اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط37%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86041 / ڈاؤنلوڈ: 4551
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اپنے کاموں کا نتیجہ پاتے ہیں _ سعیدہ بیٹی ہم آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اچھے کام کرنے والے لوگ بہشت میں جائیں گے اور بہت راحت و آرام کی زندگی بسرکریں گے _ اور گنہکار جہنم میں جائیں گے _ اور عذاب اور سختی میں رہیں گے _

آخرت کی نعمتیں اور لذتیں دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں ان میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہوگا _ اہل بہشت ہمیشہ اللہ تعالی کی خاص توجہ اور محبت کا مرکز رہتے ہیں _ خدا انہیںہمیشہ تازہ نعمتوں سے نوازتا ہے اہل بہشت اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوتے ہیں اور ان نعمتوں اور محبت سے خوش و خرم رہتے ہیں _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ سعیدہ کس چیز کو بے فائدہ اور بے نتیجہ سمجھتی تھی او رکیوں؟

۲_ اس کی ماں نے اسے کیا جواب دیا؟

۳_ کیا ہم مرجانے سے فنا ہوجاتے ہیں اگر مرنے سے ہم فنا ہوجاتے ہوں تو پھر ہمارے کاموں اور کوششوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟

۴_ اپنے کاموں کا پورا نتیجہ کس دنیا میں دیکھیں گے ؟

۵_ نیک لوگ آخرت میں کیسے رہیں گے اور گناہ کار کیسے رہیں گے ؟

۶_ '' دنیا آخرت کی کھیتی ہے '' سے کیا مراد ہے ؟

۴۱

چھٹا سبق

آخرت میں بہتر مستقبل

اس جہان کے علاوہ ایک جہان اور ہے جسے جہان آخرت کہا جاتا ہے _ خدانے ہمیں جہان آخرت کے لئے پیدا کیا ہے _ جب ہم مرتے ہیں تو فنا نہیں بلکہ اس جہان سے جہان آخرت کی طرف چلے جاتی ہیں ہم صرف کھا نے پینے سونے کے لئے اس جہاں میں نہیں آئے بلکہ ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تا کہ خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کریں _ اچھے اور مناسب کام انجام دیں تا کہ کامل ہوجائیں اور جہان آخرت میں اللہ کی ان نعمتوں سے جو اللہ نے ہمارے لئے پیدا کی ہیں _ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں _

جو کام بھی ہم اس دنیا انجام دیتے ہیں اس کا نتیجہ آخرت میں دیکھیں گے _

اگر ہم نے خدا کی عبادت کی اور نیک کام کرنے والے قرار پائے تو ہمارا مستقبل روشن ہو گا اور بہترین زندگی شروع کرینگے اور اگر ہم نے خدا کے فرمان کی پیروی نہ کی اور برے کام انجام دیئے تو آخرت میں بدبخت قرار پائیں گے اور اپنے کئے کی سزاپائیں گے اور سختی اور عذاب میں زندگی بسر کریں گے

۴۲

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ اس جہاں میں ہمارا فرض کیا ہے _ کامل بنے کے لئے ہمیں کیا کام انجام دینے چاہیئے ؟

۲_ اللہ کی بڑی اور اعلی نعمتیں کس جہان میں ہیں ؟

۳_ روشن مستقبل کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۴_ آخرت میں سخت عذاب کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۵_ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کون سے کام اچھے اور مناسب ہیں اور کوں لوگ ہمیں اچھے اور مناسب کاموں کی تعلیم دیتے ہیں ؟

۴۳

تیسرا حصّہ

نبوت

۴۴

پہلا سبق

اللہ نے پیغمبڑ بھیجے ہیں

خدا چونکہ بندوں پر مہربان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بند ے اس دنیا میں اچھی اور آرام دہ زندگی بسر کریں اور آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں وہ دستور جوان کی دنیا اور آخرت کے لئے فائدہ مند ہیں _ پیغمبروں کے ذریعہ ان تک پہنچا ئے چونکہ پیغمبروں کی شخصیت عظیم ہوتی ہے اسی لئے خدا نے انہیں لوگوں کی رہنمائی کیلئےچنا_ پیغمبر لوگوں کو نیک کام اور خدائے مہربان کی پرستش کی طرف راہنمائی کرتے تھے _ پیغمبر ظالموں کے دشمن تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان مساوات و برابری قائم کریں _

سوالات

۱_ خدانے کیوں لوگوں کے لئے پیغمبر بھیجا ہے ؟

۲_ پیغمبر خدا سے کیا چیز لیکرآئے؟

۳_ پیغمبر کیا کرتے تھے؟

۴_ پیغمبر کس قسم کے لوگ ہوتے تھے؟

۵_ اگر ہم پیغمبروں کے دستور کے مطابق عمل کریں تو کیا ہوگا؟

۴۵

دوسرا سبق

انسانوں کے معلّم

پیغمبرانسانوں کے معلّم ہوتے ہیں _ ابتداء آفرینش سے لوگوں کے ساتھ _ اور ہمیشہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوشاں رہے _ وہ بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی اور زندگی کے اچھے اصولوں کی تعلیم دیتے رہے _ مہربان خدا اور اس کی نعمتوں کو لوگوں کو بتلاتے تھے اور آخرت اور اس جہاں کی عمدہ نعمتوں کا تذکرہ لوگوں سے کرتے رہے _ پیغمبر ایک ہمدرد اور مخلص استاد کے مانند ہوتے تھے جو انسانوں کی تربیت کرتے تھے_ اللہ کی پرستش کا راستہ انہیں بتلاتے تھے پیغمبر نیکی اور اچھائی کا منبع تھے وہ نیک اور برے اخلاق کی وضاحت کرتے تھے_ مدد اور مہربانی خیرخواہی اور انسان دوستی کی ان میں ترویج کرتے تھے تمام انسانوں میں پہلے دور کے انسان بے لوث اور سادہ لوح تھے پیغمبروں نے ان کی رہنمائی کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زحمت اور تکلیفیں برداشت کیں پیغمبروں کی محنت و کوشش اور رہنمائی کے نتیجے میں انسانوں نے بتدریج ترقی کی اور اچھے اخلاق سے واقف ہوئے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ زندگی کے اصول اور بہتر زندگی بسر کرنے کا درس انسانوں کو کس نے دیا ؟

۴۶

۲_ پیغمبر لوگوں کون سے تعلیم دیتے تھے؟

۳_ پیغمبروں نے کن لوگوں کے لئے سب سے زیادہ محنت اور کوشش کی ؟

۴_ پیغمبروں نے کس قسم کے لوگوں کے درمیان کن چیزوں کا رواج دیا ؟

۴۷

تیسرا سبق

خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کا کیا دین تھا اور وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے_ انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی تعلیم کو فراموش کردیا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس دنیا میں کس طرح زندگی گذار کر آخرت میں سعادت مند ہوسکتے ہیں وہ صحیح قانون اور نظم و ضبط سے ناواقف تھے اور خدا کی پرستش کے طریقے نہیں جانتے تھے _ چونکہ خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے اسلئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی پیغمبری کے لئے منتخب فرمایا تا کہ لوگوں کو نیکی اور اللہ تعالی کی عبادت کی طرف راہنمائی فرمائیں

خدا کو علم تھا کہ لوگ تشخیص نہیں کر سکتے کہ کون سے کام آخرت کے لئے فائدہ مند اور کون سے کام نقصان دہ ہیں _ خدا جانتا تھا کہ لوگوں کے لئے راہنما اور استاد ضروری ہے اسی لئے جناب ابراہیم علیہ السلام کو چنا اور انہیں عبادت اور خدا پرستی کے طریقہ بتائے _ خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلاتا تھا کہ کون سے کام لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتر ہیں اور کون سے کام مضر ہیں _

حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے پیغام اور احکام کو لوگوں تک پہنچاتے اور ان کی رہنمائی فرماتے تھے _

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے پیغمبر اور لوگوں کے استاد اور معلّم تھے _

۴۸

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ پیغمبروں کو کون منتخب کرتا ہے ؟

۲_ پہلے انسانوں کا کردار کیا تھا؟

۳_ کون سے حضرات زندگی کا بہتر راستہ بتاتے ہیں؟

۴_ کیا لوگ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے کام آخرت کے لئے بہتر اور کون سے مضر ہیں ؟

