اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط37%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86057 / ڈاؤنلوڈ: 4551
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خبر واحد کے ذریعه قرآن سے عموم کو تخصیص دینے کی مثال یه ہے که قرآن فرماتا ہے ۔

"( يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ) "

“اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے” ۔(۴)

اس آیت میں باپ کے انتقال پر تمام اولاد کےلئے ارث مشخص کی ا گئییا اور ضمنا یه بتایا گیا که بیٹے کا ارث بیٹی کے ارث سے دو برابر ہے لیکن اس حکم پر بعض روایات کی وجه سے تخصیص لگائی گئی کیونکه جیسا که بیٹا باپ کاقاتل ہو تو اسے ارث نهیں ملے گا ۔

“ "القاتل لایرث ممن قتله ”"(۵)

دلیل مطلق و مقید :

مطلق اس لفظ کو کهتے ہیں که جس میں کو ئی قید و شرط نه ہواور اپنے تمام افراد کو شامل ہو مثلا جس وقت کها جائے۔ “"احلّ الله البیع ”" اس میں معاملات کی تمام قسمیں شامل ہوجائیں گی ۔

مقید اس لفظ کو کهتے ہیں جس میں لفظ قید کے ساتھ ذکر ہو جیسے “"نهی النبی عن بیع الغرر ”"یعنی پیغمبر نے مجهول اور مبهم معاملات سے منع کیا ہے ۔ محققین کے نزدیک مشهور یهی ہے که لفظ مطلق اس صورت میں تمام افراد کو شامل ہوگا که اس کے مقدمات حکمت اسمیں جمع ہوں .یعنی

اولا ً: متکلم مقام بیان اور تمام مقصود بیان کرے ۔

ثانیا: کوئی قید نه لگائی گئی ہو ۔

ثالثا: لفظ مطلق سے خاص افراد کا تبادر نه ہو ۔

رابعا : پڑھنے والے والا کی اپنی نظر میں اس لفظ کا قدر متیقن نظرمیں نه رکھے ۔

اس صورت میں مطلق تمام افراد کو شامل ہوگا اور بغیر کسی دلیل کے جو تقید پر دلالت کرے اطلاق سے صرف نظر نهیں کیا جاسکتا حدیث کے زریعے ذریعے قرآنی اطلاقات کو قید لگانے کاا مکان قطعی ہے کیونکه قرآن کے کئی احکام فقط کلی صورت میں ذکر کئے ہیں اور اس کے مشخصات کو روایات میں بیان کیا گیا ہے عبادات کے سلسله میں قرآن میں کلی طور پر نماز روزه اور حج وغیره کا ذکر کیا ہے اسی طرح معاملات میں کلی طور پر بیع کی حلیت، ربا کی حرمت اور دوسرے معاملات کا ذکر کیا ہے ان تمام موارد میں ان احکام کی کیفیت ،شرائط، اجزاء اور موانع کو روایات میں مشخص کیا جاتاہے اس کے نتیجه میں قرآن کے اطلاقات پرقید لگتی ہے ۔

____________________

۴ نساء ، ۱۱ .---۵ .دعائم الاسلام ،ج۲ ص۳۸۶ ،ح۱۳۷۵ ، مستدرک الوسایل ،ج۱۷ ،ص ۱۴۶ ، ح۲۰۹۹۸

۸۱

دلیل حاکم و محکوم :

دلیل حاکم یه ہے که دلیل محکوم کو نظر میں رکھتی ہے اور دلیل محکوم کے موضوع کو وسعت دیتی یا قید لگاتی ہے۔ دلیل حاکم اگرچه ظاہرا دلیل محکوم کے موضوع پر نظر رکھتی ہے لیکن در واقع موضوع کو وسعت دیے کر یا وسعت کو تنگ کرکے حکم کی نفی یا اثبات کرتی ہے ان مثالوں کی جانب توجه کیجئے :

قرآن نے ربا کو حرام کرتے ہو ئے کها :" :( وَحَرَّمَ الرِّبَا ) "(۱) اب اگر کسی روایت میں آئے“ "لاربا بین الوالد والولد(۲) " یه روایت دلیل حاکم شمار ہوگی اور آیت دلیل محکوم کیونکه دلیل محکوم کیلئے موضوع (ربا) کو که دلیل حاکم (روایت ) کے ذریعه محدود کیا گیا اگر دلیل حاکم بظاہر موضوع ربا کو نفی کررهی ہے لیکن اس سے مراد یه ہے یهاں حرمت ربا کو اٹھالیا گیا اس لئے که حقیقت میں حکم کو قید تو لگا یا گیا لیکن نفی ربا کو اس مورد میں منحصر کیا که جهاں طرفین پدر اور فرزند نه ہو ں ۔

دوسرا دوسری مثال : قرآن نے وضو کو نماز کیلئے شرط قرار دیا اور کها :

"( إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ ) "(۳)

“جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ ”

. اب اگر کوئی روایت ملے که جس میں کهاجائے :

الطواف بالبیت صلاة ”.(۴)

یهاں پر دلیل حاکم کے ذریعے دلیل محکوم کے موضع (صلاة ) کو وسعت دی گئی اور طواف کعبه کو مصادیق نماز میں شمار کیا گیا لیکن حقیقت یه ہے که شرط طهارت کے حکم وضعی کو غیر نماز کےلئے ثابت کیا گیا دلیل حکومت دلیل کا ملاک یه ہے اگر دلیل محکوم نه ہو تو دلیل حاکم لغو ہوگی –(۵)

. واضح تر یه که جس وقت یه کها جارها ہے که “"الطواف بالبیت صلاة ”" اس کا مفهوم یه ہے که مخاطب نے نماز اور اس کے احکام کو سن رکھا ہے اور اس روایت کا مقصد یه ہے که جو احکام نماز کے ہیں وهی احکام طواف پر بھی جاری ہون ہوں گے نه یه که نماز حقیقت میں طواف کا مصداق ہو ۔

____________________

۱ بقره ، ۲۷۵

۲ وسایل الشیعه، ج۱۳ ، ابواب الربا ، باب ، ۷

۳ مائده ، ۶ .---۴ .عوالی اللئالی ،ج۲ ،ص۱۶۷ ،ح۳ ---۵ رسائل ،فرائد الاصول ، ص۴۳۲

۸۲

دلیل وارد و مورد :

دلیل وارد ، دلیل مورود کےلئے حقیقی مصداق تعین کرتی ہے یا اس کے مصداق کی نفی کرتی ہے جیسے حجیت خبر واحد کے دلائل جو برائت عقلی ( قبح عقاب بلابیان ) پر وارد ہے کیونکه حقیقت میں بیان حکم شرعی کیلئے ہے پس یهاں برائت کی کوئی جگه نهیں –(۶)

