صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام 11%

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35183 / ڈاؤنلوڈ: 5218
سائز سائز سائز

مرحوم حاج شیخ رجب علی خیاط کی نصیحت

آپ آخری حجت کی مظلومیت سے آگاہ ہوتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا سے مراد حالات اور مقامات تک پہنچنا مقصود نہ ہو بلکہ قرب الٰہی اور امام کی رضا کو اپنے عمل کا مرکز قرار دے اب مہم واقعہ کی طرف توجہ دیں مرحوم آقائی اشرفی امام عصر کے ظہور کے منتظرین میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ ایک زمانہ میں تبلیغ کے لئے مشہد مقدس کے شہروں میں سے ایک شہر میں گیا تھا ماہ رمضان میں مسافرت کے دوران ہم تہران کے دوستوں میں سے ایک دوست کے ساتھ مرہوم شیخ رجب علی خیاط کی خدمت میں مشرف ہوئے اور ان سے اپنی راہنمائی کا مطالبہ کیا اس بزرگوار نے ختم آیہ شریفہ (ومن یتق اللہ) کا طریقہ بتادیا اور فرمایا اول صدقہ دیں اور چالیس روز روزہ رکھیں اور اس ختم کو چالیس روز میں انجام دیں مرحوم شیخ رجب علی خیاط نے اس مقام پر جو مہم نکتہ فرمایا یہ ہے کہ اس ختم سے مقصود یہ ہو کہ حضرت امام رضا سے اس بزرگوار کا قرب حاصل کرو اور مادی حاجتیں اپنی نظر میں نہ رکھیں۔

مرحوم آقائی شرفی نے فرمایا میں نے ختم کو شروع کیا لیکن اس ختم کو جاری نہیں رکھ سکا لیکن میرے ساتھی کو یہ توفیق حاصل ہوئی اور اس کو اختتام تک پہنچایا پس جب ہم مشہد مقدس لوٹے جب وہ حضرت امام رضا کے حرم میں تھا تو آپکی زیارت سے مشرف ہوا تب متوجہ ہوئے کہ آن حضرت کو نور کی صورت میں دیکھتاہے آہستہ آہستہ یہ حالت قوی ہوئی یہاں تک حضرت کو دیکھنے اور گفتگو کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے وہ جو دعاؤں اور توسلات میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان نماز ادا کرنے کے علاوہ دعاؤں اور توسل میں خلوص کی رعایت کرے اس کو انجام دینا صرف قرب الٰہی حاسل کرنے کے لئے ہو تا کہ اھل بیت کے نزدیک ہوجائے یعنی یہ بندگی کے لئے انجام دے نہ کہ حالات اور مقامات تک پہنچنے کے لئے نہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے مرحوم حاج شیخ علی حسن علی اصفہانی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا میں ایسا کام کرسکتاہوں کہ لوگ میرے دروازے کو دق الباب کریں۔ تا کہ ان کی مشکلات حل ہوجائے مجھ سے کہے بغیر لیکن لوگوں کا عقیدہ حضرت امام رضا کے بارے میں سست ہوجاتاہے اس لئے میں اس کو انجام نہیں دیتاہوں۔

شیخ حسن علی کااصفہانی کا مہم تجربہ

اب جب شیخ حسن علی اصفہانی کا ذکر ہوا تو یہاں ایک واقعہ اسی مناسبت سے نقل کرتاہوں یہ بچپن سے عبادات ریاضیات میں مشغول ہوجاتے تھے اور بلند اھداف تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ زحمت اٹھائی تھی جو اس بزرگوار نے نمازیں اور قرآنی کی آیتوں کو بچپن سے لیکر آخری عمر تک انجام دیا تھا اس کو لکھا اس میں بہت زیادہ اسرار اور نکات موجود تھے چونکہ اس کتاب میں رموز اور اسرار تھے مناسب نہیں سمجھا یہ دوسروں کے ہاتھ میں دیدے اس لئے اس کو مخفی رکھا لوگوں کو نہیں دیا مرحوم والد اس کتاب کے ساتھ ارتباط کے بارے میں فرماتے تھے مرحوم شیخ حسن علی اصفہانی نے اپنی آخری زندگی میں اس کتاب کو مرحوم آیة اللہ حاج سید علی رضوی کو دے دیا اس واقعہ کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے جو شیخ حسن علی اصفہانی نے اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے جو کچھ اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے اس میں یہ نکتہ ہے کاش میں ان اذکار اور ززحمات کو امام زمانہ کے ساتھ قرب حاسل کرنے کے لئے انجام دیت

جو بھی تعجیل ظہور کے لئے دعا مانگے امام زمانہ کی دعا انہیں بھی شامل ہوتی ہے

امام زمانہ کی دعا ہے کہ جو مھج الدعوات میں نقل ہوئی ہے دعا کے بعد تعجیل فرج کے لئے خدا سے چاہتاہے واجعل من یبتعنی النصرة دینک مویدین، و فی سبیلک مجاھدین و علی من ارادنی و ارادھم بسوءٍ منصورین۔۔ جس زمانے میں میرے ظہور کی اجازت دیں گے کسی کو کہ جو میری پیروی کرے اپنے دین کی مدد کے لئے موید قرار دے اور اس کو راہ خدا میں مجاہدین میں سے قرار دے اور جو بھی میری اور ان کی نسبت برا قصد رکھتے ہیں ان پر کامیاب فرما اس مطلب پر دوسری دلیل یہ ہے کہ علی بن ابراھیم قمی آیہ شریفہ کی تفسیر میںواذاحییتُم بتحیة فحیوا باحسن منها او رُدوها جب تم پر کوئی سلام کرے تو اس کے جواب میں اچھا سلام دیں یا ویسا ہی سلام کا جواب دیں سلام کرنا نیک کاموں میں سے ہے۔

ہمارے گفتار پر گواہ اور تائید وہ روایت ہے کہ جو مرحوم راوندی اپنی کتاب الخراج میں نقل کرتے ہیں کہتاہے کہ اصفہانی کی ایک جماعت جن میں ابوعباس احمد بن نصر ابو جعفر محمد بن علویہ شامل ہیں نے نقل کیا ہے اور کہتے ہیں اصفہان میں ایک شیعہ مرد تھا جس کا نام عبدالرحمان تھا ان سے پوچھا گیا تم نے علی نقی کی امامت کو قبول کیا اس کی کیا وجہ ہے کسی اور کو قبول نہیں کیا حضرت سے ایک واقعہ دیکھا جس کی وجہ سے میں ان کی امامت کا قائل ہوا میں ایک فقیر مرد تھا لیکن زبان تیز اور جرأت رکھتا تھا یہی وجہ ہے ایک سال اھل اصفہان نے مجھے انتخاب کیا تا کہ میں ایک جماعت کے ساتھ عدالت کے لئے متوکل کے دربار میں چلا جاؤں ہم چلے یہاں تک کہ بغداد پہنچے جب ہم دربار کے باہر تھے تو ہمیں اطلاع پہنچی کہ حکم دیا گیا ہے کہ امام علی بن محمد بن الرجا کو حاضر کریں اس کے بعد حضرت کو لے آئے میں نے حاضرین میں سے ایک سے کہا جس کو ان لوگوں نے حاضر کیا ہے وہ کون ہے کہا وہ ایک مرد ہے جو علوی ہے اور رافضیوں کا امام ہے اس کے بعد کہا میرا خیال ہے کہ متوکل اس کو قتل کرنا چاہتاہے میں نے کہا میں اپنی جگہ سے حرکت نہیں کروں گا جب تک اس مرد کو نہ دیکھوں کہ وہ کس قسم کا شخص ہے اس نے کہا حضرت گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے لوگ دونوں طرف سے صف باندھ کر اس کو دیکھتے تھے جب میری نظر ان کے جمال پر پڑی میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہوئی میں نے دل میں ان کے لئے دعا مانگنا شروع کی کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو متوکل کے شر سے محفوظ رکھے حضرت لوگوں کے درمیان حرکت کرتے تھے نہ دائیں طرف دیکھتے تھے نہ بائیں طرف میں بھی حضرت کے لئے دل میں دعا مانگتا تھا جب میرے سامنے آئے تو حضرت میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:استجاب الله دعاک و طوّل عمرک و کثر مالک و ولدک خدا نے تمہاری دعا قبول کی اللہ تمہاری عمر کو طویل کرے اللہ تجھ کو مال اور اولاد زیادہ دے ان کی ھیبت اور وقار کی وجہ سے میرا بدن لرزنے لگا۔

دوستوں کے درمیان زمین پر گرا انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا میں نے کہا خیریت ہے اور واقعہ کسی سے بیان نہیں کیا اس کے بعد اصفہان لوٹا خدا نے حضرت کی دعا کی وجہ سے مال اور ثروت کے دروازے کھل گئے اگر آج ہی اپنے گھر کے دروازے کو بند کردوں تو بھی اس میں جو مال رکھتا ہوں کئی ہزار درہم کے برابر ہے یہ اس مال کے علاوہ ہے جو گھر کے باہر مال رکھتاہوں خدا نے حضرت کی دعا کی برکت سے مجھے فرزند عطا کیا ہے اس وقت میری عمر ستر سال سے زیادہ ہے میں ان کی امامت کا دل میں قائل تھا اس کے بارے میں مجھے خبردی تو خدا نے ان کی دعاء کو میرے حق میں قبول کیا میں اعتقاد رکھتا ہوں ۔

دیکھیں کہ کس طرح ہمارے مولیٰ کی دعا نے اس شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے جبران کیا ان کے لئے دعا کی حالانکہ وہ مومن نہیں تھا کیا گمان کرتے ہو اگر ہم مولیٰ کے حق میں دعا کریں تو وہ تمہارے لئے دعائیں کرے گا حالانکہ تم مومنین میں سے ہو نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے اس خدا کی قسم کہ جس نے جن اور انس کو پیدا کیا حضرت ان مومنین کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ جو اس امر سے غافل ہیں چونکہ وہ صاحب احسان ہے۔

اب اس مطلب کی تائید کے لئے بیان کرتاہوں اور وہ خواب ہے کہ بعض برادران نے مجھے بیان کیا ہے عالم خواب میں حضرت کی زیارت ہوتی ہے حضرت نے فرمایاانّی ادعولکل موٴمن یدعولی بعدذکر مصائب سید الشهداء فی مجالس العزاء میں ہر مومن کے لئے کہ جو مصائب سید الشہداء کے ذکر کے بعد میرے لئے دعا مانگتاہے میں اس کے لئے دعا مانگتاہوں خداوند تعالیٰ سے اس امر کے لئے توفیق کی درخواست کرتاہوں چونکہ وہ دعا کو سننے والا ہے۔

تعجیل فرج کے لئے مجلس دعا تشکیل دینا

جس طرح ممکن ہے کہ تنہا انسان تعجیل ظہور امام زمانہ کے لئے دعا کرے اسی طرح ممکن ہے اکٹھے مل کر دعا مانگیں اور مجالس دعا تشکیل دیں تا کہ آخری حجت کی یاد تازہ ہوجائے اس اجتماع میں نیک کاموں پر دعا کے علاوہ اور فوائد بھی ہوتے ہیں اس سے ائمہ معصومین کے امر زندہ رکھا جاتاہے اور اھل بیت کی احادیث کو یاد کرتے ہیں۔ صاحب مکیال المکارم

ان مجالس کی تشکیل کو امام کے غیبت کے زمانے میں لوگوں کے وضائف میں شمار کیا ہے اس میں صاحب الزمان کی یاد صفائی جاتی ہے فضائل بیان کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ بہترین دلیل وہ کلام ہے کہ جس کو امام جعفر صادق سے وسائل الشیعہ میں روایت کیا گیا ہے کہ جہاں فرمایا ہے ایک دوسرے کی زیارت کرو اس طرح کی زیارتیں تمہارے دلوں کو زندہ کرنے کا باعث اور ہماری احادیث کو یاد کرنے کا موجب ہے ہمارے احادیث ذکر کرنا تمہیں ایکدوسرے کے لئے مہربان قرار دیتاہے اگر ہماری احادیث کو سنوگے اور عمل کروں گے تو ہدایت پاؤگے اور ہلاکتوں سے نجات پاؤگے اور اگر ان کو فراموش کروگے تو گمراہ ہوکر ہلاک ہوجاؤگے پس تم ان پر عمل کرو میں ان سے رہائی کا ضامن ہوں۔ کس طرح یہ روایت ہمارے مطلب پر دلالت کرتی ہے حضرت نے اپنے اس کلام میں ایکدوسرے کی زیارت کو علل اور اسباب قرار دیا ہے چونکہ ایکدوسرے کی زیارت کرنا ان کے امر کو زندہ رکھنے کاموجب ہے اس بناء پر ائمہ کے نزدیک اس میں شک نہیں ہے کہ امام کو یاد کرنا اور مجالس کو ترتیب دینا مستحب ہے ہمارے اس مطلب پر دلیل ہے کہ حضرت امیرالمومین نے ایک کلام کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ فرمایا:ان الله تبارک و تعالیٰ اطّلع الی الارض فاختارنا و اختارلنا شیعة ینصروننا، و یفرحون لفرحنا، و یحزنون لحزننا، و یبذلون اموالهم و انفسهم فینا، اُولئک منّا و الینا، الخبر ۔ خدائے متعال نے کرہ زمین پر نگاہ کی اور ہمیں چنا اور ہمارے لئے شیعوں کو چنا کہ جو ہماری مدد کرتے ہیں ہماری خوشی میں خوشی کرتے ہیں اور ہمارے غم میں غم کرتے ہیں اپنی جان اور مال کو ہماری راہ میں کرچ کرتے ہیں وہ ہم میں سے ہیں وہ ہماری طرف لوٹیں گے۔

