اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق0%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق

مؤلف: احمد دیلمی ومسعود آذر بائیجانی
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 150479
ڈاؤنلوڈ: 3575

تبصرے:

اسلامی اخلاق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 150479 / ڈاؤنلوڈ: 3575
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

٥۔اولاد غلام، قبیلہ وخاندان، رشتہ دار اور پیروی کرنے والوں کی کثرت سے اترانا، چنانچہ خدا وندعالم نے کافروں کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا ہے: '' انہوں نے کہا ہماری دولت اور اولاد سب سے زیادہ ہے اور ہم عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے '' ۔(١)

٦۔ ایسی خود پسندی جو مال و دولت کی فراوانی سے پیدا ہو۔ قرآن دومالکین باغ میں سے ایک کی زبانی نقل کرتا ہے: ''میر ا مال تم سے زیادہ ہے اور افراد کے اعتبار سے بھی میں تم سے قوی ہوں ''(٢) اس نے اپنے مال و متاع کو اپنی جانب سے خیال کیا اور اسے اپنی برتری کا سبب جانا خدا وند عالم نے بھی جو کچھ اسے دیا تھا چھین لیا مجموعی طور پر جب بھی انسان خود کو صاحب کمال خیال کرے، خواہ جسے اس نے کمال سمجھا ہے واقعا ً کمال ہو یا نہ ہو اور اس بات کو بھول جائے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے خدا کا دیاہوا ہے اور اسی کی رحمت و توفیق سے میسر ہوا ہے تو یہ امر اس کے اندر خود پسندی کا سبب بن سکتا ہے، حتی اگر خدا کی عبادت اور تقوی ٰسے فیضیاب ہونے اور خدا سے ڈرنے کا احساس بھی ہو۔(٣)

د۔ خود پسندی کے نقصان دہ اثرات: جیسا کہ اشارہ ہوا، خود پسندی بہت سی اخلاقی برائیوں کی کنجی ہے ذیل میں ان میں سے بعض اہم ترین برائیوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

١۔ خود پسندی ''کبر'' کا سرچشمہ نیز اس کے علاوہ بہت سے دوسرے رذائل کا بھی منبع ہے۔ اور کبر خود بینی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ۔

٢۔ خود بینی گناہوں کے فراموش کرنے کا باعث ہے۔ اگر انسان اپنے بعض گناہوں کی طرف متوجہ بھی ہو، تو انھیںمعمولی اورقابل مغفرت شمار کرکے ان کی تلافی کی کوشش نہیں کرتا۔

٣۔خود پسند انسان خود بینی کے بالا ترین مراحل میں اپنے کو بہت زیادہ خدا سے نزدیک سمجھتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود کو عذاب الٰہی سے محفوظ جانتاہے، اسی وجہ سے وہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اس کے نقائص کو برطرف کرنے کی کوشش نہیں کرتا آخر کار اپنے اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔

____________________

١۔سورئہ سبائ، آیت٣٥۔

٢۔ سورئہ کہف، آیت ٣٤۔

٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٦، ص٢٨٢تا٢٨٩۔

۱۰۱

٤۔ خود پسند انسان چونکہ خداوند عالم سے اپنے لئے کچھ مطالبات رکھتا ہے لہٰذا شکر گذاری اور قدر شناسی کو اپنا فریضہ نہیں سمجھتا اور اللہ کی نعمتوں کی نسبت نا شکر ا ہو جاتا ہے۔

٥۔ خود پسند انسان چونکہ اپنے اعمال سے خوش بین رہتا ہے اس لئے وہ اپنی کمزوری اور احتیاج کا احساس نہیں کرتا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ خود کو سوال کرنے اور مشورہ سے بے نیاز سمجھتا ہے۔

٦۔ خود پسند انسان چونکہ اپنے اندر کوئی کمی اور نقص اور عیب نہیں سمجھتا، لہٰذا خود کو دوسروں کی نصیحت اور خیر خواہی سے بے نیاز تصور کرتا ہے اور ان کی نصیحتوں پر توجہ نہیں کرتا۔(١)

٧۔ خود ستائی یعنی اپنی آپ تعریف کرنا خود پسندی کا ایک دوسرااثر ہے۔ خود بین انسان کو جو بھی موقع ہاتھ لگتا ہے وہ صرف اپنی تعریف میں زبان کھولتا ہے اور جو کچھ اس سے متعلق ہے اسے اچھے عنوان سے ذکر کرتا ہے۔(٢) جب کہ آدمی کا حسن اوراس کی خوبی یہ ہے کہ خود کو نقائص، عیوب، گناہوں اور خطاؤں سے بری نہ جانے اور ہمیشہ بارگاہ خدا وندی میں اپنے جرم و گناہ کی معذرت کرتا رہے۔ قرآن کریم میں خود ستائی کی مذمت میں ارشاد ہوتا ہے: ''لہٰذا اپنے آپ کوپاکیزہ خیال نہ کرو وہ اس انسان (کے حال) سے جس نے پرہیز گاری اختیار کی ہے زیادہ آگاہ ہے''۔(٣)

ہ۔ خود پسندی کا علاج: ہر درد کا علاج اس کے اسباب و علل کو برطرف کرنا ہے، لہذا جو انسان اپنے حسن و جمال اور جسمانی صحت پر مغرور ہو گیا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے آغاز پیدائش اور اپنے انجام پر نظر کرے اور یہ جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ سریع الزوال اورفانی ہے۔ صاحب قدرت کو معلوم ہوناچاہیے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ ایک روز کی بیماری میں نابود ہوجائے گا اور ہر آن اس بات کا امکان ہے کہ جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے واپس لے لے گا۔ صاحب علم و عقل بھی جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اللہ کی امانت ہے لہذا ممکن ہے کہ ایک معمولی حادثہ کے ز یراثر اپنے تمام علم وشعور کو کھو دے۔ اسی طرح صاحبان حسب و نسب بھی جان لیں کہ دوسروںکے کمال کے سبب اظہار فضیلت و بلندی عین جہالت اور بیوقوفی ہے کیونکہ خدا کی بارگاہ میں کرامت وبزرگی تقویٰ وپرہیز گاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔

____________________

١۔ المحجة البیضائ، ص٢٧٥، ٢٧٦ ملاحظہ ہو۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٦٥، ٣٦٦۔

٣۔ سورئہ نجم ، آیت ٣٢۔

۱۰۲

مال ودولت کے مضر اثرات کے بارے میں غور وفکر کرنا کافی ہے تاکہ دولتمندوں کو خود پسندی کے خواب سے بیدار کر دے۔ اہل عبادت اور تقویٰ کو بھی توجہ کرنی چا ہئے کہ عبودیت کی غایت خدا کے سامنے تواضع و انکساری کے سواکچھ نہیں ہے اور عبودیت خود بینی، خود پسندی سے میل نہیں کھاتی ۔(١)

