''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں 0%

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 70

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

مؤلف: سید غافر حسن رضوی چھولسی "ھندی"
زمرہ جات:

صفحے: 70
مشاہدے: 29056
ڈاؤنلوڈ: 2899

تبصرے:

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 70 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29056 / ڈاؤنلوڈ: 2899
سائز سائز سائز
''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں

مؤلف:
اردو

عبا د ت

جناب ام سلمیٰ فرماتی ہیں :''ایک شب، حضور (ص) میرے گھر تشریف فرماتھے، میں نے آدھی رات کے بعد آپ (ص) کے بستر مبارک کو خالی دیکھا، میں نے تلاش کرنے کے بعد دیکھا کہ آپ (ص) تاریکی میں کھڑے ہو ئے ہیں، دست مبارک عرش کی جانب بلند ہیں، چشم مبارک سے اشکوں کی برسات ہو رہی ہے اور دعا فر مارہے ہیں کہ ''پروردگار! جو نعمتیں تونے مجھے عطا کی ہیں انھیں مجھ سے واپس نہ لینا ، میرے دشمنوں کوخوش نہ ہونے دینا، جن بلائوں سے مجھے نجات دے چکا ہے ان میں دوبارہ گرفتار نہ کرنا، مجھے ایک پلک جھپکنے کے برابر بھی تنہا نہ چھوڑنا'' میں نے حضور (ص) سے کہا یا رسول اللہ (ص)! آپ تو پہلے ہی سے بخشش شدہ ہیں ، حضور (ص) نے فرمایا : '' نہیں کوئی بھی بندہ ایسا نہیں ہے کہ جو خدا وند عالم کا محتاج نہ ہو اور اس سے بے نیاز ہو ، حضرت یونس ـ کو خدا وند عالم نے صرف ایک لمحہ کے لئے تنہا چھوڑ دیا تھا تو آپ ـ شکم ماہی (مچھلی کے پیٹ )میں زندانی ہو گئے''

حضور (ص) کی نماز شب ہم کو یہ درس دیتی ہے کہ امت کے رہبر کو آرام طلب نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس کا پورا وجود محنت وزحمت کے سمندر میں غرق رہنا چاہیئے، آپ (ص)نے مولا علی ـ کو نماز شب کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے،آپ (ص) نے مکرر تین مرتبہ ارشاد فرمایا:''علیک بصلاة اللیل، علیک بصلاة اللیل، علیک بصلاة اللیل'' یعنی ! اے علی تم پر لازم ہے کہ نماز شب بجا لائو، نماز شب ضرور بجا لائو ،نماز شب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔

۶۱

سا د گی

ایک روز آپ (ص) نے مولا علی ـ کو بارہ درہم دیئے اور فرمایا: ''میرے لئے ایک لباس خرید کر لے آئو'' حضرت علی ـ بازار گئے اور بارہ درہم کا لباس خرید کر لے آئے ، حضور (ص) نے لباس کو دیکھا اور علی ـ سے فرمایا: ''اے علی ـ اگر اس لباس سے سستا لباس مل جاتا تو بہتر تھا اگر ابھی دوکاندار موجود ہو تو یہ لباس واپس کردو'' علی ـ دوبارہ بازار گئے اور لباس واپس کردیا اور بارہ درہم واپس لاکر آپ (ص) کے حوالہ کر دیئے۔

حضرت (ص) مولاعلی ـ کو اپنے ہمراہ لے کر بازار کی جانب روانہ ہوئے، راستہ میں ایک کنیز پر نظر پڑی کہ جو گریہ کر رہی تھی، آپ (ص) نے سبب دریافت کیا تو کنیز نے جواب دیا کہ میرے آقا نے مجھے چار درہم دیئے تھے کہ کچھ سامان خرید کر لے جائوں لیکن وہ چار درہم گم ہو گئے، اب گھر واپس جائوں تو کس طرح؟