بعض اوقات اس قسم کی مجالس کا انعقاد واجب اور ضروری ہے اس وقت کہ جب لوگ گمراہ ہورہے ہیں اس قسم کی مجالس کا انعقاد تباہی اور فساد سے روکنے کا سبب اور ان کی ہدایت کا سبب ہے اھل بدعت اور گمراہ لوگوں کو برائی سے روکنا واجب ہے۔

امام زمانہ کے مخصوص مقامات (صلوات اللہ علیہ)

محدث نوری لکھتے ہیں یہ چیز مخفی نہیں ہے بعض ایسے مقامات ہیں کہ جو آخری حجت کے ساتھ مخصوص ہیں کہ جو ان کے نام سے مشہور ہیں جیسے وادی اسلام نجف اشرف میں اور مسجد سھلہ شہر کوفہ میں حلہ میں ایک معروف مقام ہے مسجد جمکران قم میں میری نظر یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں عاشقان حجت نے ان مقامات پر حضرت کو دیکھا ہے اور زیارت کی ہے یا یہ کہ ان مقامات پر حضرت کی طرف سے معجزہ ظاہر ہوا ہے اس لئے ان مقامات کو اماکن شریف میں سے شمار کیا گیا ہے یہ وہ مقام ہیں کہ جو ملائکہ کے اترنے کی جگہ ہے اور ان مقامات پر شیطان کا آنا بہت کم ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر دعا قبول ہوتی ہے بعض روایات میں پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ مقدم اماکن کو دوست رکھتاہے جیسے مساجد اماموں کے حرم ائمہ کے حرموں کی زیارت گاہ نیک لوگوں کی قبریں کہ جو قریب اور دور موجود ہیں۔

ہاں یہ خود اللہ کا لطف ہے کہ اپنے بندوں پر لطف کیا ہے۔

اللہ کے بندے کہ جو محتاج ہیں جنھوں نے راہ کو گم کردیا ہے اور معرفت کی تلاش میں ہیں وہ لوگ کہ جو اپنے لئے کوئی چارہ کار نہیں دیکھتے ہیں مجبور ہیں وہ لوگ کہ جو بیماری میں مبتلا ہیں کچھ مقروض ہیں کچھ لوگ ظالم دشمنوں سے خائف ہیں وہ سب محتاج ہیں غم نے ان کے وجود کو گھیر لیا ہے جو پریشانہیں ان کے حواس پراگندہ ہیں یہ سب کے سب ان مقدس مقامات میں پناہ حاصل کرتے ہیں اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ان مقامات میں درخواست کرتے ہیں۔ طبیعی ہے جتنا اس مقام کا قابل احترام کرتے ہیں اس مقدار میں نیکی پاتے ہیں ۔

مسجد کوفہ کی فضیلت

اب بعض ان مقامات کو بیان کروں گا کہ جو آخری حجت سے منسوب ہیں۔ مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جن کی طرف سفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ مساجد یہ ہیں ۱ ۔ مسجد الحرام مکہ مکرّمہ میں ۲ ۔مسجد النبی مدینہ منورہ میں ۳ ۔ مسجد الاقصی بیت المقدس میں ۴ ۔مسجد کوفہ اسی طرح مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جس میں انسان کو اختیار ہے کہ وہاں نماز قصر پڑھنا چاہے یا تمام پڑھنا چاہے وہ جگہیں یہ ہیں۔ ۱ ۔ مسجد الحرام ۲ ۔مسجد النبی ۳ ۔امام حسین کا حرم ۴ ۔مسجد کوفہ مسجد کوفہ وہ ہے کہ جس میں انبیاء اور اوصیاء نے نماز پڑھی ہیں۔ ایک روایت میں ہے اس مسجد میں ہزار پیغمبر اور ہزار اوصیاء نے نماز پڑھی ہیں مسجد کوفہ کے اعمال بہت زیادہ ہیں یہاں بیان نہیں کئے جاسکتے جو تفصیل سے دیکھنا چاہیں انہیں چاہیئے کہ سید علی بن طاوؤس کی کتاب مصباح الزائر میں دیکھیں۔

۲ ۔ مسجد سھلہ کی فضیلت

حضرت صاحب الزمان کا مقام بھی وہیں پر ہے شہر کوفہ میں مسجد کوفہ کے بعد سب سے بہترین مسجد مسجد سہلہ ہے وہاں حضرت ادریس اور ابراہیم کا مقام ہے وہاں حضرت خضر کے رہنے کی جگہ ہے ایک روایت میں ہے کہ وہاں پر پیغمبران اور نیک لوگوں کا مقام ہے اس مسجد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں۔

امام صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا گویا میں دیکھ رہاہوں کہ صاحب العصر اپنے اھل و عیال کے ساتھ مسجد سہلہ میں داخل ہوئے ہیں اور وہاں پر ساکن ہیں خداوند نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں پر نماز پڑی ہے جو بھی اس مکان میں نماز پڑھے ایسا ہے جیسے خیمہ رسول خدا میں پڑھی ہے کوئی مومن مرد اور عورت نہیں ہے مگر یہ کہ مسجد سہلہ میں جانے کا آرزو رکھتاہے اس مسجد میں ایک پتھر ہے کہ اس میں تمام پیغمبروں کی تصویر ہے۔

جو شخص بھی خلوص نیت سے اس مسجد میں نماز پڑھے اور دعا پڑھے خداوند تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے اس مسجد کے اور بھی فضائل ہیں ۔ حضرت صادق سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا: من صلّٰی رکعتین فی مسجد السہلہة زاد اللہ فی عمرہ عامین۔ جو بھی مسجد سہلہ میں دو رکعت نماز پڑھے خداوند تعالیٰ اس کی عمر میں دو سال اضافہ کرتاہے ایک اور روایت میں آیا ہےانّ منه یکون النفخ فی الصور و یحشر من حوله سبعون الفایدخلون الجنة بغیر حساب صور اس جگہ سے پھونکا جائے گا اور ستر ہزار آدمی اس کے اطراف میں محشور ہوں گے اور حساب کے بغیر بہشت میں داخل ہونگے۔

ابن قولویہ کتاب کامل الزیارات میں معتبر سند کے ساتھ حضرمی سے امام محمد باقر یا امام صادق سے روایت کی گئی ہے کہ کہا کہ میں نے امام سے عرض کیا سب سے بہتر مقام حرم خدا اور حرم رسول خدا کے بعد کیا ہے حضرت نے فرمایا:الکوفة یا ابابکر، هی الزکیّة الطاهرة، فیها قبور النبیّین المرسلین وغیر المرسلین و الاوصیاء الصادقین، و فیها مسجد سهیل الّذی لم یبعث اللّٰه نبیاً الّا وقد صلّی فیه ومنها یظهر عدل اللّٰه، و فیها یکون قائمه و القوّام من بعده، و هی منازل النبیّین والأوصیاء و الصالحین ۔ وہ مکان پاک و پاکیزہ ہے اس میں مرسل انبیاء اور غیر مرسل اور اوصیاء صادقین کی قبریں ہیں اور اس میں مسجد سہلہ ہے اللہ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس میں نماز پڑھی ہے اس شہر سے خدا کا عدل ظاہر ہوگا اسی میں قائم آل محمد ہے اور دین کو قائم کرے گا۔ یہی شہر انبیاء اوصیاء اور نیک لوگوں کی جگہ ہے۔

۳ ۔ جمکران کی مقدس مسجد

جمکران کی مسجد امام کے حکم سے بنائی گئی ہے پرہیزگار حسن بن مثلہ نے امام کے حکم سے کس طرح مسجد بنائی گئی ہے کہتے ہیں یہ واقعہ منگل کی رات سترہ ماہ رمضان مبارک میں ۳۹۳ ھجری قمری میں پیش آیا کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا رات کا کچھ حصہ گزرا تھا اچانک کچھ لوگوں نے ہمارے گھر کے دروازے کو دق الباب کیا اور مجھے بیدار کیا اور کہنے لگے اٹھیں امام آپ کو پکارتے ہیں حسن بن مثلہ کہتاہے میں جلدی سے اٹھا اور لباس کو تلاش کرتارہا تا کہ تیار ہوجاؤں میں نے کہ اکہ اجازت دیں تا کہ میں اپنی قمیض پہن لوں آواز آئی یہ تمہاری قمیض نہیں ہے اس کو نہ پہنو میں نے اس کو پھینک دیا اور اپنی قمیض کو دیکھا اور پہن لیا چاہا کہ شلوار پہن لوں آواز آئی یہ تمہاری شلوار نہیں ہے اپنی شلوار پہن لو اس کو چھوڑ کر اپنی شلوار پہن لی اس کے بعد دروازے کی چابی تلاش کرنے لگا تا کہ دروازہ کھول دوں اتنے میں آواز آئی اس کے لئے چابی کی ضرورت نہیں دروازہ کھلا ہوا ہے گھر کے دروازے پر آیا تو کچھ بزرگوں کو کہ جو میرا انتظار کر رہے تھے سلام کر کے عرض آداب کیا انہوں نے جواب دیا اور کوش آمدید کہا مجھے وہان پر لے گئے کہ جہاں اب مسجد جمکران موجود ہے غور سے دیکھا دیکھا کہ ایک نورانی تخت ہے جس پر عمدہ فرش ہے ایک خوبصورت جوان اس تخت پت بیٹھا ہوا ہے کہ جس کی عمر تقریباً تیس سال تھی تکیہ کا سہارا لیکر بیٹھا تھا ان کے سامنے ایک عمر رسیدہ شخص بٹھا ہوا تھا ایک کتاب اس کے ہاتھ میں تھی جو انھیں پڑھ کے سناتا تھا وہاں پر ساٹھ آدمی سفید اور سبز لباس میں ان کے اطراف میں نماز پڑھتے تھے

وہ سن رسیدہ مرد حضرت خضر تھے اس بوڑھے مرد نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا میں وہاں پر بیٹھ گیا حضرت امام زمان میری طرف متوجہ ہوئے میرا نام لیکر پکارا اور فرمایا جا کر حسن مسلم سے کہو کہ تو نے کئی سال سے اس زمین کو غصب کر کے آباد کیا ہے اور زراعت کرتے ہو ہم اس کو خراب کریں گے پانچواں سال ہے کہ اس زمین میں غاصبانہ طور پر کاشت کی گئی ہے اس سال دوبارہ آباد کرنا چاہتے ہیں اب تمہیں حق نہیں ہے کہ اس زمین میں کاشت کرو اس زمین سے جو فائدہ بھی اٹھایا اس کو واپس کردو تا کہ اس جگہ مسجد بنالیں اور حسن مسلم سے کہو یہ زمین مبارک زمین ہے اور خداوند تعالیٰ نے اس زمین کو باقی زمینوں پر فضیلت دی ہے تو اس زمین کا مالک بن بیٹھا ہے اور اپنی زمین قرار دی ہے خدا نے تجھے تنبیہ کرنے کے لئے اور سزا دینے کے لئے تمہارے دو جوان بیٹوں کو لے لیا ہے لیکن تم اب بھی باز نہیں آتے ہو اگر اس کے بعد بھی باز نہ آیا تمہیں ایسی سزا ملے گی جو تمہیں معلوم نہیں ہوگا۔ میں نے کہا اے میرے مولیٰ اور آقا اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوئی علامت چاہتاہوں چونکہ لوگ پیغام کو نشانی اور علامت کے بغیر نہیں سنتے ہیں ۔ میری بات کو قبول نہیں کریں گے فرمایا ہم یہاں پر ایک علامت رکھ دیتے ہیں تا کہ تمہاری بات کو قبول کریں تم چلے جاؤ اور میرے پیغام کو پہنچادو اور سید ابوالحسن کے پاس چلے جاؤ اور ان سے کہو کہ اٹھیں اور زراعت کرنے والے کو حاضر کریں کئی سال سے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ اس سے لیکر لوگوں کو دیدیں تا کہ مسجد بنالیں اگر خرچہ کم ہوا تو باقی کو فلاں جگہ سے لے آئیں وہ ہماری ملکیت ہے وہاں سے لاکر مسجد کو مکمل کرلیں ہم نے نصف مُلک کو اس مسجد کے لئے وقف کیا ہے اس کی آمدنی لا کر اس مسجد پر خرچ کریں اور لوگوں سے کہیں کہ لوگ شوق سے اس مسجد میں آئیں اور اس کو اہمیت دیں وہاں پر چار رکعت نماز پڑھیں جناب حسن بن مثلہ کہتاہے جب میں نے یہ باتیں سنیں تو اپنے آپ سے کہا گویا یہ وہی مقام ہے کہ جس کے بارے میں فرماتے ہیں اور میں نے اشارہ کیا اس جوان کی طرف کہ جو تکیہ کا سہارا لیا ہوا تھا۔

