اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط37%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86058 / ڈاؤنلوڈ: 4551
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

دوسرا اشکال :

اگر پیغمبر وه احکام جسے ائمه علیهم السلام لوگوں تک بیان کرنے والے ہیں جانتے تھے اور آپ نے انهیں ابلاغ نهیں کیا گویا انهوں نے حق کو چھپایاہے جبکه کتمان حق حرام ہے جیساکه قرآن میں آیاہے :

( لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ ) (۱)

یا ایک مقام پر فرماتا :

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَـئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ) (۲)

“جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں”۔

بنابر این چونکه پیغمبر کو تمام احکام کا علم ہے اور ان کا وظیفه ابلاغ ہے پس ان پر لازم ہے که وه احکام کو لوگوں تک پهنچائیں نه یه که اپنے وظیفه کو دوسروں کے حوالے کردے که وه احکام بیان کریں ۔

جواب :

سب سے پهلی بات تو یه ہے که "کتمان ما انزل الله " سے مراد اس چیز کا مخفی کرنا ہے که جس کا اعلان کرنا واجب ہو اور ابلاغ احکام کے خاص شرائط اور قوانین ہی جو که زمان و مکان طرز بیان کے لحاظ سے اور یه که یه احکام کسے بیان کرنے ہیں ا ہے ان میں ان سب امور کی رعایت لازم ہے ۔

توضیح مطلب :

بعض احکام ایسے ہیں که جس کا موضوع محقق نهیں ہے یا بیان احکام کی مصلحت نهیں ہے ، اسی لئے خود رسول اسلام کے دور میں احکام تدریجا بیان ہوتے تھے باوجود یکه پیغمبر احکام سے آگاہ تھے لیکن موضوع یا مصلحت کے نه ہونے کی وجه سے بیان کرنے سے گریز کرتے لیکن کسی نے پیغمبر پر یه اعتراض نهیں کیا که آپ تمام احکام کو جاننے کے باوجود کیوں اتنی تاخیر سے تدریجی طور پر

____________________

۱ آل عمران ، ۱۸۷.

۲ بقره ،۱۵۹

۶۱

۲۳ سال کے عرصه میں بیان کیا اور کیوں حق کو چھپایا ؟ اس لئے سب جانتے ہیں که ایک ہی زمانے میں تمام احکام بیان کرنا لوگوں کےلئے سنگیں تھا او ردین سے فرار کا سبب بن سکتا تھا اسی لئے پیغمبر نے اسے تدریجی طور پر بیان کیا اور بعض احکام کے ابلاغ کی ذمه داری اہل بیت کے سپرد کی ۔

اس کے علاوه الهیٰ پیغام کے ابلاغ کا مطلب یه نهیں ہے که احکام کو ایک ایک مسلمان کے کان میں سنایاجائے بلکه اگر ایک خاص گروه تک اسے پهنچایا جائے جو دوسروں تک ابلاغ کرنے والے ہیں ان پر بھی ابلاغ و بیان اور عدم کتمان صادق آئے گا ورنه یه اشکال تمام پیغمبروں اور تمام جاننے والوں پر وارد ہوگا که انهوں نے کیوں حق کو چھپایاہے ؟

تیسرا اشکال

شیعوں کے عقیده کے اعتبار سے ائمهء اطهار مقام عصمت پر فائز ہیں اور ان کاعلم اور ان کی حقانیت مسلم ہے پس اگر ایسا ہے تو پھر ان سے منقول روایات میں تناقض و تعارض نهیں پایاجانا چاہیئے کیونکه تعارض و تناقض ان کے علمی مقام اور عظمت سے سازگار نهیں ہے جب که شیعوں کی کتابوں میں احادیث میں تعارض اور تناقض پایا جاتاہے ؟

جواب:

اولا: تعارض کا مسئله صرف ائمهء کی احادیث ہی نهیں بلکه احادیث نبوی میں بھی موجود ہے اور اہل سنت نے بھی اپنی اصولی کتابوں میں تعارض روایات اور کیفیت جمع و ترجیح سے بحث کی ہے ۔

ثانیا: مختلف عوامل ہیں جو تعارض اخبار کا سبب بنتے ہیں جس میں سے بعض اسباب کی جانب یهاں اشار ه کیا جاتاہے :

۱- راوی کا فهم روایات میں غلطی کرنا ۔

اکثر موارد میں نصوص میں کوئی تعارض نهیں تھا بلکه راوی نے پیغمبر (ص)یا امام کے کلام کو سمجھنے میں غلطی کے شکار ہوئے ہیں ۔

۲- قرینه لفظ اور حال کا ضایع ہوجانا ۔

صدور روایات کے زمانے میں ان روایات کے ساتھ کچھ قرائن تھے خاص طورسے قرینه و سیاق جو که تقطیع روایات کی وجه سے ضایع ہوگئے جس کی وجه سے روایات میں تعارض پیداہوگیا ۔

۳- راویوں کا نقل معنیٰ کرنا تعارض کا سبب بنا ۔

۴- پیغمبر اکرم (ص)اور ائمه ء علیهم اسلام کا احکام کو تدریجا بیان کرنا ۔

۵- ظالم حکام سے تقیه کا مسئله سبب بنا که ائمه کے اقوال یا رفتار میں تعارض کا توهم پایاجائے ۔

۶۲

۶- مخاطب کی رعایت کرنا ۔

بعض اوقات سوال کرنے اوالے کی وضعیت اور شرائط ایسے ہوتے ہیں جودوسروں سے فرق کرتے ہیں اور اس کے سوال کا جواب اس کی شرائط کے مطابق ہوتا ہے لیکن وه شخص اپنے سے مربوط جواب کو بصورت مطلق سب کے لئے نقل کرتا ہے که فلاںمسئله میں امام کا قول یه ہے ۔

۷- کلام امام میں مخالفین اور مغرضین کی جانب سے تحریف کیاجانا ۔

اس لئے که ہمیشه ہر دور میں مغرض اور منافق افراد رهے ہیں یهاں تک خود پیغمبر کے دور میں ایسے افراد تھے جو احادیث میں تحریف کرتے تھے ۔ چنانچه رسول خدا (ص)سے نقل ہوا ہے که آپ نے فرمایا:

“"کثرت علیّ الکذبه ”"

“مجھ پر جھوٹ باند ھنے والے زیاده ہوگئے ہیں ” ۔(۳)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

من قال علی مالم اقل فلیتبوا مقعده من النار

“جو کوئی میری جانب اس چیز کی نسبت دے جو میں نے نهیں کهی اس کا ٹھکانه جهنم ہے ” ۔(۴)

