آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)66%

آسمان (منتخب نعتیہ کلام) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 114

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 114 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56119 / ڈاؤنلوڈ: 2729
سائز سائز سائز
آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

فضا میں خوشبو بکھر گئی ہے لبوں پہ میرے سلام آیا

فضا میں خوشو کھر گئی ہے لوں پہ میرے سلام آیا

مناؤ خوشیاں زمین والو! فلک سے خیر الانام آیا

٭

تمام راہیں ہوئیں وہ روشن جہاں سیرے تھے تیرگی کے

جھکے ہیں کیا کیا اٹھے ہوئے سر یہ کون ذی احترام آیا

٭

جو زم ہو شاہِ دوسرا کی وہاں اد کا لحاظ رکھنا

لند اپنی صدا نہ کرنا کلامِ حق میں پیام آیا

٭

نہ کوئی پانی پہ قتل ہوگا نہ کوئی زندہ گڑے گی یٹی

جہالتوں کو مٹانے والا شفیق ہر خاص و عام آیا

٭

درود کی ڈالیاں اترنے لگی ہیں مکہ کی وادیوں میں

لاسِ خاکی میں نورِ یزداں مثالِ ماہِ تمام آیا

٭

ولی ولی کی نی نی کی وہ پیاس ھی ہے وہ آس ھی ہے

ولی ولی کا قرار آیا نی نی کا امام آیا

٭٭٭

۴۱

حقیقت میں وہی ذکرِ خدا ہے

حقیقت میں وہی ذکرِ خدا ہے

کہ جس کے ساتھ یادِ مصطفےٰ ہے

٭

مدینے جا نہیں سکتا تو کیا غم

مرے دل میں مدینہ س رہا ہے

٭

نظر جس پہ شہِ کونین کی ہو

دیا وہ ک کسی سے جھ سکا ہے

٭

نگاہوں میں ستارے جھلملائے

نی(ص) کا تذکرہ ج چھڑ گیا ہے

٭

مٹائے گا اسے کیسے زمانہ

نی کے نام پر جو مر مٹا ہے

٭

وہ رستے سجدہ گاہِ دل نے ہیں

نی کا نقش پا جن پر پڑا ہے

٭

کھی اپنی محت کم نہ کرنا

یہ میری آس ، میرا مدعا ہے

٭٭٭

۴۲

چاند تاروں فلک پہ زمینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

چاند تاروں فلک پہ زمینوں میں ھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

ادشاہوں میں وری نشینوں میں ھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

٭

کون سی آنکھ میں آپ کا غم نہیں کس کا سر آپ کے سامنے خم نہیں

دل سمندر کے پنہاں خزینوں میں ھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

٭

مثل قرآن ہے آپ کی زندگی جزو ایمان ہے آپ کی پیروی

صادقوں غازیوں اور امینوں میں ھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

٭

آپ لطف و عنایت کی معراج ہیں غمزدوں ے سہاروں کے سرتاج ہیں

چاہتوں کے مقدس قرینوں میں ھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

٭

نور ہر اک نظر کو ملا آپ سے گلشن زندگانی کھلا آپ سے

میرے احساس کے آگینوں میں ھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

٭

جن کی کرتا ہے مدحت خدا ہر گھڑی ان کی عظمت میں کیا ہو سکے گی کمی

س کے ہونٹوں پہ ھی س کے سینوں میں ھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

٭

جو قلم آپ کے پیار میں جھک گئے ان کی تحریر پر وقت ھی رک گئے

آس ایسے قلم کی جینوں میں ھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

٭٭٭

۴۳

جس کو حضور آپ کا فیض نظر ملا نہیں

جس کو حضور آپ کا فیض نظر ملا نہیں

ایسا تو کائنات میں پھول کہیں کھلا نہیں

٭

کن الجھنوں میں پڑ گیا واعظ خدا کا نام لے

ان کی گلی کا راستہ کعہ سے تو جدا نہیں

٭

دامن ہی جس کا تنگ ہو اس کا گلہ فضول ہے

ورنہ درِ رسول سے کس کو سوا ملا نہیں

٭

سینے میں ان کی یاد ہو آنکھوں میں ان کی روشنی

اِس آرزو کے عد تو کوئی ھی التجا نہیں

٭

ھیجے خدا نے ان گنت زم جہاں میں انیاء

لیکن مرے حضور(ص) سا کوئی ھی دوسرا نہیں

٭

اپنے کرم کی ھیک سے مجھ کو ھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭٭٭

