صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام 16%

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44081 / ڈاؤنلوڈ: 6302
سائز سائز سائز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کانام: صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

مولف: سید مرتضی مجتہدی سیستانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

حمد اور ثنا سزاوار ہے اس خدا کے لئے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا اور رسول خدا کو تکمیل دین کے لئے ہماری طرف بھیجا جو کہ خاتم الانبیاء ہیں تا کہ ہم نیک اعمال بجا لائیں ان کے بعد اماموں کو ہماری ہدایت کے لئے بھیجا خدا نے ہماری نیک اخلاق اور نیک اعمال کی طرف رہنمائی کی تا کہ اس کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے بہشت میں داخل ہوں تا کہ بہشت میں بلند مقام حاصل کریں اور خدا کی رحمت کے ملائکہ دیکھیں کہ جو کلام الٰہی سے مزین ہیں

سلام قولاً من ربّ رحیم سورة یس آیہ ۵۸

سلام تمہارے اوپر دلنشین گفتار مہربان پروردگار کی طرف سے ہے

اور ہمیشہ کے لئے درود و سلام حضرت محمد پر کہ جو خدا کے پیغمبر ہیں اوور اس کے خاندان پر درود و سلام کہ جو پاک و پاکیزہ ہیں

تا کہ پاکیزہ کلمات اور مطہر کلام کے ساتھ لوگوں کی تکالیف کو بیان کریں اور ان کو چراغ الٰہی کے نور کے ساتھ جیسے (کوکب درّی یوقد من شجرة مبارکةٍ زیتونةٍ ) درخشان ستارہ کے جو مبارک زیتون کے درخت سے چمکتاہے انوار کے دریاؤں کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے اس روشنائی کی پرتو میں معرفت کے راستوں پر چلتے ہوئے علم اور حکمت کے شہر کی طرف سفر کا عزم کرتے ہوئے سعادت کے دروازے سے اس شہر میں داخل ہوجائیں اور درود و سلام ہو خصوصاً ان میں سے آخری شخص پر کہ جو عدل اور انصاف کے لئے قیام کرے گا کہ جو دعوت نبوی اور غلبہ حیدری کا حامل ہے

جس میں عصمت فاطمی صبر حسنی‘ حسینی شجاعت اور دلیری پائی جاتی ہے جس میں سجاد کی عبادت اور باقر کی بزرگواری جعفر کے آثار اور نشانیاں اور کاظم کی دانش جس میں رضا کے دلائل اور برھان جس میں تقی کی سخاوت اور نقی کی بزرگی اور عسکری کی ھیبت اور الٰہی غیبت موجود ہے یہ وہ ہستیی ہے کہ جو حق کو قائم کرنے کے لئے قیام کرے گی اور انسان کو سچ کی طرف دعوت دے گی وہ خدا کا کلمہ خدا کا امان اور حجت خدا ہیں وہ امر الٰہی کو زندہ کرنے کے لئے غالب ہوگا اور حرم الٰہی سے دفاع کرے گا وہ ظاھراً اور باطناً پیشوا ہوگا وہ بلاؤں کو ہٹانے والا جو کہ سخی اور بے شمار نیکی کرنے والا یعنی امام حق ابوالقاسم محمد بن الحسن صاحب الزمان خدا کا جانشین اور خلیفہ انسانوں اور ملائکہ کا پیشوا ہے وہ رات کی تاریکی میں اروشن ستارہ ہے وہ خطرات کے موقع پر امن و امان کا موجب ہیں وہ بلاؤں اور سختیوں کے موقع پر سِپر بن کر حفاظت کرنے والا ہے یہ کتاب ہدیہ ہے ایک ضعیف اور فانی بندہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں یعنی میرے مہربان مولیٰ کی خدمت میں اگر یہ قبول ہوجائے تو خدا کا مجھ پر بڑا احسان ہوگا کہ جس خدا نے تمہارے احسان کو مجھ پر مُسلط رکھا ہے اے صاھب زمان۔

اس کتاب کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ میرے لئے باقیات الصالحات اور قیامت کے دن میرے لئے زاد و توشہ ہوگا اس دن کہ جس میں (لا ینفع مالاْ ولا بنون ) سورة شعراء آیہ ۸۸ جس دن نہ مال فائدہ دے گا اور نہ ہی بیٹے سائلین کے لئے فائدے کا سبب اور شب زندہ داروں کے لئے روشن چراغ ہونگے اگر اس کو پڑھ لیں تو رستہ گاری طلب کرنے والوں کے لئے چابی ہے یہی چیز بہشت کے دروازوں کو کھولنے والا ہوگا آپکے اس نیکی کو قبول کرنے کے ساتھ اے صاحب بخشش یہ کتاب دوست کے لئے بصیرت کا سبب ہوگی ان پوشیدہ چابیوں کو ظاہر کرنے کے لئے اس شخص کے لئے کہ جو اس میں غور کے ساتھ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کو آپ کی مدد کا سبب قرار دے گا۔

پس اے محبوب اے عزیزمسّنا و اهلنا الضرُّ و جئنا ببضاعةٍ مزجاة فاوف لناالکیل و تصدق علینا انّ الله یجزی المتصدقین سورة یوسف آیہ ۸۸ اے عزیز ہم اور ہمارے خاندان اور بے بس ہیں کہ سرمایہ کے ساتھ تمہاری طرف آئے ہیں پس ہمارے پیمانہ کو بھر دے اور ہمیں صدقہ دے چونکہ خدا صدقہ دینے والوں کو جزا دیتاہے یہ کتاب کہ جو آپ کے سامنے موجود ہے اس میں نمازوں دعاؤں اور زیارات کا مجموعہ ہے یہ یا تو صاھب الزمان کی طرف سے صادر ہوئے ہیں یا اس جہاں میں ولایت کبریٰ کے بارے میں وارد ہوئے ہیں کہ جو زمین میں خدا کی طرف سے آخری جانشین اور خدا کا خلیفہ حضرت حجت بن الحسن العسکری ہیں مولّف کی کوشش یہ ہے کہ جو دعائیں اور زیارات معتبر کتابوں میں لکھی گئی ہم تک پہنچی ہیں ان کو جمع کرلے اگر چہ ہمارا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ یہ مجموعہ کتاب جامع اور کامل ہے چونکہ صاحب العصر کی طویل غیبت کی وجہ سے اور ہم سے دور ہونے کی وجہ سے بہت سی دعائیں اسی طرف زیارات نمازیں اور اذکار کہ جو امام زمان کی طرف سے صادر ہوئے ہیں وہ ہماری رستہ سے دور ہیں اور دوسری طرف افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ حجت کی غیبت کے زمانے میں حضرت کے وجود سے غفلت اور بے خبری کی زندگی گزار رہے ہیں جو کچھ آخری حجت سے صادر ہوئے ہیں

اس سے بے خبر ہیں کچھ مطالب حضرت کی طرف سے ان کے دوستوں تک پہنچے ہیں اس کو انہوں نے چھپادیا ہے اور ان کو نہیں لکھا گیا جس کی وجہ سے ہم ان واقعات سے آگاہ نہیں ہیں اس مطلب پر شاہد اور گواہ یہ تھے کہ عالم ربانی مرحوم آیة اللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ حائری سے نقل کرتاہوں ایک دن فقہ کے درس کے بعد کہ جو عشق علی میں درس دیا کرتے تھے میں ان کے گھر چلا گیا انہوں نے فرمایا میرا ایک دوست تھا کہ جو آخری حجت کے ساتھ ارتباط رکھتا تھا وہ بعض اوقات میرے پاس آتے تھے میرا ارتباط اس کے ساتھ اول انقلاب تک تھا لیکن انقلاب کے بعد یہ ارتباط کٹ گیا

میں نے ان کو کئی سال سے نہیں دیکھا جن دنوں میں میرا ان کے ساتھ ارتباط ہوا اس وقت میں ایک مشکل میں مبتلا تھا ایک دن میں نے ان کو اپنی مشکل بتائی اور ان سے کہا کہ میری مشکل کو حل کریں میری مشکل یہ تھی کہ بعض محتاج طلاب نے اپنی حاجت روائی کے لئے مجھ سے رجوع کیا لیکن ان میں سے بعض کو نہیں جانتا تھا ان کے بارے میں مترود تھا کہ آیا میں ان کی بھی مدد کرسکتاہوں یا نہیں ہوسکتاہے کہ یہ حقیقت میں مستحق نہ ہوں اس کے باوجود میں ان کی مدد کروں یا یہ کہ یہ واقعاً محتاج ہیں اس کے باوجود مدد نہ کی ہو بہر حال میں نے اپنی مشکل کو ان کے سامنے پیش کیا انہوں نے کہا میں تمہاری اس مشکل کو امام زمانہ کی خدمت میں پیش کروں گا انشاء اللہ اس کا جواب لے آؤں گا وہ ایک مدت کے بعد میرے پاس آیا اور فرمایا حضرت حجت نے ایک دعا مجھ کو عطا فرمائی اور فرمایا اگر کسی کو نہیں جانتے ہو اس کے باوجود وہ تجھ سے مدد کے خواہشمند ہیں اول اس دعا کو پڑھ لیں اس کے بعد اس کی مدد کریں چونکہ حضرت نے فرمایا ہے اگر اس دعا کو پڑھ لیں اور کسی شخص کی مدد کریں تو جو مال لے چکا ہے وہ ہماری رضا کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ خرچ نہیں کرسکتاہے

وہ ایک مختصر دعا تھی میں نے بارہا دیکھا ہے کہ جب ناشناس لوگ آتے اور مدد مانگتے تھے تو سب سے پہلے یہ دعا پڑھتے تھے اس کے بعد اس کی مدد کرتے تھے اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے بسا اوقات بعض افراد اس کو سمجھنے کی قوت نہیں رکھتے تھے۔ وہ اس لئے ہے کہ جو کچھ امام زمانہ سے صادر ہوتا تھا وہ ہم تک نہیں پہنچاہے بہت سی دعائیں زیارات اور نمازیں حضرت کے دوستوں کے دلوں میں موجود تھیں اس کو لوگوں کے سامنے بیان نہیں کیا گیا اور اس دار فانی سے چلے گئے۔مرحوم محدث نوری کہتے ہیں اصحاب میں سے قابل اعتماد لوگوں نے مجھ سے کہا کہ انہوں نے بیداری کی حالت میں صاحب الزمان کی زیارت کی ہے اور ان کے متعدد معجزات کو دیکھا ہے حضرت نے ان کو متعدد غیبی امور سے آگاہ کیا ہے

اور ان کے لئے مستجاب دعاؤں کے ساتھ دعا فرمائی اور ان کو مہلک خطرات سے نجات دی ہے ان کلمات کو یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے اس بناء پر جو کچھ اس کتاب میں جمع کیا ہے وہی دعائیں اور زیارات ہیں کہ جو معتبر کتابوں میں موجود ہیں اس میں تمام وہ چیزیں موجود نہیں ہیں کہ جو امام سے صادر ہوئی ہیں کہا جاسکتاہے یہاں جو کچھ میرے ہاتھ میں آیا ہے کہ سب کے سب میرے مولیٰ کا لطف و کرم ہے جو کچھ اس مجموعہ میں خوبی دیکھیں اس میں صاح الزمان کی تائید حاصل ہے اس میں جو نقص اور اشتباہ دیکھیں وہ میری طرف سے ہے امید ہے کہ خداوند متعال اس کام کو قبول فرمائے گا اور صاحب الزمان کے قرب کا موجب قرار دے یہ کتاب ایک مقدمہ اور خاتمہ کے علاوہ بارہ ابواب پر مشتمل ہے جس طرح بارہ مہینے ہیں اور ائمہ بھی بارہ ہیں اور نقباء قوم بھی بارہ ہیں اور جان لو یہ ایک یاد گاری کا سبب ہے جو چاہیے اپنے رب کے راستے کی طرف وسیلہ قرار دے جتنا ممکن ہو پڑھ لے نماز کو قائم کرے زکوٰة ادا کرے اور خدا کو قرض حسنہ دے دے اور جان لو کہ جو کچھ کرتے ہو اس کو اللہ کے پاس پاتے ہو یہ نیکی ہے اور بہت زیادہ اجر ہے خدا سے استغفار کرلو بتحقیق اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

ایک مہم نکتہ

یہاں پر ایک مہم نکتہ بیان کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے ائمہ اطہار نے ایک سیاسی فضا میں ایک غاصب حکومت کے زمانے میں زندگی گزاری کہ جس کی وجہ سے حکومت عدل علوی قائم نہ ہوسکی اس لئے ائمہ طاھرین کو لوگوں کے لئے اسرار الٰہی بیان کرنے کا موقع نہیں مل سکا تمام امیروں کے امیر اور سب سے پہلے مظلوم حضرت علی بن ابی طالب کو حقوق لینے سے دور رکھا خود حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیںکان لرسول الله سرّ لا یعلمه الّا قلیل و لولا طغاة هذه الامة لبثثست هذا السرّ ۔ رسول اللہ کے لئے ایک راز تھا چند افراد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا اگر اس امت کے سرکش نہ ہوتے تو اس راز کو ظاہر کر کے اس واضح بیان کو پھیلا دیتا ۔ اس بناء پر ہمارے اماموں نے رازوں کو لوگوں کے لئے بیان نہیں کیا اپنے بعض دوستوں کے علاوہ کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ پس رازوں کا بیان کرنا اور مہم معنوی حقائق کا بیان کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوا چونکہ لوگ اس کو برداشت نہیں کرسکتے تھے چونکہ لوگوں نے غاصب حکومت سے لیکر حکومت الٰہی یعنی حضرت قائم کی حکومت تک زندگی کرتے تھے۔ حضرت امام صادق اس آیہ شریفہ (والیل اذا یسرا) کی تفسیر میں فرماتے ہیں یہ ایک غاصب حکومت کہ جو قیام قائم تک جاری رہے گی رات سے مراد غاصب حکومت ہے یہ حضرت قائم کے قیام تک جاری رہے گی

