''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں 0%

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 70

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

مؤلف: سید غافر حسن رضوی چھولسی "ھندی"
زمرہ جات:

صفحے: 70
مشاہدے: 32265
ڈاؤنلوڈ: 3935

تبصرے:

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 70 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32265 / ڈاؤنلوڈ: 3935
سائز سائز سائز
''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

مؤلف:
اردو

۱

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

مصنف: سید غافر حسن رضوی چھولسی "ھندی"

ماخذ:شیعہ نیٹ

۲

حرف آغاز

ہمارا موضوع، اخلاق وسیرت حضرت ختمی مرتبت (ص) ہے یعنی ہم حضور سرورکائنات (ص) کی سیرت پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں لیکن دل ودماغ حیران وپریشان ہیں کہ آخر اس شخصیت کی سیرت پر روشنی کس طرح ڈالیں، جوخود آفتاب ہوبلکہ جس کی ڈیوڑھی پر آفتاب بھی سجدہ کرتا ہو، ماہتاب اس کے اشاروں پر چلتا ہو، ہماری گنہگار زبان یا ہمارا نا قص قلم، اس عقل کامل کی مدح وثنا کس طرح کرے، جس کی تعریف میں کل ایمان، امیر کائنات علی ابن ابی طالب ٭ رطب اللسان ہیں، جس کی تعریف سے قرآن کریم مملو ہے،جس کی تعریف خدا وند عالم کرتا نظر آتا ہے،جس کو خدا وند عالم نے آسمانوں کی سیر کرائی اور براق جیسی سواری کے ذریعہ ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا اور قرآن کریم اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے( سبحان الذی اسریٰ بعبده لیلا من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ ) (۱)

یعنی پاک وپاکیزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو سیر کرائی راتوں رات، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔

وہ پیغمبر کہ جو محبت و الفت کا ایک جہان ہے اور کہیں تو اتنی زیادہ محبت کا اظہار کیا کہ انسانی عقل سوچنے پر مجبور ہو گئی ایک مرتبہ آپ (ص) وضو فرمارہے ہیں ،آپ (ص)کی نگاہوں نے دیکھا کہ ایک بلی ہے کہ جوپیاس کی شدت سے زبان نکالے ہوئے ہے حضور (ص) نے وضو چھوڑ کر وہ پانی بلی کے سامنے رکھہ دیا تاکہ وہ اس پانی کے ذریعہ اپنی پیاس بجھا سکے۔

____________________

(۱)سورۂ اسراء/۱

۳

حضور (ص) دشمن کے مقابلہ میں پہاڑ سے بھی زیادہ مستحکم ومضبوط تھے اور دوست کے ساتھ پانی سے بھی زیادہ نرم ورواں ،اپنے ذاتی حق کے متعلق، اپنے جانی دشمن کو بھی معاف کردیتے تھے اور جب انصاف وقانون کی بات آتی ہے تو فرماتے ہیں ''خدا کی قسم اگر میری پارۂ جگر ''فاطمہ زہرا '' بھی یہ کام انجام دیتی تو میں اسے بھی وہی سزا دیتا جو معبود نے مقرر فرمائی ہے۔

جس زمانہ میں ایسا نفسا نفسی کا عالم تھا کہ ایک شخص کے قتل ہوجانے پر پورا قبیلہ انتقام کے لئے قیام کرتا تھا اور نہ جانے کتنے بے گناہ انسانوں کو جان سے ہاتھہ دھونا پڑتا تھااور بے رحمی اس درجہ تک پہونچ چکی تھی کہ معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں کیا جاتا تھا، ایسے دورمیں حضور (ص) فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے حیوان کو اذیت دے گا (چاہے وہ حج کے راستے میں ہو) وہ عادل نہیں ہے اور اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے چونکہ جو انسان حیوان کو تکلیف دیتا ہے وہ سنگدل ہوتا ہے اور سنگدل کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی(۱) یہاں ایک سوال سراٹھاتا ہے کہ آخر حضور (ص) کو کیا ضرورت تھی کہ ایسے احکام نافذ کریں؟تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ چونکہ حضور (ص) کا یہ وظیفہ تھا کہ زندہ انسانوں کے لبادہ میں مردہ مجسموں کو نعمت حیات سے مالا مال کریںاور خود خدافرماتا ہے (فأ ستجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم)(۲)

یعنی جب تمھیں اللہ ورسول حیات کی طرف دعوت دیں تو تمھارا یہ وظیفہ ہے کہ ان کی آواز پر لبیک کہو، چاہے کتنے ہی سنگدل سہی خدا ورسول کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا ورنہ زمرۂ اسلام سے خارج۔

اور دوسری جگہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے( من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰه ) (۳)

یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی،( ما ینطق عن الهویٰ ان هو الا وحی یوحیٰ ) (۴)

رسول (ص) اپنی ھواوھوس سے کچھہ کلام نہیں کرتے بلکہ یہ تو وہی کہتے ہیں جو وحی کہتی ہے۔

