جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں40%

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: توحید

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8649 / ڈاؤنلوڈ: 4659
سائز سائز سائز
جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں

جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

تتمہ : اشکالات اور شبہات

جبر و اختیار پر مختلف قسم کے اشکالات وارد ہوئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

١۔ کیا نازیبا افعال کے انجام دینے میں بھی ارادہ ٔخدا شامل ہے؟!

اختیار انسان کو اختیار خدا کے ماتحت ثابت کرنے کے بعد ذہن میں یہ خطور پید اہوتا ہے کہ انسان جو برے افعال انجام دیتا ہے اس میں ارادہ خدا شامل ہے؟

جواب: نہیں ایسا نہیں ۔ بلکہ شرور ، برائیاں ، گناہ ، ظلم و۔ ۔ ۔ بندہ کی جانب سے ہیں نہ خدا کی طرف سے۔ چنانچہ آیات اور روایات اس بات پر گواہ ہے ۔

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ )(۱) - ۔

جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو اِرا دہ کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔

روایت امامرضا(ع) : ابن وزاء نے امام سے نقل کیا ہے کہ : خدا نے کہا اے اولاد آدم! جو برے اور نازیبا افعال انجام دیتے ہو جس کا مجھ سے زیادہ تو سزاوار ہے اور جو اچھے اور زیبا افعال نجام دیتے ہو تم سے زیادہ میں سزاوار ہوں دیکھنے میں یہ ایک کوتاہ جملہ ہے لیکن یہ علم و معرفت کا ایک سمندر ہے ۔ شرور اور برائیاں ، امر عدمی میں سے ہیں جونفسانی ماہیات سے پیدا ہوتی ہیں نہ اصل وجود سے ۔ کیونکہ اصل وجود تو خیر محض ہے وجود اور خیر مساوی ہے لیکن عدم اور شر عموم و خصوص مطلق ہے ۔اور خدا خالق خیر ہے نہ خالق شر۔ یہ برائیاں کج فکری ، تجری اور گناہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جن کا ٹھکانا جھنم ہوگا-(۲)

مفہوم خیر صرف امر وجودی میں پایا جاتا ہے لیکن وجود خیر کو علت اور معلول کے ساتھ مقایسہ کرے ۔ کیونکہ علت اور معلول کے درمیان سنخیت شرط ہے ۔ پس اگر اصل وجود خیر ہے تو اس کی علت (خدا ) کوتمام خوبیوں کا منبع ہوناچاہئے ۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ شر عدمی ہے اگر عدمی نہ ہو تو تمام موجودات خیر نہیں ہوسکتیں ۔ اس کا لازمہ یہ گوگا کہ خیر ہونا وجود کا لازمہ نہیں ہوسکتا ۔ در حالیکہ علم فلسفہ میں ایک مسلمہ اصل ہے ہر وجود برابر ہے اچھائی کے ۔(۳) -

حضرت علی(ع) اور غازی کے درمیان مناظرہ

جب امیر المؤمنین (ع) جنگ صفین سے اپنے لشکر کیساتھ واپس آرہے تھے تو ایک سپاہی نے کہا: یا امیرالمؤمنین (ع) یہ بتائیں کہ شامیوں کیساتھ کیا ہماری جنگ قضاء و قدر کا نتیجہ تھا؟!

امام(ع)نے فرمایا: ہاں۔

سپاہی : پس یہ ساری مشقتیں جو ہم نے جنگ میں برداشت کی ہیں ان کا کوئی فائدہ اور اجرو ثواب نہیں ہے ؟

امام(ع) : نہیں ا یسا نہیں بلکہ خدا وند ہمیں اجر و ثواب عطا کرے گا۔ کیونکہ تمھیں کسی نے مجبورنہیں کیا ہے ۔ شاید تم نے خیال کیا ہے کہ الہی قضا و قدر لازم نے تمہیں اس حرکت پر مجبور کیا ہے! اگر ایسا ہوتوثواب و عقاب ، وعدہ وعید ، امر ونہی کرنا سب لغو اور باطل ہوگا ۔ اور یہ عقیدہ شیطان صفت افراد اور دشمنان خدا کا عقیدہ ہے۔ خدا نے کبھی تکلیف مالا یطاق وضع نہیں کی:لا یکلف اللہ نفساً الّا وسعھا اور کسی کو اپنی عبادت اور بندگی کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔ اور کبھی قرآن اور رسول کو بے ہودہ نازل نہیں کیا ۔ اس کے بعد قرآن کی اس آیت کی تلاوت کی : وقضی ربک ان لا تعبدوا الا ایاہ ۔یہ سن کر شامی کو اتنی خوشی ہوئی کہ درج ذیل اشعار کو پڑھتے ہوئے اٹھے:

انت الامام الذی نرجوا بطاعته

یوم النشورمن الرحمن رضوانا

اوضحت من دیننا ما کان ملتبسا

جزاک ربک عنا فیه احسانا –(۴) -

____________________

۱ ۔ فصلت ٤٦

۲ ۔ معاد شناسی،ج١٠،ص٢٦٦۔

۳ ۔ دہ مقالہ مبداء ومعاد،ص٢٣٣۔

۴ ۔ بحار ،ج٥،ص٩٦ ۔

امام صادق(ع) اور کافرکے درمیان مناظرہ

حشام روایت کرتے ہیں کہ ایک کافر نے امام صادق (ع)سے سوال کیا: خدا نے کیوں تمام انسانوں کو اپنا مطیع اور مؤحد خلق نہیں کیا ؟ باوجود یکہ خدا اس چیز پر قادر تھا ۔

امام(ع) : اگر کسی کو مطیع خلق کرتا تو اسے ثواب نہیں ملتا ۔ کیونکہ اس کی اطاعت کرنا خود انسان کے اختیار میں نہیں اور بہشت و جہنم کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔ لیکن انہیں خلق کرکے اطاعت اور بندگی کا دستور دیا ۔ اور مخالفت کرنے سے منع فرمایا ۔ ارسال رسل اور انزال کتب کے ذریعے حجت تمام کردی ۔ اور ہر قسم کے بہانے کے سارے راستے کو مسدود کردیا ۔

کافر: کیا بندہ کا جو اچھا اعمل اس کا ہے تو بر اعمل بھی اسی کا ہے؟

امام(ع) : نیک کاموں کو بندہ انجام دیتا ہے ۔ جس کا خدا وند نے حکم دیا ہے ۔ اور برے کاموں کو بھی بندہ انجام دیتا ہے لیکن خدا نے اسے اپنی طرف نسبت دینے سے گریز کیا ہے۔

کافر: کیا برے اعمال کو بھی انہی اعضاء و جوارح سے انجام نہیں دیتا جسے خدا نے ترکیب دیا ہے۔؟

امام(ع) :کیوں نہیں ۔ لیکن جن اعضاء و جوارح سے اچھے اعمال انجام دیتا ہے ، انہیں سے برے اعمال بھی انجام دینے پر قادر ہیں ۔ لیکن اس سے خدا نے منع کیا ہے۔

کافر : کیا بندہ کیلئے اختیار حاصل ہے ؟

امام(ع) : کسی بھی کام سے اسے منع نہیں کیا مگر یہ کہ ترک کرنے پر قدرت رکھتا ہو ۔ اور کسی کام کے انجام دینے کا حکم اس وقت تک نہیں دیا کہ جب تک انجام دینے پر قادر نہ ہو ۔ کیونکہ خداوند عادل ہے ظالم نہیں:

( لا یکلف الله نفسا الّا وسعها ) ۔

کافر: اگر کسی کو کافر خلق کیا تو کیا اس میں ایمان لانے کی قدرت پائی جاتی ہے؟ اور کیا خداوند قیامت کے دن مؤاخذہ کر سکتا ہے کہ تم نے ایمان کیوں نہیں لایا؟

امام(ع): تمام انسانوں کو خدا نے مسلمان خلق کیا ہے ، کفر منحرف ہونے کے بعد کا نام ہے۔ اور کفر کا مرحلہ حد بلوغ تک پہنچنے اور حجیت تمام ہونے کے بعد آتا ہے۔

اشکال :ہدایت اور ضلالت خدا کے ہاتھ میں

اگر انسان اپنے اعمال میں مختار ہے تو ان آیتوں کو کیا کریں گے ۔ جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ہدایت اور ضلالت صرف خدا کے ہاتھ میں ہے :

امام(ع) : یہ عدل الہی کے خلاف ہے کہ اپنے بندہ کیلئے شر کو مقدر کرنے کے بعد اس سے ہاتھ اٹھانے کا حکم دے ۔ جس کو ترک کرنے پر قادر بھی نہ ہو-(۱) - ۔