یہی وجہ ہے ائمہ معصومین نے بہت سے اسرار اور حقائق معنوی کو دعا اور مناجات کے ضمن میں بیان کیا ہے اگر آپ ان حقائق کو جاننا چاہیں تو ان دعاؤں اور مناجات کے ضمن میں جستجو کریں اھل بیت نہ صرف سیاسی وجوھات کی بناء پر لوگوں کو کھل کر راز نہیں بتاسکتے تھے اسلئے دعاؤں اور زیارات کے ضمن میں بتاتے تھے بلکہ مہم اعتقادی مسائل اور بلند معارف کو بھی دعا مناجات اور زیارات کی صورت میں بیان کرتے تھے دعاؤں کے درمیان تحقیق کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں اسرار عقائد اور بے شمار مطالب کو بیان کیا ہے معاشرہ میں زندگی کے لئے بہترین درس سکھایا گیا ہے بطور نمونہ صحفیہ سجادیہ کو دیکھیں کہ جس کے بارے میں امام زمانہ کی تائید بھی ہے اس میں غور کریں اور دیکھیں کہ امام سجاد نے مختصر الفاظ میں کس قدر حقائق دعا اور مناجات کے ضمن میں فرمایا ہے حضرت اور اھل بیت سے دوسری جو دعائیں منقول ہیں ان پر بھی غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے اب نومنہ کے طور پر دعاء کے ضمن میں جو ہمیں درس دیا گیا ہے اس کو نقل کرتاہوں مناجات انجیلیہ میں حضرت امام زین العابدین نے جو مناجات کی ہے اس کو بیان کرتاہوں: اسائلک من الھم اعلاھا بار الاھا مجھ سے سب سے بلند ترین ہمت کی کواہش کرتاہوں یہ حضرت امام سجاد کا کلام ہے

ان تمام لوگوں کے لئے کہ جس کے ہاتھ میں دعا کی کتاب ہے دعا پڑھنے کے ساتھ خدا سے کلام کرتاہے یعنی دعا کرنے والا جو بھی ہو اگر چہ آپنے آپ کو بے ارادہ اور ناچیز جانتاہے اس کو چاہیے کہ خدا سے چاہیے کہ بہترین اور عالی ترین ہمت اس کو دے دے تا کہ اپنی زندگی میں ایک عظیم تبدیلی بجالائے جو کچھ ائمہ طاہرین سے ہم تک پہنچاہے یہ ہے کہ دعا کے آداب اور استجابت کی شرائط کو انجام دے تا کہ دعا قبول ہوتے ہوئے دیکھے جو کچھ ہم نے لیا ہے وہ سب کچھ قرآن اور احادیث سے بیان کیا ہے اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے غور سے سن لے رحمت الٰہی سے مایوس نہ ہوجائے چونکہ ۔انّه لا بیاس من روح الله الّا القوم الکافرون سورة یوسف آیہ ۸۷ رحمت خدا سے صرف کافر مایوس ہوجاتے ہیں اس بناء پر نور امامت سے استفادہ کر کے اپنے اندر نور امید اور نور یقین پختہ کرلے۔

عقلی اور نقلی دلائل کی نظر میں دعا کی طرف ترقیب دینا دعا کے آداب اور شرائط بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ عقلی اور نقلی اعتبار سے ترغیب دعا کیلئے جو دلائل ہیں بیان کروں

دلیل عقلی:

عقل ہمیں کہتی ہے اگر انسان کو کوئی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو اور انسان اس ضرر کے دور کرنے پر قادر ہو تو عقل کہتی ہے کہ اس کو دور کرنا ضروری ہے یہ چیز واضح ہے کہ دنیوی زندگی میں ہر انسانن کو ضرر پہنچتاہے اور انسان ہمیشہ ضرر میں گرفتار رہتاہے یہ گرفتاری یا تو داخلی ہوگی جیسے ایک چیز انسان کے مزاج کو عارض ہوجائے یا خارجی ہے جیسے کوئی ظالم اس پر ظلم کرے یا کوئی شخص یا ہمشایہ اس کو گالی دے دے اگر اب ان چیزوں میں گرفتار نہ ہو ممکن ہے کہ آئندہ گرفتار ہوجائے پس اس دنیا کے ضرر ان دو حالتوں سے خالی نہیں ہے یا حاصل ہوا ہوگا اور اور انسان اس میں مبتلا ہوگا یا حاصل ہوجائے گا ان دونوں صورتوں میں ان کو دور کرنا ضروری ہے۔ دعا اس ضرر کو دور کرنے کا وسیلہ ہے پس عقلی اعتبار سے ضروری ہے کہ دعا کے ذریعے اس ضرر کو اپنے آپ سے دور کرے چنانچہ امیرالمومنین علی علیہ اسلام نے اس معنی سے آگاہ کیا ہے کہ جہاں فرماتے ہیںما من احد ابتلی و ان عظمت بلواه بأحق بالدعاء من المعافی الذی لا یأمن من البلاء ۔ کوئی شخص بھی مبتلا اور گرفتار نہیں ہوجاتاہے مگر یہ کہ بہت بڑی مصیبت کیوں نہ ہو اس فرد کے لئے بھی ضروری ہے کہ جو مصیبت میں مبتلاء نہیں ہے وہ بھی دعا مانگے۔

دلیل نقلی:

جو کچھ احادیث سے ہمیں معلوم ہوا ہیہ ہے کہ ہر انسان چاہے سالم ہو یا مصیبت میں مبتلا ہو دونوں دعا کے محتاج ہیں اور دعا کا فائدہ یہ ہے کہ انسان جن مشکلات میں مبتلا ہے دعا اس کو دور کرتی ہے جو مشکلات در پیش ہیں اس کو بھی دور کرتی ہے یا انسان کی فائدہ کی جستجو میں ہے دعا کی وجہ سے وہ فائدہ حاصل ہوتاہے یا کوئی اچھائی موجود ہے اس کو دعا کی وجہ سے برقرار رکھتاہے اس کو زائل ہونے سے محفوظ رکھتاہے یہی وجہ ہے ائمہ معصومین نے دعا کو سلاح مومن کے عنوان سے بیان کیا ہے اسلحہ وسیلہ ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کو نفع پہنچتاہے اس اسلھہ کی وجہ سے ضرر کو دور کیا جاتاہے ائمہ طاہرین سے دوسری روایات میں دعا کو سپر سے تعبیر کیا گیا ہے اور معلوم یہ ہے کہ سپر کے ذریعے انسان ناگوار چیز سے اپنے آپ کو بچاتاہے پیغمبر خدا فرماتے ہیں: الا ادئکم علی سلاح ینجیکم من اعلائکم ویدرّ ارزاقکم قالو: بلی یا رسول الله قال: تدعون ربکم باللیل و النهار فانّ سلاح الموٴمن الدعاء کیا میں تمہاری راہنمائی نہ کروں ایک ایسے اسلحہ کی طرف کہ جو تم کو دشمنوں سے نجات دے دے اور تمہاری روزی زیادہ کرے عرض کیا ہاں اے رسول خدا نے فرمایا شب روز اپنے رب کو پکارو چونکہ دعاء مومن کا اسلحہ ہے۔

حضرت امیر المومنین نے فرمایا:الدعا ترس المومن و متی تکثر قرع الباب یفتح لک دعا ۔ مومن کے لئے سپر ہے جب بھی دروازے کو زیادہ کھٹکھٹائیں تو تمہارے سامنے وہ دروازہ کھل جائے گا امام صادق نے فرمایاالدعاء انفذ من الانسان الهدید دعاء لوہا کے نیزہ سے زیادہ موثر ہے۔

امام کاظم نے فرمایاانّ الدعاء یردّ ما قدّر و مالم یقدّر قال قلت و ما قد قدأر فقد عرفته فمالم یقدّر قال حتی لا یکون یہی دعا‘ جو کچھ لوح محفوظ میں مقدر ہے اور جو کچھ مقدر نہیں ہے اس کو لوٹا دیتی ہے راوی نے کہا میں نے عرض کیا جو کچھ مقدر میں ہے اس کا معنی میں نے سمجھا لیکن جو مقدر میں نہیں ہے اس کا مطلب کیا ہے حضرت نے فرمایا دعا کرتاہے کہ جو اب تک مقدر نہیں ہوا ہے آئندہ بھی مقدر نہیں ہوگا۔ ایک اور روایت میں پڑھتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ کاظم نے فرمایاعلیکم بالدعاء فان الدعاء ما الطلب الی الله تعالیٰ یردّ البلاء و قد قدّر وقضیٰ فلم یبق الّا امضائه فاذا دعی الله وسئل صرفه صرفه تمہارے لئے دعا کرنا ضروری ہے چونکہ خدا سے دعا مانگنے سے بلائیں دور ہوجاتی ہیں وہ بلائیں کہ جو انسان کے مقدر میں ہیں جس پر اللہ کا حکم جاری ہوا ہے صرف اس پر التقا نہیں ہوا ہے بلکہ اگر خدا سے اس کے برطرف کرنے کے لئے دعا مانگنی جائے تو خدا اس کو برطرف کرتاہے ایک روایت میں زراہ امام محمد باقر سے نقل کرتاہے کہ حضرت نے فرمایاالاادلکم علی شئی کم یستثن فیه رسول الله قلت بلی قال: الدعاء یردّ القضا و قدا برم ابراماً و ضمّ أصابعه کیا تم کو ایسا مسئلہ بیان نہ کروں کہ جس میں رسول نے استثنا نہیں کیا ہے میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا دعا امضاء شدہ قجی کو واپس کردیتاہے حضرت نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا دیا کہ یہ۔ کام کے محکم ہونے کی علامت ہے۔

امام سجاد نے فرمایاان الدعاء و البلاء لیتوافقان الی یوم القیامة، ان الدعاء لیردّ البلاء و قد أبرم ابراماً ۔تحقیق دعا اور بلاء قیامت کے دن تک ساتھ ساتھ ہیں ان دونوں میں سے ایک کو واقع ہونا چاہیے یہی دعا حتمی بلاء کو پلٹا دیتی ہے پھر حضرت نے ایک اور کلام میں فرمایا:الدعاء یردّ البلاء النازل و مالم ینزلترجمه : دعا نازل ہونے والی بلاء کو اور نازل نہ ہونے والی بلاء کو دور کرتی ہے۔

باب پنجم

ہر مہینے کی دعائیں

۱ ۔ عاشورا کے دن امام زمانہ کے ظہور کی دعا

عبداللہ بن سنان کہتاہے کہ عاشور کے دن امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت کا رنگ متغیر اور غمگین موتیوں کی طرح آنسو آنکھوں سے جاری ہوتے ہوئے دیکھا میں نے عرض کیا اے فرزند رسول خدا آپ کیوں روتے ہیں اللہ آپ کو نہ رلائے حضرت نے فرمایا کیا تم غافل ہو کیا نہیں جانتے ہو کہ ان جیسے دنوں میں امام حسین شہید ہوچکے ہیں میں نے عرض کیا اے میرے آقا آج کے دن روزہ رکھنے میں آپکا کیا نظریہ ہے حضرت نے فرمایا ایسے دنوں میں روزہ رکھیں رات کو روزہ کی نیت کئے بغیر افطار کرو خوشی کے بغیر اس روزہ کو مکمل روزہ قرار نہ دیں نماز عصر کے بعد ایک گھنٹہ بعد پانی سے افطار کریں چونکہ ایسے اوقات میں فرزند رسول سے جنگ ختم کی گی ہے اور جنگ کا فتنہ خاموش ہوا اور ان میں سے تیس آدمی زمین پر پڑے ہوئے تھے یہ رسول خدا کے لئے بہت سخت تھا اگر اس دن حضرت رسول زندہ ہوتے تو خود ان کے لئے عزاداری کرتے راوی کہتاہے حضرت امام جعفر صادق روئے یہاں تک کہ حضرت کی داڑھی آنکھوں کے آنسو سے تر ہوگئی اس کے بعد فرمایا خداوند تعالیٰ نے نور کو پیدا کیا تو اس کو جمعہ کے دن ماہ رمضان کے پہلے دن پیدا کیا اور تاریکی کو بدھ کے دن دس محرم کے دن خلق کیا ان میں دو کو ہر ایک کے لئے روشن راستہ قراردیا۔

اے عبداللہ بن سنان بہترین عمل اس دن یہ ہے کہ آج کے دن پاک کپڑے پہنیں اور تسلّب کریں میں نے عرض کیا کہ تسلب کا کیا مطلب ہے حضرت نے فرمایا اپنے آپ کو مصیبت زدہ لوگوں کی طرح قراردیں اپنی عبا کو کھول دیں اور لباس کو کہنیوں سے کھول دیں مصیبت زدہ لوگوں کی طرح قراردیں اور عزاداری کریں اس کے بعد ایسی جگہ پر جائیں کہ جہاں کوئی بھی نہ ہو ظہر کے وقت چار رکعت نماز خشوع کے ساتھ رکوع اور سجود اور دوسلام پڑھیں پہلی رکعت میں سورہ حمد اور فل یا ایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور قل ھواللہ احد کو پڑھے اس کے بعد دوسرے دو رکعت بھی پڑے لے پہلی رکعت میں سورہ حمد اور سورہ احزاب اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور واذا جائک المنافقون یا جو بھی اس کے لئے آسانی ہو پڑھے لے نماز کو تمام کریں اور حضرت امام حسین کے مرقد کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اس حال میں حضرت کے قتلگاہ ان کے اعزاء ان کے فرزند اور ان کے اہلبیت کو نظر میں رکھیں اور ان پر سلام اور درود بھیجیں اور حضرت کے قاتلوں پر لعنت بھیجیں ان کے اس کام سے بیزاری حاصل کریں خداوند تعالیٰ تیرے اس عمل کی وجہ سے بہشت میں بلند درجات دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخشے گا اس وقت آپ جہاں بھی ہوں چند قدم اٹھائیں اور حرکت کریں اور کہیںانا لله و انا الیه راجعون رضاً بقضاء الله و تسلیماً لامره ان تمام حالات میں محزون اور غمگین ہوں ان دنوں میں خدا کو زیادہ یاد کریں کلمہ استرجاع بہت زیادہ زبان پر جاری کریں جب اس حالت میں چند قدم اٹھائیں جہاں نماز پڑھی ہے وہیں پڑ بیٹھ جائیں اس کے بعد کہیں۔

أَللَّهُمَّ عَذِّبِ الْفَجَرَةَ ، اَلَّذينَ شاقُّوا رَسُولَكَ ، وَحارَبُوا أَوْلِيائَكَ ، وَعَبَدُوا غَيْرَكَ ، وَاسْتَحَلُّوا مَحارِمَكَ ، وَالْعَنِ الْقادَةَ وَالْأَتْباعَ ، وَمَنْ كانَ مِنْهُمْ ، فَخَبَّ وَأَوْضَعَ مَعَهُمْ ، أَوْ رَضِيَ بِفِعْلِهِمْ لَعْناً كَثيراً

