اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط37%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86070 / ڈاؤنلوڈ: 4551
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

دوسرا اشکال :

اگر پیغمبر وه احکام جسے ائمه علیهم السلام لوگوں تک بیان کرنے والے ہیں جانتے تھے اور آپ نے انهیں ابلاغ نهیں کیا گویا انهوں نے حق کو چھپایاہے جبکه کتمان حق حرام ہے جیساکه قرآن میں آیاہے :

( لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ ) (۱)

یا ایک مقام پر فرماتا :

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَـئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ) (۲)

“جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں”۔

بنابر این چونکه پیغمبر کو تمام احکام کا علم ہے اور ان کا وظیفه ابلاغ ہے پس ان پر لازم ہے که وه احکام کو لوگوں تک پهنچائیں نه یه که اپنے وظیفه کو دوسروں کے حوالے کردے که وه احکام بیان کریں ۔

جواب :

سب سے پهلی بات تو یه ہے که "کتمان ما انزل الله " سے مراد اس چیز کا مخفی کرنا ہے که جس کا اعلان کرنا واجب ہو اور ابلاغ احکام کے خاص شرائط اور قوانین ہی جو که زمان و مکان طرز بیان کے لحاظ سے اور یه که یه احکام کسے بیان کرنے ہیں ا ہے ان میں ان سب امور کی رعایت لازم ہے ۔

توضیح مطلب :

بعض احکام ایسے ہیں که جس کا موضوع محقق نهیں ہے یا بیان احکام کی مصلحت نهیں ہے ، اسی لئے خود رسول اسلام کے دور میں احکام تدریجا بیان ہوتے تھے باوجود یکه پیغمبر احکام سے آگاہ تھے لیکن موضوع یا مصلحت کے نه ہونے کی وجه سے بیان کرنے سے گریز کرتے لیکن کسی نے پیغمبر پر یه اعتراض نهیں کیا که آپ تمام احکام کو جاننے کے باوجود کیوں اتنی تاخیر سے تدریجی طور پر

____________________

۱ آل عمران ، ۱۸۷.

۲ بقره ،۱۵۹

۶۱

۲۳ سال کے عرصه میں بیان کیا اور کیوں حق کو چھپایا ؟ اس لئے سب جانتے ہیں که ایک ہی زمانے میں تمام احکام بیان کرنا لوگوں کےلئے سنگیں تھا او ردین سے فرار کا سبب بن سکتا تھا اسی لئے پیغمبر نے اسے تدریجی طور پر بیان کیا اور بعض احکام کے ابلاغ کی ذمه داری اہل بیت کے سپرد کی ۔

اس کے علاوه الهیٰ پیغام کے ابلاغ کا مطلب یه نهیں ہے که احکام کو ایک ایک مسلمان کے کان میں سنایاجائے بلکه اگر ایک خاص گروه تک اسے پهنچایا جائے جو دوسروں تک ابلاغ کرنے والے ہیں ان پر بھی ابلاغ و بیان اور عدم کتمان صادق آئے گا ورنه یه اشکال تمام پیغمبروں اور تمام جاننے والوں پر وارد ہوگا که انهوں نے کیوں حق کو چھپایاہے ؟

تیسرا اشکال

شیعوں کے عقیده کے اعتبار سے ائمهء اطهار مقام عصمت پر فائز ہیں اور ان کاعلم اور ان کی حقانیت مسلم ہے پس اگر ایسا ہے تو پھر ان سے منقول روایات میں تناقض و تعارض نهیں پایاجانا چاہیئے کیونکه تعارض و تناقض ان کے علمی مقام اور عظمت سے سازگار نهیں ہے جب که شیعوں کی کتابوں میں احادیث میں تعارض اور تناقض پایا جاتاہے ؟

جواب:

اولا: تعارض کا مسئله صرف ائمهء کی احادیث ہی نهیں بلکه احادیث نبوی میں بھی موجود ہے اور اہل سنت نے بھی اپنی اصولی کتابوں میں تعارض روایات اور کیفیت جمع و ترجیح سے بحث کی ہے ۔

ثانیا: مختلف عوامل ہیں جو تعارض اخبار کا سبب بنتے ہیں جس میں سے بعض اسباب کی جانب یهاں اشار ه کیا جاتاہے :

۱- راوی کا فهم روایات میں غلطی کرنا ۔

اکثر موارد میں نصوص میں کوئی تعارض نهیں تھا بلکه راوی نے پیغمبر (ص)یا امام کے کلام کو سمجھنے میں غلطی کے شکار ہوئے ہیں ۔

۲- قرینه لفظ اور حال کا ضایع ہوجانا ۔

صدور روایات کے زمانے میں ان روایات کے ساتھ کچھ قرائن تھے خاص طورسے قرینه و سیاق جو که تقطیع روایات کی وجه سے ضایع ہوگئے جس کی وجه سے روایات میں تعارض پیداہوگیا ۔

۳- راویوں کا نقل معنیٰ کرنا تعارض کا سبب بنا ۔

۴- پیغمبر اکرم (ص)اور ائمه ء علیهم اسلام کا احکام کو تدریجا بیان کرنا ۔

۵- ظالم حکام سے تقیه کا مسئله سبب بنا که ائمه کے اقوال یا رفتار میں تعارض کا توهم پایاجائے ۔

۶۲

۶- مخاطب کی رعایت کرنا ۔

بعض اوقات سوال کرنے اوالے کی وضعیت اور شرائط ایسے ہوتے ہیں جودوسروں سے فرق کرتے ہیں اور اس کے سوال کا جواب اس کی شرائط کے مطابق ہوتا ہے لیکن وه شخص اپنے سے مربوط جواب کو بصورت مطلق سب کے لئے نقل کرتا ہے که فلاںمسئله میں امام کا قول یه ہے ۔

۷- کلام امام میں مخالفین اور مغرضین کی جانب سے تحریف کیاجانا ۔

اس لئے که ہمیشه ہر دور میں مغرض اور منافق افراد رهے ہیں یهاں تک خود پیغمبر کے دور میں ایسے افراد تھے جو احادیث میں تحریف کرتے تھے ۔ چنانچه رسول خدا (ص)سے نقل ہوا ہے که آپ نے فرمایا:

“"کثرت علیّ الکذبه ”"

“مجھ پر جھوٹ باند ھنے والے زیاده ہوگئے ہیں ” ۔(۳)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

من قال علی مالم اقل فلیتبوا مقعده من النار

“جو کوئی میری جانب اس چیز کی نسبت دے جو میں نے نهیں کهی اس کا ٹھکانه جهنم ہے ” ۔(۴)

تاریخ اور روایات میں ایسے افراد کا نام آتاہے جن کی احادیث میں دست کاری اور تحریف کی ترویج کی وجه سے سرزنش اور مذمت کی گئی ہے ۔

۸- حکومت کے وقتی احکام

جیسے امیرالمؤمنین کی حکومت کے دور میں اونٹ پر وجوب زکوٰة کا خاص حکم تھا ایک مدت کے بعد ختم ہوگیا ۔

____________________

۳ غیبت نعمانی ، ص۷۶ ، احتجاج طبرسی ،ج۱،ص۳۹۳، کنز العمال،ج۱۶،ص۵۵۵

۴ .کنز العمال ،ج۱۰،ص۲۹۰

۶۳

فعل معصوم سے استنباط کی کیفیت

چونکه الفاظ کی دلالت اپنے معانی پر افعال سے گویا تر ہے اور مقاصد کو مخاطب تک پهنچانے میں سریع تر ہے اس لئے معصوم سے صادر شده امر ونهی ، وجوب و حرمت پر ظهور رکھتی ہے اور اس قسم کے ظهورات قابل استناد ہیں لیکن کیا فعل معصوم امر امام کی مانند وجوب پر دلالت کرتا ہے ؟ کیا امام کا کسی فعل کو ترک کرنا حرمت پر دلالت کرتاہے ۔

فعل معصوم جواز فعل ( بمعنیٰ عدم حرمت ) سے زیاده دلالت نهیں کرتاہے یعنی امام کی جانب سے کسی فعل کا انجام دیاجانا اس بات کی دلیل ہے که وه حرام نهیں ہے لیکن وه فعل سے وجوب پر دلالت نهیں کرسکتا بالکل اُسی طرح که امام کی جانب سے کس عمل کا ترک کیاجانا صرف عدم وجوب پر دلالت کرے جیسے پیغمبر یا امام کسی کام کو حکم یا عبادت کی تعلیم کےلئے انجام دیں یا جیسے کوئی معصوم فعل یا ترک فعل کو مستمر طور پرمسلسل انجام دیں بعض نے اس استمرار کو وجوب یا حرمت کی دلیل قرار دی ہے ۔

اگر کها جائے : پیغمبر کا فعل وجوب پر دلالت کرتا ہے کیونکه قرآن میں فعل پیغمبر کی تأ سی اور رسول کے تمام اعمال کی پیروی کو واجب قرار دیاگیا ہے اگرچه وه فعل خود پیغمبر پر واجب نه ہو جیساکه ارشاد ہے :

( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ) (۱)

“مسلمانو! تمهارے میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہءعمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے” ۔

ہمارا جواب یه ہوگا :

تأ سی کی تعریف میں کها گیا ہے :

ان تفعل مثل فعله علی وجهه من اجل فعله (۲)

"پیغمبر (ص)کی تأ سی یه ہے که پیغمبر نے جس کام کو جس طرح اور جس نیت سے انجام دیا تم بھی اسی انداز اور اسی نیت سے انجام دو " ۔

پس اگر پیغمبر (ص)نے واجب کی نیت سے انجام دیا تو ہم بھی واجب کی نیت سے انجام دیں گے اور اگر آپ نے مستحب اور مباح کی نیت کی تو ہم بھی استحباب اور اباحه کی نیت کریں گے نه یه که پیغمبر (ص)نے جو عمل انجام دیا وه ہم پرواجب ہو اور خود پیغمبر(ص)پر واجب نه ہو ۔

____________________

۱ احزاب ، ۲۱

۲ شرح المعالم ، ج۲ ،ص۳۹۰

۶۴

تقریر معصوم کی حجیت کیسے ثابت ہوگی ؟

تقریر یعنی معصوم کا اس فعل پر سکوت کرنا جو آپ کے سامنے (یا آپ کی غیبت میں مگر آپ کی اطلاع کے ساتھ) انجام پالیے ۔

تقریر کیے حجیت و اعتبار کی دلیل یه ہے که اگر وه فعل یاقول حرام اور منکر ہوتا تو معصوم ضرور مخالفت کرتا کیونکهه نهی از منکر واجب ہے ۔

بعض نے کها که : تقریر معصوم حجت نهیں ہے کیونکه نهی از منکر اور ارشاد جاہل کو ارشاد کرنا ہمیشه اور ہر جگه واجب نهیں جیسے کوئی عمل شارع کی جانب سے مودر انکار قرار پائےلیکن مکلف پر اس کاکوئی اثر نهیں ہو تو دوباره اس عمل سے روکنے کی ضرودت ضرورت نهیں ہے ۔

جواب یه ہے که :

یه فرض محل کلامہماری بحث سے خارج الک ہے کیونکه محل کلامہماری بحث ان موارد میں ہے که جهاں نهی از منکر کے واجب ہونے کے شرائط موجود ہوں ۔

۶۵

سنت صحابه

جمهور اہل سنت، اہل بیت علیهم السلام کی سنت کے بجائے صحابه کی سنت کو حجت مانتے ہیں-(۱)

تاکه ان کی سنت کے ذریعه ادله شرعیه کی کمی کو پورا کیاجاسکے ان کے نزدیک صحابی رسول اس مسلمان کو کهتے ہیں جس نے پیغمبر (ص)کی زندگی درک کی ہو –(۲)

اوراس دنیا سے مسلمان اٹھاہو اس کے علاوه اہل سنت کا تمام اصحاب رسول (ص)کے بارے میں اتفاق ہے که جس پر صحابی کا اطلاق ہو وه یقینًا عادل ہے-(۳)

جب که مکتب اہل بیت کے ماننے والوں کے نزدیک اصحاب پیغمبر(ص)کا امتیاز اور افتحار صحابیت کی وجه سے بڑا مقام ہے لیکن وه یه نهیں مانتے که سب کے سب بلااستثنا عادل ہوں اس لئے که جهاں اصحاب پیغمبر(ص)میں عظیم المرتبت شخصیات گزری ہیں وهیں پر قرآن و تاریخ و حدیث کی روشنی میں کچھ ایسے بھی افراد تھے جو عادل نهیں تھے جسکی وجه سے قرآن وحدیث میں انکی مذمت بھی کی گئی،

اہل سنت عدالت صحابه پرقرآن اور حدیث سے استدلال کرتے ہیں چنانچه قرآن کی تین آیتیں پیش کرتے ہوئے کهتے ہیں که خداوند سبحان کا ارشاد ہے :

"( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) "(۴)

“تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے” ۔

اور دوسری آیت یه پیش کرتے ہیں :

"( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ ) "(۵)

“ اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو ” ۔

____________________

۱ الموقعات شاطبی ، ج ۴ ،ص ۷۴

۲ الاصحابه فی تمیز الصحابه ، ج۱،ص۱۵۷

۳ .وهی مدک ،ص ۱۶۲

۴ آل عمران ، ۱۱۰

۵ بقره ، ۱۴۳

۶۶

اورتیسری آیت جو پیش کی جاتی ہے وه یه ہے :

"( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) "

“یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے ” ۔(۶)

ان تین آیتوں سے یه استدلال کیا جاتا ہے که خیر امت اور امت وسط سے مراد اصحاب ہیں یه اصحاب وهی ہیں که جنهیں خدا مؤمن مانتاہے اور ان سے راضی ہے پس جو افراد خیر امت اور مؤمن ہوں اور الله ان سے راضی ہو یعنی ان کے افعال ،رفتار و گفتار سے راضی ہے پس ان کی سنت بھی حجت ہوگی ۔

جب که پهلی اور دوسری آیت کا تعلق صحابی سے مخصوص نهیں بلکه اس میں تمام امت شامل ہے انهی تین آیتوں میں سے تو یه آیت ان اصحاب سے مخصوص ہے جو بیعت رضوان میں شریک تھے پس تمام صحابی اسمیں شامل نهیں ہیں اس کےکیوں کی علاوه الله کی رضایت بیعت رضوان سے مربوط تھی یعنی خدا بیعت رضوان میں ان کے موقف سے راضی تھا اس کا مطلب یه نهیں که خدا ان کے تمام کاموں سے راضی رهے گا ۔

دانشمندان اہل سنت نے قرآن کے علاوه احادیث و روایات سے بھی استدلال کیا ہے جس میںمںی سب سے اہم اور معروف روایت یه ہے ارشاد پیغمبر (ص)هے که :

أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم ”۔(مترجم) ‏.(۷)

“میرے اصحاب کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے اس میں جس کسی کی اقتداء کروگے ہدایت پاؤگے ”۔(۸)

جب که ابن حزم نے اسی روایت کو ساقط، مکذوب، اور غلط جاناہے اس کے علاوه بعض روایات میں یه آیا ہے ۔

اهل بیتی كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُم اهْتَدَيْتُم ”۔‏.