دوسری نظر۔ غرور

''غرور ' 'جوکچھ نفسانی خواہشات کے موافق ہے اس کی نسبت قلبی سکون و اطمینان نیز انسانی طبیعت کا اس کی طرف مائل ہونا ہے۔ اس صفت کا سر چشمہ یا تو جہالت ہے یا شیطانی وسوسہ ہے۔ اس وجہ سے جو شخص اوہام اور شبہات کی بنیاد پر خود کو خیر و صلاح پر تصورکرتا ہے حقیقت میںوہ دھوکہ کھا گیا ہے اور مغرور ہو گیا ہے، وہ اپنا اور اپنے امورکا صحیح اندازہ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ جیسے کوئی حرام طریقہ سے مال حاصل کرے اوروہ اسے راہ خیر مثلاً مسجد بنانے، مدرسہ تعمیر کرنے اوربھوکوں کو سیرکرنے میں خرچ کرے اس خیال سے کہ وہ راہ خیر اور نیکی میں قدم اٹھا رہاہے، جب کہ وہ مغرور اور دھوکہ کھایا ہوا ہے۔ اس وجہ سے '' غرور '' کے دو اساسی رکن ہیں:

١۔ جہل مرکب: یعنی اس کا قلبی اعتقاد یہ ہے کہ اس کا عمل نیک ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

٢۔ برخلاف اس کے کہ جو وہ ظاہر میں دعویٰ کرتا ہے اس کا اصلی سبب خیر و سعادت نہیں ہے، بلکہ خواہشات وغضب کی پیروی اور انتقام جوئی ہے۔قر آن و روایات میں غرور کی شدت سے مذمت کی گئی ہے۔ قرآن اس سلسلہ میںانسان کو ہوشیار کرتا ہے: ''تمہیں یہ دنیاوی زندگی دھوکہ ہرگز نہ دے اور شیطان تمہیں ہر گز مغرور (فریب خوردہ) نہ بنائے ''۔(٢) دوسری جگہ غرور کا سبب دنیا دوستی اور دنیا طلبی جانتا ہے: '' دنیوی زندگی مایۂ فریب کے سوا کچھ اور نہیں ہے ''۔(٣) اگر چہ لوگوں کے تمام گروہوں میں فریب خوردہ اور مغرور لوگ پائے جاتے ہیں، لیکن بعض گروہ کچھ زیادہ ہی غرور میں مبتلا ہیں یا بعبارت دیگر بعض امور زیادہ تر غرور کا باعث بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے علماء اخلاق سب سے اہم ان گروہوں کو جو غرور میں مبتلا ہوتے ہیں، درج ذیل گروہ جانتے ہیں:

الف۔ کفار:

کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا نقد آخرت کے ادھار سے بہتر ہے۔ اسی طرح دنیا کی یقینی لذت آخرت کی وعدہ شدہ لذت سے بہتر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی،جامع السعادات، ج١، ص ٣٢٦تا ٣٤٢۔ ٢ ۔سورئہ لقمان، آیت ٣٣۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حدید، آیت ١٤۔٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٨٥ ۔ سورئہ حدید، آیت ٢٠۔

۱۰۳

ب۔ فاسق اور گناہگار مومنین:

کیونکہ یہ لوگ اس بہانہ سے کہ خدا وندعالم عظیم اور وسیع رحمت کا مالک ہے، ان کے گناہ اس کے عفو ورحمت کے مقابل ناچیز ہیں، لہٰذا یقیناً رحمت خداوندی ان کے شامل حال ہوگی۔

ج۔علمائ:

کیونکہ ممکن ہے کہ یہ تصور کریں کہ علم ودانش، نجات وکامیابی کا ذریعہ ہے اور یہ سونچ کر اپنے علم پر عمل نہ کریں۔

د۔ مبلغین اور واعظین:

کیونکہ شاید یہ گمان کریں کہ ان کی نیت لوگوں کی ہدایت ہے جب کہ وہ اپنے نفس کو راضی کرنے کے چکر میں ہیں اور اس راہ میں خلاف واقع امور کی دین کی طرف نسبت دینے سے بھی گریز نہ کریں۔

ہ۔ اہل عبادت اور عمل:

چونکہ ممکن ہے کہ حقیقت میں وہ ریا اور خود نمائی کر رہے ہوں، لیکن تصور کریں کہ ان کی غرض اللہ کی رضا اور اس کے معنوی تقرب کا حصول ہے۔

و۔ عرفان کے دعویدار افراد:

کیو نکہ شاید یہ تصور کریں کہ صرف اہل معرفت کا لباس پہن کر اور ان کی اصطلاحیں استعمال کر کے (بغیر اس کے کہ وہ اپنی حقیقت اور باطن کو تبدیل کریں) سعادت وحقیقت تک پہونچ گئے ہیں۔

۱۰۴

ز۔ مالدار اور ثروت مند افراد:

کیو نکہ یہ لوگ کبھی راہ حرام سے تحصیل کر کے لوگوں کو دکھانے کے لئے امور خیر یہ میں اس کا مصرف کرتے ہیں اور اس کو اپنی سعادت ونیک بختی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے دل کو خوش رکھتے ہیں۔(١)

٢۔ تواضع

تواضع کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دوسروں کے مقابل اپنے امتیاز اور فوقیت کا قائل نہ ہو۔ کسی انسان میں اس حالت کا وجود باعث ہو تا ہے کہ دوسروں کو بزرگ اور مکرم سمجھے۔(٢) تواضع کبر وتکبر کے مقابل ہے اور یہ دونوں تواضع کے لئے مانع کے عنوان سے زیر بحث واقع ہوں گے۔

ایک۔ تواضع کی اہمیت:

خدا وند عالم قرآن کریم میں تواضع وفروتنی کو اپنے واقعی مومن بندوں کی خصوصیات میں جانتا ہے اور فر ماتا ہے:

''اور خدا وند رحمان کے بندے وہ لوگ ہیں جو روئے زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ونادان لوگ ان سے خطاب کر تے ہیں تو وہ سلامتی کا پیغام دیتے ہیں''(٣)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣، ٣٣۔

٢۔ ایضاً ، ج١، ص ٣٥٨، ٣٥٩۔

٣۔ سورئہ فرقان، آیت ٦٣ ۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ مائدہ، آیت ٥٤۔

۱۰۵

دوسری جگہ خدا وند عالم پیغمبر اکرم سے فرماتا ہے: اپنے ماننے والوںکے ساتھ خاضعانہ رفتار رکھیں:

''اور ان مومنین کے لئے جنہوں نے آپ کی پیروی کی ہے اپنے شانوں کوان کے لئے جھکا دیجئے''(١) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: خداوند عالم نے موسیٰ کو وحی کی: اے موسیٰ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اپنی تمام مخلوقات میں تم کو اپنے سے بات کرنے کے لئے کیوں انتخاب کیا ؟ موسیٰ ـنے عرض کی: خدا یا ! اس کی علت کیا ہے ؟ خدا نے جواب دیا: ''اے موسیٰ! میں نے اپنے بندوں میں اپنے سامنے تم سے زیادہ کسی کو متواضع اور منکسر نہیں دیکھا۔ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے رخسار کوخاک پر رکھتے ہو''۔(٢)

رسول خدا نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ''کیا بات ہے کہ تم میں عبادت کی شیرینی نہیں دیکھتا؟ ''انہوں نے سوال کیا: عبادت کی شیرینی کیا ہے ؟ فرمایا: '' عاجزی وانکساری ''۔(٣)

