''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں 0%

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 70

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

مؤلف: سید غافر حسن رضوی چھولسی "ھندی"
زمرہ جات:

صفحے: 70
مشاہدے: 28558
ڈاؤنلوڈ: 2788

تبصرے:

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 70 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28558 / ڈاؤنلوڈ: 2788
سائز سائز سائز
''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

مؤلف:
اردو

آٹھویں فصل

۱۔ ذات رسول اسلام (ص)، درس عبرت

جس وقت جنگ حنین کے مال غنیمت کو حضور (ص)کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور (ص) نے ایک ایک کو آواز دی کہ فلاں آئے اور سو اونٹ لے جائے، فلاں آئے تین سو اونٹ لے جائے، فلاں آئے اتنے اونٹ لے جائے فلاں اتنے اونٹ لے جائے اتنے اتنے وغیرہ.....حالانکہ آپ (ص) اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ سب کافر ہیں، جب حضور (ص) کے مقدس صحابہ نے دیکھا کہ مال غنیمت ختم ہوگیا، ہمارے لئے تو کچھ بچا ہی نہیں تو فوراَ کھڑے ہو گئے..... یا رسول اللہ (ص)! آخر ہمارے پاس کیا بچا ؟ آپ نے تمام مال کافروں کو دیدیا؟ آپ (ص) نے فرمایا ''کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ اونٹوں کی جگہ پر میں خود تمھارے ساتھ ہوں؟(۱)

یہ تھی حضور (ص) کی سیرت کہ کفار میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے ہیں اور ادھر صحابہ کا امتحان بھی ہو رہا ہے کہ آخر یہ لوگ کتنے پانی میں ہیں، حضور (ص) کا سوال کرنا بتا رہا ہے کہ اصحاب کا تمام ہم وغم صرف وصرف دنیا کے لئے تھا اور بس......

۲۔ حضور اکرم (ص) کی سیرت میں عدالت

سرکار رسالت مآب (ص) اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں رونق افروز منبر ہوئے اور فرمایا کہ جس شخص کا بھی حق میری گردن پر باقی ہو وہ بلا جھجک طلب کر سکتا ہے، تمام مجمع پر خاموشی حاکم تھی ،اسی اثناء میں ایک بدو عرب محفل سے کھڑا ہوا جس کا نام تاریخ نے ''اسودہ بن قیس'' تحریر کیا ہے، کہتا ہے یا رسول اللہ (ص)! آپ کے اوپر میرا ایک حق ہے، سوال کیا کون سا حق؟

جواب دیا کہ آپ جنگ طائف میں تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے ایک تازیانہ میری پشت پر ماردیا تھا، آپ (ص) نے فرمایا ''آئو قصاص لے لو''

____________________

(۱)صحیفۂ امام خمینی: ج۳،ص۲۴۸

۴۱

اس نے کہا نہیں جس وقت آپ نے تازیانہ مار اتھا تو میں اس وقت برہنہ تن تھا، حضور (ص) نے لباس ہٹایا اور اس نے فوراَ آگے بڑھ کر مھر نبوت کا بوسہ لے لیا۔

ہماری بحث اس سے نہیں ہے کہ اس نے یہ کام غلط کیا یا صحیح؟ ایک بوسہ کی خاطر کتنے جھوٹ بولے؟ رسول اسلام (ص) پر کتنی تہمتیں لگائیں؟کس راستے سے منزل مقصود تک پہونچنے میں کامیاب ہوا؟

ہماری بحث یہ ہے کہ حضور اکرم (ص) کی سیرت دیکھئے، خود اپنی ذات کے متعلق اتنی عدالت ہے کہ پیرہن ہٹادیا آئو قصاص لے لو(۱)

۳۔ پیغمبر اسلام (ص) کا عہدو پیما ن

عمّار کہتے ہیں: بعثت سے پہلے میں اور پیغمبر اکرم (ص)، ایک ساتھ بکریاں چَرایا کرتے تھے، ایک روز میں نے حضور (ص) سے کہا کہ یا رسول اللہ (ص)! فلاں جگہ بہت ہریالی ہے، کل بکریوں کولے کر وہیں چلتے ہیں، حضور (ص) نے قبول کر لیا، میں معین وقت پر اس جگہ پہونچا تو میں نے دیکھا کہ حضور (ص) مجھ سے پہلے وہاں پہونچ چکے ہیں لیکن بکریوں کو چَرنے نہیں دے رہے ہیں میں نے سوال کیا کہ آخر آپ بکریوں کو چرنے کیوں نہیں دیتے؟ تو آپ (ص) نے جواب دیا ''میں نے تم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم دونوں اپنی اپنی بکریوں کو ساتھ چَرائیں گے تو تمھاری بکریوں سے پہلے میں اپنی بکریوں کو کیسے اجازت دیتا؟(۲)

اللہ اکبر، ایک معمولی سا کام ہے ، بکریوں کو چَرانا ہے لیکن اس میں بھی عہدو پیمان کی وفا کا اتنا زیادہ خیال؟ (لیکن کیا کہا جائے ان حضرات کو کہ جن کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم سنت رسول (ص) پر عمل کرتے ہیں لیکن غدیر خم کے وعدے کو بھلا بیٹھے)

