علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام0%

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

مؤلف: شیخ صدوق
زمرہ جات:

مشاہدے: 5447
ڈاؤنلوڈ: 2404

تبصرے:

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 9 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5447 / ڈاؤنلوڈ: 2404
سائز سائز سائز
علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

مصنف: شیخ صدوق

ابوبصیر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

ہمارے شیعہ پرہیزگار‘ کارِخیر میں ہروقت کوشاں رہنے والے‘ وفادار‘ امانت دار‘ زہد و تقویٰ اور عبادات الٰہی بجا لانے والے‘ شبانہ روز اکاون رکعت نماز ادا کرنے والے‘ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے والے‘ اور دنوں کو روزہ رکھنے والے‘ اپنے اموال سے زکوٰة ادا کرنے والے‘ خانہ خدا کا حج بجا لانے والے‘ اور ہر حرام کام سے دُوری اختیار کرنے والے ہیں۔

وہ ہمارے شیعہ نہیں حسن بن خالد آٹھویں لالِ ولایت حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

ہمارے شیعہ ہمارے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور ہمارے احکام کو بجا لاتے ہیں‘ہمارے دشمنوں کے مخالف ہیں‘ پس جواِن صفات باکمال کا مالک نہیں وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

اہمیت تقیہ

ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ صادق آلِ محمد نے فرمایا:

جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں اور جو شخص پرہیزگاری نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے۔

دشمنانِ آلِ محمد سے ناطہ مت جوڑو

مفضل بن عمر روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

وہ جھوٹا ہے جو گمان کرتا ہے کہ وہ ہمارا شیعہ ہے‘ جب کہ اس نے رسی کا سارا ہمارے غیرکا پکڑا ہوا ہے۔(بحارالانوار‘ ج ۲‘ ص ۹۸)

شیعیان کی سفارش قبول ہوگی

ابی نجران کے فرزند سے روایت ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

جس کسی نے ہمارے شیعوں کے ساتھ عداوت کی گویا کہ اس نے ہم آلِ محمد سے دشمنی مول لی‘ اور جس کسی نے ہمارے شیعوں کے ساتھ محبت کی گیا کہ اس نے ہم سے محبت کی‘ کیونکہ وہ ہم سے ہیں اور ہماری طینیت سے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ جس کسی نے ان سے محبت کی وہ ہم میں سے ہے۔ جس نے ان سے بغض و عداوت کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے شیعہ نورِ الٰہی کی تجلی کو دیکھتے ہیں اور رحمت خدا میں غوطہ لگاتے ہیں اور کرامت الٰہی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ہمارا کوئی بھی شیعہ بیمار نہیں ہوتا بلکہ ان کی بیماری سے ہم متاثر ہوتے ہیں اور وہ مغموم و محزون نہیں ہوتا بلکہ اس کے اس حزن و ملال سے ہمیں پریشانی لاحق ہوتی ہے‘ اور اس کی شادمانی سے ہمیں مسرت لاحق ہوتی ہے‘ کوئی بھی ہمارا شیعہ ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے چاہے وہ مشرق میں رہتا ہو یا مغرب میں‘ اور اگر کوئی مرتے وقت مقروض مرے تو اس کا قرضہ ادا کرنا ہمارے ذمے ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی وراثت چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثان کے لیے ہے‘ ہمارے شیعہ وہ ہیں کہ جو نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰة ادا کرتے ہیں‘ حج بیت اللہ بجا لاتے ہیں‘ ماہِ رمضان کے روزے رکھتے ہیں‘ اہلِ بیت رسول سے مودت رکھتے ہیں‘ اور ان کے دشمنوں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔

ایسے لوگ ہی اہل ایمان اور تقویٰ ہیں‘ اہلِ ورع اور پرہیزگار ہیں‘ جس کسی نے ان کو رد کیا گویا کہ اس نے خداوند متعال کو رد کیا ‘ جس کسی نے ان پر طعن و تشنیع کی گویا کہ اس نے خدا پر طعن کی‘ کیونکہ یہ خدا کے حقیقی بندے اور سچے اولیاء ہیں۔ خدا کی قسم! ان میں سے ہرکوئی قبیلہ ربیعہ اور مخر (عرب میں دونوں قبیلے بڑی تعداد میں تھے) کے برابر شفاعت کی سفارش کا حق رکھتے ہیں۔ خداوند متعال ان کی سفارش ان کے بارے میں فرمائے گا‘ کیونکہ ان کا خدا کے نزدیک ایک بلند مقام ہے۔

