آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)33%

آسمان (منتخب نعتیہ کلام) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 114

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 114 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57557 / ڈاؤنلوڈ: 2848
سائز سائز سائز
آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

میں جن کو روح کے قرطاس پہ محسوس کرتا ہوں

وہ جذے کاش کاغذ پر اتر جائیں تو اچھا ہو

٭

وہاں کیسی محت دل جہاں سجدوں سے قاصر ہو

جینِ دل کو لے کر ان کے در جائیں تو اچھا ہو

٭

خیالوں میں کئی الفاظ نے آ کر تمنا کی !!

نی کی نعت سے ہم ھی سنور جائیں تو اچھا ہو

٭

اسی ہی آس میں رہتی ہیں اکثر منتظر آنکھیں

لاوا آئے، ہم ا چشمِ تر جائیں تو اچھا ہو

٭٭٭

۶۱

سوادِعشق نبی کیا کمال ہوتا ہے

سوادِ عشق نی کیا کمال ہوتا ہے

دیارِ روح میں حسن و جمال ہوتا ہے

٭

جو اس چراغ کا پروانہ ن کے رہ جائے

اسے نہ کھال نہ جاں کا خیال ہوتا ہے

٭

سخاوتوں کے خزانے نثار ہوتے ہیں

عقیدتوں کا سفر لازوال ہوتا ہے

٭

پھر ایک ار زیارت سے جاں مشرف ہو

لوں پہ شام و سحر یہ سوال ہوتا ہے

٭

تمام وقت کے حاکم اسے سلام کریں

تمہاری راہ میں جو پائمال ہوتا ہے

٭

گزر کے اس کی محت کے امتحانوں سے

کوئی حسین (ع) تو کوئی لال ہوتا ہے

٭

نی کا ہو کے جسے آس موت آ جائے

وہ شخص مرتا نہیں لازوال ہوتا ہے

٭٭٭

۶۲

لوں نام نبی قلب ٹھہرجائے ادب سے

لوں نام نی قل ٹھہر جائے اد سے

صد شکر یہ اعزاز ملا ہے مجھے ر سے

٭

دنیا ہی دل دی ہے مرے ذوق نے میری

میں صاح کردار ہوا تیرے س سے

٭

اے سرورِ کونین تیرے در کے تصدق

ملتا ہے یہاں س کو سوا اپنی طل سے

٭

احسان ترا کیسے ھلا دوں شہِ والا

پہچان ہوئی ر کی ہمیں تیرے س سے

٭

مشکل کوئی مشکل نہیں ٹھہری مرے آگے

مدحت شہِ لولاک کی ہاتھ آئی ہے ج سے

٭

اے خالقِ کونین دعا ہے مری تجھ سے

ٹوٹے نہ کھی راطہ اس عالی نس سے

٭

کرتا نہیں دنیا میں اصولوں کا وہ سودا

ہے آس محت جسے سلطانِ عر سے

٭٭٭

۶۳

نبی کی چشمِ کرم کے صدقے فضائے عالم میں دلکشی ہے

نی کی چشمِ کرم کے صدقے فضائے عالم میں دلکشی ہے

گلوں میں کلیوں میں رنگ و نگہت ہے چاند تاروں میں روشنی ہے

٭

جو آپ آتے نہ اس جہاں میں وجودِ کونین ھی نہ ہوتا

س آپ کے دم قدم سے آقا جہاں کی محفل سجی ہوئی ہے

٭

ہوا ہے ظلمت کا چاک سینہ گرے ہیں جھوٹے خدا زمیں پر

کرن نوت کی پھوٹتے ہی جہاں کی قسمت دل گئی ہے

٭

کمالِ اہلِ ہنر سے اعلیٰ خیال اہلِ نظر سے الا

مثال جس کی کہیں نہیں وہ جمال حسنِ محمدی ہے

٭

شیر ھی ہیں نذیر ھی ہیں سراج ھی ہیں منیر ھی ہیں

رؤف ھی ہیں رحیم ھی ہیں انہی کی دو جگ میں سروری ہے

٭

کہیں پہ یٰسین کہیں پہ طہٰ کلام حق ہے ترا قصیدہ

تری ہر اک ات حکم ری خدا کا تو لاڈلا نی ہے

٭

خدا سے جو مانگنا ہے مانگو ہے آس ہر سو عطا کی ارش

خدا نہ ٹالے گا ات کوئی کہ آج میلاد کی گھڑی ہے

٭٭٭

۶۴

دیوانہ وار مانگیے رب سے اٹھا کے ہاتھ

دیوانہ وار مانگیے ر سے اٹھا کے ہاتھ

آئیں گے پھول نعت کے تم تک صا کے ہا تھ

٭

لکھنے سے پہلے نعت کے آنکھیں ہوں ا وضو

آئیں گے ت ہی غی سے گوہر ثنا کے ، ہا تھ

٭

نتی نہیں ہے ات عطا کے نا کھی

آتا نہیں ہے کچھ ھی سوائے عطا کے ہا تھ

٭

اک چشم التفات ادھر ھی ذرا حضور(ص)

