زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا50%

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 65

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 65 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30828 / ڈاؤنلوڈ: 4112
سائز سائز سائز
زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

(زبان اردو)

تألیف

غلام مرتضیٰ انصاری

۳

مقدمہ

الحمد لله رب العالمین وصلی الله علٰی محمد وآله الطاهرین ولعنة الله علٰی اعدائهم اجمعین الی قیام یوم الدین ۔

خدا تعالٰی کا شکر ہے کہ اس دفعہ بھی جشنوارہ شیخ طوسیرحمه‌الله میں یہ مختصر مقالہ لکھنے کی توفیق ہوئی ؛ اس امید کے ساتھ کہ زیادہ سے زیادہ اہل بیت اطہارعليه‌السلام کی معرفت حاصل ؛ اور قیامت کے دن ان ہستیوں کی شفاعت نصیب ہوں ۔ یہ مقالہ بعنوان زینب کبریٰ (س) اور عاشورا لکھا گیا ہے جودوفصل پرمشتمل ہے ۔ پہلی فصل میں بعض خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے کربلا میں اپنا کردار ادا کی ہیں ۔ اور دوسری فصل میں جناب زینب کبری(س) اور ان کی ذمہ داریوں کو عصر عاشور سے لے کر کوفہ اور شام پھر کربلا تا مدینہ ،بیان کیا گیا ہے ۔ خدا تعالی سے یہی دعا ہے کہ ہم سب کو زینب کبری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین مبین اسلام کی تبلیغ وترویج کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

غلام مرتضی انصاری

۴

پہلی فصل :

کربلا میں خواتین کا کردار

معاشرہ سازی اور خواتین

مرد اور عورت دونوں معاشرہ اور جامعہ کوتشکیل دینے میں برابر کے شریک ہیں۔ اسی طرح اس معاشرے کی حفاظت کرنے میں بھی ایک دوسرے کےمحتاج ہیں۔ فرق صرف طور وطریقے میں ہے ۔

معاشرہ سازی میں خواتین کاکردار دو طرح سے نمایان ہوتا ہے:

۱. پہلا کردار غیر مستقیم اور ناپیدا ہے جو اپنے بچّوں کی صحیح تربیت اور شوہر کی اطاعت اور مدد کرکے اداکرتی ہے ۔

۲. دوسرا کردار مستقیم اور حضوری ہے جو خود سیاسی اور معاشرتی امور میں حصہ لےکراپنی فعالیت دکھاتی ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر خواتین کاکردار مردوں کے کردار سے بڑھ کر نہیں ہے تو کم بھی نہیں ۔

عظیم شخصیات جنہوں نے معاشرے میں انقلاب پیدا کئے یا علمی درجات کو طے کئے ہیں ،ان کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے ان کی کامیابی کاراز دو شخصیتوں کی فداکاری کا نتیجہ ہے، ایک وہ باایمان اور فداکار ماں ، جس کی تربیت کی وجہ سے اس کی اولاد کامیابی کے عظیم مقام تک پہنچ گئی ہیں ۔ جیساکہ امام خمینیرحمه‌الله نے فرمایا : ماں کی گود سے انسان کی معراج شروع ہوتی ہے ۔چنانچہ سید رضیرحمه‌الله اور سید مرتضی علم الہدیرحمه‌الله علمی مدارج کو طے کرتے ہوئے جب اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے تو ان کی مادر گرامی کو یہ خوش خبری دی گئی تو کہا : مجھے اس پر تعجب نہیں ، کیونکہ میں نے جس طرح ان کی پرورش کی ہے ، اس سے بھی بڑے مقام پر ہونا چاہئے تھا ۔ یا وہ باوفا اور جان نثار بیوی ، جس کی مدد اور ہمکاری کی وجہ سے اس کا شوہر کامیابی کے بلند وبالا درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔

تاریخ اسلام میں بہت سی مؤمنہ اور فداکار خواتین گزری ہیں جنہوں نے سیاسی اور اجتماعی امور میں اپنی فعالیت اور کرداردکھائی ہیں۔ اولاد کی صحیح تربیت دینے کے علاوہ خود بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ رہ کر دین اورمعاشرےکی اصلاح کی ہیں۔اسی طرح کربلا میں بھی خواتین نے عظیم کارنامے انجام دی ہیں ۔جن میں سے بعض خواتین کے نام درج ذیل ہیں:

۵

دیلم، زہیر کی بیوی

یہ عظیم عورت باعث بنی کہ اس کا شوہر امام حسینعليه‌السلام کے باوفا اصحاب میں شامل ہوکر شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے ۔ چنانچہ قبیلہ فزارہ و بجیلہ نے نقل کی ہیں کہ: ہم زہیر بن قین کے ساتھ مکہ سے اپنا وطن واپس آرہے تھے ۔اور امام حسینعليه‌السلام کے پیچھے پیچھے حرکت کر رہے تھے۔ جہاں بھی آن حضرت خیمہ نصب کرتے تھے؛ ہم اس سے تھوڑا دور خیمہ نصب کرتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک منزل آئی، جہاں ہم کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے ۔ اچانک امام کی طرف سے قاصد آیا، سلام کیا او ر کہا : اے زہیر بن قین؛ اباعبد اللہ الحسینعليه‌السلام نے تمھیں بلایا ہے ۔جب یہ پیغام سنایا توان پر سخت خوف اور دہشت طاری ہوگئی اور حیرانگی کی عالم میں اس قدر بے حرکت ہوگیا ؛کہ اگر پرندہ سر پر بیٹھ جاتا تو بھی پتہ نہ چلتا ۔

زہیر کی بیوی دیلم بنت عمرو دیکھ رہی تھی ؛کہا: سبحان اللہ !فرزند رسول (ص)تمہیں بلائے اور تم خاموش اور جواب نہ دے ؟!کیا تو فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جواب نہیں دوگے؟ آپ جائیں اور امامعليه‌السلام کی باتوں پر غور کریں کہ کیا فرمانا چاہتے ہیں؟ جب اس کی بیوی کا یہ جزبہ دیکھا تو وہ آنحضرتعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ کچھ دیر کے بعد نورانی چہرہ کیساتھ خوشی خوشی واپس لوٹا اور حکم دیا کہ ان کا خیمہ بھہی امام حسینعليه‌السلام کے خیمے کے نزدیک نصب کرے ۔ اور اپنی وفادار بیوی سے کہا : میں تجھے طلاق دیتا ہوں تو اپنے والدین کے پاس چلی جائیں ۔ میں نہیں چاہتا میری وجہ سے تجھے کوئی تکلیف پہنچے۔ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ امام حسینعليه‌السلام کیساتھ ساتھ رہوں تاکہ اپنے کو ان پر قربان کروں۔ اور اپنی جان کو بلاوں کا حوالہ کروں ۔ پھر بیوی سے مربوط جو بھی مال دولت ساتھ لیکر آئے تھے ان کو دیدیا ۔ اور ان کو اپنےچچازاد بھائیوں کے ساتھ روانہ کیا ۔

وہ مؤمنہ بیوی اپنی جگہ سے اٹھی اور روتی ہوئی زہیر کو الوداع کیا ۔ اور کہا : خدا آپ کا حامی وناصر ہو اور ہر خیر اور نیکہی آپ کو نصیب کرے ، لیکن میری ایک خواہش ہے کہ قیامت کے دن جدّحسینصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے میری شفاعت کرنا ۔

تذکرۃ الخواص میں سبط جوزی نے لکھاہے کہ زہیر بن قین کی شہادت کے بعد ان کی بیوی نے زہیر کے غلام سے کہا :جاؤ اپنے آقا کیلئے کفن پہناؤ ۔جب وہ غلام کفن لیکر وہاں پہنچا تو امام حسینعليه‌السلام کو برہنہ دیکھ کر کہا: میں اپنے آقا کو کفن پہناؤں اور فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو عریان رکھوں ؟! نہیں خدا کی قسم میں امام حسینعليه‌السلام کو کفن پہنادوں گا۔(۱)

__________________

۱ ۔ بحار ج۴۴،ص۳۷۱،لہوف،ص۷۱۔

۶

وہب بن عبداللہ کی ماں

وہب بن عبداللہ اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ امام حسینعليه‌السلام کے لشکر میں شامل تھا ۔ اس کی ماں اسے شھادت کی ترغیب دلاتی تھی کہ میرے بیٹے اٹھو، اور فرزند رسولعليه‌السلام کی مدد کرو ۔ وہب کہتے ہیں : اس معاملے میں میں کوتاہی نہیں کروں گا ، آپ بےفکر رہیں ۔ جب میدان جنگ میں جاکر رجز پڑھا اور دشمنوں پر حملہ کرنے کے بعد ما ں اور بیوی کے پاس واپس آیا اور کہا: اماں جان! کیا آپ راضی ہوگئیں؟وہ شیر دل خاتون کہنے لگی : اس وقت میں تم سے راضی ہونگی کہ تم امام حسین ؑ کی راہ میں شہید ہوجائے۔ اس کی بیوی نے اس کے دامن پکڑکے کہا: مجھے اپنے غم میں داغدار چھوڑ کر نہ جائیں ۔

ناسخ التواریخ نے لکھا ہے کہ شب زفاف کو ۱۷ دن ہی گزر ے تھے کہ کربلا میں پہنچے ۔ شوہر کی جدائی اس خاتون کیلئے بہت سخت تھی ،کہا اے وہب مجھے یقین ہوگیا کہ اب تو فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی راہ میں شہید ہونگے اور بہشت میں حورالعین کے ساتھ بغل گیر ہونگے اور مجھے فراموش کروگے ۔ میں ضروری سمجھتی ہوں کہ فرزند رسولعليه‌السلام کے پاس جا کر تجھ سے عہد لے لوں کہ قیامت کے دن مجھے فراموش نہیں کروگے۔دونوں امام حسینعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچے۔ وہب کی بیوی نے عرض کیا : یابن رسول اللہعليه‌السلام ! میری دو حاجت ہے :

۱. جب میرا شوہر شھید ہونگے تو میں اکیلی رہ جاونگی ،مجھے اہلبیت اطہارعليه‌السلام کے ساتھ رکھیں گے ۔

۲. وہب آپ کو گواہ رکھنا چاہتا ہے کہ قیامت کے دن وہ مجھے فراموش نہیں کریگا ۔

۷

یہ سن کر امام حسینعليه‌السلام نے آنسو بہاتے ہوئے فرمایا : تیری حاجتیں پوری ہونگی اور اسے اطمینان دلایا(۱)

ماں نے کہا :اے بیٹا ان کی باتوں پر تو کان نہ دھریں اور پلٹ جا ،فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اپنی جان کا نذرانہ دو۔تاکہ قیامت کے دن خدا کے سامنے تیری شفاعت کرے ۔وہب میدان میں گیا اور پے درپے حرم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دفاع میں جنگ کرتے رہے، یہاں تک کہ ۱۹ گھوڑا سوار اور ۱۲ نفر پیدل آنے والوں کو جہنم واصل کیا ۔ دشمنوں نے ان کی دونوں ہاتھوں کو قطع کیا ۔ آپ کی ماں نے خیمہ کا ستون ہاتھ میں لیکر میدان کی طرف نکلی اور اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہا: اے میرے بیٹے میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ۔حرم رسول خدا(ص)کی دفاع میں جہاد کرو ۔ بیٹے نے چاہا کہ اپنی ماں کو واپس کرے ،ماں نے بیٹے کی دامن پکڑ کے کہا:جب تک تو شہید نہ ہوگا ،میں کبھی واپس نہیں جاوں گی۔ اور جب وہب شھید ہوئے تو اس کی تلوار اٹھا کر میدان کی طرف روانہ ہوگئی ۔(۲) اس وقت امام حسینعليه‌السلام نے فرمایا:یا ام وهب اجلسی فقد وضع الله الجهاد عن النساء انک وابنک مع جدی محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الجنة

اے وہب کی ما ں !بیٹھ جائیں کہ خدا تعالی نے عورتوں پر سے جہاد کی تکلیف اٹھالیا ہے ۔بیشک تو اور تیرے بیٹے دونوں بہشت میں میرے جد امجدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہونگے۔ خدا تمھیں اہلبیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے جزای خیر دے ،خیمے میں واپس جائیں اور بیبیوں کے ساتھ رہیں۔ خدا تجھ پر رحمت کرے ۔امام کے حکم پر وہ کنیز خدا خیمہ میں واپس آگئی اور دعا کی : خدایا مجھے نا امید نہ کرنا ۔ امام حسینعليه‌السلام نے فرمایا:خدا وند تمھیں ناامید نہیں کریگا۔(۳)