اخلاص کا نتیجہ

محمد بن حمران صادق آل محمد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جس کسی نے کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ اخلاص کے ساتھ کہا وہ بہشت بریں میں داخل ہوگا اور اس کا اخلاص یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ ہر اس چیز سے روکے جو خدا نے اس پر حرام کی ہے۔

جنت کی چابی

زید بن ارقم رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے لا الٰہ الا اللّٰہاخلاص کے ساتھ کہا وہ بہشت میں داخل ہوگیا۔ اور اس کا اخلاص یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ اس کو ہر اس چیز سے روک دے جس کو خدا وند متعال نے اس کے حرام قرار دیا ہے۔

صدائے رسول کوہِ صفا پر

ابوعبیدہ حذّاء نے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جب رسول خدا نے مکہ فتح کیا تو آپ کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور آپ نے ارشاد فرمایا:

اے فرزندانِ ہاشم! اے فرزندانِ عبدالمطلب!

مجھے خدا وند متعال نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے‘ میں تمہارا دلسوز ہوں اور مجھے تم سے محبت ہے‘ تم یہ مت کہو کہ محمد ہم سے ہے۔ خدا کی قسم تمہارے اور تمہارے علاوہ میرے وہی دوست ہیں کہ جو متقی و پرہیزگار ہیں۔

آگاہ ہو جاؤ! میں تمہیں روزِ محشر نہیں پہچانوں گا کیونکہ تم نے دنیا کی محبت کو دوش پر سوار کیا ہوگا اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے کہ جنہوں نے اعمالِ صالح کو اٹھایا ہوگا۔

یاد رکھو! میں نے تمہارے اور اپنے درمیان خدا اور تمہارے درمیان کسی قسم کا عذر و بہانہ باقی نہیں چھوڑا‘ بے شک میں اپنے اعمال کے حساب کا پابند ہوں اور تم اپنے اعمال کے پابند ہو۔

بدطینت لوگوں سے دوستی مت رکھو

محمد بن قیس نے پانچویں لالِ ولایت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے‘ انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے اور انہوں نے اپنے جدامجد امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

اشرار افراد کے ساتھ ہمنشینی اختیار کرنا یہ افراد صالح کے بارے میں بھی سوء ظن کا موجب بنتی ہے ‘ اور صالح افراد کے ساتھ آمدورفت رکھنا یہ افراد بدطینت کو بھی صالح محسوب کرنے کا سبب بنتی ہے اور فاسق و فاجر افراد کا نیک و صالح افراد کے ساتھ مجلس اختیار کرنا یہ ایسے افراد کو اچھا شمار کرتی ہے‘ پس تم میں سے اگر کسی کا معاملہ مشتبہ ہوجائے اور وہ اپنے دین کو نہ پہچان سکے تو اسے اپنے ساتھیوں کو دیکھنا چاہیے‘ پس اگر وہ اللہ والے ہیں تو وہ بھی دین خدا پر باقی ہے۔ اگر وہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی دین پر قائم ہیں تو پس اس کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جس کسی کا اللہ کی توحید اور قیامت پر دل کی گہرائیوں سے ایمان ہے تو ایسا شخص قطعی طور پر کسی کافر سے دوستی نہیں رکھے گا‘ اور کسی فاسق و فاجر شخص سے ہمنشینی اختیار نہیں کرے گا‘ اور اگر کوئی شخص کسی کافر سے دوستی رکھے گا یا اس سے ہمنشینی اختیار کرے گا تو ایسا شخص بھی کافرو فاجر محسوب ہوگا۔

امام رضا کی اہل بیت کے دشمن سے بے زاری

ابن فضال نے آٹھویں امام حضرت رضا علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

ابن فضال کا بیان ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو بیان فرماتے ہوئے سنا:

اگر کوئی شخص ایسے شخص سے دوستی اختیار کرے جو ہم سے قطع تعلق ہوچکا ہے‘ یا ایسے شخص سے قطع تعلق ہو جو ہماری مودّت کے جامِ ولایت پیتا ہو‘ یا کوئی ایسے شخص کی مدح سرائی کرے جو ہمارے عیوب نکالتا ہو‘ یا ایسے شخص کو عزت دار سمجھے جو ہمارا دشمن ہو--- ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے یا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نارِ جہنم سے بچو