۴۴

رات بھر چاندنی رقص کرتی رہی رات بھر آنکھ موتی لٹاتی رہی

رات ھر چاندنی رقص کرتی رہی رات ھر آنکھ موتی لٹاتی رہی

رات ھر دل کی دنیا مہکتی رہی رات ھر یاد آقا کی آتی رہی

٭

ہر طرف نور ہی نور تھا جلوہ گر میں تو اپنی خر سے ھی تھا ے خر

کتنا مسحور تھا ش کا پچھلا پہر صح تک رات جادو جگاتی رہی

٭

میرے دامن میں تارے اترتے رہے زندگی میں مری رنگ ھرتے رہے

عکس کیا کیا جنوں کے نکھرتے رہے نعت ج تک زاں گنگناتی رہی

٭

کتنی الجھی ہوئی تھی مری زندگی کر رہی تھی تعاق میرا تیرگی

آپ کے پیار کی ج پڑی روشنی ہر خوشی میرے قدموں میں آتی رہی

٭

آس کتنی ہوئی ان کی چشم کرم ج کھی ڈگمگائے ہیں میرے قدم

رکھ لیا میرے آقا نے میرا ھرم راستہ خود ہی منزل دکھاتی رہی

٭٭٭٭

۴۵

حل ہے ہر اک مشکل کا

حل ہے ہر اک مشکل کا

یاد نی اور ذکر خدا

٭

صرف مری ہی ات نہیں

دنیا نے تسلیم کیا !

٭

اے ھولے ھالے انساں

جس کا کھا اس کے گن گا

٭

دل ہے تیرا گر تاریک

ذکر خدا کا دیپ جلا

٭

روح تیری گر سونی ہے

صل علیٰ کو ورد نا

٭

صرف نہیں میرا دعویٰ

ولی پیمر س نے کہا

٭

جس نے اطاعت کی ان کی

آس امر وہ شخص ہوا

٭٭٭

۴۶

زندگی کا ہراک ہے سلسلہ مدینے سے

زندگی کا ہر اک ہے سلسلہ مدینے سے

دھڑکنوں کا سانسوں کا راطہ مدینے سے

٭

تم نے کچھ نہ پایا ہو تو تمہاری قسمت ہے

ہم کو تو ملا ر کا ھی پتا مدینے سے

٭

ارمغاں جو ملتے ہیں خاص خاص ندوں کو

ان سھی کا ہوتا ہے فیصلہ مدینے سے

٭

ہم کو اپنی ہستی سے ھی عزیز تر ہے وہ

دور سے ھی ہے جس کا واسطہ مدینے سے

٭

ظلمتِ زمانہ کو جس نے پاش کر ڈالا

مرحا وہی پایا رہنما مدینے سے

٭

ان کی مہرانی سے ار ہا ہوا یوں ھی

چل دیا مدینے کو آگیا مدینے سے

٭

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہو تا ہے راطہ مدینے سے

٭٭٭

۴۷

وصف سرکار کے بیاں کیجئے

وصف سرکار کے یاں کیجئے

اپنی تحریر جاوداں کیجئے

٭

مشعلیں جھلملائیں آنکھوں کی

مدحتِ شاہِ مرسلاں کیجئے

٭

ھیج کر ان پہ ار ار درود

اپنے سینے کو ضو فشاں کیجئے

٭

ج ھی مرجھائیں پھول ہونٹوں کے

۔"نام نامی کو حرزِ جاں کیجئے"