کافر : ممکن ہے خدا شر کو بندہ کیلئے مقدر کرنے کے بعد اچھائی کی دعوت دے رہا ہو ۔ جبکہ وہ اچھا کام انجام دینے پر قادر نہ ہو۔ اور اس لئے اسے عذاب کرے !( یضل من یشاء ویهدی من یشاء ) ۔

اگر اختیار سے مراد یہ ہے کہ انسان جس نے ہدایت کو اختیار کیا اور ضلالت کو ترک کیا تو اس پر یہ دونوں مفروضہ نہیں ہونا چاہئے :

١۔( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۔-(۲) - اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا اسی کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ لوگوں پر باتوں کو واضح کرسکے اس کے بعد خدا جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے وہ صاحب هعزّت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ۔

٢۔( وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلكِن يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ )(۳) - اور اگر پروردگار چاہتا تو جبراتم سب کو ایک قوم بنادیتا لیکن وہ اختیار دے کر جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچادیتاہے اور تم سے یقینا ان اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا جوتم دنیا میں انجام دے رہے تھے ۔

ہدایت اور ضلالت کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کی تفسیر کو شأن نزول کے ساتھ اگر بیان کرے تو یہ تمام ظاہری تضاد ختم ہوجاتی ہیں ۔ اور ایک ہی معنی پر دلالت کرتی ہیں ۔ کیونکہ بعض آیات کا معنی قرینہ کے ذریعے بدل جاتا ہے اور ایک آیت میں اسی لفظ کئی معنی ہیں۔ دوسری آیت میں کچھ اور ۔ ہم جب تفسیر موضوعی کے اوراق پلٹاتے ہیں اور ساری آیتوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کچھ آیات کو دوسرے آیات کیلئے قرینہ قرار دیتے ہیں تو سب آیتوں کا ایک ہی مقصد بنتا ہے ۔ چنانچہ گذشتہ بحثوں سے واضح ہوا کہ کچھ آیتوں کو جبریوں نے اپنے ادعی پر دلیل کے طور پر پیش کئے اور کچھ آیتوں کو مفوضہ والوں نےاور یہ اختلافات صرف اسی وجہ سے پیدا ہوگئی ہیں کہ صرف ایک دستہ آیات کو لیا ہے ۔ اور دوسرے دستے سے غافل ہوئے ہیں اور اگر دونوں گروہوں کو ساتھ لیتے تو گمراہ نہ ہوتے ۔

____________________

۱ ۔ مناظرات ، ج٢، ص ٢٧٣۔

۲ ۔ ابراہیم٤۔

۳ ۔ نحل٩٣۔


ہدایت الہی کے اقسام

ہدایت الہی دوقسم کے ہیں:

١۔ ہدایت عامہ

آیات قرآنی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کی ہدایت الہی کسی ایک فرد سے مخصوص نہیں بلکہ تمام عالم کون ومکان کیلئے عام ہے ۔ خواہ عاقل ہو یا غیر عاقل ۔ اس ہدایت کو دو ہدایتوں میں خلاصہ کیا گیا ہے ۔

الف: ہدایت عامہ تکوینی:

وہ آیات بتاتی ہیں کہ خدا نے جس چیز کو بھی خلق کیا تو فوراً اسے اس کی غایت اور ہدف کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا : فلان ہدف اور غرض کیلئے تمہیں خلق کیا ۔ چنانچہ موسی کلیم اللہ کی زبان پر جاری کیا :( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى )(۱) - موسٰی نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے۔

ایک دانہ گندم کی مثال لیں کہ جب ہم زمین میں اسے بھوتے ہیں تو وہ اپنی نازک بال کے ذریعے سخت مٹی کو چیرتا ہو اکھلی فضا میں آتا ہے ۔ اور نشو نما پاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک تناور پودے کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اور اپنا ثمرہ دینا شروع کرتا ہے ۔ اسی طرح حیوانات اور انسان بھی ہیں ۔ اور فرمایا:( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىوَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى ) -(۲) - اپنے بلند ترین رب کے نام کی تسبیح کرو ۔ جس نے پیدا کیا ہے اور درست بنایا ہے ۔ جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت دی ہے

یہ آیت بتاتی ہے کی خدا نے ہر شیی کو خلق کیاایک خاص تقدیر کی بنیاد پر پھر ہدایت عامہ بھی عطا کی ۔یہ آیتیں تو عموم ہدایت تکوینی کو ساری موجودات عالم کیلئے ثابت کرتی ہیں لیکن یہاں کچھ اور آیتیں ہیں جو ایک خاص وجود اور خاص ہدایت پر دلالت کرتی ہیں۔مثلا شہد کی مکھی کے بارے میں فرمایا:( وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ )(۳) -

اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ پہاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر بنائے اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے جس کے بعد اس کے شکم سے مختلف قسم کے مشروب برآمد ہوں گے جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفا کا سامان ہے اور اس میں بھی فکر کرنے والی قوم کے لئے ایک نشانی ہے ۔

سبحان اللہ !! یہ آیت تو صاف صاف بیان کر رہی ہے کہ شہد کی مکھی کو خدا نے کس طرح ہدایت اور نصیحت کی ہے کہ کہاں اپنا گھر بنائیں اور کہاں سے تغذیہ کریں ۔ او ریہ سارا اہتمام خدانے کس کیلئے کیا ہے؟ اس انسان ظلوم و جہول کیلئے ، کہ اس شہد میں اس کیلئے دوا اور شفا قرار دیا ہے اور آخر میں فرمایا : اس قوم کیلئے جو خدا کی ان نعمتوں اور حکمتوں میں غور و فکر کرتی ہیں ۔ اس شہد کی مکھی میں بڑی نشانیاں نظر آئیں گی ۔

اور ہدایت بغیر کسی استثناء کے تمام شہد کی مکھیوں کو فرداً فرداً دی گئی ہے ۔ اسی طرح تمام انسانوں کیلئے بھی ہدایت عامہ عطا کی ہے ۔ لیکن زمان و مکان اور ظرفیت کے مطابق کچھ فرق کیساتھ ۔ شہد کی مکھی کو جو ہدایت دی گئی ہے وہ مادی اور معنوی دونوں زندگی سے مربوط ہے۔ چنانچہ فرمایا ؛( أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْن ِوَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ) ۔(۴)

تاکہ وہ ان دو آنکھوں سے حکمت الہی کو دیکھا کرے ۔ اور لبوں کے ذریعے ورد کرے ۔ خیر کا راستہ اور شر کا راستہ بھی بتادے ۔اب یہ انسان اپنی پاک فطرت کے ذریعے حسن و قبح کو جان لیتا ہے اور کسی کے ہاں تلمّذ کرنے سے پہلے اچھائی اور برائی کی تمیز کرسکتا ہے ۔ یہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کے اندر تکویناً ہدایت عامہ موجود ہے۔

____________________

۱ ۔ طہ٥٠ ۔

۲ اعلیٰ،١۔٣۔

۳ ۔ نحل ٦٩۔۔٦٨

۴ ۔ بلد١٠۔۔٨۔

ب : ہدایت عامہ تشریعی

چنانچہ معلوم ہوا کہ ہدایت عامہ تکوینی تو ہر انسان کی فطرت میں پائی جاتی ہے لیکن ہدایت عامہ تشریعی عوامل خارجی جیسے انبیا و اولیاء الہی اور ان کے جانشینوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے ۔ چنانچہ فرمایا:( إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ) -(۱) - ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔

( لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ )(۲) - بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس میں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں اور اس لئے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون ہے جو بغیر دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور یقینا اللہ بڑا صاحبِ قوت اور صاحبِ عزت ہے۔

یہ آیتیں تشریعی ہدایت عامہ پر دلالت کرتی ہیں ۔ جو پورے عالم انسانیت کیلئے ارسال کی گئی ہے۔

پس ہر مکلف میں ہدایت عمومی تشریعی کے ثابت ہونے پر جبرکی نفی اور اختیار ثابت ہوتا ہے ۔ جب ہر انسان کو اپنی ظرفیت اور سوچ کے مطابق ہدایت مل جائے تو جبر کیلئے گنجائش باقی نہیں رہتا ۔ بعض آیتوں میں صریحا بیان ہوا ہے کہ جب تک انبیاء الہی کو مبعوث نہیں کیا کسی قوم کو عذاب میں مبتلانہیں کیا :( مَّنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً ) -(۳) - جو شخص بھی ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں ۔

( وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ )(۴) - اور آپ کا پروردگار کسی بستی کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک کہ اس کے مرکزمیں کوئی رسول نہ بھیج دے جو ان کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کرے اور ہم کسی بستی کے تباہ کرنے والے نہیں ہیں مگر یہ کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔ پس اگر جبر اور اختیار کا ملاک ہدایت الہی کا وسیع یا محدود ہونا ہے تو یہ آیتیں صریحا عمومیت پر دلالت کرتی ہیں ۔ جو جبر کو باطل اور اختیار کو ثابت کرتی ہیں ۔

لیکن ہدایت یا ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے ، سے کیا مراد ہے درج ذیل بحث سے معلوم ہوگا ۔

____________________

۱ ۔ فاطر ٢٤۔

۲ ۔ الحدید ٢٥۔

۳ ۔ اسراء ١٥۔

۴ ۔ قصص٥٩۔

ب :ہدایت خاصہ :

جہاں ہدایت عامہ تکوینی اور تشریعی ہے وہاں ہدایت خاصہ بھی ہے ۔ جو بعض انسان اور افراد سے مخصوص ہیں ۔ اور یہ خصوصیت بھی بغیر کسی ملاک اور معیار کے حاصل نہیں ہوتیں ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس ملاک اور معیار کا حصول خود انسان کے اختیار میں ہے ۔ اور یہ ملاک اور معیار تکوینی اور تشریعی ہدایت عامہ کے نور سے حاصل ہو جاتی ہے ۔ اور عنایت الہی اس کیلئے شامل حال ہوتی ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی خصوصی ہدایت انسانوں کیلئے نصیب ہوتی ہیں جو منیب یا توبہ کرنے والے ،جہاد کرنے والے اور ہدایت حاصل کرنے والے ہوں۔

( شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ) -(۱)

اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبر تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیمعلیھ السّلام, موسٰیعلیھ السّلام اور عیسٰیعلیھ السّلام کو بھی کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے پائے مشرکین کو وہ بات سخت گراں گزرتی ہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کے لئے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے ۔

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ) -(۲)

اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا اللرُحسن عمل والوں کے ساتھ ہے۔ پس یہ ہدایت خاصہ صرف خواص سے مخصوص ہے ۔ پس ہدایت خاصہ مشیت الہی کے تابع ہے ۔ اسی طرح گمراہی اور ضلالت بھی اگر کسی کا مقدر بنتی ہے تو یہ بھی بغیر کسی ملاک اور معیار کے مشیت الہی شامل حال نہیں ہوسکتا ۔ یعنی اگر انسان اس ہدایت عامہ الہی سے روگردانی کرے تو خداوند اس سے صفات عالیہ کسب کرنے کی توفیق کو سلب کرتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا:

۴( بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ )(۳) - یہ بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے آیات الہی کی تکذیب کی ہے اور خدا کسی ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔

( يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللّهُ مَا يَشَاءُ ) -(۴)

اللہ صاحبان هایمان کو قول ثابت کے ذریعہ دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے اور ظالمین کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور وہ جو بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے۔ پس ضلالت اور گمراہی سے مراد یہی ہدایت عامہ سے روکناہے ۔ اور یہ امتناع بھی انسان کا اپنا کردار اور برے عمل کی وجہ سے ہے ۔یعنی ارسال رسل اور انزال کتب کے بعد ہدایت حاصل نہ کرے تو ہدایت خاص اسے حاصل نہیں ہوگی۔

ان تمام آیتوں سے فقط ایک ہی معنی ہمیں ملتا ہے اور ثابت ہوتی ہے کہ انسان مختار ہے۔

____________________

۱ .۔ شوری١٣۔

۲ ۔ عنکبوت ۶۹۔

۳ ۔ جمعہ٥ ۔

۴ ۔ ابراہیم٢٧۔

علم ازلی خدا وند اور اختیار انسان

جبریوں کی ایک دلیل یہ ہے خدا وند تمام انسانوں کے افعال اور کردا رسے با خبر ہے کہ :

کافر کبھی ایمان نہیں لائے گا ، لیکن اگر کافر نے ایمان لایا تو علم خدا جہل میں بدل جائے گا۔ اور یہ ممکن نہیں ۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ شخص کافر سے ایمان کا صادر ہونا ممتنع ہے ۔ اور وہ مجبور ہے کہ ایمان نہ لائے ۔ ان کی اس ادعی کو خیام شاعر نے یوں بیان کیا ہے:

من مے خورم وہرکہ چوں من اہل بود

مے خوردن من ، بہ نزد وی سہل بود

مے خوردن من حق زازل می دانست

گر مے نہ خورم ، علم خدا جہل بود

ساتھ اس کا جواب بھی دیتے ہوئے کہتا ہے:

علم ازلی علت عصیان کردن

نزد عقلاء زغایت جہل بود

کسی علم کو علم اس وقت کہا جاتا ہے کہ معلوم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ لہذا اگر خدا کو معلوم تھا کہ کافر ایمان نہیں لائے گا (علم عدم ایمان) لیکن جب کافر نے ایمان لایا تو گویا وجود ایمان اور عدم ایمان دونوں جمع ہوگا ۔ اور یہ اجتماع نقیضین محال ہے ۔ پس اگر خدا کو علم تھا کہ ایمان نہیں لائے گا ، تو اس کا ایمان لانا محال ہوجائے گا ۔ لیکن اگر متعلق علم خدا وند ایمان لانا ہوگا تو اس کا ایمان نہ لانا ممتنع ہوجائے گا ۔ پس اس شخص کا یا ایمان لانا یا نہ لانا ضروری ہوگا ہر صورت میں انسان مسلوب الاختیار ہے ۔

خدا نے بعض لوگوں کے ایمان نہ لانے کی خبر پہلے ہی دے چکا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرما رہا ہے :( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ ) -(۱)

اے رسول! جن لوگوں نے کفر اختیار کرلیا ہے ان کے لئے سب برابر ہے. آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ پس اگر ان لوگوں نے ایمان لایا تو اس کا لازمہ یہ ہے کی خدا وند جو یقینا صادق ہےنعوذبالله من ذالک ،کاذب ہوجائے گا۔ او ریہ بھی محال ہے لہذا اس گروہ کا ایمان لانا بھی محال ہے۔

جواب: معتزلہ کا کہنا ہے کہ قول اشاعرہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قدرت خدا ، اختیار انسان پر دلالت کرتی ہے ۔ اگر علم خداافعال کے وجوب یا امتناع کا موجب بن جائے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا وند کسی بھی فعل پر قدرت نہیں رکھتا ۔ کیونکہ جس چیز پر خدا کا علم ہو ، کہ واقع ہوگی تو وہ ( واجب الوقوع ) ہوجائے گی ۔ اور کسی بھی علت یا قدرت الہی سے بے نیاز ہوجائے گی ۔ اور جس چیز کے عدم وقوع پر خدا کو علم حاصل ہو تو وہ ممتنع الوقوع ہوجائے گی ۔ اور اس سے قدرت الہی لا تعلق ہوجائے گی ۔ کیونکہ قدرت الہی صرف ممکنات سے متعلق ہوتی ہے۔

علم کا معلوم پر کوئی تأثیر نہیں:

دلیل دوم کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی چیز پر علم ہونا یعنی اس شیی کی تمام حقیقی خصوصیات کیساتھ علم ہونا ہے ۔ اسی لئے اگر معلوم حقیقت میںممکن ہے تو بعنون امر ممکن جاناجاتا ہے ۔ اور اگرحقیقت میں واجب ہے تو بعنوان امر واجب جانا جائیگا ، اور یہ بھی معلوم ہے کہ ایمان اور کفر ذاتی طور پر ممکنات میں سے ہیں ۔ اور اگر علم خداسے متعلق ہونے کی وجہ سے واجب میں بدل جائے توعلم کا معلوم میں مؤثر ہونا لازم آتا ہے ۔ جسکی پہلی دلیل میں نفی کرچکا ہے ۔

فخر رازی جواب دیتا ہے کہ علم خدا کا متعلق یہ ہے کہ افعال انسان ذاتا تو ممکن ہے لیکن قدرت اور ارادئہ الٰہی سے متعلق ہونے کی وجہ سے ایک زمان خاص میں واجب ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ایک چیز ذاتا ممکن ہو اور بالغیر واجب ۔