وہب جب جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے تو ان کی بیوی سرانے آکر اس کے چہرے سے خون کو صاف کیا ۔ شمر ملعون نے اپنا غلام بھیجا جس نے اس خاتون کے سر پر وارد کیا اور وہ بھی شہید ہوگئی ۔ اور وہ پہلی خاتون تھی جو امام حسین ؑ کے لشکر میں سے شہید ہوگئی۔(۴)

امام صادقعليه‌السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ وہب بن عبداللہ نصرانی تھا جو امام حسینعليه‌السلام کے دست مبارک پر مسلمان ہوگئے۔وہب بن عبداللہ کی شجاعت کو دیکھ کر عمر سعد ملعون نے کہا: ما اشدّ صولتک ؟ یعنی تو کتنا شجاع ہے؟ دستور دیا کہ اس کا سر الگ کرکے لشکر گاہ حسینی کی طرف پھینک دیا جائے ۔ اس کی شیر دل ماں نے اپنے بیٹے کے سر کو دوبارہ لشکر عمرابن سعد کی طرف پھینکا ،جس سے ایک اور دشمن واصل جہنم ہوگیا۔

__________________

۱ ۔ فرسان الھیجاء ،ج۲ ، ص۱۳۷ ---- ۲ ۔ امالی الصدوق ،ص ۱۶۱---۳ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۷۔

۴ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۶۔

۸

ہمسر حبیب ابن مظاہر

جب امام حسینعليه‌السلام کربلا میں وارد ہوئے تو ایک خط محمد حنفیہ کو اور ایک خط اہل کوفہ کو لکھا ۔ اور خصوصی طور پر اپنے بچپن کے دوست حبیب ابن مظاہر کو یوں لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حسین ابن علیعليه‌السلام کی طرف سے فقیہ انسان، حبیب بن مظاہرکے نام ۔

ہم کربلا میں وارد ہوچکے ہیں اور تو میری رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرابت کو بھی خوب جانتے ہیں ۔ اگر ہماری مدد کرنا چاہتے ہو تو ہمارے پاس آئیں۔

حبیب عبیداللہ کی خوف سے قبیلے میں چھپےہوئے تھے ۔جب خط آیا تو قبیلے والے بھی اس سے آگاہ ہوئے، سب ارد گرد جمع ہوگئے۔ اور پوچھنے لگے کہ کیا حسینعليه‌السلام کی مدد کیلئے جائیں گے؟ !

انہوں نے کہا: میں عمر رسیدہ انسان ہوں میں جنگ کیا کروں گا؟ جب قبیلہ والوں کو آپ کی بات پر یقین ہوگیا کہ نہیں جائیں گے ،آپ کے اردگرد سے متفرق ہوگئے ۔

تو آپ کی باوفا بیوی نے کہا : اے حبیب ! فرزند رسولعليه‌السلام تجھے اپنی مدد کیلئے بلائے اور تو ان کی مدد کرنے سے انکار کرے ، کل قیامت کے دن رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یا جواب دوگے؟! ۔

حبیب چونکہ اپنی بیوی سے بھی تقیہ کررہے تھے،کہا: اگر میں کربلا جاؤں تو عبید اللہ ابن زیاد اور اس کےساتھی میرے گھر کو خراب اور مال جائیداد کو غارت اور تجھے اسیربنائیں گے ۔

وہ شیر دل خاتون کہنے لگیں:حبیب! تو فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کیلئے جائیں میری ،گھر اور جائیداد کی فکر نہ کریں ۔خدا کا خوف کریں ۔

حبیب نے کہا : اے خاتون !کیا نہیں دیکھ رہی کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں،تلوار اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اس مومنہ کی غم وغصہ کی انتہا نہ رہی اورروتی ہوئی اپنی چادر اتاردی اور حبیب کے سر پر اوڑ دی اورکہنے لگی: اگر تو نہیں جاتے تو عورتوں کی طرح گھر میں رہو! اور دلسوز انداز میں فریاد کی : یا ابا عبداللہ ؛ کاش میں مرد ہوتی اور تیرے رکاب میں جہاد کرتی!

جب حبیب نے اپنی بیوی کا خلوص دیکھا، اور یقین ہوگیا کہ یہ دل سے کہہ رہی ہے ؛تو فرمایا: اے ہمسر! تو خاموش ہوجاؤ میں تیری آنکھوں کیلئے ٹھنڈک بنوں گا ۔ اور تیرا ارمان نکالوں گا ۔

۹

اور میں حسینعليه‌السلام کی نصرت میں اپنی اس سفید دا ڑھی کو اپنے خون سے رنگین کروں گا۔(۱)

کربلا میں ۹ شہیدوں کی مائیں

کربلا میں ۹ شہید ایسے ہیں کہ جن کی مائیں خیمہ گاہ میں ان پر بین کر رہی تھیں:

۱. عبداللہ بن الحسینعليه‌السلام جن کی ماں حضرت رباب تھیں ۔

۲. عون بن عبداللہ بن جعفر جن کی ماں حضرت زینب تھیں۔

۳. قاسم بن الحسنعليه‌السلام جن کی ماں ر ملہ تھیں۔

۴. عبداللہ بن الحسنعليه‌السلام جن کی ماں شلیل کی بیٹی بجلیہ تھیں ۔

۵. عبداللہ بن مسلم جن کی ماں امیرالمومنینعليه‌السلام کی بیٹی رقیہ تھیں ۔

۶. محمد بن ابی سعید بن عقیل کہ جن کی ماں اپنے بیٹے کو شہید ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔

۷. عمر بن جنادہ کی ماں اسے جہاد کیلئے تیار کرکے میدان جنگ میں اسے لڑتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔

۸. عبداللہ کلبی کہ جن کی ماں اور بیوی دونوں اسے جہاد کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔

۹. علی ابن الحسینعليه‌السلام کی ما ں لیلا ان کیلئے خیمے میں نگاہ کر رہی تھیں ۔(۲)

حضرت ام البنینعليه‌السلام

جناب فاطمہ حزام کلابیہ کی بیٹی تھیں ۔ جو بعد میں ام البنین کے نام سے معروف ہوگئیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت امیر المومنینعليه‌السلام نے اپنے بھائی عقیل سے فرمایا : تو عرب کےنسب شناس ہو؛ میں اپنے بیٹے حسین کی حفاظت کیلئے ایک اپنا نائب چاہتا ہوں ،جو حسین کی مدد کرے ۔ بھائی عقیل ! کسی بہادر گھرانے کی کوئی خاتون تلاش کرو۔ ام البنینعليه‌السلام کا نام پیش کیا گیا جو شرافت و پاکدامنی اور زہد و تقوی کے اعتبار سے مشہور تھیں ۔ امیرا لمومنینعليه‌السلام نے منظور فرمایا ۔ عقد ہوا ، ام البنین علیعليه‌السلام کے گھر تشریف لائیں ، حسن وحسینعليه‌السلام تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے ۔ ام البنین (س) نے ہاتھ جوڑ کر کہا : شہزادو! میں ماں بن کے نہیں ،بلکہ میں تو کنیز بن کر آئی ہوں ۔

____________________

۱ ۔ سحاب رحمت ، ص۴۳۰۔

۲ ۔ ہمان ص۴۸۵۔

۱۰

جناب ام البنین (س)کا بڑا احسان ہے قیام حق پر ۔ چار بیٹے عباس،عبداللہ ، جعفر اورعثمان تھے(۴) (۵) (۶) ۔ ایک پوتا تھا ،پانچ قربانیاں ایک گھر سے ۔مروان بن حکم کہتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی ۔ میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہے ۔ میں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو بین کے الفاظ یہ تھے۔ عباس !اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسینعليه‌السلام نہ مارے جاتے(۷) ۔

یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو حسینعليه‌السلام کے ساتھ کربلا بھیجے اور اپنے ساتھ مدینے میں ایک بھی نہیں رکھے۔اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہرا(س) کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔

:(۸) فلما نعی الیھا الاربعۃ ، قالت : قد قطعت نیاط قلبی ۔ اولادی ومن تحت الخضراء کلھم فداء لابی عبداللہ الحسینعليه‌السلام ۔ اخبرنی عن الحسینعليه‌السلام ۔ جب انہیں اپنے ایک بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو فرمایا:اس خبر سے کیا مراد ہے؟ مجھے اباعبداللہعليه‌السلام کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جب بشیر نے اسے اپنے چار بیٹوں کی شہادت کی خبردے دی تو کہا : میرا دل پھٹ گیا ، میرے تمام بیٹے اور جو کچھ آسمان کے نیچے موجود ہیں سب اباعبداللہ الحسینعليه‌السلام پر قربان ہوں ،مجھے اباعبد اللہ الحسینعليه‌السلام کے بارے میں بتائیں۔

__________________

۴ ۔ العمدة ، ص ۲۸۷، فصل ۳۵‏۔

۵ ۔ الاحتجاج ، ج۱ ، ص ۶۱ ،احتجاج النبي ص يوم الغدير على الخلق ۔

۶ ۔ كشف‏الغمة ۔ج۱، ص ۹۴۔

۷ ۷ ۔ علامہ رشید ترابی ؛ روایات عزا، ص ۱۰۵۔

۸ ۔ خاتون دوسرا، مرحوم فیض الاسلام ، ص۸۹۔

۱۱

دوسری فصل

کربلا میں حضرت زینب کبریعليه‌السلام کا کردار

تاریخ ولادت

آپ کی تاریخ ولادت جو شیعوں کے درمیان مشہورہے پانچ جمادی الاول چھ ہجری ہے ۔

نام گزاری

جس طرح امام حسینعليه‌السلام کا نام خدا کی طرف سے رکھا گیا اسی طرح آپ کا نام بھی خدا کی طرف سے معین ہوا ۔ جب آپ پیدا ہوئیں ؛فاطمہ (س)نے علیعليه‌السلام سے کہا :سمّ هذه المولودة فقال ما کنت لاسبق رسول الله (کان فی سفر) ولما جاء النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساله علی عليه‌السلام فقال ماکنت لاسبق ربّی الله تعالی فهبط جبرئیل یقرء علی النبی السلام من الله الجلیل وقال له سمّ هذه المولودة زینب ثمّ اخبره بما یجری علیها من المصائب فبکی النبی وقال من بکی علی مصائب هذه البنت کان کمن بکی علی اخویها الحسن والحسین (۱)

یعنی فاطمہ (س) نے علی سے کہا : اس نومولود کا نام انتخاب کریں ۔ علیعليه‌السلام نے کہا: میں نے کسی بھی کام میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سبقت نہیں کی ہے ۔ کہ آپ سفر پر تھے ۔ جب آپ تشریف لائے تو علیعليه‌السلام نے سوال کیا ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں نے بھی کسی کام کو خدا کے حکم کے بغیر انجام نہیں دیا۔ اس وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور رسول اللہ(ص)کو خدا کا سلام پہنچایا اور فرمایا: اس بچی کا نام زینب رکھا جائے ۔پھررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس نومولود پر بیتنے والی ساری مصیبتیں سنائی ؛ تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آنسو بہانے لگے ۔ پھر فرمایا : جوبھی اس بچی کی مصیبتوں پر آنسو بہائے گا ایسا ہے کہ ان کے بھائی حسن اور حسینعليه‌السلام پر آنسو بہایا ہو۔

____________________

۱ ۔ عباس جیانی دشتی ؛نائبۃ الزہرا، ص۱۷۔

۱۲

اسم گرامی

زینب ہے ۔ اصل میں زین اب یعنی باپ کی زینت ۔ کثرت استعمال کی وجہ سے الف گر گیا ہے ۔اسی لئے بعض نے کہا :ام ابیھا کے مقابلے میں زین ابیھا رکھا گیا ۔

کنیت :

ام المصائب ہے ۔

مشہور القاب

شریکۃ الحسین ،عالمۃ غیر معلمہ کہ امام سجادعليه‌السلام نے فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ ، عقیلہ قریش ، عقیلۃ الوحی ، نائبۃ الزہراء یعنی کربلا میں پنجتن پاک کے نائب موجود تھے جو بدرجہ شہادت فائز ہوئے :

پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین علی اکبرعليه‌السلام تھے ۔

