجہ بحث

( اِن الحُکم اِلّا للّهِ ) ( ۲ ) حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام آیة: ۹۱

(۲) سورہ انعام آیة:۵۷

۱۰۹

سوالات

۱۔ سبب خلقت کو سمجھنے کے لئے بعثت انبیا، کیو ں ضروری ہے ؟

۲۔ کیا انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے حدیث امام صادق نقل کریں ؟

۳۔ بعثت کے لا زم ہونے پر امام رضاںنے کیا فرمایا ؟

۴ ۔ قانون گذار کے شرائط کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۱۰

سولھواں سبق

نبوت عامہ (دوسری فصل )

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

۱۔( هُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنهُم یَتلُوا عَلَیهِم آیاتِه وَیُزکیّهِم وَیُعلّمُهُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ ) ( ۱ ) اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں

____________________

(۱)سورہ جمعہ آیة: ۲

۱۱۲

زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ( وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّه واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ''او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو'' ۔

۲۔عدالت وآزادی دلا نا ۔( لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ ) ( ۲ )

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے( ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ ) ( ۳ ) '' ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں''۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

____________________

(۱) سورہ نحل آیة :۳۶

(۲) سورہ حدید آیة:۲۵

(۳) سورہ ذاریا ت،۵۶

۱۱۳

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

۱۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

۲۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

۳۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ''اس کے مثل لانا''ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیں ہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق سے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ''ائمہ '' کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میں فرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۱ ،ص ۷۱

۱۱۴

سوالات

۱۔ فطرت کی راہنمائی او رخو اہشات کے میانہ روی کے لئے انبیا ء کا ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کا مقصد کیا ہے ؟

۳۔ پیغمبروں کے پہچاننے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔ معجزہ کیاہے اور اس کے شرائط کیا ہیں بیا ن کریں ؟

۱۱۵

سترہواں سبق

نبو ت عامہ (تیسری فصل )

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق !

جب کبھی معجزہ کے بارے میں بات کی جا تی ہے تو کہا جا تا ہے کہ معجزہ ایک ایسے حیرت انگیز فعل کانام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزہ ، جادو ، سحر نیز نظر بندکرنے والوں کے حیرت انگیزکرتبوں میں کیسے فرق قائم کیا جائے ۔

جو اب :معجزہ اور دوسرے خارق العادت کاموں میں بہت فرق ہے ۔

ا۔ نظر بندی او رجادو گری ایک قسم کی ریاضت کانام ہے اور جادوگر استاد سے جادو سیکھتا ہے لہٰذا ا ن کے کرتب مخصوص ہیںجو انھو ںنے سیکھا ہے وہ فقط اسی کو انجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی کام کو انجام نہیں دے سکتے لیکن نبی ورسول معجزے کو کسی استاد سے نہیں سیکھتے ،لیکن پھر بھی معجزے کے ذریعہ ہرکام انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صالح سے پہاڑ سے او نٹ نکالنے کوکہاگیا انہو ںنے نکا ل دیا ، جب حضرت مریم سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عیسی جوکہ گہوارے میں ابھی چند دن کے تھے فرماتے ہیں :

۱۱۶

( قا لَ أِنِّیِ عَبدُاللّهِ آتٰنی الکِتَابَ وَجَعلَنیِ نَبِیّاً ) ''میں اللہ کابندہ ہو ں اللہ نے مجھے کتا ب دی ہے اور نبی بناکر بھیجاہے''۔( ۱ )

یا جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی مانگ کی گئی تو پتھروں نے آنحضرت کے دست مبارک پرآکر ان کے رسالت کی گواہی دی ۔

۲۔ جادو گر وں یا شعبدہ بازوں کے کرتب زمان ومکان او رخاص شرائط میں محدود ہیں او رمخصوص چیزوں کے وسیلوں کے محتاج ہیں، لیکن پیغمبروںورسولوں کے معجزے چونکہ ان کا سرچشمہ خدا کی لا متناہی قدرت ہے لہٰذا کو ئی محددیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کو ئی بھی معجزہ پیش کر سکتے ہیں ۔

۳۔جادوگروں اور نظربندوں کے کام زیادہ تر مادی مقصدکے پیش نظر انجام پاتے ہیں ( چاہے پیسوں کی خاطر ہو یا لوگو ں کو اپنی طرف کھینچنے یا دوسرے امور کے لئے ) لیکن انبیاء کامقصد متدین افراد کی تربیت اور معاشرہ کو نمونہ بنانا ہے ۔ اور وہ لوگ (انبیاء ومرسلین ) کہتے تھے( وَمَاَ أَسئَلُکُم عَلَیهِ مِنْ أَجرٍ اِن أَجرِی اِلَّا علیٰ رَبِّ العَالمِینَ ) ( ۲ ) ''اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہو ں اس لئے کہ میرا اجر تو عالمین کے رب کے ذمہ ہے'' ۔

