آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)50%

آسمان (منتخب نعتیہ کلام) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 114

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 114 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58087 / ڈاؤنلوڈ: 2889
سائز سائز سائز
آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

آسمان

(منتخب نعتیہ کلام)

سعادت حسن آس

تشکر : شاکر القادری، القلم پبلشرس، اٹک، پاکستان عملِ لفظی اور ای بُک: اعجاز عبید اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ۲۵۰ فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.۲۵۰free.com

۳

انتساب

عاشقان سرور کونین کے نام انتساب

جن کی الفت سے ملا مجھ کو یہ حسن انتخاب

٭

آسماں عنوان اس کا آس بھی اور مان بھی

فیصلہ کیجئے کہاں تک میں ہوا ہوں کامیاب

٭٭٭

۴

اظہار تشکر

رات کے دو بج کر تیس منٹ،ذی الحج کا مہینہ سوموار منگل( ۲۴،۲۳ جنوری سن ۲۰۰۶) کی درمیانی رات۔ ا ن پر کیف اور مسحور کن ساعتوں کا بے حد ممنون ہوں جنہوں نے اس نفسا نفسی کے دور میں سرکارِ دو عالم(ص) کی یادوں کو سنوارنے سجانے میں میرا ساتھ دیا۔ان پر نور لمحوں کا بھی احسان مند ہوں جن میں نور کی ایک ایک کرن چنتے چنتے اتنا ذخیرہ اکٹھا کر لیا ہے کہ اس سے سرکار دو عالم(ص) کے کئی عشاق کے سینے منور ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ

سرکار کی یادوں میں گزری ہوئی ان ساعتوں کا بھی ممنون ہوں جو سفر میں حضر میں میرے دامن گیر رہیں۔ اور اس اضطراب دل کپکپاتے اور تپتے ہونٹوں چشمِ نم کا بھی مشکور ہوں جن کی بدولت مجھے یہ دولت سمیٹنا نصیب ہوئی۔

اس عظیم تحفہ کی عطا پر آس، مان اور سمان عطا کرنے والے پروردگار کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ کہ کہاں مجھ سا ناچیز خاکسار اور کہاں مدحت شہ خیر الوریٰﷺ۔

اس گراں قدر خدمت میں اپنے ان تمام دوستوں کا بھی تہہ دل سے ممنون ہوں جنہوں نے اس کی ترتیب تدوین میں میرا ساتھ دیا۔ اور اپنے حصے کا کچھ وقت مجھے دیا۔خصوصاً جناب شاکر القادری جنہوں نے مجھے یہ انتخاب نعت منظر عام پر لانے کا مشورہ دیا۔انہی کے مشورہ سے میں نے اس انتخاب نعت میں چار محترم اہل ہنر کی مدد لی، میں خصوصی طور پر جناب عبداللہ راہی، جناب مشتاق عاجز،جناب محسن عباس اور جناب شوکت محمود شوکت کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مسودہ کو دقت نظر کے ساتھ دیکھا اور"آسمان" میں شامل کرنے کے لیے نعتوں کا انتخاب کیا۔موجودہ انتخاب انہی چار صاحبان نظر کا مرہون منت ہے۔

۵

میں نوائے وقت کے جناب محمد رشید اور جاذب سہیل کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نعت گوئی کے سفر میں میرا بھر پور ساتھ دیا اور مجھے "نوائے وقت" میں بھرپور انداز میں چھاپتے رہے۔ اس کے علاوہ اس کام کو سراہنے والے اہل قلم جناب نذر صابری ، ارشد محمود ناشاد، پروفیسر غلام ربانی فروغ، نزاکت علی نازک،زاہد حسین زاہدی، معصوم شاہ اور مجاہد حسین نقوی کا بھی شکر گذار ہوں۔ وہ احباب جن کے نام نا دانستہ رہ گئے ہوں اور ان کا تعاون میرے شامل حال رہا ہو میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ سبھی دوستوں کی حوصلہ افزائی سے ہی مجھے آج ایوان ادب میں چوتھی بار داخل ہونا نصیب ہوا۔۔۔۔ "آقا ہمارے۔"، "آس کے پھول" اور"آدھا سورج" قبل ازیں منظر عام پر آ چکے ہیں اور آدھا سورج پر بہترین نظم ایوارڈ بھی وصول کر چکا ہوں۔

اب "آسمان" لے کر حاضر ہوں۔اس بار میں کہاں تک کامیاب ہوا۔ اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔امید ہے آپ۔۔۔۔۔۔ "آسمان" کو بھی پذیرائی بخشیں گے۔ اپنے مفید مشوروں سے ضرور نوازیں گے۔ کیونکہ:

" میں جتنا بھی لکھوں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے"

سعادت حسن آس

۱۱/ اپریل ۲۰۰۶ عیسوی

بمطابق ۱۲/ ربیع الاول

۶

مقدمہ(از: سیّد شاکر القادری)

درویش منش، سادہ طبیعت اور دھیمے لب و لہجے میں بات کرنے والے سعادت حسن آس سے میری جان پہچان آج سے کم و بیش تیس سال پہلے ہوئی جب و ہ مدنی میلاد پارٹی اور بزم چراغِ مصطفےٰ اٹک کے لیے ان کی فرمائشی دھنوں پر نعتیں لکھا کرتے تھے۔ اس وقت سے ان کی نعت گوئی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے بڑی اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ ان کے جذبے نے اظہار کے لیے شعر کا جو روپ دھارا وہ محض لذت گفتار اور وصفِ لب و رخسار سے متشکل نہیں ہوتا بلکہ جذبے کی شدت،فکر کی سچائی اور احساس کی شیفتگی سے عبارت ہے۔سعادت حسن اس نے اپنے فنی سفر کے لیے سعادت ابدی کا وہ راستہ منتخب کیا ہے جس پر چلنے والا مسافر کبھی بھی گم کردہ راہِ منزل نہیں قرار پا سکتا۔ انہوں نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔میں یہاں پر یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ سعادت حسن آس نے غزل بالکل نہیں کہی، انہوں نے غزل کو بھی ذریعۂ اظہار بنایا ہے تاہم ان کی غزل میں بھی ایسے معنوی حوالے مل جاتے ہیں جن کا تاثر ہمیں مولائے کائنات (ص) کی جانب کھینچ کر لے جاتا ہے۔

نعت کا موضوع بظاہر بڑا آسان، عام فہم اور سادہ لگتا ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس میں ذرہ بھر کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ذرا سی لغزش ہوئی اور نعت گو کے سارے اعمال اکارت ہوئے اور ضلالت و گمراہی کے عمیق گڑھے اس کا مقدر بن گئے۔عرفی جیسا خود پسند اور متکبر شاعر بھی جب اس میدان میں آتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے اس کے نزدیک نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے:

عرفی مشتاب این رہِ نعت است نہ صحراست

آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را

٭

۷

مولانا احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک نعت گوئی انتہائی مشکل کام ہے۔ گویا تلوار کی دھار پر چلنا ہے ذرا سا آگے بڑھے تو الوہیت کی حدود میں داخل ہو گئے اور ذرہ برابر بھی کمی کی تو تنقیص ہو گئی۔ گویا نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔مجید امجد کے خیال میں جناب رسالت مآب (ص) کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے۔ ذرا سا شاعرانہ غلو ضلالت کے زمرے میں آ سکتا ہے اور ذرا سا عجز بیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ" نعت کے اشعار میں فنی محاسن و معائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو اس کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے"۔ لیکن موضوع کے احترام کا یہ تقاضہ ہرگز نہیں کہ کلام کی بے کیفی و بے رونقی کی پردہ پوشی کی جائے اور ناقد، شاعر کی باز پرس میں صرف اس لیے متامل ہو کہ نعت عقیدت کا اظہار ہے۔ اس طرح شاعر کو فنی کمزوریاں چھپانے کے لیے اپنے معتقدات کی آڑ مل جاتی ہے۔ فارسی کا یہ مقولہ"نعت گو پوچ گو" ایسے ہی شعراء پر صادق آتا ہے جو عقیدت کے نام پر بے کیف اور بے تاثیر اشعار تخلیق کرتے رہتے ہیں۔

میرے اس موقف کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سید و سرور ِعالم(ص) پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم بھی معجز نما فصاحت وبلاغت، شوکتِ الفاظ،حسنِ بیان، اثرو نفوذ اور معنوی کیف و کم کے اعتبار سے رہتی دنیا تک ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود سرورِ عالم (ص) کے اقوال کے بارے میں آپ(ص) کا ارشادِ عالی ہے" انااوتیت بجوامع الکلم" مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں،جن کے الفاظ کم اور معانی وسیع ہیں، اور بہترین کلام وہی ہوتا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود وسیع معانی کا حامل بھی ہو اور زور دار بھی۔چنانچہ آپ (ص) کی احادیث مبارکہ ،کلام موزوں، ایجاز کلام، نظمِ بیان، حسنِ ترتیب اور خوش اسلوبی جیسی خوبیوں سے مالامال ہیں اور آپ(ص) کے اکثر و بیشتر ارشادات عربی ادب میں ضرب الامثال بن چکے ہیں۔

۸

آپ(ص) نے دوسرے لوگوں کے ایسے موزوں اور برجستہ کلام کی بھی تعریف فرمائی ہے جو واقعیت و صداقت کے خلاف نہ ہو اور یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ کے مخالف شعراء کی جانب سے خلاف واقعہ ، غلط، گمراہ کن اور نفس و شیطان کی انگیخت پر کی گئی ہجویات پر مبنی شاعری کی موثر اسلوب اور شاعرانہ حسن و ادا کے ساتھ تردید کرنے کا حکم بھی آپ(ص) نے جاری فرمایا،چنانچہ حضرت حسان بن ثابت مخالفین کے مطاعن،تنقیصی ہزلیات و ہجویات سے سرورِ عالم(ص) کا دفاع کرنے پر مامور ہوئے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مدح سرور عالم(ص) اپنی تمام تر فنی خوبیوں، بیان کی مرصع کاری اور معانی کی وسعت و صداقت کے ساتھ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ نظم کی صور ت میں ہو یا نثری انداز میں۔

