جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں0%

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: توحید

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 7408
ڈاؤنلوڈ: 2982

تبصرے:

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7408 / ڈاؤنلوڈ: 2982
سائز سائز سائز
جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

مسئلہ جبر و اختیار میں قائم شدہ نظریات :

بعض لوگ جبر مطلق کے قائل ہوئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کسی بھی کام کو انجام دینے اور نہ دینے میں مختار اور آزاد نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس پر کوئی مسئولیت اور ذمہ داری بھی نہیں آئے گی ۔

جدید مادیوں کا نظریہ : انسان سے فعل کا صادر ہونا جبری ہے لیکن انسان کے مجبور ہونے کے باوجود تکلیف اور ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔

ضرورت علت و معلول کے منکرین کا نظریہ: جیسا کہ بعض فیزیکس دان اور فیلسوف کا کہنا ہے کہ کوئی ضرورت یا وجوب اس کائنات پر مؤثر نہیں ہے ۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ افعال انسان پر بھی وجوب یا ضرورت حاکم نہیں ہے۔یعنی کسی واجب الوجود کی ضرورت نہیں۔

بعض متکلمین اوراصولیین کا نظریہ: ان کا کہنا ہے کہ قانون علیت اور معلولیت ، صرف مادہ اور مادیات پر حاکم ہے۔ مثال کے طور پر نفس انسان اور ذات خدا ، اپنے اپنے آثار کی بہ نسبت فاعل ہیں نہ علت۔

بعض نفسیاتی ماہرین کا نظریہ: کسی قسم کی ضرورت ، وجوب اور جبر انسان کے اعمال پر حاکم نہیں ۔ کیونکہ انسان اپنے افعال کو ارادہ کے ساتھ انجام دیتا ہے جو قانون علیت سے آزاد ہے۔

حکمای اسلامی کا نظریہ: یہ نظام ہستی ایک نظام ضروری ہے اور استثناء پذیر نہیں ہے۔ اس کے باوجود انسان اپنے افعال میں مختار اور آزاد ہے۔ اور یہ اختیار و آزادی، ضرورت نظام ہستی سے منافات نہیں رکھتا۔

مندرجہ بالا تقسیمات سے واضح ہوجاتا ہے کہ بعض اختیار کے قائل ہیں اور کچھ لوگ جبر کے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان ایک قدر مشترک بھی موجود ہے وہ یہ ہے: قانون ضرورت علّی و معلولی اور انسان کی مجبوریت کے درمیان اورعدم ضرورت علّی و معلولی و اختیار انسان کے درمیان ملازمہ پایا جاتا ہے۔ منتہا ایک گروہ نے ضرورت علّی و معلولی کو قبول کیا اور اختیار کا منکرہوا ۔ دوسراگروہ اختیار کے قائل ہو ااور ضرورت علّی اور معلولی کا منکر۔ اور ہمار نظریہ بالکل ان دونوں نظرئے کا نقطہ مشترک ہے ۔یعنی ہم نہ کسی قانون ضرورت علّی و معلولی اور مجبوریت انسان کے درمیان ملازمہ کے قائل ہیں اور نہ کسی عدم ضرورت علّی و معلولی اور اختیار انسان کے درمیان ملازمہ کا ۔ بلکہ ہمارا ادعی یہ ہے کہ انسان کے متعلق ضرورت علّی اور معلولی کو علل معدّہ اور افعال اور حرکات کے مخصوص مقدمات کو مدنظر رکھ کر اسے اختیار اور انسان کی آزادی کا مؤید قرار دیتے ہیں۔ او اس ضرورت کا انکار کرنا محدودیت اور انسان سے اختیار اور آزادی کو سلب کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

پس اولا ان بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے تمام اختیاری افعال بھی دوسری ممکنات کی طرح علل اور اسباب کی طرف محتاج ہے۔

ثانیاً انسان کی فعالیتوں اور جمادات کی فعالیتوں میں فرق ہے۔ مثلاً آتش کا لکڑی کو جلانا، اور مقناطیس کا لوہے کو کھینچنا ان کی طبیعت میں ہے اور یہی ایک ہی راہ معین ہے اور اسی ایک راہ سے انحراف کرنے کی اصلاً گنجائش نہیں ہے۔ اسی لئے ان کی فعالیت بھی محدود ہیں۔لیکن جانور اپنی فعالیتوں کو اپنے اختیار اور ارادے کے ساتھ بروی کار لاتے ہیں۔

