زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا0%

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 65

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

مؤلف: غلام مرتضیٰ انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 65
مشاہدے: 24999
ڈاؤنلوڈ: 2572

تبصرے:

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 65 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24999 / ڈاؤنلوڈ: 2572
سائز سائز سائز
زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

(زبان اردو)

تألیف

غلام مرتضیٰ انصاری

۳

مقدمہ

الحمد لله رب العالمین وصلی الله علٰی محمد وآله الطاهرین ولعنة الله علٰی اعدائهم اجمعین الی قیام یوم الدین ۔

خدا تعالٰی کا شکر ہے کہ اس دفعہ بھی جشنوارہ شیخ طوسیرحمه‌الله میں یہ مختصر مقالہ لکھنے کی توفیق ہوئی ؛ اس امید کے ساتھ کہ زیادہ سے زیادہ اہل بیت اطہارعليه‌السلام کی معرفت حاصل ؛ اور قیامت کے دن ان ہستیوں کی شفاعت نصیب ہوں ۔ یہ مقالہ بعنوان زینب کبریٰ (س) اور عاشورا لکھا گیا ہے جودوفصل پرمشتمل ہے ۔ پہلی فصل میں بعض خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے کربلا میں اپنا کردار ادا کی ہیں ۔ اور دوسری فصل میں جناب زینب کبری(س) اور ان کی ذمہ داریوں کو عصر عاشور سے لے کر کوفہ اور شام پھر کربلا تا مدینہ ،بیان کیا گیا ہے ۔ خدا تعالی سے یہی دعا ہے کہ ہم سب کو زینب کبری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین مبین اسلام کی تبلیغ وترویج کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

غلام مرتضی انصاری

۴

پہلی فصل :

کربلا میں خواتین کا کردار

معاشرہ سازی اور خواتین

مرد اور عورت دونوں معاشرہ اور جامعہ کوتشکیل دینے میں برابر کے شریک ہیں۔ اسی طرح اس معاشرے کی حفاظت کرنے میں بھی ایک دوسرے کےمحتاج ہیں۔ فرق صرف طور وطریقے میں ہے ۔

معاشرہ سازی میں خواتین کاکردار دو طرح سے نمایان ہوتا ہے:

۱. پہلا کردار غیر مستقیم اور ناپیدا ہے جو اپنے بچّوں کی صحیح تربیت اور شوہر کی اطاعت اور مدد کرکے اداکرتی ہے ۔

۲. دوسرا کردار مستقیم اور حضوری ہے جو خود سیاسی اور معاشرتی امور میں حصہ لےکراپنی فعالیت دکھاتی ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر خواتین کاکردار مردوں کے کردار سے بڑھ کر نہیں ہے تو کم بھی نہیں ۔

عظیم شخصیات جنہوں نے معاشرے میں انقلاب پیدا کئے یا علمی درجات کو طے کئے ہیں ،ان کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے ان کی کامیابی کاراز دو شخصیتوں کی فداکاری کا نتیجہ ہے، ایک وہ باایمان اور فداکار ماں ، جس کی تربیت کی وجہ سے اس کی اولاد کامیابی کے عظیم مقام تک پہنچ گئی ہیں ۔ جیساکہ امام خمینیرحمه‌الله نے فرمایا : ماں کی گود سے انسان کی معراج شروع ہوتی ہے ۔چنانچہ سید رضیرحمه‌الله اور سید مرتضی علم الہدیرحمه‌الله علمی مدارج کو طے کرتے ہوئے جب اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے تو ان کی مادر گرامی کو یہ خوش خبری دی گئی تو کہا : مجھے اس پر تعجب نہیں ، کیونکہ میں نے جس طرح ان کی پرورش کی ہے ، اس سے بھی بڑے مقام پر ہونا چاہئے تھا ۔ یا وہ باوفا اور جان نثار بیوی ، جس کی مدد اور ہمکاری کی وجہ سے اس کا شوہر کامیابی کے بلند وبالا درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔

تاریخ اسلام میں بہت سی مؤمنہ اور فداکار خواتین گزری ہیں جنہوں نے سیاسی اور اجتماعی امور میں اپنی فعالیت اور کرداردکھائی ہیں۔ اولاد کی صحیح تربیت دینے کے علاوہ خود بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ رہ کر دین اورمعاشرےکی اصلاح کی ہیں۔اسی طرح کربلا میں بھی خواتین نے عظیم کارنامے انجام دی ہیں ۔جن میں سے بعض خواتین کے نام درج ذیل ہیں:

۵

دیلم، زہیر کی بیوی

یہ عظیم عورت باعث بنی کہ اس کا شوہر امام حسینعليه‌السلام کے باوفا اصحاب میں شامل ہوکر شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے ۔ چنانچہ قبیلہ فزارہ و بجیلہ نے نقل کی ہیں کہ: ہم زہیر بن قین کے ساتھ مکہ سے اپنا وطن واپس آرہے تھے ۔اور امام حسینعليه‌السلام کے پیچھے پیچھے حرکت کر رہے تھے۔ جہاں بھی آن حضرت خیمہ نصب کرتے تھے؛ ہم اس سے تھوڑا دور خیمہ نصب کرتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک منزل آئی، جہاں ہم کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے ۔ اچانک امام کی طرف سے قاصد آیا، سلام کیا او ر کہا : اے زہیر بن قین؛ اباعبد اللہ الحسینعليه‌السلام نے تمھیں بلایا ہے ۔جب یہ پیغام سنایا توان پر سخت خوف اور دہشت طاری ہوگئی اور حیرانگی کی عالم میں اس قدر بے حرکت ہوگیا ؛کہ اگر پرندہ سر پر بیٹھ جاتا تو بھی پتہ نہ چلتا ۔

زہیر کی بیوی دیلم بنت عمرو دیکھ رہی تھی ؛کہا: سبحان اللہ !فرزند رسول (ص)تمہیں بلائے اور تم خاموش اور جواب نہ دے ؟!کیا تو فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جواب نہیں دوگے؟ آپ جائیں اور امامعليه‌السلام کی باتوں پر غور کریں کہ کیا فرمانا چاہتے ہیں؟ جب اس کی بیوی کا یہ جزبہ دیکھا تو وہ آنحضرتعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ کچھ دیر کے بعد نورانی چہرہ کیساتھ خوشی خوشی واپس لوٹا اور حکم دیا کہ ان کا خیمہ بھہی امام حسینعليه‌السلام کے خیمے کے نزدیک نصب کرے ۔ اور اپنی وفادار بیوی سے کہا : میں تجھے طلاق دیتا ہوں تو اپنے والدین کے پاس چلی جائیں ۔ میں نہیں چاہتا میری وجہ سے تجھے کوئی تکلیف پہنچے۔ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ امام حسینعليه‌السلام کیساتھ ساتھ رہوں تاکہ اپنے کو ان پر قربان کروں۔ اور اپنی جان کو بلاوں کا حوالہ کروں ۔ پھر بیوی سے مربوط جو بھی مال دولت ساتھ لیکر آئے تھے ان کو دیدیا ۔ اور ان کو اپنےچچازاد بھائیوں کے ساتھ روانہ کیا ۔

وہ مؤمنہ بیوی اپنی جگہ سے اٹھی اور روتی ہوئی زہیر کو الوداع کیا ۔ اور کہا : خدا آپ کا حامی وناصر ہو اور ہر خیر اور نیکہی آپ کو نصیب کرے ، لیکن میری ایک خواہش ہے کہ قیامت کے دن جدّحسینصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے میری شفاعت کرنا ۔

تذکرۃ الخواص میں سبط جوزی نے لکھاہے کہ زہیر بن قین کی شہادت کے بعد ان کی بیوی نے زہیر کے غلام سے کہا :جاؤ اپنے آقا کیلئے کفن پہناؤ ۔جب وہ غلام کفن لیکر وہاں پہنچا تو امام حسینعليه‌السلام کو برہنہ دیکھ کر کہا: میں اپنے آقا کو کفن پہناؤں اور فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو عریان رکھوں ؟! نہیں خدا کی قسم میں امام حسینعليه‌السلام کو کفن پہنادوں گا۔(۱)

__________________

۱ ۔ بحار ج۴۴،ص۳۷۱،لہوف،ص۷۱۔

۶

وہب بن عبداللہ کی ماں

وہب بن عبداللہ اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ امام حسینعليه‌السلام کے لشکر میں شامل تھا ۔ اس کی ماں اسے شھادت کی ترغیب دلاتی تھی کہ میرے بیٹے اٹھو، اور فرزند رسولعليه‌السلام کی مدد کرو ۔ وہب کہتے ہیں : اس معاملے میں میں کوتاہی نہیں کروں گا ، آپ بےفکر رہیں ۔ جب میدان جنگ میں جاکر رجز پڑھا اور دشمنوں پر حملہ کرنے کے بعد ما ں اور بیوی کے پاس واپس آیا اور کہا: اماں جان! کیا آپ راضی ہوگئیں؟وہ شیر دل خاتون کہنے لگی : اس وقت میں تم سے راضی ہونگی کہ تم امام حسین ؑ کی راہ میں شہید ہوجائے۔ اس کی بیوی نے اس کے دامن پکڑکے کہا: مجھے اپنے غم میں داغدار چھوڑ کر نہ جائیں ۔

ناسخ التواریخ نے لکھا ہے کہ شب زفاف کو ۱۷ دن ہی گزر ے تھے کہ کربلا میں پہنچے ۔ شوہر کی جدائی اس خاتون کیلئے بہت سخت تھی ،کہا اے وہب مجھے یقین ہوگیا کہ اب تو فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی راہ میں شہید ہونگے اور بہشت میں حورالعین کے ساتھ بغل گیر ہونگے اور مجھے فراموش کروگے ۔ میں ضروری سمجھتی ہوں کہ فرزند رسولعليه‌السلام کے پاس جا کر تجھ سے عہد لے لوں کہ قیامت کے دن مجھے فراموش نہیں کروگے۔دونوں امام حسینعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچے۔ وہب کی بیوی نے عرض کیا : یابن رسول اللہعليه‌السلام ! میری دو حاجت ہے :

