آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)33%

آسمان (منتخب نعتیہ کلام) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 114

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 114 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56140 / ڈاؤنلوڈ: 2729
سائز سائز سائز
آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

آسمان (منتخب نعتیہ کلام)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جس نے ھی دیکھا ہے جلوہ آپ کا

اس کو ہی چپ لگ گئی خاموش رہ

٭

نعت لکھواتی ہے کوئی اور ہی ذات

ورنہ جرأت آس کی خاموش رہ

٭٭٭

۸۱

ہر طرف لب پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے

ہر طرف ل پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے

جشنِ میلاد ہے مصطفےٰ کا کیا معطر معطر گھڑی ہے

٭

آج سن لی ہے س کی خدا نے کھل گئے رحمتوں کے خزانے

جتنا دامن میں آئے سمیٹو ہر طرف رحمتوں کی جھڑی ہے

٭

چھٹ گئیں ظلمتوں کی گھٹائیں کیسے دن آج کا ھول جائیں

عید میلاد آؤ منائیں کون سی عید اس سے ڑی ہے

٭

ہم سے کہتا ہے خود ر اکر میں ثنا خوان ہوں مصطفےٰ کا

تم ھی ھیجو درود ان پہ ہر دم ان کی مدحت مری ندگی ہے

٭

اک خدا اک رسول ایک قرآں ایک کیوں کر نہیں پھر مسلماں

چھوڑ دو فرقہ ندی خدارا اس نے جاں کتنے ندوں کی لی ہے

٭

ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زاں ہے

آپ محسن ہیں انسانیت کے آپ کے در سے ہی لو لگی ہے

٭

اپنے در پر ہی رکھنا خدارا غیر کا در نہیں ہے گوارا

آس مانا کہ عاصی ہت ہے پر حضور آپ کا امتی ہے

٭٭٭

۸۲

ذکرِ نبی(ص) اسرارِ محبت صلی اللہ علیہ وسلم

ذکرِ نی(ص) اسرارِ محت صلی اللہ علیہ و سلم

حق کا پیمر ختم رسالت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

صح ازل کی جان ھی ہے و ہ شام اد کی شان ھی ہے وہ

اس کی ثنا گو ہر اک ساعت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

ذکر نی میں دل کی طر ہے دل کی طر خوشنودی ر ہے

ر کی رضا سرکار کی مدحت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

کس کے تصدق چمکا ستارا چاند زمیں پر ر نے اتارا

ہم آزاد ہیں کس کی دولت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

وحدت کی پہچان اسی میں خشش کا سامان اسی میں

کرتے رہو یہ ذکر سعادت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

پاکستان کا پیارا خطہ آپ کی ہے نعلین کا صدقہ

آپ کے صدقے پائی یہ جنت صلی اللہ علیہ و سلم

٭

قرآں ہو دستور ہمارا چمکے آس نصی کا تارا

رہر ہو ج آپ کی سیرت صلی اللہ علیہ و سلم

٭٭٭

۸۳

میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

یہی نام میرا علاج ہے یہی نام لیتے رہا کرو

٭

مرے ہم سخن مرے ساتھیو مرے مونسو مرے وارثو

تمہیں مجھ سے اتنا ہی پیار ہے مرے ساتھ صلِ علیٰ پڑھو

٭

کوئی چھیڑو قصے حضور کے گریں ت زمیں پہ غرور کے

کھلیں ا عقل و شعور کے دل مضطر کو قرار ہو

٭

مری زندگی ھی ہو زندگی مری شاعری ھی ہو شاعری

کھلے دل کے شہر میں چاندنی درِ مصطفےٰ پہ چلیں چلو

٭

مری چشمِ ناز کا نور وہ مری نضِ جاں کا سرور وہ

نہیں پل ھی مجھ سے ہیں دور و ہ مری دھڑکنوں کی صدا سنو

٭

وہ خدا کا عکسِ جمال ہیں وہی رشکِ او ج کمال ہیں

وہ تو آپ اپنی مثال ہیں کوئی تم نہ ان کی مثال دو

٭

جسے ان کی ایک جھلک ملی وہ ہر ایک غم سے ہوا ری

اسے آس اس طرح چپ لگی کہ نہ جیسے منہ میں زان ہو

٭٭٭

۸۴

ہر اک لب پہ نعت نبی کے ترانے ہر اک لب پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے

ہر اک ل پہ نعت نی کے ترانے ہر اک ل پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے

ہمارے نی جس میں تشریف لائے وہ رحمت کا پر نور دن آگیا ہے

٭

درودوں کے تحفے سلاموں کے ہدیے دعاؤں کے منظر عقیدت کے نعرے

مقدس مقدس ہر اک سمت جلوے معطر معطر ہر اک سو فضا ہے

٭

عطاؤں کی ارش دعا کی گھڑی ہے ہر اک شخص کی آپ سے لو لگی ہے

ہر اک آنکھ میں آنسوؤں کے سمندر ہر اک دل میں تعظیم کا در کھلا ہے

٭

خدا کی خدائی کے مختار ہیں وہ تمام انیاء کے ھی سردار ہیں وہ

خدا کی خدائی طلگار ان کی مقام ان کو ر نے عطا وہ کیا ہے

٭

اٹھے گی وہ چشمِ کرم غم کے مارو انہیں دل کی گہرائیوں سے پکارو

نچھاور کرو پھول ان پہ ثنا کے اسی میں ہی آس اپنے ر کی رضا ہے

٭٭٭

۸۵

تری یاد کا سدا گلستاں مری نبضِ جاں میںکھلا رہے

تری یاد کا سدا گلستاں مری نضِ جاں میں کھلا رہے

مری سانس جس سے مہک اٹھے وہ قرار دل میں سا رہے

٭

میں پڑا رہوں تری راہ میں تری چاہتوں کی پناہ میں

مجھے ٹھوکروں کی نہ فکر ہو مرا زخم زخم ہرا رہے

٭

مری زندگی کا ہر ایک پل ترے پیار سے نے ا عمل

تری چاہتوں پہ جیوں مروں ترے غم کی دل میں جلا رہے

٭

رہے تیری یاد سے واسطہ کوئی اور نہ ہو مرا راستہ

مرے شعر میری قا نیں مرا رنگ س سے جدا رہے

٭

یہی آس ہے یہی آرزو تیری ہر گھڑی کروں گفتگو

مری آنکھ ہو سدا ا وضو یونہی مجھ پہ فضلِ خدا رہے

٭٭٭

۸۶

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا رب نے

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا ر نے

پھر اسی نور کو محو نایا ر نے

٭

ان کی ہر ات میں رکھ رکھ کے محت کی مٹھاس

پیکرِ خُلق کا دیدار کرایا ر نے

٭

انیا ج تیرے دیدار کو ے تا ہوئے

پھر امامت کو سرِ عرش لایا ر نے

٭

پیکر حسن میں س خویاں اپنی ھر کر

تجھ کو قرآن کی صورت میں نایا ر نے

٭

تیری سیرت کی زمانے سے گواہی لینے

دیکھنے والی نگاہوں کو دکھایا ر نے

٭

اپنی قدرت کو دو عالم پہ اجاگر کرنے

ناز تخلیق کو پھر پاس لایا ر نے

٭

۸۷

اور ھی یش ہا نعمتیں دی ہیں لیکن

دے کے محو یہ احسان جتایا ر نے

٭

شکر اس ذات کا جتنا ھی کروں کم ہے آس

مجھ کو ھی نعت کا انداز سکھایا ر نے

٭٭٭

۸۸

بڑھتی ہی جارہی ہے آنکھوں کی بے قراری

بڑھتی ہی جا رہی ہے آنکھوں کی ے قراری

یا ر دکھا دے پھر سے صورت نی کی پیاری

٭

پھر دل کی انجمن میں جھنے لگی ہیں شمعیں

پھر ہجر کی تڑپ میں گزرے گی رات ساری

٭

جس میں کھلیں تمہاری الفت کے پھول آقا

اس دن کے میں تصدق اس رات کے میں واری

٭

ان راستوں کے ذرے نتے گئے ستارے

جن راستوں سے گزری سرکار کی سواری

٭

ہم کو ھی اس نظر میں رہنے کی آرزو ہے

جس کی ضیاء سے جگمگ ہے کائنات ساری

٭

مہکار يٹ رہی ہے جس میں محيتوں کی

وہ ہے نگر تمہارا وہ ہے گلی تمہاری

٭

جینے کی آس دل میں کچھ اور ڑھ گئی ہے