____________________

(۱)سیرۂ رسول اللہ و آرمان انبیاء الٰہی ،از دید گاہ امام خمینی: ص۸۹

(۲)سیرۂ پیامبر اکرم (ص):ص۲۸

۴۲

۴۔ رسول اسلام (ص) کی تبلیغی سیرت

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی( أنذر عشیرتک الاقربین ) (۱)

یعنی اے میرے رسول آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو عذاب الٰہی سے خوف دلائیئے، تو آپ (ص) نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی(آیت کالہجہ اور حضور (ص) کا عمل، بتا رہا ہے کہ سب سے پہلے تبلیغ کے حقدار اعزاء واقارب ہیں،سب سے پہلے اپنے اہلبیت کو تبلیغ کرو تاکہ دوسرے لوگوں کو انگشت نمائی کا موقع نہ مل سکے)

تاریخ نے دعوت ذوالعشیرہ کے مہمانوں کی تعداد، ۴۵افراد بتائی ہے، کھانا کھلانے کے بعد جیسے ہی رسول اسلام (ص) پیغام سنانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابو لہب (جو آپ (ص) ہی کا چچا تھا) نے فوراَ لوگوں کو بھڑکانا اوراکساناشروع کیا، جس کے نتیجہ میں تمام لوگ اٹھ کر چلے گئے اور آپ (ص) لوگوںتک پیغام نہیںپہونچا سکے، دوسرے دن پھر دعوت دی لیکن پھر وہی نتیجہ ملا، تیسرے دن دعوت کی تو پھر ابو لہب کھڑا ہوا لیکن اب ولایت ورسالت کے حامی ومحامی جناب ابو طالب ـ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا فوراَ کھڑے ہوگئے اور ابو لہب کو ڈانٹا ''اسکت یا اعور'' اے کانے خاموش............. پورے مجمع پر ایسی خاموشی حاکم ہوگئی کہ سوئی بھی گر جائے تو با قاعدہ آواز سنائی دے، تمام لوگوں کے سر اس طرح جھکے تھے کہ گویا تمام سروں پر طائر بیٹھے ہوں کہ اگر ذرا سا بھی سر ہلا یا تو سروں پر بیٹھے ہوئے پرندے اڑ جائیں گے، تمام لوگ انتہائی دریائے حیرت میں غرق، انگشت بدنداں تھے، جناب ابو طالب ـ نے ادھر تو ابو لہب کو ڈانٹا اور ادھر بھتیجے سے فرمایا ''قم یا سیدی ومولای'' اے میرے سید وسردار آپ کھڑے ہوں اور جو کچھ بھی کہنا ہو کہیں، آپ (ص) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے کون ایسا ہے جو میرا وصی وخلیفہ اور جانشین ہو؟ سکوت کے علاوہ کوئی جواب حاصل نہیں ہوا لیکن اسی سکوت کو ایک تیرہ سالہ بچے نے یہ کہکر توڑ ڈالا ''انا یا رسول اللہ'' یا رسول اللہ (ص) علی آپ کی نصرت کے لئے آمادہ ہے، آپ (ص) نے تمام مجمع سے خطاب کیا کہ علی میرا بھائی ، میرا وصی، میرا خلیفہ، میرا وزیر ہے تم پر لازم ہے کہ اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو(۲)

____________________

(۱)سورۂ شعراء/۲۱۴

(۲)آمالی ،شیخ طوسی:ص۵۸۱

۴۳

آپ (ص) نے تین سال تک پوشیدہ طور پر تبلیغ کی یہاں تک کہ حکم خدا وندی نازل ہوا (فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین)(۱)

یعنی اے رسول! جن کاموں پر تمھیں مامور کیا گیا ہے انھیں آشکار کردو اور مشرکین سے پرہیز کرو(ان پر بھروسہ نہ کرو) ہم تمھیں ان کے شر سے محفوظ رکھیں گے۔

حضور (ص) کوہ صفا کے دامن میں خانۂ کعبہ کے کنارے تشریف لائے اور اعلان عام کردیا اور فرمایا کہ اگر تم میری دعوت کو قبول کرلوگے تو دنیاوی حکومت و عزت اور آخرت، سب تمھارا ہے لیکن لوگوں نے آپ (ص) کا مذاق اڑایا

اور جناب ابوطالب ـ کے پاس آکر کہنے لگے کہ آپ کا بھتیجا ہمارے نو جوانوں کو گمراہ کر رہا ہے، اس سے پو چھئے کہ وہ کیاچاہتا ہے؟ اگر اسے دولت چاہیئے تو ہم دولت دینے کو تیار ہیں، اگر عورت درکار ہے تو ہم عورت دینے کو تیار ہیں، اگر منزلت کا خواہاںہے تو منزلت بھی دیدیں گے، جناب ابوطالبـ نے یہ بات رسول اسلام (ص)کو بتائی، رسول اسلام (ص) نے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر آفتاب اور دوسرے ہاتھ پر ماہتاب رکھ دیں تو بھی میں اپنے کام سے باز نہیں آسکتا، کفار نے جناب ابو طالبـ سے چاہا کہ محمد (ص) کو ان کے حوالے کردیں لیکن جناب ابوطالب ـنے قبول نہیں کیا(۲)