۱. جب میرا شوہر شھید ہونگے تو میں اکیلی رہ جاونگی ،مجھے اہلبیت اطہارعليه‌السلام کے ساتھ رکھیں گے ۔

۲. وہب آپ کو گواہ رکھنا چاہتا ہے کہ قیامت کے دن وہ مجھے فراموش نہیں کریگا ۔

۷

یہ سن کر امام حسینعليه‌السلام نے آنسو بہاتے ہوئے فرمایا : تیری حاجتیں پوری ہونگی اور اسے اطمینان دلایا(۱)

ماں نے کہا :اے بیٹا ان کی باتوں پر تو کان نہ دھریں اور پلٹ جا ،فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اپنی جان کا نذرانہ دو۔تاکہ قیامت کے دن خدا کے سامنے تیری شفاعت کرے ۔وہب میدان میں گیا اور پے درپے حرم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دفاع میں جنگ کرتے رہے، یہاں تک کہ ۱۹ گھوڑا سوار اور ۱۲ نفر پیدل آنے والوں کو جہنم واصل کیا ۔ دشمنوں نے ان کی دونوں ہاتھوں کو قطع کیا ۔ آپ کی ماں نے خیمہ کا ستون ہاتھ میں لیکر میدان کی طرف نکلی اور اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہا: اے میرے بیٹے میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ۔حرم رسول خدا(ص)کی دفاع میں جہاد کرو ۔ بیٹے نے چاہا کہ اپنی ماں کو واپس کرے ،ماں نے بیٹے کی دامن پکڑ کے کہا:جب تک تو شہید نہ ہوگا ،میں کبھی واپس نہیں جاوں گی۔ اور جب وہب شھید ہوئے تو اس کی تلوار اٹھا کر میدان کی طرف روانہ ہوگئی ۔(۲) اس وقت امام حسینعليه‌السلام نے فرمایا:یا ام وهب اجلسی فقد وضع الله الجهاد عن النساء انک وابنک مع جدی محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الجنة

اے وہب کی ما ں !بیٹھ جائیں کہ خدا تعالی نے عورتوں پر سے جہاد کی تکلیف اٹھالیا ہے ۔بیشک تو اور تیرے بیٹے دونوں بہشت میں میرے جد امجدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہونگے۔ خدا تمھیں اہلبیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے جزای خیر دے ،خیمے میں واپس جائیں اور بیبیوں کے ساتھ رہیں۔ خدا تجھ پر رحمت کرے ۔امام کے حکم پر وہ کنیز خدا خیمہ میں واپس آگئی اور دعا کی : خدایا مجھے نا امید نہ کرنا ۔ امام حسینعليه‌السلام نے فرمایا:خدا وند تمھیں ناامید نہیں کریگا۔(۳)

وہب جب جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے تو ان کی بیوی سرانے آکر اس کے چہرے سے خون کو صاف کیا ۔ شمر ملعون نے اپنا غلام بھیجا جس نے اس خاتون کے سر پر وارد کیا اور وہ بھی شہید ہوگئی ۔ اور وہ پہلی خاتون تھی جو امام حسین ؑ کے لشکر میں سے شہید ہوگئی۔(۴)

امام صادقعليه‌السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ وہب بن عبداللہ نصرانی تھا جو امام حسینعليه‌السلام کے دست مبارک پر مسلمان ہوگئے۔وہب بن عبداللہ کی شجاعت کو دیکھ کر عمر سعد ملعون نے کہا: ما اشدّ صولتک ؟ یعنی تو کتنا شجاع ہے؟ دستور دیا کہ اس کا سر الگ کرکے لشکر گاہ حسینی کی طرف پھینک دیا جائے ۔ اس کی شیر دل ماں نے اپنے بیٹے کے سر کو دوبارہ لشکر عمرابن سعد کی طرف پھینکا ،جس سے ایک اور دشمن واصل جہنم ہوگیا۔

__________________

۱ ۔ فرسان الھیجاء ،ج۲ ، ص۱۳۷ ---- ۲ ۔ امالی الصدوق ،ص ۱۶۱---۳ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۷۔

۴ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۶۔

۸

ہمسر حبیب ابن مظاہر

جب امام حسینعليه‌السلام کربلا میں وارد ہوئے تو ایک خط محمد حنفیہ کو اور ایک خط اہل کوفہ کو لکھا ۔ اور خصوصی طور پر اپنے بچپن کے دوست حبیب ابن مظاہر کو یوں لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حسین ابن علیعليه‌السلام کی طرف سے فقیہ انسان، حبیب بن مظاہرکے نام ۔

ہم کربلا میں وارد ہوچکے ہیں اور تو میری رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرابت کو بھی خوب جانتے ہیں ۔ اگر ہماری مدد کرنا چاہتے ہو تو ہمارے پاس آئیں۔

حبیب عبیداللہ کی خوف سے قبیلے میں چھپےہوئے تھے ۔جب خط آیا تو قبیلے والے بھی اس سے آگاہ ہوئے، سب ارد گرد جمع ہوگئے۔ اور پوچھنے لگے کہ کیا حسینعليه‌السلام کی مدد کیلئے جائیں گے؟ !