مسجد جمکران بہت زیادہ اہمیت کی حاصل ہے ان میں سے بعض کو بیان کرتاہوں

۱ ۔آخری حجت نے حسن بن مثلہ کے توسط سے حکم دیا ہے کہ مسجد مقدس کی بنیاد رکھ لے یہ واقعہ بیداری کی حالت میں فرمایا نہ کہ عالم خواب میں۔

۲ ۔ آخری حجت کے حکم سے کئی سال پہلے حضرت امیرالمومنین نے اس کے بارے میں خبر دی ہے۔

۳ ۔ مسجد جمکران آخری حجت کے ظہور کے زمانے میں کوفہ کے بعد سب سے بڑا پایہ تخت ہوگا امام کے ظہور کے وقت امام کے لشکر کا علم کوہ خضر پر لہراتاہوا دکھائی دے گا۔

۴ ۔ ایک مہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف امام عصر(علیہ السلام ) کے ظوہر کے وقت مسجد جمکران مرکز ہوگا بلکہ زمانہ غیبت میں بھی ایسا ہوگا امام زمانہ کا یہ فرمانا کہ جو بھی اس جگہ پر نماز پڑھے گا گویا اس نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے اس سے استفادہ ہوتاہے کہ خانہ خدا نہ صرف مرکز زمین ہے اس میں ہونا انسانی میں روحانی جسمانی اعتبار سے بہت زیادہ اثر رکھتاہے اسی طرح مسجد جمکران بھی ہے۔

امام عصر کا یہ کہنا کہ اس مکان میں نماز کا پڑھنا خانہ خدا میں نماز پڑھنے کا ثواب رکھتاہے اس مسجد جمکران میں کچھ اسرار ہیں جو ہر کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا ہےمامن سرّ الّاوانا افتحه و مامن سرّ الّا والقائم یختمه کوئی راز نہیں مگر یہ کہ میں اس کو کھول دوں گا اور کوئی راز نہیں مگر یہ کہ قائم اس کو بیان کرے گا۔

۵ ۔ جو لوگ اس مقدس مکان میں جاتے ہیں وہ جانیں یہ بہت بڑا مقام ہے امام عصر کی توجہ ان کی طرف ہے گویا حضرت کے مکان میں داخل ہوئے ہیں ان کے سامنے موجود ہیں۔

کئی سو سال حضرت کی غیبت سے گزرے ہیں لیکن ہم امام زمانہ سے استفادہ نہیں کرتے ہیں ہم بارش کی فکر کرتے ہیں لیکن بارش حضرت کے وجود اور برکت سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں وبکم ینزل الغیث تمہاری وجہ سے بارش ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ آخری حجت کی طرف توجہ حقیقت میں خدا کی طرف توجہ ہے جس طرح باقی ائمہ کی طرف توجہ کرنا خدا کی طرف توجہ کرنا ہے پس آئمہ کی زیارت اور توسل حقیقت میں خدا سے توسل ہے یہی وجہ ہے کہ جو بھی خدا سے قرب حاصل کرنے کا قصد رکھتاہے اس کو چاہئے کہ ائمہ طاہرین کی طرف توجہ دے چنانچہ زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے ہیں ومن قصدہ توجہ بکم جو بھی خدا کا قرب حاصل کرنا چاہے اس کو چاہئے کہ وہ ائمہ کی طرف توجہ دے چونکہ آئمہ کی طرف توجہ کرنا نہ صرف خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے بلکہ وہ گناہ اور وہ چیزیں کہ جو بلند مقام حاصل کرنے کے لئے مانع ہیں وہ بھی دور ہوتی ہیں چونکہ امام زمانہ اور ائمہ طاہرین کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے انسان کی طرف رحمت اور مغفرت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

حضرت باقر العلوم نے حضرت امیرالمومنین کے اس کلام میں کہ جہاں فرمایا انا باب اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی من توجہ بی الی اللہ غفرلہ جو بھی میرے وسیلہ سے خدا کی طرف توجہ دے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اگر چہ چودہ معصومین کی طرف ہر زمانہ میں توجہ ہونا چاہئے لیکن انسان جس زمانے میں زندگی گزارتاہے اس کو اپنے زمانے کے امام(علیہ السلام ) کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے آپ اس روایت کی طرف توجہ دیںعن عبدالله بن قلامه الترمذی عن ابی الحسن علیه اسلام قال: من شکّ فی اربعة فقد کفر بجمیع ما انزل الله عزوجل: احدها معرفة الامام فی کل زمان و اوان بشخصه و نعته ۔ حضرت نے فرمایا: کہ جو بھی چار چیزوں کے بارے میں شک کرے گویا اس نے تمام ان چیزوں کا انکار کیا ہے جو نازل کی گئی ہے ان میں سے ایک ہر زمانے میں امام کا پہچاننا کہ امام کی ذات اور صفات کے ساتھ پہچانیں پس ہر زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے کس طرح ممکن ہے کہ جو اپنے زمانے کی امام کی معرفت رکھتا ہو اور ان کی عظمت سے آگاہ ہو لیکن اس کی طرف توجہ نہ دیتا ہو اس بناء پر امام زمانے کی معرفت سے غفلت صحیح نہیں ہے پس ہمارا وظیفہ اس زمانے میں یہ ہے آخری حجت کی امامت کے زمانے میں آپ(علیہ السلام ) کی طرف زیادہ توجہ دیں وہ دعا کہ جو ملا قاسم رشتی کو تعلیم دی ہے اور فرمایا ہے اسے دوسروں کو تعلیم دیں اگر کوئی مومن کسی بلاء میں مبتلا ہوا ہو تو اس دعا کو پڑھے وہ مجرب ہے اس دعا کے پڑھنے میں بہت زیادہ تاثیر ہے وہ دعا یہ ہےیا محمد یا علی یا فاطمه یا صاحب الزمان ادرکنی ولا تهلکنی ۔

انتظار

آخری حجت کا انتظار کرنا بہت زیادہ فضیلت رکھتاہے جو بھی امام عصر کے ظہور کا انتظار کرے ایسی صورت میں ان کی غیبت بمنزلہ مشاہدہ شمار ہوگی۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے ابو خالد کابلی سے فرمایا کہ غیبت کا مسئلہ رسول خدا کے بارھویں امام میں طولانی ہوگا اے ابا کالد اھل زمان اپنے زمانے کے امام غیبت کے معتقد ہیں اور ان کے ظہور کے معتقد ہیں ہر زمانے میں سب سے زیادہ افضل ہیں خدا ان کو اس قدر عقل معرفت عطا کرتاہے کہ مسئلہ غیبت ان کے لئے بمنزلہ مشاہدہ قرار دیتاہے خداوند متعال ان کو اتنا ثواب اور اجر عطا کرتاہے کہ جو رسول کدا کے ساتھ تلوار کے ساتھ جنگ کرے حقیقت میں مخلص اور سچے شیعہ ہیں جو کہ دین خدا کی طرف دعوت دینے والے ہیں حضرت سجاد نے فرمایا کہ ظہور کا انتظار کرنا تعجیل ظہور کا بہترین راستہ ہے امام سجاد نے اس روایت میں ان لوگوں کو کہ جو امام کی غیبت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن غیبت سے غافل نہیں ہیں اور وہ آخری حجت کے ظہور کے انتظار میں زندگی گزارتے ہیں ان کو ہر زمانے میں سب سے بہترین لوگوں میں سے قرار دیا ہے ایسے لوگوں کو ایسی عقل اور معرفت عطا کی ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے مسئلہ غیبت بمنزلہ مشاہدہ ہوگا اس لئے پیغمبر اسلام نے فرمایا افضل جہاد امتی انتظار الفرج میری امت کے سب سے افضل جہاد فرج کا انتظار ہے۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کہ بندوں کی عبادت قبول ہونے کی شرائط میں ایک شرط آخری حجت کی حکومت کا انتظار کرنا ہے اس کے بعد امام فرماتے ہیں ہمارے لئے ایک حکومت ہے خدا جب چاہے لے آتاہے اس کے بعد فرمایا فرماتے ہیں جو بھی چاہتاہے کہ آخری حجت کے اصحاب سے ہوجائے اس کو چاہیے کہ امام کے ظہور کا انتظار کرے پرہیزگاری اور نیک اخلاق کے ساتھ زندگی گزارے اور امام کے ظہور کا انتظار کرے اس دوران اگر اس کو موت آجائے اور حضرت قائم اس کے بعد قیام کرے تو اس کو اتنا ثواب ملے گا جتنا امام کے ساتھ قیام کرنے والے کو ثواب ملتاہے پس کوشش کریں اور انتظار میں رہیں اور گوارا ہو تم پر اے جماعت کہ جن پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے امام صادق نے ایک دوسری روایت میں امام کی غیبت کے زمانے کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کہ ان کا کیا وظیفہ ہے فرماتے ہیںوانتظر الفرج صباحاً و مساءً صبح اور شام ظہور اور فرج کے انتظار میں رہو حضرت امیرالمومنین انتظار کرنے کو اھل بیت کے دوستداروں کی صفات میں سے جانتے ہیں اور اھل بیت کے ساتھ محبت کرنے والوں کی علامت یہ ہے صبح و شام امام کے ظہور کے انتظار میں ہوں گے آن حضرت نے فرمایا ان مجینا ینتظر الروح والفرج کل یوم ولیلة ہمارے دوست شب و روز دشمنوں سے آسائش کے انتظار میں ہوتے ہیں امام ھادی کے دوستاروں میں سے ایک نے پوچھا امام کی غیبت میں شیعوں کی کیا ذمہ داری ہے سوال کیاکیف تصنع شیعتک قال علیه السلام علیکم بالدعاء و انتظار الفرج غیبت کے زمانے میں آپکے شیعہ کیا وظیفہ انجام دیں امام ھادی نے فرمایا تمہارے لئے لازم ہے دعا کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا۔

جیسا کہ روایت میں ہے کہ ظہور کا انتظار کرنا جو جہاں کی اصلاح کرے اعمال کے قبول ہونے کے شرائط میں سے ایک شرط ہے پس جو خود صالح ہو اس کو چاہئے کہ مصلح کا انتظار کرے۔

حضرت جواد الائمہ نے امام عصر کے انتظار کے بارے میں فرمایا حضرت عبدالعظیم حسنی فرماتے ہیںدخلت علی سیدی محمد بن علی و انا اریدان اساله عن القائماهوالمهدی او غیره فبلانی فقال علیه السلام یا اباالقاسم انّ القائم منا هو المهدی الذی یجب ان ینتظر فی غیبته و یطاع فی ظهوره و هو الثالث من ولدی، والذی بعث محمداً بالنبوة و خصنا بالامامة انه لو لم یبق من الدّنیا الّا یوم واهد لطول اللّیه ذالک الیوم حتی یخرج فیملا الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً و ظلماً و ان الله تبارک و تعالیٰ یصلح امره فی لیلة کما اصلح امر کلیمه موسی علیه السلام لیقتبس لاهله ناراً فرجع و هو رسول نبیّ ثمّ قال علیه اسلام افضل اعمال شیعتنا انتظار الفرج

میں حضرت امام جواد کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ حضرت سے قائم آل محمد کے بارے میں سوائل کروں آیا وہ مھدی ہے یا کوئی اور ہے میرے کہنے سے پہلے حضرت نے فرمایا اے ابالقاسم قائم آل محمد وہی مھدی ہے کہ غیبت کے زمانے میں اس کا انتظار کرنا واجب ہے اور ظہور کے زمانے میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے وہ میری نسل سے تیسرا فرد ہوگا اس خدا کی قسم کہ جس نے محمد کو نبی بنا کر بھیجا ہے امامت کے مقائم کو ہمارے ساتھ مخصوص کردیا ہے اگر دنیا باقی بھی نہ رہے مگر ایک دن تو خداوند تعالیٰ کے اس کو اتنا طویل کرے گا یہاں تک امام قائم خروج کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ ظلم و جور سے پر ہوچکا ہوگا خداوند تعالیٰ اس کے امر کی ایک رات میں اصلاح کرے گا جس طرح حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے کام کی اصلاح کی وہ اپنے خاندان کے لئے آگ لانے کے لئے چلے گئے لیکن اس حالت میں لوٹے کہ جو نبوت اور رسالت کے مقام پر فائز تھے اس وقت حضرت جواد نے فرمایا شیعوں کے سب سے افضل اعمال فرج کا انتظار کرنا ہے۔

