مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام0%

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مؤلف: آل البیت محققین
زمرہ جات:

مشاہدے: 44133
ڈاؤنلوڈ: 3750

تبصرے:

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44133 / ڈاؤنلوڈ: 3750
سائز سائز سائز
مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مؤلف:
اردو

حضرت امام محمد مھدی علیہ السلام

امام زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سلسلہ عصمت محمدیہ کی چودھویںاورسلک امامت علویہ کی بارھوےں کڑی ہیں آپ کے والد ماجد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس( ۱) خاتون تھےں۔

آپ اپنے آباواجدادکی طرح امام منصوص ،معصوم ،اعلم زمانہ اورافضل کا ئنات ہیں ۔آپ بچپن ہی میں علم وحکمت سے بھرپور تھے۔ (صواعق محرقہ ۲۴۱# ) آپ کو پانچ سال کی عمرمیں ویسی ہی حکمت دے دی گئی تھی ،جیسی حضرت یحیی کو ملی تھی اورآپ بطن مادرمیں اسی طرح امام قراردئیے گئے تھے،جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نبی قرارپائے تھے۔(کشف الغمہ ص ۱۳۰ ) آپ انبیاء سے بہترہیں ۔(اسعاف الراغبین ص ۱۲۸) آپ کے متعلق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شمار پیشین گوئیاں فرمائی ہیں اوراس کی وضاحت کی ہے کہ آپ حضورکی عترت اورحضرت فاطمةالزہرا کی اولاد سے ہوں گے۔ ملاحظہ ہوجامع صغیرسیوطی ص ۱۶۰ طبع مصرومسند احمدبن حنبل جلد ۱ ص ۸۴ طبع مصروکنوزالحقائق ص ۱۲۲ ومستدرک جلد ۴ ص ۵۲۰ ومشکوة شریف ) آپ نے یہ بھی فرمایاہے کہ امام مہدی کا ظہورآخرزمانہ میں ہوگا ۔اورحضرت عیسی ان کے پیچھے نماز پڑھےں گے ۔ملاحظہ ہو صحیح بخاری پ ۱۴ ص ۳۹۹ وصحیح مسلم جلد ۲ ص ۹۵ صحیح ترمذی ص ۲۷۰ وصحیح ابوداؤد جلد ۲ ص ۲۱۰ وصحیح ابن ماجہ ص ۳۴ وص ۳۰۹ وجامع صغیرص ۱۳۴ وکنوزالحقائق ص ۹۰) آپ نے یہ بھی کہاہے کہ امام مہدی میرے خلیفہ کی حیثیت سے ظہورکریں گے اور یختم الدین بہ کما فتح بنا جس طرح میرے ذریعہ سے دین اسلام کا آغاز ہوا ۔ اسی طرح ان کے ذریعہ سے مہراختتام لگادی جائیگی ۔ ملاحظہ ہوکنوزالحقائق ص ۲۰۹ آپ نے اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ امام مہدی کا اصل نام میرے نام کی طرح محمد اورکنیت میری کنیت کی طرح ابوالقاسم ہوگی وہ جب ظہورکریں گے توساری دنیاکو عدل وانصاف سے اسی طرح پرکردیں گے جس طرح وہ اس وقت ظلم وجورسے بھری ہوگی ۔ ملاحظہ ہو جامع صغیرص ۱۰۴ ومستدرک امام حاکم ص ۴۲۲ و ۴۱۵ ظہورکے بعد ان کی فورابیعت کرنی چاہیے کیونکہ وہ خداکے خلیفہ ہوں گے ۔ (سنن ابن ماجہ اردوص ۲۶۱ طبع کراچی ۱۳۷۷ ھج) ۔

حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت

مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھج یوم جمعہ بوقت طلوع فجرواقع ہوئی ہے جیسا کہ (وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن الوردی ،ینابع المودة،تاریخ کامل طبری ،کشف الغمہ ،جلاالعیون ،اصول کافی ، نور الا بصار ، ارشاد ، جامع عباسی ، اعلام الوری ، اور انوار الحسینہ وغیرہ میں موجود ہے (بعض علما کا کہنا ہے کہ ولادت کا سن ۲۵۶ ھج اور ما دہ تاریخ نور ہے )یعنی آپ شب برات کے اختتام پر بوقت صبح صادق عالم ظھور وشہود میں تشریف لائے ہیں ۔

۱# نرجس ایک یمنی بوٹی کو کہتے ہیں جس کے پھول کی شعرا آنکھوں سے تشبیہ دیتے ہیں (المنجد ص ۸۶۵ ) منتہی الادب جلد ۴ ص ۲۲۲۷ میں ہے کہ یہ جملہ دخیل اورمعرب یعنی کسی دوسری زبان سے لایاگیا ہے ۔ صراح ص ۴۲۵ اورالعماط صدیق حسن ص ۴۷ میں ہے کہ یہ لفظ نرجس ،نرگس سے معرب ہے جوکہ فارسی ہے ۔رسالہ آج کل لکھنؤ کے سالنامہ ۱۹۴۷ کے ص ۱۱۸ میں ہے کہ یہ لفظ یونانی نرکسوس سے معرب ہے ، جسے لاطینی میں نرکسس اورانگیریزی میں نرس سس کہتے ہیں ۔ ۱۲

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس گئتو آپ نے فرمایا کہ اے پھوپھی آپ آج ہمارے ہی گھر میں رہئے کیونکہ خداوندعالم مجھے آج ایک وارث عطافرماے گا ۔ میں نے کہاکہ یہ فرزند کس کے بطن سے ہوگا ۔آپ نے فرمایاکہ بطن نرجس سے متولد ہوگا ،جناب حکیمہ نے کہا :بیٹے!میں تونرجس میں کچھ بھی حمل کے آثارنہیں پاتی،امام نے فرمایاکہ اسے پھوپھی نرجس کی مثال مادرموسی جیسی ہے جس طرح حضرت موسی کاحمل ولادت کے وقت سے پہلے ظاہرنہیں ہوا ۔اسی طرح میرے فرزند کا حمل بھی بروقت ظاہرہوگا غرضکہ میں امام کے فرمانے سے اس شب وہیں رہی جب آدھی رات گذرگئی تومیں اٹھی اورنمازتہجدمیں مشغول ہوگئی اورنرجس بھی اٹھ کرنمازتہجدپڑھنے لگی ۔ اس کے بعدمیرے دل میں یہ خیال گذراکہ صبح قریب ہے اورامام حسن عسکری علیہ السلام نے جوکہاتھا وہ ابھی تک ظاہرنہیںہوا ، اس خیال کے دل میں آتے ہی امام علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آوازدی :اے پھوپھی جلدی نہ کیجئے ،حجت خداکے ظہورکا وقت بالکل قریب ہے یہ سن کرمیں نرجس کے حجرہ کی طرف پلٹی ،نرجس مجھے راستے ہی میں ملےں ، مگران کی حالت اس وقت متغیرتھی ،وہ لرزہ براندام تھیں اوران کا ساراجسم کانپ رہاتھا ،میں نے یہ دیکھ کران کواپنے سینے سے لپٹالیا ،اورسورہ قل ہواللہ ،اناانزلنا واےة الکرسی پڑھ کران پردم کیا بطن مادرسے بچے کی آواز آنے لگی ،یعنی میں جوکچھ پڑھتی تھی ،وہ بچہ بھی بطن مادرمیں وہی کچھ پڑھتا تھا اس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن ومنورہوگیا ۔ اب جومیں دیکھتی ہوں تو ایک مولود مسعود زمین پرسجدہ میں پڑاہوا ہے میں نے بچہ کواٹھالیا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی اے پھوپھی ! میرے فرزند کو میرے پاس لائیے میں لے گئیی آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا ،اورزبان دردھان دے کراوراپنی زبان بچے کے منہ میں دیدی اورکہا کہ اے فرزند !خدا کے حکم سے کچھ بات کرو ،بچے نے اس آیت: بسم الله الرحمن الرحيم ونريدان نمن علی اللذين استضعفوا فی الارض ونجعلهم الوارثین کی تلاوت کی ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پرجوزمین پرکمزورکردئیے گئے ہیں اور ان کوامام بنائےں اورانھےں کوروئے زمین کاوارث قراردیں ۔