“میرے اہل بیت کی مثال ستاروں جیسی ہے ان میں جس کی اقتداء کروگے ہدایت پاؤگے” ۔(۹)

اور یه حدیث ثقلین جیسی متواتر حدیث سے بالکل ہم اہنگ ہے ۔ اس کے علاوه قرآن مجید میں ان اصحاب کا جو جنگ میں رسول کوپیٹھ دکھا کر بھاگ گئے یا وه اصحاب جنهوں نے دستورات پیغمبر (ص)سے سرپیچی کی ہے یا ان پر اشکلالات کیئے ہیں

ان سب کا تذکره کیا اور بعض کو صریحاً فاسق قرار دیا ہے ایک جگه فرمایا :

____________________

۶ فتح ، ۱۸

۷ (مترجم)-- ۸ میزان الاعتدال ، ج۱ فص۴۱۳/۶۰۷ .---۹ .الاحکام ابن حزم،ج۶ ، ص۸۱۰

۶۷

"( وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ ) "

“اور ان ہی میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے” ۔(۱۰)

اور ایک جگه فرمایا:

"( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ) "

“ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔(۱۱) اہل سنت کے اکثر مفسرین نے کها یه آیت ولید عقبه کے بارے میں نازل ہوئی اور ولیدا بن عقبه مسلماً صحابی پیغمبر(ص)هے ،ابن عاشور نے اپنی تفسیر میں اس قول کو مورد اتفاق جانا ہے اور کها ہے که اس سلسلے میں روایات بهت زیاده ہیں ۔ اس کے علاوه سوره، نور سوره احزاب ،سوره برائت اور سوره منافقوں میں ایسے افراد کا ذکر ہے جو بظاہر مسلمان اور صحابی رسول تھےلیکن باطن میں مناقق تھے تھے،داستان افک کے جس کے سلسله میں سوره نور کی پندره آیتیں نازل ہوئیں ان آیات میں جس گروه کی سرزنش کی گئی وه سب بظاہر مسلمان اور صحابی پیغمبر تھے بهر حال صحابه اپنے تمام احترام کے باوجود ان میں بعض صالح اور بعض غیر صالح افراد تھے اسی لئے سب کے اقوال کویکساں طور پر حجت نهیں مانا جاسکتا ۔ اس کے علاوه بعض مشهور اور سرشناس صحابه کے کام ایسے ہیں جو کسی بھی طرح قابل توجیه نهیں ہیں اور کوئی منطق اسے قبول نهیں کرسکتی کیا ہم یه جانتے ہیں که جنگ جمل کی آگ بھرکانے والے طلحه اور زبیر جیسے معروف صحابی تھے جنهوں نے امام وقت کے خلاف خروج کیا اور ستّره هزار مسلمانوں کے قتل کا سبب بنے کیا ایسے افعال کی کوئی منطقی دلیل ہے ؟ کیا ایسے افراد کی سنت حجت ہوسکتی ہے ۔اسی طرح ہم یه بھی جانتےهیں که معاویه نے یهی کام اپنے وقت کے امام حضرت علی علیه السلام کے ساتھ انجام دیا جس کی وجه سے جنگ صفین میں ایک لاکھ مسلمان تهه تیغ ہوئے کیا یه قتل و غارتگری توجیه کے قابل ہے ؟

کیا ایسے افراد کو اب عادل مانا جائے گا ؟

کیا ایسے افراد کو مجتهد کهنا اور ان کے افعال کو خطائے اجتهادی کهه کر توجیه کرنا کوئی عقلی بات ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہر دور میں اسی عنوان کےتحت ہر قسم کے گناہ کی تو جیه کی جاسکتی ہے کیا کوئی دانشمند ایسی باتوں کو قبول کرسکتاہے ؟ بهرحال ہم مصاحبت پیغمبر کی وجه سے صحابه کا احترام کرتے ہیں لیکن انهیں تمام مسلمانوں کی طرح دو یاچند گروهوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان میں سے ان افراد کی روایت قبول کرتے ہیں جو عادل ہوں ۔

____________________

۱۰ توبه ، ۵۸ .---۱۱ حجرات ، ۶

۶۸

۹- سنت صحابه کی حجیت پر دلیل نقل :

سنت صحابه کی حجیت پر جو دلیلیں نقل ہوئی ہیں بالخصوص جو روایات پیش کی گئی ہیں ان میں سندی اشکال اور خود اہل سنت کے محدثیں کی جانب سے ان روایات کے جھوٹ اور جعلی ہونے کی تصریح کے علاوه دلالت کے اعتبار سے بھی مخدوش ہے کیونکه ہم دیکھتے ہیں که صحابه کی سیرت میں اختلاف بلکه تناقص پایاجاتا ہے اور کسے ممکن ہے سیرت کے اس آشکار اختلاف کے باوجود ان کی سیرت بطور مطلق حجت قرار پائے

صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم(ص) سے انس نے روایت کی که پیغمبر(ص) نے فرمایا:

لیردن علی ناس من اصحابی الحوض حتیّ اذا عرفتهم اختلجوا دونی فاقول اصحابی فیقول لاتدری ما اخدثو بعدک (۱)

کسےممکن ہے اس روایت کے ہوتے ہوئے صحابه کی عدالت اور ان کی سنت کو حجت ماناجائے اور کسی طرح اس صحابی کی سنت کو ثابت کی جائے که جس نے فقط کچھ دن پیغمبر(ص) کے ساتھ گذار ہیں کیا مصاحبت کا مرتبه ایمان سے بڑھ کر ہے ؟

جب ایمان کے لئے نهیں کها جاسکتا که ایمان عصمت اور گناہوں کے عدم ارتکاب کا باعث ہے تو بھلا مصاحبت سے اسے معجزه کی کیسے امید رکھی جاسکتی ہے

قابل غور بات یه ہے که اہل بیت علیهم السلام سے دوری اور رسول(ص) علم کے باب ہے اور اہل بیت علیهم السلام کی روایتوں سے دوری نے انهیں شرعی احکام کے استنباط کرنے میں مشکل اور گرفتاری میں ڈال دیا اور پھر خلفاء کے اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے چکر میں عصمت صحابه جیسے امور کے قائل ہوگئے اور انهی امور کو استنباط فقهی میں داخل کردیا جسکی وجه سے ایسی مشکلات کا شکار ہوگئے جو آج تک ان کے دامن گیر ہے

____________________

۱- (مترجم)صحيح بحاري ، كتاب الرقاق ، باب في الحوض ، حديث نمبر۱۴۴۱.

۶۹

سنت تک پهنچنے کے راستے

جیساکه یه بات گذر چکی که قول وفعل تقریر معصوم کو سنت کهتے ہیں اسی لئے اخبار اور احادیث سنت نهیں بلکه سنت کی حکایت کرتے ہیں اور درحقیقت سنت تک پهنچنے کے راستے شمار ہوتے ہیں ۔

یهاں پر سنت کی تلاش اور اس تک پهنچنے کے بعض قطعی او ربعض غیر قطعی راستون کو پیش کیاجاتاہے –(۱) ۔

الف : سنت تک پهنچنے کے قطعی راستے

۱- خبر تواتر

امت اسلامی اور معصومین کے درمیان زمانی فاصله کی وجه سے روایات متعدد واسطوں سے آئی ہے ۔

۱- اہل سنت کے ایک گروه نے خبر کی تین قسمیں کی ہیں :

ایک خبر وه ہے که جس کی تصدیق واجب ہے اورایک خبر وه ہےکه جس کی تکذیب واجب ہے اور ایک وه ہے که جس میں توقف کیاجانا چاہیئے. ان کا کهنا جس خبر کی تصدیق واجب ہے اس کی سات قسمیں ہیں ۔

(۱)خبرمتواتر

(۲) خبر واحد

(۳) خبر رسول الله (ص)

(۴) خبر امت پیغمبر (ص)کیونکه امت کی عصمت پیغمبر (ص)کی جانب سے مختص ہوچکی ہے ضمنا ہر اس شخص کی خبر جسے امت سچا اور راستگو مانتی ہے وه اسی چوتھی قسم میں داخل ہے ۔

(۵) ہر اس شخص کی خبر جو الله، رسول اور امت کی اخبار سے مطابقت رکھتی ہو ۔

(۶)هر وه خبر جسے مخبر و پیغمبر کے آگے بیان کرے اور پیغمبر اس کی تکذیب نه کریں ۔

(۷) ہر وه خبر که جسے مخبر کسی جماعت کے آگے بیان کرے اور جماعت اس خبر کی تکذیب نه کرے البته اس شرط کے ساتھ که ان کا پشت پرده سازش اور باہم توافق کرنامحال ہو ۔ لیکن وه خبر که جس کا تکذیب کرنا و اجب ہے اس کی چار قسمیں ہیں :

____________________

۱ .المصتفیٰ، ج۱ ،ص ۱۴۴/۱۴۲

۷۰

۱- وه خبر جو عقل ضروری اور عقل نظری کے حکم یا حسن ومشاہده اور اخبار متواتر کے خلاف ہو ۔

۲- وه خبر جو کتاب وسنت واجماع کے مخالف ہو ۔

۳- وه خبر که جسے کثیر جماعت نے جھوٹی خبر قرار دیا ہو او رعادتا اس خبر کے خلاف انکا پشت پرده توافق کرنا ناممکن ہو ۔

۴- ایسی خبر که جسے ایک کثیر جماعت نقل کرنے سے انکار کرے جبکه اس کے نقل کرنے کا امکان موجود ہو ۔

اور خبر کی تیسری قسم :

وه خبر ہے که جس میں خبر کا سچا اور جھوٹا ہونا مشخص نه ہو اور کتب حدیث میں اکثر اخبار اسی قسم کی ہیں

اسے او ریه اخبار امت تک پهنچتی ہیں اور جنتا یه فاصله بڑھتا جائے اتنے ہی واسطے بڑھتے جاتے ہیں ہر واسطه کو اصطلاحاً طبقه کها جاتا ہے ۔ خبر متواتر وه خبر ہے که ان طبقات میں سے ہر ایک طبقه میں ایساگروه موجود ہو که جس کا کذب وجعل حدیث پر توافق کرنا عام طور پر ناممکن ہو اسی لئے خبر متواتر یقین آور ہے(۲) ۔

۲- وه خبرواحد جو قرینه قطعیه کے ہمراہ ہو

جو روایت حد تواتر تک نه پهنچے اسے اصطلاحاً خبرواحد کهتے ہیں کبھی خبرواحد میں ایسے قرائن ہوتے ہیں جس سے یقین ہوجاتا ہے که یه خبر معصوم سے صادر ہوئی ہے ، اخباری علماء کے نزدیک کتب اربعه کی روایات ان خبرواحد جیسی ہیں جو قرینه قطعیه کے ہمراہ ہوں اسی لئے ان کی نظر میں کتب اربعه کی ساری روایات حجت ہیں اور اسی لئے وه روایات کی صحیح ، ضعیف، مرسل اور مرفوع جیسی تقسیم بندی کو قبول نهیں کرتے اور یهی حال اہل سنت کے اکثر محدثین کا ہے وه بھی صحاح سته خاص طور سے بخاری اور صحیح مسلم کی تمام روایات کو حجت مانتے ہیں(۳)

____________________

۲ مصباح الاصول ،ج۲ ،ص ۱۹۲

۳ حدائق الناظره ، ج۱ ،ص ۲۳

۷۱

۳- اجماع

مذهب امامیه کا اجماع چونکه رائے معصوم کا کاشف ہے اس لئے حجت ہے اور اسی بناپر خبرمعصوم اور وه خبر جو محفوف به قرینهسے ملی ہو کی مانند کاشف سنت ہے لیکن اہل سنت کے نزدیک اجماع دلائل استنباط میں مستقل دلیل شمار ہوتی ہے ۔اسی لئے ہم اہل سنت کی رعایت کرتے ہوئے اسے آئنده صفحات میں مستقل عنوان کے تحت پیش کریں گے اور اس سلسله میں فریقین کے نظریات کو بیان کریں گے ۔

