''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں 0%

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 70

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

مؤلف: سید غافر حسن رضوی چھولسی "ھندی"
زمرہ جات:

صفحے: 70
مشاہدے: 32256
ڈاؤنلوڈ: 3935

تبصرے:

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 70 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32256 / ڈاؤنلوڈ: 3935
سائز سائز سائز
''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

مؤلف:
اردو

چھٹی فصل

۱۔ رسول اسلام (ص) کا خداوندعالم کے ساتھ اخلاق

اخلاق کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے آقا و مولا کی یاد میں غرق رہے ،کبھی بھی اپنے آقا کو فراموشی کی نذر نہ ہونے دے ،چاہے زبان سے یاد کرے یا دل سے ،بہر حال اس کی یاد میں رہے،حضرت ختمی مرتبت (ص) نے ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ اپنے آقا و مولا کو کس طرح یاد کیا جائے ،آپ (ص) کی توجہ ہر وقت خدا وند عالم کی طرف رہتی تھی ہر وقت لبوں پر تسبیح و تھلیل کے زمزمے رہتے تھےوکان لایقوم ولا یجلس الا علیٰ ذکرالله (۱)

یعنی حضور (ص) کی کوئی نشست و برخاست ذکر خدا سے خالی نہیں ہو تی تھی اور اس ذکر کا اثر دوسروں پر یہ ہوتا تھا کہ ان کے لب بھی تسبیح خدا میں زمزمہ سنج ہو جاتے تھے۔

اگر ایک انسان کو ذرا اونچا عھدہ مل جاتا ہے تو وہ پھولے نہیں سماتا اور تکبرانہ انداز میں سر اٹھا کر چلتا ہے کہ میرے جیسا کون ہو سکتا ہے، لیکن رسول اسلام (ص) جو دونوں جہاں کے لئے منتخب کئے گئے تھے ان کی سادہ لوحی پر نظر کی جائے۔

۲۔ رسول اکرم (ص) کی عبادت اور نماز شب

نماز شب کی فضیلت کے پیش نظر آپ (ص) کا ارشاد گرامی ہے: ''محروم وہ شخص ہے جو نماز شب سے محروم ہے''(۲)

مطلب یہ ہے کہ جو غریب ہے اسے محروم نہیں کہتے، جس کے ماں باپ دنیا سے گذر گئے ہوں وہ محروم نہیں ہوتا، بلکہ محروم وہ شخص ہے جو نماز شب سے محروم ہو۔

____________________

(۱)بحا رالانوار:ج۱۶، ص۲۲۸

(۲) بحار الانوار: ج ۷ ۸ ،ص ۱۴۶

۲۱

ایک دوسری روایت بتاتی ہے کہ خدا وند عالم نے جناب موسیٰ ـ سے فرمایا: ''وہ انسان جھوٹ بولتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں لیکن وہ مجھ سے رات میں گفتگو کر نے کے بجائے بستر خواب کی جانب چلا جاتا ہے''(۱) یا ایک جگہ کشاف الحقائق مصحف نا طق حضرت امام جعفرصادق علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:''لیس من شیعتنا من لم یصل صلاة اللیل'' (۲)

یعنی آگاہ ہوجائو کہ جو انسان نماز شب بجا نہ لاتا ہو وہ( شیعہ ہوتے ہوئے بھی) ہمارا شیعہ نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ جو شیعہ نمازشب بجا نہ لاتا ہو وہ برائے نام شیعہ ہے امام ـ کے نزدیک شیعہ وہی ہے جو نماز شب کو پابندی کے ساتھ بجا لاتا ہو۔

واقعاَ یہ روایت تو انتہائی تاکید کے ساتھ بیان ہوئی ہے یہاں تک کہ امام ـ اس انسان کو اپنا شیعہ کہنا پسند نہیں فرمارہے ہیں جو نماز شب بجا نہ لاتا ہو۔ نماز شب کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے خود سرکار رسالت (ص) نے بھی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے آئیئے اب اس پہلو کو حضرت (ص) کی ذات والا صفات میں دیکھتے ہیں۔

جب آپ (ص) محراب عبادت میں آئے تو تواضع وانکساری کے ساتھ اتنی زیادہ عبادت بجا لائے کہ پیروں پر ورم آگیا اور خدا کو کہنا پڑا( یا ایها المزمل قم الیل الا قلیلا ) (۳)

یعنی اے میرے رسول! آپ راتوں کو (میری عبادت میں) کھڑے ہوکر بسر کیجئے لیکن تھوڑا کم، ہم نے عبادت اس لئے واجب قرار نہیں دی کہ آپ خود کو زحمت میں ڈالیں۔ رات کا کچھ حصہ گذرنے کے بعد آنحضرت (ص) بستر مبارک سے اٹھتے تھے، مسواک کرتے تھے، وضو فرماتے تھے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے اور ایک گوشہ میں بیٹھ کر اتنا زیادہ گریہ فرماتے تھے کہ ریش مبارک اشکوں سے مملو ہوجاتی تھی، آپ (ص) کی بعض ازواج جب آپ (ص) کو اس حالت میں دیکھتی تھیں تو سوال کرتی تھیں کہ یا رسول اللہ (ص)! آپ تو معصوم ہیں ، آپ نے کوئی گناہ انجام دیا ہی نہیں ہے پھر یہ رونے کا سبب کیا ہے؟ تو آپ (ص) جواب میں ارشاد فرماتے تھے ''کیا میں خدا وند عالم کا شاکر بندہ نہ بنوں؟''

____________________

(۱)اعلام الدین: ص۲۶۳

(۲)بحارالانوار:ج ۸۷،ص۱۴۱

(۳)سورۂ مزمل/۱،۲

۲۲

یعنی عصمت سے مزین ہونے کے با وجود حضور (ص) گریہ فرمارہے ہیں اور اس گریہ کو خدا کے شاکر بندوں کی پہچان بتاتے ہیں، جس سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ گریہ نہ کرنا شکر کے منافی ہے اور کفر کے مترادف ہے (کیا کہا جائے ان حضرات کے بارے میں جو گریہ کرنے پر بدعت کے فتوے لگاتے ہیں؟)