٭

انکے صدقے میں کیا نہیں ملتا

ڈھنگ سے مدعا یاں کیجئے

٭

ان کی رحمت وہاں وہاں ہوگی

یاد ان کو جہاں جہاں کیجئے

٭

ڈو کر آس ان کی الفت میں

ذہن کو حر یکراں کیجئے

٭٭٭

۴۸

تیرا ذکر صبح کا نور ہے تیری یاد رات کی چاندنی

تیرا ذکر صح کا نور ہے تیری یاد رات کی چاندنی

تیری نعت اے شہ دوسرا دل یقرار کی راگنی

٭

مجھے تیری یاد سے واسطہ تیرا پیار ہے میرا راستہ

تیرا نام میری اساس ہے تیرا تذکرہ مری ندگی

٭

میں تو داس ہوں تیرے نام کا میں غلام تیرے غلام کا

مری ات ات کا حسن تو میرا ناز ہے تیری شاعری

٭

جو نی کو میرے قول ہوں وہی کاش میرے اصول ہوں

وہی صر ہو وہی گفتگو وہی عاجزی وہی سادگی

٭

مری آس ھی تیری آس ہو میرا شوق ھی تیرا شوق ہو

میں نفس نفس میں لا شہ کروں تیری ذات کی پیروی

٭٭٭

۴۹

اے شہ عرب شہ انبیاء تیری سب صفات میں چاندنی

اے شہ عر شہ انیاء تیری س صفات میں چاندنی

تو خدا کا پیار ا رسول ہے تیری ات ات میں چاندنی

٭

تیرا پیار جس کا نصی ہے وہ خدا کے کتنا قری ہے

وہ جہاں کہیں ھی چلا گیا رہی اسکی گھات میں چاندنی

٭

تیری یاد کا جو گزرا ہوا میرا دل ھی رشک قمر ہوا

تیری یاد ہی کا ہے معجزہ کھلی مری ذات میں چاندنی

٭

مرے دل کے دشت میں ہر گھڑی تیرا ذکر ہے تیرا فکر ہے

تیرے ذکروفکر نے کی عطا مجھے مشکلات میں چاندنی

٭

جو کھی ھی آس نہ ڈھل سکے جو نہ تیرگی میں دل سکے

در مصطفےٰ کے سوا کہیں وہ نہ آئے ہات میں چاندنی

٭٭٭

۵۰

نظر میں گنبد خضرا بسا کے لے آنا

نظر میں گند خضرا سا کے لے آنا

درِ رسول کی یادیں سجا کے لے آنا

٭

جو مل سکے نہ تمہیں دو جہاں کی وسعت سے

وہ حاجیو! مرے آقا سے جا کے لے آنا

٭

جہاں جہاں پہ تمہاری نظر کرے سجدے

وہاں وہاں کے مناظر سما کے لے آنا

٭

میرا سلام ھی جا کر حضور سے کہنا

جو ا جو ملے اسکو چھپا کے لے آنا

٭

تمہارے ہاتھ جو طیہ کی خاک لگ جائے

اسے ہر ایک نظر سے چا کے لے آنا

٭

یہاں میں نعت کہوں اور وہاں سنی جائے

مرے نصی میں ایسا لکھا کے لے آنا

٭

تڑپ میں ان کی ہے مسرور زندگی کتنی

ذرا سی اور تڑپ آس جا کے لے آنا

٭٭٭

۵۱

یہ جو میری آنکھیں ہیں میرے رب کی جانب سے مصطفےٰ کا صدقہ ہیں

یہ جو میری آنکھیں ہیں میرے ر کی جان سے مصطفےٰ کا صدقہ ہیں

یہ جو میرے کپڑے ہیں جو چھنی ہے ی ی سے اس ردا کا صدقہ ہیں

٭

یہ جو میرے آنسو ہیں شام کے شہیدوں کی ہر دعا کا صدقہ ہیں

ہونٹ اور زاں میری کرلا کے پیاسوں کی التجا کا صدقہ ہیں

٭

یہ جو دست و ازو ہیں مرتضیٰ کے یٹے کی ہر وفا کا صدقہ ہیں

یہ جو میرے چے ہیں اصغر و علی اکر کی صدا کا صدقہ ہیں

٭

پھول چاند تاروں میں دلنشیں نظاروں میں روپ یوں نہیں آیا

ر کے خاص ندوں کی لاڈلے رسولوں کی س ضیا کا صدقہ ہیں

٭

آس نعمتیں ر کی، میرے ر کی جان سے جو جہاں میں اتری ہیں

میں نے تو یہ جانا ہے پنج تنی گھرانے کی س سخا کا صدقہ ہیں

٭٭٭

۵۲

یہ لبوں کی تھرتھراہٹ یہ جو دل کی بے کلی ہے