۵_ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کو کیا تعلیم دیتے تھے ؟

۶_ حضرت ابراہیم (ع) کا پیغام اور احکام کس کی طرف سے تھے؟

۴۹

چوتھا سبق

لوگوں کا رہبر اور استاد

پیغمبر لوگوں کا رہبر اور استاد ہوتا ہے _ رہبری کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے _ اسے جانتا ہے _ دین کے تمام احکام جانتا ہے _ اچھے اور برے سب کاموں سے واقف ہوتا ہے _ وہ جانتا ہے کہ کون سے احکام آخرت کی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور کون سے کام آخرت کی بدبختی کا سبب بنتے ہیں _ پیغمبر خدا کو بہتر جانتا ہے _ آخرت اور بہشت اور جہنم سے آگاہ ہوتا ہے _ اچھے اور برے اخلاق سے پوری طرح با خبر ہوتا ہے _ علم اور دانش میں تمام لوگوں کا سردار ہوتا ہے اس کے اس مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچانتا _ خداوند عالم تمام علوم پیغمبر کو عنایت فرما دیتا ہے تا کہ وہ لوگو۱ں کی اچھے طریقے سے رہبری کر سکے _چونکہ پیغمبررہبر کامل اور لوگوں کا معلم اور استاد ہوتا ہے _ اسلئے اسے دنیا اور آخرت کی سعادت کا علم ہونا چاہیے تا کہ سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ لوگوں کا رہبر اور استاد کون ہے اور ان کو کون سی چیزیں بتلاتا ہے ؟

۵۰

۲_ پیغمبر کا علم کیسا ہوتا ہے کیا کوئی علم میں اس کا ہم مرتبہ ہوسکتا ہے؟

۳_ پیغمبر کا علوم سے کون نواز تا ہے ؟

۴_ رہبر کامل کون ہوتا ہے؟

۵۱

پانچوان سبق

پیغمبر لوگوں کے رہبر ہوتے ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام پیغمبران خدا انسان تھے _ اور اانہیں میں زندگی گذار تے تھے خدا کے حکم اور راہنمائی مطابق لوگوں کی سعادت اور ترقی میں کوشاں رہتے تھے _ پیغمبر ابتدائے آفرینش سے لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے اور انہیں زندگی بہترین را ستے بتا تے تھے _ خدا شناسی آخرت اور اچھے کاموں کے بارے میں لوگوں سے گفتگو کرتے تھے _ بے دینی اور ظلم کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے تھے اور مظلوموں کی حمایت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان محبت اور مساوات کو بر قرار رکھیں پیغمبروں نے ہزاروں سال کوشش کی کہ عبادت کے طریقے خدا شناسی اور اچھی زندگی بسر کرنا لوگوں پر واضح کریں _آج پیغمبروں اور ان کے پیرو کاروں کی محنت اور مشقت سے استفادہ کررہے ہیں _ اس لئے ان کے شکر گزار ہیں اور ان پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں ;

... ...اللہ کے تمام پیغمبروں پر ہمارا سلام

... اللہ کے بڑ ے پیغمبر جناب ابراہیم پر ہمارا سلام

... جناب ابراہیم کے پیرو کاروں پر ہمارا سلام

۵۲

چھٹا سبق

اولوا لعزم پیغمبر

اللہ تعالی نے لوگوں کی راہنمائی کے لئے بہت زیادہ پیغمبر بھیجے ہیں کہ ان میں سب سے بڑ ے پیغمبر پانچ ہیں

____ حضرت نوح علیہ السلام

____ حضرت ابراہیم علیہ السلام

____ حضرت موسی علیہ السلام

____ حضرت عیسی علیہ السلام

____ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جناب موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتا ہے اور جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کہا جاتا ہے اور جناب محمڈ کے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے

تمام پیغمبر خدا کی طرف سے آئے ہیں اور ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں

لیکن تمام پیغمبروں سے بزرگ و برتر آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی (ص) ہیں آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا _

۵۳

سوالات

۱_ بڑے پیغمبرکتنے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں ؟

۲_ یہودی کسے کہا جاتا ہے ؟

۳_ مسیحی یا عیسائی کسے کہا جاتا ہے ؟

۴_ جناب محمد مصطفی (ص) کے ماننے والوں کو کیا کہا جاتا ہے ؟

۵_ سب سے بڑ ے اور بہتر اللہ کے پیغمبروں کون ہیں ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ تمام پیغمبر ... آئے ہیں اور ہم ان ... کرتے ہیں

۲_ لیکن جناب محمد مصطفی (ص) تمام پیغمبروں سے ... و ...ہیں

۳_ آپ کے بعد نہیں آئے گا

۵۴

ساتواں سبق

حضرت محمد مصطفے (ص) کا بچپن

جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد جناب عبد اللہ علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ جناب آمنہ تھیں _ بچین ہی سے آپ نیک اور صحیح انسان تھے دستر خوان پر با ادب بیھٹتے تھے_ اپنی غذا کھا تے اور دوسرے بچوں کے ہاتھ سے ان غذا نہیں چھینتے تھے _ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے _ بچوں کو آزار نہ دیتے تھے بلکہ ان سے اچھا سلوک اور محبت کرتے تھے _ ہر روز زنبیل خرما سے پر کر کے بچوں کے در میان تقسیم کرتے تھے _

سوالات

۱_ جناب محمد مصطفی کس شہر میں پیدا ہوئے ؟

۲_ غذا کھا تے وقت کیا کہتے تھے اور کس طرح بیٹھتے تھے ؟

۳_ دوسرے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے ؟

۴_ تمہارا دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟

۵۵

آٹھواں سبق

آخری نبی حضرت محمد مصطفے (ص)

آپ کے والد کا نام جناب عبداللہ اور والدہ کانام آمنہ تھا _ عام الفیل میں سترہ ربیع الاوّل کو مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کی پیدائشے سے قبل ہی آپ کے والد جناب عبداللہ کا انتقال ہو گیا _ جناب آمنہ نے آپکی چھ سال تک پرورش کی _ جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا _ والدہ کے فوت ہونے کے بعد آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی _ جناب عبد المطلب آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ پر بہت مہربان تھے پیغمبر اسلام کے مستقبل کا آپ کو علم تھا عیسائی اور یہودی علماء سے آپ نے سن رکھا تھا کہ مکہّ سے ایک پیغمبر مبعوث ہو گا _ جناب عبد المطلب عربوں کے سردار تھے _ کعبہ کے نزدیک آپ کے لئے مخصوص جگہ تھی کہ جس پراور کوئی نہیں بیٹھ سکتا تھا _ صرف پیغمبر اسلام اس مخصوص جگہ پراپنے دادا کے پہلو میں بیٹھا کرتے تھے _ اگر آپ کو وہاں بیٹھنے سے کبھی کوئی منع کرتا تو جناب عبد المطلب فرماتے کہ میرے بیٹے کو آنے دو _ بخدا اس کے چہرے پر بزرگی کے آثار موجود ہیں _ میں دیکھ رہاہوں کہ ایک دن محمڈ تم سب کا سردار ہو گا _ جناب عبدالمطلب پیغمبر اسلام کو اپنے نزدیک بٹھا تے اور اپنے دست شفقت کو آپ کے سر پر پھیر تے تھے چونکہ حضوڑ کے مستقبل سے آگاہ تھے اسلئے انہیں کے ساتھ غذا تناول کرتے تھے اور اپنے سے کبھی آپ کو جدا نہیں کرتے تھے _

۵۶

پیغمبر اسلام کا بچپن

پیغمبر اسلام بچپنے میں بھی با ادب تھے _ آپ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام فرما تے ہیں کہ محمڈ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے اور غذا کے بعد الحمدللہ فرماتے _ میں نے محمڈ کونہ تو جھوٹ بولتے دیکھا اور نہ ہی برا اور نارو ا کام کرتے دیکھا _ آپ(ص) او نچی آواز سے نہیں ہنستے تھے بلکہ مسکراتے تھے _

جواب دیجئے

۱_ پیغمبر اسلام (ص) کس سال اور کس مہینہ اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کی والدہ آور آپ کے والدکا کیا نام تھا ؟

۳_ جناب عبدالمطلب کا پیغمبر اسلام (ص) سے کیارشتہ تھا اور آپ کے متعلق وہ کیا فرما تے تھے ؟

۴_ یہودی اور عیسائی علماء کیا کہا کرتے تھے؟

۵_ بچپن میں آپ (ص) کا کردار کیسا تھا اور آپ کے متعلق آپ کے چچا کیا فرمایا کرتے تھے ؟

۵۷

نواں سبق

پیغمبر (ص) کا بچوّں کے ساتھ سلوک

پیغمبر(ص) اسلام بچّوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ان کو سلام کرتے تھے _ آپ(ص) مسلمانوں سے کہتے تھے کہ بچوں کا احترام کیا کرو اور ان سے محبت کیا کرو اور جو بچوں سے محبت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے _

ایک مسلمان کہتا ہے کہ میں نے رسول (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ گھر تک گیا تو میں نے دیکھا کہ بچے گروہ در گروہ آپ کا استقبال کرنے کے لئے دوڑ کر آرہے تھے _ آپ نے انہیں پیار کیا اور اپنا دست مبارک ان کے سر اور چہرے پرپھیرا

سوالات:

۱_ پیغمبر اسلام(ص) کے والد کا نام کیا تھا؟

۲_ آپ کی والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ بچوں کو کیوں سلام کیا کرتے تھے؟

۴_ اپنے اصحاب سے بچوں کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۵_ بچّے کیوں آپ(ص) کے استقبال کیلئے دوڑ پڑتے تھے؟

