اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق0%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق

مؤلف: احمد دیلمی ومسعود آذر بائیجانی
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 150425
ڈاؤنلوڈ: 3567

تبصرے:

اسلامی اخلاق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 150425 / ڈاؤنلوڈ: 3567
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

(هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنَ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُوراً )(١)

''کیا انسان پر ایسا وقت بھی آیا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر شے سے نہیں تھا؟''۔

کبھی سوالات کودوسروں کی زبان سے بھی بیان کرتا ہے:

( ٰیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ )(٢)

''(اے پیغمبر!) آپ سے یہ لوگ انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں''۔

(یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ )(٣)

''(اے پیغمبر!)یہ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں''۔

(یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰه یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَةِ )(٤)

''(اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے فتویٰ دریافت کرتے ہیں تو آپ ان سے کہدیجئے کہ خداوند کلالہ (بھائی بہن) کے بارے میں حکم بیان کرتا ہے...''۔

پیغمبر اکرم کے بیانات میں بھی سوال وجواب کے طریقے کثرت سے پائے جاتے ہیں:

''آیا تم میں سب سے افضل شخصکے بارے میں خبر نہ دوں... ''؟

''آیا خدا کے نزدیک بہترین اعمال کی خبر نہ دوں...''؟

''آیا تمہیں لوگوں میں سب سے بڑے انسان کی خبر نہ دوں...''؟

''آیا تمہیں ایسے لوگوں سے باخبر نہ کروں جو اخلاق میں مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں...؟

اخلاقی اقدار کی دعوت کے لئے کلی طور پر آیات وروایات، نصیحت آمیز اشعار اور بزرگوں کے کلمات سے استفادہ کہ جو ''مقبولات عقلی '' شمار ہوتے ہیں، دعوت کی تاثیر میں دوگنا اضافہ کردیتا ہے۔

اخلاقی اقدار کی طرف دعوت کی روش سے استفادہ ''خود تربیتی'' کی صورت میں یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اس دعوت کے معرض میں قرار دیتے ہیں۔

____________________

١۔ سورہ ٔانسان، آیت١۔ ٢۔ سورہ ٔانفال، آیت١۔ ٣۔ سورہ ٔبقرہ، آیت١٨٩۔ ٤۔ سورہ ٔنسائ، آیت١٧٦۔

۲۰۱

دوسری فصل:

ا سلا م میں ا خلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔ عقلانی قوت کی تربیت

(اقدار اور موعظہ کی دعوت)گذشتہ روش کے برعکس کہ عام طور پر انسان کے عاطفی پہلو پر تاکیدکرتی ہے، اس روش میں بنیادی تاکید انسان کے شناختی، معرفتی اور ادراکی پہلو پر ہے، جس طرح عاطفی محرّک رفتار کے اصول ومبادی میںشمار ہوتا ہے، فائدہ کا تصور وتصدیق بھی شناخت کیاصول ںومبادی میں سے ہے کہ یہ روش اس کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔

قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کے ارشادات وتعلیمات اس روش اور طریقے پرتاکید کرتے ہیں، اور اس کے حدود، موانع اور مقتضیات کو بیان کرتے ہیں۔

قرآن نے تعقل، تفقہ، تدبر، لبّ، حجر، نہیٰ، حکمت، علم وفہم جیسے الفاظ کا استعمال (ان ظریف تفاوت کے لحاظ سے بھی جو ان کے درمیان پائے جاتے ہیں) کا اس روش سے استفادہ کے لئے کیا ہے۔ قرآنی آیات مندرجہ باتوں کے ذریعہ اپنے مخاطبین کی معرفت اور عقثلانی قوت کی پرورش کرتی ہے:

استفہام تقریری یا تاکیدی کے ذریعہ سے(١) گذشتہ افراد یا اکثریت کی اندھی تقلیداورپیروی کرنے کی ممانعت ہے،(٢) ان لوگوں کی مذمت جوتعقل نہیں رکھتے،(٣) ان لوگوں کی مذمت جوبغیر دلیل کے کسی چیز کو قبول کرلیتے ہیں،(٤) تعقل وتدبرکی دعوت،(٥) موازنہ اور تنظیر،(٦) احسن انتخاب پرترغیب وبشارت(٧) وغیرہ۔

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٤٤۔سورہ ٔقیامت، آیت٢۔

٢۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٢۔٢٣۔٢٤ اور سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔

٣۔ سورہ ٔانفال، آیت٢٢۔

٤۔ سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٠۔

٥۔ سورہ ٔیوسف، آیت ١٠٥۔

٦۔ سورہ ٔزمر، آیت٩، سورہ ٔرعد، آیت ١٦ اور سورہ ٔنحل، آیت٧٦۔

٧۔ سورہ ٔزمر، آیت ١٨۔

۲۰۲

روایات بالخصوص اصول کافی کی کتاب عقل وجہل اور دیگرروائی ماخذمیں بھی عقل وتعقل کو عظیم مرتبہ کا حامل قرار دیا گیاہے اورانسان کے اخلاقی تربیت سے متعلق خاص طورپر اس کے نقش وکردارکو موردتوجہ قراردیا گیا ہے۔(١)

علمائے اخلاق کی تربیتی روش میں بھی ان کی اصلاحی تدبیروں راہنمائیوں کا ایک قابل توجہ حصہ انسان کی شناختی پہلوسے متعلق ہے ،جیسے انسان کے ذہنی تصورات کی ایجاد یا تصحیح خود عمل یا اخلاقی صفت سے، اعمال کے دنیوی اور اخروی عواقب و نتائج کی ترسیم، اخلاقی امور کے بُرے یا اچھے لوازم اور ملزومات ان کے اخلاقی نظریہ میں بھی، غضب اور شہوت کی قوتوں پر عقلانی قوت کے غلبہ کواخلاقی رذائل سے انسان کی نجات اور اخلاقی فضائل کی طرف حرکت کا سبب ہے، اس لئے کہ قوۂ عقل کے غلبہ سے تمام قوتوں کے درمیان اعتدال پیدا ہوتا ہے اور فضیلت کا معیار بھی اعتدال۔ تفکر وتعقل کے وہ موارد جو اخلاقی تربیت میںموثر ہوسکتے ہیں، آیات وروایات میں ان کا تعارف کرایاگیا ہے:

١۔ طبیعت:

''زمین وآسمان میں کتنی زیادہ علامتیں اور نشانیاں ہیں کہ جن پر سے لوگ گذرتے ہیںاس حال میں کہ اُن سے روگرداں ہوتے ہیں''۔(٢)

٢۔تاریخ:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''حضرت اسماعیل کے فرزندوں، اسحاق کے فرزندوںاور یعقوب کے فرزندوں سے عبرت حاصل کرو، کس قدر ملتوں کے حالات آپس میں مشابہ اور ان کے افعال وصفات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اُن کے پراگندہ اور متفرق ہونے کے بارے میں غور کرو، جس وقت روم وفارس کے بادشاہ اُن کے ارباب بن گئے تھے(٣) میرے بیٹے! یہ سچ ہے کہ میں نے اپنے گذشتہ افراد کی عمر کے برابر زندگی نہیں پائی ہے، لیکن اُن کے کردار میں غور وفکر کیا ہے، ان کے اخبار کے بارے میں تفکر کیا ہے اور ان کے آثار میں سیر وسیاحت کی ہے کہ ان میں سے ایک کے مانند ہوگیا، بلکہ گویا جو کچھ ان کی تاریخ سے مجھ تک پہنچا ہے ان سب کے ساتھ میں اول سے آخر تک ہمراہ تھا''۔(٤)