جہاں تک نعت گوئی کے آداب کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ نعت گوئی جس قدر والہانہ عقیدت و شیفتگی کا تقاضا کرتی ہے اسی قدر ادب و احترام کی بھی متقاضی ہے۔

"با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار"

٭

کامیاب نعت گوئی کے لیے جہاں سوز و گداز، تڑپ، عشق اور سرشاری کی ضرورت ہے وہاں حد درجہ احتیاط، حفظِ مراتب اور شریعت کی پاسداری کی بھی ضرورت ہے۔

ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید این جا

٭

۹

میرے نزدیک نعت گوئی کا سب سے بڑا تقاضا وہ ادب و احترام ہے جو سرورِ کائنات (ص) کی ذات ستودہ صفات کے لیے مخصوص ہے جس کی تاکید قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی ہے:

"لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی "

یعنی( اے ایمان والو!) اپنی آواز کو نبی (ص) کی آواز سے بلند نہ کرو۔ (الحجرات: ۴۹)

اس ضمن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ قول بھی ملاحظہ ہو کہ ہم رسول اللہ (ص) کی مجلس میں ایسے بیٹھتے تھے کہ"کان علے رؤسنا الطیر"گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں (کہ سر اٹھانے سے ان کے اڑنے کا احتمال ہو۔)

بارگاہ رسالت کا ادب و احترام ہمارے ایمان کا خاصہ ہے لہذا ضروری ہے کہ اظہارِ نعت اور اس کی پیشکش میں ادب رسالت کو باتمام و کمال ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ سرورِ کائنات (ص) کے ادب و احترام میں ذرا سی بے احتیاطی نعت گو کے افکار و خیالات تو کیا اس کے ایمان و اعمال تک کو ضائع کر دیتی ہے۔

ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست

٭

احترامِ رسالت ہی سے متعلقہ ایک اور نازک معاملہ جو نعت گو شاعر سے حد درجہ احتیاط اور ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ وہ لفظوں کا انتخاب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرورِ کائنات(ص) کی توجہ اور رعایت حاصل کرنے کے لیے"راعِ۔ن۔َا" کا لفظ بولا کرتے تھے جبکہ منافقین اور یہودی اس لفظ کے ذریعہ نعوذ باللہ آپ (ص) کو "رعونت" سے متہم کرتے لیکن وہ اسے بولتے اس طرح جس سے یہ ابہام پیدا ہو کہ وہ" راعنا" کہتے ہیں جس کے معنی ہیں "ہماری رعایت فرمایئے" لیکن اللہ تبارک و تعالی تو دلوں کے احوال جانتا ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے اس بات کے انسداد کے لیے ارشاد فرمایا:

۱۰

یا ایها الذین آمنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا واسمعوا و للکافرین عذاب الیم " یعنی اے اہل ایمان گفتگو کے وقت پیغمبر (ص) سے "راعنا "نہ کہا کرو،" انظرنا" کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو، اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔(بقرہ: ۱۰۴)

اس حکمِ ربانی کے ذریعہ تمام مومنین کو ہر ایسے قول یا فعل سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے جس میں غلط اور صحیح ملتبس ہو جانے کا اندیشہ ہو اور حق و باطل کا امتیاز واضح نہ ہو سکے ، لہذا کسی بھی قول یا فعل سے اگر اہانتِ رسول یا نقصِ ادب کا شائبہ تک پیدا ہوتا ہو اس سے بچنا چاہیے اور محض نیک نیتی کو اس کے جواز کے لیے آڑ نہیں بنانا چاہیے۔ مسلمانوں کی ہر بات اور ہر فعل کو صاف ، واضح اور بیّن ہونا چاہیے۔ بالخصوص نعتیہ شاعری کا دامن اس قسم کے کسی التباس سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔اسی ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تشبیہات و استعارات فن شعر گوئی کا لازمہ ہیں اور ان کے بغیر اچھا شعر تخلیق نہیں ہوتا۔ نعت گو کے لیے لازم ہے کہ وہ تشبیہ اور استعارہ کے معاملہ میں بھی اس پاکیزہ اور مقدس موضوع کے جملہ آداب اور احترامات کو ملحوظ رکھے، ایسی تشبیہات اور استعاروں سے گریز کرے جن سے نعت گوئی کی پاکیزگی، شائستگی اور تقدس مجروح ہوتے ہوں۔

نعت گوئی میں سرور کائنات (ص) سے خطاب کی روایت شروع ہی سے موجود ہے۔

چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی مشہور عالم نعت کا یہ شعر:

یا رحمةاللعالمیں ادرک لزین العابد ین

محبوس ایدی الظالمیں فی الموکب والمزدحم

٭

۱۱

نبی اکرم (ص) سے خطاب کی یہ روایت آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس معاملہ میں بھی اس بات کا پورا پورا خیال رہنا چاہیے کہ کوئی ایسا پیرایۂ خطاب استعمال نہ کیا جائے جس سے شانِ رسالت مآب میں گستاخی کا شائبہ بھی پیدا ہوتا ہو۔غرض یہ کہ نعت گوئی میں ادب و احترام کے بہت سے پہلو ہیں جو موضوع، زبان و بیان، انتخاب الفاظ، درست تشبیہات و استعارات کا استعمال اور اندازِ خطاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تمام چیزوں کا اہتمام ہی نعت کی مجموعی فضا اور تاثر کو پاکیزگی سے مزین کرتا ہے۔

مدح رسالت مآب میں تخلیق ہونے والے شعری سرمایہ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اسے نعت کے دو مختلف اسالیب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک رسمی اور دوسرا حقیقی۔ اول الذکر اسلوبِ نعت محض ایک شعری روایت کے طور پر اپنایا گیا اور مختلف شعراء نے اپنے دواوین کی ترتیب میں حمد و نعت سے آغاز کرنا ضروری سمجھا۔ اس روایت کے پس منظر میں وہ حدیث مبارکہ کار فرما ہے جس میں کہا کیا ہے کہ کوئی بھی مہتمم بالشان کام جس کا آغاز اللہ تعالیٰ کی تعریف اور مجھ ((ص)) پر درود بھیجنے سے نہ کیا جائے وہ یکسر ناقص اور خیر و برکت سے محروم ہے۔ اس کے بر عکس دوسرے اسلوبِ نعت میں محض ایک رسم نہیں نباہی گئی بلکہ اس میں پوری دلچسپی کے ساتھ اہتماماً سرورِ کائنات (ص) کی سیرت طیبہ، تعلیمات، معجزات اور عادات و خصائل غرضیکہ جملہ متعلقات سیرت کو والہانہ انداز میں بیان کیا گیا جس کی بنا پر یہ انداز نعت جذب و مستی اور اظہارِ محبت کا موثر ذریعہ بن گیا۔

۱۲

"آسمان " کے شاعر سعادت حسن آس کے ہاں حمدِ ربِ کائنات تو شاید رسمی انداز میں موجود ہو لیکن مدحِ سرورِ کائنات (ص) کے معاملہ میں ایسا بالکل نہیں۔ انہوں نے محض حصول برکت و ثواب کے لیے نعت گوئی نہیں کی بلکہ ثنائے محمد(ص) کو حرزِ جاں بنا کر اپنی تمام تر توانائیاں اس کے لیے وقف کر دی ہیں۔

پھول نعتوں کے سدا دل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشبو میں بسائے رکھن

٭

میں جن کو روح کے قرطاس پہ محسوس کرتا ہوں

وہ جذبے کاش کاغذ پہ اتر جائیں تو اچھا ہو

٭٭٭

یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود کیف و سرور اور دلکشی کی کیفیت رکھتی ہے۔ سعادت حسن آس کی نعت جہاں سرور کائنات (ص) کے جمال ظاہری و باطنی، صورت و سیرت ،اخلاق و اوصافِ حمیدہ، اور معجزات کے بیان وغیرہ سے عبارت ہے وہاں عشقِ سرور عالم(ص) کے والہانہ تجربہ و واردات سے بھی مملو ہے۔

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭

عشقیہ اور تعریفی اندازِ نعت کے ساتھ ساتھ ان کی نعت میں گہری مقصدیت بھی پائی جاتی ہے اور وہ نعت کو محض سرورِ عالم(ص) کی ذات اقدس کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کے اظہار کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے عصرِ موجود میں درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ابتدائے اسلام ہی سے نعت کو دفاعِ رسولِ خدا (ص) اور تبلیغ اسلام جیسے اعلی و ارفع مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

۱۳

اس وقت سے لے کر آج تک صنفِ نعت کو حصولِ مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یہ مقاصد خواہ ذاتی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی،معاشی ، معاشرتی ، ملی اور آفاقی۔ سعادت حسن آس کی نعت میں بھی ہمیں واضح طور پر ایک مقصدیت نظر آتی ہے جس کا عکس ان اشعار میں نمایا ں ہے:۔

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

کرتا نہیں دنیا میں اصولوں پہ وہ سوا

ہے آس محبت جسے سلطانِ عرب سے

٭

میں نے پورے کیے کیا حقوق العباد

اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے فساد

٭

کیا مسلماں میں پیدا کیا اتحاد

،کون سے مان لے کر مدینے چلا

٭

آس کیا منہ دکھاؤں گا سرکار کو،

اپنے ہمدرد کو اپنے غمخوار کو

٭

۱۴

کیوں گراؤں میں فرقت کی دیوار کو

، کس لیے ہجر کے زخم سینے چل

٭

چھوڑ دو فرقہ بندی خدا را اس نے جاں کتنے بندوں کی لی ہے

ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زباں ہے

٭

خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا ہے

وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے

٭

سرور عالم (ص) سے استغاثہ و استمداد روزِ اول ہی سے نعت کے اجزائے ترکیبی میں ایک اہم جزو کے طور پر شامل رہا ہے چنانچہ گزشتہ صفحات میں سیدنا حضرت امام زین العابدین کے مشہور نعتیہ قصیدہ کا ایک شعر نقل ہو چکا ہے جس میں وہ اپنے نانا(ص) کے حضور رفع مشکلات و مصائب کے لیے فریاد کناں ہیں۔اردو نعتیہ ادب میں مولانا حالی کی نظم بہت مشہور ہے جس کا مطلع ہے:

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پر تری آ کہ عجب وقت پڑا ہے

٭٭٭

۱۵

سعادت حسن آس بھی جب کسی ملی، معاشرتی یا سماجی سانحے سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے احساس کی شدت دربارِ رسالت میں استغاثے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔

اک چشم التفات ادھر بھی ذرا حضور(ص)

امت کی سمت بڑھ گئے مکر و ریا کے ہاتھ

٭

کشمیر ہو، عراق، فلسطیں کہ کوئی ملک

ہر کلمہ گو تو آس جڑا ہے حضور(ص) سے

٭

بنام مصطفےٰ ہو امن یا رب پھر کراچی میں

مرے کشمیر کے بھی دن سدھر جائیں تو اچھا ہو

٭

ظلم و ستم کے ہر سو چھانے لگے ہیں بادل

پھر دیکھتا ہے رستہ ہر کارزار تیرا

٭

کشمیر بھی تمہاری چشم کرم کا طالب

اقصیٰ کی آنکھ میں بھی ہے انتظار تیرا

٭

۱۶

آخر میں یہ بات بہ تکرار کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خواجۂ دو جہاں(ص) کے حضور حمد و ثنا کے گلدستوں کو جس قدر بھی قرینے، سلیقے اور حسنِ اہتمام کے ساتھ پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ثنائے خواجہ (ص) کا حق ادا ہو سکتا ہی نہیں ورنہ غالب جیسے آفاقی شاعر کو یہ بات نہ کہنا پڑتی:

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

٭٭٭

سعادت حسن آس نے بھی نعتِ سرور عالم(ص) کے پھولوں کو خیال و فکر، عقیدت و محبت،عشق و شیفتگی اور ادب و احترام کے دل کش رنگوں سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ فنی و تیکنیکی محاسن سے آراستہ کرنے پر حتی المقدور توجہ دی ہے تاہم اس انتخاب نعت کا قاری اگر کہیں زبان و بیان، اسلوب اور فنی نکتہ نگاہ سے تشنگی یا عدم سیرابی محسوس کرتا ہے تویہ سیرابی ممکن ہی نہیں کیونکہ" لفظوں کے مقدر میں کہاں اتنی رسائی" لفظ تو درماندہ و عاجز ہیں اور سرورِ کائنات (ص) کی مدح سرائی اندازۂ حرف و خیال سے ماورا، البتہ بہتری کی گنجائش تو موجود رہتی ہے۔

چاندنی، شفق، شبنم، کہکشاں، صبا ، خوش بو

آس کیا لکھے تجھ کو سب سے ماورا ہے تو

٭٭

سید شاکر القادری

۵/ اپریل ۲۰۰۶ ء

بمقام اٹک شہر

۱۷

رائے از ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر

شعبہ اردو علامہ اقبال ااوپن یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان

’’آسمان‘‘سعادت حسن آس کا منتخب نعتیہ مجموعۂ کلام ہے۔ ان کے کلام میں جذبے کی فراوانی ایک ایسے معنوی آہنگ کو جنم دیتی ہے جو فکر کو جمالیات کے پس منظر میں مرتب کرتا ہے۔ ان کے ہاں جذبے کی کیفیاتی سچائی لفظ و معنی کے تناظر سے آگے کی خبر دیتی ہے تو ان کا لسانی شعور جذبے کی کوملتا کو پابند نہیں کر پاتا کیوں کہ جذبات کا وفور زبان و بیان کے آہنگ کا اسیر نہیں ہوتا۔

سعادت حسن آس کے کلام میں جذبے کی صداقت تجربے کی رنگینی سے فروزاں ہوتی اور ان کی نعت اس جذبۂ دروں کی سچائی سے مملو ہو کر لفظ و آہنگ کا پیکر اوڑھ لیتی ہے تو ان کا جذبہ ان کی شعر گوئی سے بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ کس قدر خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا فکری اور معنوی منظر نامہ خوشبوئے رسول سے معطر ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔

ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر

۱۸

آس کا آسمان از مشتاق عاجز

جذبہ اظہار چاہتا ہے اور اظہار سلیقہ۔سلیقہ میسر نہ آئے تو اظہار ابلاغ سے محروم ہو جاتا ہے اور جذبہ وقار سے۔ بعض جذبے تو اتنے لطیف اور مقدس ہوتے ہیں کہ برسوں کی ریاضت کے بعد بھی سلیقہ ہاتھ نہیں آتا عشق بھی ایسا ہی لطیف اور مقدس جذبہ ہے مگر اس کی شدت اظہار میں جلد باز ہوتی ہے۔ضبط کا دامن تھامے رہنا عشق کو گوارا نہیں ہوتا اور جلد بازی حسن کو ،ضبط اگر اظہار کو سلیقہ عطا کر دے تو عشق بارگاہِ حسن میں نہ صرف باریاب ٹھہرتا ہے بلکہ با وقار بھی قرار پاتا ہے۔سلیقہ کیا ہے پاسِ ادب اور حسنِ طلب، ضبط جذبہ عشق کی تربیت کر دے تو حاصل ،پاسِ ادب اور شوق مؤدب ہو جائے تو نتیجہ حسنِ طلب۔پاسِ ادب اور حسنِ طلب الفاظ کو برتنے کا شعور عطا کر دیں تو زبان و بیان شاعری کی حدوں کو چھولے اور شاعری دربارِ حسن میں مقبول ہو۔

سلیقہ عشقِ مجازی کے ہاتھ لگا تو صحرا،بیلے،تھل اور چناب نے قصے بنے اور قیس مجنوں، رانجھے جوگی، مکران کے شہزادے، پنوں اور عزت بیگ مہینوال بنے۔حسن و عشق نے پیار کی لازوال رومانی داستانوں کو جنم دیا۔زمین رنگوں،روشنیوں اور خوشبوؤں سے بھر گئی اور فضا میں ماہیے،ٹپے گیت اور غزل کے بول بکھر گئے۔یہی سلیقہ عشقِ حقیقی میں در آیا تو بدن سولیوں پر اور سر نیزوں پر سج گئے کہیں حسین بن منصور حلاج امر ہو گیا تو کہیں محمد(ص) کا نواسہ حسین ابن علی۔ موت نے حیات جاودانی کی خلعت پہنی لفظ کو نئے مفہوم ملے،فضا میں انالحق اور لا الٰہ الا اﷲ کی گونج ابھری اور کائنات حمد و ثنا اور مرثیہ و سلام کے وجد آفریں نغموں سے معمور ہو گئی۔عشق و جنوں نے صفحہ ہستی پر ایثار کی بے مثال داستانیں رقم کیں اور تاریخ نے نشان راہ منزل اور نشانِ عبرت متعین کیے۔

۱۹

جیسے جذبۂ عشق تکمیل حیات کے لیے ضروری ہے ایسے ہی لفظ عشق میری اس گفتگو میں ضروری ہے ورنہ میری بات کا ابلاغ نہ ہونے پائے گا۔کوئی پوچھے کہ عشق کیا ہے ؟ تو میں کہوں گا حسن کی ظاہری اور باطنی کشش کو محسوس کر کے اسے اپنا لینے اور اس کا ہو جانے کی لگن کا نام عشق ہے اور یوں حسن کا تذکرہ اس کی توصیف،اس کے ہجر کا کرب اس کے وصل کی لذت، عرض تمنا، امید اور التجا بھی عشق ہی کا حصہ قرار پاتے ہیں۔اب ضروری ہے کہ حسن کا مفہوم بھی واضح کر دیا جائے میرا علم کہتا ہے کہ حسن خود اﷲ ہے کہ اس نے خود کو جمیل کہا مگر کچھ غیر اﷲ بھی تو حسن کہلاتا ہے جسے اﷲ پسند فرماتا ہے گویا جو اﷲ کو پسند ہوتا ہے یا بالفاظ دیگر جو اﷲ کا محبوب ہے وہ بھی حسن ہے۔حسنِ مخلوقِ خدا نے عشقِ مجازی کو ظہور بخشا تو حسنِ خالقِ کائنات نے عشقِ حقیقی کو، مگر عشقِ محبوبِ خدا چیزے دگر است کہ وہ عشقِ مجازی سے بہت ارفع اور عشقِ حقیقی سے بہت قریب ہے۔

عشقِ نبی(ص) جب اظہار طلب ہوتا ہے تو ضبط کی کڑی شرط نرم پڑ جاتی ہے یہاں سلیقہ اکتسابی کم اور الہامی زیادہ ہوتا ہے۔ عشقِ رسول(ص) میں وارفتگی اور دیوانگی بھی دربار رسالت مآب میں مقبول ہوتی ہے اور سلیقہ بھی کہ یہاں محبوب کا جمال و جلال خود ہی پاسِ ادب عطا کرتا اور خود ہی حدِ ادب متعین کرتا ہے۔ سلیقۂ اظہار جب عشقِ نبی (ص) سے مملو ہوتا ہے تو ایوانِ کفر میں اذانِ بلال گونجتی ہے غزوہ کہیں مکہ کے نواح میں ہوتا تو دندانِ سلمان، فارس میں شہید ہوتے ہیں۔ خواب میں بخشی گئی ردا بدن سے مس ہو کر شفا عطا کرتی ہے حسان بن ثابت مدح سرا ہوتے ہیں اور نعت گوئی کی یہ روایت چودہ صدیوں کا سفر طے کرتی، دلوں کو گرماتی اور روحوں کو اجالتی سعادت حسن آس تک آ پہنچتی ہے۔سعادت حسن"آس کے پھول" لیے"آسمان" کی طرف محو پرواز ہوتے ہیں۔ان کے سینے میں موجزن عشقِ رسول(ص) ان کا طرز زندگی بدل دیتا ہے۔وہ بدلے ہوئے اسلوب حیات میں نعت نبی(ص) کو و سیلہ اظہار بناتے ہیں اور ان کا کردار حسن سیرت کا آئینہ دار ٹھہرتا ہے۔