تاریخ اور روایات میں ایسے افراد کا نام آتاہے جن کی احادیث میں دست کاری اور تحریف کی ترویج کی وجه سے سرزنش اور مذمت کی گئی ہے ۔

۸- حکومت کے وقتی احکام

جیسے امیرالمؤمنین کی حکومت کے دور میں اونٹ پر وجوب زکوٰة کا خاص حکم تھا ایک مدت کے بعد ختم ہوگیا ۔

____________________

۳ غیبت نعمانی ، ص۷۶ ، احتجاج طبرسی ،ج۱،ص۳۹۳، کنز العمال،ج۱۶،ص۵۵۵

۴ .کنز العمال ،ج۱۰،ص۲۹۰

۶۳

فعل معصوم سے استنباط کی کیفیت

چونکه الفاظ کی دلالت اپنے معانی پر افعال سے گویا تر ہے اور مقاصد کو مخاطب تک پهنچانے میں سریع تر ہے اس لئے معصوم سے صادر شده امر ونهی ، وجوب و حرمت پر ظهور رکھتی ہے اور اس قسم کے ظهورات قابل استناد ہیں لیکن کیا فعل معصوم امر امام کی مانند وجوب پر دلالت کرتا ہے ؟ کیا امام کا کسی فعل کو ترک کرنا حرمت پر دلالت کرتاہے ۔

فعل معصوم جواز فعل ( بمعنیٰ عدم حرمت ) سے زیاده دلالت نهیں کرتاہے یعنی امام کی جانب سے کسی فعل کا انجام دیاجانا اس بات کی دلیل ہے که وه حرام نهیں ہے لیکن وه فعل سے وجوب پر دلالت نهیں کرسکتا بالکل اُسی طرح که امام کی جانب سے کس عمل کا ترک کیاجانا صرف عدم وجوب پر دلالت کرے جیسے پیغمبر یا امام کسی کام کو حکم یا عبادت کی تعلیم کےلئے انجام دیں یا جیسے کوئی معصوم فعل یا ترک فعل کو مستمر طور پرمسلسل انجام دیں بعض نے اس استمرار کو وجوب یا حرمت کی دلیل قرار دی ہے ۔

اگر کها جائے : پیغمبر کا فعل وجوب پر دلالت کرتا ہے کیونکه قرآن میں فعل پیغمبر کی تأ سی اور رسول کے تمام اعمال کی پیروی کو واجب قرار دیاگیا ہے اگرچه وه فعل خود پیغمبر پر واجب نه ہو جیساکه ارشاد ہے :

( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ) (۱)

“مسلمانو! تمهارے میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہءعمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے” ۔

ہمارا جواب یه ہوگا :

تأ سی کی تعریف میں کها گیا ہے :

ان تفعل مثل فعله علی وجهه من اجل فعله (۲)

"پیغمبر (ص)کی تأ سی یه ہے که پیغمبر نے جس کام کو جس طرح اور جس نیت سے انجام دیا تم بھی اسی انداز اور اسی نیت سے انجام دو " ۔

پس اگر پیغمبر (ص)نے واجب کی نیت سے انجام دیا تو ہم بھی واجب کی نیت سے انجام دیں گے اور اگر آپ نے مستحب اور مباح کی نیت کی تو ہم بھی استحباب اور اباحه کی نیت کریں گے نه یه که پیغمبر (ص)نے جو عمل انجام دیا وه ہم پرواجب ہو اور خود پیغمبر(ص)پر واجب نه ہو ۔

____________________

۱ احزاب ، ۲۱

۲ شرح المعالم ، ج۲ ،ص۳۹۰

۶۴

تقریر معصوم کی حجیت کیسے ثابت ہوگی ؟

تقریر یعنی معصوم کا اس فعل پر سکوت کرنا جو آپ کے سامنے (یا آپ کی غیبت میں مگر آپ کی اطلاع کے ساتھ) انجام پالیے ۔

تقریر کیے حجیت و اعتبار کی دلیل یه ہے که اگر وه فعل یاقول حرام اور منکر ہوتا تو معصوم ضرور مخالفت کرتا کیونکهه نهی از منکر واجب ہے ۔

بعض نے کها که : تقریر معصوم حجت نهیں ہے کیونکه نهی از منکر اور ارشاد جاہل کو ارشاد کرنا ہمیشه اور ہر جگه واجب نهیں جیسے کوئی عمل شارع کی جانب سے مودر انکار قرار پائےلیکن مکلف پر اس کاکوئی اثر نهیں ہو تو دوباره اس عمل سے روکنے کی ضرودت ضرورت نهیں ہے ۔

جواب یه ہے که :

یه فرض محل کلامہماری بحث سے خارج الک ہے کیونکه محل کلامہماری بحث ان موارد میں ہے که جهاں نهی از منکر کے واجب ہونے کے شرائط موجود ہوں ۔

۶۵

سنت صحابه

جمهور اہل سنت، اہل بیت علیهم السلام کی سنت کے بجائے صحابه کی سنت کو حجت مانتے ہیں-(۱)

تاکه ان کی سنت کے ذریعه ادله شرعیه کی کمی کو پورا کیاجاسکے ان کے نزدیک صحابی رسول اس مسلمان کو کهتے ہیں جس نے پیغمبر (ص)کی زندگی درک کی ہو –(۲)

اوراس دنیا سے مسلمان اٹھاہو اس کے علاوه اہل سنت کا تمام اصحاب رسول (ص)کے بارے میں اتفاق ہے که جس پر صحابی کا اطلاق ہو وه یقینًا عادل ہے-(۳)

جب که مکتب اہل بیت کے ماننے والوں کے نزدیک اصحاب پیغمبر(ص)کا امتیاز اور افتحار صحابیت کی وجه سے بڑا مقام ہے لیکن وه یه نهیں مانتے که سب کے سب بلااستثنا عادل ہوں اس لئے که جهاں اصحاب پیغمبر(ص)میں عظیم المرتبت شخصیات گزری ہیں وهیں پر قرآن و تاریخ و حدیث کی روشنی میں کچھ ایسے بھی افراد تھے جو عادل نهیں تھے جسکی وجه سے قرآن وحدیث میں انکی مذمت بھی کی گئی،

اہل سنت عدالت صحابه پرقرآن اور حدیث سے استدلال کرتے ہیں چنانچه قرآن کی تین آیتیں پیش کرتے ہوئے کهتے ہیں که خداوند سبحان کا ارشاد ہے :

"( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) "(۴)

“تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے” ۔

اور دوسری آیت یه پیش کرتے ہیں :

"( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ ) "(۵)

“ اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو ” ۔

____________________

۱ الموقعات شاطبی ، ج ۴ ،ص ۷۴

۲ الاصحابه فی تمیز الصحابه ، ج۱،ص۱۵۷

۳ .وهی مدک ،ص ۱۶۲

۴ آل عمران ، ۱۱۰

۵ بقره ، ۱۴۳

۶۶

اورتیسری آیت جو پیش کی جاتی ہے وه یه ہے :

"( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) "

“یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے ” ۔(۶)

ان تین آیتوں سے یه استدلال کیا جاتا ہے که خیر امت اور امت وسط سے مراد اصحاب ہیں یه اصحاب وهی ہیں که جنهیں خدا مؤمن مانتاہے اور ان سے راضی ہے پس جو افراد خیر امت اور مؤمن ہوں اور الله ان سے راضی ہو یعنی ان کے افعال ،رفتار و گفتار سے راضی ہے پس ان کی سنت بھی حجت ہوگی ۔

جب که پهلی اور دوسری آیت کا تعلق صحابی سے مخصوص نهیں بلکه اس میں تمام امت شامل ہے انهی تین آیتوں میں سے تو یه آیت ان اصحاب سے مخصوص ہے جو بیعت رضوان میں شریک تھے پس تمام صحابی اسمیں شامل نهیں ہیں اس کےکیوں کی علاوه الله کی رضایت بیعت رضوان سے مربوط تھی یعنی خدا بیعت رضوان میں ان کے موقف سے راضی تھا اس کا مطلب یه نهیں که خدا ان کے تمام کاموں سے راضی رهے گا ۔

دانشمندان اہل سنت نے قرآن کے علاوه احادیث و روایات سے بھی استدلال کیا ہے جس میںمںی سب سے اہم اور معروف روایت یه ہے ارشاد پیغمبر (ص)هے که :

أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم ”۔(مترجم) ‏.(۷)

“میرے اصحاب کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے اس میں جس کسی کی اقتداء کروگے ہدایت پاؤگے ”۔(۸)

جب که ابن حزم نے اسی روایت کو ساقط، مکذوب، اور غلط جاناہے اس کے علاوه بعض روایات میں یه آیا ہے ۔

اهل بیتی كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُم اهْتَدَيْتُم ”۔‏.

“میرے اہل بیت کی مثال ستاروں جیسی ہے ان میں جس کی اقتداء کروگے ہدایت پاؤگے” ۔(۹)

اور یه حدیث ثقلین جیسی متواتر حدیث سے بالکل ہم اہنگ ہے ۔ اس کے علاوه قرآن مجید میں ان اصحاب کا جو جنگ میں رسول کوپیٹھ دکھا کر بھاگ گئے یا وه اصحاب جنهوں نے دستورات پیغمبر (ص)سے سرپیچی کی ہے یا ان پر اشکلالات کیئے ہیں

ان سب کا تذکره کیا اور بعض کو صریحاً فاسق قرار دیا ہے ایک جگه فرمایا :

____________________

۶ فتح ، ۱۸

۷ (مترجم)-- ۸ میزان الاعتدال ، ج۱ فص۴۱۳/۶۰۷ .---۹ .الاحکام ابن حزم،ج۶ ، ص۸۱۰

۶۷

"( وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ ) "

“اور ان ہی میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے” ۔(۱۰)

اور ایک جگه فرمایا:

"( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ) "

“ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔(۱۱) اہل سنت کے اکثر مفسرین نے کها یه آیت ولید عقبه کے بارے میں نازل ہوئی اور ولیدا بن عقبه مسلماً صحابی پیغمبر(ص)هے ،ابن عاشور نے اپنی تفسیر میں اس قول کو مورد اتفاق جانا ہے اور کها ہے که اس سلسلے میں روایات بهت زیاده ہیں ۔ اس کے علاوه سوره، نور سوره احزاب ،سوره برائت اور سوره منافقوں میں ایسے افراد کا ذکر ہے جو بظاہر مسلمان اور صحابی رسول تھےلیکن باطن میں مناقق تھے تھے،داستان افک کے جس کے سلسله میں سوره نور کی پندره آیتیں نازل ہوئیں ان آیات میں جس گروه کی سرزنش کی گئی وه سب بظاہر مسلمان اور صحابی پیغمبر تھے بهر حال صحابه اپنے تمام احترام کے باوجود ان میں بعض صالح اور بعض غیر صالح افراد تھے اسی لئے سب کے اقوال کویکساں طور پر حجت نهیں مانا جاسکتا ۔ اس کے علاوه بعض مشهور اور سرشناس صحابه کے کام ایسے ہیں جو کسی بھی طرح قابل توجیه نهیں ہیں اور کوئی منطق اسے قبول نهیں کرسکتی کیا ہم یه جانتے ہیں که جنگ جمل کی آگ بھرکانے والے طلحه اور زبیر جیسے معروف صحابی تھے جنهوں نے امام وقت کے خلاف خروج کیا اور ستّره هزار مسلمانوں کے قتل کا سبب بنے کیا ایسے افعال کی کوئی منطقی دلیل ہے ؟ کیا ایسے افراد کی سنت حجت ہوسکتی ہے ۔اسی طرح ہم یه بھی جانتےهیں که معاویه نے یهی کام اپنے وقت کے امام حضرت علی علیه السلام کے ساتھ انجام دیا جس کی وجه سے جنگ صفین میں ایک لاکھ مسلمان تهه تیغ ہوئے کیا یه قتل و غارتگری توجیه کے قابل ہے ؟

کیا ایسے افراد کو اب عادل مانا جائے گا ؟

کیا ایسے افراد کو مجتهد کهنا اور ان کے افعال کو خطائے اجتهادی کهه کر توجیه کرنا کوئی عقلی بات ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہر دور میں اسی عنوان کےتحت ہر قسم کے گناہ کی تو جیه کی جاسکتی ہے کیا کوئی دانشمند ایسی باتوں کو قبول کرسکتاہے ؟ بهرحال ہم مصاحبت پیغمبر کی وجه سے صحابه کا احترام کرتے ہیں لیکن انهیں تمام مسلمانوں کی طرح دو یاچند گروهوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان میں سے ان افراد کی روایت قبول کرتے ہیں جو عادل ہوں ۔

____________________

۱۰ توبه ، ۵۸ .---۱۱ حجرات ، ۶

۶۸

۹- سنت صحابه کی حجیت پر دلیل نقل :