یہ لوں کی تھرتھراہٹ یہ جو دل کی ے کلی ہے

ترے پیار کی دولت مجھے میرے ر نے دی ہے

٭

تیری یاد کے تصدق تیرے پیار کے میں قراں

تیری ندہ پروری سے مری آنکھ شنمی ہے

٭

مہہ و مہر کو ھی اتنی نہ ہوئی نصی شاید

جو تیری ضیا سے ہر سو مرے چاندنی کھلی ہے

٭

تیرا نام لے کے سونا تجھے یاد کر کے رونا

یہی مری زندگی ہے یہی مری ندگی ہے

٭

تیری نعت کے کرم نے اسے معتر کیا ہے

کہاں آس ہے وگرنہ کہاں اس کی شاعری ہے

٭٭٭

۵۳

ملے جس سے قلب کو روشنی وہ چراغِ مدحِ رسول ہے

ملے جس سے قل کو روشنی وہ چراغِ مدحِ رسول ہے

نہیں جس میں یاد حضور(ص) کی وہ تمام عمر فضول ہے

٭

تجھے دل میں جس نے سا لیا تجھے جس نے اپنا نا لیا

یہ جہان اس کی نگاہ میں فقط اک سرا ہے دھول ہے

٭

جو ترا ہوا وہ مرا ہوا جو ترا نہیں وہ مرا نہیں

یہ کلام حق کا ہے فیصلہ یہ خدا کا واضح اصول ہے

٭

تری رفعتیں کروں کیا یاں ترے معترف سھی انس و جاں

ترا تذکرہ ہے جہاں جہاں وہاں رحمتوں کا نزول ہے

٭

کھی اس کا رنگ نہ اڑ سکا کھی اس کی اس نہ کم ہوئی

مری شاعری کی جین پر جو تمہاری نعت کا پھول ہے

٭

اسے تخت و تاج سے کیا عرض اسے مال و زر سے ہے کام کیا

جو پڑا ہے طیہ کی خاک پر جو گدائے کوئے رسول ہے

٭

وہی شمعِ محفلِ کن فکاں وہی دو جہانوں کا ناز ہے

جہاں کوئی آس نہ جا سکا وہاں ان کے قدموں کی دھول ہے

٭٭٭٭

۵۴

ارض و سما میں جگمگ جگمگ لحظہ لحظہ آپ کا نام

ارض و سما میں جگمگ جگمگ لحظہ لحظہ آپ کا نام

گلشن گلشن ، صحرا صحرا ، مہکا مہکا ، آپ کا نام

٭

پرت پرت ، ادل ادل ، رکھا رکھا، آپ کا نام

جنگل جنگل، وادی وادی، قصہ قصہ، آپ کا نام

٭

تپتی زمیں پر رسی رحمت قیصر و کسریٰ خاک ہوئے

ملک عر میں جس دن اترا اجلا اجلا آپ کا نام

٭

کنکر کنکر کی دھڑکن سے سدرہ کی معراج تلک

سینہ سینہ، محفل محفل، جلوہ جلوہ، آپ کا نام

٭

آپ کی اتیں پیاری پیاری ماشاء اللہ سحان اللہ

قطرہ قطرہ، چشمہ چشمہ، دریا دریا، آپ کا نام

٭

نام خدا کے ساتھ ہے شامل لوح فلک سے ارض تلک

آنگن آنگن ، گوشہ گوشہ ، قریہ قریہ ، آپ کا نام

٭

جھلمل جھلمل تارے چمکے میری آس کی جھیلوں پر

من کے اندر ج ج مہکا پیارا پیارا آپ کا نام

٭٭٭

۵۵

جب چھڑا تذکرہ میرے سرکار کا میرے دل میں نہاں پھول کھلنے لگے

جب چھڑا تذکرہ میرے سرکار کا میرے دل میں نہاں پھول کھلنے لگے

آسماں سے چلیں نور کی ڈالیاں پھر جہاں در جہاں پھول کھلنے لگے

٭

ایک پر نور قندیل چمکی ہے پھر میرے احساس میں میرے جذات میں

آنکھ پرنم ہوئی ہونٹ تپنے لگے روح میں جاوداں پھول کھلنے لگے

٭

ان کی رحمت سے پر نور سینہ ہوا مجھ گنہ گار کا دل مدینہ ہوا

دھڑکنیں مل گئیں میرے افکار کو سنگ کے درمیاں پھول کھلنے لگے

٭

آپ آئے تو تہذی روشن ہوئی اور تمدن میں اک انقلا آگیا

آدمیت کو انسانیت مل گئی گلستاں گلستاں پھول کھلنے لگے

٭

آس تاریکیوں میں ھٹکتا رہا، شکر صد شکر اے دامن مصطفےٰ!