آپ (ص) نے تبلیغ کا طریقۂ کار بتایا ہے کہ چاند اور سورج ملنے کے بعد بھی ، میں تبلیغ سے باز نہیں آسکتا(لیکن افسوس! سیرت رسول (ص) کی پیروی کا دم بھرنے والے، عصر حاضر کے مبلغین کو کیا ہو گیا ؟ آخر عقل کو کون سے چوربازار میں بیچ آئے؟ کہ ان کی زبانوں میں چند ڈالر ہی تالا ڈال دیتے ہیں اور وہ بھی ایسا تالا کہ کوئی سی چابھی اسے نہ کھول پائے یا دوسری طرف سے اسلام کے خلاف وہی چند ڈالر، زبان کے دریا کو ایسے بہائو پر لے آتے ہیں کہ محکم سے محکم باندھ بھی اسے نہیں روک پاتا)

____________________

(۱)سورۂ حجر/۹۴

(۲)شرح نھج البلاغہ:ج۱۴،ص۵۴

۴۴

۵۔ حضرت ختمی مرتبت (ص) کی عملی '' Practicaly '' سیرت

یوں توحضرت (ص) کا کوئی بھی ایسا عمل نہیں مل سکتا کہ بغیر انجام دیئے کسی دوسرے کو حکم دیا ہو لیکن حضور (ص) کے دو کام ایسے ہیں جو بہت ہی آشکارا ہیں کہ سب کو معلوم ہو گیا کہ حضرت (ص) نے یہ عمل انجام دیئے ہیں۔

آپ (ص) کا پہلا کام: مدینہ منورہ میں مسجد بنوائی، مسجد بنانے میں آپ (ص) خود بھی کام انجام دیتے تھے اور مسلمان خواتین کے لئے بھی ایک وقت مقرر فرمادیا تھا تاکہ اس ثواب سے خواتین بھی محروم نہ رہیں اور انھیں احساس کمتری نہ ہو۔

آپ (ص) کا دوسرا کام:لوگوں کے درمیان اخوت وبرادری اور بھائی چارگی قائم کی جیسا کہ خدا وند عالم نے حکم دیا تھا( انما المومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم واتقوا الله لعلکم تر حمون ) (۱)

یعنی مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس بھائیوں کے درمیان صلح وآشتی برقرار رکھو اور تقویٰ اختیار کرو امید ہے کہ تم مشمول رحمت الٰہی قرار پائوگے۔

اس آیت میں دو مومنوں کے درمیان تعلقات کو دو بھائیوں کے درمیان رابطہ سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔

۱۔دو بھائیوں کی دوستی، محکم اور عمیق و پائیدار ہے۔

۲۔دو بھائیوں کی دوستی ،دو طرفہ ہے نہ کہ ایک طرفہ۔

۳۔دو بھائیوں کی دوستی، فطرت وطبیعت کا تقاضہ ہے(جس کا مادی دنیا سے کو ئی تعلق نہیں ہے)

۴۔دشمن کے مقابل، دو بھائی ، ایک دوسرے کے لئے قوت بازو ہیں۔

۵۔دونوں بھائیوں کی اصل ایک ہے۔

۶۔اگر ایک مومن دوسرے مومن کو بھائی تسلیم کرے گا تو عفو وبخشش کا جذبہ زیادہ ہوگا اور اس کی خطائوں سے چشم پوشی کرے گا (چونکہ دو بھائیوں کے درمیان ایسا ہی ہوتا ہے)

____________________

(۱)سورۂ حجرات/۱۰

۴۵

۷۔ایک بھائی دوسرے بھائی کی خوشی میں خوش اور اس کے غم میں غمگین و رنجیدہ ہوتا ہے، اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنا بھائی نہیں سمجھتا تو بالکل اس کے بر خلاف نظر آئے گا، اگر ایک مومن خوش ہے تو دوسرا اس کی خوشی سے رنجیدہ ہوگا اور اگر ایک رنجیدہ ہے تو دوسرا اس کے دردوالم سے خوشحال ومسرور ہوگا، اگر ایک بھائی ترقی کے زینوں کو طے کر رہا ہے تو دوسرا بھائی اسے تنزلی کی طرف کھینچتا نظر آئے گااور اگر ایک بھائی پستی کی جانب جا رہا ہے تو بجائے اس کے کہ اسے سہارادیکرترقی کی طرف لا کر اس کا مددگارو معاون ثابت ہو ، گڑھے میں ڈھکیلتا نظر آئے گا۔

روایت میں آیا ہے کہ ''دو بھائی دو ہاتھوں کی مانند ہیںکہ دھوتے وقت ایک دوسرے کا مددگار ثابت ہوتا ہے''(۱)

اس روایت سے یہ صاف ظاہر ہے کہ بھائی اسی کوکہتے ہیں جو دوسرے بھائی کے لئے معاون ومددگار ثابت ہو ، اگر ایسا نہیں ہے تو کچھ بھی ہو، بھائی کہلانے کاحقدار نہیں ہے۔

