صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام 11%

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35191 / ڈاؤنلوڈ: 5221
سائز سائز سائز

1

2

3

باب چہارم

ہفتہ وار دنوں کی دعائیں

۱ ۔ جمعرات کے دن امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

مستحب ہے کہ انسان جمعرات کے دن پیغمبر اکرم پر حضرت ہزار مرتبہ درود بھیجے اور اس طرح کہے

أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ ۔

۲ ۔ مستحب ہے کہ انسان جمعرات کے دن نماز عصر کے بعد جمعہ کے ختم ہونے تک پیغمبر پر زیادہ درود بھیجے اور کہے

أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ وَ أَهْلِکْ عَدُوَّهُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ، مِنَ الْأَوَّلینَ وَالْآخِرینَ ۔

اگر اس ذکر کو سو مرتبہ پڑھے تو بہت زیادہ فضیلت ہے شیخ کفعمی کہتے ہیں کہ متحب ہے کہ جمعرات کے دن ہزار متبہ سورہ قدر پڑھے اور پیغمبر پر ہزار مرتبہ درود بھیجے۔

۳ ۔ شب جمعہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

مرحوم شیخ طوسی کتاب مختصر المصباح میں جہاں شب جمعہ کے اعمال بیان کئے ہیں فرمایا ہے کہ پیغمبر پر درود بھیجے

أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ وَ أَهْلِکْ عَدُوَّهُمْ، مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ، مِنَ الْأَوَّلینَ وَ الْآخِرینَ ۔ اسے سو مرتبہ یا جس مقدار میں ممکن ہو پڑھے۔

علوی مصری کی دعا کا واقعہ

عالم جلیل القدر سید بن طاوؤس مھجل الدعوات میں فرماتے ہیں ایک قدیم نسخہ میں تاریخ شوال سال تین سو ننانوے میں حسین بن علی بن ھند کے توسط سے لکھا ہوا تھا دعا علوی مصری کو دیکھا کہ اس میں اس طرح ذکر ہوا ہے کہ ایک دعاء امام منتظر نے اپنے شیعوں میں سے ایک شخص کو عالم خواب میں تعلیم دی اس نے ایک ظالم سے ظلم دیکھا تھا اس دعا کی وجہ سے خداوند تعالیٰ نے اس کے کام کو آسان کردیا اور اس کے دشمن کو ھلاک کیا۔

سید بن طاوؤس اس دعا کو اوامر دینے میں دو طریقوں سے نقل کیا ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے: کہ محمد بن علی علوی حسینی مصری کہتاہے میرے بارے میں حاکم مصر کے پاس شکایت ہوئی میں اس شخص کے خوف سے غمگین ہوگیا ڈر گیا سوچنے لگا کہیں اس سے نجات کے لئے کوئی صورت ہو اس لئے اپنے اجداد طاہرین کی زیارت کے لئے ہمارے مولا حضرت امام ابوعبداللہ الحسین کے حرم میں گیا حاکم مصر کے خوف سے حضرت کے حرم میں پناہ حاصل کی۔ پندرہ روز تک امام حسین کے جوار میں تھا شب و روز دعا اور زاری میں مشغول تھا ایک دن خواب اور بیداری کے درمیان والی حالت میں تھا اتنے میں صاحب الزمان جلوہ گر ہوئے انہوں نے مجھ سے فرمایا اے میرے فرزند تم فلاں شخص سے ڈر گئے میں نے عرض کیا کہ ہاں وہ مجھ کو قتل کرنا چاہتا ہے میں نے اپنے آقاسے پناہ حاسل کی ہے تا کہ جو کچھ وہ مجھ پر ظلم کرنا چاہتاہے اس ظالم سے مجھے نجات دے حضرت نے فرمایا کیا تم نے وہ دعائیں پڑھی ہے کہ جس دعا کو پڑھ کر پیغمبروں پر جو سختی ہو رہی تھی اس کو اٹھادیا جاتاہے میں نے عرض کیا وہ دعا کونسی ہے تا کہ میں بھی پڑھ لوں فرمایا شب جمعہ اٹھیں اور غسل کریں اور نماز شب پڑھیں جب سجدہ شکر بجالائیں حالانکہ دوزانو بیٹھ کر اس دعا کو پڑھیں۔

محمد بن علی مصری کہتاہے کہ حضرت پانچ راتیں پے در پے تشریف لائے حالانکہ میں خواب اور بیداری کے درمیان میں تھا اس دعا کو میرے لئے تکرار کیا یہاں تک کہ میں نے حفظ کیا شب جمعہ تشریف نہیں لائے میں اٹھا غسل کر کے اپنے لباس کو تبدیل کیا اور عطر لگایا نماز شب پڑھی اور دوزانو بیٹھا اور خدا کو اس دعا کے ساتھ پکارا ہفتہ کی رات حضرت اسی طریقے پر جیسے پہلے آتے تھے وہ تشریف لائے اور میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے محمد تمہاری دعا قبول ہوئی اور تمہارا دشمن ہلاک ہوا اس دعا کو تمام کرنے کے بعد خدا نے اس ھلاک کیا محمد بن علی مصری کہتاہے جب صبح ہوئی تو اپنے دوست احباب سے ملاقات کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوا تھوڑی دیر چلا تھا کہ اچانک ایک قاصد میرے فرزندوں کی جانب سے ایک خط لیکر آیا اور کہا جس مرد کے ڈر سے فرار کیا تھا وہ ھلاک ہوا ہے۔ اس نے چند مہمانوں کو دعوت دی تھی مہمان کھانا کھانے کے بعد چلے گئے وہ اپنے نوکروں کے ہمراہ وہیں پر سویا صبح اس کا پتہ نہیں چلا لوگ اس کے گھر گئے اس سے لحاف کو اٹھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سر تن سے جدا ہوا ہے اور اس کا خون جاری ہے یہ واقعہ شب جمعہ تک پتہ نہیں چلا کہ کس نے یہ کام کیا ہے میرے فرزندوں نے خبر دی تھی کہ میں جلدی گھر چلا آؤں جب میں اپنے گھر پہنچا تو اس کے قتل کا وقت پوچھا تو ٹھیک وہی وقت تھا کہ جس وقت میں نے دعا تمام کی تھی دعا یہ ہے۔

دعائے ندبہ کی اہمیت اور روز جمعہ

صدر الاسلام ہمدانی نے کتاب تکالیف الانام میں کہتے ہیں دعائے ندبہ پڑھنے کی خاصیت یہ ہے اگر اس دعا شریف کو ہر جگہ حضور قلب اخلاص کامل مضامین پر توجہ دیتے ہوئے پڑھے حضرت صاحب العصر کی خاص توجہ اس مکان اور محفل کی طرف ہوتی ہے بلکہ خود حضرت اس محفل میں حاضر ہوجاتے ہیں چنانچہ بعض موارد اور محافل میں ایسا اتفاق ہوا ہے۔

علامہ محقق شیخ علی اکبر نھاوندی نے کتاب العبقریہ الحسان میں کہتے ہیں کہ میں نے حجة الالسلام آقائے حاج شیخ مھدی کو دیکھا کہ اس نے سید جواد مرحوم کی کتاب سے نقل کیا تھا وہ اس کے مولف کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مرحوم اصفہان کے ائمہ جماعت میں سے تھے جو قابل اطمینان تھے وہ بہت عالی مقام رکھتا تھا سچ بولنے والوں میں سے تھا۔ (وما اظلّت الخظراء علی اصدق لھجة منہ) وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں ہم چند آدمی ایک دیہات میں رہتے تھے کہ جس کا نام صالح آباد تھا وہاں کے چند آدمی وہ جگہ غصب کر کے ہمارے ہاتھ چھیننا چاہتے تھے اس لئے کچھ لوگ غصب کرنے کے لئے وہاں آئے ہم نے اس بارے میں مذاکرات کئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا میں نے ایک عریضہ امام زمانہ کے نام لکھا اور اس کو نہر میں ڈال دیا اور تخت فولاد جا کر ایک خرابہ میں تضرع اور دعائے ندبہ پڑھنے میں مشغول ہوا بار بر کہتا تھا ھل الیک یابن احمد سبیل فتلقیٰ اے فرزند پیغمبر کیا تمہاری طرف کوئی راستہ ہے تا کہ میں تمہاری ملاقات کروں اچانک میں نے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنی تو میں نے دیکھا کہ ایک عرب سفید و سیاہ گھوڑے پر سوار ہے انہوں نے میری طرف نگاہ کی اور غائب ہوئے اس کو دیکھ کر دل کو اطمینان ہوا کہ اب میری مشکل حل ہوگی۔ اگلی رات میں میرا کام ٹھیک ہوا میں بار بار حضرت کو خواب میں دیکھتا تھا اور حضرت کا قیافہ اور شکل وہی تھی کہ جو بیداری کی حالت میں دیکھا تھا اسی طرح جناب آقائے سید رضا کہ جو اصفہان کے قابل وثوق علماء میں سے ہے وہ کہتاہے کہ زیادہ مقروض اور فقر و فاقہ کی وجہ سے مردوں کو اپنا وسیلہ قرار دیا تقریباً دو سو مرحومین کا نام لیکر طلب مغفرت کی ان کے بعد امام عصر کو اپنا وسیلہ قرار دیا دعائے ندبہ کے چند فقرات کوپڑھا جیسے ھل الیک یابن احمد سبیل فتلقی۔ اچانک ایک کمرہ کو دیکھا کہ اس سے ایک مخصوص نور نکلتا تھا اسی دن میری مشکل حل ہوئی۔ محدث جلیل القدر مرحوم نوری کہتے ہیں کہ آقا محمد سامرہ شہر میں زندگی گزارتے تھے وہ شخص عادل امین اور اطمینان کا باعث تھا اس کی ماں نیک اور عابدہ تھی اس نے بتایا کہ میری ماں کہتی تھی کہ جمعہ کے دن مرحوم مولیٰ میرزا محمد علی قزوینی کے ہمراہ تہہ خانے میں تھا مرحوم مولیٰ دعائے ندبہ پڑھتا تھا اور ہم بھی اس کے ہمراہ دعا پڑھنے میں مشغول تھے غمگین دل کے ساتھ جیسے کوئی عاشق اور حیران روتاہے جیسے ستم دیدہ نالہ و فریاد کرتاہے ہم بھی اس کے ساتھ روتے تھے تہہ خانہ خالی تھا ہمارے علاوہ کوئی اور وہاں پر موجود نہیں تھا اسی حالت میں تھے کہ اچانک کستوری کی خوشبو تہہ خانے میں پھیلی اور اس کی فضا کو معطر کیا اس کی خوشبو نے اس محفل کو اس قدر معطر کیا اور ہم سب اس حالت میں جو تھے وہاں سے باہر نکلے ہم سب اس شخص کی طرح کی جس کے سر پر پرندہ ہو خاموش ہوگئے حرکت کرنے اور بات کرنے کی ہمت نہیں تھی تھوڑی دیر حیران و پریشان رہ گئے یہاں تک کہ وہ معطر خوشبو کہ جس کو سونگھتے تھے وہ ختم ہوگئی ہم سب دعا کی حالت میں لوٹے جب ہم گھر واپس لوٹے تو مولیٰ سے اس عطر اور خوشبو کے بارے میں پوچھا مولیٰ نے کہا تمہیں اس سے کیا کام ہے اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا برادر بزرگوار آقائے علی رضا اصفہانی نے مجھے بتایا اور کہا کہ ایک دن میرزا محمد علی قزوینی امام زمانہ سے ملاقات کے بارے میں پوچھا میرا گمان یہ تھا کہ یہ بھی اپنے بزرگ استاد سید بحرالعلوم کی طرح آخری حجت سے ملاقات کرتے ہیں انہوں نے اس واقعہ کو اسی طرح میرے لئے بیان کیا۔

علامہ مجلسی زاد المعاد میں فرمایا ہے معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہوئی ہے کہ دعائے ندبہ کا پڑھنا چار عیدوں میں مستحب ہے یعنی روز جمعہ روز عید فطر روز عید قربان اور روز عید غدیر۔

بحار الانوار میں کتاب مزار میں دعائے ندبہ شریف کو سید بن طاوؤس سے اس نے بعض ہمارے اصحاب سے نقل کیا ہے وہ کہتاہے محمد بن علی بن ابوقرّہ کہتاہے دعائے ندبہ کتاب محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے میرے لئے نقل ہوئی ہے اور کہا گیا ہے یہ دعا صاحب الزمان کے لئے ہے اور مستحب ہے کہ چار عیدوں میں پڑھی جائے۔ محدث نوری نے اس دعا کو تحیة الزائر میں مصباح الزائر کتاب سید بن طاوؤس سے اور کتاب مزار میں محمد بن مشہدی نے سند مذکور کے ساتھ نقل کیا ہے اس نقل کے ضمن میں اس دعا کو کتاب المزار تقدیم میں لکھا ہے اس دعا کا مستحب ہونا شب جمعہ میں چار عیدوں میں استجاب کی طرح ہے اور وہ دعا یہ ہے۔

دعائے ندبہ

الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ وَصَلَّی اﷲُ عَلَی سَیِّدِنا مُحَمَّدٍ نَبِیِّهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً

حمد ہے خدا کیلئے جو جہانوں کا پرودگار ہے اور خدا ہمارے سردار اور اپنے نبی محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر رحمت کرے اور بہت بہت سلام بھیجے

اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلَی مَا جَریٰ بِهِ قَضاؤُکَ فِی أَوْلِیائِکَ الَّذِینَ اسْتَخْلَصْتَهُمْ

اے معبود حمد ہے تیرے لیے کہ جاری ہو گی تیری قضائ و قدر تیرے اولیائ کے بارے میںجن کو تو نے اپنے لیے

لِنَفْسِکَ وَدِینِکَ إذِ اخْتَرْتَ لَهُمْ جَزِیلَ مَا عِنْدَکَ مِنَ النَّعِیمِ الْمُقِیمِ الَّذِی لاَ زَوالَ لَهُ

اور اپنے دین کیلئے خاص کیا جب کہ انہیں اپنے ہاں سے وہ نعمتیں عطا کی ہیں جو باقی رہنے والی ہیں جو نہ ختم ہوتی ہیں نہ کمزور پڑتی ہیں

وَلاَ اضْمِحْلالَ بَعْدَ أَنْ شَرَطْتَ عَلَیْهِمُ الزُّهْدَ فِی دَرَجاتِ هذِهِ الدُّنْیَا الدَّنِیَّةِ وَزُخْرُفِها

اس کے بعد کہ تو نے ان پر اس دنیا کے بے حقیقت مناصب جھوٹی شان و شوکت اور زینت سے دور رہنا لازم کیا

وَزِبْرِجِها فَشَرَطُوا لَکَ ذلِکَ وَعَلِمْتَ مِنْهُمُ الْوَفائَ بِهِ فَقَبِلْتَهُمْ وَقَرَّبْتَهُمْ وَقَدَّمْتَ لَهُمُ

پس انہوں نے یہ شرط پوری کی اور ان کی وفا کو تو جانتا ہے تو نے انہیں قبول کیا مقرب بنایا ان کے ذکر کو بلند فرمایا

الذِّکْرَ الْعَلِیَّ وَالثَّنائَ الْجَلِیَّ وَأَهْبَطْتَ عَلَیْهِمْ مَلائِکَتَکَ وَکَرَّمْتَهُمْ بِوَحْیِکَ وَرَفَدْتَهُمْ

اور ان کی تعریفیں ظاہر کیں تو نے ان کی طرف اپنے فرشتے بھیجے ان کو وحی سے مشرف کیا

بِعِلْمِکَ وَجَعَلْتَهُمُ الذَّرِیعَةَ إلَیْکَ وَالْوَسِیلَةَ إلَی رِضْوانِکَ فَبَعْضٌ أَسْکَنْتَهُ جَنَّتَکَ

ان کو اپنے علوم سے نوازا اور ان کو وہ ذریعہ قرار دیا جوتجھ تک پہنچائے اور وہ وسیلہ جو تیری خوشنودی تک لے جائے پس ان میں کسی کو

إلَی أَنْ أَخْرَجْتَهُ مِنْها وَبَعْضٌ حَمَلْتَهُ فِی فُلْکِکَ وَنَجَّیْتَهُ وَمَنْ آمَنَ مَعَهُ مِنَ الْهَلَکَةِ

