آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)33%

آسمان (منتخب نعتیہ کلام) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 114

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 114 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55904 / ڈاؤنلوڈ: 2718
سائز سائز سائز
آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

آسمان

(منتخب نعتیہ کلام)

سعادت حسن آس

تشکر : شاکر القادری، القلم پبلشرس، اٹک، پاکستان عملِ لفظی اور ای بُک: اعجاز عبید اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ۲۵۰ فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.۲۵۰free.com

۳

انتساب

عاشقان سرور کونین کے نام انتساب

جن کی الفت سے ملا مجھ کو یہ حسن انتخاب

٭

آسماں عنوان اس کا آس بھی اور مان بھی

فیصلہ کیجئے کہاں تک میں ہوا ہوں کامیاب

٭٭٭

۴

اظہار تشکر

رات کے دو بج کر تیس منٹ،ذی الحج کا مہینہ سوموار منگل( ۲۴،۲۳ جنوری سن ۲۰۰۶) کی درمیانی رات۔ ا ن پر کیف اور مسحور کن ساعتوں کا بے حد ممنون ہوں جنہوں نے اس نفسا نفسی کے دور میں سرکارِ دو عالم(ص) کی یادوں کو سنوارنے سجانے میں میرا ساتھ دیا۔ان پر نور لمحوں کا بھی احسان مند ہوں جن میں نور کی ایک ایک کرن چنتے چنتے اتنا ذخیرہ اکٹھا کر لیا ہے کہ اس سے سرکار دو عالم(ص) کے کئی عشاق کے سینے منور ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ

سرکار کی یادوں میں گزری ہوئی ان ساعتوں کا بھی ممنون ہوں جو سفر میں حضر میں میرے دامن گیر رہیں۔ اور اس اضطراب دل کپکپاتے اور تپتے ہونٹوں چشمِ نم کا بھی مشکور ہوں جن کی بدولت مجھے یہ دولت سمیٹنا نصیب ہوئی۔

اس عظیم تحفہ کی عطا پر آس، مان اور سمان عطا کرنے والے پروردگار کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ کہ کہاں مجھ سا ناچیز خاکسار اور کہاں مدحت شہ خیر الوریٰﷺ۔

اس گراں قدر خدمت میں اپنے ان تمام دوستوں کا بھی تہہ دل سے ممنون ہوں جنہوں نے اس کی ترتیب تدوین میں میرا ساتھ دیا۔ اور اپنے حصے کا کچھ وقت مجھے دیا۔خصوصاً جناب شاکر القادری جنہوں نے مجھے یہ انتخاب نعت منظر عام پر لانے کا مشورہ دیا۔انہی کے مشورہ سے میں نے اس انتخاب نعت میں چار محترم اہل ہنر کی مدد لی، میں خصوصی طور پر جناب عبداللہ راہی، جناب مشتاق عاجز،جناب محسن عباس اور جناب شوکت محمود شوکت کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مسودہ کو دقت نظر کے ساتھ دیکھا اور"آسمان" میں شامل کرنے کے لیے نعتوں کا انتخاب کیا۔موجودہ انتخاب انہی چار صاحبان نظر کا مرہون منت ہے۔

۵

میں نوائے وقت کے جناب محمد رشید اور جاذب سہیل کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نعت گوئی کے سفر میں میرا بھر پور ساتھ دیا اور مجھے "نوائے وقت" میں بھرپور انداز میں چھاپتے رہے۔ اس کے علاوہ اس کام کو سراہنے والے اہل قلم جناب نذر صابری ، ارشد محمود ناشاد، پروفیسر غلام ربانی فروغ، نزاکت علی نازک،زاہد حسین زاہدی، معصوم شاہ اور مجاہد حسین نقوی کا بھی شکر گذار ہوں۔ وہ احباب جن کے نام نا دانستہ رہ گئے ہوں اور ان کا تعاون میرے شامل حال رہا ہو میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ سبھی دوستوں کی حوصلہ افزائی سے ہی مجھے آج ایوان ادب میں چوتھی بار داخل ہونا نصیب ہوا۔۔۔۔ "آقا ہمارے۔"، "آس کے پھول" اور"آدھا سورج" قبل ازیں منظر عام پر آ چکے ہیں اور آدھا سورج پر بہترین نظم ایوارڈ بھی وصول کر چکا ہوں۔

اب "آسمان" لے کر حاضر ہوں۔اس بار میں کہاں تک کامیاب ہوا۔ اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔امید ہے آپ۔۔۔۔۔۔ "آسمان" کو بھی پذیرائی بخشیں گے۔ اپنے مفید مشوروں سے ضرور نوازیں گے۔ کیونکہ:

" میں جتنا بھی لکھوں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے"

سعادت حسن آس

۱۱/ اپریل ۲۰۰۶ عیسوی

بمطابق ۱۲/ ربیع الاول

۶

مقدمہ(از: سیّد شاکر القادری)

درویش منش، سادہ طبیعت اور دھیمے لب و لہجے میں بات کرنے والے سعادت حسن آس سے میری جان پہچان آج سے کم و بیش تیس سال پہلے ہوئی جب و ہ مدنی میلاد پارٹی اور بزم چراغِ مصطفےٰ اٹک کے لیے ان کی فرمائشی دھنوں پر نعتیں لکھا کرتے تھے۔ اس وقت سے ان کی نعت گوئی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے بڑی اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ ان کے جذبے نے اظہار کے لیے شعر کا جو روپ دھارا وہ محض لذت گفتار اور وصفِ لب و رخسار سے متشکل نہیں ہوتا بلکہ جذبے کی شدت،فکر کی سچائی اور احساس کی شیفتگی سے عبارت ہے۔سعادت حسن اس نے اپنے فنی سفر کے لیے سعادت ابدی کا وہ راستہ منتخب کیا ہے جس پر چلنے والا مسافر کبھی بھی گم کردہ راہِ منزل نہیں قرار پا سکتا۔ انہوں نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔میں یہاں پر یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ سعادت حسن آس نے غزل بالکل نہیں کہی، انہوں نے غزل کو بھی ذریعۂ اظہار بنایا ہے تاہم ان کی غزل میں بھی ایسے معنوی حوالے مل جاتے ہیں جن کا تاثر ہمیں مولائے کائنات (ص) کی جانب کھینچ کر لے جاتا ہے۔

نعت کا موضوع بظاہر بڑا آسان، عام فہم اور سادہ لگتا ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس میں ذرہ بھر کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ذرا سی لغزش ہوئی اور نعت گو کے سارے اعمال اکارت ہوئے اور ضلالت و گمراہی کے عمیق گڑھے اس کا مقدر بن گئے۔عرفی جیسا خود پسند اور متکبر شاعر بھی جب اس میدان میں آتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے اس کے نزدیک نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے:

عرفی مشتاب این رہِ نعت است نہ صحراست

آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را

٭

۷

مولانا احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک نعت گوئی انتہائی مشکل کام ہے۔ گویا تلوار کی دھار پر چلنا ہے ذرا سا آگے بڑھے تو الوہیت کی حدود میں داخل ہو گئے اور ذرہ برابر بھی کمی کی تو تنقیص ہو گئی۔ گویا نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔مجید امجد کے خیال میں جناب رسالت مآب (ص) کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے۔ ذرا سا شاعرانہ غلو ضلالت کے زمرے میں آ سکتا ہے اور ذرا سا عجز بیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ" نعت کے اشعار میں فنی محاسن و معائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو اس کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے"۔ لیکن موضوع کے احترام کا یہ تقاضہ ہرگز نہیں کہ کلام کی بے کیفی و بے رونقی کی پردہ پوشی کی جائے اور ناقد، شاعر کی باز پرس میں صرف اس لیے متامل ہو کہ نعت عقیدت کا اظہار ہے۔ اس طرح شاعر کو فنی کمزوریاں چھپانے کے لیے اپنے معتقدات کی آڑ مل جاتی ہے۔ فارسی کا یہ مقولہ"نعت گو پوچ گو" ایسے ہی شعراء پر صادق آتا ہے جو عقیدت کے نام پر بے کیف اور بے تاثیر اشعار تخلیق کرتے رہتے ہیں۔

میرے اس موقف کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سید و سرور ِعالم(ص) پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم بھی معجز نما فصاحت وبلاغت، شوکتِ الفاظ،حسنِ بیان، اثرو نفوذ اور معنوی کیف و کم کے اعتبار سے رہتی دنیا تک ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود سرورِ عالم (ص) کے اقوال کے بارے میں آپ(ص) کا ارشادِ عالی ہے" انااوتیت بجوامع الکلم" مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں،جن کے الفاظ کم اور معانی وسیع ہیں، اور بہترین کلام وہی ہوتا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود وسیع معانی کا حامل بھی ہو اور زور دار بھی۔چنانچہ آپ (ص) کی احادیث مبارکہ ،کلام موزوں، ایجاز کلام، نظمِ بیان، حسنِ ترتیب اور خوش اسلوبی جیسی خوبیوں سے مالامال ہیں اور آپ(ص) کے اکثر و بیشتر ارشادات عربی ادب میں ضرب الامثال بن چکے ہیں۔

