وصال امام زمان (عج)

 وصال امام زمان (عج)0%

 وصال امام زمان (عج) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11168 / ڈاؤنلوڈ: 3143
سائز سائز سائز
 وصال امام زمان (عج)

وصال امام زمان (عج)

مؤلف:
اردو

آغاز امامت

گیارہویں امام اٹھائیس سال کی عمر میں ظالم اور ستمگر عباسی خلیفہ معتمد کے زہر ہلاہل سے درجہ شہادت پہ فا ئز ہوئے ۔اُسوقت امام مھدی (عج)پانچ سال کے تھے۔(۱)

کم سنی میں حضرت مھدی (عج)کی امامت کا آغاز ،اعجاز الٰھٰی اور قدرت خداکا ایک روشن نمونہ ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اورتاریخ میں اس کی روشن مثالیں موجود ہیں جو سب کے لیے قابل قبول بھی ہیں ۔ جیسا کے قرانِ کریم حضرت یحییٰ (ع)کے بارے میں فرماتا ہے( وَاتَیْنَا هُ الْحُکْمَ صَبِیَّا ) ( ہم نے بچپنے میں انہیں نبوت اور حاکمیت عطا کی۔(۲) اور حضرت عیسیٰ ـکے بارے میں آپکے گہوارہ میں تکلم کو نقل کرتا ہے :( قَالَ اِنّی عَبْدُاللّٰهِ اٰتَانِیَ الْکِتَا بَ وَ جَعَلَنِی نَبِیّا ) کہا میں خدا کا بندہ ہوں اور اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے پیغمبر بنایاہے۔(۳)

غیبت صغریٰ

وہ دلیلیں جواِس بات کا سبب بنیں کہ امام زمانہ ـ کی ولادت دشمنوں اور مخالفوں سے مخفی رہے ، وہی آپکی غیبت کا بھی سبب بنیں ۔امام زمانہ (عج)کو روایات میں حضرتِ موسیٰ ـسے تشبیہ دی گئی ہے(۴) جسطرح سے فرعون انھیں ختم کرنے کے لیے اس زمانہ کی تمام حاملہ عورتوں کواور شیرخوار بچوں کو قتل کررہا تھا اور سارے نو مولودلڑکوں کو ذبح کردیتا تھا اسی طرح عباسی حکمراں اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اور آخری وصی کے پیدا نہ ہونے کے لیے( کہ جو سارے ستمگروں اور خطاکاروں کو صفحہ ہستی سے نابود کردیت( ہر قسم کا قدم اُٹھانے کے لئے تیّار تھے۔

حضرت ِمھدی نے ٢٦٠ھ میں اپنے کمرے سے باہر آکر اپنے چچا (جعفر کذّاب ( کو ہٹا کر اپنے والد ماجد کی نماز جنازہ پڑھائی(۵) اور اس طرح اپنی امامت کا اعلان کیا اِس عمل سے حکومت عباسی سرگرم ہوگئی اور آپکو شہید کرنے کے لیے کمر بستہ ہوگئی۔ خداوند عالم نے اپنی قدرت مطلقہ کے ذریعے آغازِامامت سے اپنی آخری حجت کو غیبت کے پردوں میں چھپادیاتاکہ اسے قتل ہونے سے بچالے( وَ یُریدُنَ لِیُطْفِئُوا نُورَاللّهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّهُ مُتِمَّ نُو رِهِ وَ لَوْ کَرِهَ الْکا فِرُوْنَ ) وہ چاہتے ہیں نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک کر خاموش کردیں حالانکہ خداوندعالم اپنے نور کو کامل کریگا اگرچہ کافروں کو یہ بات ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔(۶)

سرداب کی داستاں

سامرّا میں امام علی نقی (ع)اور امام حسنِ عسکری ـ کی مقدس بارگاہ کے جوار میں ایک تہہ خانہ ہے جو سرداب مقدس کے نام سے مشہورہے اس سرداب مقدس کو تین امامِ ہادی امامِ حسن عسکری اور امامِ زمانہ کے نماز پڑھنے کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے ۔لیکن افسوس، بعض مصنفین اور اہل سنّت کے مورخین نے امامِ زمانہ (عج)کی وہاں سے غیبت کی جھوٹی داستان کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور شیعوں پر الزام لگایا کہ انکا یہ عقیدہ ہے کہ امامِ زمانہ سرداب سے ظہور کریں گے اسطرح وہ سب شیعوں کا مذاق اڑاتے ہیں اوراُن پر اعتراض کرتے ہیں(۷)

