اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق0%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق

مؤلف: احمد دیلمی ومسعود آذر بائیجانی
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 150405
ڈاؤنلوڈ: 3564

تبصرے:

اسلامی اخلاق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 150405 / ڈاؤنلوڈ: 3564
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

الف۔توبہ:

اپنے آپ پر نظارت کی روش میں جب بھی انسان اپنے آپ پر نظر ڈالتا ہے تو عام طور پر اپنے صحیفۂ اعمال کو اخلاقی رذائل سے آلودہ دیکھتا ہے۔ ایسی صورت میںاگر ان برائیوں سے الگ اورجدا ہونے کی کوئی راہ اورامید نہ ہو تو انسان بدبختی اور شقاوت کے بھنور میں مکمل طور پر پھنس جائے گا، اورنا امیدی اور رذائل کے ہلاکت بار گڑھے میں گرجائے گا، اس کے علاوہ روحی اور نفسیاتی اعتبار سے گناہ کے اندر اسی حالت پیدا کرتا ہے کہ اگر رذائل نہ ہوں تو آئندہ مواقع پر اور بھی زیادہ گناہوں کے ارتکاب کرنے پر آمادہ ہوجاتاتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے اعمال کی غیر ارادی بنیادوں کے لحاظ سے ضروری ہے جیساکہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

''جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو اُس کے دل میں سیاہ نقطہ ایجاد ہوجاتا ہے، پس اگر توبہ کرلیتا ہے تو مٹ جاتا ہے اوراگروہ گناہ جاری رکھا تو سیاہی اس کے پورے دل کوڈھانپ لیتی ہے اور کامیابی کی راہ مسدود ہوجاتی ہے''۔(١)

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ''گناہ'' کے مختلف مفاہیم ہیں:

نافرمانی اور بے وفائی کا احساس، اپنے آپ کو صدمہ پہنچانا، روح کو خراش لگانااور سزا کا مستحق ہونا۔ اگر یہ احساس گناہ انسان کی روح پر غالب آجائے اور سلسلہ باقی رہے، تو ذہنی افسردگی کا پیش خیمہ ہوگا اور انسان کو ہر قسم کی اپنی معنوی تعمیر اور اخلاقی فضائل کسب کرنے سے روک دے گا، اس وجہ سے توبہ اپنی ازسرِنو تعمیر کے لئے دوبارہ بازگشت کو کہتے ہیں، وہ تجدید اعمال کے لئے صاف وروشن نامۂ اعمال کے ہمراہ رحمت خداوندی کی امیدوار، منقلب، پختہ ارادہ کی مالک تعمیر کرتی ہے اور یہ توبہ وہی خدا کا لطف اور اس کی رحمت ہے، حضرت امام جعفر صادق ـ کے بقول ''توبہ اﷲ کی رسی اور عنایت ربوبی ہے، لہٰذا بندے ہمیشہ توبہ کی کوشش کریں اور ہر گروہ کا ایک خاص توبہ ہے......''۔(٢)

____________________

١۔''اذا أذنب الرجل خرج فی قلبه نقطة سوداء فان تاب انمحت وان زاد زادت حتّی تغلب علی قلبه فلا یفلح بعدها ابداً' '(کافی ج٢ص ٢٧١)۔

٢۔ مصباح الشریعة ص ٩٧۔

۲۴۱

توبہ درحقیقت اپنے اوپر نظارت ہے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اپنے نفس سے جہاد کرو اورتوبہ کو مقدم رکھو تاکہ اپنے رب کے مقام طاعت تک پہنچ جائو''۔(١)

یہاںپر توبہ سے مراد راہ خطا اور عمل خلاف سے حسرت وندامت کے ساتھ واپس آنا ہے، یہ حسرت وندامت ہی کی آگ ہے جو اخلاقی گراوٹ اور پستی سے پاکسازی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے اورایسا سوز وگذار ہے کہ جو انسان کے ذہن میں عفو وبخشش کا مزہ شیریں بناتی ہے اورطراوت، تازگی، طہارت وپاکیزگی کو انسان کے اندر وجود بخشتی ہے، ہر ابتدا اور ہر قدم کے لئے اپنی تربیت کے سلسلہ میں توبہ لازم ہے تاکہ وہ انسانی عزّت وکرامت کا احساس واپس آجائے، '' اپنے متعلق اپنے قیمتی تصوّرات کا مشاہدہ کرے اور اخلاقی تربیت کے لئے آمادہ ہوجائے۔

''گناہوںکے اشجار کو اپنے قلب ونگاہوں کے سامنے قرار دیتے ہیں اور آب ندامت سے اُس کی آبیاری (سینچائی) کرتے ہیں، پھر صحت وسلامتی، رضا وکرامت کا پھل حاصل کرتے ہیں''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''جب کوئی بندہ واقعی (نصوح، خالص) توبہ کرتا ہے تو خدا کا محبوب ہوجاتا ہے اورخداوندعالم دنیا وآخرت میں اس کے گناہ کو پوشیدہ کردیتا ہے....... وہ دو فرشتے جو نامہ اعمال کو ثبت کرتے ہیں انھیں غافل بنا دیتا ہے اور اعضا وجوراح کو حکم دیتا ہے کہ اس کے گناہوں کو مخفی رکھیں اور زمین کے مختلف حصوں سے کہتا ہے کہ وہ سارے گناہ جو تم پر انجام دئے ہیں انھیں نظر انداز کردو، پھر خدا سے وہ ایسی حالت میں ملاقات کرتا ہے کہ ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی جو اس کے گناہوں کی گواہی دے''۔(٣)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''توبہ دلوں کو پاک کرتی ہے اورگناہوں کو دھودیتی ہے''۔(٤)

____________________

١۔ غررالحکم۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص٧٢۔

٣۔ کافی ج٢ص٤٢٣۔

٤۔ ''التوبة تطہر القلوب وتغسل الذنوب''۔(غرر الحکم، فصل٥،ص١٩٥)۔

۲۴۲

امام خمینی بھی توبہ کے بارے میںبیان کرتے ہیں:

توبہ نام ہے نفس کا مادیت روحانیت کی طرف رجوع کرنے کا، جبکہ گناہوں اور نافرمانی کی کدورت کے ذریعہ روحانیت (معنویت) اورنورانی فطرت، طبیعت کی ظلمت میں محجوب ہوجاتی ہے۔ اور اس اختصار کی تفصیل یہ ہے کہ نفس ابتدائے فطرت میں ہر طرح کے کمال، جمال، نور اور درخشندگی اور چمک دمک سے خالی ہوتا ہے، جس طرح سے کہ ان کے مقابل ومخالف صفات سے بھی خالی ہوتا ہے، گویا ایک ایسا صفحہ ہوتا ہے جو مطلق نقوش سے خالی ہوتا ہے، جس میں نہ کوئی روحانی اورمعنوی کمالات پائے جاتے ہیں اورنہ ہی صفات اضداد سے متصف ہوتا ہے۔ لیکن ہر مقام ومنصب کے حصول کی استعداد ولیاقت کا نور اُس میں بطور ودیعت رکھا گیا ہے اور اس کی فطرت استقامت پر ہے اور اس کا خمیر انوار ذاتیہ سے گوندھا ہوا ہے اورجب معاصی کا ارتکاب کرتا ہے تواس کے ذریعہ اُس کے دل میں ایک کدورت پیدا ہوجاتی ہے اورگناہ جس قدر زیادہ ہوتے ہیں، کدورت اور ظلمت بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ دل بالکل ہی تاریک اور ظلمانی ہوجاتا ہے (یعنی گناہوں کی کثرت سے دل میں سیاہی اور ظلمانی پردہ حائل ہوجاتا ہے پھر اُس پر کوئی بات اثر نہیں کرتی) اور نور فطرت خاموش ہوجاتا ہے اور ابدی شقاوت وبد بختی تک پہنچ جاتا ہے، اگر ان حالات کے دوران، دل کے تما م صفحہ پر ظلمت کے چھانے سے قبل خواب غفلت سے بیدار ہوجائے توپھر بیداری کی منزل کے بعد توبہ کی منزل میں وارد ہو جاتا ہے اور طبیعی کدورت اصلی نور فطرت اور ذاتی معنویت کی طرف واپس ہوجاتی ہے گویا کہ تمام کمالات اور اس کی اضداد سے خالی ایک صفحہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے: ''التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔۔۔''۔گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کے مانند ہے۔(١)