جنت میں رکھا یہاں تک کہ اس سے باہر بھیجا کسی کو اپنی کشتی میں سوار کیا اور بچا لیا اور جو ان کے ساتھ تھے انہیں موت سے بچایا

بِرَحْمَتِکَ وَبَعْضٌ اتَّخَذْتَهُ لِنَفْسِکَ خَلِیلاً وَسَأَلَکَ لِسانَ صِدْقٍ فِی الْاَخِرِینَ فَأَجَبْتَهُ

تو نے اپنی رحمت کے ساتھ اور کسی کو تو نے اپنا خلیل بنایا پھردوسرے سچی زبان والوں نے تجھ سے سوال کیا جسے تو نے پورا فرمایا

وَجَعَلْتَ ذلِکَ عَلِیّاًوَبَعْضٌ کَلَّمْتَهُ مِنْ شَجَرَةٍ تَکْلِیماً وَجَعَلْتَ لَهُ مِنْ أَخِیهِ رِدْئاً وَوَزِیْراً

اسے بلند وبالا قرار دیا کسی کے ساتھ تو نے درخت کے ذریعے کلام کیا اور اس کے بھائی کو اس کا مدد گار بنایا کسی کو تو نے نے بن باپ

وَبَعْضٌ أَوْلَدْتَهُ مِنْ غَیْرِ أَبٍ وَآتَیْتَهُ الْبَیِّناتِ وَأَیَّدْتَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَکُلٌّ شَرَعْتَ لَهُ شَرِیعَةً

کے پیدا فرمایا اسے بہت سے معجزات دئیے اور روح قدس سے اسے قوت دی تو نے ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت

وَنَهَجْتَ لَهُ مِنْهاجاً وَتَخَیَّرْتَ لَهُ أَوْصِیائَ مُسْتَحْفِظاً بَعْدَ مُسْتَحْفِظٍ مِنْ مُدَّةٍ إلَی مُدَّةٍ

اور راستہ مقرر کیا ان کے لیے اوصیائ چنے کہ تیرے دین کو قائم رکھنے کے لیے ایک کے بعد دوسرا نگہبان آیا

إقامَةً لِدِینِکَ وَحُجَّةً عَلَی عِبادِکَ وَلِئَلاَّ یَزُولَ الْحَقُّ عَنْ مَقَرِّهِ وَیَغْلِبَ الْباطِلُ عَلَی

جو تیرے بندوں پر حجت قرار پایا تاکہ حق اپنے مقام سے نہ ہٹے اور باطل کے حامی اہل حق پر غلبہ

أَهْلِهِ وَلاَ یَقُولَ أَحَدٌ لَوْلا أَرْسَلْتَ إلَیْنا رَسُولاً مُنْذِراًوَأَقَمْتَ لَنا عَلَماً هادِیاً فَنَتَّبِعَ آیاتِکَ

نہ پائیں اور کوئی یہ نہ کہے کہ کاش تو نے ہماری طرف ڈرانے والا رسول بھیجا ہوتا اور ہمارے لیے ہدایت کا جھنڈا بلند کیا ہوتا کہ تیری

مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزٰی إلَی أَنِ انْتَهَیْتَ بِالْاََمْرِ إلی حَبِیبِکَ وَنَجِیبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی

آیتوںکی پیروی کرتے اس سے پہلے کہ ذلیل و رسوا ہوں یہاں تک کہ تو نے امر ہدایت اپنے حبیب اور پاکیزہ اصل محمد

اﷲُ عَلَیْهِ وآلِهِ فَکانَ کَمَا انْتَجَبْتَهُ سَیِّدَ مَنْ خَلَقْتَهُ وَصَفْوَةَ مَنِ اصْطَفَیْتَهُ وَأَفْضَلَ مَنِ

کے سپرد کیا پس وہ ایسے سردار ہوئے جن کو تو نے مخلوق میں سے پسند کیا برگزیدوں میں سے برگزیدہ بنایا جن کو چنا ان میں سے

اجْتَبَیْتَهُ وَأَکْرَمَ مَنِ اعْتَمَدْتَهُ قَدَّمْتَهُ عَلَی أَنْبِیائِکَ وَبَعَثْتَهُ إلَی الثَّقَلَیْنِ مِنْ عِبادِکَ وَأَوْطَأْتَهُ

افضل بنایا اپنے خواص میںسے بزرگ قرار دیا انہیں نبیوں کا پیشوا بنایا اور ان کو اپنے بندوں میں سے جن وانس کی طرف بھیجا ان

مَشارِقَکَ وَمَغارِبَکَ وَسَخَّرْتَ لَهُ الْبُراقَ وَعَرَجْتَ بِرُوحِهِ إلَی سَمائِکَ وَأَوْدَعْتَهُ

کیلئے سارے مشرقوں مغربوں کو زیر کر دیا براق کو انکا مطیع بنایا اور انکو جسم و جان کیساتھ آسمان پربلایا اور تو نے انہیں سابقہ و آئندہ

عِلْمَ مَا کانَ وَمَا یَکُونُ إلَی انْقِضائِ خَلْقِکَ ثُمَّ نَصَرْتَهُ بِالرُّعْبِ وَحَفَفْتَهُ بِجَبْرَائِیلَ

باتوں کا علم دیا یہاں تک کہ تیری مخلوق ختم ہو جائے پھر ان کو دبدبہ عطا کیا اور ان کے گرد جبرائیل(ع)

وَمِیکائِیلَ وَالْمُسَوِّمِینَ مِنْ مَلائِکَتِکَ وَوَعَدْتَهُ أَنْ تُظْهِرَ دِینَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ

و میکائیل(ع) اور نشان زدہ فرشتوں کوجمع فرمایا ان سے وعدہ کیا کہ آپکا دین تمام ادیان پر غالب آئے گا اگرچہ مشرک دل تنگ ہوں

الْمُشْرِکُونَ وَذلِکَ بَعْدَ أَنْ بَوَّأْتَهُ مُبَوَّأَ صِدْقٍ مِنْ أَهْلِهِ وَجَعَلْتَ لَهُ وَلَهُمْ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ

اور یہ اس وقت ہوا جب ہجرت کے بعد تو نے انکے خاندان کوسچائی کے مقام پر جگہ دی اور انکے اور انکے ساتھیوں کیلئے قبلہ بنایا پہلا

لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبارَکاً وَهُدیً لِلْعالَمِینَ فِیهِ آیاتٌ بَیِّناتٌ مَقامُ إبْراهِیمَ وَمَنْ دَخَلَهُ

گھر جو مکہ میں بنا یا گیا جو جہانوں کیلئے برکت و ہدایت کا مرکز ہے اس میں واضح نشانیاں اور مقام ابراہیم(ع) ہے جو اس گھر میں داخل ہوا

کانَ آمِناً وَقُلْتَ إنَّما یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً ثُمَّ

اسے امان مل گئی نیز تو نے فرمایا ضرور خدا نے ارادہ کر لیا ہے کہ تم سے برائی کو دور کر دے اے اہلبیت(ع) اور تمہیں پاک رکھے جسطرح پاک رکھنے کا حق ہے

جَعَلْتَ أَجْرَ مُحَمَّدٍ صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَآلِهِ مَوَدَّتَهُمْ فِی کِتابِکَ فَقُلْتَ قُلْ لاَ أَسْأَلُکُمْ

محمد(ص) پر اور انکی آل(ع) پر تیری رحمتیں ہوں تو نے اہل بیت(ع) کی محبت کو انکا اجررسالت قرار دیا قرآن میں پس تو نے فرمایا کہہ دیں کہ میں تم

عَلَیْهِ أَجْراً إلاَّ الْمَوَدَّ ةَ فِی الْقُرْبیٰ وَقُلْتَ مَا سَأَلْتُکُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَکُمْ وَقُلْتَ ما

سے اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور تو نے کہا جو اجر میں نے تم سے مانگا ہے وہ تمہارے فائدے میں ہے

أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ إلاَّ مَنْ شَائَ أَنْ یَتَّخِذَ إلَی رَبِّهِ سَبِیلاً فَکانُوا هُمُ السَّبِیلَ

نیز تو نے فرمایا میں نے تم سے اجر رسالت نہیں مانگا سوائے اس کے کہ یہ راہ اس کے لیے جو خدا تک پہنچنا چاہے پس اہل بیت

إلَیْکَ وَالْمَسْلَکَ إلَی رِضْوانِکَ فَلَمَّا انْقَضَتْ أَیَّامُهُ أَقامَ وَلِیَّهُ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طالِبٍ

تیرا مقرر کردہ راستہ اور تیری خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہیں ہاں جب محمد(ص) رسول اللہ کا وقت پورا ہو گیا تو ان کی جگہ علی(ع) بن ابی طالب(ع) نے لے لی

صَلَواتُکَ عَلَیْهِما وَآلِهِما هادِیاً إذْ کانَ هُوَ الْمُنْذِرَ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هادٍ فَقالَ وَالْمَلاََُ

ان دونوں پر اور انکی آل(ع) پر تیری رحمتیں ہوں علی رہبر ہیں جب کہ محمد(ص) ڈرانے والے اور ہر قوم کیلئے رہبر ہے پس فرمایا آپ نے

أَمامَهُ مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلاهُ اَللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ والاهُ وَعادِ مَنْ

جماعت صحابہ سے کہ جسکا میں مولا ہوں پس علی(ع) بھی اسکے مولا ہیں اے معبود محبت کراس سے جو اس سے محبت کرے دشمنی کر اس سے

عاداهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ وَقالَ مَنْ کُنْتُ أَنَا نَبِیَّهُ فَعَلِیٌّ أَمِیرُهُ

جو اس سے دشمنی کرے مدد کر اسکی جو اسکی مدد کرے خوار کر اسکو جو اسے چھوڑے نیز فرمایا کہ جسکا میں نبی (ص) ہوں علی(ع) اسکا امیر و حاکم ہے

وَقالَ أَنَا وَعَلِیٌّ مِنْ شَجَرَةٍ واحِدَةٍ وَسائِرُ النَّاسِ مِنْ شَجَرٍ شَتَّیٰ وَأَحَلَّهُ مَحَلَّ هَارُونَ مِنْ

اور فرمایا میں اور علی(ع) ایک درخت سے ہیں اور دوسرے لوگ مختلف درختوں سے پیدا ہوئے ہیں اور علی(ع) کو اپنا جانشین بنایا جیسے ہارون(ع)

مُوسی فَقال لَهُ أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هارُونَ مِنْ مُوسی إلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِیَّ

موسیٰ(ع) کے جانشین ہوئے پس فرمایااے علی(ع) تم میری نسبت وہی مقام رکھتے ہو جو ہارون(ع) کو موسیٰ(ع) کی نسبت تھا مگر میرے بعد کوئی نبی(ص)

بَعْدِی وَزَوَّجَهُ ابْنَتَهُ سَیِّدَةَ نِسائِ الْعالَمِینَ وَأَحَلَّ لَهُ مِنْ مَسْجِدِهِ مَا

نہیںآپ نے علی(ع) کا نکاح اپنی بیٹی سردار زنان عالم(س) سے کیا مسجد میں ان کیلئے وہ امر حلال رکھا جو آپ کیلئے تھا اور مسجد کی

حَلَّ لَهُ وَسَدَّ الْاََبْوابَ إلاَّ بابَهُ ثُمَّ أَوْدَعَهُ عِلْمَهُ وَحِکْمَتَهُ فَقالَ أَنَا مَدِینَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ

طرف سے سبھی دروازے بندکرائے سوائے علی(ع) کے دروازے کے پھر اپنا علم و حکمت ان کے سپرد کیا تو فرمایا میں علم کاشہر ہوںاور علی(ع)

بابُها فَمَنْ أَرادَ الْمَدِینَةَ وَالْحِکْمَةَ فَلْیَأْتِها مِنْ بابِها ثُمَّ قالَ أَنْتَ أَخِی وَوَصِیِّی وَوارِثِی

اس کا دروازہ ہیں لہذا جو علم و حکمت کا طالب ہے وہ اس در علم پر آئے نیز یہ کہا کہ اے علی(ع) تم میرے بھائی جانشین اور وارث ہو

لَحْمُکَ مِنْ لَحْمِی وَدَمُکَ مِنْ دَمِی وَسِلْمُکَ سِلْمِی وَحَرْبُکَ حَرْبِی وَالْاِیمانُ

تمہارا گوشت میرا گوشت تمہارا خون میرا خون تمہاری صلح میری صلح تمہاری جنگ میری جنگ ہے اور ایمان

مُخالِطٌ لَحْمَکَ وَدَمَکَ کَمَا خالَطَ لَحْمِی وَدَمِی وَأَنْتَ غَداً عَلَی الْحَوْضِ خَلِیفَتِی

تمہاری رگوں میں شامل ہے جیسے وہ میرے رگوں میں شامل ہے قیامت میں تم حوض کوثر پر میرے خلیفہ ہوگے

وَأَنْتَ تَقْضِی دَیْنِی وَتُنْجِزُ عِداتِی وَشِیعَتُکَ عَلَی مَنابِرَ مِنْ نُورٍ مُبْیَضَّةً وُجُوهُهُمْ

تمہی میرے قرضے چکائو گے اور میرے وعدے نبھائو گے تمہارے شیعہ جنت میں چمکتے چہروں کیساتھ نورانی تختوں پرمیرے آس پاس

حَوْلِی فِی الْجَنَّةِ وَهُمْ جِیرانِی وَلَوْلا أَنْتَ یَا عَلِیُّ لَمْ یُعْرَفِ الْمُؤْمِنُونَ بَعْدِی وَکانَ بَعْدَهُ

میرے قرب میں ہوں گے اور اے علی(ع) اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد مومنوں کی پہچان نہ ہو پاتی چنانچہ وہ آپ کے بعد گمراہی سے

هُدیً مِنَ الضَّلالِ وَنُوراً مِنَ الْعَمیٰ وَحَبْلَ اﷲِ الْمَتِینَ وَصِراطَهُ الْمُسْتَقِیمَ لاَ یُسْبَقُ

ہدایت میں لانے والے تاریکی سے روشنی میںلانے والے خدا کا مضبوط سلسلہ اور اسکا سیدھا راستہ ہیں نہ قرابت پیغمبر(ص) میں کوئی ان

بِقَرابَةٍ فِی رَحِمٍ وَلاَ بِسابِقَةٍ فِی دِینٍ وَلاَ یُلْحَقُ فِی مَنْقَبَةٍ مِنْ مَناقِبِهِ یَحْذُو حَذْوَ الرَّسُولِ

سے بڑھا ہوا تھا نہ دین میں کوئی ان سے آگے تھا ان کے علاوہ کوئی بھی اوصاف میں رسول(ص) کے مانند نہ تھاعلی(ع) و نبی(ص) اور

صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِما وَآلِهِما وَیُقاتِلُ عَلَی التَّأْوِیلِ وَلاَ تَأْخُذُهُ فِی اﷲِ لَوْمَةُ لائِمٍ قَدْ وَتَرَ فِیهِ

انکی آل(ع) پر خدا کی رحمت ہو علی(ع) نے تاویل قرآن پر جنگ کی اور خدا کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ

صَنادِیدَ الْعَرَبِ وَقَتَلَ أَبْطالَهُمْ وَناوَشَ ذُؤْبانَهُمْ فَأَوْدَعَ قُلُوبَهُمْ أَحْقاداً بَدْرِیَّةً وَخَیْبَرِیَّةً

کی عرب سرداروں کو ہلاک کیا انکے بہادروں کو قتل کیا اور انکے پہلوانوں کو پچھاڑا پس عربوں کے دلوں میں کینہ بھر گیا کہ بدر‘ خیبر‘

وَحُنَیْنِیَّةً وَغَیْرَهُنَّ فَأَضَبَّتْ عَلَی عَداوَتِهِ وَأَکَبَّتْ عَلَی مُنابَذَتِهِ حَتَّی قَتَلَ النَّاکِثِینَ

حنین وغیرہ میں انکے لوگ قتل ہو گئے پس وہ علی(ع) کی دشمنی میں اکھٹے ہوئے اور انکی مخالفت پر آمادہ ہو گئے چنانچہ آپ(ع) نے بیعت توڑنے والوں

