مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام15%

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47763 / ڈاؤنلوڈ: 5625
سائز سائز سائز
مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام

آپ کی ولادت باسعادت

آپ بتاریخ ۱۷/ ربیع الاول ۸۳ ھ مطابق ۲۰۷ ءیوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (ارشادمفیدفارسی ص ۴۱۳ ،اعلام الوری ص ۱۵۹ ،جامع عباسی ص ۶۰ وغیرہ)۔

آپ کی ولادت کی تاریخ کوخداوندعالم نے بڑی عزت دے رکھی ہے احادیث میں ہے کہ اس تاریخ کوروزہ رکھناایک سال کے روزہ کے برابرہے ولادت کے بعدایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ میرایہ فرزندان چندمخصوص افراد میں سے ہے جن کے وجود سے خدانے بندوں پراحسان فرمایاہے اوریہی میرے بعد میراجانشین ہوگا(جنات الخلوج ص ۲۷) ۔

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تھے تب کلام فرمایاکرتے تھے ولادت کے بعدآپ نے کلمہ شہادتین زبان پرجاری فرمایاآپ بھی ناف بریدہ اورختنہ شدہ پیداہوئے ہیں (جلاء العیون ص ۲۶۵) ۔ آپ تمام نبوتوں کے خلاصہ تھے۔

اسم گرامی ،کنیت ،القاب

آپ کااسم گرامی جعفر، آپ کی کنیت ابوعبداللہ ،ابواسماعیل اورآپ کے القاب صادق،صابروفاضل، طاہروغیرہ ہیں علامہ مجلسی رقمطرازہیں کہ آنحضرت نے اپنی ظاہری زندگی میں حضرت جعفربن محمدکولقب صادق سے موسوم وملقب فرمایاتھا اوراس کی وجہ بظاہریہ تھی کہ اہل آسمان کے نزدیک آپ کالقب پہلے ہی سے صادق تھا (جلاء العیون ص ۲۶۴) ۔

علامہ ابن خلکان کاکہناہے کہ صدق مقال کی وجہ سے آپ کے نام نامی کاجزو”صادق“ قرارپایاہے (وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۱۰۵) ۔

جعفرکے متعلق علماء کابیان ہے کہ جنت میں جعفرنامی ایک شیرین نہرہے اسی کی مناسبت سے آپ کایہ لقب رکھاگیاہے چونکہ آپ کافیض عام نہرجاری کی طرح تھا اسی لیے اس لقب سے ملقب ہوئے (ارجح المطالب ص ۳۶۱ ،بحوالہ تذکرة الخواص الامة)۔

امام اہل سنت علامہ وحیدالزمان حیدرآبادی تحریرفرماتے ہیں،جعفر،چھوٹی نہریابڑی واسع (کشادہ ) امام جعفرصادق،مشہورامام ہیںبارہ اماموں میں سے اوربڑے ثقہ اورفقیہ اورحافظ تھے امام مالک اورامام ابوحنیفہ کے شیخ (حدیث)ہیں اورامام بخاری کونہیں معلوم کیاشبہ ہوگیاکہ وہ اپنی صحیح میں ان سے روایتیں نہیں کرتے اوریحی بن سعیدقطان نے بڑی بے ادبی کی ہے جوکہتے ہیں کہ میں ”فی منہ شئی ومجالداحب الی منہ“ میرے دل میں امام جعفرصادق کی طرف سے خلش ہے، میں ان سے بہترمجالدکوسمجھتاہوں ،حالانکہ مجالدکوامام صاحب کے سامنے کیارتبہ ہے؟ ایسی ہی باتوں کی وجہ سے اہل سنت بدنام ہوتے ہین کہ ان کوآئمہ اہل بیت سے کچھ محبت اوراعتقادنہیں ہے۔

اللہ تعالی امام بخاری پررحم کرے کہ مروان اورعمران بن خطان اورکئی خوارج سے توانہوں نے روایت کی اورامام جعفرصادق سے جوابن رسول اللہ ہیں ان کی روایت میں شبہ کرتے ہیں (انواراللغتہ پارہ ۵ ص ۴۷ طبع حیدرآباددکن)۔

علامہ ابن حجرمکی اورعلامہ شبلنجی رقمطرازہیں کہ اعیان آئمہ میں سے ایک جماعت مثل یحی بن سعیدبن جریح،امام مالک ،امام سفیان ثوری بن عینیہ،امام ابوحنیفہ ،ایوب سجستانی نے آپ سے حدیث اخذکی ہے ،ابوحاتم کاقول ہے کہ امام جعفرصادق ایسے ثقہ میں لایسئل عنہ مثلہ کہ آپ ایسے شخصوں کی نسبت کچھ تحقیق اوراستفساروتفحص کی ضرورت ہی نہیں ،آپ ریاست کی طلب سے بے نیازتھے اورہمیشہ عبادت گزاری میں بسرکرتے رہے ،عمرابن مقدام کاکہناہے کہ جب میں امام جعفرصادق علیہ السلام کودیکھتاہوں تومجھے معاخیال ہوتاہے کہ یہ جوہررسالت کی اصل وبنیادہیں (صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،نورالابصار، ص ۱۳۱ ،حلیة الابرارتاریخ آئمہ ص ۴۳۳) ۔

بادشاہان وقت

آپ کی ولادت ۸۳ ھ میں ہوئی ہے اس وقت عبدالملک بن مروان بادشاہ وقت تھا پھرولید،سلیمان،عمربن عبدالعزیز،یزیدبن عبدالملک ،ہشام بن عبدالملک،ولیدبن یزیدبن عبدالملک ،یزیدالناقص، ابراہیم ابن ولید،اورمروان الحمار،علی الترتیب خلیفہ مقررہوئے مروان الحمارکے بعدسلطنت بنی امیہ کاچراغ گل ہوگیا اوربن عباس نے حکومت پرقبضہ کرلیا،بنی عباس کاپہلابادشاہ ابوالعباس ،سفاح اوردوسرا منصور دوانقی ہواہے ۔ملاحظہ ہو(اعلام الوری) تاریخ ابن الوردی ،تاریخ ائمہ ص ۴۳۶) ۔

اسی منصورنے ابنی حکومت کے دوسال گزرنے کے بعدامام جعفرصادق علیہ السلام کوزہرسے شہیدکردیا(انوارالحسینہ جلد ۱ ص ۵۰) ۔

عبدالملک بن مروان کے عہدمیں آپ کاایک مناظرہ

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے بے شمارعلمی مناظرے فرمائے ہیں آپ نے دہریوں، قدریوں،کافروں اوریہودیوں ونصاری کوہمیشہ شکست فاش دی ہے کسی ایک مناظرہ میں بھی آپ پرکوئی غلبہ حاصل نہیں کرسکا،عہدعبدالملک بن مروان کاذکرہے کہ ایک قدریہ مذہب کامناظراس کے دربارمیں آکرعلماء سے مناظرہ کاخوہشمندہوا،بادشاہ نے حسب عادت اپنے علماء کوطلب کیااوران سے کہاکہ اس قدریہ مناظرسے مناظرہ کروعلماء نے اس سے کافی زورآزمائی کی مگروہ میدان مناظرہ کاکھلاڑی ان سے نہ ہارسکا، اورتمام علماء عاجزآگئے اسلام کی شکست ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک بن مروان نے فوراایک خط حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں مدینہ روانہ کیااوراس میں تاکیدکی کہ آپ ضرورتشریف لائیں حضرت امام محمدباقرکی خدمت میں جب اس کاخط پہنچاتوآپ نے اپنے فرزندحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے فرمایاکہ بیٹامیں ضعیف ہوچکاہوں تم مناظرہ کے لیے شام چلے جاؤ حضرت اما م جعفرصادق علیہ السلام اپنے پدربزرگوارکے حسب الحکم مدینہ سے روانہ ہوکرشام پہنچ گئے۔

عبدالملک بن مروان نے جب امام محمدباقرعلیہ السلام کے بجائے امام جعفرصادق علیہ السلام کودیکھاتوکہنے لگاکہ آپ ابھی کم سن ہیں اوروہ بڑاپرانامناظر ہے ،ہوسکتاہے کہ آپ بھی اورعلماء کی طرح شکست کھاجائیں ،اس لیے مناسب نہیں کہ مجلس مناظرہ منعقدکی جائے حضرت نے ارشادفرمایا،بادشاہ توگھبرا نہیں، اگرخدانے چاہاتومیں صرف چندمنٹ میں مناظرہ ختم کردوں گاآپ کے ارشادکی تائیددرباریوں نے بھی کی اورموقعہ مناظرہ پرفریقین آگیے۔

چونکہ قدریوں کااعتقادہے کہ بندہ ہی سب کچھ ہے، خداکوبندوں کے معاملہ میں کوئی دخل نہیں،اورنہ خداکچھ کرسکتاہے یعنی خداکے حکم اورقضاوقدروارادہ کوبندوں کے کسی امرمیں دخل نہیں لہذا حضرت نے اس کی پہلی کرنے کی خواہش پرفرمایاکہ میں تم سے صرف ایک بات کہنی چاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ تم ”سورہ حمد“پڑھو،اس نے پڑھناشروع کیا جب وہ ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ پرپہنچاجس کاترجمہ یہ ہے کہ میں صرف تیری عبادت کرتاہوں اوربس تھجی سے مدد چاہتاہوں توآپ نے فرمایا،ٹہرجاؤاورمجھے اس کاجواب دوکہ جب خداکوتمہارے اعتقاد کے مطابق تمہارے کسی معاملہ میں دخل دینے کاحق نہیں توپھرتم اس سے مدد کیوں مانگتے ہو، یہ سن کروہ خاموش ہوگیااورکوئی جواب نہ دے سکا،بالآخرمجلس مناظرہ برخواست ہوگئی اوربادشاہ نے بے حدخوش ہوا(تفسیر برہان جلد ۱ ص ۳۳) ۔

ابوشاکردیصانی کاجواب

ابوشاکردیصانی جولامذہب تھا حضرت سے کہنے لگاکہ کیاآپ خداکاتعارف کراسکتے ہیں اوراس کی طرف میری رہبری فرماسکتے ہیں آپ نے ایک طاؤس کا انڈا ہاتھ میں لے کرفرمایادیکھواس کی بالائی ساخت پرغورکرو،اوراندرکی بہتی ہوئی زردی اورسفیدی کابنظرغائردیکھواوراس پرتوجہ دوکہ اس میں رنگ برنگ کے طائرکیوں کرپیداہوجاتے ہیں کیاتمہاری عقل سلیم اس کوتسلیم نہیں کرتی کہ اس انڈے کااچھوتے اندازمیں بنانے والااوراس سے پیداکرنے والاکوئی ہے، یہ سن کروہ خاموش ہوگیااوردہریت سے بازآیا۔

اسی دیصانی کاواقعہ ہے کہ اس نے ایک دفعہ آپ کے صحابی ہشام بن حکم کے ذریعہ سے سوال کیاکہ کیایہ ممکن ہے ؟کہ خداساری دنیاکوایک انڈے میں سمودے اورنہ انڈابڑھے اورنہ دنیاگھٹے آپ نے فرمایابے شک وہ ہرچیزپرقادرہے اس نے کہاکوئی مثال؟ فرمایامثال کے لیے مردمک چشم آنکھ کی چھوٹی پتلی کافی ہے اس میں ساری دنیاسماجاتی ہے ،نہ پتلی بڑھتی ہے نہ دنیاگھٹتی ہے (اصول کافی ص ۴۳۳ ،جامع الاخبار)۔

امام جعفرصادق علیہ السلام اورحکیم ابن عیاش کلبی

ہشام بن عبدالملک بن مروان کے عہدحیات کاایک واقعہ ہے کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص نے حاضرہوکرعرض کیاکہ حکیم بن عیاش کلبی آپ لوگوں کی ہجوکرتاہے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایاکہاگرتجھ کواس کاکچھ کلام یادہوتوبیان کر اس نے دوشعرسنائے جس کاحاصل یہ ہے کہ ہم نے زیدکوشاخ درخت خرمہ پرسولی دیدی ،حالانکہ ہم نے نہیں دیکھا، کوئی مہدی دارپرچڑھایاگیاہو اورتم نے اپنی بیوقوفی سے علی کوعثمان کے ساتھ قیاس کرلیاحالانکہ علی سے عثمان بہتراورپاکیزہ تھا یہ سن کرامام جعفرصادق علیہ السلام نے دعاکی بارالہا اگریہ حکیم کلبی جھوٹاہے تواس پراپنی مخلوق میں کسی درندے کومسلط فرماچنانچہ ان کی دعاقبول ہوئی اورحکیم کلبی کوراہ میں شیرنے ہلاک کردیا(اصابہ ابن حجرعسقلانی جلد ۲ ص ۸۰) ۔

ملاجامی تحریرکرتے ہیں کہ جب حکیم کلبی کے ہلاک ہونے کی خبرامام جعفرصادق علیہ السلام کوپہنچی توانہوں نے سجدہ میں جاکرکہاکہاس خدائے برترکاشکرہے کہ جس نے ہم سے جووعدہ فرمایااسے پوراکیا(شواہدالنبوت ،صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ،نورالابصار ص ۱۴۷) ۔

۱۱۳ ھ میں امام جعفرصادق کاحج

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ آپ نے ۱۱۳ ھئمیں حج کیااوروہاں خداسے دعاکی،خدانے بلافصل انگوراوردوبہترین ردائیں بھیجیں آپ نے انگورخودبھی کھایااور لوگوں کوبھی کھلایا اورردائیں ایک سائل کودیدیں۔

اس وقعہ کی مختصرتفصیل یہ ہے کہ بعث بن سعدسنہ مذکورہ میں حج کے لیے گئے وہ نمازعصرپڑھ کرایک دن کوہ ابوقبیس پرگئے وہاں پہنچ کردیکھاکہ ایک نہایت مقدس شخص مشغول نمازہے، پھرنمازکے بعدوہ سجدہ میں گیااوریارب یارب کہہ کرخاموش ہوگیا،پھریاحی یاحی کہااورچپ ہوگیا،پھریارحیم یارحیم کہااورخاموش ہوگیا پھریاارحم الراحمین کہہ کرچپ ہوگیا پھربولاخدایامجھے انگورچاہئے اورمیری ردابوسیدہ ہوگئی ہے دوردائیں درکارہیں ۔

