اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط37%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86044 / ڈاؤنلوڈ: 4551
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

خثعمیه کا رسول خد(ص)سےسوال اور اس کاجواب :

ایک خاتون که جس کا نام خثعمیه تھا اس نے رسول خد(ص)سے سوال کیا که میرے والدکا حج واجب ره گیاہے اگر میں ان کی نیابت میں اس حج کو قضا کروں تو یه کام ان کے لئے فائده مند ہے؟

پیغمبر(ص)نے فرمایا:اگرتمهارے والد کسی کے قرضدار تھے کیا اس قرضه کا اداکرنا تمهارے والد کے لئے فائده مند ہے ؟ خثعمیه نے کها جی ضرورفائده مندهے رسول خد(ص)نے فرمایا:پس خدا کا دین قضا کو بجالانے کے لئے زیاده سزاوار ہے-(۱)

رسول خد(ص)نےاس روایات میں صغری اور جز کو کبری اور کلی پر تطبیق دی ہے اور کلمه دین کی عمومیت سے دین کے ہر قضا کو بجالانے کے وجوب کو بیان کیا ہے.مرحوم مظفر(رح) نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد ان دلائل کے سلسلے میں جسے اہل سنت سنت پیامبر سے قیاس کو ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں کهتے ہیں:

یه بات که پیغمبرنے قضای حج کے حکم میں قیاس کا سهارا لیاہےمعنی نهیں رکھتی اس لئے که پیغمبرخود صاحب شریعت ہیں اور احکام کو بذریعه وحی خدا سے دریافت کرتے ہیں کیا پیغمبر(ص)قضای حج کے حکم سے آگاہ نهیں تھے که انهیں اس حکم تک پهنچنے کے لئے قیاس کا سهارا لیناپڑا؟

ای برادران اہل سنت مالکم کیف تحکمون تمهیں کیاہواہے یه کسے حکم لگارهے ہوحدیث کے صحیح ہونے کی صورت میں اس حدیث کا مقصد خثعمیه کو تطبیق علم سے آگاہ کرناہے اس چیز کو جس کے بارے میں اس نے پیغمبر سے سوال کیا ہے اور وه عام وجوب قضا ہے یعنی دین کے ہر عمل کو ادا کرنا واجب ہے اس لئے که خثعمیه پر یه بات مخفی تھی که حج ایسادینی قرض ہے جس کا میت کی جانب سے قضا کرنا واجب ہے اور جبکه خداکا دین اس قضا کا سب سے زیاده سزاوار ہے.(۲)

____________________

۱ جناتی ، منابع احتیاط از دیدگاہ ، مذاہب اسلامی ، ص ۲۸۲ ؛ سید جعفر شهیدی و محمد رضا حکمی

۲ محمد رضا ، مظفر(رح)، اصول الفقه، ج۲،ص ۱۷۱

۲۱

حضرت علی کے کلام میں استنباط کی تعلیم:

فضل ابن شاذان نے الایضاح میں لکھا:اہل سنت کی روایت کے اعتبارسے قدامه بن مظعون نے شراب پی اور اجرای حدکا فرمان اس پر جاری ہوا اس نے سوره مائده کی آیت سے استنادکیا

( لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُواْ إِذَا مَا اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّأَحْسَنُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ )

“جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے جو کچھ کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ متقی بن گئے اور ایمان لے آئے اور نیک اعمال کئے اور پرہیز کیااور ایمان لے آئے اور پھر پرہیز کیا اور نیک عمل کیا اور نیک اعمال کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے-(۱)

اورکها :مجھ پر حد جاری نهیں ہوسکتی کیونکه میں اس آیت کا مصداق ہوں ، عمرنے اس پر حد جاری نه کرنے کا فیصله کیا لیکن امام علینے عمر سے کها : اس آیت کے مصداق نه کھاتے ہیں اور نه پیتے ہیں سوائے اس چیز کے جوان پر خداکی جانب سے حلال ہو ...اگرقدامه بن مظعون شراب کے حلال ہونے کا دعوی کرے تو اسے قتل کردو اور اگر اقرار کرے که شراب حرام ہے تو پھر شرب خمر کے جرم پر تازیانه لگاؤ عمرنے کها کتنے تازیانه لگاؤں؟ امام نےفرمایا:شرابخوار جب شراب پیتاہے تو هذیان بکتاہے اور جب هذیان بکتاہے تو تهمت لگاتاہے پس اس پر افترا اور تهمت کی حد جاری کرو، چنانچه اس کو اسی تازیانے لگائے گئے-(۲) .

اس روایت سے واضح ہوتاہے که قدامه نے سادگی سے آیت کے ذریعه استناد کرکےعمرکو فریب دے دیا اور وه حدجاری کرنےکے فیصله کو ترک کربیٹھے اور جس کی طرح حضرت علی نے عمر کو ان کی غلطی سے آگاہ کیا اور کس طرح شرب خمر کی حد کو بیان کیا ہے اور اس طرح عمر کو استنباط کا طریقه سکھایا

____________________

۱ سوره مائده ، آیه ،۹۳

۲ .فضل بن شاذان ، الایضاح ، ص ۱۰۱و۱۰۲

۲۲

فضل بن شاذان ایک اور روایت نقل کرتے ہیں که:

جس میں امام علی نے قرآن کی روشنی میں عمر کو حمل کی حد اقل مدت کو کشف کرنے کا طریقه سکھایا فضل بن شاذان لکھتے ہیں :

ان روایات میں جوتم نے ذکر کیں ہیں کوئی بھی مخالف و موافق اس کا انکار نهیں کرسکتا انهی میں ایک روایت جریربن مغیره کی ہے جو ابراہیم نخعی سے نقل ہے که عمربن خطاب نے کسی عورت کے سنگساری کا حکم دیاجو شادی کے چھ مهنیے بعد ہی صاحب اولاد ہوئی اور شوهر نے اس بچه کو اپنانے سے انکار کیا.امام علی بھی وهیں موجود تھے آپ نے اس حکم پر اعتراض کیا اور فرمایا: اس عورت کا حکم قرآن میں موجود ہے ، عمر نے کها کهاں ہے اور کیاہے ؟امام نے فرمایا: قرآن میں آیاہے که “وحمله وفصاله ثلاثون شهرا” دوران حمل اور دودھ چھوڑنے کی مدت تیس مهینےهے –(۱)

عمرنے کها یه کیا آیت ہے ؟ امامنے فرمایا: خداوند عالم فرماتاہے :

( وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ) ” اور مائیں اپنی اولاد کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی.(۲)

یه حکم ان خواتین کے لئے ہے جو دو ھدینے کی مدت کو تکمیل کرنا چاہتی ہیں اگر دودھ دینے کی مدت ۲۴مهینے ہوتو حمل اور بارداری کی مدت چھ مهینے سے کم نهیں ہوگی عمر نےکها اگر علی نه ہوتے تو عمر هلاک ہوجاتاہے، پھر حکم دیا که اس عورت کو آزاد کیاجائے.(۳)

اس روایت میں بھی امام علینے ظاہر قرآن سے استنتاد کے ذریعے بارداری کی حد اقل مدت کو بیان کیا اور قرآن سے استنباط کا طریقه تفسیر قرآن بالقرآن کی روشنی میں سکھایا : اور عمرکو احکام دینی میں اشتباہی فتوی دینے سے روکا.

____________________

۱ احقاق ، آیه۱۵

۲ سوره بقره ، آیه ۲۳۳

۳ فضل بن شاذان الایضاح،ص۹۸

۲۳

امام صادق نے استنباط کے شیوه کو بیان کیا ہے :

موسی بن بکرکهتے ہیں:

میں نے امام صادق سے عرض کیا که ایک شخص غشی اور بهوشی کی حالت میں ا یک ،دو یا تین دن تک پڑارهے ایسے شخص کو اپنی کتنی نمازوں کی قضاکرنا چاہیئے؟ امامنے فرمایا: کیا میں تمهیں بتلاؤں که یه مسئله اور اس کے اشتباہ کو نظر میں لے آؤں ؟

پھر امامنے فرمایا: ہر وه چیزجو خدا انسان پر مسلط کرے لهذا خدا اپنے بندوں کے عذرکوماننے کا زیاده سزوارهے اور یه بات ایسے در سے ہے جس کے ہر ایک درسے هزار در کھلتے ہیں-(۱) .

امام صادق نےاس روایت میں اپنے صحابی کو استنباط احکام شرعی کی دعوت اور ایک کلی قاعده کی تعلیم دی ہے تاکه وه خود دوسرے فروعات کو اس کلی حکم کے ذریعے کشف کرے اسی لئے فرمایا:یه بات ایسے در سے ہے جس سے هزار باب کھلتے ہیں

شبهات :

استنباط کے شبهات :

۱- استنباط کے ذریعے اصلا حکم کشف نهیں کیا جاسکتا او ریه ایک نا ممکن بات ہے کیونکه خود شریعت خاموش ہے جو کچھ ہم کتاب و سنت سے استخراج کرتے ہیں در حقیقت یه ہمارے ذهن کی انچ اور ہمارے اپنے نظریات ہیں جسے ہم قرآن و سنت کا ما حصل بناکر پیش کرتے ہیں

۲- جو افراد منابع استنباط سے احکام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کا غیر کی تقلید کرنا جایز نهیں (اور اسی طرح جو افراد دوسروں سے تقلید کروانے کے لئے استنباط کرتے ہیں ایسے گروه کی تقلید جایز نهیں ).

۳- استنباط کی ضرورت اور کاربرد وهاں ہے جهاںهم قوانیں شریعت کو ثابت جانتے ہیں اور احکام اسلامی کو ناقابل تغیر مانتے ہیں .لیکن یه بات بھی واضح ہے که ہر روز انسان کی ضروریات بدلتی جارهی ہیں انسان کی زمان و مکان کے اعتبار سے بدلتی ضرورتوں اور در پیش مسائل میں استنباط بی معنی ہیں پس ان امور اور مسائل استنباط کے علاوه دوسرے مسائل کی ضرورت ہے جس سے ان نیازمندیوں کا جواب دیاجاسکتا جیسے قیاس استحسان وغیره..