____________________

(۱)سیرہ پیامبر اکرم (ص): ص۱۶،۱۷

(۲)سورۂ انفال/۲۴

(۳)سورۂ نساء/۸۰

(۴)سورۂ نجم / ۳ ،۴

۴

اس رسول کی شان میں کیا کہا جائے جس کی ولادت نے دنیائے کفر کو تہ وبالاکردیا، فارسی آتشکدہ گل ہوگیا، قیصرو کسریٰ کے کنگرے ٹوٹ ٹوٹ کر گر گئے ۔

عظمت اتنی زیادہ کہ خدانے اپنا مہمان بنایا اور انکساری اس حد تک کہ غلاموں کے ساتھہ کھانا کھا رہے ہیں، کیا حضور (ص) کی عظمت کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ براق جیسی سواری کے ذریعہ آسمانوں کی سیر کرائی گئی؟ اور انکساری یہ کہ...... بغیر زین کے خچر پر سواری کریں۔

آپ (ص)کی عظمت یہ ہے کہ جبرئیل امین خدا کا سلام لیکر نازل ہوتے ہیں اور انکساری اس درجہ تک کہ مکہ کے بچّوں کو سلام کرنے کا موقع نہیں دیتے، جدھر سے بھی حضور (ص) کا گذر ہوتا تھا، بچّے چھپ جاتے تھے کہ ہم حضور (ص) کو سلام کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ حضور ہمیں پہلے ہی سلام کر لیں(۱)

____________________

(۱)سیرۂ پیامبر اکرم: ص۱۶ تا ۱۸

۵

پہلی فصل

۱۔اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف

خلق: اس کا مادہ(خ،ل،ق) ہے اگر ''لفظ خ'' کے اوپر زبر پڑھیں یعنی خَلق پڑھیں تو اس کے معنی ہیں ظاہری شکل وصورت اور اگر ''خ'' پر پیش پڑھیں یعنی ''خُلق '' پڑھیںتو باطنی اور داخلی ونفسانی شکل وصورت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاََ اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں انسان خُلق وخَلق دونوں اعتبار سے نیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ظاہری صورت بھی اچھی ہے اور باطنی صورت بھی، جس طرح انسانوں کی ظاہری شکل وصورت مختلف ہوتی ہے اسی طرح باطنی شکل وصورت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے(۱)

خُلق : انسان کے اس نفسانی ملکہ کو کہا جاتا ہے، جو اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان بغیر فکرو تأمل اور غورو خوض کے، خاص افعال انجام دے(یعنی نفسانی کنٹرول' Control 'کے ذریعہ بہترین کام انجام دینے کو خُلق کہا جاتا ہے(۲)

الخُلق: السجیہ، یعنی عادت و طور طریقہ(۳)

____________________

(۱)اخلاق شبر:ص۳۱

(۲)آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج۱،ص۱۵

(۳)(لسان اللسان:ج۱،ص۳۶۳)

۶

الخَلق والخُلق: فی الاصل واحد کا الشَرب والشُرب لٰکن خُصَّ الخَلق باالهیأت والصور المدرکة بالبصر وخُصَّ الخُلُق بالقویٰ والسجایا المدرکة بالبصیرة (۱)

یعنی خَلق اور خُلق در اصل ایک ہی ہیں لیکن َخَلق مخصوص ہے ظاہری شکل وصورت سے اور خُلق کو مخصوص کردیا گیا باطنی اور معنوی شکل وصورت سے۔

الخلیق والخلقة: کریم الطبیعة والخلیقة والسلیقة اعنی هو باالطبیعة (۲)

نیک طبیعت و نیک خلقت(پاک طینت اور نیک طبیعت انسان کو خلیق کہا جاتا ہے)

الخلیق والمختلق:حسن الخلق (۳)

یعنی ! بہترین اخلاق کو خلیق و مختلق کہتے ہیں۔

خلیق وخلیقہ و خلائق:سزاوار، خوی گر، طبیعت، خو(۴)

یعنی لائق ور اورخوش طبیعت انسان کو خلیق کہا جاتا ہے۔

الخَلاق: مااکتسبه الانسان من الفضیلة بخلقه (۵)

یعنی جو کچھہ انسان، اپنے اخلاق کے ذریعہ فضیلت حاصل کرتا ہے اس کو خَلاق کہا جاتا ہے۔

____________________

(۱)مفردات راغب:ص۲۹۷

(۲)لسان العرب:ج۴،بحث خ الیٰ د

(۳)لسان اللسان:ج۱،ص۳۶۳

(۴)المنجد عربی فارسی:ج۱،ص۵۰۴، مادہ خ،ل،ق،

(۵)مفردات راغب:ص۲۹۷

۷

خَلاق: نصیبی از خیر(۱)

یعنی خیر اور نیکی کا کچھہ حصہ ۔

خِلاق وخلوق:نوعی از بوی خوش(۲)