راوی حدیث بعث کہتاہے کہ یہ الفاظ ابھی تمام نہ ہوئے تھے کہایک تازہ انگوروں سے بھری ہوئی زنبیل آموجوہوئی دراس پردوبہترین چادریں رکھی ہوئی تھیں اس عابدنے جب انگورکھاناچاہاتومیں نے عرض کی حضورمیں امین کہہ رہاتھا مجھے بھی کھلائیے ،انہوں نے حکم دیامیں نے کھاناشروع کیا،خداکی قسم ایسے انگور ساری عمرخواب میں بھی نہ نظرآئے تھے پھرآپ نے ایک چادرمجھے دی میں نے کہامجھے ضرورت نہیں ہے اس کے بعدآپ نے ایک چادرپہن لی اورایک اوڑھ لی پھرپہاڑسے اترکرمقام سعی کی طرف گئے میں ان کے ہمراہ تھاراستے میں ایک سائل نے کہا،مولامجھے چادردیجئے خداآپ کوجنت لباس سے آراستہ کرے گاآپ نے فورادونوں چادریں اس کے حوالے کردیں میں نے اس سائل سے پوچھایہ کون ہیں؟ اس نے کہاامام زمانہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام یہ سن کرمیں ان کے پیچھے دوڑاکہ ان سے مل کرکچھ استفادہ کروں لیکن پھروہ مجھے نہ مل سکے (صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ،کشف الغمہ ص ۶۶ ، مطالب السؤل ص ۲۷۷) ۔

امام ابوحنیفہ کی شاگردی کامسئلہ

یہ تاریخی مسلمات سے ہے کہ جناب امام ابوحنیفہ حضرت امام محمدباقر علیہ السلام اورحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگردتھے لیکن علامہ تقی الدین ابن تیمیہ نے ہمعصر ہونے کی وجہ سے اس میں منکرانہ شبہ ظاہرکیاہے ان کے شبہ کوشمس العلماء علامہ شبلی نعمانی نے ردکرتے ہوئے تحریرفرمایاہے ”ابوحنیفہ ایک مدت تک استفادہ کی غرض سے امام محمدباقر کی خدمت میں حاضررہے اورفقہ وحدیث کے متعلق بہت بڑاذخیرہ حضرت ممدوح کافیض صحبت تھا امام صاحب نے ان کے فرزندرشیدحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی فیض صحبت سے بھی بہت کچھ فائدہ اٹھایا،جس کاذکرعموما تاریخوں میں پایاجاتاہے ابن تیمیہ نے اس سے انکارکیاہے اوراس کی وجہ یہ خیال کی ہے کہ امام ابوحنیفہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے معاصراورہمعصرتھے اس لیے ان کی شاگردی کیونکر اختیارکرتے لیکن یہ ابن تیمیہ کی گستاخی اورخیرہ چشمی ہے امام ابوحنیفہ لاکھ مجتہد اورفقیہہ ہوں لیکن فضل وکمال میں ان کوحضرت جعفرصادق سے کیانسبت ، حدیث وفقہ بلکہ تمام مذہبی علوم اہل بیت کے گھرسے نکلے ہیں ”وصاحب البیت ادری بمافیہا“ گھروالے ہی گھرکی تمام چیزوں سے واقف ہوتے ہیں (سیرة النعمان ص ۴۵ ، طبع آگرہ)۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعض نصائح وارشادات

علامہ شبلنجی تحریرفرماتے ہیں :

۱ ۔ سعید وہ ہے جوتنہائی میں اپنے کولوگوں سے بے نیازاورخداکی طرف جھکاہواپائے ۔

۲ ۔ جوشخص کسی برادرمومن کادل خوش کرتاہے خداوندعالم اس کے لیے ایک فرشتہ پیداکرتاہے جواس کی طرف سے عبادت کرتاہے اورقبرمیں مونس تنہائی ،قیامت میں ثابت قدمی کاباعث، منزل شفاعت میں شفیع اورجنت میں پہنچانے مین رہبرہوگا۔

۳ ۔ نیکی کاتکملہ یعنی کمال یہ ہے کہ اس میں جلدی کرو،اوراسے کم سمجھو،اورچھپاکے کرو۔

۴ ۔ عمل خیرنیک نیتی سے کرنے کوسعادت کہتے ہیں۔

۵ ۔ توبہ میں تاخیرنفس کادھوکہ ہے۔ ۶ ۔ چارچیزیں ایسی ہیں جن کی قلت کوکثرت سمجھناچاہئے ۱ ۔آگ، ۲ ۔ دشمنی ، ۳ ۔ فقیر، ۴ ۔مرض

۷ ۔ کسی کے ساتھ بیس دن رہناعزیزداری کے مترادف ہے ۔ ۸ ۔ شیطان کے غلبہ سے بچنے کے لیے لوگوں پراحسان کرو۔

۹ ۔ جب اپنے کسی بھائی کے وہاں جاؤتوصدرمجلس میں بیٹھنے کے علاوہ اس کی ہرنیک خواہش کومان لو۔

۱۰ ۔ لڑکی (رحمت) نیکی ہے اورلڑکانعمت ہے خداہر نیکی پرثواب دیتاہے اورہرنعمت پرسوال کرے گا۔

۱۱ ۔ جوتمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے تم بھی اس کی عزت کرو،اورجوذلیل سمجھے اس سے خودداری رتو۔ ۱۲ ۔ بخشش سے روکناخداسے بدظنی ہے۔

۱۳ ۔ دنیامیں لوگ باپ داداکے ذریعہ سے متعارف ہوتے ہیں اورآخرت میں اعمال کے ذریعہ سے پہچانے جائیں گے۔

۱۴ ۔ انسان کے بال بچے اس کے اسیراورقیدی ہیں نعمت کی وسعت پرانہیں وسعت دینی چاہئے ورنہ زوال نعمت کااندیشہ ہے۔

۱۵ ۔ جن چیزوں سے عزت بڑھتی ہے ان میں تین یہ ہیں: ظالم سے بدلہ نہ لے، اس پرکرم گستری جومخالف ہو،جواس کاہمدردنہ ہواس کے ساتھ ہمدردی کرے۔ ۱۶ ۔ مومن وہ ہے جوغصہ میں جادہ حق سے نہ ہٹے اورخوشی سے باطل کی پیروی نہ کرے ۔ ۱۷ ۔جوخداکی دی ہوئی نعمت پرقناعت کرے گا،مستغنی رہے گا۔ ۱۸ ۔ جودوسروں کی دولت مندی پرللچائی نظریں ڈالے گا وہ ہمیشہ فقیررہے گا۔ ۱۹ ۔ جوراضی برضائے خدانہیں وہ خدا پراتہام تقدیرلگارہاہے۔

۲۰ ۔ جواپنی لغزش کونظراندازکرے گاوہ دوسروں کی لغزش کوبھی نظرمیں نہ لائے گا ۔ ۲۱ ۔ جوکسی پرناحق تلوارکھینچے گاتونتیجہ میں خودمقتول ہوگا ۲۲ ۔ جوکسی کوبے پردہ کرنے کی سعی کرے گاخودبرہنہ ہوگا ۲۳ ۔ جوکسی کے لیے کنواں کھودے گا خود اس میں گرجائے گا”چاہ کن راچاہ درپیش“

۲۴ ۔ جوشخص بے وقوفوں سے راہ ورسم رکھے گا،ذلیل ہوگا،جوعلماء کی صحبت حاصل کرے گا عزت پائے گا،جوبری جگہ دیکھے گا،بدنام ہوگا۔

۲۵ ۔ حق گوئی کرنی چاہئے خواہ وہ اپنے لیے مفیدہویامضر،۔ ۲۶ ۔ چغل خوری سے بچوکیونکہ یہ لوگوں کے دلوں میں دشمنی اورعدوات کابیج بوتی ہے۔

۲۷ ۔اچھوں سے ملو،بروں کے قریب نہ جاو،کیونکہ وہ ایسے پتھرہیں جن میں جونک نہیں لگتی ،یعنی ان سے فائدہ نہیں ہوسکتا(نورالابصارص ۱۳۴) ۔

۲۸ ۔ جب کوئی نعمت ملے توبہت زیادہ شکرکروتاکہ اضافہ ہو۔ ۲۹ ۔ جب روزی تنگ ہوتواستغفارزیادہ کیاکروکہ ابواب رزق کھل جائیں۔

۳۰ ۔ جب حکومت یاغیرحکومت کی طرف سے کوئی رنج پہنچے تولاحول ولاقوة الاباللہ العلی العظیم زیادہ کہوتاکہ رنج دورہو،غم کافورہو،اورخوشی کاوفورہو (مطالب السول ص ۲۷۴،۲۵۷) ۔

آپ کے اخلاق اورعادات واوصاف

علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے ایک غلام کوکسی کام سے بازاربھیجاجب اس کی واپسی میں بہت دیرہوئی توآپ اس کوتلاش کرنے کے لیے نکل پڑے،دیکھاایک جگہ لیٹاہواسورہاہے آپ اسے جگانے کے بجائے اس کے سرہانے بیٹھ گئے اورپنکھاجھلنے لگے جب وہ بیدار ہواتوآپ نے فرمایایہ طریقہ اچھانہیں ہے رات سونے کے لیے اوردن کام کاج کرنے کے لیے ہے آئندہ ایسانہ کرنا(مناقب جلد ۵ ص ۵۲) ۔

علامہ معاصر مولاناعلی نقی مجتہدالعصررقمطرازہیں،آپ اسی سلسلہ عصمت کی ایک کڑی تھے جسے خداوندعالم نے نوع انسانی کے لیے نمونہ کامل بناکرپیداکیا ان کے اخلاق واوصاف زندگی کے ہرشعبہ میں معیاری حیثیت رکھتے تھے خاص خاص اوصاف جن کے متعلق مورخین نے مخصوص طورپرواقعات نقل کیے ہیں مہمان نوازی، خیروخیرات، مخفی طریقہ پرغرباکی خبرگیری ،عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک عفوجرائم، صبروتحمل وغیرہ ہیں۔

ایک مرتبہ ایک حاجی مدینہ میں واردہوااورمسجدرسول میں سوگیا،آنکھ کھلی تواسے شبہ ہواکہ اس کی ایک ہزارکی تھیلی موجودنہیں ہے اس نے ادھرادھردیکھا، کسی کونہ پایاایک گوشہ مسجدمیں امام جعفرصادق علیہ السلام نمازپڑھ رہے تھے وہ آپ کوبالکل نہ پہنچانتاتھا آپ کے پاس آکرکہنے لگا کہ میری تھیلی تم نے لی ہے حضرت نے پوچھااس میں کیاتھا اس نے کہا ایک ہزاردینار،حضرت نے فرمایا،میرے ساتھ میرے مکان تک آؤ، وہ آپ کے ساتھ ہوگیابیت الشرف میں تشریف لاکر ایک ہزاردیناراس کے حوالے کردئیے ،وہ مسجدمیں واپس آگیااوراپنااسباب اٹھانے لگا،توخود اس کی دیناروں کی تھیلی اسباب میں نظرآئی ،یہ دیکھ کربہت شرمندہ ہوااوردوڑتا ہواامام کی خدمت میں آیااورعذرخواہی کرتے ہوئے وہ ہزاردیناواپس کرناچاہا، حضرت نے فرمایا ہم جوکچھ دیدیتے ہیں وہ پھرواپس نہیں لیتے۔

موجودہ زمانے میں یہ حالات سب ہی کی آنکھوں سے دیکھے ہوئے ہیں کہ جب یہ اندیشہ معلوم ہوتاہے کہ اناج مشکل سے ملے گاتوجس کوجتناممکن ہووہ اناج خریدکررکھ لیتاہے مگرامام جعفرصادق علیہ السلام کے کردارکاایک واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ سے آپ کے وکیل معقب نے کہاکہ ہمیں اس گرانی اورقحط کی تکلیف کاکوئی اندیشہ نہیں ہے، ہمارے پاس غلہ کااتناذخیرہ ہے جوبہت عرصہ تک کے لے کافی ہوگا حضرت نے فرمایایہ تمام غلہ فروخت کرڈالواس کے بعدجوحال سب کاہوگا،وہی ہمارابھی ہوگاجب غلہ فروخت کردیاگیاتوفرمایااب خالص گہیوں کی روٹی نہ پکاکرے، بلکہ آدھے گہیوں اورآدھے جوکی پکائی جائے، جہاں تک ممکن ہوہمیں غریبوں کاساتھ دیناچاہئیے۔

آپ کاقاعدہ تھاکہ آپ مالداروں سے زیادہ غریبوں کی عزت کرتے تھے مزدوروں کی بڑی قدرفرماتے تھے خودبھی تجارت فرماتے تھے اوراکثراپنے باغوں میں بہ نفس نفیس محنت بھی کرتے تھے ایک مرتبہ آپ بیلچہ ہاتھ میں لیے باغ میں کام کررہے تھے اورپسینہ سے تمام جسم ترہوگیاتھا، کسی نے کہا،یہ بیلچہ مجھے عنایت فرمائیے کہ میں یہ خدمت انجام دوں حضرت نے فرمایا،طلب معاش میں دھوپ اورگرمی کی تکلیف سہناعیب کی بات نہیں، غلاموں اورکنیزوں پروہی مہربانی رہتی تھی جواس گھرانے کی امتیازی صفت تھی ۔

اس کاایک حیرت انگیزنمونہ یہ ہے کہ جسے سفیان ثوری نے بیان کیاہے کہ میں ایک مرتبہ امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوادیکھاکہ چہرہ مبارک کارنگ متغیرہے، میں نے سبب دریافت کیا،توفرمایامیں نے منع کیاتھا کہ کوئی مکان کے کوٹھے پرنہ چڑھے ،اس وقت جومیں گھرآیاتودیکھاکہ ایک کنیزجوایک بچہ کی پرورش پرمتعین تھی اسے گودمیں لیے ہوئے زینہ سے اوپرجارہی تھی مجھے دیکھاتوایساخوف طاری ہواکہ بدحواسی میں بچہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا،اوراس صدمہ سے جاں بحق تسلیم ہوگیامجھے بچہ کے مرنے کااتناصدمہ نہیں جتنااس کارنج ہے کہ اس کنیزپراتنارعب وہراس کیوں طاری ہوا،پھر حضرت نے اس کنیزکوپکارکرفرمایا،ڈرونہیں میں نے تم کوراہ خدامیں آزادکردیا، اس کے بعدحضرت بچہ کی تجہیزوتکفین کی طرف متوجہ ہوئے (صادق آل محمد ص ۱۲ ،مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۵۴) ۔