اس بات کے لئے کہ انسان توبہ کرے اورمایوسی وناامیدی اس پر غالب نہ آئے، توبہ کی طرف دعوت دینے والی آیات کو پے درپے پڑھنا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ خداوندعالم کی عفو و بخشش اور رحمت ورأفت کا دامن نہایت وسیع ہے:

(وَتُوبُوا اِلَی اللّٰهِ جَمِیْعاً اَیُّهَا المؤمِنُونَ لَعَلَّکُم تَفْلِحُون )(٢)

''اور اے صاحبان ایمان! تم سب اﷲ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہو کہ شاید اسی طرح تمھیں فلاح اور نجات مل جائے''۔

____________________

١۔ چہل حدیث ص٢٣١، ٢٣٢۔

٢۔ سورہ ٔنور آیت٣١۔

۲۴۳

(قُل یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اسْرِفُوا عَلیٰ أنفسِهِمْ لَا تَقْنُطُوا مِن رَحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمِ ۔)(١)

''پیغمبر! آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا، بے شک اﷲ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے''۔

(یَا اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوبَةً نَّصُوحاً عَسیٰ رَبُّکُم اَنْ یُکَفِّرَ عنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ )(٢)

''اے ایمان والو! خلوص دل کے اﷲ سے توبہ کرو عنقریب تمھارا پروردگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا''۔

ان باتو ںکو بھی جا ن ودل سے سماعت فرمائیں:

...بالفرض اس فرض کی بنیاد پر ہے کہ اہل نجات اور اس کی عاقبت سعادت ہو پھر بھی اُس عالم میں گناہوں کی تلافی کوئی آسان کام نہیں ہے،پہلے شدائد، زحمات ومشکلات کا برداشت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان شفاعت کے قابل بنے اور ارحم الراحمین کی رحمت اُس کے شامل حال ہوجائے، پس اے عزیز!جتنا جلدی ممکن ہو کمرہمت کس لو اورعزم کو محکم اور ارادہ کو قوی کرلو اورگناہوں سے توبہ کرو کیونکہ ابھی جوانی کی عمر یا دنیاوی زندگی میں ہو، اور خداداد فرصت کو ہاتھ سے نہ گنوائو اور شیطانی دھوکوں اور نفس امارہ کی چالوں پر توجہ نہ دو۔(٣)

فرعون کے جادوگروں نے ایک دلیرانہ قدم اٹھایا اور توبہ کرلیا اوربارگاہ الٰہی کے مقربین کے درجہتک پہنچ گئے ابراہیم ادہم، فضیل بن عیاض، حربن یزیدریاحی، جابر جعفی اور بدھ واقعی منقلب ہونے والوں کے نمونے ہیں۔

توبہ کرن یکے بعد اس کے استحکام کے لئے اور گذشتہ گناہ کی تکرار نہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ درج ذیل باتوں کو یاد رکھیں: پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''گناہ سے توبہ یہ ہے کہ پھر اس کی طرف واپس نہ آ ئے''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔزمر آیت٥٣۔

٢۔ سورہ ٔ :تحریم آیت٨۔

٣۔ چہل حدیث ص ٢٣٣، ٢٣٤۔

٤۔ نہج الفصاحةحدیث ١٢١١۔

۲۴۴

''خداوند سبحان کے نزدیک توبہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو نادانی اور جہالت کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں کہ خداوندکریم ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اور خداوند متعال علیم دانا اور حکیم ہے''۔(١)

''وہ لوگ وہ ہیںکہ جب برا کام کرتے ہیں، یا اپنے نفس پر ستم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں، کون ہے خدا کے سوا جو گناہوں کو بخش دے؟ اورجو گناہ وقصور (ناگہانی) کر بیٹھے ہیں اس پر جان بوجھ کراصرار نہیں کرتے ''۔(٢) تمام متعلق اور مربوط امور میں اصلاح اور تبدیلی: ''مگر جن لوگوں نے توبہ کیا اور اپنے عمل کی اصلاح کی اور خدا سے تمسک رکھا اور اپنے دین کو خدا کے لئے خالص طور پر اختیار کیا تو نتیجہ کے طور پر وہ لوگ مومنین کے ساتھ ہوں گے اور عنقریب خداوند عالم مومنین کو اجر عظیم جزا دے گا''۔(٣)

خود کو خدا کے حضور میں تصور کریں اوریہ جانیں کہ خدا ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے:

ایک حبشی شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور بولا: اے رسول خدا! میں ایک بُرے کام کا مرتکب ہوا ہوں، آیا میرے لئے توبہ ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر وہ چلا گیا مگر تھوڑی ہی دیر بعد واپس آکر بولا: اے رسول خدا! آیا اس وقت خدا نے مجھے دیکھا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر اُس حبشی نے اس طرح چیخ ماری کہ روح اس کے جسم سے نکل گئی۔(٤)

آخری نکتہ:

توبہ کے بعد اپنے آپ پر نظارت اور تحفظ کے لئے اپنے آپ سے عہد کرے اور مشارطہ کرے۔

مشارطہ یہ ہے کہ پہلے دن مثال کے طو رپر اپنے آپ سے شرط کرے کہ آج خداوند عزوجل کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گا اور اس بات کا عزم بالجزم کرے اور معلوم ہے کہ ایک دن خلاف ورزی نہ کرنا، بہت آسان امر ہے اور انسان آسانی سے عہدہ بر آہو سکتا ہے، تم عازم ہوکر شرط کرو اورتجربہ کرو تودیکھو گے کہ کتنا آسان ہے۔ ممکن ہے کہ شیطان اور اُس ملعون کالشکر تم پراس امر کو بہت سخت دکھائے، لیکن یہ اُس ملعون کا دھوکا ہے۔ اُس پر دل سے حقیقتاً لعنت کرو اور باطل اوہام وخیالات کو دل سے نکال دو اور ایک دن تجربہ تو کرو، اس وقت اس کی تصدیق کروگے۔(٥)

____________________

١۔ سورہ ٔنسائ آیت١٧۔ ٢۔ سورہ ٔآل عمران آیت١٣٥۔ ٣۔ سورہ ٔنساء آیت١٤٦۔٤۔ احیاء العلوم، ابو حامد غزالیج٤ص١٥۔ ٥۔ چہل حدیث ص٨۔

۲۴۵

یہ مشارطہ اور معاہدہ کلی طور پر ہفت گانہ اعضا (آنکھ، کان، زبان، شکم، دامن، ہاتھ اور پائوں) کے ساتھ ہو یا یہ کہ ایک ایسی خالص اخلاقی رفتار یا خاص صفت سے متعلق ہو کہ انسان جس سے دوچار ہے، بہتر ہے کہ یہ مشارطہ پہلے ہی دن انجام دیا جائے۔ ملا مہدی نراقی اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت تمثیل پیش کرتے ہیں:

''جان لوکہ عقل آخرت کی راہ میں ایک تاجر کے مانند ہے جس کا سرمایہ اور پونجی عمر ہے اور اُسے وہ نفس کی مدد سے استعمال کرتا ہے کہ اس لحاظ سے عقل کے شریک کی مانند ہے کہ اُس کے مال میں تجارت کرتا ہے اور اس تجارت کا فائدہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کا حصول ہے کہ انسان کو دائمی سعادت اور ابدی نعمت کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ اُس کا نقصان اس صورت میں ہے کہ اس سے ایسے گناہ سرزد ہوں کہ جو دوزخ کے دردناک عذاب تک منتہی ہوجاتے ہیں... اور اس تجارت کی مدت پوری عمر ہے۔ جس طرح تاجر کی ابتدا میں اپنے شریک سے مشارطہ ومعاہدہ کرتا ہے پھر اس کا مراقب اورنگران ہوجاتا ہے اور آخر میں اس کا محاسبہ کرتا ہے اور ممکن ہے کہ اُس سے تاوان بھی مانگ لے، اسی طرح عقل کو بھی اپنی نفس کے ساتھ مشارکت میں ان امور کی رعایت کرنی چاہئے''۔(١)

ب۔مراقبہ:

امام خمینی اس کی توضیح میں فرماتے ہیں:

'' ایسا ہے کہ تمام شرط کی مدت میں اس پر عمل کر نے کی طرف متوجہ رہو اورخود کو اُس پر عمل کرنا لازم سمجھواور اگر خدانخواستہ تمھارے دل میں خیال آئے کہ ایسے کے مرتکب ہو رہے ہو جوکہ حکم خداوندی کے خلاف ہے تو جان لو کہ یہ شیطان اور اس کے لشکر کی طرف ہے وہ چاہتے ہیں کہ جو تم نے شرط کی ہے اُس سے روک دیں اُن پر لعنت کرو اور اُن کے شرّ سے خدا کی پناہ مانگو اور باطل خیال کو دل سے نکال دو اور شیطان سے کہو کہ ایک دن میں نے خود سے شرط کی ہے کہ خدا کے حکم کے خلاف نہ کروں لیکن ولیّ نعمت نے سالوں سال سے مجھے نعمت دی ہے، صحت، سلامتی اور امنیت مرحمت فرمائی ہے کہ اور اس نے مجھ پر ایسے لطف کئے ہیں کہ اگر تاابد اس کی خدمت کروں تب بھی ان میں سے کسی ایک کا حق ادا نہیں کرسکتا ، لہٰذا مناسب نہیں ہے کہ ایک معمولی سی شرط کو بھی وفا نہ کروں... یہ مراقبہ تمہارے کاموں میں بھی جیسے کسب اورکمائی ، تعلیم وتعلم اور مسافرت، کسی ایک سے بھی منافات نہیں رکھتا ہے اور اسی حال پر رات تک باقی رہو کہ وہ محاسبہ کا وقت ہے...۔(٢)

____________________

١۔ جامع السعادات ج٣ص٩٣۔ ٢۔ چہل حدیث ص٨۔٩۔

۲۴۶

حضرت حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''سزاوار ہے کہ انسان اپنے نفس پر حاکم، قلب کا نگراں اور زبان کا محافظ ہو''۔(١)

حضرت امام حسین ـ نے فرمایا: ''تین چیزیں اگر ہرمومن میں پائی جائیں تووہ خدا کی پناہ میں ہے... (تیسرے یہ کہ) اپنے نفس سے محاسبہ کرے اور اُس وقت تک اپنے ہاتھ پائوں کو حرکت نہ دے جب تک یہ نہ جان لے کہ خدا کی راہ میں قدم اٹھایا ہے یا اُس کی نافرمانی کی راہ میں اور یہ کہ اپنے بھائی کے کسی عیب پر ملامت نہ کرے مگر یہ کہ خود اُس کا ترک کرنے والاہو''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''اُس بندہ پر آفرین ہو جو اپنے نفس سے جہاد کے لئے قدم اٹھائے، جو انسان ہوائے نفس کے سپاہیوں کو مغلوب بنادے اُس نے رضائے خداوندی کاراستہ پا لیا ہے اورجس شخص کی عقل کو شش وتلاش کے ساتھ نفس امارہ پر غلبہ کرے اورخضوع وخاکساری کے ساتھ عقل کی خدمت میں پہنچے تو اس نے عظیم کامیابی حاصل کی ہے، خود نفس اور ہوائے نفس سے زیادہ تاریک اوروحشتناک خداوند متعال اوربندہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے اور اُس سے مقابلہ کے لئے خدا کی درگاہ میں احتیاج اوراس کے لئے خضوع وخشوع، دن میں بھوکا اور پیاسا رہنے اور تہجد کے علاوہ کوئی تیزتر اسلحہ نہیں ہے، لہٰذااگر راہ جہاد میں مرگیاتو وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اوراگر زندہ رہ گیا اور ثبات وپائداری کا ثبوت دیا تو نتیجہ میں ''رضوان اکبر''کے حاصل کرے۔ خداوند عزّوجل فرماتا ہے:

(وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُم سُبُلَنَا، وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(٣)

'''اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا اﷲ حسن عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔

____________________

١۔ غرر الحکم۔

٢ بحار الانوار ج٧٨ص ١٤١۔

٣۔ سورہ ٔعنکبوت آیت ٦٩۔المحجة البیضاء ج٨ص ١٧٠۔

۲۴۷

لہٰذا مراقبہ اعضائے ہفتگانہ کے عمل کرنے کے وقت انسان کا فعّالانہ حضور ہے ، عمل سے پہلے فکر و تامل کے ساتھ اپنی نیت اور مقصد کی نسبت توجہ اورمراقبت کرے، عمل کے وقت مراقبت کرے کہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اخلاقی اقدار اور الٰہی تعلیمات کے خلاف کوئی عمل اُس سے سرزد ہوجائے اورعمل کے بعد بھی مراقبت کرے کہ اس کے خاص آثار جیسے ریا، منّت، اذیت وغیرہ اس سے صادر ہوکر عمل کو ضائع نہ کریں یہاں پر اگر اس کی نظر میں کوئی خاص اخلاقی صفت ہو تو وہ مراقبہ کو اسی صفت پر یا اس کے مناسب اعمال پر مرکوز کردے ، اس لحاظ سے اپنے آپ پر نظارت کا اساسی مرحلہ یہی مراقبہ ہے۔

مراقبہ کے سلسلہ میں اہم نکتہ یہ ہے کہ آغاز امر میں اپنے اوپرزیادہ سختی نہیں کرنی چاہئے اورعمل کے جزئیات اورظرائف کو بھی انجام نہیں دینا چاہئے ، یہ رویہ موجب ہوگا کہ اُس کی سختی اُسے اس عظیم جہاد سے روک دے گی، آغاز کار میں اُسے چاہئے کہ صرف اپنے بارے میں حلال وحرام کے سلسلہ میں نفرت کا اظہار کرے یا ایک اخلاقی رذیلت کی نسبت اپنا محاسبہ کرے تاکہ بعد کے مراحل میں خلوص نیت اور اُس سے بالاتر مراقبہ مراتب پر عمل کرے ۔

توجہ رکھنی چاہئے کہ خداوندعالم پر ایمان کی پشت پناہی کے بغیر مراقبہ بہت دشوار اور مشکل ہے، ایک بصیر وناظر کے حضور پر یقین واعتقاد ہی مراقبہ کو آسان کرتا ہے اور یہ بات ایمان کی تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔

ج۔محاسبہ:

یعنی کوئی وقت معین کرے (بہتر ہے کہ سونے سے قبل ہو) اور روزانہ کے اعمال کا حساب وکتاب کرے، اگر یہ محاسبہ انجام نہ پائے تواپنے آپ پر نظارت اور مراقبہ آئندہ ایّام میں عملی طور پرممکن نہیں ہوگا۔

''اے صاحبان ایمان! خدا سے ڈرو اورہرانسان کو غور کرنا چاہئے کہ اپنے کل (آئندہ) کے لئے پہلے سے کیا بھیجا ہے''۔(١)