أَللَّهُمَّ وَعَجِّلْ فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ ، وَاجْعَلْ صَلَواتِكَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ ، وَاسْتَنْقِذْهُمْ مِنْ أَيْدِي الْمُنافِقينَ الْمُضِلّينَ ، وَالْكَفَرَةِ الْجاحِدينَ ، وَافْتَحْ لَهُمْ فَتْحاً يَسيراً ، وَأَتِحْ لَهُمْ رَوْحاً وَفَرَجاً قَريباً ، وَاجْعَلْ لَهُمْ مِنْ لَدُنْكَ عَلى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ سُلْطاناً نَصيراً

اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو بلند کرین اور قنوت میں اس دعا کوپڑھیں اس حالت میں کہ آل محمد کے دشمنوں کی طرف اشارہ کریں اور کہیں:

أَللَّهُمَّ إِنَّ كَثيراً مِنَ الْاُمَّةِ ناصَبَتِ الْمُسْتَحْفَظينَ مِنَ الْأَئِمَّةِ ، وَكَفَرَتْ بِالْكَلِمَةِ ، وَعَكَفَتْ عَلَى الْقادَةِ الظَّلَمَةِ ، وَهَجَرَتِ الْكِتابَ وَالسُّنَّةَ ، وَعَدَلَتْ عَنِ الْحَبْلَيْنِ اللَّذَيْنِ أَمَرْتَ بِطاعَتِهِما ، وَالتَّمَسُّكِ بِهِما ، فَأَماتَتِ الْحَقَّ ، وَجارَتْ عَنِ الْقَصْدِ ، وَمالَأَتِ الْأَحْزابَ ، وَحَرَّفَتِ الْكِتابَ ، وَكَفَرَتْ بِالْحَقِّ لَمَّا جائَها ، وَتَمَسَّكَتْ بِالْباطِلِ لَمَّا اعْتَرَضَها ، وَضَيَّعَتْ حَقَّكَ ، وَأَضَلَّتْ خَلْقَكَ ، وَقَتَلَتْ أَوْلادَ نَبِيِّكَ ، وَخِيَرَةَ عِبادِكَ ، وَحَمَلَةَ عِلْمِكَ ، وَوَرَثَةَ حِكْمَتِكَ وَوَحْيِكَ.

أَللَّهُمَّ فَزَلْزِلْ أَقْدامَ أَعْدائِكَ وَأَعْداءِ رَسُولِكَ وَأَهْلِ بَيْتِ رَسُولِكَ أَللَّهُمَّ وَأَخْرِبْ دِيارَهُمْ ، وَافْلُلْ سِلاحَهُمْ ، وَخالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ ، وَفُتَّ في أَعْضادِهِمْ وَأَوْهِنْ كَيْدَهُمْ ، وَاضْرِبْهُمْ بِسَيْفِكَ الْقاطِعِ ، وَارْمِهِمْ بَحَجَرِكَ الدَّامِغِ ، وَطُمَّهُمْ بِالْبَلاءِ طَمّاً ، وَقُمَّهُمْ بِالْعَذابِ قَمّاً ، وَعَذِّبْهُمْ عَذاباً نُكْراً ، وَخُذْهُمْ بِالسِّنينَ وَالْمَثُلاتِ الَّتي أَهْلَكْتَ بِها أَعْدائَكَ ، إِنَّكَ ذُو نَقِمَةٍ مِنَ الْمُجْرِمينَ.

أَللَّهُمَّ إِنَّ سُنَّتَكَ ضائِعَةٌ ، وَأَحْكامَكَ مُعَطَّلَةٌ ، وَعِتْرَةَ نَبِيِّكَ فِي الْأَرْضِ هائِمَةٌ أَللَّهُمَّ فَأَعِنِ الْحَقَّ وَأَهْلَهُ ، وَاقْمَعِ الْباطِلَ وَأَهْلَهُ ، وَمُنَّ عَلَيْنا بِالنَّجاةِ ، وَاهْدِنا إِلَى الْإيمانِ ، وَعَجِّلْ فَرَجَنا ، وَانْظِمْهُ بِفَرَجِ أَوْلِيائِكَ ، وَاجْعَلْهُمْ لَنا وُدّاً ، وَاجْعَلْنا لَهُمْ وَفْداً.

أَللَّهُمَّ وَأَهْلِكْ مَنْ جَعَلَ يَوْمَ قَتْلِ ابْنِ نَبِيِّكَ وَخِيَرَتِكَ عيداً ، وَاسْتَهَلَّ بِهِ فَرَحاً وَمَرَحاً ، وَخُذْ آخِرَهُمْ كَما أَخَذْتَ أَوَّلَهُمْ ، وَأَضْعِفِ اللَّهُمَّ الْعَذابَ وَالتَّنْكيلَ عَلى ظالِمي أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّكَ ، وَأَهْلِكْ أَشْياعَهُمْ وَقادَتَهُمْ ، وَأَبِرْ حُماتَهُمْ وَجَماعَتَهُمْ

أَللَّهُمَّ وَضاعِفْ صَلَواتِكَ وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكاتِكَ عَلى عِتْرَةِ نَبِيِّكَ ، اَلْعِتْرَةِ الضَّائِعَةِ الْخائِفَةِ الْمُسْتَذَلَّةِ ، بَقِيَّةِ الشَّجَرَةِ الطَّيِّبَةِ الزَّاكِيَةِ الْمُبارَكَةِ.

وَأَعْلِ اللَّهُمَّ كَلِمَتَهُمْ ، وَأَفْلِجْ حُجَّتَهُمْ ، وَاكْشِفِ الْبَلاءَ وَاللَّأْواءَ ، وَحَنادِسَ الْأَباطيلِ وَالْعَمى عَنْهُمْ ، وَثَبِّتْ قُلُوبَ شيعَتِهِمْ وَحِزْبِكَ عَلى طاعَتِهِمْ وَوِلايَتِهِمْ وَنُصْرَتِهِمْ وَمُوالاتِهِمْ ، وَأَعِنْهُمْ وَامْنَحْهُمُ الصَّبْرَ عَلَى الْأَذى فيكَ ، وَاجْعَلْ لَهُمْ أَيَّاماً مَشْهُودَةً ، وَأَوْقاتاً مَحْمُودَةً مَسْعُودَةً ، يُوشِكُ فيها فَرَجُهُمْ ، وَتُوجِبُ فيها تَمْكينَهُمْ وَنَصْرَهُمْ ، كَما ضَمِنْتَ لِأَوْلِيائِكَ في كِتابِكَ الْمُنْزَلِ.

فَإِنَّكَ قُلْتَ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ «وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَني لايُشْرِكُونَ بي شَيْئاً »

أَللَّهُمَّ فَاكْشِفْ غُمَّتَهُمْ ، يا مَنْ لايَمْلِكُ كَشْفَ الضُّرِّ إِلّا هُوَ ، يا أَحَدُ يا حَيُّ يا قَيُّومُ ، وَأَنَا يا إِلهي عَبْدُكَ الْخائِفُ مِنْكَ ، وَالرَّاجِعُ إِلَيْكَ ، اَلسَّائِلُ لَكَ ، اَلْمُقْبِلُ عَلَيْكَ ، اَللّاجِئُ إِلى فِنائِكَ ، اَلْعالِمُ بِأَنَّهُ لا مَلْجَأَ مِنْكَ إِلّا إِلَيْكَ.

أَللَّهُمَّ فَتَقَبَّلْ دُعائي ، وَاسْمَعْ يا إِلهي عَلانِيَتي وَنَجْوايَ ، وَاجْعَلْني مِمَّنْ رَضيتَ عَمَلَهُ ، وَقَبِلْتَ نُسُكَهُ ، وَنَجَّيْتَهُ بِرَحْمَتِكَ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزيزُ الْكَريمُ.

أَللَّهُمَّ وَصَلِّ أَوَّلاً وَآخِراً عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَبارِكْ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَارْحَمْ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ ، بِأَكْمَلِ وَأَفْضَلِ ما صَلَّيْتَ وَبارَكْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلى أَنْبِيائِكَ وَرُسُلِكَ ، وَمَلائِكَتِكَ وَحَمَلَةِ عَرْشِكَ بِلا إِلهَ إِلّا أَنْتَ.

أَللَّهُمَّ وَلاتُفَرِّقْ بَيْني وَبَيْنَ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ ، وَاجْعَلْني يا مَوْلايَ مِنْ شيعَةِ مُحَمَّدٍ وَعَلِيٍّ وَفاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَذُرِّيَّتِهِمُ الطَّاهِرَةِ الْمُنْتَجَبَةِ ، وَهَبْ لِيَ التَّمَسُّكَ بِحَبْلِهِمْ ، وَالرِّضا بِسَبيلِهِمْ ، وَالْأَخْذَ بِطَريقَتِهِمْ ، إِنَّكَ جَوادٌ كَريمٌ.

اس کے بعد اپنے چہرے کو زمین کے ساتھ لگادیں اور کہیں

يا مَنْ يَحْكُمُ ما يَشاءُ وَيَفْعَلُ ما يُريدُ أَنْتَ حَكَمْتَ ، فَلَكَ الْحَمْدُ مَحْمُوداً مَشْكُوراً ، فَعَجِّلْ يا مَوْلايَ فَرَجَهُمْ ، وَفَرَجَنا بِهِمْ ، فَإِنَّكَ ضَمِنْتَ إِعْزازَهُمْ بَعْدَ الذِّلَّةِ ، وَتَكْثيرَهُمْ بَعْدَ الْقِلَّةِ ، وَ إِظْهارَهُمْ بَعْدَ الْخُمُولِ ، يا أَصْدَقَ الصَّادِقينَ ، وَيا أَرْحَمَ الرَّاحِمينَ.

فَأَسْئَلُكَ يا إِلهي وَسَيِّدي ، مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ بِجُودِكَ وَكَرَمِكَ ، بَسْطَ أَمَلي وَالتَّجاوُزَ عَنّي ، وَقَبُولَ قَليلِ عَمَلي وَكَثيرِهِ ، وَالزِّيادَةَ في أَيَّامي وَتَبْليغي ذلِكَ الْمَشْهَدَ ، وَأَنْ تَجْعَلَني مِمَّنْ يُدْعى فَيُجيبُ إِلى طاعَتِهِمْ وَمُوالاتِهِمْ وَنَصْرِهِمْ ، وَتُرِيَني ذلِكَ قَريباً سَريعاً في عافِيَةٍ ، إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ.

(مذکورہ دعا کا آخری حصہ)

اس کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرے اور کہےاعوذ بک ان اکون من الذین لا یرجون ایآامک فاعذنی یا الهٰی برحمتک من ذالک اے ابن سنان یہ عمل مستحب حج اور عمرہ سے بہتر ہے اس عمر سے کہ جس میں اپنا سارامال خرچ کریں اور اپنے آپ کو زحمت میں ڈالیں اور اپنے اھل و عیال سے جدائی اختیار کریں۔ جان لو جو بھی ان دونوں میں اس نماز کو خلوص کے ساتھ پڑھے اور اس عمل کو یقین اور تصدیق کے ساتھ انجام دے خداوند قضا کے اس کو دس خصلتیں عطا کرتاہے ان میں ایک یہ ہے کہ بُری موت سے نجات دیتاہے برائی اور فقر سے محفوظ رکھتاہے جب تک زندہ ہے دشمن اس پر غالب نہیں آئے گا بیماریوں سے جیسے جذام برص جنون سے اس کو اور اس کے فرزندوں کو چار پشت تک محفوظ رکھتاہے چار پشت تک اس پر اس کے دوستوں پر اور اس کے فرزندوں ہے شیطان مسلّط نہیں ہوتاہے۔

ابن سنان کہتاہے میں حضرت کی خدمت سے رخصت ہوا حالانکہ میں کہتا تھا اللہ کی حمد و ثناء ہے کہ جس نے مجھ پر منت رکھا تا کہ تمہیں اور تمہاری محبت کو پہچانوں اس کے احسان اور رحمت سے درخواست کرتاہوں کہ میری تمہارے واجب کی اطاعت پر مدد کرے۔

۲ ۔ عاشور کے دن ایک دوسری دعا

صالح بن عقبہ اپنے باپ سے اس نے امام محمد باقر سے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا جو بھی محرم کے مہینے میں عاشور کے دن امام حسین کی زیارت کرے اور گریہ کی حالت میں حرم میں رہے تو قیامت کے دن دو ہزار حض دو ہزار عمرہ دو ہزار جھاد راہ اسلام کا ثواب کیساتھ خدا سے ملاقات کرتاہے اور ہر جھاد عمرہ اور حج کا ثواب جتنا حضرت رسول خدا اور اماموں کے ساتھ حج اور عمرہ اور ان کے رکاب میں جنگ کرنے کا جتنا ثواب ہے راوی کہتاہے میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوجاؤں جو لوگ دور دراز علاقے میں رہتے ہیں اور ان کے لئے ایسے دنوں میں حرم میں نہیں آسکتے ہیں وہ کیا کریں حضرت نے فرمایا اگر کوئی نزدیک سے زیارت نہیں کرسکتاہے تو صحراء میں چلا جائے یا اپنے گھر کے چھت پر جائے اور اشارہ کے ساتھ حضرت کی طرف سلام کرے اور حضرت کے قاتلوں پر لعنت بھیجے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اس عمل کو زوال آفتاب سے پہلے بجا لائے اس وقت امام حسین پر ندبہ کرے اور اگریہ کرے اگر تصفیہ کی حالت نہ ہو تو اپنے گھر والوں کو حکم دے کہ گریہ کریں اور عزاداری قائم کریں نالہ و فریاد کرے اور ایک دوسرے کو امام حسین کی مصیبت میں تعزیت و تسلیت پیش کریں۔ جیسا کہ میں نے کہا اس طرح اس عمل کو انجام دیں تو ان تمام ثواب کا خداوند تعالیٰ کی طرف سے میں ضامن ہوں میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوجاؤں آپ اس سب ثواب کے ضامن ہیں حضرت نے فرمایا کیوں نہیں میں ضامن ہوں اس شخص کے لئے کہ جو اس عمل کو انجام دے میں نے عرض کیا کس طرح ایک دوسرے کو تسلیت پیش کریں فرمایا کہ کہو اعظم اللہ اجورنا بمصابنا بالحسین وجعلنا و ایّاکم من الطالبین بثارہ مع ولیّہ الامام المھدی من آل محمد علیھم سلام۔

۳ ۔ ماہ رجب کے دنوں کی دعائیں کہ جو آخری حجت سے صادر ہوئی ہیں

ابن عبّاس کہتاہے من جملہ ان توفیقات میں سے کہ جو جناب شیخ ابو جعفر محمد بن عثمان کے ہاتھ سے آخری حجت کی طرف سے ہے رجب کے مہینے میں ہر روز کی دعا

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْأَلُكَ بِمَعاني جَميعِ ما يَدْعُوكَ بِهِ وُلاةُ أَمْرِكَ ، اَلْمَأْمُونُونَ عَلى سِرِّكَ ، اَلْمُسْتَبْشِرُونَ بِأَمْرِكَ ، اَلْواصِفُونَ لِقُدْرَتِكَ ، اَلْمُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِكَ ، أَسْأَلُكَ بِما نَطَقَ فيهِمْ مِنْ مَشِيَّتِكَ ، فَجَعَلْتَهُمْ مَعادِنَ لِكَلِماتِكَ ، وَأَرْكاناً لِتَوْحِيدِكَ وَآياتِكَ وَمَقاماتِكَ الَّتي لاتَعْطيلَ لَها في كُلِّ مَكانٍ يَعْرِفُكَ بِها مَنْ عَرَفَكَ ، لا فَرْقَ بَيْنَكَ وَبَيْنَها إِلّا أَنَّهُمْ عِبادُكَ وَخَلْقُكَ ، فَتْقُها وَرَتْقُها بِيَدِكَ ، بَدْؤُها مِنْكَ وَعَوْدُها إِلَيْكَ ، أَعْضادٌ وَأَشْهادٌ وَمُناةٌ وَأَذْوادٌ وَحَفَظَةٌ وَرُوَّادٌ ، فَبِهِمْ مَلَأْتَ سَماءَكَ وَأَرْضَكَ حَتَّى ظَهَرَ أَنْ لا إِلهَ إِلّا أَنْتَ.