اس کے بعد کچھ سبزطائروں نے آکرہمیں گھیرلیا ،امام حسن عسکری نے ان میں سے ایک طائرکوبلایا اوربچے کودیتے ہوئے کہا کہ خدہ فاحفظہ الخ اس کولے جاکراس کی حفاظت کرویہاںتک کہ خدا اس کے بارے میں کوئی حکم دے کیونکہ خدا اپنے حکم کوپورا کرکے رہے گآ میں نے امام حسن عسکری سے پوچھا کہ یہ طائرکون تھا اوردوسرے طائر کون تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل تھے ،اوردوسرے فرشتگان رحمت تھے اس کے بعد فرمایاکہ اے پھوپھی اس فرزند کواس کی ماں کے پاس لے آوتاکہ اس کی آنکھےں خنک ہوں اورمحزون ومغوم نہ ہو اور یہ جان لے کہ خدا کاوعدہ حق ہے واکثرھم لایعلمون لیکن اکثرلوگ اسے نہیں جانتے ۔ اس کے بعد اس مولود مسعود کو اس کی ماں کے پاس پہنچادیاگیا (شواہدالنبوة ص ۲۱۲ طبع لکھنؤ ۱۹۰۵ ء علامہ حائری لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعد آپ کو جبرئیل پرورش کے لئے اٹھاکرلے گئے (غایۃالمقصود جلد ۱ ص ۷۵) کتاب شواہدالنبوت اوروفیات الاعیان وروضةالاحباب میں ہے کہ جب آپ پیداہوے تومختون اورناف بریدہ تھے اورآپ کے داہنے بازوپریہ آیت منقوش تھیجاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زهوقا یعنی حق آیا اورباطل مٹ گیا اورباطل مٹنے ہی کے قابل تھا ۔ یہ قدرتی طورپربحرمتقارب کے دومصرعے بن گئے ہیں حضرت نسیم امروہوی نے اس پرکیا خوب تضمین کی ہے وہ لکھتے ہیں #

ّ چشم وچراغ دیدہ نرجس عین خداکی آنکھ کاتارا

بدرکمال نیمہ شعبان چودھواں اختراوج بقاکا

حامی ملت ماحی بدعت کفرمٹانے خلق میں آیا

وقت ولادت ماشاء اللہ قرآن صورت دیکھ کے بولا

جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا

محدث دہلوی شیخ عبدالحق اپنی کتاب مناقب ائمہ اطہارمیں لکھتے ہیں کہ حکیمہ خاتون جب نرجس کے پاس آئےں تودیکھا کہ ایک مولود پیداہوا ہے ،جومختون اورمفروغ منہ ہے یعنی جس کا ختنہ کیا ہوا ہے اورنہلانے دھلانے کے کاموں سے جومولود کے ساتھ ہوتے ہیں بالکل مستغنی ہے ۔ حکیمہ خاتون بچے کو امام حسن عسکری کے پاس لائیں ، امام نے بچے کولیا اوراس کی پشت اقدس اور چشم مبارک پرہاتھ پھیرا اپنی زبان مطہران کے منہ میں ڈالی اورداہنے کان میں اذان اوربائےں میں اقامت کہی یہی مضمون فصل الخطاب اوربحارالانوارمیں بھی ہے ، کتاب روضةالاحباب ینابع المودة میں ہے کہ آپ کی ولادت بمقام سرمن رائے سامرہ میں ہوئی ہے ۔

کتاب کشف الغمہ ص ۱۳۰ میں ہے کہ آپ کی ولادت چھپائی گئی اورپوری سعی کی گئی کہ آپ کی پیدائیش کسی کومعلوم نہ ہوسکے ، کتاب دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۹۴ میں ہے کہ آپ کی ولادت اس لئے چھپائی گئی کہ بادشاہ وقت پوری طاقت کے ساتھ آپ کی تلاش میں تھا اسی کتاب کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت حجت کوقتل کرکے نسل رسالت کاخاتمہ کردے ۔ تاریخ ابوالفدا میں ہے کہ بادشاہ وقت معتزباللہ تھا ، تذکرہ خواص الامة میں ہے کہ اسی کے عہدمیں امام علی نقی کوزہردیاگیاتھا ۔ معتزکے بارے میں مورخین کی رائے کچھ اچھی نہیں ہے ۔ ترجمہ تاریخ الخلفا علامہ سیوطی کے ص ۳۶۳ میں ہے کہ اس نے اپنے عہد خلافت میں اپنے بھائی کوولی عہدی سے معزول کرنے کے بعد کوڑے لگوائے تھے اورتاحیات قید میں رکھاتھا ۔ ا کثرتواریخ میں ہے کہ بادشاہ وقت معتمد بن متوکل تھا جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کوزہرسے شہید کیا ۔ تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۷ میں ہے کہ خلیفہ معتمد بن متوکل کمزورمتلون مزاج اورعیش پسند تھا ۔ یہ عیاشی اورشراب نوشی میں بسرکرتاتھا ، اسی کتاب کے صفحہ ۲۹ میں ہے کہ معتمد حضرت امام حسن عسکری کوزہرسے شہید کرنے کے بعدحضرت امام مہدی کوقتل کرنے کے درپے ہوگیاتھا ۔

آپ کا نسب نامہ

آپ کاپدری نسب نامہ یہ ہے محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی ابن جعفربن محمدبن علی بن حسین بن علی وفاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یعنی آپ فرزندرسول ،دلبند علی اورنورنظربتول علےھم السلام ہیں ۔ امام احمد بن حنبل کاکہناہے کہ اس سلسہ نسب کے اسماکو اگر کسی مجنون پردم کردیاجائے تواسے یقینا شفاحاصل ہوگی (مسندامام رضاص ۷) آپ سلسہ نسب ماں کی طرف سے حضرت شمعون بن حمون الصفاوصی حضرت عیسی تک پہنچتاہے ۔ علامہ مجلسی اورعلامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون تھےں ، جن کاایک نام ”ملیکہ“ بھی تھا ،نرجس خاتون یشوعا کی بیٹی تھےں ، جوروم کے بادشاہ” قیصر“ کے فرزند تھے جن کاسلسلہ نسب وصی حضرت عیسی جناب شمعون تک منتہی ہوتاہے ۔ ۱۳ سال کی عمرمیں قیصرروم نے چاہاتھا کہ نرجس کاعقد اپنے بھتیجے سے کردے لیکن بعض قدرتی حالات کی وجہ سے وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا، بالاخرایک ایسا وقت آگیا کہ عالم ارواح میں حضرت عیسی ، جناب شمعون حضرت محمد مصطفی ، جناب امیرالمومنین اورحضرت فاطمہ بمقام قصرقیصرجمع ہوئے ، جناب سیدہ نے نرجس خاتون کواسلام کی تلقین کی اورآنحضرت صلعم نے بتوسط حضرت عیسی جناب شمعون سے امام حسن عسکری کے لئے نرجس خاتون کی خواستگاری کی ،نسبت کی تکمیل کے بعد حضرت محمد مصطفی صلعم نے ایک نوری منبرپربیٹھ کرعقد پڑھا اورکمال مسرت کے ساتھ یہ محفل نشاط برخواست ہوگئی جس کی اطلاع جناب نرجس کوخواب کے طورپرہوئی ، بالاخروہ وقت آیا کہ جناب نرجس خاتون حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں آپہنچےں اورآپ کے بطن مبارک سے نورخدا کاظہور ہوا۔ (کتاب جلاالعیون ص ۲۹۸ وغایۃ المقصود ص ۱۷۵) ۔

