صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام 11%

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35184 / ڈاؤنلوڈ: 5218
سائز سائز سائز

باب اوّل

نمازوں کے بارے میں

اس باب میں ان نمازوں کے بارے میں ہیں کہ جو حضرت صاحب الزمان سے منقول ہیں یا جو نماز یں حضرت کے لئے ذکر کی گئی ہیں ان نمازوں کو یہاں نقل کرتا ہوں۔

۱ ۔امام زمانہ کی نماز

مرحوم راوندی لکھتے ہیں کہ امام زمان کی نماز دو رکعت ہیں ہر رکعت میں سورہ حمد ایک مرتبہ پڑھے جب ایاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچے کہ اس کو ایک سو مرتبہ پڑھے اور نماز کے بعد سو مرتبہ پیغمبر پر درود بھیجے اس کے بعد اپنی حاجت کو خدا سے مانگے یہ نماز کی خاص زمان اور مکان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس میں سورہ اور مخصوص دعا وارد نہیں ہے۔

۲ ۔ امام زمان کی ایک اور نماز

مرحوم سید بن طاوؤس فرماتے ہیں یہ نماز بھی دو رعکت ہے سورہ حمد کو پڑھے جب ایاک نعبد و ایاک نستعین تک پہنچے اس وقت سو مرتبہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کو پڑھے اس کے بعد سورہ کو تمام کرے اس کے بعد ایک دفعہ سورہ اخلاص کو پڑھے اس کے بعد یہ دعا پڑھے دعاء

أَللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلاءُ ، وَبَرِحَ الْخِفاءُ ، وَانْكَشَفَ الْغِطاءُ ، وَضاقَتِ الْأَرْضُ بِما وَسِعَتِ السَّماءُ ، وَ إِلَيْكَ يا رَبِّ الْمُشْتَكى ، وَعَلَيْكَ الْمُعَوَّلُ فِي الشِّدَّةِ وَالرَّخاءِ أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، اَلَّذينَ أَمَرْتَنا بِطاعَتِهِمْ

وَعَجِّلِ اللَّهُمَّ فَرَجَهُمْ بِقائِمِهِمْ ، وَأَظْهِرْ إِعْزازَهُ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِىُّ يا مُحَمَّدُ ، إِكْفِياني فَإِنَّكُما كافِيايَ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، اُنْصُراني فَإِنَّكُما ناصِرايَ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، إِحْفَظاني فَإِنَّكُما حافِظايَ ، يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ثلاث مرّة ، اَلْغَوْثَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ ، أَدْرِكْني أَدْرِكْني أَدْرِكْني ، اَلْأَمانَ الْأَمانَ الْأَمانَ.( جمال الاُسبوع : ۱۸۱ ، البحار : ۱۹۱/۹۱ )

یہ نماز بھی کسی مخصوص فرمان کے اور مکان کے ساتھ مختص نہیں ہے لیکن آخر میں سورہ اخلاص اور اسی طرح دعاؤں کا پڑھنا چاہیے جنکا ذکر کیا گیا ہے۔

۳ ۔مسجد جمکران کی نماز

جناب حسن بن مثلہ جمکرانی لکھتے ہیں کہ امام زمان نے فرمایا کہ لوگوں سے کہو کہ اس مکان کی طرف زیادہ رغبت کریں اس جگہ کا احترام کریں اس مکان میں چار رکعت نماز پڑھیں دو رعکت تحیہ مسجد کہ ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور سو مرتبہ سورہ اخلاص کو پڑھے اور ہر رکوع اور سجدہ میں سات مرتبہ ذکر پڑھے اور دو رکعت نماز صاحب الزمان پڑھے اس ترتیب سے:

سورہ فاتحہ پڑھے اور جب ایّاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچے تو اس کو سو مرتبہ پڑھے جب نماز تمام کرے تو تھیلیل کہے اور حضرت فاطمہ الزھرا کی تسبیح پڑھے جب تسبیح تمام کرے تو سو مرتبہ محمد و آل محمد پر درود بھیجے جو بھی یہ نماز پڑھے گویا ایسا ہے کہ اس نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے۔

۴ ۔ امام زمانہ کی نماز حلّہ اور نعمانیہ میں

عالم جلیل میرزا عبداللہ اصفہانی کتاب ریاض العلماء کے جلد پنجم میں شیخ ابن ابوجواد نعمانی کے حالات میں لکھتے ہیں یہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنھوں نے غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانہ سے ملاقات کی ہے اور اس نے حضرت سے ایک روایت نقل کی ہے۔

کسی ایک کتاب میں دیکھا کہ شاگرد شہید کے خط سے لکھا ہوا تھا کہ ابن ابوجواد نعمانی نے حضرت مہدی کو دیکھا اور حضرت نے عرض کیا اے میرے مولا آپ ایک مقام نعمانیہ میں اور ایک مقام حلہ میں رکھتے ہیں وہاں کس وقت تشریف رکھتے ہیں حضرت نے فرمایا منگل کو دن اور رات نعمانیہ میں اور حلہ میں جمعہ کو دن اور رات ہوتاہوں لیکن حلہ کے لوگ میرے مقام کا احترام اور آداب کی رعایت نہیں کرتے ہیں جو بھی احترام کے ساتھ وہاں پر داخل ہو اور اس جگہ کو محترم شمار کرے مجھ پر اور اماموں کو سلام کرے نیز مجھ پر اور اماموں پر بارہ مرتبہ درود بھیجے اس کے بعد دو رکعت نماز‘ دو سوروں کے ساتھ پڑھے اور نماز میں خدا کے ساتھ مناجات کرے جو حاجات بھی رکھتاہو اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتاہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں میں نے عرض کیا اے میرے مولا ان مناجات کو یاد کرادیں فرمایا کہو ص ۱۳۰

حضرت نے تین مرتبہ اس دعا کو تکرار کیا یہاں تک کہ میں نے اس کو سمجھا اور حفظ کی

۵ ۔ امام زمانہ کی ایک اور نماز

جناب الخلود میں نقل کیا ہے رات سوتے وقت ایک پاک برتن میں پانی ڈال کر پاک کپڑا اس پر ڈال کر سرہانے رکھے جب آخری شب نماز شب کے لئے بیدار ہوجائے تو اس سے تین گھونٹ پانی پی لے اس کے بعد باقی پانی سے وضو کرلے اور قبلہ کی طرف منہ کرے اذان اور اقامہ کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اس میں جو سورہ پڑھنا چاہئے پڑھ سکتاہے اور رکوع میں پچیس ( ۲۵) مرتبہ کہے یا غیاث المستغیثین اور رکوع کے بعد پچیس ( ۲۵) مرتبہ یہی پڑھے اسی طرح پہلے سجدہ میں بھی اور سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد بھی ہر ایک میں پچیس مرتبہ کہے اور دوسری رکعت کو بھی اسی کیفیت کے ساتھ انجام دے مجموعاً تین سو مرتبہ کہے نماز کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرے اور تیس مرتبہ کہے من العبد الذلیل الی المولی الجلیل اس کے بعد اپنی حاجت مانگے انشاء اللہ جلد از جلد حاجت قبول ہوگی۔ اس نماز کو کتاب جنات الخود میں امام زمانہ کی طرف نسبت دی ہے لیکن مرحوم محدث قمی نے کتاب الباقیات الصالحات میں اس کو نماز استغاثہ کے عنوان سے نقل کیا ہے اور اس کو امام زمانہ کی طرف نسبت نہیں دی ہے۔

۶ ۔ نماز اور دعائے توجہ

احمد بن ابراھیم کہتاہے امام زمانہ کی زیارت کا شوق میرے دل میں پیدا ہوا اس لئے جناب ابوجعفر محمد بن عثمان سے شکایت کی جو نواب اربعہ میں سے ایک تھا جناب محمد بن عثمان نے فرمایا کہ کیا دل سے آرزو رکھتے ہو کہ امام زمانہ کی ملاقات ہوجائے میں نے کہا ہاں فرمایا خداوند تعالیٰ کے تمہاری آرزو کو پورا کرے میں تمہارا معاملہ آسان دیکھتاہوں ای ابا عبداللہ ان کی زیارت کا التماس نہ کرو چونکہ غیبت کبریٰ کے دوران ان کی زیارت کا اشتیاق رہتاہے لیکن اس اجتماع سے ان سے سوال نہیں کیا جاسکتاہے یہ آیات الٰہی میں سے ہے لیکن اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے لیکن جب آپ اس کی طرف توجہ کرنا چاہیں تو اس زیارت کے ساتھ حضرت کی طرف متوجہ ہوجائیں زیارت اس طرح کریں بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور تمام رکعتوں میں سورہ قل ھو اللہ پڑھے جب محمد و آل محمد پر درود بھیجے تو اس طرح سے خدا سے کلام کرےسلام علی آل یسین ذالک وهوالفضل المبین من عند الله والله ذوالفضل العظیم امامه من یهدیه صراطه المستقیم قد آتاکم الله خلافته یا آل یاسین ۔