اختیاری حرکت ہی جمادات اور انسان کے درمیان فرق

اصحاب معتزلہ نے نفی جبر پر اس طرح دلیل پیش کی ہے : اگر علم خدا اور اس کا خبر دینا اختیار انسان کا مانع بنے تو انسان کیلئے اپنے افعال کی نسبت کوئی قدرت باقی نہیں رہتی ۔ کیونکہ وہ افعال تو علم خدا کی ضمن میں یا واجب ہوگا یا ممکن ۔ اور فعل واجب یا فعل ممتنع ، انسان کی قدرت سے خارج ہے ۔ پس اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسانی حرکات و سکنات بھی جمادات کی حرکات و سکنات کی طرح ہے ۔ لیکن واضح ہے کہ یہ امر بھی باطل ہے کیونکہ اگر کسی نے دوسرے انسان کو عمدا قتل کیا تو اس قاتل کی مذمت کی جائے گی نہ اس خنجر کی ۔

فخر رازی کہتا ہے: فعل انسان ، علم الٰہی کے متعلق ہونے کی وجہ سے واجب الوقوع نہیں ہوسکتا بلکہ خدا نے انسان میں قدرت اور انگیزہ خلق کیا ہے کہ افعال اسے ایجاب کرتی ہے۔ اس کے منتخب ہونے کی صورت میں فعل بھی واجب الوقوع میں بدل جاتا ہے۔پس علم خداوند ایجاب کنندہ فعل نہیں ہے بلکہ صرف اس فعل کا بعد میں واقع ہونے کو کشف کرتا ہے۔بالفاظ دیگر علم خدا کاشف وقوع فعل ہے نہ باعث انجام فعل۔


خلاصہ بحث

: جو بھی تفویض کا قائل ہوا ، انہوں نے ممکن الوجود کو اپنی حدود سے باہر کھینچ لایا اور واجب الوجود کی حد تک لے آیا ۔ پس یہ لوگ مشرک ہیں ۔

اور جو بھی جبر کے قائل ہوا ، انہوں نے واجب الوجود کو اپنا بلند اور بالا مقام سے کھینچ کر ممکن الوجود کی حد تک نیچے لایا ۔ پس یہ لوگ کافر ہیں۔ اسی لئے امامرضا(ع) نے فرمایا : اہل جبر کافر ہیں اور اہل تفویض مشرک۔ اور جو بھیلاجبر ولا تفویض بالامر بین الامرین کے قائل ہوا ، حق پر ہے اور امت محمدی ہے-(۲)

: جو بھی جبر کے قائل ہوا ہے اس نے نہ صرف خدا کے حق میں ستم کیا بلکہ تمام ممکنات کے حق میں بھی ظلم کیا ۔ جو بھی تفویض کے قائل ہوا اس نے واجب الوجود اور ممکن الوجود دونوں کے حقوق کو پایمال کیا ۔

اور جو بھی الامر بین الامرین کے قائل ہوا اس نے واجب الوجود اور ممکن الوجود دونوں کو اپنا اپنا حق عطا کیا : واعطاء کل ذی حق حقہ ۔ جو عین عدالت ہے ۔

: جبریوں کی دائیں آنکھ اندھی ہوگئی ہے اور یہ اندھا پنی بائیں آنکھ تک سرایت کرگئی ہے ۔ اور جو تفویض کے قائل ہوئے ہیں ان کی بائیں آنکھ اندھی ہوگئی ہے اور یہ اندھا پنی دائیں آنکھ تک سرایت کرگئی ہے ۔

اور جو الامر بین الامرین کے قائل ہو ئے ان کی دونوں آنکھیں بینا اور روشن ہیں ۔

: جو بھی جبر کے قائل ہیں رسول خدا کے انہیں اپنی امت کا مجوسی اور جو تفویض کے قائل ہیں انہیں یہودی قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :القدریة مجوس هذه الامة ۔

کیونکہ انہوں نے نقائص کو خدا کی طرف نسبت دی ہیں اور جو تفویض کے قائل ہیں انہوں نے خدا کی ذات کو لاتعلق اور بے اختیار تصور کیا ہے ۔ ان کے اقوال کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے( وقالت الیهود ید الله مغلولة ) ۔

امام صادق(ع) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا :

لم یعنوا انه هکذا ولیکنهم قالوا : قد فرغ من الامر فلا یزید ولا ینقص فقال الله تکذیبا لقولهم : غلت ایدیهم و لعنوا بما قالوا بل یداه مبسوطتان ینفق کیف یشاء الم تسمع الله عروجل یقول: یمحوا الله ما یشاء و یثبت و عنده ام الکتاب -(۳) -

-(۴) -مذہب جبر کا قائل ہونا خدا کا بندوں پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ۔ مذہب تفویض کا قائل ہونا بندوں کا خدا پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ۔ اور مذہب لاجبر ولا تفویض کا قائل ہونا ان دونوں مظالم کی نفی کرنے کے مترادف ہے ۔ اور یہی مذہب توحید ہے اور مذہب تجلی اور ظہور ۔

: خدا وند بالواسطہ طور پر انسانوں کے اختیاری افعال کا فاعل ہے اور خود انسان فاعل بلا واسطہ ہے۔

اکثر علماء اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بندہ کا فعل بالواسطہ طورپر خدا سے منسوب ہے کیونکہ یہ قدرت اور طاقت ، خدا نے دی ہے ۔ لیکن خود انسان اس فعل کا فاعل مباشر ہے کیونکہ انسان جس طرح چاہے تصرف کرسکتاہے اور ان تین نظریات کو ایک مثال کے ذریعے بیان کرینگے۔

مثال : فرض کرلیں ایک شخص مرتعش الید یعنی ہاتھ پیر لرز رہا ہے جس میں قدرت نہیں ۔ لیکن اگر کوئی اس کے ہاتھ میں تلوار یا ایک چاقو تھمادے اور یہ شخص جانتابھی ہو کہ یہ تلوار یا چاقو اگر اسے تھمادے تو کسی دوسرے شخص پر زخم وارد کرسکتا ہے یا ہلاک کرسکتا ہے ۔ اس صورت میں اس قتل کو اس شخص کی طرف نسبت دی جائے گی جس نے تلوار تھما دیا ہے ۔ نہ اس صاحب ید کی طرف جو مسلوب الاختیار ہے ۔ اسی طرح اگر کسی ایسے شخص کے ہاتھوں تلوار تھما دے ۔ جو اپنے ہاتھوں کو حرکت دے سکتا ہو اور صاحب ارادہ بھی ہو ۔ اس صورت میں حکم برعکس ہوگا یعنی قتل کی نسبت خود اسی صاحب ید کی طرف دی جائیگی ۔

لیکن اگر کوئی مشلول الید کو فرض کرلیں کہ اس کے ہاتھ حرکت نہیں کرسکتی لیکن دوسرا شخص بجلی کے ذریعے یا کسی اور ذریعے سے اس کی ہاتھوں میں حرکت پیدا کرے ۔ اگر سوئچ دبا کر رکھے تو حرکت باقی رہتی ہے، لیکن اگر ایک لمحہ کیلئے سوئچ سے ہاتھ ہٹائے تو اس کے بدن سے قوت ہی جدا ہوجائیگی ۔ یعنی دوسرے کی تمام حرکات اور سکنات اس شخص کے اختیار میں ہو اور وہ جاکر کسی کو قتل کرے درحالیکہ وہ جانتا بھی ہے کہ میں کیا کررہا ہوں ۔ تو اس صورت میں قتل کو دونوں شخص کی طرف نسبت دے سکتا ہے ۔ لیکن ایک کی طرف نسبت بلا واسطہ دوسرے کی طرف بالواسطہ ۔

پس گروہ جبریہ بندہ کے افعال کو خداکی طرف نسبت دیتے ہیں جیسے مثال اول ، کہ لرزنے والا ہاتھ کا مالک تھا ۔ جو ہلاک کرنے میں مضطر اور بے اختیار تھا ۔

تفویض والے مثال دوم کی مانند افعال انسان کو خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں ، کہ بندہ حدوثا خدا کی طرف محتاج ہے لیکن بقائاً نہیں ۔ یعنی قدرت دینا خداکا کام ہے لیکن قتل کرنے میںخدا کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہے۔

لیکن جو الامر بین الامرین کے قائل ہیں ۔ تیسری مثال کی مانند ہیں ، کہ انسان ہروقت قدرت کے حصول کیلئے خدا کی طرف محتاج ہے ۔ حتی قتل کرنے میں بھی ۔ یہاں تک کہ کہہ سکتا ہے کہ اس فعل کیلئے جو بندہ سے صادر ہوتا ہے اس میںدو واقعی نسبتیں موجود ہیں۔ ایک نسبت فاعل مباشرکی طرف دوسری نسبت فاعل غیر مباشر کی طرف ۔(۵) -