____________________

۱ کلینی ، اکافی ،ج ۳ ، و فروع کافی ، ج ۱ ص۸۳و۸۸

۲۴

استنباط میں افراط و تفریط :

افراط و تفریط صرف غیر دینی امور میں ہی رائج نهیں ہے بلکه امور دینی جیسے استنباط احکام بھی اس سے مستثنیٰ نهیں ، استنباط احکام میں بھی بعض علماء اسلام اعم از شیعه و سنی نے افراط و تفریط کا راسته اپنایا اگرچه اہل سنت استنباط حکام میں افراط و تفریط کے راستے پر پیغمبر اکرم(ص)کی وفاتت کے بعد ہی چل پڑے او رانهوں نے اس بهانے کے ساتھ دین میں ایسی ایسی بدعتیں رائج کردیں که عالم اسلام آج اس کا خمیازه بھگت رها ہے

احادیث پیغمبر سے دوری اور قرآن سے صحیح استفاده نه کرنے کی بناپر وه ایسے راستوں پر چل نکلے جو افراط و تفریط تک پهونچتے تھے

بعض احادیث گرا ہوگئے اور اسے ظاہر بن گئے که صرف ظواہر احادیث و قرآن پر اکتفار کیا عقل و تفکر، تدبر و تفحص کے صحیح طریقوں کو چھوڑ بیٹھے صرف اپنی ظاہری عقلوں کو معیار بنا بیٹھے ، بعض نے احادیث پیغمبر(ص)پر پابندی لگاکے صرف قرآن سے اپنی ناقص عقلوں کے ذریعه دین کی تفسیر کرنا چاہی، تفسیر پیغمبر(ص)اور تفسیر اہل بیت علیهم السلام کا راسته چھوڑ کر کون اپنی ناقص عقل کی تفسیر کے ذریعه صحیح دین تک پهونچے سکتا ہے نتیجه وهی ہوا جو ہونا تھا کوئی افراطی بن بیٹھا کو ئی تفریطی

سنی علماء نے کبھی تو قیاس کو جایز بنایا اور کبھی سدذرایع ، مصالح مرسله کا راسته اپنایا اور کبھی دوسرے استقرائی طریقوں پر گامزن ہوئے او راسی طرح ایک مختصر مدت تک بعض شیعه علماء بھی استنباط احکام میں صرف قرآن و روایات کو منبع مانتے ہوئے عقل کی حجیت پر معترض ہوئے اور انهوں نے عقل کو بعنوان منبع استنباط ماننے سے انکا رکردیا اگرچه سبھی علماء شیعه عقل کے استقرائی اور ظنی طریقوں مثلا قیاس و مصالح مرسله و کو بعنوان مبنع استنباط نهیں مانتے لیکن تقریبا سبھی علماء شیعه عقل برهان و عقل قطعی کی منبعیت کے قائل ہیں صر ف بعض شیعه علماء جوکه اخباری ہیں عقل قطعی و برهانی کو بھی عقل ظنی و استقرائی کی طرح حجت نهیں مانتے اور اس کے منبع استنباط ہونے سے انکار کرتے ہیں.

پس اس کا نتیجه یه ہوا که بعض روایات پر بغیر کسی تحقیق کے عتماد کربیٹھے اور بعض نے ایسا راسته اپنایا که احادیث کو کوئی وقعت ہی نهیں دی بلکه صرف اپنی ناقص عقلوں کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے تو وه افراط کے راستے پر چل پڑے اوریه تفریط کے جس سے شعیت میں اخباری گری اور سنیوں میں چار فقهی مسلک جو که آج موجود ہیں اور بقیه دیگر فرقے جوکه متعرض ہوگئے وجود میں آئے

۲۵

استنباط کو لاحق خطرسےبچانا :

تحریر کا یه حصه استنباط کو لاحق خطرات کی شناخت سے مربوط ہے که جسکا خلاصه آپ کے پیش خدمت ہے

۱- قرآن سے دوری:

علامه طباطبائی (رح) اپنی مشهور و معروف تفسیر المیزان میں اسلامی علوم کی قرآن سے دوری اور قرآن سے کناره کشی کے سلسلے میں لکھتے ہیں :

“اگر اسلامی علوم کی ماہیت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا که یه علوم اس انداز سے ڈھالے گئے گویا ایک طالب علم بغیر قرآن کے ان تمام علوم کو سیکھ سکتاہے چنانچه ہم دیکھتے ہیں که وه صرف نحو، بیان، لغت ،حدیث،رجال، درایه، فقه و اصول تمام علوم میں اجتهاد کی حدتک مهارت حاصل کرتاہے لیکن قرآن پڑھنے کی توفیق نهیں ہوتی ، قرآن مجید تو بس ثواب کا ذریعه اور بچوں کو خطروں سے بچانے کا وسیله ہے”

قرآن سے دوری کئی خطرات کاباعث ہے :

الف : آیات الاحکام کا محدود کرنا :

فقهاء نے آیات الاحکام کی تعداد پانچ سو یا اس سے کمتر بتائی ہے اور ان میں چند آیات ہیں جو استنباط کے کام آتی ہیں کیونکه کچھ آیتں تومکرر ہونے کی وجه سے حذف ہوجاتی ہیں اور کچھ میں صرف ضروریات احکام کا بیان ہے پس فقیه جن آیات سے استنباط کرتاہے وه بهت ہی کم ہیں اسی بناپر علماء اصول جب علم رجال کی ضرورت اور فوائد پر دلیل پیش کرتے ہیں تو کهتے ہیں که اکثراحکام کا دار مدار احادیث ہیں جبکه قرآن کی ہر آیت منبع استنباط اور آیات الاحکام شمار ہوتی ہیں

ب: ظهور قرآن پر روایت کا مقدم کرنا:

قرآن کریم صریح طورپر یه حکم دیتا ہے قیام عدالت اور خدا کو گواہ پیش کیا کروچاہیے یه گواہی تمهارے یا تمهارے والدین واقرابا کے خلاف ہی کیوں نه جاتی ہو

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاء لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ ) “اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہو”-

۲۶

شیخ طوسی (رح) ,,خلاف،،میں اجماع اور روایات کی بنیاد پر یه فتوی دیتے ہیں باب کے خلاف بچه کی گواہی قابل قبول نهیں ہے جبکه محقق (رح) نے شرائع میں اس کی تردید کی ہے

۲- احتیاط کے سلسلے میں فردی نگاہ :

بعض فقهی فتوے جیسے ربامیں چاره اندیشی ، جهاد، وه درخت پر جو کسی کی ملکیت میں نه ہوں ان کو توڑنے کا جواز شخصی ملکیت میں ملنے والے دفینه کی ملکیت کا جواز ، اس کی دلیل ہے که فقهاء گرامی اپنے استنباط میں مسلمانوں کے فردی مشکلات کو حل کرتے ہیں اور اجتماعی مشکلات کی طرف توجه نهیں کرتے ایسی فکر شیعوں کی حاکمیت اور سیاسی قدرت سے دوری کا سبب ہوگی

آیۃ الله خمینی(رح) رساله عملیه کو منابع و نصوص دینی سے مقایسه کرتے ہوئے لکھتے ہیں :قرآن اور کتب حدیث جو که اسلامی احکام و دستورات کے منابع میں شمار ہوتے ہیں ان میں اور رساله عملیه جوکه مجتهدین کا تدوین ہو کیا ہواتاہے. ان دونوں میں جامعیت اور اجتماعی زندگی پر تاثیر گذاری کے اعتبار سے کلی طور پڑا تفاوت پایا جاتاہے

قرآن کے مقابله میں رساله کی جامعیت ایک فیصد بھی نهیں ہے

۳- فردی استنباط :

چند صدیوں سے احتیاط کو جو بلاگریبانگر کئے ہوئے ہے وه فردی استنباط ہے اس معنی میں که ایک فرد اپنی عصمت کے ذریعه علمی مشروط کئے بغیر کی استنباط اور استخراج احکام کا آغاز کرتاہے

یه عمل اس لئے ایک آفت ہے کیونکه علم فقه ایک وسیع علم ہے جس کی مختلف شاخیں اور مختلف ابعاد اور اس سے مربوط تمام علوم پر احاطه کرنا کسی ایک شخص کی قدرت سے باہر ہے اس لئے استنبا ط کرنے والے کو چاہئیے پهلے دوسرے صاحب نظر افراد کے ساتھ علمی تبادله اور مشورت کرلے پھر اپنی رائ اور فتوی کا علان کرے.تقریبا نصف صدی سے یه کام فقهاء کے درمیان شروع ہوگیا لیکن ابھی تک کامل صورت اختیار نهیں کی لیکن ایران کی اسلامی جمهوری حکومت میں شورای ٰنگهبان نامی ایک شوریٰ ہے جس میں ایران کے چند فقیه اس کی عضویت رکھتے ہیں اور مجلس میں پاس ہوئے قوانین کو شرعیت کے آئینه میں پرکھتے ہیں اور اس کے سلسله میں اظهار رای کرتے ہیں او ریه کام خود ایک طرح کا غیر عبادی مسائل میں شورای اجتهاد ہے

۲۷

۴- فهم و تفسیر نص میں جمود کا ہونا :

مجتهدین کے دامن سے چمٹی ہوئی ایک اور آفت جمود فکری ہے دینی نصوص بالخصوص الفاظ روایات میں جمود پایاجاتاہے ، جمو د اس معنی میں که حدیث میں جولفظ آگیا بس اسی پر اکتفاکیاجاتاہے دیگر مشابه موارد جوکه شابه قطعی رکھتے ہیں ان کی تعلیم نهیں دی جاتی یه آفت در حقیقت اخباریوں کی خصوصیات کا حصه ہے جو بهت سارے اصولیوں اور مجتهدین کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے

اور جو چیز اس آفت کا مقابله کرسکتی ہے وه ہے فهم نصوص به تعبیر دیگر جهاں نص دلالت قطعی نه رکھے بلکه ظنی الداله ہو او ریه یقین بھی ہو که متکلم حکیم دوراندیش، انسان شناس اور ظاہر و باطن امور سے آگاہ ہے ان امور کی روشنی میں نصوص کو سمجھاجائے اور اس کی تفسیر کی جائے ورنه بند زهنیت کے ساتھ حدیث و روایت کی جستجو کرنا شریعت کو کمزور دکھانے کے علاوه کچھ نهیں کرسکتا

۵- موضوع شناس یا وه جدید علوم سے بے توجهی :

ہر حکم شرعی کسی نه کسی موضوع پر مترتب ہوتاہے جیسے سورای سوار کولئے ہوئے ہو فقهاء موضوع کی تعریف میں کهتے ہیں :

هوالامرالذی یترتب علیه الحکم الشرعی

موضوع ایسی چیز ہے که جس پر حکم کو لکھاجاتاہے.