جناب ام سلمیٰ فرماتی ہیں :''ایک شب، حضور (ص) میرے گھر تشریف فرماتھے، میں نے آدھی رات کے بعد آپ (ص) کے بستر مبارک کو خالی دیکھا، میں نے تلاش کرنے کے بعد دیکھا کہ آپ (ص) تاریکی میں کھڑے ہو ئے ہیں، دست مبارک عرش کی جانب بلند ہیں، چشم مبارک سے اشکوں کی برسات ہو رہی ہے اور دعا فر مارہے ہیں کہ ''پروردگار! جو نعمتیں تونے مجھے عطا کی ہیں انھیں مجھ سے واپس نہ لینا ، میرے دشمنوں کوخوش نہ ہونے دینا، جن بلائوں سے مجھے نجات دے چکا ہے ان میں دوبارہ گرفتار نہ کرنا، مجھے ایک پلک جھپکنے کے برابر بھی تنہا نہ چھوڑنا'' میں نے حضور (ص) سے کہا یا رسول اللہ (ص)! آپ تو پہلے ہی سے بخشش شدہ ہیں ، حضور (ص) نے فرمایا : '' نہیں کوئی بھی بندہ ایسا نہیں ہے کہ جو خدا وند عالم کا محتاج نہ ہو اور اس سے بے نیاز ہو ، حضرت یونس ـ کو خدا وند عالم نے صرف ایک لمحہ کے لئے تنہا چھوڑ دیا تھا تو آپ ـ شکم ماہی (مچھلی کے پیٹ ) میں زندانی ہو گئے''(۱)

حضور (ص) کی نماز شب ہم کو یہ درس دیتی ہے کہ امت کے رہبر وپیشواکو آرام طلب نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس کا پورا وجود محنت وزحمت کے سمندر میں غرق رہنا چاہیئے، آپ (ص)نے مولا علی ـ کو نماز شب کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے،آپ (ص) نے مکرر تین مرتبہ ارشاد فرمایا:''علیک بصلاة اللیل، علیک بصلاة اللیل، علیک بصلاة اللیل''

یعنی ! اے علی تم پر لازم ہے کہ نماز شب بجا لائو، نماز شب ضرور بجا لائو ،نماز شب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے(۲)

____________________

(۱) بحار الانوار:ج۱۶،ص۲۱۷

(۲ )وسائل الشیعہ:ج۵،ص۲۶۸

۲۳

ساتویں فصل

۱۔ حضرت (ص) کی دلسوزی ومہربانی

جب حضور اکرم (ص) مخلوقات کے سامنے آتے ہیں تو اخلاق کا وہ نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دنیائے انسانیت انگشت بدنداں نظر آتی ہے اور خدا وند عالم کہتانظرآتا ہے( انک لعلیٰ خلق عظیم ) (۱)

یعنی اے میرے رسول (ص) آپ اخلاق کے بلند وعظیم درجہ پر فائز ہیں۔

ایک روز آپ (ص) نے مولا علی ـ کو بارہ درہم دیئے اور فرمایا: ''میرے لئے ایک لباس خرید کر لے آئو'' حضرت علی ـ بازار گئے اور بارہ درہم کا لباس خرید کر لے آئے ، حضور (ص) نے لباس کو دیکھا اور علی ـ سے فرمایا: ''اے علی ـ اگر اس لباس سے کم قیمت لباس مل جاتا تو بہتر تھا اگر ابھی دوکاندار موجود ہو تو یہ لباس واپس کردو'' علی ـ دوبارہ بازار گئے اور لباس واپس کردیا اور بارہ درہم واپس لاکر آپ (ص) کے حوالہ کر دیئے۔ حضرت (ص) مولاعلی ـ کو اپنے ہمراہ لے کر بازار کی جانب روانہ ہوئے، راستہ میں ایک کنیز پر نظر پڑی کہ جو گریہ کر رہی تھی، آپ (ص) نے سبب دریافت کیا تو کنیز نے جواب دیا کہ میرے آقا نے مجھے چار درہم دیئے تھے کہ کچھ سامان خرید کر لے جائوں لیکن وہ چار درہم گم ہو گئے، اب گھر واپس جائوں تو کس طرح؟

آپ (ص) نے اپنے بارہ درہموںمیں سے چار درہم اس کنیز کو عطا کئے کہ وہ سامان خرید کر لے جائے اور بازار پہونچکر چار درہم کا لباس خریدا، لباس لے کر بازار سے واپس آرہے تھے تو ایک برہنہ تن انسان پر نظر پڑ گئی، آپ (ص)نے وہ لباس اس برہنہ تن کو بخش دیا اور پھر بازار کی جانب چلے، بازار پہونچکر باقی بچے ہوئے چار درہموں کا لباس خریدا ، لباس لیکر بیت الشرف کا قصد تھا کہ دوبارہ پھر وہی کنیز نظر آگئی جو پہلے ملی تھی، آپ (ص) نے دریافت کیا کہ اب کیا ہوا؟ تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کافی دیر ہو چکی ہے، میں ڈر رہی ہوں کہ کیسے جائوں،آقا کی سرزنش سے کیسے بچوں؟ حضور (ص) کنیز کے ہمراہ اس کے گھر تک تشریف لے گئے، اس کنیز کے آقا نے جب یہ دیکھا کہ میری کنیز ، سرکار رسالت (ص) کی حفاظت میں آئی ہے تو اس نے کنیز کو معاف کردیا اور اسے آزاد کردیا،

____________________

(۱)سورۂ قلم۴

۲۴

آپ (ص) نے فرمایا: '' کتنی برکت تھی ان بارہ درہموں میں کہ دو برہنہ تن انسانوں کو لباس پہنا دیا اور ایک کنیز کو آزاد کردیا''(۱) دور حاضر میں ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ کوئی عہدہ دار ایسی صفات کاحامل ہو، جن صفات سے نبی اکرم (ص) مزین تھے، دور حاضر تو کیا خود حضور (ص) کے دور میں، اگر چراغ لے کر بھی تلاش کیا جائے تو ان صفات کا پایا جانا دشوار ہے، آپ (ص) کے دور میں تو بعض بدو عرب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو بہت کچھ سمجھتے تھے، واقعاَ اگر آج کے امراء ورئوسا بھی اس سیرت کو اپنائیں تو ہماری کشتی حیات(دین کے مطابق) منزل مقصود سے ہمکنار ہوجائے۔

۲۔ آنحضرت کی سیرت میں مہمان نوازی

جناب سلمان فارسی ـ فرماتے ہیں: ''میں ایک روز حضرت (ص) کی خدمت میں پہونچا، جو تکیہ آپ (ص) خود رکھے ہوئے تھے وہ مجھے دیدیا تاکہ میں کمر لگاکر آرام سے بیٹھ سکوں'' ایسا سلوک صرف سلمان فارسی کے ساتھ ہی نہیں کیا بلکہ ہر مہمان کے ساتھ آپ (ص) کا یہی برتائو رہتا تھا، آپ (ص) مہانوں کی خاطر اپنا بستر بچھادیا کرتے تھے اور دسترخوان سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک کہ مہمان ہاتھ نہ روک لیں(۲) ایک روز حضور (ص) کی خدمت میں آپ (ص)کے دو رضاعی بھائی بہن یکے بعد دیگرے آئے، آپ (ص) نے بہن کا حترام زیادہ کیا اور بھائی کا احترام کم کیا، بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ (ص) نے جواب میں فرمایا: ''چونکہ، جتنا احترام اپنے ماں باپ کا یہ بہن کرتی ہے اتنا احترام بھائی نہیں کرتا لہٰذا میں بھی بہن کا زیادہ احترام کرتا ہوں''(۳) کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مہمان حضرات، کھانا کھانے کے بعد وہیں بیٹھ جاتے تھے اور گفتگو میں مشغول ہوجاتے تھے اور آپ (ص) مہمانوں کے احترام میں بیٹھے رہتے تھے جب اس عمل کی تکرا ر ہوئی تو آیت نا زل ہوئی( فأذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیث ) (۴)