۶_ کیا تم اپنے دوستوں کو سلام کرتے ہو؟

۵۸

دسواں سبق

امین

ایک زمانے میں مکہ کے لوگ خانہ کعبہ کو از سر نو بنارہے تھے _ تمام لوگ خانہ کعبہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے _ جب کعبہ کی دیوار ایک خاص اونچائی تک پہنچی کہ جہان حجر اسود رکھا جانا تھا'' حجر اسود ایک محترم پتھر ہے'' مكّہ کے سرداروں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اس پتھر کو صرف وہی اس کی بناپر رکھے اوراس کام سے اپنے آپ اور اپنے قبیلے کی سربلندی کا موجب بنے _ اسی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوا _ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ صرف میں حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کروں گا ان کا اختلاف بہت بڑھ گیا تھا اور ایک خطرناک موڑ تک پہنچ گیا تھا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے _ جنگ کے لئے تیار بھی ہوچکے تھے اسے اثناء میں ایک دانا اور خیرخواہ آدمی نے کہا _ لوگو جنگ اوراختلاف سے بچو کیونکہ جنگ شہر اور گھروں کو ویران کردیتی ہے _ اور اختلاف لوگوں کو متفرق اور بدبخت کردیتا ہے _ جہالت سے کام نہ لو اور کوئی معقول حل تلاش کرو_ مكّہ کے سردار کہنے لگے کیا کریں _ اس دانا آدمی نے کہا تم اپنے درمیان میں سے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرلو جو تمہارے اختلاف کو دور کردے _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے یہ مفید مشورہ ہے _ لیکن ہر قبیلہ کہتا تھا کہ وہ قاضی ہم میں سے ہو _ پھر بھی اختلاف اور نزاع برطرف نہ ہوا _ اسی خیرخواہ اور دانا آدمی نے کہا _ جب تم قاضی کے انتخاب میں بھی اتفاق نہیں کرپائے تو سب سے پہلا شخص جو

۵۹

اس مسجد کے دروازے سے اندر آئے اسے قاضی مان لو _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے تمام کی آنکھیں مسجد کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں اور دل دھڑک رہے تھے کہ کون پہلے اس مسجد سے اندر آتا ہے اور فیصلہ کس قبیلے کے حق میں ہوتا ہے ؟ ایک جوان اندر داخل ہوا _ سب میں خوشی کی امید دوڑگئی اور سب نے بیک زبان کہا بہت اچھا ہو کہ محمد (ص) ہی آیا ہے _ محمد (ص) امین محمد(ص) امین _ منصف اور صحیح فیصلہ دینے والا ہے اس کا فیصلہ ہم سب کو قبول ہے حضرت محمد (ص) وارد ہوئے انہوں نے اپنے اختلاف کی کہانی انہیں سنائی: آپ نے تھوڑا ساتامل کیا پھر فرمایا کہ اس کام میں تمام مكّہ کے سرداروں کو شریک ہونا چاہیے لوگوں نے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اور کس طرح _ حضرت نے فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار یہاں حاضر ہو تمام سردار آپ کے پاس آئے _ آنحضرت (ص) نے اپنی عبا بچھائی پھر آپ نے فرمایا تمام سردار عبا کے کناروں کو پکڑیں اور حجر اسود کو لے چلیں _ تمام سردار نے حجر اسود اٹھایا اور اسے اسکی مخصوص جگہ تک لے آئے اس وقت آپ نے حجر اسود کو اٹھایا اور اسے اس کی جگہ نصب کردیا_ مكّہ کے تمام لوگ آپ کی اس حکمت عملی سے راضی اور خوش ہوگئے _ آپ کے اس فیصلے پر شاباش اور آفرین کہنے لگے _

ہمارے پیغمبر(ص) اس وقت جوان تھے اور ابھی اعلان رسالت نہیں فرمایا تھا لیکن اس قدر امین اور صحیح کام انجام دیتے تھے کہ آپ کا نام محمد(ص) امین پڑچکا تھا _

لوگ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور قیمتی چیزیں آپ کے پاس امانت رکھتے تھے اور آپ ان کے امانتوں کی حفاظت کرتے تھے آپ صحیح و سالم انہیں واپس لوٹا دیتے تھے _ سبھی لوگ اپنے اختلاف دور کرنے میں آپ کی طرف

۶۰

دوسرا اشکال :

اگر پیغمبر وه احکام جسے ائمه علیهم السلام لوگوں تک بیان کرنے والے ہیں جانتے تھے اور آپ نے انهیں ابلاغ نهیں کیا گویا انهوں نے حق کو چھپایاہے جبکه کتمان حق حرام ہے جیساکه قرآن میں آیاہے :

( لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ ) (۱)

یا ایک مقام پر فرماتا :

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَـئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ) (۲)

“جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں”۔

بنابر این چونکه پیغمبر کو تمام احکام کا علم ہے اور ان کا وظیفه ابلاغ ہے پس ان پر لازم ہے که وه احکام کو لوگوں تک پهنچائیں نه یه که اپنے وظیفه کو دوسروں کے حوالے کردے که وه احکام بیان کریں ۔

جواب :

سب سے پهلی بات تو یه ہے که "کتمان ما انزل الله " سے مراد اس چیز کا مخفی کرنا ہے که جس کا اعلان کرنا واجب ہو اور ابلاغ احکام کے خاص شرائط اور قوانین ہی جو که زمان و مکان طرز بیان کے لحاظ سے اور یه که یه احکام کسے بیان کرنے ہیں ا ہے ان میں ان سب امور کی رعایت لازم ہے ۔

توضیح مطلب :

بعض احکام ایسے ہیں که جس کا موضوع محقق نهیں ہے یا بیان احکام کی مصلحت نهیں ہے ، اسی لئے خود رسول اسلام کے دور میں احکام تدریجا بیان ہوتے تھے باوجود یکه پیغمبر احکام سے آگاہ تھے لیکن موضوع یا مصلحت کے نه ہونے کی وجه سے بیان کرنے سے گریز کرتے لیکن کسی نے پیغمبر پر یه اعتراض نهیں کیا که آپ تمام احکام کو جاننے کے باوجود کیوں اتنی تاخیر سے تدریجی طور پر

____________________

۱ آل عمران ، ۱۸۷.

۲ بقره ،۱۵۹

۶۱

۲۳ سال کے عرصه میں بیان کیا اور کیوں حق کو چھپایا ؟ اس لئے سب جانتے ہیں که ایک ہی زمانے میں تمام احکام بیان کرنا لوگوں کےلئے سنگیں تھا او ردین سے فرار کا سبب بن سکتا تھا اسی لئے پیغمبر نے اسے تدریجی طور پر بیان کیا اور بعض احکام کے ابلاغ کی ذمه داری اہل بیت کے سپرد کی ۔

اس کے علاوه الهیٰ پیغام کے ابلاغ کا مطلب یه نهیں ہے که احکام کو ایک ایک مسلمان کے کان میں سنایاجائے بلکه اگر ایک خاص گروه تک اسے پهنچایا جائے جو دوسروں تک ابلاغ کرنے والے ہیں ان پر بھی ابلاغ و بیان اور عدم کتمان صادق آئے گا ورنه یه اشکال تمام پیغمبروں اور تمام جاننے والوں پر وارد ہوگا که انهوں نے کیوں حق کو چھپایاہے ؟

تیسرا اشکال

شیعوں کے عقیده کے اعتبار سے ائمهء اطهار مقام عصمت پر فائز ہیں اور ان کاعلم اور ان کی حقانیت مسلم ہے پس اگر ایسا ہے تو پھر ان سے منقول روایات میں تناقض و تعارض نهیں پایاجانا چاہیئے کیونکه تعارض و تناقض ان کے علمی مقام اور عظمت سے سازگار نهیں ہے جب که شیعوں کی کتابوں میں احادیث میں تعارض اور تناقض پایا جاتاہے ؟

جواب:

اولا: تعارض کا مسئله صرف ائمهء کی احادیث ہی نهیں بلکه احادیث نبوی میں بھی موجود ہے اور اہل سنت نے بھی اپنی اصولی کتابوں میں تعارض روایات اور کیفیت جمع و ترجیح سے بحث کی ہے ۔

ثانیا: مختلف عوامل ہیں جو تعارض اخبار کا سبب بنتے ہیں جس میں سے بعض اسباب کی جانب یهاں اشار ه کیا جاتاہے :

۱- راوی کا فهم روایات میں غلطی کرنا ۔

اکثر موارد میں نصوص میں کوئی تعارض نهیں تھا بلکه راوی نے پیغمبر (ص)یا امام کے کلام کو سمجھنے میں غلطی کے شکار ہوئے ہیں ۔

۲- قرینه لفظ اور حال کا ضایع ہوجانا ۔

صدور روایات کے زمانے میں ان روایات کے ساتھ کچھ قرائن تھے خاص طورسے قرینه و سیاق جو که تقطیع روایات کی وجه سے ضایع ہوگئے جس کی وجه سے روایات میں تعارض پیداہوگیا ۔