انتظار کا طریقہ

ان امور میں سے جو درس انتظار ہمیں سکھاتے ہیں انسان کو ہمیشہ معرفت خدا اور جانشین خدا کی معرفت ہو اور ان کی عظمت ان کے پیش نظر ہو اگر کوئی واقعا اللہ اور ائمہ اطہار کی معرفت میں قدم اٹھادے تو اس کا دل معارف الھیہ سے روشن ہوگا اور متوجہ ہوگا کہ امام سے غفلت کرنا ناپسند یدہ عمل ہے۔ یہ نورانیت ہے امام کے نور کے اثر سے ہر امام کے زمانے میں ان کے دوستوں کے دل روشن ہونگے اب اس روایت کی طرف توجہ دیںعن ابی خالد الکابلی قال: سالت ابا جعفر عن قول الله عزوجل فامنو بالله و رسوله و النور الذی انزلنا فقال یا ابا خالد النور واللّٰه الائمة من آل محمد الی یوم القیامة و هم و اللّٰه نور اللّٰه اندی انزل و هم واللّٰه نور اللّٰه فی السمٰوات و فی الارض واللّٰه یا ابا خالد لنور الامام فی قلوب الموٴمنین انور من الشمس المضیئة بالنّهار و هم واللّٰه ینوّرون قلوب الموٴمنین و ویجیب اللّٰه نور هم عمن یشاء فتظلم قلوبهم واللّٰه یا ابا خالد لا یحبّنا عبد و یتولّانا حتّی یُطهر اللّٰه قلبه، ولا یُطهر اللّٰه قلب عبد حتی یُسلم لنا، و یکون سلماً لنا، فاذاکان سلماً لنا سلّمه اللّٰه من شدید الحساب، وآمنه من فزع یوم القیامة الأکبر ۔

ابوخالد کابلی کہتاہے امام محمد باقر سے آیہ شریفہ کے بارے میں کہ جو اللہ فرماتاہے پس ایمان لے آؤ خدا پیغمبر اور اس نور پر کہ جس کو ہم نے نازل کیا ہے۔ اس آیہ کے بارے میں پوچھا حضرت نے فرمایا اے ابوخالد خدا کی قسم اس نور سے مراد آل محمد کے پیشوا ہیں کہ جو قیامت تک ہوں گے خدا کی قسم یہ اللہ کے نور ہیں کہ جس کو نازل کیا ہے خدا کی قسم یہ اللہ کے نور ہیں آسمانوں اور زمینوں میں خدا کی قسم اے ابا خالد امام کا نور جو مومنین کے دلوں میں روشنی دینے والا سورج سے زیادہ نورانی ہے خدا کی قسم یہ امام مومنین کے دلوں کو نورانی کریں گے خدا ان کے نور کو جس سے چاہے مخفی رکھتاہے پس ان کے دل تاریک ہوں گے خدا کی قسم اے ابوخالد کوئی بندہ بھی ہم سے محبت نہیں کرے گا مگر یہ کہ خدا اس کے دل کو پاک کرے گا اور خدا کسی بندہ کے دل کو پاک نہیں کرے گا یہاں تک وہ ہمارا فرمان بردار ہوگا خدا ایسے شخص کو قیامت کے حساب سے محفوظ رکھے گا اور اس کو قیامت کے خوف محفوظ رکھے گا کیا ممکن ہے کہ جس کا دل امام زمانہ کے نور سے نورانی ہو لیکن امام زمانہ سے غافل ہو

حضور کا احساس یا معرفت کی نشانی

غیبت کے زمانے میں ذمہ داریاں میں دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں۔

۱۔ ایک وہ ذمہ داری کہ جو زمانن غیبت کے ساتھ مخصوص ہے

۲۔ دوسرا وہ کہ غیبت اور حضور کے زمانے میں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں اس کی رعایت کی جائے۔

اگر انسان کا یہ عقیدہ ہو کہ سب کے سب خدا اور جانشین کے حضور میں ہیں تو زمان اور مکان ہمارے لئے محدودیت نہیں لاتاہے چونکہ نورانی مقام کو زمان یا مکان کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتاہے اسلئے زمان اور مکان مادہ کے قیود اور خصوصیات سے ہے اھل بیت کی نورانیت کی حضرت امیرالمومنین نے اس حدیث نورانیت میں تشریح کی ہے کہ یہ مادہ سے بالا ہے بلکہ مادہ کو بھی احاطہ کرتاہے اس بناء پر زمان اور مکان نورانیت کے مقام کی محدودیت ایجاد نہیں کرتاہے۔

اس مطلب کی وضاحت کے لئے حضرت امیرالمومنین کی حدیث نورانیت کی طرف رجوع کرسکتے ہیں کہ جو جناب سلمان اور ابوذر کے لئے فرمایا ہے حدیث لمبی ہونے کی وجہ سے یہاں بیان نہیں کرتاہوں ایک مہم روایت کہ جس کو امام محمد باقر نے فرمایا ہے اختصار کے ساتھ بحث کی مناسبت سے نقل کرتاہوں۔ ابوبصیر کہ جو حضرت امام محمد باقر کے اصحاب میں سے تھے فرمایا:

دخلت المسجد مع ابی جعفر علیه السلام والناس یدخلون و یخرجون فقال لی: سل الناس هل یروننی؟ فکلّ من لقیته قلت له: أرایت أباجعفر علیه السلام فیقول: لا و هو واقف حتی دخل ابوهارون المکفوف، قال: سل هذا؟ فقلت: هل رایت أباجعفر؟ فقال: ألیس هوا قائمأ، قال: و ما علمک؟ قال: و کیف لا أعلم و هو نور ساطع؟ قال: وسمعته یقول الرجل من أهل الافریقیة: ما حال راشدٍ؟ قال: خلّقته حیّاً صالحاً یقروٴک السلام قال: رحمه اللّٰه قال: مات؟ قال: نعم، قال: متی؟ قال: بعد خروجک بیومین قال: واللّٰه ما مرض و لا کان به علّة، قال: و انّما یموت مَن یموت من مرض أوعلّة قلت: من الرجل؟ قال: رجل لنا موالٍ ولنامحبّ ثمّ قال: أترون أنّه لیس لنا معکم أعینٌ ناظرة، أوسماع سامعة، لبئس مارأیتم، واللّٰه لا یخفی علینا شيء من أعمالکم فاحضرونا جمعیاً وعوّدو أنفسکم الخیر، وکونوا من أهله تعرفوا فانّي بهذا آمرو لدي وشیعتي ۔

ابوبصیر کہتاہے امام باقر کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا لوگ آتے جاتے تھے امام لوگوں کی نظروں سے غائب رہا اور مجھ سے فرمایا لوگوں سے پوچھ لو کیا وہ مجھے دیکھتے ہیں میں نے جس سے ملاقات کی اس سے پوچھا کیا مام باقر کو دیکھا اس نے کہا نہیں یہاں تک کہ نابینا ابوھارون داخل ہوا امام نے فرمایا اس مرد سے سوال کرو میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے امام باقر کو دیکھا ہے ابوھارون نے جواب میں کہا مگر یہ یہاں ہمارے پاس کھڑا نہیں ہے؟

ابوبصیر نے کہا میں نے اس سے پوچھا تجھے کیسے پتہ چلا کہ امام یہاں پر موجود ہے ابوھارون نے کہا کس طرح مجھے معلوم نہ ہو حالانکہ امام ایک واضح نور ہے اس وقت ابوبصیر کہتاہے کہ میں نے سنا کہ امام محمد باقر افریقہ کے ایک شخص سے فرماتے تھے کہ راشد کا کیا حال ہے اس نے کہا جب میں افریقہ سے نکلا تھا تو وہ زندہ اور صحیح سالم تھا آپ کو سلام پہنچاتا تھا۔ امام باقر نے فرمایا خداوند تعالیٰ اس پر رحمت کرے وہ اس دنیا سے چلا گیا ہے افریقائی مرد کہنے لگا کیا وہ مرگیا ہے امام نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کہ کس زمانے میں فوت ہوئے ہیں امام نے فرمایا آپ کے نکلنے کے دو دن بعد فوت ہوا ہے افریقائی نے کہا خدا کی قسم راشد نہ بیمار تھا نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف تھی امام نے اس سے فرمایا مگر جو بھی مرجاتاہے کسی بیماری یا درد کی وجہ سے مرجاتاہے ابو بصیر نے کہا میں نے امام سے پوچھا یہ افریقائی مرد کون ہے امام نے فرمایا یہ ہمیں اور ہمارے خاندان کو دوست رکھتاہے اس وقت امام نے فرمایا کیا تم عقیدہ رکھتے ہو ہمارے بارے میں کہ ہم تمہیں دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان نہیں رکھتے کس قدر تم برا عقیدہ رکھتے ہو خدا کی قسم ہمارے لئے تمہارے اعمال میں سے کوئی بھی پوشیدہ نہیں ہے پس ہم سب کو اپنے پاس حاضر جانو اور اپنے نفسوں کو نیک کام کرنے کی عادت ڈال دو تا کہ نیک کام کرنے والوں میں سے ہوجاؤ میں اپنے فرزندوں اور شیعوں کو جو کہاہے اس کا امر کرتاہوں۔

اس روایت میں بہت سے مطالب موجود ہیں ان مطالب کو دردک کرنے کے لئے مکمل طور پر غور کی ضرورت ہے۔ مہم نکات کہ جو اس روایت سے استفادہ کرتے ہیں کہ خاندان وحی کے حضور کا اعتقاد ہونا چاہئے اور اس واقعیت کا درک کرنا اس صورت میں ممکن ہے کہ جن شرائط کو امام باقر نے درک کرنے کے بارے میں فرمایا ہے اس کی رعایت کی جائے۔

مہم نکتہ کہ جس کے بارے میں آخر میں فرمایا ہے یہ ہے کہ آں حضرت نے تمام شیعوں اور اپنے فرزندوں کو وصیت کی اور حکم دیا ہے یہ اس پر دلیل ہے کہ تمام واقعیت کے شناخت کے لئے کوشش کریں اس روایت کی بناء پر ہر ایک بزرگوار عین اللہ ہیں کہ ہمارے اعمال اور رفتار کو دیکھتے ہیں اور اذن اللہ ہیں کہ ہمارے گفتار کو سنتے ہیں اس وقت جو بھی ان حقائق کو قبول نہیں کرتے ہیں اس کی خدمت کی گئی ہے اور فرماتے ہیں واقعاً برا اعتقاد رکھتے ہو خدا کی قسم کھائی کہ تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔

حضرت امام محمد باقر ان نکات کو بیان کرنے کے بعد چند نکات کی تصریح کرتے ہیں۔

ہم سب کو اپنے نزدیک حاضر جانیں

یہ کلام اھل بیت کی نورانیت کی طرف اشارہ ہے کہ نورانیت کی وجہ سے ہر زمانے پر محیط ہے ان میں سے کسی میں کوئی فرق نہیں ہے ہر شیعہ ہر زمانے میں ہر بزرگوار کو قریب جانے جس طرح انسان اپنے آپ کو خداوند کے حضور دیکھتاہے اس کو یہ بھی احساس ہو کہ اھل بیت کے سامنے حاضر ہے۔

واضح ہے کہ جو بھی اس حقیقت کا احساس کرے اور اس کو عملی قرار دے بہت بڑی تبدیلی اس میں پیدا ہوتی ہے۔

۲ ۔ اپنے نفسوں کو نیک کاموں کی عادت ڈالے اور نیک لوگوں میں سے ہوجائے اس بناء پر انسان نہ صرف برے کاموں اور ناپسندیدہ کی عادت نہ ڈالیں بلکہ اچھے کام انجام دینے کی عادت ڈالے۔ تھذیب نفس اور خود سازی کی کوشش کرے نہ اچھے سے اچھا کام انجام دینے سے متنفر نہ ہو بلکہ اچھا کام انجام دینے کی عادت ڈالے

اس مطلب کی توضیح کے لئے کہتا ہوں کہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کی دو صورتیں ممکن ہیں۔

۱ ۔ پہلی صورت اپنے نفس کی مخالفت کرتے ہوئے نفس کو اپنے کام بجالانے کے لئے فرمان بردار بنانا اگر اس قسم کی عادت ڈالے تو ایسی عادت انسان کی ترقی کا موجب ہے۔

۲ ۔ دوسری صورت یہ ہے ممکن ہے کہ نیک کام کرنے کی عادت ڈالی ہو بلکہ ایسے ماحول میں زمدگی گزارتاہے جس کی وجہ سے اچھے کام انجام دیتاہے اور عادت بن گئی مثال کے طور پر ایسے خاندان میں زندگی گزارتاہے کہ جو اول وقت میں نماز یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے پابند ہیں اس نے بھی ایسی عادت کی ہے اگر اس کے زندگی کے ماحول میں تبدیلی آجائے چونکہ ذاتاً اس نے عادت نہیں بنائی ہے زمانہ کے گزرنے کے ساتھ وہ شخص بھی تبدیل ہوجاتاہے چونکہ یہ عادت اپنے اپنے نفس اور اپنی ذات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ماحول کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں علاوہ اس کے کہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کے ساتھ خود بھی نیک لوگوں میں سے ہوجائے نہ کہ ماحول کی وجہ سے مجبور ہوجائے۔ سب کو حاجر جانیں اس سے مراد حضور علمی ہے یا حضور عینی ہے مرحوم علامہ مجلسی اس نے روایت کے بارے میں فرمایا ہے اگر فاحضروا کو باب افعال سے قرار دیں تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ جان لو ہم سب تمہارے پاس حاضر ہیں علم کی وجہ سے اس سے مراد علامہ مجلسی کی حضور علمی ہے ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام حضرت خضر کے بارے میں فرماتے ہیںانّه لیحضر حیث ما ذکر فمن ذکره منکم فلیسلّم علیه اس کو جس زمانے میں بھی پکارا جائے وہ حاضر ہوتے ہیں آپ میں سے جو بھی اس کا نام لے اس پر سلام کرے مرحوم آیة اللہ مستنبط اس کے بارے میں لکھتے ہیں حضرت خضر(علیہ السلام ) کا مقام امام زمانہ کا تابع اور غیبت میں ہیں پس حضرت حجت کا مقام کتنا بلند ہے حضور کا مسئلہ اھلبیت کے معارف میں اہم ترین مسائل میں سے ہے اور اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے اس لئے حضرت امیرالمومنین کے کلام کے ساتھ کلام کااختیار کرتے ہیں فرمایا احضروا اذ ان قلوبکم تفھموا اس فرمائش کی بناء پر اگر حقائق کو درک کرنا چاہتے ہو تو دل کے کان کو کھول دو تا کہ تم سجھ سکو۔