آپ کا اسم گرامی :

آپ کانام نامی واسم گرامی ”محمد“ اورمشہورلقب ” مہدی “ ہے علما کاکہنا ہے کہ آپ کانام زبان پرجاری کرنے کی ممانعت ہے علامہ مجلسی اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حکمت آن مخفی است “ اس کی وجہ پوشیدہ اورغیرمعلوم ہے ۔ (جلاالعیون ص ۲۹۸) علماء کابیان ہے کہ آپ کایہ نام خود حضرت محمدمصطفی نے رکھا تھا ۔ ملاحظہ ہو روضة الاحباب وینابع المودة ۔ مورخ اعظم ذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۱ میں لکھتے ہیں کہ ”آنحضرت نے فرمایا کہ میرے بعد بارہ خلیفہ قریش سے ہوں گے آپ نے فرمایا کہ آخرزمانہ میں جب دنیا ظلم وجورسے بھرجائے گی ،تومیری اولاد میں سے مہدی کاظہورہوگا جوظلم وجورکودورکرکے دنیا کوعدل وانصاف سے بھردے گا ۔ شرک وکفرکودنیا سے نابود کردے گا ، نام ”محمد “ اورلقب ” مہدی “ ہوگا حضرت عیسی آسمان سے اترکر اس کی نصرت کریں گے اوراس کے پیچھے نماز پڑھےں گے ،اوردجال کوقتل کریں گے۔

آپ کی کنیت :

اس پرعلما فریقین کااتفاق ہے کہ آپ کی کنیت ” ابوالقاسم “ اورآپ ابوعبداللہ تھی اوراس پربھی علما متفق ہیںکہ ابوالقاسم کنیت خود سرورکائنات کی تجویزکردہ ہے ۔ ملاحظہ ہو جامع صغیرص ۱۰۴ تذکرہ خواص الامة ۲۰۴ روضة الشہدا ص ۴۳۹ صواعق محرقہ ص ۱۳۴ شواہدالنبوت ص ۳۱۲ ، کشف الغمہ ص ۱۳۰ جلاالعیون ص ۲۹۸ ۔

یہ مسلمات سے ہے کہ آنحضرت صلعم نے ارشادفرمایا ہے کہ مہدی کانام میرانام اوران کی کنیت میری کنیت ہوگی ۔ لیکن اس روآیت میں بض اہل اسلام نے یہ اضافہ کیاہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایاہے کہ مہدی کے باپ کانام میرے والد محترم کانام ہوگا مگر ہمارے راویوں نے اس کی روآیت نہیں کی اورخود ترمذی شریف میں بھی ” ا سم ابیہ اسم ابی “ نہیں ہے ،تاہم بقول صاحب المناقب علامہ کنجی شافعی یہ کہاجاسکتاہے کہ روآیت میں لفظ ”ابیہ“ سے مراد ابوعبداللہ الحسین ہیں ۔ یعنی اس سے اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی حضرت امام حسین کی اولادسے ہیں ۔

آپ کے القاب :

آپ کے القاب مہدی ، حجة اللہ ، خلف الصالح ، صاحب ا لعصر، صاحب الامر ، والزمان القائم ، الباقی اورالمنتظرہیں ۔ ملاحظہ ہو تذکرہ خواص الامة ۲۰۴ ، روضة الشہدا ص ۴۳۹ ، کشف الغمہ ۱۳۱ ، صواعق محرقہ ۱۲۴ ،مطالب السؤال ۲۹۴ ،اعلام الوری ۲۴ حضرت دانیال نبی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے ۱۴۲۰ سال پہلے آپ کالقب منتظرقراردیاہے ۔ ملاحظہ ہو کتاب دانیال باب ۱۲ آیت ۱۲ ۔ علامہ ابن حجرمکی ، المنتظرکی شرح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ انھےں منتظریعنی جس کاانتظارکیاجائے اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سرداب میں غائب ہوگئے ہیں اوریہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے گئے (مطلب یہ ہے کہ لوگ ان کاانتظارکررہے ہیں ،شیخ العراقین علامہ شیخ عبدالرضا تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کومنتظراس لئے کہتے ہیں کہ آپ کی غیبت کی وجہ سے آپ کے مخلصین آپ کاانتظارکررہے ہیں ۔ ملاحظہ ہو۔ (انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۵۷ طبع بمبئی)۔

آپ کاحلیہ مبارک

کتاب اکمال الدین میں شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشادہے کہ امام مہدی ،شکل وشباہت خلق وخلق شمائل وخصایل ،اقوال وافعال میں میرے مشابہہ ہوں گے۔

آپ کے حلیہ کے متعلق علما نے لکھا ہے کہ آپ کارنگ گندگون ، قدمیانہ ہے ۔ آپ کی پیشانی کھلی ہوئی ہے اورآپ کے ابرو گھنے اورباہم پیوستہ ہیں ۔ آپ کی ناک باریک اوربلند ہے آپ کی آنکھےں بڑی اورآپ کا چہر ہ نہآیت نورانی ہے ۔ آپ کے داہنے رخسارہ پرایک تل ہے ”کانہ کوکب دری “ جوستارہ کی مانند چمکتاہے ، آپ کے دانت چمکداراورکھلے ہوئے ہیں ۔ آپ کی زلفےں کندھوں پرپڑی رہتی ہیں ۔ آپ کاسینہ چوڑا اورآپ کے کندھے کھلے ہوئے ہیں آپ کی پشت پراسی طرح مہرامامت ثبت ہے جس طرح پشت رسالت مآب پرمہرنبوت ثبت تھی (اعلام الوری ص ۲۶۵ وغایۃ المقصود جلد ۱ ص ۶۴ ونورالابصارص ۱۵۲) ۔