جب سے ہوئی ہیں نعتیں میرے لوں پہ جاری

٭٭٭

۸۹

دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت

دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت

چومتا جاتا ہے کاغذ کو حرم کی صورت

٭

اس پہ تحریر ہوئی جاتی ہے آقا کی ثناء

ن رہی ہے مرے عصیاں پہ کرم کی صورت

٭

آپ کا پیار سنھالا جو نہ دیتا مجھ کو

اور ہی ہوتی مرے رنج و الم کی صورت

٭

شہر تو شہر ہے شیدائی مرے آقا کے

"دشت میں جائیں تو ہو دشت ارم کی صورت"

٭

مدح سرکار میں آنکھوں کا وضو لازم ہے

خود خود نتی ہے پھر نعت رقم کی صورت

٭

ہر کوئی اپنی نگاہوں پہ ٹھاتا ہے مجھے

اور کیا ہوتی ہے الطاف و کرم کی صورت

٭

آس سرکار کا دامان شفاعت ہو نصی

ت ہی محشر میں نے میرے ھرم کی صورت

٭٭٭

۹۰

وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

وہ الگ ہے ذات نماز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے حسیں کوئی مرے مصطفےٰ سے ھی ڑھ کے ہے

تو کہا یہ عجز و نیاز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ اور کوئی تیری رفعتوں سے ہے آشنا

تو کہا یہ اس نے ھی راز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے کہ معتر درِ مصطفےٰ سی کوئی جگہ

تو کہا یہ اس نے ھی ناز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ رفعتیں کسی اور نی کو ھی یوں ملیں

تو کہا یہ صیغۂ راز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا زمیں سے صعوتیں کسی اور کی آل کو یوں ملیں

تو کہا یہ سوز و گداز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭

یہ کہا فلک سے کہ کہکشاں کسی اور کی گردِ سفر ھی ہے

تو کہا یہ آس کو ناز سے کہ نہیں نہیں خدا نہیں

٭٭٭

۹۱

صبح بھی آپ(ص) سے شام بھی آپ (ص)سے

صح ھی آپ(ص) سے شام ھی آپ (ص)سے

میری منسو ہر اک گھڑی آپ (ص)سے

٭

میرے آقا میرا تو یہ ایمان ہے

دونوں عالم کی رونق ہوئی آپ (ص)سے

٭

آپ میرے تصور کی معراج ہیں

میرے کردار میں روشنی آپ (ص)سے

٭

گر گیا تھا خود اپنی نظر سے شر

آج اس کو ملی رتری آپ(ص) سے

٭

آپ(ص) خالق کی ے مثل تخلیق ہیں

کیسے لیتا کوئی رتری آپ(ص) سے

٭

کہکشاں ہی نہیں ان کی گردِ سفر

چاند کو ھی ملی چاندنی آپ(ص) سے

٭

قر میں آس عشق نی ساتھ ہو

اے خدا ا لتجا ہے یہی آپ (ص)سے

٭٭٭

۹۲

ثناء خدا کی درود و سلام ہے تیرا

ثناء خدا کی درود و سلام ہے تیرا

لوں پہ ذکر مرے صح و شام ہے تیرا

٭

جو تم نہ ہوتے تو ستی نہ عالم ہستی

وجود کون و مکاں اہتمام ہے تیرا

٭

کوئی نہیں تیرا ہمسر نہ کوئی سایہ ہے

سروں پہ سایہ ہمارے دوام ہے تیرا

٭

دلوں میں عشق نی کا نہ دیپ جلتا ہو

تو پھر فضول سجود و قیام ہے تیرا

٭

تمہارے در کا ہے دران جرائیل امیں

"مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا"