۳- راویوں کا نقل معنیٰ کرنا تعارض کا سبب بنا ۔

۴- پیغمبر اکرم (ص)اور ائمه ء علیهم اسلام کا احکام کو تدریجا بیان کرنا ۔

۵- ظالم حکام سے تقیه کا مسئله سبب بنا که ائمه کے اقوال یا رفتار میں تعارض کا توهم پایاجائے ۔

۶۲

۶- مخاطب کی رعایت کرنا ۔

بعض اوقات سوال کرنے اوالے کی وضعیت اور شرائط ایسے ہوتے ہیں جودوسروں سے فرق کرتے ہیں اور اس کے سوال کا جواب اس کی شرائط کے مطابق ہوتا ہے لیکن وه شخص اپنے سے مربوط جواب کو بصورت مطلق سب کے لئے نقل کرتا ہے که فلاںمسئله میں امام کا قول یه ہے ۔

۷- کلام امام میں مخالفین اور مغرضین کی جانب سے تحریف کیاجانا ۔

اس لئے که ہمیشه ہر دور میں مغرض اور منافق افراد رهے ہیں یهاں تک خود پیغمبر کے دور میں ایسے افراد تھے جو احادیث میں تحریف کرتے تھے ۔ چنانچه رسول خدا (ص)سے نقل ہوا ہے که آپ نے فرمایا:

“"کثرت علیّ الکذبه ”"

“مجھ پر جھوٹ باند ھنے والے زیاده ہوگئے ہیں ” ۔(۳)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

من قال علی مالم اقل فلیتبوا مقعده من النار

“جو کوئی میری جانب اس چیز کی نسبت دے جو میں نے نهیں کهی اس کا ٹھکانه جهنم ہے ” ۔(۴)

تاریخ اور روایات میں ایسے افراد کا نام آتاہے جن کی احادیث میں دست کاری اور تحریف کی ترویج کی وجه سے سرزنش اور مذمت کی گئی ہے ۔

۸- حکومت کے وقتی احکام

جیسے امیرالمؤمنین کی حکومت کے دور میں اونٹ پر وجوب زکوٰة کا خاص حکم تھا ایک مدت کے بعد ختم ہوگیا ۔

____________________

۳ غیبت نعمانی ، ص۷۶ ، احتجاج طبرسی ،ج۱،ص۳۹۳، کنز العمال،ج۱۶،ص۵۵۵

۴ .کنز العمال ،ج۱۰،ص۲۹۰

۶۳

فعل معصوم سے استنباط کی کیفیت

چونکه الفاظ کی دلالت اپنے معانی پر افعال سے گویا تر ہے اور مقاصد کو مخاطب تک پهنچانے میں سریع تر ہے اس لئے معصوم سے صادر شده امر ونهی ، وجوب و حرمت پر ظهور رکھتی ہے اور اس قسم کے ظهورات قابل استناد ہیں لیکن کیا فعل معصوم امر امام کی مانند وجوب پر دلالت کرتا ہے ؟ کیا امام کا کسی فعل کو ترک کرنا حرمت پر دلالت کرتاہے ۔

فعل معصوم جواز فعل ( بمعنیٰ عدم حرمت ) سے زیاده دلالت نهیں کرتاہے یعنی امام کی جانب سے کسی فعل کا انجام دیاجانا اس بات کی دلیل ہے که وه حرام نهیں ہے لیکن وه فعل سے وجوب پر دلالت نهیں کرسکتا بالکل اُسی طرح که امام کی جانب سے کس عمل کا ترک کیاجانا صرف عدم وجوب پر دلالت کرے جیسے پیغمبر یا امام کسی کام کو حکم یا عبادت کی تعلیم کےلئے انجام دیں یا جیسے کوئی معصوم فعل یا ترک فعل کو مستمر طور پرمسلسل انجام دیں بعض نے اس استمرار کو وجوب یا حرمت کی دلیل قرار دی ہے ۔

اگر کها جائے : پیغمبر کا فعل وجوب پر دلالت کرتا ہے کیونکه قرآن میں فعل پیغمبر کی تأ سی اور رسول کے تمام اعمال کی پیروی کو واجب قرار دیاگیا ہے اگرچه وه فعل خود پیغمبر پر واجب نه ہو جیساکه ارشاد ہے :

( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ) (۱)

“مسلمانو! تمهارے میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہءعمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے” ۔

ہمارا جواب یه ہوگا :

تأ سی کی تعریف میں کها گیا ہے :

ان تفعل مثل فعله علی وجهه من اجل فعله (۲)

"پیغمبر (ص)کی تأ سی یه ہے که پیغمبر نے جس کام کو جس طرح اور جس نیت سے انجام دیا تم بھی اسی انداز اور اسی نیت سے انجام دو " ۔

پس اگر پیغمبر (ص)نے واجب کی نیت سے انجام دیا تو ہم بھی واجب کی نیت سے انجام دیں گے اور اگر آپ نے مستحب اور مباح کی نیت کی تو ہم بھی استحباب اور اباحه کی نیت کریں گے نه یه که پیغمبر (ص)نے جو عمل انجام دیا وه ہم پرواجب ہو اور خود پیغمبر(ص)پر واجب نه ہو ۔

____________________

۱ احزاب ، ۲۱

۲ شرح المعالم ، ج۲ ،ص۳۹۰

۶۴

تقریر معصوم کی حجیت کیسے ثابت ہوگی ؟

تقریر یعنی معصوم کا اس فعل پر سکوت کرنا جو آپ کے سامنے (یا آپ کی غیبت میں مگر آپ کی اطلاع کے ساتھ) انجام پالیے ۔

تقریر کیے حجیت و اعتبار کی دلیل یه ہے که اگر وه فعل یاقول حرام اور منکر ہوتا تو معصوم ضرور مخالفت کرتا کیونکهه نهی از منکر واجب ہے ۔

بعض نے کها که : تقریر معصوم حجت نهیں ہے کیونکه نهی از منکر اور ارشاد جاہل کو ارشاد کرنا ہمیشه اور ہر جگه واجب نهیں جیسے کوئی عمل شارع کی جانب سے مودر انکار قرار پائےلیکن مکلف پر اس کاکوئی اثر نهیں ہو تو دوباره اس عمل سے روکنے کی ضرودت ضرورت نهیں ہے ۔

جواب یه ہے که :

یه فرض محل کلامہماری بحث سے خارج الک ہے کیونکه محل کلامہماری بحث ان موارد میں ہے که جهاں نهی از منکر کے واجب ہونے کے شرائط موجود ہوں ۔

۶۵

سنت صحابه

جمهور اہل سنت، اہل بیت علیهم السلام کی سنت کے بجائے صحابه کی سنت کو حجت مانتے ہیں-(۱)

تاکه ان کی سنت کے ذریعه ادله شرعیه کی کمی کو پورا کیاجاسکے ان کے نزدیک صحابی رسول اس مسلمان کو کهتے ہیں جس نے پیغمبر (ص)کی زندگی درک کی ہو –(۲)

اوراس دنیا سے مسلمان اٹھاہو اس کے علاوه اہل سنت کا تمام اصحاب رسول (ص)کے بارے میں اتفاق ہے که جس پر صحابی کا اطلاق ہو وه یقینًا عادل ہے-(۳)

جب که مکتب اہل بیت کے ماننے والوں کے نزدیک اصحاب پیغمبر(ص)کا امتیاز اور افتحار صحابیت کی وجه سے بڑا مقام ہے لیکن وه یه نهیں مانتے که سب کے سب بلااستثنا عادل ہوں اس لئے که جهاں اصحاب پیغمبر(ص)میں عظیم المرتبت شخصیات گزری ہیں وهیں پر قرآن و تاریخ و حدیث کی روشنی میں کچھ ایسے بھی افراد تھے جو عادل نهیں تھے جسکی وجه سے قرآن وحدیث میں انکی مذمت بھی کی گئی،

اہل سنت عدالت صحابه پرقرآن اور حدیث سے استدلال کرتے ہیں چنانچه قرآن کی تین آیتیں پیش کرتے ہوئے کهتے ہیں که خداوند سبحان کا ارشاد ہے :

"( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) "(۴)

“تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے” ۔

اور دوسری آیت یه پیش کرتے ہیں :

"( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ ) "(۵)

“ اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو ” ۔

____________________

۱ الموقعات شاطبی ، ج ۴ ،ص ۷۴

۲ الاصحابه فی تمیز الصحابه ، ج۱،ص۱۵۷

۳ .وهی مدک ،ص ۱۶۲

۴ آل عمران ، ۱۱۰

۵ بقره ، ۱۴۳

۶۶

اورتیسری آیت جو پیش کی جاتی ہے وه یه ہے :

"( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) "

“یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے ” ۔(۶)

ان تین آیتوں سے یه استدلال کیا جاتا ہے که خیر امت اور امت وسط سے مراد اصحاب ہیں یه اصحاب وهی ہیں که جنهیں خدا مؤمن مانتاہے اور ان سے راضی ہے پس جو افراد خیر امت اور مؤمن ہوں اور الله ان سے راضی ہو یعنی ان کے افعال ،رفتار و گفتار سے راضی ہے پس ان کی سنت بھی حجت ہوگی ۔