سنت صحابه کی حجیت پر جو دلیلیں نقل ہوئی ہیں بالخصوص جو روایات پیش کی گئی ہیں ان میں سندی اشکال اور خود اہل سنت کے محدثیں کی جانب سے ان روایات کے جھوٹ اور جعلی ہونے کی تصریح کے علاوه دلالت کے اعتبار سے بھی مخدوش ہے کیونکه ہم دیکھتے ہیں که صحابه کی سیرت میں اختلاف بلکه تناقص پایاجاتا ہے اور کسے ممکن ہے سیرت کے اس آشکار اختلاف کے باوجود ان کی سیرت بطور مطلق حجت قرار پائے

صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم(ص) سے انس نے روایت کی که پیغمبر(ص) نے فرمایا:

لیردن علی ناس من اصحابی الحوض حتیّ اذا عرفتهم اختلجوا دونی فاقول اصحابی فیقول لاتدری ما اخدثو بعدک (۱)

کسےممکن ہے اس روایت کے ہوتے ہوئے صحابه کی عدالت اور ان کی سنت کو حجت ماناجائے اور کسی طرح اس صحابی کی سنت کو ثابت کی جائے که جس نے فقط کچھ دن پیغمبر(ص) کے ساتھ گذار ہیں کیا مصاحبت کا مرتبه ایمان سے بڑھ کر ہے ؟

جب ایمان کے لئے نهیں کها جاسکتا که ایمان عصمت اور گناہوں کے عدم ارتکاب کا باعث ہے تو بھلا مصاحبت سے اسے معجزه کی کیسے امید رکھی جاسکتی ہے

قابل غور بات یه ہے که اہل بیت علیهم السلام سے دوری اور رسول(ص) علم کے باب ہے اور اہل بیت علیهم السلام کی روایتوں سے دوری نے انهیں شرعی احکام کے استنباط کرنے میں مشکل اور گرفتاری میں ڈال دیا اور پھر خلفاء کے اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے چکر میں عصمت صحابه جیسے امور کے قائل ہوگئے اور انهی امور کو استنباط فقهی میں داخل کردیا جسکی وجه سے ایسی مشکلات کا شکار ہوگئے جو آج تک ان کے دامن گیر ہے

____________________

۱- (مترجم)صحيح بحاري ، كتاب الرقاق ، باب في الحوض ، حديث نمبر۱۴۴۱.

۶۹

سنت تک پهنچنے کے راستے

جیساکه یه بات گذر چکی که قول وفعل تقریر معصوم کو سنت کهتے ہیں اسی لئے اخبار اور احادیث سنت نهیں بلکه سنت کی حکایت کرتے ہیں اور درحقیقت سنت تک پهنچنے کے راستے شمار ہوتے ہیں ۔

یهاں پر سنت کی تلاش اور اس تک پهنچنے کے بعض قطعی او ربعض غیر قطعی راستون کو پیش کیاجاتاہے –(۱) ۔

الف : سنت تک پهنچنے کے قطعی راستے

۱- خبر تواتر

امت اسلامی اور معصومین کے درمیان زمانی فاصله کی وجه سے روایات متعدد واسطوں سے آئی ہے ۔

۱- اہل سنت کے ایک گروه نے خبر کی تین قسمیں کی ہیں :

ایک خبر وه ہے که جس کی تصدیق واجب ہے اورایک خبر وه ہےکه جس کی تکذیب واجب ہے اور ایک وه ہے که جس میں توقف کیاجانا چاہیئے. ان کا کهنا جس خبر کی تصدیق واجب ہے اس کی سات قسمیں ہیں ۔

(۱)خبرمتواتر

(۲) خبر واحد

(۳) خبر رسول الله (ص)

(۴) خبر امت پیغمبر (ص)کیونکه امت کی عصمت پیغمبر (ص)کی جانب سے مختص ہوچکی ہے ضمنا ہر اس شخص کی خبر جسے امت سچا اور راستگو مانتی ہے وه اسی چوتھی قسم میں داخل ہے ۔

(۵) ہر اس شخص کی خبر جو الله، رسول اور امت کی اخبار سے مطابقت رکھتی ہو ۔

(۶)هر وه خبر جسے مخبر و پیغمبر کے آگے بیان کرے اور پیغمبر اس کی تکذیب نه کریں ۔

(۷) ہر وه خبر که جسے مخبر کسی جماعت کے آگے بیان کرے اور جماعت اس خبر کی تکذیب نه کرے البته اس شرط کے ساتھ که ان کا پشت پرده سازش اور باہم توافق کرنامحال ہو ۔ لیکن وه خبر که جس کا تکذیب کرنا و اجب ہے اس کی چار قسمیں ہیں :

____________________

۱ .المصتفیٰ، ج۱ ،ص ۱۴۴/۱۴۲

۷۰

۱- وه خبر جو عقل ضروری اور عقل نظری کے حکم یا حسن ومشاہده اور اخبار متواتر کے خلاف ہو ۔

۲- وه خبر جو کتاب وسنت واجماع کے مخالف ہو ۔

۳- وه خبر که جسے کثیر جماعت نے جھوٹی خبر قرار دیا ہو او رعادتا اس خبر کے خلاف انکا پشت پرده توافق کرنا ناممکن ہو ۔

۴- ایسی خبر که جسے ایک کثیر جماعت نقل کرنے سے انکار کرے جبکه اس کے نقل کرنے کا امکان موجود ہو ۔

اور خبر کی تیسری قسم :

وه خبر ہے که جس میں خبر کا سچا اور جھوٹا ہونا مشخص نه ہو اور کتب حدیث میں اکثر اخبار اسی قسم کی ہیں

اسے او ریه اخبار امت تک پهنچتی ہیں اور جنتا یه فاصله بڑھتا جائے اتنے ہی واسطے بڑھتے جاتے ہیں ہر واسطه کو اصطلاحاً طبقه کها جاتا ہے ۔ خبر متواتر وه خبر ہے که ان طبقات میں سے ہر ایک طبقه میں ایساگروه موجود ہو که جس کا کذب وجعل حدیث پر توافق کرنا عام طور پر ناممکن ہو اسی لئے خبر متواتر یقین آور ہے(۲) ۔