جبر و اختیار مارکسیزم کی نظر میں

مارکسیزم اصالت جامعہ کے قائل ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان پیکراجتماع کے مختلف اعضاء ہیں اور ان اعضاء (افراد اور اشخاص) کیلئے کوئی استقلال اور اصالت نہیں ہے۔ اسی لئے سرنوشت انسان کو جامعہ معین کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے تمام پہلو ، اجتماعی تحولات اور تبدیلیوں کے ساتھ تشکیل پاتے ہیں۔ اور ہمیشہ جامعہ کے تابع ہیں ۔

نظریہ مارکسیزم پر دو اشکال :

اشکال١۔

تاریخ کو ایک واقعیت عینی اور خاص قوانین کے حامل تصور کیا ہے۔ جبکہ خود مارکسیزم کے نظریے کے مطابق ہر چیز کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے وا حد راستہ ، تجربہ اور آزمائش ہے ۔ در حالیکہ قوانین اور تاریخ حاکم ، قابل تجربہ اور آزمائش نہیں ۔ پس قوانیں کو کہاں سے کشف کئے گئے؟

اشکال ٢۔

اصالت جامعہ کے قائل ہونا او رانسان کو تغییرات اجتماعی کے تانع تصور کرنا بھی واقعیت کے خلاف ہے۔ مارکسیزم کے نظریے کے مطابق انسان کاملاً عدم محض تو نہیں ۔ بلکہ انسان خود وجود استقلالی رکھتا ہے۔ بہت سارے انسان تاریخ بشریت میں گذرے ہیں جنہوں نے مسیر جامعہ کو متغیر کرتے ہوئے انقلاب پیدا کئے ہیں ۔ اور شرائط اجتماع کے مقابلے میں مقاومت اور تلاش کرکے جامعہ کو بہتر اور برتر حالت میں تبدیل کئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوا اصالت فرد کیلئے ہے اور جامعہ واقعیت نہیں رکھتا۔(۱)

جبر و اختیار اشاعرہ کی نظر میں

گروہ متکلمین میں سے اشاعرہ معتقد ہیں کہ فاعل فقط خدا تعالی ہے ۔ خدا بغیر کسی واسطے کے موجودات عالم کو خلق کرتا ہے۔ خدا کے علاوہ کسی بھی مخلوق کیلئے لفظ فاعل کا استعمال کرنا مجازی ہے۔ اگر انسان کسی فعل کو انجام دیتا ہے، آگ لکڑی کو جلاتی ہے اورپانی چیزوں کو تر کرتا ہے تو حقیقت میں یہ سارا کام خدا انجام دے رہا ہے۔ البتہ یہ انسان ،آگ اور پانی اسباب اور علل کا ایک سلسلہ ہے۔ جن کے ذریعے خدا نے عادی طور پر اپنے ارادے کو ظاہر کیا ہے۔ ہم نے ان اسباب کی علت اور وہ موجودات جو ان پر مترتب ہوتی ہیں معلول تصور کیا ہے۔ مثلاً آگ کو علت حرارت تصور کیا ہے درحالیکہ آگ اور حرارت دو جدا گانہ چیزیں ہیں ۔ اور ان دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔اور انسان کے اختیاری افعال بھی افعال الہی میں سے ہے ۔ اور اگر ہم کہتے ہیں کہ اس کام کو میں نے انجام دیا ہے اور میں اس کا فاعل ہوں ، تو یہ تعبیر مجازی ہے۔

دلائل جبریہ:

قرآن

انسان کیلئے افعال اختیاری بے معنی ہے اس بات پر انہوں نے قرآان مجید سے دلیل پیش کی ہے:

١۔( فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَى ) -(۲) - "پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں "

٢۔( أَتَى أَمْرُ اللّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ )(۳) - امر الٰہی آگیا ہے لہذا اب بلاوجہ جلدی نہ مچاؤ کہ خدا ان کے شرک سے پاک و پاکیزہ اور بلند و بالا ہے۔

٣۔( وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) -(۴) - اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے

٤ ۔( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) -(۵) - پیغمبر بیشک آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ان لوگوں سے خوب باخبر ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔

۵ ۔( قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۔(۶)

اے رسول تم یہ بتا دو کہ اے خدا تمام عالم کا مالک تو ہے جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو ہی جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے، ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔

____________________

۱ ۔ غرویان، آموزش عقائد، ص٢٠٧

۲ .انفال ۱۷

۳ ۔ نحل ۱۔

۴ ۔ تکویر ۲۹۔

۵ ۔ قصص ۵۶۔

۶ ۔ آلعمران ۲۶۔


سنت

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا:السعید سعید فی بطن امه والشقی شقی فی بطن امه ۔(۱)

یعنی خوش بخت انسان اپنی ماں کے پیٹ میں سے خوشبخت بن کر اور بدبخت انسان بھی وہاں سے بدبخت بن کر اس دنیا میں آتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اشکال اور دلیل کو کیسے رد کیا جائے۔ ہم خود ان سے پوچھیں گے کہ یہ سعادت یا شقاوت ،ذاتی ہے یا عارضی؟

اگر کہے ذاتی ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ ذاتی ہونے کی صورت میں ان کا ادعی درست تھا۔ لیکن سعادت و شقاوت ایک عارضی شیی ہے جو مقدمات اختیاریہ سے ناشی ہوتی ہے۔جیسے موت اور جلنا کہ خدا نے جلنے کو آگ کااثر قرار دیا اور موت کو زہر کے پینے کا اثر ؛ پس اگر کوئی شخص اپنے آپ کو آگ میں ڈال دے یا کوئی زہر پی لے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ جل جائے اور ہلاک ہوجائے۔ یہ جلنا اور ہلاک ہونا آگ اور زہر کا اثر ہے لیکن کیونکہ اس شخص نے اپنی اختیار سے سبب فراہم کیا ہے۔تویہ شخص قابل مذمت ہوگا۔ کوئی بھی آگ یا زہر کو ملامت نہیں کریگا۔ اور خدا جو ان آثار کا موجد ہے۔ کی طرف نسبت نہیں دیگا۔

اوپر بیان ہوا کہ یہ سعادت و شقاوت جسکی دلیل یہ ہے کہ الذاتی لا یتغیر ۔ درحالیکہ ہم دعا کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ یہ دعائیں مأثور ہیں۔ چنانچہ ماہ رمضان کی تیّسویں رات کی دعا میں پڑھتے ہیں کی :ان کنت من الاشقیاء فامسحنی من الاشقیاء واکتبنی من السعداء فانک قلت فی کتابک المنزل علی نبیّک المرسل یمحوا الله ما یشاء و یثبت و عنده ام الکتاب -(۲)

خدایا اگر مجھے اشقیاء کے دفتر میں شمار کیا ہے تو اس دفتر سے میرا نام مٹا کر سعادت مندوں کی لیسٹ میں لکھ دے۔کیونکہ تو نے خود کہا ہے کہ خدا مٹاتا اور لکھتا ہے۔پس معلوم ہو ااگر شقاوت اور سعادت ذاتی ہوتی تو توبہ کا حکم نہ کرتا کیونکہ توبہ اور بازگشت کا معنی یہی ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوجائے ۔ جبکہ سعادت و شقاوت ذاتی تحول و تغیر پذیر نہیں۔ لیکن خدا نے اپنے بندوں کو توبہ کی طرف تاکید کے ساتھ دعوت دی ہے تاکہ سعادت حاصل کرے۔

ان لوگوں نے مندرجہ ذیل دوآ یتوں سے اپنے اس ادعی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہیں( : يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُواْ فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُواْ فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ ) -(۳) - اس کے بعد جس دن وہ آجائے گا تو کوئی شخص بھی ِذنِ خدا کے بغیر کسی سے بات بھی نہ کرسکے گا -اس دن کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت ۔پس جو لوگ بدبخت ہوں گے وہ جہّنم میں رہیں گے جہاں اُن کے لئے صرف ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی ۔وہ وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تک آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ آپ کا پروردگار نکالنا چاہے کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتا ہے ۔اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ جنت میں ہوں گے اور وہیں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ پروردگار اس کے خلاف چاہے ...یہ خدا کی ایک عطا ہے جو ختم ہونے والی نہیں ہے ۔