آپ (ص) نے اپنے بارہ درہموں میںسے چار درہم اس کنیز کو عطا کئے کہ وہ سامان خرید کر لے جائے اور بازار پہونچکر چار درہم کا لباس خریدا، لباس لے کر بازار سے واپس آرہے تھے تو ایک برہنہ تن انسان پر نظر پڑ گئی، آپ (ص)نے وہ لباس اس برہنہ تن کو بخش دیا اور پھر بازار کی جانب چلے، بازار پہونچکر باقی بچے ہوئے چار درہموں کا لباس خریدا ، لباس لیکر بیت الشرف کا قصد تھا کہ دوبارہ پھر وہی کنیز نظر آگئی جو پہلے ملی تھی، آپ (ص) نے دریافت کیا کہ اب کیا ہوا؟ تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کافی دیر ہو چکی ہے، میں ڈر رہی ہوں کہ کیسے جائوں،آقا کی سرزنش سے کیسے بچوں؟

حضور (ص) کنیز کے ہمراہ اس کے گھر تک تشریف لے گئے، اس کنیز کے آقا نے جب یہ دیکھا کہ میری کنیز ، سرکار رسالت (ص) کی حفاظت میں آئی ہے تو اس نے کنیز کو معاف کردیا اور اسے آزاد کردیا، آپ (ص) نے فرمایا:

'' کتنی برکت تھی ان بارہ درہموں میں کہ دو برہنہ تن انسانوں کو لباس پہنا دیا اور ایک کنیز کو آزاد کردیا''

دور حاضر میں ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ کوئی عہدہ دار ایسی صفات کاحامل ہو، جن صفات سے نبی اکرم (ص) مزین تھے، دور حاضر تو کیا خود حضور (ص) کے دور میں، اگر چراغ لے کر بھی تلاش کیا جائے تو ان صفات کا پایا جانا دشوار ہے، آپ (ص) کے دور میں تو بعض بدو عرب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو بہت کچھ سمجھتے تھے، واقعاَ اگر آج کے امراء ورئوسا بھی اس سیرت کو اپنائیں تو ہماری کشتی حیات، (دین اسلام اور شریعت کے مطابق)منزل مقصود سے ہمکنار ہوجائے۔

۶۲

مہمان نوازی

ایک روز حضور (ص) کی خدمت میں آپ (ص)کے دو رضاعی بھائی بہن یکے بعد دیگرے آئے، آپ (ص) نے بہن کا حترام زیادہ کیا اور بھائی کا احترام کم کیا، بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ (ص) نے جواب میں فرمایا: ''چونکہ، جتنا احترام اپنے ماں باپ کا یہ بہن کرتی ہے اتنا احترام بھائی نہیں کرتا لہٰذا میں بھی بہن کا زیادہ احترام کرتا ہوں''

دلسوزی

کشاف الحقائق، مصحف ناطق، حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''ایک روز آپ (ص) نے نماز ظہر کی آخری دو رکعتیں بہت جلدی جلدی ادا کیں، لوگوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ (ص)! آخر ایسا کیوں؟کیا کام درپیش ہے؟ حضور (ص) نے فرمایا: ''کیا تم بچہ کے رونے کی آواز نہیں سن رہے ہو؟''

اللہ اکبر........نماز جیسی عبادت، جس میں خضوع و خشوع شرط ہے، آپ (ص) نے بغیر مستحبات کے انجام دی اور یہ سمجھا دیا کہ دیکھو.....بچہ کو بہلانا خضوع و خشوع والی نماز سے بھی افضل ہے۔

۶۳

اھل خانہ کے ساتھہ

جناب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں :کبھی کبھی حضور (ص) ، خدیجہ کو بہت اچھی طرح یاد فرماتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے ، میں نے ایک روزحضور (ص) سے کہا : یا رسول اللہ (ص)! خدا نے آپ کو خدیجہ سے بہتر بیوی(دوشیزہ) عطا کی ہے، انھیں بھول جائیئے وہ تو بڑھیا تھیں۔