۴- سیرۀ عقلاء

تمام لوگوں کا چاہے وه مسلمان ہوں یا غیر مسلمان کسی فعل کو بطور مستمرمسلسل انجام دینا یا ترک کرنا سیره یا بنائے عقلاء کهلاتا ہے مگر سیرۂ عقلا کے حکم شرعی ہونے کےلئے معصوم کی تائید اور امضاءضروری ہے اور معصوم کا کسی فعل کی انجام دهی سے روکنا اس فعل کی تائید او رامضا ء کےلئے کافی ہے-(۴)

کیونکه اگر وه فعل حرام ہوتا تو امام کےلئے اس فعل سے روکنا لازم ہوتا ۔

۵- سیرۀمسلمین

وه افراد جو دین اسلام کے پابند ہیں ان کا کسی فعل کو انجام دینا یا ترک کرنا ایک طرح سے مسلمانوں کاعملی اجماع شمار ہوتا ہے کسی عمل کی انجام دهی اور ترک عمل میں انکاا موقف اور ان کی روش سیرۂمسلمین کهلاتی ہے یه سیرت اگر زمانه ءمعصوم سے متصل ہو تو حجت ہوگی کیونکه سیرت مسلمین اس بات کی دلیل ہے که ان کی سیرت معصوم سے صادر دشده قول یا فعل سے ماخوذ ہے لیکن اگر ان کی سیرت کا زمانه ء معصوم سے متصل ہونا مشخص نه تو ایسی صورت میں وه سیرت حجت نهیں ہوگی کیونکه شاید یه سیرت اسلامی سماج میں ایک عادت بن گئی ہو اس لئے که بعض اوقات کسی شخص یا گروه کی خاص روش اور رفتار اس حدتک لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے جو دھیرے دھیرے ایک رسمی اور عمومی عادت بن جاتی ہے کسی عادت کی ابتداء میں علماء اور متدین افراد کی سهل انگاری او رغفلت کی وجه سے یا اس کے خلاف کوئی ٹھوس موقف اختیار نه کرنے کی وجه سے یاموقف تو اختیار کیا لیکن اس عادت کو مٹانے میں اس موقف کے کافی نه ہونے کی وجه ہے سے اکثر لوگ اس میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اہسته اہسته وه عادت اتنی مضبوط ہوجاتی ہے که اکثر افراد اس عادت کا احترام کرنے لگتے ہیں آج مساجد کے خرچے اور تشریفاتی امور انهی سهل انگاریوں کا نتیجه ہوں ہیں جوآج ایک عادت بن گئی اور لوگ اسے ہی سیرت مسلمین سمجھ بیٹھے ہیں –(۵) ۔

____________________

۴ اصول القه ، ج۲ ،ص ۱۷۱

۵ اصول الفقه، ج۲ ، ص ۱۷۵

۷۲

ب: سنت دستیابی حاصل کرنے سنت کے غیر قطعی راستے

به بات گذرچکی ہے که جس طرح کشف سنت کے کچھ قطعی راستے ہیں اسی طرح کچھ غیر قطعی راستے بھی ہیں که جن کا خود بخود کوئی اعتبار نهیں کیونکه حکم شرعی کی دلیل کا قطعی ہونا لازمی ہے صرف احتمال و گمان کی عقل کے نزدیک کوئی ارزش نهیں ہے قرآن ظن و گمان کی پیروی کو قابل قبول نهیں جانتا :

"( وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ) "

“ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے” ۔(۶)

"( وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً ) "

“ اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روزِ قیامت سماعتً بصارت اور قوائے قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا-(۷) ۔

لیکن اگر یه غیر قطعی راستے معقول ہوجائیں اور ان کے اعتبار پر قطعی دلائل موجود ہوں تو یهی غیر قطعی راستے حجت ہوں گے اور ان پر عمل ظن و گمان کی پیروی نهیں ہوگی ۔

وه غیر قطعی لیکن معتبر راستے کچھ اس طرح ہیں :

۱- خبرواحد

ایسی خبر که جس کے راوی تمام یا کسی ایک طبقه میں ایک یا ایک سے زیاده ہوں لیکن حدتواتر تک نه پهنچیں تو ایسی خبر یقین آور نهیں ہوگی او رایسی خبر کو اصطلاح میں خبرواحد کهتے ہیں ۔

خبر واحد کی بحث منابع استنباط کے اہم ترین مباحث میں سے ہے اور اس کی حجیت میں علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے سید مرتضیٰ S ابن زهره S ابن براج S طبرسی(۸) اور ابن ادریس S اس کی حجیت کا انکار کرتے ہیں اہل سنت میں قدریه اور فرقه ظاہریه(۹) کے بعض افراد اسکی حجیت کے منکر ہیں جب که شیخ طوسی اور فقهائے تشیع کے اکثر بزرگ افراد اسی طرح تمام اخباری او ر اہل سنت کے اکثر افراد خبرواحد کی حجیت کے قائل ہیں(۱۰) ۔

____________________

۶ نجم،۲۸ .----۷ اسراء ،۳۶

۸ کفایه الاصول ،ج۲،ص۷۹

۹ روضه الناظر ،ج۱ ،ص۳۱۳

۱۰ وهی مدرک ،

۷۳

حجیت خبرواحد کے شرائط میں کوئی ایک مشخص رائے نهیں ہے مسلک امامیه کے قدما ء اس خبر واحد کومعتبر مانتے ہیں جو قرائن صحت کے ہمراہ ہو چاہے وه قرائن صحت داخلی ہوں جیسے راوی کی وثاقت یا خارجی ہوں جیسے کسی معتبر کتاب میں اس کا وجود یا کسی کتاب میں اس کی تکرار ، اور روایت غیر معتبر اسی روایت کو مانتے ہیں جس میں اس قسم کے قرائن موجود نه ہوں(۱۱)

لیکن چھٹی صدی سے شیعه علماء نے خبر واحد کی حجیت کےلئے راوی کی عدالت کو شرط قرار دیا ہے اور بعض نے راوی کی وثاقت کو شرط قرار دیا اور اسی نظریه کی اساس پر روایات کی چار قسمیں کیں صحیح، حسن، موثق اورضعیف البته اخباری کتب اربعه کی تمام روایات کو حجت مانتے ہیں اور حدیث کی مذکوره تقسیم بندی کو غلط اور بے اثر جانتے ہیں لیکن ان کے پاس اپنے نظریه کے اثبات میں کوئی قابل قبول دلیل نهیں ہے ۔

روایت صحیح

اہل سنت کے نزدیک وه خبر واحد که جس کی سند متصل ہو ( یعنی جس کے سلسلهء سند میں کوئی افتاد گی نه ہو ) اورجس کے راوی عادل مضبط اور مخفی عیب سے دور ہوں ایسی روایت کو روایت صحیح کهتے ہیں :

“"ماتصل سند بعدول ضابطین بلا شذوذ ولاعلة خفیة ”"

روایت حسن

اس روایت کوکهتے ہیں جس روایت کے صدور اورا س کے رجالی شناخته شده ہوں مگر روایت صحیح کی حدتک نه ہوں ۔

“"ماعرف مخرجه و رجاله لاکرجال الصحیح ”"

روایت ضعیف

وه روایت ہے که جس میں روایت حسن کے درجات سے کوئی درجه نه ہوں اور خود روایت ضعیف کے کئی مرتبے ہیں ۔

“"ماقصر عن درجه الحسن وتفاوت درجاته فی الضعف بحسب بعده من شروط الصحة ”"(۱۲)

____________________

۱۱ .مقباس ال ہدایه فی علم الدرایایه ،ج۱،ص۱۹/۲۴

۱۲ امنی المطالب ، ص ۱۷

۷۴

۱- شهرت

فقهاء اور اصولویوں کے ایک گروه نے شهرت کو منابع استنباط میں سے ایک شمار کیا ہے –(۱) جانا چاہیئے که شهرت کی تین قسمیں ہیں :

الف: شهرت روائی

ان کے نزدیک یه اصطلاح اہل خیرت کے یهاں رائج ہے جس حدیث کے راوی زیاده ہوں لیکن حدتواتر تک نه پهنچے ایسی روایت کو "وه خبر مشهور "(مستفیض ) کهتےهیں اور تعارض روایات کی صورت میں شهرت روائی کو مرجحات روایت میں شمار کیا ہے –(۲) ۔

یعنی اگر دو روایتیں صدیوں کے اعتبار سے ایک دوسرے سے معارض ہوں اور ان میں ایک روایت شهرت روائی رکھتی ہو اور کئی راویوں نے اسے نقل کیا ہو تو ایسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دی جائے گی اور اس ترجیح کی دلیل خود شهرت ہے جو اطمینان اور وثوق کا باعث ہے اس کے علاوه بعض روایات میں که جس میں مقبوله عمرابن خنظله بھی ہے اس بات کی تصریح کی گئی ہے چنانچه اس حدیث میں عمرابن حنظله نے امام صادق علیه السلام سے سوال کیا که : اگر راویوں میں سے دو راوی جن میں دونوں ہی مورد وثوق واطمینان ہوں اور آپ کی حدیث میں اختلاف کریں تو کیا کرنا چاہیئے ؟

امام علیه السلام نے بعض مرحجات کو گنوانے کےبعد فرمایا:

يُنْظَرُ إِلَى مَا كَانَ مِنْ رِوَايَتِهِمْ عَنَّا فِي ذَلِكَ الَّذِي حَكَمَا بِهِ الْمُجْمَعُ عَلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِكَ فَيُؤْخَذُ بِهِ مِنْ حُكْمِنَا بِهِ الْمُجْمَعُ عَلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِكَ وَ يُتْرَكُ الشَّاذُّ الَّذِي لَيْسَ بِمَشْهُورٍ عِنْدَ أَصْحَابِك(۳) ..”

“یعنی ان دو روایتوں میں جو روایت اصحاب کے درمیان مشهور ہو اسے مقدم رکھتے ہوئے دوسری روایت کو چھوڑدیں. شهرت روائی کو بعض اہل سنت نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے

____________________

۱ اصول الفقه،ج۲ ،۱۶۳

۲ انوار الاصول ،ج۱ ص ۶۷

۳ .کافی ،ج۱ ، ص۶۷

۷۵

انهوں نے خبر کو تین قسموں میں تقسیم کیا ۱) متواتر ۲) مشهور ۳) واحد اور حدیث مشهور یعنی وه حدیث جو راویوں کی زبان پر رائج ہو کو خبر غیر مشهور (واحد) پر مقدم رکھا کیونکه یه خبر اطمینان آور ہے –(۴) ۔

لیکن انهوں نے شهرت کی ایک اورقسم کو مرجحات میں قرار دیا ہے اور وه شهرت راوی ہے نه که شهرت روائی ان کا کهنا ہے که اگر ایک حدیث کا راوی دوسری حدیث کے راوی سے زیاده شهرت رکھتا ہو تو اسکی روایت کو دوسری روایت پر مقدم کریں گے ۔

اس شهرت کی کئی قسمیں بتائی گئیں ہیں ۔ ایک یه کهاول راوی کبار صحابه میں ہو کیونکه یه عالی منصب اسے کذب و دروغ سے باز رکھے گا دوم یه که ایک نام کا مالک دو نام والے پر رحجان رکھتا ہے سوم یه که معروف النسب راوی مجهول النسب راوی پر مقدم ہے چهارم یه که ان راویوں کے نام جو افراد ضعیف کے نام سے مشتبه نه ہوں ان راویوں پر مقدم ہیں جن کے ناموں میں اشتباہ ہوتا ہے اور اسی طرح وه راوی جو حفظ وضبط روایت کیلئے مشهور ہیں یا ثقات و عدول سے نقل کرتے ہیں مقدم ہیں(۵) ۔

____________________

۴ التعارض والترجیح ،عبداللطیف عبد الشمس ، ج۲ ،ص۱۶۹

۵ انوار الاصول ،ج۲ ، ص۴۲۳

۷۶

ب:شهرت عملی

وه روایت جس میں فقهاء کے درمیان اس پر عمل اور استناد مشهور ہو-(۱) . اس شهرت کو شهرت عملی کهتے ہیں اوردو مقام پر اس سے استفاده کیا جاتا ہے ۔

۱- پهلے یه که باب تعارض کے مرجحات میں جهاں فقهاء کهتے ہیں اگر ہم یه مانتے ہوں که جو چیز واقعیت سے نزدیک تر ہو مرجح ہوگی پس شهرت عملی بھی مرجیح ہوگی لیکن صرف اس صورت کهمیں فقه کے قدیم علماء اور گذشتگان کی روایت کے مطابق عمل ہو ۔

۲- دوسرے یه که سند روایت کے ضعف کو بر طرف کرنے میں شهرت عملی سے کام لیا جاتا ہے یعنی جب بھی کوئی روایت قوانین کے حساب سے ضعیف ہو لیکن کئی علماء اور فقهاء نے اس روایت کے مطابق فتوا دیا ہو تو ان کا فتوی اور عمل سند روایت کے ضعف کو بر طرف کرتا ہے اور اس روایت کو قابل اعتما دبناتا ہے اسی طرح که جس طرح کوئی خبر صحیح اور معتبر ہو لیکن فقهاء اس روایت سے گریز کریں اور کوئی اعتنا نه کریں تو ایسی روایت درجهء اعتبار سے ساقط ہو جائے گی لیکن بعض فقها جیسے صاحب مدارک وغیره شهرت اور اعراض کے ذریعه ضعف سند کی برطرفی یا سند کے بے اعتبار کرنے کوقبول نهیں کرتے –(۲) ۔