اس بے احترامی کے جواب میں شیعہ علماء نے بھی استدلال اور تحقیق کے ساتھ اس بات کا انکار کیا ہے ہم یہاں پر صرف علاّمہ امینی کے جواب پر اکتفا کریں گے آپاپنی کتاب '' الغدیر'' میں فرماتے ہیں : ''اور سرداب کی تہمت ایک قبیح تہمت ہے '' شیعہ اصلاً اس بات کے معتقد نہیں ہیں کہ امام زمانہ نے سرداب میں غیبت اختیار کی اور نہ ہی شیعوں نے امام (عج)کو غیبت میں بھیجا ہے اور نہ ہی وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام معصوم سرداب سے ظہور کریں گے بلکہ روایات کی بنا پرسے شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت مکّہ معظمہ میں کعبہ سے ظہور فرمائیں گے اس سلسلے میں کوئی بھی شیعہ سرداب سے ظہور کا قائل نہیں ہے کاش کہ سرداب کے قصّہ کو گڑھنے والے سبھی لوگ اس فاحش جھوٹ سے متعلق ایک نظریہ پر متحد ہوجاتے تا کہ جھوٹ پکڑے جانے پر انکی رسوائی نہ ہوتی اور ایسا نہ ہوتا کہ ان میں سے ایک سرداب کو حلّہ میں بتائے دوسرا بغداد میں کوئی اور سامرّا میں حتی ان میں سے کوئی لا علمی کا اظہار کرے۔(۸)

نوّا ب خاص

غیبت صغریٰ کی کل مدّت ٦٩سال ہے جو ٣٢٩ھجری تک جاری رہی(۹) حضرت مہدی (عج) اگرچہ تمام دشمنوں کی نظروں سے مخفی تھے، لیکن آپکے اصحاب میں چار افراد ایسے تھے جو ہمیشہ آپ سے رابطہ رکھتے تھے اورلوگوں کے سوالات اور انکی مشکلات کے جواب امام زمانہ سے دریافت کرنے کے بعد لوگوں تک پہنچاتے تھے۔

١(جناب عثمان بن سعید عمری:آپ گیارہ سال کی عمر سے امام علی نقی ـ کی خدمت میں تھے بعد میں آپ نے لوگوں پر ظاہر کرنے کے لیے روغن فروشی کا شغل اختیار کیا اور اس طرح حکومت متوکل کے اس گھٹن والے دور میں حاکم کے جاسوسوں کی نگاہوں سے بچ کر شیعوں تک معارف الھی پہنچانے کی ذمّہ داری لے لی آپ پہلے ہی سے دو اماموں کے وکیل اور نائب تھے اور امام مھدی (عج)کے بھی نائب اوّل منتخب ہوئے ۔ ٣٠٠ھ میں آپکا انتقال ہوا اور آپ بغداد میں دفن ہوئے۔(۱۰)

٢(جناب محمد بن عثمان عمری:والد کے انتقال کے بعد آپکو امام زمانہ کی نیابت کا شرف حاصل ہوا آپ نے فقہ وحدیث میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں ۔ بارہا امام زمانہ نے آپ کی تائید فرمائی ہے ۔حضرت مھدی (عج) آپکے بارے میں فرماتے ہیں (انَّهُ ثِقَتی وَ کِتَا بُهُ کِتا بی ((۱۱) وہ ہماری طرف سے مورد اطمینان ہے اور انکے مکتوبات میرے مکتوبات ہیں ۔ اواخر جمادی الاول ٣٠٥ھ میں آپ نے اس دارِفانی سے رحلت فرمائی۔

٣( جناب حسین ابن روح نو بختی: جناب محمد بن عثمان نے اپنے انتقال سے چند دن قبل امام زمانہ (عج) کے حکم سے آپکو سفیر اور نائب بنایا اہل علم حضرات کے درمیان آپ صاحب مقام منزلت پر فائز تھے آپ فضیلت و تقوا میں مشہور تھے آپ کے مناظرات آپکے کثرتِ علم پر دلالت کرتے ہیں آپکا ارادہ اسقدر مستحکم اور مصمم ہوتا کہ آپکے ہم عصر علماء کا کہنا تھاکہ اگر دشمن انکے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیں تب بھی وہ انھیں امام زمانہ کا پتہ نہیں بتائیں گے۔(۱۲) آپ اکّیس سال تک نیابت کے عظیم عہدہ پر فائز رہے اور ٣٢٦ھ میں آپ نے رحلت فرما ئی آپکی قبر مطہر بغداد میں ہے۔(۱۳)

٤( جناب علی ابن محمد سیمری: آپکی عظمت اور مقام کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس زمانے کے عظیم عالم دین جناب محمد بن یعقوب کلینی اپنے علم ، تقوا اور اصول کافی جیسی بے نظیر کتاب کے باوجود اس مقام تک نہ پہنچ سکے اور یہ افتخار صرف آپکو حاصل ہوا کہ آپکی وفات سے چھ دن پہلے امام زمانہ (عج) نے ایک خط میں آپکے انتقال کی پیشین گوئی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو غیبت کبریٰ کے آغاز کی اطّلاع دی تھی(۱۴) پندرہ شعبان ٣٢٩ھ میں آپ نے وفات پائی۔(۱۵)