حضور (ص)نے فرمایا: خدا کی قسم ایسا نہیں ہے ، خدیجہ جیسی کوئی بیوی نہیں ہو سکتی (چاہے وہ دوشیزہ ہو یا کھلونوں سے کھیلنے والی اور ناچ گانے کی شوقین) جس وقت پورا معاشرہ کافر تھا ، اس عالم میں یہ تنہا خاتون تھی جو مجھ پر ایمان لائی تھی اور میری مدد گار ثابت ہوئی تھی ، میری نسل تو خدیجہ سے ہی چلی ہے (ایسی دوشیزہ کا کیا فائدہ جو ماں بننے کو ترس جائے)

جناب خدیجہ کوئی معمولی عورت نہیں تھیں بلکہ یہ وہ خاتون تھیں کہ جنھوں نے اپنا رشتہ خود حضور (ص) کی خدمت میں بھیجا تھا اوردیگر رشتوں سے انکار کر دیا تھا جب کہ وہ لوگ خود اپنے رشتے لے کر آئے تھے(بڑے باپ کی بیٹی ہونے کے غرور میں چلی ہیں جناب خدیجہ سے ہمسری کرنے، بڑے باپ کی بیٹی ہونگی تو اپنے گھر کی ، یہاں تمھارا دیہ نہیں جلے گا تم جیسی ہزار دوشیزہ وباکرہ لڑکیوں سے یہ بڑھیا اچھی ہے)

۶۴

تبلیغ

آپ (ص) نے تین سال تک پوشیدہ طور پر تبلیغ کی یہاں تک کہ حکم خدا وندی نازل ہوا (فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین)

یعنی اے رسول! جن کاموں پر تمھیں مامور کیا گیا ہے انھیں آشکار کردو اور مشرکین سے پرہیز کرو(ان پر بھروسہ نہ کرو) ہم تمھیں ان کے شر سے محفوظ رکھیں گے۔

حضور (ص) کوہ صفا کے دامن میں خانۂ کعبہ کے کنارے تشریف لائے اور اعلان عام کردیا اور فرمایا کہ اگر تم میری دعوت کو قبول کرلوگے تو دنیاوی حکومت و عزت اور آخرت، سب تمھارا ہے لیکن لوگوں نے آپ (ص) کا مذاق اڑایا اور جناب ابوطالب ـ کے پاس آکر کہنے لگے کہ آپ کا بھتیجا ہمارے نو جوانوں کو گمراہ کر رہا ہے، اس سے پو چھئے کہ وہ کیاچاہتا ہے؟ اگر اسے دولت چاہیئے تو ہم دولت دینے کو تیار ہیں، اگر عورت درکار ہے تو ہم عورت دینے کو تیار ہیں، اگر منزلت کا خواہاںہے تو منزلت بھی دیدیں گے، جناب ابوطالبـ نے یہ بات رسول اسلام (ص)کو بتائی، رسول اسلام (ص) نے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر آفتاب اور دوسرے ہاتھ پر ماہتاب رکھ دیں تو بھی میں اپنے کام سے باز نہیں آسکتا، کفار نے جناب ابو طالبـ سے چاہا کہ محمد (ص) کو ان کے حوالے کردیں لیکن جناب ابوطالب ـنے قبول نہیں کیا۔

اس عمل کے ذریعہ حضور سرور کائنات (ص) نے ہمیں تبلیغ کا طریقۂ کار بتایا ہے کہ تبلیغ کتنی اہم شئی کا نام ہے؟ تبلیغ چند ڈالر کے عوض اپنے نفس کو بیچ دینے کا نام تبلیغ نہیں ہے بلکہ اگر چاند سورج بھی دے دیئے جائیں تو اس کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیئے چونکہ اسی سے دین و شریعت کی ترویج ہوتی ہے، بار الٰہا ہمیں حضور (ص) کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرما۔

''آمین''

والسلام مع الاحترام

سید غافر حسن رضوی چھولسی "ھندی"

قم المقدسہ ایران

۶۵

منابع وماخذ

یعنی اس مقالہ میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔قرآن کریم:کلام اللہ مجید۔