رازی نے اس آیت سے جبر گرائی (اشعری) پر استدلال کیا ہے، اور کہا ہے جان لو خدا نے ابھی سے ہی قیامت کے دن بعض افراد کے جہنمی یا بہشتی ہونے کا حکم لگایا ہے کہ فلان سعید ہوگا اور فلان شقی ۔ اور جس چیز کا حکم دے اس کا علم بھی حتماً پہلے سے موجود ہے۔ اور اس کے خلاف ہونا محال ہے ۔ اور اگر یہ محال نہ ہو تو خدا کی خبر جھوٹی ہوگی۔پس سعید کبھی شقی اور شقی کبھی سعید نہیں ہوسکتا ۔ رازی کے بیان میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:

الف: اس نے اپنے استدلال کرنے میں جبر پر اعتماد کیا ہے کہ لوگوں کے بارے میں خدا کو علم ہونے کو انسان مجبور ہونے کا باعث ٹھہرایا ہے۔ اگر رازی کا مقصود یہ ہے تو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ تمام انسانوں کی نسبت خدا کا علم ازلی ، مقام عملی میں انسان کو مجبور نہیں نبا سکتا ۔ کیونکہ علم خدا اس فعل سے متعلق ہے جو انسان سے اختیاری طور پر صادر ہوتا ہے۔

ب: اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ خداوند ابھی حکم لگاتا ہے کہ فلان شخص قیامت کے دن شقی اور فلان شخص سعید ہوگا۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ علم خدا کاشف ہے کہ روز قیامت فلان شخص کی حالت کیا ہوگی؟ اور یہ علم اس فعل ختیاری سے منافات نہیں رکھتا جس کے ذریعے انسان روز قیامت سعیدوں میں شامل ہو یا شقی لوگوں میں؟

دوسری آیت جس سے انہوں نے استدلال کیا ہے ،وہ یہ ہے:( قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ ) -(۴) -۔ وہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ہم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ ہوگئے تھے ۔ پروردگار اب ہمیں جہنمّ سے نکال دے اس کے بعد دوبارہ گناہ کریں تو ہم واقعی ظالم ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شقاوت کو انسان اپنی نفس کی طرف نسبت دے رہا ہے جو خود سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور یہ دلالت کرتی ہے کہ یہ شقاوت اکتسابی امور میں سے ہے۔ کیونکہ خدا نے اس سے پہلی آیت میں سعادت کو لفظ الفلاح سے تعبیر کیا ہے اور شقاوت کو لفظ خسران سے۔ اور ان دونوں کو میزان میں وزن کا ہلکی یا بھاری ہونے کیلئے استعمال کیاہے جو انسان اپنے اختیار سے انجام دیتا ہے۔چنانچہ خدا تعالی نے فرمایا:( فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ) -(۵) - پھر جن کی نیکیوں کا پلہّ بھاری ہوگا وہ کامیاب اور نجات پانے والے ہوں گے ۔اور جن کی نیکیوں کا پلہّ ہلکا ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے اور وہ جہنم ّ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

یعنی سعادت میزان کا وزن بڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اور شقاوت ابدی انسان کیلئےمیزان عمل ہلکا ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔ یہ لوگ جہنم سے نکلنے اور دنیا میں دوبارہ بھیجنے کا خدا سے مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اچھے اعمال انجام دے اور سعادت مندوں کا راستہ اختیار کرلے ،پس اگر انکی شقاوت اور سعادت ذاتی ہوتی اور قابل تغییر نہ ہوتی تو کسب سعادت کیلئے دوبارہ دنیا میں آنے کا مطالبہ نہ کرتا۔

درج ذیل روایت بھی اسی مطلب کو بیان کرتی ہے: مولائی متقیان(ع)حقیقت سعادت اور شقاوت کو مفصل طور پر یوں بیان فرماتے ہیں:حقیقة الشقاء ان یختم الرجل عمله بالسعادة و حقیقة الشقاء ان یختم المرء عمله بالشقاء -(۶) -

یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کی سعادت اور شقاوت اس کے افعال اختیاری کا تابع ہے ۔