یعنی خبر واحد که کسی حکم پر دلالت کررهی ہے اور جس سے بیان الهیٰ حاصل ہو رها ہے ایسی دلیل کے ہوتے ہوئے مکلف قبح عقاب بلابیان سے تمسک نهیں کرسکتا ۔

دلیل مجمل و مبین :

خطاب مجمل یه ہے که خطاب اپنے مقصود پر واضح طور پر دلالت نه کرے اور متکلم کا مقصد اس سلسلے میں روشن نه ہو ۔

مبین اس خطاب کو کهتے ہیں جس کی دلالت واضح و روشن ہو اور نص اور ظاہر کلام سے شامل ہو به عنوان مثال آیت شریفه میں آیا ہے :

( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا )

چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔(۷)

لیکن اس آیت میں یه مشخص نهیں ہے که هاتھ کو اس کے کس حصه سے کا ٹاجائے کیونکه انگلیوں کے پورسے لیے کر کاندھے تک کئی جوڑ ہیں اور ان میں سے کسی بھی مفصل کو جدا کرنے سے قطع ید صادق آتا ہے پس یه کلام مجمل ہے یعنی اپنے مقصود کو واضح طور سے بیان نهیں کررها ہے اور قرآن میں کسی اورمقام پر قطع ید کے مصادیق بیان نهیں کئے گئے پس اس آیت کی توضیح و تفسیر و تبین کےلئے روایات کی جانب مراجعه کرنا ہوگا تا که قطع ید کی حد معین ہوجائے پهلی دلیل کو مجمل اور دوسری دلیل کو مبین کهتے ہیں ۔

____________________

۶ رسائل ، فرائد الاصول ، ص۴۳۲

۷ مائده ، ۳۸

۸۳

مفهوم و منطوق :

وه معنا جو بطو ر مستقیم کسی لفظ سے سمجھ میں آئیں اسے منطوق کها جاتاہے اور وه معنا جو بطور مستقیم لفظ سے نه سمجھے جائیں بلکه منطوق کالازمه ہوں اور اس سے اشاره استفاده کیاجائے اسے اصطلاحاً مفهوم کهتے ہیں مثلا جب بھی یه کها جائے که عورت اگر مرد کو جنسی حوالے سے راضی کرے تو نفقه کی حقدار ہے اس کا مفهوم یه ہے اگر عورت نافرمان ہو تو نفقه کا حق نهیں رکھتی ۔

اقسام مفهوم :

مفهوم کی دو قسمیں ہیں ۔

اگر حکم مفهوم و منطوق میں ایک دوسرے کے موافق ہوں ہون تو اسے مفهوم موافق کهاجاتا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں ،کبھی لفظ مفهوم بر پر اولویت کے ذریعے دلالت کرے تو اسے مفهوم اولویت کهتے ہیں جیسے قرآن میں آیا ہے:

"( فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ ) "(۱)

اس آیهء کریمه میں ماں باپ کو برابھلا کهنا حرام قرار دیا گیاہے کیونکه جب آیت کا منطوق یه ہے که ماں باپ سے ایسی بات نه کرنا جو ان کی ناراضگی کا سبب ہو تو اس کا مفهوم یه ہے که ان کو برابھلا کهنا او رانهیں ر ان سے گالی گلوج کرنا او رانهیں مارنا پیٹنا به درجه ء اولیٰ حرام ہوگا ۔

اور کبھی منطوق و مفهوم بطور مساوی ایک دوسرے پر دلالت کرتے ہیں جیسے قیاس منصوص العله-(۲) کے موارد جیسے یه کها جائے :

“"لاتشرب الخمر لانه مسکر

" انگور کی شراب مت پیو که اس سے نشه چڑھتا ہے ، اس کا مفهوم یه ہے که جو شراب مستی آور ہو حرام ہے

اگر مفهوم کا حکم منطوق کے حکم کے مخالف ہو تو اس مفهوم کو مفهوم مخالف کهتے ہیں اور مفهوم مخالف کی جمله چھ قسمیں ہیں ۔

____________________

۱ اسراء ، ۲۳

۲ .اللباب فی اصول الفقه ، ص ۱۶۰/۱۵۹

۸۴

۱- مفهوم شرط جسیے بیوی کے نفقه کی مثال جو اوپر بیان ہوچکی ۔

۲- مفهوم وصف ۔

۳- مفهوم غایت ۔

۴- مفهوم حصر ۔

۵- مفهوم عد د ۔

۶- مفهوم لقب ۔

حجیت مفاہیم کی بحث د رحقیقت میں وجود مفهوم کی بحث ہے یعنی بحث اس میں ہے که کیا شرط مفهوم رکھتا ہے که یا نهیں تا که اس سے حکم شرعی کو استنباط کیا جاسکے-(۳) یا مفهوم نهیں رکھتا

مفهوم موافق کی حجیت میں کوئی تردید نهیں ، انواع قیاس کی بحث میں اس بات کی توضیح آئے گی لیکن مفهوم مخالف اور اس کی تمام اقسام کے سلسلے میں مفصل مباحث ہیں اور ان میں سے بعض اقسام کے حجت ہونے یا نه ہونے پر دلائل پیش کئے گئے ہیں که جسے اصول کی مفصل کتابوں میں مطالعه کیا جاسکتاہے ۔(۴)

ناسخ و منسوخ :

نسخ یعنی گذشت زمانے کے ساتھ حکم کا اٹھا لینا اسلام میں وقوع نسخ پر تمام مسلمانوں کا تفاق ہے سوره بقرۂ میں صریحا حکم قبله کے نسخ ہونے اور اس کا رخ بیت المقدس سے کعبه کی جانب موڑدیے جانے کے خبردی گئی ہے ، قرآن کی دیگر آیات میں بھی وقع نسخ کی تائید ملتی ہے جیسے یه آیت ،(۵)

"( مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ) "

“ ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کردیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کی جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں ”۔

____________________

۳ .انوار الاصول ، ج۲ فص ۲۰

۴ کفایة الاصول، ج۱ ،ص۳۰۰ ، انوار الاصول ،ج۲

۵ .بقره ، ۱۴۲.