دو۔ تواضع کی علامتیں: بعض روایات میں متواضع اور خاکسار انسان کے لئے نشانیاں بیان کی گئی ہیں اگر چہ یہ نشانیاں نمونہ کے طور پر ہیں اور اس کا مفہو م صر ف انھیںنشانیوں میں منحصر ہونا نہیں ہے، انھیںنشانیوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ متواضع اور خاکسار انسان بیٹھنے میں بزم کے آخری حصہ میں بیٹھتا ہے۔(٤)

٢۔ متواضع انسان سلام کرنے میںدوسروں پر سبقت کرتا ہے۔(٥)

٣۔ جنگ وجدال سے بازرہتا ہے خواہ حق اس کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔(٦)

٤۔ وہ اس بات کو دوست نہیں رکھتا کہ اس کی پرہیز گاری کی تعریف کی جائے۔

تین۔ فروتنی کے موانع : کبر و تکبر، فخر و مباہات، تعصب، طغیانی و سر کشی، ذلت و رسوائی، فروتنی کے سب سے اہم موانع میں شمار ہوتے ہیں، اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کی توضیح دے رہے ہیں۔

الف) کبر:

فروتنی کی راہ میں سب سے بنیادی و اساسی مانع '' کبر '' ہے۔

____________________

١۔ سورئہ شعرائ، آیت ٢١٥۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ١٢٣، ح٧۔ ٣۔ورام بن ابو فراس: تنبیہ الخواطر، ج١، ص٢٠١۔

٤۔کافی، ج٢، ص ١٢٣، ح٩۔٥۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج٧٥، ص١٢٠، ح٩۔ ٦۔ایضاً ، ص١١٨، ح٣۔

۱۰۶

کبرکا مفہوم:

کبر یہ ہے کہ انسان عُجب و خود پسندی کے نتیجہ میں مقابلہ و مقایسہ کے موقع پر خود کو سب سے برتر اور بہتر خیال کرے اس وجہ سے کبر خود پسندی اور عُجب کامعلول ہے (یعنی کبر عُجب و خودپسندی کی وجہ سے وجود میں آتا ہے ) اور اس میںدوسروں سے مقایسہ پوشیدہ ہے۔ اگر خود کو بڑا اور برتر سمجھنے کی کیفیت ایک حالت کے عنوان سے فقط انسان کے اندر باطن میں پائی جائے تو اسے ''کبر '' کہتے ہیں، لیکن اگرخارجی اعمال و رفتار میں ظاہر ہو تو اسے ''تکبر'' کہتے ہیں، جیسے کسی کے ساتھ بیٹھنے یا کھانا کھانے سے پرہیز کرے، اور دوسروں سے سلام کا انتطار کرے اور گفتگو کرتے وقت مخاطب کی طرف نگاہ کرنے سے اجتناب کرے وغیرہ ...۔(١)

تکبّر کی مذمت:

خداوند عالم نے قرآن کریم میں ان لوگوں کی نسبت جو اللہ کی عبادت میں تکبّر کرتے ہیں، جہنم کا وعدہ دیا ہے ''در حقیقت جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ لوگ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں چلے جائیں گے ''۔(٢) دوسری جگہ اعلان کرتا ہے کہ سرائے آخرت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو زمین میں فوقیت و برتری کے خواہاں نہ ہوں: ''اس دارآخرت کو ہم ان لوگوں سے مخصوص کردتے ہیں جو زمین میںفوقیت وبرتری اور فساد کے طا لب نہ ہوں ''۔(٣)

تکبّر کی قسمیں:

جس کی نسبت تکبّر کیا جاتا ہے اس کے اعتبار سے تکبّر کی تین قسمیں کی جاسکتی ہیں:

ایک۔ خداوندعالم کے مقابل تکبّر کرنا: جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: '' جو انسان اس کی پرستش سے امتناع کرے اور کبر کا اظہار کرے عنقریب ان سب کو اپنی بارگاہ میں محشور کرے گا''۔(٤)

دو۔ پیغمبر کے مقابل تکبّر کرنا:

پیغمبر کے مقابل تکبّر اس معنی میں ہے کہ انسان اپنی شان و منزلت کو اس بات سے افضل وبرتر تصور کرے کہ آنحضرت کی دعوت اور فرامین پر گردن جھکائے ۔جیسا کہ قرآن کفار کے ایک گروہ کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: '' آیا ان دو بشر پر جو کہ ہمارے ہی جیسے ہیں ایمان لے آئیں ''۔(٥)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٤٤۔ ٢۔ سورئہ مومن، آیت ٦٠۔٣۔سورئہ قصص ٨٣ ۔ جاثیہ ٣٧ ۔ اعراف ١٣، ١٤٦ ۔ ص ٧٣ ، ٧٤ ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٣٧ ۔ لقمان ١٨۔ فرقان ٦٣ ۔ نحل ٢٩ اور ٢٣ ۔ غافر، آیت ٣٠، ٥٦، ٦٠ ۔ انعام، آیت ٩٣ ،سورئہ زمر، آیت ٧٢۔

٤۔سورئہ نسائ، آیت ١٧٢ ۔ سورئہ مریم، آیت ٦٩ ۔ نحل، آیت ٢٣۔ ٥۔سورئہ مومنون، آیت ٤٧۔

۱۰۷

تین۔ لوگوںکے مقابل تکبّر: یعنی خود کو عظیم اور دوسرے لوگوں کو معمولی اور ذلیل و خوار سمجھنا۔ ایک روایت میں اس طرح کے تکبّر کو واقعی جنون سے تعبیر کیا گیا ہے۔(١)

تکبّر کا علاج:

علماء اخلاق نے تکبّر کے علاج کے لئے علمی اور بعض عملی راہیں بتائی ہیںکہ وہ اسباب تکبّر سے اجتناب یا ان کا برطرف کرنا ہے۔ چونکہ حقیقت میں تکبّر کے اسباب وہی خودپسندی کے اسباب ہیں، لہذا جوکچھ خودپسندی کے علاج سے متعلق بیان کیا گیا ہے، وہی تکبّر کے علاج کے لئے بھی کار آمد ہوگا۔

ب) ذلت وخواری:

جس طرح بزرگ طلبی اور برتری جوئی (کبر وتکبّر) تواضع کے لئے مانع ہے اسی طرح ذلت وخواری بھی تواضع کے لئے مانع ہے اور عزت نفس سے بھی منا فات رکھتی ہے اگر تکبّر اپنی اہمیت جتانے میںافراط اورزیادتی تو ذلت خواری بھی اس امر میں تفریط ہے(٢) اسی بنیاد پراخلاق اسلامی میں متکبّرین کے مقابل تواضع اور خاکساری کرنے کو شدت کے ساتھ منع کیا گیاہے کیونکہ متکبّر انسان ہرطرح کی خاکساری و فروتنی کو مقابل شخص کی پستی اورخواری شمار کرتا ہے۔(٣)

____________________

١۔شیخ صدوق، خصال، ص ٣٣٢، ح ٣١۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٦٢۔

٣۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج ١، ص ٢٠١ ملاحظہ ہو۔

۱۰۸

تیسری فصل: مؤثر نفسانی صفات

د۔ نفس کی توجہ آئندہ کی نسبت

اخلاق اسلامی کے مفاہیم میں سے بعض یہ ہیں جو انسان کے نفس کی توجہ کو آئندہ سے متعلق بتاتا ہے۔ سب سے پہلے آئندہ کے متعلق نفس کے پسندیدہ رجحان پھر اس کے بعد اس کے موانع کے بارے میں گفتگوکریں گے۔