اھلبیت کی نظر میں امام زمانہ کی عظمت

۱ ۔ پیغمبر اسلامفرماتے ہیں میرے ماں باپ فدا ہو اس پر کہ جو میرا ہم نام ہے اور میرا شبیہہ ہے پیغمبر اسلام نے حضرت امیر سے امام عصر کی گفتگو کے بعد فرمایا میرے بعد ایک بہت زیادہ سخت فتنہ ہوگا اس میں ایک برگزیدہ اور راز دار شخص سقوط کرے گا یہ وہ وقت ہے کہ تیرے شیعے پانچویں آدمی کو یعنی ساتویں کی اولاد امام سے گم کردیں گے اس کے غائب ہونے کی وجہ سے زمین اور آسمان والے غمگین ہوں گے کتنے زیادہ مرد اور عورتیں ان کی غیبت کے موقع پر غمگین اور افسوس کریں گے اس کے بعد حجرت اپنے سر کو جھکا دیا اس کے بعد سر بلند کر کے فرمایا میرے ماں باپ اس پر قربان ہو وہ میرا ہم نام میری شبیہہ اور موسیٰ بن عمران کی شبیہہ ہوگا اس کے اوپر نور کی چادر ہے جو شعاع قدس سے روشن ہوتی ہے اس کلام کی علامہ مجلسی نے حضرت امیرالمومنین کی طرف نسبت دی ہے ۔

۳ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا ہے میرے ماں باپ فدا ہوں اس بہترین فرزند پر اس روایت کو جناب جابر جعفی نے امام جعفرصادق اور امام محمد باقر کے اصحاب سے نقل کیا ہے اب اس روایت کی طرف توجہ دیں جناب جابر جعفی فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر سے سنا کہ فرماتے تھے:سایر عمر بن الخطاب امیرالموٴمنین فقال: اخبرنی عن المهدی ما اسمه فقال امّا اسمه فان حبیبی عهد الیّ ان لا احدّث باسمه حتّٰی یبعثه اللّٰه قال: فاخبرنی عن صفته قال هو شابّ مربوع حسن الوجه حسن الشعر یسیل شعره علی منکبیه ونور وجهه یعلو سواد لحیته و راسه بابی ابن خیرة الاماء عمر بن خطاب حضرت امیرالمومنین کے ساتھ جارہے تھے کہا مجھے مھدی کے نام کے بارے میں بتادیں حضرت نے فرمایا حضرت مھدی کے نام کے بارے میں یہ ہے کہ میرے حبیب نے مجھے سے عہد و پیمان لیا ہے کہ میں ان کا نام کسی کو نہ بتاؤں یہاں تک کہ اللہ اس کو مبعوث کرے عرض کیا کہ ان کے صفات کے بارے میں بتادیں حضرت نے فرمایا وہ جوان ہے اور اسکا چہرہ اور بال خوبصورت ہیں اس کے بال شانے پر گرے ہوئے ہیں اس کے چہرے کا نور سر اور چہرے سے برتر ہے میرے باپ قربان ہوں۔ اس بہترین فرزند پر

۴ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا میرے ماں باپ قربان بہترین کنیز کے بیٹے پر اس کلام کو حضرت امیرالمومونین نے بار بار فرمایا حارث ھمدانی نے اس کو حضرت امیرالمومنین سے نقل کیا ہے آپ(علیہ السلام ) بزرگوار نے فرمایا ظالم کے ظلم کا خاتمہ بقیة اللہ کی تلوار سے ہوگا اور فرمایا ہے کہ پیالہ کے ساتھ تلخ زھر سب ظالموں کے منہ میں ڈالا جائے گا میرا باپ قربان اس بہترین کنیز کے بیٹے پر حضرت قائم کہ جو حضرت کے فرزندوں میں سے ہے ذلت اور خواری پر ان ظالموں کیلئے ہوگی ایک برتن صِبر سے (تلخ بوٹی) ان ظالموں کو پلایا جائے گا اور ان کو کوئی چیز نہیں دی جائے گی مگر تلوار اور فتنہ۔

۵ ۔ حضرت امیرالمومنین نے انے خطبوں میں کئی مرتبہ فرمایا کہ پیغمبر کے اھل بیت کو دیکھو اگر وہ آرام کرلیں تو تم بھی آرام کرنا اگر تم کو مدد کے لئے طلب کریں تو ان کی مدد کرنا خداوند تعالیٰ ایک مرد کو ظالموں کے خاتمہ کے لئے بھیجے گا میرے باپ قربان ہوں بہترین ہستی پر ظالموں کو نہیں دیں گے مگر تلوار کس قدر آشوب ہوگا آٹھ مہینے تک تلوار کو اپنے شانہ پر رکھے گا۔

اس خطبہ میں حضرت امیرالمومنین زمانے کو بدترین لوگوں سے پاک کرنے کی خوشخبری دے رہے ہیں کہ آٹھ مہینے تک ظالموں کے ساتھ جنگ جاری رکھے گا اس وقت عدل و انصاف سے جہاں پُر ہوگا ۔

۶ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا میں اس کو دیکھنے کا کس قدر مشتاق ہوں اس کلام میں حضرت امیرالمومنین فتنہ کے بعد امام کی خصلتوں کو بیان کرتے ہیں حضرت نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ میں کس قدر اس کو دیکھنے کا مشتاق ہوں۔

۷ ۔ امام باقر نے فرمایا اگر میں اس زمانے میں موجود ہوں تو اپنی جان کو اس صاحب امر کے لئے محفوظ رکھوں گا فرمایا: اما انّی لو ادرکت ذالک لا سبقیت نفسی لصاحب ھذا الامر آگاہ ہوجاؤ اگر میں اس زمان کو درک کرلوں تو اپنے آپ کو صاحب امر کے لئے محفوظ رکھوں گا۔

۸ ۔ میرے ماں باپ فدا ہوں ہوں اس پر کہ جو تمام دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا اس روایت کو ابو حمزہ ثمالی نے نقل کیا ہے وہ کہتاہے کہ میں ایک دن امام محمد باقر کی خدمت میں حاضر تھا اس وقت کچھ لوگ حضرت سے رخصت کر کے چلے گئے تو اس وقت مجھ سے فرمایا یاابا حمزه من المحتوم الذی حمة الله قیام قائمنا فمن شک فیما اقول لقی اللّٰه وهو به کافر ثم قال بابی امی المتمیٰ باسمی والمکنّی بکنیتی السابع من ولدی بابی من یملا الارض قسطاً و عدداً کما ملئت ظلما و جوراً یا ابا حمزه من ادرکه فسلّم له ما سلّم لمحمد و علی فقد وجبت له الجنة و من لم یسلّم فقد حرم اللّٰه علیه الجنة و ماواه النار و بئس مثوی الظالمین اے ابا حمزہ ان چیزوں میں سے کہ جن کو خدا نے حتمی قرار دیا ہے ہمارے قائم کا قیام ہے جو کچھ میں کہتاہوں اگر کوئی اس میں شک کرے تو اس کی ملاقات خدا کے ساتھ اس حالات میں ہوگی وہ کافر ہوگا میرے ماں باپ قربان ہو اس پر جو میرا ہمنام ہے میری کنیت پر جس کی کنیت رکھی گئی ہے اور وہ میری نسل میں ساتواں فرد ہوگا۔

میرا باپ اس پر فدا ہو کہ جو پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح ظلم وجور سے پر ہوچکا ہوگا اے ابا حمزہ جو بھی اس کے زمانے میں ہو اور اس کو تسلیم کرے جو جیسا کہ محمد اور علی کو تسلیم کیا ہے بہشت اس پر واجب ہے اور جو اس کو تسلیم نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے بہشت کو اس پر حرام قرار دیتاہے اور اس کا ٹھکانہ جھنم میں ہے یہ ظالموں کے لئے بری جگہ ہے۔ اگر میں اس زمانے میں موجود ہوں تو جب تک زندہ ہوں اسکی خدمت کرتا رہوں گا۔ اس کلام کو امام صادق نے اس وقت فرمایا جب آخری حجت کے بارے میں امام سے سوال کیا گیاهل ولدا القائم قال: لا ولوادرکته لخدمته ایام حیاتی کیا حضرت قائم متولد ہوئے ہیں حضرت نے فرمایا نہیں اگر میں اس کے زمانے کو درک کرلوں تو تمام زندگی اس کی خدمت کروں گا۔

۱۰ ۔ عباد بن محمد مداینی کہتے ہیں کہ امام صادق نے نماز ظہر کے بعد اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی میں نے کہا میری جان قربان آپ نے اپنے لئے دعا کی ہے فرمایا:دعوت لنور آل محمد وسائقهم والمنتقم بامراللّٰه من اعلائهم میں نے آل محمد اور آل محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے دشمنوں سے خدا کے حکم سے انتقام لینے والوں کے لئے دعا کی اگر چہ تمام وحی سے خاندان کے تمام افراد نور ہیں اور ان کو نورانی جاننا حقیقت میں خدا کی معرفت ہے۔

۱۱ ۔ حضرت امام رضا نے فرمایا میرے ماں باپ فدا ہوں اس پر جس کا نام میرے جد کا ہمنام ہے وہ میری اور موسیٰ بن عمران کی شبیہہ ہیں۔

آداب دعا

واضح ہو کہ دعا مانگنے والا دعاء کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے دعا مانگے تو حاجت روائی کے لئے عجیب غریب آثار دیکھے گا اس لئے دعاء کے آداب اور شرائط کو بیان کرتاہوں کتاب المختار من کلمات الامام المھدی میں کہتے ہیں دعا کے اداب کو دیکھیں کہ کس سے دعا مانگتے ہیں کس طرح دعا مانگتے ہیں کیوں دعا مانگتے ہیں یہ بھی دیکھیں کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں کس قدر سوال کرتے ہیں کس لئے سوال کرتے ہیں دعا یعنی طلب اجابت تمام موارد میں تمہاری جانب سے تمام امور کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں ۱ اگر دعاء کو شرائط کے تحت انجام نہ دیں۔ تو پھر اجابت کے منتظر نہ ہوجائیں چونکہ وہ ظاہر اور باطن کو جانتاہے ہوسکتاہے کہ کدا سے ایک چیز کو مانگیں تو اس باطن کے خلاف کو جانتا ہو۔ یہ بھی جاننا چاہیئے اگر خدا ہمیں دعا کا حکم نہ دیتا لیکن خلوص کے ساتھ ہماری دعا قبول ہوجاتی تو فضل کے ساتھ ہماری دعا قبول کرلیتا پس جب خدا دعا کی التجابت کا ضامن ہوا ہے جب اسے تمام شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے تو پھرکس طرح دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ دعاء کے آداب یہ ہیں۔

اول آداب :دعا بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ دعا کا آغاز کرے

پیغمبر خدا نے فرمایا ہےلا یردّ دعاء اوّله بسم الله الرحمن الرحیم جس دعا کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا رد نہیں ہوتی۔

دوسرا آداب: دعا سے پہلے خدا کی حمد و ثنا بجا لائے

ہمارے مولیٰ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کل دعاء لا یکون قبلہ تمحید فھو ابتر جس دعا سے پہلے خدا کی حمد و ثنا نہ کی جائے وہ دعا ناقص اور ابتر ہوتی ہے۔ ایک روایت میں ذکر ہوا ہے چنانچہ حضرت امیرالمومنین کی کتاب میں اس طرح ذکر ہوا ہے دعا سے پہلے حمد ثنا بجا لائیں اگر اللہ سے کوئی چیز مانگنا چاہیں تو سب سے پہلے اس کی تعریف کریں راوی کہتاہے میں نے کہا کہ میں کس طرح اس کی تعریف کروں فرمایا کہو:یا من اقرب الیّ من حبل الورید یا من یحول بین المرء و قبله یا من هو بالمنظر الاعلی یا من لیس کمثله شئی ۔ اے خدا کہ جو میری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اے وہ کہ جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل اور مانع ہوتے ہیں اے وہ ذات کہ جو منظر اعلیٰ ہے کہ جو بلند مرتبہ رکھتاہے اے وہ ذات کہ جو تیرے مانند کوئی نہیں ہے۔