یعنی خوشبو اور اچھی خو، مثلاََ کہا جاتا ہے کہ فلاں انسان میں آدمیت کی خو بھی نہیں پائی جاتی، مراد یہ ہے کہ اس کی رفتارو گفتار اچھی نہیں ہے۔

۲۔ تعریف علم اخلاق

علم اخلاق وہ علم ہے جو انسان کو فضیلت اور رذیلت کی پہچان کراتا ہے(کون سا کام اچھا ہے کون سا کام برا ہے، جو انسان کو یہ سب بتائے اس علم کو علم اخلاق کہا جاتا ہے)(۳)

اخلاق: عربی گرامر کے اعتبار سے اخلاق ''افعال'' کے وزن پر ہے اور ''خُلق'' کی جمع ہے، خُلق :انسان کی نفسانی خصوصیات کو کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے خَلق ، انسان کے بدن کی صفات کو کہا جاتا ہے(۴)

اخلاق :۔ لغت کے اعتبار سے خلق کی جمع ہے جس کے معنی ہیں :طبیعت ،مروت،عادت(۵)

اخلاق: روش، شیوہ، سلوک(۶) یعنی طور طریقہ اور رفتار و گفتار کو اخلاق کہتے ہیں۔

پیغمبر اسلام (ص) خدا وند منان سے دعا فرماتے ہیں:''اللّهم حَسِّن خُلقی کما حَسّنت خَلقی'' (۷)

____________________

(۱،۲)المنجد عربی فارسی:ج۱،ص۵۰۴

(۳)آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج۱،ص۱۷

(۴) آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج۱،ص۱۵

(۵)المنجدعربی اردو :ص۲۹۴

(۶)المنجد عربی فارسی:ج۱،ص۵۰۴

(۷) بحار الانوار:ج۹۷، ص۲۵۳

۸

یعنی پالنے والے! میرے خُلق کو بھی اسی طرح بہتر قرار دے جس طرح میرے خَلق کو بہتر بنایا ہے(یعنی جس طرح میری خلقت، نیک طینت ہے اسی طرح میرے اخلاق کو بھی اخلاق حسنہ قرار دے)

جب کبھی یہ کہا جائے کہ فلاں شخص کا اخلاق بہت بہتر ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انسان ، نفسانی اعتبار سے صفات حسنہ(بہتر صفات) کا مالک ہے۔

انسان کے تمام اعمال، نفسیاتی خصوصیات پر موقوف ہیں یعنی اگر انسان کا اخلاق اچھا اور نیک ہوگا تو اسکے اعمال بھی اچھے ہوں گے اسی لئے جب بھی کوئی انسان اچھے کام انجام دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا اخلاق بہت اچھا ہے(۱)

سیرت : لغوی اعتبار سے :عادت،طریقہ،طرز زندگی کے معنی میں ہے(۲)

سیرت:روش و طریقہ، ھیأت،(۳)

حمدت سیرتہ: او نیکو روش و خوب کردار است، کسی کہ دل پاک ونیت صاف داشتہ باشد افعال وروش او محمود و پسندیدہ می شود(۴)

یعنی سیرت کے معنی رفتار اور طور طریقے کے ہیں، بطور نمونہ ایک مثال پیش کی گئی ہے جس کے معنی ہیں کہ وہ انسان اچھے کردار کا ہے اور اس کی رفتار و گفتار اچھی ہے، جس کا دل پاک ہو اور نیت صاف ہو تو اس کے افعال اور چال چلن انسان دوست ہوتے ہیں یعنی اس کے کاموں کو ہر انسان پسند کرتاہے اور اس کی تعریف کرتا ہے۔

____________________

(۱)آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج۱،ص۱۵

(۲)المنجدعربی،اردو:ص۵۰۶

(۳)المنجد عربی فارسی:ج۱،ص۵۰۴

(۴)المنجد عربی فارسی:ج۱،ص۵۰۴

۹

دوسر ی فصل

اخلاق ،قرآن کی روشنی میں

خُلُق:( انّ هٰذا الا خُلُق الاولین ) (۱)

یعنی بے شک یہ راستہ وہی پہلے والوں کا راستہ ہے، آیۂ کریمہ میں خُلُق سے مراد راستہ لیا گیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ ،گذرے ہوئے لوگوں کی سیرت پر چل رہے ہیں۔

خُلُق:( وانک لعلیٰ خُلُق عظیم ) (۲)

رسول اسلام (ص) سے خطاب کیا جارہا ہے کہ اے میرے حبیب! آپ خلق عظیم پر فائز ہیں، اس آیت میں خلق سے مراد ''اخلاق اور حسن سیرت'' کو لیا گیا ہے۔

خَلاق:( .........فأستمتعوا بخلاقهم فأستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بخلٰقهم .........) (۳)