وَالْقاسِطِینَ وَالْمارِقِینَ وَلَمَّا قَضیٰ نَحْبَهُ وَقَتَلَهُ أَشْقَی الْاَخِرِینَ یَتْبَعُ أَشْقَی الْاََوَّلِینَ

تفرقہ ڈالنے والوں اور ہٹ دھرمی کرنے والوں کو قتل کیا جب آپکا وقت پورا ہوا تو بعد والوں میں سے بدبخت ترین نے آپ کو قتل کیا

لَمْ یُمْتَثَلْ أَمْرُ رَسُولِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِ وَآلِهِ فِی الْهادِینَ بَعْدَ الْهادِینَ وَالْاَُمَّةُ مُصِرَّةٌ عَلَی

اس نے پہلے والے شقی ترین کی پیروی کی رسول اللہ کا فرمان پورا نہ ہوا جبکہ ایک رہبرکے بعد دوسرا رہبر آتا رہا اور امت اس

مَقْتِهِ مُجْتَمِعَةٌ عَلَی قَطِیعَةِ رَحِمِهِ وَ إقْصائِ وُلْدِهِ إلاَّ الْقَلِیلَ مِمَّنْ وَفَیٰ لِرِعایَةِ

کی دشمنی پر شدت سے کمر بستہ ہو کر اس پر ظلم ڈھاتی رہی اور اس کی اولاد کو پریشان کرتی رہی مگر تھوڑے سے لوگ وفادار تھے اور انکا

الْحَقِّ فِیهِمْ فَقُتِلَ مَنْ قُتِلَ وَسُبِیَ مَنْ سُبِیَ وَأُقْصِیَ مَنْ أُقْصِیَ وَجَرَی الْقَضائُ لَهُمْ بِمَا

حق پہچانتے تھے پس ان میں سے کچھ قتل ہوگئے کچھ قید میں ڈالے گئے اور کچھ بے وطن ہوئے ان پر قضا وارد ہو گئی

یُرْجیٰ لَهُ حُسْنُ الْمَثُوبَةِ إذْ کانَتِ الْاََرْضُ لِلّٰهِ یُورِثُها مَنْ یَشائُ مِنْ عِبادِهِ وَالْعاقِبَةُ

جس پروہ بہترین اجر کے امیدوار ہوئے کیونکہ زمین خدا کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اسکا وارث بناتا ہے اور انجام کار پرہیزگاروں

لِلْمُتَّقِینَ وَسُبْحانَ رَبِّنا إنْ کانَ وَعْدُ رَبِّنا لَمَفْعُولاً وَلَنْ یُخْلِفَ اﷲُ وَعْدَهُ وَهُوَ الْعَزِیزُ

کیلئے ہے اور پاک ہے ہمارا رب کہ ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے ہاں خدا اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا وہ زبر دست ہے

الْحَکِیمُ فَعَلَی الْاََطآئِبِ مِنْ أَهْلِ بَیْتِ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِما وَآلِهِما فَلْیَبْکِ

حکمت والا پس حضرت محمد(ص)و حضرت علی(ع) کہ ان دونوں پر خدا کی رحمت ہو ان کے خاندان پران پر رونے والوں کو

الْباکُونَ وَ إیَّاهُمْ فَلْیَنْدُبِ النَّادِبُونَ وَلِمِثْلِهِمْ فَلْتَذْرِفِ الدُّمُوعُ وَلْیَصْرُخِ الصَّارِخُونَ

رونا چاہیے چنانچہ ان پر اور ان جیسوں پر دھاڑیں مار کر رونا چاہیے پس ان کیلئے آنسو بہائے جائیںرونے والے چیخ چیخ کر روئیں

وَیَضِجَّ الضَّاجُّونَ وَیَعِجَّ الْعاجُّونَ أَیْنَ الْحَسَنُ أَیْنَ الْحُسَیْنُ أَیْنَ أَبْنائُ الْحُسَیْنِ

نالہ و فریاد بلند کریں اور اونچی آوازوں میں رو کر کہیں کہاں ہیں حسن(ع) کہاںہیں حسین(ع) کہاں گئے فرزندان حسین(ع) ایک نیک کردار کے

صالِحٌ بَعْدَ صالِحٍ وَصادِقٌ بَعْدَ صادِقٍ أَیْنَ السَّبِیلُ بَعْدَ السَّبِیلِ أَیْنَ الْخِیَرَةُ بَعْدَ

بعد دوسرا نیک کردار ایک سچے کے بعد دوسرا سچا کہاں گئے جو ایک کے بعد ایک راہ حق کے رہبر تھے کہاں گئے جو اپنے وقت میںخدا

الْخِیَرَةِ أَیْنَ الشُّمُوسُ الطَّالِعَةُ أَیْنَ الْاََقْمارُ الْمُنِیرَةُ أَیْنَ الاََنْجُمُ الزَّاهِرَةُ أَیْنَ أَعْلامُ الدِّینِ

کے برگزیدہ تھے کدھر گئے وہ چمکتے سورج کیا ہوئے وہ دمتے چاند کہاں گئے وہ جھلملاتے ستارے کدھر گئے وہ دین کے نشان اور علم

وَقَواعِدُ الْعِلْمِ أَیْنَ بَقِیَّةُ اﷲِ الَّتِی لاَ تَخْلُو مِنَ الْعِتْرَةِ الْهادِیَةِ أَیْنَ الْمُعَدُّ لِقَطْعِ دابِرِ الظَّلَمَةِ

کے ستون کہاں ہے خدا کا آخری نمائندہ جو رہبروں کے اس خاندان سے باہر نہیں کہاں ہے وہ جو ظالموں کی جڑیں کاٹنے کیلئے آمادہ ہے

أَیْنَ الْمُنْتَظَرُ لاِِِقامَةِ الْاََمْتِ وَالْعِوَجِ أَیْنَ الْمُرْتَجیٰ لاِِِزالَةِ الْجَوْرِ وَالْعُدْوانِ أَیْنَ

کہاں ہے وہ جو انتظار میں ہے کہ کج کو سیدھا اور نا درست کو درست کرے کہاں ہے وہ امیدگاہ جو ظلم وستم کو مٹانے والا ہے کہاں ہے

الْمُدَّخَرُ لِتَجْدِیدِ الْفَرائِضِ وَالسُّنَنِ أَیْنَ الْمُتَخَیَّرُ لاِِِعادَةِ الْمِلَّةِ وَالشَّرِیعَةِ أَیْنَ الْمُؤَمَّلُ

وہ جو فرائض اور سنن کو زندہ کرنے والا امام(ع) کہاں ہے وہ جو ملت اور شریعت کو راست کرنے والا کہاں ہے وہ جس کے ذریعے قرآن

لاِِِحْیائِ الْکِتابِ وَحُدُودِهِ أَیْنَ مُحْیِی مَعالِمِ الدِّینِ وَأَهْلِهِ أَیْنَ قاصِمُ شَوْکَةِ

اور اس کے احکام کے زندہ ہونے کی توقع ہے کہاں ہے وہ جو دین اور اہل دین کے طریقے روشن کرنے والا کہاں ہے وہ جو ظالموں

الْمُعْتَدِینَ أَیْنَ هادِمُ أَبْنِیَةِ الشِّرْکِ وَالنِّفاقِ أَیْنَ مُبِیدُ أَهْلِ الْفُسُوقِ وَالْعِصْیانِ وَالطُّغْیانِ

کا زور توڑنے والا کہاں ہے وہ جو شرک و نفاق کی بنیادیں ڈھانے والا کہاں ہے وہ جو بدکاروں نافرمانوں اور سرکشوں کو تباہ کرنے والا

أَیْنَ حاصِدُ فُرُوعِ الْغَیِّ وَالشِّقاقِ أَیْنَ طامِسُ آثارِ الزَّیْغِ وَالْاََهْوائِ أَیْنَ قاطِعُ

کہاں ہے وہ جو گمراہی اور تفرقے کی شاخیں کاٹنے والا کہاں ہے وہ جو کج دلی و نفس پرستی کے داغ مٹانے والا کہاں ہے وہ جو جھوٹ اور بہتان

حَبائِلِ الْکِذْبِ وَالْاِفْتِرائِ أَیْنَ مُبِیدُ الْعُتاةِ وَالْمَرَدَةِ أَیْنَ مُسْتَأْصِلُ أَهْلِ الْعِنادِ وَالتَّضْلِیلِ

کی رگیں کاٹنے والا کہاں ہے وہ جو سرکشوں اور مغروروں کو تباہ کرنے والا کہاں ہے وہ جو دشمنوں گمراہ کرنے والوں اور بے دینوں کی

وَالْاِ لْحادِ أَیْنَ مُعِزُّ الْاََوْلِیائِ وَمُذِلُّ الْاََعْدائِ أَیْنَ جامِعُ الْکَلِمَةِ عَلَی التَّقْوی

جڑیں اکھاڑنے والا کہاں ہے وہ جو دوستوں کو باعزت اور دشمنوں کو ذلیل کرنے والا کہاں ہے وہ جو سب کو تقویٰ پر جمع کرنے والا

أَیْنَ بابُ اﷲِ الَّذِی مِنْهُ یُوَْتی أَیْنَ وَجْهُ اﷲِ الَّذِی إلَیْهِ یَتَوَجَّهُ الْاََوْلِیائُ أَیْنَ السَّبَبُ الْمُتَّصِلُ

کہاں ہے وہ جو خدا کا دروازہ جس سے وارد ہوں کہاں ہے وہ جو مظہر خدا کہ جس کی طرف حبدار متوجہ ہوں کہاں ہے وہ جو زمین و

بَیْنَ الْاََرْضِ وَالسَّمائِ أَیْنَ صاحِبُ یَوْمِ الْفَتْحِ وَناشِرُ رایَةِ الْهُدی أَیْنَ مُوََلِّفُ شَمْلِ

آسمان کے پیوست رہنے کا وسیلہ کہاں ہے وہ جو یوم فتح کا حکمران اور ہدایت کا پرچم لہرانے والا کہاں ہے جو وہ نیکی

الصَّلاحِ وَالرِّضا أَیْنَ الطَّالِبُ بِذُحُولِ الْاََنْبِیائِ وَأَبْنائِ الْاََنْبِیائِ أَیْنَ الطَّالِبُ بِدَمِ الْمَقْتُولِ

و خوشنودی کا لباس پہننے والا کہاں ہے وہ جو نبیوں کے خون اور نبیوں کی اولاد کے خون کا دعویدار کہاں ہے وہ جو کربلا کے مقتول حسین(ع)

بِکَرْبَلائَ أَیْنَ الْمَنْصُورُ عَلَی مَنِ اعْتَدی عَلَیْهِ وَافْتَری أَیْنَ الْمُضْطَرُّ الَّذِی یُجابُ إذا دَعا

کے خون کا مدعی کہاں ہے وہ جو اس پر غالب ہے جس نے زیادتی کی اور جھوٹ باندھا وہ پریشان کہ جب دعا مانگے قبول ہوتی ہے

أَیْنَ صَدْرُ الْخَلائِقِ ذُو الْبِرِّ وَالتَّقْوی أَیْنَ ابْنُ النَّبِیِّ الْمُصْطَفی وَابْنُ عَلِیٍّ الْمُرْتَضی وَابْنُ

کہاں ہے وہ جو مخلوق کا حاکم جو نیک و پرہیز گار ہے کہاں ہے وہ جو نبی مصطفی(ص) کا فرزند علی مرتضی (ع)کا فرزند خدیجہ

خَدِیجَةَ الْغَرَّائِ وَابْنُ فاطِمَةَ الْکُبْرَی بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی وَنَفْسِی لَکَ الْوِقائُ وَالْحِمی یَابْنَ

پاک(ع) کا فرزند اور فاطمہ کبری(ع) کا فرزند مہدی(ع) قربان آپ پر میرے ماں باپ اور میری جان آپ کیلئے فدا ہے اے خدا کے مقرب

السَّادَةِ الْمُقَرَّبِینَ یَابْنَ النُّجَبائِ الْاََکْرَمِینَ یَابْنَ الْهُداةِ الْمَهْدِیِّینَ یَابْنَ الْخِیَرَةِ الْمُهَذَّبِینَ

سرداروں کے فرزند اے پاک نسل بزرگواروں کے فرزند اے ہدایت یافتہ رہبروں کے فرزنداے برگزیدہ اور خوش اطوار بزرگوں

یَابْنَ الْغَطارِفَةِ الْاََنْجَبِینَ یَابْنَ الْاََطآئِبِ الْمُطَهَّرِینَ یَابْنَ الْخَضارِمَةِ الْمُنْتَجَبِینَ یَابْنَ

کے فرزند اے پاک نہاد سرداروں کے فرزند اے پاکبازوں پاک شدگان کے فرزند اے پاک نژاد و سادات کے فرزند

الْقَماقِمَةِ الْاََکْرَمِینَ یَابْنَ الْبُدُورِ الْمُنِیرَةِ یَابْنَ السُّرُجِ الْمُضِیْئَةِ یَابْنَ الشُّهُبِ الثَّاقِبَةِ

اے وسیع القلب عزت داروں کے فرزند اے روشن چاندوں کے فرزند اے روشن چراغوں کے فرزند اے روشن سیاروں کے فرزند

یَابْنَ الْاََنْجُمِ الزَّاهِرَةِ یَابْنَ السُّبُلِ الْواضِحَةِ یَابْنَ الْاََعْلامِ اللاَّئِحَةِ یَابْنَ الْعُلُومِ الْکامِلَةِ

اے چمکتے ستاروں کے فرزند اے روشن راہوںکے فرزند اے بلند مرتبے والوں کے فرزنداے حاملین علوم کے فرزند

یَابْنَ السُّنَنِ الْمَشْهُورَةِ یَابْنَ الْمَعالِمِ الْمَأْثُورَةِ یَابْنَ الْمُعْجِزاتِ الْمَوْجُودَةِ یَابْنَ الدَّلائِلِ

اے واضح روشوں کے فرزند اے مذکورہ علامتوں کے فرزند اے معجز نمائوںکے فرزند اے ظاہر دلائل کے فرزند

الْمَشْهُودَةِ یَابْنَ الصِّراطِ الْمُسْتَقِیمِ یَابْنَ النَّبَاََ الْعَظِیمِ یَابْنَ مَنْ هُوَ فِی أُمِّ الْکِتابِ لَدَی اﷲِ

اے سیدھے راستے کے فرزند اے عظیم خبر کے فرزند اے اس ہستی کے فرزند جو خدا کے ہاں ام الکتاب میں

عَلِیٌّ حَکِیمٌ یَابْنَ الْآیاتِ وَالْبَیِّناتِ یَابْنَ الدَّلائِلِ الظَّاهِراتِ یَابْنَ الْبَراهِینِ الْواضِحاتِ

علی اور حکیم ہے اے واضح روشن آیات کے فرزند اے ظاہر اور دلائل کے فرزند اے واضح و روشن تر دلائل کے

الْباهِراتِ یَابْنَ الْحُجَجِ الْبالِغاتِ یَابْنَ النِّعَمِ السَّابِغاتِ یَا ابْنَ طه وَالْمُحْکَماتِ یَابْنَ یسَ

فرزند اے کامل حجتوں کے فرزند اے بہترین نعمتوں کے فرزند اے طۂ اور محکم آیتوں کے فرزند اے یا سین

وَالذَّارِیاتِ یَابْنَ الطُّورِ وَالْعادِیاتِ یَابْنَ مَنْ دَنیٰ فَتَدَلَّیٰ فَکانَ قابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنیٰ دُنُوّاً

و ذاریات کے فرزند اے طور اور عادیات کے فرزند اے اس ہستی کے فرزند جو نزدیک ہوئے تو اس سے مل گئے پس کمان کے دونوں سروں جتنے

وَاقْتِراباً مِنَ الْعَلِیِّ الْاََعْلی لَیْتَ شِعْرِی أَیْنَ اسْتَقَرَّتْ بِکَ النَّویٰ بَلْ أَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّکَ

یا اس سے بھی نزدیک ہوئے علی اعلیٰ کے قریب ہو گئے اے کاش میں جانتا کہ اس دوری نے آپ کو کہاں جا ٹھہرایااور کس زمین میں اور کس خاک نے