تو ملا تو قلم کو ملی روشنی اس کی زیر زاں پھول کھلنے لگے

٭٭٭

۵۶

ان کا ہی فکر ہو ان کا ہی ذکر ہو یہ وظیفہ رہے زندگی کے لیے

ان کا ہی فکر ہو ان کا ہی ذکر ہو یہ وظیفہ رہے زندگی کے لیے

سوزِ عشق نی میری میراث ہو کاش زندہ رہوں میں اسی کے لیے

٭

ان کے در سے مجھے سرفرازی ملے مال و اسا سے ے نیازی ملے

میں جیوں تو جیوں س انہی کے لیے میں مروں تو مروں س انہی کے لیے

٭

رشک کرتا رہے مجھ پہ سارا جہاں مجھ سے مانگیں پنہ وقت کی آندھیاں

میں غلامِ غلامانِ احمد (ص) رہوں اس سے ڑھ کر ہے کیا آد می کے لیے

٭

کاش یوں ہی مرے دل کا موسم رہے میری آنکھوں کی ارش کھی نہ تھمے

زندگی میں وہ پل ھی نہ آئے کھی میں انھیں ھول جاؤں کسی کے لیے

٭

ذات والا کا ہے مجھ پہ کتنا کرم میں کہاں اور کہاں مدحِ شاہِ امم

شکر تیر ا مجھے دورِ ے مہر میں ! چن لیا تو نے نعتِ نی کے لیے

٭

دونوں عالم کو تخلیق ر نے کیا ان کی پہچان کا ہے یہ س سلسلہ

صرف مقصود ہوتی اگر ندگی کم ملائک نہ تھے ندگی کے لیے

٭رنگ و و مجھ سے کرنے لگے گفتگو اک اجالا سا رہنے لگا چار سو

آس ج سے کیا ذہن کو ا وضو میں نے سرکار کی شاعری کے لیے

٭٭٭

۵۷

ترا تذکرہ مری بندگی ترا نامِ نامی قرارِ جاں

ترا تذکرہ مری ندگی ترا نامِ نامی قرارِ جاں

اے حی ر اے شہِ عر ترا پیار ہے میرا آسماں

٭

تری ذاتِ پاک کے فیض سے سھی کائنات میں رنگ ہے

تری شان زینتِ زندگی تیرا ذکر رونقِ دو جہاں

٭

مرے دل میں ایک خدا رہا تو ملا تو کفر ہوا ہوا

تری ذاتِ پاک کے معجزے میں کہاں کہاں نہ کروں یاں

٭

کڑی دھوپ کا یہ کٹھن سفر مجھے جاں و دل سے عزیز تر

تری یاد جس میں ہے ہم سفر ترا ذکر جس میں ہے سائاں

٭

جو ملا وہ تیرے س ملا، جسے تو ملا اسے ر ملا

سھی فیصلوں پہ تو مہر ہے ترے در کے عد ہے در کہاں

٭

مرا دل دلوں کا ہے ادشہ کہ ملی اسے دولتِ ثنا

وہ نصی کا ہے غری دل تیری یاد جس میں نہیں نہاں

٭

تیری نعت پاک کے پھول جو مری چشمِ تر سے ہیں شنمی

یہ ترے ہی پیار کے رنگ ہیں مری آس، مان کے ترجماں

٭٭٭

۵۸

وجہہ دونوں عالم کی میرے مصطفےٰ ہے تو

نازِ کریا ہے تو فخر انیاء ہے تو

وجہِ دونوں عالم کی میرے مصطفےٰ ہے تو

٭

ے وفا زمانے کو تو نے الفتیں انٹیں

کوئی ھی نہ تھا جس کا اس کا آسرا ہے تو

٭

روشنی ترا پرتو چاندنی ترا دہوون

کیا مثال دوں تیری کیا نہیں ہے کیا ہے تو

٭

قدر والی ش میں جو میں نے ر سے مانگی تھی

کپکپا تے ہونٹوں سے وہ مری دعا ہے تو

٭

زندگی تری اندی وقت ہے ترا خادم

جو ھی ہے زمانے میں اس کا مدعا ہے تو

٭

تذکرے ترے سن کر ان کے کھل اٹھیں چہرے

جن کی لو لگی تجھ سے جن کا دل را ہے تو

٭

چاندنی ، شفق ، شنم ، کہکشاں ، صا ، خوشو

آس کیا لکھے تجھ کو س سے ماورا ہے تو

٭٭٭

۵۹

مدینے کی فضاؤں میں بکھر جائیں تو اچھا ہو

مدینے کی فضاؤں میں کھر جائیں تو اچھا ہو

ہم اپنی موت کو حیران کر جائیں تو اچھا ہو

٭

نہیں ہے حوصلہ روضہ تمہارا تکتے رہنے کا

جنوں کہتا ہے تکتے تکتے مر جائیں تو اچھا ہو

٭

مری نم ناک آنکھوں کا یہی ا تو تقاضہ ہے

تمہارے پیار کی حد سے گزر جائیں تو اچھا ہو

٭

جو ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں میرے سینے میں مہکتی ہیں

وہ اوروں کے دلوں میں ھی اتر جائیں تو اچھا ہو

٭

جسے سنتے ہی دل سرشار ہوں عشقِ محمد(ص) سے