____________________

۱ ۔ بقرہ٦۔

۲ ۔ ازعیون اخبار الرضا ۔ طلب و ارادہ ، امام خمینی ،ص٧٥۔

۳ ۔ ہمان ، ص٧٦۔

۴ ۔ معاد شناسی ،ج١٠ ،ص٢٦٢۔

۵ ۔ لب الاثر ، ص٢٤٣۔

مسئلہ جبر و اختیار میں قائم شدہ نظریات :

بعض لوگ جبر مطلق کے قائل ہوئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کسی بھی کام کو انجام دینے اور نہ دینے میں مختار اور آزاد نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس پر کوئی مسئولیت اور ذمہ داری بھی نہیں آئے گی ۔

جدید مادیوں کا نظریہ : انسان سے فعل کا صادر ہونا جبری ہے لیکن انسان کے مجبور ہونے کے باوجود تکلیف اور ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔

ضرورت علت و معلول کے منکرین کا نظریہ: جیسا کہ بعض فیزیکس دان اور فیلسوف کا کہنا ہے کہ کوئی ضرورت یا وجوب اس کائنات پر مؤثر نہیں ہے ۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ افعال انسان پر بھی وجوب یا ضرورت حاکم نہیں ہے۔یعنی کسی واجب الوجود کی ضرورت نہیں۔

بعض متکلمین اوراصولیین کا نظریہ: ان کا کہنا ہے کہ قانون علیت اور معلولیت ، صرف مادہ اور مادیات پر حاکم ہے۔ مثال کے طور پر نفس انسان اور ذات خدا ، اپنے اپنے آثار کی بہ نسبت فاعل ہیں نہ علت۔

بعض نفسیاتی ماہرین کا نظریہ: کسی قسم کی ضرورت ، وجوب اور جبر انسان کے اعمال پر حاکم نہیں ۔ کیونکہ انسان اپنے افعال کو ارادہ کے ساتھ انجام دیتا ہے جو قانون علیت سے آزاد ہے۔

حکمای اسلامی کا نظریہ: یہ نظام ہستی ایک نظام ضروری ہے اور استثناء پذیر نہیں ہے۔ اس کے باوجود انسان اپنے افعال میں مختار اور آزاد ہے۔ اور یہ اختیار و آزادی، ضرورت نظام ہستی سے منافات نہیں رکھتا۔

مندرجہ بالا تقسیمات سے واضح ہوجاتا ہے کہ بعض اختیار کے قائل ہیں اور کچھ لوگ جبر کے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان ایک قدر مشترک بھی موجود ہے وہ یہ ہے: قانون ضرورت علّی و معلولی اور انسان کی مجبوریت کے درمیان اورعدم ضرورت علّی و معلولی و اختیار انسان کے درمیان ملازمہ پایا جاتا ہے۔ منتہا ایک گروہ نے ضرورت علّی و معلولی کو قبول کیا اور اختیار کا منکرہوا ۔ دوسراگروہ اختیار کے قائل ہو ااور ضرورت علّی اور معلولی کا منکر۔ اور ہمار نظریہ بالکل ان دونوں نظرئے کا نقطہ مشترک ہے ۔یعنی ہم نہ کسی قانون ضرورت علّی و معلولی اور مجبوریت انسان کے درمیان ملازمہ کے قائل ہیں اور نہ کسی عدم ضرورت علّی و معلولی اور اختیار انسان کے درمیان ملازمہ کا ۔ بلکہ ہمارا ادعی یہ ہے کہ انسان کے متعلق ضرورت علّی اور معلولی کو علل معدّہ اور افعال اور حرکات کے مخصوص مقدمات کو مدنظر رکھ کر اسے اختیار اور انسان کی آزادی کا مؤید قرار دیتے ہیں۔ او اس ضرورت کا انکار کرنا محدودیت اور انسان سے اختیار اور آزادی کو سلب کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

پس اولا ان بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے تمام اختیاری افعال بھی دوسری ممکنات کی طرح علل اور اسباب کی طرف محتاج ہے۔

ثانیاً انسان کی فعالیتوں اور جمادات کی فعالیتوں میں فرق ہے۔ مثلاً آتش کا لکڑی کو جلانا، اور مقناطیس کا لوہے کو کھینچنا ان کی طبیعت میں ہے اور یہی ایک ہی راہ معین ہے اور اسی ایک راہ سے انحراف کرنے کی اصلاً گنجائش نہیں ہے۔ اسی لئے ان کی فعالیت بھی محدود ہیں۔لیکن جانور اپنی فعالیتوں کو اپنے اختیار اور ارادے کے ساتھ بروی کار لاتے ہیں۔

جبر و اختیار مارکسیزم کی نظر میں

مارکسیزم اصالت جامعہ کے قائل ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان پیکراجتماع کے مختلف اعضاء ہیں اور ان اعضاء (افراد اور اشخاص) کیلئے کوئی استقلال اور اصالت نہیں ہے۔ اسی لئے سرنوشت انسان کو جامعہ معین کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے تمام پہلو ، اجتماعی تحولات اور تبدیلیوں کے ساتھ تشکیل پاتے ہیں۔ اور ہمیشہ جامعہ کے تابع ہیں ۔

نظریہ مارکسیزم پر دو اشکال :

اشکال١۔

تاریخ کو ایک واقعیت عینی اور خاص قوانین کے حامل تصور کیا ہے۔ جبکہ خود مارکسیزم کے نظریے کے مطابق ہر چیز کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے وا حد راستہ ، تجربہ اور آزمائش ہے ۔ در حالیکہ قوانین اور تاریخ حاکم ، قابل تجربہ اور آزمائش نہیں ۔ پس قوانیں کو کہاں سے کشف کئے گئے؟

اشکال ٢۔

اصالت جامعہ کے قائل ہونا او رانسان کو تغییرات اجتماعی کے تانع تصور کرنا بھی واقعیت کے خلاف ہے۔ مارکسیزم کے نظریے کے مطابق انسان کاملاً عدم محض تو نہیں ۔ بلکہ انسان خود وجود استقلالی رکھتا ہے۔ بہت سارے انسان تاریخ بشریت میں گذرے ہیں جنہوں نے مسیر جامعہ کو متغیر کرتے ہوئے انقلاب پیدا کئے ہیں ۔ اور شرائط اجتماع کے مقابلے میں مقاومت اور تلاش کرکے جامعہ کو بہتر اور برتر حالت میں تبدیل کئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوا اصالت فرد کیلئے ہے اور جامعہ واقعیت نہیں رکھتا۔(۱)

جبر و اختیار اشاعرہ کی نظر میں

گروہ متکلمین میں سے اشاعرہ معتقد ہیں کہ فاعل فقط خدا تعالی ہے ۔ خدا بغیر کسی واسطے کے موجودات عالم کو خلق کرتا ہے۔ خدا کے علاوہ کسی بھی مخلوق کیلئے لفظ فاعل کا استعمال کرنا مجازی ہے۔ اگر انسان کسی فعل کو انجام دیتا ہے، آگ لکڑی کو جلاتی ہے اورپانی چیزوں کو تر کرتا ہے تو حقیقت میں یہ سارا کام خدا انجام دے رہا ہے۔ البتہ یہ انسان ،آگ اور پانی اسباب اور علل کا ایک سلسلہ ہے۔ جن کے ذریعے خدا نے عادی طور پر اپنے ارادے کو ظاہر کیا ہے۔ ہم نے ان اسباب کی علت اور وہ موجودات جو ان پر مترتب ہوتی ہیں معلول تصور کیا ہے۔ مثلاً آگ کو علت حرارت تصور کیا ہے درحالیکہ آگ اور حرارت دو جدا گانہ چیزیں ہیں ۔ اور ان دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔اور انسان کے اختیاری افعال بھی افعال الہی میں سے ہے ۔ اور اگر ہم کہتے ہیں کہ اس کام کو میں نے انجام دیا ہے اور میں اس کا فاعل ہوں ، تو یہ تعبیر مجازی ہے۔

دلائل جبریہ:

قرآن

انسان کیلئے افعال اختیاری بے معنی ہے اس بات پر انہوں نے قرآان مجید سے دلیل پیش کی ہے:

١۔( فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَى ) -(۲) - "پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں "

٢۔( أَتَى أَمْرُ اللّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ )(۳) - امر الٰہی آگیا ہے لہذا اب بلاوجہ جلدی نہ مچاؤ کہ خدا ان کے شرک سے پاک و پاکیزہ اور بلند و بالا ہے۔