''تم لوگ اپنے دل کی باتوں کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو ، خدا تمہارا ان سب کے سلسلہ میں محاسبہ کرے گا''۔(٢)

''حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں اس طرح مذکور ہے: عقلمندانسان جب تک کہ اس پر اس کی عقل حاکم ہے اس کو چاہئے کہ اپنے لئے چار اوقات معین کرے... اورایک ساعت اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کے لئے معین کردے''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔحشر آیت١٢۔

٢۔ سورہ ٔبقرہ آیت٢٨٤۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٧١۔

۲۴۸

''اپنے نفس کو محاسبہ کے ذریعہ کنٹرول کرو اور اس (نفس) کی مخالفت کرکے اُس کے مالک ہوجائو''۔(١)

''اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارامحاسبہ کیا جائے اورخود کو بھاری اورہلکا کرو قبل اس کے کہ اس کا وزن دیکھیں اور اپنے اعمال کو پیش کرنے کے لئے آمادہ ہوجائو''۔(٢)

عاقل انسان کے لئے مناسب ہے کہ اپنی برائیوں کا دین، اعتقاد، اخلاق وادب کے اعتبار اپنے نزدیک حساب کرے پھر انھیں سینوں میں یا کسی کاغذ پر محفوظ کرے اور ان کی اصلاح کرے۔

محاسبہ کی ترکیب اس طرح ہے کہ دن کی ابتدا سے شروع کرے اور جوکچھ اُس سے اعمال سرزد ہوئے ہیں ان کی جانچ کرے کہ آیا اخلاقی معیار کے مطابق ہیںیا نہیں ؟ آیااُن کے اندر خدا کی رضایت اورخوشنودی پائی جاتی ہے... ؟ حضرت امیر المومنین علی ـ سے سوال کیا گیا: انسان کس طرح اپنا محاسبہ کرے؟ فرمایا:

''جب صبح کو بیدار ہو تواُس وقت سے عصر تک اپنے نفس کی طرف رجوع کرے اور کہے: اے نفس! آج کا دن ایسا دن تھا جو تم پر گذر گیا اوردوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور خدا اُس سے متعلق تم سے بازپرس کرے گا کہ تم نے اس کو کس طرح سے گذارااور اس میں کونسا عمل انجام دیا آیا خدا کی یاد اوراس کے شکرانہ میں مشغول تھے؟ آیا اپنے مومن بھائی کا حق ادا کیا؟ آیا اس کی مشکلات کو برطرف کیا؟ آیا اس کی غیبت میں اُس کے اہل وعیال کی سرپرستی کی؟ آیامرنے کے بعد اُس کے ورثاء کی نسبت مہربان رہے ہو؟ آیا اپنی موقعیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برادرمومن کی غیبت سے روکا ہے؟ آیا کسی مسلمان کی مدد کی ہے؟ اس دن تم نے کیا کیا؟ پھر دل میں سوچے جو کچھ اُس سے سرزد ہوا ہے: اگر نیک اورخیرکام تھے، تو خدا کی حمد وستائش کرے اور اس توفیق پر اس کی تعریف وتمجید کرے۔ اگر گناہ اورکوتاہی اُس سے سرزد ہوئی تو خدا سے طلب مغفرت کرے اوراُسے ترک کرے اور توبہ کرے۔اخلاقی تربیت سے متعلق محاسبہ نفس بہت سے آثاراور فوائد کا حامل ہے کہ ان میں سے بعض فوائد اپنے ناپسند صفات و عیوب سے واقف ہونا اور گناہوں سے خالی ہو نا اوراصلاح وسعادت کی راہ ہموار ہیں۔

اسی طرح بھولنا نہیں چاہئے کہ اگرمحاسبہ کچھ سخت معلوم ہو ، تو اُس پر مجاہدہ (جہاد بالنفس) کے ذریعہ غالب آجانا چاہئے اور اس کے آثار و فوائد کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ پھر کچھ مدت بعد روزانہ ایٹومیٹک صورت میں دن بھر یہ محاسبہ اور مراقبہ انجام پائے گا اور رات کے لئے کوئی کام نہیں رہ جائے گا ۔

____________________

١۔ غررالحکم۔ ٢۔ بحار الانوار ج٧٠ ص٧٣۔

۲۴۹

امام موسیٰ بن جعفر ـ نے فرمایا ہے:

''جو شخص روزانہ اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے، لھٰذااگراُس نے کو ئی اچھااور نیک کام کیا ہے تو خدا سے اس کی زیادتی کی دعا کرے اور اس کی حمدوستائش کرے اور اگر برا کام کیا ہے تو خداسے مغفرت طلب کرے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرے''۔(١)

د۔معاقبہ:

محاسبہ کے بعد قانون تقویت (فعال ماحول سازی ) کے مطابق ان مقامات پر جہاں انجام دیئے گئے اعمال اخلاقی معیار کے مطابق تھے اس کے لئے ایک جزا معین کرے (جیسے مناسب تفریح وگردش، اچھی غذا...) اور اگر اس کے برخلاف ہو تو اُس کے لئے مناسب سزا تجویز کرے، جیسے یہ کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو سرز نش اور ملامت کرے اس کے بعد مشقت آمیز اعمال کو برداشت کرے ؛جیسے روزہ رکھے یا خود کو وقتی طور پر بعض لذیذ چیزوں اور عطیوں سے محروم کرے۔ان موارد میںبرے عمل سے مشابہت کا لحاظ کیا جاسکتا ہے؛ مثال کے طورپر حرام غذا ئوں سے پرہیز نہ کرنے کے سلسلہ میں، خودکو بھوکا رکھے اور نا محرم کی طرف نگاہ کرنے کے سلسلہ میں بعض پسند یدہ اور محبوب امورکو دیکھنے سے اپنی آنکھ کو (جسے ایک جالب نظرفیلم دیکھنے سے ) دور کرے اور اگر زبان سے متعلق ہو تو اُسے سکوت کے ذریعہ سزادے اور اگر کسی کو رنج پہنچا یا ہو تو اس کے پاس جائے اور اُس سے عذر خواہی کرکے اپنے آپ کو ذلیل وخوار کرے...۔ مجازات معاقبہ پر جو کہ جہاداکبرہے ضرور بالضرور عمل کریںورنہ انسان کے لئے برے اعمال اور اخلاقی رذائل آسان ہو جائیں گے اور وہ اُن سے اس حدتک مانوس ہو جائے گاکہ اس کا ترک کرنا مشکل اور دشوار ہو جائے گا۔ حضرت علی ـ نے فرمایا: ''سب سے بڑاجہاد نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا اور اسے دنیاوی لذّتوں سے بازرکھنا ہے ''۔(٢)

''جان لوکہ جہاد اکبر نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا ہے لہٰذا اس جہاد میں مشغول رہو تاکہ کامیابی کی سعادت نصیب ہو''۔(٣)

آخرمیں دوباتوں کی یاد دہانی ضروری اور لازم ہے: اوّل یہ کہ اپنے آپ پر نظارت کی بحث میں آداب ورسوم (عرفی عادات ) اصول اور افعال اخلاقی کے درمیان فرق رکھنا چاہئے: اول کلیت نہیں رکھتے لہٰذاان کی ہمیشہ مراعات کرنا ضروری نہیں ہے ؛بر خلاف دوسرے کے۔دوسرے یہ کہ تقویت ارادہ کی ترکیبوں سے استفادہ کرنا اپنے آپ پر نظارت کرنے کی کامیابی میں بہت زیادہ موثرہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ،ج٧٠ ،ص٧٣۔٢۔ غررا لحکم، فصل١، ص١٤٢۔٣۔ غررا لحکم، فصل ٧، ص٢٢٦۔

