علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 9 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6222 / ڈاؤنلوڈ: 4285
سائز سائز سائز
علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

مصنف: شیخ صدوق

ابوبصیر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

ہمارے شیعہ پرہیزگار‘ کارِخیر میں ہروقت کوشاں رہنے والے‘ وفادار‘ امانت دار‘ زہد و تقویٰ اور عبادات الٰہی بجا لانے والے‘ شبانہ روز اکاون رکعت نماز ادا کرنے والے‘ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے والے‘ اور دنوں کو روزہ رکھنے والے‘ اپنے اموال سے زکوٰة ادا کرنے والے‘ خانہ خدا کا حج بجا لانے والے‘ اور ہر حرام کام سے دُوری اختیار کرنے والے ہیں۔

وہ ہمارے شیعہ نہیں حسن بن خالد آٹھویں لالِ ولایت حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

ہمارے شیعہ ہمارے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور ہمارے احکام کو بجا لاتے ہیں‘ہمارے دشمنوں کے مخالف ہیں‘ پس جواِن صفات باکمال کا مالک نہیں وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

اہمیت تقیہ

ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ صادق آلِ محمد نے فرمایا:

جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں اور جو شخص پرہیزگاری نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے۔

دشمنانِ آلِ محمد سے ناطہ مت جوڑو

مفضل بن عمر روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

وہ جھوٹا ہے جو گمان کرتا ہے کہ وہ ہمارا شیعہ ہے‘ جب کہ اس نے رسی کا سارا ہمارے غیرکا پکڑا ہوا ہے۔(بحارالانوار‘ ج ۲‘ ص ۹۸)

شیعیان کی سفارش قبول ہوگی

ابی نجران کے فرزند سے روایت ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

جس کسی نے ہمارے شیعوں کے ساتھ عداوت کی گویا کہ اس نے ہم آلِ محمد سے دشمنی مول لی‘ اور جس کسی نے ہمارے شیعوں کے ساتھ محبت کی گیا کہ اس نے ہم سے محبت کی‘ کیونکہ وہ ہم سے ہیں اور ہماری طینیت سے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ جس کسی نے ان سے محبت کی وہ ہم میں سے ہے۔ جس نے ان سے بغض و عداوت کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے شیعہ نورِ الٰہی کی تجلی کو دیکھتے ہیں اور رحمت خدا میں غوطہ لگاتے ہیں اور کرامت الٰہی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ہمارا کوئی بھی شیعہ بیمار نہیں ہوتا بلکہ ان کی بیماری سے ہم متاثر ہوتے ہیں اور وہ مغموم و محزون نہیں ہوتا بلکہ اس کے اس حزن و ملال سے ہمیں پریشانی لاحق ہوتی ہے‘ اور اس کی شادمانی سے ہمیں مسرت لاحق ہوتی ہے‘ کوئی بھی ہمارا شیعہ ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے چاہے وہ مشرق میں رہتا ہو یا مغرب میں‘ اور اگر کوئی مرتے وقت مقروض مرے تو اس کا قرضہ ادا کرنا ہمارے ذمے ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی وراثت چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثان کے لیے ہے‘ ہمارے شیعہ وہ ہیں کہ جو نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰة ادا کرتے ہیں‘ حج بیت اللہ بجا لاتے ہیں‘ ماہِ رمضان کے روزے رکھتے ہیں‘ اہلِ بیت رسول سے مودت رکھتے ہیں‘ اور ان کے دشمنوں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔

ایسے لوگ ہی اہل ایمان اور تقویٰ ہیں‘ اہلِ ورع اور پرہیزگار ہیں‘ جس کسی نے ان کو رد کیا گویا کہ اس نے خداوند متعال کو رد کیا ‘ جس کسی نے ان پر طعن و تشنیع کی گویا کہ اس نے خدا پر طعن کی‘ کیونکہ یہ خدا کے حقیقی بندے اور سچے اولیاء ہیں۔ خدا کی قسم! ان میں سے ہرکوئی قبیلہ ربیعہ اور مخر (عرب میں دونوں قبیلے بڑی تعداد میں تھے) کے برابر شفاعت کی سفارش کا حق رکھتے ہیں۔ خداوند متعال ان کی سفارش ان کے بارے میں فرمائے گا‘ کیونکہ ان کا خدا کے نزدیک ایک بلند مقام ہے۔

اخلاص کا نتیجہ

محمد بن حمران صادق آل محمد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جس کسی نے کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ اخلاص کے ساتھ کہا وہ بہشت بریں میں داخل ہوگا اور اس کا اخلاص یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ ہر اس چیز سے روکے جو خدا نے اس پر حرام کی ہے۔

جنت کی چابی

زید بن ارقم رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے لا الٰہ الا اللّٰہاخلاص کے ساتھ کہا وہ بہشت میں داخل ہوگیا۔ اور اس کا اخلاص یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ اس کو ہر اس چیز سے روک دے جس کو خدا وند متعال نے اس کے حرام قرار دیا ہے۔

صدائے رسول کوہِ صفا پر

ابوعبیدہ حذّاء نے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جب رسول خدا نے مکہ فتح کیا تو آپ کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور آپ نے ارشاد فرمایا:

اے فرزندانِ ہاشم! اے فرزندانِ عبدالمطلب!

مجھے خدا وند متعال نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے‘ میں تمہارا دلسوز ہوں اور مجھے تم سے محبت ہے‘ تم یہ مت کہو کہ محمد ہم سے ہے۔ خدا کی قسم تمہارے اور تمہارے علاوہ میرے وہی دوست ہیں کہ جو متقی و پرہیزگار ہیں۔

آگاہ ہو جاؤ! میں تمہیں روزِ محشر نہیں پہچانوں گا کیونکہ تم نے دنیا کی محبت کو دوش پر سوار کیا ہوگا اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے کہ جنہوں نے اعمالِ صالح کو اٹھایا ہوگا۔

یاد رکھو! میں نے تمہارے اور اپنے درمیان خدا اور تمہارے درمیان کسی قسم کا عذر و بہانہ باقی نہیں چھوڑا‘ بے شک میں اپنے اعمال کے حساب کا پابند ہوں اور تم اپنے اعمال کے پابند ہو۔

بدطینت لوگوں سے دوستی مت رکھو

محمد بن قیس نے پانچویں لالِ ولایت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے‘ انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے اور انہوں نے اپنے جدامجد امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

اشرار افراد کے ساتھ ہمنشینی اختیار کرنا یہ افراد صالح کے بارے میں بھی سوء ظن کا موجب بنتی ہے ‘ اور صالح افراد کے ساتھ آمدورفت رکھنا یہ افراد بدطینت کو بھی صالح محسوب کرنے کا سبب بنتی ہے اور فاسق و فاجر افراد کا نیک و صالح افراد کے ساتھ مجلس اختیار کرنا یہ ایسے افراد کو اچھا شمار کرتی ہے‘ پس تم میں سے اگر کسی کا معاملہ مشتبہ ہوجائے اور وہ اپنے دین کو نہ پہچان سکے تو اسے اپنے ساتھیوں کو دیکھنا چاہیے‘ پس اگر وہ اللہ والے ہیں تو وہ بھی دین خدا پر باقی ہے۔ اگر وہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی دین پر قائم ہیں تو پس اس کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جس کسی کا اللہ کی توحید اور قیامت پر دل کی گہرائیوں سے ایمان ہے تو ایسا شخص قطعی طور پر کسی کافر سے دوستی نہیں رکھے گا‘ اور کسی فاسق و فاجر شخص سے ہمنشینی اختیار نہیں کرے گا‘ اور اگر کوئی شخص کسی کافر سے دوستی رکھے گا یا اس سے ہمنشینی اختیار کرے گا تو ایسا شخص بھی کافرو فاجر محسوب ہوگا۔

امام رضا کی اہل بیت کے دشمن سے بے زاری

ابن فضال نے آٹھویں امام حضرت رضا علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

ابن فضال کا بیان ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو بیان فرماتے ہوئے سنا:

اگر کوئی شخص ایسے شخص سے دوستی اختیار کرے جو ہم سے قطع تعلق ہوچکا ہے‘ یا ایسے شخص سے قطع تعلق ہو جو ہماری مودّت کے جامِ ولایت پیتا ہو‘ یا کوئی ایسے شخص کی مدح سرائی کرے جو ہمارے عیوب نکالتا ہو‘ یا ایسے شخص کو عزت دار سمجھے جو ہمارا دشمن ہو--- ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے یا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نارِ جہنم سے بچو

ابن فضال روایت کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے دشمنانِ خدا سے دوستی کی‘ گویا کہ اس نے دوستانِ خدا سے دشمنی کی۔ جس شخص نے دوستانِ خدا سے دشمنی کی تو اس نے خداوند بزرگ و برتر سے دشمنی کی‘ تو اللہ تعالیٰ کے لیے سزاوار ہے کہ ایسے شخص کو نارِ جہنم میں داخل کرے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے رویت ہے کہ آپ نے فرمایا:

خدا کی قسم! ہمارا شیعہ وہ ہے جو اپنے شکم اور شرمگاہ کو حرام سے بچا کر رکھے‘ اور اپنے اعمال کو خالق کی خوشنودی و رضایت کے لیے انجام دے‘ او اس کے ثواب کا امیدوار ہو اور اس کے عتاب سے خوف زدہ ہو۔

محمد بن عجلان نے کہا کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں موجود تھا کہ اوپر سے ایک شخص آیا اور اس نے سلام کیا۔ امام نے اس سے پوچھا کہ تو نے اپنے بھائیوں کو کس حال میں چھوڑا؟

اس شخص نے اپنے برادرانِ ابجائی کی مدح سرائی اور پاکیزگی قلب بیان کی۔ اس نے ان کے تزکیہ نفس اور طہارت قلبی کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ثروت مند لوگ ان فقراء اور تہی دست لوگوں کی عیادت و تیمارداری کس مقدار میں جاتے ہیں اور ان کے احوال سے کس طرح باخبر رہتے ہیں؟

اس نے کہا: بہت تھوڑے غریبوں‘ فقیروں اور بے سہارا لوگوں کی تیماداری کے لیے جاتے ہیں۔

صادق آلِ محمد نے فرمایا:

ثروتمنت لوگ غریبوں‘ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ کس حد تک مالی ارتباط رکھتے ہیں؟ یعنی کیا امراء غریبوں کی مالی کمک کرتے ہیں؟

اس شخص نے عرض کیا: آپ نے اخلاق اور صفات کے بارے میں پوچھا‘ جب کہ ہمارے لوگوں کے درمیان ایسی صفاتِ حسنہ بالکل ناپید ہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

ایسے لوگ کس طرح گمان کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شیعہ ہیں؟

حسن خزاز کا بیان ہے کہ میں نے آٹھویں لالِ ولایت حضرت امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

ہماری محبت کے بعض دعویدار ہمارے شیعوں کے لیے دجال سے بھی زیادہ ضرر رساں ہیں۔

میں (راوی) نے کہا: فرزند رسول !وہ کیسے؟

آپ نے فرمایا: ہمارے دوستوں سے دشمنی کرتے ہیں اور ہمارے دشمنوں سے دوستی کرتے ہیں۔ اور جب ایسا ہونے لگے تو حق باطل کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے اور مومن و منافق کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔

کافر سے محبت ممنوع اور بغض واجب ہے

علاء بن فضیل کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جس نے کافر سے محبت کی تو اس نے خدا سے دشمنی کی اور جس نے کافر سے دشمنی کی تو اس نے اللہ سے محبت کی۔ پھر آپ نے فرمایا: دشمن خدا سے دوستی رکھنے والا بھی دشمنِ خدا ہے۔

اہلِ شک کی دوستی ممنوع ہے

ایک جماعت شیعہ کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو اہل شک سے نشست و برخاست رکھے وہ خود اہلِ شک ہے۔

ناصبی کون ہے

معلی بن خنیس کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا: آپ فرما رہے تھے:

ناصبی (دشمنِ اہل بیت ) وہ نہیں ہے جو ہم اہل بیت سے عداوت رکھے کیونکہ تمہیں دنیا میں ایک فرد بھی ایسا دکھائی نہ دے گا جو علی الاعلان کہے کہ میں محمد و آل محمد سے بغض رکھا ہوں۔