۲۔لسان العرب:امام علامہ ابن منظور، داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۴۰۸ ھ۔

۳۔لسان اللسان :امام علامہ ابی الفضل جمال الدین بن مکرم ، دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۳ ھ۔

۴۔مفردات الفاظ القرآن:الامام الراغب الاصفھانی ، تحقیق: عدنان صفوان داودی، الدار الشامیہ بیروت ۱۴۱۲ھ۔

۵۔المنجد (عربی،فارسی) :احمد سیاح، چاپخانہ مفرد ۱۳۸۴ ش، چاپ پنجم، انتشارات اسلام تہران۔

۶۔المنجد (عربی،اردو):گروہ اردو ادب، چاپ یازدہم ۱۹۹۴ ء دارالاشاعت کراچی(پاکستان)۔

۷۔اخلاق:المولیٰ سید عبد اللہ شبر، مترجم:آقای محمد رضا جباران، چاپ دھم زمستان ۱۳۸۳ ش انتشارات ھجرت۔

۸۔آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق: محمد فتح علی خانی، چاپ اول بھار ۱۳۷۹ ش، مرکز جھانی علوم اسلامی۔

۹۔ بحا الانوار:علامہ محمد باقر مجلسی، دارالکتب الاسلامیہ بیروت، لبنان۔

۱۰۔مستدرک الوسائل:مرزا حسین النوری الطبرسی، المکتبة الاسلامیہ طھران ۱۳۸۲ ھ۔

۱۱۔احسن المقال:(ترجمہ اردو، منتھی الآمال: شیخ عباس قمی) دارالاشاعت کراچی(پاکستان)۔

۱۲۔غرر الحکم:عبد الواحد،ترجمہ و نگارش: محمد علی انصاری ،قرن پنجم۔

۱۳۔سیرۂ رسول اللہ وآرمان ھای انبیاء الٰہی از نظر امام خمینی رحمة اللہ علیہ: رسول سعادت مند، انتشارات تسنیم چاپ اول ۱۳۸۵ش۔

۶۶

۱۴۔وسائل الشیعہ:شیخ محمد بن حسن الحر العاملی، مکتبة الاسلامیہ طھران ۱۳۹۷ ھ۔

۱۵۔الغدیر:علامہ عبد الحسین احمد امینی نجفی، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات بیروت،لبنان ۱۴۱۴ھ۔

۱۶۔اصول کافی:شیخ محمد بن یعقوب کلینی رازی، مکتبة الاسلامیہ طھران ۱۳۸۸ھ۔

۱۷۔ تفسیر المیزان:علامہ محمد حسین طباطبائی اعلیٰ اللہ مقامہ ، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات بیروت ،لبنان ۱۴۱۱ ھ۔

۱۸۔صحیفۂ امام خمینی: مرکز مدارک فرھنگی انقلاب اسلامی، بھمن ۱۳۶۱ ش۔

۱۹۔شرح نھج البلاغہ: ابن ابی الحدید معتزلی، دار احیاء التراث العربی، بیروت ،لبنان۔

۲۰۔ المحجة البیضائ: محمد بن المرتضیٰ المدعو بالمولیٰ محسن الکاشانی، مؤسسة النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین

بقم المقدسہ(ایران) ۱۴۱۵ ھ۔

۲۱۔اخلاق درقرآن: آیة اللہ العظمیٰ الشیخ ناصر مکارم شیرازی دامت برکاتہ۔

۲۲۔اعلام الدین: المولیٰ دیلمی۔

۲۳۔ سنن النبی: علامہ محمد حسین طباطبائی اعلیٰ اللہ مقامہ، دار احیاء التراث العربی، بیروت ،لبنان۔