امیر المؤمنینعليه‌السلام کا جانشین ؛علمدار عباسعليه‌السلام تھے ۔

حسن مجتبیٰعليه‌السلام کا جانشین ؛ قاسم بن الحسنعليه‌السلام تھے۔فاطمۃ الزہرا (س)کا جانشین آپ کی بیٹی زینب کبریٰ(س)تھیں ۔

اور اس جانشینی کو اس قدر احسن طریقے سے انجام دیا کہ کربلا میں بھائی کے آخری وداع کے موقع پر اپنی ما ں کی طرف سے حلقوم اور گلے کا بوسہ بھی دیا(۲) ۔

____________________

۲ ۔ سید نورالدین ، جزائری؛ خصائص زینبیہ ، ۲۵۔

۱۳

آپ کا حسب ونسب

ویسے تو آپ کا نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن فن مقالہ یا کتاب نویسی کی رعایت کرتے ہوئے مختصر اً ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے :

آپ کا دادا:شیخ البطحیٰ مؤمن قریش ، اہل مکہ کا سردار حضرت ابوطالبعليه‌السلام تھے۔

آپ کا نانا:سید المرسلین حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ۔ چنانچہ ینابیع المودۃ میں عمر فاروق سے روایت ہے کہ:قَالَ عُمَرُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ كُلُّ حَسَبٍ وَ نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا خَلَا حَسَبِي وَ نَسَبِي وَ كُلُّ بَنِي أُنْثَى عَصَبَتُهُمْ لِأَبِيهِمْ مَا خَلَا بَنِي فَاطِمَةَ فَإِنِّي أَنَا أَبُوهُمْ وَ أَنَا عَصَبَتُهُمْ (۳) ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن ساری نسبتیں ختم ہوجائیں گی سوائے میری اور میری اولادوں کی ۔اور ہر بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف نہیں بلکہ اس کے باپ کی طرف دی جائے گی لیکن میری بیٹی فاطمہ الزہرا (س)کی اولاد کی نسبت میری طرف دی جائے گی۔

معاشر الناس هو ناصر دين الله و المجادل عن رسول الله و هو التقي النقي الهادي المهدي نبيكم خير نبي و وصيكم خير وصي و بنوه خير الأوصياء معاشر الناس ذرية كل نبي من صلبه و ذريتي من صلب علي(۴) اے لوگو! وہ (علیعليه‌السلام )دین خدا کا مدد گار ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کامحافظ ، اور وہ متقی ،پرہیزگار،ہدایت کرنے والا ہے اور تمھارے نبی سب نبیوں سے اعلیٰ ، ان کا جانشین بہترین جانشین ، اور ان کی اولاد بہترین جانشین ہیں ۔ اے لوگو! ہر نبی کی ذریت کا سلسلہ ان کے اپنے صلب سے جاری ہوتا ہے ، لیکن میری ذریت کا سلسلہ علیعليه‌السلام کےصلب سے جاری ہوا ہے ۔

____________________

۳ ۔ العمدة ،ص ۲۸۷، فصل ۳۵۔

۴ ۔ الاحتجاج ، ج۱ ،ص ۶۱ ،احتجاج النبي ص يوم الغدير على الخلق۔

۱۴

‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَ أَبِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ جَالِسَيْنِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص إِذْ دَخَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع فَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ص السَّلَامَ وَ بَشِرَ بِهِ وَ قَامَ إِلَيْهِ وَ اعْتَنَقَهُ وَ قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ أَجْلَسَهُ عَنْ يَمِينِهِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ أَ تُحِبُّ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ وَ اللَّهِ اللَّهُ أَشَدُّ حُبّاً لَهُ مِنِّي إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ ذُرِّيَّةَ كُلِّ نَبِيٍّ فِي صُلْبِهِ وَ جَعَلَ ذُرِّيَّتِي فِي صُلْبِ هَذَا (۵) ۔ ‏

عبد اللہ بن عباس روایت کرتا ہے کہ میں اور میرے بابا عباس بن عبدالمطلبرحمه‌الله رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی ابن ابیطالبعليه‌السلام تشریف لائے اور سلام کی ، رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےبھی سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کیا اور گلے ملائے اور ان کے دونوں آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) بوسہ دیا اور اسے اپنے دائیں طرف بٹھادئے ؛ عباس نے سوال کیا : اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !کیا آپ ان کو دوست رکھتے ہیں ؟رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے رسول خدا کے چچا جان ! خدا کی قسم انہیں مجھ سے بڑھ کر خدا دوست رکھتا ہے ؛ بیشک خدا نے ہر نبی کی اولاد کو ان کے اپنے صلب پاک میں رکھا ہے لیکن میری اولاد کو ان کے صلب میں رکھا ہے ۔

__________________

۵ ۔ كشف‏الغمة ۔ج۱، ص ۹۴۔

۱۵

امام موسی کاظمعليه‌السلام اور ہارون کا مناظرہ

امام کاظمعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ ہارون نے مجھ سے کہا:آپ نے تمام لوگوں کو خواہ عالم ہو یا جاہل سب کو بتایا ہوا ہے کہ آپ کی نسبت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف دے دے تاکہ سب کہہ دے : اے رسول خدا کے بیٹے۔جبکہ آپ لوگ علی ابنابیطالبعليه‌السلام کے بیٹے ہیں ۔ اور ہر اولاد کو اپنے باپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے ۔اور پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے نانا ہیں ۔

میں نے ہارون الرشید سے کہا: اگر پیامبر گرامی دوبارہ زندہ ہوجائے اور تجھ سے تیری بیٹی کا رشتہ مانگے تو کیا تو اپنی بیٹی کا عقد رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کرو گے یا نہیں؟

ہارون : سبحان اللہ ! کیوں نہیں ۔ بلکہ اس بارے میں سارے عرب اور عجم پر فخر کروں گا ۔

امام : میں نے ہارون سے کہا: لیکن پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی میری بیٹی کا رشتہ نہیں مانگیں گے ۔

ہارون : کیوں ؟

امام : کیونکہ انہوں نے مجھے جنا ہے اور میں ان کی اولاد میں سے ہوں۔

ہارون : احسنت یا موسیٰ ابن جعفر ! لیکن اس کی دلیل آپ قرآن سے پیش کریں ۔

۱۶

امام نے آیۃ مباہلہ کی تلاوت فرمائی:فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ أَبْنَاءَكمُ‏ْ وَ نِسَاءَنَا وَ نِسَاءَكُمْ وَ أَنفُسَنَا وَ أَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتهَِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلىَ الْكَذِبِين (۱) ۔

آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کوبلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

اس آیہ شریفہ میں صراحت کے ساتھ امام حسن اور امام حسین کو پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا بیٹا کہہ دیا ہے ۔ اس آیۃ کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ َوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَ يَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَ نُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَ مِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَنَ وَ أَيُّوبَ وَ يُوسُفَ وَ مُوسىَ‏ وَ هَرُونَ وَ كَذَالِكَ نجَْزِى الْمُحْسِنِينَ وَ زَكَرِيَّا وَ يحَْيىَ‏ وَ عِيسىَ‏ وَ إِلْيَاسَ كلُ‏ٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ (۲) ۔

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی ۔ اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی ۔اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارونعليه‌السلام قرار دئے ۔ اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس، سب صالحین میں سے تھے ۔

اے ہارون ! یہ بتا کہ عیسی ٰ کا باپ کون تھا؟

ہارون : ان کا کوئی باپ نہیں تھا ۔

امام: پس عیسیعليه‌السلام ماں کی طرف سے خدا کے نبیوں میں شمار ہوتے ہیں۔اسی طرح ہمارا شماربھی نبی کی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کی طرف سے نبی کی اولاد شمار ہوتے ہیں ۔

__________________

۱ ۔ آلعمران ۶۱۔

۲ ۔ انعام ۸۴،۸۵

۱۷

پدر گرامی

سیدالوصیین امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم ابن عبد مناف ہیں۔ جو ۱۳ رجب کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اوربروز جمعہ ۲۱ رمضان ۴۰ ہجری کومسجد کوفہ میں شہید کئے گئے ۔

میسر نگردد بہ کس این سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد سعادت

والدہ گرامی

ام الائمہ سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزہرا(س) آپ کی ماں ہیں ۔

اور آپ کی ولادت بعثت کے دوسرے سال ۲۰ جمادی الثانی کو ہوئی ۔

حضرت زینب (س) کی شخصیت اور عظمت

۱ ۔ آپ کا نام وحی کے ذریعے معین ہوا۔

۲ ۔ آپ رسول اللہ (ص)کی اولاد میں سے ہے ۔

۳ ۔ ان کی مصیبت میں رونا امام حسینعليه‌السلام پر رونے کے برابر ہے ۔

۴ ۔ جب بھی امام حسینعليه‌السلام کی خدمت میں جاتی تو آپ ان کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔

علامہ محمد کاظم قزوینی لکھتے ہیں کہ زینبعليه‌السلام میں تمام شرافت و افتخار و عظمت کے اسباب پائے جاتے ہیں۔اگر قانون وراثت کے اعتبار سے دیکھا جائےتو آپ کی ماں کےسوا دنیا کی کوئی بھی خاتون کیلئے وہ شرافت حاصل نہیں۔ نانا کو دیکھیں تو سید المرسلین ، با با کو دیکھیں تو سید الوصیین، بھائیوں کو دیکھے تو سیدا شباب اہل الجنۃ ، اور ماں کو دیکھیں تو سیدۃ نساء العالمین۔

۱۸

شاعر نے یوں آپ کاحسب و نسب بیان کیا ہے :

هی زینب بنت النبی المؤتمن

هی زینب ام المصائب والمحن

هی بنت حیدر ة الوصی و فاطم

وهی الشقیقة للحسین والحسن

مشکلات اور سختیوں کے مقابلے میں صبر واستقامت اور خونخوار دشمنوں کےمقابلے میں شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کرنا آپ کی عظیم کرامتوں میں سے ہے ۔ اخلاق اور کردار کے اعتبار سے عطوفت اور مہربانی کا پیکر ،عصمت اور پاکدامنی کے اعتبار سے حیا و عفت کی مالکہ ہونا آپ کی شرافت اور عظمت کیلئے کافی ہے!

ذرا سوچیں کہ اگر یہ ساری صفات کسی خاتون میں جمع ہوجائیں تو اس کے بارے میں آپ کیا فیصلہ کریں گے؟!

چنانچہ زینب کبریعليه‌السلام نہضت کربلا میں بہت بڑی مسئولیت اپنے ذمے لی ہوئی تھی۔اپنی اس مسئولیت سے عہدہ برآ ہونے کیلئے بچپن ہی سے تلاش کر رہی تھی ۔ معصوم ہی کے دامن میں پرورش اور تربیت حاصل کر رہی تھی ۔

۱۹

علم ومعرفت

زینب کبری ،رسول خدا (ص)کے شہر علم میں پیدا ہوئیں اور دروازہ علم کے دامن میں پرورش پائی اورحضرت زہرا(س) کے پاک سینہ سے تغذیہ حاصل کیں۔ اور ایک لمبی عمر دوامام بھائیوں کے ساتھ گذاریں ۔ اور انھوں نے آپ کو خوب تعلیم دی ۔ اس طرح زینب کبری آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم اور فضائل سے مالامال ہوئیں ۔ یہی وجہ تھی سخت دشمنوں جیسے یزید بن معاویہ کو بھی اعتراف کرنا پڑا ۔ اور سید سجادعليه‌السلام نے آپ کی شان میں فرمایا :انت بحمد الله عالمة غیر معلمة و فهمة غیر مفهمة ۔

زہد وعبادت

عبادت کے لحاظ سے اس قدر خدا کے ہاں عظمت والی تھیں کہ سانحہ کربلا کے بعد اسیری کی حالت میں جسمانی اور روحی طور پرسخت ترین شرایط میں بھی نماز شب ترک نہ ہوئی۔ جبکہ عام لوگوں کیلئے معمولی مصیبت یا حادثہ دیکھنے پر زندگی کانظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اور آپ کی زہد کی انتہا یہ تھی کہ اپنا کھانا بھی یتیموں کو دیتی اور خود بھوکی رہتی ؛جس کی وجہ سے بدن میں اتنا ضعف پیدا ہوگیا کہ نماز شب اٹھ کر پڑھنے سے عاجز آگئی ۔