ج: شهرت فتوائی

شهرت فتویٰ سے مراد یه ہے که اگر کوئی فتویٰ اجماع کی حدتک پهنچے اور فتویٰ شاذ کے مقابل قرار پائے تو بعض مسلک امامیه کے اصولی یه مانتے ہیں که شهرت فتویٰ امارات معتبره میں سے ایک ہے ان کا کهنا ہے که ہر چند کسی فقیه کا فتویٰ دوسرے فقیه کےلئے حجت نهیں ہوتا لیکن یهی فتویٰ جب شهرت کی حدتک پهنچ جائے اور فتویٰ دینے والے زیاده ہوں تو دوسرے فقیه کےلئے یهی شهرت اور فتویٰ کی کثرت حکم شرعی پر دلیل بنےگی که وه بھی اسی حکم کو استنباط کرے شهید اول نے کتاب "ذکری" میں اس نظریه کو قبول کیا ہے –(۳) ۔

____________________

۱ اصول الفقه ، ج۲ ،ص ۲۵۲

۲ مصباح الاصول ، ج۲ ، ص۱۴۳

۳. ذکری ، للشیعه مقدمه مؤلف ، ج۱ ، ص۵۲

۷۷

لیکن دوسرے گروه کا یه ماننا ہے که شهرت فتویٰ معتبر نهیں ہے اور اس پر منبع استنباط کے عنوان سے تکیه نهیں کیا جاسکتا .جو شهرت فتویٰ کو حجت مانتے ہیں ان کی دلیل یه ہے که :اگر خبر واحد سے حاصل ہونے والا ظن خبر واحد سے حاصل شده ظن سے کهیں زیاده قوی تر ہے –(۴) اور دوسری دلیل یه که زراره اور عمرابن حنظله کی روایت میں آیا ہے جو مشهور ہے اسے لے لو اور جو شاذ و نادر ہے اسے چھوڑ دو اسی طرح شهرت فتویٰ کے طرفداروں نے اپنے مدعا پرآیهءنبا کے ذیل میں وارد شده جمله سے مدد لی ہے –(۵)

جس میں خداوند عالم فرماتا ہے :

"( أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ) "

“اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔(۶)

ان دلیلوں کے کئی جواب دیے گئے ہیں جس کی تفصیل اصول کی مفصل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

بعض نے قدماء کے نزدیک مفهوم شهرت اور متاخرین کی شهرت میں فرق کیا ہے ان کا کهنا ہے که :

تاریخ تشیع میں آرائے فقهی کئی مراحل سے گذرے ہیں ابتداء میں یعنی عصر تشریع میں لوگ روایات و احادیث کو خود ائمه علیهم السلام سے دریافت کرتے اور پھر ان پر عمل کرتے تھے اس کے بعد جو مرحله آیا اس میں احادیث کو کتاب اور جزوات میں جمع کیا گیا جس سے اصول اربعماہ ( یعنی چارسو اصل اور کتاب ) وجود میں آئے پھر تیسرے مرحلے میں علمائے دین نے انهیں کتابوں اور جزوات کو مترتب اور منظم کرنا شروع کیا اس کے بعد چوتھا مرحله فتووں کا مرحله ہے جس میں حذف سند اور تخصیص و تقیید اور جمع و ترجیح کے بعد متن احادیث کے مطابق فتوا دیا جانے لگا چنانچه شیخ صدوق نے اپنی کتاب "من لایحضر ه الفقیه" میں یهی کام کیا ہے اب آخری اور پانچواں مرحله تطبیق و تفریع احادیث کا دور ہے اور یهیں سے جدید اور فرعی مسائل کو استنباط کیا جانے لگا ۔

اسی لئے مرحلهء پنجم پانچویں مرحله سے پهلے شهرت فتویٰ وثوق و اطمینان کا موجب تھا لیکن پانچویں مرحله میں فقهاء کے فتووں میں حدس و استنباط کا جنبه پیدا ہوگیا اسی لئے اس مرحله کے فتوے آنے والے فقهاء کےلئے حجت نهیں ہوں گے –(۷)

____________________

۴. انوار الاصول ، ج۲ ، ص۴۱۷

۵ .فوائد الاصول ، ج ۳ ، ص۱۵۵

۶ انوار الاصول ، ج ۲ ،ص ۴۲۳

۷ وهی مدرک

۷۸

. اہل سنت کی کتابوں میں شهرت فتویٰ کے مسئله کو ایک اور انداز میں پیش کیا گیا ہے ان لوگوں نے بحث اجماع میں یه مسئله اٹھایا که آیا اکثر یت کی آراء پر اجماع تحقق پاتا ہے یا نهیں ؟

جمهور اہل سنت نے کها ہے که قول اکثریت اور قول مشهور سے اجماع ثابت نهیں ہوتا لیکن معتزله کے مشهور عالم ابوالحسن حناط اور ابن جریر طبری اور ابوبکر رازی نے کها ہے :

ایک یا دو فرد کی مخالفت اجماع کو نقصان نهیں پهنچاتی اور ابن حاجب کا کهنا ہے که کسی مسئله میں مخالفت شاذ ہی کیوں نه ہو اجماع کو قطعیت سے گرادیتا ہے لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی اکثریت (اجماع )کو حجت جانتی ہے –(۸) ۔

غزالی نے کها-(۹) : امت کی عصمت اور حجیت ثابت ہے لیکن اگر کوئی قول شهرت تک پهنچ جائے ( مگر اجماع تک نه پهنچے ) تو یه شهرت حجت نهیں ہے کیونکه اختلاف کے ثابت ہوتے ہی حجیت ساقط ہوجائےگی جیسا که ارشاد خداوندی ہے :

"( وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ) "

“اگر کسی چیزمیں اختلاف کا شکار ہوجاؤ تو اس کا فیصله الله پر چھوڑ دو ”

____________________

۸ .اصول الفقه الاسلامی ، ج ۱ ،ص ۵۱۸

۹ المستفیٰ، ج۱ ، ص۱۱۷

۷۹

کتاب و سنت کے مشترک مباحث ۔

کتاب و سنت کے اختصاصی مباحث کے علاوه ان کے مشترک مباحث کوبھی "ادلهء نقلی" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ادله نقلی کی تقسیمات ۔

آیات و روایات جو که منابع استنباط کے لئے دو عمده دلیلیں ہیں ہر ایک دلیل خودبخود ایک دوسرے مل کر مختلف قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں ۔

دلیل خاصل و عام ۔

ایسی دلیل جو که حکم کو تمام افراد موضوع یا متعلق موضوع یا مکلف کے شامل حال ہو اسے اصطلاح دلیل"عام" کهتے ہیں .اور کبھی عام او رخاص میں تعارض ہو تو دلیل عام پر دلیل خاص کے ذریعے تخصیص لگائی جاتی ہے یعنی بعض افراد مصادیق عام ہے سے خارج ہوجاتے ہیں اور اس طرح خاص ،عام پر( ظاہر و اظهر یا قرینه او رذوالقرینه کے ملاک کی وجه سے ) مقدم ہوجاتا ہے مثال کے طور پر خداوند عالم ایک آیت میں ارشاد فرماتا ہے ۔

"( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) "

“تم پر روزه اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ ” ۔(۱)

اور اس کے بعد والی آیت میں فرماتا ہے :

"( فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) "

“اس کے بعد بھی کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں رکھ لے گا ” ۔(۲)

ان آیات میں پهلی آیت کا حکم عام ہے جس سے ثابت ہوتا ہے که جو ان، بوڑھا ،مریض( مسافر نو پر روزه واجب ہے لیکن دوسری آیت میں تخصیص سے بعض افراد خارج ہوگئے ) شیعوں متاخر فقهاء اور اکثر اہل سنت کا اس بات پر اتقاف ہے ۔. قرآن کے عمومی حکم پر که خبر واحد کے زریعه تخصیص لگائی جاسکتی ہے لیکن امامیه کے قدیم علماء میں سید مرتضیٰ S کی جانب نسبت دی گئی ہے که وه قرآن کے عمومی حکم کے خبرواحد سے تخصیص لگانے کو جائز نهیں مانتے تھے اور اہل بیت میں عیسی بن ابان متوفی ۲۲۱ هجری عدم جواز کاقائل تھا مگر یه که دلیل عام پچھلے مرحله میں دلیل قطعی سےتخصیص پاچکی ہو که اس صورت میں قرآن کو خبرواحد سے تخصیص دینا جایز ہے اور اہل سنت سے ایک اور شخصیت قاضی ابوبکر کی ہے جنهوں نے اس مسئله میں توقف کیا ہے-(۳)

____________________

۱ بقره ، ۱۸۳ .---۲ بقره ، ۱۸۴ .---۳ الاحکام فی اصول الاحکام ، ج۱/۲ ، ص۵۲۵

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

استحسان

استحسان منابع اجتهاد میں بعض اہل سنت کی جانب سے بیان کرده ایسی اصطلاح ہے که جس کی مختلف تعریفیں ذکر کی گئیں ہیں

۱ - بعض نے کها که ایسی دلیل جو مجتهد کے ذهن میں خطور کرے لیکن اس کی تبیں کے لئے مجتهد کے پاس مناسب عبارت نه ہو وه استحسان کهلاتی ہے-(۱) ۔

۲- استحسان یعنی وه چیز جومجتهد کو اچھی لگے لیکن اس کی کوئی شرعی دلیل نه ہو-(۲) (۳) بعض نے کها که کسی قیاس کو اس سےقوی تر قیاس سے تخصیص دینے کو استحسان کهتے ہیں یا قیاس مخفی کو قیاس جلی پر مقدم کرنے کو استحسان کهتے ہیں

۳- قیاس سے دلیل اقوی کی جانب عدل کرنے کو استحسان کهتے ہیں اور وجود نص ، سهولت ،مصلحت مصلحت،اجماع ،ضرورت یا عرف و عادت کو محرکات عدول میں شمار کیا گیا ہے ۔(۴)

ان تعریفات میں اختلاف ہی نهیں بلکه تضاد بھی پایا جاتا ہے کیونکه اگر تعریف کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا که بعض تعریفات میں خود مجتهد یا عقل مجتهد کی عقل کوتعریف کی اساسبنیاد تعریف قرار دیا گیا جیساکه پهلی اور دوسری تعریف سے واضح ہوتا ہےکه لیکن دوسری تعریفات میں یه خصوصیت نهیں پائی جاتی اسی طرح بعض تعریفات کے مطابق استحسان کو قیاس کا نقطهء مقابل قرار دیا گیا لیکن دوسری تعریفات میں استحسان کو ایک قسم کاقیاس شمار کیا گیا اور شاید استحسان کامعروف ترین معنی وهی حکم ہے جس پر نص نه ملے لیکن عقل مجتهد کی عقل اسے پسند کرتی ہو ۔ابو حنیفه کی نظر میں استحسان حجت ہے اور یهی نسبت مالک وحنبلی کی جانب بھی دی گئی ہے –(۵) مالک کا یه جمله معروف ہے که ۹۰ در صد فقه استحسان پر استوار ہے لیکن ان کےمقابل بعض دیگر اہل سنت خاص طور سے شافعی-(۷) اور بعض حنفی جسے شاطبی اور طحاوی نے اس کی حجیت کا انکار کیا ہے-(۸) اسی طرح امامیه زیدیه او رظاہر یه کےنزدیک بھی استحسان باطل اور غیر معتبر ہے-(۹) ۔

استحسان کی حجیت پر آیات و روایات دونوں سے استدلال کیا گیا ہے قرآن سے سوره زمر کی تین آیات اور سوره اعراف کی ایک سو پنتالسیویں آیت سے استدلال کیا گیا ہے ۔

"( فَبَشِّرْ عِبادِالَّذينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَه‏ وَاتَّبِعُوا اَحسنَ ما أُنْزِلَ مِنْ رَبِّكُم‏"‏* )

“بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں” ۔(۱۰)

____________________

۱ الاحکام فی اصول الاحکام ،ج۴ ،ص ۱۵۷ .---۲ کتاب قوانین میں اس تعریف کی نسبت اہل سنت کی جانب دی گئی .---۳ المبسوط سید حسنی ،ج۱۰،ص۱۴۵

۴ الموسوعة الفقهیه المیسره ،ج۲،ص۴۳/۴۴.---۵ اصول الفقه ،محمد ابوزهره ، ص ۲۶۳ .---۶ الامام الشافعی ،ج۱۰ ،ص۱۱۹ .---۷ ابطال القیاس ابن حزم ، ص۵۱

۸ الاصول العامر ،ص۳۶۳ .---۹ زمر، ۱۷/۱۸ .---۱۰ الاحکام فی اصول لااحکام ،ج ۳ /۴،ص ۱۶۵

۱۲۱

سوره زمرکی آیت نمبر ۵۵سے بھی یهی استدلال کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سوره اعراف کی آیت نمبر ۱۴۵سےاستدلال کیا گیا که

"( فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا ) "

“مضبوطی کے ساتھ پکڑلو اور اپنی قوم کوحکم دو کہ اس کی اچھی اچھی باتوں کو لے لیں” ۔

ان آیات میں مشاہده سے واضح ہوتاہے که خداوند عالم نے قول احسن کی پیروی کی ترغیب دلاتی دلائی ہے او راحسن کی پیروی کے لئے لازم ہے که پهلے احسن کی شناخت ہو لیکن چونکه مصادیق احسن کو لوگوں کے لئے بیان نهیں کیاگیا اسی لئے اس کی ذمه داری خود لوگوں پر چھوڑدی(۱۱)

جواب

غزالی نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے کها که آیات کا مفاد یه نهیں ہے که جو تم بهتر سمجھو اس کی پیروی کرو بلکه ان آیات کا مفهوم یه ہے که احسن واقعی کی پیروی کرو اور خداوند عالم نے لوگوں کو پهنچوادیا که احسن واقعی کیا ہے احسن واقعی کتا ب و سنت کی موافقت ہے کیونکه احکام ان مصالح اور مفاسد کے تباع ہے جسے شریعت نے کاملا احاطه کیا ہے اور عقل بشر اور عقل بشر کو سوائے خاص موارد کے ان مصالح اور مفاسد تک رسائی نهیں لیکن اس چیز کو جسے لوگ بهتر اور اچھا سمجھتے ہیں صرف ہوا اور ہوس ہے جهت استحسان کی حجیت پرعبدالله بن مسعود کی روایت سے بھی استدلال کیا گیا ہے ۔مارای المسلمون حسنا فهو عبدالله حسن یعنی جس چیز کولو گ بهتر سمجھیں وهی چیز خداکے نزدیک بهترهے ۔(۱۲) مخالفین استحسان کے مخالفوں نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے کها

۱- یه جمله عبدالله بن مسعود کا قول ہے نه پیغمبر (ص)کا فرمان جو حجت ہو مگر یه که ہم قول صحابی کو حجت مانیں.