٣۔( وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) -(۴) - اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے

٤ ۔( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) -(۵) - پیغمبر بیشک آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ان لوگوں سے خوب باخبر ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔

۵ ۔( قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۔(۶)

اے رسول تم یہ بتا دو کہ اے خدا تمام عالم کا مالک تو ہے جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو ہی جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے، ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔

____________________

۱ ۔ غرویان، آموزش عقائد، ص٢٠٧

۲ .انفال ۱۷

۳ ۔ نحل ۱۔

۴ ۔ تکویر ۲۹۔

۵ ۔ قصص ۵۶۔

۶ ۔ آلعمران ۲۶۔


سنت

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا:السعید سعید فی بطن امه والشقی شقی فی بطن امه ۔(۱)

یعنی خوش بخت انسان اپنی ماں کے پیٹ میں سے خوشبخت بن کر اور بدبخت انسان بھی وہاں سے بدبخت بن کر اس دنیا میں آتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اشکال اور دلیل کو کیسے رد کیا جائے۔ ہم خود ان سے پوچھیں گے کہ یہ سعادت یا شقاوت ،ذاتی ہے یا عارضی؟

اگر کہے ذاتی ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ ذاتی ہونے کی صورت میں ان کا ادعی درست تھا۔ لیکن سعادت و شقاوت ایک عارضی شیی ہے جو مقدمات اختیاریہ سے ناشی ہوتی ہے۔جیسے موت اور جلنا کہ خدا نے جلنے کو آگ کااثر قرار دیا اور موت کو زہر کے پینے کا اثر ؛ پس اگر کوئی شخص اپنے آپ کو آگ میں ڈال دے یا کوئی زہر پی لے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ جل جائے اور ہلاک ہوجائے۔ یہ جلنا اور ہلاک ہونا آگ اور زہر کا اثر ہے لیکن کیونکہ اس شخص نے اپنی اختیار سے سبب فراہم کیا ہے۔تویہ شخص قابل مذمت ہوگا۔ کوئی بھی آگ یا زہر کو ملامت نہیں کریگا۔ اور خدا جو ان آثار کا موجد ہے۔ کی طرف نسبت نہیں دیگا۔

اوپر بیان ہوا کہ یہ سعادت و شقاوت جسکی دلیل یہ ہے کہ الذاتی لا یتغیر ۔ درحالیکہ ہم دعا کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ یہ دعائیں مأثور ہیں۔ چنانچہ ماہ رمضان کی تیّسویں رات کی دعا میں پڑھتے ہیں کی :ان کنت من الاشقیاء فامسحنی من الاشقیاء واکتبنی من السعداء فانک قلت فی کتابک المنزل علی نبیّک المرسل یمحوا الله ما یشاء و یثبت و عنده ام الکتاب -(۲)

خدایا اگر مجھے اشقیاء کے دفتر میں شمار کیا ہے تو اس دفتر سے میرا نام مٹا کر سعادت مندوں کی لیسٹ میں لکھ دے۔کیونکہ تو نے خود کہا ہے کہ خدا مٹاتا اور لکھتا ہے۔پس معلوم ہو ااگر شقاوت اور سعادت ذاتی ہوتی تو توبہ کا حکم نہ کرتا کیونکہ توبہ اور بازگشت کا معنی یہی ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوجائے ۔ جبکہ سعادت و شقاوت ذاتی تحول و تغیر پذیر نہیں۔ لیکن خدا نے اپنے بندوں کو توبہ کی طرف تاکید کے ساتھ دعوت دی ہے تاکہ سعادت حاصل کرے۔

ان لوگوں نے مندرجہ ذیل دوآ یتوں سے اپنے اس ادعی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہیں( : يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُواْ فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُواْ فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ ) -(۳) - اس کے بعد جس دن وہ آجائے گا تو کوئی شخص بھی ِذنِ خدا کے بغیر کسی سے بات بھی نہ کرسکے گا -اس دن کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت ۔پس جو لوگ بدبخت ہوں گے وہ جہّنم میں رہیں گے جہاں اُن کے لئے صرف ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی ۔وہ وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تک آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ آپ کا پروردگار نکالنا چاہے کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتا ہے ۔اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ جنت میں ہوں گے اور وہیں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ پروردگار اس کے خلاف چاہے ...یہ خدا کی ایک عطا ہے جو ختم ہونے والی نہیں ہے ۔

رازی نے اس آیت سے جبر گرائی (اشعری) پر استدلال کیا ہے، اور کہا ہے جان لو خدا نے ابھی سے ہی قیامت کے دن بعض افراد کے جہنمی یا بہشتی ہونے کا حکم لگایا ہے کہ فلان سعید ہوگا اور فلان شقی ۔ اور جس چیز کا حکم دے اس کا علم بھی حتماً پہلے سے موجود ہے۔ اور اس کے خلاف ہونا محال ہے ۔ اور اگر یہ محال نہ ہو تو خدا کی خبر جھوٹی ہوگی۔پس سعید کبھی شقی اور شقی کبھی سعید نہیں ہوسکتا ۔ رازی کے بیان میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:

الف: اس نے اپنے استدلال کرنے میں جبر پر اعتماد کیا ہے کہ لوگوں کے بارے میں خدا کو علم ہونے کو انسان مجبور ہونے کا باعث ٹھہرایا ہے۔ اگر رازی کا مقصود یہ ہے تو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ تمام انسانوں کی نسبت خدا کا علم ازلی ، مقام عملی میں انسان کو مجبور نہیں نبا سکتا ۔ کیونکہ علم خدا اس فعل سے متعلق ہے جو انسان سے اختیاری طور پر صادر ہوتا ہے۔

ب: اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ خداوند ابھی حکم لگاتا ہے کہ فلان شخص قیامت کے دن شقی اور فلان شخص سعید ہوگا۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ علم خدا کاشف ہے کہ روز قیامت فلان شخص کی حالت کیا ہوگی؟ اور یہ علم اس فعل ختیاری سے منافات نہیں رکھتا جس کے ذریعے انسان روز قیامت سعیدوں میں شامل ہو یا شقی لوگوں میں؟

دوسری آیت جس سے انہوں نے استدلال کیا ہے ،وہ یہ ہے:( قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ ) -(۴) -۔ وہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ہم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ ہوگئے تھے ۔ پروردگار اب ہمیں جہنمّ سے نکال دے اس کے بعد دوبارہ گناہ کریں تو ہم واقعی ظالم ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شقاوت کو انسان اپنی نفس کی طرف نسبت دے رہا ہے جو خود سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور یہ دلالت کرتی ہے کہ یہ شقاوت اکتسابی امور میں سے ہے۔ کیونکہ خدا نے اس سے پہلی آیت میں سعادت کو لفظ الفلاح سے تعبیر کیا ہے اور شقاوت کو لفظ خسران سے۔ اور ان دونوں کو میزان میں وزن کا ہلکی یا بھاری ہونے کیلئے استعمال کیاہے جو انسان اپنے اختیار سے انجام دیتا ہے۔چنانچہ خدا تعالی نے فرمایا:( فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ) -(۵) - پھر جن کی نیکیوں کا پلہّ بھاری ہوگا وہ کامیاب اور نجات پانے والے ہوں گے ۔اور جن کی نیکیوں کا پلہّ ہلکا ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے اور وہ جہنم ّ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

یعنی سعادت میزان کا وزن بڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اور شقاوت ابدی انسان کیلئےمیزان عمل ہلکا ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔ یہ لوگ جہنم سے نکلنے اور دنیا میں دوبارہ بھیجنے کا خدا سے مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اچھے اعمال انجام دے اور سعادت مندوں کا راستہ اختیار کرلے ،پس اگر انکی شقاوت اور سعادت ذاتی ہوتی اور قابل تغییر نہ ہوتی تو کسب سعادت کیلئے دوبارہ دنیا میں آنے کا مطالبہ نہ کرتا۔

درج ذیل روایت بھی اسی مطلب کو بیان کرتی ہے: مولائی متقیان(ع)حقیقت سعادت اور شقاوت کو مفصل طور پر یوں بیان فرماتے ہیں:حقیقة الشقاء ان یختم الرجل عمله بالسعادة و حقیقة الشقاء ان یختم المرء عمله بالشقاء -(۶) -

یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کی سعادت اور شقاوت اس کے افعال اختیاری کا تابع ہے ۔