زہد کا معنی یہی ہے کہ خدا کے خاطردنیا کی لذتوں کو ترک کرے ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ز،ھ،د یعنی زینت، ہواوہوس اور دنیا کا ترک کرنے کا نام زہد ہے ۔زہد کا مقام قناعت سے بھی بالا تر ہے ۔اور زہد کا بہت بڑا فائدہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے :وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَثْبَتَ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَ أَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَ الدُّنْيَا دَاءَهَا وَ دَوَاءَهَا وَ أَخْرَجَهُ مِنَ الدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ السَّلَامِ (۱) ۔

یعنی جو بھی ارادہ کرے کہ خدا اسے علم دے بغیر سیکھے ؛ اور ہدایت دے بغیر کسی ہدایت کرنے والے کے؛ تو اسے چاہئے کہ وہ دنیا میں زہد کو اپنا پیشہ قرار دے ۔اور جو بھی دنیا میں زہد اختیار کرے گا ؛ خدا تعالی اس کے دل میں حکمت ڈال دے گا ۔اور اس حکمت کے ذریعے اس کی زبان کھول دے گا ،اور دنیا کی بیماریوں اور اس کی دواؤں کو دکھائے گا ۔ اور اس دنیا سے اسے صحیح و سالم وادی سلام کی طرف اٹھائے گا۔

____________________

۱ ۔ من‏لايحضره‏الفقيه ، ج ۴، ص۴۱۰ ۔

۲۰

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْراً زَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا وَ فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَهَا وَ مَنْ أُوتِيَهُنَّ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة (۲) ۔

یعنی جب خدا تعالی کسی کو دنیا و آخر ت کی نیکی دینا چاہتا ہے تو اسے دنیا میں زاہد اور دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور اپنے عیوب کو اسے دکھا دیتا ہے ۔ اور جس کو بھی یہ نصیب ہو جائے، اسے دنیا و آخرت کی خیر و خوبی عطا ہوئی ہے ۔

حدیث قدسی میں مذکور ہے :أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي بَعْضِ كُتُبِهِ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا حَيٌّ لَا أَمُوتُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ حَتَّى أَجْعَلَكَ حَيّاً لَا تَمُوتُ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ تَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ (۳)

اے فرزند آدم !میں زندہ ہوں جس کیلئے موت نہیں ، جن چیزوں کا میں تجھے حکم دوں گا ان میں تو میری اطاعت کرو تاکہ میں تجھے بھی اپنی طرح ایسی زندگی دوں کہ تو نہ مرے ، اے فرزند آدم جو کچھ کہتا ہوں ہوجاؤ تو ہوجاتا ہے ۔ اگر تو چاہے کہ تو جو کچھ کہے ہوجائے ؛ تو میں جوکچھ تجھے حکم دونگا اس پر عمل کرو ۔

زینب کبری (س) بھی اپنی عبادت اور بندہ گی ،زہد وتقوی اور اطاعت خدا کی وجہ سے ان تمام روایتوں کا مصدا ق اتم اور ولایت تکوینی کی مالکہ تھیں۔ چنانچہ روایت میں آئی ہے کہ دربار شام میں خطبہ دینے سے پہلے بہت شور وغل تھا، انھیں خاموش کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہ تھی ۔ لیکن جب آپ نے حکم دیا کہ خاموش ہوجاؤ؛ تو لوگوں کے سینے میں سانسیں رہ گئیں۔ اور بات کرنے کی جرات نہ کرسکے۔

معاشرے کی اصلاح کیلئےامام حسینعليه‌السلام نے ایک انوکھا اور نیا باب کھولا وہ یہ تھا کہ اپنے اس قیام اور نہضت کو دو مرحلے میں تقسیم کیا :

حدیث عشق دوباب است کربلا تاشام

یکی حسین رقم کردس و دیگری زینب(س)

____________________

۲ ۔ الكافي ،ج۲ ، ص۱۳۰ ، باب ذم الدنيا و الزهد فيها۔

۳ ۔ مستدرك‏الوسائل ،ج ۱۱ ، ص۲۵۸ ۔

۲۱

پہلا مرحلہ خون، جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا ۔

دوسرا مرحلہ پیغام رسانی ، بیدار گری، خاطرات اور یادوں کو زندہ رکھنے کا مرحلہ ۔

پہلے مرحلے کیلئے جان نثاراور با وفا اصحاب کو انتخاب کیا ۔ اس طرح یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی ۔ جنہوں نے جس انداز میں اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھایا؛ تاریخ انسانیت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ سب بہ درجہ شہادت فائز ہوگئے۔

اب رہا ،دوسرا مرحلہ ،کہ جسے زینب کبری (س) کی قیادت میں خواتین اور بچوں کے حوالے کئے۔ جسے خواتین نے جناب سیدہ زینب (س) کی نگرانی میں اپنے انجام تک پہنچانا تھا ۔ اس عہدے کو سنبھالنے میں حضرت زینب (س) نے بھی کوئی کسر نہیں رکھی۔جناب محسن نقوی نے یوں اس کردار کی تصویر کشی کی ہے :

قدم قدم پر چراغ ایسے جلاگئی ہے علی کی بیٹی

یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی

کہیں بھی ایوان ظلم تعمیر ہوسکے گا نہ اب جہاں میں

ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی کی بیٹی

نہ کوئی لشکر نہ سر پہ چادر مگر نہ جانے ہوا میں کیونکر

غرورظلم وستم کے پرزے اڑا گئی ہے علی کی بیٹی

پہن کے خاک شفاکا احرام سر برہنہ طواف کرکے

حسین! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی کی بیٹی

یقین نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا

یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی کی بیٹی

ابد تلک اب نہ سر اٹھاکے چلے گا کوئی یزید زادہ

غرور شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی(۴)

____________________

۴ ۔ محسن نقوی؛موج ادراک،ص ۱۴۲۔

۲۲

زینب کبری (س) کو اس مسئولیت کیلیے تیار کرنا

اگرچہ زینب کبری (س) روحی اعتبار سے تحمل اور برداشت کی قدرت رکھتی تھیں ،لیکن پھر بھی یہ حادثہ اتنا دردناک اور مسئولیت اتنی سنگین تھی کہ آپ جیسی شیر دل خاتون کو بھی پہلے سے آمادہ گی کرنی پڑی ۔اسی لئے بچپن ہی سے ایسے عظیم سانحے کیلئے معصوم کے آغوش میں رہ کر اپنے آپ کو تیار کر رہی تھیں۔ چنانچہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے ایام نزدیک تھا ، آپ اپنے جد بزرگوار کی خدمت میں گئیں اور عرض کیا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کل رات میں نے خواب دیکھا کہ تند ہوا چلی جس کی وجہ سے پوری دنیا تاریک ہوجاتی ہے ۔ یہ تند ہوا مجھے ایک طرف سے دوسری طرف پہنچا دیتی ہے ،اچانک میری نظریں ایک تناور درخت پر پڑتی ہے ،تو میں اس درخت کے تلے پناہ لیتی ہوں ۔لیکن ہوا اس قدر تیز چلتی ہے کہ وہ درخت بھی ریشہ کن ہوجاتا ہے ۔ اور زمین پر گرتا ہے تو میں ایک مضبوط شاخ سے لپٹ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں۔ لیکن ہوا اس شاخ کو بھی توڑ ڈالتی ہے ؛میں دوسری شاخ پکڑ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں؛ اسے بھی توڑڈالتی ہے ۔سرانجام دو شاخیں ملی ہوئی ملتی ہے تو میں ان سے سہارا لیتی ہوں، لیکن ہوا ان دوشاخوں کو بھی توڑ ڈالتی ہے ، اسوقت میں نیند سے بیدار ہوجاتی ہوں۔!زینب کبری (س) کی باتوں کو سن کر پیامبر گرامی اسلام (ص)کے آنسو جاری ہوگئے۔ پھر فرمایا: اے نور نظر! وہ درخت آپ کے جد گرامی ہیں ؛ بہت جلد تند اور تیز ہوا اسے اجل کی طرف لے جائیگی۔اور پہلی شاخ آپ کے بابا اور دوسری شاخ آپ کی ماں زہرا(س) اور دو شاخیں جو ساتھ ملی ہوئی تھیں وہ آپ کے بھائی حسن اور حسینعليه‌السلام تھے ؛جن کی سوگ میں دنیا تاریک ہوجائے گی اور آپ کالے لباس زیب تن کریں گی(۵) ۔چھ سال بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ جد گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے سوگ میں بیٹھنی پڑی ، پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد مادر گرامی (س) کی مصیبت ، اس کے بعد امام حسن مجتبی اور امام حسین مظلومکربلاعليه‌السلام کی مصیبت برداشت کرنی پڑی ۔

جب مدینے سے مکہ ،مکہ سے عراق ،عراق سے شام کی مسافرت کی تفصیلات بیان کی تو بغیر کسی چون وچرا اور پیشنہاد کے اپنے بھائی کے ساتھ جانے کیلئے تیار ہوجاتی ہیں۔ اور اپنے بھائی کے ساتھ اس سفر پر نکلتی ہیں۔ گویا ایسا لگتا ہے کہ کئی سال پہلے اس سفر کیلئے پیشن گوئی کی گئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی عقد نکاح میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ سفر پر جانے کو مشروط قراردیا تھا(۶) ۔

اور جب قافلہ حسینیعليه‌السلام مدینے سے نکل رہا تھا ،عبداللہ بن جعفر الوداع کرنے آیا ، تو زینب کبری (س) نے کہا : اے عموزادہ عبداللہ! آپ میرے آقا ہو ۔اگر آپ اجازت نہ دے تو میں نہیں جاؤں گی ؛لیکن یہ یاد رکھنا کہ میں بھائی سے بچھڑ کر زندہ نہیں رہ سکونگی۔ تو جناب عبداللہ نے بھی اجازت دے دی اور آپ بھائی کے ساتھ سفر پر نکلی ۔

__________________

۵ ۔ ریاحین الشریعہ ،ج۳، ص۱۵۔

۶ ۔ اندیشہ سیاسی عاشورا،ش۴،سال ۱۳۸۱۔

۲۳

شب عاشور امام حسینعليه‌السلام کا آپ کو مشورہ دینا

قال الامام السجادعليه‌السلام :أَبِي يَقُولُ :

يَا دَهْرُ أُفٍّ لَكَ مِنْ خَلِيلٍ

كَمْ لَكَ بِالْإِشْرَاقِ وَ الْأَصِيلِ‏

مِنْ صَاحِبٍ وَ طَالِبٍ قَتِيلٍ

وَ الدَّهْرُ لَا يَقْنَعُ بِالْبَدِيلِ‏

وَ إِنَّمَا الْأَمْرُ إِلَى الْجَلِيلِ

وَ كُلُّ حَيٍّ سَالِكٌ سَبِيلِي‏

فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً حَتَّى فَهِمْتُهَا وَ عَلِمْتُ مَا أَرَادَ فَخَنَقَتْنِيَ الْعَبْرَةُ فَرَدَدْتُهَا وَ لَزِمْتُ السُّكُوتَ وَ عَلِمْتُ أَنَّ الْبَلَاءَ قَدْ نَزَلَ وَ أَمَّا عَمَّتِي فَلَمَّا سَمِعَتْ مَا سَمِعْتُ وَ هِيَ امْرَأَةٌ وَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ الرِّقَّةُ وَ الْجَزَعُ فَلَمْ تَمْلِكْ نَفْسَهَا أَنْ وَثَبَتْ تَجُرُّ ثَوْبَهَا وَ هِيَ حَاسِرَةٌ حَتَّى انْتَهَتْ إِلَيْهِ وَ قَالَتْ وَا ثُكْلَاهْ لَيْتَ الْمَوْتَ أَعْدَمَنِيَ الْحَيَاةَ الْيَوْمَ مَاتَتْ أُمِّي فَاطِمَةُ وَ أَبِي عَلِيٌّ وَ أَخِيَ الْحَسَنُ يَا خَلِيفَةَ الْمَاضِي وَ ثِمَالَ الْبَاقِي فَنَظَرَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَهْ لَا يَذْهَبَنَّ حِلْمَكِ الشَّيْطَانُ وَ تَرَقْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ وَ قَالَ لَوْ تُرِكَ الْقَطَا لَيْلًا لَنَامَ فَقَالَتْ يَا وَيْلَتَاهْ أَ فَتَغْتَصِبُ نَفْسَكَ اغْتِصَاباً فَذَلِكَ أَقْرَحُ لِقَلْبِي وَ أَشَدُّ عَلَى نَفْسِي ثُمَّ لَطَمَتْ وَجْهَهَا وَ هَوَتْ إِلَى جَيْبِهَا وَ شَقَّتْهُ وَ خَرَّتْ مَغْشِيَّةً عَلَيْهَا فَقَامَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع فَصَبَّ عَلَى وَجْهِهَا الْمَاءَ وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَاهْ اتَّقِي اللَّهَ وَ تَعَزَّيْ بِعَزَاءِ اللَّهِ وَ اعْلَمِي أَنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ يَمُوتُونَ وَ أَهْلَ السَّمَاءِ لَا يَبْقَوْنَ وَ أَنَ‏ كُلَّ شَيْ‏ءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَ يَبْعَثُ الْخَلْقَ وَ يَعُودُونَ وَ هُوَ فَرْدٌ وَحْدَهُ وَ أَبِي خَيْرٌ مِنِّي وَ أُمِّي خَيْرٌ مِنِّي وَ أَخِي خَيْرٌ مِنِّي وَ لِي وَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ بِرَسُولِ اللَّهِ أُسْوَة (۱) ۔