۲- کلمه روئیت در حقیقت میں علم و اطمینان کے معنی میں ہے یعنی جو چیز مسلمانوں کے نزدیک بطور قطع طور پرنیکو ہو خدا کے نزدیک بھی نیکو ہوگی اور یه بات استحسان جو دلیل ظنی ہے میں شامل نهیں ہوگی اسی لئے ماننا پڑے گا که حدیث حسن و قبح عقلی سے مربوط ہے که جس کا در ک کرنا سب کےلئے ممکن ہے پس موارد ظن وگمان کے موارد جو که ہمارا موردعادی بحث میں ہے شامل نهیں ہوگا(۱۳)

۳- آمدی او رغزالی اس حدیث کا جواب دیتے ہوئے کهتے ہیں که یه حدیث اجماع مسلمین پر دلالت کرتی ہے نه اس بات پر که جسے افراد مسلمین بهتر سمجھیں خدا بھی اسے بهتر سمجھے گا(۱۴)

۴- یه بھی غزالی کا قول ہے که یه حدیث خبر واحد ہے اور خبر واحد سے اصول کو ثابت نهیں کیا جاسکتا ۔(۱۵)

____________________

۱۱ .المستصفی ، ج ۱ ،ص۴۱۱ ، روضة الناظر ،ج۱ ،ص۴۷۵ .---۱۲ مسند احمد ،ج۱ ص۳۷۹ .---۱۳ انوار الاصول ،ج۲ ،ص۵۳۳ .--۱۴ الاحکام ،ج۴ ،ص۱۵۹، المستصفی ،ص ۱۷۲ .--۱۵ المستصفی ، ص ۱۷۲

۱۲۲

مصالح مرسله

یه اصطلاح ان مصلحتوں کےلئے استعمال ہوتی ہے جسے کے بارے میں شریعت کا کوئی خاص یا عام خطاب موجود نه ہولیکن شریعت کے مزاج اور مذاق شریعت سے اسے مشخص کیا جاسکتاہے ۔وه مصلحتیں دوقسم کی ہوتی ہیں :

۱- مصالح معتبره

وه مصلحتیں جن کے اعتبار اور رعایت میں شرعی دلائل موجود ہوں ۔

۲- مصالح ملغی

وه مصلحتیں جسے شارع مقدس نے بے ارزش سمجھا اور ان کی رعایت کو لازم نهیں جانا جسے دشمن کے آگے تسلیم ہونا اگرچه اس میں حفظ جان کی مصلحت ہے لیکن چونکه اسلام خطر ے میں پڑرها ہے اس لئے حفظ نفس کی مصلحت کو لغو کرکے جهاد کا دستور دیا پس دین کا بچانا مصلحت ہے چاہے اس میں جان ہی کیوں نه چلی جائے ۔

۳- مصالح مرسله

وه مصلحتیں جو اجتبار یا الغاء شرعی سے آزاد ہیں-(۱) مصالح مرسله کو بطور مطلق حجت مانتے ہیں جب که جمهور اہل سنت اس کی حجیت کے منکر ہیں یهاں تک که بعض مالکیوں نے کها که مالک سے بعید ہے که مصالح مرسله کو حجت مانے-(۲) لیکن بعض اس میں تفصیل کے قابل ہیں اور کهتے ہیں : فقط وه ضروری مصلحتیں جو قطعی اور بدیهی ہوں معتبر ہیں-(۳) مصالح مرسله کےلئے جو مثال پیش کی گئی وه یه ہے که اگر کفار جنگ کے دوران ان کی آڑ میں مسلمانوں کو نقصان پهچانا چاہیں ایسی صورت میں ان سے مقابله لازمی ہے کیونکه اگر ان سے مقابله نه کیا گیا تو وه مسلمانوں کو بھی نقصان پهنچائیں گے اور خود اسیروں کو بھی قتل کردیں گے لیکن اگر ان سے مقابله کیا جائے تو ایسی صورت میں اسیر مارے جائیں گے چاہے کفار کے هاتھوں مارے جائیں یا مسلمانوں کے هاتھوں تو یهاں مصالح مرسله کے مطابق مسلمانوں کا قتل جائز ہے کیونکه شریعت کا مزاج یهی ہے که مسلمانوں کے مصالح کو مقدم رکھا جائے اور مسلمان اسیروں کا قتل مصالح مسلمین سے نزدیک تر ہے –(۴)

____________________

۱ .اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۸۶

۲ ارشاد العقول ، ج ۲ ،ص ۱۸۴

۳ اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۸۹

۴ المستصفی ، ج۱ ، ص ۴۲۴

۱۲۳

مصالح مرسله اور استحسان کا فرق یه تبایا گیاکه استحسان میں غالبا قواعد و نصوص عامه سے ایک قسم کا استثناء پایا جاتا ہے دوسری بعبارت دیگر میں استحسان ثابت شده احکام سے ایک قسم کا عدول ہے لیکن مصالح مرسله ان موارد سے مربوط ہے که جهاں حکم کے لئے کوئی شرعی دلیل نهیں ہے بلکه فقیه مزاج شریعت کے پیش نظر مصلحت کی بنیاد پر حکم لگاتاہے البته استحسان میں بھی مصلحت پائی جاتی ہے لیکن یه مصلحت اکثرا وقات استثنائی شکل اختیار کرجاتی ہے –(۵) ۔

مصالح مرسله کو حجت ماننے والوں کی دلیل یه ہے که احکام مصالح کے تابع ہیں اور تمام مصالح نصوص میں مذکور نهیں ہیں کیونکه مصلحتیں زمان و مکان کے لحاظ سے بدلتی رهتی ہیں اگر صرف ان مصلحتوں پر تکیه کیا جائے جس کا ذکر نصوص میں ہو تو ایسی صورت میں گئی ایک مصلحتیں که جن کا ذکر نصوص میں نهیں آیا ہے ان سے هاتھ دھونا پڑے گا اور یه بات شارع کی غرض وهدف کے خلاف ہے –(۶) ۔

جواب :

مسلما احکام مصالح کے تابع ہیں اور اگر وه مصلحتیں نصوص اور ادله شرعیه میں معتبر شمار کی گئیں یا یه مصلحتیں ادراک عقلی کے اعتبار سے مستقلات عقلیه کامقام رکھتی ہوں اور فقیه کے لئے یقین آور ہوں تو یهی قطع و یقین فقیه کے لئے حجت ہوگا لیکن اگر مصلحت ایسی ہو که جس کو معتبر جاننے یا الغاء کرنے کے لئے کوئی دلیل نه ہو اور صرف حکم شرعی کا گمان پیدا ہوتا ہو تو ایسی مصلحت کی بنیاد پر کسی حکم کو معتبر ماننے کے لئے دلیل قطعی کی ضرورت ہے اور ایسی کوئی دلیل نهیں جو اس حکم کو ثابت کرے کیونکه ظن و گمان میں اصل عدم حجیت ہے –(۷) جیساکه قرآن میں ارشاد ہے :

"( وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ) "

“ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے” ۔(۸)

خلاصه یه که اگر مصالح مرسله قطع و یقین تک پهنچ جائیں تو ان کی حجیت مسلم ہے لیکن مصالح ظنی میں اشکال ہے کیونکه ان کے اعتبار پر کوئی قطعی دلیل ہمارے پاس نهیں ہے ۔

____________________

۵ اصول الفقه الاسلامی ، ص ۲۹۹/۲۹۸

۶ اصول الفقه اسلامی ،ص ۲۵۹

۷ انوار الا صول ،ج۲ ، ص۵۳۸

۸ نجم ، ۲۸

۱۲۴

سد و فتح ذرایع

“"ذرایع ”" ذریعه کی جمع اور وسیله کے معنی میں ہے ۔(مترجم )-(۱) سد اور فتح کھو لنے اور بند کرنے کے معنا میں ہے اور یه اصطلاح علماء اور فقهائےاہل سنت کے درمیان رائج ہے اہل سنت کاکهنا ہے چونکه مصلحتوں کا جلب کرنا اورمفاسد کا دفع کرنا لازم ہے اس لئے بعض افعال کو بطورر مستقیم حرام قرار دیاگیا جیسے چوری اور زنا لیکن بعض افعال کو براہ راست حرام قرار نهیں دیا گیا کیونکه وه اعمال بذات خود حرام نهیں ہیں لیکن چونکه ارتکاب حرام کا سبب بنیں گے اس لئے شارع نے انهیں حرام کردیا جیسے اجنبی عورت کی ہم نشینی ۔ چون چوں که افراد سد ذرایع کی حجیت کے قائل ہیں وه کهتے ہیں جو راستے محرمات الهیٰ تک پهنچاتے ہیں یا حرام کا موں کا سبب بنتے ہیں ان راستوں کو بند کردینا چاہیے اسی طرح جود افراد “"فتح ذرایع” " کو حجت جانتے ہیں وه کهتے که وه وسائل اور وه راستے جو واجبات الهیٰ کے انجام دینے کاسبب بنتے ہیں انهیں کھلا رکھنا چاہئیے مالک سد وفتح ذرایع کے ساتھ قاعده کو فقه کے اکثر ابواب میں قابل اجراء جانتاہے معروف ہے که مالک نے کها : تکالیف شرعی کا ایک چوتھا ئی حصه سد وفتح ذرایع کے ذریعه استخراج ہوتا ہے ۔ ظاہر یه دو اصطلاحیں (مقدمه حرام کی حرمت ) اور مقدمه واجب کے وجوب کی جانب لوٹتی ہیں شیعون شیعوں نے اپنی اصول فقه کی کتابوں میں اس بحث کو مقدمه واجب کی بحث میں پیش کیا ہے ۔

البته سد ذرایع کے لئے ایک اور معنی ذکر کیا گیا ہے اور وه شرعی چارۂکار یا شرعی حیله کے راستے کو بند کرنا ہے مثال کے طور پر اگر کوئی ربا سے فرار کی خاطر اپنے مال کو اونچی قمیت پر ادھار بیچ دے اور یه شرط لگائے که خریدار اسے سستے داموں پر دوباره اسی شخص کو بیچ دے که جس سے خریدا ہے سد ذرایع کے طرفداروں نے اسی سدذرایع کی اساس پر عمل کو حرام قرار دیا ہے کیونکه اس کے ذریعه ربا میں گرفتار ہونے کا خطره ہے اس بات پر یه اشکال وارد ہوتا ہے که اگر سد و فتح ذرایع پهلے معنا کے مطابق ہو تو یه بحث حکم عقلی کے موارد میں نوع دوم سے مربوط ہے که جسکی بحث گزشته مباحث میں گذر چکی اور جهاں مقدمه واجب و حرام کی بحث کو وهاں بیان کیا جاچکا اور اگر سد وفتح ذرایع سے مراد دوسرا معنی ہو ، تو ربا میں حیله شرعی کا استعمال دوسری جهتوں سے معامله کو باطل کرتاہے ۔. اور وه یه ہےکیوں که ان شموارد میں طرفین کی جانب سے انشاء اورمعامله میں قصد جدی نهیں پایا جاتا اسی دلیل کی وجه سے معامله عقلا باطل ہے۔ پس سد وفتح ذرایع کامسئله استنباط احکام کا کوئی منابع نهیں بلکه عقل کے حکم قطعی کا ایک جزء ہے ۔ (مترجم )-(۶)

____________________

. اعلام الموقعین ،ج۳،ص۱۷۶ .---۲ اصول الفقه الاسلامی ،ص۳۰۰ .---۳ الموافقات ،ج ۴ ،ص ۱۴۱ .--۴ البته سد وفتح ذرایع اور مقدمه حرام و واجب ، کے درمیان جو کچھ تفاوت ہے اسے ہم نے اختلاف فتاوی کی علتوں میں بیان کیا ہے .--۵ انوارالا صول، ج۲ ،ص۵۴۲

۶ .(مترجم)

۱۲۵

۱۶- ذرایع کی قسمیں اور انکا حکم :

ابتداء میں ذرایع کو دوقسموں میں تقسیم کرنے کے بعد منع اور منع نه ہونے کے حواله سے اس کا حکم بیان کریں گے

ذرایع کی دو قسمیں :

ایک تو وه سه گانه تقسیم ہے جو مالکی فقیه قرافی نے انجام دی دوسیری چھار گانه تقسیم ہے جو ابن قیّم کی جانب سے پیش ہوئی

الف - قرافی تقسیم :

شوکانی اپنی کتاب ارشاد الفحول میں قرافی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں .صرف مالک ہی سدذرایع کا قائل نهیں بلکه تمام علماء اس کے قائل ہیں اور مالکیه کا اس کے علاوه کوئی اعتبار نهیں که وه بهت زیاده سدذرایع کے قائل ہیں.