٭

قلم دیا مجھے اپنے نی کی مدحت کا

مرے کریم یہ کیا کم انعام ہے تیرا

٭

اسے ھی خسرو و محو سا ثناء گو کر

یہ امتی ھی تو آقا غلام ہے تیرا

۹۳

٭

وہ ایک نقطہ جسے خود خدا ہی جانتا ہے

خدا کے عد جدا سا مقام ہے تیرا

٭

ملی ہے آس کو جس نام سے پذیرائی

وہ نام نامی تو خیر الانام ہے تیرا

٭٭٭

۹۴

ان کی دہلیز کے قابل میرا سر ہو جاتا

ان کی دہلیز کے قال میرا سر ہو جاتا

کاش منظور مدینے کا سفر ہو جاتا

٭

لوگ مجھ کو ھی ڑے چاؤ سے ملنے آتے

محترم س کی نظر میں میرا گھر ہو جاتا

٭

میں ھی چل پڑتا دل و جاں کو نچھاور کرنے

پورا مقصد مرے جینے کا اگر ہو جاتا

٭

لیلۃ القدر ہر اک رات مری ہو جاتی

عید جیسا میرا ہر روز سر ہو جاتا

٭

مسجد نوی میں دل کھول کے لکھتا نعتیں

میرا ہر شعر وہاں جا کے امر ہو جاتا

٭

میرا ظاہر ھی عقیدت سے منور ہوتا

میرا اطن ھی محت کا نگر ہو جاتا

۹۵

٭

مہک اٹھتے مرے ہونٹوں پہ درودوں کے گلا

میرا دامانِ طل اشکوں سے تر ہو جاتا

٭

زندگی میں نیا اک موڑ اجاگر ہوتا

میری آنکھیں مرا دل آپ کا گھر ہو جاتا

٭

اتنا مشکل تو نہ تھا ر کو منا لینا آس

حوصلہ سامنا کرنے کا اگر ہو جاتا

٭٭٭

۹۶

آپ سے مہکا تخیل آپ پر نازاں قلم۔ ا ے رسول محترم

آپ سے مہکا تخیل آپ پر نازاں قلم۔ ا ے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپکا ذکر مقدس ہر دعا کا تاج ہے۔ غمزدوں کی لاج ہے

اسکے ن یکار ہر اک ندگی ر کی قسم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھایا نکھار۔ اے حی کردگار