____________________

(۱)بحار الانوار:ج۱۶،ص۲۱۵۔ سیرۂ پیامبر اکرم (ص) : ص۲۵

(۴)سورۂ احزاب/۵۳

(۲)سنن النبی (ص):ص۵۳،۶۷

(۳) بحار الانوار:ج۱۶،ص۲۸۱

۲۵

یعنی جب تم لوگ کھانے سے فارغ ہو جائو تو فوراَ منتشر ہو جائو ، اپنے اپنے گھر چلے جائو، بے وجہ رسول (ص) کو پریشان مت کرو چونکہ اس سے بہت بڑا نقصان ہے، رسول (ص) کچھ کام انجام نہیں دے سکتے(۱)

۳۔ سرکار (ص) کی بچوں کے ساتھہ مہر بانی

ایک نومولود بچہ کو آپ (ص) کی خدمت میں لایا گیا تا کہ آپ (ص) بچہ کا اچھا سا نام رکھ دیں، جیسے ہی آپ (ص) نے بچہ کو آغوش میں لیا ، بچہ نے فوراَ پیشاب کردیا، بچہ کی ماں اور دیگر رشتہ دار بہت ناراض ہوئے لیکن آپ (ص) نے فرمایا کہ نہیں ایسا نہ کرو چونکہ میں اپنے لباس کو پاک کرسکتا ہوں لیکن تمھاری ڈانٹ پھٹکار معصوم بچہ کے ڈر کا باعث بنے گی، آپ (ص) بچوں کے نام احترام کے ساتھ لیتے تھے اور لڑکیوں کے بارے میں زیادہ سفارش فرماتے تھے، وہ بھی ایسے دور میں کہ جس دور میں لڑکی کے وجود کو ننگ و عار سمجھا جاتا تھا اور باپ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتا تھااور شرم وحیا کے پیش نظر ، چہرہ سیاہ ہوجاتا تھا، قرآن کریم نے اس کی حکایت بالکل صاف الفاظ میں کی ہے( واذا بشر احدهم بالانثیٰ ظل وجهه مسوداوهو کظیم ) (۲)

یعنی....اور جب ان (عرب بدئوں )میں سے کسی کو یہ خوشخبری دی جاتی تھی کے تمھارے یہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا تھا اور رنجیدہ ہوجاتا تھا(۳)

ایسے زمانہ میں آپ (ص) فرماتے تھے کہ بہترین بچے، لڑکیاں ہیں اور ایک خاتون کے خوش بخت وخوش قدم.... ہو نے کی علامت یہ ہے کہ اس کا پہلا پیدا ہونے والا بچہ، لڑکی ہو(۴)

____________________

(۱)سیرۂ پیامبر اکرم (ص):ص۴۰

(۲)سورۂ نحل/ ۵۸

(۳)سیرۂ پیامبر اکرم (ص):ص ۳۷،۳۸

(۴)مستدرک الوسائل:ج۲،ص۶۱۴

۲۶

آپ (ص) کی خدمت میں آپ (ص) کا ایک صحابی بیٹھا ہو اتھا ، کسی نے آکر خبر دی کہ تمھارے یہاں لڑکی کی ولادت ہوئی ہے، جیسے ہی اس نے یہ جملہ سنا فوراَ اس کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا، حضور (ص) نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ انسان اس خبر سے رنجیدہ ہوا ہے تو آپ (ص) نے فرمایا: '' زمین اس کا مکان ہے، آسمان اس کا سائبان ہے ،اور اس کارزق خدا کے ہاتھ میں ہے، تو کیوں رنجیدہ ہوتا ہے؟ لڑکی اس پھول کی مانند ہے جس سے تم استفادہ کرتے ہو(۱)

ایک روز آپ (ص) پانی نوش فرمارہے تھے اور کوزہ میں تھوڑا سا پانی باقی بچا تھا اتنے میں ایک بچہ آیا اور پانی طلب کیا، تبھی بعض بڑے بڑے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ (ص)! یہ پانی بطور تبرک ہمیں عطا کیجئے، آپ (ص) نے فرمایا: ''تم سے پہلے اس بچہ نے طلب کیا ہے'' پھر بچہ کی طرف متوجہ ہوئے اور بچہ سے پوچھا کیا تمھاری اجازت ہے کہ میں یہ پانی ان لوگوں کو دیدوں یہ تمھارے بزرگ ہیں؟ لیکن بچہ نے فوراَ انکار کردیا، پھر آپ (ص) نے وہ پانی اسی بچہ کو دیا(۲)

کشاف الحقائق، مصحف ناطق، حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''ایک روز آپ (ص) نے نماز ظہر کی آخری دو رکعتیں بہت جلدی جلدی ادا کیں، لوگوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ (ص)! آخر ایسا کیوں؟کیا کام درپیش ہے؟ حضور (ص) نے فرمایا: ''کیا تم بچہ کے رونے کی آواز نہیں سن رہے ہو؟''(۳)

اللہ اکبر........نماز جیسی عبادت، جس میں خضوع و خشوع شرط ہے، آپ (ص) نے بغیر مستحبات کے انجام دی اور یہ سمجھا دیا کہ دیکھو.....بچہ کو بہلانا خضوع و خشوع والی نماز سے بھی افضل ہے۔