أَوْ ثَریٰ أَبِرَضْویٰ أَوْ غَیْرِها أَمْ ذِی طُویٰ عَزِیزٌ عَلَیَّ أَنْ أَرَی الْخَلْقَ وَلاَ تُریٰ

آپکو اٹھا رکھا ہے آپ مقام رضویٰ میں ہیں یا کسی اور پہاڑ پر ہیں یا وادی طویٰ میں یہ مجھ پر گراں ہے کہ مخلوق کو دیکھوں اور آپکو نہ دیکھ پائوں

وَلاَ أَسْمَعُ لَکَ حَسِیساً وَلاَ نَجْویٰ عَزِیزٌ عَلَیَّ أَنْ تُحِیطَ بِکَ دُونِیَ الْبَلْوَیٰ وَلاَ

نہ آپکی آہٹ سنوں اور نہ سر گوشی، مجھے رنج ہے کہ آپ تنہا سختی میں پڑے ہیں میں آپکے ساتھ نہیں ہوں اور میری آہ و زاری آپ

یَنالُکَ مِنِّی ضَجِیجٌ وَلاَ شَکْویٰ بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ مُغَیَّبٍ لَمْ یَخْلُ مِنَّابِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ نازِحٍ

تک نہیں پہنچ پاتی میری جان آپ پر قربان کہ آپ غائب ہیں مگر ہم سے دور نہیں میں آپ پر قربان آپ وطن سے دور ہیں لیکن ہم

مَا نَزَحَ عَنَّا بِنَفْسِی أَنْتَ أُمْنِیَّةُ شائِقٍ یَتَمَنَّیٰ مِنْ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ ذَکَرا فَحَنَّا بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ

سے دور نہیں میں آپ پرقربان آپ ہر محب کی آرزو ہر مومن و مومنہ کی تمنا ہیںجس کیلئے وہ نالہ کرتے ہیں میں قربان آپ وہ عزت دار ہیں

عَقِیدِ عِزٍّ لاَ یُسَامیٰ بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ أَثِیلِ مَجْدٍ لاَ یُجارَیٰ بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ تِلادِ نِعَمٍ لاَ

جنکا کوئی ثانی نہیں میں قربان آپ وہ بلند مرتبہ ہیں جن کے برابر کوئی نہیں میں قربان آپ وہ قدیمی نعمت ہیں جس کی مثل نہیں میں

تُضاهیٰ بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ نَصِیفِ شَرَفٍ لاَ یُساوَیٰ إلی مَتَی أَحارُ فِیکَ یَا مَوْلایَ وَ إلَی

قربان آپ جو شرف رکھتے ہیں وہ کسی اور کو نہیں مل سکتا کب تک ہم آپ کے لیے بے چین رہیںگے اے میرے آقا اور کب تک

مَتَیٰ وَأَیَّ خِطابٍ أَصِفُ فِیکَ وَأَیَّ نَجْوَیٰ عَزِیزٌ عَلَیَّ أَنْ أُجَابَ دُونَکَ وَأُناغَیٰ عَزِیزٌ

اور کسطرح آپ سے خطاب کروں اور سرگوشی کروں یہ مجھ پر گراں ہے کہ سوائے آپکے کسی سے جواب پائوں یا باتیں سنوں مجھ پر

عَلَیَّ أَنْ أَبْکِیَکَ وَیَخْذُلَکَ الْوَرَیٰ عَزِیزٌ عَلَیَّ أَنْ یَجْرِیَ عَلَیْکَ دُونَهُمْ مَا جَرَیٰ هَلْ

گراں ہے کہ میں آپ کیلئے روئوں اور لوگ آپکو چھوڑے رہیں مجھ پر گراں ہے کہ لوگوں کیطرف سے آپ پر گزرے جو گزرے تو

مِنْ مُعِینٍ فَأُطِیلَ مَعَهُ الْعَوِیلَ وَالْبُکائَ هَلْ مِنْ جَزُوعٍ فَأُساعِدَ جَزَعَهُ إذا خَلا هَلْ قَذِیَتْ

کیا کوئی ساتھی ہے جسکے ساتھ مل کر آپ کے لیے گریہ وزاری کروں کیا کوئی بے تاب ہے کہ جب وہ تنہا ہو تو اس کے ہمراہ نالہ کروں

عَیْنٌ فَساعَدَتْها عَیْنِی عَلَی الْقَذَیٰ هَلْ إلَیْکَ یَابْنَ أَحْمَدَ سَبِیلٌ فَتُلْقیٰ هَلْ

آیا کوئی آنکھ ہے جسکے ساتھ مل کر میری آنکھ غم کے آنسو بہائے اے احمد مجتبی(ص) کے فرزند آپ کے پاس آنے کا کوئی راستہ ہے کیا ہمارا

یَتَّصِلُ یَوْمُنا مِنْکَ بِعَدِهِ فَنَحْظیٰ مَتَی نَرِدُ مَناهِلَکَ الرَّوِیَّةَ فَنَرْوَیٰ مَتَی نَنْتَقِعُ

آج کا دن آپکے کل سے مل جائے گا کہ ہم خوش ہوں کب وہ وقت آئیگا کہ ہم آپکے چشمے سے سیراب ہونگے کب ہم آپ کے چشمہ ٔ

مِنْ عَذْبِ مائِکَ فَقَدْ طالَ الصَّدیٰ مَتیٰ نُغادِیکَ وَنُراوِحُکَ فَنُقِرَّ عَیْناً

شیریں سے پیاس بجھائیں گے اب تو پیاس طولانی ہو گئی کب ہماری صبح و شام آپکے ساتھ گزرے گی کہ ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہونگی

مَتی تَرانا وَنَراکَ وَقَدْ نَشَرْتَ لِوائَ النَّصْرِتُرَیٰ أَتَرَانا نَحُفُّ بِکَ وَأَنْتَ تَؤُمُّ الْمَلْأَ

کب آپ ہمیں اورہم آپکو دیکھیں گے جبکہ آپکی فتح کا پرچم لہراتا ہو گا ہم آپکے ارد گرد جمع ہونگے اور آپ سبھی لوگوں کے امام ہونگے

وَقَدْ مَلْأَتَ الْاََرْضَ عَدْلاً وَأَذَقْتَ أَعْدائَکَ هَواناً وَعِقاباً وَأَبَرْتَ الْعُتاةَ وَجَحَدَةَ الْحَقِّ

تب زمین آپکے ذریعے عدل و انصاف سے پر ہو گی آپ اپنے دشمنوں کو سختی و ذلت سے ہمکنار کرینگے آپ سرکشوں اور حق کے

وَقَطَعْتَ دابِرَ الْمُتَکَبِّرِینَ وَاجْتَثَثْتَ أُصُولَ الظَّالِمِینَ وَنَحْنُ نَقُولُ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ

منکروں کو نابود کرینگے مغروروں کا زور توڑ دینگے اور ظلم کرنے والوں کی جڑیں کاٹ دینگے اس وقت ہم کہیں گے حمد ہے خدا کیلئے جو

الْعالَمِینَ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ کَشَّافُ الْکَُرَْبِ وَالْبَلْوَیٰ وَ إلَیْکَ أَسْتَعْدِیٰ فَعِنْدَکَ الْعَدْوَیٰ

جہانوں کا رب ہے اے معبود تو دکھوں اور مصیبتوں کو دور کرنے والا ہے میں تیرے حضور شکایت لایا ہوں کہ تو مداوا کرتا ہے

وَأَنْتَ رَبُّ الْاَخِرَةِ وَالدُّنْیا فَأَغِثْ یَا غِیاثَ الْمُسْتَغِیثِینَ عُبَیْدَکَ الْمُبْتَلیٰ وَأَرِهِ سَیِّدَهُ

اور تو ہی دنیا و آخرت کا پروردگار ہے پس میری فریاد سن اے فریادیوں کی فریاد سننے والے اپنے اس حقیر اور دکھی بندے کو اس آقا کا دیدار کرا دے

یَا شَدِیدَ الْقُوَیٰ وَأَزِلْ عَنْهُ بِهِ الْاََسَیٰ وَالْجَوَیٰ وَبَرِّدْ غَلِیلَهُ یَا مَنْ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ

اے زبردست قوت والے انکے واسطے سے اسکے رنج و غم کو دور فرما اور اسکی پیاس بجھا دے اے وہ ذات جو عرش پر حاوی ہے کہ جسکی

وَمَنْ إلَیْهِ الرُّجْعیٰ وَالْمُنْتَهیٰ اَللّٰهُمَّ وَنَحْنُ عَبِیدُکَ التَّائِقُونَ إلی وَلِیِّکَ الْمُذَکِّرِ بِکَ

طرف واپسی اور آخری ٹھکانا ہے اور اے معبود ہم ہیں تیرے حقیر بندے جو تیرے ولی عصر(ع) کے مشتاق ہیں جن کا ذکر تو نے

وَبِنَبِیِّکَ خَلَقْتَهُ لَنا عِصْمَةً وَمَلاذاً وَأَقَمْتَهُ لَنا قِواماً وَمَعاذاً وَجَعَلْتَهُ لِلْمُوَْمِنِینَ

اور تیرے نبی(ص) نے کیا تو نے انہیں ہماری جائے پناہ بنایا ہمارا سہارا قرار دیا انکو ہماری زندگی کا ذریعہ اور پناہ گاہ بنایا اور انکو ہم میں سے

مِنَّا إماماً فَبَلِّغْهُ مِنَّا تَحِیَّةً وَسَلاماً وَزِدْنا بِذلِکَ یَارَبِّ إکْراماً وَاجْعَلْ مُسْتَقَرَّهُ لَنا

مومنوں کا امام قرار دیا پس انکو ہمارا درود و سلام پہنچا اور اے پروردگار انکے ذریعے ہماری عزت میں اضافہ فرما انکی قرار گاہ کو ہماری

مُسْتَقَرَّاً وَمُقاماً وَأَتْمِمْ نِعْمَتَکَ بِتَقْدِیمِکَ إیَّاهُ أَمامَنا حَتَّی تُورِدَنا جِنَانَکَ وَمُرافَقَةَ

قرار گاہ اور ٹھکانہ بنا دے ہم پر انکی امامت کے ذریعے ہمارے لیے اپنی نعمت پوری فرما یہاں تک کہ وہ ہمیں تیری جنت میں ان

الشُّهَدائِ مِنْ خُلَصائِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ جَدِّهِ

شہیدوں کے پاس لے جائینگے جو مقرب خاص ہیں اے معبود! محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور امام مہدی(ع) کے نانا محمد(ص) پر رحمت فرما

وَرَسُولِکَ السَّیِّدِ الْاََکْبَرِ وَعَلَی أَبِیهِ السَّیِّدِ الْاََصْغَرِ وَجَدَّتِهِ الصِّدِّیقَةِ الْکُبْری فاطِمَةَ

جو تیرے رسول اور عظیم سردار ہیں اور مہدی(ع) کے والد پر رحمت کر جو چھوٹے سردار ہیں ان کی دادی صدیقۂ کبری فاطمہ(ع)

بِنْتِ مُحَمَّدٍ صلَّی الله عَلیْهِ وآلِهِ وَعَلَی مَنِ اصْطَفَیْتَ مِنْ آبائِهِ الْبَرَرَةِ وَعَلَیْهِ أَفْضَلَ

بنت محمد پر رحمت فرما ان سب پر رحمت فرما جن کو تو نے ان کے نیک بزرگوں میں سے چنا اور القائم پر رحمت فرما بہترین کامل

وَأَکْمَلَ وَأَتَمَّ وَأَدْوَمَ وَأَکْثَرَ وَأَوْفَرَ مَا صَلَّیْتَ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَصْفِیائِکَ وَخِیَرَتِکَ مِنْ

پوری ہمیشہ ہمیشہ بہت سی بہت زیادہ جو رحمت کی ہو تو نے اپنے برگزیدوں میں سے کسی پر اور مخلوق میں سے اپنے

خَلْقِکَ وَصَلِّ عَلَیْهِ صَلاةً لاَ غایَةَ لِعَدَدِها وَلاَ نِهایَةَ لِمَدَدِها وَلِاِنَفادَ لاََِمَدِها اَللّٰهُمَّ

پسند کردہ پر اور اس پر درود بھیج وہ درود جس کا شمار نہ ہوسکے جس کی مدت ختم نہ ہو اور جو کبھی منقطع نہ ہو اے معبود!

وَأَقِمْ بِهِ الْحَقَّ وَأَدْحِضْ بِهِ الْباطِلَ وَأَدِلْ بِهِ أَوْلِیائَکَ وَأَذْلِلْ بِهِ أَعْدائَکَ

انکے ذریعے حق کو قائم فرما انکے ہاتھوں باطل کو مٹا دے انکے وجود سے اپنے دوستوں کو عزت دے انکے ذریعے اپنے دشمنوں کو ذلت دے

وَصِلِ اَللّٰهُمَّ بَیْنَنا وَبَیْنَهُ وُصْلَةً تُوََدِّیٰ إلی مُرافَقَةِ سَلَفِهِ وَاجْعَلْنا مِمَّنْ

اور اے معبود ہمیں اور انکو اکٹھے کر دے ایسا اکٹھا کہ جو ہم کو انکے پہلے بزرگوں تک پہنچائے اور ہمیں ان میں قرار دے جنہوں نے ان

یَأْخُذُ بِحُجْزَتِهِمْ وَیَمْکُثُ فِی ظِلِّهِمْ وَأَعِنَّا عَلَی تَأْدِیَةِ حُقُوقِهِ إلَیْهِ وَالاجْتِهادِ فِی طاعَتِهِ

کا دامن پکڑا ہے ہمیں ان کے زیر سایہ رکھ ان کے حقوق ادا کرنے میں ہماری مدد فرما ان کی فرما نبرداری میں کوشاں بنا دے

وَاجْتِنابِ مَعْصِیَتِهِ وَامْنُنْ عَلَیْنا بِرِضاهُ وَهَبْ لَنا رَأْفَتَهُ وَرَحْمَتَهُ وَدُعائَهُ وَخَیْرَهُ

انکی نافرمانی سے بچائے رکھ انکی خوشنودی سے ہم پر احسان کر اور ہمیں انکی محبت عطا فرما انکی رحمت انکی دعا اور انکی برکت عطا فرما

مَا نَنالُ بِهِ سَعَةً مِنْ رَحْمَتِکَ وَفَوْزاً عِنْدَکَ وَاجْعَلْ صَلا تَنا بِهِ مَقبُولَةً وَذُنُوبَنا بِهِ

جسکے ذریعے ہم تیری وسیع رحمت اور تیرے ہاں کامیابی حاصل کریں ان کے ذریعے ہماری نماز قبول فرما ان کے وسیلے ہمارے گناہ

مَغْفُورَةً اوَدُعائَنا بِهِ مُسْتَجاباً وَاجْعَلْ أَرْزاقَنا بِهِ مَبْسُوطَةً وَهُمُومَنابِهِ مَکْفِیَّةً

بخش دے انکے واسطے سے ہماری دعا منظور فرما اور انکے ذریعے سے ہماری روزیاں فراخ کر دے ہماری پریشانیاں دور فرما اور انکے وسیلے سے

وَحَوَائِجَنا بِهِ مَقْضِیَّةً وَأَقْبِلْ إلَیْنا بِوَجْهِکَ الْکَرِیمِ وَاقْبَلْ تَقَرُّبَنا إلَیْکَ وَانْظُرْ إلَیْنا

ہماری حاجات کو پورا فرما اور توجہ کر ہماری طرف اپنی ذات کریم کے واسطے سے اور قبول فرما اپنی بار گاہ میں ہماری حاضری ہماری طرف نظر کر

نَظْرَةً رَحِیمَةً نَسْتَکْمِلُ بِهَا الْکَرامَةَ عِنْدَکَ ثُمَّ لاَ تَصْرِفْها عَنَّا بِجُودِکَ وَاسْقِنا مِنْ

مہربانی کی نظر کہ جس سے تیری درگاہ میں ہماری عزت بڑھ جائے پھر اپنے کرم کی وجہ سے وہ نظر ہم سے نہ ہٹا ہمیں القائم(ع) کے نانا

حَوْضِ جَدِّهِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِ وَآلِهِ بِکَأْسِهِ وَبِیَدِهِ رَیّاً رَوِیّاً هَنِیْئاً سَائِغاً