۲- وه خبرواحد جو قرینه قطعیه کے ہمراہ ہو

جو روایت حد تواتر تک نه پهنچے اسے اصطلاحاً خبرواحد کهتے ہیں کبھی خبرواحد میں ایسے قرائن ہوتے ہیں جس سے یقین ہوجاتا ہے که یه خبر معصوم سے صادر ہوئی ہے ، اخباری علماء کے نزدیک کتب اربعه کی روایات ان خبرواحد جیسی ہیں جو قرینه قطعیه کے ہمراہ ہوں اسی لئے ان کی نظر میں کتب اربعه کی ساری روایات حجت ہیں اور اسی لئے وه روایات کی صحیح ، ضعیف، مرسل اور مرفوع جیسی تقسیم بندی کو قبول نهیں کرتے اور یهی حال اہل سنت کے اکثر محدثین کا ہے وه بھی صحاح سته خاص طور سے بخاری اور صحیح مسلم کی تمام روایات کو حجت مانتے ہیں(۳)

____________________

۲ مصباح الاصول ،ج۲ ،ص ۱۹۲

۳ حدائق الناظره ، ج۱ ،ص ۲۳

۷۱

۳- اجماع

مذهب امامیه کا اجماع چونکه رائے معصوم کا کاشف ہے اس لئے حجت ہے اور اسی بناپر خبرمعصوم اور وه خبر جو محفوف به قرینهسے ملی ہو کی مانند کاشف سنت ہے لیکن اہل سنت کے نزدیک اجماع دلائل استنباط میں مستقل دلیل شمار ہوتی ہے ۔اسی لئے ہم اہل سنت کی رعایت کرتے ہوئے اسے آئنده صفحات میں مستقل عنوان کے تحت پیش کریں گے اور اس سلسله میں فریقین کے نظریات کو بیان کریں گے ۔

۴- سیرۀ عقلاء

تمام لوگوں کا چاہے وه مسلمان ہوں یا غیر مسلمان کسی فعل کو بطور مستمرمسلسل انجام دینا یا ترک کرنا سیره یا بنائے عقلاء کهلاتا ہے مگر سیرۂ عقلا کے حکم شرعی ہونے کےلئے معصوم کی تائید اور امضاءضروری ہے اور معصوم کا کسی فعل کی انجام دهی سے روکنا اس فعل کی تائید او رامضا ء کےلئے کافی ہے-(۴)

کیونکه اگر وه فعل حرام ہوتا تو امام کےلئے اس فعل سے روکنا لازم ہوتا ۔

۵- سیرۀمسلمین

وه افراد جو دین اسلام کے پابند ہیں ان کا کسی فعل کو انجام دینا یا ترک کرنا ایک طرح سے مسلمانوں کاعملی اجماع شمار ہوتا ہے کسی عمل کی انجام دهی اور ترک عمل میں انکاا موقف اور ان کی روش سیرۂمسلمین کهلاتی ہے یه سیرت اگر زمانه ءمعصوم سے متصل ہو تو حجت ہوگی کیونکه سیرت مسلمین اس بات کی دلیل ہے که ان کی سیرت معصوم سے صادر دشده قول یا فعل سے ماخوذ ہے لیکن اگر ان کی سیرت کا زمانه ء معصوم سے متصل ہونا مشخص نه تو ایسی صورت میں وه سیرت حجت نهیں ہوگی کیونکه شاید یه سیرت اسلامی سماج میں ایک عادت بن گئی ہو اس لئے که بعض اوقات کسی شخص یا گروه کی خاص روش اور رفتار اس حدتک لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے جو دھیرے دھیرے ایک رسمی اور عمومی عادت بن جاتی ہے کسی عادت کی ابتداء میں علماء اور متدین افراد کی سهل انگاری او رغفلت کی وجه سے یا اس کے خلاف کوئی ٹھوس موقف اختیار نه کرنے کی وجه سے یاموقف تو اختیار کیا لیکن اس عادت کو مٹانے میں اس موقف کے کافی نه ہونے کی وجه ہے سے اکثر لوگ اس میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اہسته اہسته وه عادت اتنی مضبوط ہوجاتی ہے که اکثر افراد اس عادت کا احترام کرنے لگتے ہیں آج مساجد کے خرچے اور تشریفاتی امور انهی سهل انگاریوں کا نتیجه ہوں ہیں جوآج ایک عادت بن گئی اور لوگ اسے ہی سیرت مسلمین سمجھ بیٹھے ہیں –(۵) ۔

____________________

۴ اصول القه ، ج۲ ،ص ۱۷۱

۵ اصول الفقه، ج۲ ، ص ۱۷۵

۷۲

ب: سنت دستیابی حاصل کرنے سنت کے غیر قطعی راستے

به بات گذرچکی ہے که جس طرح کشف سنت کے کچھ قطعی راستے ہیں اسی طرح کچھ غیر قطعی راستے بھی ہیں که جن کا خود بخود کوئی اعتبار نهیں کیونکه حکم شرعی کی دلیل کا قطعی ہونا لازمی ہے صرف احتمال و گمان کی عقل کے نزدیک کوئی ارزش نهیں ہے قرآن ظن و گمان کی پیروی کو قابل قبول نهیں جانتا :

"( وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ) "

“ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے” ۔(۶)

"( وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً ) "

“ اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روزِ قیامت سماعتً بصارت اور قوائے قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا-(۷) ۔

لیکن اگر یه غیر قطعی راستے معقول ہوجائیں اور ان کے اعتبار پر قطعی دلائل موجود ہوں تو یهی غیر قطعی راستے حجت ہوں گے اور ان پر عمل ظن و گمان کی پیروی نهیں ہوگی ۔

وه غیر قطعی لیکن معتبر راستے کچھ اس طرح ہیں :

۱- خبرواحد

ایسی خبر که جس کے راوی تمام یا کسی ایک طبقه میں ایک یا ایک سے زیاده ہوں لیکن حدتواتر تک نه پهنچیں تو ایسی خبر یقین آور نهیں ہوگی او رایسی خبر کو اصطلاح میں خبرواحد کهتے ہیں ۔

خبر واحد کی بحث منابع استنباط کے اہم ترین مباحث میں سے ہے اور اس کی حجیت میں علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے سید مرتضیٰ S ابن زهره S ابن براج S طبرسی(۸) اور ابن ادریس S اس کی حجیت کا انکار کرتے ہیں اہل سنت میں قدریه اور فرقه ظاہریه(۹) کے بعض افراد اسکی حجیت کے منکر ہیں جب که شیخ طوسی اور فقهائے تشیع کے اکثر بزرگ افراد اسی طرح تمام اخباری او ر اہل سنت کے اکثر افراد خبرواحد کی حجیت کے قائل ہیں(۱۰) ۔