دنیا ہی بدل دی ہے میرے ذوق نے میری

میں صاحب کردار ہوا تیرے سبب سے

٭٭٭

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۲۔ خداوند عالم نے سورۂ صافات میں فرمایا ہے :( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ) ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔( ۱ )

سوال یہ ہے کہ اگر ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام ستاروں کی منزل آسمان دنیا کے نیچے ہو جبکہ ماضی کے ستارہ شناس اور دانشوروں(نجومیوں) کا کہنا ہے : اکثر ستاروںکی منزل دنیاوی آسمان کے اوپر ہے ؛ ہمارے زمانے کے علمی نظریات اس سلسلہ میں کیاہیں؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں ہم بہ فضل الٰہی یہ کہتے ہیں:

۱۔ پہلے سوال کا جواب

خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء کو قرآن کریم کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ تمام لوگوں کو مقرر کردہ آئین کے مطابق ہدایت کریں، جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے :

الف:( قل یا ایها الناس انی رسول الله الیکم جمیعاً... )

کہو : اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا (بھیجا ہوا )رسول ہوں ...۔( ۲ )

ب:( واوحی الی هذا القرآن لانذر کم به و من بلغ... )

یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تم کو اور ان تمام افراد کو جن تک یہ پیغام پہونچے ڈرائوں۔

اسی لئے قرآن کریم اپنے کلام میں تمام لوگوں کو (یا ایھا الناس) کا مخاطبقرار دیتا ہے اور چونکہ ہر صنف اور گروہ کے تمام لوگ مخاطب ہیں لہٰذا کلام تمام انسانوں کی فہم اور تقاضائے حال کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہر زمان و مکان کے اعتبار سے تمام لوگ سمجھیں، جیسا کہ مقام استدلال و اقامہ برہان میں خالق کی وحدانیت اور معبود کی یکتائی ( توحید الوہیت) کے موضوع پر فرماتا ہے :

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق ہوا ہے ؟

آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟

پہاڑوں کی طر ف نہیں دیکھتے کہ کیسے استوار اور اپنی جگہ پر محکم اور قائم ہے ؟

زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہموار اور بچھائی گئی ہے ؟

____________________

(۱)صافات۶

(۲)اعراف۱۵۸

۸۱

لہٰذا یاد دلائو اس لئے کہ تم فقط یاد دلانے والے ہو، تم ان پر مسلط اور ان کومجبور کرنے والے نہیں ہو۔( ۱ )

توحید ربوبیت کے سلسلہ میں مقام استدلال واقامہ ٔبرہان میں فرماتا ہے :

جو پانی پیتے ہو کیا اس کی طرف غور و خوض کرتے ہو؟! کیا اسے تم نے بادل سے نازل کیا ہے یا ہم اسے نیچے بھیجتے ہیں؟! ہم جب چاہیں ہر خوشگوار پانی کو تلخ اور کڑوا بنا دیںلہٰذا کیوں شکر نہیں کرتے؟( ۲ ) ...اب اگر ایسا ہے تو اپنے عظیم پروردگار کی تسبیح کرو اور اسے منزہ جانو۔

اب اگر خدا وند عالم اس کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرتا اور مقام استدلال میں اربوں ستاروں اور کروڑوں آسمانی کہکشاؤں کے نظام حرکت و سکون کا تذکرہ کرتا، یا انسانون کی صرف آنکھ کو محور استدلال بناتا اور اس میں پوشیدہ لاکھوں باریک خطوط کا ذکر کرتا اور اس میں موجود خون کے سفید و سرخ ذرّات کے بارے میں کہتا،یا انسان کے مغزسراور اس کے لاکھوں پیچیدہ زاویوں سے پردہ اٹھاتا، یا اسباب قوت ہاضمہ یا انواع و اقسام کی بیماریوں اور اس کے علاج کا ذکر کرتا جیسا کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں:

کیوں خدا وند عالم نے جسم انسانی کہ جس کواس نے پیدا کیا ہے اس سے مربوط ہے علم و دانش کو قرآن میں کچھ نہیںبیان کیا؟آیااس طرح کے موارد قرآن میں نقص اور کمی کے مترادف نہیں ہیں؟

خدا کی پناہ ! آپ کیا فکر کرتے ہیں؟ اگر خصوصیات خلقت جن کا ذکر کیا گیا ،قرآن کریم میں بیان کی جائیں تو کون شخص ان کے کشف سے پہلے انہیں درک کر سکتا تھا؟ اور اگر انبیاء لوگوں سے مثلاً کہتے: جس زمین پر ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں وہ خورشیدکے ارد گرد چکر لگاتی ہے اور خورشید زمین سے ۲۳ ملین میل کے فاصلہ پر واقع ہے؛ یہ منظومہ شمسی راہ شیر نامی کہکشاں کے پہلو میں واقع ہے کہ اس کہکشاںمیں ۳۰ کروڑ ستارے ہیں اور ان ستاروں کی پشت پر سینکڑوں نامعلوم عوالم ہیں اور پیچیدہ گڑھے پائے جاتے ہیں وغیرہ۔

آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر امتیںاس طرح کی باتیں پیغمبروں سے سنتیں تو انبیاء کوکیا کہتیں؟ جبکہ وہ لوگ پیغمبروںکو صرف اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کی توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے، دیوانہ کہتے تھے جیساکہ خدا وند عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے:

( کذبت قبلهم قوم نوح فکذبوا عبدنا و قالوا مجنون )

____________________

(۱)غاشیہ۱۷۔۲۲

(۲)واقعہ۷۰۔۶۸و۷۴

۸۲

۱۔اس سے پہلے قوم نوح نے ان کی تکذیب کی؛یہاں تک کہ ہمارے بندے نوح کو دروغگو سمجھااور دیوانہ کہا۔( ۱ )

۲۔( کذلک ماا تی الذین من قبلهم من رسولٍ اِلاقالوا ساحراومجنون )

اس طرح سے ان سے قبل کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے اسے ساحر اور مجنون کہا۔( ۲ )

۳۔( ویقولون انه لمجنون )

وہ (کفار و مشرکین)کہتے ہیں وہ (خاتم الانبیائ) دیوانہ ہے۔( ۳ )

اب ان خیالات اور حالات کے باوجود جو گز شتہ امتوں کے تھے اگر اس طرح کی باتیں بھی پیغمبروں سے سنتے تو کیا کہتے ؟اصولی طور رپر لوگوںکی قرآن کے مخاطب لوگوںکی کتنی تعداد تھی کہ ان علمی حقائق کو سمجھ سکتی ، ایسے حقائق جن کو دانشوروں نے اب تک کشف کیا ہے اور اس کے بعد بھی کشف کریں گے کس طرح ان کے لئے قابل فہم اور درک ہوتے؟

اس کے علاوہ جن مسائل کو آج تک دانشوروں نے کشف کیا ہے کس حد تک علمی مجموعہ میں جگہ پاتے ہیں؟ جبکہ خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ یہ کتاب لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو۔ اور لوگوںکو اس بات کی تعلیم دے کہ وہ کس طرح اپنے خدا کی بندگی کریں؛ اوراس کے اوامر اور نواہی کے پابند ہوں اور کس طرح دیگر لوگوں سے معاملہ کریں، نیز جن چیزوں کو خدا نے ان کے لئے خلق کیا ہے اور ان کا تابع بنا یا ہے کس طرح راہ سعادت اور کمال میں ان سے استفادہ کریں۔

خدا وند عالم نے قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیاکہ آب و ہوا، زمین ، حیوان اور نبات کی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کرے بلکہ یہ موضوع انسانی عقل کے فرائض میں قرار دیا یعنی ایسی عقل جسے خدا وند عالم نے عطا کی ہے۔ تاکہ ان تمام چیزوں کی طرف بوقت ضرورت، مختلف حالات اور مسائل میں انسانوں کی ہدایت کرے۔

ایسی عقل کے باوجود جو انسان کو خدا نے بخشی ہے انسان اس بات کا محتاج نہیں تھا کہ خدا وند عالم قرآن کریم میں مثلاً ''ایٹم'' کے بارے میں تعلیم دے، بلکہ انسان کی واقعی ضرورت یہ ہے کہ خدا وند عالم اس طرح کی قوت سے استفادہ کرنے کے طور طریقے کی طرف متوجہ کرے تاکہ اسے کشف اور اس پر قابو پانے کے

____________________

(۱)قمر۹

(۲)ذاریات۵۲(۳)قلم۵۱

۸۳

بعداس کو انسانی فوائد کے لئے روبہ کار لائے ، نہ یہ کہ نوع بشر اور حیوانات کی ہلاکت اور نباتات کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔

لہٰذا واقعی حکمت وہی ہے جو قرآن کریم نے ذکر کی ہے اور استدلال اور برہان کے موقع پر مخلوقات کی اقسام بیان کی ہے۔

البتہ یہ بات علمی حقائق کی جانب قرآن کریم کے اشارہ کرنے سے منافات نہیں رکھتی ہے ،وہ حقائق جو نزول قرآن کے بعد کشف ہوئے ہیں اور قرآن نے کشف سے پہلے ہی ان کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ قرآن کریم خالق ہستی اور پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اور جس طرح خاتم الاوصیاء حضرت علی نے بیان کیا ہے کہ عجائب قرآن کی انتہا نہیں ہے ۔