زم ہستی کے ہیں محسن آپکے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭

آپ کے اعث جہاں میں آدمی مسرور ہے۔ زندگی پر نور ہے

آپ کی ذاتِ مقدس آدمیت کا ھرم۔ اے رسولِ محترم

٭

آپکی توصیف میں اترا ہے قرآن میں۔رحمت اللعالمین

آپ کا شیدا ہے شرق و غر اور عر و عجم۔! اے رسول محترم

٭

آپ کا دامانِ رحمت جس کو ہو جائے نصی۔کتنا وہ ر کے قری

پھر اسے خدشہ جہنم کا نہ ہو محشر کا غم۔ اے رسول محترم

٭

آس جگ میں اسکو پھر پرواہ نہیں انجام کی۔ صح کی نہ شام کی

جس کی جان آپ کا ہو جائے الطاف و کرم۔ اے رسول محترم

٭٭٭

۹۷

سکون دل کے لیے جاوداں خوشی کے لیے

سکون دل کے لیے جاوداں خوشی کے لیے

نی کا ذکر ضروری ہے زندگی کے لیے

٭

مقام فیض کی تم کو اگر تمنا ہے

درود پڑھتے رہو اپنی ہتری کے لیے

٭

اسے ھی اذن حضوری کا شرف مل جاتا

تڑپ رہا ہے جو سرکار حاضری کے لیے

٭

خدائے پاک نے کیا کیا نہ اہتمام کیا

حی پاک(ص) سے ملنے کی اک گھڑی کے لیے

٭

حضور آپ ہی تخلیقِ وجہہ کون و مکاں

نی ہے عالم ہستی ھی آپ ہی کے لیے

٭

حضور(ص) عر و عجم آپ کے تمنائی

حضور شرق و غر ھی ہیں آپ ہی کے لیے

٭

۹۸

نثار ان پہ کروں اپنی سانس سانس کا لمس

مرے وجود کی تاندگی انہی کے لیے

٭

تمام ساعتیں خشیں جو زندگی نے تمہیں

انہی کو وقف کرو آ س آج انہی کے لیے

٭

نی ہمارا نی وہ ہے انیاء جس کی

کریں خدا سے دعا انکے امتی کے لیے

٭

اگر حضور(ص) کی سچی لگن خدا دے دے

میں سر اٹھاؤں نہ سجدے سے اک گھڑی کے لیے

٭

حضور(ص) عد ولادت کے کر رہے تھے دعا

خدائے پاک سے امت کی خششی کے لیے

٭

حضور(ص) آس کو وہ اذنِ نعت مل جائے

نے وسیلہ جو خشش کا اخروی کے لیے

٭٭٭

۹۹

اے شہ انبیاء سرورِ سروراں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

اے شہ انیاء سرورِ سروراں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

ر ملا کہہ رہے ہیں زمیں و زماں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

نور تو س گھرانہ تیرا نور کا تو سہارا ہے لاچار و مجور کا

ہادی اِنس و جاں حامی یکساں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

تو چلے تو فضائیں تیرے ساتھ ہوں ادلو ں کی گھٹائیں تیرے ساتھ ہوں

مٹھیوں سے ملے کنکروں کو زاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

کوئی سمجھے گا کیا تیرے اسرار کو آئینے ھی ترستے ہیں دیدار کو

تیرے قدموں میں رکھتی ہے سر کہکشاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

ذکر تیرا دعاؤں کا سرتاج ہے غمزدوں ے سہاروں کی معراج ہے

ہر فنا شے تیرا ذکر ہے جاوداں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

تیری انگلی کا جس سمت اِشارہ گیا چاند کو ھی اسی سو اتارا گیا

تاجور دیکھتے رہ گئے یہ سماں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭

آس آنکھوں میں جگمگ ہے تیری ضیاء اے حی خدا خاتم الانیاء

اے شفیع الامم مرسلِ مرسلاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

٭٭٭

۱۰۰

آؤ سوچوں ہی سوچوں میں ہم آقا کے دربار چلیں

آؤ سوچوں ہی سوچوں میں ہم آقا کے درار چلیں

مہکی یادوں کے پھول چنیں اشکوں کے لیکر ہار چلیں

٭

نہ کوئی روکنے والا ہو نہ کو ئی ٹوکنے والا ہو

روضے کے لمس کو جی ھر کر آنکھوں سے کرنے پیار چلیں

٭

جہاں مٹی سونا ہوتی ہے جہاں ذرے سورج نتے ہیں

اُن گلیوں کا اُن رستوں کا ہم ھی کرنے دیدار چلیں

٭

کہتے ہیں وہاں پُر شام سحر انوار کی ارش رہتی ہے

کہتے ہیں وہاں خوشو لینے س دنیا کے ازار چلیں

٭

ج شہر مدینہ جی ھر کر د ل کی آنکھوں سے دیکھ چکیں

پھر شاہ نجف کا در چُومیں غداد کے پھر ازار چلیں

٭

اس شہر محت کی خوشو کرتی ہے حفاظت انساں کی

جسکا یہ مقدر ن جائے اس پر نہ ریا کے وار چلیں

٭

۱۰۱

کرل کے جن صحراؤں میں معصوموں کی فریادیں ہیں

ان صحراؤں سے صر و رضا کا سننے حال زار چلیں

٭

سنتے ہیں کہ در کے میداں میں ہے آج ھی رع و جلالیت

اصحا کا وہ میدانِ عمل ہم دیکھنے سو سو ار چلیں

٭

اے آس زمانے میں کتنا دشوار ہو جینا مرنا

آؤ سرکار سے اُمت کا یہ کہنے حالِ زار چلیں

٭٭٭

۱۰۲

اے جسم بے قرار ثنائے رسول سے

اے جسم ے قرار ثنائے رسول سے

جوڑ اپنے دل کے تار ثنائے رسول سے

٭

ہر صح پر وقار ثنائے رسول سے

ہر شام خوش گوار ثنائے رسول سے

٭

ھٹکا ہے ساری عمر سراوں کی چاہ میں

جوڑ ا تو دل کے تار ثنائے رسول سے

٭

کیا جانے سانس کا ہو سفر کس مقام تک

جی ھر کے کر لے پیار ثنائے رسول سے

٭

جن کو خر نہیں انہیں جا کر تایئے

دنیا کی ہے ہار ثنائے رسول سے

٭

وہ ذات، نامراد کو کرتی ہے ا مراد

تو زندگی سنوار ثنائے رسول سے

٭

گر تجھ کو لازوال محت کی آس ہے

جوڑ اپنے دل کے تار ثنائے رسول سے

٭٭٭

۱۰۳

زمین جس پہ نبوت کے تاجدار چلے

زمین جس پہ نوت کے تاجدار چلے

وہ چومنے کو نظر کاش ار ار چلے

٭

پڑیں نہ پاؤں تقدس کا یہ تقاضا ہے

وہ خاک جس پہ نی زندگی گزار چلے

٭

دلوں کو سجدہ روا اس مقام کا ھی ہے

نی کے دوش کے جس جا پہ شہ سوار چلے

٭

وہ حجرہ دیکھے جہاں عمر فیصلے کرتے

وہ خاک چومے جہاں حیدرِ کرار (ع) چلے

٭

وہ گھر ھی چومے جہاں تھے ایو انصاری

وہ راہ چومے جدھر ان کے یار غار چلے

٭

وضو غیر، تصور ھی جرم ہے لوگو

وہاں پہ جائے تو انسان اشک ار چلے

٭

۱۰۴

وہ اغ دیکھے جو عثماں نے دین کو خشا

وہ غار دیکھے جہاں ان کے یار غار چلے

٭

یہ شوق ھی ہے تڑپ ھی ہے تشنگی ھی ہے

جو آس جائے تو پاؤں کہاں اتار چلے

٭٭٭

۱۰۵

ہے نام دو جہاں میں وجہِ قرار تیرا

ہے نام دو جہاں میں وجہِ قرار تیرا

آقا نفس نفس میں مہکا ہے پیار تیرا

٭

تو نے جہالتوں سے انسان کو نکالا

انسانیت پہ احساں ہے ے شمار تیرا

٭

میری حیات جس کی رعنائیوں سے مہکی