١۔ آئندہ کی نسبت نفس کا مطلوب رجحان

یہ رجحان درج ذیل شرح کے ساتھ چند مفاہیم کے قالب میں بیان ہوگا:

الف۔ حزم:

حزم لغت میں محکم و استوار کام کرنے اور امور کو متقن ومحکم بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔(١) روایات میںبھی حزم اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن اس کے مصادیق کثرت سے بیان کئے گئے ہیں، منجملہ آج کی اصلاح، کل کا تدارک، آج کا کام کل پر نہ چھوڑنا، موت کے لئے آمادہ رہنا، ضد اورہٹ دھرمی نہ کرنا، صاحبان نظر سے مشورہ کرنا، کسی چیز کے طے کرنے میں قاطعیت کا اظہار، مشکوک امور میںتوقف کرنا، احتیاط اور عاقبت اندیشی۔ اس طرح سے آئندہ کے بارے میں غورو خوص کرنا اور دور اندیشی حزم کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے قریب وبعید مستقبل کا تدارک مطلوب صورت میں اسلام کے عالی اخلاقی فضائل میں شمار ہوتا ہے اس سے اخلاق اسلامی کی اصل کتابوں میں حزم کو چالاکی،(٢) ایک نوع سرمایہ اور پونجی،(٣) ہنر مندی(٤) جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے اور مومنین کے اوصاف میں سے ایک وصف شمار کیا گیا ہے۔

____________________

١۔ ابن اثیر، نہایہ، ج١، ص٣٧٩۔

٢۔شیخ صدوق، خصال، ج٢، ص٥٠٥، ح٣۔

٣۔ غررالحکم، ح٩۔

٤۔ ایضاً ، ح١١٧۔

۱۰۹

(١) خلاصہ یہ کہ آئندہ کی نسبت نفس کی مطلوب توجہ (حزم) یہ ہے کہ پہلے اپنے کل کی حالت اور ان حوادث وواقعات کو جو آئندہ پیش آئیں گے منجملہ ان کے اپنی موت وزندگی کو نظر میں رکھے۔ دوسرے آج کی اپنی خواہشات ومیلانات کو کل کی بہ نسبت آمادہ کرے۔

ب۔ آرزؤوں کو کم کرنا:

کل ہمارے آج کی آرزؤوں کا بستر ہے، سارے انسان جس مقدار میں اپنی بقا و زندگی کے لئے آئندہ امید رکھتے ہیں اسی قدر اپنی آرزؤوں کے دائرہ کی نقشہ کشی کرتے ہیں۔ نیز کبھی کبھی آدمی کی آرزؤوں اور تمناؤں کا دامن اس کی آئندہ زندگی کے دوران کی نسبت امید کو تحت تاثیر قرار دیتا ہے۔ بہر صورت یہ دونوں عامل ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اخلاق اسلامی میںکوشش کی گئی ہے کہ انسان کی آرزوئیں اور اس کی امیدیں کو اس کی باقی بچی عمر کی نسبت فطری حقیقتوں اور گراں قیمت اخلاقی معیاروں کے مطابق شکل اختیار کرے۔ ایک طرف انسان کو آگاہ کرتاہے کہ آئندہ زندگی کے لئے کوئی اطمینان و ضمانت نہیں ہے اور ہر دن اور ہر آن ممکن ہے کہ اس کی زندگی کا آخری لمحہ ہو لہذا اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دنیوی مطالبات وخواہشات اور آخرت کے لئے اپنی ضرورتوںکو انھیںواقعیتوں کی بنیاد پر استوار کرے۔ دوسری طرف اسے یاد دلاتا ہے کہ اپنی ہمت کو بلند رکھے اور اپنی ا نسانی منزلت کا کھانے پینے، سونے اور زودگذر لذتوں، اعتباری منصبوں نیز ایسے لوگوں کی تعریف و توصیف سے جو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں، سودا نہ کرے۔

اخلاق اسلامی کی تاکید آرزؤوں کو کم کرنے کے سلسلہ میں اسی ہدف کی تکمیل کے پیش نظر ہے، کیونکہ علماء اخلاق کے بقول، طولانی آرزؤوںکی بنیاد دو چیزیں ہیں: ایک طولانی عمر پر اعتقاد اور دوسرے طویل مدت تک دنیوی لذتوں سے فائدہ اٹھانے کی رغبت۔ اس بنا پر طولانی آرزوئیں ایک طرف انسان کی جہالت اور اس کی موت سے غفلت کا باعث ہیں اور دوسری طرف دنیا سے لگاؤ اور محبت کا باعث ہیں۔(٢) یہ دونوں نہ تنہا رذیلت ہیں، بلکہ بہت سے اخلاقی رذائل کی کنجی ہیں۔ آیات وروایات میںطولانی و دراز آرزؤوں کی مختلف انداز سے مذمت کی گئی ہے۔ خداوند جبار نے حضرت موسٰی ـ سے فرمایا: ''اے موسی! دنیا میں دراز آرزوئیں نہ رکھو کہ سخت دل ہوجاؤ گے اور سخت دل انسان مجھ سے دور ہے''۔(٣)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٢٢ ، ٢٢٩۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ص٣٢، ٣٥۔ ٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ٣٢٩، ح١۔

۱۱۰

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' جو شخص یقین رکھتا ہے کہ ایک دن اپنے دوستوں سے جدا ہوجائے گا اورخاک کے سینہ میںچھپ جائے گا اور اپنے سامنے حساب وکتاب رکھتا ہے اور جو کچھ اس نے چھوڑا ہے اس کے کام نہیں آئے گا اور جو کچھ اس نے پہلے بھیجا ہے اس کا محتاج ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ آرزؤوں کے رشتہ کو کوتاہ اور عمل کے دامن کودراز کرے''(١) حضرت امام محمد باقر ـ نے بھی فرمایا ہے: ''آرزو کو کم کر کے دنیا سے رہائی کی شیرینی حاصل کرو''۔(٢)

ج۔ موت کی یاد:

اسلام کے تربیتی اخلاق میں بہت کارآمد وسیلہ ہے وادی معرفت کے سالک اور محبت پروردگار کے کوچہ کے دلدادہ افراد نے موت کی یاد سے متعلق قیمتی تجربے ذکر کئے ہیں، نیز آیات وروایات میں بھی ذکر موت، تربیت اخلاقی میں ایک مفید حکمت عملی اور تدبیرکے عنوان سے مورد تاکید واقع ہواہے ۔جیسا کہ کہا گیا ہے: طولانی عمر سے استفادہ کرنے کا یقین دراز مدت آرزؤوںکے ارکان میں سے ہے جو کہ دنیا سے محبت اور ذخیرہ آخرت سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اخلاق اسلامی اپنے بہت سے ارشادات سے ''یادمرگ '' کی نسبت اور اصل موت اور اس کے نا گہانی ہونے کے بارے میں دائمی نصیحت سے، ہمارے نفسانی رجحان کو کل کی نسبت ہمیں آمادہ کرتے ہے۔ ہماری کل کی زندگی کی امیدوں کی تصحیح کرکے ہمارے موقف اور ہماری رفتار کو آج کی نسبت بھی اصلاح کرتا ہے۔