فقهاء نے موضوع کی کئی دسته بندیاں کی ہیں او ریه فقیه که کو کن موضوعات میں تشخیص دینے کی ذمه داری ہے اس میں اختلاف ہے .مرحوم آیۃ حکیم R نے موضوعات کو شرعی اور غرفی میں تقسیم کیا ہے اور ان ہی کو روشن اور غیر روشن میں تقسیم کرتے ہیں ان کے نزدیک صرف غیر روشن موضوعات کو تشخیص دینا فقیه کے ذمه ہے

صاحب عروه موضوعات کو چار قسموں میں تقسیم کرتے ہیں :

۱- شرعی.

۲- عرفی.

۳- لغوی.

۴- خارجیه

۲۸

اور صرف موضوعات شرعی کی تشخیص کو فقیه کا وظیفه جانتے ہیں اس میں تردید نهیں ہے که موضوعات شرعی میں فقهی اور دینی اصولوں کے تحت کام ہوتاہے لیکن دوسرے موضوعات میں فقهاء کے نزدیک اختلاف ہے لیکن بے شک موضوعات عرفی اور موضوعات خاص کو دینی مطالعات کی روشنی میں تشخیص نهیں دیاجاسکتا اس میں عرف اور مهارتوں کا سهارا لینا ضروری ہے آج علوم کے پھیلنے سے ان موضوعات کا جاننا بهتر ہوگیا ہے .اگر فقهاء اس نکته کی جانب توجه کریں او ر موضوعات کی شناخت میں ماہرین سے مدد لیں تو ان کا فتوا اپنے موضوع کے مطابق ہوگا

استاد محمد رضا حکیمی اجتهاد مطلوب تک پهنچنے کا راسته بتاتے ہوئے کهتے ہیں اگر مجتهد فتوی دینے سے پهلے موضوعات کی شناخت میں ماہر ین سے مددلے خاص طور پر اقتصادی، سیاسی ،دفاعی،ثقافتی اور جهانی موضوعات میں کیونکه موضوعات کی ماہرانه تشخیص حکم کو بدل دیتی ہے اگر بهتر تعبیر میں کها جائے اگر موضوع واقعیکی تشیخیص ہوجائے اور تمام ابعاد مشخص ہوجائیں تاکه حکم اور فتوی اپنی صحیح شکل میں استنباط ہوسکے

۶- عوام زدگی:

فقهاء اور مجتهدیں استنباط احکام شرعی کے دوران خود پر معتبر دلائل کی پیروی کو لازم جانتے ہیں ، اسی کےمطابق قدم بڑھاتے ہیں اور فتوی دیتے ہیں لیکن بعض اوقات دلیل کے علاوه دوسرے دغدغه فقیه کے سامنے ہوتے ہیں جو اسے دلیل کی پیروی سے روکتے ہیں اور وه دغدغه عبارت ہیں اجماع ،شهرت، کسی خاص دیندار گروه کی خوشی یا نه خوشی.اجماع اور شهرت کا خوف اس حدتک اہمیت رکھتا ہے که اجماع اور شهرت کا ثابت ہونا ان علماء اور متفکران کو جوحضور کے زمانه کےذریعه سےنزدیک تھےمطلب کو کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں

ممکن ہے که یهاں کوئی قرینه اور شاہد یا کوئی دلیل و تائید موجود تھی جو دھرے زمانی فاصله کی ختم کر دیا البته یه بات قابل غور و فکر ہے که بهت سارے ایسے فقیه بھی تھے اور ہیں جنهوں نے اجماع اور شهرت کے فتوی دیاہے

گرچه انهیں بھی بعض مسائل میں اجماع اور شهرت کا خیال تھا بهرحال اگر شهرت اور اجماع کو قابل اعتنا مان لیاجائے تب بھی عوام زدگی اور بعض دینی گروهوں کی خوشنودی کی کوئی توجیه نهیں کی جاسکتی لیکن میدان عمل میں فقهاء نے اسی گروه کی خوشنودی یا مخالفت کے خوف سے اپنی رائ اور اظهار نظر سے چشم پوشی کی ہے

۲۹

۷- فقیه مقارن پر توجه دینا :

اسلامی فقیه نے مسلسل اپنی حیات میں بهت سے ایسے فکری حوادث کا مشاہد کیا ہے جس کی وجه سے تقسیم بندی اور نام گذاری وجود میں آئی جیسے فقه فقه المذهب، فقیه اخبارگری فقه ظاہری، تاریخ میں ایسے حوادث کا پیش آنا ایک دورسرے پر ناظر ہوتے ہیں کوئی شک و تردید نهیں رکھتا اگر چه ایک ایک اپنے راستے پر چلا اور کوئی بھی ایک دوسرے سے نزدیک یا قریب نهیں رکھتا لیکن شروع میں مسائل اور جعرافی اعتبار سے فقیه کے معزرو ہونے کی بناپر یه ایک دوسرے کے ناظر تھے اس بنا پر دور سے مذاہب کی شناخت اور آگاہی کے بغیر فقهی مسائل کو سمجھنا احتیاط کے لئے نه ور ستی اور غلط فهمی کا سبب بنے گا.

۸- زمان سے دوری اور پرانے مسائل کو پیش کرنا:

زمان شناس اور اس میں حضور اور زندگی کی ہر شرائط کو درک کرنا اور دینی معارف علماء کے زمه ہیں علماء اور فقهاء کو چاہیے که وه معارف دینی جو دوسرں کے زمه کررهے ہیں ان میں پهلے زمان شناس کو مقدم کریں

استنباط میں زمان و مکان کی تاثیر:

جوکچھ بیان کیا گیا اس سے واضح ہوتاہے که“ اجتهاد میں زمان و مکان ”کی بحث تاریخی اعتبار سے آغاز فقه شیعه کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ہے اور یه بحث فقه کی ترقی اور تازگی اور واقعاتت و حوادث کی جوابدهی میں خاص اہمیت کی حامل ہے موجوده دور میں اس فقهی مبناکے علمدار آیۀالله خمینی R تھے ہماری کوشش یه ہے اس سلسلے میں ان کے بعض نکات اور جودیگردانشمندوں نے بیان کیا ہے اسے مختصر اور آشنائی کی حدتک بیان کریں. اس لئے که اس موضوع میں تفصیلی گفتگو بالخصوص اس بحث میں موجود اختلاف نظر ایک مستقل کتاب کی طلبگارهے ہم نے پهلے بھی اس نکته کی جانب اشاره کیا ہے که ہمارے عقیده کے حساب سے اسلام میں کوئی قانونی خلاءنهیں پایاجاتا اس لئے قیاس ورای کے سهارے کی کوئی ضرورت نهیں ہے

اگر ہمارا هدف قانوں سازی ہوتا تواس صورت میں ہم قیاس ورائ وغیره پرتکیه کرتے اور اس کی ضرورت اہمیت کے اثبات پر زورلگاتے اور یه کوشش کرتے که کسی طرح ہمارا بنائے ہوئے قانون کی کوئی ضرورت نهیں ہے بلکه جس طرح امام صادق نے فرمایا:

۳۰

یه اور اس جیسے (احکام و مسائل) کو کتاب خداسےسمجھاجاسکتاہے ، پس عمل کی صورت میں ہم اپنی ذمه داری اور تکلیف شرعی (جو ادله شرعی سے کشف احکام) کو ادا کرتے ہیں هاں یه ضرورهے که چونکه ہم معصوم نهیں ہیں اس لئے بهرحال خطاکاامکان ہے اس لئے ہم تخطئه (امکان خطا) کے قائل ہیں نه که تصویب کے .زمان و مکان کی نیازمندوں کی شناخت ہر دور میں اہم رهی ہے .لیکن ہمارے دور میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ہم ان نیامندوں کی شناخت کے بغیر رائج مشکلات و مسائل تو حل نهیں کرسکتے خاص طور سے حکومت اسلامی میں انسان کی فردی اور اجتماعی، سیاسی ، اقتصادی، و حقوقی، مسائل کی جانب توجه نه کی گئی تو وه اپنے مسائل بیگانوں سے حل کروائیں اور یه اسلام و مسلمانوں کے حق میں بهت بڑی خیانت ہوگی .آیۀ الله خمینی R فقه شیعه کی غنایئیت کے پیش نظر اس سلسلے میں فرماتے ہیں :میں سنتی فقه اور اجتهاد جواہری کا قائل ہوں او راس سے تجاوز کو جایز نهیں سمجھتا اجتهاد کی وهی پرانی روش صحیح اور درست ہے اس کےمعنی یه نهیں که اسلامی فقه میں نوآوری اور پیشرفت و ترقی نهیں ہے بلکه زمان اور مکان اجتهاد کے دو اہم ترین اور فیصله کن عناصرهیں جو مسئله پهلے ہی سے کسی حکم کا حامل تھا اب وهی مسئله ممکن ہے جدید سیاسی، اقتصادی ،اور اجتماعی روابط کے پیش نظر اس کا حکم بدل جائے یعنی اقتضادی سیاسی اور اجتماعی روابط کی دقیق شناخت کی بناپروه موضوع اول جو قدیم حکم کا حامل ہے وهی موضوع ان جدید روابط کی وجه سے ایک نیا موضوع بن گیاہے.