ناصبی وہ ہے جو یہ سمجھ کر تم سے عداوت رکھے کہ تم ہم سے محبت رکھتے ہو اور ہمارے دشمنوں سے بیزار ہو۔ جس نے ہمارے دشمن کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا تو اسے یوں سمجھنا چاہیے جیسے اس نے ہمارے محب کو قتل کیا ہو۔

شیعانِ علی کی پہچان

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے‘ آپ نے فرمایا:

شیعانِ علی کے (روزوں کی وجہ سے) شکم لاغر اور (ذکر الٰہی کی کثرت کی وجہ سے) لب خشک ہوتے تھے۔ شیعانِ علی شفقت‘ علم وحلم رکھنے والے لوگ تھے اور دنیا سے بے رغبتی میں مشہور تھے۔ لہٰذا تم ولایت اہل بیت کے عقیدہ کے تحفظ کے لیے پرہیزگاری اور نیک کاموں کے لیے سعی و مشقت کے ذریعہ سے امداد کرو۔

علاماتِ شیعہ

ابوالمقدام سے روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

ابوالمقدام! شیعانِ علی وہ ہیں جن کے چہروں کا رنگ زرد‘ جسم کمزور و نحیف اور روزوں کی وجہ سے ہونٹ خشک ہوں اور شب زندہ داری اور رات کی دعاؤں کی وجہ سے ان کے شکم پشت سے لگے ہوئے ہوں‘ ان کے رنگ زرد ہوں اور ان کے چہرے دگرگوں ہوں۔ جب ان پر رات سایہ فگن ہوتو زمین کو اپنا بستر بنا لیں اور اپنی پیشانی اس پر جھکا دیں۔ ان کی آنکھیں رو رہی ہوں‘ آنکھوں سے زیادہ آنسو جاری ہوں‘ ان کی نمازیں زیادہ ہوں‘ ان کی دعا زیادہ ہو۔ قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں جب لوگ خوشیاں منانے میں مصروف ہوں تو وہ خوفِ خداوندی کی وجہ سے غمگین دکھائی دیں۔

علاماتِ مومنین بزبان امیرالمومنین

سندی بن محمد راوی ہیں کہ ایک دن ایک جماعت امیرالمومنین کے پیچھے چل رہی تھی۔ آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم کون ہو؟

انہوں نے کہا: امیرالمومنین ! ہم آپ کے شیعہ ہیں۔

آپ نے فرمایا: پھر کیا وجہ ہے مجھے تمہارے اندر شیعوں کی علامات دکھائی کیوں نہیں دیتیں؟

انہوں نے کہا: مولا! شیعوں کی کون سی علامات ہیں؟

آپ نے فرمایا: شب بیداری کی وجہ سے ان کے چہرے زرد ہوتے ہیں‘ روزوں کی وجہ سے ان کے پیٹ لاغر ہوتے ہیں۔ دعا کی وجہ سے ان کے ہونٹ خشک ہوتے ہیں اور ان پر خشوع و عاجزی کا غبار دکھائی دیتا ہے۔

جعفرصادق کا شیعہ کون ہے؟

مفضل کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جعفر کا شیعہ صرف وہی ہے جو شکم اور شرمگاہ کی عفت کا خیال رکھتا ہو (یعنی شکم اور شرمگاہ کو حرام سے محفوظ رکھتا ہو) اور اپنے نفس کے خلاف شدت سے جہاد کرتا ہو اور اپنے خالق کی رضا کے حصول کے لیے اعمال بجا لاتا ہو اور اس کے ثواب کی امید رکھتا ہو اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتا ہو۔ جب تجھے ایسے افراد نظر آئیں تو وہ جعفر کے شیعہ ہوں گے۔

کیا تشیع کے لیے صرف محبت کا دعویٰ کافی ہے؟

جعفر جعفی نے کہا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

جابر! کیا شیعہ ہونے کے لیے صرف ہم اہل بیت کی محبت کا دعویٰ ہی کافی ہے؟

خدا کی قسم! ہمارا شیعہ تو صرف وہی ہے جو خوفِ خدا رکھتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو۔ شیعہ اپنی تواضع‘ خشوع‘ امانت کی ادائیگی‘ ذکرخدا کی کثرت اور روزہ‘ نماز‘ والدین سے بھلائی اور غریب مسکین اور یتیم ہمسایوں کی خبرگیری اور راست گفتاری‘ تلاوت قرآن اور نیکی کے علاوہ لوگوں سے زبان بند رکھنے جیسی صفات سے پہچانے جاتے تھے اور وہ اپنی قوم کے امین ہوا کرتے تھے۔

جابر نے کہا: فرزند رسول! ان صفات سے آراستہ مجھے تو ایک فرد بھی دکھائی نہیں دیتا۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

مختلف آرا و افکار کی وجہ سے راہِ حق سے دور نہ ہونا‘ کیا کسی شخص کا یہ کہنا کسی طور کافی ہوسکتا ہے کہ ”میں امیرالمومنین سے محبت اور دوستی رکھتا ہوں“۔

بلکہ اگر کوئی یہ کہے کہ ”میں رسول خدا سے محبت رکھتا ہوں“ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ رسول خدا حضرت علی سے افضل ہیں۔ اگر کوئی شخص محبت رسول کا زبانی دعویٰ کرے اور ان کی سیرت اور سنت پر عمل نہ کرے تو اس کا دعوائے محبت اسے کچھ بھی فائدہ نہ دے گا۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرتے رہو اور خدائی انعام حاصل کرنے کے لیے عمل کرو کیونکہ خدا سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہے۔

تمام بندوں میں سے اللہ کو زیادہ محبوب اور اس کی نظر میں زیادہ مکرم وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو اور اس کی اطاعت پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے والا ہو۔

جابر! اطاعت الٰہی کے علاوہ خدا کی قربت کا اور کوئی راستہ نہیں ہے اور ہمارے پاس دوزخ سے رہائی پانے کی کوئی دستاویز نہیں ہے اور تم میں سے کسی کے پاس بھی خدا کے سامنے کوئی حجت نہیں ہے۔ لہٰذا جو بھی اللہ کا اطاعت گزار ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور عمل اور پرہیزگاری کے علاوہ ہماری ولایت کا حصول ناممکن ہے۔

شیعوں کا ایک دوسرے سے تعلق

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے‘ آپ نے فرمایا:

علی کے شیعہ وہ ہیں جو ہماری راہِ ولایت میں ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور ہماری مودّت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ہمارے امر کو زندہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ غصہ میں آکر ظلم نہیں کرتے۔ اور خوش ہو کر حد سے تجاوز نہیں کرتے۔ اپنے ہمسایوں کے لیے باعثِ برکت ہوتے ہیں اور اپنے ملنے ملانے والوں کے لیے صلح کے نقیب ہوتے ہیں۔

شیعوں کی جسمانی علامات

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: شیعانِ علی کے رنگ اڑے ہوئے ہوتے ہیں‘ ان کے جسم کمزور اور نحیف ہوتے ہیں‘ ان کے ہونٹ خشک ہوتے ہیں‘ ان کے پیٹ لاغر ہوتے ہیں اور ان کے رنگ متغیر ہوتے ہیں۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے‘ آپ نے فرمایا:

جابر! علی کا شیعہ وہ ہے جس کی آواز اس کے کان سے تجاوز نہ کرے اور اس کی دشمنی اس کے جسم سے تجاوز نہ کرے اور ہمارے کسی دشمن کی مدح وثنا نہ کرے اور ہمارے کسی دشمن سے تعلقات قائم نہ کرے اور ہمارے عیب بیان کرنے والے سے ہم نشینی اختیار نہ کرے۔

علی کا شیعہ وہ ہے جو کتے کی طرح سے نہ بھونکے اور کوے کی طرح سے لالچ نہ کرے۔ اسے بھوکا مرنا گوارا ہو لیکن لوگوں سے سوال کرنا گوارا نہ ہو۔ ہمارے شیعہ سبک زندگی رکھتے ہیں (یعنی ان کے پاس وسائل معاش کم ہوتے ہیں) اور وہ خانہ بدوش رہتے ہیں اگر وہ کسی جگہ پر رہائش پذیر ہوں تو ان کو پہچاننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ غائب ہوں تو کوئی ان کو تلاش نہیں کرتا اور اگر وہ بیمار ہوں تو کوئی ان کی تیمارداری نہیں کرتا اور اگر مرجائیں تو لوگ ان کے جنازے میں شامل نہیں ہوتے۔ وہ قبروں میں رہ کر ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔

میں (راوی) نے کہا: بھلا میں ان صفات کے حامل افراد کو کہاں تلاش کروں؟

آپ نے فرمایا: انہیں زمین کے اطراف اور بازاروں میں تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انہی کے لیے فرمایا ہے:

مومنین کے لیے تواضع کرنے والے اور کافروں کے مقابلہ میں سرفراز ہوتے ہیں۔

حقیقی شیعہ انتہائی قلیل ہیں

مفضل بن قیس نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: کوفہ میں ہمارے شیعوں کی کیا تعداد ہے؟

میں نے کہا: پچاس ہزار۔

آپ مسلسل یہی سوال کرتے رہے اور میں تعداد کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:

کیا تجھے امید ہے کہ ان کی تعداد بیس ہوگی؟

پھر آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میری یہ خواہش ہے کہ کوفہ میں پچیس افراد ایسے ہونے چاہییں جو کہ ہمارے امر ولایت کی معرفت رکھنے والے ہوں اور ہمارے متعلق سچ کے علاوہ اور کچھ نہ کہیں۔

عقیدہ تشیع کا جلدی سے اظہار کیوں ہوجاتا ہے؟

محمد بن علی ماجیلویہ کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

ابوالعباس سفاح کے دورِ حکومت میں ابوجعفر منصور دوانیقی نے حیرہ میں مجھ سے پوچھا تھا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ کا شیعہ ایک ہی نشست میں اپنے اندرونی مطالب کو اگل دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کے مذہب کا فوراً پتہ چل جاتا ہے؟

امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہا: اس کی وجہ ان کے سینوں میں حلاوتِ ایمان کی موجودگی ہے۔ ایمان کی شیرینی کی وجہ سے وہ اپنا اندرونی عقیدہ ظاہر کر دیتے ہیں۔

فضیلت کا معیار معرفت ہے

امام محمد باقر علیہ السلام یا امام جعفر صادق علیہ السلام میں سے کسی ایک امام نے فرمایا:

تم میں سے کچھ شیعہ کسی سے زیادہ نماز گزار ہوتے ہیں اور کچھ دوسرے سے زیادہ حج بجا لانے والے ہوتے ہیں اور کچھ کسی سے زیادہ صدقہ دینے والے ہوتے ہیں اور کچھ دوسروں سے زیادہ روزدار ہوتے ہیں اور تم میں سے افضل وہ ہے جو معرفت میں افضل ہو۔

فکر پر کس بقدر ہمت اوست

مفضل بن زیاد عبدی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا‘ آپ نے فرمایا:

تمہاری تگ و دو کا محور اپنے دین کی معلومات کا حصول ہے۔ جب کہ تمہارے دشمن کی زندگی کا ہدف تمہیں اذیت و تکلیف دینا ہے۔ ان کے دل تمہاری دشمنی سے لبریز ہیں۔ وہ تمہاری باتیں سن کر انہیں بدل دیتے ہیں اور وہ تمہارے متعلق لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ تم خدا کے لیے شریکوں کا عقیدہ رکھتے ہو اور پھر وہ تم پر تہمتیں تراشتے ہیں۔ ان کا یہی عمل خدا کی نظر میں خدا کی نافرمانی کے لیے کافی ہے۔

شیعوں کی ولادت پاک ہے

سدیر کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جب قیامت کا دن ہوگا تو ہمارے اور ہمارے شیعوں کے علاوہ باقی لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا اور ہم اس سے اس لیے مستثنیٰ ہوں گے کہ ہمارے نسب میں کوئی خلل نہیں ہے۔

ظاہرداری کو بھی بحال رکھیں

عبداللہ بن خالد کنانی کا بیان ہے کہ میں ایک مچھلی کو ہاتھ میں لٹکائے ہوئے جا رہا تھا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: اسے پھینک دو کیونکہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ انسان بے قیمت چیز کو خود اٹھائے ہوئے پھر رہا ہو۔

پھر آپ نے فرمایا:

اے گروہِ شیعہ! تم ایسے لوگ ہو کہ تمہارے دشمن زیادہ ہیں۔ لوگ تم سے دشمنی رکھتے ہیں لہٰذا تم سے جہاں تک ہوسکے اپنے آپ کو مزین کر کے ان کے سامنے پیش کرو۔