____________________

۱ ۔ شیخ صدوق۔ توحید،ج٣،ص٣٥٦۔

۲ ۔ علم الھدی ، معاد و عدل ،ص٣٦۔

۳ ۔ ہود ۱۰۵۔۔۱۰۸۔

۴ ۔ مؤمنون ١٠٦۔١٠۷۔

۵ ۔ مومنون۱۰۲ ۔۱۰۳۔

۶ ۔ بحار،ج٥،ص١٥٤۔

عقل

دلیل عقلی چند مقدے پر مشتمل ہیں:

پہلا مقدمہ: ہرممکنات ، وجود میں آنے کیلئے علت کی طرف محتاج ہیں اور اسی طرح تمام علل معدّہ بھی علت تامہ پر محتاج ہیں۔ دوسرا مقدمہ: علت العلل وہی ذات پاک ہے ۔

تیسرا مقدمہ: معلول کا علت سے جدا ہونا محال ہے۔ اسی طرح افعال انسان بھی مخلوقات خدا میں سے ہے اور خدا سے جدائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک قاعدۂ فلسفی ہے کہ جہاں علت تامہ ہو وہاں اس کا معلول ہونا ضروری ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افعال انسان بھی خدا سے وجود میں آیا ہے نہ خود انسان سے، جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔

دلیل عقلی پر اشکال

ان کی اس دلیل پر کئی اشکالات وارد ہوتی ہیں؛ اولا ً توجو شبہات جبریوں کے زہنوں میں آیات سے پیدا ہوتی ہیں یہ ہے کہ مشیت و ارادہ اور قضا و قدر الہی کے مقابلے میں انسان کو کسی چیز پر اختیار حاصل نہیں، صحیح نہیں کیونکہ ارادۂ خدا اور ارادۂ انسان ایک دوسرے کے طول میں ہے ۔ یہی وجہ ہے ارادۂ الہی جانشین ارادۂ انسان نہیں ہوسکتا۔

ثانیا انسان کا ارادہ علل معدّہ ہے اور فعل انسا ن بھی اس کا معلول ۔ انسان جب ارادہ کرتا ہے تو فعل انجام پاتا ہے ۔ اگر ارادہ نہ کرے توانجام بھی نہیں پاتا ۔ لیکن یہی علت معدّہ (ارادہ) اور معلول (فعل) اور اس کے مبادی سب ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ منتہا اس فعل کی نسبت علت معدّہ(ارادہ) مباشراور ملی ہوئی علت ہے ، اور ارادۂ خداوند علت بعیدہ ہے، لیکن اگر یہی علت بعیدہ نہ ہو تو نہ مرید (ہم) ہونگے نہ کوئی ارادہ ہوگا اور نہ ہی کوئی مراد(فعل) ۔ پس معلوم ہوا ارادۂ انسان تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اور جو بھی کام انجام دیتا ہے اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے۔ اور یہ سلسلۂ نظام ، ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ یہی اس مشکل کا حل کی چابی ہے ۔

عقیدۂ جبریہ باطل کیوں؟

عقیدہ جبریہ باطل ہے کیونکہ ان کے مطابق کافر لوگ پیامبران الہی پر اپنی دلیل اور حجت قائم کرسکتے ہیں کہ خدا نے ہی

ہمیں کافر خلق کیا ہے اور ہم سے کفر چاہا ہے ۔ اور ہم ایمان لانے پر قادر نہیں ہیں ۔ لیکن اگر خدا چاہتا تو ہم بھی ایمان لے آتے ۔

اگر اہل اسلام ، کفار کے ساتھ مناظرہ اور احتجاج کریں اور اسلام کی حقانیت کو منوانا چا ہیں تو جبر کے قول کے مطابق کفار کیلئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ خدا نے ہمیں اسلام میں داخل ہونے سے منع کیا ہے۔ اور ہم مجبور ہیں کہ حالت کفر پر باقی رہیں ۔

چنانچہ ابی بحرخاقانی کے دور شہنشاہیت میں سارے یہودی جمع ہوئے اور خاقانی سے کہنے لگے کہ آپ ایک عادل اور منصف بادشاہ ہے اور اس شہر میں آپ کے علمای دین کہ جن پر آپ کو اعتماد حاصل ہے۔ اس بات کے قائل ہیں کہ ہم یہودی اسلام اور ایمان لانے پر مختار نہیں ہیں ۔ تو آپ کس بنا پر ہم سے جزیہ اور خراج (ٹیکس) لیتے ہیں؟ اور یہ جزیہ لینا آپ کے عدل اور انصاف کے خلاف ہے۔ تو اس بادشاہ نے علمای مجبرہ کو جمع کیا اور یہودیوں کی بات کو ان تک پہنچادی ۔ تو تب کہا ؛ یہودی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ تو بادشاہ نے کہا : کس بنا پر یہ لوگ قادر نہیں ہیں؟! یہ علماء جواب نہ دے سکے ۔تو بادشاہ نے انہیں شہر بدر کردیا ۔ –(۱)

بطلان جبر پر بہلول کا قصہ

ایک دن بہلول کا گذر ابو حنیفہ کے نزدیک سے ہوا جہاں وہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہا تھا ، کہا : یہ جعفر صادق(ع) کا خیال ہے کہ جو بھی فعل بندے سے صادر ہوتا ہے خود اسی کے اختیار سے انجام پاتاہے جبکہ میں اسے نہیں مانتا ۔ کیونکہ ہر وہ فعل جو بندے سے صادر ہوتا ہے وہ خدا انجام دیتا ہے۔ اور جعفر صادق(ع) کہتے ہیں کہ شیطان کو قیامت کے دن آگ میں جلایا جائے گا جبکہ یہ ممکن نہیں کیونکہ شیطان کی جنسیت آگ سے ہے اور آگ آگ کو کیسے جلا سکتا ہے؟! اسی طرح جعفرصادق(ع)کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے جبکہ یہ درست نہیں کیونکہ ہر موجود کو دیکھاجا سکتا ہے لیکن خداوند کوتو دیکھ نہیں سکتا۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔

بہلول یہ سب کچھ سن رہا تھا ۔ ایک ڈھیلہ اٹھا کر ابو حنیفہ کے سر پر دے مارا اور بھاگ نکلا ۔ لیکن لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور خلیفہ کے پاس لے گئے۔ ہارون نے اس سے پوچھا : کیوں اس عالم جلیل کو اذیت دی؟

بہلول نے کہا: یہ اپنے مذہب کے مطابق جھوٹ بول رہا ہے۔ کیونکہ میں نے نہیں مارا بلکہ خدا نے مارا ہے۔ اور اسے کوئی اذیت نہیں دی ہے اور نہ ہی میں نے کوئی صدمہ پہنچایا ہے ۔ کیونکہ اس کی خلقت خاک سے ہوئی ہے اور خاک(ڈھیلہ) جو اس کا ہم جنس ہے کیسے اسے صدمہ پہنچا سکتی ہے؟ اسی طرح اگر درد کا اظہار کر رہا ہے توبھی جھوٹ ہے کیونکہ اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو درد کو ہمیں کھادے ۔ یہ تو خود کہہ رہا تھا کہ خدا اگر موجود ہے تو ہر موجود دیکھنے میں آتا ہے تو خدا کیوں دکھائی نہیں دیتا ۔

ابو حنیفہ سمجھ گیا کہ بہلول نے ایک ڈھیلہ سے تینوں اشکال کا جواب دیا اور اس کی غلطی کو سب پر واضح کردیا ۔ اس وقت ہارون ہنس پڑا اور انہیں چھوڑدیا ۔ –(۲)

اس مناظرے سے آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اگر ہم جبر کے قائل ہوجائیں تو خداوند متعال کو غفور اور رحیم کہنا درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ عفو ودرگذر اس صورت میں ممکن ہے کہ بندہ مختار ہو ۔ اور گناہوں کو ترک کرے جبکہ وہ گناہ کو انجام دے سکتا ہو ۔ مگر یہاں خدا فاعل ہے کس طرح ایک بے گناہ بندے کو عفو کریگا اور بخش دیگا؟ اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا اپنے آپ کو بخش رہا ہے۔

اگر اہل حق اوراہل باطل کے درمیان مناظرہ اور مباحثہ ہوجائے تو قول مجبرہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کی خدا نے خود مناظرہ کیا ہے ۔ کیونکہ مناظرہ فعل ہے اور خدا فاعل ۔ پس خدا ہم محق ہے اور ہم مبطل ۔ کیونکہ مناظرہ میں ایک حق پر ہوتا ہے دوسرا باطل پر۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم بھی ہے اور جاہل بھی! در حالیکہ خدا کی ذات اس چیز سے پاک و منزہ ہے۔