ابن فضال روایت کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے دشمنانِ خدا سے دوستی کی‘ گویا کہ اس نے دوستانِ خدا سے دشمنی کی۔ جس شخص نے دوستانِ خدا سے دشمنی کی تو اس نے خداوند بزرگ و برتر سے دشمنی کی‘ تو اللہ تعالیٰ کے لیے سزاوار ہے کہ ایسے شخص کو نارِ جہنم میں داخل کرے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے رویت ہے کہ آپ نے فرمایا:

خدا کی قسم! ہمارا شیعہ وہ ہے جو اپنے شکم اور شرمگاہ کو حرام سے بچا کر رکھے‘ اور اپنے اعمال کو خالق کی خوشنودی و رضایت کے لیے انجام دے‘ او اس کے ثواب کا امیدوار ہو اور اس کے عتاب سے خوف زدہ ہو۔

محمد بن عجلان نے کہا کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں موجود تھا کہ اوپر سے ایک شخص آیا اور اس نے سلام کیا۔ امام نے اس سے پوچھا کہ تو نے اپنے بھائیوں کو کس حال میں چھوڑا؟

اس شخص نے اپنے برادرانِ ابجائی کی مدح سرائی اور پاکیزگی قلب بیان کی۔ اس نے ان کے تزکیہ نفس اور طہارت قلبی کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ثروت مند لوگ ان فقراء اور تہی دست لوگوں کی عیادت و تیمارداری کس مقدار میں جاتے ہیں اور ان کے احوال سے کس طرح باخبر رہتے ہیں؟

اس نے کہا: بہت تھوڑے غریبوں‘ فقیروں اور بے سہارا لوگوں کی تیماداری کے لیے جاتے ہیں۔

صادق آلِ محمد نے فرمایا:

ثروتمنت لوگ غریبوں‘ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ کس حد تک مالی ارتباط رکھتے ہیں؟ یعنی کیا امراء غریبوں کی مالی کمک کرتے ہیں؟

اس شخص نے عرض کیا: آپ نے اخلاق اور صفات کے بارے میں پوچھا‘ جب کہ ہمارے لوگوں کے درمیان ایسی صفاتِ حسنہ بالکل ناپید ہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

ایسے لوگ کس طرح گمان کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شیعہ ہیں؟

حسن خزاز کا بیان ہے کہ میں نے آٹھویں لالِ ولایت حضرت امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

ہماری محبت کے بعض دعویدار ہمارے شیعوں کے لیے دجال سے بھی زیادہ ضرر رساں ہیں۔

میں (راوی) نے کہا: فرزند رسول !وہ کیسے؟

آپ نے فرمایا: ہمارے دوستوں سے دشمنی کرتے ہیں اور ہمارے دشمنوں سے دوستی کرتے ہیں۔ اور جب ایسا ہونے لگے تو حق باطل کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے اور مومن و منافق کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔

کافر سے محبت ممنوع اور بغض واجب ہے

علاء بن فضیل کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جس نے کافر سے محبت کی تو اس نے خدا سے دشمنی کی اور جس نے کافر سے دشمنی کی تو اس نے اللہ سے محبت کی۔ پھر آپ نے فرمایا: دشمن خدا سے دوستی رکھنے والا بھی دشمنِ خدا ہے۔

اہلِ شک کی دوستی ممنوع ہے

ایک جماعت شیعہ کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو اہل شک سے نشست و برخاست رکھے وہ خود اہلِ شک ہے۔

ناصبی کون ہے

معلی بن خنیس کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا: آپ فرما رہے تھے:

ناصبی (دشمنِ اہل بیت ) وہ نہیں ہے جو ہم اہل بیت سے عداوت رکھے کیونکہ تمہیں دنیا میں ایک فرد بھی ایسا دکھائی نہ دے گا جو علی الاعلان کہے کہ میں محمد و آل محمد سے بغض رکھا ہوں۔

ناصبی وہ ہے جو یہ سمجھ کر تم سے عداوت رکھے کہ تم ہم سے محبت رکھتے ہو اور ہمارے دشمنوں سے بیزار ہو۔ جس نے ہمارے دشمن کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا تو اسے یوں سمجھنا چاہیے جیسے اس نے ہمارے محب کو قتل کیا ہو۔