تین سال کی عمرمیں حجت اللہ ہونے کادعوی

کتب تورایخ وسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پرورش کاکام جناب جبرئیل علیہ ا لسلام کے سپرد تھا اوروہ ہی آپ کی پرورش وپرداخت کرتے تھے ظاہرہے کہ جوبچہ ولادت کے وقت کلام کرچکاہو اورجس کی پرورش جبرئیل جیسے مقرب فرشتہ کے سپرد ہووہ یقینا دنیا میں چنددن گزارنے کے بعد بہرصورت اس صلاحیت کامالک ہوسکتاہے کہ وہ اپنی زبان سے حجت اللہ ہونے کادعوی کرسکے ۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ احمد ابن اسحاق اورسعدالاشقری ایک دن حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضرہوئے اورانھوںنے خیال کیا کہ آج امام علیہ السلام سے یہ دریافت کریں گے کہ آپ کے بعد حجت اللہ فی الارض کون ہوگا ، جب سامناہوا توامام حسن عسکری نے فرمایا کہ اے احمد !تم جودل میں لے کرآئے ہو میں اس کا جواب تمہیں دےئے دیتاہوں ،یہ فرماکرآپ اپنے مقام سے اٹھے اوراندجاکریوں واپس آئے کہ آپ کے کندھے پرایک نہآیت خوب صورت بچہ تھا ،جس کی عمرتین سال کی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ اے احمد !میرے بعد حجت خدایہ ہوگا اس کانام محمد اوراس کی کنیت ابوالقاسم ہے یہ خضرکی طرح زندہ رہے گا ۔ اورذوالقرنین کی طرح ساری دنیاپرحکومت کرے گا ۔احمدبن اسحاق نے کہا مولا! کوئی ایسی علامت بتادیجئے کہ جس سے دل کواطمینان کامل ہوجائے ۔ آپ نے امام مہدی کی طرف متوجہ ہوکرفرمایا ،بیٹا ! اس کوتم جواب دو ۔ ا مام مہدی علیہ السلام نے کمسنی کے باوجود بزبان فصیح فرمایا : ”اناحجة اللہ وانا بقےةاللہ “ ۔ میں ہی خدا کی حجت اورحکم خداسے باقی رہنے والاہوں، ایک وہ دن آئے گاجس میں دشمن خداسے بدلہ لوں گا ، یہ سن کراحمدخوش ومسروراورمطمئن ہوگئے (کشف الغمہ ۱۳۸ )

پانچ سال کی عمرمیں خاص الخاص اصحاب سے آپ کی ملاقات

یعقوب بن منقوش ومحمد بن عثمان عمری وابی ہاشم جعفری اورموسی بن جعفربن وہب بغدادی کابیان ہے کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے اورہم نے عرض کی مولا! آپ کے بعد امرامامت کس کے سپرد ہوگا اورکون حجت خداقرارپائے گا ۔ آپ نے فرمایا کہ میرا فرزند محمدمیرے بعد حجت اللہ فی الارض ہوگا ہم نے عرض کی مولا ہمیں ان کی زیارت کروادیجئے آپ نے فرمایا وہ پردہ جوسامنے آویختہ ہے اسے اٹھاؤ ۔ ہم نے پردہ اٹھا یا ، تواس سے ایک نہآیت خوب صورت بچہ جس کی عمرپانچ سال تھی برآمدہوا ،اور وہ آکر امام حسن عسکری کی آغوش میں بیٹھ گیا۔ ا مام نے فرمایاکہ یہی میرافرزند میرے بعد حجت اللہ ہوگا محمد بن عثمان کا کہناہے کہ ہم اس وقت چالیس افراد تھے اورہم سب نے ان کی زیارت کی ۔ امام حسن عسکری نے اپنے فرزند امام مہدی کوحکم دیا کہ وہ اندرواپس چلے جائیں اورہم سے فرمایا : ”شمااورا نخواہید دید غیرازامروز “ کہ اب تم آج کے بعد پھراسے نہ دیکھ سکوگے ۔ چنانچہ ایساہی ہوا ، پھرغیبت شروع ہوگئی (کشف الغمہ ص ۱۳۹ وشواہدالنبوت ص ۲۱۳) علامہ طبرسی اعلام الوری کے ص ۲۴۳ میں تحریرفرماتے ہیں کہ آئمہ کے نزدیک محمد اورعثمان عمری دونوں ثقہ ہیں ۔ پھراسی صفحہ میں فرماتے ہیں کہ ابوہارون کاکہنا ہے کہ میں نے بچپن میں صاحب الزمان کودیکھا ہے ” کانہ القمرلیلة البدر “ ان کا چہرہ چودھوےں رات کے چاند کی طرح چمکتاتھا ۔

امام مہدی نبوت کے آئینہ میں

علامہ طبرسی بحوالہ حضرات معصومین علیہم السلام تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ ا لسلام میں بہت سے انبیا کے حالات وکیفیات نظرآتے ہیں ۔ اورجن واقعات سے مختلف انبیا کودوچارہوناپڑا ۔ وہ تمام واقعات آپ کی ذات ستودہ صفات میں دکھا ئی دیتے ہیں مثال کے لئے حضرت نوح ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ،حضرت عیسی ، حضرت ایوب ،حضرت یونس ، حضرت محمدمصطفی صلعم کولے لیجئے اور ان کے حالات پرغورکیجئے ، آپ کوحضرت نوح کی طویل زندگی نصیب ہوئی حضرت ابراہیم کی طرح آپ کی ولادت چھپائی گئی ۔ اورلوگوں سے کنارہ کش ہوکر روپوش ہونا پڑا ۔ حضرت موسی کی طرح حجت کے زمین سے اٹھ جانے کا خوف لاحق ہوا ، اورانھےں کی ولادت کی طرح آپ کی ولادت بھی پوشیدہ رکھی گئی ، اورانھےں کے ماننے والوں کی طرح آپ کے ماننے والوں کو آپ کی غیبت کے بعد ستایا گیا ۔ حضرت عیسی کی طرح آپ کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا حضرت ایوب کی طرح تمام امتحانات کے بعد آپ کوفرج وکشائش نصیب ہوگی ۔حضرت یوسف کی طرح عوام اورخواص سے آپ کی غیبت ہوگئی حضرت یونس کی طرح غیبت کے بعد آپ کا ظہورہوگا یعنی جس طرح وہ اپنی قوم سے غائب ہوکربڑھاپے کے باوجود نوجوان تھے ۔ ا سی طرح آپ کا جب ظہورہوگا توآپ چالیس سالہ جوان ہوں گے اورحضرت محمد مصطفی کی طرح آپ صاحب السیف ہوں گے ۔ (اعلام الوری ص ۲۶۴ طبع بمبئی ۱۳۱۲ ہجری )

امام حسن عسکری کی شہادت :