امت کی سمت ڑھ گئے مکر و ریا کے ہا تھ

٭

الفت ملی ہے آپ کی س کچھ عطا ہوا

ا کیا کمی رہی جو اٹھائیں دعا کے ہا تھ

٭

سیلا عشقِ شافعِ محشر ہے میرے گرد

"دیکھے تو مجھ کو نار جہنم لگا کے ہاتھ"

٭

وہ فیصلے خدا کی رضا آس ن گئے

جن فیصلوں کے حق میں اٹھے مصطفےٰ کے ہا تھ

٭٭٭

۶۵

فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے

فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے

تیری مدحت کے چرچے پھر ھی آقا کم نہیں ہوں گے

٭

ہر اک فانی ہے شے اور ذکر لا فانی تیرا ٹھہرا

تیری توصیف ت ھی ہو گی ج آدم نہیں ہوں گے

٭

توسل سے انھی کے در کھلیں گے کامرانی کے

وہ جن پر ہاتھ رکھ دیں گے انہیں کچھ غم نہیں ہوں گے

٭

کروڑوں وصف تیرے لکھ گئے اور لکھ رہے ھی ہیں

کروڑوں اور لکھیں گے مگر یہ کم نہیں ہوں گے

٭

خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا ہے

وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے

٭

کریں گے کس طرح سے سامنا وہ روز محشر کا

تاؤ آس جن کے سرورِ عالم نہیں ہوں گے

٭٭٭

۶۶

تو روحِ کائنات ہے تو حسن کائنات

تو روحِ کائنات ہے تو حسن کائنات

پنہاں ہیں تیری ذات میں ر کی تجلیات

٭

ہر شے کو تیری چشمِ عنایت سے ہے ثات

ہر شے میں تیرے حسنِ مکمل کے معجزات

٭

کونین کو ہے ناز تیری ذاتِ پاک پر

احسان مند ہیں تیری ہستی کے شش جہات

٭

پژ مردہ صورتوں کو ملی تجھ سے زندگی

نقطہ وروں کو سہل ہوئیں تجھ سے مشکلات

٭

ظلمت کدوں میں نور کے چشمے ال پڑے

رحمت سے تیری ٹل گئی ظلم و ستم کی رات

٭

تاروں کو ضو فشانیاں تجھ سے ہوئیں نصی

پھولوں کی نازکی پہ تیری چشمِ التفات

٭

۶۷

ہر شے میں زندگی کی کرن تیری ذات سے

افشا یہ راز کر گئی معراج کی وہ رات

٭

اپنے دل و نگاہ کے آئینے صاف رکھ

گر دیکھنے کی چاہ ہے تجھ کو نی کی ذات

٭

کن الجھنوں میں پڑ گیا واعظ خدا سے ڈر

الا ہے تیری سوچ سے سرکار کی حیات

٭

انکی محتوں کا گزر ہے خیال میں

یونہی نہیں ہیں آس کی ایسی نگارشات

٭٭٭

۶۸

ہمیشہ مری چشمِ تر میں رہیں

ہمیشہ مری چشمِ تر میں رہیں

حضور(ص) آپ دل کے نگر میں رہیں

٭

مری سوچ کے دائروں میں رہیں

خیالات کے ام و در میں رہیں

٭

گماں فرقتوں کا میں کیسے کروں

کہ ج آپ(ص) ہر سو نظر میں رہیں

٭

مرے حرف میں میرے الفاظ میں

مرے شعر میرے ہنر میں رہیں

٭

مرے دن کی مصروفیت میں ہوں آپ

مری رات کے ہر پہر میں رہیں

٭

مری ش کی ہو اتدا آپ سے

مری انتہائے سحر میں رہیں

٭

تمنا ہے یہ آس وقتِ نزع

حضور آپ ہر سو نظر میں رہیں

٭٭٭

۶۹

ہم بے کسوں پہ فضل خدا ہے حضور (ص)سے

ہم ے کسوں پہ فضل خدا ہے حضور (ص)سے

اسلام کا شعور ملا ہے حضور (ص) سے

٭

آدم کو اپنی ذات کی پہچان تک نہ تھی

انسان آدمی تو ہوا ہے حضور (ص)سے

٭

ے کیف ے سرور تھی ے نور زندگی

اس میں سکوں کا رنگ ھرا ہے حضور(ص) سے

٭

ہوں اہلِ یتِ پاک یا اصحا مصطفےٰ

وحدت کا س نے جام پیا ہے حضور سے

٭

کشمیر ہو عراق، فلسطیں کہ کوئی ملک

ہر کلمہ گو تو آس جڑا ہے حضور (ص)سے

٭٭٭

۷۰

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

پیارے نی کی اتیں کرنا اچھا لگتا ہے

انکی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭

ٹھنڈی ٹھنڈی مہکی مہکی ہلکی ہلکی آہٹ سے