____________________

۱ ۔ شیخ صدوق۔ توحید،ج٣،ص٣٥٦۔

۲ ۔ علم الھدی ، معاد و عدل ،ص٣٦۔

۳ ۔ ہود ۱۰۵۔۔۱۰۸۔

۴ ۔ مؤمنون ١٠٦۔١٠۷۔

۵ ۔ مومنون۱۰۲ ۔۱۰۳۔

۶ ۔ بحار،ج٥،ص١٥٤۔

عقل

دلیل عقلی چند مقدے پر مشتمل ہیں:

پہلا مقدمہ: ہرممکنات ، وجود میں آنے کیلئے علت کی طرف محتاج ہیں اور اسی طرح تمام علل معدّہ بھی علت تامہ پر محتاج ہیں۔ دوسرا مقدمہ: علت العلل وہی ذات پاک ہے ۔

تیسرا مقدمہ: معلول کا علت سے جدا ہونا محال ہے۔ اسی طرح افعال انسان بھی مخلوقات خدا میں سے ہے اور خدا سے جدائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک قاعدۂ فلسفی ہے کہ جہاں علت تامہ ہو وہاں اس کا معلول ہونا ضروری ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افعال انسان بھی خدا سے وجود میں آیا ہے نہ خود انسان سے، جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔

دلیل عقلی پر اشکال

ان کی اس دلیل پر کئی اشکالات وارد ہوتی ہیں؛ اولا ً توجو شبہات جبریوں کے زہنوں میں آیات سے پیدا ہوتی ہیں یہ ہے کہ مشیت و ارادہ اور قضا و قدر الہی کے مقابلے میں انسان کو کسی چیز پر اختیار حاصل نہیں، صحیح نہیں کیونکہ ارادۂ خدا اور ارادۂ انسان ایک دوسرے کے طول میں ہے ۔ یہی وجہ ہے ارادۂ الہی جانشین ارادۂ انسان نہیں ہوسکتا۔

ثانیا انسان کا ارادہ علل معدّہ ہے اور فعل انسا ن بھی اس کا معلول ۔ انسان جب ارادہ کرتا ہے تو فعل انجام پاتا ہے ۔ اگر ارادہ نہ کرے توانجام بھی نہیں پاتا ۔ لیکن یہی علت معدّہ (ارادہ) اور معلول (فعل) اور اس کے مبادی سب ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ منتہا اس فعل کی نسبت علت معدّہ(ارادہ) مباشراور ملی ہوئی علت ہے ، اور ارادۂ خداوند علت بعیدہ ہے، لیکن اگر یہی علت بعیدہ نہ ہو تو نہ مرید (ہم) ہونگے نہ کوئی ارادہ ہوگا اور نہ ہی کوئی مراد(فعل) ۔ پس معلوم ہوا ارادۂ انسان تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اور جو بھی کام انجام دیتا ہے اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے۔ اور یہ سلسلۂ نظام ، ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ یہی اس مشکل کا حل کی چابی ہے ۔

عقیدۂ جبریہ باطل کیوں؟

عقیدہ جبریہ باطل ہے کیونکہ ان کے مطابق کافر لوگ پیامبران الہی پر اپنی دلیل اور حجت قائم کرسکتے ہیں کہ خدا نے ہی

ہمیں کافر خلق کیا ہے اور ہم سے کفر چاہا ہے ۔ اور ہم ایمان لانے پر قادر نہیں ہیں ۔ لیکن اگر خدا چاہتا تو ہم بھی ایمان لے آتے ۔

اگر اہل اسلام ، کفار کے ساتھ مناظرہ اور احتجاج کریں اور اسلام کی حقانیت کو منوانا چا ہیں تو جبر کے قول کے مطابق کفار کیلئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ خدا نے ہمیں اسلام میں داخل ہونے سے منع کیا ہے۔ اور ہم مجبور ہیں کہ حالت کفر پر باقی رہیں ۔

چنانچہ ابی بحرخاقانی کے دور شہنشاہیت میں سارے یہودی جمع ہوئے اور خاقانی سے کہنے لگے کہ آپ ایک عادل اور منصف بادشاہ ہے اور اس شہر میں آپ کے علمای دین کہ جن پر آپ کو اعتماد حاصل ہے۔ اس بات کے قائل ہیں کہ ہم یہودی اسلام اور ایمان لانے پر مختار نہیں ہیں ۔ تو آپ کس بنا پر ہم سے جزیہ اور خراج (ٹیکس) لیتے ہیں؟ اور یہ جزیہ لینا آپ کے عدل اور انصاف کے خلاف ہے۔ تو اس بادشاہ نے علمای مجبرہ کو جمع کیا اور یہودیوں کی بات کو ان تک پہنچادی ۔ تو تب کہا ؛ یہودی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ تو بادشاہ نے کہا : کس بنا پر یہ لوگ قادر نہیں ہیں؟! یہ علماء جواب نہ دے سکے ۔تو بادشاہ نے انہیں شہر بدر کردیا ۔ –(۱)