۸

آپ(ص) نے دوسرے لوگوں کے ایسے موزوں اور برجستہ کلام کی بھی تعریف فرمائی ہے جو واقعیت و صداقت کے خلاف نہ ہو اور یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ کے مخالف شعراء کی جانب سے خلاف واقعہ ، غلط، گمراہ کن اور نفس و شیطان کی انگیخت پر کی گئی ہجویات پر مبنی شاعری کی موثر اسلوب اور شاعرانہ حسن و ادا کے ساتھ تردید کرنے کا حکم بھی آپ(ص) نے جاری فرمایا،چنانچہ حضرت حسان بن ثابت مخالفین کے مطاعن،تنقیصی ہزلیات و ہجویات سے سرورِ عالم(ص) کا دفاع کرنے پر مامور ہوئے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مدح سرور عالم(ص) اپنی تمام تر فنی خوبیوں، بیان کی مرصع کاری اور معانی کی وسعت و صداقت کے ساتھ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ نظم کی صور ت میں ہو یا نثری انداز میں۔

جہاں تک نعت گوئی کے آداب کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ نعت گوئی جس قدر والہانہ عقیدت و شیفتگی کا تقاضا کرتی ہے اسی قدر ادب و احترام کی بھی متقاضی ہے۔

"با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار"

٭

کامیاب نعت گوئی کے لیے جہاں سوز و گداز، تڑپ، عشق اور سرشاری کی ضرورت ہے وہاں حد درجہ احتیاط، حفظِ مراتب اور شریعت کی پاسداری کی بھی ضرورت ہے۔

ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید این جا

٭

۹

میرے نزدیک نعت گوئی کا سب سے بڑا تقاضا وہ ادب و احترام ہے جو سرورِ کائنات (ص) کی ذات ستودہ صفات کے لیے مخصوص ہے جس کی تاکید قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی ہے:

"لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی "

یعنی( اے ایمان والو!) اپنی آواز کو نبی (ص) کی آواز سے بلند نہ کرو۔ (الحجرات: ۴۹)

اس ضمن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ قول بھی ملاحظہ ہو کہ ہم رسول اللہ (ص) کی مجلس میں ایسے بیٹھتے تھے کہ"کان علے رؤسنا الطیر"گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں (کہ سر اٹھانے سے ان کے اڑنے کا احتمال ہو۔)

بارگاہ رسالت کا ادب و احترام ہمارے ایمان کا خاصہ ہے لہذا ضروری ہے کہ اظہارِ نعت اور اس کی پیشکش میں ادب رسالت کو باتمام و کمال ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ سرورِ کائنات (ص) کے ادب و احترام میں ذرا سی بے احتیاطی نعت گو کے افکار و خیالات تو کیا اس کے ایمان و اعمال تک کو ضائع کر دیتی ہے۔

ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست

٭

احترامِ رسالت ہی سے متعلقہ ایک اور نازک معاملہ جو نعت گو شاعر سے حد درجہ احتیاط اور ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ وہ لفظوں کا انتخاب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرورِ کائنات(ص) کی توجہ اور رعایت حاصل کرنے کے لیے"راعِ۔ن۔َا" کا لفظ بولا کرتے تھے جبکہ منافقین اور یہودی اس لفظ کے ذریعہ نعوذ باللہ آپ (ص) کو "رعونت" سے متہم کرتے لیکن وہ اسے بولتے اس طرح جس سے یہ ابہام پیدا ہو کہ وہ" راعنا" کہتے ہیں جس کے معنی ہیں "ہماری رعایت فرمایئے" لیکن اللہ تبارک و تعالی تو دلوں کے احوال جانتا ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے اس بات کے انسداد کے لیے ارشاد فرمایا:

۱۰

یا ایها الذین آمنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا واسمعوا و للکافرین عذاب الیم " یعنی اے اہل ایمان گفتگو کے وقت پیغمبر (ص) سے "راعنا "نہ کہا کرو،" انظرنا" کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو، اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔(بقرہ: ۱۰۴)