یادِ نی کا دل میں اترنا اچھا لگتا ہے

٭

ج ہستی کی چاہت کا ہے محور تیری ذات

پل پل تیرا ہی دم ھرنا اچھا لگتا ہے

٭

میں ھی ثنا کے پھول سمیٹوں تم ھی درود پڑھو

پتھر دل سے پھوٹتا جھرنا اچھا لگتا ہے

٭

تجھ سے میری من نگری کے روشن شام و سحر

تیرے نام کی آہیں ھرنا اچھا لگتا ہے

٭

غوث، قلندر اور ولی ہیں تیرے عشق کے روگی

س کو تری توقیر پہ مرنا اچھا لگتا ہے

٭

ماتھے پر امید کا جھومر مانگ میں آس کی افشاں

ایسا مجھ کو ننا سنورنا اچھا لگتا ہے

٭٭٭

۷۱

میں غریب سے بھی غریب ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے

میں غریب سے ھی غری ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے

اے قسیم راحتِ دو جہاں مری سانس سانس محال ہے

٭

تو خدائے پاک کا راز داں تیرا ذکر زینتِ دو جہاں

تیرے وصف کیا میں کروں یاں تیری ات ات کمال ہے

٭

میں ہوں ے نوا تو ہے ادشہ میرا تاجِ سر تیری خاکِ پا

میں ہوں ایک ھٹکی ہوئی صدا تری ذات حسنِ مآل ہے

٭

تو ہی فرش پر تو ہی عرش پر تیرا یہ ھی گھر تیرا وہ ھی گھر

جہاں ختم ہوتا ہے ہر سفر تیرا اس سے آگے جمال ہے

٭

تیری ذات عالی شہ عر کہاں میں کہاں یہ مری طل

جو ملا، ملا وہ ترے س مرا اس میں کیسا کمال ہے

٭

نہیں تیرے عد کوئی نی ہوئی ختم تجھ پر پیمری

تیری ذاتِ حسن و جمال کی نہ نظیر ہے نہ مثال ہے

٭

میں یہ کیوں کہوں کہ غری ہوں شہ دوسرا کے قری ہوں

میں تو آس روشن نصی ہوں غمِ مصطفےٰ مری ڈھال ہے

٭٭٭

۷۲

سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زباں سے بکھرنے لگے

سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زاں سے کھرنے لگے

مدحتِ مصطفےٰ تیرا احسان ہے تجھ سے کیا کیا مقدر سنورنے لگے

٭

یہ تو ان کی عنایات کی ات ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری اوقات ہے

جس کا دنیا میں پرسان کوئی نہ تھا اس کے دامن میں تارے اترنے لگے

٭

یونہی مجھ پر کرم اپنا رکھنا سدا اے مرے چارہ گر اے شہ دوسرا

تیری چشمِ کرم جس طرف کو اٹھی اس طرف نور سینوں میں ھرنے لگے

٭

قط و ادال غوث و ولی متقی س کی محسن ہے نورِ تجلی تیری

روشنی تیرے کردار کی پا کے س سینہ ٔ سنگ کو موم کرنے لگے

٭

عشق سچا اگر ہو تو دیدار کی قید کوئی نہیں فاصلے کچھ نہیں

ہو گئی جن کے دل کو صارت عطا لمحہ لمحہ وہ دیدار کرنے لگے

٭

کچھ عج وضع سے کر رہے ہیں سر تیرے عشاق س اپنے شام و سحر

جیتا دیکھا کسی کو تو جینے لگے مرتا دیکھا کسی کو تو مرنے لگے

٭

اے خدا آس کو وہ عطا نعت کر جو منور کرے س کے قل و نظر

ے سہاروں کو تسکین جو خش دے غم کے ماروں کے جو زخم ھرنے لگے

٭٭٭

۷۳

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ بے نور کو روشنی مل گئی

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ ے نور کو روشنی مل گئی

ہاتھ اٹھاوں میں ا کس دعا کے لیے انکی نست سے ج ہر خوشی مل گئی

٭

ذوق میرا عادت میں ڈھلنے لگا زاویہ گفتگو کا دلنے لگا

ساعتیں میری پرکیف ہونے لگیں دھڑکنوں کو مری ندگی مل گئی

٭

ناز اپنے مقدر پہ آنے لگا ہر کوئی ناز میرے اٹھانے لگا

دھل گیا آئینہ میرے کردار کا ج سے ہونٹوں کو نعتِ نی مل گئی

٭

ان کی چشمِ عنایت کا اعجاز ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری پرواز ہے