غیبت کبریٰ

٦٩سالہ غیبت صغریٰ آنحضرت کی غیبت کبریٰ کے لیے ایک مقدمہ تھی ۔ ایک چھوٹی مدّت کی غیبت اس لیے تھی تا کہ لوگ طولانی غیبت کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ غیبت کبریٰ کواب تک گیارہ صدیاں گذر چکی ہیں اس غیبت اور غیبت صغریٰ کے درمیان کئی اعتبار سے فرق ہے:

١( اِسکا زمانہ اُسکے زمانے سے کافی طولانی ہے ۔

٢( کوئی بھی فقیہہ اما م (عج) کا نائب خاص نہیں ہے۔

٣( فقیہہ جامع الشرائط جنکی خصوصیات کوامام صادق، امام عسکری اور امام زمانہ نے اپنی احادیث میں بیان فرمایا ہے(۱۶) زمانہ ٔ غیبت میں امام زمانہ (عج) کے نائب عام اور والی حکومت اسلامی کے عہدہ دار ہیں ۔ انہی کے کاندھوں پراسلام اور مسلمین کی طرف سے دفاع کرنے، الہٰی حدود واحکام کو جاری کرنے اور مسلمانوں کے تمام معاشرتی اور اقتصادی امور کی عالمی رہبری کی ذمّہ داری ہے ۔

٤( اِس غیبت کا اختتام تب ہوگا جب لوگوں کے اندرایک عالمی حکومت کی تشکیل کے لیئے زمینہ فراہم کرنے کی آمادگی پیدا ہوجائے گی۔

٥( غیبت کبریٰ کی مدّت کو خدا وندعالم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور کسی بھی حدیث میں اس کی مدّت کو بیان نہیں کیا گیا ہے اس طرح روایت کے مطابق ظہورکے وقت کو معین کرنے والا شخص جھوٹا ہے۔(۱۷)

غیبت کی بعض حکمتیں

امام امانہ (عج) کی غیبت خدا وند کریم کے حکیمانہ ار ادہ پر منحصر ہے اور نظام ہستی کے اسرار میں سے ہے(۱۸) لیکن اسکے ساتھ ساتھ بعض احادیث میں حکمت ِغیبت کا ذکر ہواہے جنہیں ہم یہاں ذکر کررہے ہیں ۔

١( سنّت الھی: امام صادق (ع) فرماتے ہیں '' وہ سنّتیں جو پیغمبروں کی غیبت کے لیئے وارد ہوئی ہیں وہ تمام کی تمام ہمارے قائم اہل بیت کے لیے وجود میں آئینگی''(۱۹)

٢( امام (عج)کی جان کا تحفظ : امام صادق (ع) ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں '' اُنہیں اپنے قتل ہونے کاخوف ہے ''۔(۲۰)

٣( لوگوں کی آزمائش:پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : '' مہدی (عج)کی غیبت کے زمانے میں صرف ان افراد کا اعتقاد ثابت اور مستحکم ہوگا جنکے دلوں کا امتحان خداوندِعالم نے لیا ہو۔(۲۱)

٤( لوگوں کے گناہ اور اُنکا تیارنہ ہونا : ''امام زمانہ (عج) نے خود کو اس سورج سے تشبیہ دیتے دی ہے جسے بادلوں نے گھیر رکّھا ہو ''(۲۲) جب وجود امام زمان کی خاصیّت سورج کی طرح روشنی پہنچانا اور فیض عطا کرنا ہے تو وہ بادل جس نے اُس خورشید کو گھیر رکّھا ہے لوگوں کے گناہ اور ناقدری کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

خصوصیات غیبت

معصومین کی احادیث میں اس سلسلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ امام زمانہ کی غیبت کیسی ہے اور اس کی کیا خصوصیتیں ہیں ملاحظہ ہوں !

١( آپ کی مثال اس سورج کی ہے جسے بادلوں نے ڈھانپ رکّھا ہو''کماَ يَنتَفِعُونَ باِلشَّمسِ اِذٰا سَترَهاٰ سحاَبُ'' (۲۳)

٢( لوگ آپ (عج) کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں :''یَجْعَلُ اللّٰهُ بَیْنَهُ وَ بَیْنَ الْخَلْقِ حِجَاباً یَرَوْنهَ ُوَلَا یَعْرِفوُنَهَُ'' (۲۴)

٣( آپ ہر سال مراسم حج میں شریک ہوتے ہیں عرفات میں تشریف لاتے ہیں اور مومنین کی دعا پر آمین کہتے ہیں :''و اِنّهُ لِیَحْضُرَ الموسمَ َ فی کلِّ سَنّةٍ وَ یَقِفُ بعرفَةَ فَیْؤَّ مَنْ علیٰ دُعائِ المُؤمنِ'' (۲۵)