اس حکمِ ربانی کے ذریعہ تمام مومنین کو ہر ایسے قول یا فعل سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے جس میں غلط اور صحیح ملتبس ہو جانے کا اندیشہ ہو اور حق و باطل کا امتیاز واضح نہ ہو سکے ، لہذا کسی بھی قول یا فعل سے اگر اہانتِ رسول یا نقصِ ادب کا شائبہ تک پیدا ہوتا ہو اس سے بچنا چاہیے اور محض نیک نیتی کو اس کے جواز کے لیے آڑ نہیں بنانا چاہیے۔ مسلمانوں کی ہر بات اور ہر فعل کو صاف ، واضح اور بیّن ہونا چاہیے۔ بالخصوص نعتیہ شاعری کا دامن اس قسم کے کسی التباس سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔اسی ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تشبیہات و استعارات فن شعر گوئی کا لازمہ ہیں اور ان کے بغیر اچھا شعر تخلیق نہیں ہوتا۔ نعت گو کے لیے لازم ہے کہ وہ تشبیہ اور استعارہ کے معاملہ میں بھی اس پاکیزہ اور مقدس موضوع کے جملہ آداب اور احترامات کو ملحوظ رکھے، ایسی تشبیہات اور استعاروں سے گریز کرے جن سے نعت گوئی کی پاکیزگی، شائستگی اور تقدس مجروح ہوتے ہوں۔

نعت گوئی میں سرور کائنات (ص) سے خطاب کی روایت شروع ہی سے موجود ہے۔

چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی مشہور عالم نعت کا یہ شعر:

یا رحمةاللعالمیں ادرک لزین العابد ین

محبوس ایدی الظالمیں فی الموکب والمزدحم

٭

۱۱

نبی اکرم (ص) سے خطاب کی یہ روایت آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس معاملہ میں بھی اس بات کا پورا پورا خیال رہنا چاہیے کہ کوئی ایسا پیرایۂ خطاب استعمال نہ کیا جائے جس سے شانِ رسالت مآب میں گستاخی کا شائبہ بھی پیدا ہوتا ہو۔غرض یہ کہ نعت گوئی میں ادب و احترام کے بہت سے پہلو ہیں جو موضوع، زبان و بیان، انتخاب الفاظ، درست تشبیہات و استعارات کا استعمال اور اندازِ خطاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تمام چیزوں کا اہتمام ہی نعت کی مجموعی فضا اور تاثر کو پاکیزگی سے مزین کرتا ہے۔

مدح رسالت مآب میں تخلیق ہونے والے شعری سرمایہ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اسے نعت کے دو مختلف اسالیب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک رسمی اور دوسرا حقیقی۔ اول الذکر اسلوبِ نعت محض ایک شعری روایت کے طور پر اپنایا گیا اور مختلف شعراء نے اپنے دواوین کی ترتیب میں حمد و نعت سے آغاز کرنا ضروری سمجھا۔ اس روایت کے پس منظر میں وہ حدیث مبارکہ کار فرما ہے جس میں کہا کیا ہے کہ کوئی بھی مہتمم بالشان کام جس کا آغاز اللہ تعالیٰ کی تعریف اور مجھ ((ص)) پر درود بھیجنے سے نہ کیا جائے وہ یکسر ناقص اور خیر و برکت سے محروم ہے۔ اس کے بر عکس دوسرے اسلوبِ نعت میں محض ایک رسم نہیں نباہی گئی بلکہ اس میں پوری دلچسپی کے ساتھ اہتماماً سرورِ کائنات (ص) کی سیرت طیبہ، تعلیمات، معجزات اور عادات و خصائل غرضیکہ جملہ متعلقات سیرت کو والہانہ انداز میں بیان کیا گیا جس کی بنا پر یہ انداز نعت جذب و مستی اور اظہارِ محبت کا موثر ذریعہ بن گیا۔

۱۲

"آسمان " کے شاعر سعادت حسن آس کے ہاں حمدِ ربِ کائنات تو شاید رسمی انداز میں موجود ہو لیکن مدحِ سرورِ کائنات (ص) کے معاملہ میں ایسا بالکل نہیں۔ انہوں نے محض حصول برکت و ثواب کے لیے نعت گوئی نہیں کی بلکہ ثنائے محمد(ص) کو حرزِ جاں بنا کر اپنی تمام تر توانائیاں اس کے لیے وقف کر دی ہیں۔

پھول نعتوں کے سدا دل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشبو میں بسائے رکھن