بطلان جبر پر بہلول کا قصہ

ایک دن بہلول کا گذر ابو حنیفہ کے نزدیک سے ہوا جہاں وہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہا تھا ، کہا : یہ جعفر صادق(ع) کا خیال ہے کہ جو بھی فعل بندے سے صادر ہوتا ہے خود اسی کے اختیار سے انجام پاتاہے جبکہ میں اسے نہیں مانتا ۔ کیونکہ ہر وہ فعل جو بندے سے صادر ہوتا ہے وہ خدا انجام دیتا ہے۔ اور جعفر صادق(ع) کہتے ہیں کہ شیطان کو قیامت کے دن آگ میں جلایا جائے گا جبکہ یہ ممکن نہیں کیونکہ شیطان کی جنسیت آگ سے ہے اور آگ آگ کو کیسے جلا سکتا ہے؟! اسی طرح جعفرصادق(ع)کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے جبکہ یہ درست نہیں کیونکہ ہر موجود کو دیکھاجا سکتا ہے لیکن خداوند کوتو دیکھ نہیں سکتا۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔

بہلول یہ سب کچھ سن رہا تھا ۔ ایک ڈھیلہ اٹھا کر ابو حنیفہ کے سر پر دے مارا اور بھاگ نکلا ۔ لیکن لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور خلیفہ کے پاس لے گئے۔ ہارون نے اس سے پوچھا : کیوں اس عالم جلیل کو اذیت دی؟

بہلول نے کہا: یہ اپنے مذہب کے مطابق جھوٹ بول رہا ہے۔ کیونکہ میں نے نہیں مارا بلکہ خدا نے مارا ہے۔ اور اسے کوئی اذیت نہیں دی ہے اور نہ ہی میں نے کوئی صدمہ پہنچایا ہے ۔ کیونکہ اس کی خلقت خاک سے ہوئی ہے اور خاک(ڈھیلہ) جو اس کا ہم جنس ہے کیسے اسے صدمہ پہنچا سکتی ہے؟ اسی طرح اگر درد کا اظہار کر رہا ہے توبھی جھوٹ ہے کیونکہ اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو درد کو ہمیں کھادے ۔ یہ تو خود کہہ رہا تھا کہ خدا اگر موجود ہے تو ہر موجود دیکھنے میں آتا ہے تو خدا کیوں دکھائی نہیں دیتا ۔

ابو حنیفہ سمجھ گیا کہ بہلول نے ایک ڈھیلہ سے تینوں اشکال کا جواب دیا اور اس کی غلطی کو سب پر واضح کردیا ۔ اس وقت ہارون ہنس پڑا اور انہیں چھوڑدیا ۔ –(۲)

اس مناظرے سے آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اگر ہم جبر کے قائل ہوجائیں تو خداوند متعال کو غفور اور رحیم کہنا درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ عفو ودرگذر اس صورت میں ممکن ہے کہ بندہ مختار ہو ۔ اور گناہوں کو ترک کرے جبکہ وہ گناہ کو انجام دے سکتا ہو ۔ مگر یہاں خدا فاعل ہے کس طرح ایک بے گناہ بندے کو عفو کریگا اور بخش دیگا؟ اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا اپنے آپ کو بخش رہا ہے۔

اگر اہل حق اوراہل باطل کے درمیان مناظرہ اور مباحثہ ہوجائے تو قول مجبرہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کی خدا نے خود مناظرہ کیا ہے ۔ کیونکہ مناظرہ فعل ہے اور خدا فاعل ۔ پس خدا ہم محق ہے اور ہم مبطل ۔ کیونکہ مناظرہ میں ایک حق پر ہوتا ہے دوسرا باطل پر۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم بھی ہے اور جاہل بھی! در حالیکہ خدا کی ذات اس چیز سے پاک و منزہ ہے۔