____________________

(۱)وسائل الشیعہ:ج۱۵،ص۱۰۱

(۲)سیرۂ پیامبر اکرم (ص): ص۳۸، بحوالہ سیرۂ حلبی:ج۳،ص۶۸

(۳)اصول کافی:ج۶،ص۴۸

۲۷

۴۔ آنحضرت کا جوانوں کے ساتھہ اخلاق

ایک جنگ میں ایک جوان بنام ''زید بن حارثہ'' اسیر ہوگیا اور آپ (ص) کی خد مت میں لاکر آپ (ص) کا غلام بنادیا گیا، اس کا باپ بہت ثروت مند تھا لہٰذاجب اس کو یہ خبر ملی کہ اس کا بیٹا غلام بنا لیا گیا ہے تو فوراَ باپ کی محبت نے انگڑائی لی اور آپ (ص) کی خدمت میں پہونچ گیااور کہا کہ جتنا آپ کو فدیہ چاہیئے لے لیجئے لیکن میرا بیٹا مجھے واپس کر دیجئے، میرے بیٹے کو آزاد کر دیجئے آپ (ص) نے فرمایا: ''مجھے کسی فدیہ اور مال ودولت کی ضرورت نہیں ہے، اگر تمھارا بیٹا تمھارے ساتھہ جانے کو تیار ہو جائے تو اسے لے جائو'' بیٹے کے پاس آیا اور کہا بیٹا! میں تمھیں آزاد کرانے آیا ہوں، چلو میرے ساتھ چلو، اپنے گھر چلو، بیٹے نے جواب دیا میں گھر نہیں جائو ںگاچونکہ مجھے اس گھر سے اچھا کوئی گھر نہیں ملے گا ، جب آپ (ص) نے اس کا یہ حال دیکھا کہ اسکی اسلام کی طرف اتنی زیادہ رغبت ہے تو آپ (ص) نے خانۂ کعبہ میں یہ اعلان کردیا کہ لوگو! گواہ رہنا ''زید میرا بیٹا ہے''(۱)

یہ صرف حضور (ص) کا اخلاق ہی تو تھا جو زید کے دل میں جاگزیں ہو کر رہ گیا اور اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔

جب آپ (ص) کا وقت وفات قریب آیا تو آپ (ص) نے ایک جوان ''بنا م اسامہ'' کو اپنے لشکر کا سپہ سالار مقرر فرمایا اور تمام سن رسیدہ حضرات کو یہ حکم دیا کہ اس اٹھارہ سالہ جوان کی اطاعت کریں اور فرمایا: خدا لعنت کرے اس شخص پر جو لشکر اسا مہ سے منھ پھرائے(۲)

حضرت (ص) کا یہ عمل درس دے رہا ہے کہ جوانوں کے ساتھ شفقت ومہربانی کے ساتھ پیش آئیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں چونکہ یہ نوجوان ، قوم کا مستقبل ہیں، لہٰذا اپنے مستقبل کو بہترین مستقبل بنانے کی سعی میں کوشاں رہو(لشکر اسامہ سے کس کس نے منھ پھرایا ؟یہ تاریخ نے اچھی طرح واضح کیا ہے)

____________________

(۱) سیرۂ پیامبر اکرم (ص): ص۴۰

(۲)سیرۂ پیامبر اکرم (ص): ص۴۰

۲۸

۵۔ پیغمبر اکرم (ص) کی ذاتی اور شخصی سیرت

تما م سیرت کی کتابوں میں آپ (ص) کی سیرت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے انھیں میں سے آپ (ص) کی چند صفات حسنہ کا تذکرہ کرنا بہتر سمجھتا ہوں۔

۱ ۔خدا وند عالم کی عطاکردہ نعمت کو بزرگ اور محترم گردانتے تھے اور کبھی بھی کسی نعمت کی مذمت نہیں کرتے تھے چاہے وہ نعمت کتنی ہی چھوٹی ہو۔

۲۔دنیاوی مسائل میں غصہ نہیں ہوتے تھے(جب کہ عصر حاضر میں تمام ھم وغم دنیاوی کاموں کے لئے ہے'' رات دن'' دنیا کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اگر رضایت ہو تو دنیا کے لئے غصہ ہوں تو دنیا کے لئے، خوش ہوں تو دنیا کے لئے، رنجیدہ ہوں تو دنیا کے لئے گویا ہر کام دنیا پر موقوف ہے)

۳ ۔آپ (ص) کی ہنسی، صرف تبسم کی حد تک تھی، کوئی روایت نہیں بتاتی کہ آپ (ص) کبھی قہقہہ کے ساتھ ہنسے ہوںاور ہنسی قابو سے باہر( Out of Controll ) ہوئی ہو۔

۴۔ہر قوم کے بزرگ (رہبرو پیشوا) کا احترام کیا کرتے تھے(جو ہمارے لئے نمونہ ہے کہ کافر یا مشرک گردان کر کسی رہبرو پیشوا یا کسی کے بزرگ کی توہین نہ کرو چونکہ وہ اپنی قوم کا رہبر ہے ،اگرآج تم ان کے رہبروں کا حترام نہیں کروگے تو کل وہ بھی تمھارے رہبر کا اکرام نہیں کرسکتے)

۵ ۔اگر کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تھے تو آخری جگہ بیٹھ جاتے تھے، لوگوں کو روندتے ہوئے آگے نہیں جاتے تھے۔

۶۔ہر انسان کا اتنا زیادہ احترام بجا لاتے تھے کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ آپ (ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب میری ہی ذات ہے۔

۲۹

۷۔اگر کوئی انسان آپ (ص) کے پاس اپنی حاجت لیکر آتا تھا تو اس کی حاجت روائی فرماتے تھے اوراگر ممکن نہیں ہوتا تھا تو خوش اخلاقی کے ساتھ اس طرح واپس پلٹاتے تھے کہ اسے احساس حقارت نہ ہونے پائے۔

۸۔تمام انسانوں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے(آپ (ص)کے نزدیک کسی طرح کا کوئی فرق نہیں تھا کہ یہ اپنا ہے اور یہ بیگانہ یا یہ اپنا جاننے والا ہے اور یہ اجنبی، نہیں بلکہ سب خدا کے بندے ہیں لہٰذا سب کے ساتھ مساوات کا لحاظ رکھا جائے)

۹۔بے ہودہ باتوں سے پر ہیز فرماتے تھے، آپ (ص) کی شان والا صفات میںبکواس اور بے ہودہ و فالتو گفتگو کا تصور بھی، گستاخی اور جسارت ہے چونکہ آپ (ص)( ما ینطق عن الهویٰ ان هو الا وحی یوحیٰ ) (۱) ............کے مصداق تھے، آخر بے ہودہ گفتگو ہوتی بھی تو کیسے؟

۱۰۔آپ (ص)کسی کی برائی نہیں کرتے تھے چونکہ قرآنی آیت کو عملی جامہ پہنانا تھا تاکہ آئیڈیل( Ideal ) اور نمونہ بن سکیں اور لوگوں کو اس نفرت آور کام سے باز رکھیں( لایغتب بعضکم بعضا .......) (۲)

یعنی ! دیکھو تم لوگوں میں سے کوئی بھی ایک دوسری کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اس بات کو گوارہ کرے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے؟

۱۱۔اپنی نعلین مبارک کی مرمت خود اپنے ہی دست مبارک سے فرماتے تھے ، آپ (ص) کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ آپ (ص) اپنے جوتے موچی کے پاس لے کر جائیں اور اس سے مرمت کرائیں۔