یہ قرآ ن کے عجائب میں سے ہے کہ اس میں جہاں بھی مخلوقات کی خصوصیتیں بیان ہوئی ہیں وہ ان علمی حقائق سے کہ جو دانشوروں کے ذریعہ پوری تاریخ اور ہر زمانے میں کشف ہوئے ہیں، مخالف نہیں ہیں ۔

۲۔ د وسرے سوال کا جواب

بعض دانشور گروہ نے بعض ادوار میں قرآن کریم میں مذکور کچھ چیزوں کے بارے میں تاویل و توجیہ کی ہے اوران غلط و بے بنیاد نظریات سے جو ان کے زمانے میں علمی حقائق سمجھے جاتے تھے تطبیق دی ہے؛جیسے ہفت گانہ آسمانوں کی توجیہ ہفت گانہ افلاک سے کی ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نزدیک مشہور نظر یہ تھا ، اور یہ ، بطلیموس جو تقریباً ۹۰ ء سے ۱۶۰ ء کے زمانے میں گز را ہے اس کے نظریہ کے مطابق ہے :

بطلیموس کا نظریہ

آسمان اور زمین گیند کی شکل کے ہیں کہ بعض ان میں سے پیازکے تہہ بہ تہہ چھلکوں کے مانندہیں ان کرّات کا مرکز زمین ہے کہ جس کا ۳۴ حصہ پانی سے تشکیل پایا ہے ، زمین کا بالائی حصہ ہو ا ہے اور اس کے اوپر آگ ہے ان چار عنصر پانی ، مٹی، ہوا اور آگ کو عناصر اربعہ کہتے ہیں، ان کے اوپر فلک قمر ہے، جو فلک اول ہے ۔ اس کے بعد فلک عطارد، پھر فلک زہرہ، پھر خورشید پھر مر یخ اس کے بعد مشتری اور اس کے بعد زحل ہے ان افلاک کے ستاروںکو سیارات سبعہ کہتے ہیں،فلک ثوابت کہ جن کو بروج کہتے ہیں وہ ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے بعد اطلس نامی فلک ہے جس میں کوئی ستارہ نہیں ہے ؛ ان دانشوروںنے ان ساتوں آسمانوںکی ہفت گانہ سیارات کے افلاک سے ،کرسی کی فلک بروج سے نیز عرش کی نویں فلک سے توجیہ و تاویل کی ہے ۔

۸۴

ان لوگوں نے اسی طرح قرآن و حدیث میں مذکور بعض اسلامی اصطلاحات کی بے بنیادفلسفیانہ نظریوں اور اپنے زمانے کے نجومی خیالوں سے توجیہ اور تاویل کی ہے اور چونکہ ان بعض نظریات میں ایسے مطالب پائے جاتے ہیں کہ جو قرآن کریم کی تصریح کے مخالف ہیں؛ انہوںنے کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کے نظریات کو ان نظریوں کے ساتھ جمع کر دیں، مرحوم مجلسی نے اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

جان لو! کہ یہاں پر ایک مشہور اعتراض ہے اور وہ یہ ہے کہ: علم ہیئت کے تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آسمان اول پر چاند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمام گردش کرنے والے ستارے ایک فلک میں گردش کر رہے ہیں اور ثابت ستارے آٹھویں فلک پر ہیں، جبکہ قرآن کریم کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سارے کے سارے یا اکثر ،آسمان دنیا پر پائے جاتے ہیں( ۱ ) ، اس کے بعد وہ دئے گئے جواب کو ذکر کرتے ہیں۔

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ آیت اور اس کی تفسیر یکے بعد دیگرے ذکر کی جائے گی لہٰذا مرحوم مجلسی کی نقل کردہ دلیلوں سے یہاں پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اور صرف اس زمانے کے عظیم فلسفی میرباقر داماد کی بات کو حدیث کی تاویل کے ضمن میں ذکر کررہے ہیں۔

ایک غیر صحیح تاویل اور بیان

سید داماد(میر باقر داماد) ''من لا یحضرہ الفقیہ'' کے بعض تعلیقات میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: عرش وہی فلک الافلاک ہے اور جو امام نے اسے مربع (چوکور) جانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلک کی دورانی حرکت کی وجہ سے اس میں ایک کمر بند اور دو قطب پید اہوتے ہیں؛ اور ہر بڑا دائرہ جو کرہ کے اردگرد کھینچا جاتا ہے اس کرہ کو نصف کر دیتا ہے اور فلک بھی کمر بندی اور دائرہ ای حرکت کی وجہ سے جوا ن دو قطب سے گزرتا ہے چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ اور عرش جو کہ دور ترین فلک ہے اور کرسی جو کہ ثابت ستاروں کا فلک ہے یہ دونوں بھی نصف النہار ،منطقة البروج اور قطبوں سے گزرتا ہے ، چار حصوں میں تقسیم ہوجاتے

ہیں اور دائرہ افق جو فلک اعلی کی سطح پر ہے نصف النہار اور مشرق و مغرب کے دائرہ کی وجہ سے چار حصوں میں

____________________

(۱) ولقد زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ، صافات ۶.

۸۵

تقسیم ہوتا ہے اور اس کا ہر حصہ اس مجموعہ میں اس طرح واقع ہوتا ہے کہ چہار گانہ جہتوں( جنوب و شمال ، مشرق و مغرب) کو معین کر دیتا ہے ۔ فلسفیوں نے فلک کو انسان کے مانند فرض کیا ہے جو اپنی پشت کے بل سویا ہوا ہے اس کا سر شمال کی طرف، پائوں جنوب کی طرف داہنا ہاتھ مغرب اور بایاں ہاتھ مشرق کی طرف نیز تربیع اور تسدیس دائرہ کی ابتدائی شکلیں ہیںجو اپنی جگہ پر بیان کی گئی ہیںکہ تربیع ان دو قطروں سے جو خود ایک دوسرے پرقائم ہیں اور ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیںحاصل ہوتی ہے اور تسدیس نصف قطر سے، اس لئے کہ۶۱ ،کا نصف قطرکے برابر ہے اور ۴۱ دور ایک مکمل قوس ہے اور جتنا ۴۱سے کم ہوگا تو باقی بچا ہوا ۴۱ کی حد تک پہنچنے تک اس کا کامل اور پورے ہونے کا باعث بنے گا۔

اور فلک اقصیٰ( آخری فلک) مادہ ، صورت اور عقل کا حامل ہے کہ وہی عقل اول ہے اور اسے عقل کل بھی کہاجاتا ہے اور نفس کا حامل ہے کہ وہی نفس اول ہے اور اسے نفس کل بھی کہتے ہیں او ریہ نفس،مربع ہے جو نظام ہستی کے مربعات میں سب سے پہلا مربع ہے ۔

یہاں پر دوسری جہتیںبھی پائی جاتی ہے جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور جو چاہتا ہے کہ اسے سمجھے وہ مزید کوشش کرے؛ مرحوم مجلسی کہتے ہیں کہ ان توجیہات کا قوانین شرع اور اہل اسلام کی اصطلاحوں سے موافق نہ ہونا پوشیدہ نہیں ہے ۔( ۱ )

اس کے علاوہ بعض دانشوروںنے قرآن کریم کی تفسیر اسرائیلیات سے کی ہے، بعض لوگوں نے

ان جھوٹی روایات سے جن کی نسبت پیغمبر کی طرف دی گئی ہے بغیر تحقیق و بررسی کے قرآن کی تفسیر کی ہے ؛اور یہی چیز باعث بنی کہ قرآن اور اسلامی اصطلاحات و الفاظ کا سمجھناقرآن و حدیث کی تلاوت کرنے والوں پر پوشیدہ اور مشتبہ ہو گیا ہے ہم نے بعض ان غلط فہمیوں کو کتاب ''قرآن کریم اوردو مکتب کی روایات '' میں ''قرآن رسول کے زمانے میں اور اس کے بعد '' کے حصہ میں ذکر کیا ہے ۔

بحث کا خلاصہ

اول: سماء : آسمان ، لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہیںاوپر سے ڈھانپ لے اور ہر چیز کا آسمان اس

کا اوپری حصہ اوراس کی چھت ہے اور قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ مفرد استعمال ہوا ہے تو کبھی تو اس کے معنی

____________________

(۱) بحار : ۵۸ ۵۔ ۶.