وہ ہے سرور تیرا وہ ہے قرار تیرا

٭

ظلم و ستم کے ہر سو چھانے لگے ہیں ادل

پھر دیکھتا ہے رستہ ہر کارزار تیرا

٭

کشمیر ھی تمہاری چشم کرم کا طال

اقصیٰ کی آنکھ میں ھی ہے انتظار تیرا

٭

خالق خدا ہے، مالک دونوں کا تو ہے آقا

کل کائنات تیری، پروردگار تیرا

٭

وہ آس زندگی کی انمول ساعتیں ہیں

جن ساعتوں میں نام نامی شمار تیرا

٭٭٭

۱۰۶

زندگی ملی حضور سے

زندگی ملی حضور سے

روشنی کھلی حضور سے

٭

ساری رونقیں حضور کی

ساری دلکشی حضور سے

٭

کائنات ہست و ود میں

کن کی ے کلی حضور سے

٭

زندگی گری پڑی ہوئی

معتر ہوئی حضور سے

٭

اسکو دو جہان مل گئے

جس کی لو لگی حضور سے

٭

اڑتی دھول کا نصی دیکھ

کہکشاں نی حضور سے

٭

آس اہتمام ذکر و نعت

س ہماہمی حضور سے

٭٭٭

۱۰۷

محروم ہیں تو کیا غم دل حوصلہ نہ ہارے

محروم ہیں تو کیا غم دل حوصلہ نہ ہارے

طیہ کے ہوں گے اک دن اے دوستو نظارے

٭

رختِ سفر کسی دن اندھیں گے ہم ھی اپنا

ہم کو ھی لوگ ملنے آئیں گے گھر ہمارے

٭

آتے ہیں کام اس کے ایمان ہے یہ اپنا

مشکل میں جو کوئی ھی سرکار کو پکارے

٭

ج یاد ان کی آئی ے اختیار آئی

پلکوں پہ جھلملائے ہر رنگ کے ستارے

٭

جس شخص کو طل ہے جنت کو دیکھنے کی

سرکار کی گلی میں دو چار دن گزارے

٭

جس کا وکیل ر ہو آقا کی پیروی ہو

وہ کیسے استغاثہ انسان کوئی ہارے

٭

ہونٹوں پہ آس ہر دم جاری درود رکھنا

ناؤ تمہاری خود ہی لگ جائے گی کنارے

٭٭٭

۱۰۸

کاش سرکار کے حجرے کا میں ذرہ ہوتا

کاش سرکار کے حجرے کا میں ذرہ ہوتا

ان کے نعلین کا جاں پر میری قضہ ہوتا

٭

حشر تک سر نہ اٹھاتا میں درِ اقدس سے

میری قسمت میں ازل سے یہی لکھا ہوتا

٭

ان کے جلوؤں میں مگن رات سر ہو جاتی

ان کو تکتے ہوئے ہر ایک سویرا ہوتا

٭

ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھتا

ان کی آہٹ پہ دل و جان سے شیدا ہوتا

٭

کھی پیشانی پہ حسنین کے پاؤں پڑتے

اور علی کا کھی سر پر میرے تلوا ہوتا

٭

ہر کوئی چومتا آنکھوں سے لگاتا مجھ کو

ان کی نست سے اد تک میرا چرچا ہوتا

٭

۱۰۹

عمر، عثمان، اوکر ، حذیفہ، حمزہ

س صحاہ کو میری آنکھ نے دیکھا ہوتا

٭

یٹھ کر دل پہ میرے نعت سناتے حسان

ناز کا تاج میرے سر پہ سنہرا ہوتا

٭

ر کا احساں ہے کہ آقا کا سخنور ہوں آس

یہ ھی سرمایہ نہ ہوتا تو میرا کیا ہوتا

٭٭٭

۱۱۰

فہرست

انتساب ۴

اظہار تشکر ۵

مقدمہ(از: سیّد شاکر القادری) ۷

رائے از ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ۱۸

شعبہ اردو علامہ اقبال ااوپن یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان ۱۸

آس کا آسمان از مشتاق عاجز ۱۹

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ) ۲۶

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ) ۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ) ۲۹