شیعانِ علی کی پہچان

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے‘ آپ نے فرمایا:

شیعانِ علی کے (روزوں کی وجہ سے) شکم لاغر اور (ذکر الٰہی کی کثرت کی وجہ سے) لب خشک ہوتے تھے۔ شیعانِ علی شفقت‘ علم وحلم رکھنے والے لوگ تھے اور دنیا سے بے رغبتی میں مشہور تھے۔ لہٰذا تم ولایت اہل بیت کے عقیدہ کے تحفظ کے لیے پرہیزگاری اور نیک کاموں کے لیے سعی و مشقت کے ذریعہ سے امداد کرو۔

علاماتِ شیعہ

ابوالمقدام سے روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

ابوالمقدام! شیعانِ علی وہ ہیں جن کے چہروں کا رنگ زرد‘ جسم کمزور و نحیف اور روزوں کی وجہ سے ہونٹ خشک ہوں اور شب زندہ داری اور رات کی دعاؤں کی وجہ سے ان کے شکم پشت سے لگے ہوئے ہوں‘ ان کے رنگ زرد ہوں اور ان کے چہرے دگرگوں ہوں۔ جب ان پر رات سایہ فگن ہوتو زمین کو اپنا بستر بنا لیں اور اپنی پیشانی اس پر جھکا دیں۔ ان کی آنکھیں رو رہی ہوں‘ آنکھوں سے زیادہ آنسو جاری ہوں‘ ان کی نمازیں زیادہ ہوں‘ ان کی دعا زیادہ ہو۔ قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں جب لوگ خوشیاں منانے میں مصروف ہوں تو وہ خوفِ خداوندی کی وجہ سے غمگین دکھائی دیں۔

علاماتِ مومنین بزبان امیرالمومنین

سندی بن محمد راوی ہیں کہ ایک دن ایک جماعت امیرالمومنین کے پیچھے چل رہی تھی۔ آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم کون ہو؟

انہوں نے کہا: امیرالمومنین ! ہم آپ کے شیعہ ہیں۔

آپ نے فرمایا: پھر کیا وجہ ہے مجھے تمہارے اندر شیعوں کی علامات دکھائی کیوں نہیں دیتیں؟

انہوں نے کہا: مولا! شیعوں کی کون سی علامات ہیں؟

آپ نے فرمایا: شب بیداری کی وجہ سے ان کے چہرے زرد ہوتے ہیں‘ روزوں کی وجہ سے ان کے پیٹ لاغر ہوتے ہیں۔ دعا کی وجہ سے ان کے ہونٹ خشک ہوتے ہیں اور ان پر خشوع و عاجزی کا غبار دکھائی دیتا ہے۔

جعفرصادق کا شیعہ کون ہے؟

مفضل کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جعفر کا شیعہ صرف وہی ہے جو شکم اور شرمگاہ کی عفت کا خیال رکھتا ہو (یعنی شکم اور شرمگاہ کو حرام سے محفوظ رکھتا ہو) اور اپنے نفس کے خلاف شدت سے جہاد کرتا ہو اور اپنے خالق کی رضا کے حصول کے لیے اعمال بجا لاتا ہو اور اس کے ثواب کی امید رکھتا ہو اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتا ہو۔ جب تجھے ایسے افراد نظر آئیں تو وہ جعفر کے شیعہ ہوں گے۔

کیا تشیع کے لیے صرف محبت کا دعویٰ کافی ہے؟

جعفر جعفی نے کہا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

جابر! کیا شیعہ ہونے کے لیے صرف ہم اہل بیت کی محبت کا دعویٰ ہی کافی ہے؟

خدا کی قسم! ہمارا شیعہ تو صرف وہی ہے جو خوفِ خدا رکھتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو۔ شیعہ اپنی تواضع‘ خشوع‘ امانت کی ادائیگی‘ ذکرخدا کی کثرت اور روزہ‘ نماز‘ والدین سے بھلائی اور غریب مسکین اور یتیم ہمسایوں کی خبرگیری اور راست گفتاری‘ تلاوت قرآن اور نیکی کے علاوہ لوگوں سے زبان بند رکھنے جیسی صفات سے پہچانے جاتے تھے اور وہ اپنی قوم کے امین ہوا کرتے تھے۔