کردارِ شیعہ

سعدہ بن صدقہ کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ان کے شیعوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

ہمارا شیعہ وہ ہے جو نیک کام کو مقدم رکھے اور برے کاموں سے پرہیز کرے اور اللہ کی رحمت کے شوق میں بڑے کام سرانجام دے۔ ایسا شخص ہم سے ہے اور ہماری طرف ہے اور ہم جہاں ہوں گے وہ ہمارے ساتھ ہوگا۔

اوصافِ شیعہ

اصبغ بن نباتہ راوی ہیں کہ ایک دن امیرالمومنین علیہ السلام گھر سے باہر تشریف لائے جب کہ ہم ایک جگہ اکٹھے ہو کر بیٹھے تھے۔

آپ نے فرمایا: تم کون ہو اور یہ تمہارا اجتماع کیسا ہے؟

ہم نے کہا: امیرالمومنین ! ہم آپ کے شیعوں کی ایک جماعت ہیں۔

آپ نے فرمایا: پھر کیا وجہ ہے مجھے تم میں شیعوں کی علامات کیوں دکھائی نہیں دیتیں؟

ہم نے کہا: شیعوں کی علامات کیا ہیں؟

آپ نے فرمایا: نمازِ شب کی وجہ سے ان کے چہرے زرد ہوتے ہیں۔ خوفِ خدا سے ان کی آنکھیں اشک ریز ہوتی ہیں۔ روزوں کی وجہ سے ان کے لب خشک ہوتے ہیں اور ان پر عاجزی کرنے والوں کا غبار ہوتا ہے۔

شیعوں کا چال چلن

ابوبصیر کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ مولا! میری جان آپ پر قربان ہو‘ ہمارے لیے اپنے شیعوں کے اوصاف بیان فرمائیں؟

امام نے فرمایا: ہمارا شیعہ وہ ہے کہ جس کی صدا اس کے کان تک نہ پہنچے اور اس کے بدن کی دشمنی کسی دوسرے تک تجاوز نہ کرے‘ بارش کو کسی اور کے دوش پر نہ گرائے‘ بھوک سے مر جائے لیکن اپنے برادرِ دینی کے علاوہ کسی کے سامنے دست دراز نہ کرے۔ ہمارا شیعہ کتے کی طرح حفاظت نہیں کرتا اور کوے کی طرح طمع و لالچ نہیں کرتا۔ ہمارا شیعہ سادہ اور عامیانہ زندگی بسر کرتا ہے اور وہ خانہ نشینی کی زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے شیعہ اپنے اموال سے دوسروں کا حق ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مواسات کرتے ہیں اور موت کے وقت جزع فزع نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی قبروں کی زیارت کرتے ہیں۔

ابوبصیر کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ہو‘ ایسے افراد کہاں ڈھونڈیں؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

زمین کے اطراف و اکناف‘ بازاروں کے درمیان‘ جس طرح کہ پروردگار عالم نے اپنی کتاب مجید میں ارشاد فرمایا:

اَذِلَّةِ عَلٰی الْمُؤمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلٰی الْکَافِرِیْنِ

مومنین کے مقابل میں فروتر ہیں اور کافروں کے مقابل میں عزت دار ہیں۔

عبدالرحمن بن کثیر کا بیان ہے کہ چھٹے لالِ ولایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا:

امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک عظیم عبادت گزار ہمام نامی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا:

اے امیرالمومنین ! میرے لیے متقی و پرہیزگار لوگوں کے اوصاف اس طرح بیان کریں گویاکہ میں ان کو دیکھ سکوں؟

علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں تعقل کیا اور پھر فرمایا:

اے ہمام! تیرے اوپر افسوس ہے ‘ خدا سے ڈر‘ اور نیکوکار بن جا‘ کیونکہ خدا ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی اور نیکوکار ہیں۔

مومن غضب و رضا میں بھی حداعتدال میں رہتا ہے

صفوان بن مہران کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مومن تو بس وہ ہے کہ جب اسے غصہ آئے تو اس کا غصہ اسے حق کی حدود سے باہر نہ نکالے اور جب وہ راضی ہو تو اس کی رضا اس کو باطل میں نہ لے جائے اور جب اسے قدرت حاصل ہو تو اپنے حق سے زیادہ مال نہ لے۔

تقویٰ کا دارومدار رونے پر ہی نہیں ہے

علی بن عبدالعزیز راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

علی بن عبدالعزیز! جو لوگ بظاہر دین دار ہیں ان کا رونا کہیں تمہیں فریب میں نہ ڈال دے۔ یاد رکھو تقویٰ وہ ہے جو دل میں ہو۔

دوسري فصل

جاہلانہ تمدن و ثقافت کے خطرات و نتائج

حقو ق نسواں، موجودہ دنيا کا ايک گھمبير اور حل نشدہ مسئلہ

حقوق نسواں کے بارے ميں جو دنيا کا ابھي تک ايک حل نشدہ مسئلہ ہے، بہت زيادہ گفتگو کي گئي ہے اور کي جاري ہے۔ جب ہم اس دنيا کے انساني نقشے اور مختلف انساني معاشروں پر نظر ڈالتے ہيں ، خواہ وہ ہمارے اپنے ملک کا اسلامي معاشرہ ہو يا ديگر اسلامي ممالک کا يا حتي غير اسلامي معاشرے بھي کہ جن ميں پيشرفتہ اور متمدن معاشرے بھي شامل ہيں، تو ہم ديکھتے ہيں کہ ان تمام معاشروں ميں بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حقوق نسواں کا مسئلہ ابھي تک حل نہيں ہوا ہے۔ يہ سب انساني مسائل کے بارے ميں ہماري کج فکري اور غلط سوچ کي نشاني ہے اور اس با ت کي عکاسي کرتے ہيں کہ ہم ان تمام مسائل ميں تنگ نظري کا شکار ہيں۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے تمام بلندو بانگ دعووں،مخلص اور ہمدرد افراد کي تمام تر جدوجہد اور حقوق نسواں اور خواتين کے مسائل کے بارے ميں وسيع پيمانے پر ہونے والي ثقافتي سرگرميوں اور فعاليت کے باوجود اِن دو جنس (مرد و عورت) اور مسئلہ خواتين کہ اِسي کے ذيل ميں مردوں کے مسائل کو ايک اور طرح سے بيان کيا جاتا ہے، کے بارے ميں ايک سيدھے راستے اور صحيح روش کو ابھي تک ڈھونڈھنے سے قاصر ہے۔

شايد آپ خواتين کے درميان بہت سے ايسي خواتين ہوں کہ جنہوں نے دنيا کي ہنرمند خواتين کے ہنري اور ادبي آثار کو ديکھا يا پڑھا ہو کہ اُن ميں بعض آثار فارسي زبان ميں ترجمہ ہوچکے ہيں اور بعض اپني اصلي زبان ميں موجود ہيں۔ يہ سب اِسي مذکورہ بالا مسئلے کي عکاسي کرتے ہيں کہ خواتين کے مسائل اور اِسي کے ذيل ميں ان دوجنس ، مرد وعورت کے مسئلے اور بالخصوص انسانيت سے متعلق مسائل کو حل کرنے ميں بشر ابھي تک عاجز و ناتوان ہے۔ بہ عبارت ديگر؛ زيادتي ، کج فکري اور فکري بدہضمي اور اِن کے نتيجے ميں ظلم و تعدّي، تجاوز، روحي ناپختگي، خاندان اور گھرانوں سے متعلق مشکلات ؛ ان دو جنس۔ مردو زن۔ کے باہمي تعلقات ميں اختلاط و زيادتي سے مربوط مسائل ابھي تک عالم بشريت کے حل نشدہ مسائل کا حصہ ہيں۔ يعني مادي ميدانوں ميں ترقي، آسماني واديوں اور کہکشاوں ميں پيشقدمي اور سمندروں کي گہرائيوں ميں اتني کشفيات کرنے، نفسياتي پيچيدگيوں اور الجھنوں کي گھتيّوں کو سُلجھانے اور اجتماعي و اقتصادي مسائل ميں اپني تمام تر حيران کن پيشرفت کے باوجود يہ انسان ابھي تک اس ايک مسئلے ميں زمين گير و ناتواں ہے۔ اگر ميں ان تمام ناکاميوں اور انجام نشدہ امور کو فہرست وار بيان کروں تو اِس کيلئے ايک بڑا وقت درکار ہے کہ جس سے آپ بخوبي واقف ہيں۔

دنيا ميں ’’خانداني‘‘ بحران کي اصل وجہ!

خانداني مسائل کہ جو آج دنيا کے بنيادي ترين مسائل ميں شمار کيے جاتے ہيں ، کہاں سے جنم ليتے ہيں ؟ کيا يہ خواتين کے مسائل کا نتيجہ ہيں يا پھر مردو عورت کے باہمي رابطے کے نتيجے ميں پيدا ہوتے ہيں؟ ايک خاندان اور گھرانہ جو دنيا ئے بشريت کا اساسي ترين رکن ہے، آج دنيا ميں اتنے بحران کا شکار کيوں ہے؟ يعني اگر کوئي بقول معروف آج کي متمدّن مغربي دنيا ميں خاندان کي بنيادوں کو مستحکم بنانے کا خواہ ايک مختصر سا ہي منصوبہ کيوں نہ پيش کرے تو اُس کا شاندار استقبال کيا جائے گا، مرد ، خواتين اور بچے سب ہي اُس کا پُرتپاک استقبال کريں گے۔

اگر آپ دنيا ميں ’’خاندان‘‘ کے مسئلے پر تحقيق کريں اور خاندان کے بارے ميں موجود اس بحران کو اپني توجہ اور کاوش کا مرکز قرار ديں تو آپ ملاحظہ کريں گے کہ ِاس بُحران نے اِن دو جنس يعني مرد وعورت کے درميان باہمي رابطے، تعلّقات اور معاشرے سے مربوط حل نشدہ مسائل سے جنم ليا ہے يا بہ تعبير ديگر يہ نگاہ و زاويہ، غلط ہے۔ اب ہم لوگ ہيں اور مقابل ميں مرد حضرات کے خود ساختہ افکار و نظريات ہيں، تو جواب ميں ہم يہي کہيں گے کہ خواتين کے مسئلے کو جس نگاہ و زاويے سے ديکھا جارہا ہے وہ صحيح نہيں ہے اور يہ بھي کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کے مسئلے کو اس زاويے سے ديکھنا بھي غير معقول ہے يا مجموعاً ان دونوں کي کيفيت و حالت کا اِس نگاہ سے جائزہ لينا سراسر غلطي ہے۔

مرد و عورت کي کثير المقدار مشکلات کا علاج

اس مسئلے کي مشکلات ، زيادہ اور مسائل فراوان ہيں ليکن سوال يہ ہے کہ ان سب کا علاج کيسے ممکن ہے؟ اِن سب کا راہ حل يہ ہے کہ ہم خداوند عالم کے بنائے ہوئے راستے پر چليں۔ دراصل مرد وعوت کے مسائل کے حل کيلئے پيغام الٰہي ميں بہت ہي اہم مطالب بيان کئے گئے ہيں لہٰذا ہميں ديکھنا چاہيے کہ پيغام الٰہي اِس بارے ميں کيا کہتا ہے۔ خداوند عالم کے ’’پيغام وحي‘‘ نے اِس مسئلے ميں صرف وعظ و نصيحت کرنے پر ہي اکتفا نہيں کيا ہے بلکہ اس نے راہ حل کيلئے زندہ مثاليں اور عملي نمونے بھي پيش کيے ہيں۔

آپ ملاحظہ کيجئے کہ خداوند عالم جب تاريخ نبوّت سے مومن انسانوں کيلئے مثال بيان کرنا چاہتا ہے تو قرآن ميں يہ مثال بيان کرتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ’’وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا امرَآَتَ فِرعَونَ ‘‘(۱) ۔ (اللہ نے اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال بيان فرمائي ہے)۔ حضرت موسي کے زمانے ميں اہل ِ ايمان کي کثير تعداد موجود تھي کہ جنہوں نے ايمان کے حصول کيلئے بہت جدوجہد اور فداکاري کي ليکن خداوند عالم نے ان سب کے بجائے زن فرعون کي مثال پيش کي ہے۔ آخر اِس کي کيا وجہ ہے؟ کيا خداوند عالم خواتين کي طرفداري کرنا چاہتا ہے يا در پردہ حقيقت کچھ اور ہے؟ حقيقتاً مسئلہ يہ ہے کہ يہ عورت (زن فرعون) خدا کے پسنديدہ اعمال کي بجا آوري کے ذريعے ايسے مقام تک جاپہنچي تھي کہ فقط اُسي کي مثال ہي پيش کي جاسکتي تھي۔ يہ حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام اور حضرت مريم علیھا السلام سے قبل کي بات ہے۔ فرعون کي بيوي ، نہ پيغمبر ہے اور نہ پيغمبر کي اولاد ، نہ کسي نبي کي بيوي ہے اور نا ہي کسي رسول کے خاندان سے اُس کا تعلق ہے۔ ايک عورت کي روحاني و معنوي تربيت اور رُشد اُسے اس مقام تک پہنچاتي ہے !