فَبِذلِكَ أَسْأَلُكَ وَبِمَواقِعِ الْعِزِّ مِنْ رَحْمَتِكَ ، وَبِمَقاماتِكَ وَعَلاماتِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ ، وَأَنْ تَزيدَني إيماناً وَتَثْبيتاً ، يا باطِناً في ظُهُورِهِ وَظاهِراً في بُطُونِهِ وَمَكْنُونِهِ ، يا مُفَرِّقاً بَيْنَ النُّورِ وَالدَّيْجُورِ ، يا مَوْصُوفاً بِغَيْرِ كُنْهٍ ، وَمَعْرُوفاً بِغَيْرِ شِبْهٍ ، حادَّ كُلِّ مَحْدُودٍ ، وَشاهِدَ كُلِّ مَشْهُودٍ ، وَمُوجِدَ كُلِّ مَوْجُودٍ ، وَمُحْصِيَ كُلِّ مَعْدُودٍ ، وَفاقِدَ كُلِّ مَفْقُودٍ ، لَيْسَ دُونَكَ مِنْ مَعْبُودٍ أَهْلَ الْكِبْرِياءِ وَالْجُودِ.

يا مَنْ لايُكَيَّفُ بِكَيْفٍ ، وَلايُؤَيَّنُ بِأَيْنٍ ، يا مُحْتَجِباً عَنْ كُلِّ عَيْنٍ ، يا دَيْمُومُ يا قَيُّومُ ، وَعالِمَ كُلِّ مَعْلُومٍ ، صَلِّ عَلى عِبادِكَ الْمُنْتَجَبينَ ، وَبَشَرِكَ الْمُحْتَجِبينَ ، وَمَلائِكَتِكَ الْمُقَرَّبينَ ، وَالْبُهْمِ الصَّافّينَ الْحافّينَ.

وَبارِكْ لَنا في شَهْرِنا هذَا الْمُرَجَّبِ الْمُكَرَّمِ ، وَما بَعْدَهُ مِنَ الْأَشْهُرِ الْحُرُمِ ، وَأَسْبِغْ عَلَيْنا فيهِ النِّعَمَ ، وَأَجْزِلْ لَنا فيهِ الْقِسَمَ ، وَأَبْرِرْ لَنا فيهِ الْقَسَمَ ، بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذي وَضَعْتَهُ عَلَى النَّهارِ فَأَضاءَ ، وَعَلَى اللَّيْلِ فَأَظْلَمَ ، وَاغْفِرْ لَنا ما تَعْلَمُ مِنَّا وَما لانَعْلَمُ ، وَاعْصِمْنا مِنَ الذُّنُوبِ خَيْرَ الْعِصَمِ ، وَاكْفِنا كَوافِيَ قَدَرِكَ ، وَامْنُنْ عَلَيْنا بِحُسْنِ نَظَرِكَ ، وَلاتَكِلْنا إِلى غَيْرِكَ ، وَلاتَمْنَعْنا مِنْ خَيْرِكَ.

وَبارِكْ لَنا فيما كَتَبْتَهُ لَنا مِنْ أَعْمارِنا ، وَأَصْلِحْ لَنا خبيئَةَ أَسْرارِنا ، وَأَعْطِنا مِنْكَ الْأَمانَ ، وَاسْتَعْمِلْنا بِحُسْنِ الْإيمانِ ، وَبَلِّغْنا شَهْرَ الصِّيامِ ، وَما بَعْدَهُ مِنَ الْأَيَّامِ وَالْأَعْوامِ ، يا ذَا الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ

صاحب عمدة الزائر اس دعائے شریف کے بیان میں فرماتے ہیں ملاة امر یعنی صاحبان امر وہ محمد اور ان کے اھلبیت ہیں جن میں صفات حمیدہ پائی جاتی ہیں ان کے برے مقامات ہیں ان میں کسی قسم کی غیر مفید چیز معنی نہیں ہے جب خدا کے نزدیک یہ برا مقام رکھتے ہیں خدا سے مانگیں یا اھلبیت کو وسیلہ قرار دے کہ پکاریں جہاں پر ہوں اور جس امر کے لئے پڑھیں خداوند ان کی دعا کو قبول کرتاہے اور ان کی برکت سے اس کا فیض دعا کرنے والے کو پہنچتاہے اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے بلکہ ان کی برکت سے تمام مخلوق کو فیض پہنچتاہے۔ یہی راز ہے کہ درود بھیجنا ان کو وسیلہ قرار دینا جو حاجت بھی ہو چونکہ جو بھی ان پر درود بھیجے اس کی دعا رد نہیں ہوتی ہے۔

۴ ۔ ماہ رجب کے دنوں میں اور دعائیں

(جو امام زمانہ سے ہم تک پہنچی ہیں)

ابن عیاش کہتاہے ایک اور توقیع کہ جناب شیخ ابوالقاسم حسین بن روح کے ہاتھ سے کہ جو امام زمانہ کی طرف سے صادر ہوئی ہے اس دعا کو ہر رواز رجب کے مہینے میں پرھا جائے

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْأَلُكَ بِالْمَوْلُودَيْنِ في رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الثَّاني ، وَابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ ، وَأَتَقَرَّبُ بِهِما إِلَيْكَ خَيْرَ الْقُرَبِ ، يا مَنْ إِلَيْهِ الْمَعْرُوفُ طُلِبَ ، وَفيما لَدَيْهِ رُغِبَ

أَسْأَلُكَ سُؤالَ مُعْتَرِفٍ مُذْنِبٍ قَدْ أَوْبَقَتْهُ ذُنُوبُهُ، وَأَوْثَقَتْهُ عُيُوبُهُ، فَطالَ عَلَى الْخَطايا دُؤُوبُهُ ، وَمِنَ الرَّزايا خُطُوبُهُ ، يَسْأَلُكَ التَّوْبَةَ ، وَحُسْنَ الْأَوْبَةِ ، وَالنُّزُوعَ عَنِ الْحَوْبَةِ ، وَمِنَ النَّارِ فَكاكَ رَقَبَتِهِ ، وَالْعَفْوَ عَمَّا في رِبْقَتِهِ ، فَأَنْتَ يا مَوْلايَ أَعْظَمُ أَمَلِهِ وَثِقَتِهِ

أَللَّهُمَّ وَأَسْأَلُكَ بِمَسائِلِكَ الشَّريفَةِ ، وَوَسائِلِكَ الْمُنيفَةِ ، أَنْ تَتَغَمَّدَني في هذَا الشَّهْرِ بِرَحْمَةٍ مِنْكَ واسِعَةٍ ، وَنِعْمَةٍ وازِعَةٍ ، وَنَفْسٍ بِما رَزَقْتَها قانِعَةٍ إِلى نُزُولِ الْحافِرَةِ ، وَمَحَلِّ الْآخِرَةِ ، وَما هِيَ إِلَيْهِ صائِرَةٌ .( المصباح : ۷۰۳ ، مصباح المتهجّد : ۸۰۵ ، البحار : ۳۹۳/۹۸ ، إقبال الأعمال : ۱۴۶ .)

۵ ۔ ماہ رجب کے دنوں میں اور دعائیں

محمد بن عبدالرحمن تستری کہتاہے کہ میں بنی رداس کے علاقہ سے گزر رہا تھا ان برادران میں سے ایک نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں تو اکٹھے مسجد صعصعہ چلے جائتے ہیں وہاں نماز پڑھتے ہیں چونکہ یہ مہینہ رجب کا مہینہ ہے اس مہینے میں ان مقدس مقام پر معصوم امام آئے ہیں اور اس میں نماز پڑھ رہے ہیں اور وہ جہاں نماز پڑھنا مستحب ہے اور مسجد صعصعہ بھی ان میں سے ایک ہے راوی کہتاہے کہ ان کے ساتھ مسجد کی طرف چلا گیا مسجد کے دروازے پر پہنچا تو اچانک ایک اونٹ کو دیکھا اس کی پشت پر پالان اور مسجد کے دروازہ کے کنارے سویا ہوا ہے ہم مسجد میں داخل ہوئے ایک شخص کو دیکھا کہ بدن پر حجازی لباس اور سر پر عمامہ رکھا ہوا بیٹھا ہے اور دعا پڑھتاہے میں نے اور میرے ساتھی نے اس دعا کو حفظ کیا مرحوم شیخ طوسی نے فرمایا ہے کہ مستحب ہے کہ رجب کے مہینے میں ہر روز اس دعا کو پڑھیں

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْئَلُكَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ في هذَا الْيَوْمِ ، اَلْمَوْعُودِ بِشَهادَتِهِ قَبْلَ اسْتِهْلالِهِ وَوِلادَتِهِ ، بَكَتْهُ السَّماءُ وَمَنْ فيها ، وَالْأَرْضُ وَمَنْ عَلَيْها ، وَلَمَّا يَطَأْ لابَتَيْها قَتيلِ الْعَبَرَةِ وَسَيِّدِ الْاُسْرَةِ ، اَلْمَمْدُودِ بِالنُّصْرَةِ يَوْمَ الْكَرَّةِ ، اَلْمُعَوَّضِ مِنْ قَتْلِهِ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ نَسْلِهِ ، وَالشِّفاءَ في تُرْبَتِهِ ، وَالْفَوْزَ مَعَهُ في أَوْبَتِهِ ، وَالْأَوْصِياءَ مِنْ عِتْرَتِهِ ، بَعْدَ قائِمِهِمْ وَغَيْبَتِهِ ، حَتَّى يُدْرِكُوا الْأَوْتارَ ، وَيَثْأَرُوا الثَّارَ ، وَيُرْضُوا الْجَبَّارَ ، وَيَكُونُوا خَيْرَ أَنْصارٍ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ ، مَعَ اخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهارِ

أَللَّهُمَّ فَبِحَقِّهِمْ إِلَيْكَ أَتَوَسَّلُ ، وَأَسْئَلُ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ ] وَ[مُعْتَرِفٍ ، مُسي‏ءٍ إِلى نَفْسِهِ ، مِمَّا فَرَّطَ في يَوْمِهِ وَأَمْسِهِ ، يَسْئَلُكَ الْعِصْمَةَ إِلى مَحَلِّ رَمْسِهِ أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعِتْرَتِهِ ، وَاحْشُرْنا في زُمْرَتِهِ ، وَبَوِّئْنا مَعَهُ دارَ الْكَرامَةِ ، وَمَحَلَّ الْإِقامَةِ

أَللَّهُمَّ وَكَما أَكْرَمْتَنا بِمَعْرِفَتِهِ ، فَأَكْرِمْنا بِزُلْفَتِهِ ، وَارْزُقْنا مُرافَقَتَهُ وَسابِقَتَهُ ، وَاجْعَلْنا مِمَّنْ يُسَلِّمُ لِأَمْرِهِ ، وَيُكْثِرُ الصَّلاةَ عَلَيْهِ عِنْدَ ذِكْرِهِ ، وَعَلى جَميعِ أَوْصِيائِهِ وَأَهْلِ اصْطِفائِهِ ، اَلْمَمْدُودينَ مِنْكَ بِالْعَدَدِ الْإِثْنَيْ عَشَرَ ، اَلنُّجُومِ الزُّهَرِ ، وَالْحُجَجِ عَلى جَميعِ الْبَشَرِ

أَللَّهُمَّ وَهَبْ لَنْا في هذَا الْيَوْمِ خَيْرَ مَوْهِبَةٍ ، وَأَنْجِحْ لَنا فيهِ كُلَّ طَلِبَةٍ ، كَما وَهَبْتَ الْحُسَيْنَ لِمُحَمَّدٍ جَدِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ ، وَعاذَ فُطْرُسُ بِمَهْدِهِ ، فَنَحْنُ عائِذُونَ بِقَبْرِهِ مِنْ بَعْدِهِ ، نَشْهَدُ تُرْبَتَهُ ، وَنَنْتَظِرُ أَوْبَتَهُ ، آمينَ رَبَّ الْعالَمينَ .( زاد المعاد : ۵۷ ، مصباح المتهجّد : ۸۲۶ ، المصباح : ۷۲۰ ، إقبال الأعمال : ۲۰۲ .)