آغازاسلام میں، رسول اسلام (ص) ،سات سو چالیس افراد کے ساتھ ''نخیلہ نامی مقام پر'' قیام پذیر تھے کہ جبرئیل امین یہ پیغام لے کر نازل ہوئے کہ خدا وند عالم نے فرشتوں کے درمیان برادری قائم کردی ہے یعنی ایک کودوسرے کا بھائی قرار دیا ہے، آپ (ص) نے بھی اپنے اصحاب کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور ایک کو دوسرے کا بھائی بنا دیا جن میں سے چند افراد کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں:۔

____________________

(۱) المحجة البیضائ: ج۳،ص۳۱۹

۴۶

۱۔ابوبکروعمر۔

۲۔عثمان و عبد الرحمن۔

۳۔سلمان و ابوذر۔ ۴۔طلحہ وزبیر۔

۵۔مصعب وابو ایوب انصاری۔

۶۔حمزہ و زید بن حارثہ۔

۷۔ابو درداء وبلال۔

۸۔جعفر طیارو معاذ بن جبل۔

۹۔مقدادوعمار۔

۱۰۔عائشہ وحفصہ۔

۱۱۔ام سلمیٰ و صفیہ۔

۱۲۔اور خود کو حضرت علی ـ کا بھائی قرار دیا(۲)

____________________

(۲)بحار الانوار:ج۳۸،ص۳۳۵

۴۷

جنگ احد میں دو شہید بنام عبداللہ ابن عمر اورعمر ابن جموح ، کہ جن کے درمیان آپ (ص) نے رشتۂ اخوت قائم کیا تھا ، حضور نے حکم دیا کہ ان دونوں کو ایک قبر میں دفن کرو(۱)

اخوت و برادری کا رابطہ صرف مردوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ خواتین کے لئے بھی وارد ہوا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے( وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً ) (۲)

یعنی اخوت و برادری قائم کرو چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔

برادری اور ہمبستگی فقط اور فقط فی سبیل اللہ ہونی چاہیئے ، اگر کوئی انسان کسی کو دنیا کے لئے بھائی بنائے تو اسے اس کی مراد حاصل نہیں ہو سکتی اور قیامت میں ایک دوسرے کے دشمن بھی ہو جائیں گے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے..............

( الاخلاء یو مئذ بعضهم لبعض عدو الا المتقین ) (۳)

ہوشیار ہوجائو! (جو لوگ دنیاوی غرض سے بھائی اور دوست بنتے اور بناتے ہیںوہ) قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیز گارں گے(یعنی جن لوگوں نے خدا کے لئے دوستی وبرادری قائم کی تھی وہی فائدہ میں ہیں )

امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''مومن، مومن کا بھائی ہے، یہ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک جسم کا ایک حصہ بھی اذیت وتکلیف میں ہوتا ہے تو پورے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے''(۴)

یعنی بھائی وہی ہے جو اپنے بھائی کی تکلیف کا احساس کرے ۔

____________________

(۱)شرح نھج البلاغہ: ابن ابی الحدید معتزلی،ج۱۴،ص۲۱۴۔ بحارالانوار:ج۲۰،ص۱۲۱

(۲)سورۂ نسائ۱۷۶

(۳)سورۂ زخرف۶۷

(۴) اصول کافی:ج۲،ص۱۳۳

۴۸

مشہورو معروف فارسی شاعر جناب سعدی شیرازی صاحب اس حدیث کو اپنے اشعارر میں اس طرح قلم بند کرتے ہیں۔

بنی آدم اعضای یک پیکرند

کہ در آفرینش ز یک گوہر ند

چو عضوی بہ درد آورد روزگار

دگر عضوھا را نماند قرار

تو کز محنت دیگران بی غمی

نشاید نامت نہند آدمی(۱)

یعنی بنی نوع انسان ،ایک جسم کی مانند ہیں جو ایک ہی گوہر سے پیدا ہوئے ہیں، جب جسم کے کسی ایک حصہ میں درد ہوتا ہے تو جسم کا کوئی حصہ بھی قرار نہیں پاتا، ہر حصہ بے چین ومضطرب اور پریشان رہتا ہے، اگر تم دوسروں کی زحمت اور تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے تو تم آدمی کہلانے کے لائق نہیں ہو۔ یا ایک اردو شاعر اس طرح قلمبند کرتا ہے:۔

انس سے انساں بنا گر انس ہی اس میںنہ ہو

آدمی وہ ہو تو ہو انسان ہو سکتا نہیں

جناب سعدی شیرازی کہہ رہے ہیں کہ تم آدمی کہلانے کے لائق نہیں ہو لیکن اردو شاعر ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ تم آدمی کہلائو لیکن انسانیت کا خواب مت دیکھنا چونکہ انسانیت کا تمھارے اندر دوردور تک نام ونشان نہیں ہے۔

____________________

(۱)گلستان سعدی۔ دیوان سعدی شیرازی

۴۹

۶۔ حضرت (ص) کی نظر میں حقوق برادری

جب ایک مومن نے دوسرے مومن کو بھائی مان ہی لیا ہے تو اب ظاہر ہے کہ اس کے حقوق کی بھی رعایت کرنی پڑے گی (قانون کا النگھن ضروری ہے)

رسول اسلا م (ص) فرماتے ہیں: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کی گردن پر تیس حق ہیںکہ جن کا ادا کرنا واجب ہے، ان میں سے چند حقوق مندرجہ ذیل ہیں:۔