انہوں نے کہا: میں عمر رسیدہ انسان ہوں میں جنگ کیا کروں گا؟ جب قبیلہ والوں کو آپ کی بات پر یقین ہوگیا کہ نہیں جائیں گے ،آپ کے اردگرد سے متفرق ہوگئے ۔

تو آپ کی باوفا بیوی نے کہا : اے حبیب ! فرزند رسولعليه‌السلام تجھے اپنی مدد کیلئے بلائے اور تو ان کی مدد کرنے سے انکار کرے ، کل قیامت کے دن رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یا جواب دوگے؟! ۔

حبیب چونکہ اپنی بیوی سے بھی تقیہ کررہے تھے،کہا: اگر میں کربلا جاؤں تو عبید اللہ ابن زیاد اور اس کےساتھی میرے گھر کو خراب اور مال جائیداد کو غارت اور تجھے اسیربنائیں گے ۔

وہ شیر دل خاتون کہنے لگیں:حبیب! تو فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کیلئے جائیں میری ،گھر اور جائیداد کی فکر نہ کریں ۔خدا کا خوف کریں ۔

حبیب نے کہا : اے خاتون !کیا نہیں دیکھ رہی کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں،تلوار اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اس مومنہ کی غم وغصہ کی انتہا نہ رہی اورروتی ہوئی اپنی چادر اتاردی اور حبیب کے سر پر اوڑ دی اورکہنے لگی: اگر تو نہیں جاتے تو عورتوں کی طرح گھر میں رہو! اور دلسوز انداز میں فریاد کی : یا ابا عبداللہ ؛ کاش میں مرد ہوتی اور تیرے رکاب میں جہاد کرتی!

جب حبیب نے اپنی بیوی کا خلوص دیکھا، اور یقین ہوگیا کہ یہ دل سے کہہ رہی ہے ؛تو فرمایا: اے ہمسر! تو خاموش ہوجاؤ میں تیری آنکھوں کیلئے ٹھنڈک بنوں گا ۔ اور تیرا ارمان نکالوں گا ۔

۹

اور میں حسینعليه‌السلام کی نصرت میں اپنی اس سفید دا ڑھی کو اپنے خون سے رنگین کروں گا۔(۱)

کربلا میں ۹ شہیدوں کی مائیں

کربلا میں ۹ شہید ایسے ہیں کہ جن کی مائیں خیمہ گاہ میں ان پر بین کر رہی تھیں:

۱. عبداللہ بن الحسینعليه‌السلام جن کی ماں حضرت رباب تھیں ۔

۲. عون بن عبداللہ بن جعفر جن کی ماں حضرت زینب تھیں۔

۳. قاسم بن الحسنعليه‌السلام جن کی ماں ر ملہ تھیں۔

۴. عبداللہ بن الحسنعليه‌السلام جن کی ماں شلیل کی بیٹی بجلیہ تھیں ۔

۵. عبداللہ بن مسلم جن کی ماں امیرالمومنینعليه‌السلام کی بیٹی رقیہ تھیں ۔

۶. محمد بن ابی سعید بن عقیل کہ جن کی ماں اپنے بیٹے کو شہید ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔

۷. عمر بن جنادہ کی ماں اسے جہاد کیلئے تیار کرکے میدان جنگ میں اسے لڑتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔

۸. عبداللہ کلبی کہ جن کی ماں اور بیوی دونوں اسے جہاد کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔

۹. علی ابن الحسینعليه‌السلام کی ما ں لیلا ان کیلئے خیمے میں نگاہ کر رہی تھیں ۔(۲)

حضرت ام البنینعليه‌السلام

جناب فاطمہ حزام کلابیہ کی بیٹی تھیں ۔ جو بعد میں ام البنین کے نام سے معروف ہوگئیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت امیر المومنینعليه‌السلام نے اپنے بھائی عقیل سے فرمایا : تو عرب کےنسب شناس ہو؛ میں اپنے بیٹے حسین کی حفاظت کیلئے ایک اپنا نائب چاہتا ہوں ،جو حسین کی مدد کرے ۔ بھائی عقیل ! کسی بہادر گھرانے کی کوئی خاتون تلاش کرو۔ ام البنینعليه‌السلام کا نام پیش کیا گیا جو شرافت و پاکدامنی اور زہد و تقوی کے اعتبار سے مشہور تھیں ۔ امیرا لمومنینعليه‌السلام نے منظور فرمایا ۔ عقد ہوا ، ام البنین علیعليه‌السلام کے گھر تشریف لائیں ، حسن وحسینعليه‌السلام تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے ۔ ام البنین (س) نے ہاتھ جوڑ کر کہا : شہزادو! میں ماں بن کے نہیں ،بلکہ میں تو کنیز بن کر آئی ہوں ۔