کے حوض سے سیراب فرما ان پر اور انکی آل (ع) پر خدا کی رحمت ہو انکے جام سے انکے ہاتھ سے سیر و سیراب کر جس میں مزہ آئے اور پھر

لاَ ظَمَأَ بَعْدَهُ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

پیاس نہ لگے اے سب سے زیادہ رحم والے ۔

۔ جمعہ کے دن صبح کے نماز کے بعد کی دعا

جمع کے دن صبح کے بعد آخری حجت کے تعجیل ظہور کے لئے دعا مستحب ہے کہ انسان جمعہ کے دن نماز صبح کے بعد سو مرتبہ سورہ توحید کو پڑھے اور سو مرتبہ استغفار کرے اور سو مرتبہ پیغمبر پر اس طرح درود بھیجے اور کہے

أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ

۔ جمعہ کے دن امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

شیخ طوسی مصباح المتھجد میں لکھتے ہیں جب تم چاہو کہ جمعہ کے دن پیغمبر پر درود بھیجو تو کہو

أَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلٰاتَکَ، وَ صَلَوٰاة مَلٰائِکَتِکَ وَ رُسُلِکَ، عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ ۔یا کہےأَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ ۔اور روایت میں ہے کہ سو مرتبہ کہوأَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ

۔ جمعہ کے دن امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

مستحب ہے کہ انسان جمعہ کے دن سورہ قدر کو سو مرتبہ پڑھے اور کہےأَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ ۔اس ذکر کو امکان کی صورت میں ہزار مرتبہ یا سو مرتبہ یا دس مرتبہ کہے۔

۔ نماز جمعہ کے بعد درود بھیجنے کی فضیلت

حضرت صادق نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جو بھی نماز جمعہ کے بعد سات مرتبہ کہےأَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ ۔تو یہ شخص حضرت کے اصحاب اور مددگاروں میں شامل ہوجاتاہے۔

۱۰ ۔ جمعہ عید افطر عید قربان کے دن آخری حجت کے ظہور کے لئے دعا۔

حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں جمعہ عید فطر عید قربان کے دن جب نماز کے لئے جانے کا ارادہ کریں تو کہیں

أَللّٰهُمَّ مَنْ تَهَیَّأَ فی هٰذَا الْیَوْمِ، أَوْ أَعَدَّوَاسْتَعَدَّلِوِفٰادَةٍ إِلیٰ مَخْلُوقٍ، رَجٰاءَ رِفْدِهِ وَجٰائِزَتِهِ وَنَوٰافِلِهِ، فَإِلَیْکَ یٰاسَیِّدی کٰانَتْ وِفٰادَتی وَتَهْیِئَتی وَإِعْدٰادی وَ اسْتِعْدٰادی رَجٰا رِفْدِک، وَجَوٰائِزِکَ وَنَوٰافِلِکَ

أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ وَاخِیَرَتِکَ مِنْ خَلْقِکَ، وَعَلِیٍّ أَمیرِالْمُوٴْمِنینَ وَوَصِیِّ رَسُلِکَ، وَصَلِّ یٰا رَبِّ عَلیٰ أَئِمَّةِ الْمُوٴْمِنینَ، اَلْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَعَلِیٍّ وَمُحَمَّدٍاور ایک ایک کر کے تمام معصومین کا نام لیں یهاں تک اپنے مولیٰ کا نام لیں اور کهیں

أَللّٰهُمَّ افْتَحْ لَهُ فَتْحاً یَسیراً، وَ انْصُرْهُ نَصْراً عَزیزاً، أَللّٰهُماَّ أَظْهَرْ بِهِ دینَکَ وَسُنَّةَ رَسُلِکَ، حَتّٰی لٰا یَسْتَخْفِیَ بِشَیْءٍ مِنَ الْحَقِّ مَخٰافَةَ أَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ

أَللّٰهُمَّ إِنّٰا نَرْغَبُ إِلَیْکَ فی دَوْلَةٍ کَریمَةٍ تُعِزُّبِهَا الْاِسْلٰامَ وَأَهْلَهُ، وَتُذِلُّ بِهَا النِّفٰاقَ وَأَهْلَهُ، وَتَجْعَلُنٰا فیهٰا مِنَ الدُّعٰاةِ إِلیٰ طٰاعَتِکَ وَالْقٰادَةِ إِلیٰ صَبیکَ وَتَرْزُقُنٰا بِهٰا کَرٰامَةَ الدُّنْیٰا وَالْآخِرَةِ

أَللّٰهُمَّ مٰا أَن کَرْنٰا مِنْ حَقٍّ فَعَرِّفْنٰاهُ، وَمٰا قَصُرْنٰا عَنْهُ فَبَلِّغْنٰاهُ ۔ اور خدا سے اس کے لئے دعا مانگو اور ان کے دشمن پر نفرین بھیجو اور اپنی حاجت کا خدا سے سوال کرو اور آخری کلام یہ ہوأَللّٰهُمَّ اسْتَجِبْ لَنٰا، أَللّٰهُمَّ اجْعَلْنٰا مِمَّنْ تَذَکَّرَ فیهِ فَیَذَّکَّرَ ۔

ضرّاب اصفہانی کے درود کا واقعہ

سید جلیل القدر علی بن طاؤوس فرماتے ہیں کہ ضرّاب اصفہانی کا درود وہ درود ہے محمد و آل محمد پر کہ جسکی صاحب الزمان کی طرف سے روایت ہوئی ہے یہ صلوات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہے کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے جمعہ کے دن عصر کی تعقیب نہ پڑھ سکے تو ہرگز اس صلوات کو ترک نہ کرنا چونکہ اس میں ایک راز ہے کہ خدا نے ہم کو اس سے آگاہ کیا ہے کئی لوگ کہ جنکا بار بار نام لے چکا ہوں سند کے ساتھ میرا جدا ابو جعفر طوسی معتبر سلسلہ سند کے ساتھ یعقوب بن یوسف ضرّاب غسانی سے انہوں نے میرے لئے نقل کیا ہے کہ اصفہان سے واپس ہوتے وقت اس طرح بتایا ہے سال ۲۸۱ ھجری قمری میں اھل سنت کے چند ہم وطنوں کے ساتھ حج کے لئے عازم سفر ہوئے جب ہم مکہ مشرفّہ پہنچے ان میں سے ایک پہلے چلا گیا بازار لیل کے درمیان ایک محلہ ہے ہمارے لئے ایک گھر کرایہ پر لیا وہاں حضرت خدیجہ کا گھر تھا کہ امام رضا کے گھر سے مشہور تھا اس گھر میں ایک بوڑھی عورت زندگی کرتی تھی جب مجھے پتہ چلا کہ وہ دارالرضا کے نام سے مشہور ہے اس بوڑھی عورت سے پوچھا تیرا اس گھر کے مالک کے ساتھ کیا نسبت ہے یا تعلق ہے اور اس گھر کو دارالرضا کیوں نام رکھا گیا ہے۔ اس نے کہا میں اھل بیت کے دوستداروں میں ہوں اور یہ گھر امام علی بن موسیٰ الرضا کا گھر ہے مجھے امام حسن عسکری نے اس گھر میں رکھا ہے اور میں حضرت کے خدمت گزاروں میں تھا جب میں نے یہ بات ان سے سنی میں اسے سے مانوس ہوا اور اس راز کو اپنے مخالف ساتھیوں سے چھپادیا ایک مدت تک وہاں پر تھے ہمارا پروگرام یہ تھا کہ جب ہم رات کو خانہ کعبہ کے طواف سے واپس لوٹتے تھے تو گھر کے صحن میں ہم سوجاتے تھے اور گھر کے دروازے کو بند کرتے تھے اور اس دروازے کے پیچھے ایک بڑا پتھر رکھ دیتے تھے جس صحن میں ہم سوجاتے تھے رات کو کئی مرتبہ ایک نور کو دیکھتے تھے جیسے مشعل کا نور ہوا کرتاہے اور یہ بھی دیکھتے تھے کہ گھر کا دروازہ کھلتا تھا ہم میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولتا تھا ایک شخص درمیانہ قد کا گندم گون رنگ متمایل بہ زردی ایک بہترین قد و قامت کو دیکھا اس کے خوبصورت چہرہ سے سجدہ کے آثار نمایاں تھے وہ قمیض پہنے ہوئے اس پر اوپر ایک نازک عبا تھی اور جوتے پہنے ہوئے گھر میں داخل ہوتے تھے اور اس بوڑھی عورت کے اوپر والا کمرہ میں چلے جاتے تھے وہ بوڑھی عورت کہتی تھی کہ میری بیٹی کے علاوہ اور کوئی میرے کمرہ میں نہیں آتاہے جب سیڑھیوں سے اوپر جاتے تھے تو میں ایک نور دیکھتا تھا جو صحن میں پڑجاتا تھا اس کے بعد اسی نور کو کمرہ میں دیکھتا تھا اس میں کوئی چراغ نہیں جلاتا تھا میرے ساتھیوں نے بھی اسی نور کو دیکھا اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ شخص اس عورت کا صاحب ہے کہ ہوسکتاہے کہ اس لڑکی سے متعہ کیا ہو اور کہتے تھے کہ یہ علوی متعہ کو جائز جانتے ہیں اور یہ ان کے گمان میں حرام تھا ہم دیکھتے تھے وہ شخص آتا تھا اور جاتا تھا اور دروازہ کے پیچھے جو پتھر رکھتے تھے اسی طرح تھا جس طرح ہم نے رکھا تھا اور ہم اپنے سامان کے ڈر سے دروازہ بند کرتے تھے کوئی اور دروازہ کو نہ بند کرتا اور نہ کھولتا تھا لیکن وہ شخص گھر میں آتا تھا اور جاتا تھا اور پتھر اسی طرح دروازہ کے پیچھے تھا جب ہم نکلنا چاہتے تھے تو اس وقت پتھر کو ایک طرف ہٹا کر رکھ دیتے تھے جب میں نے یہ واقعہ دیکھا میرے اندر اس کی ہیبت نمایاں ہوئی میں نے اس بوڑھی عورت سے ہمدری کا اظہار کیا میں چاہتا تھا اس شخص کے واقعہ کو جانوں ان سے کہا کہ اے فلاں میں اپنے ساتھیوں کو بتائے بغیر خفیہ طور پر آپ سے پوچھنا چاہتاہوں آپ نے دیکھا کہ اس وقت میرے ساتھی نہیں ہیں میں اس وقت آپ سے ایک سوال کرنا چاہتاہوں اس نے جواب میں بلا فاصلہ کہا میں بھی چاہتی ہوں کہ ایک راز بتادوں لیکن اب تک تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے موقع نہیں ملا ہے میں نے کہا آپ کیا کہنا چاہتی ہیں اس نے کہا تجھ سے کہنا ہے اور کسی کا نام نہیں لیا: کہ آپنے ساتھیوں سے سختی نہ کریں ان کے ساتھ جھگڑا نہ کریں کیونکہ یہ تمہارے دشمن ہیں ان کے ساتھ نرمی سے پیش آجائیں۔ میں نے کہا کس نے یہ بات کی ہے کہنے لگی میں کہتی ہوں میرے دل میں اس کی مصیبت داخل ہوئی تھی سوال دوبارہ نہ کیا میں نے کہا آپکی مراد میرے کونسے ساتھی ہیں میں نے خیال کیا کہ ان کی مراد وہ ساتھی ہیں کہ جن کے ساتھ میں حج پر گیا تھا اس نے کہا وہ ساتھی ہیں کہ جو تیرے شہر میں ہیں تیرے گھر میں تمہارے ساتھ ہیں البتہ میرے درمیان اور ان کے درمیان گو دین کے بارے میں گربڑھ ہوئی تھی کہ میرے خلاف باتیں ہوئی تھیں میں وہاں سے بھاگا تھا اور ایک مدت تک چھپ کر زندگی کرتا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے میرے خلاف باتیں کی تھیں۔

اس بوڑھی عورت سے کہا تو کس طرح امام رضا کے دوست داروں میں سے ہوئی کہنے لگے میں حضرت امام حسن عسکری کے خدمت گاروں میں سے تھی جب اس بارے میں یقین ہوا تو اپنے آپ سے کہا بہتر ہے کہ حضرت غائب کے بارے میں اس سے پوچھوں اور میں نے کہا خدا کے لئے یہ بتاؤں کیا تم نے ان کو دیکھا ہے اس نے کہا اے بھائی میں نے ان کو نہیں دیکھا ہے میں اور میری بہن جو حاملہ تھی اپنے شہر سے باہر آئے اور امام حسن نے مجھے مبارک بادی دی کہ آخر عمر میں اس کو دیکھوں گا اور فرمایا ان کے لئے وہی کچھ ہوگا جو میرے لئے ہوا ہے۔

میں زمانے سے اسی شہر میں ہوں اب ایک خط اور خرچہ کے ساتھ ایک خراسانی شخص کہ جو عربی زبان اچھی طرح نہیں جانتاہے میرے پاس آیا ہے اس نے مجھے تیس دینار دیے ہیں اور مجھے حکم دیا ہے کہ اس سال حج کے لئے مشرف ہوجاؤں میں اس کی زیارت کے شوق میں اپنے شہر سے باہر آیا ہوں راوی کہتاہے اس وقت میرے دل میں آیا کہ وہ شخص بعض راتوں میں اس گھر میں آتا تھا وہی دلوں کا محبوب ہے دس درہم صحیح جو کہ سکّہ رضویہ تھا میرے ساتھ تھے اور میں نے نذر کیا تھا کہ مقام ابراہیم میں ڈالوں گا ان کو نکال کر اس بوڑھی عورت کو دیے اور اپنے آپ سے کہا کہ اس کو زھراء کے فرزندوں کو دینا مقام ابراہیم میں ڈالنے سے بہتر ہے اور اس کا ثواب زیادہ ہے میں نے ان سے کہا کہ اس رقم کو حضرت فاطمہ کی اولاد میں جو مستحق ہیں ان کو دے دیں میری نیت یہ تھی جس شخص کو دیکھا ہے وہ رقم لیکر مستحقین کو دے دے گا۔ اس عورت نے رقم لے لی اور اوپر کمرہ میں گئی تھوڑی دیر کے بعد آئی اور کہا وہ کہتاہے ہمارا اس میں کوئی حق نہیں ہے جو تم نے نیت کی ہے اس کو برقرار رکھو لیکن اس سکہ رضوی کے اس عوض ہم سے لے لیں اور جس مقام پر نذر کیا ہے وہیں پر ڈال دیں انہوں نے جیسا فرمایا تھا ویسا عمل کیا اور اپنے آپ سے کہا یہ وہی ہے کہ جو مامور تھا کہ اس کی طرف سے انجام دوں یعنی حضرت حجت ہیں۔

اس کے بعد ایک نسخہ ایک تحریر کہ قاسم بن علاء کی طرف صادر ہوا تھا میرے پاس تھا میں نے ان سے کہا یہ نسخہ اس شخص کو دکھا دیں کہ جو امام غائب کی توقیع کو جانتاہو اس نے کہا کہ مجھے دے دیں میں جانتاہوں وہ نسخہ اس کو دے دیا اور گمان کیا کہ وہ بوڑھی عورت اچھی طرح پڑھ سکتی ہے اس نے کہا میں نہیں پڑھ سکتی ہوں کمرہ میں جانے کے بعد واپس آئی اور کہا یہ توقیع صحیح ہے اور اس توقیع میں یہ رکھا گیا تھا میں تجھ کو خوشخبری دیتاہوں کہ میں نے اپنی خوشخبری کسی کو نہیں دی ہے اس وقت کہا وہ فرماتے ہیں کہ جس وقت پیغمبر پر درود بھیجتے ہو تو کس طرح بھیجتے ہو میں نے کہا میں کہتا ہوںأَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ بٰارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ کَأَفْضَلِ مٰا صَلَّیْتَ وَ بٰارَکْتَ وَ تََحَّمْتَ عَلیٰ إِبْرٰاهیمَ وَآلِ إِبْرٰاهیمَ، إِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ ۔

فرمایا نہیں جب سب پر درود بھیجنا چاہو تو ہر ایک کا نام لو کہا ہاں نام لیتا ہوں جب صبح ہوئی وہ بوڑھی عورت آئی اس کے ہمراہ ایک چھوٹی کاپی تھی اس نے کہا تم سے کہتاہے کہ جب پیغمبر پر درود بھیجنا چاہو تو اس نسخہ کے مطابق ان کے اوصیاء پر درود بھیجو اس نسخہ کو میں نے لیا کہ اب اس پر عمل کروں گا چند راتیں دیکھا کہ وہ کمرہ سے نیچے آتے تھے نور چراغ کی طرح روشن تھا میں نے دروازہ کھولا اور اس نور کے پیچھے چلا گیا لیکن کسی کو نہیں دیکھا صرف نور کو دیکھا یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوا شہر کے مختلف لوگوں کو دیکھا کہ اس گھر کے دروازے پر آتے تھے بعض عریضے اس بوڑھی کو دیتے تھے وہ بوڑھی عورت بھی ان کو عریضے دے دیتی تھی اور آپس میں باتیں کرتے تھے لیکن میں ان کی باتوں کو نہیں سمجھتا تھا ان میں بعض کو راستے میں جاتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں بغداد میں داخل ہوا۔

۔ ضرّاب اصفہانی کے صلوات

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ

أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ سَيِّدِ الْمُرْسَلينَ وَخاتَمِ النَّبِيّينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ ، اَلْمُنْتَجَبِ فِي الْميثاقِ ، اَلْمُصْطَفى فِي الظِّلالِ ، اَلْمُطَهَّرِ مِنْ كُلِّ آفَةٍ ، اَلْبَري‏ءِ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ ، اَلْمُؤَمَّلِ لِلنَّجاةِ ، اَلْمُرْتَجى لِلشَّفاعَةِ ، اَلْمُفَوَّضِ إِلَيْهِ دينُ اللَّهِ أَللَّهُمَّ شَرِّفْ بُنْيانَهُ ، وَعَظِّمْ بُرْهانَهُ ، وَأَفْلِجْ حُجَّتَهُ ، وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ ، وَأَضِئْ نُورَهُ، وَبَيِّضْ وَجْهَهُ، وَأَعْطِهِ الْفَضْلَ وَالْفَضيلَةَ ، وَالْمَنْزِلَةَ وَالْوَسيلَةَ ، وَالدَّرَجَةَ الرَّفيعَةَ ، وَابْعَثْهُ مَقاماً مَحْمُوداً يَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ.