____________________

۶ نجم،۲۸ .----۷ اسراء ،۳۶

۸ کفایه الاصول ،ج۲،ص۷۹

۹ روضه الناظر ،ج۱ ،ص۳۱۳

۱۰ وهی مدرک ،

۷۳

حجیت خبرواحد کے شرائط میں کوئی ایک مشخص رائے نهیں ہے مسلک امامیه کے قدما ء اس خبر واحد کومعتبر مانتے ہیں جو قرائن صحت کے ہمراہ ہو چاہے وه قرائن صحت داخلی ہوں جیسے راوی کی وثاقت یا خارجی ہوں جیسے کسی معتبر کتاب میں اس کا وجود یا کسی کتاب میں اس کی تکرار ، اور روایت غیر معتبر اسی روایت کو مانتے ہیں جس میں اس قسم کے قرائن موجود نه ہوں(۱۱)

لیکن چھٹی صدی سے شیعه علماء نے خبر واحد کی حجیت کےلئے راوی کی عدالت کو شرط قرار دیا ہے اور بعض نے راوی کی وثاقت کو شرط قرار دیا اور اسی نظریه کی اساس پر روایات کی چار قسمیں کیں صحیح، حسن، موثق اورضعیف البته اخباری کتب اربعه کی تمام روایات کو حجت مانتے ہیں اور حدیث کی مذکوره تقسیم بندی کو غلط اور بے اثر جانتے ہیں لیکن ان کے پاس اپنے نظریه کے اثبات میں کوئی قابل قبول دلیل نهیں ہے ۔

روایت صحیح

اہل سنت کے نزدیک وه خبر واحد که جس کی سند متصل ہو ( یعنی جس کے سلسلهء سند میں کوئی افتاد گی نه ہو ) اورجس کے راوی عادل مضبط اور مخفی عیب سے دور ہوں ایسی روایت کو روایت صحیح کهتے ہیں :

“"ماتصل سند بعدول ضابطین بلا شذوذ ولاعلة خفیة ”"

روایت حسن

اس روایت کوکهتے ہیں جس روایت کے صدور اورا س کے رجالی شناخته شده ہوں مگر روایت صحیح کی حدتک نه ہوں ۔

“"ماعرف مخرجه و رجاله لاکرجال الصحیح ”"

روایت ضعیف

وه روایت ہے که جس میں روایت حسن کے درجات سے کوئی درجه نه ہوں اور خود روایت ضعیف کے کئی مرتبے ہیں ۔

“"ماقصر عن درجه الحسن وتفاوت درجاته فی الضعف بحسب بعده من شروط الصحة ”"(۱۲)

____________________

۱۱ .مقباس ال ہدایه فی علم الدرایایه ،ج۱،ص۱۹/۲۴

۱۲ امنی المطالب ، ص ۱۷

۷۴

۱- شهرت

فقهاء اور اصولویوں کے ایک گروه نے شهرت کو منابع استنباط میں سے ایک شمار کیا ہے –(۱) جانا چاہیئے که شهرت کی تین قسمیں ہیں :

الف: شهرت روائی

ان کے نزدیک یه اصطلاح اہل خیرت کے یهاں رائج ہے جس حدیث کے راوی زیاده ہوں لیکن حدتواتر تک نه پهنچے ایسی روایت کو "وه خبر مشهور "(مستفیض ) کهتےهیں اور تعارض روایات کی صورت میں شهرت روائی کو مرجحات روایت میں شمار کیا ہے –(۲) ۔

یعنی اگر دو روایتیں صدیوں کے اعتبار سے ایک دوسرے سے معارض ہوں اور ان میں ایک روایت شهرت روائی رکھتی ہو اور کئی راویوں نے اسے نقل کیا ہو تو ایسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دی جائے گی اور اس ترجیح کی دلیل خود شهرت ہے جو اطمینان اور وثوق کا باعث ہے اس کے علاوه بعض روایات میں که جس میں مقبوله عمرابن خنظله بھی ہے اس بات کی تصریح کی گئی ہے چنانچه اس حدیث میں عمرابن حنظله نے امام صادق علیه السلام سے سوال کیا که : اگر راویوں میں سے دو راوی جن میں دونوں ہی مورد وثوق واطمینان ہوں اور آپ کی حدیث میں اختلاف کریں تو کیا کرنا چاہیئے ؟

امام علیه السلام نے بعض مرحجات کو گنوانے کےبعد فرمایا:

يُنْظَرُ إِلَى مَا كَانَ مِنْ رِوَايَتِهِمْ عَنَّا فِي ذَلِكَ الَّذِي حَكَمَا بِهِ الْمُجْمَعُ عَلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِكَ فَيُؤْخَذُ بِهِ مِنْ حُكْمِنَا بِهِ الْمُجْمَعُ عَلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِكَ وَ يُتْرَكُ الشَّاذُّ الَّذِي لَيْسَ بِمَشْهُورٍ عِنْدَ أَصْحَابِك(۳) ..”

“یعنی ان دو روایتوں میں جو روایت اصحاب کے درمیان مشهور ہو اسے مقدم رکھتے ہوئے دوسری روایت کو چھوڑدیں. شهرت روائی کو بعض اہل سنت نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے

____________________

۱ اصول الفقه،ج۲ ،۱۶۳

۲ انوار الاصول ،ج۱ ص ۶۷

۳ .کافی ،ج۱ ، ص۶۷

۷۵

انهوں نے خبر کو تین قسموں میں تقسیم کیا ۱) متواتر ۲) مشهور ۳) واحد اور حدیث مشهور یعنی وه حدیث جو راویوں کی زبان پر رائج ہو کو خبر غیر مشهور (واحد) پر مقدم رکھا کیونکه یه خبر اطمینان آور ہے –(۴) ۔

لیکن انهوں نے شهرت کی ایک اورقسم کو مرجحات میں قرار دیا ہے اور وه شهرت راوی ہے نه که شهرت روائی ان کا کهنا ہے که اگر ایک حدیث کا راوی دوسری حدیث کے راوی سے زیاده شهرت رکھتا ہو تو اسکی روایت کو دوسری روایت پر مقدم کریں گے ۔

اس شهرت کی کئی قسمیں بتائی گئیں ہیں ۔ ایک یه کهاول راوی کبار صحابه میں ہو کیونکه یه عالی منصب اسے کذب و دروغ سے باز رکھے گا دوم یه که ایک نام کا مالک دو نام والے پر رحجان رکھتا ہے سوم یه که معروف النسب راوی مجهول النسب راوی پر مقدم ہے چهارم یه که ان راویوں کے نام جو افراد ضعیف کے نام سے مشتبه نه ہوں ان راویوں پر مقدم ہیں جن کے ناموں میں اشتباہ ہوتا ہے اور اسی طرح وه راوی جو حفظ وضبط روایت کیلئے مشهور ہیں یا ثقات و عدول سے نقل کرتے ہیں مقدم ہیں(۵) ۔