البتہ اس کے مقابلے ميں يعني برائي ميں بھي اتفاقاً يہي چيز ہے۔ يعني خداوند متعال جب بُرے انسانوں کيلئے مثال بيان کرتاہے تو فرماتا ہے۔ ’’ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ کَفَرُوا امرَآَتَ نُوحٍ وَّ امرَآَتَ لُوطٍ ‘‘(۲) (اللہ نے اہل کفر کيلئے نوح اور لوط کي بيويوں کي مثال پيش کي ہے)۔ يہاں بھي خدا نے دو عورتوں کي مثال پيش کي ہے کہ جو برے انسانوں سے تعلق رکھتي تھيں۔ حضرت نوح اور حضرت لوط کے زمانے ميں کافروں کي ايک بہت بڑي تعداد موجود تھي اور ان کا معاشرہ برے افراد سے پُر تھا ليکن قرآن اُن لوگوں کو بطور ِ مثال پيش کرنے کے بجائے حضرت نوح و حضرت لوط کي زوجات کي مثال بيان کرتا ہے۔

اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال کے پيش کيے جانے کے ذريعے صِنفِ نازک پر يہ خاص عنايت اورايک عورت کے مختلف عظيم پہلووں اور اُس کے مختلف ابعاد پر توجہ کي اصل وجہ کيا ہے؟ شايد يہ سب اِس جہت سے ہو کہ قرآن يہ چاہتا ہے کہ اُس زمانے کے لوگوں کے باطل اور غلط افکار و نظريات کي جانب اشارہ کرے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُس زمانہ جاہليت کے باطل افکار و عقائد آج بھي ہنوز باقي ہيں ، خواہ وہ جزيرۃ العرب کے لوگ ہوں جو اپني بيٹيوں کو زندہ درگور کرديتے تھے يا دنيا کي بڑي شہنشاہت کے زمانے کے لوگ ہوں مثل روم و ايران۔

يورپ کي موجودہ تمدن کي بنياد

يورپ کے موجودہ تمدن کي بنياد، روم کي قديمي تہذيب و ثقافت پر قائم ہے۔ يعني يورپ و مغرب اور اُس کے ذيل ميں امريکي تہذيب و ثقافت پر سرسے پير تک جو چيز مسلط و حاکم ہے،وہ وہي اصول و نکات ہيں کہ جو رومي شہنشاہيت کے زمانے ميں موجود تھے اور وہي اصول و قوانين آج ان ممالک کي ثقافت اور تہذيب و تمدن کا معيار بنے ہوئے ہيں۔ اُس زمانے ميں بھي خواتين کا بہت زيادہ احترام کيا جاتا تھا ، انہيں بہت بلند مقام و مرتبہ دياجاتا تھا اور مختلف قسم کے زيوراور آرائش وزينت سے انہيں مزين کيا جاتا تھا مگر کس ليے؟ صرف اس ليے کہ مرد کي ايک خاکي و پست اور سب سے زيادہ مادي (اور حيواني وشہوتي) خصلت کي سيرابي کا وسيلہ بن سکے! يہ ايک انسان اور صنف نازک کي کتني بڑي تحقير اور توہين ہے !

ايراني شہنشاہيت کے زمانے ميں ايران بھي بالکل ايسا ہي تھا۔ ساساني سلسلہ بادشاہت کے حرم سراوں کے قصے تو آپ نے سنے ہوں گے۔ حرم سرا کا مطلب آپ کو پتہ ہے؟! حرم سرا يعني عورت کي اہانت وتذليل کي جگہ۔ايک مرد چونکہ قدرت کا حامل ہے لہٰذا وہ خود کو يہ حق ديتا ہے کہ وہ ايک ہزار عورتوں کو اپنے حرم سرا ميں رکھے۔ اُس زمانے کے بادشاہ کي رعايا کا ہر فرد بھي اگر قدرت و توانائي رکھتا تو وہ بھي اپني حيثيت و طاقت کے مطابق ايک ہزار، پانچ سو، چارسو يا دو سو عورتوں کو اپنے پاس رکھتا۔ يہ واقعات و حقائق عورت سے متعلق کون سے افکار و نظريات کي عکاسي کرتے ہيں؟!

مغربي عورت کي حالت زار

ہميں مغرب سے ابھي بہت کچھ طلب کرنا ہے کہ جس نے تاريخ کے مختلف ادوار سے ليکر آج تک اِس صنفِ نازک کي اتني تحقير و تذليل کي ہے۔ آپ توجہ کيجئے کہ ابھي ماضي قريب تک يورپ اور مغربي ممالک ميں خواتين کو اپنے مستقل اور جداگانہ مالي حقوق حاصل نہيں تھے۔ ميں نے ايک دفعہ کافي تحقيق کے بعد اس بارے ميں اعداد و شمار آج سے تقريباً چار ، پانچ سال(۳) قبل نماز جمعہ کے کسي خطبے ميں ذکر کيے تھے۔ مثلاً بيسويں صدي کے اوائل تک اُن تمام بلند و بانگ دعووں ، مغرب ميں روز بروز پھيلنے والي بے حيائي اور حد سے گزر جانے والے اور بے مہار جنسي اختلاط و بے راہ روي کے بعد بھي کہ جس کے بعد يہ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ عورت کو اس طرح زيادہ احترام و بلند مقام ديا جاتا ہے، مغربي عورت کو يہ حق حاصل نہيں تھا کہ وہ اپنے ذاتي مال و ثروت سے آزادانہ استفادہ کرے! وہ شوہر کے مقابلے ميں اپنے ذاتي مال و دولت کي بھي مالک نہيں تھي! يعني جو عورت بھي شادي کرتي تھي اُس کي تمام جمع پونجي اور مال ودولت سب اُس کے شوہر کي ملکيت ميں چلا جاتا تھا اور عورت کو اپنا ہي مال خرچ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں تھا، يہاں تک کہ بيسويں صدي کے اوائل ميں خواتين کو نوکري و ملازمت اور ملکيت کا حق ديا گيا۔ اہل مغرب نے اس مسئلے کو بھي جو انساني حقوق کے بنيادي اور ابتدائي ترين مسائل سے تعلق رکھتا ہے ، عورت کي پہنچ سے دور رکھا۔ جبکہ اپني تمام تر توجہ اُن مسائل کي جانب رکھي کہ جو خواتين کے اُن قيمتي اور حقيقتاً قابل قدر مسائل کے مد مقابل ہيں کہ جن کي اسلام ميں بہت تاکيد کي گئي ہے۔ يہ جو حجاب اور پردے کے بارے ميں ہمارے يہاں اتني تاکيد کي گئي ہے، اس کي وجہ بھي يہي ہے(۴) ۔

حقوق نسواں کے بارے ميں استکبار کي غلطي

جاہليت سے مالا مال عالمي استکبار بہت بڑي غلطي ميں ہے کہ جو يہ خيال کرتا ہے کہ ايک عورت کي قدرو قيمت اور بلند مقام اِس ميں ہے کہ وہ خود کو مردوں کيلئے زينت و آرائش کرے تاکہ آوارہ لوگ اسے ديکھيں، اُس سے ہر قسم کي لذت حاصل کريں اور اُس کي تعريف کريں۔ مغرب کي انحطاط شدہ اورمنحرف ثقافت کي جانب سے ’’آزادي نِسواں‘‘ کے عنوان سے جو چيز سامنے آئي ہے اُس کي بنياد اِس چيز پر قائم ہے کہ عورت کو مردوں کي (حيواني اور شہوتي) نگاہوں کا مرکز بنائيں تاکہ وہ اُس سے جنسي لذت حاصل کرسکيں اور عورت ، مردوں کي جنسي خواہشات کي تکميل کيلئے ايک آلہ و و سيلہ بن جائے، کيا اِسي کو ’’آزادي نسواں‘‘ کہا جاتاہے؟

جو لوگ حقيقت سے جاہل اورغافل مغربي معاشرے اور گمراہ تہذيب و تمدن ميں اِ س بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ وہ انساني حقوق کے طرفدار ہيں تو درحقيقت يہ لوگ عورت پر ظلم کرنے والوں کے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں ۔ آپ عورت کو ايک بلند مرتبہ و مقام کے حامل انسان کي حيثيت سے ديکھئے تاکہ معلوم ہو کہ اُس کا کمال ، حق اور اس کي آزادي کيا ہے؟آپ عورت کوعظيم انسانوں کے سائے ميں پرورش پانے والے اور اصلاح معاشرہ کيلئے ايک مفيد عنصر کي حيثيت سے ديکھے تاکہ يہ معلوم ہو کہ اُس کا حق کيا ہے اور وہ کس قسم کي آزادي کي خواہاں ہے ( اور کون سي آزادي اُس کے انساني مقام ومنصب سے ميل کھاتي ہے)۔ آپ عورت کو ايک گھرانے اور خاندان کي تشکيل دينے والے بنيادي عنصر کي حيثيت سے اپني توجہ کا مرکز قرار ديں۔درست ہے کہ ايک مکمل گھرانہ مرد اور عورت دونوں سے تشکيل پاتا ہے اور يہ دونوں موجود خاندان کي بنياديں رکھنے اور اُ س کي بقا ميں موثر ہيں، ليکن ايک گھرانے کي آسائش اور آرام و سکون عورت کي برکت اور صنفِ نازک کے نرم و لطيف مزاج کي وجہ ہي سے قائم رہتا ہے۔اس زاويے سے عورت کو ديکھئے تاکہ يہ مشخص ہو کہ وہ کس طرح کمال حاصل کرسکتي ہے اور اُس کے حقوق کن امور سے وابستہ ہيں۔

جس دن سے اہل يورپ نے جديد ٹيکنالوجي کو حاصل کرنا شروع کيا اور انيسويں صدي کے اوائل ميں مغربي سرمايہ داروں نے جب بڑے بڑے کارخانے لگائے اور جب اُنہيں کم تنخواہ والے سستے مزدوروں کي ضرورت ہوئي تو انہوں نے ’’آزادي نسواں‘‘ کا راگ الاپنا شروع کرديا تاکہ اِس طرح خواتين کو گھروں سے نکال کر کارخانوں کي طرف کھينچ کر لے جائيں، ايک سستے مزدور کي حيثيت سے اُس کي طاقت سے فائدہ اٹھائيں، اپني جيبوں کو پُرکريں اور عورت کو اُس کے بلند مقام و مرتبے سے تنزُّل ديں۔ مغرب ميں آج جو کچھ ’’آزادي نسواں‘‘ کے نام پر بيان کيا جارہا ہے ، اُس کے پيچھے يہي داستان کار فرماہے ،يہي وجہ ہے کہ مغربي ثقافت ميں عورت پر جو ظلم و ستم ہوا ہے اور مغربي تمدن و ادب ميں عورت کے متعلق جو غلط افکار و نظريات رائج ہيں اُن کي تاريخ ميں مثال نہيں ملتي۔

مغربي عورت، مرد کي نفساني خواہشات کي تسکين کا وسيلہ

تاريخ ميں سب جگہ عورت پر ظلم ہوا ہے ليکن بڑے پيمانے پر ہونے والا يہ ظلم مثلاً ماضي قريب ميں ہونے والا ظلم دراصل مغربي تمدن کا نتيجہ ہے۔ اُنہوں نے عورت کو مرد کي شہوت کي تکميل کے ليے ايک وسيلے کي حيثيت سے متعارف کرايا ہے اور اسے آزادي نسواں کا نام ديا ہے! حالانکہ يہ عورت سے جنسي لذت حاصل کرنے والے آوارہ اور ہر قيد و شرط سے آزاد مردوں کي آزادي ہے نہ کہ عورتوں کي۔