منافقوں سے خطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ تم ویسے ہی لوگ ہو جیسے تمھارے بزرگ تھے (اور راہ نفاق پر گامزن تھے بلکہ) وہ تم سے زیادہ طاقتور تھے اور ان کے پاس دولت وثروت اور اولاد بھی زیادہ تھی(لیکن) انھوں نے بے جا (ھواوھوس) میں صرف کیا اور تم بھی انھیں کی راہ پر چل دیئے، ان لوگوں نے مومنین کا مضحکہ کیا اور تم بھی مومنین کو مضحکہ کی آماجگاہ گردانتے ہو، نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا وآخرت میں ان کے اعمال برباد ہو گئے (یعنی ان کے اعمال نے انھیں نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ پہونچایا اور نہ ہی آخرت میں) اور وہ لوگ خسارہ میں ہیں۔

____________________

(۱)سورۂ شعراء/ ۱۳۷

(۲)سورۂ قلم/۴

(۳)سورۂ توبہ/۶۹

۱۰

اس آیت میں بھی ''لفظ خلاق'' پیروی اور اتباع کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ارشاد ہو رہا ہے کہ یہ لوگ بھی اپنے گذشتگان کی پیروی کرتے ہوئے ہلاکت کے منھہ میں جا رہے ہیں۔

خَلاق:( .....ولقد علموا لمن اشتراه ماله فی الآخرة من خلٰق .......) (۱)

یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد ہو رہا ہے کہ جناب سلیمان ـ کے زمانہ میں ان لوگوں نے شیطان کی پیروی کی .........انھوں نے ان حصوں کو لے لیا کہ جو انھیں بالکل فائدہ نہیں پہونچاسکتے اور نقصان ہی نقصان ہوتا ہے درحالانکہ وہ لوگ یہ جانتے تھے کہ ایسی خریداری، آخرت میں نفع بخش ثابت نہیں ہوگی( آیۂ مذکورہ میں ''خلاق'' سے مراد فائدہ اور بھلائی ہے جو خُلق اور اخلاق کے ذیل میں آتا ہے)

خَلاق:( ......فمن الناس من یقول ربنا آتنا فی الدنیا وما له فی الآخرة من خلاق ) (۲)

...........بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ پرور دگار! ہمیں دنیا میں نیکی عطا کر لیکن یہ دعا آخرت میں نفع بخش ثابت نہیں ہو سکتی (اس آیت میں بھی ''لفظ خلاق'' سے مراد وہی ہے جو خلق و اخلاق کے ذیل میں آتا ہے یعنی نیکی اور بھلائی)

خَلاق:( ان الذین یشترون بعهدالله و یمانهم ثمنا قلیلا اولٰئک لا خلاق لهم فی الآخرة .....) (۳)

وہ لوگ جو خدا وند عالم سے کئے ہوئے وعدوں کو کسی بہانے سے توڑ دیتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے.......(اس آیت میں بھی ''لفظ خلاق'' اخلاق اور حسن خُلق کے معنی میں استعمال ہوا ہے)

اگر ان تمام مشتقات اور سیرت کے تما م مشتقات کو ایک جگہ جمع کرکے غورو خوض کیا جائے تو اخلاق اور سیرت میں کوئی فرق نہیں ہے اخلاق وہی ہے جو سیرت ہے اور سیرت وہی ہے جو اخلاق ہے(عادات و اطوار ، طور طریقہ اور رفتار و گفتار کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں )

____________________

(۱)سورۂ بقرہ/۱۰۲

(۲)سورۂ بقرہ/۲۰۰

(۳)سورۂ آل عمران/۷۷

۱۱

تیسری فصل

۱ ۔علم اخلاق کی اہمیت ، احادیث کی روشنی میں

علم اخلاق ،انسان کو فضیلت ورذیلت کی شناخت کرانے کے علاوہ، اس کے اعمال و افعال کی قیمت کو بھی معین کرتا ہے چونکہ ہر عمل اور ہر کام جو انجام دیا جائے وہ فضیلت نہیں کہلاتا، اگر انجام شدہ کام فضیلت کا حامل ہے تو لائق تعریف ہے اور اگر رذیلت سے دو چار ہے تو اس کی (علم اخلاق میں ) کوئی اہمیت نہیں ہے(۱)

علم اخلاق کی اہمیت، خود اخلاق کے ذریعہ سے ہوتی ہے اور اخلاق کی اہمیت کو درک کرنے کے لئے معصومین (ع) سے بہت زیادہ روایتیں منقول ہیں، چنانچہ ایک روایت میں حضرت علی ـ فرماتے ہیں:'' لو کنا لا نرجوا جنة ولا نخشیٰ نارا ولا ثوابا ولا عقابا لکان ینبغی لنا ان نطالب بمکارم الاخلاق فأنها مما تدل علیٰ سبیل النجاح'' (۲)

یعنی اگر ہمیں جنت کی امید نہ ہوتی، جہنم کا خوف نہ ہوتا، ثواب وعذاب بھی نہ ہوتا، تب بھی ہمارے لئے بہتر تھا کہ مکارم اخلاق کے خواہاںہوںچونکہ مکارم اخلاق، نجات اور کامیابی کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ اگر آخرت کا وجود نہ ہوتا، صرف دنیا ہی دنیا ہوتی، تب بھی انسان کو اخلاق کی ضرورت تھی چونکہ اخلاق، دنیوی حیات کو دلپذیرو جذاب اور خوبصورت بنادیتا ہے۔