۸۵

قرآن میں قرآن کے ذریعه کتنے موارد نسخ کے موارد ہے اسکے سلسلے میں اختلاف ہے بعض فقهاء ومفسرین نے اس کا دائره اتنا وسیع کردیا که تمام تقیید و تخصیص کے موارد کو نسخ قرار دیا ہے اور کسی نے اتنا محدود کردیا که فقط آیهء نجویٰ کے –(۶) ایک مورد کو مصداق نسخ قرآن به قرآن شمار کیا ہے –(۷) ۔

خبر واحد کے ذریعے نسخ کرنا ممکن نهیں :

اکثر علمائے اسلام کانظریه خبر متواتر کے ذریعے نسخ کرنا جائز ہے شافعی علماء او راکثر علمائے اہل ظاہر اسے جائز نهیں مانتے-۸ اور خبر واحد کے ذریعے حکم قرآن کو نسخ کرنا شیعه اور اہل سنت دونوں کے نزدیک ممنوع ہے. کیونکه نسخ ایک اہم او رنادر مسئله ہے اگر نسخ متحقق ہو تو لازم کے ہےکه یه نسخ تواتر اور قرائن قطعیه کے ساتھ ہو بر خلاف تخصیص و تقید کے بر خلاف که ایک امر رائج ہے فقط ایک گروه ہے جس نے ایک صورت کو مستثنیٰ کی ہے اور کها ہے که خبر واحد کے ذریعے حکم قرآن کا نسخ کرنا صرف حیات پیغمبر(ص)میں جائز ہے-(۹) ۔

علامه حلی S نے منتهی میں کها ہے که :دلیل قطعی ( چاہے وه قرآن ہو یا سنت متواتر ) کو خبر واحد کے ذریعے نسخ کرنا جائز نهیں ہےکیونکه دلیل قطعی خبر واحد سے اقوی ہے پس خبر واحد اور دلیل قطعی کے تعارض کی صورت میں دلیل قطعی پر عمل کرنامشخص ہے ۔(۱۰)

حدیث کے ذریعه قرآن کی تخصیص و تقیید کا امکان :

اصولاً قرآن حامل کلیات مسائل وذریعه احکام کے کلی مسائل کا حامل ہےاس لئے جزئیات و شرائط شرائط، قیود و احکام کےلئے رسول(ص)خدا کی جانب سے بیان کرده تفسیر کی جانب رجوع کرنا لازمی ہے مثلا نماز کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وه کچھ اس طرح ہے که :

"( وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ ) -(۱۱) "( وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ ) "(۱۲) ( حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ ) "(۱۳)

___________________

۶ .مجادله ، ۱۲/۱۳ .----۷ البیان ، آیة الله خویی، ص ۴۰۳/۳۰۶ .----۸ الاحکام ، فی الاصول الاحکام ،ج۲،ص۱۳۸ .--۹ روضة الناظر ابن قدامه ،ج۱ ،ص۲۲۸

۱۰ منتهی المطلب ،ج۲ ص۲۲۸ .---۱۱ .بقره ، ۴۳

۱۲ بقره ، ۴۵

۱۳ بقره ، ۲۳۸

۸۶

لیکن اس نماز کے انجام دینے کی کیفیت اور اس کے شرائط اس کے اجزاء و موانع اور مستحبات و مکروهات اسی طرح مقدمات او رهزار فروع دیگر که جیسے آیات کے ذریعے حاصل نهیں کیا جاسکتا اگرچه بعض جزئیات کا ذکر ملتاہے جیسے ۔

"( إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ ) "

“جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوںکو دھوؤ اور اپنے سر اور گٹّے تک پیروں کا مسح کرو –(۱۴) ۔

اسی طرح اور بھی آیات که جس میں بعض جزئیات نماز کا ذکر ملتاہے لیکن اس کل کے باوجود وضو اور نماز کے کئی جزئی مسائل ہیں که جسے صرف روایات کی مدد کی روسے ہی حل کیا جاسکتاہے ۔

اسی بنیاد پر یه بحث پیش کی جاتی ہے که کیا خبر واحد کے ذریعه قرآن کے عموم واطلاق و تخصیص یا تقیید لگائی جاسکتی ہے ۔ اگثر فقهائے اسلام نے خبر واحد کے ذریعه تخصیص و تقیید کو ممکن جاناہے صرف اہل سنت کے ایک مختصر گروه نے اسے ممنوع قرار دیاہے ، قاضی ابوبکر باقلانی نے اس مسئله میں توقف کیا اور بعض تفصیل کے قائل ہیں جن میں عیسی ابن ابات نے کها: اگر قرآن کا حکم عام دلیل قطعی ( یعنی قرآن خبر متواتر اور دلیل عقلی قطعی وغیره ) کےذریعه تخصیص پاچکا ہو تو ایسے حکم کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینا جائز ہے و رنه جائر جائز نهیں ہے،-(۱۵) که خبر واحد کے ذریعه تخصیص و تقید قرآن کے جواز کے بارے میں کها جاسکتاہے که :

بعض آیات میں پیغمبر (ص)کو مبین قرآن م سےتعارف کرایا گیا ہے جیساکه ارشاد ہے :

"( وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ) "

“ آپ کی طرف بھی ذکرکو(قرآن)نازل کیا ہے”-(۱۶)

___________________

۱۴ مائده ، ۶

۱۵ الاحکام ، فی اصول الاحکام ،ج۱ ،ص۵۲۵

۱۶ نحل ، ۴۴

۸۷

یه آیات قرآنی کی تبین و تفسیر میں سخن پیغمبر(ص)کی حجیت پر دلیل ہے چاہے سخن پیغمبر خبر متوا تر کی صورت میں ہو با خبر واحد کی صورت میں چاہے آپ کیا سخن قرآن کے متشابهات قرآن کی تفسیر ہو یا ظواہر قرآن کی تفسیر یں، ہر صورت میں آپ کا قول حجت ہے آپ کی جانب سے لگائی گئی تخصیص و تقیید بھی ایک طرح کی تبیین و تفسیر ہے ۔. اہل بیت کا بیان اور آپ حضرات تفسیر و تبیین پیغمبر سے ملحق او رمعتبر ہیںے ۔ اس الحاق و اعتبار کی دلیل حدیث ثقلین اور دیگر احادیث ہیں اس کے علاوه خود اہل بیت علیهم السلام نے صریحاً کها ہے که ہم جوکچھ بھی کهتے ہیں پیغمبر کی جانب سے کهتے ہیں-(۱۷) اصحاب پیغمبر کی سیرت اور سیرۂمسلمین اس لئے حجت ہے که وه احکام کی جزئیات اور تفصیلات کو ان موثق افراد سے لیتے تھے که جسے پیغمبر سے نقل کیا گیا ہو یهاں پر دو سوال اٹھتے ہیں ۔

۱- قرآن حجت قطعی ہے اور بدون تردید خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے ۔. لیکن خبرو احد تو حجت قطعی ہے اور دلیل قطعی کو غیر قطعی دلیل کے ذریعے مقاائسه کرنا عقلاً جائز نهیں ہے اسی لئے خبر واحد کی وجه سے قرآن کے اطلاقات و عمومات سے هاتھ اٹھا لینا صحیح نهیں ہے ۔

جواب :

اس سوال کا جواب یه ہے که قرآن صدور کے لحاظ سے قطعی ہے لیکن دلالت کے لحاظ سے اس کے عمومات و اطلاقات قطعی نهیں ہیں او راس کی حجیت صرف اس وقت ہے جب حجیت ظواہر کے خلاف کوئی قرینه موجود نه ہو ۔