مغرب نے نہ صرف اقتصادو صنعت اور اس جيسے ديگر شعبوں ميں بلکہ ہنر وادب ميں بھي عورت کو اپني ہوس اور ظلم وستم کا نشانہ بنايا ہے۔ آپ آج مغرب کي کہانيوں ، ناولوں ، مصوّري و نقاشي اور مختلف قسم کے ہنري کاموںکو ملاحظہ کيجيے تو آپ مشاہدہ کريں کہ يہ لوگ عورت ذات کو کس نگاہ و زاويے سے ديکھتے ہيں؟ کيا اِس نظر و زاويے ميں عورت ميں موجود قيمتي اقدار و صفات (اور استعداد ولياقت) پر توجہ دي جاتي ہے؟ کيا عورت سے متعلق يورپي و مغربي طرز فکر ميں عورت ميں خداوند عالم کي طرف سے وديعت کيے گئے نرم و لطيف جذبات، احساسات اور مہرباني و محبت پر کہ جس ميں ماں کي ممتا و پيار اور بچوں کي حفاظت و تربيت شامل ہے، توجہ دي جاتي ہے يا اُس کے شہوتي اور جنسي پہلو اور خود اُن کي تعبير اور اصطلاح کے مطابق عورت کے عشقي پہلو پر ؟ (اُن کي يہ تعبير سراسر غلط ہے اس ليے کہ يہ شہوت پرستي ہے نہ کہ عشق )۔ انہوں نے عورت کي اس طرح پرورش کي، يعني جب بھي اورکوئي بھي چاہے اُسے استعمال کرے اور اسے ايک ايسا مزدور بنادے جو کم طلب اور ارزاں قيمت ہو۔

اسلام ميں خواتين کي فعاليت و ملازمت

اسلام ان تمام چيزوں کو اہميت نہيں ديتا ہے۔ اسلام خواتين کے کام اور ملازمت کرنے کا موافق ہے بلکہ اُن کي فعاليت و ملازمت کو اُن حد تک کہ اُن کي بنيادي اور سب سے اہم ترين ذمے داري يعني تربيت اولاد اور خاندان کي حفاظت سے متصادم نہ ہو شايد لازم و ضروري بھي جانتا ہے۔ ايک ملک اپني تعمير و ترقي کيلئے مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں خواتين کي قدرت و توانائي سے بے نياز نہيں ہوسکتا! ليکن شرط يہ ہے کہ يہ کام اور فعاليت ، عورت کي معنوي اورانساني کرامت و بزرگي اور قدر و قيمت سے منافات نہيں رکھتے ہوں، مرد اُس کي تذليل و تحقير نہ کرے اور اُسے اپنے سامنے تواضع اور جھکنے پر مجبور نہ کرے۔ تکبر تمام انسانوں کيلئے مذموم اور بدترين صفت ہے سوائے خواتين کے اور وہ بھي نامحرم مردوں کے مقابل ! عورت کو نامحرم مرد کے سامنے متکبر ہونا چاہيے۔ ’’فلا يَخضَعنَ فِي القَولِ ‘‘(۵) ، عورت کو نامحرم مرد کے سامنے نرم و ملائم لہجے ميں بات نہيں کرني چاہيے،اس ليے کہ يہ عورت کي کرامت وبزرگي کي حفاظت کيلئے لازمي ہے۔ اسلام نے عورت کيلئے اِسي کو پسند کيا ہے اور يہ ايک مسلمان عورت کيلئے مثالي نمونہ ہے۔

خواتين کو ہماري دعوت!

يہي وہ جگہ ہے کہ جہاں ہم بالکل درست دنيائے استکبار کے مد مقابل مدّعي ہيں۔ ميں نے مختلف مبلغين اور مقررين کے سامنے بارہا مسئلہ خواتين کو ذکر کيا ہے کہ يہ ہم نہيں ہيں کہ جو (خواتين اور ديگر مسائل کے بارے ميں ) اپنے موقف کا دفاع کريں بلکہ يہ مغرب کي منحرف ثقافت ہے کہ جو اپنا دفاع کرے۔ہم خواتين کے بارے ميں جو کچھ بھي بيان کرتے ہيں در حقيقت وہ چيز ہے کہ جس کا کوئي بھي با انصاف اور عقل مند انسان منکر نہيں ہوسکتا ہے کہ ’’يہ عورت کيلئے بہترين ہے‘‘۔ ہم خواتين کو عفت ، عصمت ، حجاب ، مرد و عورت کے درميان ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد باہمي اختلاط و روابط سے دوري، اپني انساني کرامت و بزرگي کي حفاظت اور نامحرم مرد کے سامنے زينت و آرائش نہ کرنے کي تاکہ وہ عورت سے لذت حاصل نہ کرے، دعوت ديتے ہيں ۔ کيا يہ باتيں بري ہيں؟! يہ ايک مسلمان عورت سميت تمام عورتوں کيلئے کرامت وبزرگي ہے۔

وہ افراد جو خواتين کو اس بات کي ترغيب ديتے اور اُن کي ہمتيں بندھاتے ہيں کہ وہ اپني اِس طرح زينت و آرائش کريں کہ کوچہ و بازار کے مرد اُن پر نگاہ ڈاليں اور اپني جنسي خواہشات کي سيرابي کيلئے (حرام راستے سے) اقدامات کريں ،تو ہم يہ کہتے ہيں کہ ان خواتين کو چاہيے کہ اپنا دفاع کريں کہ مرد، عورت کو اس حد تک پست کيوں کرے اور اُس کي اتني تحقير وتذليل کرے؟ ايسے لوگوں کو جواب دينا چاہيے۔ ہماري اسلامي ثقافت ، ايسي ثقافت ہے کہ جسے مغرب کے عقل مند افراد اور مفکرين پسند کرتے ہيں اور اُن کا کردار ايسا ہي ہے۔ اُس مغربي ثقافت ميں صاحب عفت، متين اور سنجيدہ خواتين بھي ہيں کہ جو اپنے ليے قدر وقيمت کي قائل ہيں اور اِس بات کيلئے قطعاً حاضر نہيں ہيں کہ خود کو اجنبي، آوارہ اور ہر قيد و شرط سے آزاد مردوں کي جنسي خواہشات کي تسکين کا وسيلہ قرار ديں۔ مغرب کي منحرف شدہ ثقافت ميں اس جيسي مثاليں فراوان ہيں۔(۶)

____________________

١ سورئہ تحريم / ١١

٢سورئہ تحريم / ١٠

۳اگست ، اکتوبر اور نومبر ١٩٨٦ئ ميں نماز جمعہ کے خطبات

۴ خواتين کي ثقافتي کميٹي کے اراکين، مختلف ليڈي ڈاکٹروں اور پہلي اسلامي حجاب کانفرنس کے عہديداروں سے ١٩٩١ئ ميں خطاب

۵ سورئہ احزاب / ٣٣

۶ ١٩٩٢ئ ميں خواتين کے ايک گروہ سے ملاقات

دوسرا باب:

خواتين کے مسائل اور حقوق کے بارے ميں اسلام کي عادلانہ نظر

دريچہ

اسلام،خواتين کيلئے ايک عظيم و بلند مقام و مرتبے کا قائل ہے اور انہيں مشخص شدہ حقوق اور عملي زندگي خصوصاً خاندان کے قيام ودوام ميں بنيادي کردار عطا کرتا ہے اور اِسي طرح اُن کے اور مردوں کے درميان فطري اورمنطقي حدود کو معين کرتاہے۔

خواتين کيلئے اسلام کي سب سے بڑي خدمت، معاشرے کے اِس اہم طبقے اور اُن کے حقوق کي نسبت عمومي نظر وزاويے کي اصلاح اور خواتين کو ايک جامع خانداني نظام اورمعاشرتي زندگي ميں ايک اہم کردار دلانا ہے۔ اس سلسلے ميں خانداني نظام زندگي ميں اُن کے حقوق اور مقام و مرتبے کو استحکام بخشنا،فضول خرچي، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، تجمّل پرستي، زينت و آرائش کو ظاہر نہ کرنا اور جنسي و مادي امور ميں سرگرمي کو ممنوع قرار دينا اور خواتين کے رُشد و معنوي ترقي اوربلند وبالا انساني مقامات تک رسائي کے امکانات فراہم کرنا، اسلام کي ہدايت اور منصوبہ بندي ميں شامل ہيں۔

پہلي فصل

عورت، عالم ہستي کا اہم ترين عنصر

عورت ، عالمِ خلقت کے اہم ترين امور کي ذمہ دار

ميري بہنو! خواتين کا موضوع اورمعاشرے کا اُس سے برتاو اور رويہ ايسا مسئلہ ہے جو ہميشہ سے مختلف معاشروں اورمختلف تہذيب وتمدن ميں زير گفتگو رہا ہے۔ اس دنيا کي نصف آبادي ہميشہ خواتين پر مشتمل رہي ہے۔ دنيا ميں زندگي کا قيام جس تناسب سے مردوں سے وابستہ ہے،اُسي طرح خواتين سے بھي مربوط ہے۔خواتين نے عالم خلقت کے بڑے بڑے کاموں کو فطري طور پر اپنے ذمے ليا ہوا ہے اور تخليق کے بنيادي کام مثلاًبچے کي پيدائش اورتربيت اولاد ، خواتين کے ہاتھوں ميں ہيں۔ پس خواتين کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے اور مختلف معاشروں ميں مختلف مفکرين اورمختلف اقوام وملل کے اخلاق وعادات ميں ہميشہ سے موضوع بحث رہا ہے۔ اسلام نے اِن اہم موضوعات ميں سے ايک اہم موضوع کو منتخب کرکے اُسے افراط و تفريط سے بچاتے ہوئے دنيا کے تمام لوگوں کو خبردارکيا ہے۔

خواتين مرد کے شانہ بشانہ بلکہ اُن سے بھي آگے?!

اسلام نے اُن مردوں کو جو اپنے قدرت مند جسم يا مالي توانائي کي وجہ سے مردوں اور خواتين کو اپنا نوکر بناتے ، اُن سے خدمت ليتے اور خواتين کو اذيت وآزار اور کبھي کبھي تحقير کا نشانہ بناتے تھے، مکمل طور پر خاموش کرديا ہے اور خواتين کو اُن کے حقيقي اور مناسب مقام تک پہنچايا ہے بلکہ خواتين کو بعض جہات سے مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کيا ہے۔ ’’اِنَّ المُومِنِينَ وَالمُومِنَاتِ وَالمُسلِمِينَ والمُسلِماتِ?‘‘ (قرآن بيان کررہا ہے کہ ) مسلمان مرد اورمسلمان عورت، عابد مرد اور عابدعورت اور نماز شب پڑنے والا مرد اور نماز شب ادا کرنے والي عورت ۔

پس اسلام نے انساني درجات اور روحاني مقامات کو مرد وعورت کے دميان برابر برابر تقسيم کيا ہے۔ (يعني ان مقامات تک رسائي ان دونوں ميں سے کسي ايک سے مخصوص نہيں ہے بلکہ دونوں ميں سے کوئي بھي يہ مقام حاصل کرسکتا ہے)۔ اس زاويے سے مرد وعورت ايک دوسرے کے مساوي اور برابر ہيں۔ جو بھي خدا کيلئے نيک عمل انجام دے گا ’’مِن ذَکَرٍ اَو اُنثيٰ‘‘، خواہ مرد ہو يا عورت، ’’فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ‘‘(۱) ، ہم اُسے حيات طيبہ عطا کريں گے۔

اسلام نے کچھ مقامات پر عورت کو مرد پر ترجيح دي ہے۔ مثلاً جہاں مرد و عورت ،ماں وباپ کي صورت ميں صاحب اولاد ہيں۔ اُن کي يہ اولاد اگرچہ کہ دونوں کي مشترکہ اولاد ہے ليکن اولاد کي اپني ماں کيلئے خدمت و ذمے داري باپ کي بہ نسبت زيادہ اور لازمي ہے۔ اولاد پر ماں کا حق باپ کي بہ نسبت زيادہ ہے اورماں کي نسبت اولاد کا وظيفہ بھي سنگين ہے۔

خاندان ميں عورت کا حق!