آس وقت ایک طویل سجدہ کیا اور اٹھا اونٹ پر سوار ہو کر چلاگیا ساتھی میری طرف متوجہ ہوا اور کہا میری نظر میں وہ حضرت خضر(علیہ السلام ) ہے کیوں ان کے ساتھ بات نہیں کی گویا ہماری زبان بند ہے ہم مسجد سے باہر آئے ابن الورداء رواسی کو دیکھا کہا کہاں سے آئے ہیں ہم نے کہا مسجد صعصعہ سے آئے ہیں اس کو واقعہ سے آگاہ کیا اس نے کہا یہ سوار دو تین روز اس مسجد میں آتے ہیں کسی سے بات نہیں کرتے ہیں ہم نے کہا ہم گمان کرتے ہیں کہ وہ حضرت خضر(علیہ السلام ) ہے اس نے کہا خدا کی قسم میری نظر میں یہ وہی ہیں کہ حضرت خضر اس کی زیارت کا مھتاج ہے پس ہم لوٹے اور سمجھ گئے کہ واقعہ کیا ہے میرے ساتھی نے مجھ سے کہا کہ خدا کی قسم وہ صاحب الزمان تھا سید طاؤوس کی روایت کی بناء پر یہ دعا حضرت امیرالمومنین سے ہے چونکہ یہ دعا ماہ رجب سے مربوط ہے اس لئے اس باب میں ذکر ہوا

۶۔ تیسرے شعبان کے دن کی دعا

یہ دعا ہم تک آخری حجت سے پہنچی علامہ مجلسی بحار الانوار میں کہتے ہیں امام حسن کے وکیل قاسم بن علاء ھمدانی کی توقیع سے یہ دعا صادر ہوئی ہے۔

حضرت امام حسین جمعرات کے دن تین شعبان کو پیدا ہوئے اس دن روزہ رکھ لیں اور اس دعا کو پڑھ لیں زاد المعاد میں ایک چیز کا اضافہ ہے کہ یہ امر صاحب الزمان کی طرف سے صادر ہوئی ہے ماہ شعبان کا تیسرا دن امام حسین کی ولادت کا دن ہے اس دن روزہ رکھو اور یہ دعا پڑھ لو۔

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَ لُکَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ فِی هذَا الْیَوْمِ الْمَوْعُودِ بِشَهادَتِهِ قَبْلَ اسْتِهْلالِهِ

اے معبود! بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں آج کے دن پیدا ہونیوالے مولود کے واسطے سے کہ جس کے پیدا ہونے اور دنیا میں

وَوِلادَتِهِ، بَکَتْهُ السَّمائُ وَمَنْ فِیها، وَالْاَرْضُ وَمَنْ عَلَیْها، وَلَمَّا یَطَأْ لابَتَیْها

آنے سے پہلے اس سے شہادت کا وعدہ لیا گیا تو اس پر آسمان رویا اور جو کچھ اس میں ہے اور زمین اور جو کچھ اس پر ہے روے جبکہ

قَتِیلِ الْعَبْرَةِ، وَسَیِّدِ الْاُسْرَةِ، الْمَمْدُودِ بِالنُّصْرَةِ یَوْمَ الْکَرَّةِ، الْمُعَوَّض ِ مِنْ

اس نے زمین مدینہ پر قدم نہ رکھا تھا وہ گریہ والا شہید اور کامیاب و کامران خاندان کا سید و سردار ہے رجعت کے دن، یہ اس کی

قَتْلِهِ أَنَّ الْاَئِمَّةَ مِنْ نَسْلِهِ، وَالشِّفائَ فِی تُرْبَتِهِ، وَالْفَوْزَ مَعَهُ فِی أَوْبَتِهِ،

شہادت کا بدلہ ہے کہ پاک آئمہ (ع)اس کی اولاد میں سے ہوئے اس کی خاکِ قبر میں شفائ ہے اور اس کی بازگشت میں کامیابی اسی کے

وَالْاَوْصِیائَ مِنْ عِتْرَتِهِ بَعْدَ قائِمِهِمْ وَغَیْبَتِهِ، حَتّی یُدْرِکُوا الْاَوْتارَ، وَیَثْأَرُوا الثَّارَ،

لیے ہے اور اوصیائ اسی کی اولاد میں سے ہیں کہ ان میں سے قائم غیبت ختم ہونے کے بعد وہ اپنے خون کا بدلہ اور انتقام لے کر تلافی

وَیُرْضُوا الْجَبَّارَ وَیَکُونُوا خَیْرَ أَنْصارٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِمْ مَعَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّهار

کرنے والے خدا کو راضی کریںگے اور بہترین مددگار ثابت ہوںگے درود ہوان سب پر جب تک رات دن آتے جاتے رہیں

اَللّٰهُمَّ فَبِحَقِّهِمْ إلَیْکَ أَ تَوَسَّلُ وَأَسْأَلُ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُعْتَرِفٍ مُسِیئٍ إلی نَفْسِهِ

اے معبود ان کا حق جو تجھ پر ہے اسے وسیلہ بناتا ہوں اور سوال کرتا ہوں اپنا گناہ تسلیم کرنے والے کیطرح کہ جس نے اپنے نفس

مِمَّا فَرَّطَ فِی یَوْمِهِ وَأَمْسِهِ، یَسْأَ لُکَ الْعِصْمَةَ إلی مَحَلِّ رَمْسِهِ اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلی

سے برائی کی ہے آج کے دن اور گزری ہوئی رات میں تو وہ سوال کرتا ہے اپنی موت کے دن تک کیلئے اے معبود! پس حضرت محمد(ص) اور

مُحَمَّدٍ وَعِتْرَتِهِ، وَاحْشُرْنا فِی زُمْرَتِهِ ، وَبَوّئْنا مَعَهُ دارَ الْکَرامَةِ، وَمَحَلَّ الْاِقامَةِ

انکے خاندان پر رحمت فرما اور ہمیں اسکے گروہ میں محشور فرما اور ہمیں بزرگی والے گھر اور جائے قیام کے سلسلے میں انکے ساتھ جگہ دے

اَللّٰهُمَّ وَکَما أَکْرَمْتَنا بِمَعْرِفَتِهِ فَأَکْرِمْنا بِزُلْفَتِهِ، وَارْزُقْنا مُرافَقَتَهُ وَسابِقَتَهُ،

اے معبود! جیسے تو نے ان کی معرفت کے ساتھ ہمیں عزت دی اسی طرح ان کے تقرب سے بھی نوازا اور ہمیں ان کی رہنمائی عطا کر

وَاجْعَلْنا مِمَّنْ یُسَلِّمُ لاََِمْرِهِ، وَیُکْثِرُ الصَّلاةَ عَلَیْهِ عِنْدَ ذِکْرِهِ، وَعَلی جَمِیعِ

اور انکی ہمراہی نصیب فرما ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو ان کاحکم مانتے اور ان کے ذکر کے وقت ان پر بکثرت درود بھیجتے ہیں نیز

أَوْصِیائِهِ وَأَهْلِ أَصْفِیائِهِ، الْمَمْدُودِینَ مِنْکَ بِالْعَدَدِ الاثْنَی عَشَرَ، النُّجُومِ الزُّهَرِ،

ان کے سارے جانشینوں پر اور برگزیدہ اہل خاندان پر جن کی تعداد کو تو نے بارہ تک پورا فرمایا ہے جو چمکتے ہوئے ستارے ہیں

وَالْحُجَجِ عَلی جَمِیعِ الْبَشَرِ اَللّٰهُمَّ وَهَبْ لَنا فِی هذَا الْیَوْمِ خَیْرَ مَوْهِبَةٍ، وَأَ نْجِحْ

اور وہ تمام انسانوں پرخدا کی حجتیں ہیںاے معبود! آج کے دن ہمیں بہتریں عطاؤں سے سرفراز فرما اور ہماری سبھی حاجات

لَنا فِیهِ کُلَّ طَلِبَةٍ، کَما وَهَبْتَ الْحُسَیْنَ لُِمحَمَّدٍ جَدِّهِ، وَعاذَ فُطْرُسُ بِمَهْدِهِ، فَنَحْنُ

پوری کر دے جیسے تو نے حسین(ع) کے نانا حضرت محمد(ص) کو خود حسین(ع) عطا فرمائے تھے اور فطرس نے انکے گہوارے کی پناہ لی پس ہم انکے روضہ

عائِذُونَ بِقَبْرِهِ مِنْ بَعْدِهِ نَشْهَدُ تُرْبَتَهُ وَنَنْتَظِرُ أَوْبَتَهُ، آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ

کی پناہ لیتے ہیں انکے بعد اب ہم انکے روضہ کی زیارت کرتے ہیں اور انکی رجعت کے منتظر ہیں ایسا ہی ہو اے جہانوں کے پالنے والے۔

اس کے بعد امام حسین - کی دعا پڑھے کہ جو آپ نے یوم عاشورہ کوپڑھی جب کہ آپ دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اور وہ دعا یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ أَ نْتَ مُتَعالی الْمَکانِ، عَظِیمُ الْجَبَرُوتِ، شَدِیدُ الْمِحالِ، غَنِیٌّ عَنِ الْخَلائِقِ،

اے معبود! تو بلند تر منزلت رکھتا ہے تو بڑے ہی غلبے والا ہے زبردست طاقت والا، مخلوقات سے بے نیاز،

عَرِیضُ الْکِبْرِیائِ قادِرٌ عَلی مَا تَشائُ قَرِیبُ الرَّحْمَةِ ، صَادِقُ الْوَعْدِ، سَابِغُ النِّعْمَةِ،

بے حد و حساب بڑائی والاہے جو چاہے اس پر قادر، رحمت کرنے میں قریب، وعدے میں سچا، کامل نعمتوں والا،

حَسَنُ الْبَلائِ، قَرِیبٌ إذا دُعِیتَ، مُحِیطٌ بِما خَلَقْتَ، قابِلُ التَّوْبَةِ لِمَنْ تابَ إلَیْکَ،

بہترین آزمائش کرنے والاہے تو قریب ہے جب پکارا جائے جسکو پیدا کیا تو اسے گھیرے ہوئے ہے تو اسکی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے

قادِرٌ عَلی مَا أَرَدْتَ ، وَمُدْرِکٌ مَا طَلَبْتَ، وَشَکُورٌ إذا شُکِرْتَ، وَذَ کُورٌ إذا ذُکِرْتَ،

تو جو ارادہ کرے اس پر قادر ہے جسے تو طلب کرے اسے پالینے والا ہے اور جب تیرا شکر کیا جائے تو قدر کرتا ہے تجھے یاد کیا جائے

أَدْعُوکَ مُحْتاجاً، وَأَرْغَبُ إلَیْکَ فَقِیراً، وَأَ فْزَعُ إلَیْکَ خائِفاً، وَأَبْکِی إلَیْکَ

تو بھی یاد کرتا ہے میں حاجتمندی میں تجھے پکارتا اور مفلسی میں تیری رغبت کرتا ہوں تیرے خوف سے گھبراتا ہوں مصیبت میں تیرے

مَکْرُوباً، وَأَسْتَعِینُ بِکَ ضَعِیفاً، وَأَ تَوَکَّلُ عَلَیْکَ کافِیاً، احْکُمْ بَیْنَنا وَبَیْنَ قَوْمِنا

آگے روتا ہوں کمزوری کے باعث تجھ سے مدد مانگتا ہوں تجھے کافی جان کر توکل کرتا ہوں فیصلہ کردے ہمارے اور ہماری قوم کے

بِالْحَقِّ، فَ إنَّهُمْ غَرُّونا وَخَدَعُونا وَخَذَلُونا وَغَدَرُوا بِنا وَقَتَلُونا، وَنَحْنُ عِتْرَةُ نَبِیِّکَ

درمیان کہ انہوں نے ہمیں فریب دیا اور ہم سے دھوکہ کیا ہمیں چھوڑدیا اور بے وفائی کی اور ہمیں قتل کیا جبکہ ہم تیرے نبی(ص) کا گھرانہ اور

وَوَلَدُ حَبِیبِکَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاﷲِ الَّذِی اصْطَفَیْتَهُ بِالرِّسالَةِ وَائْتَمَنْتَهُ عَلی وَحْیِکَ،

تیرے حبیب محمد(ص) بن عبداللہ کی اولاد ہیں جن کو تو نے تبلیغ رسالت کے لیے چنا اور انہیں اپنی وحی کا امین بنایا

فَاجْعَلْ لَنا مِنْ أَمْرِنا فَرَجاً وَمَخْرَجاً بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

پس اس معاملے میں ہمیں کشادگی اور فراخی دے اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم والے۔

باب پنجم

ہر مہینے کی دعائیں

۱ ۔ عاشورا کے دن امام زمانہ کے ظہور کی دعا

عبداللہ بن سنان کہتاہے کہ عاشور کے دن امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت کا رنگ متغیر اور غمگین موتیوں کی طرح آنسو آنکھوں سے جاری ہوتے ہوئے دیکھا میں نے عرض کیا اے فرزند رسول خدا آپ کیوں روتے ہیں اللہ آپ کو نہ رلائے حضرت نے فرمایا کیا تم غافل ہو کیا نہیں جانتے ہو کہ ان جیسے دنوں میں امام حسین شہید ہوچکے ہیں میں نے عرض کیا اے میرے آقا آج کے دن روزہ رکھنے میں آپکا کیا نظریہ ہے حضرت نے فرمایا ایسے دنوں میں روزہ رکھیں رات کو روزہ کی نیت کئے بغیر افطار کرو خوشی کے بغیر اس روزہ کو مکمل روزہ قرار نہ دیں نماز عصر کے بعد ایک گھنٹہ بعد پانی سے افطار کریں چونکہ ایسے اوقات میں فرزند رسول سے جنگ ختم کی گی ہے اور جنگ کا فتنہ خاموش ہوا اور ان میں سے تیس آدمی زمین پر پڑے ہوئے تھے یہ رسول خدا کے لئے بہت سخت تھا اگر اس دن حضرت رسول زندہ ہوتے تو خود ان کے لئے عزاداری کرتے راوی کہتاہے حضرت امام جعفر صادق روئے یہاں تک کہ حضرت کی داڑھی آنکھوں کے آنسو سے تر ہوگئی اس کے بعد فرمایا خداوند تعالیٰ نے نور کو پیدا کیا تو اس کو جمعہ کے دن ماہ رمضان کے پہلے دن پیدا کیا اور تاریکی کو بدھ کے دن دس محرم کے دن خلق کیا ان میں دو کو ہر ایک کے لئے روشن راستہ قراردیا۔