جب که پهلی اور دوسری آیت کا تعلق صحابی سے مخصوص نهیں بلکه اس میں تمام امت شامل ہے انهی تین آیتوں میں سے تو یه آیت ان اصحاب سے مخصوص ہے جو بیعت رضوان میں شریک تھے پس تمام صحابی اسمیں شامل نهیں ہیں اس کےکیوں کی علاوه الله کی رضایت بیعت رضوان سے مربوط تھی یعنی خدا بیعت رضوان میں ان کے موقف سے راضی تھا اس کا مطلب یه نهیں که خدا ان کے تمام کاموں سے راضی رهے گا ۔

دانشمندان اہل سنت نے قرآن کے علاوه احادیث و روایات سے بھی استدلال کیا ہے جس میںمںی سب سے اہم اور معروف روایت یه ہے ارشاد پیغمبر (ص)هے که :

أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم ”۔(مترجم) ‏.(۷)

“میرے اصحاب کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے اس میں جس کسی کی اقتداء کروگے ہدایت پاؤگے ”۔(۸)

جب که ابن حزم نے اسی روایت کو ساقط، مکذوب، اور غلط جاناہے اس کے علاوه بعض روایات میں یه آیا ہے ۔

اهل بیتی كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُم اهْتَدَيْتُم ”۔‏.

“میرے اہل بیت کی مثال ستاروں جیسی ہے ان میں جس کی اقتداء کروگے ہدایت پاؤگے” ۔(۹)

اور یه حدیث ثقلین جیسی متواتر حدیث سے بالکل ہم اہنگ ہے ۔ اس کے علاوه قرآن مجید میں ان اصحاب کا جو جنگ میں رسول کوپیٹھ دکھا کر بھاگ گئے یا وه اصحاب جنهوں نے دستورات پیغمبر (ص)سے سرپیچی کی ہے یا ان پر اشکلالات کیئے ہیں

ان سب کا تذکره کیا اور بعض کو صریحاً فاسق قرار دیا ہے ایک جگه فرمایا :

____________________

۶ فتح ، ۱۸

۷ (مترجم)-- ۸ میزان الاعتدال ، ج۱ فص۴۱۳/۶۰۷ .---۹ .الاحکام ابن حزم،ج۶ ، ص۸۱۰

۶۷

"( وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ ) "

“اور ان ہی میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے” ۔(۱۰)

اور ایک جگه فرمایا:

"( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ) "

“ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔(۱۱) اہل سنت کے اکثر مفسرین نے کها یه آیت ولید عقبه کے بارے میں نازل ہوئی اور ولیدا بن عقبه مسلماً صحابی پیغمبر(ص)هے ،ابن عاشور نے اپنی تفسیر میں اس قول کو مورد اتفاق جانا ہے اور کها ہے که اس سلسلے میں روایات بهت زیاده ہیں ۔ اس کے علاوه سوره، نور سوره احزاب ،سوره برائت اور سوره منافقوں میں ایسے افراد کا ذکر ہے جو بظاہر مسلمان اور صحابی رسول تھےلیکن باطن میں مناقق تھے تھے،داستان افک کے جس کے سلسله میں سوره نور کی پندره آیتیں نازل ہوئیں ان آیات میں جس گروه کی سرزنش کی گئی وه سب بظاہر مسلمان اور صحابی پیغمبر تھے بهر حال صحابه اپنے تمام احترام کے باوجود ان میں بعض صالح اور بعض غیر صالح افراد تھے اسی لئے سب کے اقوال کویکساں طور پر حجت نهیں مانا جاسکتا ۔ اس کے علاوه بعض مشهور اور سرشناس صحابه کے کام ایسے ہیں جو کسی بھی طرح قابل توجیه نهیں ہیں اور کوئی منطق اسے قبول نهیں کرسکتی کیا ہم یه جانتے ہیں که جنگ جمل کی آگ بھرکانے والے طلحه اور زبیر جیسے معروف صحابی تھے جنهوں نے امام وقت کے خلاف خروج کیا اور ستّره هزار مسلمانوں کے قتل کا سبب بنے کیا ایسے افعال کی کوئی منطقی دلیل ہے ؟ کیا ایسے افراد کی سنت حجت ہوسکتی ہے ۔اسی طرح ہم یه بھی جانتےهیں که معاویه نے یهی کام اپنے وقت کے امام حضرت علی علیه السلام کے ساتھ انجام دیا جس کی وجه سے جنگ صفین میں ایک لاکھ مسلمان تهه تیغ ہوئے کیا یه قتل و غارتگری توجیه کے قابل ہے ؟

کیا ایسے افراد کو اب عادل مانا جائے گا ؟

کیا ایسے افراد کو مجتهد کهنا اور ان کے افعال کو خطائے اجتهادی کهه کر توجیه کرنا کوئی عقلی بات ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہر دور میں اسی عنوان کےتحت ہر قسم کے گناہ کی تو جیه کی جاسکتی ہے کیا کوئی دانشمند ایسی باتوں کو قبول کرسکتاہے ؟ بهرحال ہم مصاحبت پیغمبر کی وجه سے صحابه کا احترام کرتے ہیں لیکن انهیں تمام مسلمانوں کی طرح دو یاچند گروهوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان میں سے ان افراد کی روایت قبول کرتے ہیں جو عادل ہوں ۔

____________________

۱۰ توبه ، ۵۸ .---۱۱ حجرات ، ۶

۶۸

۹- سنت صحابه کی حجیت پر دلیل نقل :

سنت صحابه کی حجیت پر جو دلیلیں نقل ہوئی ہیں بالخصوص جو روایات پیش کی گئی ہیں ان میں سندی اشکال اور خود اہل سنت کے محدثیں کی جانب سے ان روایات کے جھوٹ اور جعلی ہونے کی تصریح کے علاوه دلالت کے اعتبار سے بھی مخدوش ہے کیونکه ہم دیکھتے ہیں که صحابه کی سیرت میں اختلاف بلکه تناقص پایاجاتا ہے اور کسے ممکن ہے سیرت کے اس آشکار اختلاف کے باوجود ان کی سیرت بطور مطلق حجت قرار پائے

صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم(ص) سے انس نے روایت کی که پیغمبر(ص) نے فرمایا:

لیردن علی ناس من اصحابی الحوض حتیّ اذا عرفتهم اختلجوا دونی فاقول اصحابی فیقول لاتدری ما اخدثو بعدک (۱)

کسےممکن ہے اس روایت کے ہوتے ہوئے صحابه کی عدالت اور ان کی سنت کو حجت ماناجائے اور کسی طرح اس صحابی کی سنت کو ثابت کی جائے که جس نے فقط کچھ دن پیغمبر(ص) کے ساتھ گذار ہیں کیا مصاحبت کا مرتبه ایمان سے بڑھ کر ہے ؟

جب ایمان کے لئے نهیں کها جاسکتا که ایمان عصمت اور گناہوں کے عدم ارتکاب کا باعث ہے تو بھلا مصاحبت سے اسے معجزه کی کیسے امید رکھی جاسکتی ہے

قابل غور بات یه ہے که اہل بیت علیهم السلام سے دوری اور رسول(ص) علم کے باب ہے اور اہل بیت علیهم السلام کی روایتوں سے دوری نے انهیں شرعی احکام کے استنباط کرنے میں مشکل اور گرفتاری میں ڈال دیا اور پھر خلفاء کے اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے چکر میں عصمت صحابه جیسے امور کے قائل ہوگئے اور انهی امور کو استنباط فقهی میں داخل کردیا جسکی وجه سے ایسی مشکلات کا شکار ہوگئے جو آج تک ان کے دامن گیر ہے

____________________

۱- (مترجم)صحيح بحاري ، كتاب الرقاق ، باب في الحوض ، حديث نمبر۱۴۴۱.