____________________

۱ ۔ سید علم الھدی ؛معاد و عدل ،ص١٠۔

۲ ۔ ہمان ،ص۱۲۔


جبر کے اقسام

١۔ جبر فلسفی

مقدمہ اول:

تمام افعال انسان ،خود انسان کی طرح ممکن الوجود ہے۔

مقدمہ دوم:

تمام ممکن الوجود جب تک حد ضرورت تک نہ پہنچے وجود میں نہیں آسکتا ۔

نتیجہ:

انسان اپنے افعال میں مجبور ہے۔

جواب : اس قاعدہ فلسفی کا مفاد یہ ہے کہ کوئی بھی سانحہ پیش آنے کیلئے علت تامہ کا ہونا ضروری ہے اسی طرح انسان کی اختیاری امور کیلئے بھی ضروری ہے ۔ لیکن افعال اختیاری اور غیر اختیاری میں فرق یہ ہے کہ افعال اختیاری جب تک خود انسان اس عمل کو اختیار نہ کرے اس عمل کی علت بھی محقق نہیں ہوگی ۔ لہذا فعل بھی انجام نہیں پائے گا ۔ پس قاعدہ فلسفی :الشیی لم یجب لم یوجد،کا اس ادعی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔

٢۔ جبر تاریخی

مقدمہ اول:

یہ تاریخی قوانین اوراصول بھی نا قابل انکار ہیں ۔

مقدمہ دوم:

تمام قوانین تاریخی کا پاس رکھنا ہرانسان پر فرض ہے۔

نتیجہ:

پس ہر انسان مجبور ہیں کہ اپنے اپنے کاموں میں قوانین تاریخی کی پیروی کرے۔

جواب: یہ بیان تو نہ صرف دلیل جبر نہیں بلکہ بالکل برعکس اختیار پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ اولاً تاریخ کوئی واقعیت نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک امر انتزاعی ہے۔ثانیاً : تاریخ کا قانون مندی ہونا فقط خیالی ہے ۔ کیونکہ جو چیز خود واقعیت خارجی نہیں رکھتی کس طرح ممکن ہے کہ قوانین خاص کا حامل ہو؟!

اور یہ بھی معلوم ہے کہ روش علمی تجربے پر منحصر ہے ۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے کہ قابل تکرار ہو کہ ایک جگہ تجربہ کرے پھر اسی مشابہ کو دوسری جگہ ۔ تاکہ رابطہ علیت کو کشف کرسکے ۔ اور ایک قانون علمی ثابت ہوسکے ۔ لیکن تاریخ قابل تکرار نہیں ۔ لہذا جبر تاریخی بے بنیاد ہے۔ اور یہ صرف ایک تعبیر ہے کہ جسے دوسروں سے عاریہ لیا ہے ۔

اس قسم کی غیر علمی اور نا قابل اثبات مفروضات کے ذریعے اختیار جیسی ایک بدیہی چیز کو جسے ہر انسان اپنے اندر احساس کرتا ہے اور آیات اور روایات بھی جس کی تائید کرتی ہیں اور ہر اخلاقی اور تربیتی نظام کی بنیاد بھی اسی پر ہو ،نظر انداز نہیں کرسکتا ۔

٣۔ جبر اجتماعی

مقدمہ اول:

جامعہ موجود واقعی ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو ہمیشہ فشار جامعہ کے ماتحت تصور کرتا ہے۔

مقدمہ دوم:

اور خود جامعہ کیلئے خاص قوانین وضع ہوا ہے ۔

نتیجہ:

پس ہر انسان اجتماعی قوانین کی متابعت کرنے پر مجبور ہے۔

جواب: یہ لوگ جامعہ کیلئے وجود حقیقی کے قائل ہیں جبکہ جامعہ کا وجود ایک وجود اعتباری ہے۔ اور خارج میں اجتماع نامی کوئی شییٔ موجود نہیں بلکہ بعض افراد کا جمع ہونے کا نام اجتماع ہے۔ فرض کرلیں کہ آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ جامعہ وجود حقیقی رکھتا ہے اور بعض قوانین بھی اس کیلئے وضع ہوا ہے؛ کس نے کہا کہ انسان ان قوانین پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہے؟!!