٤( اگر چہ آپ (عج)کا نازنین پیکر لوگوں کی نظروں سے غائب ہے لیکن آپ کی یاد اُنکے دلوں سے نہیں جاتی ہے :''اِن غاٰبَ َعنِ الناّٰسِ شَخصُهُ فی حاٰلِ هُدنَةٍ َلم یَغِب عَنهُم مَثبُوتُ عِلمِه'' ۔(۲۶)

٥( بہت سے چاہنے والوں نے آپ کی زیارت کرنے کی توفیق حاصل کی ہے۔(۲۷)

٦( آپ کی کوئی خاص جگہ نہیں ہے اکثرصحرا اور نامعلوم شہر کے اطراف میں زندگی گذارتے ہیں ۔

٧( آپ ظالموں سے دور تمام لوگوں کی طرح نا معلوم طریقہ سے کسی خاص جگہ میں رہتے ہیں ۔ اور لوگوں ہی کی طرح غذا لباس اور آرام کی ضرورت آپ کو بھی ہوتی ہے ۔

٨( آپ لوگوں کی مجلس میں شرکت کرتے ہیں اُنکے فرش عزا پر قدم رنجہ فرماتے ہیں اُنکے کوچہ وبازار سے گذرتے ہیں ۔

٩( حکمت الہی یہ ہے کہ اگر امام زمانہ کسی جگہ حاضر ہوں تو آپ کا جسم اطہر لوگ نہ دیکھ سکیں ۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں''لاَ یرُیٰ جِسمُهُ (۲۸) اور امام صادق فرماتے ہیں''یَغِیبُ عَنکُم شَخصُهُ'' لیکن کبھی حکمت الہی اس میں ہوتی ہے کہ دیکھا جائے لیکن پہچانا نہ جاسکے ۔محمد بن عثمان عمری فرماتے ہیں :''یرَیٰ الناَّسَ وَیعَرِفهُم وَیرَونهَ ُوَلاَ یَعرِفوُ نَهُ'' ۔(۲۹)

اخلاقی فضیلتیں

چونکہ امام زمانہ تمام عظیم الشان پیغمبروں اور اولیا ء الٰھٰی کے وارث ہیں لہذا آپ (عج) تمام انبیاء واولیاء کے صفات جمال وکمال کا گلدستہ ہیں آپ (عج) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوصاف و کمالات کی تجلّی گاہ ہیں تو امیرالمومنین ـ کی حیرت انگیز خصوصیات کا آئینہ اور جناب فاطمہ زہرا او ر انکے معصوم فرزندوں کے فضائل ومکارم کا ''پرتو'' ہیں ۔

بعض ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرناہمارے دلوں کے نور میں اضافہ کرے گا :

١( وسیع علم: امیرالمومنین ـ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : ''هْوَ اَکْثَرْکْمْ عِلْماً ''وہ تم میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔(۳۰) امام باقر ـفرماتے ہیں :خداوند کریم کی کتاب کا علم اور اسکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنّت ہمارے مہدی کے دل میں اْسی طرح رشد کرے گی جس طرح سے سبزہ بہترین شکل میں زمین سے اُگتا ہے ۔ پس جس نے بھی آپ کو دیکھا وہ اسطرح سے کہے سلام ہو آپ پر اے اہل بیت ِرحمت و نبوّت اور اے مخزن علم اور جایگاہ رسالت!(۳۱)

٢(زھد، اور دنیا سے بے رغبتی: امام رض (عج)آپکے بارے میں فرماتے ہیں''وَماَ لباٰسُ القاٰئمَ اِلّا الغَلِیظُ وَ ما طعاٰمُه ِالّا الجَشَبُ'' ہمارے قائم کا لباس کچھ نہیں سوائے کھردرے کپڑے کے اور ان کی غذا کچھ نہیں سواے سوکھے کھانے کے۔(۳۲)

٣(لوگوں کے درمیان عدالت پھیلانا: امام باقر (عج)حضرت مہدی کے لیے ارشاد فرماتے ہیں ''یَعدِلُ فی خَلقِ الرَّحمنِ اَلبرِِّمِنھُم وَالفاٰجرِ''وہ لوگوں کے درمیان عدالت سے کام لیں گے چاہے وہ پرہیزگار ہوں یا بد کردار۔(۳۳)

٤( سنّت پیغمبر پر عمل: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : ''وہ مجھ سے ہیں ان کا نام میرا نام ہے خداوند عالم مجھے اور میرے دین کو اسکے ذریعہ حفظ کریگا اور وہ میری سنّت اور میرے طریقوں پر عمل کرے گا''۔(۳۴)