جابر نے کہا: فرزند رسول! ان صفات سے آراستہ مجھے تو ایک فرد بھی دکھائی نہیں دیتا۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

مختلف آرا و افکار کی وجہ سے راہِ حق سے دور نہ ہونا‘ کیا کسی شخص کا یہ کہنا کسی طور کافی ہوسکتا ہے کہ ”میں امیرالمومنین سے محبت اور دوستی رکھتا ہوں“۔

بلکہ اگر کوئی یہ کہے کہ ”میں رسول خدا سے محبت رکھتا ہوں“ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ رسول خدا حضرت علی سے افضل ہیں۔ اگر کوئی شخص محبت رسول کا زبانی دعویٰ کرے اور ان کی سیرت اور سنت پر عمل نہ کرے تو اس کا دعوائے محبت اسے کچھ بھی فائدہ نہ دے گا۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرتے رہو اور خدائی انعام حاصل کرنے کے لیے عمل کرو کیونکہ خدا سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہے۔

تمام بندوں میں سے اللہ کو زیادہ محبوب اور اس کی نظر میں زیادہ مکرم وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو اور اس کی اطاعت پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے والا ہو۔

جابر! اطاعت الٰہی کے علاوہ خدا کی قربت کا اور کوئی راستہ نہیں ہے اور ہمارے پاس دوزخ سے رہائی پانے کی کوئی دستاویز نہیں ہے اور تم میں سے کسی کے پاس بھی خدا کے سامنے کوئی حجت نہیں ہے۔ لہٰذا جو بھی اللہ کا اطاعت گزار ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور عمل اور پرہیزگاری کے علاوہ ہماری ولایت کا حصول ناممکن ہے۔

شیعوں کا ایک دوسرے سے تعلق

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے‘ آپ نے فرمایا:

علی کے شیعہ وہ ہیں جو ہماری راہِ ولایت میں ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور ہماری مودّت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ہمارے امر کو زندہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ غصہ میں آکر ظلم نہیں کرتے۔ اور خوش ہو کر حد سے تجاوز نہیں کرتے۔ اپنے ہمسایوں کے لیے باعثِ برکت ہوتے ہیں اور اپنے ملنے ملانے والوں کے لیے صلح کے نقیب ہوتے ہیں۔

شیعوں کی جسمانی علامات

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: شیعانِ علی کے رنگ اڑے ہوئے ہوتے ہیں‘ ان کے جسم کمزور اور نحیف ہوتے ہیں‘ ان کے ہونٹ خشک ہوتے ہیں‘ ان کے پیٹ لاغر ہوتے ہیں اور ان کے رنگ متغیر ہوتے ہیں۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے‘ آپ نے فرمایا:

جابر! علی کا شیعہ وہ ہے جس کی آواز اس کے کان سے تجاوز نہ کرے اور اس کی دشمنی اس کے جسم سے تجاوز نہ کرے اور ہمارے کسی دشمن کی مدح وثنا نہ کرے اور ہمارے کسی دشمن سے تعلقات قائم نہ کرے اور ہمارے عیب بیان کرنے والے سے ہم نشینی اختیار نہ کرے۔

علی کا شیعہ وہ ہے جو کتے کی طرح سے نہ بھونکے اور کوے کی طرح سے لالچ نہ کرے۔ اسے بھوکا مرنا گوارا ہو لیکن لوگوں سے سوال کرنا گوارا نہ ہو۔ ہمارے شیعہ سبک زندگی رکھتے ہیں (یعنی ان کے پاس وسائل معاش کم ہوتے ہیں) اور وہ خانہ بدوش رہتے ہیں اگر وہ کسی جگہ پر رہائش پذیر ہوں تو ان کو پہچاننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ غائب ہوں تو کوئی ان کو تلاش نہیں کرتا اور اگر وہ بیمار ہوں تو کوئی ان کی تیمارداری نہیں کرتا اور اگر مرجائیں تو لوگ ان کے جنازے میں شامل نہیں ہوتے۔ وہ قبروں میں رہ کر ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔

میں (راوی) نے کہا: بھلا میں ان صفات کے حامل افراد کو کہاں تلاش کروں؟

آپ نے فرمایا: انہیں زمین کے اطراف اور بازاروں میں تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انہی کے لیے فرمایا ہے:

مومنین کے لیے تواضع کرنے والے اور کافروں کے مقابلہ میں سرفراز ہوتے ہیں۔

حقیقی شیعہ انتہائی قلیل ہیں

مفضل بن قیس نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: کوفہ میں ہمارے شیعوں کی کیا تعداد ہے؟

میں نے کہا: پچاس ہزار۔

آپ مسلسل یہی سوال کرتے رہے اور میں تعداد کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:

کیا تجھے امید ہے کہ ان کی تعداد بیس ہوگی؟

پھر آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میری یہ خواہش ہے کہ کوفہ میں پچیس افراد ایسے ہونے چاہییں جو کہ ہمارے امر ولایت کی معرفت رکھنے والے ہوں اور ہمارے متعلق سچ کے علاوہ اور کچھ نہ کہیں۔

عقیدہ تشیع کا جلدی سے اظہار کیوں ہوجاتا ہے؟

محمد بن علی ماجیلویہ کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

ابوالعباس سفاح کے دورِ حکومت میں ابوجعفر منصور دوانیقی نے حیرہ میں مجھ سے پوچھا تھا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ کا شیعہ ایک ہی نشست میں اپنے اندرونی مطالب کو اگل دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کے مذہب کا فوراً پتہ چل جاتا ہے؟

امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہا: اس کی وجہ ان کے سینوں میں حلاوتِ ایمان کی موجودگی ہے۔ ایمان کی شیرینی کی وجہ سے وہ اپنا اندرونی عقیدہ ظاہر کر دیتے ہیں۔

فضیلت کا معیار معرفت ہے

امام محمد باقر علیہ السلام یا امام جعفر صادق علیہ السلام میں سے کسی ایک امام نے فرمایا:

تم میں سے کچھ شیعہ کسی سے زیادہ نماز گزار ہوتے ہیں اور کچھ دوسرے سے زیادہ حج بجا لانے والے ہوتے ہیں اور کچھ کسی سے زیادہ صدقہ دینے والے ہوتے ہیں اور کچھ دوسروں سے زیادہ روزدار ہوتے ہیں اور تم میں سے افضل وہ ہے جو معرفت میں افضل ہو۔

فکر پر کس بقدر ہمت اوست

مفضل بن زیاد عبدی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا‘ آپ نے فرمایا:

تمہاری تگ و دو کا محور اپنے دین کی معلومات کا حصول ہے۔ جب کہ تمہارے دشمن کی زندگی کا ہدف تمہیں اذیت و تکلیف دینا ہے۔ ان کے دل تمہاری دشمنی سے لبریز ہیں۔ وہ تمہاری باتیں سن کر انہیں بدل دیتے ہیں اور وہ تمہارے متعلق لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ تم خدا کے لیے شریکوں کا عقیدہ رکھتے ہو اور پھر وہ تم پر تہمتیں تراشتے ہیں۔ ان کا یہی عمل خدا کی نظر میں خدا کی نافرمانی کے لیے کافی ہے۔

شیعوں کی ولادت پاک ہے

سدیر کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جب قیامت کا دن ہوگا تو ہمارے اور ہمارے شیعوں کے علاوہ باقی لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا اور ہم اس سے اس لیے مستثنیٰ ہوں گے کہ ہمارے نسب میں کوئی خلل نہیں ہے۔

ظاہرداری کو بھی بحال رکھیں

عبداللہ بن خالد کنانی کا بیان ہے کہ میں ایک مچھلی کو ہاتھ میں لٹکائے ہوئے جا رہا تھا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: اسے پھینک دو کیونکہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ انسان بے قیمت چیز کو خود اٹھائے ہوئے پھر رہا ہو۔

پھر آپ نے فرمایا:

اے گروہِ شیعہ! تم ایسے لوگ ہو کہ تمہارے دشمن زیادہ ہیں۔ لوگ تم سے دشمنی رکھتے ہیں لہٰذا تم سے جہاں تک ہوسکے اپنے آپ کو مزین کر کے ان کے سامنے پیش کرو۔

کردارِ شیعہ

سعدہ بن صدقہ کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ان کے شیعوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

ہمارا شیعہ وہ ہے جو نیک کام کو مقدم رکھے اور برے کاموں سے پرہیز کرے اور اللہ کی رحمت کے شوق میں بڑے کام سرانجام دے۔ ایسا شخص ہم سے ہے اور ہماری طرف ہے اور ہم جہاں ہوں گے وہ ہمارے ساتھ ہوگا۔