____________________

١۔ اصول کافی، ج١، باب جنود عقل وجنود جہل۔٢۔ سورہ ٔیوسف، آیت١٠٥۔٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ، ١٩٢۔ ٤۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۲۰۳

٣۔قرآن:

''آیا قرآنی آیات میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا (یہ کہ) ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں''۔(١)

٤۔انسان:

حضرت امام حسین ـ کی دعائے عرفہ کے پہلے فقرات سے اور توحید مفضل(بحار، ج٣) سے مفید اور کار آمد نکات معلوم ہوتے ہیں: اخلاقی قواعد کا اثبات اور تزکیہ باطن عام طور پر بغیر عقلانی قوت کی تربیت کے ممکن نہیں ہے، یہ روش خود سازی اور دوسروں کی تربیت سے وجود میں آسکتی ہے شناخت و معرفت کے ماہرین نفسیات بالخصوص ''پیاژہ'' اس روش کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے وہ اخلاقی نمونوں تک رسائی کو ''قابل تعمیر'' اور فعّال وخود سازی روش جانتا ہے نیز معتقد ہے کہ اخلاقی تحول وانقلاب شناخت کے رشد وتحول کے بغیرممکن نہیں ہے:یہاں پر ایک قسم کی عجیب وحیرت انگیز ہماہنگی، اخلاقی وعقلانی تربیت میں پائی جاتی ہے جسے یوں ذکر کیاجاتا ہے کہ آیا جو کچھ تربیت خارج سے انسان کو دیتی ہے تاکہ اس کے اکتسابی یا فردی ادراک کو بے نیازاور مکمل کرے، سادہ قواعد اور حاضر آمادہ معراف میں محدود منحصر ہوسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں آیا مراد یہ نہیں ہے کہ (صرف) کچھ تکالیف ایک طرح کی اور حس اطاعت انسان پر لازم کی جائے... یایہ کہ اخلاقی تربیت سے استفادہ کا حق عقلی تربیت حق کے مانند یہ ہے کہ انسان حق رکھتا ہو کہ عقل واخلاق کو اپنے اندر واقعاً جگہ دے یا کم ازکم ان کے فراہم کرنے اور ان کی تعمیر میں شریک اور سہیم ہو، تاکہ اس مشارکت کے نتیجہ میں وہ تمام افراد جو ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں، ان کی تعمیر پر مجبور ہوجائیں۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کی راہ میں، ''خود رہبری'' کا مسئلہ عقلی خود سازی کے مقابلہ میں ان افراد کے درمیان جو اس کی تلاش میں ہیں ذکرکیا جاتا ہے۔(٢)

جو طریقے اس روش کے تحقق میں استعمال کئے جاسکتے ہیں درج ذیل ہیں:

الف ۔افکار کی عطا اور اصلاح:

اخلاقی اعمال فکر کی دوقسموں سے وجود میں آتے ہیں:

پہلی قسم :

انسان کا اپنی ھستی کے بارے میں آگاہ ہونا، دنیا، نظام عالم، مبدأ اور معادکی نسبت وہ کلی یقین ومعتقدات ہیں کہ انھیں خداشناسی اور فلسفہ حیات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ انسان کی نگاہ اپنے اطراف کے عالم پر اُس کی اخلاقی رفتار میںموثر ہے۔ اعتقادات جیسے خدا کی قدرت کااحاطہ اور حضور عالم کا توحیدی انسجام یا نظام تقدیر، خدا پر توکل، تمام امور کا اس کے حوالہ کرنا، تسلیم ورضا وغیرہ سارے کے سارے ہمارے اخلاقی رفتار میں ظاہر ہوتے ہیں۔

____________________

١۔ (اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرآنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ اَقْفَالُهَا )(سورہ ٔمحمد، آیت٢٤) ٢۔ پیاژہ: تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٥٣۔

۲۰۴

آج کل سلامتی کے ماہرین نفسیات اس نکتہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں کہ خدا شناسی اور انسجام عالم کی حس کی نسبت، انسان کی مقاومت کے لئے ایک ایسا مرکز فراہم کرتی ہے کہ جو اخلاقی متانت کہ انسان کی سلامتی کے لئے عالم کو دبائو میں ڈالنے والے حوادث کے مقابل تاثیر گذار ہے۔

انسجام کی حس ایک مقابلہ کا مأخذ ہے، حس انسجام (دنیا کے نظم وضبط میں تنظیم ویگانگی کا احساس کرنا) ایک قسم کی خداشناسی ہے کہ جس سے مراد مندرجہ امور کی نسبت دائمی اور مستمرّ اطمینان کے احساس ہے:

١۔ ایسے محرک جو انسان کی پوری زندگی میں باطنی اور بیرونی ماحول سے پیدا ہوتے ہیں، تشکیل شدہ منظم، پیشین گوئی کے قابل اور قابل توجیہ ہیں۔

٢۔انسان ان ضرورتوں سے روبرو ہونے کے لئے کہ جن کو ان محرکات نے ایجاد کیا ہے، کچھ وسائل ماخذ رکھتا ہے؟

٣۔یہ ضرورتیں، ایسی کوششیں ہیں جو سرمایہ گذاری اور وقت صرف کے لائق ہیں۔ یہ لوگ دنیا کو قابل درک اور قابو میں کرنے کے لائق جانتے ہیں اور زندگی کے واقعات وحوادث کو بامعنی محسوس کرتے ہیں۔(١)

دوسری قسم :

ایسے افکار ہیں کہ جو عمل کی اصلاح اورصحت سے متعلق ہیں اور یہ کہ یہ خاص رفتار عمل کرنے والے کے ہدف سے یگانگت رکھتی ہے۔اور حقیقت میں اطلاعات دینے کے ایک طریقہ سے مربوط ہے۔

البرٹ الیس شناخت سے متعلق ماہرنفسیات ہے کہ جو اپنی نجاتی روش کے سلسلہ میں عقلی اور عاطفی علاج سے استفادہ کرتا ہے اُس نے غیر عقلی تفکر کے نمونے پیش کرنے کے شاتھ اُس کا علاج جدید آمادگی اور جدید افکار ومعتقدات کو اُن کا جاگزین کیا جانا ہے کبھی غیر اخلاقی رفتار یانامطلوب صفات غلط نظریہ اور خیال کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ جو دھیرے دھیرے انسان کے فکری نمونے بن جاتے ہیں اورایسے نظریوں کا تبدیل ہونا اخلاقی تربیت کے لئے ضروری ہے، غیر عقلی (غیر معقول) تفکر کے بعض نمونے ہر طرح کی اخلاقی رفتار کی تبدیلی سے مانع ہوسکتے ہیں، الیس ان موارد کو اس طرح بیان کرتا ہے:

١۔انسان اس طرح فرض کرے کہ اُن افراد کی جانب سے جو اس سے متعلق اور اُس کے لئے اہم ہیں مورد تائید، اور لائق محبت و احترام واقع ہو۔

____________________

١۔ Psyhology Health/.p۳۲۷

۲۰۵

٢۔جب بھی انسان سے کوئی لغزش ہوجائے تو اس کے لئے صرف اتنا اہم ہے کہ وہ مقصّر کا سراغ لگائے اور اسے سزا دے۔

٣۔اگر مسائل اس کی مراد کے مطابق نہ ہوں تو اُس کے لئے حادثہ آمیز چیز ہوگی۔

٤۔سب سے زیادہ آسان یہ ہے کہ انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے فرار کرے، نہ کہ اُن کا سامنا کرے۔

ب۔ ا خلاقی استدلال:

پیاژہ اور کلبرگ نے اس روش سے استفادہ کیا ہے اس طرح سے کہ داستانوں کو بچوں کے شناختی تحوّل وانقلاب کی میزان کے مطابق اس طرح بیان کرتے تھے کہ ان کے ضمن میں داستان کا ہیرو اخلاقی دوراہہ پر کھڑا ہے اوریہاں پر داستان کے مخاطب کو چاہئے کہ جو استدلات وہ بیان کرتا ہے ان سے اپنی اخلاقی قضاوت کااستخراج کرے مربی جزئی دخالتوں سے اس اخلاقی بحران کی بحث چھیڑے ( البتہ ان سے آگے قدم نہ بڑھائے یا کوئی استدلال پیش نہ کرے) اور صرف بالواسطہ ہدایت کرے اور ان کے استدلات کو صاف وشفاف کرے۔ یہ استدلات تربیت پانے والے کے ذہن میں نقش چھوڑتے ہیں اور اُسے انجانے طریقہ سے اس کی اخلاقی رفتار میں ہدایت کرتے ہیں۔

اخلاقی استدلال بلاواسطہ اورخود عمل پر بھی ناظر ہوسکتے ہیں؛ یعنی انسان کا روبرو ہونا اپنے اعمال کے نتائج کے ساتھ۔ علمائے اخلاق کی روش میں بھی اس طرح کے اقدامات پائے جاتے ہیں: عمل کے نتائج و آثار روش سے واضح انداز میں انسان کے لئے مجسّم ہوتے ہیں اور مخاطب کو یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ عمل اس طرح کے نتائج وآثار کا حامل ہے، درحقیقت ہم اس کے لئے موقعیت کی توصیف کرتے ہیں ( بغیر اس کے کہ اُس میں امرو نہی درکار ہو) اوریہ خود انسان ہے کہ جو ان نتائج کو درک کرکے انتخاب کرتا ہے اور اس کے عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے قرآنی آیات کبھی عمل کے ملکوتی کو مجسّم کرکے اس روش اور اسلوب سے استفادہ کرتی ہیں:

''اے صاحبان ایمان !... تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے آیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً اُسے ناپسند کروگے (لہٰذا) بے شک خدا سے ڈرو کہ خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے''۔(١)

____________________

١۔ سورہ ٔحجرات، آیت ١٢۔

۲۰۶

کبھی اعمال کے دنیوی یا اخروی نتائج کی منظر کشی کرکے افراد کو ان کے عواقب سے آشنا کرتا ہے:

''ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں سوال کریں گے : ''کس چیز نے تمہیں سقر (کی آگ) میں جھونک دیا ہے؟ '' وہ کہیں گے : ''ہم نمازگذاروں میں سے نہیں تھے، اور مسکینوں اور بے نوائوں کو ہم کھانا نہیں دیتے تھے...''(١)

ج۔ مطالعہ اور اطلاعات کی تصحیح:

مطالعہ لغت میںان معانی میں استعمال ہوتا ہے: کسی چیز کے معلوم کرنے کے لئے اُس کو دیکھنا ، کسی کتاب یا کسی نوشتہ کا پڑھنا اور اس کا سمجھنا.......۔

آخری سالوں میں اطلاعات فراہم کرنے والوں کے اقدام نے بہت سے ماہرین نفسیات کی توجہ اپنی طرف جلب کرلی ہے(٢) کیونکہ جو اطلاعات انسان کے ذہنی سسٹم میں وارد ہوتی ہیں، وہ انسانی رفتار کو جہت دینے میں ایک اہم اور قابل تعیین کردار ادا کرتی ہیں۔ البتہ اطلاع کی فراہمی کا اندازبھی اہم ہوتا ہے کہ افکار کی عطا کی بحث میں ان کی طرف اشارہ ہواہے۔ بِک ] Beck [منجملہ ان کے ماہریں نفسیات میں سے ہے کہ جو اسی طریقۂ عمل سے افسردگی کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ اخلاقی بیماریوں کا علاج کرنے یا کلی طور پر صحیح اخلاقی تربیت یا فضائل اخلاقی کی ر اہ پیدا کرنے میں اسی طرز واسلوب سے مدد لے سکتے ہیں، یعنی اخلاقی مشکلات کے سلسلہ میں علم اخلاق کی مناسب کتابوں کا مطالعہ اور جدید اطلاعات کے حصول سے انسان اپنے عمل کے اسباب وعوامل کو پہچان لیتا ہے اور اس میں تبدیلی یااصلاح انجام دیتا ہے اور بالواسطہ طور پر اخلاقی تربیت کا باعث ہوتاہے۔ کبھی اس کی سابق اطلاعات سے متعارض اطلاعات اُسے غور وفکر اور فیصلہ کرنے نیز تجدید نظر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔

د ۔مشورت ومشاورہ:

اس سے مراد مربی اور تربیت دیئے جانے والے یاوالدین اور فرزندوں کے درمیان ایک طرح کا معاملاتی رابطہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت سے مسئلہ کا تجزیہ وتحلیل کریں اور اخلاقی مسائل میں ایک مشترک راہ حل تک رسائی حاصل کریں۔ یہ طرز تربیت پانے والی شخصیت کے احترام واکرام

____________________

١۔ سورہ ٔمدثر، آیت ٤٠تا ٤٤۔

٢۔ روان شناسی رشد بانگرش بہ منابع اسلامی، ج٢، ص٦٢٦۔

۲۰۷

کے علاوہ اخلاقی تربیت کے اعتبار سے رشد عقلی کا باعث ہوتا ہے:

''مَنْ شَاوَرَ ذَوِی الْعُقُوْل اسْتَضَاء بانوار العقول ''(١)

''جو انسان صاحبان عقل وہوش سے مشورہ کرے، وہ ان کے نور عقل وخرد سے استفادہ کرتا ہے''۔

اسلامی روایات، مشورہ کو رشد وہدایت کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور شایستہ افراد سے مشورہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ تاکید کرتی ہیں:

''دوسروں سے مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور جوکوئی خود کو دوسروں کے مشورہ سے بے نیاز تصور کرے تو اُس نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا ہے''۔(٢)

اس روش میں تربیت پانے والے کا مقصد عقلانی توانائی کا حصول اور اخلاقی مسائل میں فیصلہ کرنا ہے، یعنی مشورت کے ذریعہ اسے آمادہ کریں کہ ''خود رہبری'' اور ''فعّال'' کی روش کو ہدایت کے ساکنین کو اخلاقی تربیت کی راہ میں لے آئے اور اپنی اخلاقی مشکل کو حل کرسکے، مشورہ میں پہلا قدم مراجع (تربیت دیا جانے والا) نہیں اٹھاتا؛ بلکہ مربی کو اس سے نزدیک ہونا چاہئے اور رابطہ ایجاد کرکے یا کبھی مسائل میں اُس سے راہ حل طلب کرکے، اُسے اپنے آپ سے مشورت سے کرنے کی تشویق کرنی چاہئے۔(٣)

۲-۔ عبرت حاصل کرنے کے طریقے

کلمہ ''عبر'' ایک حال سے دوسرے حال میں گذرنے اور عبور کرنے کو کہتے ہیں اوراعتبار (عبرت آموزی) ایک ایسی حالت ہے کہ مشہور چیز دیکھنے اورجوکچھ اس کے نزدیک حاضر ہونے سے ایک نامشہود پیغام تک رسائی حاصل کرلیں لہٰذا اس روش سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اندر امور وحوادث کے دقیق مشاہدہ اور اس میں غور وخوض کرنے سے باطنی تبدیلی حاصل ہوجاتی ہے کہ اس انفعال نفسانی کی حالت کے نتیجہ میں، اُس حادثہ کی گہرائی میں موجود پیغام کو قبول کرنے کے لئے آما دہ ہوجائے، عینی مشا ہدہ وہ بھی نزدیک سے انسان میں ایسا اثر کرتا ہے کہ سننا اوردوسروں کا بیان کرنا اتنا اثر نہیں رکھتا۔