٥(جود وسخاوت: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : '' ایک شخص ان کے پاس آئے گا اور کہے گا اے مہدی (عج) مجھے کچھ عطا فرمائیے ! پس امام زمانہ اْسکے دامن میں اتنا مال ڈالیں گے جتنا وہ اٹھا سکے ''۔(۳۵)

٦(دعا وعبادت : وہ مخصوص نمازیں اور فراوان دعائیں جو امام زمانہ کی طرف سے ہم تک پہنچی ہیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ ان دعائوں اور نمازوں کے پابند ہیں بیشک یہ سب خدا کی بندگی کی نشانی اور اس سے تقرب کا قوی ذریعہ ہیں ۔

٧( شجاعت وصلابت: بیشک دنیا کے تمام مشرکوں اور مستکبروں سے آمنے سامنے کا مقابلہ کرنے اور دنیا کی طاغوتی قدرتوں کی ناک مٹی میں رگڑنے کے لیئے بے نظیر شجاعت اور بے بدیل صلابت کی ضرورت ہے کوئی ایسا ہونا چاہیے جو امام حسین ـ کی طرح جنگ کا مرد میدان ہوحضرت علی ـ کی طرح اسکی پشت پر زرہ ہو، اور رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح جنگ میں جہاں اپنے عزم مستحکم سے کفر کو پیٹھ دکھا نے پر مجبور کر دے۔

٨( صبر و تحمل : ہر انسان کے صبر و استقامت کا اندازہ اسکی مصیبتیں اور مشکلات دیکھ کر کیا جاتا ہے یقیناًامام زمانہ کی مصیبت و بلا اتنی صدیوں سے جاری ہے کہ ہرگزکسی بھی دوسرے انسان کے لئے قابل قیاس نہیں ہے کیونکہ صرف کثرت بلا اور طول زمان ہی سب سے بڑی مصیبت نہیں ہے جو عظیم صبرو تحمل چاہتی ہے بلکہ انسانوں کی ذمہ داری بھی صبرو تحمل کا مطالبہ ہے حضرت مہدی (عج)زمانے کے امام ، تمام مومنیں کے والی ،دونوں عالم کی حجت اور دنیا بھر کے شیعوں کے باپ اور سرپرست ہیں ۔

____________________

(۱) زندگانی امام حسن عسکری (عج) و ارشاد ص٣٨٣

(۲) سورہ مریم آیہ ١٢

(۳) سورہ مریم آیہ ٣٠

(۴) منتخب الاثر ص٣٠١

(۵) ینابیع المودہ ص٤٦١، کمال الدین (بعض کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ 'ابوعینی بن متوکل نے بھی معتمد عباسی کے حکم سے امام (عج)کی نماز جنازہ پڑھائی۔

(۶) سورہ صف آیہ ٨

(۷) اعتراض کرنے والوں میں سویدی، ابن حجر، ابن تیمیہ، اور عبد اللہ فصیمی شامل ہیں تفصیلات کے لئے حیات الامام المہدی (عج) قرشی مراجعہ کیا جائے۔

(۸) الغدیر ج٣، ص٣٠٩

(۹) منتخب الاثر ص٣٥٨

(۱۰) حیات الامام المہدی (عج) قرشی ، ص١٢١۔١٢٣ ، بحار الانوار ج٥١، ص٣٤٤

(۱۱) تنقیح المقال ج٣، ص١٤٩

(۱۲) مراقد المعارف ج١/ص٢٥

(۱۳) منتخب الاثر ص٣٩٣

(۱۴) بحارالانوار ج٥١/ص٣٦١

(۱۵) بحارالانوار ج٥١/ص٣٦٠

(۱۶) وسائل الشیعہ کتاب القضائ، ولایت فقیہ اور کتاب البیع امام خمینی مراجع کریں

(۱۷) منتخب الاثر ص٤٠٠

(۱۸) کمال الدین ج٢/ص٤٨٢

(۱۹) کمال الدین ج٢/ص٣٤٥

(۲۰) کمال الدین ج٢/ص٤٨١، '' یخاف علی نفسہ الذبح''

(۲۱) منتخب الاثر ص١٠١

(۲۲) احتجاج ص٢٦٢، بحارالانوار ج٥٢، ص٩٢

(۲۳) ینابیع المودہ ص٤٧٧

(۲۴) کمال الدین ج٢/ص٣٥١

(۲۵) منتخب الاثر ص٢٧٧

(۲۶) منتخب الاثر ص٢٧٢

(۲۷) بحارالانوار، نجم الثاقب، جنة المأوی، دارالسلام و عبقری الحسان میں ایسے واقعات نقل ہوئے ہیں ۔