خامیاں میری نتی گئیں خویاں زندگی کو مری زندگی مل گئی

٭

میری تقدیر گڑی نائی گئی ات جو ھی کہی کہلوائی گئی

میں نے تو صرف تھاما قلم ہاتھ میں جانے کیسے کڑی سے کڑی مل گئی

٭

زندگی ج سے ان کی پناہوں میں ہے ایک تاندگی سی نگاہوں میں ہے

مجھ کو اقرار ہے اس کے قال نہ تھا ذاتِ وحدت سے جو روشنی مل گئی

٭

مدحتِ مصطفےٰ ہے وہ نورِ میں جس کا ثانی دو عالم میں کوئی نہیں

آس اس کی شعاعوں کے ادراک سے راہ ھٹکوں کو ھی رہری مل گئی

٭٭٭

۷۴

اپنی اوقات کہاں، ان کے سبب سے مانگوں

اپنی اوقات کہاں، ان کے س سے مانگوں

ر ملا ان سے تو کیوں ان کو نہ ر سے مانگوں

٭

ان کی نست ہے ہت ان کا وسیلہ ہے ہت

کیوں میں کم ظرف نوں ڑھ کے طل سے مانگوں

٭

جس ضیا سے صدا جگ مگ ر ہے دنیا من کی

اس کی ہلکی سی رمق ماہِ عر سے مانگوں

٭

آندھیاں جس کی حفاظت کو رہیں سرگرداں

پیار کا دیپ وہ ازارِ اد سے مانگوں

٭

کوئی اسلو سلیقہ نہ قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انھیں کسی طور سے، ڈھ سے مانگوں

٭

کارواں نعت کا اے کاش رواں یوں ہی رہے

اور میں نِت نئے عنوان اد سے مانگوں

٭

آس آاد رہے شہر مری الفت کا

ہر گھڑی اس کی خوشی دستِ طل سے

٭٭٭

۷۵

جمال عکس محمدی سے فضائے عالم سجی ہوئی ہے

جمال عکس محمدی سے فضائے عالم سجی ہوئی ہے

قرارِ جاں ن کے زندگی میں انہی کی خوشو سی ہوئی ہے

٭

خدائے واحد کی ن کے رہاں حضور آئے ہیں اس جہاں میں

دکھوں سے جلتی ہوئی زمیں پھر ہر ایک غم سے ری ہوئی ہے

٭

نجانے کیسا کمال دیکھا نی(ص) کا جس نے جمال دیکھا

حواس گم سم نگاہ حیراں زاں کو چپ سی لگی ہوئی ہے

٭

سمندروں کی تہوں سے لے کر مقام سدرہ کی رفعتوں تک

مرے نی کے کرم کی چادر ہر اک جہاں پر تنی ہوئی ہے

٭

تمام چاہت کے روگیوں کا عجی ہم نے کمال دیکھا

جدا جدا صورتیں ہیں لیکن دلوں کی دھڑکن جڑی ہوئی ہے

٭

وہی حقیقت میں زندگی ہے وہی حقیقت میں ندگی ہے

جو میرے سرکار کی محت کے راستوں پر پڑی ہوئی ہے

٭

انگشتری میں نگینہ جیسے زمیں کے دل پر مدینہ جیسے

حضور(ص) اس طرح آس تیری، مری نظر میں جڑی ہوئی ہے

٭٭٭

۷۶

رنگ لائی مرے دل کی ہر اک صدا لوٹنے زندگی کے خزینے چلا

رنگ لائی مرے دل کی ہر اک صدا لوٹنے زندگی کے خزینے چلا

میرے ر نے کیا مجھ کو منص عطا میں مدینے چلا میں مدینے چلا

٭

میری مدت کی یہ آس پوری ہوئی رشک کرنے لگا مجھ پہ ہر آدمی

ہونے والی ہے ا زندگی، زندگی سیکھنے زندگی کے قرینے چلا

٭

میرے گھر ملنے والوں کی یلغار ہے آج س کو مری ذات سے پیار ہے

آرزوؤں کے غنچوں کی مہکار ہے کس مقدس مارک مہینے چلا

٭

ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ میرے لیے جا کے روضے پہ رکھنا دعا کے دیے

اور یہ کہنا کہ چشم کرم اک ادھر ہر کوئی جام کوثر کے پینے چلا

٭

سوچتا ہوں سفر کا ارادہ تو ہے شوق جانے کا ھی کچھ زیادہ تو ہے

عشق کا معصیت پہ لادہ تو ہے پر میں کیا ساتھ لیکر خزینے چلا

٭

میں نے پورے کیے کیا حقوق ا لعاد اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے فساد