____________________

۱ ۔ سحاب رحمت ، ص۴۳۰۔

۲ ۔ ہمان ص۴۸۵۔

۱۰

جناب ام البنین (س)کا بڑا احسان ہے قیام حق پر ۔ چار بیٹے عباس،عبداللہ ، جعفر اورعثمان تھے(۴) (۵) (۶) ۔ ایک پوتا تھا ،پانچ قربانیاں ایک گھر سے ۔مروان بن حکم کہتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی ۔ میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہے ۔ میں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو بین کے الفاظ یہ تھے۔ عباس !اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسینعليه‌السلام نہ مارے جاتے(۷) ۔

یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو حسینعليه‌السلام کے ساتھ کربلا بھیجے اور اپنے ساتھ مدینے میں ایک بھی نہیں رکھے۔اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہرا(س) کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔

:(۸) فلما نعی الیھا الاربعۃ ، قالت : قد قطعت نیاط قلبی ۔ اولادی ومن تحت الخضراء کلھم فداء لابی عبداللہ الحسینعليه‌السلام ۔ اخبرنی عن الحسینعليه‌السلام ۔ جب انہیں اپنے ایک بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو فرمایا:اس خبر سے کیا مراد ہے؟ مجھے اباعبداللہعليه‌السلام کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جب بشیر نے اسے اپنے چار بیٹوں کی شہادت کی خبردے دی تو کہا : میرا دل پھٹ گیا ، میرے تمام بیٹے اور جو کچھ آسمان کے نیچے موجود ہیں سب اباعبداللہ الحسینعليه‌السلام پر قربان ہوں ،مجھے اباعبد اللہ الحسینعليه‌السلام کے بارے میں بتائیں۔

__________________

۴ ۔ العمدة ، ص ۲۸۷، فصل ۳۵‏۔

۵ ۔ الاحتجاج ، ج۱ ، ص ۶۱ ،احتجاج النبي ص يوم الغدير على الخلق ۔

۶ ۔ كشف‏الغمة ۔ج۱، ص ۹۴۔

۷ ۷ ۔ علامہ رشید ترابی ؛ روایات عزا، ص ۱۰۵۔

۸ ۔ خاتون دوسرا، مرحوم فیض الاسلام ، ص۸۹۔

۱۱

دوسری فصل

کربلا میں حضرت زینب کبریعليه‌السلام کا کردار

تاریخ ولادت

آپ کی تاریخ ولادت جو شیعوں کے درمیان مشہورہے پانچ جمادی الاول چھ ہجری ہے ۔

نام گزاری

جس طرح امام حسینعليه‌السلام کا نام خدا کی طرف سے رکھا گیا اسی طرح آپ کا نام بھی خدا کی طرف سے معین ہوا ۔ جب آپ پیدا ہوئیں ؛فاطمہ (س)نے علیعليه‌السلام سے کہا :سمّ هذه المولودة فقال ما کنت لاسبق رسول الله (کان فی سفر) ولما جاء النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساله علی عليه‌السلام فقال ماکنت لاسبق ربّی الله تعالی فهبط جبرئیل یقرء علی النبی السلام من الله الجلیل وقال له سمّ هذه المولودة زینب ثمّ اخبره بما یجری علیها من المصائب فبکی النبی وقال من بکی علی مصائب هذه البنت کان کمن بکی علی اخویها الحسن والحسین (۱)

یعنی فاطمہ (س) نے علی سے کہا : اس نومولود کا نام انتخاب کریں ۔ علیعليه‌السلام نے کہا: میں نے کسی بھی کام میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سبقت نہیں کی ہے ۔ کہ آپ سفر پر تھے ۔ جب آپ تشریف لائے تو علیعليه‌السلام نے سوال کیا ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں نے بھی کسی کام کو خدا کے حکم کے بغیر انجام نہیں دیا۔ اس وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور رسول اللہ(ص)کو خدا کا سلام پہنچایا اور فرمایا: اس بچی کا نام زینب رکھا جائے ۔پھررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس نومولود پر بیتنے والی ساری مصیبتیں سنائی ؛ تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آنسو بہانے لگے ۔ پھر فرمایا : جوبھی اس بچی کی مصیبتوں پر آنسو بہائے گا ایسا ہے کہ ان کے بھائی حسن اور حسینعليه‌السلام پر آنسو بہایا ہو۔

