نماز تراویح کی حقیقت
تراویح باعتبارلغت : تراویح، ترویحۃ کی جمع ہے اور آرام و استراحت کے واسطے ایک مرتبہ بیٹھنے کیلیے استعمال ہوتاہے ۔
علامہ ابن منظور علم لغت کی عظیم کتاب لسان العرب میں تحریر فرماتے ہیں : (التراویح، جمع ترویحۃ و ھی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ تفعیلۃ منھا مثل تسلیمۃ من السلام، والترویحۃ فی شھر رمضان سمیت بذالک لاستراحۃالقوم بعد کل اربع رکعات) تراویح ، ترویحۃ کی جمع ہے اور ایک مرتبہ آرام کرنے کا نام ہے مادہ راحت سے بر وزن تفعیلہ جیسےمادہ سلام سے وزن تسلیمہ، اور ماہ رمضان کی نماز تراویح کو بھی اسیلئے تراویح کہتے ہیں کہ لوگ ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتے ہیں ۔
صاحب مجمع البحرین لفظ تراوح کے ذیل میں رقمطراز ہیں : (التراوح تفاعل من الراحة لان کلا من المتراوحین یریح صاحبه و صلاة التراویح المخترعة من هذا الباب لان المصلی یستریح بعد کل اربع
) تراوح مادہ راحت سےباب تفاعل کا مصدر ہے یعنی دو آدمیوں کا یکے بعد دیگرے صبح سےشام تک کنوے سے پانی کھینچنا، اسلئےکہ اسمیں بھی ایک شخص دوسرے کے لئے استراحت و آرام کا باعث ہوتا ہے اور گھڑی ہوئی و ایجاد شدہ نماز تراویح بھی اسی باب سے ہے چونکہ نمازگذار ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتا ہے ۔
تراویح باعتباراصطلاح : علم لغت کے دو ماہر اور خریت فن کے بیانات سے معنئ لغوی کے ساتھ ساتھ اصطلاحی معنی بھی واضح و روشن ہو جاتے ہیں اگر چہ نماز تراویح کیا ہے؟ اور نماز تراویح کسکو کہتے ہیں؟ اسکی تلاش میں زیادہ سر گرداں ہونے کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ ماہ مبارک رمضان میں اھلسنت کی مساجد میں یہ فعل عملا دیکھا جاسکتا ہے یعنی مذھب اھلسنت کے نزدیک ماہ مبارک رمضان میں نماز مغرب و عشاء کے بعد نافلہ نمازوں کو باجماعت انجام دینا تراویح کہلاتا ہے اور اب نماز تراویح پر اسقدر اصرار وتاکید ہے کہ نماز تراویح مذہب اہلسنت کے لئے شعار اور پہچان بن گئی ہے ۔
ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں
ماہ مبارک رمضان ، عظیم اور خیر و برکت کا مہینہ ہے کہ جسمیں خداوندعالم اپنے بندوں پر درھائے رحمت کو کھول دیتا ہے اور شیطان کو محبوس کرلیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک ، عبادت، ریاضت، قناعت، تقوی، پرہیزگاری، تزکیہء نفس، نجات، بخشش، توبہ، مغفرت، رحمت، شب قدر اور آرام و سکون کے ساتھ ساتھ کچھ مخصوص واجبات و مستحبات کے ہمراہ آنے والا با برکت مہینہ ہے۔ اشرف کائنات افضل مخلوقات حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مہینہ کے سلسلے میں ماہ شعبان کے آخر میں ایک عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ جسکا خلاصہ یہ ہے : اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ خدا کا مہینہ برکت و رحمت و مغفرت لیکر تمہارے پاس آیا ہے یہ وہ مہینہ ہے کہ خدا کے نزدیک سب مہینوں سے افضل اسکے دن تمام دنوں سے بہتر اور اسکی راتیں تمام راتوں سے بالاتر ہیں اس مہینے میں تمہارا ہر سانس تسبیح کی مانند ہے ، تمہارا سونا بمنزلہ عبادت ہے، تمہارے عمل مقبول ہیں اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں پس تم صدق نیت سے خداوندعالم سے سوال کرو کہ وہ اس مبارک مہینے میں روزہ رکھنے اور قرآن پڑھنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ اے لوگو ! جو تم میں سےکسی مؤمن کو اس مہینے میں افطار دیگا اسکو خدائےکریم ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائےگا اور اسکے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے یہ سن کر بعض اصحاب نے عرض کی یا رسول اللہ ہم افطار کرانے پر قادر نہیں ہیں تب آپ نے فرمایا افطار دینے کے ذریعہ خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ چاہے یہ افطار خرمے کے آدھے دانے کے برابر ہو یا ایک گھونٹ پانی کے برابر، پھر بھی خدا یقینا وہی ثواب دیگا ۔ پھر فرمایا : اے لوگو جو اس مہینے میں صلہء رحم کریگا خدا قیامت میں اسکے ساتھ صلہء رحمت کریگا اور جو اس ماہ میں قطع رحم کریگا خداوند قیامت میں اسکے ساتھ قطع رحمت کریگا جو اس مہینے میں مستحبی نمازیں انجام دیگا خدا اسکے لئے جہنم سے امان کا پروانہ لکھ دیگا ، جو مجھ پر اور میری آل پر کثرت سے درود بھیجےگا خدا اس دن اسکے اعمال کی ترازو کو بھاری کردیگا جس دن اعمال کی ترازو ہلکی ہوجائیں گی اور جو اس مہینے میں ایک آیت کی تلاوت کریگا خداوند اسکو اس قدر ثواب مرحمت فرمائےگا جتنا کہ اور مہینوں میں ختم قرآن کا ہوتا ہے ۔ اے لوگو تمہارے لئے اس مہینے میں جنت کے دروازے کھلے ہوے ہیں لھذا خدا سے دعا کرو کہ انہیں تمہارے لئے بند نہ کرے اور جہنم کے دروازے بند ہیں لھذا خدا سے سوال کرو کہ انکو تم پر نہ کھولے اس مہینے میں شیاطین مقید اور باندھ دئے گئے ہیں تم خدا سے چاہو کہ انکو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے ۔
بہر حال اس عظیم اور بابرکت مہینے کے اعمال میں سے نافلہ نمازیں بھی ہیں اگر چہ سال میں ہر روز نافلہ نمازوں کا وجود ہے لیکن یہ نمازیں اپنی خصوصیات و فضائل میں یکتا ہیں.
مذہب شیعہ اور ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں
مذہب امامیہ شیعہ اثناعشری کے نزدیک ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کا وجود مسلم ہے اور انکی تعداد ایک ہزار رکعت ہے کہ جو اول ماہ رمضان سے بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت اور اکیس سے آخر ماہ رمضان تک ہر شب تیس رکعت و شبھائے قدر میں ہر شب سو رکعت جداگانہ انجام دی جاتی ہے کہ جو مجموعا ایک ہزار رکعت ہوجاتی ہے۔ البتہ یہ عام دنوں میں ہر روز کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے ۔اس مطلب کی تائید میں مذہب حقہ شیعہ اثناعشری کی معتبر کتب سےکچھ احادیث اور چند جید علماء کے نظریے و فتوے قارئین کے حضور پیش کرتے ہیں ۔
پہلی روایت :
قال ابوعبدالله علیه السلام مماکان رسول الله یصنع فی شهر رمضان کان یتنفل فی کل لیلة و یزید علی صلاته التی کان یصلیها قبل ذالک منذ اول لیلة الی تمام عشرین لیلة فی کل لیلة عشرین رکعة ثمانی رکعات منها بعد المغرب واثنتی عشرة بعد العشاء الآخرة ویصلی فی العشر الاواخر فی کل لیلة ثلاثین رکعة اثنتی عشرة منها بعد المغرب و ثمانی عشرة بعد العشاء الآخرة و یدعو ویجتهد اجتهادا شدیدا وکان یصلی فی لیلة احدی و عشرین مائة رکعة ویصلی فی لیلة ثلاث و عشرین مائة رکعة و یجتهد فیهما
۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ان کارناموں میں سے کہ جو رسول اسلام ماہ مبارک رمضان میں انجام دیتے تھے نافلۂ ماہ رمضان ہے کہ جو سالانہ ایام کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے وہ ہر شب بیسویں ماہ رمضان تک بیس رکعت نماز انجام دیتے آٹھ رکعت مغرب کے بعد بارہ رکعت عشاء کے بعد اور اکیسویں ماہ سے آخرماہ تک ہر شب تیس رکعت نماز انجام دیتے بارہ رکعت مغرب کے بعد اور اٹھارہ رکعت عشاء کے بعد بہت دعا فرماتے اور بہت زحمت و مشقت اٹھاتے نیز اکیس و تیئیس کی شبوں میں سو سو رکعت نماز انجام دیتے اور بہت ہی جہد و کوشش کرتے۔
دوسری روایت :
عن ابی حمزه قال دخلنا علی ابی عبدالله علیه السلام فقال له ابوبصیر ما تقول فی الصلاة فی رمضان ؟ فقال له ان لرمضان لحرمة حقا لا یشبهه شیء من الشهور صل ما استطعت فی رمضان تطوعا باللیل و النهار و ان استطعت فی کل یوم و لیلة الف رکعة فصل، ان علیا علیه السلام کان فی آخر عمره یصلی فی کل یوم و لیلة الف رکعة فصل یا ابامحمد زیادة فی رمضان، فقال کم جعلت فداک ؟ فقال فی عشرین لیلة تمضی فی کل لیلة عشرین رکعة ، ثمانی رکعات قبل العتمه و اثنتی عشرة بعدها سوی ما کنت تصلی قبل ذالک، فاذا دخل العشر الاواخر فصل ثلاثین رکعة کل رکعة ، ثمان قبل العتمة و اثنتین و عشرین بعد العتمة سوی ما کنت تفعل قبل ذالک