۷ ۔ نماز اور دعائے فرج

مہم مشکلات دور کرنے کے لیئے ابو جعفر محمد بن جریر طبری مسند فاطمہ میں کہتے ہیں کہ ابو حسین کا تب نے کہا ابو منصور وزیر کی طرف سے میں نے ایک کام کی ذمہ داری لے لی اس ضمن میں میرے اور اس کے درمیان اختلاف واقع ہوا نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں اس کے ڈر سے چھپ گیا وہ مجھے تلاش کرنے لگا اور مجھے دھمکی بھی دی میں نے ایک مدت تک خوف اور ڈر کی وجہ سے چھپ کر زندگی گزاری میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ شب جمعہ حضرت امام موسیٰ کاظم کی مرقد پر حاضری دوں تا کہ رات کو دعاکروں اور حاجات مانگوں میں حرم میں داخل ہوا تیز بارش ہورہی تھی ابن جعفر خادم حرم سے خواہش کی کہ حرم کے دروازوں کو بند کردے تا کہ حرم میں تنہا ہی رہوں تا کہ رات کو تنہائی میں جو حاجت مانگنا چاہوں مانگوں اور جس سے میں ڈرتا تھا اس سے امن میں رہوں اس نے میری بات مانی اور دروازوں کو بند کردیا آدھی رات کو تیز بارش ہوئی لوگوں کا اس جگہ پر آنا جانا بند ہوا حرم مکمل طور پر تنہا ہوا میں راز و نیاز میں مشغول تھا دعا پڑھتا تھا زیارت کرتا تھا اور نماز پڑھتا تھا اچانک روضہ مطہرہ کے پاؤں کی طرف سے ایک آواز آئی ایک شخص زیارت میں مشغول تھا اس کے بعد اس نے حضرت آدم اور اولوالعزم پیغمبروں پر سلام بھیجا اس کے بعد ایک ایک امام پر سلام بھیجا یہاں تک کہ جب آخری امام کا نام آیا تو اس کا نام نہیں لیا مجھے اس عمل سے تعجب ہوا اپنے آپ سے کہا شاید انہوں نے فراموش کیا ہو یا اس کو نہیں جانتاہو یا اس شخص کا مذہب ایسا ہے جب وہ زیارت سے فارغ ہوئے تو دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد امام جواد کے مرقد کی طرف گیا اسی طرح زیارت کی اور سلام کیا اور دو رکعت نماز پڑھی میں ان کو نہیں جانتا تھا اس لیئے میں اس سے ڈرتا تھا وہ ایک مکمل جوان تھا سفید لباس پہنے ہوئے تھے سر پر عمامہ کے ساتھ تحت الحنک تھا اور بدن پر عباء تھی وہ میری طرف متوجہ ہوا اور فرمایا اے ابوحسین تم دعا ے فرج کیوں نہیں پڑھتے ہو میں نے عرض کیا کہ دعاء فرج کونسی ہے اے میرے آقا تو فرمایا دو رکعت نماز پڑھو اور کہو

يا مَنْ أَظْهَرَ الْجَميلَ وَسَتَرَ الْقَبيحَ ، يا مَنْ لَمْ يُؤاخِذْ بِالْجَريرَةِ وَلَمْ يَهْتِكِ السِّتْرَ ، يا عَظيمَ الْمَنِّ ، يا كَريمَ الصَّفْحِ ، يا مُبْتَدِئَ النِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقاقِها ، يا حَسَنَ التَّجاوُزِ ، يا واسِعَ الْمَغْفِرَةِ ، يا باسِطَ الْيَدَيْنِ بِالرَّحْمَةِ ، يا مُنْتَهى كُلِّ نَجْوى ، وَيا غايَةَ كُلِّ شَكْوى ، وَيا عَوْنَ كُلِّ مُسْتَعينٍ ، يا مُبْتَدِئاً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقاقِها ،

”یٰا ربّٰا ہُ “ دس ۱۰ مرتبہ ”یٰا سَیَّدٰاہُ “ دس ۱۰ مرتبہ ، ” یٰا مَوْلاٰہُ ( یٰا مَوْلَیٰاہُ ) “ دس ۱۰ مرتبہ ،”یٰا غٰایَتٰاہُ“د س ۱۰ مرتبہ ،”یٰا مُنْتَھیٰ رَغْبَتٰاہُ“ دس ۱۰ مرتبہ ۔

أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هذِهِ الْأَسْماءِ ، وَبِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرينَ عَلَيْهِمُ السَّلامُ إِلّا ما كَشَفْتَ كَرْبي ، وَنَفَّسْتَ هَمّي ، وَفَرَّجْتَ عَنّي ، وَأَصْلَحْتَ حالي

اس کے بعد جو دعاء مانگنا چاہو مانگو اس وقت دایاں رخسار کو زمین پر رکھو اور سجدہ میں سو مرتبہ کہو

يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، إِكْفِياني فَإِنَّكُما كافِياني ، وَانْصُراني فَإِنَّكُما ناصِراني

اس کے بعد بائیں رخسار کو زمین پر رکھے اور سو مرتبہ کہے ادرکنی یا اس سے زیادہ تکرار کرے اور کہو الغوث الغوث ایک سانس لینے کی مقدار تکرار کرے اور سجدہ سے سر اٹھائے خداوند تعالیٰ اپنے کرم سے تیری حاجت کو قبول کرے گا ان شاء اللہ۔

جس وقت میں نماز اور دعا میں مشغول ہوا وہ باہر چلے گئے میں نے نماز اور دعا تمام کی اور آیاتا کہ ابن جعفر سے اس شخص کے بارے میں پوچھوں کہ وہ کس طرح حرم میں داخل ہوا ہے تو میں نے دیکھا کہ تمام دروازے بند ہیں اور تالا لگا یا ہوا ہے میں نے تعجب کیا اپنے آپ سے کہا شاید یہ یہاں سویا ہوا ہو اورمجھے معلوم نہ ہو میں ابن جعفر کے پاس گیا وہ اس کمرہ سے کہ جس میں حرم کے تیل سے چراگ جل رہا تھا وہاں سے باہر آیا میں نے اس واقعہ کے بارے میں اس سے پوچھا اس نے کہا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دروازے بند ہیں میں نے سامنے سارا واقعہ بیان کیا اس نے کہا وہ ہمارے مولیٰ صاحب الزمان تھے اور میں نے ایسے موقع پر جب حرم لوگوں سے خالی ہو تو ان کو دیکھا ہے اس نے اس وقت امام کی ملاقات سے محروم ہونے پر افسوس کیا طلوع فجر کے نزدیک حرم مطہر سے باہر آیا اور مقام کرخ کہ جہاں میں چھپا ہوا تھا وہاں پر گیا ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا تھا کہ ابومنصور کے مامور مجھ سے ملاقات کی تلاش میں تھے اور میرے دوستوں سے پوچھ گچھ کرتے تھے ان کے پاس وزیر کی طرف سے ایک امان نامہ تھا اس میں سب نیکیاں لکھی ہوئی تھی میں اپنے کسی ایک دوست کے ساتھ وزیر کے پاس چلا گیا وہ اٹھا اور مجھے بغل گیر کیا میرے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ جو آج تک نہیں دیکھا تھا اور کہا اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ میری شکایت امام زمانہ سے کرتے ہو میں نے کہا کہ میں نے اپنی طرف سے دعا اور درخواست تھی اس نے کہا وائے ہو تجھ پر گذشتہ رات یعنی شب جمعہ خواب میں امام زمان کو دیکھا وہ مجھے اچھے کاموں کا حکم دیتے تھے لیکن اس دفعہ اتنی سختی سے پیش آئے کہ میں ڈر گیا میں نے ان سے کہا لا الہ الا اللہ میں گواہی دیتاہوں کہ وہ حق ہیں گذشتہ شب اپنے مولیٰ کی بیداری کی حالت میں زیارت کی ہے اور مجھ سے وہ باتیں کہیں جو کچھ میں نے حرم امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام ) میں دیکھا تھا وہ سب بتادیا اس نے اس واقعہ سے تعجب کیا اور اس نے بہت بری نیکی کو میرے حق میں انجام دیا اور اس کی طرف سے ایسے مقام پر پہنچا کہ میں گمان نہیں کرتا تھا اور یہ سب کچھ صاحب الزمان کی برکت سے ہوا ہے۔