پھر وه قرافی کی سه گانه تقسیم بیان کرتے ہوئے کها ہے

۱- جو چیز علماء کی نظر میں معتبر ہے (یعنی علماء کا سدذرایع پر اتفاق ہے ) جیسے مسلمانوں کی گذرگاہ پر کنواںکھودنا اور ان کے کھانے میں زهرملانا اور ایسے شخص کے سامنے بتوں کو برابھلا کهنا که جس کے لئے معلوم ہے که وه اپنے بتوں کی توهین سن کر خدا کو برابھلا کهتاہے

۲- وه موارد جو علماء کے نزدیک غیر معتبر ہیں ( یعنی سدذرایع کے عنوان سے حکم کا مبنا قرار نهیں پاتے)جیسے درخت انگور کا اگانا اور اس ڈرسے کهیں انگور شراب میں تبدیل نه کی جائے درخت انگور کو اگانے سے روکنا یه مورد علماء کے نزدیک غیر معتبر ہے گرچه ممکن ہے که یه درخت حرام کے تحقق کا وسیله بنے.

۳- وه موارد که جهاں سد کےلازم ہونے یا نه ہونے میں اختلاف ہو جیسے بیع اجال یعنی مهلت دار بیع یه ہمارے نزدیک حرام میں پڑنے کا ذریعه ہے اس لئے ہم اس مورد میں سدذرایع کے قائل ہیں لیکن دوسرے اس مساله میں ہمارے مخالف ہیں

ب- ابن قیّم کی تقسیم :

۱- ابن قیّم نےاپنی کتاب اعلام الموقعین میں ذریعه کو نتائج کے اعتبار سے چار قسمتوں میں تقسیم کیا ہے.

ایسا وسیله اور ذریعه که جس کا وضع کرنا اس لئے ہو که مفسد ه دور ہو جائے جیسے شراب کا پینا اس کا مفسده مستی اور عقل کی تباہی ہے اسی طرح قذف که اس کا مفسده دوسروں پر تهمت لگانا ہے یا زنا که اس کا مفسده نسب کا درهم و برهم ہونا اور خاندانی روابط کا بگاڑ ہے

۱۲۶

۲- ایسا وسیله اور ذریعه جو که ایک مباح امر کے لئے وضع ہوا ہے لیکن اس کا فساد اس کی مصلحت سے کهیں زیاده ہے اور اکثر اوقات مفسده کا سبب بنتاہے جیسے آیام وفات میں بیوه عورت کا سجنا سنورنا

۳- ایسا ذریعه جو امر مباح کے لئے وضع ہوا لیکن لوگ خواہ نحواہ اسے حرام تک پهنچنے کا ذریعه قرار دیں گےجیسے ایسا عقد جو تحلیل کی نیت سے باندها جائے یا ایسا کاروبار جو ربا کی نیت سے انجام دیا جائے

۴- ایسا ذربعه جو امر مباح کے لئے وضع ہوا لیکن ایسی میں مفسده بھی ممکن ہے پھر بھی اس کی مصلحت مفسده سے کهیں زیاده ہے جیسے منگنی شده لڑکی کو دیکھنا یا اس عورت کی جانب نگاہ کرنا جو اس کے حق میں گواہی دے رهی ہو

ابن قیّم کی نظر میں پهلی اور چوتھی قسم محل نزاع و بحث نهیں ہے کیونکه شارع نے قسم اول کو منع اور قسم دوم کو مباح جانا ہے .لیکن دوسری او رتیسری قسم میں اختلاف ہے که کیا شریعت نے ان موارد کو مباح جانا یا حرام .(مترجم)

۱۷- سد ذرایع کی حجیت کی دلیلیں :

جوافراد سد ذرایع کی حجیت کے قائل ہیں اور اسے احکام فقهی کا مصدر و مبنع سمجھتے ہیں انهوں نے اس کے اثبات میں بعضی آیات روایات کا سهار لیا ہے ہم یهاں پر ان کی چند نقلی دلیلیں بغیر کسی توضیح و نقد کے ذیل میں بیان کرتے ہیں

قرطبی نے اپنی تفسیر میں کها :

قد دل علی هذا الااصل الکتب والسنة ” اس اصل پر کتاب وسنت دلالت کرتی ہے

اس کے بعد وه قرآن سے چند آیات بطور استناد پیش کرتے ہیں :

۱-( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

۲- ایمان والو! راعنا (ہماری رعایت کرو) نہ کہا کرو “انظرنا ” کہا کرو اور غور سے سنا کرو اور یاد رکھو کہ کافرین کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے”.(۲)

اس آیت سے وجه تمسک یه بتاتے ہیں که یهود کلمه (راعنا) کو اپنی زبان پر لاتے تھے یه کلمه ان زبان میں سب و دشنام کے معنی میں ہے چونکه خدا جانتا تھا که یهود اس کلمه کو سب و دشنام کے لئے استعمال کرتے ہیں اسی لئے خدا نے اس لفظ کے استعمال سے روکا

_____________________

۱۲۷

۲-( وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

“اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے”(۳)

اس آیت میں وجه تمسک کے بارے میں کهتے ہیں خدانے اس آیت میں بت پرستوں کو برابھلا کهنے سے روکا ہے تاکه کهیں بت پرست بھی جواب میں خداوند عالم ( معاذالله ) مورد سب و دشنام قرار دیں

۳- مورد استدلال آیات میں ایک آیت یه بھی ہے

( وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) (۴)

“اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے ”

قرطبی نے سنت سے کئی ایک روایات کوسد ذرایع کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے

۱- صحیح مسلم میں پیغمبر(ص) سے روایت ہے که آپ نے فرمایا: “الحلال بین والحرام بین و بینهما امور متشابهات فمن اتقّی الشبهات استبرا الدینه و عرضه و من وقع فی الشبهات وقع فی الحرام کالراعی یّرعی حوال حمی یوشک ان یقع فیه(۵)

حلال بھی واضح اور حرام بھی روشن ہے اور ان کے درمیان شبهناک امور بھی ہیں لهذا جو کوئی شبهناک چیزوں سے پرهز کرے اس نے اپنے دین اور آبرو کو حفظ کرلیا اور جو شبهناک امور میں پڑگیا در حقیقت حرام چیزوں میں گرفتار ہوگیا بالکل اس کسان کی طرح جو اپنے بھیڑ،بکریوں کو ایسی کھائی کے پاس سے چڑانے لے جائے که جهاں عنقریب ان کا گرنا قطعی ہو

____________________

۱- الجامع الاحکام القرآن ، ج ۲ ، ص۵۸

۲ سوره ،بقره، آیه ، ۱۰۴

۳ سوره انعام ، آیه ، ۱۰۸

۴ سوره نور ، آیه ۳۱

۵ .الجامع الاحکام القرآن ، ج ۲ ف ص ۵۹

۱۲۸

۲- پیغمبر(ص) نے فرمایا:

اِن من الکبائر شتم الرجل والدیه قالوا: یا رسول الله و هل یشتم الرجل والدیه ؟ قال : نعم یسب أباه و یُسب أمکم(۶)

گناہ کبیره میں سے انسان اپنے ماں باپ کو برا بھلا کهے پیغمبر(ص) کے اطرافیوں نے کها اے رسول خدا کیا انسان اپنے والدین کو برا بھلا کهتاہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا هاں انسان کسی کے باپ کو گالی دیتاہے وه اس کے باپ کو گالی دیتا ہے یه دوسروں کی والده کو گالی دیتاہے دوسروں اس کی ماں کو گالی دیتے ہیں

حیساکه اس سے واضح ہے دوسروں کے والدین کو برا بھلا کهنا یا گالی دینا اس بات کا سبب ہے که گالی دینے والے کے ماں باپ کو گالی پڑے گی اس لئے سدذرایع کے ذریعه دوسروں کو گالی دینے سے روکا گیا ہے

قرطبی نے آیات روایات سے استدلال کے بعد کها :

یه سدذرایع کی دلیلیں تھیں جو ہم نے بیان کی اورمالکیوں نے کتاب آجال ( مهلت دار بیع ) اور دوسرے مسایل بیع کو اسی سد ذرایع کی اساس پر حل کرتے ہیں لیکن شافعی کتاب آجال کے قائل نهیں ہیں کیونکه ان کے نزدیک بیع آجال مختلف اور مستقل عقود میں سے ہے .(مترجم)

____________________

۶ گذشته حواله سے ، ج۲ ، ص ۵۹

۱۲۹

تعارض ادله

منابع استنباط کے مباحث میں آخری گفتگو تعارض ادله کے بارے میں ہے ۔

مقدمه کے عنوان میں اس مطلب کا ذکر ضروری ہے که کبھی دولیلوں کے درمیان (تعارض اتبدائی ) نظر آتا ہے لیکن چونکه اس قسم کے تعارض ابتدائی میں جمع عرفی موجود ہوتاہے یا ان دو دلیلوں میں ایک دوسری دلیل پر حاکم ہوتی ہے اس لئے یه تعارض کی ابتدائی بحث تعارض سے خارج ہے۔ اسی لئے دلیل عام یه کهے، سارے دانشمندوں کا احترام کرو اور اسی کے مقابل دلیل خاص وارد ہو که بے عمل عالم کا احترام مت کرنا این دو دلیلوں یا ان جیسی دلیلوں میں عرف کی نظر میں کوئی تعارض نهیں بلکه جمع عرفی کا تقاضا یه ہے که دلیل خاص کو دلیل عام پر مقدم کیا جائے خاص کو عام پر مقدم کرنے کانتیجه یه ہوتا ہے که عالم بے عمل کے سلسلے میں ہم دلیل خاص پر عمل کریں گے اور عالم بے عمل کے علاوه تمام علماء کے احترام کے لئے دلیل عام حجت ہوگی دوسری بعبارت دیگر میں سارے افراد دلیل عام کی عمومیت پر باقی ہوں گے-(۱)

. اسی طرح جن موارد میں دو دلیلوں کے درمیان ابتداء میں تعارض نظر آتا ہے لیکن ایک دلیل جو دوسری دلیل پر حاکم ہوتی ہے جیسے عناوین اولی پر عناوین ثانوی حاکم ہوتے ہیں یهاں بھی پچھلے موردکی طرح کوئی تعارض نهیں پایا جاتا جیسےے کوئی دلیل یه کهے-(۲)

غیر اسلامی ذبیحه کا کھانا حرام ہے لیکن دوسری دلیل میں یه آئے که مجبوری کی صورت میں اس کا کھانا جائز ہے ۔

ایسی دو دلیلیں آپس میں تعارض نهیں رکھتیں بلکه دوسری دلیل پهلی دلیل پر حاکم اور مقدم ہوتی ہے-(۳)

اسی طرح اگر اماره اوراصل کے درمیان تعارض ہو تو یه تعارض بھی ابتدائی تعارض ہے جسے در حقیقت تعارض شمار نهیں کها کیا جاتا کیونکه اماره کے ہوتے ہوئے اصل کی نوبت نهیں آتی اس لئے که اماره اصل پر حکومت یا ورود رکھتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر قاعده صحت (اصاله الصحة ) که جسے اکثر افراد اماره شمار کرتے ہیں استصحاب فساد سے تعارض رکھے (مثلا ہمیں یه شک ہوکه فلاں انجام شده معامله صحیح تھا یا فاسد ) یهاں پر اصالة الصحة استصحاب پر یعنی اصل عدم انعقاد معامله کے منعقد نه ہونے پر مقدم ہے ۔

____________________

۱ البته یه تذکر لازم ہے که جهاں کهیں دو دلیلں مل جائیں.

۲ دلیل حاکم و محکوم کی توضیحات ادله لفظی کی تقسیمات میں گذر چکی ہے

۳ انوار الاصول ، ج ۳،ص ۵۰۶

۱۳۰

بهر حال کبھی تعارض دو شرعی دلیلوں کے درمیان واقع ہوتاہے اور کبھی دو اصل کے درمیان، اگر استصحاب اور دیگر تین اصول ( یعنی اصل برائت و تخییر و احتیاط ) سے تعارض ہو تو استصحاب کومقدم کیا جائے گا کیونکه حجیت استصحاب کے دلائل کا تقاضا یه ہے که زمان دوم ( یعنی در شک کے زمانے میں ) سابقه پهلے یقینی امر پر بنا رکھی جائے بعبارت دیگر اصل استصحاب اصل محرز ہے

اس لئے دیگر اصول پر مقدم ہوگی دو استصحاب کے درمیان تعارض ہو اور ان کے درمیاان سببیت اور مسببیت پائی جائے تو استصحاب سببیی مقدم ہوگا ور نه ہر دو اصل ساقط و بی اثر ہوجائیں گی جیسے وه پانی جو پهلے کر تھا اور اب اس کی کریت میں شک ہو اور پانی سے نجس لباس دھویا جائے ایسی صورت میں استصحاب سببی(یعنی پانی کی کریت کا استصحاب )جاری ہوگا اور لباس میں نجاست کےاستصحاب ( جو که استصحاب مسببی ہے ) کی جانب توجه نهیں کی جائے گی ۔.