رقم ایسی کوئی ہم نعت کر جائیں تو اچھا ہو

٭

نامِ مصطفےٰ ہو امن یا ر پھر کراچی میں

مرے کشمیر کے ھی دن سدھر جائیں تو اچھا ہو

٭

۶۰

کر رہا ہے اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں_

اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسی دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کی دنیا واقعی اور حقیقی دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھی حقیقی ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

۱)___ آیا ہماری محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنی کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟

۲)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟

۳)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعی ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسی زندگی گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟

۵)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟

۶)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟

۷)___ کفر ا ور برائی کسکی ظاہر ہوگی؟

۸)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

۹)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟

۱۰)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسی دنیاوی زبان اور کان سے ہوگا؟

۶۱

چوتھا سبق

مردے کیسے زندہ ہونگے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست قبول کرلی اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھی طرح کوٹ دو پھر انکو

۶۲

قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیری طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالی عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہماری طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کی طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کی گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسی طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھی زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھا_

آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_

۶۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی سے کونسی درخواست کی تھی

۲)___ اس درخواست کی غرض کیاتھی؟

۳)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کی درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟

۵)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟

۶)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کی قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دی تھی؟

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

۶۴

پانچواں سبق

کس طرح

آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادی بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کی جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کی روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھی طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کی روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گی جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح ہماری روح پر اثرانداز