۔ جناب ابوحمزہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ابوبصیر نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ ماہ رمضان کی نمازوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں تب آب نے فرمایا بیشک ماہ رمضان کا خاص احترام ہے، حق یہ ہے کہ اس ماہ کو کسی مہینے سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی رمضان کی شب و روز میں مستحب نمازیں جتنی بھی ہوسکتی ہیں انجام دیں اور اگر ہوسکے تو ہرشبانہ روز ایک ایک ہزار رکعت پڑھیں، حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنی عمر کے آخری ایام میں ہر شب و روز ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے، اے ابومحمد آپ زیادہ سے زیادہ سے نمازیں انجام دیں عرض کی آپ پر ہماری جانیں قربان کتنی نماز ؟ تب آپ نے فرمایا پہلی بیس شبوں میں ہر شب بیس بیس رکعت نماز کہ آٹھ رکعت عشاء سے پہلے اور بارہ رکعت عشاء کے بعد ان نمازوں کے علاوہ جو غیر ماہ رمضان میں انجام دی جاتی ہیں اور رمضان کے آخری عشرے میں ہر تیس رکعت نماز انجام دیں یہ بھی عام نمازوں کے علاوہ ہے۔
تیسری روایت :
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے حضور احمد ابن مطہر نے عریضہ لکھا اور نماز نافلۂ رمضان کے متعلق دریافت کیا تب آپ نے جواب ارسال فرمایاصل فی کل لیلة من شهر رمضان عشرین رکعة الی عشرین من الشهر و صل لیلة احدی و عشرین مائة رکعة وصل لیلة ثلاثة و عشرین مائة رکعة، وصل فی کل لیلة من العشر الاواخر ثلاثین رکعة
۔ بیسویں ماہ رمضان تک ہر شب بیس رکعت نماز انجام دیں اور اکیس و تیئیسویں شب کو سو سو وکعت نیز آخری عشرے میں ہر شب تیس رکعت نماز انجام دیں
ان روایتوں کے علاوہ کتب احادیثی شیعہ میں اسطرح کی روایات بھر پور ہیں کہ جنمیں کہیں پر اول ماہ سے آخرماہ تک کی نماز مذکور ہے اور بعض روایات میں صرف شبھای قدر کی نمازوں کا ذکر ہے بلکہ وسائل الشیعہ میں مستقل ایک باب ہے کہ جسمیں شبھای قدر کی سو سو رکعت نماز سے متعلق متعدد احادیث درج ہیں
جبکہ بعض روایات میں ۱۹، ۲۱، ۳۲، رکعت کو مشخص کرکے نماز کا حکم ہے اور بعض روایات میں صرف اتنا آیا ہے (فصل فی رمضان زیادة الف رکعة
)
یعنی ماہ رمضان میں کل ملاکر ایک ہزار رکعت نماز پڑھی جانی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء شیعہ نے بھی انہی روایات سے استنباط کر کے ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کی تعداد ایک ہزار رکعت بتائی ہے اور اسکا طریقہ بھی بیان فرمایا ہے ، لھذا چند ممتاز و جید علماء و مراجع کے نظریے پیش خدمت ہیں۔
نظریہ سید مرتضی :
ومما انفردت به الامامیه ترتیب نوافل شهر رمضان علی ان یصلی فی کل لیلة منه عشرین رکعة منها ثمان بعد صلاة المغرب و اثنتاعشرة رکعة بعدالعشاءالآخرة ، فاذا کان فی لیلة تسع عشرة صلی مائة رکعة ، و یعود فی لیلة العشرین الی الترتیب الذی تقدم ، ویصلی فی لیلة احدی و عشرین مائة رکعة ، و فی لیلة اثنتین و عشرین ، ثلاثین رکعة منها ثمان بعد المغرب والباقی بعد صلاة العشاء الآخرة
علم الھدی سید مرتضی تحریر فرماتے ہیں کہ یہ مذہب شیعہ کی انفرادیت میں سے ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کو اسطرح انجام دیاجائے کہ ہر شب بیس رکعت جسمیں آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد، انیسوی شب میں سو رکعت اور پھر بیسوی شب میں پہلے کی ترتیب ، پھر اکیسوی شب میں سو رکعت اور بائسویں شب میں تیس رکعت نماز پڑھی جائےگی کہ آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بائیس رکعت نماز عشاء کے بعد انجام دی جائےگی گویا اول شب سے بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت اور اکیس سے آخر ماہ تک ہر شب تیس رکعت نیز قدر کی راتوں میں ہر شب ۱۰۰ رکعت نماز انجام دی جاتی ہے.