علامہ شیخ علی اکبرنھاوندی الحبقری الحسان میں کہتے ہیں میں نے یہ عمل کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے اور میں نے حاجت روائی کے لئے بہت زیادہ موثر دیکھا اس لئے میں چاہتاہوں کہ اس کے موثر ہونے کو اس کے ہم عصر مرحوم ملا محمود عراقی نے جو داراالسلام میں نقل کیا ہے اس کو ذکر کروں اس کتاب میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: میں نے اس دعا میں بہت زیادہ معجزہ دیکھا ہے چونکہ اس عمل سے تعجب انگریز آثار کو دیکھا ہے سب سے پہلے یہ نعمت بارہ سو پینسٹھ ہجری میں ملی میں تہران میں امام جمعہ تبریز حاج میرزا باقر تبریزی کے ساتھ آقائی مھدی ملک کے گھر میں مہمان تھا وہ کسی وجہ سے تہران چلے گئے دوبارہ تبریز آنا ممنوع تھا مجھے بھی ان سے جو محبت تھی خرچہ نہ ہونے کے باوجود سفر کیا میں اپنے گھر نہیں لوٹ سکتا تھا چونکہ امام جمعہ کا مہمان تھا خوراک اس کے ساتھ تھی لیکن اور خرچ بھی تھا اور میں اس شہر والوں کے ساتھ آشنا نہیں تھا کسی سے قرض بھی نہیں لے سکتا تھا اس لئے مجھے ذرا تکلیف تھی ایک دن امام جمعہ کے ساتھ صحن میں چار دیواری کے اندر بیٹھا ہوا تھا آرام کر رہا تھا ظہر کے وقت نماز کے لئے اوپر والے کمرہ میں چلا گیا نماز میں مشغول تھا نماز کے بعد الماری میں ایک کتاب کو دیکھا بحارالانوار کی تیرھویں جلد کا ترجمہ تھا اس میں امام زمانہ کے حالت موجود تھے میں نے اس کتاب کو کھولا یہ روایت معجزات کے بارے میں ملی میں نے اپنے آپ سے کہا اس حالت میں جو مجھے سختی ہے میں اس عمل کا تجربہ کرتاہوں اٹھا نماز دعا اور سجدہ کو بجالایا اپنے مشکل کام کے لئے دعا مانگی کمرہ سے باہر آکر امام جمعہ کے پہلو میں بیٹھا اچانک ایک مرد گھر کے دروازے سے داخل ہوا اور امام جمعہ کو ایک خط دیا اور اس کے پاس ایک سفید رومال رکھا امام جمعہ نے خط پڑھا اس کو رومال کے ساتھ مجھے دیا اور کہا یہ تمہارا مال ہے میں نے خط پڑھا خط کو آقا علی اصغر تاجر تبریزی نے لکھا تھا وہ مکتوب اور بیس تومان رومال میں رکھ کر امام جمعہ کو لکھا کہ یہ رقم فلان شخص کو دیدیں میں نے اس واقعہ کی پوری تحقیق کی خط آنے کا رومال آنے کا زمانہ اور عمل کا زمانہ ایک تھا مجھے اس واقعہ سے تعجب ہوا سبحان اللہ کہہ کر ہنس دیا امام جمعہ نے تعجب کی وجہ کو پوچھا میں نے سارا واقعہ بتادیا میں نے کہا کہ جلدی اٹھیں اور انجام دیں وہ اٹھا اسی کمرہ میں گیا نماز ظہر اور عصر پڑھی اس کے بعد اس عمل کو انجام دیا ابھی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ خبر پہنچی کہ امیر نے اس کو تہران میں حاضر کر کے اس کو معزول کردیا اور اس کو کاشان بھیجا ہے شاہ نے امام جمعہ سے معذرت کرلی اور اس کو احترام کے ساتھ تبریز بھیجا اس کے بعد میں نے اس عمل کو ذخیرہ کیا سختی میں اور مشکل حاجات میں اس کو انجام دیتا تھا میں نے عجیب و غریب آثار کا مشاہدہ کیا ایک سال وباء کی بیماری نجف اشرف میں پھیلی بہت زیادہ لوگ مرگئے لوگ اس ڈر سے مضطرب ہوگئے اس لئے میں شہر کے چھوٹے دروازہ سے باہر چلا گیا اور دروازہ کے باہر ایک خالی جگہ پر اس عمل کو انجام دیا اور خدا سے چاہا کہ یہ بیماری دور ہوجائے دوسروں کو اطلاع دئے بغیر شہر لوٹ آیا دوسرے دن وباء بیماری کے ختم ہونے کی خبر لوگوں کو دے دی جاننے والے کہنے لگے کہ آپ کیسے یہ کہتے ہو میں نے کہا میں اس کی وجہ نہیں بتاتا لیکن تم تحقیق کرلو کل رات کے بعد اگر کوئی اس بیماری میں مبتلا ہوا تو تم سچے ہو انہوں نے کہا کہ فلانی فلانی آج رات اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہے میں نے کہا ایسا نہیں ہے یقینا کل ظہر سے پہلے یا اس سے پہلے بیمار ہوا ہے تحقیق کی تو انہوں نے دیکھا جیسا میں نے کہا تھا وہ صحیح نکلااس کے بعد بیماری کے کوئی نشان دکھائی نہیں دیا لوگوں نے اس سال بیماری سے نجات حاصل کی لیکن اس کی علت کو نہیں سمجھ سکے کئی بار ایسا ہوا ہے کئی برادران کو سختی میں دیکھا اور اس عمل کو ان کو یاد کرادیا جلدی ان کے مشکلات حل ہوئے یہاں تک کہ ایک دن اپنے کسی برادر کے وہاں تھا اس کے لئے کوئی مشکلات تھیں اس کی مشکل سے باخبر ہوا میں نے یہ عمل اس کو سکھادیا گھر واپس آیا تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر کوئی آیا تو اسی شخص کو دیکھا کہ کہتا تھا اسی دعا کی برکت سے میرا مشکل حل ہوا کچھ رقم اس کو ملی کہا تمہیں جتنی ضرورت ہے لے لے میں نے کہا اس عمل کی برکت سے میں محتاج نہیں ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ تمہاری مشکل کس طرح حل ہوا اس نے کہا آپ کے جانے کے بعد حرم امیرالمومنین میں چلا گیا اور اس عمل کو انجام دیا روضہ مطہر سے باہر نکلا صحن میں کسی ایک شخص سے ملاقات کی مجھے جتنی رقم کی ضروت تھی اتنی رقم دیکر چلا گیا۔ خلاصہ یہ کہ میں نے اس عمل کا بہت زیادہ اثر دیکھا ہے کہ جلد از جلد میری حاجت قبول ہوئی ہے لیکن جہاں محتاج نہیں اور کوئی اضطرار موجود نہیں وہاں کسی کو نہیں دیاہے میں نے خود بھی فائدہ نہیں اٹھایا اس لئے جب خود اس بزرگوار نے اس دعا کا فرج نام رکھا ہے اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ دعا سختی اور تکلیف کے وقت بہت زیادہ موثر ہے۔

۸- امام زمانہ کا نماز استغاثہ

امام زمانہ کی نماز استغاثہ اس طرح ہے کہ سید علی خان کلم الطیب میں فرمایا ہے یہ استغاثہ ہے امام زمانہ سے جہاں پر بھی ہو دو رکعت نماز حمد اور سورہ کیساتھ پڑھ لیں پس قبلہ کی طرف منہ کر کے آسمان کے نیچے بیٹھیں اور کہیں دعا:

سَلامُ اللَّهِ الْكامِلُ التَّامُّ الشَّامِلُ الْعامُّ ، وَصَلَواتُهُ الدَّائِمَةُ وَبَرَكاتُهُ الْقائِمَةُ التَّامَّةُ ، عَلى حُجَّةِ اللَّهِ وَوَلِيِّهِ في أَرْضِهِ وَبِلادِهِ ، وَخَليفَتِهِ عَلى خَلْقِهِ وَعِبادِهِ ، وَسُلالَةِ النُّبُوَّةِ ، وَبَقِيَّةِ الْعِتْرَةِ وَالصَّفْوَةِ ، صاحِبِ الزَّمانِ ، وَمُظْهِرِ الْإيمانِ ، وَمُلَقِّنِ أَحْكامِ الْقُرْآنِ ، وَمُطَهِّرِ الْأَرْضِ ، وَناشِرِ الْعَدْلِ فِي الطُّولِ وَالْعَرْضِ ، وَالْحُجَّةِ الْقائِمِ الْمَهْدِيِّ ، اَلْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ الْمَرْضِيِّ ، وَابْنِ الْأَئِمَّةِ الطَّاهِرينَ ، اَلْوَصِيِّ بْنِ الْأَوْصِياءِ الْمَرْضِيّينَ ، اَلْهادِي الْمَعْصُومِ بْنِ الْأَئِمَّةِ الْهُداةِ الْمَعْصُومينَ

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُعِزَّ الْمُؤْمِنينَ الْمُسْتَضْعَفينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُذِلَّ الْكافِرينَ المُتَكَبِّرينَ الظَّالِمينَ

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْراءِ سَيِّدَةِ نِساءِ الْعالَمينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ الْأَئِمَّةِ الْحُجَجِ الْمَعْصُومينَ وَالْإِمامِ عَلَى الْخَلْقِ أَجْمَعينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مَوْلايَ سَلامَ مُخْلِصٍ لَكَ فِي الْوِلايَةِ

أَشْهَدُ أَنَّكَ الْإِمامُ الْمَهْدِيُّ قَوْلًا وَفِعْلًا ، وَأَنْتَ الَّذي تَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَعَدْلاً ، بَعْدَ ما مُلِئَتْ جَوْراً وَظُلْماً ، فَعَجَّلَ اللَّهُ فَرَجَكَ ، وَسَهَّلَ مَخْرَجَكَ ، وَقَرَّبَ زَمانَكَ ، وَكَثَّرَ أَنْصارَكَ وَأَعْوانَكَ ، وَأَنْجَزَ لَكَ ما وَعَدَكَ ، فَهُوَ أَصْدَقُ الْقائِلينَ « وَنُريدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوارِثينَ »

يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ، يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، حاجَتي كَذا وَكَذا ، ثمّ اذكر حاجتك وقل : فَاشْفَعْ لي في نَجاحِها ، فَقَدْ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِحاجَتي ، لِعِلْمي أَنَّ لَكَ عِنْدَ اللَّهِ شَفاعَةً مَقْبُولَةً ، وَمَقاماً مَحْمُوداً ، فَبِحَقِّ مَنِ اخْتَصَّكُمْ بِأَمْرِهِ ، وَارْتَضاكُمْ لِسِرِّهِ ، وَبِالشَّأْنِ الَّذي لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ ، سَلِ اللَّهَ تَعالى في نُجْحِ طَلِبَتي ، وَ إِجابَةِ دَعْوَتي ، وَكَشْفِ كُرْبَتي

کذا کذا کی جگہ اپنی حاجت کو بیان کریں اور دعا کریں جو بھی چاہیں تو وہ حاجت قبول ہوگی۔

علامہ بزرگوار شیخ محمود عراقی کتاب دارالسلام میں کہاہے کہ میں نے اس عمل سے تجربہ کیا اس سے تعجب انگیز آثار کو مشاہدہ کیا دوسرا سفر بارہ سو پچھتر ہجری میں کی

علماء میں سے ایک نے اس عمل کا تجربہ کیا اور اپنے مہم امور میں اس نے عمل کیا جو اہلیت نہیں رکھتا تھا اس کو یاد نہیں کرتے تھے میں نے اس عمل کو اس سے دریافت کیا ہے۔ درالسلام میں کہا ہے ظاہر یہ ہے کہ چاہیئے اس نماز میں سورہ فتح اور سورہ نصر کو پڑھا جائے ہم عصر فاضل کا بھی یہی نظریہ تھا بعید نہیں کہ اس کا وقت بھی آدھی رات ہو چونکہ راوی نے اس وقت اس عمل کے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور کلام میں اس وقت کے علاوہ کوئی اور وقت نہیں ہے قدر متعین وہی آخری آدھی رات کا وقت ہے اس عالم نے بھی آخری شب کا وقت معین نہیں کیا فاضل ہم عصر کتاب البلاد الامین سے کفحمی نے نقل کیا ہے علاوہ اس کے کہ دونوں سورہ میں ہیں چاہے کہ نماز اور زیارت سے پہلے غسل کرلے اس نے کتاب مصباح الزائر میں نقل کیا ہے کہ سورہ معین نہیں ہے اس بناء پر سورہ کاتعین اظہر ہے وقت کا تعین بھی اگر اقویٰ نہ ہو تو احوط ہے لیکن اظہر یہ ہے کہ نماز اور زیارت سے پہلے غسل کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگر چہ مستحب ہے کہ غسل کرے۔

۹ ۔ امام زمانہ کی خدمت میں نماز ہدیہ

سید بن طاوؤس فرماتے ہیں کہ ابو محمد صمیری سلسلہ سند کے ساتھ ائمہ معصومین سے نقل کرتے ہیں فرماتے ہیں اگر ممکن ہو نماز واجب اور نافلہ نماز میں اضافہ کرنا۔ تو اضافہ کرے اگر چہ دو ررکعت کی مقدار پر زور بجالائے اور اس کو ہر روز آئمہ معصومین کی خدمت میں ھدیہ بھیجے اس طریقے پر کہ اپنی نماز کو پہلی رکعت میں شروع کرے واجب نماز کی طرح ساتھ مرتبہ تکبیر یا تین مرتبہ یا ایک مرتبہ رکوع وسجود کے ذکر کے بعد تین مرتبہ کہے صلی اللہ علی محمد و آلہ الطیبین الطاہرین پس تشہد اور اسلام کے بعد چودہویں دن کے بعد نماز امام حاضر کی خدمت میں ھدیہ کرنے اور کہے ۱۴۳ اللھم ۔۔ انت تا آخر