امام سجادعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ شب عاشور میری پھوپھی میری پرستاری کر رہی تھی میرے بابا اپنے خیمے میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے : اے زمانہ تم پر تف ہو کہ تو کب تک اپنی آرزو اور تمنا رکھنے والوں کو خون میں آغشتہ کرتا رہے گا؟ و۔۔۔

____________________

۱ ۔ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۔۳

۲۴

یہ اشعار جب آپ نے سنی تو آپ آپے سے باہر ہوگئی اور فریاد کرنے لگی۔ اور بابا کے پاس تشریف لے گئی اور فرمایا: اے کاش مجھے موت آتی، آج کادن اس دن کی طرح ہے جس دن میری ماں ، میرے بابا ، اور بھائی حسنمجتبیعليه‌السلام اس دنیا سے رحلت فرماگئے ، اب تو آپ ہی ان بزرگوں کے وارث اور لواحقین کے پناہ گاہ ہو۔

امام حسینعليه‌السلام نے زینب کبری(س) کی طرف دیکھ کر فرمایا : میری بہن !ایسا نہ ہو کہ شیطان تیری حلم اور بردباری تجھ سے چھین لے۔

زینب کبری (س)نے کہا : بھیا! آپ کی اس بات نے میرے دل کو مزید جلادیا کہ آپ مجبور ہیں اور ناچار ہوکر شہید کئے جارہے ہیں!!اس وقت گریبان چاک کرکے اپنا سر پیٹنا شروع کیا ۔ اور بیہوش ہوگئیں ۔میرے بابا نے چہرے پر پانی چھڑکایا ؛جب ہوش آیا تو فرمایا: میری بہن ! خدا کا خوف کرو ، صبر اور حوصلے سے کام لو اور جان لو کہ سب اہل زمین و آسمان فنا ہونے والے ہیں سوائے خداتعالی کے۔ میرے بابا مجھ سے بہتر تھے اور ماں مجھ سے بہتر تھیں اور میرے بھائی اور میرے جد امجدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے افضل تھے ، جب وہ لوگ نہ رہیں تو میں کیسے رہ سکوں گا؟!

امام مظلومعليه‌السلام نے یوں اپنی بہن کو نصیحت کی کہ ایسا نہ ہو تفکر اور اندیشہ آپ کی احساسات کے تحت شعاع چلی جائے۔اور جناب زینب (س) نے بھی کیا خوب اس نصیحت پر عمل کیا ۔ جہاں تدبر اور تعقل سے کام لینا تھا وہاں برد وباری اور شکیبائی سے کام لیا اور جہاں احساسات کا مظاہرہ کرنا تھا وہاں بخوبی احساسات و عواطف کا مظاہرہ کیا ۔

اس طرح امامعليه‌السلام مختلف مقامات پر اپنی بہن کو صبر واستقامت کی تلقین کرتے رہے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ زنیب کبری (س) نے اپنی پیغام رسانی میں کوئی کمی آنے نہ دیا ۔ جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے :

مہکا گئی جو اپنے چمن کی کلی کلی

جس نے حسینیت کو بچایا گلی گلی

کانٹوں بھرے سفر میں جہاں تک چلی چلی

لیکن سکھاگئی ہے جہاں کو علی علی

اسلا م بچ گیا یہ اسی کا کمال تھا

ورنہ خدا کے دین کا تعارف محال تھا(۲)

__________________

۲ ۔ محسن نقوی؛ موج ادراک،ص ۱۳۲۔

۲۵

زینب کبری (س) اپنے بھائی کے دوش بہ دوش

سفر کے دوران تمام حادثات اور واقعات میں اپنے بھائی کے شانے بہ شانے رہیں۔اور امام نے بھی بہت سارے اسرارسے آگاہ کیا ۔اس مطلب کو پیام اعظمی نے یوں بیان کیا ہے :

شریک کار رسالت تھے حیدر و زہرا

شریک کار امامت ہیں زینب و عباس

دیا ہے دونوں نے پہرا بتول کے گھر کا

حصار خانہ عصمت ہیں زینب و عباس

اپنے بیٹے کی شہادت

آپ کے دو بیٹے کربلا میں شہید ہوگئے(۱) لیکن آپ نے بے صبری سے کام لیتے ہوئے آہ وزاری نہیں کی، تاکہ اپنے بھائی کے دکھ اور غم واندوہ میں اضافہ نہ ہو۔ لیکن علی اکبرعليه‌السلام کے سرانے جاکر خوب رولیتی ہیں تاکہ اپنے بھائی کے غم واندوہ میں کمی آجائے ۔

آخری تلاش

امام حسینعليه‌السلام زندگی کے آخری لمحات میں دشمنوں کے تیر وتلوار کے ضربات کی وجہ سے لہو لہاں ہوچکے تھے اور مزید دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں تھی۔کربلا کی زمین پر جب آئے تو لشکر ملعون عمر سعد چاروں طرف سے مختلف قسم کے ابزار اور اسلحے سے حملہ کرنے لگے اور زینب کبری (س) یہ منظر دیکھ رہی تھیں اور اپنے بھائی کا دفاع کرنا چاہتی تھیں ۔لیکن ہزاروں کے لشکر کے سامنے اکیلی خاتون کیا دفاع کرسکتی تھیں ؟ بہرصورت اپنی اس ذمہ داری کو بھی آپ نے انجام دیتے ہوئے عمر سعد ملعون سے کہا: اے عمر سعد ! اباعبداللہ کو اشقیاء شہید کررہے ہیں اور تو دیکھ رہا ہے؟!! یہ سن کر وہ ملعون رویا اور اپنا منہوس چہرہ زینب (س) کی طرف سے موڑ لیا۔(۲) زینب کبریٰ(س) نے اپنے بھائی کے بدن سے جدا ہوتے ہوئے جو عہد کیا ؛ اسے شاعر اہل بیت محسن نقوی مرحوم نے یوں بیان کیا ہے:

حسین کی لاش بے کفن سے یہ کہہ کے زینب جدا ہوئی ہے

جوتیرے مقتل میں بچ گیا ہے وہ کام میری ردا کرے گی

__________________

۱ ۔ بحار ج۴۴، ص۳۶۶۔

۲ ۔ بحار ج۴۵، ص ۵۵۔

۲۶

جب بھائی کی لاش پر پہنچی

لہوف اور ارشاد شیخ مفید میں لکھا ہے کہ جب امام حسینعليه‌السلام گھوڑے سے کربلا کی زمین پر آئے تو زینب کبریٰ (س)بیہوش ہوگئی اور جب ہوش میں آئی توفریاد کرتی ہوئی خیمے سے نکلی اور جب اپنے بھائی کا زخموں سے چور چور اور خاک و خون میں غلطان بدن کہ جس سے فوارے کی طرح خون بہہ رہا تھا ؛ دیکھا تو اپنے آپ کو اس زخمی بدن پر گرایا اور اسے سینے سے لگا کر فریاد کرنے لگی: ونادت وا اخا ہ ! وا سیداہ! لیت السماء اطبقت علی الارض و لیت الجبال اندکت علی السھل ۔ فنادت عمر ابن سعد : ویحک یا عمر! یقتل ابوعبد اللہ وانت تنظر الیہ؟ فلم یجبھا عمر بشیء فنادت : ویحکم اما فیکم مسلم؟ فلم یجبھا احد(۱) ۔

ہای میرے بھیا ہای میرے سردار !! اے کاش یہ آسمان زمین پر گر چکا ہوتا اور اے کاش پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر خاکستر ہوجاتی!!پھر عمر سعد کو آواز دی : اے عمر سعد افسوس ہو تجھ پر ! اباعبد اللہ الحسینعليه‌السلام کو زبح کئے جارہے ہیں اور تو تماشائی بن کر دیکھ رہے ہو؟! اس ملعون نے کوئی جواب نہیں دیا ،پھر فریاد کی : کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں ؟!! پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر ندا دی:ءانت الحسین اخی؟! ءانت ابن امی؟! ءانت نور بصری ومھجۃ قلبی؟! ءانت رجائنا ؟!ءانت کہفنا؟! ءانت عمادنا؟! ءانت ابن محمد المصطفی؟!ءانت ابن علی المرتضیٰ ؟!ءانت ابن فاطمۃ الزہرا؟! اس قدر بدن مبارک زخموں سے چور چور ہوگیا تھا کہ مظلومہ بہن کو پہچاننے میں مشکل ہورہا تھا۔ فرمایا: کیا تو میرا بھائی حسین ہے؟ کیا تو میرا ماں جایا حسین ہے؟کیا تو میری آنکھوں کا نور ہے ؟ اور دل کی ٹھنڈک ہے؟ کیا تو ہماری امید گاہ ہے؟ کیا تو ہمارا ملجاو ماوا ہو؟ اور کیا تو ہمارا تکیہ گاہ ہے ؟ کیا تو محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بیٹا ہے؟ کیا تو علی مرتضیٰ اور فاطمہ زہرا(س)کا بیٹا ہے؟!!

ان کلمات کو حزین آواز میں بیان کرنے کے بعد کوئی جواب نہیں آیا کیونکہ امام حسینعليه‌السلام شدید زخموں کی وجہ سے غش کی حالت میں تھے ، جس کی وجہ سے جواب نہیں دے پارہے تھے؛ تو زینب کبری نے پھر گریہ و زاری کرنا شروع کیا ،فریاد کرتے کرتے آپ پر بھی غشی طاری ہوگئی ۔ اور جب ہوش آیا تو فرمایا : اخی بحق جدی رسول اللہ الا ماکلمتنی وبحق ابی امیر المؤمنین الا ما خاطبنی یا حشاش مھجتی بحق امی فاطمۃ الزہرا الا ما جاوبتنی یا ضیاء عینی کلمنی یا شقیق روحی جاوبنی ۔اے میرے بھیا حسین !میرے جد گرامی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا واسطہ مجھے جواب دو میرے بابا امیر المؤمنین کا واسطہ میرے ساتھ کلام کرو! اے میرے جگر کے ٹکڑے! میری ماں فاطمہ زہرا(س) کاواسطہ مجھے جواب دو ، اے میرے نور نظر ! میرے ساتھ بات کرو ، اے میری جان مجھے جواب دو۔ جب یہ کلمات ادا ہوئیں تو امامعليه‌السلام کو ہوش آیا اور فرمایا: اے میری پیاری بہن ! آج جدائی اور فراق کا دن ہے ۔ یہ وہی دن ہے جس کا میرے نانا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وعدہ کیا تھا کہ آج ان کے ساتھ ملاقات کرنے کا دن ہے

____________________

۱ ۔ الارشاد ، ج۲، ص ۱۱۱۔

۲۷

۔کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے منتظر ہیں ۔ ان کلمات کے ساتھ آپ پر غشی طاری ہوگئی تو حضرت زینب (س) نے آپ کو اپنے آغوش میں لیا اور سینے سے لگا یا ۔ اما م کچھ دیر بعد پھر ہوش میں آیااور فرمایا : بہن زینب !آپ نے میرا دل غموں سے بھر دیا ، خدا کے خاطر آپ خاموش ہوجائیں ۔