اے عبداللہ بن سنان بہترین عمل اس دن یہ ہے کہ آج کے دن پاک کپڑے پہنیں اور تسلّب کریں میں نے عرض کیا کہ تسلب کا کیا مطلب ہے حضرت نے فرمایا اپنے آپ کو مصیبت زدہ لوگوں کی طرح قراردیں اپنی عبا کو کھول دیں اور لباس کو کہنیوں سے کھول دیں مصیبت زدہ لوگوں کی طرح قراردیں اور عزاداری کریں اس کے بعد ایسی جگہ پر جائیں کہ جہاں کوئی بھی نہ ہو ظہر کے وقت چار رکعت نماز خشوع کے ساتھ رکوع اور سجود اور دوسلام پڑھیں پہلی رکعت میں سورہ حمد اور فل یا ایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور قل ھواللہ احد کو پڑھے اس کے بعد دوسرے دو رکعت بھی پڑے لے پہلی رکعت میں سورہ حمد اور سورہ احزاب اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور واذا جائک المنافقون یا جو بھی اس کے لئے آسانی ہو پڑھے لے نماز کو تمام کریں اور حضرت امام حسین کے مرقد کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اس حال میں حضرت کے قتلگاہ ان کے اعزاء ان کے فرزند اور ان کے اہلبیت کو نظر میں رکھیں اور ان پر سلام اور درود بھیجیں اور حضرت کے قاتلوں پر لعنت بھیجیں ان کے اس کام سے بیزاری حاصل کریں خداوند تعالیٰ تیرے اس عمل کی وجہ سے بہشت میں بلند درجات دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخشے گا اس وقت آپ جہاں بھی ہوں چند قدم اٹھائیں اور حرکت کریں اور کہیںانا لله و انا الیه راجعون رضاً بقضاء الله و تسلیماً لامره ان تمام حالات میں محزون اور غمگین ہوں ان دنوں میں خدا کو زیادہ یاد کریں کلمہ استرجاع بہت زیادہ زبان پر جاری کریں جب اس حالت میں چند قدم اٹھائیں جہاں نماز پڑھی ہے وہیں پڑ بیٹھ جائیں اس کے بعد کہیں۔

أَللَّهُمَّ عَذِّبِ الْفَجَرَةَ ، اَلَّذينَ شاقُّوا رَسُولَكَ ، وَحارَبُوا أَوْلِيائَكَ ، وَعَبَدُوا غَيْرَكَ ، وَاسْتَحَلُّوا مَحارِمَكَ ، وَالْعَنِ الْقادَةَ وَالْأَتْباعَ ، وَمَنْ كانَ مِنْهُمْ ، فَخَبَّ وَأَوْضَعَ مَعَهُمْ ، أَوْ رَضِيَ بِفِعْلِهِمْ لَعْناً كَثيراً

أَللَّهُمَّ وَعَجِّلْ فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ ، وَاجْعَلْ صَلَواتِكَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ ، وَاسْتَنْقِذْهُمْ مِنْ أَيْدِي الْمُنافِقينَ الْمُضِلّينَ ، وَالْكَفَرَةِ الْجاحِدينَ ، وَافْتَحْ لَهُمْ فَتْحاً يَسيراً ، وَأَتِحْ لَهُمْ رَوْحاً وَفَرَجاً قَريباً ، وَاجْعَلْ لَهُمْ مِنْ لَدُنْكَ عَلى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ سُلْطاناً نَصيراً

اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو بلند کرین اور قنوت میں اس دعا کوپڑھیں اس حالت میں کہ آل محمد کے دشمنوں کی طرف اشارہ کریں اور کہیں:

أَللَّهُمَّ إِنَّ كَثيراً مِنَ الْاُمَّةِ ناصَبَتِ الْمُسْتَحْفَظينَ مِنَ الْأَئِمَّةِ ، وَكَفَرَتْ بِالْكَلِمَةِ ، وَعَكَفَتْ عَلَى الْقادَةِ الظَّلَمَةِ ، وَهَجَرَتِ الْكِتابَ وَالسُّنَّةَ ، وَعَدَلَتْ عَنِ الْحَبْلَيْنِ اللَّذَيْنِ أَمَرْتَ بِطاعَتِهِما ، وَالتَّمَسُّكِ بِهِما ، فَأَماتَتِ الْحَقَّ ، وَجارَتْ عَنِ الْقَصْدِ ، وَمالَأَتِ الْأَحْزابَ ، وَحَرَّفَتِ الْكِتابَ ، وَكَفَرَتْ بِالْحَقِّ لَمَّا جائَها ، وَتَمَسَّكَتْ بِالْباطِلِ لَمَّا اعْتَرَضَها ، وَضَيَّعَتْ حَقَّكَ ، وَأَضَلَّتْ خَلْقَكَ ، وَقَتَلَتْ أَوْلادَ نَبِيِّكَ ، وَخِيَرَةَ عِبادِكَ ، وَحَمَلَةَ عِلْمِكَ ، وَوَرَثَةَ حِكْمَتِكَ وَوَحْيِكَ.

أَللَّهُمَّ فَزَلْزِلْ أَقْدامَ أَعْدائِكَ وَأَعْداءِ رَسُولِكَ وَأَهْلِ بَيْتِ رَسُولِكَ أَللَّهُمَّ وَأَخْرِبْ دِيارَهُمْ ، وَافْلُلْ سِلاحَهُمْ ، وَخالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ ، وَفُتَّ في أَعْضادِهِمْ وَأَوْهِنْ كَيْدَهُمْ ، وَاضْرِبْهُمْ بِسَيْفِكَ الْقاطِعِ ، وَارْمِهِمْ بَحَجَرِكَ الدَّامِغِ ، وَطُمَّهُمْ بِالْبَلاءِ طَمّاً ، وَقُمَّهُمْ بِالْعَذابِ قَمّاً ، وَعَذِّبْهُمْ عَذاباً نُكْراً ، وَخُذْهُمْ بِالسِّنينَ وَالْمَثُلاتِ الَّتي أَهْلَكْتَ بِها أَعْدائَكَ ، إِنَّكَ ذُو نَقِمَةٍ مِنَ الْمُجْرِمينَ.

أَللَّهُمَّ إِنَّ سُنَّتَكَ ضائِعَةٌ ، وَأَحْكامَكَ مُعَطَّلَةٌ ، وَعِتْرَةَ نَبِيِّكَ فِي الْأَرْضِ هائِمَةٌ أَللَّهُمَّ فَأَعِنِ الْحَقَّ وَأَهْلَهُ ، وَاقْمَعِ الْباطِلَ وَأَهْلَهُ ، وَمُنَّ عَلَيْنا بِالنَّجاةِ ، وَاهْدِنا إِلَى الْإيمانِ ، وَعَجِّلْ فَرَجَنا ، وَانْظِمْهُ بِفَرَجِ أَوْلِيائِكَ ، وَاجْعَلْهُمْ لَنا وُدّاً ، وَاجْعَلْنا لَهُمْ وَفْداً.

أَللَّهُمَّ وَأَهْلِكْ مَنْ جَعَلَ يَوْمَ قَتْلِ ابْنِ نَبِيِّكَ وَخِيَرَتِكَ عيداً ، وَاسْتَهَلَّ بِهِ فَرَحاً وَمَرَحاً ، وَخُذْ آخِرَهُمْ كَما أَخَذْتَ أَوَّلَهُمْ ، وَأَضْعِفِ اللَّهُمَّ الْعَذابَ وَالتَّنْكيلَ عَلى ظالِمي أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّكَ ، وَأَهْلِكْ أَشْياعَهُمْ وَقادَتَهُمْ ، وَأَبِرْ حُماتَهُمْ وَجَماعَتَهُمْ

أَللَّهُمَّ وَضاعِفْ صَلَواتِكَ وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكاتِكَ عَلى عِتْرَةِ نَبِيِّكَ ، اَلْعِتْرَةِ الضَّائِعَةِ الْخائِفَةِ الْمُسْتَذَلَّةِ ، بَقِيَّةِ الشَّجَرَةِ الطَّيِّبَةِ الزَّاكِيَةِ الْمُبارَكَةِ.

وَأَعْلِ اللَّهُمَّ كَلِمَتَهُمْ ، وَأَفْلِجْ حُجَّتَهُمْ ، وَاكْشِفِ الْبَلاءَ وَاللَّأْواءَ ، وَحَنادِسَ الْأَباطيلِ وَالْعَمى عَنْهُمْ ، وَثَبِّتْ قُلُوبَ شيعَتِهِمْ وَحِزْبِكَ عَلى طاعَتِهِمْ وَوِلايَتِهِمْ وَنُصْرَتِهِمْ وَمُوالاتِهِمْ ، وَأَعِنْهُمْ وَامْنَحْهُمُ الصَّبْرَ عَلَى الْأَذى فيكَ ، وَاجْعَلْ لَهُمْ أَيَّاماً مَشْهُودَةً ، وَأَوْقاتاً مَحْمُودَةً مَسْعُودَةً ، يُوشِكُ فيها فَرَجُهُمْ ، وَتُوجِبُ فيها تَمْكينَهُمْ وَنَصْرَهُمْ ، كَما ضَمِنْتَ لِأَوْلِيائِكَ في كِتابِكَ الْمُنْزَلِ.

فَإِنَّكَ قُلْتَ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ «وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَني لايُشْرِكُونَ بي شَيْئاً »

أَللَّهُمَّ فَاكْشِفْ غُمَّتَهُمْ ، يا مَنْ لايَمْلِكُ كَشْفَ الضُّرِّ إِلّا هُوَ ، يا أَحَدُ يا حَيُّ يا قَيُّومُ ، وَأَنَا يا إِلهي عَبْدُكَ الْخائِفُ مِنْكَ ، وَالرَّاجِعُ إِلَيْكَ ، اَلسَّائِلُ لَكَ ، اَلْمُقْبِلُ عَلَيْكَ ، اَللّاجِئُ إِلى فِنائِكَ ، اَلْعالِمُ بِأَنَّهُ لا مَلْجَأَ مِنْكَ إِلّا إِلَيْكَ.

أَللَّهُمَّ فَتَقَبَّلْ دُعائي ، وَاسْمَعْ يا إِلهي عَلانِيَتي وَنَجْوايَ ، وَاجْعَلْني مِمَّنْ رَضيتَ عَمَلَهُ ، وَقَبِلْتَ نُسُكَهُ ، وَنَجَّيْتَهُ بِرَحْمَتِكَ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزيزُ الْكَريمُ.

أَللَّهُمَّ وَصَلِّ أَوَّلاً وَآخِراً عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَبارِكْ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَارْحَمْ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ ، بِأَكْمَلِ وَأَفْضَلِ ما صَلَّيْتَ وَبارَكْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلى أَنْبِيائِكَ وَرُسُلِكَ ، وَمَلائِكَتِكَ وَحَمَلَةِ عَرْشِكَ بِلا إِلهَ إِلّا أَنْتَ.

أَللَّهُمَّ وَلاتُفَرِّقْ بَيْني وَبَيْنَ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ ، وَاجْعَلْني يا مَوْلايَ مِنْ شيعَةِ مُحَمَّدٍ وَعَلِيٍّ وَفاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَذُرِّيَّتِهِمُ الطَّاهِرَةِ الْمُنْتَجَبَةِ ، وَهَبْ لِيَ التَّمَسُّكَ بِحَبْلِهِمْ ، وَالرِّضا بِسَبيلِهِمْ ، وَالْأَخْذَ بِطَريقَتِهِمْ ، إِنَّكَ جَوادٌ كَريمٌ.

اس کے بعد اپنے چہرے کو زمین کے ساتھ لگادیں اور کہیں

يا مَنْ يَحْكُمُ ما يَشاءُ وَيَفْعَلُ ما يُريدُ أَنْتَ حَكَمْتَ ، فَلَكَ الْحَمْدُ مَحْمُوداً مَشْكُوراً ، فَعَجِّلْ يا مَوْلايَ فَرَجَهُمْ ، وَفَرَجَنا بِهِمْ ، فَإِنَّكَ ضَمِنْتَ إِعْزازَهُمْ بَعْدَ الذِّلَّةِ ، وَتَكْثيرَهُمْ بَعْدَ الْقِلَّةِ ، وَ إِظْهارَهُمْ بَعْدَ الْخُمُولِ ، يا أَصْدَقَ الصَّادِقينَ ، وَيا أَرْحَمَ الرَّاحِمينَ.

فَأَسْئَلُكَ يا إِلهي وَسَيِّدي ، مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ بِجُودِكَ وَكَرَمِكَ ، بَسْطَ أَمَلي وَالتَّجاوُزَ عَنّي ، وَقَبُولَ قَليلِ عَمَلي وَكَثيرِهِ ، وَالزِّيادَةَ في أَيَّامي وَتَبْليغي ذلِكَ الْمَشْهَدَ ، وَأَنْ تَجْعَلَني مِمَّنْ يُدْعى فَيُجيبُ إِلى طاعَتِهِمْ وَمُوالاتِهِمْ وَنَصْرِهِمْ ، وَتُرِيَني ذلِكَ قَريباً سَريعاً في عافِيَةٍ ، إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ.