۲- یه بات پهلے گذرچکی که ( عرض حدیث بر کتاب )والی روایات اقتضا کرتی ہیں جوکچھ قرآن کے خلاف ہو اسے دور هٹادیاجائے پس اگر خبر واحد عموم قرآن کو تخصیص دیتی ہے یه تخصیص قرآن کے خلاف ہے پس ایسی خبرواحد کو چھوڑدیاجانا چاہیے ۔

جواب:

یه ہے که عرف عقلامیں دلیل خاص کو ، دلیل عام کےلئے مخالف و معارض نهیں شمار کیا جاتا بلکه ایسی دلیل کو مبین قرآن اور قرینه شمار کیاجاتاہے اسی لئے جهاں کهیں بھی دو دلیلوں کے در میان عموم و خصوص کی نسبت ہو وهاں پر باب تعارض کے قواعد کو اجرا نهیں کیا جاتا کیونکه ان دلائل کو ایک دوسرے کا معارض شمار نهیں کیا جاتا ۔

____________________

۱۷ کافی ،ج۱ ،ص۵۳

۸۸

اجماع :

اجماع استنباط احکام کی تیسری دلیل ہے یه دلیل اہل سنت کے نزدیک بهت زیاده اہمیت کی حامل ہے ان کی نظر میں خلافت کی مشروعیت کا تعلق اجماع کی مشروعیت پر ہے اس سے پهلے "ترتیب منابع استباط " کی بحث میں ابن تیمیه سے نقل کیا جاچکا ہے که وه دلیل جو مجتهد کو دیگر تمام ادله سے بے نیاز کرتی ہے یهاں تک که کتاب و سنت بھی اس دلیل کی وجه سے منسوخ کی جاسکتی ہیں یا ان کی تأویل کی جاسکتی ہے وه دلیل اجماع ہے ۔

ابن تیمیه کا کهنا ہے :

اہل سنت کے نزدیک اجماع کی اہمیت کی وجه ہی سے انهیں "اہل سنت و الجماعت " کها جاتا ہے –(۱)

لیکن مذهب اہل بیت علیهم السلام کے فقهاء اجماع کے سلسلے میں اہل سنت سے جدا کچھ او رنظریه رکھتے ہیں اہم ابتدا ء میں ا هل سنت کی دلیلوں کو مختصر طور سے بیان کرنے کے بعد اجماع کے سلسلے میں مکتب اہل بیت علیهم السلام کی انظر بیان کریں گے۔(مترجم)(۲)

اجماع اہل سنت کی نظر میں :

اہل سنت نے اجماع کی مختلف تعریفیں کی ہیں بعنوان مثال اجماع یعنی " امام امت اسلامیه کا کسی مسئله پر اتفاق" اہل حل وعقد کا اتفاق –(۳) یا رحلت پیغمبر (ص)کے بعد تمام مجتهدین کا اتفاق-(۴) یا رحلت پیغمبر (ص)کے بعد امت محمد(ص)کے ہم عصر مجتهد ین کا دینی امور میں کسی ایک امر پر اتفاق –(۵) یا اہل حرمین کا متفق ہونا-(۶) ۔

لیکن سوال یه ہے که آخر اجماع او رحکم الهیٰ میں یه کونسا ربط او رکیسا تلازم ہے ؟ کسی طرح بعض یا تمام افراد کا کسی حکم میں اتفاق نظر رکھنا اسے حکم الهیٰ ثابت کرتا ہے ؟ کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے اسے مستقل منبع استنباط شمار کرنا بلکه اجماع کو قرآن وسنت سے بالاتر سمجھنا کهاں تک صحیح ہے ؟ کیا یه ممکن ہے ؟ اور ایسے اجماع کی حجیت پر کیا دلیل ہے؟ اہل سنت نے اجماع کو ایک مستقل دلیل کے عنوان سے اس کی حجیت پر مختلف دلیلیں پیش کی ہیں ان دلائل کا خلاصه یه ہے که قرآن حدیث دونوں سے اجماع کی حجیت ثابت ہے ۔

____________________

۱ مجموع فتاویٰ ، ابن تیمیه ،ج۲ ،ص ۲۴۶

۲ (مترجم)--- ۳ المستصفی ، ج۱ ،ص ۱۷۳ ۳ الاحکام ،ج۱ ،ص۲۵۴ .---۴ تفسیر فخررازی، ج ۹ ، ص ۱۵۰

۵ المهذب ، فی اصول الفقه ، المقارن ،ج۲،ص ۹۰۰ .---۶ انوار الاصول ، ج ۲ ، ص ۳۹۳

۸۹

۱۰- اجماع :

اجماع کی تعریف :

لغت میں اجماع عزم و اراده محکم کو کهتے ہیں جیسا که آیه( قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ ) (۱) اور آیه( ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُواْ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ ) (۲) میں آیاہے اور کبھی اجماع اتفاق رای کے معنی میں آیا ہے جسے اس آیه شریفه میں آیاہے که:( فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ ) “یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں”(۳) لیکن اجماع کے اصطلاحی معنی میں ایسا اختلاف پیدا ہوگیا که اس کی جامع تعریف پیش کرنا ممکن نهیں ہے سوائے اس کے که ہم کهیں اجماع یعنی ایک خاص قسم کا اتفاق جو حکم شرعی کے لئے دلیل بن سکے لیکن یه کن افراد کا اتفاق اجماع میں خصوصیت پیدا کرتاہے جو حکم شرعی کے لئے دلیل بن سکے اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں

۱- سارے امت اسلامی کا تفاق

۲- زمانے میں اس زمانے کے مجتهدین کا اتفاق

۳- اہل مکه اور مدینه کا اتفاق

۴- خلفای راشدین کا اتفاق

۵- اہل مدینه کا اتفاق

۶- شیخیں یعنی ابوبکر، عمر کا اتفاق

۷- اس گروه کا اتفاق جس میں کوئی ایک معصوم ہو

ان اقوال کے پیش نظر اجماع کی حجیت کے اقوال بھی مختلف ہیں اور اس اختلاف کا واضح اثر شیعه فقهاء کی پیش کرده تعریف سے آشکار ہے

____________________

۱- ۱ سوره یونس ، آیه ۷۱.