امام مہدی علیہ السلام کی عمرابھی صرف پانچ سال کی ہوئی تھی کہ خلیفہ معتمد بن متوکل عباسی نے مدتوں قید رکھنے کے بعد امام حسن عسکری کوزہردیدیا ۔ جس کی وجہ سے آپ بتاریخ ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری مطابق ۸۷۳ ء بعمر ۲۸ سال رحلت فرماگئے ”وخلف من الولد ابنہ محمد “ اورآپ نے اولاد میں صرف امام محمد مہدی کوچھوڑا ۔ (نورالابصارص ۱۵۲ دمعة الساکبة ص ۱۹۱ ) علامہ شلنجبی لکھتے ہیں کہ جب آپ کی شہادت کی خبرمشہورہوئی ، توسارے شہرسامرہ میں ہلچل مچ گئی ، فریاد وفغاں کی آوازےں بلند ہوگئےں ، سارس شہرمیں ہڑتال کردی گئی ۔ یعنی ساری دکانےں بند ہوگئےں ۔ لوگوں نے اپنے کاوربارچھوڑدئیے۔ تمام بنی ہاشم حکام دولت ، منشی ،قاضی ، ارکان عدالت اعیان حکومت اور عامہ خلائق حضرت کے جنازے کے لئے دوڑپڑے ،حالت یہ تھی کہ شہرسامرہ قیامت کامنظرپیش کررہاتھا ۔تجہیزاورنماز سے فراغت کے بعد آپ کواسی مکان میں دفن کردیاگیا جس میں حضرت امام علی نقی علیہ مدفون تھے ۔ نورالابصار ص ۱۵۲ وتاریخ کامل صواعق محرقہ وفصول مہمہ،جلاالعیون ص ۲۹۶) علامہ محمد باقرفرماتے ہیںکہ امام حسن عسکری کی وفات کے بعد نمازجنازہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے پڑھائی ،ملاحظہ ہو ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۹۲ وجلاالعیون ص ۲۹۷ ) علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ نمازکے بعد آپ کوبہت سے لوگوں نے دیکھا اور آپ کے ہاتھوں کا بوسہ دیا (اعلام الوری ص ۲۴۲ ) علامہ ابن طاؤس کابیان ہے کہ ۸ ربیع الاول کوامام حسن عسکری کی وفات واقع ہوئی اور ۹ ربیع الاول سے حضرت حجت کی امامت کا آغازہوا ہم ۹ ربیع الاول کوجوخوشی مناتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے (کتاب اقبال) علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ ۹ ربیع الاول کوعمربن سعد بدست مختارآل محمد قتل ہواہے ۔(زادالمعاد ص ۵۸۵) جوعبیداللہ بن زیاد کا سپہ سالارتھا جس کے قتل کے بعد آل محمد نے پورے طورپرخوشی منائی ۔ (بحارالانوارومختارآل محمد) کتاب دمعہ ساکبہ کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ۲۵۹ ہجری میں اپنی والدہ کوحج کے لئے بھیج دیاتھا ،اورفرمادیاتھا کہ ۲۶۰ ہجری میں میری شہادت ہوجائے گی اسی سن میں آپ نے حضرت امام مہدی کوجملہ تبرکات دیدئیے تھے اوراسم اعظم وغیرہ تعلیم کردیاتھا (دمعہ ساکبہ وجلاالعیون ص ۲۹۸ ) انھےں تبرکات میں حضرت علی کا جمع کیاہوا وہ قرآن بھی تھا جوترتیب نزولی پرسرورکائنات کی زندگی میں مرتب کیاگیاتھا ۔ (تاریخ الخلفا واتقان) اورجسے حضرت علی نے اپنے عہد خلافت میں بھی اس لئے رائج نہ کیاتھا کہ اسلام میں دوقرآن رواج پاجائیں گے ۔ اوراسلام میں تفرقہ پڑجائے گا (ازالةالخلفا ۲۷۳) میرے نزدیک اسی سن میں حضرت نرجس خاتون کاانتقال بھی ہواہے اوراسی سن میں حضرت نے غیبت اختیارفرمائی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اوراس کی ضرورت :

بادشاہ وقت خلیفہ معتمدبن متوکل عباسی جواپنے آباؤاجداد کی طرح ظلم وستم کاخوگراورآل محمد کاجانی دشمن تھا ۔ اس کے کانوں میں مہدی کی ولادت کی بھنک پڑچکی تھی ۔ اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین وتدفین سے پہلے بقول علامہ مجلسی حضرت کے گھرپرپولیس کاچھاپہ ڈلوایااورچاہاکہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتارکرالے لیکن چونکہ وہ بحکم خدا ۲۳ رمضان المبارک ۲۵۹ ہجری کوسرداب میں جاکرغائب ہوچکے تھے۔ جیسا کہ شواہدالنبوت ،نورالابصار،دمعة ساکبہ ،روضة الشہدا ،مناقب الا ئمہ ،انوارالحسینیہ وغیرہ سے مستفاد ومستنبط ہوتاہے ۔ اس لئے وہ اسے دستیاب نہ ہوسکے ۔اس نے اس کے رد عمل میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تمام بیبیوں کوگرفتارکرالیا اورحکم دیا کہ اس امرکی تحقیق کی جائے کہ آیاکوئی ان میں سے حاملہ تونہیں ہے اگرکوئی حاملہ ہو تواس کاحمل ضائع کردیاجائے ،کیونکہ وہ حضرت سرورکائنات صلعم کی پیشین گوئی سے خائف تھا کہ آخری زمانہ میں میرا ایک فرزند جس کانام مہدی ہوگا ۔ کائنات عالم کے انقلاب کا ضامن ہوگا ۔ اوراسے یہ معلوم تھا کہ وہ فرزند امام حسن عسکر ی علیہ السلام کی اولاد سے ہوگا لہذا اس نے آپ کی تلاش اورآپ کے قتل کی پوری کوشش کی ۔تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۱ میں ہے کہ ۲۶۰ میں امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد جب معتمد خلیفہ عباسی نے آپ کے قتل کرنے کے لئے آدمی بھیجے توآپ سرداب ( ۱) ” سرمن رائے “میں غائب ہوگئے بعض اکابرعلما اہل سنت بھی اس امرمیں شیعوں کے ہم زبان ہیں ۔ چنانچہ ملاجامی نے شواہدالنبوت میں امام عبدالوہاب شعرانی نے لواقع الانواروالیواقیت والجواہرمیں اورشیخ احمدمحی الدین ابن عربی نے فتوحات مکہ میں اورخواجہ پارسانے فصل الخطاب میں اورعبدالحق محدث دہلوی نے رسالہ ا ئمہ طاہرین میں اورجمال الدین محدث نے روضةالاحباب میں ،اورابوعبداللہ شامی صاحب کفاےةالطالب نے کتاب التبیان فی اخبارصاحب الزمان میں اورسبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں اورابن صباغ نورالدین علی مالکی نے فصول المہمہ میں اورکمال الدین ابن طلحہ شافعی نے مطالب السؤل میں اورشاہ ولی اللہ نے فضل المبین میں اورشیخ سلیمان حنفی نے ینابع المودة میں اوربعض دیگرعلما نے بھی ایساہی لکھا ہے اورجولوگ ان حضرت کے طول عمرمیں تعجب کرکب انکارکرتے ہیں ۔ ان کویہ جواب دیتے ہیں کہ خدا کی قدرت سے کچھ بعیدنہیں ہے جس نے آدم کوبغیرماں باپ کے اورعیسی کوبغیرباپ کے پیداکیا ،تمام اہل اسلام نے حضرت خضرکواب تک زندہ ماناہوا ہے ،ادریس بہشت میں اورحضرت عیسی آسمان پراب تک زندہ مانے جاتے ہیں اگرخدائے تعالی نے آل محمد میں سے ایک شخص کوعمرعنآیت کیاتوتعجب کیاہے ؟حالانکہ اہل اسلام کودجال کے موجود ہونے اورقریب قیامت ظہورکرنے سے بھی انکارنہیں ہے ۔

( ۱ ) یہ سرداب ،مقام ”سرمن رائے“ میں واقع ہے جسے اصل میں سامراکہتے ہیں

سامراکی آبادی بہت ہی قدیمی ہے اوردنیاکے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے ، اس سام بن نوح نے آبادکیاتھا (معجم البلدان) اس کی اصل سام راہ تھی بعدمیں سامراہوگیا ، آب وہواکی عمدگی کی وجہ سے خلیفہ معتصم نے فوجی کیمپ بناکرآبادکیاتھا اوراسی کو دارالسلطنت بھی بنادیاتھا ، اس کی آبادی ۸ فرسخ لمبی تھی ، اسے اس نے نہآیت خوبصورت شہربنادیاتھا ۔ ا سی لئے اس کانام سرمن رائے رکھ دیاتھا یعنی وہ شہرجسے جوبھی دیکھے خوش ہوجائے ،عسکری اسی کاایک محلہ ہے جس میں امام علی نقی علیہ السلام نظربندتھے بعد میں انھوں نے دلیل بن یعقوب نصرانی سے ایک مکان خریدلیاتھا جس میں اب بھی آپ کامزارمقدس واقع ہے ۔