یا پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں:''انما بعثت لأتمم مکارم الاخلاق'' میں مکارم اخلاق کو کامل کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوںیعنی میں مکارم اخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہونچائوں گا، میں اخلاق کا خاتمہ ہوں۔

____________________

(۱)آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق: ج۱ ، ص۱۷

(۲)اخلاق درقرآن:ج۱،ص۲۲۔ مستدرک الوسائل:ج۲،ص۲۸۳

۱۲

اس روایت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دین اسلام کے اہداف ومقاصد میں سے ایک اہم مقصد، انسانوں کی اخلاقی تربیت ہے(۱)

اسی طرح حضور (ص) سے نقل ہوا ہے:'' الاسلام حسنُ الخُلق والخُلق الحَسَن نصفُ الدّین'' (۲)

یعنی اسلام، اچھے اخلاق کا نام ہے اور اچھا اخلاق، آدھا دین ہے۔

یا آپ (ص) ہی سے نقل ہوا ہے:''اکملُ المومنین ایمانا احسنهم خُلقا'' (۳)

یعنی مومنین میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو۔

ان روایتوں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ دین میں، اخلاق کی اہمیت کتنی زیادہ ہے؟

دنیا کے بارے میں بھی اخلاق کی اہمیت بہت زیادہ ہے ، اس کے بارے میں بھی روایتیں نقل ہوئی ہیں مثلاََ حضرت علی ـ فرماتے ہیں:''من حسُنَت خلیقَتُه طابت عِشرَتُه''

یعنی جس کا اخلاق اچھا ہوگا ، اس کی زندگی خوشگوار ہوگی، اخلاق کی اتنی زیادہ تاکید بتا رہی ہے کہ انسان کو اخلاق کی بہت زیادہ ضرورت ہے اگر انسان اخلاق سے بے نیاز ہوتا تواخلاق کو انبیا ء (ع) کا اہم مقصدکبھی بھی قرار نہ دیا جاتا(۴)

____________________

(۱)آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج۱،ص۲۲

(۲)بحار الانوار: ج ۷۱، ص۳۸۵

(۳)بحار الانوار: ج ۱ ۷ ،ص ۳ ۷ ۳

(۴)آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج۱،ص۲۳

۱۳

۲ ۔علم اخلاق کا ہدف اور فائدہ

علم اخلاق کا ہدف اور مقصد، انسانی حیات کا انتہائی مقصد ہے اور وہ ہے انسان کو کمال تک پہونچانا یعنی علم اخلاق انسان کو کمال کی منزلیں طے کراتا ہے اور اسے انتہائی با کمال بنا دیتا ہے اور اسے اتنا بلند کردیتا ہے کہ طائر فکر، پرواز سے قاصر ہے، شاعر اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تدبیر سے پہلے

خدابندہ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

یعنی انسان اخلاق کی منزل معراج پر پہونچ کر اس درجہ تک پہونچ جائے کہ اس سے خدا وند عالم ہمکلام ہوجائے۔

اور علم اخلاق کا فائدہ، جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا ہے کہ علم اخلاق انسان کو فضائل و رذائل کی شناخت کراتا ہے(۱)

____________________

(۱)آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج۱،ص۲۳،۲۴

۱۴

چوتھی فصل

اخلاق کی قسمیں

اخلاق کی دو قسمیں ہیں ۱: فضیلت (اچھا اخلاق) ۲: رذیلت ( برا اخلاق )جو زبان عربی میں اخلاق الحسنة اور اخلاق السیئةسے معروف ہیں(۱)

اچھا اخلاق انسان کو منزل معراج تک پہونچا دیتاہے اور برا اخلاق انسان کو اتنا پست کر دیتا ہے کہ وہ معاشرہ میں خجالت کے پیش نظر سر نگوں ہوکر رہ جاتا ہے، اس کا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جن لوگوں کے ساتھ برے اخلاق سے پیش آیا ہے ان کے سامنے سر اٹھاکر زندگی گذارے ،البتہ یہ بات صاحب درک و فہم سے متعلق ہے اور اس کا تعلق اس شخص سے ہے جس کے ضمیر میں زندگی کی ذرہ برابر بھی رمق باقی ہے ،جس کا ضمیر ہی مردہ ہو چکا ہو وہ کیا محسوس کرے گا ؟

دوسرے مرحلہ میں اخلاق کی پھر دو قسمیں ہیں [ ۱ ] اپنے نفس کے ساتھہ اخلاق [ ۲ ] دوسروں کے ساتھہ اخلاق۔

دوسروں کے ساتھہ اخلاق کی بہت زیادہ قسمیں ہو سکتی ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے چند اقسام کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