٭

میں جن کو روح کے قرطاس پہ محسوس کرتا ہوں

وہ جذبے کاش کاغذ پہ اتر جائیں تو اچھا ہو

٭٭٭

یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود کیف و سرور اور دلکشی کی کیفیت رکھتی ہے۔ سعادت حسن آس کی نعت جہاں سرور کائنات (ص) کے جمال ظاہری و باطنی، صورت و سیرت ،اخلاق و اوصافِ حمیدہ، اور معجزات کے بیان وغیرہ سے عبارت ہے وہاں عشقِ سرور عالم(ص) کے والہانہ تجربہ و واردات سے بھی مملو ہے۔

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭

عشقیہ اور تعریفی اندازِ نعت کے ساتھ ساتھ ان کی نعت میں گہری مقصدیت بھی پائی جاتی ہے اور وہ نعت کو محض سرورِ عالم(ص) کی ذات اقدس کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کے اظہار کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے عصرِ موجود میں درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ابتدائے اسلام ہی سے نعت کو دفاعِ رسولِ خدا (ص) اور تبلیغ اسلام جیسے اعلی و ارفع مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

۱۳

اس وقت سے لے کر آج تک صنفِ نعت کو حصولِ مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یہ مقاصد خواہ ذاتی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی،معاشی ، معاشرتی ، ملی اور آفاقی۔ سعادت حسن آس کی نعت میں بھی ہمیں واضح طور پر ایک مقصدیت نظر آتی ہے جس کا عکس ان اشعار میں نمایا ں ہے:۔

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

کرتا نہیں دنیا میں اصولوں پہ وہ سوا

ہے آس محبت جسے سلطانِ عرب سے

٭

میں نے پورے کیے کیا حقوق العباد

اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے فساد

٭

کیا مسلماں میں پیدا کیا اتحاد

،کون سے مان لے کر مدینے چلا

٭

آس کیا منہ دکھاؤں گا سرکار کو،

اپنے ہمدرد کو اپنے غمخوار کو

٭

۱۴

کیوں گراؤں میں فرقت کی دیوار کو

، کس لیے ہجر کے زخم سینے چل

٭

چھوڑ دو فرقہ بندی خدا را اس نے جاں کتنے بندوں کی لی ہے

ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زباں ہے

٭

خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا ہے

وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے

٭

سرور عالم (ص) سے استغاثہ و استمداد روزِ اول ہی سے نعت کے اجزائے ترکیبی میں ایک اہم جزو کے طور پر شامل رہا ہے چنانچہ گزشتہ صفحات میں سیدنا حضرت امام زین العابدین کے مشہور نعتیہ قصیدہ کا ایک شعر نقل ہو چکا ہے جس میں وہ اپنے نانا(ص) کے حضور رفع مشکلات و مصائب کے لیے فریاد کناں ہیں۔اردو نعتیہ ادب میں مولانا حالی کی نظم بہت مشہور ہے جس کا مطلع ہے:

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پر تری آ کہ عجب وقت پڑا ہے

٭٭٭

۱۵

سعادت حسن آس بھی جب کسی ملی، معاشرتی یا سماجی سانحے سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے احساس کی شدت دربارِ رسالت میں استغاثے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔

اک چشم التفات ادھر بھی ذرا حضور(ص)

امت کی سمت بڑھ گئے مکر و ریا کے ہاتھ

٭

کشمیر ہو، عراق، فلسطیں کہ کوئی ملک

ہر کلمہ گو تو آس جڑا ہے حضور(ص) سے

٭

بنام مصطفےٰ ہو امن یا رب پھر کراچی میں

مرے کشمیر کے بھی دن سدھر جائیں تو اچھا ہو

٭

ظلم و ستم کے ہر سو چھانے لگے ہیں بادل

پھر دیکھتا ہے رستہ ہر کارزار تیرا

٭

کشمیر بھی تمہاری چشم کرم کا طالب

اقصیٰ کی آنکھ میں بھی ہے انتظار تیرا

٭

۱۶

آخر میں یہ بات بہ تکرار کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خواجۂ دو جہاں(ص) کے حضور حمد و ثنا کے گلدستوں کو جس قدر بھی قرینے، سلیقے اور حسنِ اہتمام کے ساتھ پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ثنائے خواجہ (ص) کا حق ادا ہو سکتا ہی نہیں ورنہ غالب جیسے آفاقی شاعر کو یہ بات نہ کہنا پڑتی:

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

٭٭٭

سعادت حسن آس نے بھی نعتِ سرور عالم(ص) کے پھولوں کو خیال و فکر، عقیدت و محبت،عشق و شیفتگی اور ادب و احترام کے دل کش رنگوں سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ فنی و تیکنیکی محاسن سے آراستہ کرنے پر حتی المقدور توجہ دی ہے تاہم اس انتخاب نعت کا قاری اگر کہیں زبان و بیان، اسلوب اور فنی نکتہ نگاہ سے تشنگی یا عدم سیرابی محسوس کرتا ہے تویہ سیرابی ممکن ہی نہیں کیونکہ" لفظوں کے مقدر میں کہاں اتنی رسائی" لفظ تو درماندہ و عاجز ہیں اور سرورِ کائنات (ص) کی مدح سرائی اندازۂ حرف و خیال سے ماورا، البتہ بہتری کی گنجائش تو موجود رہتی ہے۔

چاندنی، شفق، شبنم، کہکشاں، صبا ، خوش بو

آس کیا لکھے تجھ کو سب سے ماورا ہے تو

٭٭

سید شاکر القادری

۵/ اپریل ۲۰۰۶ ء

بمقام اٹک شہر

۱۷

رائے از ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر

شعبہ اردو علامہ اقبال ااوپن یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان

’’آسمان‘‘سعادت حسن آس کا منتخب نعتیہ مجموعۂ کلام ہے۔ ان کے کلام میں جذبے کی فراوانی ایک ایسے معنوی آہنگ کو جنم دیتی ہے جو فکر کو جمالیات کے پس منظر میں مرتب کرتا ہے۔ ان کے ہاں جذبے کی کیفیاتی سچائی لفظ و معنی کے تناظر سے آگے کی خبر دیتی ہے تو ان کا لسانی شعور جذبے کی کوملتا کو پابند نہیں کر پاتا کیوں کہ جذبات کا وفور زبان و بیان کے آہنگ کا اسیر نہیں ہوتا۔

سعادت حسن آس کے کلام میں جذبے کی صداقت تجربے کی رنگینی سے فروزاں ہوتی اور ان کی نعت اس جذبۂ دروں کی سچائی سے مملو ہو کر لفظ و آہنگ کا پیکر اوڑھ لیتی ہے تو ان کا جذبہ ان کی شعر گوئی سے بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ کس قدر خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا فکری اور معنوی منظر نامہ خوشبوئے رسول سے معطر ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔

ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر

۱۸

آس کا آسمان از مشتاق عاجز

جذبہ اظہار چاہتا ہے اور اظہار سلیقہ۔سلیقہ میسر نہ آئے تو اظہار ابلاغ سے محروم ہو جاتا ہے اور جذبہ وقار سے۔ بعض جذبے تو اتنے لطیف اور مقدس ہوتے ہیں کہ برسوں کی ریاضت کے بعد بھی سلیقہ ہاتھ نہیں آتا عشق بھی ایسا ہی لطیف اور مقدس جذبہ ہے مگر اس کی شدت اظہار میں جلد باز ہوتی ہے۔ضبط کا دامن تھامے رہنا عشق کو گوارا نہیں ہوتا اور جلد بازی حسن کو ،ضبط اگر اظہار کو سلیقہ عطا کر دے تو عشق بارگاہِ حسن میں نہ صرف باریاب ٹھہرتا ہے بلکہ با وقار بھی قرار پاتا ہے۔سلیقہ کیا ہے پاسِ ادب اور حسنِ طلب، ضبط جذبہ عشق کی تربیت کر دے تو حاصل ،پاسِ ادب اور شوق مؤدب ہو جائے تو نتیجہ حسنِ طلب۔پاسِ ادب اور حسنِ طلب الفاظ کو برتنے کا شعور عطا کر دیں تو زبان و بیان شاعری کی حدوں کو چھولے اور شاعری دربارِ حسن میں مقبول ہو۔

سلیقہ عشقِ مجازی کے ہاتھ لگا تو صحرا،بیلے،تھل اور چناب نے قصے بنے اور قیس مجنوں، رانجھے جوگی، مکران کے شہزادے، پنوں اور عزت بیگ مہینوال بنے۔حسن و عشق نے پیار کی لازوال رومانی داستانوں کو جنم دیا۔زمین رنگوں،روشنیوں اور خوشبوؤں سے بھر گئی اور فضا میں ماہیے،ٹپے گیت اور غزل کے بول بکھر گئے۔یہی سلیقہ عشقِ حقیقی میں در آیا تو بدن سولیوں پر اور سر نیزوں پر سج گئے کہیں حسین بن منصور حلاج امر ہو گیا تو کہیں محمد(ص) کا نواسہ حسین ابن علی۔ موت نے حیات جاودانی کی خلعت پہنی لفظ کو نئے مفہوم ملے،فضا میں انالحق اور لا الٰہ الا اﷲ کی گونج ابھری اور کائنات حمد و ثنا اور مرثیہ و سلام کے وجد آفریں نغموں سے معمور ہو گئی۔عشق و جنوں نے صفحہ ہستی پر ایثار کی بے مثال داستانیں رقم کیں اور تاریخ نے نشان راہ منزل اور نشانِ عبرت متعین کیے۔