(مذکورہ دعا کا آخری حصہ)

اس کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرے اور کہےاعوذ بک ان اکون من الذین لا یرجون ایآامک فاعذنی یا الهٰی برحمتک من ذالک اے ابن سنان یہ عمل مستحب حج اور عمرہ سے بہتر ہے اس عمر سے کہ جس میں اپنا سارامال خرچ کریں اور اپنے آپ کو زحمت میں ڈالیں اور اپنے اھل و عیال سے جدائی اختیار کریں۔ جان لو جو بھی ان دونوں میں اس نماز کو خلوص کے ساتھ پڑھے اور اس عمل کو یقین اور تصدیق کے ساتھ انجام دے خداوند قضا کے اس کو دس خصلتیں عطا کرتاہے ان میں ایک یہ ہے کہ بُری موت سے نجات دیتاہے برائی اور فقر سے محفوظ رکھتاہے جب تک زندہ ہے دشمن اس پر غالب نہیں آئے گا بیماریوں سے جیسے جذام برص جنون سے اس کو اور اس کے فرزندوں کو چار پشت تک محفوظ رکھتاہے چار پشت تک اس پر اس کے دوستوں پر اور اس کے فرزندوں ہے شیطان مسلّط نہیں ہوتاہے۔

ابن سنان کہتاہے میں حضرت کی خدمت سے رخصت ہوا حالانکہ میں کہتا تھا اللہ کی حمد و ثناء ہے کہ جس نے مجھ پر منت رکھا تا کہ تمہیں اور تمہاری محبت کو پہچانوں اس کے احسان اور رحمت سے درخواست کرتاہوں کہ میری تمہارے واجب کی اطاعت پر مدد کرے۔

۲ ۔ عاشور کے دن ایک دوسری دعا

صالح بن عقبہ اپنے باپ سے اس نے امام محمد باقر سے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا جو بھی محرم کے مہینے میں عاشور کے دن امام حسین کی زیارت کرے اور گریہ کی حالت میں حرم میں رہے تو قیامت کے دن دو ہزار حض دو ہزار عمرہ دو ہزار جھاد راہ اسلام کا ثواب کیساتھ خدا سے ملاقات کرتاہے اور ہر جھاد عمرہ اور حج کا ثواب جتنا حضرت رسول خدا اور اماموں کے ساتھ حج اور عمرہ اور ان کے رکاب میں جنگ کرنے کا جتنا ثواب ہے راوی کہتاہے میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوجاؤں جو لوگ دور دراز علاقے میں رہتے ہیں اور ان کے لئے ایسے دنوں میں حرم میں نہیں آسکتے ہیں وہ کیا کریں حضرت نے فرمایا اگر کوئی نزدیک سے زیارت نہیں کرسکتاہے تو صحراء میں چلا جائے یا اپنے گھر کے چھت پر جائے اور اشارہ کے ساتھ حضرت کی طرف سلام کرے اور حضرت کے قاتلوں پر لعنت بھیجے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اس عمل کو زوال آفتاب سے پہلے بجا لائے اس وقت امام حسین پر ندبہ کرے اور اگریہ کرے اگر تصفیہ کی حالت نہ ہو تو اپنے گھر والوں کو حکم دے کہ گریہ کریں اور عزاداری قائم کریں نالہ و فریاد کرے اور ایک دوسرے کو امام حسین کی مصیبت میں تعزیت و تسلیت پیش کریں۔ جیسا کہ میں نے کہا اس طرح اس عمل کو انجام دیں تو ان تمام ثواب کا خداوند تعالیٰ کی طرف سے میں ضامن ہوں میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوجاؤں آپ اس سب ثواب کے ضامن ہیں حضرت نے فرمایا کیوں نہیں میں ضامن ہوں اس شخص کے لئے کہ جو اس عمل کو انجام دے میں نے عرض کیا کس طرح ایک دوسرے کو تسلیت پیش کریں فرمایا کہ کہو اعظم اللہ اجورنا بمصابنا بالحسین وجعلنا و ایّاکم من الطالبین بثارہ مع ولیّہ الامام المھدی من آل محمد علیھم سلام۔

۳ ۔ ماہ رجب کے دنوں کی دعائیں کہ جو آخری حجت سے صادر ہوئی ہیں

ابن عبّاس کہتاہے من جملہ ان توفیقات میں سے کہ جو جناب شیخ ابو جعفر محمد بن عثمان کے ہاتھ سے آخری حجت کی طرف سے ہے رجب کے مہینے میں ہر روز کی دعا

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْأَلُكَ بِمَعاني جَميعِ ما يَدْعُوكَ بِهِ وُلاةُ أَمْرِكَ ، اَلْمَأْمُونُونَ عَلى سِرِّكَ ، اَلْمُسْتَبْشِرُونَ بِأَمْرِكَ ، اَلْواصِفُونَ لِقُدْرَتِكَ ، اَلْمُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِكَ ، أَسْأَلُكَ بِما نَطَقَ فيهِمْ مِنْ مَشِيَّتِكَ ، فَجَعَلْتَهُمْ مَعادِنَ لِكَلِماتِكَ ، وَأَرْكاناً لِتَوْحِيدِكَ وَآياتِكَ وَمَقاماتِكَ الَّتي لاتَعْطيلَ لَها في كُلِّ مَكانٍ يَعْرِفُكَ بِها مَنْ عَرَفَكَ ، لا فَرْقَ بَيْنَكَ وَبَيْنَها إِلّا أَنَّهُمْ عِبادُكَ وَخَلْقُكَ ، فَتْقُها وَرَتْقُها بِيَدِكَ ، بَدْؤُها مِنْكَ وَعَوْدُها إِلَيْكَ ، أَعْضادٌ وَأَشْهادٌ وَمُناةٌ وَأَذْوادٌ وَحَفَظَةٌ وَرُوَّادٌ ، فَبِهِمْ مَلَأْتَ سَماءَكَ وَأَرْضَكَ حَتَّى ظَهَرَ أَنْ لا إِلهَ إِلّا أَنْتَ.

فَبِذلِكَ أَسْأَلُكَ وَبِمَواقِعِ الْعِزِّ مِنْ رَحْمَتِكَ ، وَبِمَقاماتِكَ وَعَلاماتِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ ، وَأَنْ تَزيدَني إيماناً وَتَثْبيتاً ، يا باطِناً في ظُهُورِهِ وَظاهِراً في بُطُونِهِ وَمَكْنُونِهِ ، يا مُفَرِّقاً بَيْنَ النُّورِ وَالدَّيْجُورِ ، يا مَوْصُوفاً بِغَيْرِ كُنْهٍ ، وَمَعْرُوفاً بِغَيْرِ شِبْهٍ ، حادَّ كُلِّ مَحْدُودٍ ، وَشاهِدَ كُلِّ مَشْهُودٍ ، وَمُوجِدَ كُلِّ مَوْجُودٍ ، وَمُحْصِيَ كُلِّ مَعْدُودٍ ، وَفاقِدَ كُلِّ مَفْقُودٍ ، لَيْسَ دُونَكَ مِنْ مَعْبُودٍ أَهْلَ الْكِبْرِياءِ وَالْجُودِ.

يا مَنْ لايُكَيَّفُ بِكَيْفٍ ، وَلايُؤَيَّنُ بِأَيْنٍ ، يا مُحْتَجِباً عَنْ كُلِّ عَيْنٍ ، يا دَيْمُومُ يا قَيُّومُ ، وَعالِمَ كُلِّ مَعْلُومٍ ، صَلِّ عَلى عِبادِكَ الْمُنْتَجَبينَ ، وَبَشَرِكَ الْمُحْتَجِبينَ ، وَمَلائِكَتِكَ الْمُقَرَّبينَ ، وَالْبُهْمِ الصَّافّينَ الْحافّينَ.

وَبارِكْ لَنا في شَهْرِنا هذَا الْمُرَجَّبِ الْمُكَرَّمِ ، وَما بَعْدَهُ مِنَ الْأَشْهُرِ الْحُرُمِ ، وَأَسْبِغْ عَلَيْنا فيهِ النِّعَمَ ، وَأَجْزِلْ لَنا فيهِ الْقِسَمَ ، وَأَبْرِرْ لَنا فيهِ الْقَسَمَ ، بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذي وَضَعْتَهُ عَلَى النَّهارِ فَأَضاءَ ، وَعَلَى اللَّيْلِ فَأَظْلَمَ ، وَاغْفِرْ لَنا ما تَعْلَمُ مِنَّا وَما لانَعْلَمُ ، وَاعْصِمْنا مِنَ الذُّنُوبِ خَيْرَ الْعِصَمِ ، وَاكْفِنا كَوافِيَ قَدَرِكَ ، وَامْنُنْ عَلَيْنا بِحُسْنِ نَظَرِكَ ، وَلاتَكِلْنا إِلى غَيْرِكَ ، وَلاتَمْنَعْنا مِنْ خَيْرِكَ.

وَبارِكْ لَنا فيما كَتَبْتَهُ لَنا مِنْ أَعْمارِنا ، وَأَصْلِحْ لَنا خبيئَةَ أَسْرارِنا ، وَأَعْطِنا مِنْكَ الْأَمانَ ، وَاسْتَعْمِلْنا بِحُسْنِ الْإيمانِ ، وَبَلِّغْنا شَهْرَ الصِّيامِ ، وَما بَعْدَهُ مِنَ الْأَيَّامِ وَالْأَعْوامِ ، يا ذَا الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ

صاحب عمدة الزائر اس دعائے شریف کے بیان میں فرماتے ہیں ملاة امر یعنی صاحبان امر وہ محمد اور ان کے اھلبیت ہیں جن میں صفات حمیدہ پائی جاتی ہیں ان کے برے مقامات ہیں ان میں کسی قسم کی غیر مفید چیز معنی نہیں ہے جب خدا کے نزدیک یہ برا مقام رکھتے ہیں خدا سے مانگیں یا اھلبیت کو وسیلہ قرار دے کہ پکاریں جہاں پر ہوں اور جس امر کے لئے پڑھیں خداوند ان کی دعا کو قبول کرتاہے اور ان کی برکت سے اس کا فیض دعا کرنے والے کو پہنچتاہے اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے بلکہ ان کی برکت سے تمام مخلوق کو فیض پہنچتاہے۔ یہی راز ہے کہ درود بھیجنا ان کو وسیلہ قرار دینا جو حاجت بھی ہو چونکہ جو بھی ان پر درود بھیجے اس کی دعا رد نہیں ہوتی ہے۔

۴ ۔ ماہ رجب کے دنوں میں اور دعائیں

(جو امام زمانہ سے ہم تک پہنچی ہیں)

ابن عیاش کہتاہے ایک اور توقیع کہ جناب شیخ ابوالقاسم حسین بن روح کے ہاتھ سے کہ جو امام زمانہ کی طرف سے صادر ہوئی ہے اس دعا کو ہر رواز رجب کے مہینے میں پرھا جائے

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْأَلُكَ بِالْمَوْلُودَيْنِ في رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الثَّاني ، وَابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ ، وَأَتَقَرَّبُ بِهِما إِلَيْكَ خَيْرَ الْقُرَبِ ، يا مَنْ إِلَيْهِ الْمَعْرُوفُ طُلِبَ ، وَفيما لَدَيْهِ رُغِبَ

أَسْأَلُكَ سُؤالَ مُعْتَرِفٍ مُذْنِبٍ قَدْ أَوْبَقَتْهُ ذُنُوبُهُ، وَأَوْثَقَتْهُ عُيُوبُهُ، فَطالَ عَلَى الْخَطايا دُؤُوبُهُ ، وَمِنَ الرَّزايا خُطُوبُهُ ، يَسْأَلُكَ التَّوْبَةَ ، وَحُسْنَ الْأَوْبَةِ ، وَالنُّزُوعَ عَنِ الْحَوْبَةِ ، وَمِنَ النَّارِ فَكاكَ رَقَبَتِهِ ، وَالْعَفْوَ عَمَّا في رِبْقَتِهِ ، فَأَنْتَ يا مَوْلايَ أَعْظَمُ أَمَلِهِ وَثِقَتِهِ

أَللَّهُمَّ وَأَسْأَلُكَ بِمَسائِلِكَ الشَّريفَةِ ، وَوَسائِلِكَ الْمُنيفَةِ ، أَنْ تَتَغَمَّدَني في هذَا الشَّهْرِ بِرَحْمَةٍ مِنْكَ واسِعَةٍ ، وَنِعْمَةٍ وازِعَةٍ ، وَنَفْسٍ بِما رَزَقْتَها قانِعَةٍ إِلى نُزُولِ الْحافِرَةِ ، وَمَحَلِّ الْآخِرَةِ ، وَما هِيَ إِلَيْهِ صائِرَةٌ .( المصباح : ۷۰۳ ، مصباح المتهجّد : ۸۰۵ ، البحار : ۳۹۳/۹۸ ، إقبال الأعمال : ۱۴۶ .)

۵ ۔ ماہ رجب کے دنوں میں اور دعائیں

محمد بن عبدالرحمن تستری کہتاہے کہ میں بنی رداس کے علاقہ سے گزر رہا تھا ان برادران میں سے ایک نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں تو اکٹھے مسجد صعصعہ چلے جائتے ہیں وہاں نماز پڑھتے ہیں چونکہ یہ مہینہ رجب کا مہینہ ہے اس مہینے میں ان مقدس مقام پر معصوم امام آئے ہیں اور اس میں نماز پڑھ رہے ہیں اور وہ جہاں نماز پڑھنا مستحب ہے اور مسجد صعصعہ بھی ان میں سے ایک ہے راوی کہتاہے کہ ان کے ساتھ مسجد کی طرف چلا گیا مسجد کے دروازے پر پہنچا تو اچانک ایک اونٹ کو دیکھا اس کی پشت پر پالان اور مسجد کے دروازہ کے کنارے سویا ہوا ہے ہم مسجد میں داخل ہوئے ایک شخص کو دیکھا کہ بدن پر حجازی لباس اور سر پر عمامہ رکھا ہوا بیٹھا ہے اور دعا پڑھتاہے میں نے اور میرے ساتھی نے اس دعا کو حفظ کیا مرحوم شیخ طوسی نے فرمایا ہے کہ مستحب ہے کہ رجب کے مہینے میں ہر روز اس دعا کو پڑھیں

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْئَلُكَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ في هذَا الْيَوْمِ ، اَلْمَوْعُودِ بِشَهادَتِهِ قَبْلَ اسْتِهْلالِهِ وَوِلادَتِهِ ، بَكَتْهُ السَّماءُ وَمَنْ فيها ، وَالْأَرْضُ وَمَنْ عَلَيْها ، وَلَمَّا يَطَأْ لابَتَيْها قَتيلِ الْعَبَرَةِ وَسَيِّدِ الْاُسْرَةِ ، اَلْمَمْدُودِ بِالنُّصْرَةِ يَوْمَ الْكَرَّةِ ، اَلْمُعَوَّضِ مِنْ قَتْلِهِ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ نَسْلِهِ ، وَالشِّفاءَ في تُرْبَتِهِ ، وَالْفَوْزَ مَعَهُ في أَوْبَتِهِ ، وَالْأَوْصِياءَ مِنْ عِتْرَتِهِ ، بَعْدَ قائِمِهِمْ وَغَيْبَتِهِ ، حَتَّى يُدْرِكُوا الْأَوْتارَ ، وَيَثْأَرُوا الثَّارَ ، وَيُرْضُوا الْجَبَّارَ ، وَيَكُونُوا خَيْرَ أَنْصارٍ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ ، مَعَ اخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهارِ

أَللَّهُمَّ فَبِحَقِّهِمْ إِلَيْكَ أَتَوَسَّلُ ، وَأَسْئَلُ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ ] وَ[مُعْتَرِفٍ ، مُسي‏ءٍ إِلى نَفْسِهِ ، مِمَّا فَرَّطَ في يَوْمِهِ وَأَمْسِهِ ، يَسْئَلُكَ الْعِصْمَةَ إِلى مَحَلِّ رَمْسِهِ أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعِتْرَتِهِ ، وَاحْشُرْنا في زُمْرَتِهِ ، وَبَوِّئْنا مَعَهُ دارَ الْكَرامَةِ ، وَمَحَلَّ الْإِقامَةِ

أَللَّهُمَّ وَكَما أَكْرَمْتَنا بِمَعْرِفَتِهِ ، فَأَكْرِمْنا بِزُلْفَتِهِ ، وَارْزُقْنا مُرافَقَتَهُ وَسابِقَتَهُ ، وَاجْعَلْنا مِمَّنْ يُسَلِّمُ لِأَمْرِهِ ، وَيُكْثِرُ الصَّلاةَ عَلَيْهِ عِنْدَ ذِكْرِهِ ، وَعَلى جَميعِ أَوْصِيائِهِ وَأَهْلِ اصْطِفائِهِ ، اَلْمَمْدُودينَ مِنْكَ بِالْعَدَدِ الْإِثْنَيْ عَشَرَ ، اَلنُّجُومِ الزُّهَرِ ، وَالْحُجَجِ عَلى جَميعِ الْبَشَرِ

أَللَّهُمَّ وَهَبْ لَنْا في هذَا الْيَوْمِ خَيْرَ مَوْهِبَةٍ ، وَأَنْجِحْ لَنا فيهِ كُلَّ طَلِبَةٍ ، كَما وَهَبْتَ الْحُسَيْنَ لِمُحَمَّدٍ جَدِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ ، وَعاذَ فُطْرُسُ بِمَهْدِهِ ، فَنَحْنُ عائِذُونَ بِقَبْرِهِ مِنْ بَعْدِهِ ، نَشْهَدُ تُرْبَتَهُ ، وَنَنْتَظِرُ أَوْبَتَهُ ، آمينَ رَبَّ الْعالَمينَ .( زاد المعاد : ۵۷ ، مصباح المتهجّد : ۸۲۶ ، المصباح : ۷۲۰ ، إقبال الأعمال : ۲۰۲ .)