۶۹

سنت تک پهنچنے کے راستے

جیساکه یه بات گذر چکی که قول وفعل تقریر معصوم کو سنت کهتے ہیں اسی لئے اخبار اور احادیث سنت نهیں بلکه سنت کی حکایت کرتے ہیں اور درحقیقت سنت تک پهنچنے کے راستے شمار ہوتے ہیں ۔

یهاں پر سنت کی تلاش اور اس تک پهنچنے کے بعض قطعی او ربعض غیر قطعی راستون کو پیش کیاجاتاہے –(۱) ۔

الف : سنت تک پهنچنے کے قطعی راستے

۱- خبر تواتر

امت اسلامی اور معصومین کے درمیان زمانی فاصله کی وجه سے روایات متعدد واسطوں سے آئی ہے ۔

۱- اہل سنت کے ایک گروه نے خبر کی تین قسمیں کی ہیں :

ایک خبر وه ہے که جس کی تصدیق واجب ہے اورایک خبر وه ہےکه جس کی تکذیب واجب ہے اور ایک وه ہے که جس میں توقف کیاجانا چاہیئے. ان کا کهنا جس خبر کی تصدیق واجب ہے اس کی سات قسمیں ہیں ۔

(۱)خبرمتواتر

(۲) خبر واحد

(۳) خبر رسول الله (ص)

(۴) خبر امت پیغمبر (ص)کیونکه امت کی عصمت پیغمبر (ص)کی جانب سے مختص ہوچکی ہے ضمنا ہر اس شخص کی خبر جسے امت سچا اور راستگو مانتی ہے وه اسی چوتھی قسم میں داخل ہے ۔

(۵) ہر اس شخص کی خبر جو الله، رسول اور امت کی اخبار سے مطابقت رکھتی ہو ۔

(۶)هر وه خبر جسے مخبر و پیغمبر کے آگے بیان کرے اور پیغمبر اس کی تکذیب نه کریں ۔

(۷) ہر وه خبر که جسے مخبر کسی جماعت کے آگے بیان کرے اور جماعت اس خبر کی تکذیب نه کرے البته اس شرط کے ساتھ که ان کا پشت پرده سازش اور باہم توافق کرنامحال ہو ۔ لیکن وه خبر که جس کا تکذیب کرنا و اجب ہے اس کی چار قسمیں ہیں :

____________________

۱ .المصتفیٰ، ج۱ ،ص ۱۴۴/۱۴۲

۷۰

۱- وه خبر جو عقل ضروری اور عقل نظری کے حکم یا حسن ومشاہده اور اخبار متواتر کے خلاف ہو ۔

۲- وه خبر جو کتاب وسنت واجماع کے مخالف ہو ۔

۳- وه خبر که جسے کثیر جماعت نے جھوٹی خبر قرار دیا ہو او رعادتا اس خبر کے خلاف انکا پشت پرده توافق کرنا ناممکن ہو ۔

۴- ایسی خبر که جسے ایک کثیر جماعت نقل کرنے سے انکار کرے جبکه اس کے نقل کرنے کا امکان موجود ہو ۔

اور خبر کی تیسری قسم :

وه خبر ہے که جس میں خبر کا سچا اور جھوٹا ہونا مشخص نه ہو اور کتب حدیث میں اکثر اخبار اسی قسم کی ہیں

اسے او ریه اخبار امت تک پهنچتی ہیں اور جنتا یه فاصله بڑھتا جائے اتنے ہی واسطے بڑھتے جاتے ہیں ہر واسطه کو اصطلاحاً طبقه کها جاتا ہے ۔ خبر متواتر وه خبر ہے که ان طبقات میں سے ہر ایک طبقه میں ایساگروه موجود ہو که جس کا کذب وجعل حدیث پر توافق کرنا عام طور پر ناممکن ہو اسی لئے خبر متواتر یقین آور ہے(۲) ۔

۲- وه خبرواحد جو قرینه قطعیه کے ہمراہ ہو

جو روایت حد تواتر تک نه پهنچے اسے اصطلاحاً خبرواحد کهتے ہیں کبھی خبرواحد میں ایسے قرائن ہوتے ہیں جس سے یقین ہوجاتا ہے که یه خبر معصوم سے صادر ہوئی ہے ، اخباری علماء کے نزدیک کتب اربعه کی روایات ان خبرواحد جیسی ہیں جو قرینه قطعیه کے ہمراہ ہوں اسی لئے ان کی نظر میں کتب اربعه کی ساری روایات حجت ہیں اور اسی لئے وه روایات کی صحیح ، ضعیف، مرسل اور مرفوع جیسی تقسیم بندی کو قبول نهیں کرتے اور یهی حال اہل سنت کے اکثر محدثین کا ہے وه بھی صحاح سته خاص طور سے بخاری اور صحیح مسلم کی تمام روایات کو حجت مانتے ہیں(۳)

____________________

۲ مصباح الاصول ،ج۲ ،ص ۱۹۲

۳ حدائق الناظره ، ج۱ ،ص ۲۳

۷۱

۳- اجماع

مذهب امامیه کا اجماع چونکه رائے معصوم کا کاشف ہے اس لئے حجت ہے اور اسی بناپر خبرمعصوم اور وه خبر جو محفوف به قرینهسے ملی ہو کی مانند کاشف سنت ہے لیکن اہل سنت کے نزدیک اجماع دلائل استنباط میں مستقل دلیل شمار ہوتی ہے ۔اسی لئے ہم اہل سنت کی رعایت کرتے ہوئے اسے آئنده صفحات میں مستقل عنوان کے تحت پیش کریں گے اور اس سلسله میں فریقین کے نظریات کو بیان کریں گے ۔

۴- سیرۀ عقلاء

تمام لوگوں کا چاہے وه مسلمان ہوں یا غیر مسلمان کسی فعل کو بطور مستمرمسلسل انجام دینا یا ترک کرنا سیره یا بنائے عقلاء کهلاتا ہے مگر سیرۂ عقلا کے حکم شرعی ہونے کےلئے معصوم کی تائید اور امضاءضروری ہے اور معصوم کا کسی فعل کی انجام دهی سے روکنا اس فعل کی تائید او رامضا ء کےلئے کافی ہے-(۴)

کیونکه اگر وه فعل حرام ہوتا تو امام کےلئے اس فعل سے روکنا لازم ہوتا ۔

۵- سیرۀمسلمین

وه افراد جو دین اسلام کے پابند ہیں ان کا کسی فعل کو انجام دینا یا ترک کرنا ایک طرح سے مسلمانوں کاعملی اجماع شمار ہوتا ہے کسی عمل کی انجام دهی اور ترک عمل میں انکاا موقف اور ان کی روش سیرۂمسلمین کهلاتی ہے یه سیرت اگر زمانه ءمعصوم سے متصل ہو تو حجت ہوگی کیونکه سیرت مسلمین اس بات کی دلیل ہے که ان کی سیرت معصوم سے صادر دشده قول یا فعل سے ماخوذ ہے لیکن اگر ان کی سیرت کا زمانه ء معصوم سے متصل ہونا مشخص نه تو ایسی صورت میں وه سیرت حجت نهیں ہوگی کیونکه شاید یه سیرت اسلامی سماج میں ایک عادت بن گئی ہو اس لئے که بعض اوقات کسی شخص یا گروه کی خاص روش اور رفتار اس حدتک لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے جو دھیرے دھیرے ایک رسمی اور عمومی عادت بن جاتی ہے کسی عادت کی ابتداء میں علماء اور متدین افراد کی سهل انگاری او رغفلت کی وجه سے یا اس کے خلاف کوئی ٹھوس موقف اختیار نه کرنے کی وجه سے یاموقف تو اختیار کیا لیکن اس عادت کو مٹانے میں اس موقف کے کافی نه ہونے کی وجه ہے سے اکثر لوگ اس میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اہسته اہسته وه عادت اتنی مضبوط ہوجاتی ہے که اکثر افراد اس عادت کا احترام کرنے لگتے ہیں آج مساجد کے خرچے اور تشریفاتی امور انهی سهل انگاریوں کا نتیجه ہوں ہیں جوآج ایک عادت بن گئی اور لوگ اسے ہی سیرت مسلمین سمجھ بیٹھے ہیں –(۵) ۔

____________________

۴ اصول القه ، ج۲ ،ص ۱۷۱

۵ اصول الفقه، ج۲ ، ص ۱۷۵

۷۲

ب: سنت دستیابی حاصل کرنے سنت کے غیر قطعی راستے

به بات گذرچکی ہے که جس طرح کشف سنت کے کچھ قطعی راستے ہیں اسی طرح کچھ غیر قطعی راستے بھی ہیں که جن کا خود بخود کوئی اعتبار نهیں کیونکه حکم شرعی کی دلیل کا قطعی ہونا لازمی ہے صرف احتمال و گمان کی عقل کے نزدیک کوئی ارزش نهیں ہے قرآن ظن و گمان کی پیروی کو قابل قبول نهیں جانتا :

"( وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ) "

“ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے” ۔(۶)

"( وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً ) "

“ اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روزِ قیامت سماعتً بصارت اور قوائے قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا-(۷) ۔

لیکن اگر یه غیر قطعی راستے معقول ہوجائیں اور ان کے اعتبار پر قطعی دلائل موجود ہوں تو یهی غیر قطعی راستے حجت ہوں گے اور ان پر عمل ظن و گمان کی پیروی نهیں ہوگی ۔

وه غیر قطعی لیکن معتبر راستے کچھ اس طرح ہیں :

۱- خبرواحد

ایسی خبر که جس کے راوی تمام یا کسی ایک طبقه میں ایک یا ایک سے زیاده ہوں لیکن حدتواتر تک نه پهنچیں تو ایسی خبر یقین آور نهیں ہوگی او رایسی خبر کو اصطلاح میں خبرواحد کهتے ہیں ۔