سامرامیں ہمیشہ غیرشیعہ آبادی رہی ہے اس لئے اب تک وہاں شیعہ آباد نہیں ہیں وہاں کے جملہ خدام بھی غیرشیعہ ہیں ۔

حضرت حجت علیہ السلام کے غائب ہونے کاسرداب وہیں ایک مسجدکے کنارے واقع ہے جوکہ حضرت امام علی نقی اورحضرت امام حسن عسکری کے مزاراقدس کے قریب ہے ۱۲ منہ۔

کتاب شواہدالنبوت کے ص ۶۸ میں ہے کہ خاندان نبوت کے گیارہوےں امام حسن عسکری ۲۶۰ میں زہرسے شہیدکردےئے گئے تھے ان کی وفات پران کے صاحبزادے محمد ملقب بہ مہدی شیعوں کے آخری امام ہوئے۔مولوی امیرعلی لکھتے ہیں کہ خاندان رسالت کے ان اماموں کے حالات نہآیت دردناک ہیں ۔ ظالم متوکل نے حضرت امام حسن عسکری کے والدماجد امام علی نقی کومدینہ سے سامرہ پکڑبلایاتھا ۔اوروہاں ان کی وفات تک ان کونظربندرکھا تھا ۔ (پھرزہرسے ہلاک کردیاتھا ) اسی طرح متوکل کے جانشینوں نے بدگمانی اورحسدکے مارے حضرت امام حسن عسکری کوقیدرکھاتھا ،ان کے کمسن صاحبزادے محمدالمہدی جن کی عمراپنے والدکی وفات کے وقت پانچ سال کی تھی ۔ خوف کے مارے اپنے گھرکے قریب ہی ایک غارمیں چھپ گئے اورغائے ہوگئے ۔الخ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ جس غارمیں امام مہدی کی غیبت بتائی جاتی ہے ۔ اسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔(نورالابصارجلد ۱ ص ۱۵۲) علامہ ابن حجرمکی کاارشادہے، کہ امام مہدی سرداب میں غائب ہوے ہیں ۔” فلم یعرف این ذھب “ پھرمعلوم نہیں کہاں تشریف لے گئے۔ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴) ۔

غیبت امام مہدی پرعلمااہل سنت کااجماع :

جمہورعلما اسلام امام مہدی کے وجودکوتسلیم کرتے ہیں ، اس میں شیعہ اورسنی کاسوال نہیں ۔ ہرفرقہ کے علماء یہ مانتے ہیںکہ آپ پیدا ہوچکے ہیں اورموجودہیں ۔ہم علماء اہل سنت کے اسماء مع ان کی کتابوں اورمختصراقوال کے درج کرتے ہیں :

( ۱ ) ۔ علامہ محمدبن طلحہ شافعی کتاب مطالب السوال میں فرماتے ہیں کہ امام مہدی سامرہ میں پیداہوئے ہیں جوبغداد سے ۲۰ فرسخ کے فاصلہ پرہے۔

( ۲ ) ۔ علامہ علی بن محمدصباغ مالکی کی کتاب فصول المہمہ میں لکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری گیارہوےں امام نے اپنے بیٹے امام مہدی کی ولادت بادشاہ وقت کے خوف سے پرشیدہ رکھی ۔

( ۳ ) ۔علامہ شیخ عبداللہ بن احمد خشاب کی کتاب تاریخ موالید میں ہے کہ امام مہدی کانام محمد اورکنیت ابوالقاسم ہے ۔آپ آخری زمانہ میں ظہوروخروج کریں گے ۔

( ۴ ) ۔ علامہ محی الدین ابن عربی حنبلی کی کتاب فتوحات مکہ میں ہے کہ جب دنیا ظلو وجورسے بھرجائے گی توامام مہدی ظہورکریں گے۔

( ۵ ) ۔علامہ شیخ عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الیواقیت والجواہرمیں ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ ہجری میں پیداہوئے اب اس وقت یعنی ۹۵۸ ہجری میں ان کی عمر ۷۰۶ سال کی ہے ،یہی مضمون علامہ بدخشانی کی کتاب مفتاح النجاة میں بھی ہے ۔

( ۶ ) ۔ علامہ عبدالرحمن جامی حنفی کی کتاب شواہدالنبوت میں ہے کہ امام مہدی سامرہ میں پیداہوئے ہیں اوران کی ولادت پوشیدہ رکھی گئی ہے وہ امام حسن عسکری کی موجودگی میں غائب ہوگئے تھے ۔اسی کتاب میں ولادت کاپوراواقعہ حکیمہ خاتون کی زبانی مندرج ہے ۔

( ۷ ) ۔ علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب مناقب الائمہ ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے ہیں امام حسن عسکری نے ان کے اذان واقامت کہی ہے اورتھوڑے عرصہ کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ اس مالک کے سپردہوگئے جن کے پاس حضرت موسی بچپنے میں تھے۔

( ۸ ) ۔ علامہ جمال الدین محدث کی کتاب روضةالاحباب میں ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے اورزمانہ معتمد عباسی میں بمقام ”سرمن رائے“ ازنظربرایاغائب شد لوگوں کی نظرسے سرداب میں غائب ہوگئے ۔

( ۹ ) ۔ علامہ عبدالرحمن صوفی کی کتاب مراةالاسرارمیں ہے کہ آپ بطن نرجس سے ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے ۔

( ۱۰ ) ۔ علامہ شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیربحرمواج کی کتاب ہداےة السعداء میں ہے کہ خلافت رسول حضرت علی کے واسطہ سے امام مہدی تک پہونچی آپ ہی آخری امام ہیں ۔

( ۱۱ ) ۔ علامہ نصربن علی جھمنی کی کتاب موالیدالائمہ میں ہے کہ امام مہدی نرجس خاتون کے بطن سے پیداہوئے ۔

( ۱۲ ) ۔ علامہ ملا علی قاری کی کتاب مرقات شرح مشکوة میں ہے کہ امام مہدی باہوےں امام ہیں شیعوں کایہ کہناغلط ہے کہ اہل سنب اہل بیت کے دشمن ہین۔

( ۱۳ ) ۔ علامہ جواد ساباطی کی کتاب براہین ساباطیہ میں ہے کہ امام مہدی اولادفاطمہ میں سے ہیں ، وہ بقولے ۲۵۵ میں متولد ہوکرایک عرصہ کے بعد غائب ہوگئے ہیں ۔

( ۱۴ ) ۔ علامہ شیخ حسن عراقی کی تعریف کتاب الواقع میں ہے کہ انھوںنے امام مہدی سے ملاقات کی ہے ۔

( ۱۵ ) ۔ علامہ علی خواص جن کے متعلق شعرانی نے الیواقیت میں لکھا ہے کہ انھوںنے امام مہدی سے ملاقات کی ہے ۔

( ۱۶ ) ۔ علامہ شیخ سعدالدین کاکہناہے کہ امام مہدی پیداہوکرغائب ہوگئے ہیں ”دورآخرزمانہ آشکارگردد“ اوروہ آخرزمانہ میں ظاہرہوں گے ۔جیساکہ کتاب مقصداقصی میں لکھا ہے ۔

( ۱۷ ) ۔ علامہ علی اکبرابن اسعداللہ کی کتاب مکاشفات میں ہے کہ آپ پیداہوکرقطب ہوگئے ہیں ۔