۱۰ ۔ امام زمانہ کے لئے نماز کا ھدیہ

شیخ بزرگوار ابوجعفر طوسی کتاب مصباح کبیر میں کہتے ہیں نماز ھدیہ آٹھ رکعت ہے معصوم اماموں سے روایت ہوئی ہے انسان کے لئے ضروری ہے کہ جمعہ کے دن آٹھ رکعت نماز پڑھے چار رکعت رسول خدا کی خدمت میں دوسرے چار رکعت حضرت فاطمہ زھراء کے لئے ھدیہ کرے پھر اسی طرح ہر روز چار رکعت پڑھے اور آئمہ میں سے کسی ایک کے لئے ھدیہ پیش کرے جمعرات کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور امام صادق(علیہ السلام ) کو ھدیہ پیش کرے۔

جمعہ کے دن دوبارہ آٹھ رکعت نماز پڑھے چار رکعت حضرت رسول کے لئے اور چار رکعت حضرت فاطمہ زھرا کے لئے ھدیہ کرے اس کے بعد ہفتہ کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور حضرت امام کاظم کو ھدیہ پیش کرے اور اسی طرح جمعرات کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور حضرت امام زمانہ کے لئے ھدیہ پیش کرے اور دو رکعت کے درمیان اس دعا کو پڑھے

أَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلامُ ، وَمِنْكَ السَّلامُ ، وَ إِلَيْكَ يَعُودُ السَّلامُ ، حَيِّنا رَبَّنا مِنْكَ بِالسَّلامِ أَللَّهُمَّ إِنَّ هذِهِ الرَّكَعاتِ هَدِيَّةٌ مِنّي إِلَى الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ ، فَصَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَبَلِّغْهُ إِيَّاها ، وَأَعْطِني أَفْضَلَ أَمَلي وَرَجائي فيكَ ، وَفي رَسُولِكَ صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ ]وَفيهِ[ ، وتدعو بما

جو چاہتاہے اس کے لئے بھی دعا مانگے۔

۱۱ ۔ امام زمانہ کے لئے نماز استغاثہ

کتاب التحفة الرضویہ میں لکھتے ہیں عالم بزرگوار سید حسین ھمدانی نجفی نے مجھ سے کہا جس کسی کو کوئی حاجت ہو جمعرات اور جمعہ کی رات آسمان کے نیچے حالانکہ سر اور پاؤں برہنہ ہوں دو رکعت نماز پڑھے نماز کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرے پانچسو نوے مرتبہ کہے یا حجة القائم اس کے بعد سر کو سجدہ میں رکھے اور ستر مرتبہ کہے یا صاحب الزمان اغثنی اور اپنی حاجت کی درخواست کرے یہ عمل ہر مہم حاجت کے لئے مجّرب ہے اگر ان دو راتوں میں حاجت پوری نہ ہو دوبارہ دوسرے ہفتہ میں اس عمل کو انجام دے اگر پھر بھی حاجت قبول نہ ہوئی دوبارہ تیسرے ہفتہ میں انجام دے یقینا اس کی حاجت قبول ہوگی صاحب کتاب التحفة الرضویہ نے کہا ہے کہ سید محمد علی جواہری حائری نے مجھ سے نقل کیا ہے کہ جو اس نماز کو حاجت کے لئے انجام دیتاہے اسی رات حضرت امام مھدی کو خواب میں دیکھتاہے اور اپنی حاجت کو حضرت کی خدمت میں پیش کرتاہے خداوند تعالیٰ امام زمانہ کی برکت سے اس کی مشکل کو حل اور اس کی حاجت کو پوری کرتاہے۔

۱۲ ۔ نماز استغاثہ کا ایک اور طریقہ

علامہ بزرگوار صدر الاسلا م ھمدانی اپنی عمدہ کتاب تکالیف الانام فی غیبة الامام میں اس عمل کو ایک اور طریقہ سے نقل کیا ہے اس نے سید سند استاد اور عالم ربّانی حکیم فقیہ پرہیزگار سید محمد ہندی نجفی سے اس نے عالم بزرگوار سید حسن قزوینی سے اس نے سید حسین شوشتری امام جماعت سند کے ساتھ سید علی خان سے نقل کیا ہے۔ جو صحیفہ سجادیہ کا شارح ہے کہتاہے کہ شب جمعرات اور جمعہ شب جمعہ آسمان کے نیچے چھت کے اوپر سر برہنہ دو رکعت نماز پڑھتا تھا اس کے بعد ۵۹۵ مرتبہ کہتا تھا یا حجة اللہ سے مجموع عدد وہی عبارت ہوتی ہے اور اس توسل کی تاثیر پر تجربہ ہوا ہے وہ اضافہ کرتاہے کہ عدد یا حجة القائم عبارت ہے ۱۰+ ۱ + ۸+ ۳+ ۱۰۰+ ۱-+ ۳۰ + ۱۰۰ + ۱ + ۴۰) کہ مجموعی طور پر ۵۹۵ ہے یہ ایک خاص عمل میں ہے اس کی حفاظت کی کوشش کریں میں نے بارھا اس عمل کے ساتھ تجربہ کیا ہے۔

۱۳ ۔ شبع جمعہ میں امام زمانہ کی نماز

سید بزرگوار علی بن طاوؤس فرماتے ہیں کتاب کنوز النجاح فقیہ ابو علی فضل بن حسن طبرسی کی ہے اس میں دیکھا ہے کہ ہمارے امام زمانہ سے اس طرح منقول ہے حسین بن محمد بزوفری کہتاہے کہ صاحب العصر کی جانگ سے اس طرح صادر ہوا ہے جس کسی کو خدا سے کوئی حاجت ہو شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے اور نماز پڑھنے کی جگہ جائے اور دو رکعت نماز پڑھ لے پہلی رکعت میں سورہ حمد کو پڑھ لے جب ایّاک نعبد و ایّاک نستعین تک پہنچے تو سو مرتبہ اس آیہ کو دھرائے اس کے بعد آخری سورة تک پڑھ لے اور ایک مرتبہ سورہ توحید پڑھ لے اس کے بعد رکوع اور سجود بجا لائے اور اس کے ذکر کو سات مرتبہ پڑھے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طریقے پر پڑھے اور یہ دعا پڑھے اس کے بعد جو حاجت بھی ہو سوائے قطع صلہ رحم کے علاوہ جو بھی چاہے خدا سے مانگے اللہ تعالیٰ یقینا اس کی حاجت کو پوری کرے گا۔

اور دعا یہ ہے

أَللَّهُمَّ إِنْ أَطَعْتُكَ فَالْمَحْمَدَةُ لَكَ ، وَ إِنْ عَصَيْتُكَ فَالْحُجَّةُ لَكَ ، مِنْكَ الرَّوْحُ وَمِنْكَ الْفَرَجُ ، سُبْحانَ مَنْ أَنْعَمَ وَشَكَرَ ، سُبْحانَ مَنْ قَدَرَ وغَفَرَ

أَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ قَدْ عَصَيْتُكَ ، فَإِنّي قَدْ أَطَعْتُكَ في أَحَبِّ الْأَشْياءِ إِلَيْكَ وَهُوَ الْإيمانُ بِكَ ، لَمْ أَتَّخِذْ لَكَ وَلَداً ، وَلَمْ أَدْعُ لَكَ شَريكاً ، مَنّاً مِنْكَ بِهِ عَلَيَّ لا مَنّاً مِنّي بِهِ عَلَيْكَ ، وَقَدْ عَصَيْتُكَ يا إِلهي عَلى غَيْرِ وَجْهِ الْمُكابَرَةِ ، وَلَا الْخُرُوجِ عَنْ عُبُودِيَّتِكَ ، وَلَا الْجُحُودِ لِرُبُوبِيَّتِكَ ، وَلكِنْ أَطَعْتُ هَوايَ ، وَأَزَلَّنِي الشَّيْطانُ

فَلَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ وَالْبَيانُ ، فَإِنْ تُعَذِّبْني فَبِذُنُوبي غَيْرَ ظالِمٍ ، وَ إِنْ تَغْفِرْ لي وَتَرْحَمْني ، فَإِنَّكَ جَوادٌ كَريمٌ ، يا كَريمُ يا كَريمُ

ایک سانس میں جتناپڑھ سکتا ہے پڑھے پھر کہے:

يا آمِناً مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ، وَكُلُّ شَيْ‏ءٍ مِنْكَ خائِفٌ حَذِرٌ ، أَسْأَلُكَ بِأَمْنِكَ مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ، وَخَوْفِ كُلِّ شَيْ‏ءٍ مِنْكَ ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَأَنْ تُعْطِيَني أَماناً لِنَفْسي وَأَهْلي وَوَلَدي ، وَسائِرِ ما أَنْعَمْتَ بِهِ عَلَيَّ ، حَتَّى لا أَخافَ أَحَداً ، وَلا أَحْذَرَ مِنْ شَيْ‏ءٍ أَبَداً ، إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ ، وَحَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكيلُ

يا كافِيَ إِبْراهيمَ نُمْرُودَ ، يا كافِيَ مُوسى فِرْعَوْنَ ، أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَأَنْ تَكْفِيَني شَرَّ فُلانِ بْنِ فُلانٍ

اور فلان بن فلان کی جگہ کہ جس شخص کے شر سے ڈرتاہے اس کا نام لے خداوند تعالیٰ ان شاء اللہ اس کے شر سے محفوظ رکھے گا اس کے بعد سجدہ میں چلا جائے اور اپنی حاجت خدا سے مانگے اور خدا سے تضرع اور زاری کرے چونکہ کوئی مومن مرد یا عورت نہیں ہے کہ جو بھی یہ نماز پڑھ لے اور اس دعاء کے ساتھ خلوص کے ساتھ نیت کرے مگر یہ کہ آسمان کے دروازے اجابت کے لئے اس کی طرف کھل جاتے ہیں۔ اسی وقت اور اسی رات جو حاجت بھی ہو قبول ہوجائے گی یہ اللہ کا فضل ہمارے لئے اور لوگوں کے لئے ہے۔