خبر واحد کی بحث منابع استنباط کے اہم ترین مباحث میں سے ہے اور اس کی حجیت میں علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے سید مرتضیٰ S ابن زهره S ابن براج S طبرسی(۸) اور ابن ادریس S اس کی حجیت کا انکار کرتے ہیں اہل سنت میں قدریه اور فرقه ظاہریه(۹) کے بعض افراد اسکی حجیت کے منکر ہیں جب که شیخ طوسی اور فقهائے تشیع کے اکثر بزرگ افراد اسی طرح تمام اخباری او ر اہل سنت کے اکثر افراد خبرواحد کی حجیت کے قائل ہیں(۱۰) ۔

____________________

۶ نجم،۲۸ .----۷ اسراء ،۳۶

۸ کفایه الاصول ،ج۲،ص۷۹

۹ روضه الناظر ،ج۱ ،ص۳۱۳

۱۰ وهی مدرک ،

۷۳

حجیت خبرواحد کے شرائط میں کوئی ایک مشخص رائے نهیں ہے مسلک امامیه کے قدما ء اس خبر واحد کومعتبر مانتے ہیں جو قرائن صحت کے ہمراہ ہو چاہے وه قرائن صحت داخلی ہوں جیسے راوی کی وثاقت یا خارجی ہوں جیسے کسی معتبر کتاب میں اس کا وجود یا کسی کتاب میں اس کی تکرار ، اور روایت غیر معتبر اسی روایت کو مانتے ہیں جس میں اس قسم کے قرائن موجود نه ہوں(۱۱)

لیکن چھٹی صدی سے شیعه علماء نے خبر واحد کی حجیت کےلئے راوی کی عدالت کو شرط قرار دیا ہے اور بعض نے راوی کی وثاقت کو شرط قرار دیا اور اسی نظریه کی اساس پر روایات کی چار قسمیں کیں صحیح، حسن، موثق اورضعیف البته اخباری کتب اربعه کی تمام روایات کو حجت مانتے ہیں اور حدیث کی مذکوره تقسیم بندی کو غلط اور بے اثر جانتے ہیں لیکن ان کے پاس اپنے نظریه کے اثبات میں کوئی قابل قبول دلیل نهیں ہے ۔

روایت صحیح

اہل سنت کے نزدیک وه خبر واحد که جس کی سند متصل ہو ( یعنی جس کے سلسلهء سند میں کوئی افتاد گی نه ہو ) اورجس کے راوی عادل مضبط اور مخفی عیب سے دور ہوں ایسی روایت کو روایت صحیح کهتے ہیں :

“"ماتصل سند بعدول ضابطین بلا شذوذ ولاعلة خفیة ”"

روایت حسن

اس روایت کوکهتے ہیں جس روایت کے صدور اورا س کے رجالی شناخته شده ہوں مگر روایت صحیح کی حدتک نه ہوں ۔

“"ماعرف مخرجه و رجاله لاکرجال الصحیح ”"

روایت ضعیف

وه روایت ہے که جس میں روایت حسن کے درجات سے کوئی درجه نه ہوں اور خود روایت ضعیف کے کئی مرتبے ہیں ۔

“"ماقصر عن درجه الحسن وتفاوت درجاته فی الضعف بحسب بعده من شروط الصحة ”"(۱۲)

____________________

۱۱ .مقباس ال ہدایه فی علم الدرایایه ،ج۱،ص۱۹/۲۴

۱۲ امنی المطالب ، ص ۱۷

۷۴

۱- شهرت

فقهاء اور اصولویوں کے ایک گروه نے شهرت کو منابع استنباط میں سے ایک شمار کیا ہے –(۱) جانا چاہیئے که شهرت کی تین قسمیں ہیں :

الف: شهرت روائی

ان کے نزدیک یه اصطلاح اہل خیرت کے یهاں رائج ہے جس حدیث کے راوی زیاده ہوں لیکن حدتواتر تک نه پهنچے ایسی روایت کو "وه خبر مشهور "(مستفیض ) کهتےهیں اور تعارض روایات کی صورت میں شهرت روائی کو مرجحات روایت میں شمار کیا ہے –(۲) ۔

یعنی اگر دو روایتیں صدیوں کے اعتبار سے ایک دوسرے سے معارض ہوں اور ان میں ایک روایت شهرت روائی رکھتی ہو اور کئی راویوں نے اسے نقل کیا ہو تو ایسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دی جائے گی اور اس ترجیح کی دلیل خود شهرت ہے جو اطمینان اور وثوق کا باعث ہے اس کے علاوه بعض روایات میں که جس میں مقبوله عمرابن خنظله بھی ہے اس بات کی تصریح کی گئی ہے چنانچه اس حدیث میں عمرابن حنظله نے امام صادق علیه السلام سے سوال کیا که : اگر راویوں میں سے دو راوی جن میں دونوں ہی مورد وثوق واطمینان ہوں اور آپ کی حدیث میں اختلاف کریں تو کیا کرنا چاہیئے ؟

امام علیه السلام نے بعض مرحجات کو گنوانے کےبعد فرمایا:

يُنْظَرُ إِلَى مَا كَانَ مِنْ رِوَايَتِهِمْ عَنَّا فِي ذَلِكَ الَّذِي حَكَمَا بِهِ الْمُجْمَعُ عَلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِكَ فَيُؤْخَذُ بِهِ مِنْ حُكْمِنَا بِهِ الْمُجْمَعُ عَلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِكَ وَ يُتْرَكُ الشَّاذُّ الَّذِي لَيْسَ بِمَشْهُورٍ عِنْدَ أَصْحَابِك(۳) ..”

“یعنی ان دو روایتوں میں جو روایت اصحاب کے درمیان مشهور ہو اسے مقدم رکھتے ہوئے دوسری روایت کو چھوڑدیں. شهرت روائی کو بعض اہل سنت نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے

____________________

۱ اصول الفقه،ج۲ ،۱۶۳

۲ انوار الاصول ،ج۱ ص ۶۷

۳ .کافی ،ج۱ ، ص۶۷

۷۵

انهوں نے خبر کو تین قسموں میں تقسیم کیا ۱) متواتر ۲) مشهور ۳) واحد اور حدیث مشهور یعنی وه حدیث جو راویوں کی زبان پر رائج ہو کو خبر غیر مشهور (واحد) پر مقدم رکھا کیونکه یه خبر اطمینان آور ہے –(۴) ۔

لیکن انهوں نے شهرت کی ایک اورقسم کو مرجحات میں قرار دیا ہے اور وه شهرت راوی ہے نه که شهرت روائی ان کا کهنا ہے که اگر ایک حدیث کا راوی دوسری حدیث کے راوی سے زیاده شهرت رکھتا ہو تو اسکی روایت کو دوسری روایت پر مقدم کریں گے ۔

اس شهرت کی کئی قسمیں بتائی گئیں ہیں ۔ ایک یه کهاول راوی کبار صحابه میں ہو کیونکه یه عالی منصب اسے کذب و دروغ سے باز رکھے گا دوم یه که ایک نام کا مالک دو نام والے پر رحجان رکھتا ہے سوم یه که معروف النسب راوی مجهول النسب راوی پر مقدم ہے چهارم یه که ان راویوں کے نام جو افراد ضعیف کے نام سے مشتبه نه ہوں ان راویوں پر مقدم ہیں جن کے ناموں میں اشتباہ ہوتا ہے اور اسی طرح وه راوی جو حفظ وضبط روایت کیلئے مشهور ہیں یا ثقات و عدول سے نقل کرتے ہیں مقدم ہیں(۵) ۔

____________________

۴ التعارض والترجیح ،عبداللطیف عبد الشمس ، ج۲ ،ص۱۶۹

۵ انوار الاصول ،ج۲ ، ص۴۲۳

۷۶

ب:شهرت عملی

وه روایت جس میں فقهاء کے درمیان اس پر عمل اور استناد مشهور ہو-(۱) . اس شهرت کو شهرت عملی کهتے ہیں اوردو مقام پر اس سے استفاده کیا جاتا ہے ۔

۱- پهلے یه که باب تعارض کے مرجحات میں جهاں فقهاء کهتے ہیں اگر ہم یه مانتے ہوں که جو چیز واقعیت سے نزدیک تر ہو مرجح ہوگی پس شهرت عملی بھی مرجیح ہوگی لیکن صرف اس صورت کهمیں فقه کے قدیم علماء اور گذشتگان کی روایت کے مطابق عمل ہو ۔

۲- دوسرے یه که سند روایت کے ضعف کو بر طرف کرنے میں شهرت عملی سے کام لیا جاتا ہے یعنی جب بھی کوئی روایت قوانین کے حساب سے ضعیف ہو لیکن کئی علماء اور فقهاء نے اس روایت کے مطابق فتوا دیا ہو تو ان کا فتوی اور عمل سند روایت کے ضعف کو بر طرف کرتا ہے اور اس روایت کو قابل اعتما دبناتا ہے اسی طرح که جس طرح کوئی خبر صحیح اور معتبر ہو لیکن فقهاء اس روایت سے گریز کریں اور کوئی اعتنا نه کریں تو ایسی روایت درجهء اعتبار سے ساقط ہو جائے گی لیکن بعض فقها جیسے صاحب مدارک وغیره شهرت اور اعراض کے ذریعه ضعف سند کی برطرفی یا سند کے بے اعتبار کرنے کوقبول نهیں کرتے –(۲) ۔