کیا مسلماں میں پیدا کیا اتحاد کون سا مان لے کر مدینے چلا

٭

آس کیا منہ دکھاؤں گا سرکار کو اپنے ہمدرد کو اپنے غم خوار کو

کیوں گراؤں میں فرقت کی دیوار کو کس لیے ہجر کے زخم سینے چلا

٭٭٭

۷۷

مرے دل میں یونہی تڑپ رہے مری آنکھ میں یونہی نم رہے

مرے دل میں یونہی تڑپ رہے مری آنکھ میں یونہی نم رہے

مری ہر نگارشِ شوق پر اے کریم تیرا کرم رہے

٭

میں لکھوں جو نعت حضور(ص) کی دلِ مضطر کے سرور کی

کھی چشم ناز لند ہو کھی سر نیاز سے خم رہے

٭

مری سانس سانس مہک اٹھے مجھے روشنی سی دکھائی دے

میرا حرف حرف دعا نے مری آہ آہ قلم رہے

٭

یہ یقین ہے جو میں مر گیا تو کہیں گے س یہ ملائکہ

یہ ہے شاعرِ شاہِ دوسرا ذرا اس کا پاس، ھرم رہے

٭

یہ دعا ہے آس حضور(ص) کا کھی دل سے پیار نہ ہو جدا

مری زندگی کی جین پر سدا ان کا نام رقم رہے

٭٭٭

۷۸

آپ(ص) سے حسن کائنات آپ کہاں کہاں نہیں

آپ(ص) سے حسن کائنات آپ کہاں کہاں نہیں

آپ کا ذکر نہ ہو جہاں ایسا کوئی جہاں نہیں

٭

ایک جاں سرور آگ سلگی ہے میری ذات میں

ہے یہ عجی ماجرا راکھ نہیں دھواں نہیں

٭

جن فیصلوں پہ آپ کی مہر ثت ہو گئی

اس کے عد ا خدا کوئی ھی این و آں نہیں

٭

اوصافِ پاک آپ کے جس سے تمام ہوں یاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زاں نہیں