____________________

۴ التعارض والترجیح ،عبداللطیف عبد الشمس ، ج۲ ،ص۱۶۹

۵ انوار الاصول ،ج۲ ، ص۴۲۳

۷۶

ب:شهرت عملی

وه روایت جس میں فقهاء کے درمیان اس پر عمل اور استناد مشهور ہو-(۱) . اس شهرت کو شهرت عملی کهتے ہیں اوردو مقام پر اس سے استفاده کیا جاتا ہے ۔

۱- پهلے یه که باب تعارض کے مرجحات میں جهاں فقهاء کهتے ہیں اگر ہم یه مانتے ہوں که جو چیز واقعیت سے نزدیک تر ہو مرجح ہوگی پس شهرت عملی بھی مرجیح ہوگی لیکن صرف اس صورت کهمیں فقه کے قدیم علماء اور گذشتگان کی روایت کے مطابق عمل ہو ۔

۲- دوسرے یه که سند روایت کے ضعف کو بر طرف کرنے میں شهرت عملی سے کام لیا جاتا ہے یعنی جب بھی کوئی روایت قوانین کے حساب سے ضعیف ہو لیکن کئی علماء اور فقهاء نے اس روایت کے مطابق فتوا دیا ہو تو ان کا فتوی اور عمل سند روایت کے ضعف کو بر طرف کرتا ہے اور اس روایت کو قابل اعتما دبناتا ہے اسی طرح که جس طرح کوئی خبر صحیح اور معتبر ہو لیکن فقهاء اس روایت سے گریز کریں اور کوئی اعتنا نه کریں تو ایسی روایت درجهء اعتبار سے ساقط ہو جائے گی لیکن بعض فقها جیسے صاحب مدارک وغیره شهرت اور اعراض کے ذریعه ضعف سند کی برطرفی یا سند کے بے اعتبار کرنے کوقبول نهیں کرتے –(۲) ۔

ج: شهرت فتوائی

شهرت فتویٰ سے مراد یه ہے که اگر کوئی فتویٰ اجماع کی حدتک پهنچے اور فتویٰ شاذ کے مقابل قرار پائے تو بعض مسلک امامیه کے اصولی یه مانتے ہیں که شهرت فتویٰ امارات معتبره میں سے ایک ہے ان کا کهنا ہے که ہر چند کسی فقیه کا فتویٰ دوسرے فقیه کےلئے حجت نهیں ہوتا لیکن یهی فتویٰ جب شهرت کی حدتک پهنچ جائے اور فتویٰ دینے والے زیاده ہوں تو دوسرے فقیه کےلئے یهی شهرت اور فتویٰ کی کثرت حکم شرعی پر دلیل بنےگی که وه بھی اسی حکم کو استنباط کرے شهید اول نے کتاب "ذکری" میں اس نظریه کو قبول کیا ہے –(۳) ۔

____________________

۱ اصول الفقه ، ج۲ ،ص ۲۵۲

۲ مصباح الاصول ، ج۲ ، ص۱۴۳

۳. ذکری ، للشیعه مقدمه مؤلف ، ج۱ ، ص۵۲

۷۷

لیکن دوسرے گروه کا یه ماننا ہے که شهرت فتویٰ معتبر نهیں ہے اور اس پر منبع استنباط کے عنوان سے تکیه نهیں کیا جاسکتا .جو شهرت فتویٰ کو حجت مانتے ہیں ان کی دلیل یه ہے که :اگر خبر واحد سے حاصل ہونے والا ظن خبر واحد سے حاصل شده ظن سے کهیں زیاده قوی تر ہے –(۴) اور دوسری دلیل یه که زراره اور عمرابن حنظله کی روایت میں آیا ہے جو مشهور ہے اسے لے لو اور جو شاذ و نادر ہے اسے چھوڑ دو اسی طرح شهرت فتویٰ کے طرفداروں نے اپنے مدعا پرآیهءنبا کے ذیل میں وارد شده جمله سے مدد لی ہے –(۵)

جس میں خداوند عالم فرماتا ہے :

"( أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ) "

“اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔(۶)

ان دلیلوں کے کئی جواب دیے گئے ہیں جس کی تفصیل اصول کی مفصل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

بعض نے قدماء کے نزدیک مفهوم شهرت اور متاخرین کی شهرت میں فرق کیا ہے ان کا کهنا ہے که :

تاریخ تشیع میں آرائے فقهی کئی مراحل سے گذرے ہیں ابتداء میں یعنی عصر تشریع میں لوگ روایات و احادیث کو خود ائمه علیهم السلام سے دریافت کرتے اور پھر ان پر عمل کرتے تھے اس کے بعد جو مرحله آیا اس میں احادیث کو کتاب اور جزوات میں جمع کیا گیا جس سے اصول اربعماہ ( یعنی چارسو اصل اور کتاب ) وجود میں آئے پھر تیسرے مرحلے میں علمائے دین نے انهیں کتابوں اور جزوات کو مترتب اور منظم کرنا شروع کیا اس کے بعد چوتھا مرحله فتووں کا مرحله ہے جس میں حذف سند اور تخصیص و تقیید اور جمع و ترجیح کے بعد متن احادیث کے مطابق فتوا دیا جانے لگا چنانچه شیخ صدوق نے اپنی کتاب "من لایحضر ه الفقیه" میں یهی کام کیا ہے اب آخری اور پانچواں مرحله تطبیق و تفریع احادیث کا دور ہے اور یهیں سے جدید اور فرعی مسائل کو استنباط کیا جانے لگا ۔

اسی لئے مرحلهء پنجم پانچویں مرحله سے پهلے شهرت فتویٰ وثوق و اطمینان کا موجب تھا لیکن پانچویں مرحله میں فقهاء کے فتووں میں حدس و استنباط کا جنبه پیدا ہوگیا اسی لئے اس مرحله کے فتوے آنے والے فقهاء کےلئے حجت نهیں ہوں گے –(۷)

____________________

۴. انوار الاصول ، ج۲ ، ص۴۱۷

۵ .فوائد الاصول ، ج ۳ ، ص۱۵۵

۶ انوار الاصول ، ج ۲ ،ص ۴۲۳

۷ وهی مدرک

۷۸

. اہل سنت کی کتابوں میں شهرت فتویٰ کے مسئله کو ایک اور انداز میں پیش کیا گیا ہے ان لوگوں نے بحث اجماع میں یه مسئله اٹھایا که آیا اکثر یت کی آراء پر اجماع تحقق پاتا ہے یا نهیں ؟