____________________

۱ ۔ عباس جیانی دشتی ؛نائبۃ الزہرا، ص۱۷۔

۱۲

اسم گرامی

زینب ہے ۔ اصل میں زین اب یعنی باپ کی زینت ۔ کثرت استعمال کی وجہ سے الف گر گیا ہے ۔اسی لئے بعض نے کہا :ام ابیھا کے مقابلے میں زین ابیھا رکھا گیا ۔

کنیت :

ام المصائب ہے ۔

مشہور القاب

شریکۃ الحسین ،عالمۃ غیر معلمہ کہ امام سجادعليه‌السلام نے فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ ، عقیلہ قریش ، عقیلۃ الوحی ، نائبۃ الزہراء یعنی کربلا میں پنجتن پاک کے نائب موجود تھے جو بدرجہ شہادت فائز ہوئے :

پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین علی اکبرعليه‌السلام تھے ۔

امیر المؤمنینعليه‌السلام کا جانشین ؛علمدار عباسعليه‌السلام تھے ۔

حسن مجتبیٰعليه‌السلام کا جانشین ؛ قاسم بن الحسنعليه‌السلام تھے۔فاطمۃ الزہرا (س)کا جانشین آپ کی بیٹی زینب کبریٰ(س)تھیں ۔

اور اس جانشینی کو اس قدر احسن طریقے سے انجام دیا کہ کربلا میں بھائی کے آخری وداع کے موقع پر اپنی ما ں کی طرف سے حلقوم اور گلے کا بوسہ بھی دیا(۲) ۔

____________________

۲ ۔ سید نورالدین ، جزائری؛ خصائص زینبیہ ، ۲۵۔

۱۳

آپ کا حسب ونسب

ویسے تو آپ کا نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن فن مقالہ یا کتاب نویسی کی رعایت کرتے ہوئے مختصر اً ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے :

آپ کا دادا:شیخ البطحیٰ مؤمن قریش ، اہل مکہ کا سردار حضرت ابوطالبعليه‌السلام تھے۔

آپ کا نانا:سید المرسلین حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ۔ چنانچہ ینابیع المودۃ میں عمر فاروق سے روایت ہے کہ:قَالَ عُمَرُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ كُلُّ حَسَبٍ وَ نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا خَلَا حَسَبِي وَ نَسَبِي وَ كُلُّ بَنِي أُنْثَى عَصَبَتُهُمْ لِأَبِيهِمْ مَا خَلَا بَنِي فَاطِمَةَ فَإِنِّي أَنَا أَبُوهُمْ وَ أَنَا عَصَبَتُهُمْ (۳) ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن ساری نسبتیں ختم ہوجائیں گی سوائے میری اور میری اولادوں کی ۔اور ہر بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف نہیں بلکہ اس کے باپ کی طرف دی جائے گی لیکن میری بیٹی فاطمہ الزہرا (س)کی اولاد کی نسبت میری طرف دی جائے گی۔

معاشر الناس هو ناصر دين الله و المجادل عن رسول الله و هو التقي النقي الهادي المهدي نبيكم خير نبي و وصيكم خير وصي و بنوه خير الأوصياء معاشر الناس ذرية كل نبي من صلبه و ذريتي من صلب علي(۴) اے لوگو! وہ (علیعليه‌السلام )دین خدا کا مدد گار ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کامحافظ ، اور وہ متقی ،پرہیزگار،ہدایت کرنے والا ہے اور تمھارے نبی سب نبیوں سے اعلیٰ ، ان کا جانشین بہترین جانشین ، اور ان کی اولاد بہترین جانشین ہیں ۔ اے لوگو! ہر نبی کی ذریت کا سلسلہ ان کے اپنے صلب سے جاری ہوتا ہے ، لیکن میری ذریت کا سلسلہ علیعليه‌السلام کےصلب سے جاری ہوا ہے ۔

____________________

۳ ۔ العمدة ،ص ۲۸۷، فصل ۳۵۔

۴ ۔ الاحتجاج ، ج۱ ،ص ۶۱ ،احتجاج النبي ص يوم الغدير على الخلق۔

۱۴

‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَ أَبِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ جَالِسَيْنِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص إِذْ دَخَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع فَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ص السَّلَامَ وَ بَشِرَ بِهِ وَ قَامَ إِلَيْهِ وَ اعْتَنَقَهُ وَ قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ أَجْلَسَهُ عَنْ يَمِينِهِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ أَ تُحِبُّ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ وَ اللَّهِ اللَّهُ أَشَدُّ حُبّاً لَهُ مِنِّي إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ ذُرِّيَّةَ كُلِّ نَبِيٍّ فِي صُلْبِهِ وَ جَعَلَ ذُرِّيَّتِي فِي صُلْبِ هَذَا (۵) ۔ ‏