۳۱

اور نیا موضوع اس لئے نیاحکم چاہتاہے پس مجتهدکو چاہیے ، که اپنے دورکے مسائل سے آگاہ ہو او ران پر احاط رکھے. ایک اور جگه فقهاء کی موجود مسائل سے آشنائی کے سلسلے میں فرماتے ہیں: حوزے اور روحانیت کو چاہیئے که سماج کی فکر اور مستقبل کی باگ ڈور کو ہمیشه اپنے هاتھ میں رکھیں زیرا ممکن ہے لوگوں کے امور کو آج اپنے مشکلات کے حل کے لئے اسلام کے جدید مسائل کی ضرورت محسوس کرے ،اس لئے علماء اسلام کو ابھی سے آینده در پیش مسائل کی فکر کرنی ہوگی(۱)

زمان و مکان کی تاثیر گذاری اتنی اہم ہے که غیر مستقیم طورپر ناخوداگاہ اچانک فقیه که استنباط میں ظاہر ہوجائے اسی لئے ایک زمان شناش فقیه کا اجتهاد موجود مسائل سں ناآشنا فقیه کے نزدیک نادرست اور غیر فنی ہوگا.

شهید مطهری فرماتے ہیں :اگر کوئی فقهاء کے فتووں کا ایک دوسرے سے مقابله اور مقایسه کرے اور ضمنا فقیه کے حالات اور اس کے ظرز تفکر کو نظر میں رکھے تو اسے اندازه ہوگا که کسی فقیه کے ساتھ حالات اور خارجی اطلاعات کا اس کے فتوون پر کتنا اثر پڑاہے یهاںتک که فقیه عرب کے فتووں سے عرب کی بو اور عجم کے: فتوں سے عجم کی بو آتی ہے ایک دھاتی کا فتوی دھات کی بو اور ایک شهرکا فتوی شهر کی بودےگا.

یه دین دین خاتم ہے اور کسی خاص زمانے سے مخصوص نهیں ہے اور اس کا تعلق تمام مناطق اور تمام ادوار سے ہے اسلام ایسادین ہے که جو انسان کی زندگی کے نظام اور ترقی کے لئے آیا ہے

کیسے ممکن ہے که کوئی فقیه موجوده حاکم نظاموں سے بے خبر ہو او زندگی کے تکامل اور ترقی پر ایمان نه رکھتاہو اور اس کے باوجود اس دین کے اعلی دستورات جو انهی موجوده نظام کے لئے آئے ہیں اور اس ترقی وور کامل طور سے صحیح استنباط کرسکے(۲)

البته شهید مطهری (رح) کے اس بیان کو بصورت کلی ماننا تامل ہے کیونکه اس کے موارد بهیت محدود ہے شهید کے مذکوره قول صرف انهی موارد سے مربوط ہیں ورنه ساری فقه اور سارے فقهاء زیر سوال آجائیں گے

____________________

۱ .صحیفه نور ،ج۲۱،ص ۹۸

۲ شهید مطهری ، اجتهاد در اسلام مجموعه آثار ،ج۲۰ ص۱۸۱و۱۸۲

۳۲

تمهید

ہماری گفتگو کا عنوان ہے منابع استنباط فریقین کی نظر میں ، روشن ہے که اس وسیع موضوع پر تحقیق کےلئے ایک مقاله نهیں بلکه ضخیم کتابوں کی ضرورت ہے اسی لئے ہم اس موضوع پر سرسری نگاہ دوڑاتے ہوئے صرف کلی مسائل کے بیان پر اکتفا کریں گے امید ہے اہل تحقیق اس موضوسع کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرکے اس کے ہر ایک گوشے پر مستقل تحقیق کریں گے ۔

چند اہم نکات

مقدمه میں لازم ہے که اہم نکات کی جانب توجه دلائی جائے :

پهلانکته

صرف نظام تکوین ہی نهیں بلکه نظام تشریع بھی خدا کے اختیار اور اس کے اراده کے تحت ہے اسی لئے خدا کے علاوه کسی کو قانون سازی اور شرعی احکام کو وضع کرنے کا حق نهیں ہے فقهاء کی تو دور کی بات ہےخود انبیاء کو بھی حق نهیں ملا ان کی ذمه داری صرف تبلیغ کرنا اور احکام کو و اضح اور روشن طور پر بیان کرنا تھا چنانچه قرآن مجید میں ارشاد ہے ،

( ما عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ )

“"رسول پر تبلیغ کے علاوه کوئی ذمه دارری نهیں”" ۔.(۱)

ایک مقام پر ارشاد ہے :

( قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ )

“"انهوں نے کها که علم تو بس الله کے پاس ہے اور میں اسی کے پیغام کو پهنچادیتا ہوں ”"(۲)

رسول خد(ص)که جسکی برتری تمام انبیاء پر ثابت اور مسلم ہے انهیں بھی وضع احکام کا حق نهیں اسی لئے قرآن نےکهیں بھی انهیں شارع کی حیثیت سے نهیں پهچنوایا بلکه مبلغ کی حیثیت سے انهیں پهچنوایا ہے چنانچه ارشاد رب العزت ہے:

( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ )

“" اے پیغمبر! آپ اس حکم کوپهنچادیں جو آپ کے پرورد گار کی طرف سےنازل کیا گیا ”"(۳)

____________________

۱ مائده ، ۹۹

۲ احقاف ، ۲۳

۳ مائده ، ۶۷

۳۳

سورۂ نحل میں آیا ہے که غیر خدا کی جانب سے احکام وضع کیا جانا در حقیقت خداکی حاکمیت اور اس کی ولایت کا انکار کرنا ہے اپنی جانب سے حلال و حرام کا تعین کرنا ذات خداوندی پر بهتان باندھنا ہے خداوند عالم ایسے افراد کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

( وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ )

“اور خبردار جو تمهاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اس کی بنا پر نه کهو که یه حلال ہے اور یه حرام ہے جواس طرح خدا پر جھوٹا بهتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح و کامیابی نهیں ہے ”۔(۱)

حاکمیت صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے تنها وهی ذات ہے جو کائنات کے سا تھ تکوینی نظام کو اپنی قدرت و تدبیر سے چلاتا ہے خداکی اسی انحصار ی حاکمیت کو (توحید در خالقیت ) او رتوحید د رربوبیت ، سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ خدا کے علاوه کسی اور کی حاکمیت کا تصور بھی نهیں کیا جاسکتا اسی لئے خداوند عالم بڑے تعجب او ر سوالیه انداز میں پو چھتا ہے:

( هل مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالْأَرْضِ ) ۔.

“"کیا خدا کے علاوه بھی کوئی خالق ہے جو آسمان و زمین سے روزی دیتا ہو ”"۔(۲)

قرآن مجید کئی مقام پر واضح او رمطلق طور پر بیان کرتا ہے که حکم اور دستور دینا صرف خدا کا حق ہے ۔

( وَاللّهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ) ۔.

“الله ہی حکم دینے والا ہے کوئی ان کے حکم کو ٹالنے والا نهیں ”۔(۳)

جس طرح تکوینی نظام میں خدا کی انحصاری حاکمیت کو توحید در خالقیت او رتوحید در ربوبیت سے تعبیر کیا جاتا ہے بالکل اسی

____________________

۱. نحل ،۱۱۶

۲ فاطر ، ۳

۳ رعد ، ۴۱

۳۴

طرح نظام تشریع میں اس حاکمیت کو توحید د رحکومت سے تعبیر کیا جاتاہے یه مطلب بھی قرآن میں کئی مقامات پر پیش کیا گیا :

( إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ) ۔.

“بے شک حکم کرنے کا حق خدا کو ہے اور اسی نے حکم دیا که اس کے علاوه کسی کی عبادت نه کی جائے که یهی مستحکم اور سیدھا دین ہے ”۔(۱)

صرف دو صورتوں میں غیر خدا کی جانب سے حکم صادر ہوسکتا ہے ، ایک یه که اسکا حکم کرنا الله کے اذن سے ہو جیسے که جناب داوُد کو خطاب ہوا :

( يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ ) ۔.

“" اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا ہے لهذ تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصله کرو ”"۔.(۲)

دوسرے یه که اس کے حکم کی بازگشت حکم خدا کی جانب ہو یعنی در حقیقت اس کا حکم الله کی مشیت او راس کے حکم و اراده کے مطابق اور حمایت پرور دگار کے ساتھ ہو یعنی مستقل اور دلخواہی کے ہمراہ نه ہو ۔

( وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللّهُ ) ۔.