____________________

١۔ غرر الحکم ودرر الکلمج٥ص٣٣٦ش ٨٦٣٤۔

٢۔ الاستشارة عین الہدایة وقد خاطر من استغنی برایہ نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج١٩ص٣١۔

۲۰۸

٣۔ اسلامی تعلیمات مختلف جہات سے مشورت کے مسئلہ پر تاکید کرتی ہیں؛ مزید معلومات کے لئے سید مہدی حسینی کی کتاب ''مشاورہ وراہنمائی درتعلیم وتربیت '' ملاحظہ ہو۔

اس کی دلیل پہلے مشاہدات کا زیادہ سے زیادہ قابل قبول ہونا ہے؛ سنی سنائی چیزوں کے برعکس کہ اُس میں عام طور پرشکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ برہان عقلی میں یقینیات میں سے ایک مشاہدات یا محسوسات ہیں۔ دوسرے حادثہ کی جانب اس کے جزئیات سمیت توجہ دینا،کے شناختی وعاطفی قالب اور ڈھانچوں کے مطابق دیکھنے والے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ وہ واقعہ بہتر جا گزیں ہو اور انسان کے نفسیاتی قالب میں جگہ پائے۔ البتہ کبھی تاریخی یاداستانی بیانات بیان کرنے والے کی ہنر نمائی کے زیر اثر اس درجہ دقیق ہوتے ہیں کہ گویا سننے والا یاپڑھنے والاخود اس حادثہ کے اندر اپنے موجود محسوس کرتاہے ۔ نمائشی ہنر میں جیسے فیلم وغیرہ میں اس طرح کا امکان پایاجاتا ہے۔ قرآن وروایات میں عبرت آموزی کا طریقہ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، عبرت آموزی کے طریقے درج ذیل ہیں:

الف۔گذشتگان کے آثار کا مشاہدہ :

تاریخ کے صفحات ایسے لوگوں کے وجود سے بھرے پڑے ہیں جنھوں نے خطا کے بار کو کاندھے پر اٹھایا اور غیر صحیح راہ پر گامزن ہوگئے ہیں، گذشتگان کے باقی ماندہ آثار میں غور وفکر کرنے سے ہمیں تعلیم کرناپڑتا ہے کہ ہر گناہ وخطا سے کنارہ کشی کے لئے لازم نہیں ہے کہ خود تجربہ کریں اور اس کی سزا اور انجام دیکھیں۔ تاریخی عمارتیں، میوزیم، کھنڈر، دفینے وغیرہ ان انسانوں کی علامتیں ہیں جنھوں نے انھیں وجود بخشا ہے۔ قرآن ہمیں ان کی جانب سیر وسفر اور گذشگان سے تجربہ حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''آیا ان لوگوں نے زمین میں گردش نہیں کی ہے تاکہ اپنے پہلے والوں کے انجام کا مشاہدہ کریں کہ وہ کس طرح تھا؟ وہ لوگ ان سے زیادہ قوی تھے اور انھوں نے روئے زمین پر زیادہ ثابت اور پائدار آثار چھوڑے ہیں، خدا نے انھیں ان کے گناہوں کے عذاب میں گرفتار کردیا اورخدا کے مقابل ان کا کوئی بچانے والا نہیں تھا''۔(١) عمار ساباطی نقل کرتے ہیں:حضرت امیر المومنین علی ـ مدائن آئے اور ایوان کسریٰ میں نازل ہوئے اور ''دلف بن بحیر'' ان کے ہمراہ تھا، آپ نے وہاں نماز پڑھی اور اٹھ گئے.... حضرت کی کے خدمت میں ساباطیوں کا ایک گروہ تھا، آپ نے منازل کسریٰ میں چکر لگایا اور دلف سے فرمایا: ''کسریٰ اس جگہ مقام ومنزلت کا حامل تھا''دلف نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے جیسا آپ فرمارہے ہیں۔

____________________

١۔ سورہ ٔمومن آیت٢١۔

۲۰۹

پھر اس گروہ کے ہمراہ اُن تمام جگہوں پر گئے اور دلف کہہ رہے تھے: ''اے میرے سید وسردارآپ اس جگہ کے بارے میں اس طرح آگاہ ہیں گویا آپ ہی نے ان چیزوں کویہاں رکھا ہے۔ جب حضرت مدائن کی طرف سے گذرے اور کسریٰ اور اس کی تباہی کے آثار مشاہدہ کئے تو حضرت کی خدمت میں موجود افراد میں سے ایک نے یہ شعرپڑھا:

جرت الریاح علی رسوم دیارہم

فکأنهم کانوا علی میعاد

ان کے گھروں کے مٹے ہوئے نشانات پر ہوائیں چل رہی ہیںپس گویا وہ اپنی وعدہ گاہ پر ہیں۔

حضرت نے فرمایا: تم نے یہ آیات کیوں نہیں پڑھیں؟

واہ! انھوں نے کیسے کیسے باغات اور بہتے چشمے چھوڑے ہیں، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے ہیں اور وہ نعمتوں میں مزے اڑا رہے ہیں، (ہاں) ایساہی تھا اور ہم نے دیگرلوگوں کو ان کی میراث دے دی پھر تو ان پر آسمان وزمین نے گریہ وزاری نہیں کی اور نہ انھیں مہلت دی گئی ۔(١)

اس کے بعد حضرت نے فرمایا: یہ لوگ گذشتگان کے وارث تھے،پس وہ خود بھی آئندہ والوں کے لئے میراث چھوڑکر گئے ، انھوں نے نعمت کا شکر ادا نہیں کیا لہٰذا ناشکری کے زیر اثر اُن سے ساری نعمتیں سلب ہوگئیں، نعمات کی ناشکری سے پرہیز کرو کہ تم پر بلائیں نازل ہوجائیں گی...۔(٢)

نہج البلاغہ میں اس نکتہ کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے:

''تمہارے لئے گذشتہ امتوں کی سرنوشت میں عبرتیں ہیں، عمالقہ اور ان کی اولاد کہاں ہیں؟ فراعنہ اور ان کے اخلاف کہاں ہیں؟ اصحاب رس جنھوں نے پیغمبروں کو قتل کیا ہے کی سنتوں کو پامال کیاہے اور جبّاروں کی رسومات کو باقی رکھا ، کہاں ہیں؟ ۔''(٣)

خداوند متعال فرماتاہے: ''پھر آج تم ]فرعون[ کوتمھارے بدن کے ساتھ بچالیتے ہیں تاکہ ان کے لوگوں کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے، عبرت ہو۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔدخان آیات ٢٥، ٢٩۔٢۔ بحارالانوار ج٧٨ص٩٢۔

٣۔ نہج البلاغہ خطبہ١٨٢۔٤۔ (فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیة )(سورہ ٔیونس آیت٩٢ )۔

۲۱۰

قبروں کی زیارت اور ان لوگوں کے حالات کے بارے میں غور وفکرجو روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کرتے تھے اور آج بغیر حرکت کے اورانتہائی ذلت وخواری کے ساتھ خاک میں دفن ہیں، انسان کو خاضع بلکہ اسے فرمانبردار بنا دیتا ہے، کبرو نخوت کو فروتنی وخاکساری سے تبدیل کردیتا ہے اورآدمی کو یہ فرصت دیتا ہے کہ خود کو درک کرے اور اپنی عاقبت کے بارے میں غور کرے۔