آس وقت ایک طویل سجدہ کیا اور اٹھا اونٹ پر سوار ہو کر چلاگیا ساتھی میری طرف متوجہ ہوا اور کہا میری نظر میں وہ حضرت خضر(علیہ السلام ) ہے کیوں ان کے ساتھ بات نہیں کی گویا ہماری زبان بند ہے ہم مسجد سے باہر آئے ابن الورداء رواسی کو دیکھا کہا کہاں سے آئے ہیں ہم نے کہا مسجد صعصعہ سے آئے ہیں اس کو واقعہ سے آگاہ کیا اس نے کہا یہ سوار دو تین روز اس مسجد میں آتے ہیں کسی سے بات نہیں کرتے ہیں ہم نے کہا ہم گمان کرتے ہیں کہ وہ حضرت خضر(علیہ السلام ) ہے اس نے کہا خدا کی قسم میری نظر میں یہ وہی ہیں کہ حضرت خضر اس کی زیارت کا مھتاج ہے پس ہم لوٹے اور سمجھ گئے کہ واقعہ کیا ہے میرے ساتھی نے مجھ سے کہا کہ خدا کی قسم وہ صاحب الزمان تھا سید طاؤوس کی روایت کی بناء پر یہ دعا حضرت امیرالمومنین سے ہے چونکہ یہ دعا ماہ رجب سے مربوط ہے اس لئے اس باب میں ذکر ہوا

۶۔ تیسرے شعبان کے دن کی دعا

یہ دعا ہم تک آخری حجت سے پہنچی علامہ مجلسی بحار الانوار میں کہتے ہیں امام حسن کے وکیل قاسم بن علاء ھمدانی کی توقیع سے یہ دعا صادر ہوئی ہے۔

حضرت امام حسین جمعرات کے دن تین شعبان کو پیدا ہوئے اس دن روزہ رکھ لیں اور اس دعا کو پڑھ لیں زاد المعاد میں ایک چیز کا اضافہ ہے کہ یہ امر صاحب الزمان کی طرف سے صادر ہوئی ہے ماہ شعبان کا تیسرا دن امام حسین کی ولادت کا دن ہے اس دن روزہ رکھو اور یہ دعا پڑھ لو۔

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَ لُکَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ فِی هذَا الْیَوْمِ الْمَوْعُودِ بِشَهادَتِهِ قَبْلَ اسْتِهْلالِهِ

اے معبود! بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں آج کے دن پیدا ہونیوالے مولود کے واسطے سے کہ جس کے پیدا ہونے اور دنیا میں

وَوِلادَتِهِ، بَکَتْهُ السَّمائُ وَمَنْ فِیها، وَالْاَرْضُ وَمَنْ عَلَیْها، وَلَمَّا یَطَأْ لابَتَیْها

آنے سے پہلے اس سے شہادت کا وعدہ لیا گیا تو اس پر آسمان رویا اور جو کچھ اس میں ہے اور زمین اور جو کچھ اس پر ہے روے جبکہ

قَتِیلِ الْعَبْرَةِ، وَسَیِّدِ الْاُسْرَةِ، الْمَمْدُودِ بِالنُّصْرَةِ یَوْمَ الْکَرَّةِ، الْمُعَوَّض ِ مِنْ

اس نے زمین مدینہ پر قدم نہ رکھا تھا وہ گریہ والا شہید اور کامیاب و کامران خاندان کا سید و سردار ہے رجعت کے دن، یہ اس کی

قَتْلِهِ أَنَّ الْاَئِمَّةَ مِنْ نَسْلِهِ، وَالشِّفائَ فِی تُرْبَتِهِ، وَالْفَوْزَ مَعَهُ فِی أَوْبَتِهِ،

شہادت کا بدلہ ہے کہ پاک آئمہ (ع)اس کی اولاد میں سے ہوئے اس کی خاکِ قبر میں شفائ ہے اور اس کی بازگشت میں کامیابی اسی کے

وَالْاَوْصِیائَ مِنْ عِتْرَتِهِ بَعْدَ قائِمِهِمْ وَغَیْبَتِهِ، حَتّی یُدْرِکُوا الْاَوْتارَ، وَیَثْأَرُوا الثَّارَ،

لیے ہے اور اوصیائ اسی کی اولاد میں سے ہیں کہ ان میں سے قائم غیبت ختم ہونے کے بعد وہ اپنے خون کا بدلہ اور انتقام لے کر تلافی

وَیُرْضُوا الْجَبَّارَ وَیَکُونُوا خَیْرَ أَنْصارٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِمْ مَعَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّهار

کرنے والے خدا کو راضی کریںگے اور بہترین مددگار ثابت ہوںگے درود ہوان سب پر جب تک رات دن آتے جاتے رہیں

اَللّٰهُمَّ فَبِحَقِّهِمْ إلَیْکَ أَ تَوَسَّلُ وَأَسْأَلُ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُعْتَرِفٍ مُسِیئٍ إلی نَفْسِهِ

اے معبود ان کا حق جو تجھ پر ہے اسے وسیلہ بناتا ہوں اور سوال کرتا ہوں اپنا گناہ تسلیم کرنے والے کیطرح کہ جس نے اپنے نفس

مِمَّا فَرَّطَ فِی یَوْمِهِ وَأَمْسِهِ، یَسْأَ لُکَ الْعِصْمَةَ إلی مَحَلِّ رَمْسِهِ اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلی

سے برائی کی ہے آج کے دن اور گزری ہوئی رات میں تو وہ سوال کرتا ہے اپنی موت کے دن تک کیلئے اے معبود! پس حضرت محمد(ص) اور

مُحَمَّدٍ وَعِتْرَتِهِ، وَاحْشُرْنا فِی زُمْرَتِهِ ، وَبَوّئْنا مَعَهُ دارَ الْکَرامَةِ، وَمَحَلَّ الْاِقامَةِ

انکے خاندان پر رحمت فرما اور ہمیں اسکے گروہ میں محشور فرما اور ہمیں بزرگی والے گھر اور جائے قیام کے سلسلے میں انکے ساتھ جگہ دے

اَللّٰهُمَّ وَکَما أَکْرَمْتَنا بِمَعْرِفَتِهِ فَأَکْرِمْنا بِزُلْفَتِهِ، وَارْزُقْنا مُرافَقَتَهُ وَسابِقَتَهُ،

اے معبود! جیسے تو نے ان کی معرفت کے ساتھ ہمیں عزت دی اسی طرح ان کے تقرب سے بھی نوازا اور ہمیں ان کی رہنمائی عطا کر

وَاجْعَلْنا مِمَّنْ یُسَلِّمُ لاََِمْرِهِ، وَیُکْثِرُ الصَّلاةَ عَلَیْهِ عِنْدَ ذِکْرِهِ، وَعَلی جَمِیعِ

اور انکی ہمراہی نصیب فرما ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو ان کاحکم مانتے اور ان کے ذکر کے وقت ان پر بکثرت درود بھیجتے ہیں نیز

أَوْصِیائِهِ وَأَهْلِ أَصْفِیائِهِ، الْمَمْدُودِینَ مِنْکَ بِالْعَدَدِ الاثْنَی عَشَرَ، النُّجُومِ الزُّهَرِ،

ان کے سارے جانشینوں پر اور برگزیدہ اہل خاندان پر جن کی تعداد کو تو نے بارہ تک پورا فرمایا ہے جو چمکتے ہوئے ستارے ہیں

وَالْحُجَجِ عَلی جَمِیعِ الْبَشَرِ اَللّٰهُمَّ وَهَبْ لَنا فِی هذَا الْیَوْمِ خَیْرَ مَوْهِبَةٍ، وَأَ نْجِحْ

اور وہ تمام انسانوں پرخدا کی حجتیں ہیںاے معبود! آج کے دن ہمیں بہتریں عطاؤں سے سرفراز فرما اور ہماری سبھی حاجات

لَنا فِیهِ کُلَّ طَلِبَةٍ، کَما وَهَبْتَ الْحُسَیْنَ لُِمحَمَّدٍ جَدِّهِ، وَعاذَ فُطْرُسُ بِمَهْدِهِ، فَنَحْنُ

پوری کر دے جیسے تو نے حسین(ع) کے نانا حضرت محمد(ص) کو خود حسین(ع) عطا فرمائے تھے اور فطرس نے انکے گہوارے کی پناہ لی پس ہم انکے روضہ

عائِذُونَ بِقَبْرِهِ مِنْ بَعْدِهِ نَشْهَدُ تُرْبَتَهُ وَنَنْتَظِرُ أَوْبَتَهُ، آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ

کی پناہ لیتے ہیں انکے بعد اب ہم انکے روضہ کی زیارت کرتے ہیں اور انکی رجعت کے منتظر ہیں ایسا ہی ہو اے جہانوں کے پالنے والے۔

اس کے بعد امام حسین - کی دعا پڑھے کہ جو آپ نے یوم عاشورہ کوپڑھی جب کہ آپ دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اور وہ دعا یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ أَ نْتَ مُتَعالی الْمَکانِ، عَظِیمُ الْجَبَرُوتِ، شَدِیدُ الْمِحالِ، غَنِیٌّ عَنِ الْخَلائِقِ،

اے معبود! تو بلند تر منزلت رکھتا ہے تو بڑے ہی غلبے والا ہے زبردست طاقت والا، مخلوقات سے بے نیاز،

عَرِیضُ الْکِبْرِیائِ قادِرٌ عَلی مَا تَشائُ قَرِیبُ الرَّحْمَةِ ، صَادِقُ الْوَعْدِ، سَابِغُ النِّعْمَةِ،

بے حد و حساب بڑائی والاہے جو چاہے اس پر قادر، رحمت کرنے میں قریب، وعدے میں سچا، کامل نعمتوں والا،

حَسَنُ الْبَلائِ، قَرِیبٌ إذا دُعِیتَ، مُحِیطٌ بِما خَلَقْتَ، قابِلُ التَّوْبَةِ لِمَنْ تابَ إلَیْکَ،

بہترین آزمائش کرنے والاہے تو قریب ہے جب پکارا جائے جسکو پیدا کیا تو اسے گھیرے ہوئے ہے تو اسکی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے

قادِرٌ عَلی مَا أَرَدْتَ ، وَمُدْرِکٌ مَا طَلَبْتَ، وَشَکُورٌ إذا شُکِرْتَ، وَذَ کُورٌ إذا ذُکِرْتَ،

تو جو ارادہ کرے اس پر قادر ہے جسے تو طلب کرے اسے پالینے والا ہے اور جب تیرا شکر کیا جائے تو قدر کرتا ہے تجھے یاد کیا جائے

أَدْعُوکَ مُحْتاجاً، وَأَرْغَبُ إلَیْکَ فَقِیراً، وَأَ فْزَعُ إلَیْکَ خائِفاً، وَأَبْکِی إلَیْکَ

تو بھی یاد کرتا ہے میں حاجتمندی میں تجھے پکارتا اور مفلسی میں تیری رغبت کرتا ہوں تیرے خوف سے گھبراتا ہوں مصیبت میں تیرے

مَکْرُوباً، وَأَسْتَعِینُ بِکَ ضَعِیفاً، وَأَ تَوَکَّلُ عَلَیْکَ کافِیاً، احْکُمْ بَیْنَنا وَبَیْنَ قَوْمِنا

آگے روتا ہوں کمزوری کے باعث تجھ سے مدد مانگتا ہوں تجھے کافی جان کر توکل کرتا ہوں فیصلہ کردے ہمارے اور ہماری قوم کے

بِالْحَقِّ، فَ إنَّهُمْ غَرُّونا وَخَدَعُونا وَخَذَلُونا وَغَدَرُوا بِنا وَقَتَلُونا، وَنَحْنُ عِتْرَةُ نَبِیِّکَ

درمیان کہ انہوں نے ہمیں فریب دیا اور ہم سے دھوکہ کیا ہمیں چھوڑدیا اور بے وفائی کی اور ہمیں قتل کیا جبکہ ہم تیرے نبی(ص) کا گھرانہ اور

وَوَلَدُ حَبِیبِکَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاﷲِ الَّذِی اصْطَفَیْتَهُ بِالرِّسالَةِ وَائْتَمَنْتَهُ عَلی وَحْیِکَ،

تیرے حبیب محمد(ص) بن عبداللہ کی اولاد ہیں جن کو تو نے تبلیغ رسالت کے لیے چنا اور انہیں اپنی وحی کا امین بنایا

فَاجْعَلْ لَنا مِنْ أَمْرِنا فَرَجاً وَمَخْرَجاً بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

پس اس معاملے میں ہمیں کشادگی اور فراخی دے اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم والے۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18