۱۔اس کے ساتھہ عفووبخشش اور مہربانی کے ساتھہ پیش آئے۔

۲۔اس کے رازاں کو مخفی رکھے۔

۳۔اس کی خطائوں کا جبران کرے۔

۴۔اس کے عذرو معذرت کوقبول کرے۔

۵۔اس کے دشمنوں اور بد خواہوں سے اس کا دفاع کرے۔

۶۔اس کے بارے میں اچھا سوچے۔

۷۔اس سے کئے وعدوں کی وفا کرے۔

۸۔اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کی مزاج پرسی کرے۔

۹۔اگر وہ مر جائے تو اس کی تشییع جنازہ میں شرکت کرے۔

۱۰۔اس کی دعوت اور اس کے تحفہ کو قبول کرے۔

۱۱۔اس کے تحفہ کے بدلہ میں اس سے بہترین تحفہ دے۔

۱۲۔اس کی خدمتوں کا شکریہ ادا کرے۔

۱۳۔اس کی مدد کرنے کی کوشش کرے۔

۵۰

۱۴۔اس کی عزت وناموس کی حفاظت کرے۔

۱۵۔اس کی حاجت روائی کرے۔

۱۶۔اس کی مشکل حل کرنے میں وسیلہ بنے۔

۱۷۔اس کے سلام کا جواب دے۔

۱۸۔اس کی قسم قبول کرے۔

۱۹۔اس کے دوست کو بھی دوست رکھے۔

۲۰۔اس کی گفتگو کا احترام کرے۔

۲۱۔اس کو حوادثات میں تنہا نہ چھوڑے۔

۲۲۔جو کچھہ اپنے لئے چاہے وہ اس کے لئے بھی چاہے۔(۱)

۷۔ حضور (ص) کی سیرت باعث محبوبیت

آپ (ص) کی سیرت ،خلّاق دوجہاں کو اتنی زیادہ پسند آئی کہ اپنا محبوب بنا لیا اور آپ (ص) کا لقب حبیب اللہ پڑ گیا، اور جہان اسلام بڑی شان وشوکت کے ساتھہ آپ (ص) کے اس لقب پر فخرو مباہات کرکے نعت شریف پڑھتا نظر آتا ہے ۔جب خدا وند عالم نے آپ (ص) کو اپنا محبوب بنالیا تو یہ ظاہر سی بات ہے کہ محبوب سے متعلق ہر چیز محبوب ہوجاتی ہے اس کی ہر ادا دل میں جگہ بناتی ہے، آنکھوں میں سما جاتی ہے لہٰذا۔

۱۔جب آپ (ص) کو بچپن کے عالم میں دیکھا تو فرمایا:( ألم یجدک یتیمافأویٰ ) (۱)

____________________

(۱)بحار الانوار:ج۷۴،ص۲۳۶

(۱)سورۂ ضحیٰ/۶

۵۱

یعنی اے میرے رسول (ص) کیا جب ہم نے تمھیں یتیم پایا تو تمھارے لئے پناہگاہ کا انتظام نہیں کیا؟تمام تفاسیر کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت سے جناب ابو طالب ـ کی جانب اشارہ ہے چونکہ جب آپ (ص) یتیم تھے تو آپ (ص) کی پناہ گاہ جناب ابو طالب ـکے علاوہ کوئی نہیں تھی ۔

۲۔آپ (ص) کو وطن میں دیکھا تو فرمایا:( لا اقسم بهٰذا البلد وانت حل بهٰذا البلد ) (۲)

یعنی اے میرے رسول میں اس شہر پر عذاب نازل کر ہی نہیں سکتا جب تک کہ تم اس شہر میں ہو ، مجھے یہ گوارہ نہیں ہے کہ جس شہر میں رحمة للعالمین ہو اس پر عذاب نازل کروں۔

۳۔آپ (ص) کو سفر کی حالت میں دیکھا تو فرمایا:( ووجدک ضالا فهدی ٰ ) (۳)

یعنی اے میرے حبیب کیا ہم نے تمھاری گمراہیوں میں ہدایت نہیں کی؟یہ مسئلہ پیچیدہ ہے کیونکہ آپ (ص) تو دونوں عالم کے رہبر بناکر بھیجے گئے تھے پھر آپ (ص) کو ہدایت کی ضرورت کیا معنی؟مراد یہ ہے کہ جب آپ (ص) کسی مسئلہ میں مشوش ہوتے تھے تو خدا وند عالم آپ (ص) کی ہدایت و رہنمائی کرتا تھا کہ ایسا کرو یہ بہتر ہوگا وغیرہ......