حضرت زینب (س)نے ایک چیخ ماری اور فرمایا : واویلاہ! اخی یا بن امی! کیف اسکن و اسکت و انت بھذہ الحالۃ تعالج سکرات الموت تقبض یمینا و تمد شمالا ، تقاسی منونا ً و تلاقی احوالا ً روحی لروحک الفدا و نفسی لنفسک الوقاء۔ افسوس ہو مجھ پر اے میرے بھائی! اے میرے ماں جایا حسین ! کیسے آرام کروں اور کیسے چپ رہوں ؟!جب کہ آپ اس سکرات الموت کی عالم میں ہو؛ اور اپنے خون میں لت پت ہو ؛ میری جان اور نفس آپ پر قربان ہوجائیں ۔ اتنے میں شمر ملعون آکر کہنے لگا کہ اپنے بھائی سے جدا ہوجاؤ ورنہ تازیانہ کے ذریعے جدا کروں گا ۔یہ سننا تھا زینب کبری (س) نے اپنے بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگی : یا عدو اللہ لا اتنحی عنہ ان ذبحتہ فاذبحنی معہ ۔ اے دشمن خدا ! میں اپنے بھائی سے جدا نہیں ہوجاؤں گی ۔ اگر تو انہیں ذبح کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی ان کے ساتھ ذبح کرو ۔ اس وقت شمر لعین نے تازیانے کے ذریعے بہن کو بھائی سے جدا کیا ۔اور دھمکی دیتے ہوئے کہا:اگر قریب آجائے تو تلوار اٹھاؤں گا ۔اب یہ ملعون امام عالی مقام کے نزدیک جاتا ہے اور سینہ اقدس پر سوار ہوجاتا ہے ۔ یہ دیکھنا تھا جناب زینب (س) نے فرمایا :

یا عدو الله ارفق به لقد کسرت صدره و اثقلت ظهره اما علمت ان هذا الصدر تربی علی صدر رسول الله و علی و فاطمه ،ویحک هذا الذی ناغاه جبرائیل و هز مهده میکائیل بالله علیک الاّ امهلته ساعة ً لِاَتزوّد ویحک دعنی اُقبّله دعنی اغمضه دعنی انادی بناته یتزوّدون منه دعنی آتیه بابنته سکینة فانه یحبّة (۲) اے دشمن خدا ! میرے بھائی پر رحم کریں تو نے ان کی پسلیوں کو توڑا ہے اور ان پر اپنا بوجھ ڈالا ہے ! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کس کا سینہ ہے ؟ یہ وہ سینہ ہے جو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی اور فاطمہعليه‌السلام کے سینے پر آرام کیا کرتے تھے ۔ افسوس ہو تجھ پر یہ وہ ذات ہے کہ جبرئیل جس کا ہمدم ہے اور میکائیل ان کا جھولا جھلانے والا ہے ! خدا کیلئے تھوڑی سی ان کو مہلت دے تاکہ میں ان سے خدا حافظی کرلوں اور ان سےزاد راہ لے لوں ۔ افسوس ہو تجھ پر اے لعین ! مجھے موقع دو تاکہ میں ان کا بوسہ لوں اور ان کے چہرے کی زیارت کروں ۔ اور مہلت دو تاکہ میں ان کی بیٹیوں کوبھی بلاؤں۔ ان کی چھوٹی بیٹی سکینہ انہیں بہت چاہتی ہیں۔ اور امام کو اس سے بہت پیار ہے ؛ان کو بلاؤں ۔

__________________

۲ ۔ معالی السبطین ، مجلس دہم۔

۲۸

مقتل سے گذرتے وقت نانا کو خطاب

یا محمداه صلى عليك ملائكة السماء هذا الحسين مرمل بالدماء مقطع الأعضاء و بناتك سبايا إلى الله المشتكى و إلى محمد المصطفى و إلى علي المرتضى و إلى فاطمة الزهراء و إلى حمزة سيد الشهداء يا محمداه هذا حسين بالعراء تسفى عليه الصبا قتيل أولاد البغايا وا حزناه وا كرباه اليوم مات جدي رسول الله ص يا أصحاب محمداه هؤلاء ذرية المصطفى يساقون سوق السبايا (۱) ۔

اے محمد ! خالق آسمان اور زمین آپ پر سلام ودرود بھیجتا ہے اور یہ حسین ہے جو خون میں غلطان ہے اور ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے اور تیری بیٹیان اسیر ہوئی ہیں ۔خدا کے پاس شکایت کروں گی اور محمد مصطفی وعلی مرتضی اور سید الشہدا حضرت حمزہعليه‌السلام سے شکایت کروں گی ۔ اے محمد! یہ حسین ہے جو میدان میں پڑے ہوئےہیں ۔ ہوااس کے بدن مبارک پر چل رہی ہے جسے زنازادوں نے قتل کیا ہے !!

ہای افسوس کتنی بڑی مصیبت ہے ! آج میرے نانا محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس دنیا سے چلے گئے ، اے محمد کے چاہنے والو ! یہ مصطفی کی اولاد ہیں جن کو اسیروں کی طرح گھسیٹے جارہے ہیں ۔

اپنے بھائی کے کٹے ہوئے سر سے خطاب

يَا هِلَالًا لَمَّا اسْتَتَمَّ كَمَالًا

غَالَهُ خَسْفُهُ فَأَبْدَا غُرُوبَا

مَا تَوَهَّمْتُ يَا شَقِيقَ فُؤَادِي

كَانَ هَذَا مُقَدَّراً مَكْتُوبَا

يَا أَخِي فَاطِمَ الصَّغِيرَةَ كَلِّمْهَا

فَقَدْ كَادَ قَلَبُهَا أَنْ يَذُوبَا

يَا أَخِي قَلْبُكَ الشَّفِيقُ عَلَيْنَا

َا لَهُ قَدْ قَسَى وَ صَارَ صَلِيبَا

يَا أَخِي لَوْ تَرَى عَلِيّاً لَدَى الْأَسْرِ

مَعَ الْيُتْمِ لَا يُطِيقُ وُجُوبَا

____________________

۱ ۔ اللهوف ، ص۱۳۰۔

۲۹

كُلَّمَا أَوْجَعُوهُ بِالضَّرْبِ نَادَاكَ

بِذُلٍّ يَغِيضُ دَمْعاً سَكُوبَا

يَا أَخِي ضُمَّهُ إِلَيْكَ وَ قَرِّبْهُ

وَ سَكِّنْ فُؤَادَهُ الْمَرْعُوبَا

مَا أَذَلَّ الْيَتِيمَ حِينَ يُنَادِي ِأَبِيهِ وَ لَا يَرَاهُ مُجِيبَا

اے میری چاند جو کامل ہوتے ہی اچانک گرہن لگی اور اسے غروب کردیا ۔ اے میرے دل کے ٹکڑے !میں نےکبھی یہ گمان بھی نہیں کی تھی کہ ایسا بھی ہوگا ۔ بھیا! اپنی چھوٹی بیٹی فاطمہ سے بات کرو جس کا دل ذوب ہونے والا ہے ۔ بھیا ! تیرے مہربان دل اس قدر سخت کیوں ہوا جو ہماری باتوں کا جواب نہیں دیتے؟ بھیا ! اے کاش اپنے بیٹے زین العابدین کو اسیری اور یتیمی کے عالم میں دیکھتے کہ کس قدر اپنی جگہ پر خشک پڑا ہے ؟ جب بھی اسے تازیانہ مار کر ظالم اذیت دیتے تو وہ تمھیں پکارتے۔ اے بھیا ! اس کی مدد کرو اور اسے تسلی دو ۔ ہای افسوس یتیمی کی مصیبت کس قدر سخت ہے کہ وہ اپنے بابا کوپکارے اور بابا جواب نہ دے(۲) ۔

شہادت امام حسینعليه‌السلام کے بعد زینب کبری(س) کی تین ذمہ داریاں

مظلوم کربلا اباعبداللہعليه‌السلام شہادت کے بعد زینب کبریٰ کی اصل ذمہ داری شروع ہوتی ہے ۔اگرچہ عصر عاشور سے پہلے بھی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھیں۔ جن لوگوں کی سرپرستی آپ نے قبول کی تھی وہ ایسے افراد تھے کہ جن کا وجود اور زندگی خطرے میں تھے ۔ جن کا نہ کوئی گھر تھا جس میں وہ آرام کرسکے ، نہ کوئی کھانا ان کے ساتھ تھا؛ جس سے اپنی بھوک ختم کرسکے اور نہ کوئی پانی تھا ؛کہ جو ہر جاندار کی ابتدائی اور حیاتی ترین مایہ حیات بشری ہوا کرتا ہے ؛اور یہ سب ایسے لوگ تھے جن کے عزیز و اقارب ان کے نظروں کے سامنے خاک و خون میں نہلائے جا چکے تھے۔ ایسے افراد کی سرپرستی قبول کرنا بہت ہی مشکل کام تھا، اسی طرح خود ثانی زہرا (س)بھی اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی جدائی سے دل داغدار تھی ؛کیسے برداشت کرسکتی تھیں ؟! یہی وجہ تھی کہ سید الشہد اعليه‌السلام نے آپ کے مبارک سینے پر دست امامت پھیرا کر دعا کی تھی کہ خداان تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے کی انہیں طاقت دے ۔ اور یہی دعا کا ا ثر تھا کہ کربلا کی شیردل خاتون نے ان تمام مصیبتوں کے دیکھنے کے باوجود عصر عاشور کے بعد بھیا عباس کی جگہ پہرہ دار ی کی اور طاغوتی حکومت اور طاقت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیں :شہید محسن نقوی لکھتے ہیں:

____________________

۲ ۔ بحارالأنوار، ج۴۵، ص۱۱۵۔

۳۰

پردے میں رہ کے ظلم کے پردے الٹ گئی

پہنی رسن تو ظلم کی زنجیر کٹ گئی

نظریں اٹھیں تو جبر کی بدلی بھی چھٹ گئی

لب سی لئے تو ضبط میں دنیا سمٹ گئی(۳)

۱ ۔ امام سجادعليه‌السلام کی عیادت اور حفاظت

ہمارا اعتقاد ہے کہ سلسلہ امامت کی چوتھی کڑی سید السجادعليه‌السلام ہیں ،چنانچہ عبیداللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو دستور دیا تھا کہ اولاد امام حسینعليه‌السلام میں سے تمام مردوں کو شہید کئے جائیں،دوسری طرف مشیت الہی یہ تھی کہ مسلمانوں کیلئے ولایت اور رہبری کایہ سلسلہ جاری رکھا جائے ، اس لئے امام سجادعليه‌السلام بیمار رہے اور آپ کا بیمار رہنا دوطرح سے آپ کا زندہ رہنے کیلئے مدد گار ثابت ہوئی۔

۱ ۔ امام وقت کا دفاع کرنا واجب تھا جو بیماری کی وجہ سے آپ سے ساقط ہوا ۔

۲ ۔ دشمنوں کے حملے اور تعرضات سے بچنے کا زمینہ فراہم کرنا تھا جو بیماری کی وجہ سے ممکن ہوا۔ پھر سوفیصد جانی حفاظت کا ضامن تو نہ تھا کیونکہ خدا تعالی نہیں چاہتا کہ ہر کام معجزانہ طور پر انجام پائے بلکہ جتنا ممکن ہو سکے طبیعی اور علل واسباب مادی اور ظاہری طور پر واقع ہو۔

صرف دو صورتوں میں ضروری ہے کہ خدا تعالی ائمہ طاہرینعليه‌السلام کی غیبی امداد کے ذریعے حفاظت اور مدد کرے :

۱ ۔ معجزے کے بغیر اسلام کی بقا عادی طور پر ممکن نہ ہو ۔

۲ ۔ دین کی حفاظت مسلمانوں کی قدرت میں نہ ہو۔

__________________

۳ ۔ موج ادراک،ص۱۳۵۔

۳۱

ایسا نہیں کہ کسی فداکاری اور قربانی اور مشکلات اور سختی کو تحمل کئے بغیر مسلمان اپنے دشمنوں کو نابود کرسکے ۔