وَصَلِّ عَلى أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَقائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلينَ ، وَسَيِّدِ الْوَصِيّينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلى عَلِيِّ بْنِ مُوسى ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ

وَصَلِّ عَلى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ

وَصَلِّ عَلى عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

وَصَلِّ عَلَى الْخَلَفِ الْهادِي الْمَهْدِيِّ ، إِمامِ الْمُؤْمِنينَ ، وَوارِثِ الْمُرْسَلينَ ، وَحُجَّةِ رَبِّ الْعالَمينَ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِهِ الْأَئِمَّةِ الْهادينَ ، اَلْعُلَماءِ الصَّادِقينَ ، اَلْأَبْرارِ الْمُتَّقينَ ، دَعائِمِ دينِكَ ، وَأَرْكانِ تَوْحيدِكَ ، وَتَراجِمَةِ وَحْيِكَ ، وَحُجَجِكَ عَلى خَلْقِكَ ، وَخُلَفائِكَ في أَرْضِكَ ، اَلَّذينَ اخْتَرْتَهُمْ لِنَفْسِكَ ، وَاصْطَفَيْتَهُمْ عَلى عِبادِكَ ، وَارْتَضَيْتَهُمْ لِدينِكَ ، وَخَصَصْتَهُمْ بِمَعْرِفَتِكَ ، وَجَلَّلْتَهُمْ بِكَرامَتِكَ ، وَغَشَّيْتَهُمْ بِرَحْمَتِكَ ، وَرَبَّيْتَهُمْ بِنِعْمَتِكَ ، وَغَذَّيْتَهُمْ بِحِكْمَتِكَ ، وَأَلْبَسْتَهُمْ نُورَكَ ، وَرَفَعْتَهُمْ في مَلَكُوتِكَ ، وَحَفَفْتَهُمْ بِمَلائِكَتِكَ ، وَشَرَّفْتَهُمْ بِنَبِيِّكَ صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَيْهِمْ ، صَلوةً زاكِيَةً نامِيَةً كَثيرَةً دائِمَةً طَيِّبَةً لايُحيطُ بِها إِلّا أَنْتَ ، وَلايَسَعُها إِلّا عِلْمُكَ ، وَلايُحْصيها أَحَدٌ غَيْرُكَ.

أَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلى وَلِيِّكَ ، اَلْمُحْيي سُنَّتَكَ ، اَلْقائِمِ بِأَمْرِكَ ، اَلدَّاعي إِلَيْكَ، اَلدَّليلِ عَلَيْكَ، حُجَّتِكَ عَلى خَلْقِكَ ، وَخَليفَتِكَ في أَرْضِكَ ، وَشاهِدِكَ عَلى عِبادِكَ أَللَّهُمَّ أَعِزَّ نَصْرَهُ ، وَمُدَّ في عُمْرِهِ ، وَزَيِّنِ الْأَرْضَ بِطُولِ بَقائِهِ.

أَللَّهُمَّ اكْفِهِ بَغْيَ الْحاسِدينَ ، وَأَعِذْهُ مِنْ شَرِّ الْكائِدينَ ، وَازْجُرْ عَنْهُ إِرادَةَ الظَّالِمينَ ، وَخَلِّصْهُ مِنْ أَيْدِى الْجَبَّارينَ.

أَللَّهُمَّ أَعْطِهِ في نَفْسِهِ وَذُرِّيَّتِهِ ، وَشيعَتِهِ وَرَعِيَّتِهِ ، وَخاصَّتِهِ وَعامَّتِهِ وَعَدُوِّهِ وَجَميعِ أَهْلِ الدُّنْيا ، ما تُقِرُّ بِهِ عَيْنَهُ ، وَتَسُرُّ بِهِ نَفْسَهُ ، وَبَلِّغْهُ أَفْضَلَ ما أَمَّلَهُ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ.

أَللَّهُمَّ جَدِّدْ بِهِ مَا امْتَحى مِنْ دينِكَ ، وَأَحْيِ بِهِ ما بُدِّلَ مِنْ كِتابِكَ ، وَأَظْهِرْ بِهِ ما غُيِّرَ مِنْ حُكْمِكَ ، حَتَّى يَعُودَ دينُكَ بِهِ وَعَلى يَدَيْهِ غَضّاً جَديداً خالِصاً مُخْلَصاً لا شَكَّ فيهِ ، وَلا شُبْهَةَ مَعَهُ ، وَلا باطِلَ عِنْدَهُ ، وَلا بِدْعَةَ لَدَيْهِ.

أَللَّهُمَّ نَوِّرْ بِنُورِهِ كُلَّ ظُلْمَةٍ ، وَهُدَّ بِرُكْنِهِ كُلَّ بِدْعَةٍ ، وَاهْدِمْ بِعِزِّهِ كُلَّ ضَلالَةٍ ، وَاقْصِمْ بِهِ كُلَّ جَبَّارٍ ، وَأَخْمِدْ بِسَيْفِهِ كُلَّ نارٍ ، وَأَهْلِكْ بِعَدْلِهِ جَوْرَ كُلِّ جائِرٍ ، وَأَجْرِ حُكْمَهُ عَلى كُلِّ حُكْمٍ ، وَأَذِلَّ بِسُلْطانِهِ كُلَّ سُلْطانٍ.

أَللَّهُمَّ أَذِلَّ كُلَّ مَنْ ناواهُ ، وَأَهْلِكْ كُلَّ مَنْ عاداهُ ، وَامْكُرْ بِمَنْ كادَهُ ، وَاسْتَأْصِلْ مَنْ جَحَدَهُ حَقَّهُ ، وَاسْتَهانَ بِأَمْرِهِ ، وَسَعى في إِطْفاءِ نُورِهِ ، وَأَرادَ إِخْمادَ ذِكْرِهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفى ، وَعَلِيٍّ الْمُرْتَضى ، وَفاطِمَةَ الزَّهْراءِ ، وَالْحَسَنِ الرِّضا ، وَالْحُسَيْنِ الْمُصَفَّى ، وَجَميعِ الْأَوْصِياءِ ، مَصابيحِ الدُّجى ، وَأَعْلامِ الْهُدى ، وَمَنارِ التُّقى ، وَالْعُرْوَةِ الْوُثْقى ، وَالْحَبْلِ الْمَتينِ ، وَالصِّراطِ الْمُسْتَقيمِ.

وَصَلِّ عَلى وَلِيِّكَ وَوُلاةِ عَهْدِكَ ، وَالْأَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِهِ ، وَمُدَّ في أَعْمارِهِمْ ، وَزِدْ في آجالِهِمْ ، وَبَلِّغْهُمْ أَقْصى آمالِهِمْ ، ديناً وَدُنْياً وَآخِرَةً ، إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ

یہ روایت شریف گذشتہ معتبر کتابوں میں متعدد سند کے ساتھ روایت ہوئی ہے لیکن کوی روایت میں بھی اس صلوات کے پڑھنے کے لئے مخصوص وقت معین نہیں ہوا ہے صرف سید بزرگوار علی بن طاؤوس جمال الاسبوع میں اس صلوات کو جمعہ کے دن نماز عصر کے تعقیبات میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے جمعہ کے دن عصر کے تعقیبات ترک کردیں تو اس صلوات کو ہرگز ترک نہ کریں اس میں ایک راز ہے کہ خداوند تعالیٰ نے ہم کو اس سے آگاہ فرمایا ہے اس کلام شریف سے استفادہ ہوتاہے کہ صاحب الامر کے جانب سے اس مقام پر ایک چیز ہمارے ہاتھ میں آتی ہے اگر چہ اس کے مقام سے بعید نہیں چنانچہ خود اس نے تصریح کی ہے کہ حضرت حجت کی زیارت کا راستہ اس کے لئے کھلا ہے صاحب مکیال المکارم کہتاہے یہ دعائے شریف مہم ترین دعاؤں میں سے ہے کہ سزاوار ہے کہ انسان اس کو ہمیشہ پڑھے اوقت میں سے ہر وقت زمانوں میں سے ہر زمانے میں پابندی سے پڑھے مخصوصاً ان اوقات میں کہ جو صاحب الامر کے اوقات ہیں جیسے پندرہ شعبان کو دن رات اور جمعہ کو شب و روز احتمال ہے کہ یہی وجہ ہے جمال الصالحین کے صاحب نے اس دعا کو شب جمعہ کے اعمال کا جزاء قرار دیا ہے حالانکہ جو کچھ روایت سے ظاہر ہے کہ یہ دعا خاص وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اوقات میں پڑھی جاسکتی ہے صاحب مکیال المکارم سید علی بن طاؤوس کے کلام کے ضمن میں کہ اس کو روز جمعہ کے اعمال میں نقل کیا ہے کہتاہے سید طاؤوس فرماتے ہیں کہ ہرگز اس دعا کو ترک نہ کرو اس راز کی وجہ سے کہ جس سے ہمیں آگاہ کیا ہے اس سے استفادہ ہوتاہے کہ اس دعا کو پڑھنے کا امر حضرت صاحب الزمان کی طرف سے صادر ہوا ہے اور یہ اس روایت کے صحیح ہونے پر دلیل ہے اور خداوند صاحب نعمت اور صاحب ہدایت ہے۔

۔ جمعہ کے روز کے عصر کے وقت صلوات اور دعا حضرت حجت کے ظہور کے لئے

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں قیامت کے دن خداوند متعال دنوں کو ایک خاص شکل میں مبعوث کرے گا روز جمعہ سب کے آگے باقی دن اس کے پیچھے ایک خوبصورت عروس کی طرح کہ جو دیندار شخص اور ثروت مند کے گھر بھیجا جاتاہے اور بہشت کے دروازے سامنے کھڑا ہوجاتاہے جو بھی اس دن سب سے زیادہ محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے گا اس کی شفاعت کرے گا ابن سنان کہتاہے میں نے عرض کیا کہ مراد اس بیشتر سے کیا ہے جمعہ کے کس وقت بہتر ہے حضرت نے فرمایا سو مرتبہ اور بہتر ہے کہ عصر کے وقت ہو راوی کہتاہے میں نے عرض کیا کہ کس طرح درود بھیجیں حضرت نے فرمایا سو مرتبہ لکھو أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔

سید بزرگوار علی بن طاؤوس کہتاہے کہ ایک روایت میں دنوں کے بارے میں حضرت آخری حجت سے سوال ہوا اس میں ذکر ہوا ہے کہ روز جمعہ سے مراد حضرت صاحب الزمان ہے۔

۔ سورہ بنی اسرائیل کی فضیلت جمعہ کی راتوں میں

اس باب کے اختتام پر جمعہ کی راتوں میں سورہ بنی اسرائیل پڑھنے کی فضیلت نقل کروں گا صاحبہ مکیال المکارم تفسیر برہان سے معتبر سند کے ساتھ امام صادق سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا جو بھی سورہ بنی اسرائیل کو ہر شب جمعہ پڑھے وہ نہیں مرے گا یہان تک کہ امام زمانہ کو درک کرے گا اور ان کے مددگاروں میں سے ہوگا۔

کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دولڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(١)

ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔(٢)

نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(٣)

____________________

(١)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔

(٢)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔

(٣)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔

نتیجہ:

اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:

١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟

٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں

کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟

٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق

تھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟

٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!

٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !

البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔

٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔

ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔

٧) حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟

٣۔مؤلف کا مختصر تعارف

علامہ جلال الدین سیوطی کی شخصیت اہل علم کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے لیکن عوام الناس کے فائدہ کومد نظر رکھتے ہوئے آپ کے حالات زندگی کو اختصار کے طور پر یہاں تحریر کیا جاتا ہے :

علامہ جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان سیوطی شافعی ،یکم رجب المرجب بروز یکشنبہ ٨٤٩ ہجری، شہر اسیوط مصر میں پیدا ہوئے ، ابھی آپ کا سن پانچ سال بھی نہیں ہوا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا ، آپ پچپن سے ہی علم دین پڑھنے میں مشغول ہوگئے، اور آٹھ سال ہونے تک قرآن کریم اور دیگر درسی رائج متون کو حفظ کرلیا، اور ٨٦٤ ہجری کے ابتداء تک قانونی حیثیت سے اچھے اور مایہ ناز طالب علم کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ، آپ نے فقہ ، نحو ، اصول اور دیگر اسلامی علوم پر کافی دست رسی حاصل کی،اور اس وقت کے پچاس سے زیادہ بزرگ علماء سے کسب فیض کیا ،اور ٨٦٦ ہجری میں آپ نے اپنے علم کا کتابی شکل میں مظاہرہ کیا ،اور ٨٧١ ہجری میںمقام افتاء پر قدم رکھا ، اور ٨٧٢ ہجری سے املاء حدیث کی مجلس ترتیب دی ،آپ نے تلاش علم میں شام ، حجاز ، یمن ، ہند وستان اور مغرب متعدد سفر کئے ، اور یہاں کے علماء سے علمی مذاکرہ کیا ، علامہ موصوف نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، نحو، معانی ، بیان ، بدیع ، اصول فقہ، قرائت ، تاریخ ، اور طب جیسے موضوعات سے متعلق مختلف کتابیں تحریر کیں ،جوآج بھی مرجع خاص و عام ہیں،لہٰذا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی زحمت کش اور قوی حافظہ کے مالک تھے چنانچہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو لاکھ حدیثیں حفظ کیں ہیںاور اگر اس سے زیادہ میسور ہوتیں تو ان کو بھی حفظ کر لیتا ،آپ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ حدیثیں اس وقت روئے زمین پر موصوف کی اطلاع میں نہ تھیں،آپ کی چھوٹی اور بڑی کتابوں کو ملا کر تقریباً ٥٠٠ کتابیں ہوتی ہیں ، آپ نہایت برد بار ، پاکیزہ نفس اور پرہیزگارانسان سے تھے، ہمیشہ حکام وقت سے ملنے سے کتراتے اور ان کے تحائف اکثر ردکردیا کرتے تھے ، عمر کے آخری حصہ میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک کرکے پروردگار کی عبادت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی،آخر کار بروز پنجشنبہ ٩١١ ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا ،اور شہر خوش قوصون کے اطراف میں دفن کردیا گیا۔(١)

علامہ جلال الدین سیوطی کو جن وجوہات کی بنا پر آج تک یاد کیا جاتا ہے وہ ان کی وسعت تالیف و تصنیف ہے، علامہ ابن حماد حنبلی لکھتے ہیں : علامہ سیوطی کی تصانیف و تالیفات خود ان کے زمانہ میں شرق و غرب میں پھیل چکی تھیں ۔(٢) چنانچہ علامہ سیوطی کے وفادرارشاگرد دائودی لکھتے ہیں : ان کی تالیفات کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے ۔

علامہ سیوطی نہ صرف یہ کہ وسعت تالیف کے مالک تھے بلکہ آپ کی تالیفات میں دقت نظر بھی پائی جاتی ہے،بہر کیف یہاں پر ہم علامہ کی ان کتابوں کی ایک فہرست نقل کرتے ہیں جو ہماری دست رس میں تھیں :

١- الاتقان فی علوم القرآن ٢- مسالک الحنفاء فی اسلام والدی المصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٣- نشر العالمین فی اخبار الابوین الشریفین ٤-العرف الوردی فی اخبار المہدی ٥- احیاء المیت بفضائل اہل البیت ٦- تفسیر الدرالمنثور

٧-تفسیرالجلالین ٨- تلخیص البیان فی علامات المہدی صاحب الزمان

_____________________

(١) شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ؛ ابن حماد حنبلی۔معجم المصنفین ؛ عمر رضا کحالہ

(٢)شذرات الذہب.