۲۵۰

۲:۔ ایمان کی تربیت

ایمان ایک قلبی حالت اور روحی اثر ہے کہ جس کی تاثیر افکار، احساسات اور اعمال میں آشکارہو تی ہے۔ حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں:

''الایمان ما کان فی القلب والاسلام ما علیه التناکح والتوارث ''(١)

''ایمان وہ ہے جو دل میں ہوتا ہے اور اسلام وہ ہے جو جس پر تناکح وتوازث ہوتا ہے''۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''الایمان قول مقول وعمل معمول وعرفان العقول ''۔(٢)

''ایمان وہ قول جو بولا جاتا ہے اور وہ عمل ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اور عقلوں کی معرفت ہے''۔

خداوندمتعال روز قیامت، ملائکہ یا تدبیرعالم کے مامورین پر ایمان رکھنے سے (کہ یہ سب ایمان بالغیب کے مصداق ہیں) انسان کی معرفتی، عاطفی، اور اخلاقی جہات تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس نظر جسمانی، کمّی اور فائدہ طلب محاسبات کے حدود میں محدود نہیں رہتی ہے، بلکہ اُس کی یہ فکر، یہ نظر اورخدا شناسی اس کی باطنی استعدادوں کی بالیدگی کا سبب بنتی ہے اور اس کے وجود کی وسعت کو کمال مطلق کے امتداد میں محقّق بناتی ہے۔ ایک بے کراںاور لامتناہی علیم وقدیر وجود مقدس کے سامنے حضور کاا حساس انسان کے اخلاقی کنٹرول اور تربیت میں ایک اہم عامل ہوگا، لہٰذا ایمان کی پرورش انسان کے پورے وجود میںبہت سے قوی وسائل انسان کے پورے وجود میں(جوکہ وہ اختیار میں رکھتی ہے، اخلاقی تربیت کو آسان بنادیتی ہے، بلکہ خود انسان کے وجود میں مکارم اخلاق کو پیدا کرتی ہے۔

____________________

١۔ میزان الحکمةج١ ص٣٠٠۔

٢۔ میزان الحکمةج١ ص٣٠٢۔

۲۵۱

الیکس کارل انسان کے مذہبی ایمان اور اخلاقی پہلو کے رابطہ کی اس طرح منظر کشی کرتا ہے:

اخلاقی اور مذہبی افعال عملی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اخلاقی احساس، عرفانی احساس کے ختم ہونے کے بعد دیر تک باقی نہیں رہتا انسان مذہب سے مستقل اور الگ ایک اخلاقی سسٹم بنانے میں جیسا کہ سقراط نے چاہا تھا کامیاب نہیں ہوا ہے ، وہ سماج اور معاشرہ جس نے دعا اور راز ونیاز کو اپنے اندر ترک کردیا ہے عام طور پر فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہے گا۔ لہٰذا بے ایمان (نام نہاد)متمدن افراد دیندار لوگوں کی طرح فریضہ رکھتے ہیں کہ اپنے باطنی افعال کے رشد کے مسئلہ میں کہ جو ایک انسانی وجود کا لازمہ ہے، دلبستگی پیدا کریں۔(١) علامہ طباطبائی اخلاقی اسلوب وطریقے کی توضیح میں، تین مسلک کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

پہلا مسلک:

دنیوی صالح غایات کی راہ سے تہذیب ہے کہ یہی یونانی فلاسفہ کا عقلی مسلک ہے۔

دوسرا مسلک:

اخروی غرض وغایت کے لحاظ سے تہذیب ہے جیسے حور، قصور، بہشت ودوزخ و۔۔۔ کہ اس کے سلسلہ میں قرآنی آیات بہت زیادہ ہیں اور انبیاء کا تربیتی طرز عمل بھی اسی روش پر رہا ہے۔

تیسرا مسلک:

یہ قرآن کریم سے مخصوص ہے کہ ایک طرح سے ایمان کی پرورش اور معارف الٰہی سے استفادہ کے ذریعہ اخلاقی رذائل کو بنیاد سے اکھاڑ پھینکتا ہے... جو عمل بھی انسان انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور غایت یا اُس میں عزت کا حصول مطلوب ہے یا وہ قدرت ہے جس سے ڈرتا ہے۔ لیکن خداوند سبحان فرماتا ہے: (اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعاً )(٢) تمام عزت اﷲ کے لئے ہے اور فرماتا ہے ۔

(اِنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعاً )(٣) تمام قدرت اﷲ کے لئے ہے ۔اگر یہ معرفت اور یقین محقق ہوجائے تو ریا، سمعہ، (دکھاوا)، خدا کے علاوہ سے خوف، خداکے سوا کسی اور سے امید نہ رکھنے، اس کے علاوہ پر تکیہ کرنے کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی، یہ دو جملے جب بھی انسان کو معلوم ہوجائیں ( قلبی یقین کی حد میں) تمام اخلاقی ورذیلت کو انسان سے پاک کردیتے ہیں( خواہ صفت) ہو یا فعل اور اس کے مقابل اخلاقی فضائل جیسے تقوائے الٰہی، عزت خدا وندی ، عظمت وشوکت ،بے نیازی اور ربانی ہیبت وغیرہ سے آراستہ کردیتے ہیں۔(٤)

____________________

١۔ نیائش ص٢٨۔ ٢۔سورۂ یونس، آیت٦٥۔٣۔ سورہ ٔبقرہ آیت١٦٥۔ ٤۔ المیزان ج١ص ٣٥٤۔٣٦٠۔

۲۵۲

خداوند ذوالجلال کی وحدانیت پر ایمان رکھنا انسان کے توحید ی مکتب فکر کو تنظیم کرتا ہے اور اسے انسجام بخشتا ہے، اہداف ومقاصد، افکار، عواطف وجذبات، عادات واطوار، افعال، سارے کے سارے ایک ہدف کے تحقّق کے لئے (کہ اﷲ کی حاکمیت اور اس کی رضاہے) ہم آہنگ اور متحد ہوجاتے ہیں اور اس وجہ سے دنیوی، شیطانی اور نفسانی خواہشات ، اہداف کے اسباب ہیں اس لئے کہ وہ غیر خدا کوئی اور ہیں تفرقہ اور اختلاف ، لڑائی جھگڑے ، کینہ وحسد اور دیگر اخلاقی رذائل ۔

اور خداوند عالم رقیب وعقید فرشتوں،پرشکوہ حضور روز قیامت کا یقین اخلاقی مراقبت اورکنٹرول کو انسان کے لئے سہل وآسان بنادیتا ہے اور جس قدر ایمان کی قوت زیادہ ہوگی احساس حضور زیادہ ہوگا اور اخلاقی تربیت آسان تر ہوگی: ''خداوند عالم تم پر ہمیشہ نگہبان ہے''۔(١) انسان کوئی بات نہیں کرتا، مگریہ کہ اس کے پاس ایک مراقب وآمادہ (فرشتہ) ہوتا ہے جسے وہ ضبط وثبت کرتا ہے۔(٢) حضرت علی ـ نے فرمایا:'' خداوند عالم نے ہرعمل کے لئے ثواب اور ہرچیز کے لئے حساب قرار دیا ہے''۔(٣)

علمائے اخلاق کے شیوہ میں بالخصوص غزالی کے زمانے سے اب تک یہ روش بہت مورد توجہ رہی ہے اور اخلاقی کتابوں کاقابل توجہ حصّہ باواسطہ یا بلاواسطہ اس سے مخصوص رہا ہے اس کے علاوہ چونکہ لوگوں کے اخلاق کو