اس سلسلے ميں بہت زيادہ روايات نقل کي گئي ہيں۔پيغمبر اکرم ۰ سے کسي نے سوال کيا: ’’من عبر؟‘‘ (ميں کس سے نيکي کروں)۔ آپ ۰ نے جواب ميں فرمايا ’’اُمَّکَ‘‘۔ يعني اپني ماں سے۔ آپ ۰ نے اس کے دوسرے سوال کے جواب ميں بھي يہ فرمايا اوراس کے تيسرے سوال کا يہي جواب ديا ليکن چوتھي مرتبہ جواب ميں فرمايا ’’اَبَاکَ‘‘ (اپنے باپ سے نيکي کرو)۔ پس خاندان کي چار ديواري ميں عورت کا اولاد پر حق بہت سنگين ہے۔ البتہ اِس وجہ سے نہيں ہے کہ خداوند عالم يہ چاہتا ہے کہ ايک طبقے کو اکثريت پر ترجيح دے بلکہ يہ اِس جہت سے ہے کہ خواتين زيادہ زحمتيں برداشت کرتي ہيں۔

يہ بھي عدل الٰہي ہے کہ خواتين کي زحمتيں زيادہ ہيں تو اُن کا حق بھي زيادہ ہے اور خواتين زيادہ مشکلات کا سامنا کرتي ہيں لہٰذا اُن کي قدر و قيمت بھي زيادہ ہے۔ يہ سب عدالتِ الٰہي کي وجہ سے ہے۔ مالي مسائل ميں مثلاً خاندان اور اُس کي سرپرستي کا حق اوراُس کے مقابل خاندان کو چلانے کي ذمہ داري ميں اسلامي روش ايک متوازن متعادل روش ہے۔ اسلامي قانون نے اِس بارے ميں اتني سي بھي اجازت نہيں دي ہے کہ مرد يا عورت پر ذرہ برابر ظلم ہو۔ اسلام نے مرد وعورت دونوں کا حق الگ الگ بيان کياہے اور اُس نے مرد کے پلڑے ميں ايک وزن اور عورت کے پلڑے ميں دوسرا وزن رکھا ہے۔ اگر اِن موارد ميں اہل فکر توجہ کريں تو وہ ان چيزوں کو ملاحظہ کريں گے۔ يہ وہ چيزيں ہيں کہ جنہيں کتابوں ميں بھي لکھا گيا ہے۔ آج ہماري فاضل اور مفکر خواتين الحمدللہ ان تمام مسائل کو دوسروں اور مردوں سے بہتر طور پر جانتي ہيں اوران کي تبليغ بھي کرتي ہيں۔يہ تھا مرد و عورت کے حقوق کا بيان۔

____________________

١ سورئہ نحل / ٩٧

دوسري فصل

جاہلانہ تمدن و ثقافت کے خطرات و نتائج

حقو ق نسواں، موجودہ دنيا کا ايک گھمبير اور حل نشدہ مسئلہ

حقوق نسواں کے بارے ميں جو دنيا کا ابھي تک ايک حل نشدہ مسئلہ ہے، بہت زيادہ گفتگو کي گئي ہے اور کي جاري ہے۔ جب ہم اس دنيا کے انساني نقشے اور مختلف انساني معاشروں پر نظر ڈالتے ہيں ، خواہ وہ ہمارے اپنے ملک کا اسلامي معاشرہ ہو يا ديگر اسلامي ممالک کا يا حتي غير اسلامي معاشرے بھي کہ جن ميں پيشرفتہ اور متمدن معاشرے بھي شامل ہيں، تو ہم ديکھتے ہيں کہ ان تمام معاشروں ميں بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حقوق نسواں کا مسئلہ ابھي تک حل نہيں ہوا ہے۔ يہ سب انساني مسائل کے بارے ميں ہماري کج فکري اور غلط سوچ کي نشاني ہے اور اس با ت کي عکاسي کرتے ہيں کہ ہم ان تمام مسائل ميں تنگ نظري کا شکار ہيں۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے تمام بلندو بانگ دعووں،مخلص اور ہمدرد افراد کي تمام تر جدوجہد اور حقوق نسواں اور خواتين کے مسائل کے بارے ميں وسيع پيمانے پر ہونے والي ثقافتي سرگرميوں اور فعاليت کے باوجود اِن دو جنس (مرد و عورت) اور مسئلہ خواتين کہ اِسي کے ذيل ميں مردوں کے مسائل کو ايک اور طرح سے بيان کيا جاتا ہے، کے بارے ميں ايک سيدھے راستے اور صحيح روش کو ابھي تک ڈھونڈھنے سے قاصر ہے۔

شايد آپ خواتين کے درميان بہت سے ايسي خواتين ہوں کہ جنہوں نے دنيا کي ہنرمند خواتين کے ہنري اور ادبي آثار کو ديکھا يا پڑھا ہو کہ اُن ميں بعض آثار فارسي زبان ميں ترجمہ ہوچکے ہيں اور بعض اپني اصلي زبان ميں موجود ہيں۔ يہ سب اِسي مذکورہ بالا مسئلے کي عکاسي کرتے ہيں کہ خواتين کے مسائل اور اِسي کے ذيل ميں ان دوجنس ، مرد وعورت کے مسئلے اور بالخصوص انسانيت سے متعلق مسائل کو حل کرنے ميں بشر ابھي تک عاجز و ناتوان ہے۔ بہ عبارت ديگر؛ زيادتي ، کج فکري اور فکري بدہضمي اور اِن کے نتيجے ميں ظلم و تعدّي، تجاوز، روحي ناپختگي، خاندان اور گھرانوں سے متعلق مشکلات ؛ ان دو جنس۔ مردو زن۔ کے باہمي تعلقات ميں اختلاط و زيادتي سے مربوط مسائل ابھي تک عالم بشريت کے حل نشدہ مسائل کا حصہ ہيں۔ يعني مادي ميدانوں ميں ترقي، آسماني واديوں اور کہکشاوں ميں پيشقدمي اور سمندروں کي گہرائيوں ميں اتني کشفيات کرنے، نفسياتي پيچيدگيوں اور الجھنوں کي گھتيّوں کو سُلجھانے اور اجتماعي و اقتصادي مسائل ميں اپني تمام تر حيران کن پيشرفت کے باوجود يہ انسان ابھي تک اس ايک مسئلے ميں زمين گير و ناتواں ہے۔ اگر ميں ان تمام ناکاميوں اور انجام نشدہ امور کو فہرست وار بيان کروں تو اِس کيلئے ايک بڑا وقت درکار ہے کہ جس سے آپ بخوبي واقف ہيں۔

دنيا ميں ’’خانداني‘‘ بحران کي اصل وجہ!

خانداني مسائل کہ جو آج دنيا کے بنيادي ترين مسائل ميں شمار کيے جاتے ہيں ، کہاں سے جنم ليتے ہيں ؟ کيا يہ خواتين کے مسائل کا نتيجہ ہيں يا پھر مردو عورت کے باہمي رابطے کے نتيجے ميں پيدا ہوتے ہيں؟ ايک خاندان اور گھرانہ جو دنيا ئے بشريت کا اساسي ترين رکن ہے، آج دنيا ميں اتنے بحران کا شکار کيوں ہے؟ يعني اگر کوئي بقول معروف آج کي متمدّن مغربي دنيا ميں خاندان کي بنيادوں کو مستحکم بنانے کا خواہ ايک مختصر سا ہي منصوبہ کيوں نہ پيش کرے تو اُس کا شاندار استقبال کيا جائے گا، مرد ، خواتين اور بچے سب ہي اُس کا پُرتپاک استقبال کريں گے۔

اگر آپ دنيا ميں ’’خاندان‘‘ کے مسئلے پر تحقيق کريں اور خاندان کے بارے ميں موجود اس بحران کو اپني توجہ اور کاوش کا مرکز قرار ديں تو آپ ملاحظہ کريں گے کہ ِاس بُحران نے اِن دو جنس يعني مرد وعورت کے درميان باہمي رابطے، تعلّقات اور معاشرے سے مربوط حل نشدہ مسائل سے جنم ليا ہے يا بہ تعبير ديگر يہ نگاہ و زاويہ، غلط ہے۔ اب ہم لوگ ہيں اور مقابل ميں مرد حضرات کے خود ساختہ افکار و نظريات ہيں، تو جواب ميں ہم يہي کہيں گے کہ خواتين کے مسئلے کو جس نگاہ و زاويے سے ديکھا جارہا ہے وہ صحيح نہيں ہے اور يہ بھي کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کے مسئلے کو اس زاويے سے ديکھنا بھي غير معقول ہے يا مجموعاً ان دونوں کي کيفيت و حالت کا اِس نگاہ سے جائزہ لينا سراسر غلطي ہے۔

مرد و عورت کي کثير المقدار مشکلات کا علاج

اس مسئلے کي مشکلات ، زيادہ اور مسائل فراوان ہيں ليکن سوال يہ ہے کہ ان سب کا علاج کيسے ممکن ہے؟ اِن سب کا راہ حل يہ ہے کہ ہم خداوند عالم کے بنائے ہوئے راستے پر چليں۔ دراصل مرد وعوت کے مسائل کے حل کيلئے پيغام الٰہي ميں بہت ہي اہم مطالب بيان کئے گئے ہيں لہٰذا ہميں ديکھنا چاہيے کہ پيغام الٰہي اِس بارے ميں کيا کہتا ہے۔ خداوند عالم کے ’’پيغام وحي‘‘ نے اِس مسئلے ميں صرف وعظ و نصيحت کرنے پر ہي اکتفا نہيں کيا ہے بلکہ اس نے راہ حل کيلئے زندہ مثاليں اور عملي نمونے بھي پيش کيے ہيں۔

آپ ملاحظہ کيجئے کہ خداوند عالم جب تاريخ نبوّت سے مومن انسانوں کيلئے مثال بيان کرنا چاہتا ہے تو قرآن ميں يہ مثال بيان کرتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ’’وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا امرَآَتَ فِرعَونَ ‘‘(۱) ۔ (اللہ نے اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال بيان فرمائي ہے)۔ حضرت موسي کے زمانے ميں اہل ِ ايمان کي کثير تعداد موجود تھي کہ جنہوں نے ايمان کے حصول کيلئے بہت جدوجہد اور فداکاري کي ليکن خداوند عالم نے ان سب کے بجائے زن فرعون کي مثال پيش کي ہے۔ آخر اِس کي کيا وجہ ہے؟ کيا خداوند عالم خواتين کي طرفداري کرنا چاہتا ہے يا در پردہ حقيقت کچھ اور ہے؟ حقيقتاً مسئلہ يہ ہے کہ يہ عورت (زن فرعون) خدا کے پسنديدہ اعمال کي بجا آوري کے ذريعے ايسے مقام تک جاپہنچي تھي کہ فقط اُسي کي مثال ہي پيش کي جاسکتي تھي۔ يہ حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام اور حضرت مريم علیھا السلام سے قبل کي بات ہے۔ فرعون کي بيوي ، نہ پيغمبر ہے اور نہ پيغمبر کي اولاد ، نہ کسي نبي کي بيوي ہے اور نا ہي کسي رسول کے خاندان سے اُس کا تعلق ہے۔ ايک عورت کي روحاني و معنوي تربيت اور رُشد اُسے اس مقام تک پہنچاتي ہے !

