آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)50%

آسمان (منتخب نعتیہ کلام) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 114

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 114 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56152 / ڈاؤنلوڈ: 2732
سائز سائز سائز
آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

قدرت نے اظہار عشق رسول(ص) کے لیے سعادت حسن آس کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسول(ص) محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبی(ص) خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

٭

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

٭٭٭

۲۱

وہ اوصافِ محبوب (ص) بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

٭٭٭

نعت نبی(ص) کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسول(ص) لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

٭٭٭

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبی(ص) بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ" آس" اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبی(ص) کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

٭٭٭

۲۲

سعادت حسن آس کو خدائے محمد(ص) نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبی(ص) مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

٭

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

٭٭٭

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آس نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

٭٭٭

۲۳

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسول(ص) کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭٭

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبی(ص) میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

٭

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

٭٭

۲۴

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسول(ص) ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد" لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام"طارق" نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد" دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد" کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمد(ص) نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمد(ص) لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آس وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے"آسمان" پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجر

(اٹک)

۸ مارچ ۲۰۰۶ ء

۲۵

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آس کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعرایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے" اور"آس کے پھول" بالترتیب ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۹۰ ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام"آدھا سورج" ۱۹۹۶ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن" اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ" سید نعمت علی شاہ" ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبی(ص) کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

٭

۲۶

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان" کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ"نعت گوئی" ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائنات(ص) خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ (ص) کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭٭

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاک(ص) " کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭٭

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسول(ص)" اور"عشق رسول(ص)" ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/ فروری ۲۰۰۶ ء

شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

۲۷

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ)

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خدا(ص) کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰ(ص) کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار (ص) سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

٭٭٭

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭

جناب سعادت حسن آس نعت کے حوالہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ اُن کی نعتوں میں سرکار دوعالم(ص) کی عقیدت و محبت ایک دائرے میں رہ کر دلکش اندازمیںرقم کی گئی ہے۔ بعض نعتوں میں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی ذات نے سرکار کی مدحت خود لکھوائی ہے۔ میرے سامنے اسوقت آس صاحب کا مجموعہ نعتیہ انتخاب۔’’ آسمان‘‘ کا مسودہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں شامل تمام کی تمام نعتیں عشاقِ مصطفےٰ کے دلوں کی ترجمان ہیں۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آس صاحب کے’’ آسمان ‘‘ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین

آمین الُلھم ربناآمین یاربُ العالمین!

دعا گو

فقیر سید عبدالدّیان بادشاہ

خطیب مرکزی جانع مسجد استقامت محلہ عید گاہ اٹک شھر۔

۲۹

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

٭

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

٭

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

٭

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

٭

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

٭

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

٭

۳۰

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

٭

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

٭

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

٭

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

٭

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

٭

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

٭

۳۱

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

٭

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

٭

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

٭

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

٭

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

٭

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

٭

۳۲

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

٭

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

٭

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

٭

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

٭٭٭٭

۳۳

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

٭

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

٭

یا نبی(ص) تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

٭

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

٭

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۴

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

٭

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

٭

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

٭

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۵

سب رسولوں نے کی ہے تیری آرزو

دشمنوں نے بھی کی ہے تیری جستجو

٭

تجھ سے دونوں جہانوں میں ہے رنگ و بو

میرا بھی آسمانِ محبت ہے تو

٭

تیری رحمت پہ رافت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تو ہی بحرِ کرم دستِ جود و سخا

کوئی ثانی ترا ہے نہ سایہ ترا

٭

اس نے پایا خدا جس کو تو مل گیا

لائقِ وصف ہے تو ہی بعد از خدا

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۶

اے حبیبِ خدا خاتمِ مرسلاں

اتنی بے انتہا ہیں تری خوبیاں

٭

کر سکا ہے بیاں کوئی اب تک کہاں

اک نظر آس پر، کر سکے کچھ بیاں

٭

تیری چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۷

نعتیں

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں

عشق س عشق مصطفےٰ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

٭

اس دعا سے ڑی دعا کیا ہے

اس سے ڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

٭

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں!

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

٭

زندگی مجھ کو خشنے والے !