تیسرا آداب: محمد اور آل محمد پر درود بھیجیں

پیغمبر خدا نے فرمایا :صلاتکم علی اجابة لدعائکم و زکاة لأعمالکم ۔تمہارا درود و صلوة بھیجنا مجھ پر تمہاری دعا کے قبول ہونے کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کے پاک و پاکیزہ ہونے کا سبب ہے۔

ہمارے مولیٰ امام جعفر صادق نے فرمایا:لا یزال الدعاء محبوباً حتیٰ یصلّی علی محمد و آل محمد ۔ دعا ہمیشہ حجاب میں ہوتی ہے یہاں تک محمد و آل محمد پر درود بھیجیں ایک دوسری حدیث میں فرمایا:من کانت له الی اللّٰه عز و جلّ حاجة فلیبدء بالصلوة علی محمد و آله ثم یسأله حاجتة ثم یختم بالصلوة علی محمد و آل محمد بانّ الله اکرم من ان یقبل الطرفین و یدع الوسط اذا کانت الصلوة علی محمد و آل محمد لا تحجب عنه ۔ جس کسی کو بھی خدا کی طرف کوئی حاجت ہو اس کو چاہیے کہ دعا کا آغاز محمد و آل محمد سے کرے اس کے بعد خدا سے اپنی حاجت مانگے اور دعا کے بعد محمد و آل محمد پر درود بھیجے چونکہ خداوند تعالیٰ کریم ہے کہ اس دعا کے دونوں اطراف کو قبول کرے اور درمیان کو چھوڑ دے اور قبول نہ کرے چونکہ محمد و آل محمد پر درود بھیجنے پر حجاب واقع نہیں ہوتاہے۔

چوتھا آداب: معصومین کو اپنا شفیع قرار دے

ہمارے مولا حضرت امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام ) نے فرمایا اگر کسی چیز کے بارے میں خدا کی طرف محتاج ہو تو کہو:اللّٰهم انّی اسألک بحق محمد و علی فان لهما عندک شاناً من الشان و قدراً من القدر فبحق ذالک القدر ان تصلّی علی محمد و آل محمد و ان تفعل بی کذا و کذا ۔بارالھٰا محمد و علی کو واسطہ دیکر سوال کرتاہوں چونکہ یہ دونوں بزرگ تیرے نزدیک بڑا مقام رکھتے ہیں اس شان اور منزلت کا واسطہ کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج دے اور میری فلان فلان حاجت کو قبول فرما۔

چونکہ جب بھی قیامت کا دن آئے گا کوئی ملک مقرب پیغمبر مرسل اور مومن ممتحن باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ اس دن ان دونوں کے محتاج ہیں زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیںاللّٰهم انّی لوجوجدت شفعاء اقرب الیک من محمد و اهل بیته الاخیار الائمة الابرار لجعلتهم شفعائی ۔

خداوندا اگر محمد اور اھل بیت سے زیادہ کوئی اور تیرے زیادہ نزدیک ہوتے تو تیری درگاہ میں ان کو شفیع قرار دیتا واضح ہے حاجت قبول ہونے کے لئے خدا کی درگاہ میں وسیلہ قرار دینا چاہیئے چونکہ خدانے قرآن مجید میں اس کے بارے میں حکم دیا ہے کہ جہاں فرماتاہےوابتغوا الیه الوسیلة اس کے ساتھ قرب حاصل کرنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو اور کوئی وسیلہ بھی محمد و آل محمد سے زیادہ خدا کے نزدیک نہیں ہے متعدد روایات میں بیان ہوا ہے کہ کلام الہی میں وسیلہ سے مراد ائمہ طاہرین ہیں۔

یہ منافات نہیں رکھتا کہ وسیلہ سے مراد سیڑھی سے لیں چونکہ وہاں سیڑھی سے مراد ترقی کا وسیلہ ہے۔

ایک روایت میں حضرت رسول سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: ھم العروة الوثقیٰ والوسیلہ الی اللہ یعنی یہی اھل بیت محکم رسی اور خدا کی طرف وسیلہ ہیں اس کے بعد اس آیہ شریفہ کی تلاوت کی فرمایا:یا ایهاالذین آمنو اتقو الله و ابتغو الیه الوسیلة یہ بھی احتمال ہے کہ ایمان اور تقویٰ کی صفت خدا تک وسیلہ کے لئے شرط ہو چونکہ وسیلہ ایمان اور تقویٰ کے بغیر فائدہ نہیں رکھتا اگر یہ دونوں اکٹھے موجود ہوں تب فائدہ دے گا چونکہ ولایت کا قبول کرنا ممکن نہیں ہے مگر ایمان اور تقویٰ کے ساتھ

پانچواں آداب دعا دعا سے پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔

ایک روایت امام صادق(علیہ السلام ) سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: انما ھی المدحة، ثم الاقرار بالذنب ثم المسالة، واللہ ما خرج عبد من ذنب الّا بالاقرار۔دعا میں سب سے پہلے خدا کی مدح و ثناء کرے اس کے بعد اپنے گناہوں کا اعتراف کرے پھر اس کے بعد اپنی حاجت مانگے۔

چھٹا آداب: دل سے غافل ہو کر دعا نہ مانگے بلکہ جب درگاہ الٰہی کی طرف متوجہ ہو تب دعا مانگے

چنانچہ امام صادق نے فرمایا :ان الله لا یستجیب دعاء بظهر قلب ساه فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن الا حاجبة ۔ جو شخص بھی خدا سے غافل دل کے ساتھ دعا مانگتاہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے جب دعا کرنا چاہو تو اپنے دل کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ اس وقت یقینا تمہاری دعا قبول ہوگی۔ چونکہ جو بھی پراگندہ فکر کے ساتھ خدا کو پکارے وہ حقیقت میں دعا نہیں مانگتاہے اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے صرف اس صورت میں دعا قبول ہوتی ہے جب توجہ قلبی کے ساتھ اللہ کو پکارے۔

ساتواں آداب: دعا کرنے والے کا لباس اور غذا پاکیزہ ہو

اچھی دعا اس وقت ہے کہ جب عمل اچھا ہو اچھا عمل حرام کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتاہے قرآن میں فرماتاہے: یا ایھا الرسل کُلُو من الطیباتِ و اعمَلو صالحاً اے پیامبر پاک و پاکیزہ غذا کھالو اور نیک کام انجام دو اس آیہ شریفہ میں نیک عمل میں حلال اور پاکیزہ غذا لازم و ملزوم ہے پیغمبر خدا نے فرمایامن احبّ ان یستجاب دعاؤه فلیطیب مطعمه و مکسبه جو چاہتاہے کہ اس کی دعا قبول ہوجائے تو وہ غذا اور اپنے کمائی کو پاک اور حلال قرار دے ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ طھّر ما کلک،و لا تدخل فی بطنک الهرام ۔ اپنی غذا کو پاکیزہ قرار دو اور احرام مال کو اپنے شکم میں داخل نہ کرو ایک اور روایت میں آیا ہےاطب کسبک تستجاب دعوتک فان الرجل یرفع القمة الی فیه حراماً فما تستجاب له اربعین یوماً ۔ اپنی کمائی کو پاکیزہ اور حلال قرار دو تا کہ تمہاری دعا مستجاب ہوجائے جب انسان ایک حرام لقمہ اپنے منہ میں ڈالتاہے تو اس کی دعا چالیس روز تک قبول نہیں ہوتی ہے۔ حدیث قدسی میں آیا ہےفمنک الدعاء و علیّ الاجابهة فلا تحجب عنّی دعوة آکل الحرام اے میرا بندہ تیری طرف سے دعا کرنا اور قبولیت میری طرف سے ہے کوئی بھی دعا مجھ سے پوشیدہ نہیں ہوتی ہے صرف اس شخص کی دعا کہ جس نے حرام کھایا ہو ہمارے مولا امام صادق(علیہ السلام ) نے فرمایا: من سرّہ ان یستجاب دعاؤہ فلیطیّب کسبہ جو شخص چاہتا ہو کہ اس کی دعا مستجاب ہوجائے اس کو چاہیئے کہ وہ اپنی کمائی کو پاکیزہ اور حلال قرار دے۔

ایک دوسری روایت میں فرمایا:اذا اراد اهدکم ان یستجاب له فلیطیب کسبه و لیخرج من مظالم الناس و ان الله لا یرفع دعاء عبد وفی بطنه هرام، او عنده مطلمة لاهد من خلقه ۔ تم میں سے جو شخص چاہے کہ اس کی دعا قبول ہو اس کو چاہیے کہ اس کی کمائی پاکیزہ اور حلال ہو اور خود لوگوں کے حقوق سے نجات حاصل کرلے چونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا کو قبول نہیں کرتاہے کہ جس کے پیٹ میں حرام ہے یا لوگوں کا حق اس کے ذمہ میں ہے اس کی دعا اوپر نہیں جاتی ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔

آٹھواں آداب: لوگوں کے حقوق جو اس کے ذمہ میں ہے اس کو ادا کرے

حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام ) نے فرمایا :انّ الله عزوجل یقول و عزتی وجلالی لا اجیب دعوة مظلوم دعانی فی مطلمة ظلمها و الاحد عنده مثل تلک المظلمة الله ۔تعالیٰ فرماتاہے: میری عزت اور جلال کی قسم اس مظلوم کی دعا کہ جس پر ظلم ہوا ہو حالانکہ اس نے خود بھی کسی اور پر اس قسم کا ظلم کیا ہو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا:انّ الله اوحی الی عیسیٰ بن مریم: قل للملاء من بنی اسرائیل انّی غیر مستجیب لاحد منکم دعوة و الاهد من خلقی قبله مظلمه خدا نے عیسیٰ پر وحی کی بنی اسرائیل کے گروہ سے کہو جس کے پاس کسی کا حق موجود ہے میں اس کی دعا کو قبول نہیں کرتاہوں۔

نواں آداب: گناہ حاجت قبول کرنے کے لئے مانع ہے

امام محمد باقر فرمایا:انّ العبد یسال الحاجة فیکون من شأنه قجاوٴ ها الی اجل قریب او الی وقت بطییٴ فیذنب العبد ذنباً فیقول الله تبارک و تعالیٰ للملک: لاتقضِ حاجته و احرمه ایاها فانّه تعرّض لسخطی و استوجب الحرمان منّی بندہ خدا سے ایک حاجت مانگتاہے بندہ کی شان یہ ہے کہ اس کی حاجت جلد یا ایک مدت کے بعد قبول کی جائے لیکن بندہ گناہ کا مرتکب ہوجاتاہے تو اللہ ایک فرشتہ سے فرماتاہے اس کی حاجت قبول نہ کرو اور اس کو اس سے محروم کردو اس نے مجھ کو ناراض کیا ہے اور محروم ہونے کا سزاوار میری طرف سے ہوا ہے۔

دسواں آداب: اجابت دعا کے لئے حسن ظن رکھتاہو

حسن ظن سے مراد طلب یقین ہے چونکہ خدا کی طرف سے وعدہ خلافی محال ہے اور آیہ کے مطابق ادعونی استجب لکم مجھے پکارو تا کہ میں تمہاری پکار کو قبول کرلوں خدا نے دعا مانگنے کا حکم دیا ہے اور دعا کے قبول کرنے کی ضمانت دی ہے پس اللہ وعدہ کلافی نہیں کرتاہے اسی طرح قرآن مجید میں فرمایا ہے:وعد الله لا یخلف الله وعده ولکنّ اکثر الناس لا یعلمون یہ اللہ کا وعدہ ہے اور خداوعدہ خلافی نہیں کرتاہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں خدا کس طرح وعدہ خلافی کرتاہے حالانکہ وہ بے نیاز مہربان اور رحیم ہے حدیث میں ہے۔فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن الاجابة ۔ جب دعا مانگنا چاہو تو اپنے دل کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ اس کے بعد دعا کے قبول ہونے پر یقین رکھو۔

گیارھواں آداب دعا: اللہ حضور سے بار بار دعا مانگو

علامہ مجلسی نے اس کو دعا کے آداب اور شرائط میں سے قرار دیا ہے اور فرمایا ہے آسمانی کتاب میں قرآن سے پہلے آیا ہے:لا تملّ من الدعاء فانی لااملّ من الاجابة دعا سے ملول اور تھک نہ جاوء چونکہ میں ملول اور تھکے ہوئے انسان کی دعا قبول نہیں کرتاہوں عبدالعزیز نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایاان العبد اذا دعا لم یزل الله فی حاجته ما لم یستعجل جب بندہ دعا مانگتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے یہاں تک کہ جلدی نہ کرے یعنی دعا سے ہاتھ نہ اٹھائے اسی طرح حضرت سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا:انّ العبد اذا اعجّل فقام لحاجته یقول الله تعالیٰ استعجل عبدی أتراه یظنّ اَنّ حوائجه بید غیری جب بندہ حاجت روائی میں جلدی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرا بندہ جلدی کرتاہے کیا وہ گمان کرتاہے کہ اس کی حاجت روائی میرے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔

پیغمبر اسلام نے فرمایا :انّ الله یحبّ السائل اللحوح ۔ اللہ تعالیٰ دعا میں اصرار کرنے والے کو دوست رکھتاہے ولید بن عقبہ ھجری نے روایت کی ہے اور کہتاہے کہ امام محمد باقر سے سنا کہ فرماتے تھے:والله لا یلح عبد مومن علی الله فی حاجة الّاقضاها له خدا کی قسم اللہ کا کوئی بندہ بھی اپنی حاجت اللہ سے مانگنے میں اصرار نہیں کرے گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے ابو صباح نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا:ان الله کره الحاح الناس بعضهم علی بعض فی المسألة واحبّ ذالک لنفسه انّ اللّه یحبّ ان یسال و یطلب ما عنده ۔ خداوند تعالیٰ بعض لوگوں سے بعض کی حاجت روائی میں اصرار کو دوست نہیں رکھتا ہے اور یہ اصرار اپنے لئے دوست رکھتاہے اللہ دوست رکھتاہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور جو اس کے پاس ہے خدا سے طلب کرے۔

احمد بن محمد بن ابونصر کہتاہے کہ میں نے امام رضا سے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہوجاؤں میں نے کئی سال سے خدا سے ایک حاجت طلب کی ہے (اب تک میری حاجت قبول نہیں ہوئی) میری حاجت میں تاخیر ہونے کی وجہ سے میرے دل میں کچھ احساس ہوا ہے حضرت نے فرمایا:یا احمد ایاک و الشیطان ان یکون له علیک سبیل حتی یقضک ان ابا جعفر کان یقول: ان الموٴمن یسأل اللّٰه حاجة فیوٴخّر عنه تعجیل اجابته حبّاً لصوته واستماع نحیبه ثم قال: والله ما أخر اللّٰه عن الموٴمنین ما یطلبون فی هذه الدّنیا خیر لهم ممّا عجّل لهم فیها، و أیّ شیء الدنیا ۔ اے احمد شیطان سے بچو اس چیز سے کہ کہیں تمہارے اوپر مسلط نہ ہو تا کہ تجھ کو رحمت الٰہی سے مایوس نہ کرے امام محمد باقر نے فرمایا یقینا ایک مومن مرد خدا سے ایک حاجت مانگتاہے پس اس کی حاجت قبول ہونے میں تاخیر ہوجاتی ہے وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی آواز کو دوست رکھتاہے اللہ چاہتاہے کہ اس کے نالہ و فریاد کو سنے اس کے بعد فرمایا خدا کی قسم خدا اس کی حاجت کو اس دنیا میں تاخیر کرتاہے یہ بہتر ہے کہ اس کی حاجت قبول ہو پتہ چلے کہ دنیا کی کیا قدر و قیمت ہے۔

امام صادق نے فرمایا:انّ العبد الوالی للّٰهِ یدعو اللّٰه فی الامر ینوبه فیقال الملک الموکّل به اقضِ لعبدی حاجته ولا تعجلها فانی اشتهی ان اسمع ندائه و صوته و ان العبد العدوالله لیدعوالله فی الامر ینوبه، فیقال للملک الموکل به: اقض لعبدی حاجته وعجلها فانی أکره أن أسمع نداء ه و صوته قال: فیقول الناس: ما اُعطی هذا الّاالکرامته، ومامنع هذا الّا لهوانه ۔ وہ بندہ جو اللہ کو دوست رکھتاہے کسی امر میں ہمیشہ اللہ کو پکارتاہے پس کہا جاتاہے اس فرشتہ کے لئے کہ جو اس کام کے لئے مقرر ہے کہ میرے بندہ کی حاجت پوری کرلے لیکن اس میں جلدی نہ کرو میں اس کی آواز کو سننا چاہتاہوں اور بتحقیق وہ بندہ جو اللہ کا دشمن ہے جب وہ کسی معاملہ میں خدا کو پکارتاہے پس جو فرشتہ اس کام کے لئے مقرر ہے اس سے کہتاہے جلد از جلد اس کی حاجت کوپوری کرلے میں اس کی آواز کو سننا پسند کرتاہوں اس وقت حضرت نے فرمایا اس دوست کی کرامت کی وجہ سے حاجت قبول دیر سے ہوئی اور اس دشمنی کی حاجت اس کی آواز کو ناپسند کرنے کی وجہ سے جلدی قبول ہوئی پھر حضرت نے ایک دوسری روایت میں فرمایا:لایزال الموٴمن بخیر و رخا ۷ و رحمة من الله ما لم یستعجل فیقنط فیترک الدعاء، قلت له: کیف یستعجل؟ قال: یقول: قددعوت منذکذا و کذا، ولا أری الاجابة ۔مومن ہمیشہ رحمت الٰہی میں ہے جب تک جلدی نہ کرے اور پشیمان نہ ہوجائے اور ہاتھ دعا سے نہ اٹھائے

میں نے عرض کیا وہ کس طرح جلدی کرتاہے فرمایا کہتاہے ایک مدت سے خدا کو پکارتاہوں لیکن دعاء کے قبول ہونے کے آثار نہیں دیکھتاہوں اسی طرح ایک اور کلام میں فرماتے ہیں:انّ المومن لیدعوالله فی حاجته فیقول عزوجلّ: اُخروااجابته شوقاً الی صوته ودعاه فاذا کان یوم القیامة قال الله: عبدی دعوتنی و اخرت اجابتک و ثوابک کذا وکذا و دعوتنی فی کذا و کذا فاخرت اجابتک و ثوابک کذا قال: فیتمنّی الموٴمن انّه لم یستجب له دعوة فی الدّنیا ممّا یری من حسن الثواب ۔ بتحقیق ایک مومن بندہ اپنی حاجت کے لئے اللہ کو پکارتاہے پس اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ میں نے دعا کی اجابت کو تاخیر کیا اور تمہارا ثواب یہ ہے اے میرے بندہ تو نے مجھے فلاں فلاں کے بارے میں پکارا میں نے تمہاری اجابت کو تاخیر کیا اور تمہارا ثواب یہ ہے اس وقت مومن تمنا کرے گا کاش میری دعا دنیا میں قبول نہ ہوتی اس کے بدلے میں آخرت میں زیادہ اجر اور ثواب دیکھتا تھا اس کے بعد حضرت نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:قال رسول الله رحم الله عبداً طلب من اللّٰه حاجة فالحّ فی الدنیا استجیب له اولم یستجب له و تلاهذه الآیة وادعوا ربّی عسیٰ ان لا اکون بدعاء ربّی شقیاً رسول خدا نے فرمایا : اگر کوئی بندہ خدا سے حاجت مانگے اصرار کرے تو خواہ اس کی دعا قبول ہو یا نہ ہو خدا اس شخص کو بخش دیتاہے اس کے بعد حضرت نے یہ آیہ پڑھی میں اپنے پروردگار کو پکارتاہوں اس امید سے کہ اپنے رب کو پکارنے کی وجہ سے بدبخت نہ بنوں تو رات میں آیا ہےیا موسیٰ من احبتنی لم ینسنی، و من رجا معروفی ألحّ فی مسألتی یا موسی ! انّی لست بغافل عن خلقی و لکن اُحبّ ان تسمع ملائکتی ضجیج الدّعاء من عبادی، و تری حفظتی تقرب بنی آدم الیَّ بما أنا مقوّبهم علیه و مسبّبه لهم یا موسی! قل لبنی اسرائیل: لاتبطرنّکم النعمة فیعاجلکم السلب، ولاتغفلوا عن الشکر فیقارعکم الذلآ، وألحوا فی الدّعاء تشملکم الرحمة بالاجابة، و تهنئکم العافیة ۔ اے موسیٰ جو مجھ کو دوست رکھے میں اس کو فراموش نہیں کرتاہوں

اور جو بھی میری نیکی کی امید رکھتاہے وہ مجھ سے سوال کرنے میں اصرار کرتاہے اے موسیٰ میں اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہوں لیکن میں چاہتاہوں کہ میرے بندوں کی دعا کے چیخ و پکار کو میرے ملائکہ سنیں۔ اور حافظان عرش کو بنی آدم کے تقرب ان کے اختیار میں دے دیا ہے ۔ دعا کے اسباب کو ان کے لئے فراہم کیا ہے اے موسیٰ بنی اسرائیل سے کہہ دیں کہ نعمت طغیان کا باعث اور تمہاری ناشکری کا سبب نہ بنے تا کہ نعمت کو تم سے سلب کروں اور لشکر سے غافل نہ ہوجاؤ تا کہ ذلت تمہاری دامن گیر نہ ہوجائے دعا میں اصرار کرو تا کہ اللہ کی رحمت تمہارے اوپر نازل ہوجائے عافیت اور سلامتی تمہارے لئے گوارا ہو۔ امام باقر نے فرمایا:لایلح عبد مومن علی الله فی حاجته الا قضاها له ۔ کوئی بندہ بھی اپنی حاجت میں خدا سے دعا کے ذریعے اصرار نہیں کرتاہے مگر یہ کہ اللہ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے۔

منصور صیقل کہتاہےقلت لابی عبد الله ربّما دعا الرجل فاستجیب له ثم اخّر ذالک الای حین قال: فقال: نعم قلت ولِمَ ذالک لیزداد من الدعا قال: نعم میں نے امام جعفر صادق سے عرض کیا بسا اوقات ایک شخص دعا کرتاہے اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے لیکن ایک مدت تک تاخیر ہوجاتی ہے کیا ایسا ہی ہے حضرت نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے میں نے عرض کیا کیوں تاخیر ہوجاتی ہے کیا اس لئے کہ زیادہ سے زیادہ دعا مانگے حضرت نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے اب تک جو کچھ بیان کیا گیا وہ دعا کے آداب اور شرائط کے بارے میں تھا اب یہ کہ بعض دعا کے آداب خاص اہمیت کے حامل ہیں اس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتاہوں۔

دعاء کے اصرار کی اہمیت

دعا کے تکرار کرنے سے حاجت قبول ہوتی ہے یہ نکتہ بہت زیادہ مہم ہے البتہ ایک دفعہ دعا مانگنے سے حاجت قبول نہیں ہوتی ہے اس سے مقصد حل نہیں ہوتاہے اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال بیان کرتاہوں تا کہ میرا مطلب واضح ہوجائے بہت سی جسمانی بیماریوں میں اگر بیماری معمولی ہو یا ابھی ابھی بیمار ہوا ہو اور بیماری پرانی نہ ہوچکی ہو تو اس کا علاج دوائی کے ایک ہی نسخہ سے کیا جاتاہے لیکن اگر بیماری پرانی ہو انسان کے بدن میں جڑیں موجود ہوں تو ایسی صورت میں معلوم ہے کہ ایک نسخہ سے بیماری دور نہیں ہوتی ہے اس کے لئے بار بار دوائی دینے کی ضرورت ہے تا کہ بیماری دور ہو روحانی امراض میں بھی یہی حالت ہے اگر کسی کو روحانی بیماری لگی تھی بیماری اتنی مہم نہیں تھی لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ اور طولانی ہونے کے ساتھ بیماری نے جڑیں پکڑی ہیں ایسی صورت میں ایک دفعہ دعا پڑھنے سے بیماری دور نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لئے بار بار دعا مانگنے کی ضرورت ہے جس طرح جسمانی بیماری میں انسان بار بار دوا کا محتاج ہوتاہے تا کہ بیماری دور ہو اسی طرح روح کی بیماری کے لئے بار بار دعا کی ضرورت ہے البتہ ممکن ہے کہ بعض افراد کے ایک دفعہ دعا پڑھنے سے ان کی دعا قبول ہوجائے لیکن عام لوگوں کو نہیں چاہیئے کہ یہ بھی اس کی طرح توقع رکھیں کہ ایک دفعہ دعا پڑھنے سے دعا قبول ہوگی۔ یہی ایک وجہ ہے کہ دعا میں اصرار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

(استجاب دعا پر انسان کو یقین ہو)

دعا کے قبول ہونے میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔

۱۔موانع قلبی دور ہو ۲۔ اور باطنی نورانیت موجود ہو۔

دعا کا تیر ھدف تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے ان دو چیزوں کو ایجاد کرے تا کہ اضطرار تک نوبت نہ پہنچے دل کی تاریکی کو دور کرکے اس میں نورانیت ایجاد کرے چونکہ یقین کا لازمہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں یقین کا نور پیدا ہوتاہے۔