۴۔آپ (ص) کی حیا کو دیکھا تو فرمایا:( فیستحی منکم ) (۴)

اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ میرا رسول تم میں سب سے زیادہ حیا دار ہے۔

____________________

(۲)سورۂ بلد/۱،۲

(۳)سورۂ ضحیٰ۷

(۴)سورۂ ضحیٰ/۷

۵۲

۵۔آپ (ص) کی ضیا کو دیکھا تو فرمایا:( وداعیا الیٰ الله بأذنه و سراجا منیرا ) (۱)

میرا رسول تمھیں میری طرف دعوت دینے والا اور تمھارے لئے راہ ضلالت و گمراہی میں چراغ ہدایت ہے۔

۶۔آپ (ص) کی عبا کو دیکھا تو فرمایا:( یا ایهاالمدثر ) (۲)

اللہ اکبر...آپ (ص) نماز کی حالت میں جو کمبلی اوڑھے تھے وہ بھی خدا کو اتنی پسند آئی کہ آپ (ص)کا لقب قرار دیا ''اے کمبلی اوڑھنے والے رسول''

۷۔آپ (ص) کے کردار کو دیکھا تو فرمایا:( انک لعلیٰ خلق عظیم ) (۳)

یعنی اے میرے حبیب آپ خلق عظیم پر فائز ہیں، جیساکہ ہم نے پہلے بھی اس کی کئی مرتبہ تکرار کی ہے کہ آپ (ص) کو ہمارے لئے نمونۂ عمل( Ideal ) بناکر بھیجا گیا ہے اور خدا وند عالم اس بات سے یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ میرے حبیب کے جیسا کسی کا اخلاق نہیں ہے لہٰذا اگر تمھیں نمونے کی ہی تلاش ہے تو میرے حبیب کو ہی نمونہ بناناچونکہ یہی ایک ایسی شخصیت ہے جو نمونۂ عمل( Ideal ) بننے کے قابل ہے ورنہ باقی تو سب ایسے ہی ہیں جیسے آب رواں پر حباب۔

۸۔آپ (ص) کی رفتار کو دیکھا تو فرمایا:( انک علیٰ صراط مستقیم ) (۴)

اس آیت سے اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر تمھیں صراط مستقیم چاہیئے تو میرے حبیب کی راہ اپنائو یہی صراط مستقیم ہے۔

____________________

(۱)سورۂ احزاب/۴۶

(۲)سورۂ مدثر/۱۱

(۳)سورۂ قلم/۴

(۴)سورۂ زخرف/۴۶

۵۳

۹۔آپ (ص) کے پرستار کو دیکھا تو فرمایا:( رحماء بینهم ) (۵)

اشارہ ہے جناب ابو طالب ـ کی طرف کہ آپ کے جیسا کوئی پرستار اور نگہبان نہیں وہ تو دوسرے لوگوں کے لئے بھی رحم دل انسان ہے۔

۱۰۔آپ (ص) کے یار کو دیکھا تو فرمایا:( اشداء علیٰ الکفار ) (۶)

اشارہ ہے مولا علی ـ کی ذات گرامی کی جانب کہ یہ میری عبادت میں اتناغرق ہے کہ اسے میرے سوا کچھ نظرہی نہیں آتا اور میرے دشمنوں کے مقابلہ میں بہت شدید ہے ، ان کو معاف نہیں کرے گا سوائے اس کے کہ ان کی نسلوں میں کوئی محمد و آل محمدکا شیعہ آنے والاہو۔

۱۱۔آپ (ص) کی اصالت کو دیکھا تو فرمایا:( اصلها ثابت ) (۱)

اشارہ ہے آپ (ص) کے شجرۂ نسب کی جانب کہ آپ (ص) کے شجرہ میں کسی قسم کے شک وتردد کی گنجائش نہیں ہے (وہ اور ہوں گے جن کا شجرۂ نسب معلوم ہی نہیں دور جانے کی ضرورت نہیں صرف باپ کو دیکھا جائے تو باپ نہیں ملتا)

۱۲۔آپ (ص) کی سیادت کو دیکھا تو فرمایا:( یٰس والقرآن الحکیم ) (۲)

یعنی آپ (ص) کو اتنا پاک و پاکیزہ اور طاہر پایا کہ یٰس جیسے لقب سے نوازا۔

۱۳۔آپ (ص) کی طہارت کو دیکھا تو فرمایا:( طٰه ما انزلنا علیک القرآن لتشقیٰ) ( ۳)

یعنی اے میرے طاہر و پاک طینت حبیب ہم نے اپنی عبادت اس لئے واجب قرار نہیں دی کہ تم خود کو مشقت میں ڈالو۔

____________________

(۵)سورۂ فتح/۲۹

(۶)سورۂ فتح/۲۹

(۱)سورۂ ابراہیم/۲۴

(۲)سورۂ یٰس/۱

(۳)سورۂ طٰہ/۱

۵۴

۱۴۔آپ (ص) کی فصاحت کو دیکھا تو فرمایا:( خلق الانسان علمه البیان ) (۴)

یعنی خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا پھر اسے واضح طور پر تعلیم دی، یعنی ایسی تعلیم دی جس میںپیچیدگی کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔

۱۵۔آپ (ص) کی سخاوت کو دیکھا تو فرمایا:( لاتبسطها کل البسط ) (۵)

یعنی آپ (ص) کا ہاتھ اتنا زیادہ کھلا ہوا کہ دنیا بھر کے کتنے بھی ہاتھ کھل جائیں آپ (ص) کی برابری نہیں کر سکتے۔

۱۶۔آپ (ص) کے علم پر نظر پڑی تو فرمایا:( علمک مالم تکن تعلم ) (۶)

اشارہ ہے کہ اے رسول! ہم نے آپ (ص) کو ایسی تعلیم دی کہ کسی کو بھی ایسی تعلیم نہیں دی گئی اور نہ ہی تا قیام قیامت دی جائے گی۔