٩-الثغور الباسمہ فی مناقب فاطمہ ( س) ١٠- تاریخ الخلفاء ١١- اللئالی المصنوعة فی احادیث الموضوعة ١٢- المرقاة العلیة فی شرح الاسماء النبویة ١٣- الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة (یسمی ایضاً التعظیم فی ان ابویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الجنة) ١٤- العجاجة الزرنبیة فی السلالة الزینبیة(س) ١٥- الخصائص والمعجزات النبویة ١٦- قطف ثمر فی موافقات عمر ١٧- ابواب السعادة فی اسباب الشہادة ١٨- الآیة الکبری فی شرح قصة الاسراء ١٩- بلوغ المامول فی خدمة الرسول ٢٠-تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ٢١- اتمام النعمة فی اختصاص الاسلام بہٰذہ الامة ٢٢-القول الجلی فی حدیث الولی٢٣ - الاحادیث المنیفة ٢٤- احاسن الاقتباس فی محاسن الاقتباس ٢٥- الاحتفال بالاطفال ٢٦- الاخبار الماثورة فی الاطلاء بالنورة ٢٧- اخبار الملائکة ٢٨- الاخبار المرویة فی سبب وضع العربیة ٢٩-آداب الملوک ٣٠- ادب الفتیاء ٣١- اذکار الاذکار ٣٢ -الاذکار فی ماعقدہ الشعراء من الآثار ٣٣- اربعون حدیثاً فی فضل الجہاد ٣٤ -اربعون حدیثاً فی ورقة ٣٥-اربعون حدیثاً من روایة مالک عن نافع عن ابن عمر ٣٦-الارج فی الفرج ٣٧ -الارج المسکی ٣٨- ازالة الوہن عن مسئلة الرہن ٣٩ -ازہار الاکام فی اخبار الاحکام ٤٠- الازہار الغضة فی حواشی الروضة ٤١- الازہار الفائحة علی الفاتحة ٤٢- الازہار المتناثرة فی الاخبار المتواترة ٤٣- الاساس فی مناقب بنی عباس ٤٤- الاسئلة المائة ٤٥- الاسئلة الوزیریة و اجوبتہا ٤٦ - اسعاف المبطاء برجال الموطاء ٤٧- الاشباہ والنظائر الفقہیة ٤٨-الاشباہ والنظائر النحویة ٤٩- اطراف الاشراف بالاشراف علی الاطراف ٥٠- اعذب المناہل فی حدیث من قال انا عالم فہو جاہل ٥١- اعمال الفکر فی فضل الذکر ٥٢- الافصاح ٥٣ -الاقتراح فی اصول النحوو جدلہ ٥٤- الاقتناص فی مسئلة النماص ٥٥- اکام المرجان فی احکام الجان ٥٦- الاکلیل فی استنباط التنزیل ٥٧ -الالفاظ المعرّبة ٥٨- الالفیة فی القرائت العشر ٥٩ -الالفیة فی مصطلح الحدیث ٦٠- القام الحجر لمن ذکی ساب ابی بکر و عمر ٦١- انباء الاذکیاء بحیاة الانبیاء ٦٢- الانصاف فی تمییز الاوقاف ٦٣- انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ٦٤- الویة النصر فی خصیصی بالقصر ٦٥- الاوج فی خبر عوج ٦٦- اتحاف الفرقہ برفوالخرقہ ٦٧ -البارع فی اقطاع الشارع ٦٨- بدائع الزہور فی وقائع الدہور ٦٩- البدر الّذی انجلی فی مسئلة الولا ٧٠- البدور السافرة عن امور الاخرة ٧١- البدیعة ٧٢- بذل الہمة فی طلب برائة الذمة ٧٣- البرق الوامض فی شرح تائیة ابن الفارض ٧٤- بزوغ الہلال فی الخصال الموجبة الظلال ٧٥- بسط الکف فی اتمام الصف ٧٦ - بشری الکئیب فی لقاء الحبیب ٧٧ -بغیة الرائد فی الذیل علی مجمع الزوائد ٧٨- بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین والنحاة ٧٩- بلغة المحتاج فی مناسک الحاج ٨٠- اتحاف النبلاء فی اخبارالفضلاء ٨١ -البہجة المرضیة فی شرح الالفیة ٨٢ -التاج فی اعراب مشکل المنہاج ٨٣ -تاریخ سیوط ٨٤- تاریخ العمر ٨٥- تارخ مصر ٨٦- تایید الحقیقة العلیة و تشیید الطریقة الشاذلیة ٨٧- تبییض الصحیفة ٨٨- تجرید العنایة فی تخریج احادیث الکفایة ٨٩ -تجزیل المواہب فی اختلاف المذاہب ٩٠- التحبیر لعلم التفسیر ٩١- التحدث بنعمة اﷲ ٩٢- تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ٩٣- تحفة الانجاب بمسئلة السنجاب ٩٤- تحفة الجلساء برؤیة اﷲ للنساء ٩٥ -تحفة الحبیب ٩٦- تحفة الظرفاء باسماء الخلفاء ٩٧ -تحفة الکرام باخبار الاہرام ٩٨ -تحفة المجالس و نزہة المجالس ٩٩- تحفة المذاکر فی المنتہی من تاریخ ابن عساکر ١٠٠-تحفة النابة بتلخیص المتشابة ١٠١-تحفة الناسک ١٠٢-التخبیر فی علم التفسیر ١٠٣ -تخریج احادیث الدرة الفاخرة ١٠٤ -تخریج احادیث شرح العقائد ١٠٥- تذکرة المؤتسی بمن حدث و نسی ١٠٦ -اتمام الدرایہ لقراء النقایہ ١٠٧ - التذنیب فی الروایة علی التقریب ١٠٨- ترجمان القرآن ١٠٩- ترجمة البلقینی ١١٠- ترجمة النووی ١١١ -تزیین الارائک فی ارسال النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الی الملائک ١١٢- تشنیف الاسماع بمسائل الاجماع ١١٣ -تشیید الارکان من لیس فی الامکان ابدع مما کان ١١٤ -تعریف الاعجم بحروف المعجم ١١٥ -التعریف باداب التالیف ١١٦ -تعریف الفئة اجوبة الاسئلة المائة ١١٧ -التعقیبات ١١٨ -التفسیر المأثور ١١٩-تقریب الغریب ٠ ١٢ -تقریر الاستناد فی تیسیر الاجتہاد ١٢١ -تمہید الفرش فی الخصال الموجبة لظل العرش ١٢٢- تناسق الدرر فی تناسب السو ر ٣ ١٢- تنبیہ الواقف علی شرط الواقف ١٢٤ -تنزیہ الاعتقاد عن الحلول والاتحاد ١٢٥- تنزیہ الانبیاء عن تسفیہ الاغبیاء ١٢٦ -التنفیس فی الاعتذار عن الفتیا ء والتدریس ١٢٧ -تنویر الحلک فی امکان رؤیة النبی والملک ١٢٨ -تنویر الحوالک فی شرح موطاء الامام مالک ١٢٩ -التوشیح علی التوضیح ١٣٠- التوشیح علی الجامع الصحیح ١٣١- توضیح المدرک فی تصحیح المستدرک ١٣٢ -ثلج الفؤاد فی احادیث لبس السواد ١٣٤ -الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر ١٣٥ -الجامع الکبیر ١٣٦ -الجامع فی الفرائض ١٣٧- جزء فی اسماء المدلسین ١٣٨- جزء فی الصلاة ١٣٩- جزء فی صلاة الضحی ١٤٠- الجمانة ١٤١ - الجمع والتفریق فی الانواع البدیعة ١٤٢ -جمع الجوامع ١٤٣ -الجواب الجزم عن حدیث التکبیر جزم ١٤٤- الجواب الحاتم عن سؤال الخاتم ١٤٥ -الجواہر فی علم التفسیر ١٤٦-الجہر بمنع البروز علی شاطیٔ النہر ١٤٧- حاطب اللیل و حارف سیل ١٤٨ -حاشیة علی شرح الشذور ١٤٩ -حاشیة علی القطیعة للا سنوی ١٥٠ -حاشیة علی المختصر ١٥١- الحاوی للفتاوی ١٥٢- الحجج المبینة فی التفضیل بین مکة والمدینة ١٥٣ -حسن التعریف فی عدم التحلیف ١٥٤ -حسن التسلیک فی عدم التشبیک ١٥٥ -حسن المحاضرة فی اخبار مصر والقاہرة ١٥٦ -حسن المقصد فی عمل المولد ١٥٧-لحصر والاشاعة فی اشراط الساعة ١٥٨- الحظ الوافر من المغنم فی استدراک الکافر اذا اسلم ١٥٩ - حلبة الاولیاء ١٦٠- حمائل الزہر فی فضائل السور ١٦١ -الحواشی الصغری ١٦٢- الخبر الدال علی وجود القطب والاوتاد والنجباء والابدال ١٦٣-الخلاصة فی نظم الروضة ١٦٤۔خصائص یوم الجمعة ١٦٥ -الدراری فی ابناء السراری ١٦٦ -در التاج فی اعراب مشکل المنہاج ١٦٧-در السحابة فیمن دخل مصر من الصحابة ١٦٨ -الدرر المنتشرة فی الاحادیث المشتہرة ١٦٩- الدر المنثور فی التفسیر المأثور ١٧٠ -الدر المنظم فی الاسم الاعظم ١٧١- الدر النثیر فی تلخیص نہایة ابن الاثیر ١٧٢- درج المعالی فی نصرة الغزالی علی المنکر المتعالی ١٧٣- الدرج المنیفة ١٧٤ درر البحار فی احادیث القصار ١٧٥ -درر الحکم و غررالکلم ١٧٦ -الدرة التاجیة علی الاسئلة الناجیة ١٧٧ -دفع التعسف عن اخوة یوسف ١٧٨ -دقائق الملحة ١٧٩- الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج ١٨٠- دیوان الحیوان ١٨١ -دیوان خطب ١٨٢- دیوان شعر ١٨٣-ذکر التشنیع فی مسئلة التسمیع ١٨٤- ذم زیارة الامراء ١٨٥- ذم القضاء ١٨٦ -ذم المکس ١٨٧-الذیل الممہد علی القول المسدد ١٨٨- الرحلة الدمیاطیة ١٨٩- الرحلة الفیومیة ١٩٠- الرحلةالمکیة ١٩١-رسالة فی النعال الشریفة ١٩٢-رشف الزلال ١٩٣- رفع الباس عن بنی العباس ١٩٤ -رفع الخدر عن قطع السدر ١٩٥ -رفع الخصاصة فی شرح الخلاصة ١٩٦ -رفع السنة فی نصب الزنة ١٩٧ -رفع شان الحبشان ١٩٨-رفع الصوت بذبح الموت ١٩٩ -رفع اللباس و کشف الالتباس فی ضرب المثل من القرآن والالتماس ٢٠٠-رفع منار الدین و ہدم بناء المفسدین ٢٠١- رفع الید فی الدعا ٢٠٢- الروض الاریض فی طہر المحیض ٢٠٣- الروض المکلل والورد المعلل فی المصطلح ٢٠٤ -الریاض الانیفة فی شرح اسماء خیر الخلیقة ٢٠٥-الزجاجة فی شرح سنن ابن ماجة ٢٠٦- الزند الوری فی الجواب عن السئوال الاسکندریہ ٢٠٧- الزہر الباسم فیما یزوج فیہ الحاکم ٢٠٨- زہر الربی فی شرح المجتبی ٢٠٩- زوائد الرجال علی تہذیب الکمال ٢١٠ -زوائد شعب الایمان للبیہقی ٢١١ -زوائد نوادر الاصول للحکیم الترمذی ٢١٢ -زیادات الجامع الصغیر ٢١٣ -السبل الجلیة ٢١٤- السلاف فی التفضیل بین الصلاة والطواف ٢١٥ -السلالة فی تحقیق المقر والاستحالة ٢١٦- السماح فی اخبار الرماح ٢١٧ -السیف الصیقل فی حواشی ابن عقیل ٢١٨- السیف النطار فی الفرق بین الثبوت والتکرار ٢١٩-شد الاثواب فی سد الابواب ٢٢٠- شد الرحال فی ضبط الرجال ٢٢١ -شذ العرف فی اثبات المعنی للحرف ٢٢٢- شرح ابیات تلخیص المفتاح ٢٢٣ -شرح الاستعاذة والبسملة ٢٢٤ -شرح البدیعة ٢٢٥ -شرح التدریب ٢٢٦- شرح التنبیہ ٢٢٧- شرح الرجبیة فی الفرائض ٢٢٨- شرح الروض ٢٢٩ -شرح الشاطبیة ٢٣٠ -شرح شواہد المغنی ٢٣١- شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور ٢٣٢ -شرح ضروری التصریف ٢٣٣- شرح عقود الجمان ٢٣٤ -شرح الکافیة فی التصریف ٢٣٥- شرح الکوکب الساطع ٢٣٦- شرح الکوکب الوقاد فی الاعتقاد ٢٣٧- شرح لغة الاشراف فی الاسعاف ٢٣٨- شرح الملحة ٢٣٩ -شرح النقایة ٢٤٠ -شرح بانت سعاد ٢٤١ -شرح تصریف العزی ٢٤٢- الشماریخ فی علم التاریخ ٢٤٣ -الشمعة المضیئة ٢٤٤- شوارد الفوائد ٢٤٥- الشہد ٢٤٦ -صون المنطق والکلام عن فنی المنطق والکلام ٢٤٧- ضوء الشمعة فی عدد الجمعة ٢٤٨ -ضوء الصباح فی لغات النکاح ٢٤٩ -الطب النبوی ٢٥٠ -طبقات الاصولیین ٢٥١- طبقات الحفاظ ٢٥٢- طبقات شعراء العرب ٢٥٣- طبقات الکتاب ٢٥٤ -طبقات المفسرین ٢٥٥ -طبقات النحاة الصغری ٢٥٦- طبقات النحاة الوسطی ٢٥٧ -طلوع الثریا باظہار ماکان خفیا ٢٥٨ طی اللسان عن ذم الطیلسان ٢٥٩ الظفر بقلم الظفر ٢٦٠ -العاذب السلسل فی تصحیح الخلاف المرسل ٢٦١- العشاریات ٢٦٢- عقود الجمان فی المعانی والبیان ٢٦٣ -عقود الزبرجد علی مسند الامام احمد ٢٦٤- عین الاصابة فی معرفة الصحابة ٢٦٥ -غایة الاحسان فی خلق الانسان ٢٦٦ -الغنیة فی مختصر الروضة ٢٦٧- فتح الجلیل للعبد الذلیل فی الانواع البدیعیة المستخرجة من قولہ تعالی: ''ولی الذین آمنوا'' ٦٨ ٢- الفتح القریب علی مغنی اللبیب ٢٦٩- فتح المطلب المبرور و برد الکبد المحرور فی الجواب عن الاسئلة الواردة من التکرور ٢٧٠ - فتح المغالق من انت تالق ٢٧١-فجر الثمد فی اعراب اکمل الحمد ٢٧٢ -فصل الحدة ٢٧٣ -فصل الخطاب فی قتل الکلاب ٢٧٤ -فصل الشتاء ٢٧٦ -فصل الکلام فی حکم السلام ٢٧٧- فصل الکلام فی ذم الکلام ٢٧٨ -فضل موت الاولاد ٢٧٩ -فلق الصباح فی تخریج احادیث الصحاح (یعنی صحاح اللغة للجوہری) ٢٨٠ -الفوائد المتکاثرة فی الاخبار المتواترة ٢٨١ -فہرست المرویات ٢٨٢ -قدح الزند فی السلم فی القند ٢٨٣ -القذاذة فی تحقیق محل الاستعاذة ٢٨٤ -قصیدة رائیة ٢٨٥-قطر النداء فی ورود الہمزة للنداء ٢٨٦ -قطع المجادلة عند تغییر المعاملة ٢٨٧ -قطف الازہار فی کشف الاسرار ٢٨٨- قلائد الفوائد ٢٨٩- القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ٢٩٠ -الجوبة الزکیہ عن الالغاز السبکیة ٢٩١- القول الحسن فی الذب عن السنن ٢٩٢ -القول الفصیح فی تعیین الذبیح ٢٩٣ -القول المجمل فی الرد علی المہمل ٢٩٤ -القول المشرق فی تحریم الاشتغال بالمنطق ٢٩٥- القول المشید فی الوقف المؤبد ٢٩٦-القول المضی فی الحنث فی المضی ٢٩٧ -الکافی فی زوائد المہذب علی الوافی ٢٩٨- الکاوی علی السخاوی ٢٩٩- کتاب الاعلام بحکم عیسی علیہ السلام ٣٠٠- کشف التلبیس عن قلب اہل التدلیس ٣٠١ -کشف الریب عن الجیب ٣٠٢ -کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة ٣٠٣ -کشف الضبابہ فی مسألة الاستنابة ٣٠٤ -کشف المغطاء فی شرح الموطا ء ٣٠٥- کشف النقاب عن الالقاب ٣٠٦ -الکشف عن مجاوزة ہٰذہ الامة ٧ ٣٠ -الکوکب الساطع فی نظم جمع الجوامع ٣٠٨-الکلام علی اول الفتح ٣٠٩- الکلام علی حدیث ابن عباس احفظ اﷲ یحفظک ٣١٠- الکلم الطیب والقول المختار فی المأثورة من الدعوات والاذکار ٣١١- لباب النقول فی اسباب النزول ٣١٢- لب اللباب فی تحریر الانساب ٣١٣- لبس الیلب فی الجواب عن ایراد الحلب ٣١٤ -لم الاطراف و ضم الاتراف ٣١٥ -اللمع فی اسماء من وضع الاربعون المتباینة ٣١٦ -اللمعة فی تحریر الرکعة لادراک الجمعة ٣١٧ -اللوامع والبوارق فی الجوامع والفوارق ٣١٨ -ما رواہ الواعون فی اخبار الطاعون ٣١٩ -المباحث الزکیة فی المسألة الدورکیة ٣٢٠ -مجمع البحرین و مطلع البدرین فی التفسیر ٣٢١ -مختصر الاحکام السلطانیة للماوردی ٣٢٢ -مختصر الاحیاء ٣٢٣- مختصر الالفیة ٣٢٤ -مختصر تہذیب الاحکام ٣٢٥ -مختصر تہذیب الاسماء ٣٢٦- مختصر شرح ابیات تلخیص المفتاح ٣٢٧- مختصر شفاء الغلیل فی الذم الصاحب والخلیل ٣٢٨- مختصر معجم البلدان ٣٢٩ -مختصر الملحة ٣٣٠ -المدرج الی المدرج ٣٣١- مذل العسجد لسوال المسجد ٣٣٢- مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع ٣٣٣ مرقاة الصعود الی سنن ابی داؤد ٣٣٤ -مسألة ضربی زیداً قائما ٣٣٥ -المستظرفة فی احکام دخول الحشفة ٣٣٦- المسلسلات الکبری ٣٣٧ -المصاعد العلیة فی قواعد النحویة ٣٣٨- المصابیح فی صلاة التراویح ٣٣٩-مطلع البدرین فیمن یوتی اجرین ٣٤٠- المعانی الدقیقة فی ادراک الحقیقة ٣٤١ -معترک الاقران فی مشترک القرآن ٣٤٢ -مفاتح الغیب فی التفسیر ٣٤٣- مفتاح الجنة فی الاعتصام بالکتاب والسنة ٣٤٤ مفحمات الاقران فی مبہمات القرآن ٣٤٥ -المقامات ٣٤٦ -مقاطع الحجاز ٣٤٧- الملتقط من الدرر الکامنة ٣٤٨- مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا ٣٤٩ -المنتقی ٣٥٠- منتہی الامال فی شرح حدیث '' انما الاعمال '' ٣٥١- المنجلی فی تطور الولی ٣٥٢- المنحة فی السبحة ٣٥٣- من عاش من الصحابة مأة و عشرین ٣٥٤ من وافقت کنیتہ زوجتہ من الصحابة ٣٥٥ -منہاج السنة و مفتاح الجنة ٣٥٦ -المنی فی الکنی ٣٥٧ -المہذب فی ما وقع فی القرآن من المعرب ٣٥٨- میزان المعدلة فی شرح البسملة ٣٥٩ -نتیجة الفکر فی الجہر بالذکر ٣٦٠- نشر العبیرفی تخریج احادیث الشرح الکبیر ٣٦١ -نظم التذکرة ٣٦٢ -نظم الدرر فی علوم الاثر ٣٦٣ -النفحة المسکیة والتحفة المکیة ٣٦٤-النقایة فی اربعة عشر علماً ٣٦٥- النقول المشرقة فی مسألة الفقة ٣٦٦- النکت البدیعات ٣٦٧- النکت علی الالفیة والکافیة والشافیة والشذور والنزہة ٣٦٨-نکت علی حاشیة المطول لابن العقری ٣٦٩- نکت علی شرح الشواہد للعینی ٣٧٠ -نور الحدیقة ٣٧١ -الوافی فی مختصر التنبیہ ٣٧٢- الورقات المقدمة ٣٧٣- الوسائل الی معرفة الاوائل ٣٧٤ وصول الامانی باصول التہانی ٣٧٥- ہدم الجانی علی البانی ٣٧٦- ہمع الہوامع فی شرح جمع الجوامع ٣٧٧ -الہیّة السنیة فی الہیة السنیة ٣٧٨- الید البسطی فی الصلاة الوسطی - ٣٧٩ الینبوع فیما زاد علی الروضة من الفروع ۔