(۲۸) بحارالانوار ج٥١، ص٣٣

(۲۹) بحارالانوار ج٥١، ص٣٢

(۳۰) غیبت نعمانی، منتخب الاثر ص٣٠٩

(۳۱) کمال الدین ، منتخب الاثر ص٣٠٩

(۳۲) غیبت نعمانی، منتخب الاثر ص٣٠٧

(۳۳) منتخب الاثر ص٣١٠

(۳۴) منتخب الاثر و غیبت نعمانی

(۳۵) کنزالعمال ج٦/ص٣٩، ینابیع المودہ ص٤٣١

طولانی عمر

ولادت امام زمانہ کو اب تک ١١٧٠سال گذر چکے ہیں اور یہ طولانی عمر ممکن ہے دسیوں سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک چلتی رہے۔ اسکے باوجود یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کیونکہ :

١( وہ خدائے عظیم جس نے انسان کو عدم سے خلق کیا اور ہر چیز کی ایجاد اور اسکی بقاء صرف اس پر منحصر ہے :( اِنَّماٰ اَمرُهُ اِذٰا اَرادَ شَیئاً اَن یقوُلَ لَهُ کُن فیَکُونَ ) (۱) وہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنی مخلوق میں سے کسی ایک کو چند ہزار سال تک زندہ رکّھے۔

قران مجیدمیں حضرت یونس ـکے بارے میں آیا ہے کہ اگر وہ تسبیح پروردگار نہ کرتے تو خداوند عالم انہیں روز قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھتا ۔(۲)

٢(تاریخی کتابوں میں ایسے متعدد افراد کے تذکرے ہیں جنہوں نے سیکڑوں سال تک بغیر کسی مرض اورتکلیف کے زندگی گذاری ہے توریت میں آیا ہے کہ ''ذوالقرنین ''نے تین ہزار سال تک کی عمر پائی ۔(۳) قران کریم نے بھی حضرت نوح (ع) کی عمر کو طوفان کے آنے سے پہلے٩٥٠سال بتایا ہے۔(۴)

٣(عقلی اعتبار سے کسی موجود کی عمر کو کسی حد کے ذریعے محدود و معین نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ جو بھی حد معین کی جائے اُس سے زیادہ کا امکان باقی رہتا ہے مثلاًایک شخص کی عمر اگر ممکن ہے ١٠٠ سال ، ١٥٠ سال یا ٢٠٠ سال معین کی جائے تو اس سے زیادہ عمر بھی ممکن ہے اور یہ تدریجی سلسلہ اگر چندہزار سال تک بھی پہنچ جائے اُسوقت بھی نا ممکن نہیں کہا جا سکتا ہے ۔

٤(آج کل سائنس کے ذریعے ثابت ہوگیا ہے کہ اگر انسان کے وجودی عناصر کی ضروریات مناسب مقدار میں اُس تک پہنچتی رہیں اور ہمیشہ بیماری سے روک تھام ہو توانسانوں کی عمر میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوجائیگالہذا کوئی حرج نہیں ہے کہ امام زمانہ اپنے اُس خدادادعلم کی وجہ سے عام انسانوں سے زیادہ عمر کریں ۔

انتظار

آخر کار غیبت کے یہ تلخ ایّام تمام ہوجائیں گے اور ظہور کا وہ جا نفزا موسم پورے خطۂ ارض پر چھا جائیگا اس وقت اسلام اور توحید کا پرچم ہر طرف لہرائے گا۔ اس نکتہ نظر سے جو بھی امام زمانہ پر اعتقاد رکھتا ہے اور اس نے آپ کی ولایت پر باقی رہنے اور اطاعت کرنے کی قسم کھائی ہے وہ ہمیشہ امام کے ظہور کا منتظر رہے گااور کبھی بھی خود کو اور معاشرہ کو ظہور کے لئے تیار کرنے میں اپنی کوشش وجد و جہد سے نہیں تھکے گا۔ حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ امام مہدی (عج)کاانتظار کرنا گویا راہ خدا میں جہاد کرنے کے برابر ہے بلکہ گویا اُس شخص کو رسول خدا کے سامنے شہادت نصیب ہوئی ہو(۵) انتظار کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور آنے والے کل کا انتظار کرتے رہیں بلکہ انحرافات اور بدعتوں کے خلاف اعتراض اور قیام کریں اور ایک روشن اسلامی مستقبل کے لیے زمینہ فراہم کریں ۔

منتظرین کی صفات

١( معرفت امام اور اُسکی امامت کا اعتقاد: جب تک امام زمانہ کو نہ پہچانیں اور اُنکی امامت کے معتقد نہ ہوں انتظاربے معنیٰ ہے اور یہ معرفت و اعتقاد ،منتظروں کی خاص اور لازم صفت ہے کیونکہ یہ دونوں انتظار کے اہم رکن میں سے ہیں جیسا کہ امام سجّاد ـ کے کلام میں پایا جاتا ہے''اِنَّ اَهلَ زَمانِ غَیبَتِه َالقاٰئلوُنَ باِماٰمته ِ َالمُنتَظِرُونَ لِظُهُورِهِ اَفضلُ اَهلِ کُلِّ زَماٰن'' (۶) بیشک حضرت مہدی (عج) کی غیبت کے زمانے میں وہ لوگ، جو ان کی امامت کے قائل ہوں اور ظہور کی آس لیے ان امام کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہوں ، وہ ہر زمانے کے لوگوں سے برتر ہیں ۔