۱۴ ۔ امام زمانہ کی ایک اور نماز

نجم الثاقب میں اس نماز کو کتاب سید فضل اللہ راوندی سے یہ نماز حضرت امام زمانہ کے عناون سے نقل کیا ہے اور کہا ہے نماز تمام ہونے کے بعد سو مرتبہ درود بھیجے لیکن جس دعا کو میں نے ذکر کیا تھا اس کو بیان نہیں کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ نماز خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

۱۵ ۔ ستائیس ماہ رجب کے دن کی نماز

احمد بن علی بن روح کہتاہے اس نماز کو محسن بن عبدالحکیم سجری نے میرے لئے نقل کیا ہے اور میں نے اس کو اس کی کتاب سے لکھا ہے وہ کہتا تھا میں نے اس نماز کو کتاب ابونصر جعفر بن محمد سے لکھا ہے وہ کہتا تھا کہ یہ نماز ابوالقاسم حسین بن روح کی طرف سے صادر ہوئی ہے۔ ستائیس رجب کے دن کی نمازیں اس میں بارہ رکعت نماز کا ذکر ہوا ہے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کو جس سورہ کے ساتھ چاہیں پڑھ لیں اور نماز تمام کریں پس ہر دو رکعت کے بعد یہ دعا پڑھے ۱۴۸ الحمد اللہ

جب نماز اور دعا پڑھ لے تو سورہ حمد اور قل ھوا اللہ احد قل یا ایھالکافرون۔ معوذتین۔ انا انزلناہ فی لیلة القدر آیہ الکرسی ہر ایک کو سات مرتبہ پڑھ لے اس کے بعد سات مرتبہ کہے لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ ولا حول ولا قوة الا باللہ پھر اس کے بعد سات مرتبہ پڑھیں اللہ اللہ ربّی لا اشرک بہ شیئاً اس کے بعد جو پسند کریں دعا مانگیں

۱۶ ۔ پندرہ شعبان کی رات کی نماز

ابو یحی صنعانی نے روایت کی ہے کہ اس کو قابل اطمینان تیس آدمیوں سے نقل کیا گیا ہے کہ امام باقر اور امام صادق نے فرمایا جب بھی پندرہ شعبان کی رات ہوجائے تو چار رکعت نماز پڑھ لے ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور سو مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد پڑھے اور نماز کے بعد یہ دعا مانگے ۱۴۹ اللھم

۱۷ ۔ پندرہ شعبان کی رات ایک اور نماز

ابو یحیٰ نے امام صادق سے روایت کی ہے اس نے امام باقر سے کہ پندرہ شعبان کی رات کے فضیلت کے بارے میں سوال ہوا تو حضرت نے فرمایا نیمہ شعبان کی رات شب قدر کے بعد سب سے افضل ترین رات ہے اس رات خداوند اپنا فضل اپنے بندوں کو عطا کرتاہے ان پر احسان کرتاہے اور بخشش دیتاہے اس بناء پر اس رات خدا سے قرب حاسل کرنے کی کوشش کرو چونکہ خدا نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ اس رات کسی سائل کو رد نہیں کرے گا جب تک خدا سے کسی معصیت کا سوائل نہ کرے یہ وہ رات ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اس کو ہم اھلبیت کے لئے قرار دیا ہے شب قدر کے برابر کہ اس کو پیغمر کے لئے قراردیا ہے ۱۵۰ پس اس رات خدا سے دعا کی کوشش کرو چونکہ جو بھی اس رات سو مرتبہ تسبیح پڑھے سوبار حمد پڑھے سو مرتبہ تکبیر کہے تو خداوند تعالیٰ ان کے گذشتہ گناہوں کو بخشتیاہے اور دنیا اور آخرت کی حاجتوں کو اسی طرح وہ حاجتیں کہ جن کا محتاج ہے لیکن خدا سے طلب نہیں کیا ہے یہ بھی خدا کے فضل سے عطا کرتاہے۔ ابو یحییٰ کہتاہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کیا دعاؤں میں سے کس دعاء میں زیادہ فضیلت ہے حضرت نے فرمایا جب بھی نماز عشا پڑھ لیں تو دو رکعت نماز پڑھ لیں پہلی رکعت میں سورہ حمد اور سورة قل یا ایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور سورہ قل ھو اللہ احد کو پڑھے نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ الحمد اللہ اور ۳۴ مرتبہ کہو اللہ اکبر اس وقت کہو ۱۵۱ یا من الیہ

اس کے بعد سجدہ میں بیس مرتبہ یا رب یا اللہ کہو اور سات مرتبہ کہولا حول ولا قوة الّا باللّٰه اور دس مرتبہ کہو ماشاء اللہ اور دس مرتبہ کہو لا قوة الّا باللّٰہ اس کے بعد درود بھیجیں اور اللہ سے اپنی حاجت مانگیں خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو عطا کرے گا۔

مولف: چار رکعت بھی وارد ہے کہ جو ظہر عاشور کے وقت پڑھی جاتی ہیں اس کے بعد ایک دعا پڑھی جاتی ہے طولانی کی وجہ سے مہینوں کے دعاؤں ادعیہ ص ۲۴۱ میں ذکر کیا گیا ہے

کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دولڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(١)

ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔(٢)

نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(٣)

____________________

(١)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔

(٢)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔

(٣)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔

نتیجہ:

اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:

١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟

٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں

کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟

٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق

تھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟

٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!

٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !

البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔

٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔

ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔

٧) حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟

٣۔مؤلف کا مختصر تعارف

علامہ جلال الدین سیوطی کی شخصیت اہل علم کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے لیکن عوام الناس کے فائدہ کومد نظر رکھتے ہوئے آپ کے حالات زندگی کو اختصار کے طور پر یہاں تحریر کیا جاتا ہے :

علامہ جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان سیوطی شافعی ،یکم رجب المرجب بروز یکشنبہ ٨٤٩ ہجری، شہر اسیوط مصر میں پیدا ہوئے ، ابھی آپ کا سن پانچ سال بھی نہیں ہوا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا ، آپ پچپن سے ہی علم دین پڑھنے میں مشغول ہوگئے، اور آٹھ سال ہونے تک قرآن کریم اور دیگر درسی رائج متون کو حفظ کرلیا، اور ٨٦٤ ہجری کے ابتداء تک قانونی حیثیت سے اچھے اور مایہ ناز طالب علم کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ، آپ نے فقہ ، نحو ، اصول اور دیگر اسلامی علوم پر کافی دست رسی حاصل کی،اور اس وقت کے پچاس سے زیادہ بزرگ علماء سے کسب فیض کیا ،اور ٨٦٦ ہجری میں آپ نے اپنے علم کا کتابی شکل میں مظاہرہ کیا ،اور ٨٧١ ہجری میںمقام افتاء پر قدم رکھا ، اور ٨٧٢ ہجری سے املاء حدیث کی مجلس ترتیب دی ،آپ نے تلاش علم میں شام ، حجاز ، یمن ، ہند وستان اور مغرب متعدد سفر کئے ، اور یہاں کے علماء سے علمی مذاکرہ کیا ، علامہ موصوف نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، نحو، معانی ، بیان ، بدیع ، اصول فقہ، قرائت ، تاریخ ، اور طب جیسے موضوعات سے متعلق مختلف کتابیں تحریر کیں ،جوآج بھی مرجع خاص و عام ہیں،لہٰذا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی زحمت کش اور قوی حافظہ کے مالک تھے چنانچہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو لاکھ حدیثیں حفظ کیں ہیںاور اگر اس سے زیادہ میسور ہوتیں تو ان کو بھی حفظ کر لیتا ،آپ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ حدیثیں اس وقت روئے زمین پر موصوف کی اطلاع میں نہ تھیں،آپ کی چھوٹی اور بڑی کتابوں کو ملا کر تقریباً ٥٠٠ کتابیں ہوتی ہیں ، آپ نہایت برد بار ، پاکیزہ نفس اور پرہیزگارانسان سے تھے، ہمیشہ حکام وقت سے ملنے سے کتراتے اور ان کے تحائف اکثر ردکردیا کرتے تھے ، عمر کے آخری حصہ میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک کرکے پروردگار کی عبادت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی،آخر کار بروز پنجشنبہ ٩١١ ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا ،اور شہر خوش قوصون کے اطراف میں دفن کردیا گیا۔(١)

علامہ جلال الدین سیوطی کو جن وجوہات کی بنا پر آج تک یاد کیا جاتا ہے وہ ان کی وسعت تالیف و تصنیف ہے، علامہ ابن حماد حنبلی لکھتے ہیں : علامہ سیوطی کی تصانیف و تالیفات خود ان کے زمانہ میں شرق و غرب میں پھیل چکی تھیں ۔(٢) چنانچہ علامہ سیوطی کے وفادرارشاگرد دائودی لکھتے ہیں : ان کی تالیفات کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے ۔

علامہ سیوطی نہ صرف یہ کہ وسعت تالیف کے مالک تھے بلکہ آپ کی تالیفات میں دقت نظر بھی پائی جاتی ہے،بہر کیف یہاں پر ہم علامہ کی ان کتابوں کی ایک فہرست نقل کرتے ہیں جو ہماری دست رس میں تھیں :

١- الاتقان فی علوم القرآن ٢- مسالک الحنفاء فی اسلام والدی المصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٣- نشر العالمین فی اخبار الابوین الشریفین ٤-العرف الوردی فی اخبار المہدی ٥- احیاء المیت بفضائل اہل البیت ٦- تفسیر الدرالمنثور

٧-تفسیرالجلالین ٨- تلخیص البیان فی علامات المہدی صاحب الزمان

_____________________

(١) شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ؛ ابن حماد حنبلی۔معجم المصنفین ؛ عمر رضا کحالہ

(٢)شذرات الذہب.