آراستہ کرنااوران کی اصلاح انبیاء کی بعثت کا اصلی وبنیادی ہدف رہا ہے (بعثت لاتمم مکارم الاخلاق) میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔]رسول خدا[) اور انبیاء کی تعلیمات میں اخلاقی پیغامات اور موعظے ان کی سیرت وسلوک کا عظیم باب رہے ہیں لہٰذا پرورش ایمان اور اخلاقی تربیت کے درمیان رابطہ کے اثبات کے سلسلہ میں تفصیل ضروری نہیں ہے۔ درج ذیل احادیث مطلب کی وضاحت کے لئے کافی ہیں:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''ایمان حرام امورسے دوری اور دنیوی خواہشات سے پاکیزگی کا سبب ہے''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔنساء آیت١۔

٢۔ سورہ ٔقآیت ١٨۔

٣۔ غرر الحکم۔

٤۔ کنز العمال خ٥٨۔

۲۵۳

''ایمان حلم وبردباری اور جودو بخشش کے سواکچھ نہیں ''۔(١)

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑ وبنیاد یقین، شاخ تقویٰ، کلیاں شرم وحیا، اور اس کا ثمر سخاوت ہے'' (غررالحکم) ''سچائی ایمان کے لئے سر کے مانند ہے''۔(غرر الحکم)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں''مومن کی شادمانی اُس کے چہرہ پر اور غم و اندوہ اس کے دل کے اندر ہوتا ہے، وہ کشادہ سینہ اور خاکسار وخاضع نفس کا مالک ہوتا ہے، فوقیت طلبی کو ناپسند کرتا ہے... اس کا سکوت طولانی ہوتا ہے ، اُس کے اوقات مشغول ہوتے ہیں ، وہ شاکر اورصابر ہوتاہے...''۔(٢)

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: ''تم میں ایمان کے لحاظ سے کاملترین انسان وہ ہے جو سب سے اچھا اخلاق رکھتا ہو'' ۔(٣)

ویکٹورفرانکل ماہر نفسیات اورعلاج معنوی مکتب کا حامل مذہبی ایمان کو جیلوں کے اندر افراد کے اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لئے اہم ترین وسیلہ شمار کرتا ہے، آغاز میں جیلوں کے متعلق اس طرح بیان کرتا ہے:

''...ایک دن ایک پولیس جو کہ ہمارے جیلوں میں کام کررہا تھا اس نے مجھ سے کہا: چھائونی میں انسان مردار کا ایک ٹکڑا گوشت کو تلاش کررہا ہے ، آخرکار اُسے آگ پر چڑھے ایک برتن میں پایا... ہمارے جیل چھائونی آدم خوری سے بھری ہوئی تھی۔(٤) ہم نے تو اسیروں کے جیل میں زندگی گذار دی ہے ، اس وقت ہم ایسے لوگوں کو یاد کرتے ہیں جوکمرہ کمرہ میں جاتے اور دیگر قیدیوں کی دلداری کرتے حتی کہ روٹی کا آخری ٹکڑا بھی انھیں بخش دیتے تھے۔(٥)

انسان کبھی اخلاقی رفتار کی سمت کھینچ کر لے جایا نہیں جاتا بلکہ فیصلہ کرتا ہے کہ اخلاقی رفتار رکھے، وہ اس کام کو میلان کی تکمیل یاوجدان کی آسودگی کے لئے انجام نہیں دیتا ہے، بلکہ اس دلیل اور علت کی وجہ سے کہ جس کا پابند ہے اُس انسان کے لئے جسے دوست رکھتا ہے یااپنے خدا کے لئے انجام دیتا ہے... ۔ میں خیال کرتا ہوں کہ تمام مقدس افراد کا مقصد اپنے خدا کی خدمت کے سوا کچھ نہیں تھا اورمیں یہ خیال نہیں کرتا کہ ان کااصلی وبنیادی ہدف مقدس ہونا تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ مکتب کمال کو انتخاب کرتے۔(٦)

____________________

١۔ کنز العمال خ٥٧۔ ٢۔ بحار الانوار ج٦٩ص ٤١١۔ ٣۔ بحار الانوار ج٧١ص ٣٨٧۔٤۔ انسان درجستجو ی معنا ص٦٢۔

٥۔ انسان درجستجو ی معنا ص٤٧۔ ٦۔ انسان درجستجو ی معنا ص ١٤٥و١٤٦۔

۲۵۴

اُس نے نیچہ کے جملہ سے استناد کیا کہ اس نے کہا تھا''جس انسان نے زندگی کی کیوں علت دریافت کرلیا ہے وہ ہر کیفیت کے ساتھ نبھالے گا '' فرانکل کہتا ہے: جرمن نازیوں کے جیل میں یہ بات بخوبی ثابت ہوگئی ہے کہ وہ تمام وہ لوگ جو خیال کرتے تھے کہ ان کو کام اور ذمہ داری انجام دیناہے (اس معنی کے مقابل جس کا وہ اعتقاد رکھتے تھے) انھوں نے زیادہ سے زیادہ زندہ رہنے کا چانس رکھا (بعد میں یہ بات کوریا اور جاپان میں امریکی ماہرین کے ذریعہ ثابت ہوگئی ہے) ۔(١)

امریکا کا عظیم ماہر نفسیات ویلیام جیمزبھی دینی ایمان کے اخلاقی پہلو کی امر سون نامی انسان کے قول کو نقل کرتے ہوئے اس طرح تصویر کشی کرتا ہے:

... آدمی کی روح میں ایک عدالت پائی جاتی ہے کہ جس کی سزا اور جزا قطعی اور یقینی ہے جو شخص آلودگی اور برائی کو اپنے سے دورے کرے تو اس نے پاکی اور خوبی کو حاصل کرلیا ہے اور جو انسان پہلے ہی سے قلبی اعتبار سے اچھا انسان ہو اس کے دل میں خداوندعالم جگہ رکھتا ہے، اس عدالت اور اچھائی دوستی کے ساتھ جو یہ شخص اپنے دل میں رکھتا ہے، خداوند ازلی وابدی ، خدائے عظیم کو اپنے دل میں رکھتا ہے۔ اگر کوئی دھوکہ دے اور مکر سے کام لے گویااُس نے خود کو دھوکا دیا اور اپنی معرفت بھی نہیں رکھتا ہے، ہر انسان کا باطن بخوبی پہچان لیا جاتا ہے، چور کبھی مالدار نہیں ہوتا اور جوانسان فقرا کی مدد کرتا وہ کبھی محتاج نہیں ہوتا ہے۔ پتھریلی دیوار کی پشت

سے بھی قتل آواز دیتا ہے یعنی قتل کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

جھوٹ اور ملاوٹ کا ادنیٰ ذرہ بھی اگر کسی چیز میں ہو، مثال کے طور پر خود خواہی کا شائبہ، وسوسہ، تظاہر، ریاتو تمہارے کام کے نتیجہ کو فاسد کردے گا لیکن اگر صداقت اور راستگوئی سے کام لو گے تو ساری چیزیں اور ہرکوئی جاندار ہو یا بے جان تمہاری صداقت کا گواہ ہوگا...۔

عشق، عدالت، محبت، خوش خلقی اور صبر سبھی کا سرچشمہ ایک ہی ہے ، لہٰذا جتنا آدمی ان ''مقاصد''سے دور ہوگا، قدرت ونفرت کے سرچشمہ سے بھی ممکن ہے کہ اس سے فیضیاب ہو، دور ہوجائے گا نتیجہ کے طور پر اس کا وجود بے پناہ اور متزلزل ہوکر تدریجاً کمزوراور معمولی ہوکر ذرّہ اور نقطہ میں تبدیل ہوکر نہایت برائی اور پستی کے ساتھ