کتاب مجانی الادب جلد ۱ ص ۶۷ میں ہے کہ حضرت کے یہاں کچھ مہمان آئے تھے حضرت نے کھانے کے موقع پراپنی کنیزکوکھانالانے کاحکم دیا،وہ سالن کابڑاپیالہ لے کرجب دسترخوان کے قریب پہنچی تواتفاقاپیالہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کرگرگیا، اس کے گرنے سے امام علیہ السلام اوردیگرمہمانوں کے کپڑے خواب ہوگئے،کنیز کانپنے لگی اورآپ نے غصہ کے بجائے اسے راہ خدامیں یہ کہہ کرآزادکردیاکہ توجو میرے خوف سے کانپتی ہے شایدیہی آزادکرنا کفارہ ہوجائے ۔

پھراسی کتاب کیص ۶۹ میں ہے کہ ایک غلام آپ کاہاتھ دھلارہاتھا کہ دفعتہ لوٹاچھوٹ کرطشت میں گرااورپانی اڑکرحضرت کے منہ پرپڑا،غلام گھبرااٹھاحضرت نے فرمایاڈرنہیں،جامیں نے تجھے راہ خدامیں آزادکردیا۔

کتاب تحفہ الزائرعلامہ مجلسی میں ہے کہ آپ کے عادات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جاناداخل تھا،آپ عہدسفاح اورزمانہ منصورمیں بھی زیارت کے لیے تشریف لے گئے تھے کربلاکی آبادی سے تقریباچارسوقدم شمال کی جانب،نہرعلقمہ کے کنارے باغوں میں ”شریعہ صادق آل محمداسی زمانہ سے بناہواہے (تصویرعزا ص ۶۰ طبع دہلی ۱۹۱۹ ءء)۔

کتاب اہلیلچیہ

علامہ مجلسی نے کتاب بحارالانوارکی جلد ۲ میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی کتاب اہلیلچیہ کومکمل طورپرنقل فرمایاہے اس کتاب کے تصنیف کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ایک ہندوستانی فلسفی حضرت کی خدمت میں حاضرہوااوراس نے الہیات اورمابعد الطبیعات پرحضرت سے تبادلہ خیال کرناچاہا حضرت نے اس سے نہایت مکمل گفتگوکی اورعلم کلام کے اصول پردہریت اورمادیت کوفناکرچھوڑا،اس آخرمیں کہناپڑاکہ آپ نے اپنے دعوی کواس طرح ثابت فرمادیاہے کہ ارباب عقل کومانے بغیرچارہ نہیں،تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے ہندی فلسفی سے جوگفتگوکی تھی اسے کتاب کی شکل میں مدون کرکے باب اہلبیت کے مشہورمتکلم جناب مفضل بن عمرالجعفی کے پاس بھیج دیاتھا اوریہ لکھاتھاکہ:

اے مفضل میں نے تمہارے لیے ایک کتاب لکھی ہے جس میں منکرین خداکی ردکی ہے ،اوراس کے لکھنے کی وجہ یہ ہوئی کہ میرے پاس ہندوستان سے ایک طبیب (فلسفی) آیاتھا اوراس نے مجھ سے مباحثہ کیاتھا،میں نے جوجواب اسے دیاتھا،اسی کوقلم بندکرکے تمہارے پاس بھیج رہاہوں۔

حضرت صادق آل محمدکے فلک وقارشاگرد

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگردوں کاشمارمشکل ہے بہت ممکن ہے کہ آئندہ سلسلہ تحریرمیں اپ کے بعض شاگردوں کاذکرآتاجائے ، عام مورخین نے بعض ناموں کوخصوصی طورپرپیش کرکے آپ کی شاگردی کی سلک میں پروکرانہیں معززبتایاہے ۔

مطالب السؤل،صواعق محرقہ،نورالابصار وغیرہ میں ہے کہ امام ابوحنیفہ، یحی بن سعیدانصاری،ابن جریح، امام مالک ابن انس ،امام سفیان ثوری،سفیان بن عینیہ،ایوب سجستانی وغیرہ کاآپ کے شاگردوں میں خاص طورپرذکرہے(تاریخ ابن خلکان جلد ۱ ص ۱۳۰ ،خیرالدین زرکلی کی الاعلام ص ۱۸۳ ،طبع مصر محمدفرید وجدی کی ادارہ معارف القرآن کی جلد ۳ ص ۱۰۹/ طبع مصرمیں ہے وکان تلمیذہ ابوموسی جابربن حیان الصوفی الطرسوسی آپ کے شاگردوں میں جابربن حیان صوفی طرسوسی بھی ہیں۔

آپ کے بعض شاگردوں کی جلالت قدراوران کی تصانیف اورعلمی خدمات پرروشنی ڈالنی توبے انتہادشوارہے اس لیے اس مقام پرصرف جابربن حیان طرسوسی جوکہ انتہائی باکمال ہونے کے باوجودشاگردامام کی حیثیت سے عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہیں کاذکرکیاجاتاہے۔

امام الکیمیاجناب جابرابن حیان طرسوسی ۔

آپ کاپورانام ابوموسی جابربن حیان بن عبدالصمد الصوفی الطرسوسی الکوفی ہے آپ ۷۴۲ ءء میں پیداہوئے اور ۸۰۳ ءء میں انتقال فرماگئے بعض محققین نے آپ کی وفات ۸۱۳ ءء بتائی ہے لیکن ابن ندیم نے ۷۷۷ ءء لکھاہے انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک ہسٹری میں ہے کہ استاداعظم جابربن حیان بن عبداللہ ،عبدالصمد کوفہ میں پیداہوئے وہ طوسی النسل تھے اورآزادنامی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے خیالات میں صوف تھا اوریمن کارہنے والاتھا،اوئل عمرمیں علم طبیعیات کی تعلیم اچھی طرح حاصل کرلی اورامام جعفرصادق ابن امام محمدباقرکی فیض صحبت سے امام الفن ہوگیا۔

تاریخ کے دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ جابربن حیان نے امام جعفرصادق علیہ السلام کی عظمت کااعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ ساری کائنات میں کوئی ایسا نہیں جوامام کی طرح سارے علوم پربول سکے الخ۔

تاریخ آئمہ میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی تصنیفات کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے ایک کتاب کیمیاجفررمل پرلکھی تھی حضرت کے شاگردومشہورومعروف کیمیاگرجابربن حیان جویورپ میں جبرکے نام سے مشہورہیں جابرصوفی کالقب دیاگیاتھا اورذوالنون مصری کی طرح وہ بھی علم باطن سے ذوق رکھتے تھے، ان جابرابن حیان نے ہزاروں ورق کی ایک کتاب تالیف کی تھی جس میں حضرت امام جعفرصادق کے پانچ سو رسالوں کوجمع کیاتھا،علامہ ابن خلکان کتاب وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۱۳۰ طبع مصر میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے مقالات علم کیمیااورعلم جفروفال میں موجودہیں اورجابربن حیان طرسوسی آپ کے شاگردتھے، جنہوں نے ایک ہزار ورق کی کتاب تالیف کی تھی، جس میں امام جعفرصادق علیہ السلام کے پانچ سورسالوں کوجمع کیاتھا ،علامہ خیرالدین زرکلی نے بھی الاعلام جلد ۱ ص ۱۸۲ طبع مصرمیں یہی کچھ لکھاہے ،اس کے بعدتحریرکیاہے کہ ان کی بے شمارتصانیف ہیں جن کاذکرابن ندیم نے اپنی فہرست میں کیاہے علامہ محمدفریدوجدی نے دائرئہ معارف القرآن الرابع عشر کی ج ۳ ص ۹۰۱ طبع مصرمیں بھی لکھاہے کہ جابربن حیان نے امام جعفرصادق کے پانچ سو رسائل کوجمع کرکے ایک کتاب ہزارصفحے کی تالیف کی تھی ،علامہ ابن خلدون نے بھی مقدمہ ابن خلدون مطبوعہ مصرص ۳۸۵ میں علم کیمیامیں علم کیمیاکاذکرکرتے ہوئے جابربن حیان کاذکرکیاہے اورفاضل ہنسوی نے اپنی ضخیم کتاب اورکتاب خانہ غیرمطبوعہ میں بحوالہ مقدمہ ابن خلدون ص ۵۷۹ طبع مصرمیں لکھاہے کہ جابربن حیان علم کیمیاکے مدون کرنے والوں کاامام ہے، بلکہ اس علم کے ماہرین نے اس کو جابرسے اتنامخصوص کردیاہے کہ ا س علم کانام ہی ”علم جابر“ رکھ دیاہے (الجوادشمارہ ۱۱ جلد ۱ ص ۹) ۔

مورخ ابن القطفی لکھتے ہیں کہ جابربن حیان کوعلم طبیعات اورکیمیامیں تقدم حاصل ہے ان علوم میں اس نے شہرئہ افاق کتابیں تالیف کی ہیں ان کے علاوہ علوم فلسلہ وغیرہ میں شرف کمال پرفائزتھے اوریہ تمام کمالات سے بھرپورہونا علم باطن کی پیروی کانتیجہ تھا ملاحظہ ہو (طبقات الامم ص ۹۵ واخبارالحکماص ۱۱۱ طبع مصر)۔

پیام اسلام جلد ۷ ص ۱۵ میں ہے کہ یہ وہی خوش قسمت مسلمان ہے جسے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی شاگردی کاشرف حاصل تھا،اس کے متعلق جنوری ۲۵ ء میں سائنس پروگریس نوشتہ جے ہولم یارڈایم ائے ایف آئی سی آفیسر اعلی شعبئہ سائنس کفٹن کالج برسٹل نے لکھاہے کہ علم کیمیا کے متعلق زمانہ وسطی کی اکثرتصانیف ملتی ہیں جن میں گیبرکاذکرآتاہے اورعام طورپرگیبرابن حین اوربعض دفعہ گیبرکی بجائے جیبربھی دیکھاگیاہے اورگیبریاجیبردراصل جابرہے، چنانچہ جہاں کہیں بھی لاطینی کتب میں گیبرکاذکرآتاہے وہاں مرادعربی ماہرکیمیاجابربن حیان ہی ہے جسے() کے بجائے() کاآناجانا آسانی سے سمجھ میں آجاتاہے لاطینی میں جے کے مترادف کوئی آوازاوربعض علاقوں مثلا مصر وغیرہ میں جے کواب بھی بطور(جی) یعنی (گ) استعمال کیاجاتا ہے اس کے علاوہ خلیفہ ہارون رشیدکے زمانے میں سائنس کیمسٹری وغیرہ کاچرچہ بہت ہوچکاہے اوراس علم کے جاننے والے دنیاکے گوشہ گوشہ سے کھینچ کر دربارخلافت سے منسلک ہورہے تھے جابربن حیان کازمانہ بھی کم وبیش اس ہی دورمیں پھیلاتھا پچھلے بیس پچیس سال میں انگلستان اورجرمنی میں جابرکے متعلق بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں لاطینی زبان میں علم کیمیاکے متعلق چندکتب سینکڑوں سال سے اس مفکرکے نام سے منسوب ہیں جس میں مخصوص ۱ ۔ سما ۲ ۔ برفیکشن ۳ ۔ ڈی انویسٹی پرفیکشن ۴ ۔ڈی انویسٹی گیشن ورٹیلس ۵ ۔ ٹٹیابہن لیکن ان کتابوں کے متعلق اب تک ایک طولانی بحث ہے اوراس وقت مفکرین یورپ انہیں اپنے یہاں کی پیداواربتاتے ہیں اس لیے انہیں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جابرکوحرف (جی)(گ) سے پکاریں اوربجائے عربی النسل کے اسے یورپین ثابت کریں۔

حالانکہ سماکے کئی طبع شدہ ایڈیشنوں میں گیبرکوعربی ہی کہاگیاہے رسل کے انگریزی ترجمہ میں اسے ایک مشہورعربی شہزادہ اورمنطقی کہاگیاہے ۱۵۴۱ ء میں کی نورن برگ کے ایڈیشن میں وہ صرف عرب ہے اسی طرح اوربہت سے قلمی نسخے ایسے مل جاتے ہیں جن میں کہیں اسے ایرانیوں کے بادشاہ سے یادکیاگیاہے کسی جگہ اسے شاہ بندکہاگیاہے ان اختلافات سے سمجھ میں آتاہے کہ جابربراعظم ایشیاسے نہ تھا بلکہ اسلامی عرب کاایک درخشندہ ستارہ تھا۔

انسائکلوپیڈیاآف اسلامک کیمسٹری کے مطابق جعفربرمکی کے ذریعہ سے جابربن حیان کاخلیفہ ہارون الرشیدکے دربارمیں آناجاناشروع ہوگیاچنانچہ انہوں نے خلیفہ کے نام سے علم کیمیامیں ایک کتاب لکھی جس کانام ”شگوفہ“ رکھااس کتاب میں اس نے علم کیمیاکے جلی وخفی پہلوؤں کے متعلق نہایت مختصرطریقے نہایت ستھراطریق عمل اورعجیب وغریب تجربات بیان کئے جابرکی وجہ ہی سے قسطنطنیہ سے دوسری دفعہ یونانی کتب بڑی تعدادمیں لائی گئیں ۔

منطق میں علامہ دہرمشہورہوگیا اورنوے سال سے کچھ زائدعمرمیں اس نے تین ہزارکتابیں لکھیں اوران کتابوں میں سے وہ بعض پرنازکرتاتھا اپنی کسی تصنیف کے بارے میں اس نے لکھا ہے کہ ”روئے زمین پرہماری اس کتاب کے مثل ایک کتاب بھی نہیں ہے نہ آج تک ایسی کتاب لکھی گئی ہے اورنہ قیامت تک لکھی جائے گی (سرفراز ۲/ دسمبر ۱۹۵۲ ء)۔

فاضل ہنسوی اپنی کتاب”وکتاب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ جابرکے انتقال کے بعد دوبرس بعدعزالدودولہ ابن معزالدولہ کے عہدمیں کوفہ کے شارع باب الشام کے قریب جابرکی تجربہ گاہ کاانکشاف ہواچکاتھا جس کوکھودنے کے بعدبعض کیمیاوی چیزیں اورآلات بھی دستیاب ہوئے ہیں(فہرست ابن الندیم ۴۹۹) ۔