حضرت علی ـ نے آیہ شریفہ: ''کثرت مال واولاد کے باہمی مقابلہ (یا اس پر تفاخر) نے تمہیں غافل بنادیا ہے یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی''(١) کی تلاوت کے بعد فرمایا:

''آیا اپنے آباء واجداد کے مقام نزول پر افتخار کرتے ہیں ؟ یہ لوگ فخر وافتخار سے زیادہ عبرت کے سزاوار ہیں اگرچہ اُن کے آثار بینانہیں ہیں اور ان کی زندگی کی داستان ختم ہوچکی ہے، لیکن عبرت آموز نگاہیں ان کی طرف دیکھ رہی ہیں اور عقلمندوں کے گوش شنواآوازوں کودرک کرتے ہیںاور بے زبانی سے ہم سے گفتگو کرتے ہیں...۔(٢)

مربی حضرات معمولی توجہ اور بصیرت و عبرت آموزی کی دعوت سے، ان تفریح گاہوں سے جو تاریخی جگہوں پر برپاہوتی ہیں، اخلاقی اور تربیتی ضرورت کااستفادہ کرسکتے ہیں، گروہی یا فردی مسافرت وسعت نظر اور دل ایجاد کرنے کے علاوہ بہت زیادہ مفید اورعبرت آمیز ہے۔

ب ۔ طبیعت اور موجودات کی طرف نظر:

زمین میں سیر وسیاحت کرنے سے انسان کو عجائب خلقت سے بہرہ مند ہوتا ہے ''اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے! زمین میں گردش کرو پھر موجودات کی وجہ تخلیق کے بارے میں غورو فکر کرو۔ '' قرآن کریم نے موجودات طبیعت سے عبرت حاصل کرنے کو مورد توجہ قراردیاہے:

''چوپائوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت کے (اسباق) ہیںکہ ان کے شکم اندر سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیںجو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور کجھور اورانگور کے پھلوں سے اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو، صاحبان عقل وہوش کے لئے اس میں واضح نشانیاں ہے''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔتکاثر آیت ١، ٢۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٣٠و٤٣٢۔

٣۔ سورہ، نحل آیت ٦٦تا٦٧۔

۲۱۱

''خدا شب وروز کو دگرگوں کرتا ہے، اس میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(١)

عالم کی حیرت ا نگیز چیزیں، انسان کو خاضع اور خاشع بناتی ہیں، بہت سی گندگیوں کاسرچشمہ اور اخلاقی پستیوں کا منبع ''خود خواہی ''(٢) اور خود بینی وتکبر ہے ، اس وجہ سے اخلاقی تربیت کے اہداف میں ''خود خواہی '' سے دوری اختیار کرنا ہے، پیاژہ کے بقول: ''... اخلاقی تربیت کے دو بنیادی مسئلے یہ ہیں: ''انضباط کا برقرارکرنا'' اور ''خود پسندی سے نکلنا ''(٣) عالم کی عظمت کی اور اس کے عجائب کی طرف ، انسان کو خودی سے باہر نکالتے ہیں اور مکارم اخلاق کے قبول کرنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

ج ۔ موجودہ حوادث اور واقعات کی جانب توجہ:

ہم اپنے زمانے میں زندگی گزارتے ہیں اور قبل اس کے کہ تاریخ کے سینہ میں حوادث اور واقعات دفن ہوجائیں ہم اُن سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: ''میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں، جو شخص بھی زمانے کے ناگوار حوادث سے عبرت حاصل کرے، شبہات میں مبتلا ہونے کے وقت تقویٰ اس کی حفاظت کرے گا''۔(٤)

اپنے بارے میں ایک سرسری نظر اوران مختلف واقعات کا نظارہ کہ کبھی ہم زمان ہونے کا حجاب ہمیں اُس سے غافل کردیتا ہے، شخصیتوں کی پستی وبلندی اور ان کی ظاہری عزت وذلت کا گردش زمانہ میں ہمیں پتہ دیتا ہے، عمل کی جزائیں اور پوشیدہ حکمتیں راہ حوادث کے پس پردہ انتہائی نصیحت آموز ہیں اور یہ عینی تجربے عبرت کے قیمتی ذخیروں میں سے ہیں۔

د۔ گذشتگان کے قصوں میں غور و فکر:

گذشتہ افراد کی داستان زندگی بھی ہمارے لئے عبرت آموز ہوسکتی ہے۔ یہاں پر عبرت حاصل کرنے والا گذشتہ افراد کے آثار کے واقعی میدانوں اور وقت حاضر نہیں ہوتا، لیکن داستان اور اس کے نشیب وفراز میں غور وفکرکے ساتھ ، اس کی خالی فضا میں پرواز کرتا ہے کہ اس کاعبرت آمیز رخ عینی مقامات سے کمتر ہے لیکن اس سے نزدیک ہے۔

____________________

١۔ سورۂ نورآیت ٤٤۔٢۔من رضی عن نفسه ظهرت علیه المعایب، ما اضرّالمحاسن کا لعجب ( غررالحکم ) فصل ٦، ص٣٠٨)۔

٣۔ تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٩٣۔٤۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٦۔

۲۱۲

قرآن حضرت یوسف کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتاہے: ''ان کی داستانوں میں صاحبان عقل کے لئے درس عبرت ہے''۔(١)

یا غزوہ نضیر کے واقعات نقل کرنے کے بعد فرماتاہے: ''پس اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو''۔(٢)

ایک دوسرے جگہ پر جنگ بدر کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیں عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''یقیناً اس ماجرہ میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(٣)

قرآنی آیات اور روایات کے طرز تربیت میں جو کہ عبرت آموز ی کی تاکید کرتی ہیں، دونکتے قابل توجہ ہیں:

١۔ عبرت حاصل کرنا ایک(٤) دور اندیش عقل(٥) اور بیدار دل(٦) رکھنے کا مستلزم ہے۔

اسی لئے یہ روش عقلانی قوت کی روش کی پرورش کے بعد ذکر ہوئی ہے، یعنی عام طور پر عقلانی عمیق نظر کے بغیر عبرت آموزی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئیحضرت امیر المومنین علی ـ نے مکرر فرمایا ہے: ''عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور عبرت حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں''۔(٧)

٢۔ دوسرے یہ کہ آیات وروایات کی روشنی میں عبرت کے لئے ان صفات کا ہونا ضروری ہے:

عصمت وپاکدامنی، دنیا سے کنارہ کشی، لغزش وخطا کی کمی ، اپنی معرفت ، طمع وآرزو کا کم ہونا، فہم ودرک اور تقویٰ۔(٨)

____________________

١۔ سورہ ٔیوسف آیت ١١١۔

٢۔ سورہ ٔحشر آیت٢۔

٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔

٤۔(ان فی ذلک لعبرة لاولی الابصار )سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔

٥۔ (لقد کان فی قصصهم عبرة لاولی الالباب )سورہ ٔیوسفآیت١١١۔

٦۔(ان فی ذلک لعبرة لمن یخشی ) سورہ ٔنازعات، آیت ٢٦۔

٧۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٩٧۔

٨۔ میزان الحکمة ج٦ص٣٨تا ٣٩۔

۲۱۳

۳۔عمل کی پابندی اور مداومت

یہاں تک ان طریقوں کی بحث تھی جو اخلاقی( عاطفی یا شناختی رفتار کے مبادی پر اثر انداز ہوتی ہیں یا وہ روشیں جو ماحول کے عوامل میں موثر ثابت ہوتی ہیں۔ پیاژہ نفسیاتی عوامل کے تحول کے شمار میں رشد داخلی کے علاوہ اجتماعی تعامل وتعویض اور اکتسابی تعادل جوئی، تمرین ومشق اور اکتسابی تجربہ کو ایک مستقل عامل جانتا ہے۔(١)