دو دلیلوں کے تعارض کی صورت میں کچھ ترجیحات پیش کی گئی ہیں اگر ان دو دلیلوں میں کسی بھی دلیل میں ترجیحات پائی جائیں تو اسی دلیل کو مقدم رکھا جائے گا اور اگر کوئی دلیل دوسری دلیل پر کسی قسم کا امتیاز رکھے اور ان میں تعادل برقرار ہو تو ایسی صورت میں یا تو دونوں دلیلیں ساقط ہوجائیں گی یا ان میں سےایک دلیل کو حجت مانا جائے گا یا پھر احتیاط کی جائے گی اور ان تینوں فیصلوں میں فقهاء اور اصولیوں کے مبنا فرق کرتے ہیں ہر کسی نے-(۴)

ایک راسته چنا ہے اکثر فقهاء کے نزدیک مذکوره بالا قاعده یعنی خصوصیت کی صورت میں ترجیح اور تعادل کی صورت میں تخییر،احتیاط کو تمام امارات میں جاری اور ساری جانتے ہیں-(۵)

لیکن یهاں اہم ترین بحث یه ہے که اگر دو روایتوں میں تعارض ہو که ایسا تعارض اکثر وبیشتر پیش آتاہے او رفقیه کے مختلف ابواب میں متعارض روایات کا سامنا کرنا پڑتاہے مثال کےطور پر وه روایات جس میں وزن اورمساحت کے لحاظ سے کر کی مقدار بتائی گئی ہے یا وه روایات که جن میں اہل کتاب خواتین سے ازواج کی حرمت یا عدم حرمت بیان کی گئی ہے ۔. ان روایات میں تعارض پایا جاتا ہے گذشته مباحث میں سنت ائمه پر جو اشکالات ہوئے ہیں وهاں ہم نے تعارض روایات کی مختلف علتوں کو بیان کیا ہے لیکن یهاں پر تعارض کے علاج اور دو متعارض حدیثوں سے برخورد کے طریقوں پر گفتگوهے ۔

___________________

۴ رسائل ، فرائد الاصول ، ص ۴۱۴

۵ گزشته حواله ، ص ۴۴۱

۱۳۱

روایات و اخبار میں قواعد تعارض کے اجراء کا طریقه بیان کیا گیا ہے اجمالی طور پر اکثر فقهاء تاثیر مرجحات کو جانتے ہیں صرف باقلانی ابو علی اور ابو هاشم جبانی ان امتیازات او رمزیتوں کو بے اثر جانتے ہیں اور ہر مقام پر احکام تعادل کو جاری مانتے ہیں لیکن فریقین کے نزدیک مشهور ہے اور اخبار متواتر کا تقاضا بھی یهی ہے که جس روایات کو مقدم کیا جائے ۔

روایات میں کئی ایک مرجحات اور امتیازات روایات کو بیان کیا گیاہے که جن میں بعض مرجحات سند سے اور بعض امتیازات دلالت سے مربوط ہیں ے۔.جیسے روایت کا مشهور ہونا اور فقهاء کا اس پر عمل کرنا ، راوی کا عادل تر ہونا یا اس کا اصدق اور افقه ہونا اسی طرح روایت کا کتاب وسنت سے موافقت رکھنا اور اسی طرح کے دوسرے امتیازات اہل سنت نے دیگر امتیازات ،اور ترجحات بیان کیے ہیں

جیسے راوی کا زمان پیغمبر (ص)سے نزدیک تر ہونا یا مدت صحبت کا طولانی تر ہونا اور رسول خدا (ص)سے مستقیم حدیث کا سننا ،حکم روایت کا راوی سے مرتبط ہونا ، راوی کا مشهور ہونا راوی کا مُسن ہونا ، راوی کے اسلام کا متاخر ہونا ، راوی کالغت عرب سے واقف اور اعلم ہونا ، راویوں کی کثرت ہونا ، واسطوں کی قلت اور نقل معنا کے بجائے روایت میں عین الفاظ کا ہونا ، روایت کا قولی ہونا یعنی فعل پیغمبر کی حکایت کے مقابل قول پیغمبر کا ہونا-(۶)

اس بات کی توجه کرتے ہوئے اکثر مرجحات منصوص نهیں ہیں اورروایات میں ان کا ذکر نهیں ہے ان مرجحات کو اپنے مبنا کے حساب سے قبول کریں گے که قبول مرحجات میں ہمارا مبنا کیا ہے ؟ کیا قول مرجحات میں موارد منصوص سے ( یعنی وه موارد جو متن حدیث میں ذکر ہوئے ہیں )تجاوز کرسکتے ہیں یا نهیں ؟ اگر کرسکتے ہیں تو یه مرجحات ہمارے لئے قابل قبول ہون ہوں گے و رنه نهیں ہونگے لیکن اگر دو روایتوں میں تعادل برقرار ہواور کسی بھی روایت کو ایک دوسرےپر ترجیح حاصل نه ہو ، تو ایسی صورت میں علماء کے درمیان اختلاف نظر موجود ہے یعنی بعض ددونوں روایتوں کو حجیت سے ساقط جانتے ہیں اور نتیجتاً اصول عملیه کی جانب رجوع کرتے ہیں کیونکه دلیل اجتهادی کے ساقط ہونے کی صورت میں اصل عملی کی جانب رجوع کیا جاتاہے ۔

ان کے مقابل دوسرا گروه اس بات کا قائل ہے که دونوں روایتیں قابل عمل ہیں اور تیسرا گروه احتیاط کا قائل ہے اور چوتھا گروه توقف اور پانچواں گروه تخییر کا قائل ہے ۔

یه بحثیں اصول کی معروف کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔(مترجم(۷) )

الحمد لله الرب العالمین

____________________

۶ رسائل فرائد الاصول ، ص ۴۴۹ ؛ کفایة الاصول ،ج۲ ، ص ۳۹۲

۷ (مترجم)

۱۳۲

عرف :

فقهاء کے نزدیک عرف بھی ادله استنباط میں شمار ہوتاہے جس کی تعریف میں کهتے ہیں وه چیز جو لوگوں کے درمیان متعارف معمول ہو ں اور ان کی عملی اور گفتاری سیرت کا جز ہوں

عرف اگر مذکوره معنی میں ہو تو عادت کا مترادف ہوگا اسی لئے عرف کی تعریف میں کها گیا “ عاده جمهور قوم فی قول ا و عملی”

قول و فعل میں کسی قوم کی عادت کو عرف کهتے ہیں

عرف کی تقسیمات :

۱- عرف خاص اور عرف عام :

عرف خاص کسی خاص زمانے یا منطقه یا اہل فن کے عرف کو عرف خاص کهتے ہیں ، مثلا زمان پیغمبر(ص)کے عربوں کا عرف شهر مدینه کے لوگوں کا عرف یا اہل بازار کا عرف

عرف عام :

عام لوگوں کا عرف که جس میں زمان مکان یا کسی خاص فن کی قید نه ہو

توجه رهے که عرف عام یا خاص ہونا ایک امر نسبی ہے ، کبھی ایک ہی عرف ایک لحاظ خاص سے اور دوسرے لحاظ سے عام ہوتا ہے

۲- عرف عملی اور عرف قولی :

عرف عملی جیسے بیع معاطاتی یعنی خرید و فروش میں لوگوں کی عادت یه ہے که صیغه جاری کرنے کے بغیر ہی معاملات انجام دیتے ہیں یه عادت کئی قوموں کے عوام و خواص میں اور ہر زمانےمیں رائج رهی ہے

عرف قولی :

جیسے عراقیوں کی عادت ہے که لفظ ولد کو فقط بیٹوں کے لئے استعمال کرتے ہیں بیٹیوں کے لئے ہیں یا بعض مناطق کے لوگ مچھلی کے لئے گوشت کا لفظ استعمال نهیں کرتے اب اگر کوئی قسم کھائے که میں گوشت نهیں کھاؤں گا اور کھالے تو عرف قولی کی بنا پر نه اس نے اپنی قسم توڑی ہے اور نه اس پر کفاره لگے گا

۱۳۳

عرف صحیح اور عرف فاسد :

عرف صحیح اس عرف کو کهتے ہیں جو دوسری شرعی دلیل جیسے قرآن یا سنت کے مخالف نه ہو مثال کے طور ر بعض علاقه کے لوگوں کی عادت یه ہے که دلهن والے رخصتی سے پهلے دلهے سے نقدی مھرلیتے ہیں تا دلهن کا جهیز خرید سکیں

عرف فاسد :

جیسے معاملات میں ربا انجام دینا یا شراب پینا یا اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں عورتوں کا پرده کے معامله میں سهل انگاری سے کام لینا

مذاہب اسلامی میں عرف کی حجیت :

اہل سنت کے اکثر مذاہب کے نزدیک عرف کی جانب رجوع کرنامورد قبول واقع ہوا ہے

حنفیوں کے نزدیک عرف کے ذریعه احکام شرعی کا اثبات خاص طور سے معاملات میں بهت رائج ہے ان کے نزدیک جب تک عرف پر عمل سے روکنے والی کوئی نص نه ہو تب تک عرف ثبوت احکام میں دلیل تام سمجھی جائے گی یهاں تک که اگر قیاس عرف کے خلاف ہو تو قیاس کو رد کردیاجائے گا کیوں که قیاس پر عمل کرنا لوگوں کی زحمت کا باعث ہے اسی لئے کبھی کبھی عرف مصالح مرسله میں شمار ہوتا ہے

ابو حنیفه اور اس کے ماننے والے کابعض احکام میں اختلاف ہے کیونکه انھونےعرف کو مختلف دیکھا ہے.

مالک بن انس اکثر موارد میں شرعی احکاام کو اہل مدینه کے عرف پر معین کرتے تھے

اما م شافعی جب مصر میں وارد ہوئے تو انهوں نے اکثر احکام بدل دیے کیوں که وه اہل مصر کی عرف کو عراق و حجاز کے عرف سے جدا پاتے تھے.

۱۳۴

اہل سنت کے فقهائ نے کچھ قواعد ایسے بنائے ہیں جو عرف کے اعتبار ہونے کی وجه سے دلیل شرعی کے عنوان سے بنائے گئے ہیں ان میں سے بعض قواعد که جس کا ذکر مجله الاحکام العدلیه میں ہوا ہے وه عبارت ہیں :

العادة محکمة؛ استعمال الناس حجة یجب العمل بها ؛ المعروف و عرفا کا لمشروط شرطا ؛ التعیین بالعرف کالتعیین بالنص ؛ لاینکر تغیر الاحکام بتغیر الازمان ؛ الثابت بالعرف کالثابت بالنص

عرف فاسد کی رعایت واجب نهیں کیونکه دلیل شرعی کے خلاف ہے مگر یه که (عرف ضرورت کے باب سے آیا ہو) ایسی صورت میں کهتے ہیں( الضرورات تبیح المحذورات )لیکن مجتهد کو چاہئیے که صحیح کا لحاظ کرے جیسا که رسول خد(ص)نے لوگوں کی کئی ایک اچھی عادتوں کا لحاظ کیا اور کبھی سکوت کے ذریعه اور کبھی صراحت کے ساتھ ان عادتوں کی تائید کی

عرف کی جانب رجوع کرنے میں ایک مورد باب خیار عیب ہے کون سی چیز عیب اور موجب فسخ ہے اور کون سی چیز عیب نهیں ہے اس کی تشخیص کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جائے گا اسی طرح ودیعه کی دیکھ دیکھ کتنی مدت تک ہونی چاہیئے که کوئی یه نه کهے که ودیعه کی حفاظت میں کوتاہی کی گئی اس مسئله میں بھی عرف کی جانب رجوع کرنا ہوگا لیکن شیعوں کی نظر میں عرف کی جانب رجوع کے موارد ایک جیسے نهیں ہیں

۱- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتاہے که ظهور لفظی کو تشخیص دیا جائے جیسے لفظ ولد یا گوشت که جس کی مثال گذر چکی ان جیسے موارد میں عرف قولی کی جانب رجوع کرنا ظهور عرفی کی تشخیص کے لئے قابل قبول ہے لیکن روشن ہے که یهاں عرف حکم شرعی کی دلیل نهیں ہے

۲- کبھی کسی حکم شرعی کے موضوع کامصداق تلاش کرنے کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جاتا ہے جیسے فقه میں آیا ہے که ودیعه کی حفاظت واجب ہے اور اس میں کوتاہی ضمان کا موجب ہوگا لیکن زمان و مکان کے اعتبار سے عرف بھی اسی زمان و مکان کے مطابق ہوگا اس لئے اسی عرف کی روشنی میں حفظ یا کوتاہی کا مصداق تلاش کیا جائے گا یهاں بھی عرف کا حکم کی شناخت میں کوئی کردار نهیں

۳- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتا ہے تاکه اس سے حکم شرعی کو کشف کیا جائے حیسے منقولات کے وقف کا جائز ہونا یا اخذ ظاہر کا جائز ہونا یا عقد فضولی کا صحیح ہونا شیعه اصولیوں میں سیره عقلا اور سیره متشرعه کی بحث اور حکم شرعی میں ان کا کردار اسی عرف سے مربوط ہے

۱۳۵

لیکن عرف کی طرف رجوع یعنی سیره کی طرف رجوع سےمراد یه نهیں ہے که عرف ایک دوسری مستقل دلیل جو ادله شرعی کے عرض میں ہے کیونکه سیره عقلا یا سیره متشرعه اس وقت حجت ہے جب شارع کے مخالف نه ہو اور شارع کی مخالف سمجھنے اور نه سمجھنے کے ہے شرعی دلیل یعنی کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنا ہوگا لهذا سیره عقلا کی حجیت معتبر دلیل شرعی کی حجیت کی وجه ہے یعنی کتاب و سنت کی حجیت کی وجه سے

لیکن سیره متشرعه کی حجیت کے لئے شارع کی تائید کی ضرورت نهیں کیونکه سیره مشترعه شارع کی راہنمائی کے بغیر وجود میں اہی نهیں سکتی کسی گروه کا متشرعه ہونا اس بات کی دلیل ہے که یه سیرت دستور شرعی سے ماخوذ ہے اور دلیل شرعی کی بنا پر صورت پاتی ہے

عرف کی حجیت کے دلایل اور ان کا جواب :

اہل سنت میں عرف کے قائل فقهاء نے اس کی حجیت پر چند دلیلیں پیش کی ہیں

۱- عبدالله بن مسعود کی روایت

ماراه المسلمون حسناً فهو عندالله حسن

اگثر فقهاء نے اسی حدیث پر اعتماد کیا ہے اس حدیث کی سند میں جو تھامناقشه اس سندی کی بحث گذر چکی بعض نے اس روایت کی سند کے صحیح ہونے کے بارے میں کها ہے که صحابی جب بھی مقام تشریع میں کچھ کهیں تو اسے قول رسول سے ماخو ذ سمجھنا چاہیئے پس اگر عبدالله بن مسعود نے اپنے سے یه بات کهی تو اس کے حدیث نبوی ہونے کے لئے کافی ہے

جواب :

اس بات کا تعلق قول صحابی یا مذهب صحابه کی حجیت سے ہے.