حضرت امام محمد باقر ـ نقل فرماتے ہیں کہ لوگوںنے پیغمبر اکرم سے سوال کیا: سب سے زیادہ چالاک مومنوں میں کون ہے ؟ رسول خدا نے جواب دیا: وہ انسان جوسب سے زیادہ موت کو یاد کرے اور سب سے زیادہ خودکو موت کے لئے آمادہ کرے۔(٣)

حضرت علی ـ نے فرمایا: جب تمہارے نفوس تمہیں خواہشات اور شہوات کی جانب کھینچیں، تو موت کو کثرت سے یاد کروکیونکہ موت سب سے بہتر واعظ ہے رسول خدا اپنے اصحاب کو موت کی یاد کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے اور فرماتے تھے: موت کا کثرت سے ذکر کرو، کیونکہ وہ لذتوں کو درہم برہم کرنے والی اور تمہارے اور تمہارے خواہشات کے درمیان حائل چیز ہے۔(٤)

____________________

١۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج٧٣، ص ١٦٧، ح ٣١۔

٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٨٥۔

٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج٣، ص ٢٥٨ز۔

٤۔ شیخ طوسی، امالی، ص ٢٨، ح ٣١۔

۱۱۱

د۔ بلند ہمتی:

آرزؤوں کے کوتاہ کرنے اور موت کے انتظار کی ضرورت کا ذکر ہونے کے بعد ممکن ہے کہ یہ تصور پیش آئے کہ بلند آرزؤوں کا فاقد انسان، مستقبل کے لئے سعی و کوشش کا کوئی سبب اور تدبیر، دور اندیشی اور محرّک نہ رکھے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طرف اگر چہ اسلام آرزؤوں کے کوتاہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو دوسری طرف انسان کی امید اور بلند ہمتی کو گراں قیمت الٰہی آرزؤوں اور امیدوں کی سمت موڑ دیتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ بلند ہمت افراد کی مذمت کرتا نہیں ہے بلکہ اس کی ایک اخلاقی فضیلت بتاتا ہے اور بلند ہمتی کو خدا کی دوستی اور محبت کی طلب میں جانتا ہے، جیسا کہ حضرت امام زین العابدین ـ خدا سے مناجات کرتے وقت فرماتے ہیں: '' خدایا! مجھے روحانی جسم، آسمانی دل اور ایسی ہمت جو مسلسل تجھ سے وابستہ ہو اور اپنی محبت میں صادق یقین عطا فرما۔ ''(١) دوسری مناجات میںبیان کرتے ہیں: اے وہ ذات! جس نے عارفین کو طولِ (یا عطرِ) مناجات سے مانوس کیا اور خائفین کو ولایت و دوستی کا لباس پہنایا، کب خوش ہوگا وہ انسان جس کی ہمت تیرے علاوہ دوسرے کی طرف متوجہ ہو اور کب وہ انسان آرام محسوس کرے گا جو تیرے علاوہ دوسرے کا عزم و ارادہ رکھتا ہے۔ معلوم ہوا سعادت وکمال حاصل کرنے کی راستہ میں سعی وکوشش اور بلند ہمت کی اسلام میں نہایت تاکید کی گئی ہے کہ جس کا راستہ اسی دنیا سے گذرتا ہے اور بہت سے دنیاوی عطیوں سے استفادہ کرنا اور بہرہ مند ہونا اس تک پہونچنے کی شرط ہے۔پیغمبر اسلام ان دونوں کے درمیان (جو بظاہر متعارض ہیں) جمع کرنے کے عنوان سے فرماتے ہیں: ''اپنی دنیا کے لئے اسی طرح کام کروکہ گویا ہمیشہ زندہ رہو گے اور اپنی آخرت کے لئے اسی طرح کام کروکہ گو یا کل مر جاؤگے۔ ''(٢)

٢۔موانع

سب سے اہم موانع جو کل کی نسبت نفس کے مطلوب رجحان کے مقابل ہیں،درج ذیل ہیں:

الف۔ طولانی آرزوئیں:

دراز آرزؤویں عام طور پر آئندہ سے متعلق انسان کو غیر واقعی تصویر دکھاتی ہیں، انسان کی دنیا سے محبت اور اس کی خوشیوں میںاضافہ کرتی ہیں اور دنیاوی محبت بھی دسیوں اور سیکڑوں اخلاقی رذیلتوں کا باعث ہے جیسا کہ رسول خدا نے فرمایا: ''حب الدنیا رأس کل خطیئہ''(٣) ''دنیا سے دلبستگی تمام گناہوں کی اصل و اساس ہے۔ '' اسی بنیاد پر دراز آرزؤوں کی شدت کے ساتھ ملامت کی گئی ہے۔

____________________

١۔ صحیفہ سجادیہ، دعا ١٩٩۔٢۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج٢، ص٢٣٤ ؛شیخ صدوق، فقیہ، ج ٣، ص ١٥٦، ح ٣٥٦٩؛ خزار قمی، کفاےة الاثر، ص ٢٢٨؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٤٤، ص ١٣٩، ح٦۔ ٣۔ شیخ صدوق، خصال، ج١، ص ٢٥، ح ٨٧ ؛ حرانی، تحف العقول، ص٥٠٨۔

۱۱۲

قرآن کریم ایک گروہ کی مذمت میںفرماتا ہے: ''انہیں چھوڑ دو تاکہ کھائیں اور مزے اڑائیں اور امیدیں انھیںغفلت میں ڈالے رہیں، عنقریب وہ جان لیں گے''۔(١)

اسی طرح طولانی خواہشات انسان کو '' تسویف '' میںمبتلا کرتی ہیں یعنی انسان ہمیشہ پسندیدہ امور کو کل پر ٹالتا رہتا ہے۔ حضرت علی ـ اپنے اصحاب کونصیحت کرتے ہوئے اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''دنیا کو چھوڑ دو کہ دنیا کی محبت اندھا، بہرہ، گونگا اور بے حال بنادیتی ہے۔ لہذا جو کچھ تمہاری عمر کا حصہ باقی بچا ہے اس میں گذشتہ کی تلافی کرو اور کل اور پرسوں نہ کہو (ٹال مٹول نہ کرو) اس لئے کہ تم سے پہلے والے جو ہلاک ہوئے ہیں لمبی آرزؤوں اور آج اور کل کرنے کی وجہ سے، یہاںتک کہ اچانک ان تک فرمان خداوندی آپہنچا (انھیںموت آگئی) اور وہ لوگ غافل تھے''۔(٢)

ب۔ پست ہمتی:

پست ہمتی انسان کو بلند مقامات اور عالی اہداف و مقاصد تک پہونچنے سے روک دیتی ہے،

آئندہ کے بارے میں غور وفکر اورعاقبت اندیشی کی نوبت نہیں آنے دیتی اور صرف آج کی فکر اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کی عادی بنادیتی ہے۔ آئندہ کی سعادت اور اس کے خوشگوا ر ہونے کی فکر کرنا اور ابھی سے کل کی مشکلات کا استقبال کرنا بلند ہمت اور عظیم روح کے مالک افراد کا ہنر ہے، اپنے مستقبل کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روشن اور درخشاں دیکھنا اور ابھی سے مستقبل کے لئے چارہ اندیشی کرنا بلند ہمت افرادکی شان ہے۔ اس وجہ سے مستقبل کی نسبت اور آج سے کل کی اصلاح کے متعلق نفس کے پسندیدہ رجحان کے لئے ایک مانع کے عنوان سے پست ہمتی کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔ منجملہ ان کے حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''تین چیزیں انسان کو مقامات عالیہ اور بلند اہداف تک پہونچنے سے روک دیتی ہیں: پست ہمتی، عدم تدبیر، غور وفکر میں تساہلی۔(٣)

____________________

١۔ سورئہ حجر، آیت ٣۔

٢۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٣٦، ح٢٣۔

٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٣١٨۔

۱۱۳

ہ۔ دنیوی نعمتوں کی طرف نفس کارجحان

انسان کے بہت سے اعمال ورفتاردنیا کی نسبت ان کے نفسانی رجحان سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ رجحان بہت سے نفسانی صفات اور ملکات کی پیدائش کا سر چشمہ ہے ایسا لگتاہے کہ اخلاق اسلامی میں مواہب دنیوی کی نسبت نفسانی مطلوب کا رجحان زہد کے محور پرگھومتا ہے اور وہ تمام عام مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں جیسے قناعت، عفت، حرص، طمع و حسرت وغیرہ ان سب کو زہد کی بنیاد پر بیان کیا جاسکتا ہے۔

زہد

ایک۔ زہد کا مفہوم

ارباب لغت کی نظر میں کسی چیز کی نسبت زہد اختیار کرنے کے معنی اس چیز سے اعراض اور اس سے بہت کم خوش ہونا ہے۔(١) علماء اخلاق کے فرہنگ میں '' زہد '' نام ہے دنیا سے قلبی اور عملی اعتبار سے کنارہ کشی اور اعراض کرنے کا مگر اتنی ہی مقدار میں جتنی انسان کو اس کی ضرورت ہے۔

بعبارت دیگر زہد یعنی آخرت کے لئے دنیا سے رو گردانی اور خدا کے علاوہ ہر چیز سے قطع رابطہ کرنا ہے۔ اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً، زہد اس شخص پر صادق آتا ہے جس کے یہاںدنیا کے تحصیل کرنے اور اس سے بہرہ مندہونے کا امکان پایا جاتا ہو۔ دوسرے، دنیا سے روگرداں ہونا آخرت کی بہ نسبت دنیا کی پستی اور حقیر ہونے کے اعتبار سے۔ جب بھی دنیا کا ترک کرنا امکان تحصیل نہ ہونے کی وجہ سے ہو ( یعنی دنیا کی تحصیل کرنااس کے لئے ممکن ہی نہ ہو) یا خدا کی رضایت اور تحصیل آخرت کے علاوہ کوئی اورہدف و مقصد ہو جیسے لوگوں کی خوشنودی اور دوستی جذب کرنے کے لئے ہو یا اس کی تحصیل میں سختی اور مشقت سے فرار کرنے کی وجہ سے ہو تو اسے '' زہد '' نہیں کہا جائے گا۔(٢)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ٣٨٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٣، ص ١٩٦ اور ص ١٩٧۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادت، ج ٢ ص ٥٥ اور ص ٥٦۔

۱۱۴

دو۔ زہدکی اہمیت

آیات و روایات میں زہد اختیار کرنے کی نسبت جو تعبیریں وارد ہوئی ہیں نیز وہ علائم جو اس نفسانی صفات کے لئے بیان کئے گئے ہیں سب کے سب اسلام کے اخلاقی نظام میں دنیا کی نسبت اس کے بلند و بالا مرتبہ کو بیان کرنے والے ہیں ۔

جیسا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''دنیا میں زہد اختیار کرنا جسم و دل کے سکون کا باعث ہے ''۔(١) حضرت امام جعفر صادق ـ نے بھی فرمایا ہے: ''دنیا سے بے رغبتی اور بے توجہی آخرت کی جانب متوجہ ہونے کے لئے دل کی فراغت وسکون کا باعث ہے''۔(٢) خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم اعلان فر ماتے ہیں: ''دنیا سے بے توجہ ہوئے بغیر تمہارے دلوں پر ایمان کی چاشنی حرام ہے''۔(٣)

تین۔ زہد کے مراتب اوردرجات

علماء اخلاق نے مختلف اعتباروں سے زہد کے انواع اور درجات ذکر کئے ہیں، اختصار کے ساتھ ہم انھیںذکر کررہے ہیں۔

١۔ زہد کے شدت و ضعف کے اعتبا ر سے مراتب:

زہد کو دنیا سے کنارہ کشی کی شدت و ضعف کے اعتبار سے تین درجوں تقسیم کرتے ہیں:

الف۔ انسان دنیا سے رو گرداں ہے اس حال میں کہ اس کی طرف مائل ہے اور حقیقت میں زحمت، مشقت اور تکلّف کے ساتھ خود کو دنیا سے دور کرتا ہے۔

ب۔ انسان خواہش، رغبت اور آسانی کے ساتھ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے، بغیر اس کے کہ اس کی طرف کوئی میلان ہو کیونکہ اس کی نظر میں دنیا اخروی لذتوں کے مقابل حقیر و پست ہے، در حقیقت اس نے ایک ایسے معاملہ کا اقدام کیا ہے جس میں معمولی اور کم اہمیت چیز کو اس سے قیمتی جنس کی امید میں چھوڑ دیا ہے لیکن اس معاملہ سے وہ راضی وخوشنود ہے۔

____________________

١۔ شیخ صدوق ِ خصال، ص٧٣ ح ١١٤۔

٢۔ کافی، کلینی، ج ٢، ص ١٦، ح ٥۔

٣۔ کافی، ص ١٢٨، ح ٢۔

۱۱۵

ج۔ زہد کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہش اور شوق سے دنیا کو ترک کرے اور کبھی کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا احساس نہ کرے۔یعنی احساس نہ کرے کہ کوئی معاملہ ہوا ہے، اسی طرح جیسے کوئی ایک مشت خاک کو چھوڑ دے تاکہ یاقوت حاصل کرے، وہ کبھی احساس نہیں کرتا کہ کوئی چیز اس نے قیمتی چیز کے مقابل گنوائی ہے اور کوئی معاملہ کیا ہے۔

٢۔ زہد کے مراتب اعراض کی جانے والی چیزوں کے اعتبار سے:

اس اعتبار سے زہد کے چند درجے درج ذیل بیان کئے گئے ہیں:

الف۔ محرَّمات سے اعراض کرنا ؛ یعنی محرَّمات سے دوری اختیار کرنا کہ جسے '' واجب زہد '' کہتے ہیں۔

ب۔ شبہوںسے اعراض کرنا اور ان کی نسبت زہد اختیار کرنا جو کہ انسان کو ارتکاب گناہ اور محرمات سے سالم رکھنے کا باعث ہیں۔

ج۔ حلال چیزوں سے ضرورت سے زیادہ مقدار کی نسبت زہد اختیار کرنا، یعنی غذا، پوشاک، رہائش، زندگی کے ساز وسامان وغیرہ میں اور ان کو حاصل کرنا کے اسباب و ذرائع جیسے مال وجاہ میں ضرورت بھر پر اکتفا کرنا۔