٩-الثغور الباسمہ فی مناقب فاطمہ ( س) ١٠- تاریخ الخلفاء ١١- اللئالی المصنوعة فی احادیث الموضوعة ١٢- المرقاة العلیة فی شرح الاسماء النبویة ١٣- الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة (یسمی ایضاً التعظیم فی ان ابویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الجنة) ١٤- العجاجة الزرنبیة فی السلالة الزینبیة(س) ١٥- الخصائص والمعجزات النبویة ١٦- قطف ثمر فی موافقات عمر ١٧- ابواب السعادة فی اسباب الشہادة ١٨- الآیة الکبری فی شرح قصة الاسراء ١٩- بلوغ المامول فی خدمة الرسول ٢٠-تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ٢١- اتمام النعمة فی اختصاص الاسلام بہٰذہ الامة ٢٢-القول الجلی فی حدیث الولی٢٣ - الاحادیث المنیفة ٢٤- احاسن الاقتباس فی محاسن الاقتباس ٢٥- الاحتفال بالاطفال ٢٦- الاخبار الماثورة فی الاطلاء بالنورة ٢٧- اخبار الملائکة ٢٨- الاخبار المرویة فی سبب وضع العربیة ٢٩-آداب الملوک ٣٠- ادب الفتیاء ٣١- اذکار الاذکار ٣٢ -الاذکار فی ماعقدہ الشعراء من الآثار ٣٣- اربعون حدیثاً فی فضل الجہاد ٣٤ -اربعون حدیثاً فی ورقة ٣٥-اربعون حدیثاً من روایة مالک عن نافع عن ابن عمر ٣٦-الارج فی الفرج ٣٧ -الارج المسکی ٣٨- ازالة الوہن عن مسئلة الرہن ٣٩ -ازہار الاکام فی اخبار الاحکام ٤٠- الازہار الغضة فی حواشی الروضة ٤١- الازہار الفائحة علی الفاتحة ٤٢- الازہار المتناثرة فی الاخبار المتواترة ٤٣- الاساس فی مناقب بنی عباس ٤٤- الاسئلة المائة ٤٥- الاسئلة الوزیریة و اجوبتہا ٤٦ - اسعاف المبطاء برجال الموطاء ٤٧- الاشباہ والنظائر الفقہیة ٤٨-الاشباہ والنظائر النحویة ٤٩- اطراف الاشراف بالاشراف علی الاطراف ٥٠- اعذب المناہل فی حدیث من قال انا عالم فہو جاہل ٥١- اعمال الفکر فی فضل الذکر ٥٢- الافصاح ٥٣ -الاقتراح فی اصول النحوو جدلہ ٥٤- الاقتناص فی مسئلة النماص ٥٥- اکام المرجان فی احکام الجان ٥٦- الاکلیل فی استنباط التنزیل ٥٧ -الالفاظ المعرّبة ٥٨- الالفیة فی القرائت العشر ٥٩ -الالفیة فی مصطلح الحدیث ٦٠- القام الحجر لمن ذکی ساب ابی بکر و عمر ٦١- انباء الاذکیاء بحیاة الانبیاء ٦٢- الانصاف فی تمییز الاوقاف ٦٣- انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ٦٤- الویة النصر فی خصیصی بالقصر ٦٥- الاوج فی خبر عوج ٦٦- اتحاف الفرقہ برفوالخرقہ ٦٧ -البارع فی اقطاع الشارع ٦٨- بدائع الزہور فی وقائع الدہور ٦٩- البدر الّذی انجلی فی مسئلة الولا ٧٠- البدور السافرة عن امور الاخرة ٧١- البدیعة ٧٢- بذل الہمة فی طلب برائة الذمة ٧٣- البرق الوامض فی شرح تائیة ابن الفارض ٧٤- بزوغ الہلال فی الخصال الموجبة الظلال ٧٥- بسط الکف فی اتمام الصف ٧٦ - بشری الکئیب فی لقاء الحبیب ٧٧ -بغیة الرائد فی الذیل علی مجمع الزوائد ٧٨- بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین والنحاة ٧٩- بلغة المحتاج فی مناسک الحاج ٨٠- اتحاف النبلاء فی اخبارالفضلاء ٨١ -البہجة المرضیة فی شرح الالفیة ٨٢ -التاج فی اعراب مشکل المنہاج ٨٣ -تاریخ سیوط ٨٤- تاریخ العمر ٨٥- تارخ مصر ٨٦- تایید الحقیقة العلیة و تشیید الطریقة الشاذلیة ٨٧- تبییض الصحیفة ٨٨- تجرید العنایة فی تخریج احادیث الکفایة ٨٩ -تجزیل المواہب فی اختلاف المذاہب ٩٠- التحبیر لعلم التفسیر ٩١- التحدث بنعمة اﷲ ٩٢- تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ٩٣- تحفة الانجاب بمسئلة السنجاب ٩٤- تحفة الجلساء برؤیة اﷲ للنساء ٩٥ -تحفة الحبیب ٩٦- تحفة الظرفاء باسماء الخلفاء ٩٧ -تحفة الکرام باخبار الاہرام ٩٨ -تحفة المجالس و نزہة المجالس ٩٩- تحفة المذاکر فی المنتہی من تاریخ ابن عساکر ١٠٠-تحفة النابة بتلخیص المتشابة ١٠١-تحفة الناسک ١٠٢-التخبیر فی علم التفسیر ١٠٣ -تخریج احادیث الدرة الفاخرة ١٠٤ -تخریج احادیث شرح العقائد ١٠٥- تذکرة المؤتسی بمن حدث و نسی ١٠٦ -اتمام الدرایہ لقراء النقایہ ١٠٧ - التذنیب فی الروایة علی التقریب ١٠٨- ترجمان القرآن ١٠٩- ترجمة البلقینی ١١٠- ترجمة النووی ١١١ -تزیین الارائک فی ارسال النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الی الملائک ١١٢- تشنیف الاسماع بمسائل الاجماع ١١٣ -تشیید الارکان من لیس فی الامکان ابدع مما کان ١١٤ -تعریف الاعجم بحروف المعجم ١١٥ -التعریف باداب التالیف ١١٦ -تعریف الفئة اجوبة الاسئلة المائة ١١٧ -التعقیبات ١١٨ -التفسیر المأثور ١١٩-تقریب الغریب ٠ ١٢ -تقریر الاستناد فی تیسیر الاجتہاد ١٢١ -تمہید الفرش فی الخصال الموجبة لظل العرش ١٢٢- تناسق الدرر فی تناسب السو ر ٣ ١٢- تنبیہ الواقف علی شرط الواقف ١٢٤ -تنزیہ الاعتقاد عن الحلول والاتحاد ١٢٥- تنزیہ الانبیاء عن تسفیہ الاغبیاء ١٢٦ -التنفیس فی الاعتذار عن الفتیا ء والتدریس ١٢٧ -تنویر الحلک فی امکان رؤیة النبی والملک ١٢٨ -تنویر الحوالک فی شرح موطاء الامام مالک ١٢٩ -التوشیح علی التوضیح ١٣٠- التوشیح علی الجامع الصحیح ١٣١- توضیح المدرک فی تصحیح المستدرک ١٣٢ -ثلج الفؤاد فی احادیث لبس السواد ١٣٤ -الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر ١٣٥ -الجامع الکبیر ١٣٦ -الجامع فی الفرائض ١٣٧- جزء فی اسماء المدلسین ١٣٨- جزء فی الصلاة ١٣٩- جزء فی صلاة الضحی ١٤٠- الجمانة ١٤١ - الجمع والتفریق فی الانواع البدیعة ١٤٢ -جمع الجوامع ١٤٣ -الجواب الجزم عن حدیث التکبیر جزم ١٤٤- الجواب الحاتم عن سؤال الخاتم ١٤٥ -الجواہر فی علم التفسیر ١٤٦-الجہر بمنع البروز علی شاطیٔ النہر ١٤٧- حاطب اللیل و حارف سیل ١٤٨ -حاشیة علی شرح الشذور ١٤٩ -حاشیة علی القطیعة للا سنوی ١٥٠ -حاشیة علی المختصر ١٥١- الحاوی للفتاوی ١٥٢- الحجج المبینة فی التفضیل بین مکة والمدینة ١٥٣ -حسن التعریف فی عدم التحلیف ١٥٤ -حسن التسلیک فی عدم التشبیک ١٥٥ -حسن المحاضرة فی اخبار مصر والقاہرة ١٥٦ -حسن المقصد فی عمل المولد ١٥٧-لحصر والاشاعة فی اشراط الساعة ١٥٨- الحظ الوافر من المغنم فی استدراک الکافر اذا اسلم ١٥٩ - حلبة الاولیاء ١٦٠- حمائل الزہر فی فضائل السور ١٦١ -الحواشی الصغری ١٦٢- الخبر الدال علی وجود القطب والاوتاد والنجباء والابدال ١٦٣-الخلاصة فی نظم الروضة ١٦٤۔