٭

واعظ کی ات ھی پرکھ اپنے ھی من کی ات سن

جس سر سے اٹھ گئے وہ ہاتھ اس کی کہیں اماں نہیں

٭

حضرت لال دے گئے آس یہ ہم کو فلسفہ

جس کے نا ھی ہو سحر، ایسی اذاں، اذاں نہیں

٭٭٭

۷۹

ہے یہ دربارِ نبی خاموش رہ

ہے یہ درارِ نی خاموش رہ

چپ کو ھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

ولنا حدِ اد میں جرم ہے

خامشی س سے ھلی خاموش رہ

٭

ان کے در کی مانگ ر سے چاکری

تجھ کو جنت کی پڑ ی خاموش رہ

٭

ہے ذریعہ ہترین اظہار کا

اک زانِ خامشی خاموش رہ

٭

دل سے ان کو یاد کر کے دیکھ تو

پاس ہیں وہ ہر گھڑی خاموش رہ

٭

ھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضط کر دیوانگی خاموش رہ

٭

جیسے کی ہے میرے آقا نے سر

ویسے تو کر زندگی خاموش رہ

٭

۸۰

جس نے ھی دیکھا ہے جلوہ آپ کا

اس کو ہی چپ لگ گئی خاموش رہ

٭

نعت لکھواتی ہے کوئی اور ہی ذات

ورنہ جرأت آس کی خاموش رہ

٭٭٭

۸۱

ہر طرف لب پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے

ہر طرف ل پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے

جشنِ میلاد ہے مصطفےٰ کا کیا معطر معطر گھڑی ہے

٭

آج سن لی ہے س کی خدا نے کھل گئے رحمتوں کے خزانے

جتنا دامن میں آئے سمیٹو ہر طرف رحمتوں کی جھڑی ہے

٭

چھٹ گئیں ظلمتوں کی گھٹائیں کیسے دن آج کا ھول جائیں

عید میلاد آؤ منائیں کون سی عید اس سے ڑی ہے

٭

ہم سے کہتا ہے خود ر اکر میں ثنا خوان ہوں مصطفےٰ کا

تم ھی ھیجو درود ان پہ ہر دم ان کی مدحت مری ندگی ہے

٭

اک خدا اک رسول ایک قرآں ایک کیوں کر نہیں پھر مسلماں

چھوڑ دو فرقہ ندی خدارا اس نے جاں کتنے ندوں کی لی ہے

٭

ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زاں ہے

آپ محسن ہیں انسانیت کے آپ کے در سے ہی لو لگی ہے

٭

اپنے در پر ہی رکھنا خدارا غیر کا در نہیں ہے گوارا

آس مانا کہ عاصی ہت ہے پر حضور آپ کا امتی ہے

٭٭٭

۸۲

ذکرِ نبی(ص) اسرارِ محبت صلی اللہ علیہ وسلم

ذکرِ نی(ص) اسرارِ محت صلی اللہ علیہ و سلم

حق کا پیمر ختم رسالت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

صح ازل کی جان ھی ہے و ہ شام اد کی شان ھی ہے وہ

اس کی ثنا گو ہر اک ساعت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

ذکر نی میں دل کی طر ہے دل کی طر خوشنودی ر ہے

ر کی رضا سرکار کی مدحت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

کس کے تصدق چمکا ستارا چاند زمیں پر ر نے اتارا

ہم آزاد ہیں کس کی دولت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

وحدت کی پہچان اسی میں خشش کا سامان اسی میں

کرتے رہو یہ ذکر سعادت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

پاکستان کا پیارا خطہ آپ کی ہے نعلین کا صدقہ

آپ کے صدقے پائی یہ جنت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

قرآں ہو دستور ہمارا چمکے آس نصی کا تارا

رہر ہو ج آپ کی سیرت صلی اللہ علیہ و سلم

٭٭٭

۸۳

میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

یہی نام میرا علاج ہے یہی نام لیتے رہا کرو

٭

مرے ہم سخن مرے ساتھیو مرے مونسو مرے وارثو

تمہیں مجھ سے اتنا ہی پیار ہے مرے ساتھ صلِ علیٰ پڑھو

٭

کوئی چھیڑو قصے حضور کے گریں ت زمیں پہ غرور کے

کھلیں ا عقل و شعور کے دل مضطر کو قرار ہو

٭

مری زندگی ھی ہو زندگی مری شاعری ھی ہو شاعری

کھلے دل کے شہر میں چاندنی درِ مصطفےٰ پہ چلیں چلو

٭

مری چشمِ ناز کا نور وہ مری نضِ جاں کا سرور وہ

نہیں پل ھی مجھ سے ہیں دور و ہ مری دھڑکنوں کی صدا سنو

٭

وہ خدا کا عکسِ جمال ہیں وہی رشکِ او ج کمال ہیں

وہ تو آپ اپنی مثال ہیں کوئی تم نہ ان کی مثال دو

٭

جسے ان کی ایک جھلک ملی وہ ہر ایک غم سے ہوا ری

اسے آس اس طرح چپ لگی کہ نہ جیسے منہ میں زان ہو

٭٭٭

۸۴

ہر اک لب پہ نعت نبی کے ترانے ہر اک لب پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے

ہر اک ل پہ نعت نی کے ترانے ہر اک ل پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے

ہمارے نی جس میں تشریف لائے وہ رحمت کا پر نور دن آگیا ہے

٭

درودوں کے تحفے سلاموں کے ہدیے دعاؤں کے منظر عقیدت کے نعرے

مقدس مقدس ہر اک سمت جلوے معطر معطر ہر اک سو فضا ہے

٭

عطاؤں کی ارش دعا کی گھڑی ہے ہر اک شخص کی آپ سے لو لگی ہے

ہر اک آنکھ میں آنسوؤں کے سمندر ہر اک دل میں تعظیم کا در کھلا ہے

٭

خدا کی خدائی کے مختار ہیں وہ تمام انیاء کے ھی سردار ہیں وہ

خدا کی خدائی طلگار ان کی مقام ان کو ر نے عطا وہ کیا ہے

٭

اٹھے گی وہ چشمِ کرم غم کے مارو انہیں دل کی گہرائیوں سے پکارو

نچھاور کرو پھول ان پہ ثنا کے اسی میں ہی آس اپنے ر کی رضا ہے

٭٭٭

۸۵

تری یاد کا سدا گلستاں مری نبضِ جاں میںکھلا رہے

تری یاد کا سدا گلستاں مری نضِ جاں میں کھلا رہے

مری سانس جس سے مہک اٹھے وہ قرار دل میں سا رہے

٭

میں پڑا رہوں تری راہ میں تری چاہتوں کی پناہ میں

مجھے ٹھوکروں کی نہ فکر ہو مرا زخم زخم ہرا رہے

٭

مری زندگی کا ہر ایک پل ترے پیار سے نے ا عمل

تری چاہتوں پہ جیوں مروں ترے غم کی دل میں جلا رہے

٭

رہے تیری یاد سے واسطہ کوئی اور نہ ہو مرا راستہ

مرے شعر میری قا نیں مرا رنگ س سے جدا رہے

٭

یہی آس ہے یہی آرزو تیری ہر گھڑی کروں گفتگو

مری آنکھ ہو سدا ا وضو یونہی مجھ پہ فضلِ خدا رہے

٭٭٭

۸۶

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا رب نے

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا ر نے

پھر اسی نور کو محو نایا ر نے

٭

ان کی ہر ات میں رکھ رکھ کے محت کی مٹھاس

پیکرِ خُلق کا دیدار کرایا ر نے

٭

انیا ج تیرے دیدار کو ے تا ہوئے

پھر امامت کو سرِ عرش لایا ر نے

٭

پیکر حسن میں س خویاں اپنی ھر کر

تجھ کو قرآن کی صورت میں نایا ر نے

٭

تیری سیرت کی زمانے سے گواہی لینے

دیکھنے والی نگاہوں کو دکھایا ر نے

٭

اپنی قدرت کو دو عالم پہ اجاگر کرنے

ناز تخلیق کو پھر پاس لایا ر نے

٭

۸۷

اور ھی یش ہا نعمتیں دی ہیں لیکن

دے کے محو یہ احسان جتایا ر نے

٭

شکر اس ذات کا جتنا ھی کروں کم ہے آس

مجھ کو ھی نعت کا انداز سکھایا ر نے

٭٭٭

۸۸

بڑھتی ہی جارہی ہے آنکھوں کی بے قراری

بڑھتی ہی جا رہی ہے آنکھوں کی ے قراری

یا ر دکھا دے پھر سے صورت نی کی پیاری

٭

پھر دل کی انجمن میں جھنے لگی ہیں شمعیں

پھر ہجر کی تڑپ میں گزرے گی رات ساری

٭

جس میں کھلیں تمہاری الفت کے پھول آقا

اس دن کے میں تصدق اس رات کے میں واری

٭

ان راستوں کے ذرے نتے گئے ستارے

جن راستوں سے گزری سرکار کی سواری

٭

ہم کو ھی اس نظر میں رہنے کی آرزو ہے

جس کی ضیاء سے جگمگ ہے کائنات ساری

٭

مہکار يٹ رہی ہے جس میں محيتوں کی

وہ ہے نگر تمہارا وہ ہے گلی تمہاری

٭

جینے کی آس دل میں کچھ اور ڑھ گئی ہے

جب سے ہوئی ہیں نعتیں میرے لوں پہ جاری

٭٭٭

۸۹

دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت

دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت

چومتا جاتا ہے کاغذ کو حرم کی صورت

٭

اس پہ تحریر ہوئی جاتی ہے آقا کی ثناء

ن رہی ہے مرے عصیاں پہ کرم کی صورت

٭

آپ کا پیار سنھالا جو نہ دیتا مجھ کو

اور ہی ہوتی مرے رنج و الم کی صورت

٭

شہر تو شہر ہے شیدائی مرے آقا کے

"دشت میں جائیں تو ہو دشت ارم کی صورت"

٭

مدح سرکار میں آنکھوں کا وضو لازم ہے

خود خود نتی ہے پھر نعت رقم کی صورت

٭

ہر کوئی اپنی نگاہوں پہ ٹھاتا ہے مجھے

اور کیا ہوتی ہے الطاف و کرم کی صورت

٭

آس سرکار کا دامان شفاعت ہو نصی

ت ہی محشر میں نے میرے ھرم کی صورت

٭٭٭

۹۰

وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

وہ الگ ہے ذات نماز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے حسیں کوئی مرے مصطفےٰ سے ھی ڑھ کے ہے

تو کہا یہ عجز و نیاز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ اور کوئی تیری رفعتوں سے ہے آشنا

تو کہا یہ اس نے ھی راز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے کہ معتر درِ مصطفےٰ سی کوئی جگہ

تو کہا یہ اس نے ھی ناز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ رفعتیں کسی اور نی کو ھی یوں ملیں

تو کہا یہ صیغۂ راز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے صعوتیں کسی اور کی آل کو یوں ملیں

تو کہا یہ سوز و گداز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ کہکشاں کسی اور کی گردِ سفر ھی ہے

تو کہا یہ آس کو ناز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭٭٭

۹۱

صبح بھی آپ(ص) سے شام بھی آپ (ص)سے

صح ھی آپ(ص) سے شام ھی آپ (ص)سے

میری منسو ہر اک گھڑی آپ (ص)سے

٭

میرے آقا میرا تو یہ ایمان ہے

دونوں عالم کی رونق ہوئی آپ (ص)سے

٭

آپ میرے تصور کی معراج ہیں

میرے کردار میں روشنی آپ (ص)سے

٭

گر گیا تھا خود اپنی نظر سے شر

آج اس کو ملی رتری آپ(ص) سے

٭

آپ(ص) خالق کی ے مثل تخلیق ہیں

کیسے لیتا کوئی رتری آپ(ص) سے

٭

کہکشاں ہی نہیں ان کی گردِ سفر

چاند کو ھی ملی چاندنی آپ(ص) سے

٭

قر میں آس عشق نی ساتھ ہو

اے خدا ا لتجا ہے یہی آپ (ص)سے

٭٭٭

۹۲

ثناء خدا کی درود و سلام ہے تیرا

ثناء خدا کی درود و سلام ہے تیرا

لوں پہ ذکر مرے صح و شام ہے تیرا

٭

جو تم نہ ہوتے تو ستی نہ عالم ہستی

وجود کون و مکاں اہتمام ہے تیرا

٭

کوئی نہیں تیرا ہمسر نہ کوئی سایہ ہے

سروں پہ سایہ ہمارے دوام ہے تیرا

٭

دلوں میں عشق نی کا نہ دیپ جلتا ہو

تو پھر فضول سجود و قیام ہے تیرا

٭

تمہارے در کا ہے دران جرائیل امیں

"مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا"