د۔ زہد اختیار کرنا ان تمام چیزوں کی نسبت کہ جو نفس کی لذت کا باعث ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دنیا سے ضرورت بھرچیزوں میں بھی اس معنی میں کہ ضروری مقدار سے فائدہ اٹھانا اور فیضیاب ہونا بھی اس کی لذت کے لئے نہ ہو، نہ یہ کہ دنیا کی ضرورت بھر چیزوں کو بھی ترک کردے کہ اصولی طور پر ایسی چیز کا امکان ہی نہیں ہے۔ زہد کا یہ درجہ اور اس سے ماقبل تیسری قسم حلال میں زہد اختیار کرنا ہے۔

رسول خدا نے فرمایا: ''وہ لوگ مبارک وخوشحال ہیں جو خدا کے سامنے فروتنی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے لئے حلال کیا گیا ہے اس میں زہد اختیارکرتے ہیں بغیراس کے کہ وہ میری سیرت سے رو گرداں ہوں''۔(١)

ہ۔ جو کچھ خدا کے علاوہ ہے اس سے روگرداں ہونا، حتیٰ خود سے بھی، لیکن بعض اشیاء کی طرف بقدر ضرورت توجہ جیسے خوراک، پوشاک اور لوگوں سے معاشرت زہد کے اس درجہ سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ خداوند رحمان کی جانب توجہ انسان کے زندہ اور باقی رہے بغیر ممکن نہیں ہے اور انسان کی زندگی کے لئے ضروریات حیات ضروری ہیں۔

____________________

١۔ کافی، ج٨، ص١٦٩، ح ١٩٠ ۔ حرانی، تحف العقول، ص٣٠۔ اسی طر ح ملاحظہ ہو صدوق، فقیہ، ج٤، ص ٤٠٠، ح ٥٨٦١، اور تفسیر عیاشی، ج٢، ص٢١١، ح٤٢۔

۱۱۶

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـ سے منقول ہے: ''زہد جہنم سے برائت اور جنت کے دروازہ کی کنجی ہے اوروہ ہر اس چیز کا ترک کرنا ہے جو انسان کو خداسے غافل کردے، دنیا کے گنوادینے پر افسوس نہ کرنا اور اس کے ترک کردینے پر خود پسندی میں مبتلانہ ہونا ہے''۔(١) حضرت علی ـ زہد کی تعریف کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ''سارا زہد قرآن کے دو کلموں میں جمع ہے، خدا وند سبحان نے فرمایا ہے: ''تاکہ جو کچھ تمہارے ہاتھوںسے چلا ہو گیا ہے اس پر افسوس نہ کرواور جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس پر شادمان اور مسرورنہ ہو''(٢) اور جو شخص گذشتہ پرافسوس نہ کرے اور آئندہ پر مسرور نہ ہو تو اس نے دو طرف سے زہد اختیا ر کیا ہے''۔(٣)

٣۔زہد کے مراتب اس چیز کے اعتبار سے کہ انسان جس کی طلب میں دنیا سے روگرداں ہو تا ہے:

اس وجہ سے زہد کے درج ذیل تین درجے ہیں:

١۔ خدا ترس لوگوں کا زہد: انسا ن آتش جہنم سے نجات اور اخروی عذاب سے بچنے کے لئے دنیا سے روگرداں ہوتا ہے۔

٢۔ امید واروں کا زہد: یعنی دنیا سے اس امید میں رو گرداں ہونا کہ خدا کا ثواب اور جنتی تعمتیں حاصل ہوں۔

٣۔ عرفاء کا زہد: نہ ہی درد والم کی طرف توجہ رکھتا ہے تاکہ اس سے نجات طلب کرے اور نہ ہی لذتوں کی اعتناء کرتا ہے تاکہ ان سے فیضیابی کا طالب ہو۔ بلکہ صرف اور صرف خدا سے ملاقات اور اس کے دیدار کااشتیاق رکھتاہے۔ ایسا زہد صرف اہل معرفت کی شان ہے ۔(٤)

جو کچھ زہد کی تعریف اور اس کے درجات کے سلسلہ میں کہا گیا ہے اس کے اعتبار سے معلوم ہوتاہے کہ دنیا سے مرادصرف مال و ثروت، خوراک وپوشاک نہیں ہے، کیونکہ ان تمام امور سے اعراض ایسے افراد کے لئے جو شہرت کے طالب اورپارسائی کی تعریف کو دوست رکھتے ہیں۔ بہت آسان ہوجائے گا بلکہ دنیا تمام مرتبہ وریاست نیز وہ تمام نفسانی استفادے جو دنیا سے ممکن ہیں سب کو شامل ہے۔ حقیقی زہد یعنی مال و مرتبہ سے بے تعلق ہونا اوراس سے روگرداں ہونا ہے۔ سچا زہد وہ ہے جس کی نظر میں فقر و غنا، تعریف و برائی، عزت وذلت جو لوگوں کے نزدیک پائی جاتی ہیں، سب یکساں ہوں، اور و ہ صرف محبت خداوندی اور رضائے الہی کا طالب ہو ۔

____________________

١۔ گیلانی، عبدالرزاق، مصباح الشریعة، ص ١٣٧۔

٢۔ بقرہ ٢٣٧۔٣۔ نہج البلاغہ حکمت ٤٣٩ اسی طرح ملاحظہ ہو: کافی، ج٢، ص ١٢٨، ح٤۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٧١٤، ح ٩٨٤ ۔ خصال، ص٤٣٧، ح ٢٦۔

٤۔ نراقی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٦٥ تا ص ٧٤ ۔فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضا ئ، ج٧، ص ٣٥٧ تاص٣٦٤۔

۱۱۷

چار۔ زہد کے علائم

زہد کے بعض اہم علائم کہ جو اپنی جگہ پر خود بھی ایک عام اخلاقی مفہوم ہیں، درج ذیل ہیں۔

١۔ قناعت:

عربی ادب میں بخشش کی معمولی مقدار پر راضی ہونے(١) اور اپنے سہم پر رضایت دینے کے معنی میںہے(٢) اخلاق اسلامی کے مشہور مآخذ میں '' قناعت '' '' حرص '' کے مقابل استعمال ہوئی ہے اور اس سے مراد وہ نفسانی ملکہ ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی ضرورت بھر اموال پر راضی اور خوش رہتا ہے اور خود کو اس سے زیادہ کی تحصیل کے لئے زحمت و مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔(٣) قناعت کے خود بہت سے مفید علائم ہیں اور دوسری طرف بہت سے اخلاقی رذائل بلکہ حقوقی جرائم سے بچنے کا ذریعہ ہے، اسی وجہ سے اسلام کے اخلاقی نظام میں اس کی تشویق وترغیب کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: ''اور خبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالا مال کردیا ہے اُس کی طرف آپ نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ یہ اُن کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق ہی بہتر اور پائدا رہے''۔(٤) حضرت علی ـ قناعت کی اہمیت کے بارے میںفرماتے ہیں: '' میں نے تونگری تلاش کی لیکن اسے قناعت کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔ لہٰذا قانع رہو تاکہ مالدار و تونگر ہو جائو ''(٥)