خصائص یوم الجمعة ١٦٥ -الدراری فی ابناء السراری ١٦٦ -در التاج فی اعراب مشکل المنہاج ١٦٧-در السحابة فیمن دخل مصر من الصحابة ١٦٨ -الدرر المنتشرة فی الاحادیث المشتہرة ١٦٩- الدر المنثور فی التفسیر المأثور ١٧٠ -الدر المنظم فی الاسم الاعظم ١٧١- الدر النثیر فی تلخیص نہایة ابن الاثیر ١٧٢- درج المعالی فی نصرة الغزالی علی المنکر المتعالی ١٧٣- الدرج المنیفة ١٧٤ درر البحار فی احادیث القصار ١٧٥ -درر الحکم و غررالکلم ١٧٦ -الدرة التاجیة علی الاسئلة الناجیة ١٧٧ -دفع التعسف عن اخوة یوسف ١٧٨ -دقائق الملحة ١٧٩- الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج ١٨٠- دیوان الحیوان ١٨١ -دیوان خطب ١٨٢- دیوان شعر ١٨٣-ذکر التشنیع فی مسئلة التسمیع ١٨٤- ذم زیارة الامراء ١٨٥- ذم القضاء ١٨٦ -ذم المکس ١٨٧-الذیل الممہد علی القول المسدد ١٨٨- الرحلة الدمیاطیة ١٨٩- الرحلة الفیومیة ١٩٠- الرحلةالمکیة ١٩١-رسالة فی النعال الشریفة ١٩٢-رشف الزلال ١٩٣- رفع الباس عن بنی العباس ١٩٤ -رفع الخدر عن قطع السدر ١٩٥ -رفع الخصاصة فی شرح الخلاصة ١٩٦ -رفع السنة فی نصب الزنة ١٩٧ -رفع شان الحبشان ١٩٨-رفع الصوت بذبح الموت ١٩٩ -رفع اللباس و کشف الالتباس فی ضرب المثل من القرآن والالتماس ٢٠٠-رفع منار الدین و ہدم بناء المفسدین ٢٠١- رفع الید فی الدعا ٢٠٢- الروض الاریض فی طہر المحیض ٢٠٣- الروض المکلل والورد المعلل فی المصطلح ٢٠٤ -الریاض الانیفة فی شرح اسماء خیر الخلیقة ٢٠٥-الزجاجة فی شرح سنن ابن ماجة ٢٠٦- الزند الوری فی الجواب عن السئوال الاسکندریہ ٢٠٧- الزہر الباسم فیما یزوج فیہ الحاکم ٢٠٨- زہر الربی فی شرح المجتبی ٢٠٩- زوائد الرجال علی تہذیب الکمال ٢١٠ -زوائد شعب الایمان للبیہقی ٢١١ -زوائد نوادر الاصول للحکیم الترمذی ٢١٢ -زیادات الجامع الصغیر ٢١٣ -السبل الجلیة ٢١٤- السلاف فی التفضیل بین الصلاة والطواف ٢١٥ -السلالة فی تحقیق المقر والاستحالة ٢١٦- السماح فی اخبار الرماح ٢١٧ -السیف الصیقل فی حواشی ابن عقیل ٢١٨- السیف النطار فی الفرق بین الثبوت والتکرار ٢١٩-شد الاثواب فی سد الابواب ٢٢٠- شد الرحال فی ضبط الرجال ٢٢١ -شذ العرف فی اثبات المعنی للحرف ٢٢٢- شرح ابیات تلخیص المفتاح ٢٢٣ -شرح الاستعاذة والبسملة ٢٢٤ -شرح البدیعة ٢٢٥ -شرح التدریب ٢٢٦- شرح التنبیہ ٢٢٧- شرح الرجبیة فی الفرائض ٢٢٨- شرح الروض ٢٢٩ -شرح الشاطبیة ٢٣٠ -شرح شواہد المغنی ٢٣١- شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور ٢٣٢ -شرح ضروری التصریف ٢٣٣- شرح عقود الجمان ٢٣٤ -شرح الکافیة فی التصریف ٢٣٥- شرح الکوکب الساطع ٢٣٦- شرح الکوکب الوقاد فی الاعتقاد ٢٣٧- شرح لغة الاشراف فی الاسعاف ٢٣٨- شرح الملحة ٢٣٩ -شرح النقایة ٢٤٠ -شرح بانت سعاد ٢٤١ -شرح تصریف العزی ٢٤٢- الشماریخ فی علم التاریخ ٢٤٣ -الشمعة المضیئة ٢٤٤- شوارد الفوائد ٢٤٥- الشہد ٢٤٦ -صون المنطق والکلام عن فنی المنطق والکلام ٢٤٧- ضوء الشمعة فی عدد الجمعة ٢٤٨ -ضوء الصباح فی لغات النکاح ٢٤٩ -الطب النبوی ٢٥٠ -طبقات الاصولیین ٢٥١- طبقات الحفاظ ٢٥٢- طبقات شعراء العرب ٢٥٣- طبقات الکتاب ٢٥٤ -طبقات المفسرین ٢٥٥ -طبقات النحاة الصغری ٢٥٦- طبقات النحاة الوسطی ٢٥٧ -طلوع الثریا باظہار ماکان خفیا ٢٥٨ طی اللسان عن ذم الطیلسان ٢٥٩ الظفر بقلم الظفر ٢٦٠ -العاذب السلسل فی تصحیح الخلاف المرسل ٢٦١- العشاریات ٢٦٢- عقود الجمان فی المعانی والبیان ٢٦٣ -عقود الزبرجد علی مسند الامام احمد ٢٦٤- عین الاصابة فی معرفة الصحابة ٢٦٥ -غایة الاحسان فی خلق الانسان ٢٦٦ -الغنیة فی مختصر الروضة ٢٦٧- فتح الجلیل للعبد الذلیل فی الانواع البدیعیة المستخرجة من قولہ تعالی: ''ولی الذین آمنوا'' ٦٨ ٢- الفتح القریب علی مغنی اللبیب ٢٦٩- فتح المطلب المبرور و برد الکبد المحرور فی الجواب عن الاسئلة الواردة من التکرور ٢٧٠ - فتح المغالق من انت تالق ٢٧١-فجر الثمد فی اعراب اکمل الحمد ٢٧٢ -فصل الحدة ٢٧٣ -فصل الخطاب فی قتل الکلاب ٢٧٤ -فصل الشتاء ٢٧٦ -فصل الکلام فی حکم السلام ٢٧٧- فصل الکلام فی ذم الکلام ٢٧٨ -فضل موت الاولاد ٢٧٩ -فلق الصباح فی تخریج احادیث الصحاح (یعنی صحاح اللغة للجوہری) ٢٨٠ -الفوائد المتکاثرة فی الاخبار المتواترة ٢٨١ -فہرست المرویات ٢٨٢ -قدح الزند فی السلم فی القند ٢٨٣ -القذاذة فی تحقیق محل الاستعاذة ٢٨٤ -قصیدة رائیة ٢٨٥-قطر النداء فی ورود الہمزة للنداء ٢٨٦ -قطع المجادلة عند تغییر المعاملة ٢٨٧ -قطف الازہار فی کشف الاسرار ٢٨٨- قلائد الفوائد ٢٨٩- القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ٢٩٠ -الجوبة الزکیہ عن الالغاز السبکیة ٢٩١- القول الحسن فی الذب عن السنن ٢٩٢ -القول الفصیح فی تعیین الذبیح ٢٩٣ -القول المجمل فی الرد علی المہمل ٢٩٤ -القول المشرق فی تحریم الاشتغال بالمنطق ٢٩٥- القول المشید فی الوقف المؤبد ٢٩٦-القول المضی فی الحنث فی المضی ٢٩٧ -الکافی فی زوائد المہذب علی الوافی ٢٩٨- الکاوی علی السخاوی ٢٩٩- کتاب الاعلام بحکم عیسی علیہ السلام ٣٠٠- کشف التلبیس عن قلب اہل التدلیس ٣٠١ -کشف الریب عن الجیب ٣٠٢ -کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة ٣٠٣ -کشف الضبابہ فی مسألة الاستنابة ٣٠٤ -کشف المغطاء فی شرح الموطا ء ٣٠٥- کشف النقاب عن الالقاب ٣٠٦ -الکشف عن مجاوزة ہٰذہ الامة ٧ ٣٠ -الکوکب الساطع فی نظم جمع الجوامع ٣٠٨-الکلام علی اول الفتح ٣٠٩- الکلام علی حدیث ابن عباس احفظ اﷲ یحفظک ٣١٠- الکلم الطیب والقول المختار فی المأثورة من الدعوات والاذکار ٣١١- لباب النقول فی اسباب النزول ٣١٢- لب اللباب فی تحریر الانساب ٣١٣- لبس الیلب فی الجواب عن ایراد الحلب ٣١٤ -لم الاطراف و ضم الاتراف ٣١٥ -اللمع فی اسماء من وضع الاربعون المتباینة ٣١٦ -اللمعة فی تحریر الرکعة لادراک الجمعة ٣١٧ -اللوامع والبوارق فی الجوامع والفوارق ٣١٨ -ما رواہ الواعون فی اخبار الطاعون ٣١٩ -المباحث الزکیة فی المسألة الدورکیة ٣٢٠ -مجمع البحرین و مطلع البدرین فی التفسیر ٣٢١ -مختصر الاحکام السلطانیة للماوردی ٣٢٢ -مختصر الاحیاء ٣٢٣- مختصر الالفیة ٣٢٤ -مختصر تہذیب الاحکام ٣٢٥ -مختصر تہذیب الاسماء ٣٢٦- مختصر شرح ابیات تلخیص المفتاح ٣٢٧- مختصر شفاء الغلیل فی الذم الصاحب والخلیل ٣٢٨- مختصر معجم البلدان ٣٢٩ -مختصر الملحة ٣٣٠ -المدرج الی المدرج ٣٣١- مذل العسجد لسوال المسجد ٣٣٢- مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع ٣٣٣ مرقاة الصعود الی سنن ابی داؤد ٣٣٤ -مسألة ضربی زیداً قائما ٣٣٥ -المستظرفة فی احکام دخول الحشفة ٣٣٦- المسلسلات الکبری ٣٣٧ -المصاعد العلیة فی قواعد النحویة ٣٣٨- المصابیح فی صلاة التراویح ٣٣٩-مطلع البدرین فیمن یوتی اجرین ٣٤٠- المعانی الدقیقة فی ادراک الحقیقة ٣٤١ -معترک الاقران فی مشترک القرآن ٣٤٢ -مفاتح الغیب فی التفسیر ٣٤٣- مفتاح الجنة فی الاعتصام بالکتاب والسنة ٣٤٤ مفحمات الاقران فی مبہمات القرآن ٣٤٥ -المقامات ٣٤٦ -مقاطع الحجاز ٣٤٧- الملتقط من الدرر الکامنة ٣٤٨- مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا ٣٤٩ -المنتقی ٣٥٠- منتہی الامال فی شرح حدیث '' انما الاعمال '' ٣٥١- المنجلی فی تطور الولی ٣٥٢- المنحة فی السبحة ٣٥٣- من عاش من الصحابة مأة و عشرین ٣٥٤ من وافقت کنیتہ زوجتہ من الصحابة ٣٥٥ -منہاج السنة و مفتاح الجنة ٣٥٦ -المنی فی الکنی ٣٥٧ -المہذب فی ما وقع فی القرآن من المعرب ٣٥٨- میزان المعدلة فی شرح البسملة ٣٥٩ -نتیجة الفکر فی الجہر بالذکر ٣٦٠- نشر العبیرفی تخریج احادیث الشرح الکبیر ٣٦١ -نظم التذکرة ٣٦٢ -نظم الدرر فی علوم الاثر ٣٦٣ -النفحة المسکیة والتحفة المکیة ٣٦٤-النقایة فی اربعة عشر علماً ٣٦٥- النقول المشرقة فی مسألة الفقة ٣٦٦- النکت البدیعات ٣٦٧- النکت علی الالفیة والکافیة والشافیة والشذور والنزہة ٣٦٨-نکت علی حاشیة المطول لابن العقری ٣٦٩- نکت علی شرح الشواہد للعینی ٣٧٠ -نور الحدیقة ٣٧١ -الوافی فی مختصر التنبیہ ٣٧٢- الورقات المقدمة ٣٧٣- الوسائل الی معرفة الاوائل ٣٧٤ وصول الامانی باصول التہانی ٣٧٥- ہدم الجانی علی البانی ٣٧٦- ہمع الہوامع فی شرح جمع الجوامع ٣٧٧ -الہیّة السنیة فی الہیة السنیة ٣٧٨- الید البسطی فی الصلاة الوسطی - ٣٧٩ الینبوع فیما زاد علی الروضة من الفروع ۔