۲ سوره یوسف ، آیه ۱۰۲

۳ سوره ،یوسف، آِیه ۱۵

۹۰

صاحب معالم R اجماع کی تعریف میں کهتے ہیں :

الاجماع فی الاصطلاح اتفاق خاص وهو اتفاق من یعتبر قوله من الامه

علامه حلی R تهذیب الاصول میں لکھتے ہیں :

الاجمعاع و هو اتفاق اهل الحل و العقد من امة محمد

صاحب قوانین R کا کهنا ہے :

الاجماع هو اجماع جماعت یکشف اتفاقهم عن رای المعصوم

اور شهید صدر فرماتے ہیں :

الاجماع اتفاق عدد کبیر من اهل النظر والتقوی فی الحکم بدرجه توجب احراز الحکم الشرعی

آخری دو تعریفوں کی خصوصیات ہماری مدنظر ہے جو آنے والی مباحث کے دوران آشکار ہوں گی .(مترجم)

حجیت اجما ع پر قرآنی دلیل :(۱) مترجم)

اہل سنت کے نزدیک قرآن قرآں کی کئی آیتیں اجماع کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں جیسے سوره نساء میں خداوند عالم ارشاد فرماتاہے ۔

"( وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا ) "

“اور جو شخص بھی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول سے اختلاف کرے گا اور مومنین کے راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھر گیا ہے اور جہّنم میں جھونک دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے”-(۲) ۔

اس آیت سے وه استدلال کرتے ہیں جس طرح مخالفت پیغمبر (ص)عذاب کا سبب ہے اسی طرح سبیل مؤمنین کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلنا بھی عذاب کا باعث بنے گا اگر ایسا نهیں ہے تو پیغمبر کی مخالفت کے ساتھ مخالفت مؤمنین کاذکر بے مقصد و بے نتیجه ہوگا ۔

____________________

۱ .( مترجم)

۲ نساء ، ۱۱۵

۹۱

ان کی دوسری قرآنی دلیل اسی سوره کی آیت نمبر ۵۹ میں ہے جس میں ارشاد رب العزت ہے که :

"( فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ ) "

“پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو ”-(۳)

. اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کهتے ہیں :

اس آیت کا مفهوم یه ہے که جب مسلمانوں میں اتفاق نظر ہو اور کسی قسم کا نزاع ان کے درمیان نه ہو تو خدا و ر رسول کی جانب رجوع کرنا لازم نهیں پس اس کا مطلب یه ہے ان موارد میں اجماع ہی حجت ہے اور یهی حجیت اجماع کے معنیٰ ہیں-(۴) ۔

.۱۱- حجیت اجماع پرقرآن سے دلیل :

حجیت اجماع پر جودلیلیں پیش کی گئی ان پر قرآن کی سوره نساء کی ایک سوچوده آیتیں ہیں جس کے بارے میں : ابوحامد غزالی نے کها ہے که یهاں مؤمین کی متعابعت سے مراد تمام امور میں بطور مطلق اطاعت واجب ہے بلکه مؤمنین کی متابعت پیامبر کی متعابعت کاہی ادامه ہے اور اس وجه سے واجب ہے

دوسری دلیل : سوره بقره کی ایک سوتنتالیس ویں آیت ہے :

( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ )(۵) “اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو”

____________________

۳ نساء ، ۵۹ .کشاف ، ج۱ ،ص۵۶۵؛ احکام القرآن حصاص ،ج۲ ،ص ۳۹۶

۴ الاحکام فی اصول الاحکام ،ج۱ ،ص ۱۹۸

۵-. سوره بقره ، آیه ، نمبر ۱۴۳

۹۲

صورت استدلال :

امت وسط یعنی وه امت جو اہل خیر وعدالت ہے اور اسی امت سے حق کے علاوه کچھ امید نهیں کی جاسکتی اس لئے ان کا اجماع قطعا حجت ہوگا

شافعی کی جانب نسبت دی گئی ہے که اس نے بھی اس آیت سے اجماع پر استدلال کیا ہے

استدلال کا جواب :

واضح ہے که اہل عدالت اور اہل خیر سے بھی خطا سرزد ہوسکتی ہے چاہے وه تنها ہوں یا باہم اتفاق رکھتے ہوں.

تیسری آیت سوره آل عمران کی ایک سودسویں آیت ہے:( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ) (۲) “تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو”

صورت استدلال :

امت اسلامی بهترین امت شمار ہوتی ہے اور یه اس بات کی دلیل ہے که یه امت خطا سے دور ہے

جواب :

امت اسلامی کی برتری امربالمعروف و نهی از منکر کے فریضه کو انجام دینے سے ہے اس سے اجماع کی عصمت ثابت نهیں ہوتی یه آیات مهم ترین آیات تھیں جو ممکن ہے بعض کے نزدیک اجماع کی حجیت کے لئے مستقل منبع ہو لیکن جیساکه اہل سنت بھی اعتراف کرتے ہیں ان میں سے کوئی آیت اپنے مدعی کے اثبات کے لئے کافی نهیں ہے.(مترجم)

____________________

۲ سوره آل عمران ، آیه ۱۱۰

۹۳

حجیت اجماع پر روایی دلیل :

اہل سنت سنن ابن ابی ماجه کی ایک مشهور و معروف روایت کو حجیت اجماع کے اثبات میں پیش کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (ص)کا ارشادهے ۔

ان امتی لاتجتمع علی ضلالة ”.(۱)

“بے شک میری امت گمراہی پر جمع نهیں ہوسکتی ” ۔

ایک اور نقل کے حساب سے آیا ہے که آپ نے فرمایا:

سئلت الله ان لایجمع امتی علی ضلالة فاعطانیها ”۔(۲)

“میں نے خدا سے دعا کی که میری امت گمراہی پر جمع نه ہو خدانے میری اس دعا کو مستجاب قرار دیا”۔

ان دو احادیث سے انهوں نے حجیت اجماع پر استدلال کیا ہے ۔

مخالفین اجماع کا جواب :

لیکن مخالفین اجماع نے اس سے مستقل دلیل ماننے سے انکار کرتے ہوئے مذکوره تمام دلائل کو مورد تنقید و قرار دیا ہے اور کها ہے که پهلی آیهء کریمه میں مخالفت پیغمبر اور سبیل مؤمنین سے انحراف کی جانب اشاره دو چیزکی جانب اشاره نهیں ہے بلکه راہ مؤمنین سے انحراف اسی مخالفت پیغمبر کی تاکید ہے پس مؤمنین کا راسته کوئی مستقل چیز نهیں ہے کیونکه مؤمنین اسی راسته کو چاہیئے تھےهے جسے پیغمبر (ص)نے بتایا تھا ( یهی جواب غزالی کی کتاب المستصفی میں بھی ملتاہے)-(۳)

اس کے علاوه راہ مؤمنین سے هٹ کر کسی اور راستے پر چلنے سے مراد اسلام و امکاناس کے ارکان کا انکار ہے پس اس آیت کا ربط فقه کے ضروری مسائل سے بالکل بھی نهیں ہے ۔

اگر فرض کرلیا جائے که یه تمام دلائل صحیح ہیں تب بھی قرآن کی رو سے اجماع صرف اس صورت میں حجت ہے که تمام مسلمان بغیر کسی استثناء کے ایک راسته کا انتخاب کریں اور یه چیزوه نهیں جو فقیه کی مشکل حل کرسکے ۔

____________________

۱ وهی مدرک ( سنن ابن ماجه ) ج۲ ،ص ۱۳۰۳

۲ ہمان مدرک ،

۳ المستصفی ،ص۱۳۸

۹۴

رهی بات دوسری آیت کی تو اس آیت میں دستور دیا جارها که اختلاف میں فیصله کو الله اور پیغمبر کے حوالے کردو اور ان سے انصاف چاہو ظاہر ہے که اس مطلب کا فقهی مسائل سے کوئی ربط نهیں ہے ۔