جابرکے بعض قدیمی مخطوطات برٹش میوزیم میں اب تک موجودہیں جن میں سے کتاب الخواص قابل ذکرہے اسی طرح قرون وسطی میں بعض کتابوں کاترجمہ لاطینی میں کیاگیامنجملہ ”ان تراجم کے کتاب“ سبعین بھی ہے جوناقص وناتمام ہے اسی طرح ”البحث عن الکمال“ کاترجمہ بھی لاطینی میں کیاجاچکاہے یہ کتاب لاطینی زبان میں کیمیاپریورپ کی زبان میں سب سے پہلی کتاب ہے اسی طرح اوردوسری کتابیں بھی مترجم ہوئیں جابرنے کیمیاکے علاوہ طبیعیات،ہیئت،علم رویا،منطق،طب اوردوسرے علوم پربھی کتابیں لکھیں اس کی ایک کتاب سمیات پربھی ہے ۔

یوسف الیاس سرکس صاحب معجم المطبوعات بتلاتے ہیں کہ جابربن حیان کی ایک نفیس کتاب سمیات بربھی ہے جوکتب خانہ تیموریہ قاہرہ مصرمیں بہ ضمن مخطوطات ہے ان میں چندایسے مقالات کوجوبہت مفیدتھے بعدکرئہ حروف نے رسالہ مقتطف جلد ۵۸،۵۹ میں شائع کیاہے ملاحظہ ہو(معجم ا لمطبوعات العربیہ المعربہ جلد ۳ حرف جیم ص ۶۶۵) ۔

جابربحیثیت ایک طبیب کے کام کرتاتھا لیکن اس کی طبی تصانیف ہم تک نہ پہنچ سکیں ،حالانکہ اس مقالہ کا لکھنے والایعنی ڈاکٹر ماکس می یرہاف نے جابرکی کتاب کوجوسموم پرہے حال ہی میں معلوم کرلیاہے۔

جابرکی ایک کتاب جس کومع متن عربی اورترجمہ فرانسیسی پول کراؤ متشرق نے ۱۹۳۵ ء میں شائع کیاہے ایسی بھی ہے جس میں اس نے تاریخ انتشارآراوعقائد وافکارہندی ،یونانی اوران تغیرات کاذکرکیاہے جومسلمانوں نے کئے ہیں اس کتاب کانام ”اخراج مافی القوة الی الفعل “ ہے (الجوادج ۹،۱۰ ص ۱۰ طبع بنارس)۔

صادق آل محمدکے علمی فیوض وبرکات

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام جنہیں راسخین فی العلم میں ہونے کاشرف حاصل ہے اورجوعلم اولین وآخرین سے آگاہ اوردنیاکی تمام زبانوں سے واقف ہیں جیساکہ مورخین نے لکھاہے میں ان کے تمام علمی فیوض وبرکات پرتھوڑے اوراق میں کیاروشنی ڈال سکتاہوں میں نے آپ کے حالات کی چھان بین کی ہے اوریقین رکھتاہوں کہ اگرمجھے فرصت ملے،توتقریبا چھ ماہ میں آپ کے علوم اورفضائل وکمالات کاکافی ذخیرہ جمع کیاجاسکتاہے آپ کے متعلق امام مالک بن انس لکھتے ہیں میری آنکھوں نے علم وفضل وروع وتقوی میں امام جعفرصادق سے بہتردیکھاہی نہیں جیساکہ اوپرگذراوہ بہت بڑے لوگوں میں سے تھے اوربہت بڑے زاہدتھے خداسے بے پناہ ڈرتے تھے ،بے انتہاحدیث بیان کرتے تھے ،بڑی پاک مجلس والے اورکثیرالفوائد تھے، آپ سے مل کر بے انتہاء فائدہ اٹھایاجاتاتھا(مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۵۲ طبع بمبئی)۔

علمی فیوض رسانی کا موقع

یوں توہمارے تمام آئمہ اہلبیت علمی فیوض وبرکات سے بھرپورتھے اورعلم اولین وآخرین کے مالک،لیکن دنیاوالوں نے ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں قیدوبندمیں رکھ کرعلوم وفنون کے خزانے پرہتھکڑیوں اوربیڑیوں کے ناگ بٹھادئیے تھے اس لیے ان حضرات کے علمی کمالات کماحقہ، منظرعام پرنہ آسکے ورنہ آج دنیاکسی علم میں خاندان رسالت مآب کے علاوہ کسی کی محتاج نہ ہوتی فاضل معاصرمولاناسبط الحسن صاحب ہنسوی لکھتے ہیں کہ امام جعفرصادق علیہ السلام المتوفی ۱۴۸ ھ کاعہدمعارف پروری کے لحاظ سے ایک زرین عہدتھا،وہ رکاوٹیں جوآپ سے قبل آئمہ اہل بیت کے لیے پیش آیاکرتی تھیں ان میں کسی حدتک کمی تھی ،اموی حکومت کی تباہی اورعباسی سلطنت کااستحکام آپ کے لیے سکون وامن کاسبب بنااس لیے حضرت کومذہب اہلیبت کی اشاعت اورعلوم وفنون کی ترویج کاایک بہترین موقع ملالوگوں کوبھی ان عالمان ربانی کی طرف رجوع کرنے میں اب کوئی خاص زحمت نہ تھی جس کی وجہ سے آپ کی خدمت میں علاوہ حجازکے دوردرازمقامات مثل عراق ،شام،خراسان، کابل سندھ ہند اوربلادروم ،فرنگ کے طلباء وشائقین علم حاضرہوکر مستفیدہوتے تھے حضرت کے حلقہ درس میں چارہزاراصحاب تھے علامہ شیخ مفیدعلیہ الرحمہ کتاب الارشادمیں فرماتے ہیں :

ترجمہ : لوگوں نے آپ کے علوم کونقل کیاجنہیں تیزسوارمنازل بعیدہ کی طرف لے گئے اورآوازہ آپ کے کمال کاتمام شہروں میں پھیل گیااورعلماء نے اہل بیت میں کسی سے بھی اتنے علوم وفنون کونہیں نقل کیاہے جوآپ سے روایت کرتے ہیں اورجن کی تعدادچارہزاہے غیرعرب طالبان علم سے ایک رومی النسل بزرگ زرارہ بن اعین متوفی ۱۵۰ ھ قابل ذکرہیں جن کے داداسنسن بلادردم کے ایک مقدس راہب ( Nonk ) تھے زرارہ اپنی خدمات علمیہ کے اعتبارسے اسلامی دنیامیں کافی شہرت رکھتے تھے اورصاحب تصانیف تھے (کتاب الاستطاعت والجبران کی مشہورتصنیف ہے (منہج المقال ص ۱۴۲ ،مولفواالشیعة فی صدر اسلام ص ۵۱) ۔

کتب اصول اربعمایة

حضرت کے اصحاب میں چارسواییس مصنفین تھے جنہوں نے علاوہ دیگرعلوم وفنون کے کلام مصوم کوضبط کرکے چارسوکتب اصول مدون کیں اصل سے مرادمجموعہ احادیث اہلبیت کی وہ کتابیں ہیں جن میں جامع نے خودبراہ راست معصوم سے روایت کرکے احادیث کوضبط تحریرکیاہے یاایسے راوی سے سناہے جوخودمعصوم سے روایت کرتاہے اس قسم کی کتاب میں جامع کی دوسری کتاب یارویت سے معنعنا (عن فلاں عن فلاں) کے ساتھ نہیں نقل کرتا جس کی سند میں اوروسائط کی ضرورت ہواس لیے کتب اصول میں خطاوغلط سہوونسیان کااحتمال بہ نسبت اوردوسری کتابوں کے بہت کم ہے کتب اصول کے زمانہ تالیف کاانحصارعہد امیرالمومنین سے لے کرامام حسن عسکری کے زمانہ تک ہے حس میں اصحاب معصومین نے بالمشاذمعصوم سے روایت کرکے احادیث کوجمع کیاہے یاکسی ایسے ثقہ راوی سے حدیث معصوم کواخذکیاہے جوبراہ راست معصوم سے روایت کرتا ہے شیخ ابوالقاسم جعفربن سعیدالمعروف بالمحقق الحلی اپنی کتاب المعبر میں فرماتے ہیں کہ امام جعفرصادق علیہ السلام کے جوابات مسائل کوچارسومصنفین اصحاب امام نے تحریرکرکے چارسوتصانیف مکمل کی ہیں۔

صادق آل محمدکے اصحاب کی تعداداوران کی تصانیف

آگے چل کر فاضل معاصرالجوادمیں بحوالہ کتاب وکتب خانہ لکھتے ہیں کتب رجال میں جن اصحاب آئمہ کے حالات وتراجم مذکورہیں ،ان کی مجموعی تعدادچار ہزارپانچ سواصحاب ہیں جن میں سے صرف چارہزاراصحاب حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے ہیں سب کاتذکرہ ابوالعباس احمدبن محمدبن سعیدبن عقدہ نے اپنی کتاب رجال میں کیاہے اورشیخ الطائفہ ابوجعفرالطوسی نے بھی ان سب کااحصاء اپن ی کتاب رجال میں کیاہے ۔

معصومین علیہم السلام کے تمام اصحاب میں سے مصنفین کی جملہ تعداد ایک ہزارتین سوسے زائدنہیں ہے جنہوں نے سینکڑوں کی تعدادمیں کتب اصول اورہزاروں کی تعدادمیں دوسری کتابیں تالیف اورتصنیف کی ہیں جن میں سے بعض مصنفین اصحاب آئمہ توایسے تھے جنہوں نے تنہا سینکڑوں کتابیں لکھیں ۔

فضل بن شاذان نے ایک سواسی کتابیں تالیف کی ہیں،ابن دول نے سوکتابیں لکھیں ہیں اسی طرح برقی نے بھی تقریبا سوکتابیں لکھیں ،ابن عمیرنے نوے کتابیں لکھیں اوراکثراصحاب آئمہ ایسے تھے جنہوں نے تیس یاچالیس سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں غرضیکہ ایک ہزارتین سومصنفین اصحاب آئمہ نے تقریبا پانچ ہزارتصانیف کیں،مجمع البحرین میں لفظ جبرکے ماتحت ہے کہ صرف ایک جابرالجعفی،امام جعفرصادق علیہ السلام کے سترہزاراحادیث کے حافظ تھے۔

تاریخ اسلام جلد ۵ ص ۳ میں ہے کہ ابان بن تغلب بن رباح (ابوسعید) کوفی صرف امام جعفرصادق علیہ السلام کی تیس ہزاراحادیث کے حافظ تھے ان کی تصانیف میں تفسیرغریب القرآن کتاب المفرد، کتاب الفضائل، کتاب الصفین قابل ذکرہیں، یہ قاری فقیہ لغوی محدث تھے، انہیں حضرت امام زین العابدین اورحضرت امام محمدباقر،حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے صحابی ہونے کاشرف حاصل تھا ۱۴۱ ھ میں انتقال کیا۔

حضرت صادق آل محمداورعلم طب

علامہ ابن بابویہ انفمی کتاب الخصائل جلد ۲ باب ۱۹ ص ۹۷،۹۹ طبع ایران میں تحریرفرماتے ہیں کہ ہندوستان کاایک مشہورطبیب منصوردوانقی کے دربارمیں طلب کیاگیا،بادشاہ نے حضرت سے اس کی ملاقات کرائی، امام جعفرصادق علیہ السلام نے علم تشریح الاجسام اورافعال الاعضاء کے متعلق اس سے انیس سوالات کئے وہ اگرچہ اپنے فن میں پوراکمال رکھتاتھا لیکن جواب نہ دے سکابالاخرکلمہ پڑھ کرمسلمان ہوگیا،علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ اس طبیب سے حضرت نے بیس سوالات کئے تھے اوراس انداز سے پرازمعلومات تقریرفرمائی کہ وہ بول اٹھا”من این لک هذا العلم“ اے حضرت یہ بے پناہ علم آپ نے کہاں سے حاصل فرمایا؟ آپ نے کہاکہ میں نے اپنے باپ داداسے ،انہوں نے محمدمصطفی صلعم سے ،انہوں نے جبرئیل سے ،انہوں نے خداوند عالم سے اسے حاصل کیاہے ،جس نے اجسام وارواح کوپیداکیاہے ”فقال الھندی صدقت-“ اس نے کہابے شک آپ نے سچ فرمایا،اس کے بعد اس نے کلمہ پڑھ کراسلام قبول کرلیااورکہا ”انک اعلم اہل زمانہ“ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ عہدحاضرکے سب سے بڑے عالم ہیں (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۱ ص ۴۵ طبع بمبئی)۔

حضرت صادق آل محمدکاعلم القرآن

مختصریہ کہ آپ کے علمی فیوض وبرکات پرمفصل روشنی ڈالنی تودشوارہے جیساکہ میں نے پہلے عرض کیاہے ،البتہ صرف یہ عرض کردیناچاہتاہوں کہ علم القرآن کے بارے میں دمعہ ساکبہ ص ۴۸۷ پرآپ کاقول موجودہے وہ فرماتے ہیں خداکی قسم میں قرآن مجیدکواول سے آخرتک اس طرح جانتاہوں گویامیرے ہاتھ میں آسمان وزمین کی خبریں ہیں،اوروہ خبریں بھی ہیں جوہوچکی ہیں،اورہورہی ہیں اورجوہونے والی ہیں اورکیوں نہ ہوجبکہ قرآن مجیدمیں ہے کہ اس پرہرچیزعیاں ہے ایک مقام پرآپ نے فرمایاہے کہ ہم انبیاء اوررسل کے علوم کے وارث ہیں (دمعہ ساکبہ ص ۴۸۸) ۔

علم النجوم

علم النجوم کے بارے میں اگرآپ کے کمالات دیکھناہوں توکتب طوال کامطالعہ کرنا چاہئے آپ نے نہایت جلیل علماء علم النجوم سے مباحثہ اورمناظرہ کرکے انہیں انگشت بدندان کردیاہے ،بحارالانوار،مناقب شہرآشوب ،دمعہ ساکبہ ،وغیرہ میں آپ کے مناظرے موجود ہیں علماء کافیصلہ ہے کہ علم نجوم حق ہے لیکن اس کاصحیح علم آئمہ اہلبیت کے علاوہ کسی کونصیب نہیں ،یہ دوسری بات ہے کہ حلقہ گوشان مودت نورہدایت سے کسب ضیا کرلیں۔