٢( تقوا اور حسن سیرت: اسلام میں پرہیزگاری اور تقوا کے علاوہ کرامت و بزرگی کا کوئی بھی معیار نہیں ہے( اِنَّ اَکرَمَکُم ِعندَ اللهِ اَتقیٰکُم ) (۷) اور اسی طرح ایمان کی پختگی اور اُسکی قیمت حسن اخلاق اور نیک سیرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے''اَفضَلُکُم اِیماناً اَحسَنَکُم اخلاٰقاً'' لہذا یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کو ئی اس دائرہ سے خارج ہو تقوا اور نیک رفتاری سے بے بہرہ ہو اوراُسے انتظار کی فضیلت وکرامت حاصل ہوجائے۔امام صادق ـ فرماتے ہیں''مَن َسرَّاَن َیکوُنَ مِن اَصحاٰبِ القاٰئمِ َفلیَنتَظِر وَ لیَعمَل باِلوَرعِ وَ محاٰسنِ الاخلاقِ وَهُوَ مُنتَظِرِ'' (۸) جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ قائم کے اصحاب و انصار میں سے ہو تو اُسے چاہیے کہ انتظار کرے اور ساتھ ہی ساتھ تقوا ،اور حسن اخلاق کی بنیاد پر دوسروں سے خوش رفتاری کرے اس حال میں کہ اُسکی آنکھیں ظہورکی منتظرہوں ۔

٣( فرمان قبول کرنا : جو کوئی اپنے امام معصوم کا منتظر ہو اور زندگی کے تمام مراحل میں ان کی رہبری کا معتقد ہو وہ ان کی اطاعت کو واجب سمجھے گا اور زمان غیبت میں ان امام فرمان کی اطاعت کرگا اور خود کو آمادہ کرے گا تاکہ ظہور امام کے وقت آنحضرت کی بے چوں چرا اطاعت کر ے امام صادق ـ فرماتے ہیں ''طْوْ بیٰ لِشَیَعْةِقاٰئِمَنَا الْمْنْتَظِرینَ لِظْهْوْرِ ه ِوَالْمْطیعینَ لَهْ فی ظْهْوْرِهِ'' (۹) زہے نصیب ہمارے قائم کے شیعہ کہ ان کی غیبت میں ان کا انتطار میں جیتے ہیں اور وقت ظہور ان کے مطیع ہیں ۔

٤( امام (عج)کے دوستوں سے دوستی انکے دشمنوں سے دشمنی:ہر انسان کے لیے دوستی کو پرکھنے کا سب سے عمدہ ذریعہ یہ ہے کہ اُسکے دوست اور دشمن کو پہچانے۔

دوست کے دشمن اور دشمن کے دوست کو کبھی دوست نہیں کہا جاتا ہے اُسی طرح سے دوست کے دوست اور دشمن کے دشمن کو بھی دشمن نہیں سمجھتے ہیں یہ بات فطری ہے کہ ہر انسان اپنے محبوب کے چاہنے والوں کا دوست اور اُسکے دشمنوں کا دشمن ہوتا ہے۔

یقیناًامام زمانہ کے منتظر بھی آپکے دوستوں کے دوست اور آپکے دشمنوں کے دشمن ہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے پیں'' طْوْ بیٰ لِمَنْ اَدْ رَکَ قَائِمَ اَهْلَ بَیْتی وَ هْوَ یَاتَمّْ بِهِ فی غَیْبَتِهِ قَبْلَ قِیَا مِهِ وَ لْیَتَوَلّٰی اَوْلِیَائَهْ وَ یْعَا دی اَعْدٰائَهْ'' (۱۰) زہے نصیب وہ افراد جنہوں نے میرے قائم اہل بیت کو درک کیا اور ان کی غیبت کے زمانے میں قیام سے پہلے ان کی پیروی کی ان کے دوستوں کو دوست رکّھااور انکے دشمنوں کو دشمن قرار دیا۔

ظہور سے پہلے کی علامتیں

حضرت مہدی (عج)کے ظہور کی اہمیّت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اور اشتباہات اور سوئے استفادہ سے روک تھام کے لیے خداوند عالم نے ظہور سے پہلے چند علامتیں مقرر فرمائیں ہیں اِن علامتوں کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں :

١( قطعی علامتیں

٢( غیر قطعی علامتیں

قطعی علامتیں وہ ہیں جن کے سلسلے میں متواتر روایتیں وارد ہوئی ہیں اور اْنکے واقع ہونے کی تاکید بھی کی گئی ہے مانند خروج سفیانی اور قتل نفسِ زکیّہ۔(۱۱)