اوصافِ شیعہ

اصبغ بن نباتہ راوی ہیں کہ ایک دن امیرالمومنین علیہ السلام گھر سے باہر تشریف لائے جب کہ ہم ایک جگہ اکٹھے ہو کر بیٹھے تھے۔

آپ نے فرمایا: تم کون ہو اور یہ تمہارا اجتماع کیسا ہے؟

ہم نے کہا: امیرالمومنین ! ہم آپ کے شیعوں کی ایک جماعت ہیں۔

آپ نے فرمایا: پھر کیا وجہ ہے مجھے تم میں شیعوں کی علامات کیوں دکھائی نہیں دیتیں؟

ہم نے کہا: شیعوں کی علامات کیا ہیں؟

آپ نے فرمایا: نمازِ شب کی وجہ سے ان کے چہرے زرد ہوتے ہیں۔ خوفِ خدا سے ان کی آنکھیں اشک ریز ہوتی ہیں۔ روزوں کی وجہ سے ان کے لب خشک ہوتے ہیں اور ان پر عاجزی کرنے والوں کا غبار ہوتا ہے۔

شیعوں کا چال چلن

ابوبصیر کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ مولا! میری جان آپ پر قربان ہو‘ ہمارے لیے اپنے شیعوں کے اوصاف بیان فرمائیں؟

امام نے فرمایا: ہمارا شیعہ وہ ہے کہ جس کی صدا اس کے کان تک نہ پہنچے اور اس کے بدن کی دشمنی کسی دوسرے تک تجاوز نہ کرے‘ بارش کو کسی اور کے دوش پر نہ گرائے‘ بھوک سے مر جائے لیکن اپنے برادرِ دینی کے علاوہ کسی کے سامنے دست دراز نہ کرے۔ ہمارا شیعہ کتے کی طرح حفاظت نہیں کرتا اور کوے کی طرح طمع و لالچ نہیں کرتا۔ ہمارا شیعہ سادہ اور عامیانہ زندگی بسر کرتا ہے اور وہ خانہ نشینی کی زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے شیعہ اپنے اموال سے دوسروں کا حق ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مواسات کرتے ہیں اور موت کے وقت جزع فزع نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی قبروں کی زیارت کرتے ہیں۔

ابوبصیر کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ہو‘ ایسے افراد کہاں ڈھونڈیں؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

زمین کے اطراف و اکناف‘ بازاروں کے درمیان‘ جس طرح کہ پروردگار عالم نے اپنی کتاب مجید میں ارشاد فرمایا:

اَذِلَّةِ عَلٰی الْمُؤمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلٰی الْکَافِرِیْنِ

مومنین کے مقابل میں فروتر ہیں اور کافروں کے مقابل میں عزت دار ہیں۔

عبدالرحمن بن کثیر کا بیان ہے کہ چھٹے لالِ ولایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا:

امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک عظیم عبادت گزار ہمام نامی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا:

اے امیرالمومنین ! میرے لیے متقی و پرہیزگار لوگوں کے اوصاف اس طرح بیان کریں گویاکہ میں ان کو دیکھ سکوں؟

علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں تعقل کیا اور پھر فرمایا:

اے ہمام! تیرے اوپر افسوس ہے ‘ خدا سے ڈر‘ اور نیکوکار بن جا‘ کیونکہ خدا ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی اور نیکوکار ہیں۔

مومن غضب و رضا میں بھی حداعتدال میں رہتا ہے

صفوان بن مہران کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مومن تو بس وہ ہے کہ جب اسے غصہ آئے تو اس کا غصہ اسے حق کی حدود سے باہر نہ نکالے اور جب وہ راضی ہو تو اس کی رضا اس کو باطل میں نہ لے جائے اور جب اسے قدرت حاصل ہو تو اپنے حق سے زیادہ مال نہ لے۔

تقویٰ کا دارومدار رونے پر ہی نہیں ہے

علی بن عبدالعزیز راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

علی بن عبدالعزیز! جو لوگ بظاہر دین دار ہیں ان کا رونا کہیں تمہیں فریب میں نہ ڈال دے۔ یاد رکھو تقویٰ وہ ہے جو دل میں ہو۔