٤۔ رواةِ احادیث اور علمائے اہل سنت کے اسمائے گرامی

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنے اس رسالہ میں جن جلیل القدر اور عظیم الشان راو یوں اور علمائے اہل سنت سے روایتیں نقل کی ہیں اگرچہ ان کے مختصر حالات کتاب کے حاشیہ میں نقل کردئے گئے ہیں لیکن یہاں قارئین کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اسمائے گرامی ذیل میں یکجا نقل کئے جارہے ہیں:

راویوں کے اسمائ:

١۔سعید بن جبیر ٢۔ حضرت ابن عباس ٣۔ مطلب بن ربیعہ ٤۔ زید بن ارقم ٥۔ زید بن ثابت ٦۔ ابو سعید خدری ٧۔ حضرت ابو بکر صدیق ٨۔ حضرت امام حسن ـ ٩۔ حضرت علی ـ ١٠۔ عبد اﷲ ابن عمر ١١۔ جابر بن عبد اﷲ انصاری ١٢۔ عبد اﷲ ابن جعفر ١٣۔ سلمہ بن الاکوع ١٤۔ ابو ہریرہ ١٥۔ عبد اﷲ ابن زبیر ١٦۔حضرت ابوذر ١٧۔ حضرت فاطمہ الزہرا ١٨۔ حضرت عمر فاروق ١٩۔ انس بن مالک ٢٠۔ ابن مسعود ٢١۔ مطلب بن عبد اﷲ ٢٢۔ حکیم ٢٣۔ حضرت عثمان غنی ٢٤۔ زوجہ ٔ رسول حضرت عائشہ

علمائے اہل سنت کے نام:

١۔ سعید بن منصور ٢۔ ابن المنذر ٣۔ ابی حاتم ٤۔ ابن مردویہ ٥۔ طبرانی ٦۔ ترمذی ٧۔ امام احمد بن حنبل ٨۔ نسائی ٩۔ حاکم ١٠۔ مسلم ١١۔ عبد بن حمید ١٢۔ ابو احمد ١٣۔ ابو یعلی ١٤۔ امام بخاری ١٥۔ ابن جریر ١٦۔ عقیلی ١٧۔ ابن شاہین ١٨۔ خطیب ١٩۔ دیلمی ٢٠۔ حافظ ابو نعیم ٢١۔ باوردی ٢٢۔ ابن عدی ٢٣۔ ابن حبان ٢٤ ۔ امام بیہقی ٢٥۔ ابن ابی شیبہ ٢٦۔ مسدد ٢٧۔ بزار ٢٨۔ ابن عساکر.

٥۔حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ کی مختصر توثیق

حدیث ثقلین:

حددیث ثقلین کی ٣٤ صحابہ و صحابیات نے جناب رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے، اور دور تالیف سے آج تک ہر عہد کے علماء ،انہیں حدیث و سیرت و مناقب و تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے چلے آئے ہیں:

١۔ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلا م سے بزار، محب الدین طبری ،دولالی، سخاوی،سمہودی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں حدیث ثقلین کو درج کیا ہے۔

٢۔ امام حسن ـسے،ابن قندوزی نے '' ینابیع المودة'' میں حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٣۔سلمان فار سی سے بھی قندوزی نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٤۔ حضرت ابوذرغفاری سے ( صحیح ترمذی )

٥۔ ابن عباس سے ( قندوزی)

٦۔ ابوسعیدی خدری (مسعود ی،طبری،ترمذی و غیرہ )

٧۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (ترمذی ،ابن اثیر و غیرہ)

٨۔ ابوالہیثم تیہان(سخاوی وقندوزی)

٩۔ ابورافع(سخاوی وقندوزی )

١٠۔ حذیفہ یمان(، محب الدین طبری ،مودةالقربی)

١١۔ حذیفہ بن اسید غفاری(ترمذی،ابونعیم اصفہانی،ابن اثیر ،سخاوی و غیرہ)

١٢ ۔ خزیمہ بن ثابت (سخاوی ،سہمودی،قندوزی )

١٣۔ ابوہریرہ (بزار ، سخاوی،سہمودی)

١٤ ۔ زیدبن ثابت (احمدبن حنبل، محب الدین طبری، ابن اثیر و غیرہ)

١٥ ۔ عبد اللہ بن حنطب(طبرانی،ابن اثیر وغیرہ)

١٦۔ جبیربن مطعم(ابونعیم اصفہانی و غیرہ)

١٧ ۔ براا بن عازب ( ابو نعیم اصفہانی)

١٨۔ انس بن مالک ( ابو نعیم اصفہانی )

١٩ ۔ طلحہ بن عبید اﷲ بن تمیمی( قندوزی )

٢٠۔ عبد الرحمن بن عوف( قندوزی )

٢١۔ سعد بن وقاص( قندوزی )

٢٢۔ عمرو بن عاص ( خوارزمی )

٢٣۔ سہل بن سعد انصاری (سخاوی ، سمہودی )

٢٤ ۔ عدی بن حاتم( سخاوی ،سمہودی و غیرہ)

٢٥۔ عقبہ بن عامر (سخاوی وغیرہ )

٢٦۔ ابو ایوب انصاری ( سخاوی)

٢٧۔ شریح خزاعی( سخاوی ، سمہودی و غیرہ)

٢٨۔ ابو قدامہ انصاری( سخاوی وغیرہ )

٢٩۔ ضمیرہ ٔ اسلمی( سخاوی وغیرہ)

٣٠۔ ا بو لیلی انصاری ( سخاوی ، سمہودی ، قندوزی )

٣١۔ حضرت فاطمہ الزہرا ( قندوزی )

٣٢۔ ام المومنین ام سلمہ( سخاوی س،سمہودی )

٣٣۔ ام ہانی بنت ابو طالب( سخاوی، سمہودی وغیرہ )

٣٤۔ زید بن ارقم ( صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل ، کنزالعمال ۔ سیوطی؛ در منثور،ترمذی)

حدیث ثقلین پرعلامہ ابن حجر ہیثمی کی ایک نظر :

سمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وآله وسلم ، القرآن وعترته ،وهی الاهل والنسل والرهط الادنون، ثقلین، لان الثقل کل نفیس خطیر مصون، وهٰذان کذلک، اذ کل منهما معدن للعلوم اللُّدنیّة والاسراروالحکم العلیة والاحکام الشرعیة ، ولذا حثصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی الاقتداء والتمسک بهم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن وعترت کو جو کہ آپ کے اہل ونسل و قریب تر لوگ ہیں ، ثقلین فرمایا ، اس لئے کہ ثقل '' ہر نفیس و گرانقدر شۓ کو کہتے ہیں" - اور یہ دونوں اسی طرح ہیں بھی- کیونکہ یہ دونوں علوم لدنی ، بلند اسرار و حکم اور احکام شرعی کے معد ن ہیں ، اسی لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے تمسک اور ان کی اقتداء کا حکم فرمایا ہے ۔(١)

حدیث سفینہ:

اس حدیث کوامام احمد بن حنبل ، امام مسلم ، ابن قتیبہ دینوری، بزار ، ابو یعلی موصلی ، طبری ، صولی صاحب کتاب الاوراق ، ابوالفرج اصفہانی ، طرانی، حاکم نیشاپوری ، ابن مردویہ اصفہانی ، ثعلبی ، ابو نعیم اصفہانی، ، ابن عبد البر ، خطیب بغدادی ، ابن مغازلی ، سمعانی ، فخر الدین رازی ، سبط ابن جوزی، محمد بن یوسف گنجی ، شہاب الدین حلبی ، نظام اعرج نیشاپوری، خطیب تبریزی ، طیبی شارح مشکاة، جمال الدین زرندی ، شہاب الدین قندوزی ،حموی جوینی ، ابن صباغ مالکی ، علی قاری اور عبد الرؤوف مناوی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے ۔

___________________

(١) علامہ ابن حجر ہیثمی مکی؛الصواعق المحرقة، ص٧٥.

قارئین کرام ! مقدمۂ کتاب کے طولانی ہونے کی بنا پر آپ سے بیحد معذرت خواہ ہیں، چونکہ اس کتاب سے مربوط کچھ مطالب ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے ضرورت اس بات کی محسوس ہورہی

کہ مقدمہ میں ان پر قدرے روشنی ڈالی جائے ،بہر حال اس کتاب کا پہلی دفعہ اردو ترجمہ دو بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ مؤمنین اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا تے ہوئے ناچیز کو دعائوں میں یاد رکھیں گے، آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ اقدس میں دست بہ دعا ہیں کہ تا دم آخر قرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے۔ (آمین)

والسلام

مترجم: محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی

گرام و پوسٹ بڑھیا ّ،ضلع کھیری لکھیم پور

یوپی ۔ ہندوستان

١٨ ذی الحجہ(بروز عید سعید غدیر)

مطابق ٢٩ جنوری ٢٠٠٥ ء بروز شنبہ

مقیم حال : قم مقدس ، جمہوری اسلامی ایران

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ وسلام علی عباده الذین اصطفی

هذه ستون حدیثا اسمیتها :'' اِحْیائَُ الْمَیْتْ بِفَضَائِلِ اَهْلِ الْبَیْتْ''.

تما م تعریفیں خدا وند متعال سے مخصوص ہیں ، اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر۔

یہ ساٹھ عدد حدیثیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام میں نے''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)''(فضائل ِاہل بیت سے احیاء میت)رکھا ہے ۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18