( ۱۸ ) ۔ علامہ احمدبلاذری ااحادیث لکھتے ہیں کہ آپ پیداہوکرمحجوب ہوگئے ہیں ۔

( ۱۹ ) ۔ علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے رسالہ نوارد میں ہے، محمد بن حسن( المہدی ) کے بارے میں شیعوں کاکہنا درست ہے ۔

( ۲۰ ) ۔ علامہ شمس الدین جزری نے بحوالہ مسلسلات بلاذری اعتراف کیاہے ۔

( ۲۱ ) ۔علامہ علاالدولہ احمدمنانی صاحب تاریخ خمیس دراحوالی النفس نفیس اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امام مہدی غیبت کے بعد ابدال پھرقطب ہوگئے۔

علامہ نوراللہ بحوالہ کتابیان الاحسان لکھتے ہیں کہ امام مہدی تکمیل صفات کے لئے غائب ہوئے ہیں

۲۴ علامہ ذہبی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ امام مہدی ۲۵۶ میں پیداہوکرمعدوم ہوگئے ہیں

۲۵ علامہ ابن حجرمکی کی کتاب صواعق محرقہ میں ہے کہ امام مہدی المنتظرپیداہوکرسرداب میں غائب ہوگئے ہیں ۔

۲۶ علامہ عصرکی کتاب وفیات الا عیان کی جلد ۲ ص ۴۵۱ میں ہے کہ امام مہدی کی عمرامام حسن عسکری کی وفات کے وقت ۵ سال تھی وہ سرداب میں غائب ہوکرپھرواپس نہیں ہوے ۔

۲۷ علامہ سبط ابن جوزی کی کتاب تذکرةالخواص الامہ کے ص ۲۰۴ میں ہے کہ آپ کالقب القائم ، المنتظر،الباقی ہے ۔

۲۸ علامہ عبیداللہ امرتسری کی کتاب ارجح المطالب کے ص ۳۷۷ میں بحوالہ کتاب البیان فی اخبارصاحب الزمان مرقوم ہے کہ آپ اسی طرح زندہ باقی ہیں جس طرح عیسی ، خضر، الیاس وغیرہ ہم زندہ اورباقی ہیں ۔

۲۹ علامہ شیخ سلیمان تمندوزی نے کتاب ینابع المودة ص ۳۹۳ میں

۳۰ علامہ ابن خشاب نے کتاب موالیداہل بیت میں

۳۱ علامہ شبلنجی نے نورالابصارکے ص ۱۵۲ طبع مصر ۱۲۲۲ میں بحوالہ کتاب البیان لکھا ہے کہ امام مہدی غائب ہونے کے بعد اب تک زندہ اورباقی ہیں اوران کے وجود کے باقی ،اورزندہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے وہ اسی طرح زندہ اورباقی ہیں جس طرح حضرت عیسی ،حضرت خضراورحضرت الیاس وغیرہم زندہ اورباقی ہیں ان اللہ والوں کے علاوہ دجال ،ابلیس بھی زندہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید صحیح مسلم ،تاریخ طبری وغیرہ سے ثابت ہے لہذا ”لاامتناع فی بقائہ“ان کے باقی اورزندہ ہونے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے علامہ چلپی کتاب کشف الظنون کے ص ۲۰۸ میں لکھتے ہیں کہ کتاب البیان فی اخبارصاحب الزمان ابوعبداللہ محمد بن یوسف کنجی شافعی کی تصنیف ہے ۔ (علامہ فاضل روزبہان کی ابطال الباطل میں ہے کہ امام مہدی قائم ومنتظرہیں وہ آفتاب کی مانند ظاہرہوکردنیاکی تاریکی ،کفرزائل کردے گے ۔

۳۱ علامہ علی متقی کی کتاب کنزالعمال کی جلد ۷ کے ص ۱۱۴ میں ہے کہ آپ غائب ہیں ظہورکرکے ۹ سال حکزمت کریں گے ۔

۳۲ علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب درمنشورجلد ۳ ص ۲۳ میں ہے کہ امام مہدی کے ظہورکے بعد عیسی نازل ہوںگے وغیرہ۔

امام مہدی کی غیبت اورآپ کاوجود وظہورقرآن مجیدکی روشنی میں :

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اورآپ کے موجودہونے اورآپ کے طول عمرنیزآپ کے ظہوروشہود اورظہورکے بعد سارے دین کوایک کردینے کے متعلق ۹۴ آیتےں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں سے اکثردونوں فریق نے تسلیم کیاہے ۔اسی طرح بے شمارخصوصی احادیث بھی ہیںتفصیل کے لئے ملاحظہ ہو غایۃ المقصود وغایۃالمرام علامہ ہاشم بحرانی اورینابع المودة ،میں اس مقام پرصرف دوتین آیتےں لکھتاہوں :

۱ ) آپ کی غیبت کے متعلق :آلم ذلک الکتاب لاريب فیه هدی للمتقين الذين يومنون بالغيب ہے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیںکہ ایمان بالغیب سے امام مہدی کی غیبت مراد ہے ۔نیک بخت ہیں وہ لوگ جوان کی غیبت پرصبرکریں گے اورمبارک باد کے قابل ہیں ۔ وہ سمجھدار لوگ جوغیبت میں بھی ان کی محبت پرقائم رہیں گے ۔(ینابع المودة ص ۳۷۰ طبع بمےئی )

۲ ) آپ کے موجود اورباقی ہونے کے متعلق ”جعلھا کلمةباقےة فی عقبہ “ ہے ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ کوقراردیاہے جوباقی اورزندہ رہے گا اس کلمہ باقیہ سے امام مہدی کاباقی رہنا مراد ہے اوروہی آل محمد میں باقی ہیں ۔(تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی ص ۲۲۶) ۔

۳) آپ کے ظہوراورغلبہ کے متعلق ”یظہرہ علی الدین کلہ “ جب امام مہدی بحکم خداظہورفرمائےں گے توتمام دینوں پرغلبہ حاصل کرلےں گے یعنی دنیا میں سوا ایک دین ا سلام کے کوئی اوردین نہ ہوگا ۔(نورالابصارص ۱۵۳ طبع مصر)۔

امام مہدی کاذکرکتب آسمانی میں

:

حضرت داؤد کی زبورکی آیت ۴# مرموز ۹۷ میں ہے کہ آخری زمانہ میں جوانصاف کامجسمہ انسان آئے گا ، اس کے سر پرابرسایہ فگن ہوگا ۔ کتاب صفیائے پیغمبرکے فصل ۳ آیت ۹ میں ہے آخری زمانے میں تمام دنیا موحدہوجائے گی ۔کتاب زبورمرموز ۱۲۰ میں ہے جوآخرالزماں آئے گا، اس پرآفتاب اثراندازنہ ہوگا۔صحیفہ شعیاپیغمبرکے فصل ۱۱ میں ہے کہ جب نورخداظہورکرے گا توعدل وانصاف کا ڈنکا بجے گا ۔شیراوربکری ایک جگہ رہیں گے چیتااوربزغالہ ایک ساتھ چرےں گے شیراورگوسالہ ایک ساتھ رہیں گے ،گوسالہ اورمرغ ایک ساتھ ہوںگے شیراورگائے میں دوستی ہوگی ۔ طفل شیرخوارسانپ کب بل میں ہاتھ ڈالے گااوروہ کاٹے گانہیں پھراسی صفحہ کے فصل ۲۷ میں ہے کہ یہ نورخدا جب ظاہرہوگا، توتلوارکے ذریعہ سے تمام دشمنوں سے بدلہ لے گا صحیفہ تنجاس حرف الف میں ہے کہ ظہورکے بعد ساری دنیا کے بت مٹادئیے جائیں گے ،ظالم اورمنافق ختم کردئیے جائیں گے یہ ظہورکرنے والاکنیزخدا (نرجس) کابیٹاہوگا ۔ توریت کے سفرانبیامیں ہے کہ مہدی ظہورکریں گے عیسی آسمان سے اترےں گے ،دجال کوقتل کریں گے انجیل میں ہے کہ مہدی اورعیسی دجال اورشیطان کوقتل کریں گے ۔ اسی طرح مکمل واقعہ جس میں شہادت امام حسین اورظہورمہدی علیہ السلام کااشارہ ہے ۔انجیل کتاب دانیال باب ۱۲ فصل ۹ آیت ۲۴ رویائے ۲# میں موجود ہے (کتاب الوسائل س ۱۲۹ طبع بمبئی ۱۳۳۹ ہجری )۔