____________________

(۱)سورۂ نجم/۳،۴

(۲)سورۂ حجرات/۱۲

۳۰

۱۲۔ہر روز ستّر مرتبہ ''استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ'' پڑھتے تھے، آپ (ص) کے بارے میں تصور گناہ بھی گناہ ہے، آپ (ص) کا استغفار صرف ہم گنہگاروں کے لئے تھا کہ دیکھو میں خدا کا مقرب ترین بندہ ہوتے ہوئے بھی استغفار کرتا ہوں تمھیں بھی چاہیئے کہ اپنے کئے ہوئے گناہوںکی معافی مانگو اور خدا وند عالم سے مغفرت طلب کرو۔

۱۳۔آپ (ص) کا لباس غلاموں جیسا ، آپ (ص)کا کھانا غلاموں کی مانند ، مطلب یہ ہے کہ آپ (ص) کی نظروں میں ہمیشہ خدا وند عالم کی ذات تھی جس کے مقابل خود کو غلام گردانتے تھے اور دوسری طرف سے غلاموں اور نیچے طبقے کے انسانوں کو احساس غربت نہ ہونے پائے، ہوسکتا ہے کہ اگر میں اچھے کپڑے پہنوں اور اچھا کھاناکھائوں تو غریب وغربا لوگوں کو اپنی غربت کا احساس ہو اور میری طرف سے یا خدا وند عالم کی طرف سے بد ظن ہو جائیں۔

۱۴۔اپنے قیمتی وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے تھے، آپ (ص) کا یہ عمل ہم کو درس دیتا ہے کہ وقت کی قدرو قیمت سمجھیں اور وقت کو غنیمت شمار کریں چونکہ ''گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں'' جو وقت گذر گیا وہ اب واپس آنے والا نہیں ہے لہٰذا جتنا ہو سکے وقت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

۱۵۔آپ (ص) نہ تو کسی کو غربت کی وجہ سے حقیر گردانتے تھے اور نہ کسی کے صاحب اقتدار اور ثروت مند ہونے کے سبب عزت واحترام بجالاتے تھے( جیسا کہ آج عام طور سے رائج ہے)

۱۶۔خواتین کو بھی سلام کرتے تھے تاکہ انھیں احساس کمتری نہ ہو نے پائے۔

۱۷۔کسی محفل میں اپنے پیروں کو پھیلانے سے گریز فرماتے تھے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو میری وجہ سے اذیت ہو۔

۱۸۔ہر وقت خوشبو(مشک وعنبر) سے معطر رہتے تھے تاکہ جو بھی آپ (ص) کے پاس آئے وہ کراہیت محسوس نہ کرے۔

۱۹۔جب بھی کہیں بیٹھتے تھے تو رو بقبلہ ہوکر بیٹھتے تھے(شاید اس کا سبب یہ ہو نہ جانے کس وقت فرشتۂ موت آجائے اور میری روح قبض کر لے لہٰذا اگر روح قبض کی جائے تو رو بقبلہ رہوں)

۳۱

۲۰۔آپ (ص)کو یہ پسند نہیں تھا کہ جب آپ (ص) سوار ہوں تو کوئی آپ (ص) کے ساتھ پیدل چلے، بلکہ آپ (ص) اسے سوار کر لیتے تھے یا اس کو حکم دیتے تھے کہ اپنی سواری لیکر آجائے۔

۲۱۔سفید اور سبز لباس سے بہت زیادہ خوش ہوتے تھے یعنی دوسرے رنگوں کی نسبت ان دونوں رنگوںکو زیادہ پسندفرماتے تھے۔

۲۲۔اگر دسترخوان پر خرمہ موجود ہوتا تھا تو کھانے کی ابتداخرمہ ہی سے فرماتے تھے۔

۲۳۔ہر دو لقموں کے بعد شکر خدا بجا لاتے تھے تاکہ خدا کے نزدیک شکر گذار قرار پائیں، حالانکہ کھانے کے بعد صرف ایک مرتبہ خدا کا شکر بجا لانا کافی ہے لیکن ہر دو لقموں کے بعد آپ (ص) کا شکر خدا بجا لانا اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ آپ (ص) ہمیشہ یاد خدا کے سمندر میں غوطہ زن رہتے تھے۔

۲۴۔غذا تناول فرمانے کے بعد خلال فرماتے تھے، تاکہ وہ غذا جو دانتوں میں رہ گئی ہے اسے باہر نکال دیں اور دہنِ مبارک، بد بو سے محفوظ رہے۔

۲۵۔پانی نوش فرماتے وقت بھی بسم اللہ پڑھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ ''کل امر لم یبدأ بأسم اللہ فھو ابتر'' یعنی جس کام کی ابتدا میں بسم اللہ نہ کی جائے وہ کام بے نتیجہ رہتا ہے۔

۲۶۔کھانا تناول فرمانے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوتے تھے۔

۲۷۔گرم غذا تناول کرنے سے پرہیز فرماتے تھے اور انتظار کرتے تھے یہاں تک کہ غذا سرد ہو جاتی تھی۔

۲۸۔اگر لوگوں سے ملاقات کرنی رہتی تھی تو ملاقات سے پہلے پیاز اور لہسن کا استعمال نہیں فرماتے تھے، تاکہ سامنے والے کو کراہیت نہ ہو۔

۲۹۔کبھی بھی آپ (ص) کو اکیلے اور تنہا کھانا کھاتے نہیں دیکھا گیا بلکہ اگر تنہا ہوتے تھے تو کسی کو دعوت کر کے بلا لیا کرتے تھے تا کہ اس کے ساتھ کھانا کھائیں۔

۳۲

۳۰۔اگر کسی انسان کی تشییع جنازہ میں شرکت فرماتے تھے تو غمگین رہتے تھے اور باتیں کم کرتے تھے۔

۳۱۔واجب نمازوں کے دوگنا مستحب نمازیں بجا لاتے تھے یعنی چونتیس رکعت مستحب نماز پڑھتے تھے۔

۳۲۔ماہ رمضان المبارک میں مستحب نمازوں میں اور بھی اضافہ کرتے تھے یعنی چونتیس رکعت سے بھی زیادہ مستحب نماز بجا لاتے تھے۔

۳۳۔اگر کوئی آپ (ص) کے پاس آکر بیٹھہ جاتا تھا اور آپ (ص) نماز میں مشغول ہوتے تھے تو نماز کو مختصر کرکے جلدی تمام کر دیا کرتے تھے تاکہ اگر وہ آنے والا کوئی حاجت لے کر آیا ہے تو وہ اپنی حاجت بیان کرے ایسا نہ ہو کہ میری عبادت کی وجہ سے اس کی حاجت روائی میں تاخیر ہوجا ئے(۱)

۶۔ سرکار (ص) کا اہل خانہ کے ساتھہ اخلاق

حضور سرور کائنات (ص) کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ گھر کے سارے کام آپ (ص)کی زوجہ انجام دے بلکہ آپ (ص) یہ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ ان کی مدد کریں ،یہاں تک کہ پارہ شدہ لباس بھی خود سی لیتے تھے زوجہ کو زحمت نہیں دیتے تھے(۲)