اخلاقی تربیت میں ہدف یہ ہے کہ تربیت پانے والا اخلاقی رفتارکے کمال تک پہنچ جائے یعنی عمل کرے۔ جتنا اس عملی تجربہ کی تکرار ہوگی اور اس کی مداومت کی جائے گی''ظاہر سازی ''(٢) کی صورت میں جدید نفسیانی شکلیں تشکیل پاجائیں گی، بعینہ جیسے اخلاق کی اصطلاح میں جنھیں ملکات اخلاقی کہتے ہیں۔

قرآن کریم عمل کو خاص اہمیت دیتا ہے: ''انسان کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کی کوشش ]کانتیجہ[ عنقریب دکھائی دے گا''۔(٣)

بہت سی آیات میں قرآن ایمان کو کافی نہیں جانتابلکہ عمل کو اس کی تکمیل کے لئے لازم وضروری شمار کرتا ہے:

جو لوگ نیک عمل کرتے ہیںخواہ مرد ہوں یا عورت، جبکہ مومن ہوں، وہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور خرمے کی گٹھلی کے گڑھے کے برابر بھی ان پر ستم نہیں ہوگا''۔(٤)

شایستہ کاموں (عمل صالح) سے مراد غالباً وہی اخلاقی اعمال ہیں۔ افراد کے درجات ومراتب بھی ان کے اعمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی افراد کی درجہ بندی کا ایک معیار ان کا عمل ہے۔

''ان میں سے ہر ایک کے لئے جو عمل انھوں نے انجام دیا ہے، اس کے مطابق مرتبے ہیں اورتمہا را رب وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے غافل نہیں ہے''۔(٥)

____________________

١۔ دیدگاہ پیاژہ ص ٣٥تا٣٧۔

٢۔ وہ فعالیت جو آدمی کے پہلے والے نفسیاتی تار وپود کو کو تبدیل کرتی ہے تاکہ وہ خود کو اس ماحول کے حالات کے موافق بنائے جس میں وہ موجود ہے۔ (روانشناسی ژنیتک، ص٢٤٤)۔٣۔ سورہ ٔنجم آیت٣٩، ٤٠۔٤۔ (مَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ وَهُوَ مُؤمِن فَاُوْلٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَایُظْلَمُوْنَ نَقِیْراً )(سورہ ٔنسائ، آیت١٢٤)۔

٥۔ (لِکُلٍّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا، وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ ۔)(سورہ ٔانعام، آیت١٣٢)۔

۲۱۴

روایات بھی عمل کی ترغیب وتشویق کے ساتھ اسے ایک فائق مرتبہ دیتی ہیں:

حضرت علی ـ: ''آج عمل کا دن ہے اور کوئی محاسبہ نہیں ہے، اور کل محاسبہ کا وقت ہے اور عمل کی گنجائش نہیں ہے''۔(١)

حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں : ''کوئی بھی شخص جو کچھ خدا کے نزدیک اُس کے لئے فراہم ہوا ہے اسے نہیں پاسکتا مگر عمل کے ذریعہ ''(٢) حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''انسان کی ہمراہی عمل کے سوا کوئی بھی نہیں کرے گا''۔(٣)

عمل کے استمرار اور اس کی مداومت کے بارے میں درج ذیل آیات و روایات کو بعنوان شاہد پیش کیا جاسکتا ہے:

''اگروہ لوگ راہ راست میں ثبات قدمی اور پائداری کا مظاہرہ کریں تو یقیناً انھیں خوشگوار پانی نوش کرائیں گے''۔(٤)

حضرت علی ـ: '' وہ کم اعمال جس کی پابندی اور مداومت کرو، ایسے زیادہ اعمال سے زیادہ امید بخش ہیں کہ جن سے تھک جاتے ہو۔''(٥) امام محمد باقر ـ : ''خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ عمل ہے جس پر مداومت اور پابندی ہو، اگرچہ کم ہی ہو''۔(٦)

سلوکی مکتب کے ماہرین نفسیات پاولف، ثراندایک اور ا سکینر میں سے ہر ایک حصول تعلیم کے متعلق عمل کی مشق اور تکرار کے بارے میں ایک نظر رکھتے ہیں، ثراندایک اپنے قانون تمرین(٧) میں کہتا ہے: ''محرک اور جواب کے درمیان پیوند اور ارتباط استفادہ کے زیر اثر قوی ہوجاتے ہیں''(٨)

____________________

١۔''الیوم عمل ولا حساب وغداً حساب ولا عمل '' ۔(نہج البلاغہ، خ٤٢)۔

٢۔''لا ینال ما عند اللّٰه الّا بالعمل'' (وسائل الشیعہ ج١ص ٦٩)۔

٣۔''المرء لایصبحه الّا العمل'' (غرر الحکم، فصل٤، ص١٥١)۔

٤۔ (وَاَنْ لَواسْتَقَامُوا عَلَی الطَّرِیْقَةِ لَاَسْقَیْنَاهُم مَائً غَدْقاً )(سورہ ٔجن، آیت١٦)۔

٥۔''قلیل تدوم علیه ارجی من کثیر مملول منه ۔''(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج١٩، ص١٦٩)۔

٦۔''احب الاعمال الی اﷲ عزوجل مادام العبد علیه وان قلّ'' (وسائل الشیعہ ج١ ص٧٠ )۔

٧۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف،٢٧٥۔

٨۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف، ص٧٨۔

۲۱۵

گاتری ایک دوسرا سلوکی ماہر نفسیات ہے جو اپنے تعلیم وتربیت کے نظریہ میں اس سلسلہ میں کہ کیوں مشق نتیجۂ عمل کو بہتر بناتی ہے لکھتا ہے: کسی عمل کا سیکھنا یقیناً مشق کا محتاج ہے، ہماری نظر میں اس امر کی دلیل یہ ہے کہ عمل ایسا نتیجہ دیتا ہے کہ جو مختلف موقعیت کے تحت اور مختلف حرکتوں کے ذریعہ کہ جو ان موقعیتوں سے مناسبت رکھتی ہیں حاصل ہوتا ہے، ایک عمل کا سیکھنا ایک حرکت کے (جیسے جسم کے کسی حصہ کاعام طور سے سکڑنل جو کہ تداعی سے حاصل ہوتا ہے) سیکھنے کے برعکس یقیناتمرین ومشق کا محتاج سے۔ اس لئے کہ ضروری ہے کہ مقتضی حرکتیں اپنی نشانیوں کے ساتھ ایک دوسرے کو وجود بخشیں۔حتی کہ ایسا سادہ عمل جیسے کہ ایک کھلونا ، فاصلہ جہت اور کسی چیز کی موقعیت کی بنیاد پر مختلف حرکتوں کو شامل ہوتا ہے۔ ایک کامیاب تجربہ اس بات کے لئے کہ بچوں کو کسی عمل کے لئے آمادہ کرے، کافی نہیں ہے، کیونکہ جو حرکت ایک حالت میں حاصل ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسری بار کامیاب نہ ہو''۔(١)

پھرمہارت اورتشکیل عادت کے بارے میں کہتاہے:

دلیل اس بات کی کہ کامل مہارت حاصل کرنے کے لئے کیوں زیادہ مشق اور تکرار کی ضرورت ہے؟ یہ ہے کہ یہ مہارتیں محتاج ہیں کہ زیادہ اور خاص حرکتیں بہت سی محرکانہ موقعیتوں کے ساتھ جڑی ہوں، ایک مہارت، ایک عام عادت نہیں ہے، بلکہ عادتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے کہ جو مختلف موقعیتوں میں ایک معین نتیجہ دیتا ہے... خلاصہ یہ کہ ایک مہارت کثرت عمل سے تشکیل پاتی ہے(٢) تھوڑا سا غور کہا جاسکتا ہے کہ اخلاقی ملکات اور فضائل بھی اس نظریہ میں مہارتوں سے مانند وجود میں آتے ہیں اور انسان میں ثبات پاتے ہیں، اس وجہ سے اگرچہ صرف مکتب سلوکیت کا نظریہ (تعلیم وتعلم میں شناختی یا عاطفی کے عوامل کی جانب توجہ نہ ہونا) ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے(٣) لیکن کسی عمل کی مشق کا اثر ایک اساسی عامل کے عنوان سے قابل انکار نہیں ہے۔ ارسطو'' اخلاق'' نامی کتاب میں کہتا ہے: ''جس طرح ہم گھر بنا کے معمار ہوجاتے ہیں، عادلانہ عمل انجام دینے سے عادل ہوجاتے ہیں اور پرہیزگاری کا عمل انجام دے کر پرہیزگار بن جاتے ہیں اورکوئی بہادری کا کام کرنے سے بہادر ہوجاتے ہیں''(٤) اور یہ بالکل اسی دقیق طور پر مداومت عمل کی روش کو بیان کرتاہے۔

____________________

١۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف ، ص٢٧٥و٢٧٦۔٢۔ ایضاً، ص٢٧٧۔٣۔ مکاتب روانشناسی ونقد آن ج٦ص١٤١۔٤۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ ابو القاسم حسینی، ج١، ص٣٧۔

۲۱۶

اخلاقی کتابوں کے مؤلفین بھی عملی روش پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اخلاقی بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں نظری روش ساتھ یا اس عمل پہلو پر بڑی تاکید کرتے ہیں کہ جس سے مقصود اخلاقی فضائل کے مطابق افعال انجام دینے کا اہتمام وتمرین ہے ایسے اعمال میں مشغول ہونا ہے جو اخلاقی رذائل کے خلاف ہیں ۔

ملا محمد مہدی نراقیاخلاقی بیماریوں کے طریقہ علاج کے بارے میں فرماتے ہیں:

''انحراف اور کج روی (عدم اعتدال)کی علت اگر جسمانی بیماری ہو تو اس کے برطرف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد طبی علاج کریں، اور اگر اس کی علت نفسانی ہو تو اس کا علاج وہی بالکل جسمانی علاج کی طرح ہے، جسمانی علاج میں سب سے پہلے ایسی غذا سے جو بیماری کی ضد ہو علاج کرتے ہیں، مثال کے طور پر سرد مزاج بیماری کا علاج گرم مزاج اور تند غذائوں سے کرتے ہیں، اگر فائدہ نہ ہوا تو پھر دوا سے ، اس کے بعد زہر مار کے ذریعہ آخر میں عضو کو جلاکے یاکاٹ کے (جراحی) کے ذریعہ معالجہ کرتے ہیں۔ نفسانی بیماریوں میں بھی قانون ایسا ہی ہے، اس طرح سے کہ انحراف اور کجروی کو جاننے کے بعد اس اخلاقی فضیلت کو حاصل کرنے لئے کہ جو اس انحراف کی ضد ہے، اقدام کرے اور ان افعال سے جو اس فضیلت کے آثار شمار ہوتے ہیں یہ امر غذا کے مانند اس اخلاقی رذیلت کو زائل کرنے میں اثر کرتا ہے۔ پھر اگر مفید واقع نہ ہوتو پھر مختلف صورتوں میں فکری، زبانی اورعملی طور پر اپنے نفس کو مورد توبیخ وسرزنش قرار دے، پھر اگر وہ بھی موثر نہ ہو تو پھر ایک منفی اور متضاد صفت کے آثار کو کہ جو اس اخلاقی صفت سے تضاد رکھتے ہوں حدّاعتدال میں انجام دے گا، جیسے ڈرپوک انسان دلیرانہ عمل انجام دے اورخود کو خطرناک کام میں ڈال دے اور کنجوس انسان اس صفت کے زوال کے لئے جود و بخشش کا سہارا لے ۔ یہ مرحلہ جسمانی مداوا میں تریاق اور زہرمار دواکے مانند ہے۔ اگر اس مرحلہ تک بھی اخلاقی بیماری مستحکم طور پر برطرف نہ ہوئی، تو پھر خود کو طرح طرح کی ان سخت تکلیفوں اور ریاضتوں کے ساتھ رنج وزحمت میں مبتلا کرے جو اس اخلاقی رذیلت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کا باعث ہوں، یہ مرحلہ جسمانی علاج میں عضو کے جلانے اور قطع کرنے کے مشابہ ہے کہ جو آخری مرحلہ ہے''۔(١)

____________________

١۔ جامع السعادات ج١ ص٩٧، ٩٨۔

۲۱۷

جیساکہ معلوم ہے کہ اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں علمائے اخلاق نے عمل اور مشق پر خاص طور سے توجہ دی ہے، اس وجہ سے اس روش کے تحقق کے لئے درج ذیل طریقوں کو بیان کیا جاسکتا ہے:

الف ۔مشق اور عادت ڈالنا:

ہم یہاں پر ''عادت'' کے متعلق اخلاقی فلسفہ کے لحاظ سے بحث نہیں کرنا چاہتے جیسے یہ بحث کہ آیا اخلاقی فعل عادت کی حاکمیت اور اس کے غلبہ کے ساتھ اخلاقی ہونے سے خارج ہوجاتا ہے یا نہیں ؟(١) اور نہ نفس شناسی کے لحاظ سے بحث کرنا چاہتے ہیں مثال کے طور پر عادت کیا ہے، اس کی کتنی قسمیں ہیں اور کس طرح وجود میں آتی ہے؟(٢) بلکہ اس سے یہاں پر مراد یہ ہے کہ مشق اور تکرار کے ذریعہ ایسے مرتبہ تک پہنچاجاسکتا ہے کہ اخلاقی مسائل ملکات میں تبدیل ہوجائیں، جیساکہ حضرت علی ـ نے فرمایا ہے:''اَلْعَادَة طبع ثانٍ'' (٣) ''عادت انسان کی دوسری طبیعت اور شرست ہے''۔

بلند ترین اصول ومبادی اور مکارم اخلاق میں تربیت کی مرکزیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کے لئے کچھ حد تک جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی پسندیدہ عادات حاصل ہوں، تاکہ زیادہ سے زیادہ ارادہ اور توانائی کا مصرف ان کی جانب توجہ دینے سے آزاد ہوجائے۔اس موضوع میں اسلام کی تربیتی روش سے متعلق دو نکتے قابل توجہ ہیں:

١۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند:

۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند اس حد تک اہمیت کی حامل ہے کہ ترک عمل کے لئے اس کی قضا اور کبھی کفار بھی لازم ہوجاتا ہے، اخلاقی امور میں بھی ''نذر'' اور ''عہد وقسم'' کو اخلاقی فعل کو اپنے لئے ایک فریضہ کی صورت میں اپنا سکتا ہے، اگرچہ ان روشوں سے زیادہ استفادہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اپنی حیثیت اور منزلت کو کھو بیٹھے گایا انسان پر بہت گراں اور شاق گزرے گا، البتہ معمولی انداز میں بھی خود سے تعہد کرسکتا ہے کہ اخلاقی فعل کو پابندی کے ساتھ انجام دے گا، تاکہ اُس کا ملکہ نفس میں راسخ ہوجائے۔