____________________

۱ ۔ سید علم الھدی ؛معاد و عدل ،ص١٠۔

۲ ۔ ہمان ،ص۱۲۔


جبر کے اقسام

١۔ جبر فلسفی

مقدمہ اول:

تمام افعال انسان ،خود انسان کی طرح ممکن الوجود ہے۔

مقدمہ دوم:

تمام ممکن الوجود جب تک حد ضرورت تک نہ پہنچے وجود میں نہیں آسکتا ۔

نتیجہ:

انسان اپنے افعال میں مجبور ہے۔

جواب : اس قاعدہ فلسفی کا مفاد یہ ہے کہ کوئی بھی سانحہ پیش آنے کیلئے علت تامہ کا ہونا ضروری ہے اسی طرح انسان کی اختیاری امور کیلئے بھی ضروری ہے ۔ لیکن افعال اختیاری اور غیر اختیاری میں فرق یہ ہے کہ افعال اختیاری جب تک خود انسان اس عمل کو اختیار نہ کرے اس عمل کی علت بھی محقق نہیں ہوگی ۔ لہذا فعل بھی انجام نہیں پائے گا ۔ پس قاعدہ فلسفی :الشیی لم یجب لم یوجد،کا اس ادعی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔

٢۔ جبر تاریخی

مقدمہ اول:

یہ تاریخی قوانین اوراصول بھی نا قابل انکار ہیں ۔

مقدمہ دوم:

تمام قوانین تاریخی کا پاس رکھنا ہرانسان پر فرض ہے۔

نتیجہ:

پس ہر انسان مجبور ہیں کہ اپنے اپنے کاموں میں قوانین تاریخی کی پیروی کرے۔

جواب: یہ بیان تو نہ صرف دلیل جبر نہیں بلکہ بالکل برعکس اختیار پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ اولاً تاریخ کوئی واقعیت نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک امر انتزاعی ہے۔ثانیاً : تاریخ کا قانون مندی ہونا فقط خیالی ہے ۔ کیونکہ جو چیز خود واقعیت خارجی نہیں رکھتی کس طرح ممکن ہے کہ قوانین خاص کا حامل ہو؟!

اور یہ بھی معلوم ہے کہ روش علمی تجربے پر منحصر ہے ۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے کہ قابل تکرار ہو کہ ایک جگہ تجربہ کرے پھر اسی مشابہ کو دوسری جگہ ۔ تاکہ رابطہ علیت کو کشف کرسکے ۔ اور ایک قانون علمی ثابت ہوسکے ۔ لیکن تاریخ قابل تکرار نہیں ۔ لہذا جبر تاریخی بے بنیاد ہے۔ اور یہ صرف ایک تعبیر ہے کہ جسے دوسروں سے عاریہ لیا ہے ۔

اس قسم کی غیر علمی اور نا قابل اثبات مفروضات کے ذریعے اختیار جیسی ایک بدیہی چیز کو جسے ہر انسان اپنے اندر احساس کرتا ہے اور آیات اور روایات بھی جس کی تائید کرتی ہیں اور ہر اخلاقی اور تربیتی نظام کی بنیاد بھی اسی پر ہو ،نظر انداز نہیں کرسکتا ۔

٣۔ جبر اجتماعی

مقدمہ اول:

جامعہ موجود واقعی ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو ہمیشہ فشار جامعہ کے ماتحت تصور کرتا ہے۔

مقدمہ دوم:

اور خود جامعہ کیلئے خاص قوانین وضع ہوا ہے ۔

نتیجہ:

پس ہر انسان اجتماعی قوانین کی متابعت کرنے پر مجبور ہے۔

جواب: یہ لوگ جامعہ کیلئے وجود حقیقی کے قائل ہیں جبکہ جامعہ کا وجود ایک وجود اعتباری ہے۔ اور خارج میں اجتماع نامی کوئی شییٔ موجود نہیں بلکہ بعض افراد کا جمع ہونے کا نام اجتماع ہے۔ فرض کرلیں کہ آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ جامعہ وجود حقیقی رکھتا ہے اور بعض قوانین بھی اس کیلئے وضع ہوا ہے؛ کس نے کہا کہ انسان ان قوانین پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہے؟!!

٤۔ جبر طبیعی

مقدمہ اول:

طبیعی قوانین ہماری زندگی میں ہماری رفتار و کردار کو تشکیل دیتی ہیں ۔

مقدمہ دوم:

انسان کے اختیاری افعال بھی اثر پذیرہیں۔

نتیجہ:

انسان کے اختیاری افعال بھی قوانین طبیعی کے بغیرباقی نہیں رہتا جس کا لازمہ یہ ہے کہ جبر طبیعی کا انکار نہیں کرسکتا ۔

جواب: انسان کے کچھ خاص غریزوں کو کچھ خاص طبیعی وسائل کے ذریعے ابھارا جا سکتا ہے ۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ انسان مسلوب الاختیار ہو ۔ کیونکہ غرائز طبیعی کو لگام دے سکتا ہے ۔ اس کی بہترین مثال: داستان حضرت یوسف(ع)ہے جو بہت ہی تعجب آور ہے کیونکہ تمام شرائط اور وسائل جیسے جوانی کا عالم، زلیخا کی گناہ آلود خواہشات کو پورا کرنے کیلئے بہترین موقع فراہم ہے ۔ بہترین طریقے سے سجھایا ہوا شہوت آمیز بندکمرہ ، زلیخا جیسی حسین و جمیل عورت کا ننگی ہونا و ۔ ۔ ۔

ان تمام شرائط اور وسائل طبیعی کے باوجود کس طرح حضرت یوسف(ع) نے بدکاری سے دوری اختیار کی؟!!

قرآن مجید فرمارہا ہے:( وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ) ۔ –(۱) -

یعنی اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کرلیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ چکے ہوتے، اس طرح ہوا تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں، کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔

اجزاء علت تامہ قریب تو کامل تھا لیکن وہ برہان خدا دادی جو نورانیت اور پاکیزگی تھی ۔ جسے ہم درک نہیں کرسکتے ، گناہ کبیرہ سے بچنے کا باعث بنا ۔

اس ماجرا میں فقط حضرت یوسف(ع) کی ذات تھی جس نے اس فعل قبیح کو ترک کرنے کا ارادہ کیا ۔ فقط وہی ذات تھی جس نے اپنے اختیار کیساتھ راہ رضای الہی کو انتخاب کیا اور فرمان شیطان کو اپنے سے دور کیا ۔ اب بتاؤ جبر طبیعی کہاں گیا؟!

دوسری مثال :حضرت نوح(ع) کا بیٹا اور حضرت لوط(ع) کی بیوی کو دیکھ تمام شرائط طبیعی ہدایت اللہ کے نبیوں کے گھر میں جہاں وحی الہی نازل ہو کرتی تھی) ہونے کے باوجود گمراہ ہوئے۔ جبکہ حضرت نوح(ع)کے دوسرے تمام بیٹے اپنے پدر بزرگوار کے پیروکار بنے ۔ لیکن یہ ایک سرکش نکلا اور ہلاک ہوا ۔

پس جبر طبیعی کے قائل افراد اس حقیقت کی توجیہ کیسے کرینگے؟!

تیسری مثال: ہمسر فرعون حضرت آسیہ شرائط طبیعی کے لحاظ سے تو ایسے محیط میں زندگی کر رہی تھی کہ دنیا کی ساری دولت ان کے قدموں تلے موجود تھی ۔ اور شوہر کہ جو اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا ۔ پھر بھی نہ دنیا کے زرق و برق اسے راہ خدا سے بھٹکا سکے اورنہ فرعون جیسا کافر شوہر ۔ بلکہ خدا کی راہ میں دنیا کی سختی اور مشقتیں برداشت کرکے خدا سے اس کا صلہ جنت میں محل کی صورت میں مانگ رہی ہے ۔ جس کی قرآن نے یوں تعبیر کی ہے:رب ابن لی عندک بیتا فی الجنة(۲) - یعنی خدایا مجھے اپنے پاس گھر عطا کرے۔ پس جبر اور قوانین طبیعی کے درمیان کوئی لازمہ نہیں جو انسانی زندگی پر اثر انداز ہو سکے۔ –(۳)

____________________

۱ ۔ یوسف ۲۴ ۔

۲ ۔ تحریم ١١.

۳ ۔ غرویاں، آموزش عقائد،ج١،ص٢٠٥.


3

4

5