ہمیشہ اس وقت کھانا نوش فرماتے تھے جب سارے اہل خانہ جمع ہوجاتے تھے ،یہاں تک کہ غلاموں کا بھی انتظار کیا کرتے تھے(۳)

یوں توحضور (ص)کی تقریباََ تمام بیویاں ہی یتیم پرور اور بیووں کا خیال رکھنے والی تھیں لیکن اخلاق کے اعتبار سے سب کے درمیان فرق تھامگر قرآنی حکم کے مطابق حضور اکرم (ص) سب کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے تھے ۔

____________________

(۱)تفسیر المیزان:ج۶،ص۳۲۱سے بعدتک،ان صفات کے علاوہ علامہ مرحوم نے اور بھی بہت سی صفات کا تذکرہ کیا ہے اگر تفصیل درکار ہو تو اسی حوالہ پر رجوع کر سکتے ہیں۔

(۲)بحارالانوار:ج۱۶ ،ص۲۲۷

(۳)ہمگام با رسول :ص۱۷

۳۳

کبھی کبھی بعض بیویاں بد اخلاقیاں بھی کرتی تھیں یہاں تک کہ اس بد اخلاقی کی وجہ سے حضور (ص) کے بعض اصحاب ناراض ہوجاتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ (ص)! انھیں چھوڑ دیجے (آزاد کر دیجئے)حضور (ص) فرماتے تھے کہ عورتوں کی بد اخلاقی کو بھی ان کا کمال شمار کرنا چاہیئے اور ذرا سی ناراضگی کی وجہ سے بیوی کو طلاق نہیں دینی چاہیئے(۱)

حضور اکرم (ص)، جناب خدیجہ کی خوش اخلاقی اور وفاداری کی وجہ سے (یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد بھی) ان کی سہیلیوں کا خاص احترام کرتے تھے اور فرماتے تھے ''میں(تمام خاندانوں میں)اپنے خاندان کے ساتھ سب سے زیادہ خوش رفتاری سے پیش آتا ہوں یعنی کسی بھی خاندان میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ مجھ سے بہتر رفتار کرتا ہو(۲)

حضور (ص)اپنی بیویوں کے ساتھ اتنی زیادہ عدالت سے پیش آتے تھے کہ بیماری کے ایام میں بھی آپ (ص)کابستر ایک ایک شب ایک ایک بیوی کے حجرہ میں رہتا تھا۔ جناب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں :کبھی کبھی حضور (ص) ، خدیجہ کو بہت اچھی طرح یاد فرماتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے ، میں نے ایک روزحضور (ص) سے کہا : یا رسول اللہ (ص)! خدا نے آپ کو خدیجہ سے بہتر بیوی(دوشیزہ) عطا کی ہے، انھیں بھول جائیئے وہ تو بڑھیا تھیں۔

حضور (ص)نے فرمایا: خدا کی قسم ایسا نہیں ہے ، خدیجہ جیسی کوئی بیوی نہیں ہو سکتی (چاہے وہ دوشیزہ ہو یا کھلونوں سے کھیلنے والی اور ناچ گانے کی شوقین) جس وقت پورا معاشرہ کافر تھا ، اس عالم میں یہ تنہا خاتون تھی جو مجھ پر ایمان لائی تھی اور میری مدد گار ثابت ہوئی تھی ، میری نسل تو خدیجہ سے ہی چلی ہے (ایسی دوشیزہ کا کیا فائدہ جو ماں بننے کو ترس جائے)

جناب خدیجہ کوئی معمولی عورت نہیں تھیں بلکہ یہ وہ خاتون تھیں کہ جنھوں نے اپنا رشتہ خود حضور (ص) کے پاس بھیجا تھا اور اپنے آنے والے تمام رشتوں سے انکار کر دیاتھا(بڑے باپ کی بیٹی ہونے کے غرور میں چلی ہیں جناب خدیجہ سے ہمسری کرنے، بڑے باپ کی بیٹی ہونگی تو اپنے گھر کی ، یہاں تمھارا دیہ نہیں جلے گا تم جیسی ہزار دوشیزہ و باکرہ لڑکیوں سے یہ بڑھیا اچھی ہے)(۳)

____________________

(۱)سیرۂ پیامبر اکرم:ص۳۳

(۳)سیرۂ پیامبراکرم:ص۳۳

(۲)وسائل الشیعہ: ج۱۴،ص۱۲۲

۳۴

۷ ۔ رسول اسلام (ص) کی سیرت میں ساد گی

مال غنیمت کو دیکھہ کر آپ (ص) کی بعض ازواج نے کہا یا رسول اللہ (ص) اس میں ہمارا بھی حق ہے، ہمیں بھی دیجئے، سب لوگ عیش کی زندگی گذار رہے ہیں، آخر ہماری کیا خطا ہے؟(اگر اس وقت میں وہاں موجود ہوتا تو جواب دیتا کہ تمھاری سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ تم بد نصیبی کے جھنجال سے نکل کر خوش نصیبی کی وادیوں میں آگئیں اور رسول اسلام (ص) کی زوجہ محترمہ بن کو ام المومنین کے لقب سے نوازدی گئیں) لیکن حضور (ص)کا جملہ دیکھئے آپ (ص) نے جواب دیا کہ:'' میری زندگی سادگی کے سوا کچھ نہیں ہے ، اگر تم کو سادہ لوحی پسندہے تو میری زوجیت میں رہو ورنہ میں طلاق دینے کو تیار ہوں''(۱)

حضوراکرم (ص) ایک مرتبہ جناب فاطمہ زہرا کے بیت الشرف میں تشریف لائے تو آپ (ص) نے دیکھا کہ جناب فاطمہ نے اپنے ہاتھ میں دستبند(کنگن) پہن رکھا ہے اور گھر میں نیا پردہ لٹکا رکھا ہے تو آپ (ص) نے فاطمہ زہرا سے کوئی بات نہیں کی اور کچھ بات کئے بغیر خاموشی سے واپس ہوگئے،مزاج رسالت شناس ''فاطمہ زہرا '' سمجھ گئیں کہ بابا کس لئے ناراض ہوکر واپس چلے گئے، فوراَ پردہ کو اتارا ہاتھ سے کنگن اتارا اور حضور (ص) کی خدمت میں بھیج دیا اور فرمایا بابا! جیسا آپ بہتر سمجھیں ان چیزوں کا استعمال کریں(۲)

۸۔ حضور (ص) کا ہمسایوں کے ساتھہ اخلاق

حضور سرور کائنات (ص) غذا نوش فرمانے سے پہلے یہ دیکھتے تھے کہ ہمارا ہمسایہ تو بھوکا نہیں ،ایسا نہ ہو کہ ہم شکم سیر ہو کر سوئیں اور ہمارا ہمسایہ بھوکا سوئے ،اگر ایسا ہوا تو ہم خدا کو کیا جواب دیں گے ؟