دعا ۳۰

سلام ۳۴

نعتیں ۳۸

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں ۳۸

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا ۳۹

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن ۴۰

فضا میں خوشبو بکھر گئی ہے لبوں پہ میرے سلام آیا ۴۱

حقیقت میں وہی ذکرِ خدا ہے ۴۲

چاند تاروں فلک پہ زمینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی ۴۳

۱۱۱

جس کو حضور آپ کا فیض نظر ملا نہیں ۴۴

رات بھر چاندنی رقص کرتی رہی رات بھر آنکھ موتی لٹاتی رہی ۴۵

حل ہے ہر اک مشکل کا ۴۶

زندگی کا ہراک ہے سلسلہ مدینے سے ۴۷

وصف سرکار کے بیاں کیجئے ۴۸

تیرا ذکر صبح کا نور ہے تیری یاد رات کی چاندنی ۴۹

اے شہ عرب شہ انبیاء تیری سب صفات میں چاندنی ۵۰

نظر میں گنبد خضرا بسا کے لے آنا ۵۱

یہ جو میری آنکھیں ہیں میرے رب کی جانب سے مصطفےٰ کا صدقہ ہیں ۵۲

یہ لبوں کی تھرتھراہٹ یہ جو دل کی بے کلی ہے ۵۳

ملے جس سے قلب کو روشنی وہ چراغِ مدحِ رسول ہے ۵۴

ارض و سما میں جگمگ جگمگ لحظہ لحظہ آپ کا نام ۵۵

جب چھڑا تذکرہ میرے سرکار کا میرے دل میں نہاں پھول کھلنے لگے ۵۶

ان کا ہی فکر ہو ان کا ہی ذکر ہو یہ وظیفہ رہے زندگی کے لیے ۵۷

ترا تذکرہ مری بندگی ترا نامِ نامی قرارِ جاں ۵۸

وجہہ دونوں عالم کی میرے مصطفےٰ ہے تو ۵۹

مدینے کی فضاؤں میں بکھر جائیں تو اچھا ہو ۶۰

سوادِعشق نبی کیا کمال ہوتا ہے ۶۲

لوں نام نبی قلب ٹھہرجائے ادب سے ۶۳

نبی کی چشمِ کرم کے صدقے فضائے عالم میں دلکشی ہے ۶۴

۱۱۲

دیوانہ وار مانگیے رب سے اٹھا کے ہاتھ ۶۵

فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے ۶۶

تو روحِ کائنات ہے تو حسن کائنات ۶۷

ہمیشہ مری چشمِ تر میں رہیں ۶۹

ہم بے کسوں پہ فضل خدا ہے حضور (ص)سے ۷۰

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے ۷۱

میں غریب سے بھی غریب ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے ۷۲

سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زباں سے بکھرنے لگے ۷۳

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ بے نور کو روشنی مل گئی ۷۴

اپنی اوقات کہاں، ان کے سبب سے مانگوں ۷۵

جمال عکس محمدی سے فضائے عالم سجی ہوئی ہے ۷۶

رنگ لائی مرے دل کی ہر اک صدا لوٹنے زندگی کے خزینے چلا ۷۷

مرے دل میں یونہی تڑپ رہے مری آنکھ میں یونہی نم رہے ۷۸

آپ(ص) سے حسن کائنات آپ کہاں کہاں نہیں ۷۹

ہے یہ دربارِ نبی خاموش رہ ۸۰

ہر طرف لب پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے ۸۲

ذکرِ نبی(ص) اسرارِ محبت صلی اللہ علیہ وسلم ۸۳

میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو ۸۴

ہر اک لب پہ نعت نبی کے ترانے ہر اک لب پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے ۸۵

تری یاد کا سدا گلستاں مری نبضِ جاں میںکھلا رہے ۸۶

۱۱۳

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا رب نے ۸۷

بڑھتی ہی جارہی ہے آنکھوں کی بے قراری ۸۹

دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت ۹۰

وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں ۹۱

صبح بھی آپ(ص) سے شام بھی آپ (ص)سے ۹۲

ثناء خدا کی درود و سلام ہے تیرا ۹۳

ان کی دہلیز کے قابل میرا سر ہو جاتا ۹۵

آپ سے مہکا تخیل آپ پر نازاں قلم۔ ا ے رسول محترم ۹۷

سکون دل کے لیے جاوداں خوشی کے لیے ۹۸

اے شہ انبیاء سرورِ سروراں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں ۱۰۰

آؤ سوچوں ہی سوچوں میں ہم آقا کے دربار چلیں ۱۰۱

اے جسم بے قرار ثنائے رسول سے ۱۰۳

زمین جس پہ نبوت کے تاجدار چلے ۱۰۴

ہے نام دو جہاں میں وجہِ قرار تیرا ۱۰۶

زندگی ملی حضور سے ۱۰۷

محروم ہیں تو کیا غم دل حوصلہ نہ ہارے ۱۰۸

کاش سرکار کے حجرے کا میں ذرہ ہوتا ۱۰۹

۱۱۴