حضرت امام محمد باقر(علیہ السلام ) فرماتے ہیں لا نور کنوار الیقین یقین کے نور کی طرح کوئی نور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ جب انسان کو یقین ھاسل ہوجائے تو اس کے دل میں روشنی پائی جاتی ہے اس کے دل سے تاریکی زائل ہوجاتی ہے چونکہ نور اور ظلمت دونوں ایک جگہ پر جمع نہیں ہوسکتے ہیں مرحوم آیة اللہ خوئیبسم الله الرحمن الرحیم کے اثرات کے رابطہ میں جب کہ یقین کے ساتھ کہا گیا ہو اس بارے میں آقائی خوئی نے ایک عجیب واقعہ شیخ احمد سے نقل کیا ہے جو کہ مرحوم میرزائی شیرازی کے یہاں خادم تھا اس نے کہا مرحوم شیرازی کا ایک اور خادم تھا کہ جس کا نام شیخ محمد تھا مرحوم میرزا کے فوت ہونے کے بعد لوگوں سے الگ تھلک رہا ایک دن ایک شخص شیخ محمد کے پاس گیا سورج غروب ہوتے وقت چراغ کو پانی سے بھر دیا اور اس کو روشن کیا اور چراغ جل رہا تھا اس شخص نے بہت زیادہ تعجب کیا اور اس کی وجہ کے بارے میں پوچھا شیخ محمد نے اس کے جواب میں کہا کہ شیخ مرحوم میرزا کے فوت ہونے کے بعد اس کے غم میں لوگوں سے الگ رہا اور اپنے گھر میں رہا میں بہت زیادہ غمگین ہوا تھا دن کے آخری وقت ایک جوان میرے پاس آیا کہ جو عرب کا طالب علم دکھائی دیتا تھا میں ان سے مانوس ہوا غروب آفتاب تک میرے پاس رہا ان کے بیانات سے بہت زیادہ خوش ہوا بہت لذت حاسل ہوئی میرے دل سے تمام غم دور ہوا چند دن میرے پاس رہے اور میں اس کے ساتھ مانوس ہوا ایک دن وہ مجھ سے گفتگو کرتا تھا کہ خیال آیا کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ غروب آفتاب کے وقت دکانیں بند کردیتے تھے اور ساری رات بند کرتے تھے اس لئے مجھے فکر ہوا اگر میں ان سے اجازت لیکر تیل کے لئے باہر چلا جاتاہوں تو میں ان کی باتوں کے فیض سے محروم ہوجاتاہوں اور اگر تیل نہ خریدوں تو ساری رات تاریکی میں گزاروں اس وقت میری حالت کو دیکھا اور میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تجھ کو کیا ہوا ہے کہ میری باتوں کو اچھی طرح نہیں سنتے ہو میں نے کہا میرا دل آپکی طرف متوجہ ہے فرمایا نہیں تم میری باتوں کو اچھی طرح نہٰں سنتے ہو میں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے فرمایا بہت زیادہ تعجب ہے اس قدر تمہارے لئے حدیث بیان کی اوربسم الله الرحمن الرحیم کی فضیلت بیان کی اس قدر بے پرواہ نہیں ہوئے کہ تیل کے خریدنے سے بے نیاز ہوجائے میں نے کہا مجھے یاد نہیں ہے فرمایا بھول گئے ہو جو کچھبسم الله الرحمن الرحیم خواص اور فوائد بیان کرچکا ہوں اس کے فوائد یہ ہیں کہ آپ جس قصد کے لئے کہیں وہ مقصود حاصل ہوتاہے آپ اپنے چراغ کو پانی سے بھردیں اس مقصد کے ساتھ کہ پانی میں تیل کی خاصیت ہو کہوبسم الله الرحمن الرحیم ۔

میں نے قبول کیا میں اٹھا اسی قصد سے چراغ کو پانی سے بھر دیا اس وقت میں نے کہا بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کے بعد چراغ روشن ہوا اور اس سے شعلہ بلند ہوا اس وقت سے لیکر اب تک جب بھی چراغ خالی ہوجاتاہے اس کو پانی سے بھر دیتاہوں اور بسم اللہ کہتاہوں چراغ روشن ہوجاتاہے مرحوم آیة اللہ خوئی نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا تعجب یہ ہے کہ اس واقعہ کے مشہور ہونے کے بعد بھی مرحوم شیخ محمد سے اس کا اثر ختم نہیں ہوا۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ بسم اللہ کو عقیدہ اور یقین کے ساتھ پڑھنے پر ظاہراً یہ اثر تعجب آور اور خارق العادہ ہے کہ جن کے پاس اسم اعظم ہے وہ بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں ان کا وہ عمل جو دوسروں سے ان کو امتیاز پیدا کرتاہے وہ ان کا یقین ہے چونکہ ان کے یقین میں ایک خاص اثر پایا جاتاہے۔ یقین کے تعجب کو بیان کرنے کے لئے اسی ایک واقعہ پر اکتفا کرتاہوں۔

امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگنا ضروری ہے۔

دعا کے شرائط اور آداب بیان کرنے کے ساتھ بعد کہتاہوں سب سے مہم اور سب سے ضروری امام کے غیبت کے زمانے میں ظہور امام کے لئے دعا مانگنا ہے چونکہ صاحب الزمان ہمارے زمانے کے امام ہیں بلکہ تمام جہان کے سرپرست ہیں مگر کیا ہم اس سے غافل رہ سکتے ہیں حالانکہ وہ ہمارے امام ہیں اور امام سے غافل رہنا اصول دین کے ایک اصل سے غافل ہونا ہے پس ضروری ہے کہ حضرت کے ظہور کے لئے دعا کریں اپنے اور رشتہ داروں کے لئے دعا کرنے سے پہلے صاحب الزمان کے لئے دعا مانگے مرحوم سید بن طاوؤس اپنی کتاب جمال الاسبوع میں لکھتے ہیں ہمارے پیشوا امام کے لئے دعا مانگنے کے لئے خاص اہمیت کے قائل تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کے لئے دعا مانگنا اھل اسلام اور ایمان کے وظائف میں مہم ترین چیز ہے امام جعفر صادق(علیہ السلام ) نماز ظہر کے بعد امام زمانہ کے حق میں دعا مانگتے تھے امام کاظم بھی امام زمانہ کے لئے دعا مانگتے تھے

ہمیں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے امام زمانہ کے لئے دعا مانگنی چاہیئے کتاب فلاح السائل میں اپنے بھائیوں کے لئے دعا کے فضائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں اگر اپنے دینی بھائیوں کے لئے دعا مانگنے میں اتنی فضیلت ہے تو ہمارے امام اور بادشاہ کے لئے کہ جو تیرے وجود کے لئے علت ہے اس کے لئے دعاء مانگنے کی کتنی فضیلت ہوگی تو اچھی طرح جانتاہے اور تمہارا عقیدہ ہے اگر امام زمانہ نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ تجھ کو خلق نہ کرتا بلکہ کسی کو بھی خلق نہ کرتا لطف الٰہی ہے کہ اس ھستی کے وجود سے تو اور دوسرے موجود ہیں خبردار یہ گمان نہ کرنا کہ امام زمان تمہاری دعا کا محتاج ہے افسوس اگر تمہارا یہ عقیدہ ہے تو تم اپنے عقیدہ میں بیمار ہو بلکہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ اس لئے ہے ان کا حق عظیم ہے ان کا بڑا احسان ہے اور ہم انکے حق کو پہچانیں اب واضح ہے اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے لئے دعا کرنے سے پہلے امام زمانہ کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اجابت کے دروازوں کو جلد از جلد تمہارے لئے کھول دیتاہے چونکہ تو نے دعا کے قبول کے دروازوں کو اپنے جرائم قفل کے ساتھ بند کردیا ہے اس بناء پر اگر دعا اپنے مولیٰ کے لئے کروگے تو امید ہے کہ کہ اس بزرگوار کی وجہ سے تمہارے لئے اجابت کے دروازے کھل جائیں تا کہ تو اور دوسرے کہ جن کے لئے دعا کرتے ہو فضل اور رحمت الٰہی میں شامل ہوجائیں

چونکہ تم نے اپنی دعا میں ان کی رسی کو تھاما ہے اس دعا کی اہمیت ائمہ طاھرین کی نظر میں کیا ہے کیا انہوں نے دعا مانگنے میں بے اعتنائی کی ہے ہرگز نہیں اس بناء پر واجب نمازوں میں حضرت کے لئے دعا کرنے سے کوتاہی نہ کریں۔ ایک صحیح روایت محمد بن علی بن محبوب سے مروی ہے کہ شیخ قمی اس زمانے میں موجود تھے وہ اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایاکلمّا کلّمت اللّٰه تعالیٰ فی صلوة الفریضة فلیس بکلام واجب نماز میں جو بات بھی خدا کے ساتھ کلام کریں وہ کلام نہیں ہے۔ (یعنی دعا نماز کو باطل نہیں کرتی ہے) پھر تکرار کرتاہوں ان دلائل کو ذکر کرنے کے بعد امام کے تعجیل ظہور کے لئے دعا کو اہمیت نہ دینے میں کوئی عذر باقی نہیں رہتاہے۔

صاحب مکیال المکارم فرماتے ہیں جیسا کہ آیات اور روایات دلالت کرتی ہیں کہ دعا سب سے بڑی عبادت ہے اور اس میں شک نہیں کہ سب سے مہم ترین دعا اس کے لئے ہو کہ خداوند تعالیٰ نے جن کے لئے تمام لوگوں پر دعا واجب کیا ہے ان کے وجود کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے رحمت سے نوازا ہے اس میں کوئی شک نہیں خدا کے ساتھ مشغول ہونے سے مراد خداکی عبادت میں مشغول ہونا ہے اور ہمیشہ دعا کرنا یہ سبب بنتاہے کہ خدا ان کو عبادت میں مدد کرے اور اس کو اپنے اولیاء میں سے قرار دیا ہے اس بناء پر اھل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ جہاں کہیں بھی ہو اور جس زمانے میں بھی ہو امام کی تعجیلِ ظہور کے لئے دعا مانگے اس مطلب کے ساتھ جو مناسب ہے اور ہمارے گفتار کی تائید کرتی ہے یہ ہے کہ حضرت امام حسن نے عالم خواب میں یا مکاشفہ میں مرحوم آیة اللہ میرزا محمد باقر فقیہ سے فرمایا منبروں پر لوگوں سے کہیں اور لوگوں کو حکم دیں کہ توبہ کریں اور آخری حجت کے تعجیل ظہور کے لئے دعا مانگیں حضرت حجت کے لئے دعا مانگنا نماز میت کی طرح نہیں ہے کہ واجب کفائی ہو ایک شخص کے انجام دینے سے دوسروں سے ساقط ہو بلکہ پانچ وقت کی نمازوں کی طرح ہے کہ ہر بالغ فرد پر واجب ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگیں جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگنا ضروری ہے۔

عالم میں سب سے مظلوم فرد

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل نہ صرف عبادات میں بلکہ عمومی مجالس میں بھی امام کے تعجیل ظہور کی دعا سے غافل ہیں اگر ہم جانیں کہ اب تک ہم کس قدر غافل ہیں تب معلوم ہوگا کہ حضرت اس عالم میں سب سے زیادہ مظلو م ہے اب چند واقعات حضرت کی مظلومیت کے بارے میں بیان کرتاہوں۔

۱ ۔ حجة الاسلام و المسلمین مرحوم آقائی حاج سید اسمعیل سے نقل کیا گیا ہے میں زیارت کے لئے مشرف ہوا حضرت سید الشہداء کے حرم میں زیارت میں مشغول تھا چونکہ زائرین کی دعا امام حسین کے حرم کے سرھانے مستجاب ہوتی ہے وہاں میں نے خدا سے درخواست کی کہ مجھے امام زمانہ کی زیارت سے مشرف فرما مجھے ان کی زیارت نصیب فرما میں زیارت میں مشغول تھا کہ اتنے میں امام نے ظہور فرمایا اگر چہ میں نے اس وقت آخری حجت کو نہیں پہچانا لیکن میں ان سے زیادہ متاثر ہوا سلام کے بعد ان سے پوچھا آقا آپ کون ہیں انہوں نے فرمایا میں عالم میں سب سے زیادہ مظلوم ہوں میں متوجہ نہ ہوا اپنے آپ سے کہا شاید یہ نجف کے بزرگ علماء میں سے ہیں چونکہ لوگوں نے ان کی طرف توجہ نہیں دی اس لئے اپنے آپ کو عالم میں سب سے زیادہ مظلوم جانتے ہیں اتنے میں اچاک متوجہ ہوا کہ کوئی میرے پاس نہیں ہے اس وقت میں نے سمجھا کہ عالم میں سب سے زیادہ مظلوم امام زمانہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اور میں ان کے حضور کی نعمت سے جلد محروم ہوا۔

۲ ۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائی حاج سید احمد موسوی امام عصر کے عاشقان میں سے تھے وہ حجة الاسلام و المسلمین مرحوم آقائے شیخ محمد جعفر جوادی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ عالم کشف میں یا عالم شھود میں حضرت حجة کی خدمت میں مشرف ہوئے ان کو زیادہ غمگین دیکھتے ہیں حضرت سے احوال پرسی کرتے ہیں حضرت فرماتے ہیں میرا دل خون ہے میرا دل خون ہے۔

۳ ۔ حضرت امام حسین نے عالم مکاشفہ میں قسم کے علماء میں سے ایک سے فرمایا ہمارے مہدی اپنے زمانے میں مظلوم میں حضرت مہدی کے بارے میں گفتگو کریں اور لکھیں جو بھی اس معصوم کی شخصیت کے بارے میں کہیں گویا تمام معصومین کے لئے کہا ہے چونکہ تمام معصومین عصمت ولایت اور امامت میں ایک ہیں چونکہ زمانہ حضرت مہدی(علیہ السلام ) کا زمانہ ہے اس لئے سزاوار ہے اس کے بارے میں کچھ مطالب کہے جائیں آخر میں فرمایا پھر تاکید کرتاہوں ہمارے مہدی کے بارے میں زیادہ گفتگو کریں اور لکھیں کہ ہمارا مہدی مظلوم ہے زیادہ سے زیادہ امام مہدی کے بارے میں لکھنا اور کہنا چاہیئے۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18