٤۔ رواةِ احادیث اور علمائے اہل سنت کے اسمائے گرامی

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنے اس رسالہ میں جن جلیل القدر اور عظیم الشان راو یوں اور علمائے اہل سنت سے روایتیں نقل کی ہیں اگرچہ ان کے مختصر حالات کتاب کے حاشیہ میں نقل کردئے گئے ہیں لیکن یہاں قارئین کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اسمائے گرامی ذیل میں یکجا نقل کئے جارہے ہیں:

راویوں کے اسمائ:

١۔سعید بن جبیر ٢۔ حضرت ابن عباس ٣۔ مطلب بن ربیعہ ٤۔ زید بن ارقم ٥۔ زید بن ثابت ٦۔ ابو سعید خدری ٧۔ حضرت ابو بکر صدیق ٨۔ حضرت امام حسن ـ ٩۔ حضرت علی ـ ١٠۔ عبد اﷲ ابن عمر ١١۔ جابر بن عبد اﷲ انصاری ١٢۔ عبد اﷲ ابن جعفر ١٣۔ سلمہ بن الاکوع ١٤۔ ابو ہریرہ ١٥۔ عبد اﷲ ابن زبیر ١٦۔حضرت ابوذر ١٧۔ حضرت فاطمہ الزہرا ١٨۔ حضرت عمر فاروق ١٩۔ انس بن مالک ٢٠۔ ابن مسعود ٢١۔ مطلب بن عبد اﷲ ٢٢۔ حکیم ٢٣۔ حضرت عثمان غنی ٢٤۔ زوجہ ٔ رسول حضرت عائشہ

علمائے اہل سنت کے نام:

١۔ سعید بن منصور ٢۔ ابن المنذر ٣۔ ابی حاتم ٤۔ ابن مردویہ ٥۔ طبرانی ٦۔ ترمذی ٧۔ امام احمد بن حنبل ٨۔ نسائی ٩۔ حاکم ١٠۔ مسلم ١١۔ عبد بن حمید ١٢۔ ابو احمد ١٣۔ ابو یعلی ١٤۔ امام بخاری ١٥۔ ابن جریر ١٦۔ عقیلی ١٧۔ ابن شاہین ١٨۔ خطیب ١٩۔ دیلمی ٢٠۔ حافظ ابو نعیم ٢١۔ باوردی ٢٢۔ ابن عدی ٢٣۔ ابن حبان ٢٤ ۔ امام بیہقی ٢٥۔ ابن ابی شیبہ ٢٦۔ مسدد ٢٧۔ بزار ٢٨۔ ابن عساکر.

٥۔حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ کی مختصر توثیق

حدیث ثقلین:

حددیث ثقلین کی ٣٤ صحابہ و صحابیات نے جناب رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے، اور دور تالیف سے آج تک ہر عہد کے علماء ،انہیں حدیث و سیرت و مناقب و تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے چلے آئے ہیں:

١۔ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلا م سے بزار، محب الدین طبری ،دولالی، سخاوی،سمہودی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں حدیث ثقلین کو درج کیا ہے۔

٢۔ امام حسن ـسے،ابن قندوزی نے '' ینابیع المودة'' میں حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٣۔سلمان فار سی سے بھی قندوزی نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٤۔ حضرت ابوذرغفاری سے ( صحیح ترمذی )

٥۔ ابن عباس سے ( قندوزی)

٦۔ ابوسعیدی خدری (مسعود ی،طبری،ترمذی و غیرہ )

٧۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (ترمذی ،ابن اثیر و غیرہ)

٨۔ ابوالہیثم تیہان(سخاوی وقندوزی)

٩۔ ابورافع(سخاوی وقندوزی )

١٠۔ حذیفہ یمان(، محب الدین طبری ،مودةالقربی)

١١۔ حذیفہ بن اسید غفاری(ترمذی،ابونعیم اصفہانی،ابن اثیر ،سخاوی و غیرہ)

١٢ ۔ خزیمہ بن ثابت (سخاوی ،سہمودی،قندوزی )

١٣۔ ابوہریرہ (بزار ، سخاوی،سہمودی)

١٤ ۔ زیدبن ثابت (احمدبن حنبل، محب الدین طبری، ابن اثیر و غیرہ)

١٥ ۔ عبد اللہ بن حنطب(طبرانی،ابن اثیر وغیرہ)

١٦۔ جبیربن مطعم(ابونعیم اصفہانی و غیرہ)

١٧ ۔ براا بن عازب ( ابو نعیم اصفہانی)

١٨۔ انس بن مالک ( ابو نعیم اصفہانی )

١٩ ۔ طلحہ بن عبید اﷲ بن تمیمی( قندوزی )

٢٠۔ عبد الرحمن بن عوف( قندوزی )

٢١۔ سعد بن وقاص( قندوزی )

٢٢۔ عمرو بن عاص ( خوارزمی )

٢٣۔ سہل بن سعد انصاری (سخاوی ، سمہودی )

٢٤ ۔ عدی بن حاتم( سخاوی ،سمہودی و غیرہ)

٢٥۔ عقبہ بن عامر (سخاوی وغیرہ )

٢٦۔ ابو ایوب انصاری ( سخاوی)

٢٧۔ شریح خزاعی( سخاوی ، سمہودی و غیرہ)

٢٨۔ ابو قدامہ انصاری( سخاوی وغیرہ )

٢٩۔ ضمیرہ ٔ اسلمی( سخاوی وغیرہ)

٣٠۔ ا بو لیلی انصاری ( سخاوی ، سمہودی ، قندوزی )

٣١۔ حضرت فاطمہ الزہرا ( قندوزی )

٣٢۔ ام المومنین ام سلمہ( سخاوی س،سمہودی )

٣٣۔ ام ہانی بنت ابو طالب( سخاوی، سمہودی وغیرہ )

٣٤۔ زید بن ارقم ( صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل ، کنزالعمال ۔ سیوطی؛ در منثور،ترمذی)

حدیث ثقلین پرعلامہ ابن حجر ہیثمی کی ایک نظر :

سمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وآله وسلم ، القرآن وعترته ،وهی الاهل والنسل والرهط الادنون، ثقلین، لان الثقل کل نفیس خطیر مصون، وهٰذان کذلک، اذ کل منهما معدن للعلوم اللُّدنیّة والاسراروالحکم العلیة والاحکام الشرعیة ، ولذا حثصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی الاقتداء والتمسک بهم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن وعترت کو جو کہ آپ کے اہل ونسل و قریب تر لوگ ہیں ، ثقلین فرمایا ، اس لئے کہ ثقل '' ہر نفیس و گرانقدر شۓ کو کہتے ہیں" - اور یہ دونوں اسی طرح ہیں بھی- کیونکہ یہ دونوں علوم لدنی ، بلند اسرار و حکم اور احکام شرعی کے معد ن ہیں ، اسی لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے تمسک اور ان کی اقتداء کا حکم فرمایا ہے ۔(١)

حدیث سفینہ:

اس حدیث کوامام احمد بن حنبل ، امام مسلم ، ابن قتیبہ دینوری، بزار ، ابو یعلی موصلی ، طبری ، صولی صاحب کتاب الاوراق ، ابوالفرج اصفہانی ، طرانی، حاکم نیشاپوری ، ابن مردویہ اصفہانی ، ثعلبی ، ابو نعیم اصفہانی، ، ابن عبد البر ، خطیب بغدادی ، ابن مغازلی ، سمعانی ، فخر الدین رازی ، سبط ابن جوزی، محمد بن یوسف گنجی ، شہاب الدین حلبی ، نظام اعرج نیشاپوری، خطیب تبریزی ، طیبی شارح مشکاة، جمال الدین زرندی ، شہاب الدین قندوزی ،حموی جوینی ، ابن صباغ مالکی ، علی قاری اور عبد الرؤوف مناوی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے ۔

___________________

(١) علامہ ابن حجر ہیثمی مکی؛الصواعق المحرقة، ص٧٥.

قارئین کرام ! مقدمۂ کتاب کے طولانی ہونے کی بنا پر آپ سے بیحد معذرت خواہ ہیں، چونکہ اس کتاب سے مربوط کچھ مطالب ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے ضرورت اس بات کی محسوس ہورہی

کہ مقدمہ میں ان پر قدرے روشنی ڈالی جائے ،بہر حال اس کتاب کا پہلی دفعہ اردو ترجمہ دو بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ مؤمنین اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا تے ہوئے ناچیز کو دعائوں میں یاد رکھیں گے، آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ اقدس میں دست بہ دعا ہیں کہ تا دم آخر قرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے۔ (آمین)

والسلام

مترجم: محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی

گرام و پوسٹ بڑھیا ّ،ضلع کھیری لکھیم پور

یوپی ۔ ہندوستان

١٨ ذی الحجہ(بروز عید سعید غدیر)

مطابق ٢٩ جنوری ٢٠٠٥ ء بروز شنبہ

مقیم حال : قم مقدس ، جمہوری اسلامی ایران

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ وسلام علی عباده الذین اصطفی

هذه ستون حدیثا اسمیتها :'' اِحْیائَُ الْمَیْتْ بِفَضَائِلِ اَهْلِ الْبَیْتْ''.

تما م تعریفیں خدا وند متعال سے مخصوص ہیں ، اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر۔

یہ ساٹھ عدد حدیثیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام میں نے''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)''(فضائل ِاہل بیت سے احیاء میت)رکھا ہے ۔


6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18