۱۷۔آپ (ص) کے حلم کو دیکھا تو فرمایا:( ویعفو عن کثیر ) (۱)

یعنی میرا رسول اتنا حلیم وبرد بار ہے کہ اکثر اوقات اس کے اندر انتقام کا جذبہ نہیں رہتا بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا ہے معاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

۱۸۔آپ (ص) کے نور کو دیکھا تو فرمایا:( مثل نوره کمشکاة فیها مصباح ) (۲)

یعنی میرے رسول کا نور، اس نور کی طرح ہے کہ جیسے چراغ قندیل میں رکھا ہو اور دھیمی دھیمی روشنی باہر آرہی ہو جو انسان کے دل کو لبھاتی ہے۔

____________________

(۴)سورۂ رحمن/۳،۴

(۵)سورۂ اسراء/۲۹

(۶)سورۂ نساء/۱۱۳

(۱)سورۂ مائدہ/۱۵

(۲)سورۂ نور/۳۵

۵۵

۱۹۔آپ (ص) کے حسین چہرۂ مبارک کو دیکھا تو فرمایا:( والشمس وضحا ها ) (۳)

آپ (ص) کے تابناک چہرہ (سورج) اور اسکی روشنی کی قسم۔

۲۰۔آپ (ص) کی زلفوں کو دیکھا تو فرمایا:( واللیل اذا یغشاها ) (۴)

آپ کی زلف(رات) کی قسم جو زمانہ پر تاریکی پھیلا دیتی ہے۔

۲۱۔آپ (ص) کے دست مبارک کو دیکھا تو فرمایا:( وما رمیت اذ رمیت ولٰکن الله رمیٰ ) (۵)

اللہ اکبر....اے میرے رسول! یہ کنکریاں جو تم نے پھینکی ہیں یہ تم نے نہیں پھینکیں بلکہ ہم نے پھینکی ہیں ، یہ فعل تمھارے ہاتھوں سے انجام پایا لیکن یہ کام ہمارا ہے، تم میری صفات کے مظہر ہو، اس لئے میں نے یہ کام تمھارے ہاتھوں سے انجام دلوایا۔

۲۲۔آپ (ص) کے قدم مبارک کو دیکھا تو فرمایا:( دنیٰ فتدلیٰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ ) (۱)

اشارہ ہے واقعہ معراج کی جانب، جب رسول اسلام (ص) کو حکم ہوا تھا کہ اے میرے رسول چلے آئو چلے آئو بڑھتے رہو میری جانب بڑھتے رہو ''میرے رسول آئیے اور قریب آئیے'' یہاں تک کہ حضور اکرم (ص) اتنے قریب ہوئے اتنے قریب ہوئے کہ جبرئیل نے بھی ساتھ چھوڑ دیا جوکہ خدا وند عالم کا مقرب ترین فرشتہ تھااور حضور (ص) اتنا نزدیک ہوئے کہ کوئی مقدار نہیں بتائی گئی کہ کتنے قریب ہوئے دوکمان یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا (میں آگے کچھ نہیں کہوں گا کہ کس شخص یا کس چیز سے قریب ہوئے ایسا نہ ہو کہ کوئی الزام لگ جائے)

____________________

(۳)سورۂ شمس/۱

(۴) سورۂ شمس/۴

(۵)سورۂ انفال/۱۷

(۱)سورۂ نجم/۸،۹

۵۶

۲۳۔آپ (ص) کے سینہ مبارک کو دیکھا تو فرمایا:( ألم نشرح لک صدرک؟) (۲)

اے میرے حبیب کیا ہم نے تمھارے سینہ کو کشادہ نہیں کیا؟ (شاید اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر ہم تمھارے سینہ کو کشادہ نہ کرتے تو تم آسمانی کتاب ''قرآن کریم''کا وزن کس طرح اٹھاتے؟ چونکہ قرآن وہ عظیم کتاب ہے کہ اگر ہم اسے پہاڑوںپر نازل کردیتے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے۔

۲۴۔آپ (ص) کی پشت مبارک کو دیکھا تو فرمایا:( ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظهرک ) (۳)

اور کیا ہم نے تمھاری اس پشت کا وزن (علی ـ کے ذریعہ) ہلکا نہیں کیا جو وزن سے ٹوٹی جارہی تھی؟

۲۵۔آپ (ص) کے بیت الشرف پر نظر پڑی تو فرمایا:( فی بیوت اذن الله ان ترفع ) (۴)

گھروں میں سب سے اعلیٰ وارفع آپ (ص) کے بیت مبارک کوقرار دیا گیا۔

۲۶۔آپ (ص) کے اہلبیت (ع) کو دیکھا تو فرمایا:( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا ) (۵)

اے اہل بیت اللہ کا یہ ارادہ ہے کہ ہر نجاست وکثافت کوتم سے اسطرح دور رکھے جو دور رکھنے کا حق ہے۔

۸۔ سنت رسول اسلا م (ص) کی جگہ بدعتوں کا رواج

معاویہ علیھا الھاویہ نے سنت رسول (ص) کو نیست ونابوداور بدعتوں کے رائج کرنے کے لئے بھر پور کوششیں کی ہیں تاریخ نے ان میں سے چند کا تذکرہ کیا ہے جو یہاں بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں، معاویہ وہ شخص ہے

____________________

(۲)سورۂ انشراح/۱

(۳)سورۂ انشراح/۲،۳

(۴)سورۂ نور/۳۶

(۵)سورۂ احزاب/۳۳

۵۷

جس نے سنت رسول (ص) کی جگہ بدعتوں کو رائج کیا..........