آپ (ص) خود فرماتے ہیں :کہ جبرئیل امین نے مجھے ہمسایہ کے بارے میں اتنی زیادہ تاکید کی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اب یہ میری وراثت میں بھی ہمسایہ کو شامل کردیں گے(۳)

____________________

(۱)سیرۂ پیامبر اکرم (ص): ص۴۱

(۲)سیرۂ پیامبر اکرم (ص):ص۴۲۔اعلام الدین:ص۲۶۳

(۳)سیرۂ پیامبر اکرم (ص):ص۴۲۔ اعلام الدین:ص۲۶۳

۳۵

۹۔ آنحضرت (ص) کا دوستوں کے ساتھہ اخلاق

دوستوں کی احوال پرسی کرنا ،اور ان کی خبر لینا بھی اخلاق حسنہ کی ایک شاخ ہے ،جو دوستوں کے دلوں کی دریائے محبت میںاور زیادہ موجیں لے آتا ہے ۔

پیغمبر خدا (ص) کبھی بھی اپنے دوستوں سے غافل نہیں رہتے تھے ،بلکہ ہمیشہ رابطہ رکھتے تھے۔

مولا علی ـفرماتے ہیں : اگر آپ (ص) تین دن تک کسی برادر دینی کو نہیں دیکھ پاتے تھے تو اس کی تلاش میں نکل جاتے تھے،اگر معلوم ہوتا تھا کہ وہ سفر میں ہے تو سلامتی کی دعا فرماتے تھے ،اگر شہر میں موجود ہوتا تھا تو فوراَ اس کی احوال پرسی اور دیدار کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور اگر بیمار ہوتا تھا تو اس کی عیادت کے لئے جاتے تھے اور اس کی صحت یابی کی دعا فرماتے تھے(۱)

ایک مرتبہ رسول اسلام (ص)اپنے اصحاب کے ساتھ سفر کر رہے تھے، راستے میں کھانے کا وقت آگیا، حضور (ص) نے قافلہ کو روکا، تمام لوگوں کے ذمہ ایک ایک کام کردیا اور خود سوکھی لکڑیاں جمع کرنے لگے، اصحاب نے بہت روکنا چاہا لیکن حضور (ص) نے قبول نہیں کیا۔

دوسری جگہ آپ (ص) ناقہ سے اترے اور اسے باندھنے کے لئے ایک گوشہ کی جانب چلے، اصحاب آگے بڑھے تاکہ ناقہ کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور باندھ دیں لیکن حضور (ص) نے قبول نہیں کیا اور فرمایا ''جہاں تک ہو سکے، اپنا کام خود انجام دو(۲)

۱۰۔ اعزاء و اقارب کے ساتھ اخلاق

آپ (ص) خود فرماتے ہیں :صلوا ارحامکم ولو بالسلام۔اپنے عزیزوں کے ساتھ صلۂ رحم کرو چاہے وہ سلام کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو ،یعنی اپنے رشتہ داروں سے کبھی بھی قطع تعلق نہ کرنا چونکہ تمھاری گردنوں پر ان کے کچھ حقوق ہیں جن میں سے سب سے اہم حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئو۔

____________________

(۱)مکارم الاخلاق ص:۱۹

(۲)سیرۂ پیامبر اکرم (ص):ص۲۷

۳۶

۱۱۔ خادموں اور غلاموں کے ساتھہ اخلاق

آپ (ص) کو یہ منظور نہیں تھا کہ گھر میں غلام موجود ہے تو تمام کام وہی انجام دے بلکہ آپ (ص) غلام کی بھی مد د فرماتے تھے ،غلام کے ساتھ چکی چلاتے تھے ،اور اگر وہ بہت زیادہ خستہ ہوجا تا تھا تو اس سے کہتے تھے کہ تم آرام کرو یہ کام میںانجام دوں گا(۱)

انس ابن مالک کہتاہے کہ میں نو سال تک رسول اسلام (ص) کا خادم تھا ،مجھے یاد نہیں کہ رسول (ص) نے کبھی یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا ایسا کیوں نہیں کیا؟(۲)

۱ ۲ ۔ حضرت (ص)کا دشمنوں کے ساتھہ اخلاق

دوستوں کے ساتھ حسن اخلاق اور خوش رفتاری سے پیش آنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے بلکہ کمال تو یہ ہے کہ دشمنوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں ۔ حضور (ص) کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ جس طرح دوستوں کے ساتھ نیک برتائو سے پیش آتے تھے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ بھی اچھے اخلاق سے پیش آتے تھے چنانچہ واقعہ مشہور ہے کہ آپ (ص)کے گذرنے کا جو راستہ تھا اس راستہ میں ایک ضعیفہ رہتی تھی اور وہ اپنے گھر کا سارا کوڑا کرکٹ جمع کرکے رکھتی تھی تاکہ حضور (ص) کے اوپر پھینکے یہاں تک کہ حضور کا گذر ہوتا تھا اور وہ گھرکی ساری غلاظتیں آپ (ص)کے اوپر پھینک دیتی تھی لیکن آپ (ص) اس سے کچھ بھی نہیں کہتے تھے بلکہ اسطرح خاموشی سے گذرجاتے تھے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔ یا رسول اللہ (ص)گستاخی معاف!آپ کے حسن اخلاق کا تقاضہ بجا ہے لیکن راستہ تبدیل کرنے میں تو حسن اخلاق حائل نہیں ہے کم سے کم راستہ بدل دیجئے تا کہ غلاظتوں سے محفوظ رہ سکیں ؟

رسول اسلام (ص) جواب دیں گے کہ ذرادل کی آنکھوںسے دیکھو .......یہ ضعیفہ میرے اوپر غلاظتیں نہیں پھینک رہی ہے بلکہ میں اپنے اخلاق کے ذریعہ اس کے دل سے کفرو نفاق اور شرک کی غلاظتیں نکال کر باہر پھینک رہا ہوں ۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا .............ایک روز رسول (ص)کا گذر ہواتو بڑھیا نے کوڑا نہیں پھینکا ،آپ (ص) نے ہمسایوں سے دریافت کیا کہ بڑھیا کہاں ہے ؟جواب ملا کہ وہ مریض ہے (بستر علالت پر پڑی ہوئی ہے )

____________________

(۱)بحار الانوار:ج۱۶، ص۲۲۷

(۲)مکارم الاخلاق :ص۱۶

۳۷

رسول اسلام (ص) اس کے گھر پہونچے بڑھیانے دروازہ پر نگاہ کی تو رسول (ص)نظر آئے بڑھیا نے کہا : واہ محمد (ص)اچھاموقع تلاش کیا ہے انتقام کا ،بدلہ لینا تھا تو اسی وقت لیتے جب میں صحت مند تھی ،اب تو میںاپنا دفاع بھی نہیں کرسکتی۔