۱۔خدا کے ساتھہ اخلاق ۲۔اہل خانہ کے ساتھہ اخلاق

۳۔پڑوسیوں کے ساتھہ اخلاق ۴۔دوستوں کے ساتھہ اخلاق

۵۔دشمنوں کے ساتھہ اخلاق ۶۔اعزا ء و اقارب کے ساتھہ اخلاق

۷۔خادموں ،نوکروں اور غلاموں کے ساتھہ اخلاق ۸۔اجنبی کے ساتھہ اخلاق

اب یہ انسان کے اوپر منحصر ہے کہ کس کے ساتھ کس اخلاق سے پیش آتا ہے ،یہ اس کی عقل کا امتحان ہے کہ وہ اس کی کیسی رہنمائی کرتی ہے اس کو منزل کمال تک پہونچاتی ہے یا قعر مضلت میں ڈھکیل دیتی ہے ۔

____________________

(۱)اخلاق شبر:ص۳۱۔ آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج۱،ص۱۵

۱۵

اگر انسان کا ذہن عاجز ہو جائے کہ کس کے ساتھ کس اخلاق سے پیش آیاجائے تو وہ پھر اپنے لئے نمونہ آئیڈیل [ Ideal ] تلاش کرے اور جس طرح وہ اخلاق سے پیش آتا ہے اسی طرح یہ بھی اخلاق سے پیش آئے ۔

یہ بھی انسان کے اوپر موقوف ہے کہ وہ اپنا آئیڈیل( Ideal )کس کو بنا تا ہے ؟اس معاشرہ میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، کسی انسان کے جذبات و احساسات پر ہمارا پہرہ نہیں ہے کہ جو ہم چاہیں گے وہ وہی کام انجام دے گا یا جسے ہم چاہیں گے وہ اپنا آئیڈیل( Ideal )بنائے گا بلکہ انسان خود مختار ہے ،جس کو چاہے اپنا آئیڈیل ( Ideal ) بنائے، یہی وجہ ہے... کہ بعض لوگ فلمی ستاروں( Holly wood & Bolly wood Stars )کو اپنا آئیڈیل( Ideal )بناتے ہیں ،بعض لوگ کرکیٹروں( Cricketers )کو اپنے لئے نمونہ انتخاب کر لیتے ہیں اور بعض لوگ فوٹ بالسٹ( Foot Ballist ) کو اپنا آئیڈیل( Ideal )قرار دیتے ہیں خلاصہ یہ کہ جس کی نگاہوں کو جو بھا جاتا ہے وہ اسی کو اپنالیتا ہے لیکن.................انسان کے خود مختار ہو نے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو لاوارث اور بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے ،جس کو چاہے اپنا آئیڈیل ( Ideal )بنائے بلکہ اسے عقل وضمیرجیسے رہبروں جیسی نعمت سے مالا مال کرکے بھیجا گیا ہے ، آئیڈیل( Ideal ) کو انتخاب کر نے سے پہلے یہ سوچ لے کہ آیا عقل بھی اس آئیڈیل( Ideal )کو قبول کرتی ہے؟ میرا یہ دعویٰ ہے کہ اگر انسان عقل کی موافقت میں آئیڈیل( Ideal )کا انتخاب کرے گا تو کبھی بھی دام فریبی میں گرفتارنہیںہو سکتا بلکہ اپنی کشتی حیات کو بخوبی کنارے لگا سکتا ہے۔

خدا وند عالم کی آواز آئی اے انسان تو اپنے لئے نمونہ اور آئیڈیل( Ideal ) کی تلاش میں ہے تو پریشان کیوں ہو تا ہے گھبرا نے کی کیا بات ہے؟ہم تیرے خالق ہیں ،ہم بتائیں گے کہ تیرا آئیڈیل( Ideal )کیسا ہونا چاہیئے ؟

( لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة ) (۱)

بے شک (میرے حبیب )محمد مصطفیٰ (ص) میں تمھارے لئے نمونہ موجود ہے یعنی اگر تمھیں نمونہ چاہیئے تو میرے حبیب کو دیکھو، اس کی پیروی کرو، خود بخود راہ راست پر گامزن ہو جائوگے چونکہ میرا حبیب آئینۂ اخلاق ہے۔

رسول اسلام (ص)انسان کے لئے ہر کام میں بطور نمونہ پیش کئے گئے ہیں، انسان جو کام کرنا چاہے حضرت (ص)کو اپنا آئیڈیل بنائے،دیگر امور سے چشم پوشی کرتے ہوئے اخلاق نبوی پر نظر کرتے ہیں ۔

____________________

(۱)سورہاحزاب ۲۱

۱۶

رسول اسلام (ص) سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد رب العزت ہو رہا ہے:( انک لعلیٰ خلق عظیم ) (۱)

اے میرے حبیب تم اخلاق عظیم پر فائز ہو ،آخر خدا وند عالم نے رسول اسلام (ص) میں کونسی ایسی صفت دیکھی کہ خلق عظیم جیسی عظیم سند سے نوازا؟