۲۴۔آمالی : شیخ الطائفہ علامہ شیخ نصیر الدین الطوسی علیہ الرحمة۔

۲۵۔ منتخب میزان الحکمة: آقای محمد ،ری شھری۔

۲۶۔ دیوان سعدی: شاعر بزرگ جھان آقای سعدی شیرازی۔

۲۷۔ گلستان سعدی:شاعر بزرگ جھان آقای سعدی شیرازی۔

۲۸۔ سیرۂ پیامبر اکرم (ص): حجة الاسلام آقای محسن قرأتی دامت برکاتہ۔

۲۹۔ ھمگام با رسول (ص):حجة الاسلام آقای جواد محدثی دامت برکاتہ،ناشر: انتشارات پویشگر،

نوبت چاپ: اول ۱۳۸۴ ش

۶۷

فہرست

حرف آغاز ۳

پہلی فصل ۶

۱۔اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف ۶

۲۔ تعریف علم اخلاق ۸

دوسر ی فصل ۱۰

اخلاق ،قرآن کی روشنی میں ۱۰

تیسری فصل ۱۲

۱ ۔علم اخلاق کی اہمیت ، احادیث کی روشنی میں ۱۲

۲ ۔علم اخلاق کا ہدف اور فائدہ ۱۴

چوتھی فصل ۱۵

اخلاق کی قسمیں ۱۵

پانچویں فصل ۱۸

حضور اکرم (ص) کی بعثت کا مقصد ۱۸

چھٹی فصل ۲۱

۱۔ رسول اسلام (ص) کا خداوندعالم کے ساتھ اخلاق ۲۱

۲۔ رسول اکرم (ص) کی عبادت اور نماز شب ۲۱

ساتویں فصل ۲۴

۱۔ حضرت (ص) کی دلسوزی ومہربانی ۲۴

۲۔ آنحضرت کی سیرت میں مہمان نوازی ۲۵

۳۔ سرکار (ص) کی بچوں کے ساتھہ مہر بانی ۲۶

۶۸

۴۔ آنحضرت کا جوانوں کے ساتھہ اخلاق ۲۸

۵۔ پیغمبر اکرم (ص) کی ذاتی اور شخصی سیرت ۲۹

۶۔ سرکار (ص) کا اہل خانہ کے ساتھہ اخلاق ۳۳

۷ ۔ رسول اسلام (ص) کی سیرت میں ساد گی ۳۵

۸۔ حضور (ص) کا ہمسایوں کے ساتھہ اخلاق ۳۵

۹۔ آنحضرت (ص) کا دوستوں کے ساتھہ اخلاق ۳۶

۱۰۔ اعزاء و اقارب کے ساتھ اخلاق ۳۶

۱۱۔ خادموں اور غلاموں کے ساتھہ اخلاق ۳۷

۱ ۲ ۔ حضرت (ص)کا دشمنوں کے ساتھہ اخلاق ۳۷

۱۳۔ سرکار رسالت (ص) کا کفار کے ساتھہ اخلاق ۳۸

۱ ۴ ۔ حضرت (ص) کی سیرت ،اسیروں کے ساتھہ ۳۹

۱۵۔ اجنبی و مسافراور عام انسان کے ساتھہ اخلاق ۴۰

آٹھویں فصل ۴۱

۱۔ ذات رسول اسلام (ص)، درس عبرت ۴۱

۲۔ حضور اکرم (ص) کی سیرت میں عدالت ۴۱

۳۔ پیغمبر اسلام (ص) کا عہدو پیما ن ۴۲

۴۔ رسول اسلام (ص) کی تبلیغی سیرت ۴۳

۵۔ حضرت ختمی مرتبت (ص) کی عملی '' Practicaly '' سیرت ۴۵

۶۔ حضرت (ص) کی نظر میں حقوق برادری ۵۰

۷۔ حضور (ص) کی سیرت باعث محبوبیت ۵۱

۸۔ سنت رسول اسلا م (ص) کی جگہ بدعتوں کا رواج ۵۷

۶۹

خلاصہ ۶۰

بعثت کا ھد ف ۶۰

عبا د ت ۶۱

سا د گی ۶۲

مہمان نوازی ۶۳

دلسوزی ۶۳

اھل خانہ کے ساتھہ ۶۴

تبلیغ ۶۵

منابع وماخذ ۶۶

۷۰