غیر قطعی علامتیں وہ ہیں جن کے سلسلے میں متواتر روایت نہیں پائی جاتی ہے یا معصوم کے توسط سے اْنکا حتماً واقع ہونا نہیں پایا جاتا ہے ۔ مانند پانچ دفعہ چاند گہن اورپندرہ دفعہ سورج گہن ۔(۱۲)

علامات ظہور پر ایک اجمالی نظر

بہت سی ایسی روایتیں ہیں جن میں علامات ظہور کا تذکرہ ہے جن کے مطابق امام زمانہ (عج) کا اس وقت ظہور ہو گا جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائیگی ''کَمٰا مُلِئَتُ ظُلْماًوَجَوْراً ''(۱۳)

امام صادق ـنے اپنے ایک صحابی سے علامات ظہور بیان فرمائی ہیں جنہیں ہم مختصر طور پر بیان کر رہے ہیں :

امام زمانہ کے ظہور کی علامتیں :

٭خروج دجّال ۔

٭ نفس زکیہ کا قتل ۔

٭سید حسنی کا خروج ۔

٭١٥ /ماہ مبارک رمضان کو سورج و چاند گرہن لگنا۔

٭سفیانی کا خروج ۔

٭ندائے آسمانی ۔

٭ظہوراس وقت ہوگا جب دنیا ظلم وجور سے لبریز ہو جائیگی ۔

٭اہل باطل اہل حق پر سبقت لیں گے۔

٭سود خوری عام ہو جائیگی۔

٭زنا عام ہوجائیگا۔

٭چھوٹے بڑوں کی عزّت نہیں کریں گے ۔

٭راہ خیر پر چلنے والوں کی تعداد کم اور را ہ شر پر چلنے والوں کی تعداد زیادہ ہو جائیگی ۔

٭مکّاری اور چاپلوسی زیادہ ہوجائیگی۔

٭ لوگ آشکار جوا کھلیں گے اور شراب پئیں گے۔

٭ لوگوں کوقرآن کے حقائق سننا گراں گذرے گا ۔

٭ اگر کوئی امر بالمعروف ونہی عن المنکرکرنے والاہوگا تو اسے لوگ نصیحت کریں گے

کہ یہ تمہارا کام نہیں ہے !

٭ مسجدوں میں ا ن لوگوں کی بھیڑ ہوگی جنکے دلوں میں ذّرہ برابر خدا کا خوف نہ ہوگا ٭ لوگ دولت اور دولتمند افراد کے آگے سر تسلیم خم کریں گے۔

٭ لوگ اپنے مال کو راہ خدا میں صرف کرنے کے بجائے راہ شر میں خرچ کرناشرف

سمجھیں گے !

٭ ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو ایک روز گناہ کبیرہ انجام نہ دیں گے تو پریشان و

مضطرب رہیں گے !

٭ لوگوں کی مدد صورت دیکھ کر کی جائیگی۔

٭ تنگ دست اور نیاز مندوں کی مددمیں سفارش چلے گی!

٭ لوگوں کے نزدیک وقت نماز کی کوئی اہمیت نہ ہو گی !(۱۴)

علامات ظہور کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اِن علامتوں میں سے کسی بھی علامت کا نہ پایا جانا اس بات کی نشانی نہیں ہوگا کہ ظہور میں تأخیر ہوسکتی ہے کیونکہ ''خداوند متعال ظہور کے مقدمات کو تنہا ایک شب میں پورا کردیگا''اور اس امر کا لازمہ یہ ہے کے ہم ہمیشہ منتظر رہیں اور اپنے آپ کو ہمیشہ آمادہ رکھیں ۔

____________________

(۱) یس ٣٦، آیہ ٨٢

(۲) صافات ، آیہ ١٤٤

(۳) منتخب الاثر ص٢٧٦

(۴) عنکبوت آیہ ١٤

(۵) بحارالانوار ج٥٢/ص١٢٦

(۶) بحارالانوار ج٥٢/ص٢٢١،ح٤

(۷) سورہ حجرات آیہ ١٣

(۸) بحارالانوار ج٥٢/ص١٤٠،ح٥٠

(۹) بحارالانوار ج٥٢/ص١٥٠،ح٧٦

(۱۰) بحارالانوار ج٥١/ص٧٢

(۱۱) منتخب الاثر ، ص٤٣٩

(۱۲) منتخب الاثر ، ص٤٤٠

(۱۳) بحار الانوار ج ٥١/ص٣٠ (باب ٢، اسمائہ و القابہ ( بحار الانوار ج ٥١/ص٣٣ (باب٣، النھی عن التسمیہ(

(۱۴) بحار الانوار ج ٥١/ص٥٢،ص٢٥٦۔٢٦٠ حدیث ١٤٧