رسول اسلام (ص)نے فرمایا :۔میں تجھ سے بدلہ لینے نہیں آیا ہوں بلکہ تیری عیادت کے لئے آیا ہوں ۔

بس..........قارئین کرام!یہی وہ وقت تھا کہ اس کے دل کی تمام تاریکیاں نور سے تبدیل ہو گئیں ،ایک مرتبہ کہا محمد (ص)! مجھے کلمہ پڑھا دیجئے ،بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ۔

یہ تھا رسول اسلام (ص) کا اخلاق دشمنوں کے ساتھ،اگر رسول اسلا م (ص) اس اخلاق سے پیش نہ آتے تو یہ کافرہ کبھی بھی مسلمان نہ ہوتی اور حالت کفر ہی میں دنیا سے چلی جاتی ،بے شک آج بھی ایسے ہی اخلاق کی ضرورت ہے چونکہ بہت سے افراد ایسے ہیں کہ جنہوں نے روشنی کا وجود ہی نہیں دیکھا اگر ذرا سا بھی نور مل جائے تو راہ راست پر آسکتے ہیں ،لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارا اخلاق ،اخلاق نبوی ہو۔

۱۳۔ سرکار رسالت (ص) کا کفار کے ساتھہ اخلاق

خدا وند عالم نے رسول اسلام (ص) کو حکم دیاکہ(وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتیٰ یسمع کلام اللہ ثم ابلغلہ مامنہ ذٰلک بأنھم قوم لا یعلمون)(۱)

اگر ایک مشرک وکافر تم سے پناہ کا طلبگار ہو تو اسے پناہ دو تاکہ وہ کلام خدا وندی کوسن سکے اور پھر اسے پر امن مقام پر پہونچادو ، چونکہ یہ لوگ نا واقف ہیں ، شاید قرآنی آیات سننے کے بعد اور تمہاری محبت ومہربانی کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہدایت پا جائیں۔ جی ہاں قارئین کرام! دین اسلام محبت وعطوفت اور مہربانی و آزادی کا دین ہے نہ کہ زوروزبر دستی کا، یہاں تک کہ جنگ کی شرطوں میں بھی کفار کو تحقیق کا موقع دیا جاتا ہے(۲)

____________________

(۱)سورۂ توبہ/۶

(۲)سیرۂ پیامبر اکرم (ص):ص۷۶

۳۸

۱ ۴ ۔ حضرت (ص) کی سیرت ،اسیروں کے ساتھہ

خدا وند عالم کی جانب سے حضرت (ص) کو یہ حکم ہوا تھا کہ آپ (ص) بذات خود، اسیروں سے گفتگو کریںاور انھیں راہ ہدایت کی طرف دعوت دیں( یا ایها النبی قل لمن فی ایدیکم من الاساریٰ ) (۱)

اتنی بڑی شخصیت کا اسیروں سے بلا واسطہ(ڈائرکٹ Direct )گفتگو کرنا ، اسیروں کی خاطر رحمت وعطوفت اور مہربانی نہیں تو اور کیا ہے؟

رسول (ص) کی بات چھوڑیئے، آپ (ص) کے گھرانے کے بچے بچے میں یہی جذبہ نظر آتا ہے بلکہ آپ (ص) کے گھر کی کنیز ''فضہ'' بھی اپنے سامنے سے روٹی اٹھاکر مسکین ویتیم واسیر کو دیدیتی ہے اور جبرئیل امین آیت لیکر نازل ہوتے ہیں( و یطعمون الطعام علیٰ حبه مسکیناویتیماواسیرا ) (۲)

یعنی یہ وہ گھرانہ ہے کہ خدا وند عالم کی محبت میں مسکین ویتیم واسیر کو کھانا کھلاتاہے ، اس گھرانے کے علاوہ کون ایسا سخی ہے کہ پورے دن روزے سے رہ کر اپنا افطار اٹھاکر فقیر کو دیدے اور پانی سے افطار کرکے سوجائے؟ وہ بھی ایک دن نہیں بلکہ مسلسل تین دن تک، یہی وجہ ہے کہ مشہور عالم ''حاتم طائی کی سخاوت'' ان ہستیوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ہوئے سر تسلیم خم کرتی نظر آتی ہے۔

حضرت علی ـ ، ضربت کے بعد قاتل کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کو اسیر کر لولیکن اس کے کھانے پینے کا خیال رکھنا اور اس کے ساتھ خوش رفتاری سے پیش آنا(۳)

جب ایسی محبت و مہربانی نظر آتی ہے تو عقل انسانی انگشت بدنداں نظر آتی ہے کہ جو آپ ـ کا قاتل ہے اس کو جام شیر پلاتے ہیں اوراپنے بیٹوںسے فرماتے ہیں کہ اس کے ساتھ اچھا برتائو کرنا۔

____________________

(۱)سورۂ انفال/۷۰

(۲)سورۂ انسان''سورۂ دہر''/۸

(۳)میزان الحکمة

۳۹

۱۵۔ اجنبی و مسافراور عام انسان کے ساتھہ اخلاق

اگر کوئی مسافر ہے تو وہ اجنبی ضرور ہے لیکن انسان تو ہے، انسانیت کے ناطہ ہمارا فریضہ ہے کہ وہ اگر بھوکا ہے تو کھانا کھلائیں،اگر وہ پیاسا ہے تو پانی پلائیں یا کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو اسے بھی پورا کریں تاکہ اس کے دل پر ہمارے اخلاق کا سکہ بیٹھ جائے ۔

رسول اسلا م (ص) کا عام لوگوں کے ساتھ یہ اخلاق تھا کہ اگر کسی بزم میں جاتے تھے تو کسی کویہ موقع نہیں دیتے تھے کہ وہ آ پ (ص)کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو ،کسی کی طرف پیر پھیلاکر نہیں بیٹھتے تھے ،ہمیشہ سلام میں سبقت کیا کرتے تھے ،چرب زبانی کے مخالف تھے یعنی آپ (ص) ضرورت کے مطابق زبان کھولتے تھے ،فضول باتوں سے پر ہیز فرماتے تھے،کبھی بھی آپ (ص) کو کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا گیا،زمین پر بیٹھتے تھے اور غلاموں کی طرح زمین پر بیٹھ کر ہی غذا تناول فرماتے تھے(۱)

آپ (ص) ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے ،دوسروں کے ساتھ خندہ روئی سے پیش آتے تھے اوریہ پسند فرماتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی مسکراتے رہیں(۲)

____________________

(۱)بحارالانوار:ج۱۶، ص۲۲۸ ۔مکارم الاخلاق :ص۱۷

(۲)المحجة البیضاء :ج۴، ص۱۳۴

۴۰