علم منطق الطیر

صادق آل محمددیگرآئمہ کی طرح منطق الطیرسے بھی باقاعدہ واقف تھے، جوپرندہ یاکوئی جانورآپس میں بات چیت کرتاتھااسے آپ سمجھ لیاکرتے تھے اوربوقت ضرورت اس کی زبان میں تکلم فرمایاکرتے تھے مثال کے لیے ملاحظہ ہو،کتاب تفسیرلباب التاویل جلد ۵ ص ۱۱۳ ،معالم التنزیل ص ۱۱۳ ،عجائب القصص ص ۱۰۵ ، نورالابصار ص ۳۱۱ ،طبع ایران میں ہے کہ صادق آل محمدنے قبرنامی پرندہ جس کو (چکور) یاچنڈول کہتے ہیں کہ بولتے ہوئے اصحاب سے فرمایا کہ تم جانتے ہے یہ کیاکہتاہے اصحاب نے صراحت کی خواہش کی توفرمایایہ کہتاہے”اللهم العن مبغضی محمدوآل محمد“ خدایامحمد،آل محمدسے بغض رکھنے والوں پرلعنت کر،فاختہ کی آوازپرآپ نے کہاکہ اسے گھرمیں نہ رہنے دو،یہ کہتی ہے کہ ”فقدتم فقدتم“ خداتمہیں نیست ونابودکرے، وغیرہ وغیرہ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام اورعلم الاجسام

مناقب بن شہرآشوب اوربحارالانوارجلد ۱۴ میں ہے کہ ایک عیسائی نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے علم طب کے متعلق سوالات کرتے ہوئے جسم انسان کی تفصیل پوچھی آپ نے ارشادفرمایاکہ خداوندعالم نے انسان کے جسم میں ۱۲ وصل دوسواڑتالیس ہڈیاں اورتین سوساٹھ رگیں خلق فرمائی ہیں، رگیں تمام جسم کوسیراب کرتی ہیں ،ہڈیاں جسم کو،گوشت ہڈیوں کواوراعصاب گوشت کوروکے رہتے ہیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کی انجام بینی اوردوراندیشی

مورخین لکھتے ہیں کہ جب بنی عباس اس بات پرآمادہ ہوگئے کہ بنی امیہ کوختم کردیں ،توانہوں نے یہ خیال کیاکہ آل رسول کی دعوت کاحوالہ دئیے بغیرکام چلنا مشکل ہے لہذاوہ امدادوانتقام آل محمدکی طرف دعوت دینے لگے اوریہی تحریک کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے جس سے عام طورپرآل محمدیعنی بنی فاطمہ کی اعانت سمجھی جاتی تھی ،اسی وجہ سے شیعیان بنی فاطمہ کوبھی ان سے ہمدردی پیداہوگئی تھی اوروہ ان کے معاون ہوگئے تھے اوراسی سلسلہ میں ابوسلمہ جعفربن سلیمان کوفی آل محمد کی طرف سے وزیرتجویزکئے تھے یعنی یہ گماشتہ کے طورپرتبلیغ کرتے تھے انہیں امام وقت کی طرف سے کوئی اجازت حاصل نہ تھی،یہ بنی کے مقابلہ میں بڑی کامیابی سے کام کررہے تھے جب حالات زیادہ سازگارنظرآئے توانہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام اورابومحمدعبداللہ بن حسن کوالگ الگ ایک ایک خط لکھاکہ آپ یہاں آجائیں تاکہ آپ کی بیعت کی جائے۔

قاصداپنے اپنے خطوط لے کرمنزل تک پہنچے، مدینہ میں جس وقت قاصدپہنچا وہ رات کاوقت تھا،قاصدنے عرض کی مولامیں ،ابوسلمہ کاخط لایاہوں حضوراسے ملاحظہ فرماکرجواب عنایت فرمائیں۔

یہ سن کرحضرت نے چراغ طلب کیااورخط لے کراسی وقت پڑھے بغیرنذرآتش کردیااورقاصدسے فرمایاکہ ابوسلمہ سے کہناکہ تمہارے خط کایہی جواب تھا۔

ابھی وہ قاصدمدینہ پہنچابھی نہ تھا کہ ۳/ ربیع الاول ۱۲۳ ھ کوجمعہ کے دن حکومت کافیصلہ ہوگیااورسفاح عباسی خلیفہ بنایاجاچکاتھا(مروج الذہب مسعودی برحاشیہ کامل جلد ۸ ص ۳۰ ،تاریخ الخلفاء ص ۲۷۲ ،حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۷۴ ،تاریخ آئمہ ص ۴۳۳ ،)۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کادربارمنصورمیں ایک طبیب ہندی سے تبادلہ خیالات

علامہ رشیدالدین ابوعبداللہ محمدبن علی بن شہرآشوب مازندرانی المتوفی ۵۸۸ ء نے دربارمنصورکاایک اہم واقعہ نقل فرمایاہے جس میں مفصل طورپریہ واضح کیاہے کہ ایک طبیب جس کواپنی قابلیت پربڑابھروسہ اورغرورتھا وہ امام جعفرصادق علیہ السلام کے سامنے کس طرح سپرانداختہ ہوکرآپ کے کمالات کامعترف ہوگیاہم موصوف کی عربی عبارت کاترجمہ اپنے فاضل معاصرکے الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

ایک بارحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام منصوردوانقی کے دربارمیں تشریف فرماتھے،وہاں ایک طبیب ہندی کی باتیں بیان کررہاتھا اورحضرت خاموش بیٹھے سن رہے تھے جب وہ کہہ چکاتوحضرت سے مخاطب ہوکرکہنے لگا اگرکچھ پوچناچاہیں توشوق سے پوچھیں، آپ نے فرمایا،میں کیاپوچھوں ،مجھے تجھ سے زیاد ہ معلوم ہے (طبیب اگریہ بات ہے تومیں بھی کچھ سنوں ۔

امام : جب کسی مرض کاغلبہ ہوتواس کاعلاج ضدسے کرناچاہئے یعنی حارگرم کاعلاج سردسے ترکاخشک سے ،خشک کاترسے اورہرحالت میں اپنے خداپربھروسہ رکھے یادرکھ معدہ تمام بیماریوں کاگھرہے اورپرہیزسودواں کی ایک دواہے جس چیزکاانسان عادی ہوجاتاہے اس کے مزاج کے موافق اورا سکی صحت کاسبب بن جاتی ہے ۔

طبیب: بے شک آپ نے جوبیان فرمایاہے اصلی طب ہے۔

امام : اچھامیں چندسوال کرتاہوں،ان کاجواب دے : آنسووں اوررطوبتوں کی جگہ سرمیں کیوں ہے؟ سرپربال کیوں ہے؟ پیشانی بالوں سے خالی کیوں ہے؟ پیشانی پرخط اورشکن کیوں ہے؟ دونوں پلکیں آنکھوں کے اوپرکیوں ہیں؟ ناک کاسوراخ نیچے کی طرف کیوں ہے؟ منہ پردوہونٹ کیوں بنائے گئے ہیں؟ سامنے کے دانت تیزاورڈاڈھ چوڑی کیوں ہے؟ اوران دونوں کے درمیان میں لمبے دانت کیوں ہیں؟ دونوں ہتھیلیاں بالوں سے خالی کیوں ہیں؟

مردوں کے ڈاڈھی کیوں ہوتی ہے؟ ناخن اوربالوں میں جان کیوں نہیں؟ دل صنبوری شکل کاکیوں ہوتاہے؟ پھیپڑے کے دوٹکڑے کیوں ہوتے ہیں،اوروہ اپنی جگہ حرکت کیوں کرتاہے ؟ جگرکی شکل محدب کیوں ہے ،گردے کی شکل لوبئے کے دانے کی طرح کیوں ہوتی ہے گھٹنے آگے کوجھکتے ہیں پیچھے کوکیوں نہیں جھکتے؟ دونوں پاوں کے تلوے بیچ سے خالی کیوں ہیں؟

طبیب: میں ان باتوں کاجواب نہیں دے سکتا۔

امام : بفضل خدامیں ان سب باتوں کاجواب جانتاہوں ۔ طبیب بیان فرمائیے۔

امام علیہ السلام : ۱ ۔ سراگرآنسوؤں اوررطبوتوں کامرکزنہ ہوتاتوخشکی کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔

۲ ۔ بال اس لیے سرپرہیں کہ ان کی جڑوں سے تیل وغیرہ دماغ تک پہنچتارہے اوربہت سے دماغی انجرے نکلتے رہیںدماغ گرمی اورزیادہ سردی سے محفوظ رہے۔

۳ ۔ پیشانی اس لیے بالوں سے خالی ہے کہ اس جگہ سے آنکھوں میں نور پہنچتاہے۔

۴ ۔ پیشانی میں خطوط اورشکن اس لیے ہیں کہ سرسے جوپشینہ گرے وہ آنکھوں میں نہ پڑجائے ،جب شکنوں میں پسینہ جمع ہوتوانسان اسے پونچھ کرپھینک دے جس طرح زمین پرپانی جاری ہوتاہے توگڑھوں میں جمع ہوجاتاہے۔

۵ ۔ پلکیں اس لیے آنکھوں پرقراردی گئی ہیں کہ آفتاب کی روشنی اسی قدران پر پڑے جتنی کہ ضرورت ہے اوربوقت ضرورت بندہوکرمردمک چشم کی حفاظت کرسکیں نیزسونے میں مدد دے سکیں، تم نے دیکھاہوگاکہ جب انسان زیادہ روشنی میں بلندی کی طرف کسی طرف کسی چیزکودیکھناچاہتاہے توہاتھ کوآنکھوں کے اوپررکھ کرسایہ کرلیتاہے۔

۶ ۔ ناک دونوں آنکھوں کے بیچ میں اس لیے قراردیاہے کہ مجمع نورسے روشنی تقسیم ہوکربرابردونوں آنکھوں کوپہنچے۔

۷ ۔ آنکھوں کوبادامی شکل کااس لیے بنایاہے کہ بوقت ضرورت سلائی کے ذریعہ سے دوا(سرمہ وغیرہ) اس میں آسانی سے پہنچ جائے،اگرآنکھ چوکور یاگول ہوتی توسلائی کااس میں پھرنامشکل ہوتادوااس میں بخوبی نہ پہنچ سکتی اوربیماری دفع نہ ہوتی۔

۸ ۔ ناک کاسوراخ نیچے کواس لیے بنایاکہ دماغی رطوبتیں آسانی سے نکل سکیں ،اگراوپرکوہوتاتویہ بات نہ ہوتی اوردماغ تک کسی چیزکی بوبھی جلدی نہ پہنچ سکتی

۹ ۔ ہونٹ اس لیے منہ پرلگائے گئے کہ جورطوبتیں دماغ سے منہ میں آئیں وہ رکی رہیں اورکھانابھی انسان کے اختیارمیں رہے جب چاہے پھینک اورتھوک دے۔

۱۰ ۔ داڑھی مردوں کواس لیے دی کہ مرداورعورت میں تمیزہوجائے ۔

۱۱ ۔ اگلے دانت اس لیے تیزہیں کہ کسی چیزکاکاٹنایاکھٹکھٹاسہل ہو، اورڈاڈھ کوچوڑا اس لیے بنایاکہ غذاپیسنااورچباناآسان ہو،ان دونوں کے درمیان لمبے دانت اس لیے بنائے کہ ان دونوں کے استحکام کے باعث ہوں، جس طرح مکان کی مضبوطی کے لیے ستون (کھمبے) ہوتے ہیں۔

۱۲ ۔ ہتھیلوں پربال اس لیے نہیں کہ کسی چیزکوچھونے سے اس کی نرمی سختی،گرمی،سردی وغیرہ آسانی سے معلوم ہوجائے، بالوں کی صورت میں یہ بات حاصل نہ ہوتی۔

۱۳ ۔ بال اورناخن میں جان اس لیے نہیں ہے کہ ان چیزوں کابڑھنابرامعلوم ہوتاہے اورنقصان رساں ہے،اگران میں جان ہوتی توکاٹنے میں تکلیف ہوتی

۱۴ ۔ دل صنوبری شکل یعنی سرپتلااوردم چوڑی (نچلاحصہ) اس لیے ہے کہ بآسانی پھیپڑے میں داخل ہوسکے اوراس کی ہواسے ٹھنڈک پاتارہے تاکہ اس کے بخارات دماغ کی طرف چڑھ کربیماریاں پیدانہ کرے۔

۱۵ ۔ پھیپڑے کے دوٹکڑے اس لیے ہوے کہ دل ان کے درمیان ہے اوروہ اس کوہوادیں۔

۱۶ ۔ جگرمحدب اس لیے ہواہے کہ اچھی طرح معدے کے اوپرجگہ پکڑے اوراپنی گرانی اورگرمی سے غذا کوہضم کرے۔

۱۷ ۔ کردہ لوبئے کے دانہ کی شکل کااس لیے ہواکہ (منی) یعنی نفطفہ انسانی پشت کی جانب سے اس میں آتاہے اوراس کے پھیلنے اورسکڑنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ نکلتاہے جوسبب لذت ہے۔

۱۸ ۔ گھٹنے پیچھے کی طرف اس لیے نہیں جھکتے کہ چلنے میں آسانی میں ہواگرایسانہ ہوتاتوآدمی چلتے وقت گرگرپڑتا،آگے چلناآسان نہ ہوتا۔

۱۹ ۔ دونوں پیروں کے تلوے بیچ میں سے اس لیے خالی ہیں کہ دونوں کناروں پربوجھ پڑنے سے باسانی پیراٹھ سکیں اگرایسانہ ہوتااورپورے بدن کابوجھ پیروں پرپڑتاتوسارے بدن کابوجھ اٹھانادشوارہوتا۔

یہ جوابات سن کرہندوستانی طبیب حیران رہ گیااورکہنے لگاکہ آپ نے یہ علم کس سے سیکھاہے فرمایااپنے داداسے انہوں نے رسول خداسے حاصل کیاتھا اورانہوں نے خداسے سیکھاہے اس نے کہا ”اشہدان لاالہ الااللہ وان محمدارسول اللہ وعبدہ“ میں گواہی دیتاہوں کہ خداایک ہے اورمحمداس کے رسول اورعبد خاص ہیں ،”وانک اعلم اہل زمانہ“ اورآپ اپنے زمانہ میں سب سے بڑے عالم ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۴۶ طبع بمبئی وسوانح چہاردہ معصومین حصہ ۲ ص ۲۵) ۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کوبال بچوں سمیت جلادینے کامنصوبہ