۸۶

اس زمین کے ارد گرد فضا کے ہیں جیسے :

۱۔( الم یروا الیٰ الطیر مسخرات فی جو السمائ )

کیا انہوں نے فضا میں مسخر پرندوں کو نہیں دیکھا؟!( ۱ )

۲۔( و انزل من السماء مائً ) اس نے آسمان (فضا)سے پانی نازل کیا۔( ۲ )

اور کبھی اس سے مراد ستارے اور بالائی سات آسمان ہیں ، جیسے:

( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اورترتیب سے سات آسمان بنا ئے۔( ۳ )

اور جہاں پر لفظ سماء جمع استعمال ہوا ہے اس سے مراد ساتوں آسمان ہیں جیسا کہ گز شتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔

دوسرے: آغاز خلقت: خدا وند عالم خود خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین کی خلقت سے پہلے پانی کی تخلیق کی اور گز شتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے زمین کو اسی پانی سے خلق کیا ہے اور آسمان کو اس زمین کے پانی اور اس کی بھاپ سے خلق کیا ہے ۔ اور زمین و آسمان کے تخلیقی مراحل اور اس میں موجود بعض موجودات جس کے ضمن میں انسان کی ضروریات زندگی بھی شامل ہیںچھ دور میں کامل ہوئے ہیں؛ اور خداوند عالم نے تمام نورانی ستاروں کو آسمان دنیا کے نیچے قرار دیا ہے اور جو اخبار خلقت سے متعلق خدا وند عالم نے ہمیں دئے ہیں اتنے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کی لئے ضروری ہیں اور عقل انسانی اس سے زیادہ ابتدائے خلقت سے متعلق مسائل اور کہکشائوں اور سیاروں کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتی ہے۔

بعض دانشوروںنے خود کو زحمت میں مبتلا کیا ہے اور قرآن میں آسمان اور ستاروں کی توصیف کے سلسلہ میں اپنے زمانے میں معلوم مسائل سے ان کو علمی تصور کرتے ہوئے توجیہ و تاویل کی ہے ؛ جیسے آسمانوںکے معنی کی تاویل ہفت گانہ آسمان سے کہ اسے قطعی اور یقینی مسائل خیال کرتے تھے، لیکن آج اس کا باطل ہونا واضح اور آشکار ہے ۔

اسی طرح بعض آیتوں کی اسرائیلی روایتوں سے تفسیر کی ہے ایسی رو ش اس وقت بھی مسلمانوں میں رائج ہے اور اس سے اسلامی معاشرے میں غلط نظریئے ظاہر ہوئے کہ ان میں سے بعض کی آئندہ بحثوں میں خدا وند عالم کی تائید سے تحقیق و بررسی کریں گے۔

____________________

(۱)نحل۷۹(۲)بقرہ۲۲(۳)بقرہ۲۹

۸۷

۳۔ چوپائے اور چلنے والی مخلوق

خدا وند عالم ان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے :

۱۔( والله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ اربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیء قدیر )

خدا وند عالم نے چلنے والی ہرمخلوق کو پانی سے خلق کیاہے ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتی ہیں اور کچھ دو پیر وںسے چلتی ہیں اورکچھ چار پیروں پر چلتی ہے ، خدا جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے ، کیونکہ خدا وند عالم ہر چیز پر قادر اور توانا ہے ۔( ۱ )

۲۔( وما من دابةٍ فی الارض ولا طائرٍ یطیر بجناحیه الا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ثم الیٰ ربهم یحشرون )

زمین پر چلنے والی ہر مخلوق اور پرندہ جو اپنے دو پروں کے سہارے اڑتا ہے سبھی تمہاری جیسی امت ہیںہم نے اس کتاب میں کچھ بھی فروگز اشت نہیں کیا ہے، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے۔( ۲ )

۳۔( ولِلّٰه یسجد ما فی السمٰوات وما فی الارض من دابة )

زمین و آسمان میں جتنے بھی چلنے والے ہیں خدا وند عالم کا سجدہ کرتے ہیں۔( ۳ )

کلمہ کی تشریح:

دابة: جنبندہ، صنف حیوانات میں ہر اس حیوان کو کہتے ہیں جو سکون و اطمینان کے ساتھ راہ چلتا ہے

____________________

(۱)نور۴۵

(۲)انعام۳۸

(۳)نحل۴۹

۸۸

اور قرآن کریم میں دابة سے مراد روئے زمین پر موجود تمام جاندار(ذی حیات)ہیں۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق کیا ہے، زمین میں کوئی زندہ موجود اور ہوا میں کوئیپرندہ ایسا نہیں ہے جس کا گروہ اور جرگہ آدمیوںکے مانند نہ ہو، چیونٹی خود ایک امت ہے اپنے نظام زندگی کے ساتھ، جس طرح انسان ایک نظام حیات اور پروگرام کے تحت زندگی گز ارتا ہے ، اسی طرح پانی میں مچھلی اور زمین پر رینگنے والے اور اس کے اندر موجود حشرات ،کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانورہیں انسانوں ہی کی طرح سب، امتیں ہیں کہ ہر ایک اپنے لئے ایک مخصوص نظام حیات کی مالک ہے ہم خداوندعالم کی تائید اور توفیق کے سہارے ''ہدایت رب العالمین'' کی بحث میں اس طرح کی ہدایت کی کیفیت کو کہ اس نے تمام چلنے والی ( ذی روح )امتوں کے لئے ایک خاص نظام حیات معین فرمایا ہے؛ پیش کریں گے۔

۸۹

۴۔ جن اور شیاطین

الف۔ جن ّو جانّ

جِنّ:. مستور اور پوشیدہ''جَنَّ الشیء یا جَنَّ عَلیَ الشیئِ'' ، یعنی اسے ڈھانپ دیا، چھپا دیا، پوشیدہ کر دیا، جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( فلما جن علیه اللیل ) جب اسے شب کے پردے نے ڈھانپ لیا۔( ۱ )

لہٰذا جن ّو جانّ دونوں ہی درج ذیل تشریح کے لحاظ سے ناقابل دید اور پوشیدہ مخلوق ہیں۔

۱۔( وخلق الجان من مارج من نار )

جن کو آگ کے مخلوط اور متحرک شعلوں سے خلق کیا۔( ۲ )

۲۔( والجان خلقناه من قبل من نارالسموم )

اور ہم نے جن کو انسان سے پہلے گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے خلق کیا۔( ۳ )

ب۔ اس سلسلے میں کہ یہ لوگ انسانوں کی طرح امتیں ہیں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( فی اممٍ قد خلت من قبلهم من الجن والأِنس )

وہ لوگ ( جنات) اپنے سے پہلے جن و انس کی گمراہ امتوں کی سر نوشت اور ان کے انجام سے دوچار ہوگئے۔( ۴ )

ج۔ سلیمان نبی نے انہیں اپنی خدمت گزاری کے لئے مامور کیا ہے، اس سلسلے میں فرماتا ہے :

( و من الجن من یعمل بین یدیه باِذن ربه و من یزغ منهم عن امرنا نذقه من

____________________

(۱)انعام ۷۶

(۲) الرحمن ۱۵

(۳) حجر ۲۷

(۴)فصلت۲۵

۹۰

عذاب السعیر یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیاتٍ )

جنوں کا بعض گروہ سلیمان کے سامنے ان کے پروردگار کی اجازت سے کام کرتا تھا؛ اور ان میں سے جوبھیہمارے حکم کے برخلاف کرے گا ، اسے جھلسا دینے والی آگ کا مزہ چکھا ئیں گے؛ وہ لوگ سلیمان کے تابع فرمان تھے اور وہ جو چاہتے تھے وہ بناتے تھے جیسے ، عبادت خانے ، مجسمے ، کھانے کے بڑے بڑے ظروف جیسیحوض اور غیر منقول( اپنی جگہ سے منتقل نہ ہو نے والی) دیگیں وغیرہ۔( ۱ )

د۔ سلیمان کے لشکر میں جن بھی شامل تھے اس سلسلے میں فرماتا ہے کہ وہ ایسے تھے کہ فلسطین اور یمن کے درمیان کے فاصلہ کوسلیمان نبی کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی طے کر کے واپس آجایا کرتے تھے۔

خدا واند عالم ان میں سے ایک کی سلیمان سے گفتگو کی یوں حکایت کرتا ہے :

( قال عفریت من الجن انا آتیک به قبل ان تقوم من مقامک و انی علیه لقوی امین )

جنوں میں سے ایک عفریت (دیو)نے کہا: میں اس تخت کوآپ کے پاس،آپ کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا اور میں اس کام کے لئے قوی اورامینہوں۔( ۲ )

ھ ۔ جن غیب سے بے خبر اور ناآگاہ ہیں اس بابت فرماتا ہے۔

( فلما قضینا علیه الموت مادلهم علیٰ موته الا دابة الارض تاکلمنسأته فلما خرَّ تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب ہم نے سلیمان کو موت دی تو کسی نے ان کو مرنے کی خبر نہیں دی سوائے دیمک کے اس نے سلیمان نبی کے عصا کو کھا لیااور وہ ٹوٹ کر زمین پر گرگیا۔ لہٰذا جب زمین پر گر گئے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب کی خبر رکھتے تو ذلت و خواری کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔( ۳ )

و ۔ اورحضرت خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے ان کے عقائد اور کردار کو انہیں کی زبانی بیان فرماتا ہے :

۱۔( و انه کان یقول سفیهنا علٰی الله شططاً )

اور ہمارا احمق ( ابلیس) خدا وند عالم کے بارے میں ناروا باتیں کہتاتھا۔( ۴ )

۲۔( و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احداً )

____________________

(۱)سبا۱۲۔۱۳(۲)سورہ ٔ نمل : ۳۹.(۳)سبا۱۴(۴)جن۴

۹۱

بیشک ان لوگوں نے ویسے ہی خیال کیاجیسے تم خیال کرتے ہوکہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔( ۱ )

۳۔( وانه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقاً )

یقینا بعض انسانوںنے بعض جنوں کی پناہ چاہی اور وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بنے۔( ۲ )

ز۔ خاتم الانبیا کی بعثت کے بعد ان کی سرقت سماعت( چوری چھپے بات اچکنے ) کے بارے میں خود انہیں کی زبانی فرماتا ہے :

۱۔( وانا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً )

اور ہم نے آسمان کی جستجو کی؛ تو سبھی کو قوی الجثہ محافظوں اور شہاب کے تیروں سے لبریز پایا۔( ۳ )

۲۔( واِنا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد له شهاباً رصداً )

اور ہم اس سے پہلے خبریں چرانے کے لئے آسمانوں پربیٹھ جاتے تھے، لیکن اس وقت اگر کوئی بات چرانے کی کوشش کرتاہے تو وہ ایک شہاب کو اپنے کمین میں پاتاہے۔( ۴ )

ح۔ جنوںکے اسلام لانے کے بارے میں فرماتا ہے : ان لوگوںنے کہا:

۱۔( و انا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قدداً )

اور ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں۔( ۵ )

۲۔( و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فاُولائک تحروا رشداً )

ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہے اوربعض ظالم ؛ جو اسلام قبول کرے وہ راہ راست کا سالک ہے۔( ۶ )