۱۹

جیسے جذبۂ عشق تکمیل حیات کے لیے ضروری ہے ایسے ہی لفظ عشق میری اس گفتگو میں ضروری ہے ورنہ میری بات کا ابلاغ نہ ہونے پائے گا۔کوئی پوچھے کہ عشق کیا ہے ؟ تو میں کہوں گا حسن کی ظاہری اور باطنی کشش کو محسوس کر کے اسے اپنا لینے اور اس کا ہو جانے کی لگن کا نام عشق ہے اور یوں حسن کا تذکرہ اس کی توصیف،اس کے ہجر کا کرب اس کے وصل کی لذت، عرض تمنا، امید اور التجا بھی عشق ہی کا حصہ قرار پاتے ہیں۔اب ضروری ہے کہ حسن کا مفہوم بھی واضح کر دیا جائے میرا علم کہتا ہے کہ حسن خود اﷲ ہے کہ اس نے خود کو جمیل کہا مگر کچھ غیر اﷲ بھی تو حسن کہلاتا ہے جسے اﷲ پسند فرماتا ہے گویا جو اﷲ کو پسند ہوتا ہے یا بالفاظ دیگر جو اﷲ کا محبوب ہے وہ بھی حسن ہے۔حسنِ مخلوقِ خدا نے عشقِ مجازی کو ظہور بخشا تو حسنِ خالقِ کائنات نے عشقِ حقیقی کو، مگر عشقِ محبوبِ خدا چیزے دگر است کہ وہ عشقِ مجازی سے بہت ارفع اور عشقِ حقیقی سے بہت قریب ہے۔

عشقِ نبی(ص) جب اظہار طلب ہوتا ہے تو ضبط کی کڑی شرط نرم پڑ جاتی ہے یہاں سلیقہ اکتسابی کم اور الہامی زیادہ ہوتا ہے۔ عشقِ رسول(ص) میں وارفتگی اور دیوانگی بھی دربار رسالت مآب میں مقبول ہوتی ہے اور سلیقہ بھی کہ یہاں محبوب کا جمال و جلال خود ہی پاسِ ادب عطا کرتا اور خود ہی حدِ ادب متعین کرتا ہے۔ سلیقۂ اظہار جب عشقِ نبی (ص) سے مملو ہوتا ہے تو ایوانِ کفر میں اذانِ بلال گونجتی ہے غزوہ کہیں مکہ کے نواح میں ہوتا تو دندانِ سلمان، فارس میں شہید ہوتے ہیں۔ خواب میں بخشی گئی ردا بدن سے مس ہو کر شفا عطا کرتی ہے حسان بن ثابت مدح سرا ہوتے ہیں اور نعت گوئی کی یہ روایت چودہ صدیوں کا سفر طے کرتی، دلوں کو گرماتی اور روحوں کو اجالتی سعادت حسن آس تک آ پہنچتی ہے۔سعادت حسن"آس کے پھول" لیے"آسمان" کی طرف محو پرواز ہوتے ہیں۔ان کے سینے میں موجزن عشقِ رسول(ص) ان کا طرز زندگی بدل دیتا ہے۔وہ بدلے ہوئے اسلوب حیات میں نعت نبی(ص) کو و سیلہ اظہار بناتے ہیں اور ان کا کردار حسن سیرت کا آئینہ دار ٹھہرتا ہے۔

دنیا ہی بدل دی ہے میرے ذوق نے میری

میں صاحب کردار ہوا تیرے سبب سے

٭٭٭

۲۰

قدرت نے اظہار عشق رسول(ص) کے لیے سعادت حسن آس کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسول(ص) محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبی(ص) خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

٭

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

٭٭٭

۲۱

وہ اوصافِ محبوب (ص) بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

٭٭٭

نعت نبی(ص) کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسول(ص) لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

٭٭٭

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبی(ص) بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ" آس" اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبی(ص) کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

٭٭٭

۲۲

سعادت حسن آس کو خدائے محمد(ص) نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبی(ص) مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

٭

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

٭٭٭

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آس نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

٭٭٭

۲۳

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسول(ص) کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭٭

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبی(ص) میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