طبیب ہندی سے گفتگوکے بعدامام علیہ السلام کاعام شہرہ ہوگیااورلوگوں کے قلوب پہلے سے زیادہ آپ کی طرف مائل ہوگئے،دوست اوردشمن آپ کے علمی کمالات کاذکرکرنے لگے یہ دیکھ کرمنصورکے دل میں آگ لگ گئی ،اوروہ اپنی شرارت کے تقاضوں سے مجبورہوکریہ منصوبہ بنانے لگاکہ اب

جلدسے جلدانہیں ہلاک کردیناچاہئے،چنانچہ اس نے ظاہری قدرومنزلت کے ساتھ آپ کومدینہ روانہ کرکے حاکم مدینہ حسین بن زیدکوحکم دیا۔

ان احرق جعفربن محمدفی دارہ “ امام جعفرصادق علیہ السلام کوبال بچوں سمیت گھرکے اندرجلادیاجائے، یہ حکم پاکروالی مدینہ نے چندغنڈوں کے ذریعہ سے رات کے وقت جبکہ سب محوخواب تھے آپ کے مکان میں آگ لگوادی،اورگھرجلنے لگاآپ کے اصحاب اگرچہ اسے بجھانے کی پوری سعی کررہے تھے،لیکن بجھنے کونہ آتی تھی ،بالاخرہ آپ انہیں شعلوں میں کہتے ہوئے کہ”اناابن اعراق الثری اناابن ابراهیم الخلیل“ اے آگ میں وہ ہوں جس کے آباواجدادزمین آسمان کی بنیادوں کے سبب ہیں اورمیں خلیل خداابرہیم نبی کافرزندہوں،نکل پڑے۔

اپنی عباکے دامن سے آگ بجھادی،(تذکرة المصومین ص ۱۸۱ بحوالہ اصول کافی آقائے کلینی علیہ الرحمة)۔

۱۴۷ ھ میں منصورکاحج اورامام جعفرصادق کے قتل کاعزم بالجزم

علامہ شبلنجی اورعلامہ محمدبن طلحہ شافعی رقمطرازہیں کہ ۱۴۷ ھ میں منصورحج کوگیا،اسے چونکہ امام کے دشمنوں کی طرف سے برابریہ خبردی جاچکی تھی کہ امام جعفرصادق تیری مخالفت کرتے رہتے ہیں،اورتیری حکومت کاتختہ پلٹنے کی سعی میں ہیں،لہذا اس نے حج سے فراغت کے بعدمدینہ کاقصدکیااوروہاں پہنچ کراپنے مصاحب خاص،ربیع سے کہاکہ جعفربن محمدکوبلوادو،ربیع نے وعدہ کے باوجودٹال مٹول کی اس نے پھردوسرے دن سختی کے ساتھ کہاکہ انہیں بلواو،میں کہتاہوں کہ خدامجھے قتل کرے اگرمیں انہیں قتل نہ کرسکوں، ربیع نے امام جعفرصادق کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی، مولاآپ کومنصوربلارہاہے، اوراس کے تیوربہت خراب ہیں،مجھے یقین ہے کہ وہ اس ملاقات میں آپ کوقتل کردے گا، حضرت نے فرمایا”لاحول ولاقوة الاباللہ العلی العظیم“ یہ اس دفعہ ناممکن ہے غرضکہ ربیع آنحضرت کولے کرحاضردربارہوا،منصورکی نظرجیسے ہی آپ پرپڑی توآگ بگولہ ہوکربولا”یاعدواللہ“ اے دشمن خداتم کواہل عراق امام مانتے ہیں اورتمہیں زکواة اموال وغیرہ دیتے ہیں اورمیری طرف ان کاکوئی دھیان نہیں، یادرکھو،میں آج تمہیں قتل کرکے چھوڑوں گا اوراس کے لیے میں نے قسم کھالی ہے ہے یہ رنگ دیکھ کرامام جعفرصادق نے ارشادفرمایا ایے امیرجناب سلیمان کوعظیم سلطنت دی گئی توانہوں نے شکرکیا، جناب ایوب بلا میں مبتلا کیاگیاتوانہوں نے صبرکیا، جناب یوسف پرظلم کیاگیاتوانہوں نے ظالموں کومعاف کردیا، اے بادشاہ یہ سب انبیاء تھے اورانہیں کی طرف تیرانسب بھی پہنچتاہے تجھے توان کی پیروی لازم ہے، یہ سن کراس کاغصہ ٹھنڈاہوگیا(نورالابصار ص ۱۲۳ ،مطالب السول ص ۲۶۷) ۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی شہادت

علماء فریقین کااتفاق ہے کہ بتاریخ ۱۵/ شوال ۱۴۸ ھ بعمر ۶۵ سال آپ نے اس دارفانی سے بطرف ملک جاودانی رحلت فرمائی ہے،ارشادمفید ص ۴۱۳ ،اعلام الوری ص ۱۵۹ ،نورالابصار ص ۱۲۳ ،مطالب السول ص ۲۷۷ ،یوم وفات دوشنبہ تھا اورمقام دفن جنت البقیع ہے۔

علامہ ابن حجرعلامہ علامہ ابن جوزی علامہ شبلنجی علامہ ابن طلحہ شافعی تحریررقمطرازہیں کہ مات مسموما ایام المنصور، منصورکے زمانہ میں آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں (صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ،تذکرةخواص الامتہ ،نورالابصار ص ۱۳۳ ، ارجح المطالب ص ۴۵۰) ۔

علماء اہل تشیع کااتفاق ہے کہ آپ کومنصوردوانقی نے زہرسے شہیدکرایاتھا، اورنمازحضرت امام موسی کاظم علیہ اسلام نے پڑھائی تھی علامہ کلینی اورعلامہ مجلسی کاارشادہے کہ آپ کونہایت کفن دیاگیااورآپ کے مقام وقات پرہرشب چراغ جلایاجاتارہا۔ کتاب کافی وجلاء العیون مجلسی ص ۲۶۹ ۔

آپ کی اولاد

آپ کے مختلف بیویوں سے دس اولادتھیں جن میں سے سات لڑکے اورتین لڑکیاں تھیں لڑکوں کے نام یہ ہیں :

۱ ۔جناب اسماعیل ۲ ۔حضرت امام موسی کاظم ۳ ۔عبداللہ ۴ ۔ اسحاق ۵ ۔ محمد ۶ ۔عباس ۷ ۔ علی ۔ اورلڑکیوں کے اسماء یہ ہیں : ۱ ۔ام فروہ ۲ ۔ اسماء ۳ ۔فاطمہ (ارشادوجنات الخلود) علامہ شبلنجی نے سات اولادتحریرکیاہے جن میں صرف ایک لڑکی کاحوالہ دیاہے جس کانام ”ام فروہ“ تھا(نورالابصار ص ۱۳۳) ۔

آپ ہی کی اولادسے خلفاء فاطمیہ گزرے ہیں جن کی سلطنت ۲۹۷ ئسے ۵۶۷ ء تک دوسوسترسال قائم رہی، ان کی تعدادچودہ تھی۔

مرتد کو جلانے کی روایتيں

انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر

جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔

ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،

علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :

١۔ کشی مزید کہتا ہے:

جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔

امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔

کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !

افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!

انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔

اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:

”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”

کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”

کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔

٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :

ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔

ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ

تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!

اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!

اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :

جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔

ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔

جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !

اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”

ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔

٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:

کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔

۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔

۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:

آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:

” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “

۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔

ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :

”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا

٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔

جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:

وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات ”۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔

اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !

امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!

مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،

حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟

-جی ہاں ۔

-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟

- نہيں ۔

- دین مسيح کے پيرو ہو؟

- نہيں ۔

- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟

- ہم مسلمان ہيں ۔

-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟

- نہيں ۔

- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔

-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔

اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟

-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔

-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔

- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔

-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!

-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔

پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔

انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا ۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔

اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔

راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔

امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔

اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟

ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟

علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟

رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!

علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!

سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔

حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:

اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔

یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!

امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔

اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:

” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “

ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١

٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:

اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟

” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔

یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔

ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔

یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔

روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات

علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔

اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:

اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔

اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛

یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔

یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔

ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔

ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔

ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“

یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ

شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم

مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔

” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟

ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل ” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔

امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔

گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔

پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،

فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١

ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔

بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،

قتل ہے نہ جلانا۔

اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔

مرتد کو جلانے کی روایتيں

انی اذا بصرت امراً منکراً اوقدت ناری ودعوت قنبر

جب ميں سماج ميں کسی برے کا م کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی آگ جلاتا ہوں اور اپنی نصرت کے لئے قنبر کو بلاتا ہوں ۔

ہم نے گزشتہ فصلوں ميں بتایا کہ کشی کی جن پانچ روایتوں ميں عبدا لله بن سبا کا نام آیا ہے وہ چند پہلو سے خدشہ دار اور ناقابل قبول ہيں ۔ ان کے ضعف کا ایک پہلو وہی تناقض ہے جو یہ روایتيں چند دوسری روایتوں کے ساتھ رکھتی ہيں ، کيونکہ کشی کی پنجگانہ روایتيں ،

علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو کا موضوع ، انکی الوہيت کا اعتقاد ، اور داستان احراق اور ان پر عبد الله بن سبا کو جلانے کی نسبت دیتی ہيں ، ليکن روایتوں کا ایک دوسرا سلسلہ ان رودادوں کو دوسرے افراد کے بارے ميں نقل کرتی ہيں چنانچہ :

١۔ کشی مزید کہتا ہے:

جب امير المؤمنين عليہ السلام اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گھر ميں تھے ۔ حضرت کا غلام ، قنبر آیا اور عرض کيا یا امير المؤمنين عليہ السلام ! دس افراد گھر کے باہر کھڑے ہيں اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ آپ ان کے خدا ہيں ۔

امام نے فرمایا: انہيں گھر ميں داخل ہونے کی اجازت دیدو ۔

کہتا ہے جب یہ دس آدمی داخل ہوئے تو حضرت نے سوال کيا : ميرے بارے ميں تمہارا عقيدہ کيا ہے ؟

انہوں نے کہا؛ “ ہم معتقد ہيں کہ آپ ہمارے پروردگار ہيں اور یہ آپ ہی ہيں جس نے ہميں خلق کيا ہے اور ہمارا رزق آپ کے ہاتھ ميں ہے“

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! اس عقيدہ کو نہ اپناؤ ، کيونکہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہوں ۔ ليکن وہ اپنے عقيدہ سے باز نہيں آئے۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! ميرا اور تمہارا پروردگار الله ہے !

افسوس ہو تم پر توبہ کرو اور اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ!

انہوں نے کہا: ہم اپنے عقيدہ اور بيان سے دست بردار نہيں ہوں گے اور آپ ہمارے خدا ہيں ، ہميں خلق کيا ہے اور ہميں رزق دیتے ہيں ۔

اس وقت امام نے قنبر کو حکم دیا تا کہ چند مزدوروں کو لائے ، قنبر گئے اور امام کے حکم کے مطابق دو مزدوروں کو بيل و زنبيل کے ہمراہ لائے۔ امام نے حکم دیا کہ یہ دو مزدور زمين کھودیں ۔ جب ایک لمبا گڑها تيار ہوا تو حکم دیا کہ لکڑی اور آگ لائيں ۔ تمام لکڑیوں کو گڑهے ميں ڈال کر آگ لگادی گئی شعلے بهڑکنے لگے اس کے بعد علی عليہ السلام نے ان دس افراد سے جو ان کی الوہيت کے قائل تھے --دوسری بار فرمایا : افسوس ہو تم پر ! اپنی بات سے دست بردار ہوجاؤ ، اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے ان ميں سے بعض کو آگ ميں ڈال دیا یہاں تک کہ دوسری بار باقی لوگوں کو بھی آگ ميں ڈال دیا ۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل مضمون کا ایک شعر پڑها:

”جب ميں کسی گناہ یا برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ جلا کر قنبر کو بلاتا ہوں ”

کشی نے اس روایت کو “ مقلاص ” کی زندگی کے حالات ميں مفصل طور پر اور “ قنبر ”

کی زندگی کے حالات ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔ مجلسی نے بھی اسی روایت کو کشی سے نقل کرکے “بحار الانوار ” ميں درج کيا ہے ۔

٢۔دوبارہ کشی ، کلينی، صدوق ، فيض ، شيخ حر عاملی اور مجلسی نے نقل کيا ہے :

ایک شخص نے امام باقر اور امام صادق عليہما السلام سے نقل کيا ہے : جب امير المؤمنين عليہ السلام بصرہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تو ستر افراد “ زط” سياہ فام حضرت کی خدمت ميں آئے اور انهيں سلام کيا ۔ اس کے بعد اپنی زبان ميں ان سے گفتگو کرنے لگے ۔

ا مير المؤمنين نے بھی ان کی ہی زبان ميں انهيں جواب دیا ۔ اس کے بعد فرمایا جو کچھ

تم ميرے بارے ميں تصور کرتے ہو ميں وہ نہيں ہوں بلکہ ميں بھی تمہاری طرح بندہ اور خدا کی مخلوق ہوں ۔ ليکن انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: آپ خدا ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اگر اپنی باتوں سے پيچھے نہيں ہٹتے اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ نہيں کرتے اور ميرے بارے ميں رکھنے والے عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوتے ہو تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ، چونکہ انہوں نے تو بہ کرنے سے انکار کيا اور اپنے باطل عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا امير المؤمنين علی عليہ السلام نے حکم دیا کہ کئی کنویں کھودے جائيں اور ان کنوؤں کو زمين کے نيچےسے سوراخ کرکے آپس ميں ملا دیا جائے اس کے بعد حکم دیا کہ ان افراد کو ان کنوؤں ميں ڈال کر اوپر سے انهيں بند کردو ۔ صرف ایک کنویں کا منہ کهلا ہوا تھااس ميں آگ جلادی گئی اور اس آگ ميں دهواں کنوؤں کے آپس ميں رابطہ دینے کے سوراخوں سے ہر کنویں ميں پہنچا اور اسی دهویں کی وجہ سے یہ سب لوگ مرگئے!