“"اور پیغمبر آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق بھی فیصله کریں ”"۔(۳)

خدا کے علاوه کسی اور کے حکم کی شرط یه ہے که اس کا حکم الله کے حکم اور مشیت کے مطابق ہو ، اسی صورت میں غیر خدا کا حکم کرنا اوردستور دینا توحید در حکومت سے منافات نهیں رکھتا اس لئے که یه کام در حقیقت خدا کے اذن سے انجام پاتا ہے خلاصه یه که ہر صورت میں حق قانون اور حق حکومت خدا سے مخصوص ہے ۔

____________________

۱ یوسف ، ۴۰

۲. ص ، ۲۶

۳ مائده ، ۴۹

۳۵

دوسرا نکته

تمام فقهاء اسلام اپنے اختلاف مذهب کے باوجود اہم ترین منابع استنباط میں اشتراک نظر رکھتے ہیں ہر ایک کے نزدیک قرآن وسنت استنباط احکام کے اساسی ترین رکن شمار ہوتے ہیں ، ان کے اختلاف کی وجه صرف قرآن فهمی او رسنت کو سمجھنے کا فرق ہے اجماع کی حجیت کے معیار اورعقل کی اہمیت و ارزش کا فرق ہے ۔ان کے علاوه اور بھی فقهی منابع ہیں جو تمام مذاہب اسلامی میں مورد اتفاق نهیں بلکه ان میں اختلاف پایا چاتا ہے جیسے قیاس استحسان و غیره که ان کا ذکر آئنده مباحث میں ہوگا ۔

تیسرا نکته

فقهائے اسلام منابع استنباط کے استعمال میں ایک خاص نظم کا لحاظ رکھتے ہیں عام طور پر جو راسته یقین تک پهنچتا ہے اسے تمام دوسرے راستوں پر مقدم رکھتے ہیں اس کے بعد دلائل ظنی که جسے امارات کها جاتا ہے رجوع کرتے ہیں اگر اس کے باوجود شک و تردیدباقی ره جائے تب ادله احکام ظاہری کی نوبت آتی ہے ۔

توضیح :

منابع استناط ہمیشه یقین آور نهیں ہوتے بلکه بعض منابع صرف حکم شرعی کا گمان دلاتے ہیں اور بعض اوقات شک وجدانی بھی بر طرف نهیں کرتے اسی لیے فقیه پر لازم ہےکه ادله ظنی اور قواعد و اصول جو حالت شک میں انسان کے وظیفه ءعملی کو مشخص کرتے ہیں ان اصول وقواعد کے اعتبار و ارزش کو مشخص کرے اور وه علم جس میں ان مباحث پر گفتگو ہوتی ہے "علم اصول" کهاجاتا ہے اور وه حکم جو حالت شک میں ادله ءظنی اور اصول عملیه کے جاری کرنے سے حاصل ہوا اسے "حکم ظاہری" کهتے ہیں لیکن احکام ظاہری کی حجیت کے دلائل کوقطع و یقین کے ذریعے ثابت ہونا شرط ہے اسی لئے مشهور کا کهنا ہے :

ظنیة الطریق لاتنافی قطعیة الحکم ۔.

دلیل ظنی حکم کے قطعی ہونے سے منافات نهیں رکھتی ۔

اہل سنت کے بعض علماء کے نزدیک دلائل استنباط کی ترتیب کچھ اس طرح ہے :

ان کے نزدیک سب سے پهلی دلیل جو ایک مجتهد کو تما م دلائل سے بے نیاز کرتی ہے اجماع ہے اگر کسی مسئله پر اجماع موجود ہو تو دوسری دلیلوں کی جستجو لازم نهیں ہے اسی لئے اگر کتاب و سنت اجماع کے خلاف ہوں تو کتا ب و سنت کی تاویل کرنی ہوگی یا اس حکم کو مسنوخ تسلیم کرنا ہوگا ۔

____________________

۲ .الاتقان ،ج۴ ،اللباب فی اصول الفقه ،ص ۵۱

۳۶

اجماع کے دوسرے مرتبه پر کتاب و سنت معتبر ہے اور آخر میں خبرواحد و قیاس سے استفاده کیا جاتاہے ۔

مذکوره مقدمات اور نکات کے پیش نظر اپنی بحث کا آغاز ان منابع کے ذکر سے گریں گے جو فریقین کے نزدیک معتبر اور متفق ہیں ۔

"فریقین کے مورد اتفاق منابع استباط ”

الف: قرآن

احکام الهی کا اہم ترین اور بنیادی ترین منبع و مدرک قرآن ہے ، قرآن عقائد، تاریخ، اخلاق او راحکام کامجموعه ہے احکام سے مربوطه حصه کو اصطلاح میں آیات الاحکام “"یا ”" احکام القرآن کهتے ہیں ۔

کها جاتاہے که قرآن میں من جمله پانج سو آیتیں احکام سے مربوط ہیں لیکن بعض یه مانتے ہیں قرآن کی اکثر آیات کسی نه کسی جهت سے استنباط احکام میں کام آتی ہیں کبھی صریح طورپر احکام کا ذکر ملتا ہے اور کبھی اسنتباط کے ذریعے انهیں کشف کیا جاتاہے استنباط میں کبھی ایک آیت کو دوسری آیت سے ملاکر حکم مشخص کیا جاتاہے اور کبھی کسی آیت کو ایسی روایت که جس میں اس کی تفسیر بیان کی گئی ہو اضافه کیا جاتا ہے اور احکام استنباط کئے جاتے ہیں لیکن ہماری نظر میں یه بات ایک قسم کی مبالغه آرائی ہے "کشف الظنون " میں احکام القرآن کی سب سےپهلی کتاب شافعی کی کتاب مانی گئی جب که ابن ندیم نے "الفهرست"میں کلبی کی "حکام القرآن "کو پهلی کتاب شمار کیا ہے ابو نصر محمد بن سائب بن بشربن کلبی امام صادق کےاصحاب اور مذهب امامیه کے بزرگ دانشمندوں میں شمار ہوتے ہیں شیخ آقابزرگ تهرانی اپنی کتاب"الذریعه " میں ندیم کی کتاب کا حواله دیتے ہوئے لکھتے ہیں که احکام القرآن کےسلسله میں سب سے پهلی کتاب محمد بن سائب کلبی نے لکھی نه که شافعی نے اس لئے که محمد بن سائب کلبی کی وفات۱۴۲ هجری میں ہوئی جب که شافعی نے ۱۵۵ هجری میں وفات پائی ۔

آیات الاحکام سے مربوط کتابیں تو بهت زیاده ہیں نه جانے تاریخ کے نشیب وفراز میں کتنی کتابیں تباہ و برباد ہو گئیں که جن کا کهیں صرف نام موجود ہے اور بعض کے تو نام بھی نهیں معلوم انهی تباہ شده نایاب کتابوں میں “النهایةفی تفسیر خمس ماہ آیة” ہے که جس کا ذکر صاحب کنز العرفان نے مکرر اپنی کتاب میں کیا اور اس سے مطالب بھی نقل کیے ہیں بهر حال قرآن سے تین مباحث ہمارے مدّ نظر ہیں ۔

۱- صدور قرآن کی بحث یعنی یه ثابت کرنا که قرآن خدا کی جانب سے ہے ۔

۲- عدم تحریف قرآن کی بحث ۔

۳- احکام و استنباط پر قرآن سے استناد و دلیل پیش کرنا ۔

۳۷

۱ - قرآن کی تعریف :

یهاں قران سے مراد یهی مقدس کتاب ہے جو آج ہمارے اختیار میں ہے اس کے الفاظ خدا کی جانب سے ہیں مشهور کی نظر میں اس کی نگارش جمع و ترتیب اور تدوین سبھی کام رسول خد(ص) کےزمانے میں اور آپ ہی کے حکم سے انجام پائے پھر یه کتاب مسلمانوں کے درمیاں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو رهی.

قرآن خود اپنی تعریف میں کهتاہے :

( قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ ) (۱)

“حق و انصاف اور سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والی ہے”

اور قرآن بھی اسی حقیقت پر مشتمل ہے جس حقیقت پر گذشته پیغمبروں کی شریعت تھی چنانچه قرآن اس سلسلے میں فرماتاہے :( شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ) (۲) “ اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبرنے تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم علیه السّلام موسٰی علیه السّلام اور عیسٰی علیه السّلام کو بھی کی ہے”

اسی با ت کو بطور جامع فرماتاہے :

( وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاء وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ ) (۳)

“ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے”

____________________

۱ سوره ،احقاف ، آیه ،۳۰

۲ سوره شوری ، آیه ۱۳

۳ سوره نحل ، آیه ۸۹

۳۸

۳ - دین و شریعت کی شناخت میں قرآن کی مرجعیت:

ان مذکوره آیات کا خلاصه یه ہے که قرآن تمام آسمانی کتابوں کے مقاصد کی حقیقت پر مشتمل ہے یهی نهیں بلکه اس سے کهیں زیاده حقائق اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اور اعتقاد وعمل سے مربوط ہر وه چیز جو راہ سعادت کو طے کرنے کے لئے ضروری ہے اس کتاب میں کامل طور پر بیان کئی گئی ہے اور اس کا یهی کامل و تمام ہونا اس بات کی بهتریں دلیل ہے که اس کی صحت و اعتبار کسی خاص زمانے سے مخصوص نهیں ہے دین و شریعتت کی شناخت میں قرآن کی مرجعیت پر مذکوره آیات کے علاوه متعدد روایات میں بھی تاکید آئی ہے ان میں سے بعض روایت ہم یهاں نقل کرتے ہیں.