٭

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

٭٭

۲۴

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسول(ص) ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد" لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام"طارق" نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد" دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد" کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمد(ص) نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمد(ص) لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آس وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے"آسمان" پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجر

(اٹک)

۸ مارچ ۲۰۰۶ ء

۲۵

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آس کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعرایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے" اور"آس کے پھول" بالترتیب ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۹۰ ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام"آدھا سورج" ۱۹۹۶ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن" اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ" سید نعمت علی شاہ" ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبی(ص) کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

٭

۲۶

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان" کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ"نعت گوئی" ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائنات(ص) خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ (ص) کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭٭

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاک(ص) " کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭٭

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسول(ص)" اور"عشق رسول(ص)" ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/ فروری ۲۰۰۶ ء

شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

۲۷

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ)

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خدا(ص) کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰ(ص) کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار (ص) سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

٭٭٭

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭

جناب سعادت حسن آس نعت کے حوالہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ اُن کی نعتوں میں سرکار دوعالم(ص) کی عقیدت و محبت ایک دائرے میں رہ کر دلکش اندازمیںرقم کی گئی ہے۔ بعض نعتوں میں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی ذات نے سرکار کی مدحت خود لکھوائی ہے۔ میرے سامنے اسوقت آس صاحب کا مجموعہ نعتیہ انتخاب۔’’ آسمان‘‘ کا مسودہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں شامل تمام کی تمام نعتیں عشاقِ مصطفےٰ کے دلوں کی ترجمان ہیں۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آس صاحب کے’’ آسمان ‘‘ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین

آمین الُلھم ربناآمین یاربُ العالمین!

دعا گو

فقیر سید عبدالدّیان بادشاہ

خطیب مرکزی جانع مسجد استقامت محلہ عید گاہ اٹک شھر۔

۲۹

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

٭

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

٭

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

٭

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

٭

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

٭

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

٭

۳۰

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

٭

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

٭

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

٭

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

٭

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

٭

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

٭

۳۱

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

٭

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

٭

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

٭

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

٭

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

٭

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

٭

۳۲

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

٭

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

٭

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

٭

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

٭٭٭٭

۳۳

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

٭

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

٭

یا نبی(ص) تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

٭

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

٭

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۴

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

٭

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

٭

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

٭

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۵

سب رسولوں نے کی ہے تیری آرزو

دشمنوں نے بھی کی ہے تیری جستجو

٭

تجھ سے دونوں جہانوں میں ہے رنگ و بو

میرا بھی آسمانِ محبت ہے تو

٭

تیری رحمت پہ رافت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تو ہی بحرِ کرم دستِ جود و سخا

کوئی ثانی ترا ہے نہ سایہ ترا

٭

اس نے پایا خدا جس کو تو مل گیا

لائقِ وصف ہے تو ہی بعد از خدا

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۶

اے حبیبِ خدا خاتمِ مرسلاں

اتنی بے انتہا ہیں تری خوبیاں

٭

کر سکا ہے بیاں کوئی اب تک کہاں

اک نظر آس پر، کر سکے کچھ بیاں

٭

تیری چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۷

نعتیں

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں

عشق س عشق مصطفےٰ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

٭

اس دعا سے ڑی دعا کیا ہے

اس سے ڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

٭

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں!

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

٭

زندگی مجھ کو خشنے والے !

زندگی کا میں مدعا مانگوں

٭

اپنے آپے سے ہو کے اہر آج

تجھ سے میں تیرا دل را مانگوں

لوگ کہتے ہیں جن کو ے سایہ

ان کے سائے کا آسرا مانگوں

جاں ھی جائے تو آس دے کر میں

ان کے کوچے کی خاک پا مانگوں

۳۸

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشو میں سائے رکھنا

٭

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

جانے کس پہر دے پاؤں وہ اتریں دل میں

اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے رکھنا

٭

چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل جائے

فصل سینے میں محت کی اگائے رکھنا

٭

روشنی اتنی ہے منزل ھی دھواں لگتی ہے

آپ رہر ہیں مجھے راہ دکھائے رکھنا

٭

آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آاد رہے

ار رحمت کے سدا اس پر جھکائے رکھنا

٭

آس ہو جائے گی آقا کی زیارت ھی نصی

ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھنا

٭٭٭

۳۹

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

٭

گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی

انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں روشن

٭

نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟

٭

ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی ہیں

جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن

٭

خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ

وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں روشن

٭

خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی کی

ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن

٭

مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں گے

ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن

٭٭٭

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114