۴۔جادوگروںاورشعبدہ بازوںکے کرتبوںکامقابلہ ممکن ہے یعنی دوسرے

____________________

(۱) سورہ مریم آیة :۳۰

(۲) سورہ شعراء آیة:۱۸۰ ،۱۶۴،۱۴۵،۱۲۷،۱۰۹

۱۱۷

بھی اس جیسا فعل انجام دے سکتے ہیں ،لیکن پیغمبروں کے معجزہ کی طرح کوئی غیرمعصوم شخص انجام نہیں دے سکتا ۔

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟

جبکہ ہر نبی ہر حیرت انگیز کام کو انجام دے سکتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس متعد د معجزے تھے مگر ایک ہی کوزیادہ شہرت ملی ۔

ابن سکیت نامی ایک مفکر نے امام ہادی ں سے پوچھا :کیو ں خدا نے موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور جادوگروں جیسا معجزہ دیا؟ حضرت عیسیٰ کو مریضوں کو شفادینا اور مردوںکو زندہ کرنے والا معجزہ عطاکیا؟اور رسول اسلا م کو قران جیسے حیرت انگیز کلام کے مجموعے کے ساتھ لوگوں میں بھیجا۔

امام ںنے فرمایا : جب خدا نے حضرت موسی کو مبعوث کیاتو ان کے زمانے میں جادوکا بول با لا تھا لہٰذا خدانے اس زمانے جیسا معجزہ دیا چونکہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا او راپنے معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو شکست دی اور ا ن پر حجت تمام کی ۔

جب جنا ب عیسیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے آئے تواس وقت حکمت وطبابت کا شہرہ تھا لہٰذا خدا کی جانب سے اس زمانے کے مطابق معجزہ لے کر آئے اوراس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا، انھوں نے مردو ں کو زندہ کرکے اور مریضو ں کو شفا دے کر، نابینا کو آنکھ عطاکر کے جذام کودور کرکے تمام لوگوں پر حجت تمام کی ۔

۱۱۸

جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت فصاحت وبلا غت کا سکہ چل رہا تھا خطبہ او رانشاء اس وقت کے سکۂ رائج الوقت اور مقبول عام تھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے ان کو موعظہ ونصیحت کے حوالے سے گفتگو کی جس کا مقابلہ کرنالوگوں کی سکت میں نہیں تھا، اپنے مواعظ ونصائح کو قرآنی پرتو میں پیش کیا او رباطل خیالات کو نقش بر آب کردیا ۔

دوسری پہچان ۔انبیاء کی شناخت کادوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس نبی کی نبوت دلیل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہو وہ اپنے آنے والے نبی کے نام اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جیساکہ تو ریت وانجیل میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے سے پیشین گوئیاںکی گئی ہیں ،قرآن ان پیشین گو ئیو ں میں سے حضرت عیسیٰ کے قول کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے( وَاِذْ قَالَ عِیسیٰ بنُ مَریَم یا بَنی اِسرائِیلَ اِنِّیِ رَسُوُلُ اللّهِ اِلیکُم مُصَدِّقاً لِمَا بَینَ یَدیَّ مِن التوراةِ ومُبشّراً بِرسُولٍ یَأتِی مِن بَعدیِ اسُمُه أحمدُ ) ( ۱ ) اس وقت کویاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو ںاپنے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا او راپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہو ں، جس کا نام احمد ہے اسی طرح سورہ اعراف کی آیة ۱۵۷ میں ارشاد ہوا( الذین یتبعون )

____________________

(۱) سورہ صف آیة: ۶

۱۱۹

تیسری پہچان ۔ تیسرا طریقہ انبیاء کو پہچاننے کا وہ قرائن وشواہد ہیںجوقطعی طور پر نبوت ورسالت کوثابت کرتے ہیں ۔

خلا صہ

۱۔جو نبوت کا دعوی کرے اس کے روحانی اور اخلاقی خصوصیات کی تحقیق۔ (مدعی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے اعلیٰ صفات او ربلند اخلاق ہو نا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں نیک چلن اور صاحب کردار کے نام سے جانا جائے)

۲۔ عقلی پیرائے میں اس کے احکام وقوانین کو پرکھاجائے کہ کیا اس کے احکام وقوانین ،الٰہی آئین کے تحت اور معارف اسلام وفضائل انسانی کے مطابق ہیں؟یا اس کی دوسری پہچان ہے ۔

۳۔ اپنے دعوی پہ ثابت قدم ہو ا ور اس کا عمل اس کے قول کاآئینہ دار ہو ۔

۴۔ اس کے ہمنوااور مخالفین کی شناخت ۔

۵۔ اسلو ب تبلیغ کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اپنے قوانین کے اثبات کے لئے کن وسائل اور کن راستو ں کاسہارالے رہا ہے ۔

جب یہ تمام قرآئن وشواہد اکٹھا ہو جائیں تو ممکن ہے مدعی نبوت کی نبوت کی یقین کاباعث بنے ۔

سوالات

۱۔ سحر ،نظر بندی، اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ ہر نبی کا معجزہ مخصوص کیو ں تھا ؟

۳۔ انبیاء کی شناخت کے قرائن وشواہد کیاہیں ؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152