امام صادق فرماتے ہیں :

مَا مِنْ أَمْرٍ يَخْتَلِفُ فِيهِ اثْنَانِ إِلَّا وَ لَهُ أَصْلٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَكِنْ لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُ الرِّجَالِ(۱)

اور امام باقر سے نقل ہواہے : “إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَمْ يَدَعْ شَيْئاً يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْأُمَّةُ إِلَّا أَنْزَلَهُ فِي كِتَابِهِ وَ بَيَّنَهُ لِرَسُولِهِ ص وَ جَعَلَ لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ حَدّاً وَ جَعَلَ عَلَيْهِ دَلِيلًا يَدُلُّ عَلَيْهِ وَ جَعَلَ عَلَى مَنْ تَعَدَّى ذَلِكَ الْحَدَّ حَدّاً(۲)

رسول خد(ص) نے بھی ایک حدیث میں قرآن کی تعریف میں فرمایا:

وَ هُوَ الدَّلِيلُ يَدُلُّ عَلَى خَيْرِ سَبِيلٍ وَ هُوَ كِتَابٌ فِيهِ تَفْصِيلٌ وَ بَيَانٌ وَ تَحْصِيلٌ وَ هُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ وَ لَهُ ظَهْرٌ وَ بَطْنٌ فَظَاهِرُهُ حُكْمٌ وَ بَاطِنُهُ عِلْمٌ ظَاهِرُهُ أَنِيقٌ وَ بَاطِنُهُ عَمِيق(۳)

اسی طرح امام صادق سے روایت ہے که :

كُلُّ شَيْ‏ءٍ مَرْدُودٌ إِلَى الْكِتَابِ وَ السُّنَّةِ وَ كُلُّ حَدِيثٍ لَا يُوَافِقُ كِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ زُخْرُفٌ(۴)

اب یه بات واضح ہوگئی که قرآن شناخت دین بالخصوص شریعت اور اسلام کے عملی احکام کی شناخت کا اساس ترین منبع ہے. اس خصوصیات کے پیش نظر اس کتاب آسمانی سے مربوط چند مباحث کو ذیل میں پیش کرتے ہیں .(مترجم)

____________________

۱ اصول کافی ، کتاب فضل العلم ، باب الرد الی الکتاب و السنه ، حدیث ۶

۲ اصول کافی ج۱، ص .۶۰

۳ .گذشته حواله ،حدیث ۲.

۴ اصول کافی ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنه و شواہد الکتاب ، حدیث ۳

۳۹

قرآن الله کا کلام ہے

"قرآن الله کا کلام ہے "یه بحث ایک کلامی بحث ہے جس میں شواہد و دلائل کی روشنی میں یه ثابت کیا جاتاہے که قرآن الله کا کلام ہے ۔ تمام مسلمانوں کا عقیده بھی یهی ہے وه قرآن کو الله کی وحی مانتے ہیں-(۱)

جو اس نے اپنے حبیب ، حضرت محمد مصطفی(ص) پر نازل کی ، وقت نزول پیغمبر(ص)کو یه یقین حاصل تھا که یه کلام الله کی جانب سے ہے اور نزول و دریافت کے بعد پیغمبر(ص)خدا بغیر کسی کم و کاست کے اسے لوگوں تک پهنچایا کرتے اور ان پر تلاوت کرتے تھے اس وقت سے آج تک قرآن میں کوئی تغیر و تبدل اور کوئی تحریف نهیں ہوئی ، آج جو کتاب ہمارےهاتھ میں ہے یه وهی حقیقی قرآن اور الله کا واقعی کلام ہے یهاں تک که بعض افراد کے عقیده کے مطابق آیات و سور کی ترتیب اور ان کا آغاز و اختتام سب اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے قرآن نازل ہوا اور یه قرآن وهی قرآن ہے جسے خدانے جبرئیل امین کے ذریعے پیغمبر امین پر بھیجا تھا۔(۲)

قرآن کے وحی الهی ہونے کا مطلب یه نهیں ہے قرآن صرف معنی و مفهوم میں وحی ہو بلکه اس کے تمام الفاظ بھی الله ہی کی جانب سے ہیں یهیں سے قرآن اور روایات کے درمیان فرق واضح ہوجاتاہے اس لئے که اکثر احادیث عینًا پیامبر و ائمه علیهم السلام کے کلمات نهیں ہیں بلکه اصحاب نے پیامبر سے جو کچھ سنا اسے اپنے الفاظ میں نقل معنی کیا ہے ائمه علیهم السلام نے تغیر عبارات و الفاظ کی اس شرط کے ساتھ اجازت دی که معنی و مفهوم حدیث باقی رهے-(۳)

فقهائے امامیه محدثین او راکثر اہل سنت احادیث میں نقل معنی کو جایز جانتے ہیں فقط اہل سنت کے بعض محدثین اسے جایز نهیں جانتے ۔

____________________

۱- (مترجم) مفتاح الکرامه ، ج ۲ ، ص ۳۹۰ .)

۲ اصول الفقه ، ج۲ ،ص ۵۱

۳ الفوائد الحایریه ، وحید بهبهانی ، ص۲۸۴

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عقیدۂ اختیار

اہل تشیع نے اس عقیدہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں اختیار کیا ہے، یعنی انسانوں کے کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور وہ صاحب اختیار ہے لیکن خواستہ الٰہی بھی اس کے شامل حال ہے او رقضا ء وقدر الٰہی کا اثر بھی ہے۔ جس طرح تمام موجودات کاوجود خدا کے وجود کی بنا پر ہے اور ہر صاحب قدرت کی قوت اور ہر صاحب علم کا علم مرہون لطف الٰہی ہے اسی طرح سے ہر صاحب اختیار کا ارادہ اوراختیار خد ا کے ارادے اور اختیارکے سایہ میں جنم لیتا ہے ۔اسی لئے جب انسان کسی کام کاارادہ کرتاہے تویہ اختیار اور قدرت خداکی طرف سے ہے یا یوں کہاجائے کہ ارادہ وقدرت خدا وندی کے سایہ میں انسان کسی کام کا ارادہ کرکے اس کو انجام دے سکتا ہے اوریہی معنی ہیں۔( وما تشاؤن الا أن یشاء اللّه رب العالمین ) ( ۱ ) ''تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ عالمین کاپرور دگا ر خدا چاہے''(یعنی تمہا را ارادہ خدا کی چاہت ہے نہ یہ کہ تمہارا کام خدا کی درخواست اور ارادہ کی وجہ سے ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ تکویر آخری آیة

(۲) گم شدہ شما ۔محمد یزدی

۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام

احمد بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلا م کی خدمت میں عرض کیا مولا بعض لوگ جبر اور''تفویض ''اختیار مطلق کے قائل ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا لکھو !

قال علی ابن الحسینںقال عزوجل:''یا بن آدم بمشیتی کنت انت الذی تشاء بقوتی ادیت الی فرائضی وبنعمتی قویت علی معصیتی جعلتک سمیعاً بصیراً ما أصابکَ من حسنة فمِن اللّه وما أصابکَ من سیئةٍ فمن نفسک وذلکَ أنِّی أولیٰ بحسناتکَ منکَ وأنت أولیٰ بسیئاتک منیِ وذلکَ أنِّی لاأسئل عماأفعل وهم یُسئلون قد نظمت لکَ کلّ شیئٍ تُرید''

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا وند کریم کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم !تم ہمارے خواہش کے تحت ارادہ کرتے ہو اور ہماری دی ہو ئی طاقت سے ہما رے واجبات پر عمل کرتے ہو اور ہماری عطا کردہ نعمتوں کے نا جائز استعمال سے گناہ ومعصیت پر قدرت حاصل کرتے ہو ہم نے تم کو سننے او ر دیکھنے والا بنایا جو بھی نیکی تم تک پہنچے وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائی وجود میں آئے اس کے ذمہ دار تم ہو کیونکہ میں تمہاری نیکیو ں کے سلسلہ میں تم سے زیادہ حق دار ہوں اور تم اپنی برائی کے بابت مجھے سے زیادہ مستحق ہوکیونکہ میں کچھ بھی انجام دوںگا جو اب دہ نہیں ہوںگا لیکن وہ جو اب دہ ہو ں گے تم نے جو کچھ سوچا ہم نے تمہارے لئے مہیا کر دیا۔( ۱ )

ایک صحابی نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ کیا خدا نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال پر مجبور کیا ہے ۔ اما م نے فرمایا :''اللّهُ أعدل مِن أَن یجبر عبداً علیٰ فعلٍ ثُمَّ یعذّبه علیه''خدا عادل مطلق ہے اس کے لئے یہ بات روانہیں کہ وہ بندو ں کو کسی کا م پر مجبور کرے پھر انہیں اسی کام کے باعث سزادے۔( ۲ )

دوسری حدیث میں امام رضاںنے جبر وتفویض کی تردید کی ہے اور جس صحابی نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا خدا نے بندوں کو ان کے اعمال میں مکمل اختیار دیا ہے تو آپ نے جو اب میں فرمایا تھا ۔

''اللّه أعدلُ وأحکم من ذلک'' خدا اس سے کہیں زیادہ صاحب عدل وصاحب حکمت ہے کہ ایسا فعل انجام دے۔( ۳ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب امربین الامرین حدیث ۱۲

(۲) بحار الانوار ج ۵ ص ۵۱

(۳) اصول کا فی باب امر بین الامرین حدیث ۳

۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل

عمومی فکر اور عالمی فطرت ،دونوں اختیار پر ایک واضح دلیل ہیں اور اختیار وجبر کے معتقد یں بھی ،عملی میدان میں آزادی اور اختیار ہی کو مانتے ہیںلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ !

۱۔ تمام لوگ اچھا ئی کرنے والوں کی مدح اور تحسین کرتے ہیں اور برائی کرنے والے کی تحقیر اورتوہین کرتے ہیں ،اگر انسان مجبور ہوتا اور اس کے اعمال بے اختیار

ہو تے تو مدح وتحسین، تحقیر وتوہین کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔

۲۔ سبھی لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوشش کرتے ہیں اگر انسان مجبور ہو تا تو تعلیم و تربیت کا کوئی مقصد نہیں باقی رہتا ہے۔

۳۔ کبھی انسان اپنے ماضی سے شرمندہ ہو تاہے اور اس بات کاارادہ کرتا ہے کہ ماضی کے بحرانی آئینہ میں مستقبل کو ضرور سنوارے گا ، اگر انسان مجبور ہوتا تو ماضی سے پشیمان نہ ہو تا اور مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو تا ۔

۴۔ پوری دنیا میں مجرموںپر مقدمہ چلا یا جاتاہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اگر وہ لوگ اپنے کاموں میں مجبور تھے تو ان پر مقدمہ چلانا یاسزا دینا سراسر غلط ہے ۔

۵۔ انسان بہت سارے کاموں میں غور و خو ض کرتا ہے اور اگر اس کی پرواز فکر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتی تو دوسرے افراد سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر انسان مجبور ہو تا توغور وفکر او رمشورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے( ۱ )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ جلد ۲۶ ص ،۶۴ خلاصہ کے ساتھ۔'' عدالت کے سلسلہ میں ان کتب سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ اصول کا فی ،نہج البلا غہ ،پیام قران ،تفیسر نمونہ ،اصول عقائد ''

۱۰۳

سوالا ت

۱۔ جبروتفویض اور عقیدہ اختیار کی تعریف کریں ؟

۲۔ انسان کے مختار ہونے کے بارے میں شیعہ عقیدہ کیا ہے ؟

۳۔ عقیدۂ اختیار کے بارے میں سید سجا د کی حدیث پیش کریں ؟

۴۔ عقیدہ ٔجبر واختیار کاکوئی واضح راہ حل بیان کریں ؟

۱۰۴

پندرہواں سبق

نبوت عامہ (پہلی فصل )

اصول دین کی تیسری قسم نبوت ہے توحید وعدل کی بحث کے بعد انسان کی فطرت ایک رہبر ورہنما اور معصوم پیشوا کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔

یہاں وحی، حاملا ن وحی ا ور جو افراد لوگوں کو سعادت وکمال تک پہنچاتے ہیں ان کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی ۔

اس بحث میں سب سے پہلے انسان کووحی کی ضرورت اور بعثت انبیاء کے اغراض ومقاصد نیز ان کی صفات وخصوصیا ت بیان کئے جائیں گے جس کو علم کلام کی زبان میں نبوت عامہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور ان کی خاتمیت کی بحث ہوگی کہ جس کو نبوت خاصہ کہتے ہیں ۔

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت

۱) مخلوقات کو پہچاننے کے لئے بعثت لا زم ہے ۔

اگر انسان کا ئنات کو دیکھے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ دنیا کی خلقت بغیر ہدف ومقصد کے ہوئی ہے گزشتہ بحث میں یہ بات گذر چکی ہے کہ خدا حکیم ہے اور عبث وبیکا ر کام نہیں کرتا ۔ کا ئنات کا نظم ،موجودات عالم کا ایک ساتھ چلنا بتاتا ہے کہ تخلیق کا کوئی معین ہدف ومقصد ہے لہٰذا یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ :

۱۔ خدا نے اس دنیا کو کس لئے پیدا کیا او رہما ری خلقت کا سبب کیا ہے ؟

۲۔ ہم کس طر ح سے اپنے مقصد تخلیق تک پہنچیں ، کامیا بی اور سعادت کا راستہ کون سا ہے اور اسے کس طرح سے طے کریں۔ ؟

۱۰۵

۳۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا کیا مو ت فنا ہے یا کوئی دوسری زندگی ؟ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ا ن سارے سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی خدا کی جانب سے آئے جو سبب خلقت اور راہ سعا دت کی نشان دہی کرے اور موت کے بعد کی زندی کی کیفیت کو ہما رے سامنے اجا گر کرے، انسان اپنی عقل کے ذریعہ دنیوی زندگی کے مسائل حل کر لیتا ہے، لیکن سعادت وکمال تک پہنچنے سے مربوط مسائل اور موت کے بعد کی زندگی اور اخروی حیات جو موت کے بعد شروع ہوگی یہ سب اس کے بس کے باہر ہے ۔

لہٰذا اس حکیم خدا کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم نبیوں کو ان تما م مسائل کے حل اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے ۔

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک لا مذہب شخص نے امام صادق سے سوال کیاکہ بعثت انبیا ء کی ضرورت کو کیسے ثابت کریں گے۔ ؟

آپنے فرمایا :ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس ایساخالق ہے جوتمام مخلوقات سے افضل واعلی ،حکیم وبلند مقام والا ہے چونکہ لوگ براہ راست اس سے رابطہ نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ ا پنی مخلوقات میں رسولو ں کو مبعوث کرتا ہے جو لوگو ں کو ان کے فائدے اور مصلحت کی چیزوں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح ان چیزوں سے بھی آگا ہ کرتے ہیں جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہیں اور ترک میں فناونابودی ہے، لہٰذایہ بات ثابت ہو چکی کہ جو خدا کی جانب سے لوگو ں کے درمیان حکم دینے والے او ربرائیو ں سے روکنے والے ہیں، انہیں کو پیغمبر کہا جا تا ہے۔( ۱ )

امام رضا فرماتے ہیں:جبکہ وجود انسان میں مختلف خواہشات اور متعدد رمزی قوتیں ہیں، مگر وہ چیز جو کما ل تک پہنچا سکے اس کے اندر نہیں پا ئی جا تی اور چونکہ خدا دکھا ئی نہیں دیتا اور لوگ اس سے براہ راست رابطہ نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خد اپیغمبروں کو مبعوث کرے جو اس کے احکا م کوبندوں تک پہنچا ئیں اور بندو ں کو اچھا ئیوں کاحکم دیں اور برائیو سے بچنا سکھائیں۔( ۲ )

____________________

(۱) اصو ل کا فی کتاب الحجة با ب اضطرار ا لی الحجة حدیث ،۱

(۲) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۰

۱۰۶

۲) انسان کے لئے قانو ن تکا مل لا نے کے لئے پیغمبر کی ضرورت۔

انسان کو اپنے مقصد خلقت جوکہ کمال واقعی ہے اس تک پہنچنے کے لئے کچھ قانو ن گذار افراد کی ضرورت ہے جو ان شرائط کا حامل ہو۔

۱۔ انسان کو مکمل طریقہ سے پہچانتا ہو اور اس کے تمام جسمانی اسرار ورموز اس کے احساسات و خواہشات ارادے وشہوات سے مکمل آگاہ ہو ۔

۲۔ انسان کی تمام صلا حیت ، اس کے اندر پو شیدہ خصو صیات اور وہ کمالا ت جو امکا نی صورت میں پائے جا سکتے ہیں سب سے باخبر ہو ۔

۳ ۔انسان کو کمال تک پہنچانے والے تمام اصولو ں کو جانتاہو راہ سعادت میں آڑے آنے والی تمام رکاوٹوں سے آگاہ ہو ، اور شرائط کمال سے باخبر ہو ۔

۴۔ کبھی بھی اس سے خطا ،گناہ اور نسیا ن سرزد نہ ہو ۔ اس کے علا وہ وہ نرم دل مہربان ،شجاع ہو او ر کسی بھی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔

۵۔ لوگو ں سے کسی قسم کی منفعت کی توقع نہ رکھتا ہو تاکہ اپنی ذاتی منفعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے لئے خلاف مصلحت قانون تیار کردے ۔

جس کے اندر مذکورہ شرائط پائے جاتے ہو ں وہ بہترین قانون گذار ہے کیا آپ کسی ایسے شخص کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو جرأت کے ساتھ اس بات کادعوی کر سکے کہ میں انسان کے تمام رموز واسرار سے واقف ہو ں، اس کے بر خلا ف تمام علمی شخصیتوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ ہم ابھی تک انسان کے اندر پائے جا نے والے بعض رموز تک پہنچ بھی نہیں سکے ہیں ۔ اور بعض نے انسان کو لا ینحل معمہ بتایاہے کیا آپ کی نظر میں کو ئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے انسان کے تمام کمالات کو سمجھ لیا ہے ۔اور کمال تک پہنچنے والے تمام شرائط وموانع کو جانتا ہو ں ۔کیا کوئی ایسا ہے جس سے کسی بھی خطاکا امکان نہ پایا جاتا ہو۔ ؟

۱۰۷

یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیامیں تلاش کر یں تب بھی کسی کو نہ پا ئیں گے جس میں مذکورہ تمام شرائط پائے جاتے ہوں یابعض شرطیں ہو ں ،اس کی سب سے بڑی دلیل مختلف مقامات پر متعدد قوانین کا پا یا جاناہے ۔لہٰذا ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ بہترین قانون بنا نے والا صرف اور صرف خدا ہے جوانسان کی خلقت کے تمام اسرار ورموز سے واقف ہے، صرف وہ ہے جودنیا کے ماضی، حال ،مستقبل کو جانتا ہے ۔فقط وہ ہر چیز سے بے نیا زہے اور لوگو ں سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا وہ خد اہے جو سب کے لئے شفیق و مہربان ہے او رانسانوں کے کمال تک پہنچنے کے تمام شرائط کو جانتا ہے ۔

لہٰذا صرف خدا یا وہ افراد جو براہ راست اس سے رابطہ میں ہیں، وہی لوگ قانون بنانے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور اصو ل وقانون کو صرف مکتب انبیاء اور مرکز وحی سے سیکھنا چاہئے ۔

قرآن نے اسی حقیقت کی جا نب اشارہ کیا ہے :(وَلَقَد خَلَقنَا النسانَ وَنَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسُہُ)( ۱ ) اور ہم نے ہی انسان کو خلق کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیاکیا وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

( وَمَا قَدرُوا اللّهَ حَقَّ قَدرِهِ اِذ قَالُوا مَا أنَزَلَ اللّهُ علیٰ بَشَرٍ مِّن

) ____________________

(۱) سورہ ق آیة: ۱۶

۱۰۸

( شیئٍ ) ( ۱ ) اور ان لوگو ں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نہیں نازل کیا ۔

نتیجہ بحث

( اِن الحُکم اِلّا للّهِ ) ( ۲ ) حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام آیة: ۹۱