اس واقعہ کو بزرگ علماء نے ایک گمنام “ شخص” سے نقل کيا ہے کہ جس کاکوئی نام و نشان نہيں ہے اور ہم نہيں جانتے کہ یہ شخص جس نے امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے ، کون ہے ؟ کہاں اور کب زندگی کرتا تھا ، اور کيا بنيادی طور پر اس قسم کا کوئی راوی حقيقت ميں وجود رکھتا ہے یا نہيں ؟!

اس داستان کو ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “ مناقب ” ميں اس طرح نقل کيا ہے کہ :

جنگ بصرہ کے بعد ستر افراد سياہ فام امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنی زبان ميں بات کی اور ان کا سجدہ کيا۔

ا مير المؤمنين نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! یہ کام نہ کرو ، کيوں کہ ميں بھی تمہاری طرح ایک مخلوق کے علاوہ کچھ نہيں ہوں ۔ ليکن وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم ! اگر ميرے بارے ميں اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوکر خداکی طرف نہيں پلٹے تو ميں تمہيں قتل کرڈالوں گا ۔ راوی کہتا ہے : جب وہ اپنے عقيدہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے تو امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ زمين کی کهدائی کرکے چند گڑهے تيار کئے جائيں اور ان ميں آگ جلادی جائے ۔ حضرت عليہ السلام کے غلام قنبران کو ایک ایک کرکے آگ ميں ڈالتے تھے ۔ امير المؤمنين عليہ السلام اس وقت اس مضمون کے اشعار پڑه رہے تھے ۔

جب ميں گناہ اور کسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں !

اس کے بعد گڑهوں پر گڑهے کھودتا ہوں اور قنبر ميرے حکم سے گنہگاروں کو ان ميں ڈالتا ہے اس روداد کو مرحوم مجلسی نے بھی “ بحار الانوار ” ميں اور نوری نے ‘ مستدرک ”

ميں کتاب “مناقب ” سے نقل کيا ہے ۔

٣۔ مرحوم کلينی اور شيخ طوسی درج ذیل روایت کو امام صادق عليہ السلام سے یوں نقل کيا ہے:

کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آئے اور اس طرح سلام کيا :“ السلام عليک یا ربنا” سلام ہو آپ پراے ہمارے پروردگار!!

امير المؤمنين عليہ السلام نے ان سے کہا : اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوکر توبہ کرو۔ ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ دو گڑهے ایک دوسرے سے متصل کھود کر ایک سوراخ کے ذریعہ ان دونوں گڑهوں کو آپس ميں ملایا جائے جب ان کے توبہ سے نااميد ہوئے تو انهيں ایک گڑهے ميں ڈال کر دوسرے ميں آگ لگادی یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔

۴ ۔شيخ طوسی اور شيخ صدوق نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخص امير المؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں حاضر ہوا ور کوفہ ميں مقيم دو مسلمانوں کے بارے ميں شہادت دی کہ اس نے دیکھا ہے کہ یہ دوشخص بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہيں ا ور ان کی پوجا کرتے ہيں ۔ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: افسوس ہو تم پر ! شاید تم نے غلط فہمی کی ہو ۔ اس کے بعد کسی دوسرے کو بھيجا تا کہ ان دو افراد کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لے اور نزدیک سے مشاہد ہ کرے ۔حضرت عليہ السلام کے ایلچی نے وہی رپورٹ دی جو پہلے شخص نے دی تھی ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ا نهيں اپنے پاس بلایا اور کہا: اپنے اس عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ ! ليکن انہو ں نے اپنی بت پرستی پر اصرار کيا لہذا حضرت عليہ السلام کے حکم سے ایک گڑها کھودا گيا اور اس ميں آگ لگادی گئی اور ان دوا فراد کو آگ ميں ڈالدیا گيا ۔

۵ ۔ذہبی نقل کرتا ہے کہ کچھ لوگ امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے:

آپ وہ ہيں ۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا : افسوس ہو تم پر ! ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے پروردگار ہيں ! حضرت نے فرمایا : اپنے اس عقيدہ سے توبہ کرو ! ليکن انہوں نے توبہ نہيں کی اور اپنے باطل عقيدہ پر ہٹ دهرمی کرتے ہوئے باقی رہے۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے ان کا سر قلم کيا ۔ اس کے بعد ایک گڑها کھودا گيا اور قنبر سے فرمایا: قنبر لکڑی کے چندگٹهر لے آؤ ، اس کے بعدان کے جسموں کو نذر آتش کيا ۔ پھر اس مضمون کا ایک شعر پڑها:

” جب بھی ميں کسی برے کام کو دیکھتا ہوں ، آگ کو شعلہ ور کرکے قنبر کو بلاتا ہوں “

۶ ۔ ابن ابی الحدید ابو العباس سے نقل کرتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام مطلع ہوئے کہ کچھ لوگ شيطان کے دهوکہ ميں آکر “ حضرت کی محبت ميں غلو ” کرکے حد سے تجاوز کرتے ہيں ، خدا اور اس کے پيغمبر کے لائے ہوئے کے بارے ميں کفر کرتے ہوئے حضرت کو خدا جانتے اور ان کی پرستش کرتے ہيں اور ان کے بارے ميں ایسے اعتقادرکھتے ہيں کہ وہ ان کے خالق اور رزق دینے والے ہيں ۔

ا مير المؤمنين عليہ السلام نے انہيں کہا کہ اس خطرناک عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤاور توبہ کرو ليکن انہوں نے اپنے عقيدہ پر اصرار کيا ۔ حضرت عليہ السلام نے جب ان کی ہٹ دهرمی دیکھی تو ایک گڑها کھودا اور اس ميں ڈال کر آگ اور دهویں سے انهيں جسمانی اذیت پہنچائی اور ڈرایا دهمکایا ۔

ليکن جتنا ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گيا ، ان کے باطل عقيدہ کے بارے ميں ان کی ہٹ دهرمی بھی تيز تر ہوگئی، جب ان کی ایسی حالت دیکھی تو ان سب کو آگ کے شعلوں ميں جلادیا گيا ۔ اس کے بعد یہ شعر پڑهے :

”دیکھا کس طرح ميں نے گڑهے کھودے ” اس کے بعد وہی شعر پڑهے جو گزشتہ صفحات ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

اس داستا ن کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتا ہے ہمارے علما ء مکتب خلفاء کے پيرو--۔-۔ نے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے : جب اميرالمؤمنين نے اس گروہ کو نذر آتش کيا تو انہوں نے فریاد بلند کی : اب ہمارے لئے ثابت ہوا کہ آپ ہمارے خدا ہيں ، آپ کا چچيرا بھائی جوآپ کا فرستادہ تھاکہتا تھا: آگ کے خدا کے سوا کوئی بھی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرتا

٧۔ احمد بن حنبل عکرمہ سے نقل کرتے ہيں کہ امير المؤمنين عليہ السلام نے اسلام سے منحرف کچھ لوگوں کو نذر آتش کرکے ہلاک کر دیا یہ روئداد جب ابن عباس نے سنی تو اس نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاتھ ميں ہوتا تو ميں ان کو ہرگز نذر آتش نہ کرتا کيونکہ رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” ميں انهيں قتل کر ڈالتا ۔

جب ابن عباس کی یہ باتيں امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچيں تو انہوں نے فرمایا:

وہ ، یعنی ابن عباس نقطہ چينی کرنے ميں ماہر ہے “ویح ابن عم ابن عباس انه لغواص علی الهنات ”۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جب ابن عباس کا بيان امير المؤمنين عليہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ابن عباس نے صحيح کہا ہے ۔

اس داستان کو شيخ طوسی نے “ مبسوط ” ميں یوں درج کيا ہے کہ: نقل کيا گيا ہے کہ ایک گروہ نے امير المؤمنين عليہ السلام سے کہا: آپ خدا ہيں ۔ حضرت نے ایک آگ روشن کی اور ان سب کو نذر آتش کر دیا۔ ابن عباس نے کہا؛ اگر ميں علی عليہ السلام کی جگہ پر ہوتا تو انهيں تلوار سے قتل کرتا کيوں کہ ميں نے پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے : “ کسی کو عذاب خدا سے عذاب نہ کرنا ” جو بھی اپنا دین بدلے اسے قتل کرنا !

امير المؤمنين عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں اپنا مشہور شعر پڑها ہے ١شيخ طوسی نے یہاں پر روایت کی سندکا ذکر نہيں کيا ہے ليکن احمد بن حنبل کے ساتھ روایت ميں اس کی سند کو خارجی مذہب عکرمہ تک پہنچایا ہے!

مرحوم کلينی نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ امير المؤمنين عليہ السلام مسجد کوفہ ميں بيٹھے تھے کہ چند افراد جو ماہ رمضان ميں روزہ نہيں رکھتے تھے،

حضرت عليہ السلام کے پاس لائے گئے حضرت نے ان سے پوچھا : کياتم لوگوں نے افطار کی نيت سے کهانا کهایا ہے ؟

-جی ہاں ۔

-کيا تم دین یہود کے پيرو ہو ؟

- نہيں ۔

- دین مسيح کے پيرو ہو؟

- نہيں ۔

- پس تم کس دین کے پيرو ہو کہ اسلام کے ساتھ مخالفت کرتے ہو اور روزہ کو علی الاعلان توڑتے ہو؟

- ہم مسلمان ہيں ۔

-یقيناً مسافر تھے ، اس لئے روزہ نہيں رکھا ہے؟

- نہيں ۔

- پس یقيناً کسی بيماری ميں مبتلا ہو جس سے ہم مطلع نہيں ہيں تم خود جانتے ہو کيونکہ انسان اپنے بارے ميں د وسروں سے آگاہ تر ہے کيونکہ خدا نے فرمایا: الانسان علی نفسہ بصيرة ۔

-ہم کسی بيماری یا تکليف ميں مبتلا نہيں ہيں ۔

اس کے بعد امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: یہاں پر امير المؤمنين عليہ السلام نے ہنس کر فرمایا : پس تم لوگ خدا کی وحدانيت اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے ہو؟

-ہم خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے ہيں او رشہادت دیتے ہيں ليکن محمد کو نہيں پہچانتے ۔

-وہ رسول اور خدا کے پيغمبرہيں ۔

- ہم انهيں نبی کی حيثيت سے نہيں پہچانتے بلکہ اسے ایک بيابانی عرب جانتے ہيں کہ جس نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے۔

-تمہيں محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرنا ہوگا ورنہميں تمہيں قتل کرڈالوں گا!

-ہم ہرگز اعتراف نہيں کریں گےخواہ ہميں قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد امير المؤمنين عليہ السلام نے مامورین کو حکم دے کر کہا انهيں شہر سے باہر لے جاؤ پھر وہاں پر دو گڑهے ایک دوسرے سے نزدیک کھودو۔

پھر ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : ميں تمہيں ان گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈال دوں گا اور دوسرے گڑهے ميں آگ جلادوں گا اور تمہيں اس کے دهویں کے ذریعہ مار ڈالوں گا ۔

انہوں نے علی عليہ السلام کے جواب ميں کہا: جو چاہتے ہو انجام دو ، اور ہمارے بار ے ميں جو بھی حکم دینا چاہتے ہو اسے جاری کرو ۔ اس کے علاوہ اس دنيا ميں آپ کے ہاتھوں اور کوئی کام انجام نہيں پا سکتا ہےفانما تقضی هذه الحياة الدنيا ۔ حضرت نے انهيں آرام سے ان دو گڑهوں ميں سے ایک ميں ڈالا، اسکے بعد حکم دیاکہ دوسرے کنویں ميں آگ جلادیں ۔

اس کے بعد مکرر انهيں اس سلسلے ميں آواز دی کہ کيا کہتے ہو ؟ وہ ہر بار جواب ميں کہتے تھے: جو چاہتے ہو انجام دو اور ان کا یہ جواب تکرار ہورہا تھا ، یہاں تک کہ سب مرگئے ۔

راوی کہتا ہے کہ اس داستان کی خبر کاروانوں نے مختلف شہروں ميں پہنچادی اور تمام جگہوں پر بہترین طریقے سے اہم حادثہ کی صورت ميں نقل کرتے تھے اور لوگ بھی اس موضوع کو ایک دوسرے سے بيان کرتے تھے ۔

امير المؤمنين عليہ السلام اس واقعہ کے بعد ایک دن مسجدکوفہ ميں بيٹھے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں ميں سے ایک شخص (جس کے اسلاف اور خود اس یہودی کے علمی مقام اور حيثيت کا سارے یہودی اعتراف کرتے تھے) اپنے کاروان کے چند افراد کے ہمراہ حضرت عليہ السلام سے ملاقات کرنے کيلئے کوفہ ميں داخل ہوا اور مسجد کوفہ کے نزدیک پہنچا اور اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا اور مسجد کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگيا اور ایک شخص کو امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس بھيج دیا کہ ہم یہودیوں کا ایک گروہ، حجاز سے آیا ہے او رآپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے کيا آپ مسجد سے باہر آئيں گے یا ہم خودمسجد ميں داخل ہوجائيں ؟

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: حضرت عليہ السلام ان کی طرف یہ جملہ کہتے ہوئے آئے: جلدی ہی اسلام قبول کریں گے اور بيعت کریں گے ۔

اس کے بعد علی عليہ السلام ے فرمایا : کيا چاہتے ہو ؟

ان کے سردار نے کہا: اے فرزند ابوطالب ! یہ کون سی بدعت ہے کہ جو آپ نے دین محمد ميں ایجاد کی ہے؟

علی عليہ السلام نے کہا: کونسی بدعت ؟

رئيس نے کہا: حجاز کے لوگوں ميں يہ افواہ پهيلی ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جو خدا کی وحدانيت کا اقرار کرتےہيں ليکن محمد صلى اله عليه وسلمکی نبوت کا اعتراف نہ کرتے دهویں کے ذریعہ مار ڈالا ہے!

علی عليہ السلام : تجھے قسم دیتا ہوں ان نو معجزات کی جو طور سينا پر موسیٰ کو دئے گئے ہيں اور پنجگانہ کنيتوں اور صاحب سرِ ادیان کيلئے ، کيا نہيں جانتے ہو کہ موسیٰ کی وفا ت کے بعد کچھ لوگوں کو یوشع بن نون کے پاس لایا گيا جو خدا کی وحدانيت کا اعتراف کرتے تھے ليکن موسیٰ کی نبوت کو قبول نہيں کرتے تھے۔ یوشع بن نون نے انهيں دهویں کے ذریعہ قتل کيا ؟!