٤۔ جبر طبیعی

مقدمہ اول:

طبیعی قوانین ہماری زندگی میں ہماری رفتار و کردار کو تشکیل دیتی ہیں ۔

مقدمہ دوم:

انسان کے اختیاری افعال بھی اثر پذیرہیں۔

نتیجہ:

انسان کے اختیاری افعال بھی قوانین طبیعی کے بغیرباقی نہیں رہتا جس کا لازمہ یہ ہے کہ جبر طبیعی کا انکار نہیں کرسکتا ۔

جواب: انسان کے کچھ خاص غریزوں کو کچھ خاص طبیعی وسائل کے ذریعے ابھارا جا سکتا ہے ۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ انسان مسلوب الاختیار ہو ۔ کیونکہ غرائز طبیعی کو لگام دے سکتا ہے ۔ اس کی بہترین مثال: داستان حضرت یوسف(ع)ہے جو بہت ہی تعجب آور ہے کیونکہ تمام شرائط اور وسائل جیسے جوانی کا عالم، زلیخا کی گناہ آلود خواہشات کو پورا کرنے کیلئے بہترین موقع فراہم ہے ۔ بہترین طریقے سے سجھایا ہوا شہوت آمیز بندکمرہ ، زلیخا جیسی حسین و جمیل عورت کا ننگی ہونا و ۔ ۔ ۔

ان تمام شرائط اور وسائل طبیعی کے باوجود کس طرح حضرت یوسف(ع) نے بدکاری سے دوری اختیار کی؟!!

قرآن مجید فرمارہا ہے:( وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ) ۔ –(۱) -

یعنی اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کرلیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ چکے ہوتے، اس طرح ہوا تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں، کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔

اجزاء علت تامہ قریب تو کامل تھا لیکن وہ برہان خدا دادی جو نورانیت اور پاکیزگی تھی ۔ جسے ہم درک نہیں کرسکتے ، گناہ کبیرہ سے بچنے کا باعث بنا ۔

اس ماجرا میں فقط حضرت یوسف(ع) کی ذات تھی جس نے اس فعل قبیح کو ترک کرنے کا ارادہ کیا ۔ فقط وہی ذات تھی جس نے اپنے اختیار کیساتھ راہ رضای الہی کو انتخاب کیا اور فرمان شیطان کو اپنے سے دور کیا ۔ اب بتاؤ جبر طبیعی کہاں گیا؟!

دوسری مثال :حضرت نوح(ع) کا بیٹا اور حضرت لوط(ع) کی بیوی کو دیکھ تمام شرائط طبیعی ہدایت اللہ کے نبیوں کے گھر میں جہاں وحی الہی نازل ہو کرتی تھی) ہونے کے باوجود گمراہ ہوئے۔ جبکہ حضرت نوح(ع)کے دوسرے تمام بیٹے اپنے پدر بزرگوار کے پیروکار بنے ۔ لیکن یہ ایک سرکش نکلا اور ہلاک ہوا ۔

پس جبر طبیعی کے قائل افراد اس حقیقت کی توجیہ کیسے کرینگے؟!

تیسری مثال: ہمسر فرعون حضرت آسیہ شرائط طبیعی کے لحاظ سے تو ایسے محیط میں زندگی کر رہی تھی کہ دنیا کی ساری دولت ان کے قدموں تلے موجود تھی ۔ اور شوہر کہ جو اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا ۔ پھر بھی نہ دنیا کے زرق و برق اسے راہ خدا سے بھٹکا سکے اورنہ فرعون جیسا کافر شوہر ۔ بلکہ خدا کی راہ میں دنیا کی سختی اور مشقتیں برداشت کرکے خدا سے اس کا صلہ جنت میں محل کی صورت میں مانگ رہی ہے ۔ جس کی قرآن نے یوں تعبیر کی ہے:رب ابن لی عندک بیتا فی الجنة(۲) - یعنی خدایا مجھے اپنے پاس گھر عطا کرے۔ پس جبر اور قوانین طبیعی کے درمیان کوئی لازمہ نہیں جو انسانی زندگی پر اثر انداز ہو سکے۔ –(۳)

____________________

۱ ۔ یوسف ۲۴ ۔

۲ ۔ تحریم ١١.

۳ ۔ غرویاں، آموزش عقائد،ج١،ص٢٠٥.