زندگی کا میں مدعا مانگوں

٭

اپنے آپے سے ہو کے اہر آج

تجھ سے میں تیرا دل را مانگوں

لوگ کہتے ہیں جن کو ے سایہ

ان کے سائے کا آسرا مانگوں

جاں ھی جائے تو آس دے کر میں

ان کے کوچے کی خاک پا مانگوں

۳۸

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشو میں سائے رکھنا

٭

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

جانے کس پہر دے پاؤں وہ اتریں دل میں

اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے رکھنا

٭

چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل جائے

فصل سینے میں محت کی اگائے رکھنا

٭

روشنی اتنی ہے منزل ھی دھواں لگتی ہے

آپ رہر ہیں مجھے راہ دکھائے رکھنا

٭

آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آاد رہے

ار رحمت کے سدا اس پر جھکائے رکھنا

٭

آس ہو جائے گی آقا کی زیارت ھی نصی

ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھنا

٭٭٭

۳۹

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

٭

گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی

انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں روشن

٭

نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟

٭

ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی ہیں

جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن

٭

خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ

وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں روشن

٭

خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی کی

ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن

٭

مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں گے

ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن

٭٭٭

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چند مسائل :

مسئلہ ۸۲ _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _

مسئلہ ۸۳ _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كرلے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۸۴ _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _

۶۱

مسئلہ ۸۵_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تواگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _

مسئلہ ۸۶_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _

مسئلہ ۸۷ _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _

مسئلہ ۸۸_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے

۶۲

بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر ي ۴ہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_

مسئلہ ۸۹_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو '' ادنى الحل'' سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _

مسئلہ ۹۰_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگر چہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى

۶۳

احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _

مسلئہ ۹۱_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جاناكہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگر چہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _

مسئلہ ۹۲_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے

۶۴

غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجالاكر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _

مسئلہ ۹۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _

۶۵

دوسرى فصل :احرام

مسئلہ ۹۴_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:

۱_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_

۲_ وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_

۳_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _

۴_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_

۱_ احرام كے واجبات

اول : نيت

اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :

۶۶

الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجالانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے_

مسئلہ ۹۵_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجالائے _

مسئلہ ۹۶_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_

۶۷

ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ''قربةً الى اللہ ''كا قصد كرنا ضرورى ہے _

ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _

مسئلہ ۹۷_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے '' حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ''قربةً الى اللہ '' ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۹۸_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_

۶۸

مسئلہ ۹۹_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _

دوم : تلبيہ

مسئلہ ۱۰۰_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجالانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے _ ''لَبَّيكَ اَللّهُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ''

اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چا رتلبيوں كے بعديوں كہے : ''انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ''

۶۹

اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :

''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ

اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :

لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َهْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلهَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ

مسئلہ ۱۰۱_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكر ار كرنا مستحب ہے _

۷۰

مسئلہ ۱۰۲_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طورپر قادر ہو تے ہوئے اگر چہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_

مسئلہ ۱۰۳_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _

مسئلہ ۱۰۴_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _

مسئلہ ۱۰۵_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگر چہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط

۷۱

اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۰۶_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _

مسلئہ ۱۰۷_ اشعار ہے اونٹ كى كہان كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا دياجائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_

سوم : دو كپڑوں كا پہننا

اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال

۷۲

لے گا _

مسئلہ ۱۰۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _

مسئلہ ۱۰۹_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _

مسئلہ ۱۱۰_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۱_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _

مسئلہ ۱۱۲_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے

۷۳

لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنا يا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۳_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۴_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _

مسئلہ ۱۱۵_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۶_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون و غيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر

۷۴

كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۷_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_

مسئلہ ۱۱۸_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص و غيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۱۹_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے و غيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _

مسئلہ ۱۲۰_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا

۷۵

اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمركے ارد گرد اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۲۱_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _

مسئلہ ۱۲۲_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_

۲_ احرام كے مستحبات

مسئلہ ۱۲۳_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ

۷۶

ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _

۳_ احرام كے مكروہات

مسئلہ ۱۲۴_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ''لبيك'' كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى و غيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _

۷۷

۴_ احرام كے محرمات

مسئلہ ۱۲۵_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو '' محرمات احرام '' كہا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۲۶_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_

احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

۲_ ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپالے

۳_ مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا

۴_ سر پر سايہ كرنا

۷۸

۵_ خوشبو كا استعمال كرنا

۶_ آئينے ميں ديكھنا

۷_ مہندى كا استعمال كرنا

۸_ بدن كو تيل لگانا

۹_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا

۱۰_ سرمہ ڈالنا

۱۱_ ناخن كاٹنا

۱۲_ انگوٹھى پہننا

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

۱۴_ فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)

۱۵_جدال جيسے ''لا واللہ _ بلى واللہ ''كہنا

۱۶_ حشرات بدن كومارنا

۱۷_ حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا

۱۸_ اسلحہ اٹھانا

۷۹

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا

۲۰_ جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ

ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا

۲۱_نكاح كرنا

۲۲_استمنا كرنا

مسئلہ ۱۲۷_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كاگناہ زيادہ ہے_

محرمات احرام كے احكام :

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

مسئلہ ۱۲۸_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114