٭

قلم دیا مجھے اپنے نی کی مدحت کا

مرے کریم یہ کیا کم انعام ہے تیرا

٭

اسے ھی خسرو و محو سا ثناء گو کر

یہ امتی ھی تو آقا غلام ہے تیرا

۹۳

٭

وہ ایک نقطہ جسے خود خدا ہی جانتا ہے

خدا کے عد جدا سا مقام ہے تیرا

٭

ملی ہے آس کو جس نام سے پذیرائی

وہ نام نامی تو خیر الانام ہے تیرا

٭٭٭

۹۴

ان کی دہلیز کے قابل میرا سر ہو جاتا

ان کی دہلیز کے قال میرا سر ہو جاتا

کاش منظور مدینے کا سفر ہو جاتا

٭

لوگ مجھ کو ھی ڑے چاؤ سے ملنے آتے

محترم س کی نظر میں میرا گھر ہو جاتا

٭

میں ھی چل پڑتا دل و جاں کو نچھاور کرنے

پورا مقصد مرے جینے کا اگر ہو جاتا

٭

لیلۃ القدر ہر اک رات مری ہو جاتی

عید جیسا میرا ہر روز سر ہو جاتا

٭

مسجد نوی میں دل کھول کے لکھتا نعتیں

میرا ہر شعر وہاں جا کے امر ہو جاتا

٭

میرا ظاہر ھی عقیدت سے منور ہوتا

میرا اطن ھی محت کا نگر ہو جاتا

۹۵

٭

مہک اٹھتے مرے ہونٹوں پہ درودوں کے گلا

میرا دامانِ طل اشکوں سے تر ہو جاتا

٭

زندگی میں نیا اک موڑ اجاگر ہوتا

میری آنکھیں مرا دل آپ کا گھر ہو جاتا

٭

اتنا مشکل تو نہ تھا ر کو منا لینا آس

حوصلہ سامنا کرنے کا اگر ہو جاتا

٭٭٭

۹۶

آپ سے مہکا تخیل آپ پر نازاں قلم۔ ا ے رسول محترم

آپ سے مہکا تخیل آپ پر نازاں قلم۔ ا ے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپکا ذکر مقدس ہر دعا کا تاج ہے۔ غمزدوں کی لاج ہے

اسکے ن یکار ہر اک ندگی ر کی قسم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھایا نکھار۔ اے حی کردگار

زم ہستی کے ہیں محسن آپکے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭

آپ کے اعث جہاں میں آدمی مسرور ہے۔ زندگی پر نور ہے

آپ کی ذاتِ مقدس آدمیت کا ھرم۔ اے رسولِ محترم

٭

آپکی توصیف میں اترا ہے قرآن میں۔رحمت اللعالمین

آپ کا شیدا ہے شرق و غر اور عر و عجم۔! اے رسول محترم

٭

آپ کا دامانِ رحمت جس کو ہو جائے نصی۔کتنا وہ ر کے قری

پھر اسے خدشہ جہنم کا نہ ہو محشر کا غم۔ اے رسول محترم

٭

آس جگ میں اسکو پھر پرواہ نہیں انجام کی۔ صح کی نہ شام کی

جس کی جان آپ کا ہو جائے الطاف و کرم۔ اے رسول محترم

٭٭٭

۹۷

سکون دل کے لیے جاوداں خوشی کے لیے

سکون دل کے لیے جاوداں خوشی کے لیے

نی کا ذکر ضروری ہے زندگی کے لیے

٭

مقام فیض کی تم کو اگر تمنا ہے

درود پڑھتے رہو اپنی ہتری کے لیے

٭

اسے ھی اذن حضوری کا شرف مل جاتا

تڑپ رہا ہے جو سرکار حاضری کے لیے

٭

خدائے پاک نے کیا کیا نہ اہتمام کیا

حی پاک(ص) سے ملنے کی اک گھڑی کے لیے

٭

حضور آپ ہی تخلیقِ وجہہ کون و مکاں

نی ہے عالم ہستی ھی آپ ہی کے لیے

٭

حضور(ص) عر و عجم آپ کے تمنائی

حضور شرق و غر ھی ہیں آپ ہی کے لیے

٭

۹۸

نثار ان پہ کروں اپنی سانس سانس کا لمس

مرے وجود کی تاندگی انہی کے لیے

٭

تمام ساعتیں خشیں جو زندگی نے تمہیں

انہی کو وقف کرو آ س آج انہی کے لیے

٭

نی ہمارا نی وہ ہے انیاء جس کی

کریں خدا سے دعا انکے امتی کے لیے

٭

اگر حضور(ص) کی سچی لگن خدا دے دے

میں سر اٹھاؤں نہ سجدے سے اک گھڑی کے لیے

٭

حضور(ص) عد ولادت کے کر رہے تھے دعا

خدائے پاک سے امت کی خششی کے لیے

٭

حضور(ص) آس کو وہ اذنِ نعت مل جائے

نے وسیلہ جو خشش کا اخروی کے لیے

٭٭٭

۹۹

اے شہ انبیاء سرورِ سروراں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

اے شہ انیاء سرورِ سروراں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

ر ملا کہہ رہے ہیں زمیں و زماں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

نور تو س گھرانہ تیرا نور کا تو سہارا ہے لاچار و مجور کا

ہادی اِنس و جاں حامی یکساں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

تو چلے تو فضائیں تیرے ساتھ ہوں ادلو ں کی گھٹائیں تیرے ساتھ ہوں

مٹھیوں سے ملے کنکروں کو زاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

کوئی سمجھے گا کیا تیرے اسرار کو آئینے ھی ترستے ہیں دیدار کو

تیرے قدموں میں رکھتی ہے سر کہکشاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

ذکر تیرا دعاؤں کا سرتاج ہے غمزدوں ے سہاروں کی معراج ہے

ہر فنا شے تیرا ذکر ہے جاوداں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

تیری انگلی کا جس سمت اِشارہ گیا چاند کو ھی اسی سو اتارا گیا

تاجور دیکھتے رہ گئے یہ سماں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

آس آنکھوں میں جگمگ ہے تیری ضیاء اے حی خدا خاتم الانیاء

اے شفیع الامم مرسلِ مرسلاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭٭٭

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114