جمهور اہل سنت نے کها ہے که قول اکثریت اور قول مشهور سے اجماع ثابت نهیں ہوتا لیکن معتزله کے مشهور عالم ابوالحسن حناط اور ابن جریر طبری اور ابوبکر رازی نے کها ہے :

ایک یا دو فرد کی مخالفت اجماع کو نقصان نهیں پهنچاتی اور ابن حاجب کا کهنا ہے که کسی مسئله میں مخالفت شاذ ہی کیوں نه ہو اجماع کو قطعیت سے گرادیتا ہے لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی اکثریت (اجماع )کو حجت جانتی ہے –(۸) ۔

غزالی نے کها-(۹) : امت کی عصمت اور حجیت ثابت ہے لیکن اگر کوئی قول شهرت تک پهنچ جائے ( مگر اجماع تک نه پهنچے ) تو یه شهرت حجت نهیں ہے کیونکه اختلاف کے ثابت ہوتے ہی حجیت ساقط ہوجائےگی جیسا که ارشاد خداوندی ہے :

"( وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ) "

“اگر کسی چیزمیں اختلاف کا شکار ہوجاؤ تو اس کا فیصله الله پر چھوڑ دو ”

____________________

۸ .اصول الفقه الاسلامی ، ج ۱ ،ص ۵۱۸

۹ المستفیٰ، ج۱ ، ص۱۱۷

۷۹

کتاب و سنت کے مشترک مباحث ۔

کتاب و سنت کے اختصاصی مباحث کے علاوه ان کے مشترک مباحث کوبھی "ادلهء نقلی" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ادله نقلی کی تقسیمات ۔

آیات و روایات جو که منابع استنباط کے لئے دو عمده دلیلیں ہیں ہر ایک دلیل خودبخود ایک دوسرے مل کر مختلف قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں ۔

دلیل خاصل و عام ۔

ایسی دلیل جو که حکم کو تمام افراد موضوع یا متعلق موضوع یا مکلف کے شامل حال ہو اسے اصطلاح دلیل"عام" کهتے ہیں .اور کبھی عام او رخاص میں تعارض ہو تو دلیل عام پر دلیل خاص کے ذریعے تخصیص لگائی جاتی ہے یعنی بعض افراد مصادیق عام ہے سے خارج ہوجاتے ہیں اور اس طرح خاص ،عام پر( ظاہر و اظهر یا قرینه او رذوالقرینه کے ملاک کی وجه سے ) مقدم ہوجاتا ہے مثال کے طور پر خداوند عالم ایک آیت میں ارشاد فرماتا ہے ۔

"( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) "

“تم پر روزه اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ ” ۔(۱)

اور اس کے بعد والی آیت میں فرماتا ہے :

"( فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) "

“اس کے بعد بھی کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں رکھ لے گا ” ۔(۲)

ان آیات میں پهلی آیت کا حکم عام ہے جس سے ثابت ہوتا ہے که جو ان، بوڑھا ،مریض( مسافر نو پر روزه واجب ہے لیکن دوسری آیت میں تخصیص سے بعض افراد خارج ہوگئے ) شیعوں متاخر فقهاء اور اکثر اہل سنت کا اس بات پر اتقاف ہے ۔. قرآن کے عمومی حکم پر که خبر واحد کے زریعه تخصیص لگائی جاسکتی ہے لیکن امامیه کے قدیم علماء میں سید مرتضیٰ S کی جانب نسبت دی گئی ہے که وه قرآن کے عمومی حکم کے خبرواحد سے تخصیص لگانے کو جائز نهیں مانتے تھے اور اہل بیت میں عیسی بن ابان متوفی ۲۲۱ هجری عدم جواز کاقائل تھا مگر یه که دلیل عام پچھلے مرحله میں دلیل قطعی سےتخصیص پاچکی ہو که اس صورت میں قرآن کو خبرواحد سے تخصیص دینا جایز ہے اور اہل سنت سے ایک اور شخصیت قاضی ابوبکر کی ہے جنهوں نے اس مسئله میں توقف کیا ہے-(۳)

____________________

۱ بقره ، ۱۸۳ .---۲ بقره ، ۱۸۴ .---۳ الاحکام فی اصول الاحکام ، ج۱/۲ ، ص۵۲۵

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(1)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (2)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (3)

--------------

( 1 ) سورہ سجدہ آیت 18

( 2 )سورہ واقعہ آیت 10 ۔ 11

( 3 )سورہ انفال آیت 72

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (1)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (2) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (3)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

1۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

2۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 247

( 2 )سورہ مریم آیت 28

( 3 )سورہ نساء آیت 95

۱۲۲

3۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

4۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

5۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

6۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت 56:

(56) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت 57:

(57) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(1) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( 1 )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(1) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (2)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (3)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (4)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (5)

--------------

( 1 )تفسیر نور الثقلین.

( 2 )سورہ اعلیٰ آیت 17

( 3 )سورہ بقرہ آیت 184

( 4 )سورہ حج آیت 36

( 5 )سورہ اعراف آیت 26

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (1)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (2)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (3)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (4)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (5)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (6)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (7)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 216

( 2 )سورہ زمر آیت 34

( 3 )سورہ فرقان آیت 16

( 4 )سورہ زمر آیت 74

( 5 )سورہ زمر آیت 10

( 6 )سورہ واقعہ آیت 19

( 7 )سورہ بقرہ آیت 112

۱۲۶

پیام:

1۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

2۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

3۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

4۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

5۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

6۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

7۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

8۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

9۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

10۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

11۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

12۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

13۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

14۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

15۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

16۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت 58:

(58) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً 20 بیس سے تیس 30 سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(1)

--------------

( 1 )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

1۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

2۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

3۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت 59:

(59) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(1)

--------------

( 1 )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت 72 ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت 155 ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت 89 ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت 30 ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت 109

۱۳۱

پیام:

1۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

2۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

3۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

4۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

5۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

6۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

7۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

8۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت 60:

(60) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

1۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

2۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

3۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

4۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت 61:

(61)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت 62:

(62) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

1۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

2۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

3۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

4۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

5۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

6۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

7۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت 63:

(63) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

1۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

2۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

3۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

4۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

5۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت 64:

(64) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

1۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

2۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

3۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

4۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

5۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

1۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

2۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

3۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

4۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (1) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

5۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت 65:

(65)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( 1 )آیت نمبر 12 میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152