البتہ اس کے مقابلے ميں يعني برائي ميں بھي اتفاقاً يہي چيز ہے۔ يعني خداوند متعال جب بُرے انسانوں کيلئے مثال بيان کرتاہے تو فرماتا ہے۔ ’’ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ کَفَرُوا امرَآَتَ نُوحٍ وَّ امرَآَتَ لُوطٍ ‘‘(۲) (اللہ نے اہل کفر کيلئے نوح اور لوط کي بيويوں کي مثال پيش کي ہے)۔ يہاں بھي خدا نے دو عورتوں کي مثال پيش کي ہے کہ جو برے انسانوں سے تعلق رکھتي تھيں۔ حضرت نوح اور حضرت لوط کے زمانے ميں کافروں کي ايک بہت بڑي تعداد موجود تھي اور ان کا معاشرہ برے افراد سے پُر تھا ليکن قرآن اُن لوگوں کو بطور ِ مثال پيش کرنے کے بجائے حضرت نوح و حضرت لوط کي زوجات کي مثال بيان کرتا ہے۔

اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال کے پيش کيے جانے کے ذريعے صِنفِ نازک پر يہ خاص عنايت اورايک عورت کے مختلف عظيم پہلووں اور اُس کے مختلف ابعاد پر توجہ کي اصل وجہ کيا ہے؟ شايد يہ سب اِس جہت سے ہو کہ قرآن يہ چاہتا ہے کہ اُس زمانے کے لوگوں کے باطل اور غلط افکار و نظريات کي جانب اشارہ کرے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُس زمانہ جاہليت کے باطل افکار و عقائد آج بھي ہنوز باقي ہيں ، خواہ وہ جزيرۃ العرب کے لوگ ہوں جو اپني بيٹيوں کو زندہ درگور کرديتے تھے يا دنيا کي بڑي شہنشاہت کے زمانے کے لوگ ہوں مثل روم و ايران۔

يورپ کي موجودہ تمدن کي بنياد

يورپ کے موجودہ تمدن کي بنياد، روم کي قديمي تہذيب و ثقافت پر قائم ہے۔ يعني يورپ و مغرب اور اُس کے ذيل ميں امريکي تہذيب و ثقافت پر سرسے پير تک جو چيز مسلط و حاکم ہے،وہ وہي اصول و نکات ہيں کہ جو رومي شہنشاہيت کے زمانے ميں موجود تھے اور وہي اصول و قوانين آج ان ممالک کي ثقافت اور تہذيب و تمدن کا معيار بنے ہوئے ہيں۔ اُس زمانے ميں بھي خواتين کا بہت زيادہ احترام کيا جاتا تھا ، انہيں بہت بلند مقام و مرتبہ دياجاتا تھا اور مختلف قسم کے زيوراور آرائش وزينت سے انہيں مزين کيا جاتا تھا مگر کس ليے؟ صرف اس ليے کہ مرد کي ايک خاکي و پست اور سب سے زيادہ مادي (اور حيواني وشہوتي) خصلت کي سيرابي کا وسيلہ بن سکے! يہ ايک انسان اور صنف نازک کي کتني بڑي تحقير اور توہين ہے !

ايراني شہنشاہيت کے زمانے ميں ايران بھي بالکل ايسا ہي تھا۔ ساساني سلسلہ بادشاہت کے حرم سراوں کے قصے تو آپ نے سنے ہوں گے۔ حرم سرا کا مطلب آپ کو پتہ ہے؟! حرم سرا يعني عورت کي اہانت وتذليل کي جگہ۔ايک مرد چونکہ قدرت کا حامل ہے لہٰذا وہ خود کو يہ حق ديتا ہے کہ وہ ايک ہزار عورتوں کو اپنے حرم سرا ميں رکھے۔ اُس زمانے کے بادشاہ کي رعايا کا ہر فرد بھي اگر قدرت و توانائي رکھتا تو وہ بھي اپني حيثيت و طاقت کے مطابق ايک ہزار، پانچ سو، چارسو يا دو سو عورتوں کو اپنے پاس رکھتا۔ يہ واقعات و حقائق عورت سے متعلق کون سے افکار و نظريات کي عکاسي کرتے ہيں؟!

مغربي عورت کي حالت زار

ہميں مغرب سے ابھي بہت کچھ طلب کرنا ہے کہ جس نے تاريخ کے مختلف ادوار سے ليکر آج تک اِس صنفِ نازک کي اتني تحقير و تذليل کي ہے۔ آپ توجہ کيجئے کہ ابھي ماضي قريب تک يورپ اور مغربي ممالک ميں خواتين کو اپنے مستقل اور جداگانہ مالي حقوق حاصل نہيں تھے۔ ميں نے ايک دفعہ کافي تحقيق کے بعد اس بارے ميں اعداد و شمار آج سے تقريباً چار ، پانچ سال(۳) قبل نماز جمعہ کے کسي خطبے ميں ذکر کيے تھے۔ مثلاً بيسويں صدي کے اوائل تک اُن تمام بلند و بانگ دعووں ، مغرب ميں روز بروز پھيلنے والي بے حيائي اور حد سے گزر جانے والے اور بے مہار جنسي اختلاط و بے راہ روي کے بعد بھي کہ جس کے بعد يہ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ عورت کو اس طرح زيادہ احترام و بلند مقام ديا جاتا ہے، مغربي عورت کو يہ حق حاصل نہيں تھا کہ وہ اپنے ذاتي مال و ثروت سے آزادانہ استفادہ کرے! وہ شوہر کے مقابلے ميں اپنے ذاتي مال و دولت کي بھي مالک نہيں تھي! يعني جو عورت بھي شادي کرتي تھي اُس کي تمام جمع پونجي اور مال ودولت سب اُس کے شوہر کي ملکيت ميں چلا جاتا تھا اور عورت کو اپنا ہي مال خرچ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں تھا، يہاں تک کہ بيسويں صدي کے اوائل ميں خواتين کو نوکري و ملازمت اور ملکيت کا حق ديا گيا۔ اہل مغرب نے اس مسئلے کو بھي جو انساني حقوق کے بنيادي اور ابتدائي ترين مسائل سے تعلق رکھتا ہے ، عورت کي پہنچ سے دور رکھا۔ جبکہ اپني تمام تر توجہ اُن مسائل کي جانب رکھي کہ جو خواتين کے اُن قيمتي اور حقيقتاً قابل قدر مسائل کے مد مقابل ہيں کہ جن کي اسلام ميں بہت تاکيد کي گئي ہے۔ يہ جو حجاب اور پردے کے بارے ميں ہمارے يہاں اتني تاکيد کي گئي ہے، اس کي وجہ بھي يہي ہے(۴) ۔

حقوق نسواں کے بارے ميں استکبار کي غلطي

جاہليت سے مالا مال عالمي استکبار بہت بڑي غلطي ميں ہے کہ جو يہ خيال کرتا ہے کہ ايک عورت کي قدرو قيمت اور بلند مقام اِس ميں ہے کہ وہ خود کو مردوں کيلئے زينت و آرائش کرے تاکہ آوارہ لوگ اسے ديکھيں، اُس سے ہر قسم کي لذت حاصل کريں اور اُس کي تعريف کريں۔ مغرب کي انحطاط شدہ اورمنحرف ثقافت کي جانب سے ’’آزادي نِسواں‘‘ کے عنوان سے جو چيز سامنے آئي ہے اُس کي بنياد اِس چيز پر قائم ہے کہ عورت کو مردوں کي (حيواني اور شہوتي) نگاہوں کا مرکز بنائيں تاکہ وہ اُس سے جنسي لذت حاصل کرسکيں اور عورت ، مردوں کي جنسي خواہشات کي تکميل کيلئے ايک آلہ و و سيلہ بن جائے، کيا اِسي کو ’’آزادي نسواں‘‘ کہا جاتاہے؟

جو لوگ حقيقت سے جاہل اورغافل مغربي معاشرے اور گمراہ تہذيب و تمدن ميں اِ س بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ وہ انساني حقوق کے طرفدار ہيں تو درحقيقت يہ لوگ عورت پر ظلم کرنے والوں کے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں ۔ آپ عورت کو ايک بلند مرتبہ و مقام کے حامل انسان کي حيثيت سے ديکھئے تاکہ معلوم ہو کہ اُس کا کمال ، حق اور اس کي آزادي کيا ہے؟آپ عورت کوعظيم انسانوں کے سائے ميں پرورش پانے والے اور اصلاح معاشرہ کيلئے ايک مفيد عنصر کي حيثيت سے ديکھے تاکہ يہ معلوم ہو کہ اُس کا حق کيا ہے اور وہ کس قسم کي آزادي کي خواہاں ہے ( اور کون سي آزادي اُس کے انساني مقام ومنصب سے ميل کھاتي ہے)۔ آپ عورت کو ايک گھرانے اور خاندان کي تشکيل دينے والے بنيادي عنصر کي حيثيت سے اپني توجہ کا مرکز قرار ديں۔درست ہے کہ ايک مکمل گھرانہ مرد اور عورت دونوں سے تشکيل پاتا ہے اور يہ دونوں موجود خاندان کي بنياديں رکھنے اور اُ س کي بقا ميں موثر ہيں، ليکن ايک گھرانے کي آسائش اور آرام و سکون عورت کي برکت اور صنفِ نازک کے نرم و لطيف مزاج کي وجہ ہي سے قائم رہتا ہے۔اس زاويے سے عورت کو ديکھئے تاکہ يہ مشخص ہو کہ وہ کس طرح کمال حاصل کرسکتي ہے اور اُس کے حقوق کن امور سے وابستہ ہيں۔

جس دن سے اہل يورپ نے جديد ٹيکنالوجي کو حاصل کرنا شروع کيا اور انيسويں صدي کے اوائل ميں مغربي سرمايہ داروں نے جب بڑے بڑے کارخانے لگائے اور جب اُنہيں کم تنخواہ والے سستے مزدوروں کي ضرورت ہوئي تو انہوں نے ’’آزادي نسواں‘‘ کا راگ الاپنا شروع کرديا تاکہ اِس طرح خواتين کو گھروں سے نکال کر کارخانوں کي طرف کھينچ کر لے جائيں، ايک سستے مزدور کي حيثيت سے اُس کي طاقت سے فائدہ اٹھائيں، اپني جيبوں کو پُرکريں اور عورت کو اُس کے بلند مقام و مرتبے سے تنزُّل ديں۔ مغرب ميں آج جو کچھ ’’آزادي نسواں‘‘ کے نام پر بيان کيا جارہا ہے ، اُس کے پيچھے يہي داستان کار فرماہے ،يہي وجہ ہے کہ مغربي ثقافت ميں عورت پر جو ظلم و ستم ہوا ہے اور مغربي تمدن و ادب ميں عورت کے متعلق جو غلط افکار و نظريات رائج ہيں اُن کي تاريخ ميں مثال نہيں ملتي۔

مغربي عورت، مرد کي نفساني خواہشات کي تسکين کا وسيلہ

تاريخ ميں سب جگہ عورت پر ظلم ہوا ہے ليکن بڑے پيمانے پر ہونے والا يہ ظلم مثلاً ماضي قريب ميں ہونے والا ظلم دراصل مغربي تمدن کا نتيجہ ہے۔ اُنہوں نے عورت کو مرد کي شہوت کي تکميل کے ليے ايک وسيلے کي حيثيت سے متعارف کرايا ہے اور اسے آزادي نسواں کا نام ديا ہے! حالانکہ يہ عورت سے جنسي لذت حاصل کرنے والے آوارہ اور ہر قيد و شرط سے آزاد مردوں کي آزادي ہے نہ کہ عورتوں کي۔

مغرب نے نہ صرف اقتصادو صنعت اور اس جيسے ديگر شعبوں ميں بلکہ ہنر وادب ميں بھي عورت کو اپني ہوس اور ظلم وستم کا نشانہ بنايا ہے۔ آپ آج مغرب کي کہانيوں ، ناولوں ، مصوّري و نقاشي اور مختلف قسم کے ہنري کاموںکو ملاحظہ کيجيے تو آپ مشاہدہ کريں کہ يہ لوگ عورت ذات کو کس نگاہ و زاويے سے ديکھتے ہيں؟ کيا اِس نظر و زاويے ميں عورت ميں موجود قيمتي اقدار و صفات (اور استعداد ولياقت) پر توجہ دي جاتي ہے؟ کيا عورت سے متعلق يورپي و مغربي طرز فکر ميں عورت ميں خداوند عالم کي طرف سے وديعت کيے گئے نرم و لطيف جذبات، احساسات اور مہرباني و محبت پر کہ جس ميں ماں کي ممتا و پيار اور بچوں کي حفاظت و تربيت شامل ہے، توجہ دي جاتي ہے يا اُس کے شہوتي اور جنسي پہلو اور خود اُن کي تعبير اور اصطلاح کے مطابق عورت کے عشقي پہلو پر ؟ (اُن کي يہ تعبير سراسر غلط ہے اس ليے کہ يہ شہوت پرستي ہے نہ کہ عشق )۔ انہوں نے عورت کي اس طرح پرورش کي، يعني جب بھي اورکوئي بھي چاہے اُسے استعمال کرے اور اسے ايک ايسا مزدور بنادے جو کم طلب اور ارزاں قيمت ہو۔

اسلام ميں خواتين کي فعاليت و ملازمت

اسلام ان تمام چيزوں کو اہميت نہيں ديتا ہے۔ اسلام خواتين کے کام اور ملازمت کرنے کا موافق ہے بلکہ اُن کي فعاليت و ملازمت کو اُن حد تک کہ اُن کي بنيادي اور سب سے اہم ترين ذمے داري يعني تربيت اولاد اور خاندان کي حفاظت سے متصادم نہ ہو شايد لازم و ضروري بھي جانتا ہے۔ ايک ملک اپني تعمير و ترقي کيلئے مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں خواتين کي قدرت و توانائي سے بے نياز نہيں ہوسکتا! ليکن شرط يہ ہے کہ يہ کام اور فعاليت ، عورت کي معنوي اورانساني کرامت و بزرگي اور قدر و قيمت سے منافات نہيں رکھتے ہوں، مرد اُس کي تذليل و تحقير نہ کرے اور اُسے اپنے سامنے تواضع اور جھکنے پر مجبور نہ کرے۔ تکبر تمام انسانوں کيلئے مذموم اور بدترين صفت ہے سوائے خواتين کے اور وہ بھي نامحرم مردوں کے مقابل ! عورت کو نامحرم مرد کے سامنے متکبر ہونا چاہيے۔ ’’فلا يَخضَعنَ فِي القَولِ ‘‘(۵) ، عورت کو نامحرم مرد کے سامنے نرم و ملائم لہجے ميں بات نہيں کرني چاہيے،اس ليے کہ يہ عورت کي کرامت وبزرگي کي حفاظت کيلئے لازمي ہے۔ اسلام نے عورت کيلئے اِسي کو پسند کيا ہے اور يہ ايک مسلمان عورت کيلئے مثالي نمونہ ہے۔

خواتين کو ہماري دعوت!