ج: شهرت فتوائی

شهرت فتویٰ سے مراد یه ہے که اگر کوئی فتویٰ اجماع کی حدتک پهنچے اور فتویٰ شاذ کے مقابل قرار پائے تو بعض مسلک امامیه کے اصولی یه مانتے ہیں که شهرت فتویٰ امارات معتبره میں سے ایک ہے ان کا کهنا ہے که ہر چند کسی فقیه کا فتویٰ دوسرے فقیه کےلئے حجت نهیں ہوتا لیکن یهی فتویٰ جب شهرت کی حدتک پهنچ جائے اور فتویٰ دینے والے زیاده ہوں تو دوسرے فقیه کےلئے یهی شهرت اور فتویٰ کی کثرت حکم شرعی پر دلیل بنےگی که وه بھی اسی حکم کو استنباط کرے شهید اول نے کتاب "ذکری" میں اس نظریه کو قبول کیا ہے –(۳) ۔

____________________

۱ اصول الفقه ، ج۲ ،ص ۲۵۲

۲ مصباح الاصول ، ج۲ ، ص۱۴۳

۳. ذکری ، للشیعه مقدمه مؤلف ، ج۱ ، ص۵۲

۷۷

لیکن دوسرے گروه کا یه ماننا ہے که شهرت فتویٰ معتبر نهیں ہے اور اس پر منبع استنباط کے عنوان سے تکیه نهیں کیا جاسکتا .جو شهرت فتویٰ کو حجت مانتے ہیں ان کی دلیل یه ہے که :اگر خبر واحد سے حاصل ہونے والا ظن خبر واحد سے حاصل شده ظن سے کهیں زیاده قوی تر ہے –(۴) اور دوسری دلیل یه که زراره اور عمرابن حنظله کی روایت میں آیا ہے جو مشهور ہے اسے لے لو اور جو شاذ و نادر ہے اسے چھوڑ دو اسی طرح شهرت فتویٰ کے طرفداروں نے اپنے مدعا پرآیهءنبا کے ذیل میں وارد شده جمله سے مدد لی ہے –(۵)

جس میں خداوند عالم فرماتا ہے :

"( أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ) "

“اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔(۶)

ان دلیلوں کے کئی جواب دیے گئے ہیں جس کی تفصیل اصول کی مفصل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

بعض نے قدماء کے نزدیک مفهوم شهرت اور متاخرین کی شهرت میں فرق کیا ہے ان کا کهنا ہے که :

تاریخ تشیع میں آرائے فقهی کئی مراحل سے گذرے ہیں ابتداء میں یعنی عصر تشریع میں لوگ روایات و احادیث کو خود ائمه علیهم السلام سے دریافت کرتے اور پھر ان پر عمل کرتے تھے اس کے بعد جو مرحله آیا اس میں احادیث کو کتاب اور جزوات میں جمع کیا گیا جس سے اصول اربعماہ ( یعنی چارسو اصل اور کتاب ) وجود میں آئے پھر تیسرے مرحلے میں علمائے دین نے انهیں کتابوں اور جزوات کو مترتب اور منظم کرنا شروع کیا اس کے بعد چوتھا مرحله فتووں کا مرحله ہے جس میں حذف سند اور تخصیص و تقیید اور جمع و ترجیح کے بعد متن احادیث کے مطابق فتوا دیا جانے لگا چنانچه شیخ صدوق نے اپنی کتاب "من لایحضر ه الفقیه" میں یهی کام کیا ہے اب آخری اور پانچواں مرحله تطبیق و تفریع احادیث کا دور ہے اور یهیں سے جدید اور فرعی مسائل کو استنباط کیا جانے لگا ۔

اسی لئے مرحلهء پنجم پانچویں مرحله سے پهلے شهرت فتویٰ وثوق و اطمینان کا موجب تھا لیکن پانچویں مرحله میں فقهاء کے فتووں میں حدس و استنباط کا جنبه پیدا ہوگیا اسی لئے اس مرحله کے فتوے آنے والے فقهاء کےلئے حجت نهیں ہوں گے –(۷)

____________________

۴. انوار الاصول ، ج۲ ، ص۴۱۷

۵ .فوائد الاصول ، ج ۳ ، ص۱۵۵

۶ انوار الاصول ، ج ۲ ،ص ۴۲۳

۷ وهی مدرک

۷۸

. اہل سنت کی کتابوں میں شهرت فتویٰ کے مسئله کو ایک اور انداز میں پیش کیا گیا ہے ان لوگوں نے بحث اجماع میں یه مسئله اٹھایا که آیا اکثر یت کی آراء پر اجماع تحقق پاتا ہے یا نهیں ؟

جمهور اہل سنت نے کها ہے که قول اکثریت اور قول مشهور سے اجماع ثابت نهیں ہوتا لیکن معتزله کے مشهور عالم ابوالحسن حناط اور ابن جریر طبری اور ابوبکر رازی نے کها ہے :

ایک یا دو فرد کی مخالفت اجماع کو نقصان نهیں پهنچاتی اور ابن حاجب کا کهنا ہے که کسی مسئله میں مخالفت شاذ ہی کیوں نه ہو اجماع کو قطعیت سے گرادیتا ہے لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی اکثریت (اجماع )کو حجت جانتی ہے –(۸) ۔

غزالی نے کها-(۹) : امت کی عصمت اور حجیت ثابت ہے لیکن اگر کوئی قول شهرت تک پهنچ جائے ( مگر اجماع تک نه پهنچے ) تو یه شهرت حجت نهیں ہے کیونکه اختلاف کے ثابت ہوتے ہی حجیت ساقط ہوجائےگی جیسا که ارشاد خداوندی ہے :

"( وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ) "

“اگر کسی چیزمیں اختلاف کا شکار ہوجاؤ تو اس کا فیصله الله پر چھوڑ دو ”

____________________

۸ .اصول الفقه الاسلامی ، ج ۱ ،ص ۵۱۸

۹ المستفیٰ، ج۱ ، ص۱۱۷

۷۹

کتاب و سنت کے مشترک مباحث ۔

کتاب و سنت کے اختصاصی مباحث کے علاوه ان کے مشترک مباحث کوبھی "ادلهء نقلی" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ادله نقلی کی تقسیمات ۔

آیات و روایات جو که منابع استنباط کے لئے دو عمده دلیلیں ہیں ہر ایک دلیل خودبخود ایک دوسرے مل کر مختلف قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں ۔

دلیل خاصل و عام ۔

ایسی دلیل جو که حکم کو تمام افراد موضوع یا متعلق موضوع یا مکلف کے شامل حال ہو اسے اصطلاح دلیل"عام" کهتے ہیں .اور کبھی عام او رخاص میں تعارض ہو تو دلیل عام پر دلیل خاص کے ذریعے تخصیص لگائی جاتی ہے یعنی بعض افراد مصادیق عام ہے سے خارج ہوجاتے ہیں اور اس طرح خاص ،عام پر( ظاہر و اظهر یا قرینه او رذوالقرینه کے ملاک کی وجه سے ) مقدم ہوجاتا ہے مثال کے طور پر خداوند عالم ایک آیت میں ارشاد فرماتا ہے ۔

"( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) "

“تم پر روزه اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ ” ۔(۱)

اور اس کے بعد والی آیت میں فرماتا ہے :

"( فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) "

“اس کے بعد بھی کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں رکھ لے گا ” ۔(۲)

ان آیات میں پهلی آیت کا حکم عام ہے جس سے ثابت ہوتا ہے که جو ان، بوڑھا ،مریض( مسافر نو پر روزه واجب ہے لیکن دوسری آیت میں تخصیص سے بعض افراد خارج ہوگئے ) شیعوں متاخر فقهاء اور اکثر اہل سنت کا اس بات پر اتقاف ہے ۔. قرآن کے عمومی حکم پر که خبر واحد کے زریعه تخصیص لگائی جاسکتی ہے لیکن امامیه کے قدیم علماء میں سید مرتضیٰ S کی جانب نسبت دی گئی ہے که وه قرآن کے عمومی حکم کے خبرواحد سے تخصیص لگانے کو جائز نهیں مانتے تھے اور اہل بیت میں عیسی بن ابان متوفی ۲۲۱ هجری عدم جواز کاقائل تھا مگر یه که دلیل عام پچھلے مرحله میں دلیل قطعی سےتخصیص پاچکی ہو که اس صورت میں قرآن کو خبرواحد سے تخصیص دینا جایز ہے اور اہل سنت سے ایک اور شخصیت قاضی ابوبکر کی ہے جنهوں نے اس مسئله میں توقف کیا ہے-(۳)

____________________

۱ بقره ، ۱۸۳ .---۲ بقره ، ۱۸۴ .---۳ الاحکام فی اصول الاحکام ، ج۱/۲ ، ص۵۲۵

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152