اس کے علاوه اگر اس آیت کی دلالت کو حجیت اجماع کےلئے مان بھی لیاجائے تب بھی یه آیت اس اجماع کا ذکر کررهی ہے جس میں تمام مؤمنین شریک ہوں .لیکن روایت کے سلسلے میں بعض محدثین نے اعتراض کرتے ہوئے کها که اس روایت کی سنت ضعیف ہے اس مطلب کی تفصیل شرح (نووی) جو که صحیح مسلم کی شرح ہے ملے گی-(۱) ۔

روایت کی سند کے علاوه اس کی دلالت میں بھی اشکال ہے کیونکه ضلالت وگمراہی غالبا اصول دین میں انحراف کےلئے استعمال ہوتے ہیں لهذا یه تعبیر اس فقیه کےلئے جو کسی فقهی مسئاله مسئله میں خطاب کاشکار ہے استعمال نهیں ہوتی یه کوئی نهیں کهتا که وه فقیه ضلالت کے راستے پر گامزن ہے ۔

اگر سند ودلالت کے اشکالات سے صرف نظر کریں تب بھی حجیت اجماع و هاں ثابت ہے که جهاں ساری امت کسی امر پر اتفاق نظر رکھتی ہو اور یه مطلب اجماع کی مذکوره تعریفات کے خلاف ہےجیسے کها گیا که اجماع سے مراد اہل مدینه کا یا اہل حل وعقد کاا تفاق ہے ۔

البته علمائے امامیه کهتے ہیں که اگر کسی مسئله پر ساری امت کا اتفاق ہو تو یه اجماع حجت ہے کیونکه وه معصوم کو کا امت کا جزء مانتے ہیں اور امت کی برترین فرد مانتے ہیں یهاں تک که علمائے امامیه کے اجماع کو رائے معصوم کےلئے کاشف مانتے ہیں ۔

اجماع امامیه کی نظر میں :

مسلک امامیه کی نظر گذشته مطالب سے واضح ہوچکی ہے که ان کی نظر میں اجماع ، حکم شرعی کےلئے مستقل دلیل نهیں بن سکتی مگریه که اجماع رائے معصوم کی کاشف ہو یعنی رائے ونظر معصوم کو کشف کرتی ہو اس لئے که ۔

اولا : تمام فقهاء امامیه بالاتفاق خود کو ائمه علیهم السلام کے پیروکار جانتے ہیں اور کبھی بنا بغیردلیل کے بات نهیں کرتے پس اسکا مطلب یه ہے که وه ہر بات امام کی رائے کے مطابق کرتے ہیں پس فقهاء کا اجماع بھی رائے معصوم کا کاشف ہوگا ۔

ثانیا: فقهاء کے اجماع سے فقیه کو رائے معصوم کا یقین کی حدتک گمان پیدا ہوجاتا ہے کیونکه جب ایک فقیه کا فتویٰ دوسرے فقیه کےلئے حکم شرعی کا گمان پیدا کرتا ہے تو بھلا تمام فقیهوں کا فتویٰ کیسے یقین آور نه ہوگا ۔

____________________

۱ شرح صحیح مسلم ، نووی ، ج۱۳ ، ص ۶۷

۹۵

ثالثا: جهاں کسی حکم پر کوئی مدرک ( یعنی دلیل شرعی یا اصل ) ہمارے پاس نه ہو ایسے مقام پر علماء کا اجماع علماء اس بات کی دلیل ہے که ان کے پاس اس حکم کی کوئی معتبر دلیل ہے اور اس سے معلوم ہوتاہے که فقها نے اس حکم کو بلا واسطه یا ان وسائط سے جو ہم تک نهیں پهنچے امام معصوم علیهم السلام سے لیا ہے ۔یهاں تک بعض دانشمند سابقه فقهاء کے درمیان کسی مسئله کی شهرت کو اسی اجماع کے ذریعه حجت شمار کرتے ہیں اس بات کی طرف توجه ضروری ہے که اگر علمائے امامیه اس اجماع کو اجماع حدسی سے تعبیر کرتے ہیں اس کا مطلب یه نهیں ہے که یهاں حدس به معنای ظن وگمان ہو بلکه یهاں حدس سے مراد یه وه علم ویقین ہے جو حس اور ائمه علیهم السلام کے مشاہده سے حاصل نهیں ہوا بلکه علماء کے اجماع سے حدس یقینی پیدا ہوا ہے ۔

دلیل عقل :

استنباط کا چوتھا منبع اور چوتھی دلیل اجمالی طور پر سبھی کےلئے مورد اتفاق ہے دلیل عقل ہے اگر چه دلیل عقل کے بارے میں فقهائے اسلام کا موقف یکسان یکساں نهیں ۔ مترجم(۱)

توضیح مطلب :

اہل سنت کے درمیان استباط کے دو نمایاں شیوه پائے جاتے ہیں جسے اصحاب حدیث اور اصحاب رائے کے عنوان سے ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتاہے ۔

یه دو گروه ایک دوسرےکےشیوۂ اسنتباط اور روش ومسلک کو غلط جانتے ہیں ہر ایک دوسرے مسلک کو باطل کرتا اور ایک دوسرے کو سرزنش کرتا نظر آتا ہے ۔

گروه اول : اصحاب حدیث :

اصحاب حدیث کے نزدیک استنباط میں اصلی تکیه گاہ ادله نقلی ہیں –(۲) خاص طور سے حدیث ، سلف صالح کی سیرت اور قول صحابه ( البته سیرت وقول صحابه کو حدیث ہی کی جانب لوٹا یا جاتا ہے )

دوسرا گروه : اصحاب رائے :

اس گروه کا خیال ہے که فقهی نیاز مندیوں کےلئے احادیث کی مقدار کم ہے اور تما م مسائل کی جواب دهی کے لئے ناکافی ہے اس لئے کوئی چاره نهیں سوائے یه که ہم استنباط احکام میں کتاب و سنت کے علاوه دوسری دلیلوں پر بھی تکیه کریں ۔

____________________

۱ .( مترجم)

۲ تاویل مختلف الحدیث ، ص ۵۱

۹۶

کها جاتا ہے که ابو حنیفه کے نزدیک رسول خدا (ص)سے روایت شده احادیث میں صرف ۱۷ حدیثیں قابل اعتماد تھیں –(۳) اسی لئے ا ن کے نزدیک ادله احکام او رمنابع استنباط چار ہیں ۔

۱- کتاب

۲- سنت

۳- اجماع

ان تین منابع کے بعد چوتھی دلیل اور منبع قیاس ہے-(۴) اسی کو بعض نے قیاس و اجتهاد-(۵) تو کسی نے العقل و استصحاب سے تعبیر کیا ہے-(۶) ہماری نظر میں اہل سنت دلیل عقلی کو قیاس اور استحسان وغیره کا مترادف مانتے ہیں-(۷) ُ