ب۔ شیطان

شیطان، انسان جنات اور حیوانات میں سے ہر سرکش، طاغی اور متکبر کو کہتے ہیں۔

خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناها للناظرین٭ و حفظناها من کل شیطان

____________________

(۱)جن۳(۲)جن۶(۳)جن ۸(۴)جن۹(۵)جن۱۱(۶)جن۱۴

۹۲

رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعه شهاب مبین)

اور ہم نے آسمان میں برج قرار دئیے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا اور اسے ہر شیطان رجیم اور راندہ درگاہ سے محفوظ کیا؛ سوائے ان کے جواستراق سمع کرتے ہیں او رچوری چھپے باتوں کو سنتے ہیں تو شہاب مبین ان کا پیچھا کرتا ہے اور بھگاتا ہے ۔( ۱ )

۲۔( انا زیّنا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطانٍ مارد ٭لا یسمعون الیٰ الملاء الأَعلیٰ و یقذفون من کل جانبٍ٭ دحوراً ولهم عذاب واصب٭ الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی تاکہ اسے ہرطرح کے شیطان رجیم سے محفوظ رکھیں وہ لوگ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے حملہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ شدت کے ساتھ الٹے پائوں بھگا دئے جاتے ہیں اور ان کیلئے ایک دائمی عذاب ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایک لحظہ اور آن کے لئے استراق سمع کے لئے آسمان سے نزدیک ہو تے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے۔( ۲ )

۳۔( ولقد زیّنا السماء الدنیا بمصابیح و جعلنا ها رجوماً للشیاطین واعتدنا لهم عذاب السعیر ) ( ۳ )

ہم نے آسمان دنیا کو روشن چراغوں سے زینت بخشی اور انہیں شیاطین کو دور کرنے کا تیر قرار دیا اور ان کے لئے ڈھیروں عذاب فراہم کئے۔

۴۔( وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس و الجن یوحی بعضهم الیٰ بعض زحزف القول غروراً ولو شاء ربک ما فعلوه فذرهم وما یفترون٭و لتصغیٰ الیه افئدة الذین لا یؤمنون بالآخرة و لیرضوه ولیقترفوا ما هم مقترفون )

اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیاطین جن و انس میں سے دشمن قرار دیا، وہ لوگ خفیہ طور پر فریب آمیز اور بے بنیاد باتیں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو فریب دیں اور اگر پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہیں کرتے؛لہٰذا انہیں ان کی تہمتوں کے ساتھ ان کے حال پر چھوڑ دو! نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت سے انکار کرنے والوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان سے راضی ہو جائیں گے؛اور جو چاہیںگے گناہ انجام دیں گے۔( ۴ )

____________________

(۱)حجر۱۶۔۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)ملک۵(۴)انعام۱۱۲۔۱۱۳

۹۳

۵۔( انا جعلنا الشیاطین اَولیاء للذین لا یؤمنون )

ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست قرار دیا ہے جو بے ایمان ہیں۔( ۱ )

۶۔( ان المبذرین کانوا اِخوان الشیاطین و کان الشیطان لربه کفوراً )

اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان خدا وند عالم کابہت ناشکرا ہے۔( ۲ )

۷۔( ولا تتبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدو مبین، انما یامرکم بالسوء و الفحشاء و ان تقولوا علٰی الله ما لا تعلمون )

شیطان کا اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ، وہ تمہیںصرف فحشا ء اور منکرات کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ جس کو تم نہیں جانتے ہو خدا کے بارے میں کہو۔( ۳ )

۸۔( الشیطان یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء والله یعدکم مغفرة منه و فضلاً و الله واسع علیم )

شیطان تمہیں فقر اور تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے لیکن خدا تمہیں بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، یقینا خدا صاحب وسعت و علم ہے ۔( ۴ )

۹۔( و من یتخذ الشیطان ولیاً من دون الله فقد خسر خسراناً مبینا٭ یعدهم و یمنیهم وما یعدهم الشیطان الا غروراً )

جو بھی خد اکے بجائے شیطان کو اپنا ولی قرار دیتا ہے ، تووہ کھلے ہوئے (سراسر) گھاٹے میں ہے، وہ انہیںوعدہ دلاتا اور آرزو مندبناتاہے جبکہ اس کا وعدہ فریب اور دھوکہ دھڑی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔( ۵ )

۱۰۔( انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوة و البغضاء فی الخمر و المیسر و یصدکم عن ذکر الله وعن الصلوة فهل انتم منتهون )

شیطان تمہارے درمیان شراب، قمار بازی کے ذریعہ صرفبغض و عداوت ایجاد کرنا چاہتا ہے اور ذکر خدا اور نماز سے روکنا چاہتا ہے ، آیا تم لورک جاؤ گے؟( ۶ )

۱۱۔( یا بنی آدم لایفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنهما لبا سهما

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)اسرائ۲۷(۳)بقرہ۱۶۸۔۱۶۹(۴)بقرہ ۲۶۸.(۵)نسائ۱۱۹۔۱۲۰(۶)مائدہ۹۱

۹۴

لیریهما سوء اتهما انه یراکم هو وقبیله من حیث لا ترونهم) ( ۱ )

اے آدم کے فرزندو! شیطان تمہیں دھوکہ نہ دے ، جس طرح تمہارے والدین کو جنت سے باہر نکالا اور ان کے جسم سے لباس اتروا دیا تاکہ ان کی شرمگاہ کوانہیں دکھلائے ، کیونکہ وہ اور اس کے ہمنوا ایسی جگہ سے تمہیں دیکھتے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

ج۔ ابلیس

الف۔ ابلیس لغت میں اس شخص کے معنی میں ہے جو حزن و ملال، غم و اندوہ، حیرت اور ناامیدی کی وجہ سے خاموشی پر مجبور؛ اور دلیل و برہان سے عاجز ہو۔

خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :

( ویوم تقوم الساعة یبلس المجرمون )

جب قیامت آئے گی تو گناہگار اور مجرم افراد غم و اندوہ ، یاس اور نامیدی کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔( ۲ )

ب۔ قرآن کریم میں ابلیس اس بڑے شیطان کا'' اسم علم'' ہے جس نے تکبر کیا اور سجدہ آدم سے سرپیچی کی؛ قرآن کریم میں لفظ شیطان جہاں بھی مفرد اور الف و لام کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہی ابلیس ہے ۔

ابلیس کی داستان اسی نام سے قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں ذکر ہوئی ہے:

۱۔( اِذ قلنا للملائکة اسجدو لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه افتتخذونه و ذریته اولیاء من دونی و هم لکم عدوبئس للظالمین بدلاً )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو! تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جوقوم جن سے تھا اور حکم الٰہی سے خارج ہو گیا ! آیا اسے اور اس کی اولاد کو میری جگہ پر اپنے اولیاء منتخب کرتے ہو جب کہ وہ لوگ تمہارے دشمن ہیں؟ ستمگروں کے لئے کتنا برابدل ہے ۔( ۳ )

۲۔( ولقد صدق علیهم ابلیس ظنه فأتبعوه الا فریقاً من المؤمنین وما کان له علیهم من

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)روم۱۲(۳)کہف۵۰

۹۵

سلطانٍ...)

یقینا ابلیس نے اپنے گمان کو ان کے لئے سچ کر دکھایا اور سب نے اس کی پیروی کی سواء کچھ مومنین کے کیونکہ وہ ان پر ذرہ برابر بھی تسلط نہیں رکھتا۔( ۱ )

اس کی داستان دوسری آیات میں شیطان کے نام سے اس طرح ہے :

۱۔( فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوأتهما...و ناداهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة واقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین )

پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا تاکہ ان کے جسم سے جو کچھ پوشیدہ تھا ظاہر کرے اور ان کے رب نے انہیں آواز دی کہ کیا تمہیں میں نے اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟! اور میں نے نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!( ۲ )

۲۔( الم اعهد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انه لکم عدو مبین )

اے آدم کے فرزندو! کیا میں نے تم سے عہد نہیںلیا کہ تم لوگ شیطان کی پیروی نہ کروکیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟!( ۳ )

۳۔( ان الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدواً انما یدعوا حزبه لیکونوا من اصحاب السعیر ) ( ۴ )

یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا اسے دشمن سمجھو وہ صرف اپنے گروہ کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اہل نار ہوں!

کلموںکی تشریح

۱۔ مارج: مرج مخلو ط ہونے کے معنی میں ہے اور مارج اس شعلہ کو کہتے ہیں جو سیاہی آتش سے مخلوط ہو۔

۲۔ سموم: دو پہر کی نہایت گرم ہوا کو کہتے ہیں، اس وجہ سے کہ زہر کے مانند جسم کے سوراخوں کے اندر اثر کرتی ہے ۔

۳۔ یزغ : منحرف ہوتا ہے ،و من یزغ منهم عن امرنا ، یعنی تمام ایسے لوگ جو راہ خدا سے

____________________

(۱)سبا۲۰۔۲۱

(۲)اعراف۲۰۔۲۲

(۳)یس۶۰

(۴)فاطر ۶.