قناعت نہ یہ کہ صرف خود اخلاقی فضیلت ہے، بلکہ بہت سے اخلاقی اقدار کی حامل ہے۔ امام علی رضا ـ سے جب کسی نے قناعت کی حقیقت کے بارے میںسوال کیا تو آپ نے جواب میں اس کے علائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ''قناعت اپنی ضبط نفس، عزّت وبلندی، حرص وطمع کی زحمت سے آسودہ ہونے اور دنیا پرستوں کے مقابل بندگی کا باعث ہے۔ دوانسان کے علاوہ کوئی قناعت کا راستہ طے نہیں کرسکتا ہے: ایسا عبادت گذار جو آخرت کی اجرت کا خواہاں ہے، یا ایسا بزرگ و شریف انسان جو پست لوگوں سے دوری اختیار کرتا ہے۔(٦)

____________________

١۔ ابن اثیر، نہاےة، ج٤، ص ١١٤۔ ٢۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ٨، ص ٢٩٨۔

٣۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٢، ص ١٠١۔ ٤۔ سورۂ طحہٰ: آیت ١٣١۔

٥۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٦٩، ص ٣٩٩، ح ٩١۔ ٦۔ بحار الانوار، ج٧٨، ص ٣٤٩، ح٦۔

۱۱۸

درحقیقت انسان دنیا میں قناعت اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رکھتا ورنہ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص و ہوس اور حسرت و یاس کی آگ میں جلتا رہے گا۔ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق ـ سے شکوہ کیا کہ روزی حاصل کرتا ہے لیکن قانع نہیں ہوتا اور اس سے زیادہ کا خواہش مند رہتا ہے اور اس نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جس سے میری مشکل حل ہوجائے توحضرت نے فرمایا:'' اگراس قدر جو تیرے لئے کافی ہو اور تجھے بے نیاز کردے تو دنیا کی تھوڑی سی چیز بھی تجھے بے نیاز کر دے گی اور اگر جو کچھ تیرے لئے کافی ہے وہ تجھے بے نیاز نہ کر سکے تو پھر پوری دنیا بھی تجھے بے نیاز نہیں کر سکے گی''۔(١)

لیکن کس طرح قناعت کو اختیار کیا جا سکتا ہے ؟ عام طریقوں کے علاوہ بعض خاص طریقے بھی ذکر کئے گئے ہیں، منجملہ ان کے حضرت امام جعفر صادق ـ اس سلسلہ میںراہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اپنے سے کمزور تر انسان کو دیکھو اور اپنے سے مالدارتر کو نہ دیکھو، کیونکہ یہ کام تمہیں اس چیز پر جو تمہارے لئے مقدر کیا گیا ہے، قانع کردے گا''۔(٢)

٢۔لوگوں کے اموال سے بے نیازی اور عفت:

عربی ادب میں '' عفّت '' نا پسند امور اور شہوتوں کے مقابل صبر وضبط کرنے کو کہتے ہیں ۔(٣)

جنسی عفّت اور کلام میں عفّت کے علاوہ عربی ادب اور دینی کتابوں میں دوسروں سے اظہار درخواست کرنے سے پرہیز کرنے کو بھی عفّت کہتے ہیں۔(٤) دنیا میں زہد کے علائم میں سے ایک علامت لوگوں کے اموال سے بے نیازی اور عفّت اختیار کرنا ہے، قرآن کریم ایسے صاحبان عفّت کے بارے میں فرماتا ہے: یہ صدقہ ''ان فقرائ'' کے لئے ہے جوراہ خدا میںگرفتار ہوگئے ہیں اور وہ( اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے ) زمین میں سفر نہیں کر سکتے، ان کی حیا وعفّت کی بنا پر ناواقف شخص انھیں تونگراور مالدار خیال کرتا ہے، حالانکہ انھیںتم ان کی علامتوں سے پہچان لوگے، اصرار کے ساتھ وہ لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگتے''۔(٥)

____________________

١۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٣٩، ح ١٠۔

٢۔ کافی، ج٨، ص ٢٤٤، ح ٣٨٨۔

٣۔ ابن فارس، مقاییس اللغة، ج ٤، ص ٣۔

٤۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٩، ص ٢٥٣، ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣۔

۱۱۹

حضرت امام جعفر صادق ـ لوگوں سے بے نیازی اختیار کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ''مومن کا شرف تہجّد سے اور اس کی عزّت لوگوں سے اس کے بے نیاز رہنے میں ہے''۔(١) اور حضرت علی ـاس بات کے بیان میں کہ لوگوں سے بے نیازی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ان سے معاشرت اور راہ و رسم نہ رکھی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے مغائرت نہیں رکھتی فرمایا ہے:'' تمہارے دل میںلوگوں سے بے نیازی اور ان کی ضرورت و نیاز دونوں ہی ہونی چاہیے ان کے ساتھ تمہاری نیاز اور ضرورت تمہاری نرم کلامی اور خوشروئی میں ہے اور تمہاری بے نیازی آبرو کی حفاظت اور عزت کے باقی رہنے میں ہے''۔(٢) بے شک مالی امور میں یہ بے نیازی اور عفّت زہد اور دنیا سے قطع تعلق ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔

پانچ۔ زہد اختیار کرنے کے موانع

انسان کی پارسائی اور زہد اختیارکرنے کے مقابل دو بنیادی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں:ایک اس کا دنیا سے محبت کرنا اور دوسرے اس سے بے فیض ہونا اور قطع رابطہ کرنا، تمام مفاہیم جیسے حرص، طمع درحقیقت دنیاوی محبت کے علائم میںشمار ہوتے ہیں اور دنیا طلبی کے نتائج کے عنوان سے مورد بحث واقع ہو تے ہیں۔

١۔دنیاکی محبت:

زہد کا مفہوم اور اس کی اہمیت کی توضیح کے موقع پر ایک حد تک دنیا کا مفہوم بھی آشکار ہوگیا اور اس کی مذمت میں آیات و روایات بیان کی گئیں، اب دنیا طلبی کہ جو زہد اختیار کرنے سے مانع ہے اس کے علائم اختصار کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔

بے شک اسلام کے اخلاقی نظام میں دنیا ہمیشہ مذمو م نہیں ہے بلکہ اہمیت اور تعریف کے قابل بھی ہے۔ دنیا ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو انسان کے بہرہ مند ہونے کا باعث ہیں، اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مقاصد کی تکمیل کا باعث ہیں۔ یہ لذتیںاور استفادے ہمیشہ برے نہیں ہیں، بلکہ اچھے نتائج کے بھی حامل ہیں۔

''مذموم دنیا'' سے مراد وہ زود گذر استفادے ہیں جو نہ خود اخروی عمل صالح ہیں اور نہ اخروی عمل صالح کے لئے وسیلہ ہیں۔ نتیجہ کے طور پر مذموم دنیا حرام طریقہ سے لذ ت جوئی اور عیش و عشرت اور جو حلال چیزوں سے ضرورت و لازم مقدار سے زیاد ہ مالا مال ہونے کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔(٣)

____________________

١۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١٤٨، ح١۔٢۔ کافی، ج٢، ص١٤٩، ح٧۔

٣۔ محمد مہدی ، نراقی جامع السعادات، ج٢، ص ١٧، ٣٥۔

۱۲۰