سردار : جی ہاں ، ایسا ہی تھا اور ميں شہادت دیتا ہوں کہ آپ موسی کے محرم راز ہيں ا س کے بعد یہودی نے اپنے آستين سے ایک کتاب نکالی اور امير المؤمنين عليہ السلام کے ہاتھ ميں دی ۔

حضرت عليہ السلام نے کتاب کهولی اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد روئے یہودی نے کہا:

اے ابن ابيطالب آپ کے رونے کا سبب کيا ہے ؟آپ نے جو اس خط پر نظر ڈالی کيا آپ اس مطلب کو سمجھ گئے ؟ جبکہ یہ خط سریانی زبان ميں لکھا گيا ہے اور آپ کی زبان عربی ہے ؟

امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، اس خط ميں ميرا نام لکھا ہے ۔

یہودی نے کہا: ذرا بتایئے تا کہ ميں جان لوں کہ سریانی زبان ميں آپ کا نام کيا ہے ؟ اور اس خط ميں اس نام کو مجھے دکھایئے!

امير المؤمنين عليہ السلام نے کہا: سریانی زبان ميں ميرانام “اليا ” ہے اس کے بعد اس یہودی کو اس خط ميں لفظ دکھایا ۔

اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کيا اور شہادتين کو زبان پر جاری کيا اور علی عليہ السلام کی بيعت کی پھر مسلمانوں کی مسجد ميں داخل ہوا یہاں پر اميرالمؤمنين نے حمد و ثنا اور خد اکا شکر بجالانے کے بعد کہا:

” شکر خدا کا کہ اس کے نزدیک ميں فراموش نہيں ہوا تھا ، شکر اس خداکا جس نے اپنے نزدیک ميرا نام ابرار اور نيکوں کاروں کے صحيفہ ميں درج کيا ہے اور شکر اس خدا کا جو صاحب جلال و عظمت ہے “

ابن ابی الحدید نے اس روداد کو دوسری صورت ميں نقل کيا ہے کہ علم و تحقيق کے ۴ ٢ ۵ کی طرف رجوع کرسکتے ہيں : / دلدادہ حضرات شرح نہج البلا غہ ج ١

٩۔ ہم ان روایتوں کچھ دوسری روایت کے ساتھ ختم کرتے ہيں جسکا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونا واضح اور عياں ہے:

اس روایت کو ابن شاذان نے کتاب “ فضائل ” ميں درج کيا ہے اور ان سے مجلسی نے نقل کرکے بحا الانوار ميں درج کيا ہے اس کے علاوہ اسے علامہ نوری نے بھی ‘ عيون المعجزات ” سے نقل کرکے “ مستدرک ” ميں درج کيا ہے:

امير المؤمنين عليہ السلام ، کسریٰ کے مخصوص منجم کے ہمراہ کسری کے محل ميں داخل ہوئے اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نظر ایک کونے ميں ایک بوسيدہ کهوپڑی پر پڑی حکم دیا ایک طشت لایا جائے اس ميں پانی ڈال کر کهوپڑی کو اس ميں رکھا گيا پھر اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کهوپڑی تجھے خداکی قسم دیکر پوچهتا ہوں تو بتا کہ ميں کون ہوں ؟ اور تم کون ہو ؟ کهوپڑی گویا ہوئی اور فصيح زبان ميں جواب دیا : آپ امير المؤمنين عليہ السلام اور سيدا وصياء ہيں ! ليکن، ميں بندہ خدا اور کنيز خدا کا بيٹا نوشيروان ہوں ؟

” ساباط ” کے چند باشندے ، امير المؤمنين عليہ السلام کے پاس تھے اور انہوں نے اس روداد کا عينی مشاہدہ کيا وہ اپنی آبادی اور قبيلہ کی طرف روانہ ہوئے اور جو کچھ اس کهوپڑی کے بارے ميں دیکھا تھا لوگوں ميں بيان کيا یہ روداد ان کے درميان اختلاف کا سبب بنی اور ہر گروہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں ایک قسم کے عقيدہ کا اظہار کيا ۔ کچھ لوگ حضرت عليہ السلام کے بارے ميں اسی چيز کے معتقد ہوئے جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ کے بارے ميں معتقد تھے اور عبدالله بن سبا اور اس کے پيرؤں کا جيسا عقيدہ اختيار کيا ۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام کے اصحاب نے اس بارے ميں حضرت علی عليہ السلام سے عرض کی : اگر لوگوں کو اسی اختلاف و افتراق کی حالت ميں رکھو گے تو دوسرے لوگ بھی کفر و بے دینی ميں گرفتار ہوں گے جب امير المؤمنين عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ باتيں سنيں تو فرمایا: آپ کے خيال ميں ان لوگوں سے کيسا برتاؤ کيا جانا چاہئے ؟ عرض کيا مصلحت اس ميں ہے کہ جس طرح عبدا لله بن سبا اور اس کے پيرؤں کو جلادیا گيا ہے۔ان لوگوں کو بھی نذر آتش کيجئے ۔ اس کے بعدا مير المؤمنين عليہ السلام نے انهيں اپنے پاس بلایا اور ان سے سوال کيا کہ : تمہارے اس باطل عقيدہ کا محرک کيا تھا ؟ انہوں نے کہا :ہم نے اس بوسيدہ کهوپڑی کی آپ کے ساتھ گفتگو کو سنا ، چونکہ اس قسم کا غير معمولی کام خدا کے علاوہ اورکسی کيلئے ممکن نہيں ہے لہذا ہم آپ کے بارے ميں اس طرح معتقد ہوئے۔

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: اس باطل عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور خدا کی طرف لوٹ کر توبہ کرو، انہوں نے کہا: ہم اپنے اعتقاد کو نہيں چھوڑیں گے آپ ہمارے بارے ميں جو چاہيں کریں ۔ علی عليہ السلام جب ان کے توبہ کے بارے ميں نااميد ہوئے تو حکم دیا تا کہ آگ کو آمادہ کریں اس کے بعد سب کو اس آگ ميں جلادیا ۔ اسکے بعد ان جلی ہوئی ہڈیوں کو ٹنے کے بعد ہوا ميں بکهيرنے کا حکم دیا۔ حضرت کے حکم کے مطابق جلی ہوئی تمام ہڈیوں کو چور کرنے کے بعد ہوا ميں بکهير دیا گيا۔ اس روداد کے تين دن بعد “ ساباط” کے باشندے حضرت علی عليہ السلام کی خدمت ميں آئے اور عرض کيا : اے اميرالمؤمنين عليہ السلام ! دین محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا خيال رکھو ، کيوں کہ جنہيں آ پ نے جلا دیا تھا وہ صحيح و سالم بدن کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے ہيں ، کيا آپ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہيں کيا تھا اور ان کی ہڈیاں ہوا ميں نہيں بکهيریں تھيں ؟ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ، ميں نے ان افراد کو جلا کر نابود کردیا، ليکن خداوند عالم نے انهيں زندہ کيا۔

یہاں پر “ ساباط” کے باشندے حيرت و تعجب کے ساتھ اپنی آبادی کی طرف لوٹے ۔

ایک اور روایت کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلام نے انهيں نذر آتش نہيں کيا ۔ ليکن ان ميں سے کچھ لوگ بهاگ گئے اور مختلف شہروں ميں منتشر ہوئے اور کہا: اگر علی ابن ابيطالب مقام ربوبيت کے مالک نہ ہوتے تو ہميں نہ جلاتے ۔

یہ مرتدین کے احراق سے مربوط روایتوں کا ایک حصہ تھا کہ ہم نے اسے یہاں پر در ج کيا ۔ گزشتہ فصلوں ميں بيان کی گئی عبد الله بن سبا کی روایتوں کی جانچ پڑتال، تطبيق اور تحقيق انشاء الله اگلی فصل ميں کریں گے۔

روایات احراق مرتد کی بحث و تحقيق ان احداً من فقهاء المسلمين لم یعتقد هذه الروایات

علمائے شيعہ و سنی ميں سے کسی ایک نے بھی احراق مرتد کی روایتوں پر عمل نہيں کيا ہے مؤلف جو کچھ گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوا وہ عبدا لله بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ ميں حدیث و رجال کی شيعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

ليکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شيعہ ہوں یا سنی ان ميں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہيں کيا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہيں دیا ہے بلکہ شيعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے ميں رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے ميں حکم کے سلسلے ميں شيعہ و سنی علماء کا نظریہ بيان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے ميں بحث وتحقيق کا نتيجہ پيش کریں گے ۔

اہل سنت علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم ابو یوسف کتاب ‘ ‘ الخراج ” ميں مرتد کے حکم کے بارے ميں کہتا ہے:

اسلام سے کفر کی طرف ميلان پيدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عيسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئين کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے ميں اسلامی علماء ميں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

ان ميں سے بعض کہتے ہيں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام ميں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کيا توقتل کر دیا جائے بعض دوسرے کہتے ہيں : ایسے افراد کيلئے توبہ کی تجویز ضروری نہيں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائيں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہيں قتل کيا جائے ۔

اس کے بعد ابو یوسف طرفين کی دليل کو جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہيں بيان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن ميں عمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح “ تستر” ميں خبر دی گئی کہ مسلمانوں ميں سے ایک شخص مشرک ہو گيا ہے اور اسے گرفتا رکيا گيا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کيا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر ميں قيدی بنانا چاہئے تھا اور تين دن تک اسے کهانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پيش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن ميں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

ابو یوسف اس نظریہ کی تائيد ميں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بيان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن “ معاذ” ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بيٹها ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛

یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کيا تھا ليکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہينے گزررہے ہيں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پيش کش کررہے ہيں ليکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہيں کی ہے معاذ نے کہا: ميں اس وقت تک نہيں بيٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پيغمبر خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے ميں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کياتو پھر سر قلم کرتے ہيں ۔

یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقيدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی ميں دیکھا ہے ۔

ا بو یوسف اضافہ کرتا ہے :ليکن عورتيں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہيں ، قتل نہيں کی جائيں گی، بلکہ انهيں جيل بھيجنا چاہئے اور انهيں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت ميں مجبور کيا جانا چاہئے ۔

ا بو یوسف کے اس بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کيفيت کو بھی بيان کيا ہے کہ اس کا سر قلم کيا جانا چاہئے اس سلسلہ ميں علماء کے درميان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کيا یہ حد اور مرتد کا قتل کيا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت ميں ۔

ابن رشد “ بدایة المجتہد ” ميں “ حکم مرتد” کے باب ميں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہيں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ ليا جائے تو اسے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کيا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان جو اپنا دین بدلے اسے قتل کيا جانا چاہئے“

یہ تھا مرتد کے بارے ميں علمائے اہل سنت کا نظریہ

شيعہ علماء کی نظر ميں مرتد کا حکم

مرتد کے بارے ميں شيعہ علماء کا عقيدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلينی ، صدوق اور شيخ طوسی نے امام صادق عليہ السلام سے اور انہوں نے اميرالمؤمنين عليہ السلام سے نقل کيا ہے: مرتد کی بيوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبيحہ بھی حرام ہے تين دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت ميں اس نے توبہ نہيں کی تو چوتھے دن قتل کيا جائے گا۔

” من لا یحضرہ الفقيہ ” ميں مذکورہ حدیث کے ضمن ميں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحيح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

امام باقر عليہ السلام اور امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے ليکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قيد کی سزا دی جاتی ہے اور زندان ميں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

حضرت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کيا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگيا تو کيا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغير اسے قتل کيا جائے گا؟

ا مام نے جواب ميں لکھا “و یقتل ” یعنی توبہ کی درخواست کئے بغير قتل کيا جائے گا۔

امير المؤمنين عليہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کيا کہ : ميں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہيں اور عيسائيوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ کافر ہو گيا ہے۔ اميرالمؤمنين عليہ السلام نے جواب ميں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام ميں پيدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پيدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گيا تو توبہ کی درخواست کے بغير اس کا سر قلم کرنا چاہئے، ليکن جو مسلمان فطرت اسلام ميں پيدا نہيں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پيدا نہيں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا ليکن، عيسائيوں کا عقيدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہيں کوئی سرو کار نہيں ہونا چاہئے۔

ا ميرالمؤمنين عليہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف ہوئے ہيں ، انهيں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہيں پر ستش کریں ۔

گزشتہ روایتوں ميں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

ا یک روایت ميں یہ بھی ملتا ہےکہ امير المومنين نے مرتد کے بارے ميں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلينی امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں : ایک مرتد کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا ۔ حضرت عليہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کيا عرض کيا گيا یا اميرالمؤمنين اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت عليہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بيوی اور بچوں اور وارثوں ميں تقسيم ہوگی ۔

پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑها اسلام سے منحرف ہوکر عيسائی بنا امير المومنين عليہ السلام نے اس سے فرمایا: کيا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب ميں کہا: ہاں ،

فرمایا شاید اس ارتداد ميں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد ميں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہيں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کيا : نہيں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: ميں اسلام کو قبول نہيں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ١

ی ہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے ميں نقل کی گئی ہيں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتيں موجو د ہيں ۔

بحث کا نتيجہ جو کچھ مرتد کی حد کے بارے ميں بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے ميں تمام علمائے شيعہ و سنی کا عمل و بيان اور اس بارے ميں نقل کی گئی روایتيں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھيں اور ان ميں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ،

قتل ہے نہ جلانا۔

اس کے علاوہ یہ روایتيں واضح طور پر دلالت کرتی ہيں کہ امام عليہ السلام نے مرتد کے بارے ميں قتل کو عملاً نافذ کيا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت ميں “ قتل ” کسی شخص کو تلوار ، نيزہ ، پتهر ، لکڑی اور زہر جيسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ ميں “ حرق” آگ ميں جلانا ہے اور ” صلب” پهانسی کے پهندے پر لٹکانا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اس فصل ميں کہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء الله اگلی فصل ميں مزید تحقيق کرکے دوسرے ضعيف نقطوں کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔


10

11

12

13

14

15

16

17

18

19