۹۶

منحرف ہوتے ہیں۔

۴۔ محاریب: جمع محراب، صدر مجلس یا اس کی بہترین جگہ کے میں ہے یعنی ایسی جگہ جو بادشاہ کو دوسرے افراد سے ممتاز کرتی ہے وہ حجرہ جو عبادت گاہ کے سامنے ہوتا ہے ، یاوہ مسجدیںجہاں عبادت ہوتی ہے ۔

۵۔ جفان : جفنہ کی جمع ہے ،کھانا کھانے کا ظرف اور برتن۔

۶۔ جواب:کھانا کھانے کے بڑے بڑے ظروف کو کہتے ہیں جو وسعت اور بزرگی کے لحاظ سے حوض کے مانند ہوں۔

۷۔ راسیات:راسیہ کی جمع ہے ثابت اور پایدار چیز کو کہتے ہیں۔

۸۔ عفریت: (دیو)جنوںمیں سب سے مضبوط اور خبیث جن کو کہتے ہیں۔

۹۔ رصد : گھات میں بیٹھنا، مراقبت کرنا، راصد و رصد یعنی پاسدار و نگہبان ''رصدا'' آیت میں کمین کے عنوان سے محافظ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ طرائق: طریقہ کی جمع ہے یعنی راہ، روش اور حالت خواہ اچھی ہو یا بری۔

قدداً: قدة کی جمع ہے جو ایسے گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے جس کے خیالات جدا جدا ہوں اور طرائق قدداً یعنی ایسی پارٹی اور گروہ جس کے نظریات الگ الگ ہوں اور سلیقے فرق کرتے ہوں۔

۱۱۔ قاسطون:قاسط کی جمع ہے اور ظالم کے معنی میں ہے ، قاسطان جن ،ان ستمگروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔

۱۲۔ رشد: درستگی اورپائداری ؛ضلالت و گمراہی سے دوری۔

۱۳۔سفیہ: جو دین کے اعتبار سے جاہل ہو؛ یابے وقوف اوربے عقل ہو۔

۱۴۔ شطط: افراط اور زیادہ روی؛ حق سے دوررہ کر افراط اور زیادہ روی کو کہتے ہیں۔( وقلنا علیٰ الله شططاً ) یعنی حق سے دور باتوں کے کہنے اور خدا کی طرف ظالمانہ نسبت کے دینے میں ہم نے افراط سے کام لیا۔

۱۵۔ یعو ذون:پناہ مانگتے ہیں، یعوذبہ ، اس کی پناہ چاہتے ہیں اور خود کو اس سے منسلک کرتے ہیں۔

۱۶۔ رھقاً:طغیاناً و سفھاً ''زادوھم رھقا''یعنی ان کی سرکشی ، بیوقوفی اورذلت و خواری میں اضافہ ہوا۔

۱۷۔ دابةالارض:زمین پر چلنے والی شۓ ، دابة تمام ذی روح کا نام ہے خواہ نر ہوں یا مادہ، عاقل ہوں یا غیر عاقل لیکن زیادہ تر غیر عاقل ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر ''دابة الارض'' سے مراددیمک ہے جو لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔

۹۷

۱۸۔ منساتہ:اس کا عصا، عرب جس لکڑی سے جانوروںکو ہنکاتے ہیں اس کو منساة کہتے ہیں۔

۱۹۔ غیب:غیر محسوس، یعنی ایسی چیز جو حواس کے ذریعہ قابل درک نہ ہو اور حس کی دسترس سے باہر ہو یا پوشیدہ ہو؛ جیسے : خدا وند خالق اور پروردگار کہ جس تک انسان اپنی عقل اور تدبیرکے سہارے اسباب و مسببات میں غور و فکر کر کے پہنچتا ہے اور اسے پہچانتا ہے نہ کہ حواس کے ذریعہ اس لئے کہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں اس کی بے مثال ذات حس کی دسترس سے باہر اور حواس اس کے درک سے عاجز اور بے بس ہیں، نیز جو چیزیں پوشیدہ اور مستور ہیں جیسے وہ حوادث جو آئندہ وجود میں آئیں گے یا ابھی بھی ہیں لیکن ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارے حواس سے دور ہیں، یا جو کچھ انبیاء کی خبروں سے ہم تک پہنچا ہے ،یہ دونوں قسمیں یعنی : وہ غیب جس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور حواس کے دائرہ سے باہر ہیں،یاوہ غیب جوزمان اور مکان کے اعتبار سے پوشیدہ ہے یا وہ خبریں جو دورو دراز کے لوگوں سے ہم تک پہنچتی ہیں ساری کی ساری ہم سے غائب اور پوشیدہ ہیں۔

۲۰۔ رجوم: رجم اور رُجْم کی جمع ہے یعنی بھگانے اور دور کرنے کا ذریعہ

۲۱۔زخرف:زینت، زخرف القول: باتوںکو جھوٹ سے سجانا اور آراستہ کرنا۔

۲۲۔ یوحی : یوسوس، ایحاء یہاں پر وسوسہ کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے ۔

۲۳۔ غرور: باطل راستہ سے دھوکہ میں ڈالنا اور غلط خواہش پیدا کرنا۔

۲۴۔ یقترف ومقترفون: یقترف الحسنة او السیئة، یعنی حاصل کرتا ہے نیکی یا برائی، مقترف ، یعنی : کسب کرنے اور عمل کرنے والا۔

۲۵۔مبذرین : برباد کرنے والے ، یعنی جو لوگ اپنے مال کو اسراف کے ساتھ عیش و عشرت میں صرف کرتے ہیں۔ اور اسے اس کے مصرف کے علاوہ میں خرچ کرتے ہیں۔

۲۶۔ خطوات الشیطان: شیطان کے قدم، خطوہ یعنی ایک قدم،( ولا تتبعوا خطوات الشیطان ) یعنی شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور اس کے وسوسوں کی جانب توجہ نہ کرو۔

۲۷۔ فحشائ:زشت اور بری رفتار و گفتار اور اسلامی اصطلاح میں نہایت برے گناہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۸۔ مَیْسِر:قمار ( جوا) زمانہ جاہلیت میں عربوں کا قمار''ازلام'' اور ''قداح''کے ذریعہ تھا۔

۹۸

ازلام : زَلَم کی جمع، تیر کے مانند لکڑی کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر لکھتے تھے: میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے اور دوسرے پر لکھتے تھے کہ میرے پروردگار نے نہی کی ہے اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور ایک ظرف میں ڈال دیتے تھے اگر امر و نہی میں سے کوئی ایک باہرآتا تھا تو اس پر عمل کرتے تھے۔ اوراگر غیر مکتوب نکلتا تھا تو دوبارہ تیروں کو ظرف میں ڈال کر تکرار کرتے تھے، ازلام کو قریش ایام جاہلیت میں کعبہ میں قرار دیتے تھے تاکہ خدام اور مجاورین قرعہ کشی کا فریضہ انجام دیں۔

قِداح: قدح کی جمع ہے لکڑی کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو طول میں دس سے ۱۵ سینٹی میٹر اور عرض میں کم، وہ صاف اور سیدھا ہوتا ہے کہ ایک پر ''ہاں'' اور دوسرے پر ''نہیں'' اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور اس کے ذریعہ جوا اور قرعہ انجام دیتے تھے۔

۲۹۔ سوأئتھما: عوراتھما، ان دونوں کی شرمگاہیں۔

۳۰۔قبیل:ایک جیسا گروہ اور صنف، ماننے والوں کی جماعت کہ آیہ میں : انہ یراکم ھو و قبیلہ اس سے مراد شیطان کے ہم خیال اور ماننے والے ہیں۔

۳۱۔ فَسَقَ فسق، لغت میں حد سے تجاوز کرنے اور خارج ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اسلامی اصطلاح میں حدود شرع اور اطاعت خداوندی سے فاحش اور واضح دوری کو کہتے ہیںیعنی بدرفتاری اور زشت کرداری کے گندے گڑھے میں گر جانے کو کہتے ہیں؛ فسق کفر، نفاق اورگمراہی سے اعم چیز ہے ۔ جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے :

۱۔( وما یکفر بها الا الفاسقون )

فاسقوں کے علاوہ کوئی بھی میری آیتوں کا انکار نہیں کرتا۔( ۱ )

۲۔( ان المنافقین هم الفاسقون ) یقینا منافقین ہی فاسق ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)بقرہ۹۱

(۲)توبہ۶۷

۹۹

۳۔( فمنهم مهتدٍ و کثیر منهم فاسقون )

ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سارے فاسقہیں۔( ۱ )

فسق ایمان کے مقابل ہے جیسا کہ ارشادہوتاہے:

( منهم المؤمنون واکثرهم الفاسقون )

ان میں سے بعض مومن ہیں اور زیادہ تر فاسق ہیں۔( ۲ )

د۔ روائی تفسیر میں جن کی حقیقت

سیوطی نے سورۂ جن کی تفسیر میں ذکر کیا ہے :

جنات حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان فاصلہ کے دوران آزاد تھے اور آسمانوں پر جاتے تھے،جب خداوند عالم نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تو آسمان دنیا میں ان کا جانا ممنوع ہو گیا اور ان کاشہاب ثاقب کے ذریعہ پیچھا کیا جاتا تھا اور بھگا دیا جاتا تھا۔ جنات نے ابلیس کے پاس اجتماع کیا تو اس نے ان سے کہا: زمین میں کوئی حادثہ رونما ہوا ہے جائو گردش کرو اور اس کا پتہ لگائو اور مجھے اس واقعہ سے باخبر کرو کہ وہ حادثہ کیا ہے ؟ پھر اکابر جنوں کے ایک گروہ کو یمن اور تہامہ کی طرف روانہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نمازصبح کی ادائیگی میں مشغول پایا جو ایک خرمہ کے درخت کے کنارے قرآن پڑھ رہے تھے؛ جب ان کے قریب گئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش رہو،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ سب کے سب اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انذار میں مشغول ہو گئے کیونکہ ایمان لا چکے تھے پیغمبر بھی ان کی طرف اس آیت کے نزول سے پہلے متوجہ نہیں ہوئے تھے ۔

( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن )

کہو!مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوںنے میری بات پر کان دھرا.

کہاجاتا ہے کہ یہ گروہ اہل نصیبین کے سات لوگوں کا تھا۔( ۳ )

جو کچھ بیان ہوا ہے جن، شیاطین اور ابلیس کے مختصر حالات تھے جو قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں لیکن جو کچھ روایات میں ذکر ہوا ہے وہ در ج ذیل ہے :

____________________

(۱)حدید۲۶(۲)آل عمران۱۱۰

(۳) تفسیر الدر المنثور ج۶ ص ۲۷۰.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114