چنانچہ جب مشرکان قریش پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قتل کے درپے ہوئے تو خدا تعالی نے وحی کے ذریعے قریش والوں کے مکروہ ارادے سے آگاہ کیا اور غار ثور کے دروازے پر مکڑی کا جال بنا کر ان کی اذہان کو منحرف کیا ، کیونکہ اولاً تو دین اسلام کی بقا اور دوام ،پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حیات طیبہ پر منحصر تھا۔ ثانیا ً پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دشمن کی پلانینگ سے آگاہ اور مشرکوں کے اذہان کو منحرف کرنا تھا؛ جو بغیر معجزے کے ممکن نہ تھا ۔ لیکن باقی امور کو رنج ومصیبتوں اور سختیوں کوتحمل کرکے نتیجے تک پہنچانا تھا ۔جیسا کہ حضرت علیعليه‌السلام پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچانے کیلئے آپ بستر پر سوگئے تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو غار میں چھپنے کی مہلت مل جائے ۔ اور پیامبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی مدینے کی طرف جانے کے بجائے دوسری طرف تشریف لے گئے ، تاکہ کفار کے ذہنوں کو منحرف کیا جائے۔ اگر سنت الہی اعجاز دکھانا ہوتی تو یہ ساری زحمتیں ان بزرگواروں کو اٹھانی نہ پڑتیں ۔

امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت اور دیکھ بال کرنا بھی اسی طرح تھا ؛ کہ زینب کبری (س) اس سختیوں کو اپنے ذمہ لے لے ۔اور پورے سفر کے دوران آپعليه‌السلام کی حفاظت اور مراقبت کی ذمہ داری آپ آپ ہی قبول کرلے ۔

۳۲

کہاں کہاں زینب (س) نے امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت کی؟

جلتے ہوئے خیموں سے امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت

تاریخ کا ایک وحشیانہ ترین واقعہ عمر سعد کا اھل بیت امام حسینعليه‌السلام کے خیموں کی طرف حملہ کر کے مال واسباب کا لوٹنا اور خیموں کو آگ لگانا تھا ۔ اس وقت اپنے وقت کے امام سید الساجدینعليه‌السلام سے حکم شرعی پوچھتی ہیں: اے کے وارث اور بازماندگان کے پناہ گاہ ! ہمارے خیموں کو آگ لگائی گئی ہے ، ہمارے لئے شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا انہی خیموں میں رہ کر جلنا ہے یا بیابان کی طرف نکلنا ہے؟!

امام سجادعليه‌السلام نے فرمایا:آپ لوگ خیموں سے نکل جائیں۔ لیکن زینب کبری (س) اس صحنہ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھیں، بلکہ آپکا امام سجادعليه‌السلام کی نجات کیلئے رکنا ضروری تھا۔

راوی کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا خیموں سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے اور ایک خاتون بیچینی کےعالم میں خیمے کے در پر کھڑی چاروں طرف دیکھ رہی تھیں، اس آس میں کہ کوئی آپ کی مدد کو آئے ۔ پھر آپ ایک خیمہ کے اندر چلی گئی ۔ اور جب باہر آئی تو میں نے پوچھا : اے خاتون !اس جلتے ہوئے خیمے میں آپ کی کونسی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہے ؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہی ہے کہ آگ کا شعلہ بلند ہورہا ہے؟!

زینب کبری (س)یہ سن کر فریاد کرنے لگیں :اس خیمے میں میرا ایک بیماربیٹا ہے جو نہ اٹھ سکتا ہے اور نہ اپنے کو آگ سے بچا سکتا ہے ؛جبکہ آگ کے شعلوں نے اسے گھیر رکھا ہے ۔آکر کار زینب کبری (س) نے امام سجادعليه‌السلام کو خیمے سے نکال کر اپنے وقت کے امام کی جان بچائی ۔

۳۳

شمر کے سامنے امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت

امام حسینعليه‌السلام کی شہادت کے بعد لشکر عمر سعد خیمہ گاہ حسینی کی طرف غارت کے لئے بڑھے ۔ایک گروہ امام سجادعليه‌السلام کی طرف گئے ، جب کہ آپ شدید بیمار ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھ نہیں سکتے تھے ۔ ایک نے اعلان کیا کہ ان کے چھوٹوں اور بڑوں میں سے کسی پربھی رحم نہ کرنا ۔دوسرے نے کہا اس بارے میں امیر عمر سعد سے مشورہ کرے ۔ شمر ملعون نے امامعليه‌السلام کو شہید کرنے کیلئے تلوار اٹھائی ۔ حمید بن مسلم کہتا ہے : سبحان اللہ ! کیا بچوں اوربیماروں کو بھی شہید کروگے؟! شمر نے کہا : عبید اللہ نے حکم دیا ہے ۔ حضرت زینب (س) نے جب یہ منظر دیکھا تو امام سجادعليه‌السلام کے قریب آئیں اور فریاد کی: ظالمو! اسے قتل نہ کرو۔ اگرقتل کرنا ہی ہے تو مجھے پہلے قتل کرو ۔

آپ کا یہ کہنا باعث بنا کہ امامعليه‌السلام کے قتل کرنے سے عمر سعد منصرف ہوگیا۔( ۱ )

____________________

۱ ۔ مقتل الحسین ، ص۳۰۱۔

۳۴

امام سجادعليه‌السلام کو تسلی دینا

جب اسیران اہل حرم کوکوفہ کی طرف روانہ کئے گئے ، تو مقتل سے گذارے گئے ، امامعليه‌السلام نے اپنے عزیزوں کو بے گور وکفن اور عمر سعد کے لشکر کے ناپاک جسموں کو مدفون پایا تو آپ پر اس قدر شاق گزری کہ جان نکلنے کے قریب تھا ۔ اس وقت زینب کبری (س) نے آپ کی دلداری کیلئے ام ایمن ؓ سے ایک حدیث نقل کی ،جس میں یہ خوش خبری تھی کہ آپ کے بابا کی قبر مطہر آیندہ عاشقان اور محبین اہلبیت F کیلئےامن اورامید گاہ بنے گی۔

لِمَا أَرَى مِنْهُمْ قَلَقِي فَكَادَتْ نَفْسِي تَخْرُجُ وَ تَبَيَّنَتْ ذَلِكَ مِنِّي عَمَّتِي زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيٍّ الْكُبْرَى فَقَالَتْ مَا لِي أَرَاكَ تَجُودُ بِنَفْسِكَ يَا بَقِيَّةَ جَدِّي وَ أَبِي وَ إِخْوَتِي فَقُلْتُ وَ كَيْفَ لَا أَجْزَعُ وَ أَهْلَعُ وَ قَدْ أَرَى سَيِّدِي وَ إِخْوَتِي وَ عُمُومَتِي وَ وُلْدَ عَمِّي وَ أَهْلِي مُضَرَّجِينَ بِدِمَائِهِمْ مُرَمَّلِينَ بِالْعَرَاءِ مُسَلَّبِينَ لَا يُكَفَّنُونَ وَ لَا يُوَارَوْنَ وَ لَا يُعَرِّجُ عَلَيْهِمْ أَحَدٌ وَ لَا يَقْرَبُهُمْ بَشَرٌ كَأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الدَّيْلَمِ وَ الْخَزَرِ فَقَالَتْ لَا يَجْزَعَنَّكَ مَا تَرَى فَوَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَعَهْدٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى جَدِّكَ وَ أَبِيكَ وَ عَمِّكَ وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ‏ مِيثَاقَ أُنَاسٍ مِنْ هَذِه الْأُمَّةِ لَا تَعْرِفُهُمْ فَرَاعِنَةُ هَذِهِ الْأَرْضِ وَ هُمْ مَعْرُوفُونَ فِي أَهْلِ السَّمَاوَاتِ أَنَّهُمْ يَجْمَعُونَ هَذِهِ الْأَعْضَاءَ الْمُتَفَرِّقَةَ فَيُوَارُونَهَا وَ هَذِهِ الْجُسُومَ الْمُضَرَّجَةَ وَ يَنْصِبُونَ لِهَذَا الطَّفِّ عَلَماً لِقَبْرِ أَبِيكَ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ لَا يَدْرُسُ أَثَرُهُ وَ لَا يَعْفُو رَسْمُهُ عَلَى كُرُورِ اللَّيَالِي وَ الْأَيَّامِ وَ لَيَجْتَهِدَنَّ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَ أَشْيَاعُ الضَّلَالَةِ فِي مَحْوِهِ وَ تَطْمِيسِهِ فَلَا يَزْدَادُ أَثَرُهُ إِلَّا ظُهُوراً وَ أَمْرُهُ إِلَّا عُلُوّا (۲) ۔

خود امام سجادعليه‌السلام فرماتے ہیں : کہ جب میں نے مقدس شہیدوں کے مبارک جسموں کو بے گور وکفن دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا ۔یہاں تک کہ میری جان نکلنے والی تھی ، میری پھوپھی زینب(س) نے جب میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا: اے میرے نانا ،بابا اور بھائیوں کی نشانی ! تجھے کیا ہوگیا ہے؟ کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ تیری جان نکلنے والی ہے ۔تو میں نے جواب دیا کہ پھوپھی اماں ! میں کس طرح آہ وزاری نہ کروں ؟جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بابا اور عمو اور بھائیوں اور دیگر عزیزو اقرباء کو خون میں لت پت اور عریان زمین پر پڑے دیکھ رہا ہوں۔اور کوئی ان کو دفن کرنے والے نہیں ہیں۔ گویا یہ لوگ دیلم اور خزر کے خاندان والے ہیں ۔

____________________

۲ ۔ بحار ، ج۴۵، ص۱۷۹ ۱۸۰۔

۳۵

زینب (س) نے فرمایا: آپ یہ حالت دیکھ کر آہ وزاری نہ کرنا ۔خدا کی قسم ،یہ خدا کے ساتھ کیا ہوا وعدہ تھا جسے آپ کے بابا ، چچا ،بھائی اور دیگر عزیزوں نے پورا کیا ۔خدا تعالی اس امت میں سے ایک گروہ پیدا کریگا جنہیں زمانے کےکوئی بھی فرعون نہیں پہچان سکے گا ۔ لیکن آسمان والوں کے درمیان مشہور اور معروف ہونگے۔ان سے عہد لیا ہوا ہے کہ ان جدا شدہ اعضاء اور خون میں لت پت ٹکڑوں کو جمع کریں گے اور انہیں دفن کریں گے۔وہ لوگ اس سرزمین پر آپ کے بابا کی قبر کے نشانات بنائیں گےجسے رہتی دنیا تک کوئی نہیں مٹا سکے گا۔سرداران کفر والحاد اس نشانے کو مٹانے کی کوشش کریں گے، لیکن روز بہ روز ان آثار کی شان ومنزلت میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا ۔شاعر نے یوں کہا:

وقار مریم وحوا! سلام ہو تجھ پر

سلام ثانی زہرا! سلام ہو تجھ پر

گواہ ہے تیری جرئت پہ کربلا کی زمین

امام وقت کو کی تونے صبر کی تلقین

لٹاکے اپنی کمائی بچاکے دولت دین

بجھا کے شمع تمنا جلا کے شمع یقین ۔

۳۶

دربار ابن زیاد میں امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت

قَالَ الْمُفِيدُ فَأُدْخِلَ عِيَالُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا عَلَى ابْنِ زِيَادٍ فَدَخَلَتْ زَيْنَبُ أُخْتُ الْحُسَيْنِ ع فِي جُمْلَتِهِمْ مُتَنَكِّرَةً وَ عَلَيْهَا أَرْذَلُ ثِيَابِهَا وَ مَضَتْ حَتَّى جَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ حَفَّتْ بِهَا إِمَاؤُهَا فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ مَنْ هَذِهِ الَّتِي انْحَازَتْ فَجَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ مَعَهَا نِسَاؤُهَا فَلَمْ تُجِبْهُ زَيْنَبُ فَأَعَادَ الْقَوْلَ ثَانِيَةً وَ ثَالِثَةً يَسْأَلُ عَنْهَا فَقَالَتْ لَهُ بَعْضُ إِمَائِهَا هَذِهِ زَيْنَبُ بِنْتُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَأَقْبَلَ عَلَيْهَا ابْنُ زِيَادٍ وَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَحَكُمْ وَ قَتَلَكُمْ وَ أَكْذَبَ أُحْدُوثَتَكُمْ فَقَالَتْ زَيْنَبُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ ص وَ طَهَّرَنَا مِنَ الرِّجْسِ تَطْهِيراً إِنَّمَا يَفْتَضِحُ الْفَاسِقُ ثُمَّ الْتَفَتَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقِيلَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ فَقَالَ أَ لَيْسَ قَدْ قَتَلَ اللَّهُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ فَقَالَ عَلِيٌّ قَدْ كَانَ لِي أَخٌ يُسَمَّى عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ قَتَلَهُ النَّاسُ فَقَالَ بَلِ اللَّهُ قَتَلَهُ فَقَالَ عَلِيٌّ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَ الَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ وَ لَكَ جُرْأَةٌ عَلَى جَوَابِي اذْهَبُوا بِهِ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ فَسَمِعَتْ عَمَّتُهُ زَيْنَبُ فَقَالَتْ يَا ابْنَ زِيَادٍ إِنَّكَ لَمْ تُبْقِ مِنَّا أَحَداً فَإِنْ عَزَمْتَ عَلَى قَتْلِهِ فَاقْتُلْنِي مَعَهُ فَنَظَرَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَيْهَا وَ إِلَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ عَجَباً لِلرَّحِمِ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّهَا وَدَّتْ أَنِّي قَتَلْتُهَا مَعَهُ‏ دَعُوهُ فَإِنِّي أَرَاهُ لِمَا بِهِ فَقَالَ عَلِيٌّ لِعَمَّتِهِ اسْكُتِي يَا عَمَّةُ حَتَّى أُكَلِّمَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ ع فَقَالَ أَ بِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنِي يَا ابْنَ زِيَادٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنَا عَادَةٌ وَ كَرَامَتَنَا الشَّهَادَة( ۱) ۔