يہي وہ جگہ ہے کہ جہاں ہم بالکل درست دنيائے استکبار کے مد مقابل مدّعي ہيں۔ ميں نے مختلف مبلغين اور مقررين کے سامنے بارہا مسئلہ خواتين کو ذکر کيا ہے کہ يہ ہم نہيں ہيں کہ جو (خواتين اور ديگر مسائل کے بارے ميں ) اپنے موقف کا دفاع کريں بلکہ يہ مغرب کي منحرف ثقافت ہے کہ جو اپنا دفاع کرے۔ہم خواتين کے بارے ميں جو کچھ بھي بيان کرتے ہيں در حقيقت وہ چيز ہے کہ جس کا کوئي بھي با انصاف اور عقل مند انسان منکر نہيں ہوسکتا ہے کہ ’’يہ عورت کيلئے بہترين ہے‘‘۔ ہم خواتين کو عفت ، عصمت ، حجاب ، مرد و عورت کے درميان ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد باہمي اختلاط و روابط سے دوري، اپني انساني کرامت و بزرگي کي حفاظت اور نامحرم مرد کے سامنے زينت و آرائش نہ کرنے کي تاکہ وہ عورت سے لذت حاصل نہ کرے، دعوت ديتے ہيں ۔ کيا يہ باتيں بري ہيں؟! يہ ايک مسلمان عورت سميت تمام عورتوں کيلئے کرامت وبزرگي ہے۔

وہ افراد جو خواتين کو اس بات کي ترغيب ديتے اور اُن کي ہمتيں بندھاتے ہيں کہ وہ اپني اِس طرح زينت و آرائش کريں کہ کوچہ و بازار کے مرد اُن پر نگاہ ڈاليں اور اپني جنسي خواہشات کي سيرابي کيلئے (حرام راستے سے) اقدامات کريں ،تو ہم يہ کہتے ہيں کہ ان خواتين کو چاہيے کہ اپنا دفاع کريں کہ مرد، عورت کو اس حد تک پست کيوں کرے اور اُس کي اتني تحقير وتذليل کرے؟ ايسے لوگوں کو جواب دينا چاہيے۔ ہماري اسلامي ثقافت ، ايسي ثقافت ہے کہ جسے مغرب کے عقل مند افراد اور مفکرين پسند کرتے ہيں اور اُن کا کردار ايسا ہي ہے۔ اُس مغربي ثقافت ميں صاحب عفت، متين اور سنجيدہ خواتين بھي ہيں کہ جو اپنے ليے قدر وقيمت کي قائل ہيں اور اِس بات کيلئے قطعاً حاضر نہيں ہيں کہ خود کو اجنبي، آوارہ اور ہر قيد و شرط سے آزاد مردوں کي جنسي خواہشات کي تسکين کا وسيلہ قرار ديں۔ مغرب کي منحرف شدہ ثقافت ميں اس جيسي مثاليں فراوان ہيں۔(۶)

____________________

١ سورئہ تحريم / ١١

٢سورئہ تحريم / ١٠

۳اگست ، اکتوبر اور نومبر ١٩٨٦ئ ميں نماز جمعہ کے خطبات

۴ خواتين کي ثقافتي کميٹي کے اراکين، مختلف ليڈي ڈاکٹروں اور پہلي اسلامي حجاب کانفرنس کے عہديداروں سے ١٩٩١ئ ميں خطاب

۵ سورئہ احزاب / ٣٣

۶ ١٩٩٢ئ ميں خواتين کے ايک گروہ سے ملاقات

دوسرا باب:

خواتين کے مسائل اور حقوق کے بارے ميں اسلام کي عادلانہ نظر

دريچہ

اسلام،خواتين کيلئے ايک عظيم و بلند مقام و مرتبے کا قائل ہے اور انہيں مشخص شدہ حقوق اور عملي زندگي خصوصاً خاندان کے قيام ودوام ميں بنيادي کردار عطا کرتا ہے اور اِسي طرح اُن کے اور مردوں کے درميان فطري اورمنطقي حدود کو معين کرتاہے۔

خواتين کيلئے اسلام کي سب سے بڑي خدمت، معاشرے کے اِس اہم طبقے اور اُن کے حقوق کي نسبت عمومي نظر وزاويے کي اصلاح اور خواتين کو ايک جامع خانداني نظام اورمعاشرتي زندگي ميں ايک اہم کردار دلانا ہے۔ اس سلسلے ميں خانداني نظام زندگي ميں اُن کے حقوق اور مقام و مرتبے کو استحکام بخشنا،فضول خرچي، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، تجمّل پرستي، زينت و آرائش کو ظاہر نہ کرنا اور جنسي و مادي امور ميں سرگرمي کو ممنوع قرار دينا اور خواتين کے رُشد و معنوي ترقي اوربلند وبالا انساني مقامات تک رسائي کے امکانات فراہم کرنا، اسلام کي ہدايت اور منصوبہ بندي ميں شامل ہيں۔

پہلي فصل

عورت، عالم ہستي کا اہم ترين عنصر

عورت ، عالمِ خلقت کے اہم ترين امور کي ذمہ دار

ميري بہنو! خواتين کا موضوع اورمعاشرے کا اُس سے برتاو اور رويہ ايسا مسئلہ ہے جو ہميشہ سے مختلف معاشروں اورمختلف تہذيب وتمدن ميں زير گفتگو رہا ہے۔ اس دنيا کي نصف آبادي ہميشہ خواتين پر مشتمل رہي ہے۔ دنيا ميں زندگي کا قيام جس تناسب سے مردوں سے وابستہ ہے،اُسي طرح خواتين سے بھي مربوط ہے۔خواتين نے عالم خلقت کے بڑے بڑے کاموں کو فطري طور پر اپنے ذمے ليا ہوا ہے اور تخليق کے بنيادي کام مثلاًبچے کي پيدائش اورتربيت اولاد ، خواتين کے ہاتھوں ميں ہيں۔ پس خواتين کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے اور مختلف معاشروں ميں مختلف مفکرين اورمختلف اقوام وملل کے اخلاق وعادات ميں ہميشہ سے موضوع بحث رہا ہے۔ اسلام نے اِن اہم موضوعات ميں سے ايک اہم موضوع کو منتخب کرکے اُسے افراط و تفريط سے بچاتے ہوئے دنيا کے تمام لوگوں کو خبردارکيا ہے۔

خواتين مرد کے شانہ بشانہ بلکہ اُن سے بھي آگے?!

اسلام نے اُن مردوں کو جو اپنے قدرت مند جسم يا مالي توانائي کي وجہ سے مردوں اور خواتين کو اپنا نوکر بناتے ، اُن سے خدمت ليتے اور خواتين کو اذيت وآزار اور کبھي کبھي تحقير کا نشانہ بناتے تھے، مکمل طور پر خاموش کرديا ہے اور خواتين کو اُن کے حقيقي اور مناسب مقام تک پہنچايا ہے بلکہ خواتين کو بعض جہات سے مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کيا ہے۔ ’’اِنَّ المُومِنِينَ وَالمُومِنَاتِ وَالمُسلِمِينَ والمُسلِماتِ?‘‘ (قرآن بيان کررہا ہے کہ ) مسلمان مرد اورمسلمان عورت، عابد مرد اور عابدعورت اور نماز شب پڑنے والا مرد اور نماز شب ادا کرنے والي عورت ۔

پس اسلام نے انساني درجات اور روحاني مقامات کو مرد وعورت کے دميان برابر برابر تقسيم کيا ہے۔ (يعني ان مقامات تک رسائي ان دونوں ميں سے کسي ايک سے مخصوص نہيں ہے بلکہ دونوں ميں سے کوئي بھي يہ مقام حاصل کرسکتا ہے)۔ اس زاويے سے مرد وعورت ايک دوسرے کے مساوي اور برابر ہيں۔ جو بھي خدا کيلئے نيک عمل انجام دے گا ’’مِن ذَکَرٍ اَو اُنثيٰ‘‘، خواہ مرد ہو يا عورت، ’’فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ‘‘(۱) ، ہم اُسے حيات طيبہ عطا کريں گے۔

اسلام نے کچھ مقامات پر عورت کو مرد پر ترجيح دي ہے۔ مثلاً جہاں مرد و عورت ،ماں وباپ کي صورت ميں صاحب اولاد ہيں۔ اُن کي يہ اولاد اگرچہ کہ دونوں کي مشترکہ اولاد ہے ليکن اولاد کي اپني ماں کيلئے خدمت و ذمے داري باپ کي بہ نسبت زيادہ اور لازمي ہے۔ اولاد پر ماں کا حق باپ کي بہ نسبت زيادہ ہے اورماں کي نسبت اولاد کا وظيفہ بھي سنگين ہے۔

خاندان ميں عورت کا حق!

اس سلسلے ميں بہت زيادہ روايات نقل کي گئي ہيں۔پيغمبر اکرم ۰ سے کسي نے سوال کيا: ’’من عبر؟‘‘ (ميں کس سے نيکي کروں)۔ آپ ۰ نے جواب ميں فرمايا ’’اُمَّکَ‘‘۔ يعني اپني ماں سے۔ آپ ۰ نے اس کے دوسرے سوال کے جواب ميں بھي يہ فرمايا اوراس کے تيسرے سوال کا يہي جواب ديا ليکن چوتھي مرتبہ جواب ميں فرمايا ’’اَبَاکَ‘‘ (اپنے باپ سے نيکي کرو)۔ پس خاندان کي چار ديواري ميں عورت کا اولاد پر حق بہت سنگين ہے۔ البتہ اِس وجہ سے نہيں ہے کہ خداوند عالم يہ چاہتا ہے کہ ايک طبقے کو اکثريت پر ترجيح دے بلکہ يہ اِس جہت سے ہے کہ خواتين زيادہ زحمتيں برداشت کرتي ہيں۔

يہ بھي عدل الٰہي ہے کہ خواتين کي زحمتيں زيادہ ہيں تو اُن کا حق بھي زيادہ ہے اور خواتين زيادہ مشکلات کا سامنا کرتي ہيں لہٰذا اُن کي قدر و قيمت بھي زيادہ ہے۔ يہ سب عدالتِ الٰہي کي وجہ سے ہے۔ مالي مسائل ميں مثلاً خاندان اور اُس کي سرپرستي کا حق اوراُس کے مقابل خاندان کو چلانے کي ذمہ داري ميں اسلامي روش ايک متوازن متعادل روش ہے۔ اسلامي قانون نے اِس بارے ميں اتني سي بھي اجازت نہيں دي ہے کہ مرد يا عورت پر ذرہ برابر ظلم ہو۔ اسلام نے مرد وعورت دونوں کا حق الگ الگ بيان کياہے اور اُس نے مرد کے پلڑے ميں ايک وزن اور عورت کے پلڑے ميں دوسرا وزن رکھا ہے۔ اگر اِن موارد ميں اہل فکر توجہ کريں تو وہ ان چيزوں کو ملاحظہ کريں گے۔ يہ وہ چيزيں ہيں کہ جنہيں کتابوں ميں بھي لکھا گيا ہے۔ آج ہماري فاضل اور مفکر خواتين الحمدللہ ان تمام مسائل کو دوسروں اور مردوں سے بہتر طور پر جانتي ہيں اوران کي تبليغ بھي کرتي ہيں۔يہ تھا مرد و عورت کے حقوق کا بيان۔

____________________

١ سورئہ نحل / ٩٧