چونکہ اخلاق کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جو حضور (ص) کی ذات میں نہ پایا جائے آئیئے تاریخ پر نظر کرتے ہیں کہ حضور (ص) کا اخلاق کیسا تھا اور آپ (ص) کی سیرت کیا تھی؟

روایتیں گواہ ہیں کہ آپ (ص) پورے وقار و متانت کے ساتھ راستہ چلتے تھے ،آپ (ص) کی نظریں ہمیشہ جھکی رہتی تھیں ،ہمیشہ سلام میں سبقت کیا کرتے تھے ،ہمیشہ خدا کی مخلوقات میں غوروفکر کرتے رہتے تھے ،بغیر ضرورت کے کلام نہیں کرتے تھے ،کسی کو حقیر نہیں سمجھتے تھے ، کسی کی مذمت نہیں کرتے تھے،اگر زیادہ خوشی کا اظہار فرماتے تھے تو صرف لبوں پر تبسم آتا تھا ،آواز بلند نہیں ہوتی تھی(۲)

اخلاق کے اس درجہ پر فائز تھے کہ ہمیشہ سر جھکاکر چلتے تھے کبھی بھی آپ کو سر اٹھاکر چلتے نہیں دیکھا گیا ۔

____________________

(۱)سورہ قلم/۴

(۲)احسن المقال :ج۱، ص۲۷

۱۷

پانچویں فصل

حضور اکرم (ص) کی بعثت کا مقصد

جس طرح تمام انبیاء کا روی زمین پر آنا مقصد اور ہدف سے خالی نہیں ہے اور قرآن کریم اس کی حکایت اس طرح کرتا ہے( کان الناس امة واحدة فبعث اللّٰه النبیین مبشرین و منذرین ) (۱)

پہلے تمام لوگ ایک ہی گروہ کی شکل میں تھے(کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن بعد میں اختلاف پیدا ہوا تو )خدا وند عالم نے انبیاء (ع) کو مبعوث کیا تاکہ وہ (جنت کی) بشارت دیں اور(عذاب الٰہی و جہنم) سے ڈرائیں۔

اسی طرح ہمارے آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفےٰ (ص) کی بعثت کا بھی ایک مقصد ہے اور وہ ہے ''اشرف المخلوقات کی بہترین تربیت'' جیسا کہ ارشاد رب العزت ہورہا ہے:( لقد من الله علیٰ المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم یتلوا علیهم آیٰته ویزکیهم و یعلمهم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ) (۲)

یعنی بے شک خدا وند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان کے لئے انھیں میں سے ایک رسول کو مبعوث کیا تاکہ وہ انھیں آیات قرآنی سنائے اور ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، اگر چہ پہلے وہ لوگ ضلالت و گمراہی میں تھے(ضلالت وگمراہی سے نکالنے کے لئے نبی کو مبعوث کیا)

یا اسی مفہوم کی دوسری آیت صرف تھوڑے سے فرق کے ساتھ آئی ہے:( هو الذی بعث فی الامیین رسولا منهم یتلوا علیهم آیٰته و یزکیهم ویعلمهم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ) (۳)

____________________

(۱)سورہ بقرہ/ ۲۱۳

(۲)سورۂ آل عمران/۱۶۴

(۳)سورۂ جمعہ/۲

۱۸

یعنی وہ(خدا)وہی ہے جس نے امیین میں ایک رسول کو خود انھیں میں سے مبعوث کیا تاکہ وہ انھیں قرآنی آیات پڑھ کر سنائے اور ان کا تزکیہ نفس کرے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اگر چہ وہ پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔

ان آیتوں سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انبیاء (ع) کی بعثت کا مقصد ''لوگوں کوگمراہیوں سے نجات دینا اوران کی بہترین تربیت '' ہے۔

تعلیم بھی، تزکیہ بھی، اخلاق و تربیت بھی ،آخری دو آیتیں ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) سے مخصوص ہیں جن میں آشکار طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ (ص) کی بعثت کا مقصد اور ہدف کیا ہے۔

حضور (ص) کو خدا وند عالم نے اسی وجہ سے روی زمین پر بھیجا تھا کہ تمام انسانوں کو منزل کمال اور سعادت سے ہمکنار کریں، چونکہ انسان ہی تمام مخلوقات میں اشرف ہے اور تمام مخلوقات کے نچوڑکو انسان کہا جاتا ہے، لہٰذا اگر ہر انسان اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنی اصلاح کر لے تو خود بخود پورے معاشرے کی اصلاح ہو جائے گی اور اگر ایک انسان فاسداورفاسق وفاجر ہو تو معاشرہ پر اپنا رنگ چڑھا دیتا ہے چونکہ ''ایک مچھلی تالاب کو گندا کرتی ہے''

جناب آدم ـ سے لے کر حضرت ختمی مرتبت (ص) تک، ہر نبی کی یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کو کمال وسعادت کی منزلیں طے کرائے، انھیں صراط مستقیم پر گامزن کرے، نہ یہ کہ صرف راستہ بتادے۔