اہل سنت نے اصول فقه میں عقلی مسائل کو تحلیلی او رمنظم طریقه سے پیش نهیں کیا جب که یه مباحث استنباط میں دخیل ہیں متاخرین شیعه نے جن عقلی مباحث کو اپنی اصول کی کتابوں میں منظم اور مرتب طریقه سے یپش کیا اور وسیع پیمانه پر ان کی چھان بین کی وهی مطالب مختصر اور پراکنده طور پر اہل سنت نے اپنی اصول کی کتابوں میں بیان کیئے ہے مثال کے طور پر وه بھی حسن و قبح افعال کا حسن اور قبح ہونا اصل اباحه وجوب مقدمه واجب اجتماع امر ونهی کا محال ہونا یا سقوط حرج از خلق سے حرج کا ساقط ہونا اور سقوط تکلیف از عاجز سے تکلیف کا ساقط ہونا عاجز وغیره ہے یا غافل و ناسی کا مکلف ہونا محال ہے اس قسم کے عقل مباحث عقل ان کی کتابوں میں پراکنده طور پر پائے جاتے ہیں ان کی کتابوں میں ہمیں یه عبارات ملتی ہیں:

۱-المعتزله یقولون بحسن الافعال و قبحها

۲-جامعة من المعتزله یقولون بان الافعال علی الاباحه

۳-مالایتم الواجب الابه هل یوصف بالوجوب

۴-یحتمل ان یکون الشئی واجبا و حراما

۵-استحالة تکلیف الغافل و الناسی

____________________

۳ تاریخ ابن خلدون ،ج۲ ، ص۲ ، ص ۷۹۶ ، فصل ششم علوم حدیث .---۴ فواتح الرحموت ، ج۲ ، ص ۲۴۶ ، المذهب فی اصول الفقه المقارن ، ج ۲ ، ص ۹۵۶

۵ المعتمد فی اصول الفقه ، بصری معتزلی ،ج ۲ ، ص ۱۸۹

۶ المتصفی ، ج ۱ ، ص ۲۱۷ .---۷ للددله العقلیه و علاقتها بالنفطیه

۹۷

دلیل عقلی فقهی منابع میں سے ایک منبع :

شیعوں کے نزدیک دلیل عقلی اہل سنت کی دلیل قیاس سے الگ ہے کیونکه قیاس دلیل عقلی تو ہے لیکن ظنی ہے اور شیعوں کے نزدیک دلیل عقلی فقط قطعی میں منحصر ہے دلیل عقلی کے تاریخچه سے پته چلتاہے که فقیه کے نزدیک یه دلیل لفظی یا اصول عملی سے بالکل الگ ہے بلکه فقهاء تو عقل کو ایک دلیل عام مانتے ہوئے اس سے کبھی مباحث الفاظ کے ضمن میں تو کبھی قیاس و استصحاب کے ضمن میں کام لیتے ہیں

شیخ مفید (رح)م۴۱۳ ھ اپنے مختصر اصولی رساله میں کتاب وسنت رسول(ص) و ائمه معصومیں علیهم السلام کو اصول احکام شمار کرتے ہیں اور عقل کو ان اصول تک پهنچنے کا راسته بتاتے ہیں

شیخ مفید (رح) کی بات سے یه سمجھ میں آتاہے که فقهی منابع صرف کتاب اور سنت رسول اور سنت ائمه معصومیں ہیں اور عقل کا شمار فقهی منابع میں نهیں ہوتا بلکه اس کی حیثیت صرف ان منابع کو کشف کرنے کی حدتک ہے

شیخ طوسی م۴۶۰ ھ عدۀ الاصول میں عقل کے بارے میں فرماتے ہیں که شکر منعم محسنات عقلی اور ظلم و کذب عقلی قباحتوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن عقل کا حکم شرعی کے لئے دلیل واقع ہونا یه بات ان کے کلام سے واضح نهیں ہوتی

ابن ادریس م۵۹۸ھ۵شاید وه پهلے فقیه امامی ہیں که جنهوں نے کامل صراحت کے ساتھ عقل کو کتب و سنت کی صف میں شمار کرتے ہوئے اسے منابع فقهی کا جز شمار کیا ہے لیکن انهوں نے سرائر کے مقدمه میں دلالت عقل اور اس کی حجیت کے دائره کے بارے میں کوئی بات نهیں کی

محقق حلیم۶۷۶ھ نے اپنی کتاب المعتبر میں دلیل عقلی کی دوقسمیں بیان کی ہے

ایک وه دلیل جو مستقلات عقلی سے مربوط ہے جیسے عدل کی اچھائی اور ظلم کی قباحت

دوسری دلیل نقل الفاظ و مفاہیم کے باب سے مربوط ہے البته ان کی تقسیم بندی بهت زیاده اہمیت کی حامل ہے

شهید اول (رح)م۷۸۶ھ نے بھی کتاب ذکری کے مقدمه میں محقق حلی کی ان دوقسموں کو نقل کرنے کے بعد مسئله ضد اور مقدمه واجب منفعت میں جاری اصل اباحه اور حرمت مضار کو پهلی قسم میں شمار کیا اور برائت اصلی و استصحاب کو دوسری قسم میں ،یهاں بھی ملاحظ کیا جاسکتاہے که دلیل عقلی کے مصادیق کی تشخیص میں اشتباہات ہوئے ان کی توضیح بعد میں آئے گی در کتاب صاحبمعالم(رح)۱ ۱۰۱۱ھ دلیل عقل کے بارے میں کوئی قابل توجه بات نهیں سنی گئی.

۹۸

فاضل تونی (رح)م۱۰۷۱ھ سب سے پهلے شخص ہیں که جنهوں نے تفصیل کے ساتھ دلیل عقل کی بحث کو چھیڑا اور اسے سات قسموں تک پهنچا یا انهوں نے مستقلات عقلیه اور مستقلات غیر عقلیه کو بطور کامل ایک دوسرے سے جدا کیا اور حکم شرعی میں عقل کی دلالت کو پهلی اور دوسری قسم میں اچھی طرح توضیح دی .اس طرح کها جاسکتاہے که ان کے بعد دلیل عقلی کی بحث کامل طور پر واضح ہوئی فاضل تونی (رح) اخباریوں کے عروج کے دور سے گذررهے تھے اور دیکھ رهے تھے که اخباریوں کی جناب سےعقل کے خلاف اور احکام شرعی میں عقل سے کام لئے جانے پر شدید اعتراضات ہورهے ہیں جس کی وجه دلیل عقلی کے بارے میں وه ابهامات ہیں جو شیعه دانشمندان کے بیان میں پائے جاتے ہیں اسی لئے فاضل تونی (رح) کی جانب سے الوافیه میں اعلی سطح پر بیان شده مباحث عقل کے لئے داد دینا چاہئیے کیونکه انهوں نےکافی حدتک بحث عقلی کے ابهامات کو بر طرف کیا