(۲) سورہ انعام آیة:۵۷

۱۰۹

سوالات

۱۔ سبب خلقت کو سمجھنے کے لئے بعثت انبیا، کیو ں ضروری ہے ؟

۲۔ کیا انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے حدیث امام صادق نقل کریں ؟

۳۔ بعثت کے لا زم ہونے پر امام رضاںنے کیا فرمایا ؟

۴ ۔ قانون گذار کے شرائط کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۱۰

سولھواں سبق

نبوت عامہ (دوسری فصل )

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

۱۔( هُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنهُم یَتلُوا عَلَیهِم آیاتِه وَیُزکیّهِم وَیُعلّمُهُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ ) ( ۱ ) اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں

____________________

(۱)سورہ جمعہ آیة: ۲

۱۱۲

زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ( وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّه واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ''او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو'' ۔

۲۔عدالت وآزادی دلا نا ۔( لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ ) ( ۲ )

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے( ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ ) ( ۳ ) '' ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں''۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

____________________

(۱) سورہ نحل آیة :۳۶

(۲) سورہ حدید آیة:۲۵

(۳) سورہ ذاریا ت،۵۶

۱۱۳

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

۱۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

۲۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

۳۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ''اس کے مثل لانا''ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیں ہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق سے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ''ائمہ '' کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میں فرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۱ ،ص ۷۱

۱۱۴

سوالات

۱۔ فطرت کی راہنمائی او رخو اہشات کے میانہ روی کے لئے انبیا ء کا ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کا مقصد کیا ہے ؟

۳۔ پیغمبروں کے پہچاننے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔ معجزہ کیاہے اور اس کے شرائط کیا ہیں بیا ن کریں ؟

۱۱۵

سترہواں سبق

نبو ت عامہ (تیسری فصل )

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق !

جب کبھی معجزہ کے بارے میں بات کی جا تی ہے تو کہا جا تا ہے کہ معجزہ ایک ایسے حیرت انگیز فعل کانام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزہ ، جادو ، سحر نیز نظر بندکرنے والوں کے حیرت انگیزکرتبوں میں کیسے فرق قائم کیا جائے ۔

جو اب :معجزہ اور دوسرے خارق العادت کاموں میں بہت فرق ہے ۔

ا۔ نظر بندی او رجادو گری ایک قسم کی ریاضت کانام ہے اور جادوگر استاد سے جادو سیکھتا ہے لہٰذا ا ن کے کرتب مخصوص ہیںجو انھو ںنے سیکھا ہے وہ فقط اسی کو انجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی کام کو انجام نہیں دے سکتے لیکن نبی ورسول معجزے کو کسی استاد سے نہیں سیکھتے ،لیکن پھر بھی معجزے کے ذریعہ ہرکام انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صالح سے پہاڑ سے او نٹ نکالنے کوکہاگیا انہو ںنے نکا ل دیا ، جب حضرت مریم سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عیسی جوکہ گہوارے میں ابھی چند دن کے تھے فرماتے ہیں :

۱۱۶

( قا لَ أِنِّیِ عَبدُاللّهِ آتٰنی الکِتَابَ وَجَعلَنیِ نَبِیّاً ) ''میں اللہ کابندہ ہو ں اللہ نے مجھے کتا ب دی ہے اور نبی بناکر بھیجاہے''۔( ۱ )

یا جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی مانگ کی گئی تو پتھروں نے آنحضرت کے دست مبارک پرآکر ان کے رسالت کی گواہی دی ۔

۲۔ جادو گر وں یا شعبدہ بازوں کے کرتب زمان ومکان او رخاص شرائط میں محدود ہیں او رمخصوص چیزوں کے وسیلوں کے محتاج ہیں، لیکن پیغمبروںورسولوں کے معجزے چونکہ ان کا سرچشمہ خدا کی لا متناہی قدرت ہے لہٰذا کو ئی محددیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کو ئی بھی معجزہ پیش کر سکتے ہیں ۔

۳۔جادوگروں اور نظربندوں کے کام زیادہ تر مادی مقصدکے پیش نظر انجام پاتے ہیں ( چاہے پیسوں کی خاطر ہو یا لوگو ں کو اپنی طرف کھینچنے یا دوسرے امور کے لئے ) لیکن انبیاء کامقصد متدین افراد کی تربیت اور معاشرہ کو نمونہ بنانا ہے ۔ اور وہ لوگ (انبیاء ومرسلین ) کہتے تھے( وَمَاَ أَسئَلُکُم عَلَیهِ مِنْ أَجرٍ اِن أَجرِی اِلَّا علیٰ رَبِّ العَالمِینَ ) ( ۲ ) ''اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہو ں اس لئے کہ میرا اجر تو عالمین کے رب کے ذمہ ہے'' ۔

۴۔جادوگروںاورشعبدہ بازوںکے کرتبوںکامقابلہ ممکن ہے یعنی دوسرے

____________________

(۱) سورہ مریم آیة :۳۰

(۲) سورہ شعراء آیة:۱۸۰ ،۱۶۴،۱۴۵،۱۲۷،۱۰۹

۱۱۷

بھی اس جیسا فعل انجام دے سکتے ہیں ،لیکن پیغمبروں کے معجزہ کی طرح کوئی غیرمعصوم شخص انجام نہیں دے سکتا ۔

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟

جبکہ ہر نبی ہر حیرت انگیز کام کو انجام دے سکتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس متعد د معجزے تھے مگر ایک ہی کوزیادہ شہرت ملی ۔

ابن سکیت نامی ایک مفکر نے امام ہادی ں سے پوچھا :کیو ں خدا نے موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور جادوگروں جیسا معجزہ دیا؟ حضرت عیسیٰ کو مریضوں کو شفادینا اور مردوںکو زندہ کرنے والا معجزہ عطاکیا؟اور رسول اسلا م کو قران جیسے حیرت انگیز کلام کے مجموعے کے ساتھ لوگوں میں بھیجا۔

امام ںنے فرمایا : جب خدا نے حضرت موسی کو مبعوث کیاتو ان کے زمانے میں جادوکا بول با لا تھا لہٰذا خدانے اس زمانے جیسا معجزہ دیا چونکہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا او راپنے معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو شکست دی اور ا ن پر حجت تمام کی ۔

جب جنا ب عیسیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے آئے تواس وقت حکمت وطبابت کا شہرہ تھا لہٰذا خدا کی جانب سے اس زمانے کے مطابق معجزہ لے کر آئے اوراس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا، انھوں نے مردو ں کو زندہ کرکے اور مریضو ں کو شفا دے کر، نابینا کو آنکھ عطاکر کے جذام کودور کرکے تمام لوگوں پر حجت تمام کی ۔

۱۱۸

جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت فصاحت وبلا غت کا سکہ چل رہا تھا خطبہ او رانشاء اس وقت کے سکۂ رائج الوقت اور مقبول عام تھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے ان کو موعظہ ونصیحت کے حوالے سے گفتگو کی جس کا مقابلہ کرنالوگوں کی سکت میں نہیں تھا، اپنے مواعظ ونصائح کو قرآنی پرتو میں پیش کیا او رباطل خیالات کو نقش بر آب کردیا ۔

دوسری پہچان ۔انبیاء کی شناخت کادوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس نبی کی نبوت دلیل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہو وہ اپنے آنے والے نبی کے نام اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جیساکہ تو ریت وانجیل میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے سے پیشین گوئیاںکی گئی ہیں ،قرآن ان پیشین گو ئیو ں میں سے حضرت عیسیٰ کے قول کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے( وَاِذْ قَالَ عِیسیٰ بنُ مَریَم یا بَنی اِسرائِیلَ اِنِّیِ رَسُوُلُ اللّهِ اِلیکُم مُصَدِّقاً لِمَا بَینَ یَدیَّ مِن التوراةِ ومُبشّراً بِرسُولٍ یَأتِی مِن بَعدیِ اسُمُه أحمدُ ) ( ۱ ) اس وقت کویاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو ںاپنے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا او راپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہو ں، جس کا نام احمد ہے اسی طرح سورہ اعراف کی آیة ۱۵۷ میں ارشاد ہوا( الذین یتبعون )

____________________

(۱) سورہ صف آیة: ۶

۱۱۹

تیسری پہچان ۔ تیسرا طریقہ انبیاء کو پہچاننے کا وہ قرائن وشواہد ہیںجوقطعی طور پر نبوت ورسالت کوثابت کرتے ہیں ۔

خلا صہ

۱۔جو نبوت کا دعوی کرے اس کے روحانی اور اخلاقی خصوصیات کی تحقیق۔ (مدعی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے اعلیٰ صفات او ربلند اخلاق ہو نا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں نیک چلن اور صاحب کردار کے نام سے جانا جائے)

۲۔ عقلی پیرائے میں اس کے احکام وقوانین کو پرکھاجائے کہ کیا اس کے احکام وقوانین ،الٰہی آئین کے تحت اور معارف اسلام وفضائل انسانی کے مطابق ہیں؟یا اس کی دوسری پہچان ہے ۔

۳۔ اپنے دعوی پہ ثابت قدم ہو ا ور اس کا عمل اس کے قول کاآئینہ دار ہو ۔

۴۔ اس کے ہمنوااور مخالفین کی شناخت ۔

۵۔ اسلو ب تبلیغ کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اپنے قوانین کے اثبات کے لئے کن وسائل اور کن راستو ں کاسہارالے رہا ہے ۔

جب یہ تمام قرآئن وشواہد اکٹھا ہو جائیں تو ممکن ہے مدعی نبوت کی نبوت کی یقین کاباعث بنے ۔

سوالات

۱۔ سحر ،نظر بندی، اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ ہر نبی کا معجزہ مخصوص کیو ں تھا ؟

۳۔ انبیاء کی شناخت کے قرائن وشواہد کیاہیں ؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152