امام مہدی کی غیبت کی وجہ :

مذکورہ بالاتحریروں سے علمااسلام کااعتراف ثابت ہوچکا یعنی واضح ہوگیا کہ امام مہدی کے متعلق جوعقائد اہل تشیع کے ہیں وہی منصف مزاج اورغیرمتعصب اہل تسنن کے علماء کے بھی ہیں اورمقصد اصل کی تائید قرآن کی آیتوں نے بھی کردی ،اب رہی غیبت امام مہدی کی ضرورت اس کے متعلق عرض ہے کہ :

۱ ) اخلاق عالم نے ہدآیت خلق کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبراورکثیرالتعداد ان کے اوصیا بھیجے ۔پیغمبروں میں سے ایک لاکھ تیس ہزار نوسو ننانوےں انبیاء کے بعد چونکہ حضوررسول کریم تشریف لائے تھے ۔لہذا ان کے جملہ صفات وکمالات ومعجزات حضرت محمدمصطفی صلعم میں جمع کردئیے تھے اورآپ کوخدانے تمام انبیاء کے صفات کا جلوہ برواربنایا بلکہ خود اپنی ذات کامظہرقراردیا تھا اورچونکہ آپ کوبھی اس دنیائے فانی سے ظاہری طورپرجاناتھا اس لئے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی کوہرقسم کے کمالات سے بھرپورکردیاتھا یعنی حضرت علی اپنے ذاتی کمالات کے علاوہ نبوی کمالات سے بھی ممتازہوگئے تھے ۔سرورکائنات کے بعد کائنات عالم صرف ایک علی کی ہستی تھی جوکمالات انبیاء کی حامل تھی آپ کے بعد سے یہ کمالات اوصیامیں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی تک پہونچے بادشاہ وقت امام مہدی کوقتل کرنا چاہتاتھا اگروہ قتل ہوجاتے تودنیاسے انبیاء واوصیاء کا نام ونشان مٹ جاتا اورسب کی یادگاربیک ضرب شمشیرختم ہوجاتی اورچونکہ انھےں انبیاء کے ذریعہ سے خداوند عالم متعارف ہواتھا لہذا اس کابھی ذکرختم ہوجاتا اس لئے ضرورت تھی کہ ایسی ہستی کومحفوظ رکھا جائے جوجملہ انبیاء اوراوصیاء کی یادگاراورتمام کے کمالات کی مظہرہو ۔

۲ ) خداوندے عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے” وجعلها کلمة باقیة فی عقبة “ ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قراردیاہے نسل ابراہیم دوفرزندوں سے چلی ہے ایک اسحاق اوردوسرے اسماعیل ۔ اسحاق کی نسل سے خداوندعالم جناب عیسی کوزندہ وباقی قراردے کر آسمان پرمحفوظ کرچکاتھا ۔ اب بہ مقتضائے انصاف ضرورت تھی کہ نسل اسماعیل سے کسی ایک کوباقی رکھے اوروہ بھی زمین پرکیونکہ آسمان پرایک باقی موجودتھا ،لہذا امام مہدی کوجونسل اسماعیل سے ہیں زمین پرزندہ اورباقی رکھا اورانھےں بھی اسی طرح دشمنوں کے شرسے محفوظ کردیا جس طرح حضرت عیسی کومحفوظ کیاتھا ۔

۳ ) یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا اورامام زمانہ سے خالی نہیں رہ سکتی (اصول کافی ۱۰۳ طبع نولکشور) چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی کے سوا کوئی نہ تھا اورانھےں دشمن قتل کردینے پرتلے ہوئے تھے اس لئے انھےں محفوظ ومستورکردیاگیا ۔حدیث میں ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے اورانھےں کے ذریعہ سے روزی تقسیم کی جاتی ہے (بحار)۔

۴ ) یہ مسلم ہے کہ حضرت امام مہدی جملہ انبیاء کے مظہرتھے اس لئے ضرورت تھی کہ انھےں کی طرح ان کی غیبت بھی ہوتی یعنی جس طرح بادشاہ وقت کے مظالم کی وجہ سے حضرت نوح ،حضرت ابراہیم ،حضرت موسی ،حضرت عیسی اورحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے عہدحیات میں مناسب مدت تک غائب رہ چکے تھے اسی طرح یہ بھی غائب رہتے ۔

۵ ) قیامت کاآنا مسلم ہے اورواقعہ قیامت میں امام مہدی کا ذکربتاتاہے کہ آپ کی غیبت مصلحت خداوندی کی بناء پرہوئی ہے ۔

۶ ) سور ہ اناانزلنا سے معلوم ہوتاہے کہ نزول ملائکہ شب قدرمیں ہوتا رہتاہے یہ ظاہرہے کہ نزول ملائکہ انبیاء واوصیاء ہی پرہواکرتاہے ۔امام مہدی کواس لئے موجود اورباقی رکھا گیاہے تاکہ نزول ملائکہ کی مرکزی غرض پوری ہوسکے ،اورشب قدرمیں انھےںپرنزول ملائکہ ہوسکے حدیث میں ہے کہ شب قدرمیں سال بھرکی روزی وغیرہ امام مہدی تک پہونچادی جاتی ہے اوروہی اس تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔

۷ ) حکیم کافعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا یہ دوسری بات ہے کے عام لوگ اس حکمت ومصلحت سے واقف نہ ہوں غیبت امام مہدی اسی طرح مصلحت وحکمت خداوندی کی بناپرعمل میں آئی ہے جس طرح طواف کعبہ ،رمی جمرہ وغیرہ ہے جس کی اصل مصلحت خداوندعالم ہی کومعلوم ہے ۔

۸ ) امام جعفرصادق علیہ السلام کافرماناہے کہ امام مہدی کواس لئے غائب کیاجائے گا تاکہ خداوندعالم اپنی ساری مخلوق کا امتحان کرکے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اورباطل پرست کون لوگ ہیں (اکمال الدین )۔

۹ ) چونکہ آپ کواپنی جان کاخوف تھا اوریہ طے شدہ ہے کہ ” من خاف علی نفسہ احتاج الی الاستتار“ کہ جسے اپنے نفس اوراپنی جان کاخوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کولازمی جانتاہے (المرتضی )۔

۱۰) آپ کی غیبت اس لئے واقع ہوئی ہے کہ خداوندعالم ایک وقت معین میں آل محمد پرجومظالم کیے گئے ہیں ۔ ان کابدلہ امام مہدی کے ذریعہ سے لے گا یعنی آپ عہد اول سے لے کربنی امیہ اوربنی عباس کے ظالموں سے مکمل بدلہ لےں گے ۔ (اکمال الدین )۔