حضور (ص) کے لئے تو صراحت کے ساتھ قرآن میں بیان ہوا ہے( لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة ) (۱)

مقصدیہ ہے کہ اے انسان اگر ہم نے صراط مستقیم کی دعوت دی ہے تو تجھے تنہا اور بے مونس ومددگار کسی چوراہے پر نہیں چھوڑا ہے کہ تو پریشان اور حیران وسرگردان پھرتا رہے بلکہ ہم نے تیرے لئے نمونہ اور اسوہ( Ideal ) بھی بھیجا ہے ''بے شک تمہارے لئے میرے حبیب میں نمونہ( Ideal ) موجود ہے '' یعنی تم جو کام بھی کرنا چاہتے ہو تو رسول (ص) کو دیکھ کر انجام دو، جس طرح میرا رسول (ص) انجام دے رہا ہے اسی طرح تم بھی انجام دو، میرا رسول (ص) تمہارے لئے بہترین مجسّم نمونۂ عمل ہے، اس کے اعمال کو دیکھو ،اس کے اقوال کو دیکھو، اس کی معاشرت کو دیکھو، اس کے کردار کو دیکھو، اس کی رفتار کو دیکھو، اسکی گفتار کو دیکھو....اور... اسے دیکھ کر اعمال بجا لاتے رہو، ہر چیز میں، ہر کام میں اس کی پیروی کرو، صراط مستقیم مل جا ئے گی۔

____________________

(۱)سورۂ احزاب/۲۱

۱۹

اور جب انسان اس منزل پر پہونچ جا ئے گاکہ اس کا ہر عمل، رسول اسلام (ص) کو نمونۂ عمل بناتے ہوئے انجام پائے تو پھر وہ اس منزل پر آجائے گا کہ''من عرف نفسه فقد عرف ربه'' (۱)

انسان اپنے نفس کو بھی پہچان لے گااور نفس کے ساتھ ساتھ معبود حقیقی کی بھی معرفت حاصل ہو جائے گی چونکہ معبود حقیقی کی معرفت، اپنے نفس کو پہچاننے پر موقوف ہے اور انسان اپنے نفس کو اسی وقت پہچان سکتا ہے جب حضور اکرم (ص) کو اپنا نمونۂ عمل بنائے ، جب تک انسان اپنے نفس کو نہیں پہچان پائے گا، تب تک وہ ھواوھوس کا اسیر رہے گا ، نفس کا غلام بن کر رہے گا، صرف اپنی ذات سے محبت کرے گا لیکن جب وہ اپنے نفس کو پہچان لے گا اور یہ دیکھے گا کہ اس کا نفس اسے کمال و سعادت کے بجائے پستی کی جانب لے جا رہا ہے تو خود بخود نفس سے نفرت ہونے لگے گی اور جب نفس سے نفرت ہونے لگے گی تو پھر کمال وسعادت کے بارے میں غوروفکر کرے گا تا کہ اسے کمال و سعادت کی راہ مل جائے اور اس کے لئے وہ کسی نمونہ (آئیڈیل Ideal ) کی تلاش میں رہے گا اور جب نمونہ تلاش کرے گا تو اسے قرآن کریم کے مطابق ایک ہی نمونہ نظر آئے گا جوذات سرور کائنات (ص) ہے۔

جب حضور (ص) کو اپنا نمونۂ عمل بنا لے گا تو یہ بات اظھر من الشمس ہے کہ خود بخود ذات خدا وندی سے قریب ہوتا چلا جائے گا اور اس کے دل میں خدا وند عالم کی محبت کا چراغ روشن ہو جا ئے گا، جب تک انسان کے دل میں اپنے نفس کی محبت ہے، تب تک اس کا دل خدا کی الفت سے خالی ہے اور اسکے بر خلاف...اگر انسان کے دل میں خد اکی محبت جا گزیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی ذات سے کو ئی لگائو نہیں ہے(جو بھی ہے وہ خدا کے لئے ہے، اس کا ہراٹھنے والا قدم مرضی معبود کا تابع ہوگا ،اس کی زبان کھلے گی توکھلنے سے پہلے خدا کی رضایت طلب کرے گی، ہاتھ اٹھانے سے پہلے خدا کی یاد آئے گی، نگاہ اٹھانے سے پہلے مرضی رب کے بارے میں سوچے گا اسی طرح اس کا ہر کام فی سبیل اللہ ہو گا)اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ تو اس کے دل میں لالچ ہوگا، نہ حسد ہوگا، نہ بغض وکینہ ہوگا، نہ دنیا داری ہوگی، یعنی اس کا دل تمام دنیاوی خرافات سے پاک ہوگا اور اسی کو کمال وسعادت کی منزل کہا جاتا ہے(۲)

____________________

(۱)غرر الحکم:ص۲۳۲

(۲) سیرۂ رسول اللہ از دیدگاہ امام خمینی:ص۴۱

۲۰