____________________

١۔ استاد مطہری، تعلیم وتربیت دراسلام، ص٧٥ پر ملاحظہ ہو۔

٢۔ احمد صبور اردوبادی: معمائے عادت۔

٣۔ غررالحکم، فصل٢، ص٣٢٢۔

۲۱۸

٢۔کیفیت عمل کی جانب توجہ کرنا:

اسلام میں عمل کی ظاہری شکل وصورت آخری مقصود نہیں ہے، بالخصوص اخلاقی فعل اسلام کی نظر میں خاص اخلاقی اصول و مبادی کا حامل ہونا چاہئے ، جیسے صحیح نیت، عمل کی صحیح شکل وصورت اور لوازم عمل کی جانب توجہ (جیسے یہ کہ عمل کے بعد ریا، منّت گذاری اور اذیت کے ذریعہ اس عمل کو ضائع نہ کرے)۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے خداوندعالم کے ارشاد:(لِیَبْلُوَکُم اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) (تاکہ خدا تمھیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے ؟) کے متعلق فرمایا: ''اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی زیادہ عمل کا مالک ہو، بلکہ خشیت خداوندی اور درست نیت کے لحاظ سے بہتر اعمال مراد ہیں''۔(٢)

ب ۔ اضداد سے استفادہ:

اخلاقی رذائل کو زائل کرنے سے متعلق یہ طریقہ تربیتی طریقوں میں سے سب سے زیادہ مؤثر ہے، اضداد سے سلوکی مکتب کے نظریات میں ''تقابلی ماحول سازی'' کے عنوان سے رفتار بدلنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔ تقابلی ماحول سازی ایسا نتیجہ ہے کہ جس میں ایک ماحول کا جواب ایک دوسرے ماحول کے جواب سے جو اُس سے ناسازگار اور ناموافق ہوتا ہے ،جانشین ہوتا ہے، اور یہ سبب ہوتا ہے کہ اس ماحول کا جواب جو کہ نامطلوب ہے (اورہم چاہتے ہیں کہ تبدیل ہوجائے) جدید ماحول کے محرک کے ہوتے ہوئے نہ دیا جائے، اس کا اہم ترین فن منظم طریقہ سے (خیالی) حساسیت کا ختم کرنا اور واقعی حساسیت اور خود حساسیت کاختم کرنا ہے۔(٣) اخلاقی کتابوں میں بھی اس روش سے کثرت کے ساتھ استفادہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرابو حامد غزالی ''کبر'' کے ختم کرنے سے متعلق لکھتا ہے:

''اگر کوئی اپنے دوست ورفیق سے علمی مناظرہ میں کوئی حق بات سنے اور احساس کرتا ہے کہ رقیب کی حقانیت کا اعتراف اُس کے لئے مشکل ودشوار ہے، تو اسے چاہئے کہ اس کبر کے معالجہ کے لئے اپنے اندر کوشش کرے...... عملی طریقہ اس طرح ہے کہ رفیق کی حقانیت کا اعتراف جو کہ اس کے لئے دشوار ہے، اپنے اوپر لازم کرے اور اُسے برداشت کرے اور اس کی تعریف وتوصیف کے لئے اپنی زبان کھولے اور مطلب سمجھنے کے سلسلہ میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کا اقرار کرے اور اس کا چونکہ اُس نے اُس سے ایک بات سیکھی ہے، شکریہ ادا کرے.... لہٰذا جب بھی اس امر کی متعدد بار پابندی کرے گا، اُس کے لئے طبیعی اور عادی ہوجائے گا اور حق قبول کرنے کی سنگینی، آسان ہوجائے گی''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔہود آیت ٧۔ ٢۔ کافی ج٢ص ١٦۔٣۔ علی اکبر سیف، تغییر رفتار و درمانیص ٢٥٢۔٤۔ احیاء علوم الدین ، ج٣ ،ص ٣٤٤۔

۲۱۹

مرحوم نراقی نے بھی علاج کے طریقوں میں ایک طریقہ اخلاقی رذائل کے خلاف افعال کا انجام دینا قرار دیا ہے، اس توضیح کے ساتھ کہ کبھی اخلاق کی ایک منفی صفت کے زائل ہونے کے لئے ایک دیگر منفی صفت (کہ جو اعتدال کی حد میں ہو) کا سہارا لیں، مثال کے طور پرخوف ختم کرنے کے لئے جسارت آمیز اور شجاعانہ عمل انجام دینا چاہئے تاکہ خوف ختم ہوجائے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: '' جب کسی چیز سے ڈر محسوس کرو تو اُس میں کود پڑو، کیونکہ کبھی کسی چیز سے ڈرنا، خود اس چیز سے سخت اور ناگوار ہوجاتا ہے''۔(١) اس روش سے متعلق قرآن کاتربیتی نکتہ یہ ہے کہ بری عادات اور اخلاقی رذائل کا یکبارگی اوراچانک ترک کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ اسے مرحلہ وار اور تدریجاً انجام دیا جائے۔ شرابخوری، ربا، جوئے بازی اور بعض دیگر امور کے بارے میں قرآن نے تدریجی مقابلہ پیش کیا ہے۔

ج ۔ ابتلاء اور امتحان:

''ابتلا'' ''بلیٰ'' کے مادہ سے ہے یعنی اس کی اصل ''بلیٰ'' ہے بوسیدہ اور فرسودہ ہونے کے معنی میں اور ابتلا(یعنی آزمائش )کو اس لئے ابتلا کہتے ہیں کہ گویا کثرت آزمائش کی وجہ سے فرسودہ ہوجاتا ہے۔ ابتلا افراد کے متعلق دو نکتوں کا حامل ہے:

١۔ جو کچھ اس کے لئے مجہول اور نامعلوم ہے اُس سے آگاہی اور شناخت۔

٢۔انسان کی یکی یابرائی کا ظاہر ہونا(٢) ۔ امتحان کی تعبیر بھی ابتلا اور آزمائش کی نوع پر بولی جاتی ہے(٣) امتحان اور آزمائش ہمیشہ عمل کے ذریعہ ہے، کیونکہ ابتلا بغیر عمل کے بے معنی ہے، عمل کے میدان میں انسان کے باطنی صفات ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی صلاحتیں قوت سے فعلیت تک پہنچتی ہیں۔ اسی لئے ابتلا اور امتحان فیزیکل اعتبار سے ایک عملی طرز ہے یاعمل کی پابندی کرنا ہے۔ اس میں اور تمرین و عادت میں فرق یہ ہے کہ مشق وتمرین ایک اخلاقی فضیلت کی نسبت ملکہ ایجاد کرنے کے لئے معین ہے لیکن طرز ابتلاء میں، کام عمل اور سختیوں اور مشکلوں کی تہ میں واقع ہونا مقصود ہے۔ اس روش اور طرز کی بنیاد پر مربی کو چاہئے کہ تربیت حاصل کرنے والے کو عمل میں اتار دے تاکہ خود ہی پستیوں اور بلندیوں کو پرکھے اور تلخ وشیرین کا تجربہ کرکے میدان سے سرفراز اور سربلند باہر آئے۔ تربیت پانے والے خود بھی مستقل طور سے ایسے شیوہ پر عمل کرسکتے ہیں۔

____________________

١۔''اذا هبت امراً فقع فیه فانّ شدّة توقیه اعظم ممّاتخاف منه'' ۔(نہج البلاغہ، ح١٧٥)۔

٢۔ المفردات۔

٣۔ ایضاً۔

۲۲۰