عبد اللہ بن عباس روایت کرتا ہے کہ میں اور میرے بابا عباس بن عبدالمطلبرحمه‌الله رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی ابن ابیطالبعليه‌السلام تشریف لائے اور سلام کی ، رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےبھی سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کیا اور گلے ملائے اور ان کے دونوں آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) بوسہ دیا اور اسے اپنے دائیں طرف بٹھادئے ؛ عباس نے سوال کیا : اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !کیا آپ ان کو دوست رکھتے ہیں ؟رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے رسول خدا کے چچا جان ! خدا کی قسم انہیں مجھ سے بڑھ کر خدا دوست رکھتا ہے ؛ بیشک خدا نے ہر نبی کی اولاد کو ان کے اپنے صلب پاک میں رکھا ہے لیکن میری اولاد کو ان کے صلب میں رکھا ہے ۔

__________________

۵ ۔ كشف‏الغمة ۔ج۱، ص ۹۴۔

۱۵

امام موسی کاظمعليه‌السلام اور ہارون کا مناظرہ

امام کاظمعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ ہارون نے مجھ سے کہا:آپ نے تمام لوگوں کو خواہ عالم ہو یا جاہل سب کو بتایا ہوا ہے کہ آپ کی نسبت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف دے دے تاکہ سب کہہ دے : اے رسول خدا کے بیٹے۔جبکہ آپ لوگ علی ابنابیطالبعليه‌السلام کے بیٹے ہیں ۔ اور ہر اولاد کو اپنے باپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے ۔اور پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے نانا ہیں ۔

میں نے ہارون الرشید سے کہا: اگر پیامبر گرامی دوبارہ زندہ ہوجائے اور تجھ سے تیری بیٹی کا رشتہ مانگے تو کیا تو اپنی بیٹی کا عقد رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کرو گے یا نہیں؟

ہارون : سبحان اللہ ! کیوں نہیں ۔ بلکہ اس بارے میں سارے عرب اور عجم پر فخر کروں گا ۔

امام : میں نے ہارون سے کہا: لیکن پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی میری بیٹی کا رشتہ نہیں مانگیں گے ۔

ہارون : کیوں ؟

امام : کیونکہ انہوں نے مجھے جنا ہے اور میں ان کی اولاد میں سے ہوں۔

ہارون : احسنت یا موسیٰ ابن جعفر ! لیکن اس کی دلیل آپ قرآن سے پیش کریں ۔

۱۶

امام نے آیۃ مباہلہ کی تلاوت فرمائی:فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ أَبْنَاءَكمُ‏ْ وَ نِسَاءَنَا وَ نِسَاءَكُمْ وَ أَنفُسَنَا وَ أَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتهَِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلىَ الْكَذِبِين (۱) ۔

آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کوبلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

اس آیہ شریفہ میں صراحت کے ساتھ امام حسن اور امام حسین کو پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا بیٹا کہہ دیا ہے ۔ اس آیۃ کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ َوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَ يَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَ نُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَ مِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَنَ وَ أَيُّوبَ وَ يُوسُفَ وَ مُوسىَ‏ وَ هَرُونَ وَ كَذَالِكَ نجَْزِى الْمُحْسِنِينَ وَ زَكَرِيَّا وَ يحَْيىَ‏ وَ عِيسىَ‏ وَ إِلْيَاسَ كلُ‏ٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ (۲) ۔

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی ۔ اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی ۔اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارونعليه‌السلام قرار دئے ۔ اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس، سب صالحین میں سے تھے ۔

اے ہارون ! یہ بتا کہ عیسی ٰ کا باپ کون تھا؟

ہارون : ان کا کوئی باپ نہیں تھا ۔

امام: پس عیسیعليه‌السلام ماں کی طرف سے خدا کے نبیوں میں شمار ہوتے ہیں۔اسی طرح ہمارا شماربھی نبی کی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کی طرف سے نبی کی اولاد شمار ہوتے ہیں ۔

__________________

۱ ۔ آلعمران ۶۱۔

۲ ۔ انعام ۸۴،۸۵

۱۷

پدر گرامی

سیدالوصیین امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم ابن عبد مناف ہیں۔ جو ۱۳ رجب کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اوربروز جمعہ ۲۱ رمضان ۴۰ ہجری کومسجد کوفہ میں شہید کئے گئے ۔

میسر نگردد بہ کس این سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد سعادت

والدہ گرامی

ام الائمہ سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزہرا(س) آپ کی ماں ہیں ۔

اور آپ کی ولادت بعثت کے دوسرے سال ۲۰ جمادی الثانی کو ہوئی ۔

حضرت زینب (س) کی شخصیت اور عظمت

۱ ۔ آپ کا نام وحی کے ذریعے معین ہوا۔

۲ ۔ آپ رسول اللہ (ص)کی اولاد میں سے ہے ۔

۳ ۔ ان کی مصیبت میں رونا امام حسینعليه‌السلام پر رونے کے برابر ہے ۔

۴ ۔ جب بھی امام حسینعليه‌السلام کی خدمت میں جاتی تو آپ ان کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔

علامہ محمد کاظم قزوینی لکھتے ہیں کہ زینبعليه‌السلام میں تمام شرافت و افتخار و عظمت کے اسباب پائے جاتے ہیں۔اگر قانون وراثت کے اعتبار سے دیکھا جائےتو آپ کی ماں کےسوا دنیا کی کوئی بھی خاتون کیلئے وہ شرافت حاصل نہیں۔ نانا کو دیکھیں تو سید المرسلین ، با با کو دیکھیں تو سید الوصیین، بھائیوں کو دیکھے تو سیدا شباب اہل الجنۃ ، اور ماں کو دیکھیں تو سیدۃ نساء العالمین۔

۱۸

شاعر نے یوں آپ کاحسب و نسب بیان کیا ہے :

هی زینب بنت النبی المؤتمن

هی زینب ام المصائب والمحن

هی بنت حیدر ة الوصی و فاطم

وهی الشقیقة للحسین والحسن

مشکلات اور سختیوں کے مقابلے میں صبر واستقامت اور خونخوار دشمنوں کےمقابلے میں شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کرنا آپ کی عظیم کرامتوں میں سے ہے ۔ اخلاق اور کردار کے اعتبار سے عطوفت اور مہربانی کا پیکر ،عصمت اور پاکدامنی کے اعتبار سے حیا و عفت کی مالکہ ہونا آپ کی شرافت اور عظمت کیلئے کافی ہے!

ذرا سوچیں کہ اگر یہ ساری صفات کسی خاتون میں جمع ہوجائیں تو اس کے بارے میں آپ کیا فیصلہ کریں گے؟!

چنانچہ زینب کبریعليه‌السلام نہضت کربلا میں بہت بڑی مسئولیت اپنے ذمے لی ہوئی تھی۔اپنی اس مسئولیت سے عہدہ برآ ہونے کیلئے بچپن ہی سے تلاش کر رہی تھی ۔ معصوم ہی کے دامن میں پرورش اور تربیت حاصل کر رہی تھی ۔

۱۹

علم ومعرفت

زینب کبری ،رسول خدا (ص)کے شہر علم میں پیدا ہوئیں اور دروازہ علم کے دامن میں پرورش پائی اورحضرت زہرا(س) کے پاک سینہ سے تغذیہ حاصل کیں۔ اور ایک لمبی عمر دوامام بھائیوں کے ساتھ گذاریں ۔ اور انھوں نے آپ کو خوب تعلیم دی ۔ اس طرح زینب کبری آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم اور فضائل سے مالامال ہوئیں ۔ یہی وجہ تھی سخت دشمنوں جیسے یزید بن معاویہ کو بھی اعتراف کرنا پڑا ۔ اور سید سجادعليه‌السلام نے آپ کی شان میں فرمایا :انت بحمد الله عالمة غیر معلمة و فهمة غیر مفهمة ۔

زہد وعبادت

عبادت کے لحاظ سے اس قدر خدا کے ہاں عظمت والی تھیں کہ سانحہ کربلا کے بعد اسیری کی حالت میں جسمانی اور روحی طور پرسخت ترین شرایط میں بھی نماز شب ترک نہ ہوئی۔ جبکہ عام لوگوں کیلئے معمولی مصیبت یا حادثہ دیکھنے پر زندگی کانظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اور آپ کی زہد کی انتہا یہ تھی کہ اپنا کھانا بھی یتیموں کو دیتی اور خود بھوکی رہتی ؛جس کی وجہ سے بدن میں اتنا ضعف پیدا ہوگیا کہ نماز شب اٹھ کر پڑھنے سے عاجز آگئی ۔

زہد کا معنی یہی ہے کہ خدا کے خاطردنیا کی لذتوں کو ترک کرے ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ز،ھ،د یعنی زینت، ہواوہوس اور دنیا کا ترک کرنے کا نام زہد ہے ۔زہد کا مقام قناعت سے بھی بالا تر ہے ۔اور زہد کا بہت بڑا فائدہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے :وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَثْبَتَ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَ أَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَ الدُّنْيَا دَاءَهَا وَ دَوَاءَهَا وَ أَخْرَجَهُ مِنَ الدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ السَّلَامِ (۱) ۔

یعنی جو بھی ارادہ کرے کہ خدا اسے علم دے بغیر سیکھے ؛ اور ہدایت دے بغیر کسی ہدایت کرنے والے کے؛ تو اسے چاہئے کہ وہ دنیا میں زہد کو اپنا پیشہ قرار دے ۔اور جو بھی دنیا میں زہد اختیار کرے گا ؛ خدا تعالی اس کے دل میں حکمت ڈال دے گا ۔اور اس حکمت کے ذریعے اس کی زبان کھول دے گا ،اور دنیا کی بیماریوں اور اس کی دواؤں کو دکھائے گا ۔ اور اس دنیا سے اسے صحیح و سالم وادی سلام کی طرف اٹھائے گا۔

____________________

۱ ۔ من‏لايحضره‏الفقيه ، ج ۴، ص۴۱۰ ۔

۲۰