۶۵

ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہماری زندگی کے کام

جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہماری روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانی کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانی اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھی انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کی روح کی پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کی یاد سے غافل ہوا کرتی ہے وہ برے کاموں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتی ہے اور انسان کو ترقی سے روک دیتی ہے ہماری خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقی رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کی عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی

۶۶

ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہماری زندگی کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھی کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالی کی طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیری روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسری جگہ ارشاد الہی ہوتا ہے''

جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_

اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہماری زندگی کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟

۶۷

کیا ہماری عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کی اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہماری روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۳)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟

۴)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟

۵)___ بہشت کی نعمتیں کن چیزوں سے ملتی ہیں؟

۶)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟

۷)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟

۸)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟

۹)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۰)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسی طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے

۶۸

حصّہ سوم

نبوّت

۶۹

پہلا سبق

صراط مستقیم

اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟

کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھی اسی پر چلیں گے؟

جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھی وہی انتخاب کریں گے؟

کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگی کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھی نہیں سوچتے؟

۷۰

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کی تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟

آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگی کا پروگرام مہيّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کی دنیا اور آخرت کی احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟

پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتی ہے؟

انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہی انسان کی دنیا اور آخرت میں زندگی کے شرائط سے باخبر ہے اسی لئے صرف وہی انسان کی زندگی کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ کہ زندگی کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیں

۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟

۲)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ خداوند عالم نے انسان کی سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟

۵)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

۷۲

دوسرا سبق

کمال انسان

جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانی دیں تو اس میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہی سے ایک معین ہدف کی طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنی ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہی خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کی طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

۷۳

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کی طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانی دیں اس کی ابتداء ہی سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنی چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کی طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسی ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنی حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھی انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھی ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کی طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنی کے محتاج ہیں اللہ تعالی نے پانی، مٹی، روشنی اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردی ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟

کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہی ذات ہے جو انسان کی خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہی ذات

۷۴

ہے جو آخرت میں انسان کی ضرورت سے باخبر ہے اسی لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کی چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کی معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخری اور اہم ترین پروگرام آخری پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ تھوڑا سا گیہوں کسی برتن میں ڈالیں اور اسے پانی دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کی طرف حرکت کرتا ہے؟

۲)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟

۳)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

۴)___ انسان کی معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں

۵)___ خدا نے انسان کی معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے

۶)___ آخری اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟

۷)___ اس آخری پروگرام کا کیا نام ہے؟

۷۵

تیسرا سبق

راہنما کیسا ہونا چاہیئے

جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمی جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکی رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالی نے اسے لوگوں کی راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کی رہبری اس کے سپرد کی ہے_

۷۶

چوتھا سبق

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے

جب آپ کسی دوست کی طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمی کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظی اور غلطی کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟

جی ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمی ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطی نہ کرے خدا بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمی کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _

۷۷

پانچواں سبق

اجتناب گناہ کا فلسفہ

میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانی کو پیئے گا؟ اگر وہی پانی کسی اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پی لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے جو شخص اس کی گندگی اور خرابی کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانی کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جی ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندی اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کرے گا اسی طرح پیغمبر بھی گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھی گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کی پلیدی اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہی ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_

۷۸

چھٹا سبق

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں

خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کی تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کی سعادت کے راستے اچھی طرح جانتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کی راہنمائی اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھی طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے

۷۹

اچھے اور برے اخلاق کو اچھی طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کی پلیدی اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کی روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہی اور علم سے گناہ کی گندگی اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_

پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسی کمی و بیشی کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطی اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہی انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطی اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_

پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اور دائمی سعادت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ راہنما کے لئے کون سی حفاظت صفات ہونی چاہئیں؟

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114