____________________

١۔ ا انسان درجستجو ی معنا ص١٥٥۔

۲۵۵

وجہ موت اور نابودی کے گڑھے میں گرجائے گا۔ اس قانون کا فہم وادراک آدمی میں ایسی فکر واحساس پیدا کرتا ہے کہ ہم اُسے احساس مذہبی کے نام سے یاد کرتے ہیںایک عجیب وغریب قوت کہ خود جذب بھی کرتی ہے اور شاد ومسرور بھی کرتی ہے۔ پہاڑوں سے چل کر جو عطر نسیم عالم کو معطر بنادیتی ہے وہ اسی کی ذات سے ہے، آسمانوں اور بلند وبالاپہاڑوں کو عظمت وجلالت وہی عطا کر تا ہے، ستاروں کے سکوت آمیز آواز اُسی کی دین ہے، تمام خوبصورتیاں اور خوبیاں اسی کی ذات سے ہیں، وہ ہے کہ آدمی کو ابدی بنادیتا ہے۔

جب انسان کہتا ہے: ''میرا فریضہ وفریضہ ہے'' جب عشق ومحبت اسے حکم دیتی ہے، جب عالم بالا سے الہام نیک اورعظیم کام کا انتخاب کرتا ہے، ایسے موقع پراس کی روح عالمِ عقل کے عالم گیر نغموں سے سرشار ہوجاتی ہے... (ویلیام جیمنرص٧،٨)

درحقیقت انسان کا خدا پر ایمان، غیرا ارادی طور پر ضمیر میں وارد ہونے سے (گوستاویونگ) کہ غیر ارادی ضمیری چیزوں کو ناخود آگاہ ضمیر کا مفہوم روح، خدا اور غیبی قوتوں پر مشتمل جانتا ہے۔(١)

اس کے بہت سے دیگر افکار ونظریات پر براہ راست نہایت تاثیر رکھتا ہے جیسے اُس کا زندگی اور زندگی ہدف کے بارینظریہ۔ اور یہ نظریات خود اپنی جگہ پر خوب وبد، درست ونادرست کے بارے میں انسان کے افکار کو تشکیل دیتے ہیں، یہاں تک کہ آخرکار انفرادی، اجتماعی اور اخلاقی عمل اور انفرادی مناسبتیں بھی اوّلی اور اساسی افکار ونظریات سے تاثیر قبول کرتی ہیں۔

انسان کے غیر ارادی طور پر وارد ہونے کے طریقے، چار اساسی راہ کے حامل ہیں کہ آخری کے علاوہ سبھی طبیعی ہیں:

١۔عہد طفولیت میں منصوبہ بنانا۔

٢۔مثبت یا منفی شدید ہیجانات کے وقت۔

٣۔ہوشیاری کے وقت نفس کی تلقین: اس طرح سے کہ اچھے اورمثبت جملات اورمفاہیم کی مناسب وقت میں آہستہ آہستہ توجہ کے ساتھ بلند آواز سے تکرار کرے۔

٤۔ہیپنا ٹزم کی روش۔

____________________

١۔ رواشناسی ضمیر خود آگاہ ص٩٢۔

۲۵۶

وہ دینی تعلیمات اوردستورات کہ جو ایمان کی تربیت کے لئے مد نظر قراردئے گئے ہیں، اوّل تین راستوں سے افراد معاشرہ کی ہدایت اورسماج کے اخلاقی اصلاح کے عنوان سے بہترین استفادہ کیا ہے۔ ایمان کی پرورش کے وہ اسلوب جو دینی معارف کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

الف۔عبادت:

عبودیت تذلل اورخاکساری کے اظہار کے معنی ہے کہ جو فارسی میں ''بندگی ''کے معنی میں ہے اور عبادت اس سے بھی بالاتر چیز ہے، یعنی انتہائی درجہ تذلل، اسی وجہ سے خدا کے علاوہ کوئی اس کا مستحق نہیں ہے۔(المفردات) اس بناپر مختلف عبادی اعمال، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی تذلل وبندگی کا اعلان ہے۔ سید قطب اس مطلب کی اچھی طرح منظر کشی کرتے ہیں:

نماز، روزہ، زکات، حج اور تمام تعبدی شعائر واعمال ایک کنجی کے سوا کچھ نہیں ہیں، وہ صرف ایسی کنجیاں ہیں جن کے ذریعہ اپنے لئے عبادت کے دروازوں کو کھول سکیں، یا ایسے منازل اورقیامگاہ ہیں کہ طریق عبادت کے راہی اورمنزل معبود کے سالکیں راستہ میں اُس قیام گاہ میں کچھ دیر قیام کرکے توشۂ راہ حاصل کرتے ہیں، تازہ دم ہوتے ہیں پھر کافی زادۂ راہ کے ساتھ اپنی راہ طے کرتے ہوئے معشوق کی منزل کی طرف چل پڑتے ہیں، یہ راہ وہی عبادت ہے لہٰذا جو کچھ اس راہ میں واقع ہو، عبادت سے لے کر روز مرہ کی زندگی کے امور یا غور وخوض اور ادراک تک جب تک کہ ہدف خدا ہو، وہ سب کا سب عبادت ہے۔ یہ اساس اور بنیاد اُس وقت زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے جب حقیقت اور عملی اعتبار سے (نہ کہ صرف زبان ) سے گواہی دے کہ کوئی بھی مقام اور شخصیت نیز مظہر قدرت عبادت کے قابل نہیں ہیسوائے اس خداوند واحد و خالق کے کہ جو حکیم وعلیم ہے۔(١)

اس طرح کی عبادت انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کرکے ایمان کی پرورش کا باعث ہے اور اس کانتیجہ وثمرہ اخلاقی تربیت اور انسانی فضائل ہیں۔

''اے لوگو! تم سب اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے والوں کو خلق کیا ہے، لہٰذا اس کی عبادت کرو، شاید تقویٰ اختیار کرو''۔(٢)

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلامص٣٩۔

٢۔ سورہ ٔبقرہ آیت ٢١۔

۲۵۷

روزانہ کی عبادتوں کی راہ میں، جیسے روزانہ کی نمازیں اور موسمی عبادتیں جیسے روزہ، حج اور اعتکاف نفسیات کے مختلف فنون سے استفادہ کرکے (جیسے اپنے آپ کو تلقین کرنے، عادت دینے اور عمل کرنے، شرطی سازی وغیرہ کے ذریعہ) خدا کی بندگی اور پرستش کی اس حالت کو اپنے اندر ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یعنی اپنے ناخود آگاہ ضمیر میں جاگزین کرسکتا ہے۔ لہٰذا عبادت میں جتنا اخلاص زیادہ ہوگا اور عمل جتناہی صاف وشفاف اور خالص ہوتا ہوگا اتنا ہی انسان تیزی کے ساتھ اس مقصد تک پہنچ جائے گا۔ لیکن عبادت کے نچلے مراتب بھی اس ہدف تک رسائی کے لئے مقدمہ کے عنوان سے کار ساز ہیں۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عبادت کی تین قسمیں ہیں: ''کچھ لوگ خدا کے خوف سے عبادت کرتے ہیں، یہ غلاموں کی عبادت ہے کچھ لوگ ثواب خداوندی کے حصول کے لئے عبادت کرتے ہیں، یہ مزدوروں کی عبادت ہے، کچھ لوگ خدا سے عشق ومحبت کی بناپر عبادت کرتے ہیں، یہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی عبادت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے''(١) ''سب سے افضل عبادت عمل کو خدا کے لئے خالص کرنا ہے''۔(٢)

عبادت کی تاثیر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ رغبت ودلچسپی کی بنیاد پر ہو، نہ کہ کراہت اورسستی کی بنیاد پر ہو۔ اسی لئے پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے:

''اُس بندہ پر آفرین ہوجو عبادت سے عشق کرتا ہے، جسم سے عبادت کرتا ہے اور قلب سے اُسے دوست رکھتا ہے اورخود کو اُس کے لئے فارغ کرتا ہے''۔

جو لذت و شیرینی عبادت میں ہے وہ اس کے استمرار اور اُسے قوت پہنچانے کا باعث ہوتی ہے، لیکن اس لذت کا احساس دو شرط پر مبنی ہے:

١۔ہوا پرستی (نفسانی خواہشات) سے دوری ۔

٢۔ حبّ دنیا سے اجتناب۔

حضرت علی ـنے فرمایا:

''جو نفسانی خواہشات سے اجتناب نہیں کرتاوہ کس طرح عبادت کی لذت محسوس کرتا ہے''؟۔ (غرر الحکم)

''جس طرح کوئی ایسا بیمار کہ جو شدید درد کا احساس کرتا ہے، اچھی غذا کی لذت محسوس نہیں کرتا، دنیا پرست بھی دنیا سے لگائو کی بناپر عبادت کی لذت محسوس نہیں کرتا اور اس کی حلاوت وشیرینی کو درک نہیں کرتا''۔(٣)

____________________

١۔ بحارالانوار ج٧٠ ص ٢٥٥۔ ٢۔ غرر الحکم۔ ٣ ۔ بحارالانوار ج١٤ ص٣١٠۔

۲۵۸

ایک دوسرا نکتہ جو عبادت میں قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ عبادت کا ہدف خداوند عالم کے سامنے صرف اطاعت ہے اور ''تعبد''کے معنی بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر باوجودیکہ ہم نہیں جانتے کہ نماز صبح دو رکعت کیوں ہے اور بلند آواز سے ہمیں پڑھنا چاہئے، تو ہم صرف اُس کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔ فضل بن شاذان حضرت امام علی رضا ـ سے نقل کرتے ہیں: ''اس لئے کہ اُسے فراموشی کے حوالے نہ کردیں، اس کے مراتب ادب کو ترک نہ کریں، اس کے امر ونہی سے غافل نہ ہو جائیں....''۔(١) اسی وجہ سے (فرمان خدا کی اطاعت) اﷲ کے حدود حلال وحرام کی رعایت اورخدا کے فرائض اور واحبات کی مراعات کرنا عبادت کا اہم حصّہ شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: عبادت کے دس جز ہیں کہ اس کے نو جز حلال کے سراغ میں جانا ہے۔(٢) خداوندسبحان ارشاد فرماتا ہے: ''اے اولاد آدم! جو کچھ ہم نے تم پر واجب کیا ہے اُس پر عمل کرو تاکہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار بن جائو''۔

ب۔ذکر:

ذکر ''یاد آوری'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اسی طرح کسی چیز کے معنی کا یاد رکھنایا اُس کا حاضر ہونا ذکر کہلاتا ہے۔ دقیق تر تعبیر میں کبھی ذکر سے مراد ایک نفسانی حالت ہوتی ہے جس کے ذریعہ انسان اُس چیز کو جس کی اس سے پہلے شناخت اور معرفت یاد رکھ سکتا ہو۔ ذکر اس معنی میں حفظ کے مانند ہے اس فرق کے ساتھ کہ ذکر اس جگہ استعمال ہوتا ہے کہ کوئی بات حافظہ کے خزانہ میں موجود ہونے کے علاوہ اس کی نظر میں بھی حاضر ہو، کبھی سے مراد دل وزبان پر کسی مطلب کا حاضر ہونا ہے اور اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ذکر کی دوقسم ہے قلبی اور لسانی۔(٣) اس بنا برایمان کی تربیت کا ایک دوسرا شیوہ ذکر ہے کہ جو خدا کے قطعی اور یقینی حضورکی انسان کے نزدیک تقویت کرتا ہے۔ زبانی اذکا ر جو اسلامی تعلیمات میں وارد ہو ئے ہیں اس لئے ہیں کہ وہی حضور قلبی کی حالت انسان میں ایجاد کریں ہے۔البتہ اذکار کی تربیتی تاثیرسے بھی غافل نہیں ہو نا چاہئے ؛کیونکہ معین باتوں کو زبان پر لانا تلقین نفس سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اُس کے متقضیٰ سے انسان کے ضمیر میں ایک تبدیلی ایجاد کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے غیرہو شیار ضمیر کی راہ ورود کے سلسلے میں ذکر کیا ہے، یہ شیوہ اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ مور دتوجہ واقع ہوا ہے اور ہماری پوری زندگی خواب وبیداری، کام اور راحت، خوشی اور غم سب کے وقت خدا پرستانہ اذکا ر اور تلیقنات سے بھری پڑی ہے جو ہم میں اثر انداز ہوتے ہیں۔

____________________

١۔ علل الشرائع ص٢٥٦۔ ٢۔ بحار الانوار ج١٠٣ ص١٨۔ ٣۔(مفردات )

۲۵۹

یومیہ نمازیں (نافلہ اور فریضہ ) ان کے مقدمات اور تعیقبات مخصوص اذکار کے ساتھ، کاموں کا آغاز ''بسم اللّٰہ'' سے اور ہر کام کا خاتمہ ''الحمد لِلّٰہ''سے اور دیگر اذکار کہ جو گھر سے نکلتے وقت، کام کی جگہ میں داخل ہو تے وقت، مسجد میں وارد ہونے کے وقت... یہ ساری تلقینیں پوشیدہ اور آشکاراذکار کی صورت میں صاف وشفاف اور زلال بارش کے مانند مومینن کے قلب وروح کو بارآورکرکے ایمان وفضلیت کے ثمرات اُن کے اختیار میں قرار دیتے ہیں۔

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ زبان کے اذکارقلب کو زیادہ سے آمادہ کرتے ہیں، امام خمینی اپنے استاد کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہمارے عارف کامل شیخ (استاد ) جناب شاہ آبادی (روحی فداہ)فرماتے تھے: ذاکرانسان ذکرمیں اُس انسان کے مانند ہے جو چھوٹے بچے کو کہ جس نے ابھی ڈھنگ سے بولنا نہیں سیکھا ہے اُسے اگرکوئی کلمہ یاد کراتا ہے تو اُس کی تکرار کرتا ہے تاکہ اُس کی زبان کھل جائے اور کلمہ کو ادا کرے اورجب وہ کلمہ اداکردیتاہے تو معلم بچہ کا اتباع کرتا ہے اور اس تکرار کی تھکن ختم ہو جاتی ہے گویا کہ اُسے بچہ سے مددملتی ہے، یہی صورت ہے اس کی جو ذکرکرتا ہے اُسے چاہئے کہ اپنے دل کو کہ جس نے زبان ذکر نہیں کھولی ہے ذکر کی تعلیم دے اور ان اذکار کی تکرار میں نکتہ یہ ہے کہ ز با ن دل کھل جائے اور زبان قلب کے کھلنے کی علامت یہ ہے کہ زبان، دل کی تبعیت کرتی ہے اور تکرا ر کی زحمت اور تھکن بر طرف ہو جاتی ہے۔(١)

پس اے عزیز!ذکرو یاد محبوب کے راستہ میں تونے جتنی زحمتیں برداشت کی ہیں کم ہیں، دل کو یاد محبوب کی عادت دے، بلکہ خدا کی خواہش اور مرضی سے قلب کی صورت ذکر حق کی صورت ہوجائے اور کلمۂ ''لاالٰہ الا اﷲ'' کمال نفس کی انتہاہوجائے کہ اس سے بہتر سلوک الیٰ اﷲکے لئے کوئی زادہ راہ اور نفس کے معایب (عیوب) کے لئے سب سے اچھا مصلح اور معارف الٰہیہ میں بہترین رہبر نہیں ملے گا، لہٰذا اگر صوری اور معنوی کمال کے طالب ہو اور طریق آخرت کے سالک، مسافر و مہاجر الیٰ اﷲہو تو قلب کو محبوب کے ذکر کی عادت دو اور دل کو یاد حق تبارک وتعالیٰ سے عجین کردو(گوندھ دو)(٢)

____________________

١۔ چہل حدیث، ص٢٥٠۔٢۔ چہل حدیث، ص٢٥٠۔

۲۶۰