جب خاندان نبوت ابن زیاد کی مجلس میں داخل ہوئی ؛ زینب کبری دوسری خواتین کے درمیان میں بیٹھ گئیں ؛ تو ابن زیاد نے سوال کیا : کون ہے یہ عورت ، جو دوسری خواتین کے درمیان چھپی ہوئی ہے؟ زینب کبری نے جواب نہیں دیا ۔ تین بار یہ سوال دہرایاتو کنیزوں نے جواب دیا : اے ابن زیاد ! یہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا (س)کی بیٹی زینب کبری (س)ہے ۔ ابن زیاد آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اس خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ذلیل و خوار کیا اور تمھارے مردوں کو قتل کیا اور جن چیزوں کا تم دعوی کرتے تھے ؛ جٹھلایا ۔

ابن زیاد کی اس ناپاک عزائم کو زینب کبری (س)نے خاک میں ملاتےہوئے فرمایا:اس خدا کا شکر ہے جس نے اپنے نبی محمد مصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعے ہمیں عزت بخشی ۔ اورہرقسم کے رجس اور ناپاکی سے پاک کیا۔ بیشک فاسق ہی رسوا ہوجائے گا ۔

____________________

۱ ۔ بحار ،ج۴۵،ص۱۱۷،۱۱۸۔

۳۷

جب ابن زیاد نے علی ابن الحسینعليه‌السلام کو دیکھا تو کہا یہ کون ہے؟ کسی نے کہا : یہ علی ابن الحسینعليه‌السلام ہے ۔تو اس نے کہا ؛کیا اسے خدا نے قتل نہیں کیا ؟ یہ کہہ کر وہ بنی امیہ کا عقیدہ جبر کا پرچار کرکے حاضرین کے ذہنوں کو منحرف کرنا چاہتے تھے اور اپنے جرم کو خدا کے ذمہ لگا کر خود کو بے گناہ ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔

امام سجادعليه‌السلام جن کے بابا او ر پوراخاندان احیاء دین کیلئے مبارزہ کرتے ہوئے بدرجہ شہادت فائز ہوئے تھے اور خود امام نے ان شہداء کے پیغامات کو آنے والے نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی تھی ، اس سے مخاطب ہوئے : میرا بھائی علی ابن الحسینعليه‌السلام تھا جسے تم لوگوں نے شہید کیا ۔

ابن زیاد نے کہا : اسے خدا نے قتل کیا ہے ۔

امام سجادعليه‌السلام نے جب اس کی لجاجت اور دشمنی کو دیکھا تو فرمایا: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ(۲) اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے ۔ اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے ،اس کی روح کو روک لیتا ہے ۔ اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کردیتا ہے - اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔

ابن زیاد اس محکم اور منطقی جوا ب اور استدلال سن کر لا جواب ہوا تو دوسرے ظالموں اور جابروں کی طرح تہدید پر اتر آیا اور کہنے لگا : تو نے کس طرح جرات کی میری باتوں کا جواب دے ؟! جلاد کو حکم دیا ان کا سر قلم کرو ۔ تو اس وقت زینب کبری (س) نے سید سجادعليه‌السلام کو اپنے آغوش میں لیا اور فرمایا:اے زیاد کے بیٹے ! جتنے ہمارے عزیزوں کو جو تم نے شہید کیا ہے کیا کافی نہیں؟!خدا کی قسم میں ان سے جدا نہیں ہونگی ۔ اگر تو ان کو شہید کرنا ہی ہے تو پہلے مجھے قتل کرو۔

یہاں ابن زیاد دوراہے پر رہ گیا کہ اس کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ ایک طرف سے کسی ایک خاتون اوربیمار جوان کو قتل کرنا ۔ دوسرا یہ کہ زینب کبری (س)کو جواب نہ دے پانا۔ یہ دونوں غیرت عرب کا منافی تھا ۔

____________________

۲ ۔ زمر ۴۲۔

۳۸

اس وقت عمرو بن حریث نے کہا: اے امیر! عورت کی بات پر انہیں سزانہیں دی جاتی، بلکہ ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنا ہوتا ہے ۔ اس وقت ابن زیاد نے زینب کبری(س) سے کہا: خدا نے تمھارے نافرمان اور باغی خاندان کو قتل کرکے میرے دل کو چین اور سکون فراہم کیا ۔اس معلون کی اس طعنے نے زینب کبری(س) کا سخت دل دکھا یااورلادیا ۔ اس وقت فرمایا: میری جان کی قسم ! تو نے میرے بزرگوں کو شہید کیا، اور میری نسل کشی کی ، اگر یہی کام تیرے دل کا چین اور سکون کا باعث بنا ہے تو کیا تیرے لئے شفا ملی ہے ؟! ابن زیاد نے کہا : یہ ایک ایسی عورت ہے جو قیافہ کوئی اور شاعری کرتی ہے ۔ یعنی اپنی باتوں کو شعر کی شکل میں ایک ہی وزن اور آہنگ میں بیان کرتی ہے ۔ جس طرح ان کا باپ بھی اپنی شاعری دکھایا کرتا تھا ۔

زینب کبری (س) نے کہا: عورت کو شاعری سے کیا سروکار؟! لیکن میرے سینے سے جو بات نکل رہی ہے وہ ہم قیافہ اور ہم وزن ہے(۳) ۔

آخر میں مجبور ہوا کہ موضوع گفتگو تبدیل کرے اور کہا: بہت عجیب رشتہ داری ہے کہ خدا قسم ! میرا گمان ہے کہ زینب چاہتی ہے کہ میں اسے ان کے برادر زادے کے ساتھ قتل کروں؛ انہیں لے جاؤ؛ کیونکہ میں ان کی بیماری کو ان کے قتل کیلئے کافی جانتاہوں۔

اس وقت امام سجادعليه‌السلام نے فرمایا : اے زیاد کے بیٹے ! کیا تو مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ کیا تو نہیں جانتا ، راہ خدا میں شہید ہونا ہمارا ورثہ اور ہماری کرامت ہے ۔

قدم قدم پہ مقاصد کی عظمتوں کا خیال

نفس نفس میں بھتیجے کی زندگی کا سوال

ردا چھنی تو بڑھا اور عصمتوں کا جلال

کھلے جو بال تو نکھرا حسینیت کا جمال

نقیب فتح شہ مشرقین بن کے اٹھی

نہ تھے حسین تو زینب حسین بن کے اٹھی(۴)

__________________

۳ ۔ ارشاد- ترجمه رسولى محلاتى ج‏۲ ص ۱۱۹

۴ ۔ پیام اعظمی ؛ القلم،ص۲۷۳۔

۳۹

۲ ۔ یتیموں کی رکھوالی اور حفاظت

یتیموں کی رکھوالی آپ کی دوسری اہم ذمہ داری تھی کہ جب خیمے جل کر راکھ ہوگئے اور آگ خاموش ہوئی تو زینب کبری (س) بیابان میں بچوں اور بیبیوں کو جمع کرنے لگیں۔جب دیکھا تو امام حسینعليه‌السلام کی دو بیٹیوں کو بچوں کے درمیان میں نہیں پایا ۔ تلاش میں نکلیں تو دیکھا کہ دونوں بغل گیر ہوکر آرام کررہی تھیں ؛ جب نزدیک پہنچیں تو دیکھا کہ دونوں بھوک وپیاس اور خوف وہراس کی وجہ سے رحلت کر چکی تھیں۔(۱)

بچوں کی بھوک اور پیاس کا خیال

اسیری کے دوران عمر سعد کی طرف سے آنے والا کھانا بالکل ناکافی تھا جس کی وجہ سے بچوں کو کم پڑتا تھا ۔ تو آپ اپنا حصہ بھی بچوں میں تقسیم کرتی تھیں اور خود بھوکی رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے آپ جسمانی طور پر سخت کمزور ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں آپ کھڑی ہوکر نماز شب نہیں پڑ سکتی تھیں۔(۲)

فاطمہ صغریٰ کی حفاظت

دربار یزید میں ایک مرد شامی نے جسارت کے ساتھ کہا : حسین کی بیٹی فاطمہ کو ان کی کنیزی میں دے دے ۔ فاطمہ نے جب یہ بات سنی تو اپنی پھوپھی سے لپٹ کر کہا : پھوپھی اماں ! میں یتیم ہوچکی کیا اسیر بھی ہونا ہے ؟!!

فَقَالَتْ عَمَّتِي لِلشَّامِيِّ كَذَبْتَ وَ اللَّهِ وَ لَوْ مِتُّ وَ اللَّهِ مَا ذَلِكَ لَكَ وَ لَا لَهُ فَغَضِبَ يَزِيدُ وَ قَالَ كَذَبْتِ وَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لِي وَ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَفْعَلَ لَفَعَلْتُ قَالَتْ كَلَّا وَ اللَّهِ مَا جَعَلَ اللَّهُ لَكَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مِلَّتِنَا وَ تَدِينَ بِغَيْرِهَا فَاسْتَطَارَ يَزِيدُ غَضَباً وَ قَالَ إِيَّايَ تَسْتَقْبِلِينَ بِهَذَا إِنَّمَا خَرَجَ مِنَ الدِّينِ أَبُوكِ وَ أَخُوكِ قَالَتْ زَيْنَبُ بِدِينِ اللَّهِ وَ دِيْنِ أ بِي وَ دِيْنِ أَخِي اهْتَدَيْتَ أَنْتَ وَ أَبُوكَ وَ جَدُّكَ إِنْ كُنْتَ مُسْلِماً قَالَ كَذَبْتِ يَا عَدُوَّةَ اللَّهِ قَالَتْ لَهُ أَنْتَ أَمِيرٌ تَشْتِمُ ظَالِماً وَ تَقْهَرُ لِسُلْطَانِكَ فَكَأَنَّهُ اسْتَحْيَا وَ سَكَتَ وَ عَادَ الشَّامِيُّ فَقَالَ هَبْ لِي هَذِهِ الْجَارِيَةَ فَقَالَ لَهُ يَزِيدُ اعْزُبْ وَهَبَ اللَّهُ لَكَ حَتْفاً قَاضِياً فَقَالَ الشَّامِيُّ مَنْ هَذِهِ الْجَارِيَةُ فَقَالَ يَزِيدُ هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ الْحُسَيْنِ وَ تِلْكَ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ الشَّامِيُّ الْحُسَيْنُ ابْنُ فَاطِمَةَ وَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ الشَّامِيُّ لَعَنَكَ اللَّهُ يَايَزِيدُ تَقْتُلُ عِتْرَةَ نَبِيِّكَ وَ تَسْبِي ذُرِّيَّتَهُ وَ اللَّهِ مَا تَوَهَّمْتُ إِلَّا أَنَّهُمْ سَبْيُ الرُّومِ فَقَالَ يَزِيدُ وَ اللَّهِ لَأُلْحِقَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَضُرِبَ عُنُقُهُ (۳) ۔

__________________

۱ ۔ معالی السبطین فی احوال الحسن والحسین ج۲ص۸۸،۸۹۔

۲ ۔ مھدی پیشوائی ، شام سرزمین خاطرہ ہا ،ص ۱۷۵۔

۳ ۔ بحار،ج۴۵ ص ۱۳۶،۱۳۷۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65