فاضل تونی (رح) کے بعد میرزقمی (رح)م۱۲۳۱ ھ نے قوانین الاصول میں اور صاحب حدائق نے اپنے مقدمه میں دلیل عقلی کوبیان تو کیا لیکن اس کے بارے میں دل پر بحث نهیں کی اورشیخ انصاری R و آخوند خراسانی(رح) نے بھی اپنی کتابوں میں کوئی نیاباب اس مسئله میں نهیں کھولا بلکه متقدمین کی روش پر مستقلات غیر عقلیه کے اکثر مباحث کو الفاظ کے باب میں داخل کردیا

شیخ محمد حسین اصفهانی (رح)م۱۲۵۰ھ نے الفصول الغرویه میں دلیل عقلی میں مستقل باب کھول کر اس پر سیر حاصل بحث کی ہے

سب سے بهترین کتاب که جس میں دلیل عقلی کی بحث کو بخوبی بیان کیاگیا وه مرحوم محمدرضا مظفر(رح) کی اصول مظفر ہے وه متقدمین کے آثار کے درمیان کتاب المحصول اثر سید محسن اعراجی کاظمی م۱۲۲۷ ھ میں بیان شده مباحث عقلی اور خود مرحوم مظفر(رح) کے شاگرد شیخ محمد تقی اصفهانی (رح) م۱۲۴۸ ھ نے جو مباحث معالم الدین کے حاشیه میں موسوم جو ہدایۀ المسترشدین میں پیش کئے ہیں انهیں بهتر اور لائق تحسین جانا ہے اصول مظفر کے بعد حلقات الاصول میں شهید صدر (رح)نے ادله عقلی کو بهترین انداز میں پیش کیا پھر بھی مستقلات عقلیه سے مربوط مباحث مرحوم مظفر کی کتاب میں زیاده روشن ہیں اور شهید صدر (رح) کا کمال مستقلات غیر عقلیه کے باب کے باب میں بے نظرهے

۹۹

دلیل عقلی کی تعریف :

دلیل عقلی کی دقیق تعریف بھی علم اصول کے تکامل کا نتیجه ہے البته دلیل عقلی کی ابھی کوئی مشهور جامع تعریف نهیں پیش کی گئی اسی لئے یهاں دلیل عقلی کی اہم ترین تعریف پر اجمالی طور پر نظر ڈالتے ہیں او ران کی خصوصیات میں وارد ہوئے بغیر فقط تعریف پر اکتفا کرتے ہیں.

قوانین الاصول میں میرزا ی قمی کی تعریف :

هو حکمی عقلی یوصل به الی الحکم الشرعی و ینتقل من العلم بالحکم العقلی الی العلم بالحکم الشرعی ”.

تعریف صاحب فصول :

کل حکم عقلی یمکن التوصل بصحیح النظر الی حکم شرعی

تعریف مرحوم مظفر :

کل حکم للعقل یوجب القطع بالحکم الشرعی او کل قضیة یتوصل بها الی العلم القطعی بالحکم الشرعی ”.

ان مذکوره تعریفوں میں آخری دو تعریفین ہماری توجه کا مرکز ہیں

عقل کے با ب میں تشیع کا مسلک تشیع د اور موقف با ب عقل :

ابتداء میں لازم ہے که فقهائے اہل بیت علیهم السلام کے ردمیان عقلی مباحث کا تاریخچه او راس کے سیر و تحول پر سرسری نگاہ ڈالی جائے پھر اس سلسلے میں شیعوں کی آخری تحقیقات کو پیش کیا جائے ۔

بعض متقدمین نے دلیل عقلی کی بحث کو پیش ہی نهیں کیا اور جنهوں نے پیش کیا ہے :

اولا : ان کی عبارات میں ابهام پایا جاتاہے اور یه مشخص نهیں ہو جاتا که آخر استنباط میں عقل کا مقام اور اس مقام کیا ہے کیونکه بعض متقدمین عقل کو قرآن وسنت کے سمجھنے کا ذریعه ارور بعض دیگر منابع ا ستنباط کی طرح اسے مستقل منبع استنباط قرار دیتے ہیں –(۱) مگر اس شرط کے ساتھ که عقل ،کتاب و سنت و اجماع کے طول میں ہو نه که عرض میں یعنی جب مذکوره تین دلیلیں مفقود ہوں تب دلیل عقل کی نوبت آتی ہے-(۲) ۔

____________________

۱ اوائل المقالات شیخ مفید ، ص۱۱، کنزالفوائد کراجکی ،ص ۱۸۶

۲ .سرائر ابن ادریس ، ص۲

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(1)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (2)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (3)

--------------

( 1 ) سورہ سجدہ آیت 18

( 2 )سورہ واقعہ آیت 10 ۔ 11

( 3 )سورہ انفال آیت 72

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (1)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (2) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (3)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

1۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

2۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 247

( 2 )سورہ مریم آیت 28

( 3 )سورہ نساء آیت 95

۱۲۲

3۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

4۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

5۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

6۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت 56:

(56) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت 57:

(57) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(1) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( 1 )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(1) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (2)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (3)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (4)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (5)

--------------

( 1 )تفسیر نور الثقلین.

( 2 )سورہ اعلیٰ آیت 17

( 3 )سورہ بقرہ آیت 184

( 4 )سورہ حج آیت 36

( 5 )سورہ اعراف آیت 26

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (1)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (2)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (3)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (4)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (5)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (6)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (7)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 216

( 2 )سورہ زمر آیت 34

( 3 )سورہ فرقان آیت 16

( 4 )سورہ زمر آیت 74

( 5 )سورہ زمر آیت 10

( 6 )سورہ واقعہ آیت 19

( 7 )سورہ بقرہ آیت 112

۱۲۶

پیام:

1۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

2۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

3۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

4۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

5۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

6۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

7۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

8۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

9۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

10۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

11۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

12۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

13۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

14۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

15۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

16۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت 58:

(58) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً 20 بیس سے تیس 30 سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(1)

--------------

( 1 )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

1۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

2۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

3۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت 59:

(59) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(1)

--------------

( 1 )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت 72 ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت 155 ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت 89 ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت 30 ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت 109

۱۳۱

پیام:

1۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

2۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

3۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

4۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

5۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

6۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

7۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

8۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت 60:

(60) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

1۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

2۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

3۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

4۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت 61:

(61)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت 62:

(62) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

1۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

2۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

3۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

4۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

5۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

6۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

7۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت 63:

(63) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

1۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

2۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

3۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

4۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

5۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت 64:

(64) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

1۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

2۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

3۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

4۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

5۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

1۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

2۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

3۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

4۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (1) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

5۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت 65:

(65)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( 1 )آیت نمبر 12 میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152