اسلام نے مختلف مواردمیں عرف جاہل ی کی تائید کی ہے جیسے ازدواج میں عورت اور مرد کا کفو ہونا یا قاتل که پدری رشته داروں پر قتل خطا ئی کا دیه قرار دینا

جواب :

اگر سیره عقلا ء کی حجیت شارع کی تائید سے ہے تو اس حجیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اگر اس سے مراد ہر عرف کی حجیت کا اثبات ہےتو یه تسلیم نهیں کرتے بلکه تمهارے نزدیک بھی یه قابل قبول نهیں کیونکه اگر قبول ہوتا تو عرف صحیح اور عرف فاسد میں تقسیم نهیں کرتے

۱۳۶

فهرست منابع اور ماخذ

v آلاءالرحمن فی تفسیر القرآن ، شیخ محمد جواد بلاغی ، مرکز الطاعة و النشر فی مؤسسة البعثه ، مطبوعه اول ،۱۴۲۰ ق ۔

v ابطال القیاس ، ابن حزم اندلسی ۔

v اتحاف ذوی البصائر ،شرح روضة الناظر ، فی اصول الفقه ، ڈاکٹر عبدالکریم بن علی بن محمد النمله ، مکتبة الرشد ، ریاض،۱۴۲۲ ق ۔

v الاتقان فی علوم القرآن ، جلال الدین سیوطی ، مطبوعه ، دوم ، منشورات رضی ۔

v اجود التقریرات ، تقریرات درس آیة الله میرزا محمد حسین نائینی ، سید ابوالقاسم خویی ، کتابفروشی مصطفوی، قم۔

v احکام القرآن ، ابوبکر احمدبن علی رازی جصاص ، دارالکتب العلمیه ، بیروت ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ ۔

v الاحکام فی الاصول الاحکام ، سیف الدین ابوالحسن علی بن علی محمد آمدی ، دارلکتب العلمیه ۔

v الادلة العقلیه و علاقتھا بالنقلیه ، ڈاکٹر محمد سعید شخاته ۔

v ارشاد الفحول ، محمد بن علی بن محمد شوکانی ، تحقیق احمد عزوعنانه ، دارالکتاب العربی ، بیروت ، چاپ دوم ۱۴۲۱ ق۔

v الاصابة فی تمییز الصحابة ، ابن حجر عسقلانی ، دار احیاء التراث ، بیروت مطبوعه اول ۔

v الاصو ل العامة للفقه المقارن ، سید محمد تقی حکیم ، تحقیق مجمع جهانی اہل بیت علیهم السلام قم ، پاپ دوم،۱۴۱۸ق ۔

v اصول الفقه ، شیخ محمد رضا مظفر ، دارالنعمان ، نجف اشرف ، مطبوعه دوم ، ۱۳۸۶ق ۔

v اصول الفقه الاسلامی ، محمد ابوزهره ، دارالفکر العربی ،۱۳۷۷ق ۔

v اصول مذهب الشیعة الاثنی عشریه ، ڈاکٹر ناصر بن عبدالله بن علی القفاری ، دارالرضاللنشر و التوزیع،مطبوعه سوم ، ۱۴۱۸ ق ۔

v امالی مفید ، ابو عبدالله محمدبن محمدبن نعمان ُعکبری بغدادی ، انتشارات جامعه مدسین حوزه علیمه قم ،چاپ چھارم،۱۴۱۸ ق ۔

v انوار الاصول ، تقریرات درس آیة الله مکارم شیرازی ، احمد قدسی ، انتشارات نسل جوان ، مطبوعه دوم ، ۱۴۱۶ ق۔

v انوار الفقاھة ، آیة الله ناصر مکارم شیرازی ، مدرسه الامام امیرالمؤمنین علیه السلام مطبوعه دوم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v اوائل المقالات ، محمدبن محمدبن نعمان عکبری ،شیخ مفید قدس سره ۔

v بحارالانوار ، محمدباقر مجلسی ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ،مطبوعه سوم ، ۱۴۰۳ ق ۔

v بحوث فی الاصول ، تقریرات درس شهید آیة الله صدر ، سید محمود هاشمی ، المجمع العلمی للشهید صدر ،مطبوعه اول، ۱۴۰۵ق ۔

v بصائر الدرجات ، ابوجعفر محمدبن حسن بن فروخ الصفار القمی ۔

۱۳۷

v البیان فی تفسیر القرآن ابوالقاسم الخویی ، مطبعة العلیمه قم ، چاپ۱۳۹۴ق۔

v تاریخ ابن خلدون ، عبدالرحمن بن خلدون ، مغربی ، دارالکتاب اللبنانی ۔

v تاویل مختلف الحدیث ، عبدالله بن مسلم ، ابن قتیبه ، دارالجیل ، بیروت ، ۱۴۱۱ق ۔

v تعارض الادله الشرعیه ، تقریرات درس آیة الله سید محمد باقر صدر ، سید محمود هاشمی ، لمکتبة الاسلامیه الکبری، مطبوعه دوم ، ۱۳۹۶ ق ۔

v تفسیر القرآن بالقرآن عندالعلامة الطباطبایی ، ڈاکٹر خضیر جعفر ، دارالقرآن الکریم ، قم مطبوعه اول ،۱۴۱۱ق۔

v تفسیر بیضاوی ، ناصر الدین ابو سعید عبدالله بن عمربن محمد شیرازی بیضاوی ، مؤسسة الاعلمی ، بیروت،۱۴۱۰ق۔

v تفسیر عیاشی ، ابو نصر محمدبن مسعود بن عیاشی سمرقندی ، المکتبة العلمیة الاسلامیه ۔

v تفسیر قاسمی (محاسن التأویل ) محمد جمال الدین القاسمی ، دارالفکر ، بیروت ، مطبوعه اول ، ۱۴۱۱ ق ۔

v التفسیرالکبیر ، فخررازی ، مکتب الاعلام الاسلامی ، قم مطبوعه سوم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v توحید صدوق ، ابو جعفر محمدبن علی بن حسین بن بابویه قمی ، مؤسسة الاعلمی ، بیروت ۔

v تهذیب التھذیب ، ابن حجرعسقلانی ، دارالکتب العلمیة ، بیروت ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ ق ۔

v جامع احادیث الشیعه ، اسماعیل معزی ملایری ، نشر صحف ، قم ، ۱۴۱۳ ق ۔

v الجامع الاحکام القرآن ، ابو عبدالله محمدبن احمد الانصار القرطبی ، دارالکتب العلمیة ، بیروت مطبوعه پنجم۔

v الحدائق الناصرة فی احکام العترة الطاہره ، شیخ یوسف بحرانی ، انتشارات جامعه مدرسین حوزه علمیه قم ،مطبوعه اول ، ۱۳۶۳ش ۔

v الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور ، جلال الدین سیوطی ، دارالفکر بیروت ،۱۴۱۴ ق ۔

v الدرایة فی علم مصطلح الحدیث ، زین الدین عاملی ( شهید ثانی ) مطبعة النعمان ، نجف اشرف ۔

v الذریعة الی تصانیف الشیعه ، شیخ آقای بزرگ تهرانی ، دارالاضواء بیروت ، مطبوعه سوم ، ۱۴۰۳ق ۔

v ذکریٰ الشیعة فی احکام الشریعه ، ابو عبدالله محمدبن مکی عاملی ، مکتبة بصیرتی ۔

v رجال کشی ، اختبار معرفة الرجال ، مؤسسة آل البیت علیهم السلام لاحیاء التراث ۔

۱۳۸

v روضة الناظر و جنة المناظر فی اصول الفقه علی مذهب احمدبن حنبل ، موفق الدین عبدالله بن احمد بن قدامه.مؤسسة الریان ، بیروت ۔

v السرائر الحاوی التحریر الفتاوی ، ابو جعفر محمدبن منصور بن احمدبن ادریس حلی ، انتشارات جامعه مدرسین حوزه علمیه قم ، مطبوعه چهارم ،۱۴۱۷ ق ۔

v سنن ابن ماجه ، حافظ ابو عبدالله محمد بن یزید قزوینی ، دارالفکر بیروت ۔

v سنن الکبری ، حافظ ابوبکر احمدبن حسین بن علی بیهقی ، دارالفکر بیروت ،مطبوعه اول ۔

v شرح المعالم فی اصول الفقه لابن التلمسانی ، عبدالله محمدبن علی شرف الدین ابو محمد الفهری المصری ، عالم الکتب بیروت ، مطبوعه اول ۱۴۱۹ق ۔

v شرح المقاصر تفتازانی ، مسعود بن عمربن عبدالله ، سعد الدین تفتازانی ، تحقیق ڈاکٹر عبدالرحمن عمیره ، عالم الکتب بیروت ، مطبوعه ، اول ، ۱۴۰۹ق

v شرح نووی بر مسلم ، محیی الدین نووی ، دارالکتاب العربی ، بیروت مطبوعه دوم ، ۱۴۰۷ ق ۔

v شرح نهج البلاغه ، لابن الحدید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v صحیح بخاری ، ابو عبدالله محمدابن اسماعیل بخاری ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v صحیح ترمذی ، ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ الترمذی ،۔

v صحیح مسلم ، امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری ، داراحیاء التراث العربی ، بیروت ۔

v الصواعق المحرقه علی اہل الرفض والضلال والذندقه ، ابوالعباس احمدبن محمدبن علی بن حجر ہی تمی ، مؤسسة الرساله ، مطبوعه اول ، ۱۴۱۷ ق ۔

v الطبقات الکبری معروف به طبقات ابن سعد ، محمدبن سعد ،مطبوعه دارالصادق ، بیروت ۔

v طیب بصری معتزلی ، دارالکتب العلمیه ، بیروت ۔

v عوالی اللئالی ، محمدبن علی بن ابراہیم الاحسائی ، معروف به ابن ابی جمهور ، مطبعة سیدالشهدا علیه السلام،مطبوعه اول.۱۴۰۳ق ۔

۱۳۹

v فرائد الاصول (رسائل ) شیخ مرتضیٰ انصاری ،مطبوعه محشی به حاشیه ملارحمت الله ، کتابفروشی مصطفوی ، قم،۱۳۷۶ق۔

v الفوائد الحائریه ، محمدباقر بن محمد اکمل ( وحید بهبهانی ) مجمع الفکر الاسلام ،مطبوعه اول ، ۱۴۱۵ق ۔

v فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت (حاشیه کتاب المستصفی ) ۔

v الفهرست فی اخبار العلماء الصنفین من القدما و المحدثین و اسماء کتبهم ، محمدبن اسحق الندیم ۔

v قاعدة الفراغ والتجاوز ، سید محمود هاشمی ، مطبوعه اول ، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم ، ۱۴۰۸ ق ۔

v قرآن کریم ۔

v القواعد الفقهیه ، آیة الله ناصر مکارم شیرازی ، منشورات دارالعلم ، بیروت مطبوعه چهارم ، ۱۴۰۱ق ۔

v قوانین الاصول ، ابوالقاسم بن حسن گیلانی معروف به میرازی قمی ، دارالطباعة استاد علی قلیخان ، ۱۲۹۹ ق ۔

v الکافی ، ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی ،مصحح : علی اکبر غفاری ، دارالاضواء، بیروت ، ۱۴۰۵ ق ۔

v الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوه التأویل ، جارالله محمود بن عمر زمخشری۔

v کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون ، ملاکاتب شلبی معروف حاجی خلیفه ، دارالکتب العلمیة بیروت ۔

v کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد ، جمال الدین حسن بن یوسف بن علی بن مطهر (علامه حلی ) مؤسه الاعلمی ، بیروت مطبوعه اول ، ۱۳۹۹ ق ۔

v کفایة الاصول ، آخوند ملامحمد کاظم خراسانی ، به خط طاہر خوشنویس ، انتشارات علمیه اسلامیه ۔

v کنز العرفان فی فقه القرآن ، جمال الدین مقدادبن عبدالله سیوری ۔

v کنز الفوائد الاما م الفتح شیخ محمدبن علی بن عثمان الکراجکی الطرابلسی ، دار الاضواء بیروت ۱۴۰۵ق ۔

v کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال ، علی متقی هندی ، مؤسسة الرساله ، ۱۴۱۳ق ۔

v اللباب فی اصول الفقه ، صفوان عدنان داودی ، دارالقلم ، دمشق ، مطبوعه اول ، ۱۴۲۰ق۔

v المبسوط ، شمس الدین سرخی ، دارالمعرفة بیروت ۱۴۱۴ ق ۔

v مجمع البحرین طریحی ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152