۱۔مسلمانوں میں زنا اور بد کاری کو عام کیا۔

۲۔سود کو حلال قرار دیا۔

۳۔سفر میں نماز قصر پڑھنے کی جگہ پوری نماز ادا کی۔

۴۔نماز عیدین میں اذان کہی۔

۵۔دو سگی بہنوں سے ایک وقت میںشادی کو حلال قرار دیا۔

۶۔دیت میں تبدیلی کرکے اس میں سنت کے بر خلاف اضافہ کیا۔

۷۔رکوع سے پہلے اور بعد میں تکبیر کہنی چھوڑدی۔

۸۔نماز عیدین میں خطبوں کو نماز سے پہلے (نماز جمعہ کی طرح)پڑھا۔

۹۔ناجائز اولاد کے حکم کو نقض کیا۔

۱۰۔انگھوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنی۔

۱۱۔حضرت علی ـ پر سب وشتم کا آغاز کیا اور اسے با قاعدہ رائج کیا۔

۱۲۔بیت المال کو تحریف قرآن میں خرچ کیا۔

۱۳۔پیغمبر (ص) کے عادل صحابہ کو قتل کیا۔

۱۴۔اہل بیت (ع) کی پیروکار خواتین کو قتل کیا۔

۱۵۔اسلامی خلافت کو بادشاہت میں تبدیل کیا۔

۱۶۔ریشمی لباس پہنا اور چاندی سونے کے برتن میں پانی پیا۔

۱۷۔حرام موسیقی سنی اور اس پر رقم خرچ کی(۱)

____________________

(۱)الغدیر:ج۱۱،ص۷۲۔ نوٹ:۔علامہ امینی مرحوم نے ۲۷ مقامات شمار کئے ہیں تفصیل کے لئے اسی حوالہ پر مراجعہ فرمائیں۔

۵۸

دور حاضر میں بھی سیرت رسول (ص) کی پامالی کے متعلق بہت زیادہ ناکام کوششیں کی جارہی ہیں لہٰذا:

ہمارا فریضہ ہے کہ آنحضرت (ص) کی سیرت طیبہ کے احیاء میں ''رات دن'' کوشاں رہیں تاکہ محشر میں حضور (ص) کے سامنے خجالت وشرمندگی سے محفوظ رہ سکیں اور فخر کے ساتھ حضرت سے کہیں کہ یا رسول اللہ (ص) ہم پر بھی ایک نظر کرم کیجئے، ہماری شفاعت فرمائیئے ہم آپ (ص) کی سنت کے احیاء میں زندگی بسر کرکے آئے ہیں ۔

خدا وند عالم کے فرستادہ نمونہ اور آئیڈیل( Ideal )حضرت ختمی مرتبت (ص) نے اپنے اخلاق کے ذریعہ دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا ہے کہ شمشیر ظلم سے سروں پر تو حکومت ہو سکتی ہے ،دلوں پر حکومت نہیں کی جا سکتی ۔

اگر دلوں پر حکومت کرنی ہے تو اس کا صرف ایک ہی اسلحہ ہے اور وہ ہے ''اخلاق''

۵۹

خلاصہ

یوںتو سرکار رسالت مآب (ص) کی سیرت کوبیان کرنا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے چونکہ عقل ناقص، عقل کامل کو کس طرح درک کرسکتی ہے؟ آخر دریا کو ایک کوزہ میں سمانا چاہیں گے تو کس طرح سما سکتے ہیں،لیکن جو کچھ ناکام کوشش کی گئی ہے اسی کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

بعثت کا ھد ف

جس طرح تمام انبیاء کا روی زمین پر آنا مقصد اور ہدف سے خالی نہیں ہے اسی طرح ہمارے آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفےٰ (ص) کی بعثت کا بھی ایک مقصد ہے اور وہ ہے ''اشرف المخلوقات کی بہترین تربیت'' حضور (ص) کو خدا وند عالم نے اسی وجہ سے روی زمین پر بھیجا تھا کہ تمام انسانوں کو منزل کمال اور سعادت سے ہمکنار کریں، چونکہ انسان ہی تمام مخلوقات میں اشرف ہے اور تمام مخلوقات کے نچوڑکو انسان کہا جاتا ہے، لہٰذا اگر ہر انسان اپنی اصلاح کر لے تو خود بخود پورے معاشرے کی اصلاح ہو جائے گی اور اگر ایک انسان فاسداورفاسق وفاجر ہو تو معاشرہ پر اپنا رنگ چڑھا دیتا ہے چونکہ ''ایک مچھلی تالاب کو گندا کرتی ہے''

جناب آدم ـ سے لے کر حضرت ختمی مرتبت (ص) تک، ہر نبی کی یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کو کمال وسعادت کی منزلیں طے کرائے، انھیں صراط مستقیم پر گامزن کرے، نہ یہ کہ صرف راستہ بتادے۔

۶۰