شیخ الطائفہ مرحوم شیح طوسی رقمطراز ہیں کہ (یصلی طول شهر رمضان الف رکعة زائدا علی النوافل المرتبة فی سائر الشهور ، عشرین لیلة فی کل لیلة عشرین رکعة ، ثمان بین العشائین و اثنتا عشرة بعد العشاءالآخرة وفی العشر الاواخر کل لیلة ثلاثین رکعة ، فی ثلاث لیال و هی لیلة تسع عشرة و لیلة احدی و عشرین و لیلة ثلاث وعشرین ، کل لیلة مائة رکعة
) اول ماہ رمضان سے آخر تک ہمیشہ و روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ایک ہزار رکعت نماز پڑھی جائے اسطرح کہ بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت کہ آٹھ رکعت نماز کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری دس شبوں میں ہر رات تیس رکعت ، نیز تین شبون میں کہ جو انیس اکیس اور تئیس کی شبیں ہیں ہر شب سو رکعت نماز انجام دی جائے.
جناب علامہ حلی تحریر فرماتے ہیں کہ (المشهور استحباب الف رکعة فیه زیادة علی النوافل الشهورة)
مشهور یه هے که ماه رمضان کی نافله نمازیں روزمره کی نافله نمازوں کے علاوه ایک هزار رکعت هیں که جنکی انجام دهی کی ترتیب اسطرح هے که(ان یصلی فی کل لیلة عشرین رکعة الی آخر الشهر و فی العشر الاواخر فی کل لیلة زیادة عشر رکعات و فی اللیالی الافراد زیادة فی کل لیلة مائة رکعة
) اول ماہ رمضان سے آخر ماہ تک ہر شب بیس رکعت اور آخری عشرہ میں ہر شب دس رکعت کا اور اضافہ ہوگا اور تین شبھای قدر میں ان نمازوں کے علاوہ سو سو رکعت نماز اور انجام دی جائےگی ۔
جناب محقق حلی بیان فرماتے ہیں کہ (نافلة شهر رمضان ، والاشهر فی الروایات استحباب الف رکعة فی شهر رمضان زیادة علی النوافل المرتبة ، یصلی فی کل لیلة عشرین رکعة ثمان بعد المغرب اثنتی عشرة رکعة بعد العشاء علی الاظهر، و فی کل لیلة من العشر الاواخر ثلاثین علی الترتیب المذکور و فی لیالی الافراد الثلاث فی کل لیلة مائة رکعة
) ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازیں روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ بطبق روایات اشھر یہ کہ ایک ہزار رکعت ہیں کہ جنکو اسطرح انجام دیا جاتا ہے کہ اول ماہ رمضان سے آخر ماہ تک ہر شب بیس رکعت ، آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری عشرے میں ہر شب دس رکعت اور زیادہ انجام دی جا ئےگی نیز تین شبہای قدر میں ہر شب سو رکعت کا اور اضافہ ہوگا۔
جناب فاضل نراقی :
(الف رکعة نافلة شهررمضان زیادة علی النوافل المترتبه فانهامستحبة علی الاشهر روایة و فتوی، بل علیه الاجماع ثم فی کیفیة توزیع الالف علی الشهر، ان یصلی فی کل لیلة من الشهر عشرین رکعة ثمان بعد المغرب و اثنتی عشرة بعد العشاء و یزید فی العشر الآخر فی کل لیلة عشر رکعات بعد العشاء و فی لیالی الثلاثة القدریة مائة زائدة علی وظیفتها
) صاحب مستندالشیعہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہمیشہ روزمرہ کی نوافل کے علاوہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں ایک ہزار رکعت ہیں یہ بر بناء قول اشھر باعتبار روایت و فتوی مستحب ہیں بلکہ اسپر علماء شیعہ کا اجماع ہے پھر یہ ہزار رکعت پورے مہینہ پر اسطرح تقسیم ہوتی ہیں کہ ہر شب بیس رکعت آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری دس شبوں میں ہر شب دس رکعت کا اور اضافہ کیا جائیگا نیز تینوں شبھای قدر میں اس مذکورہ وظیفہ کے ساتھ ساتھ ہر شب ۱۰۰ رکعت نماز کا اور اضافہ ہوگا۔
مذہب اہلسنت اور ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں
اھل تسنن کے نزدیک نوافل ماہ رمضان میں بہت زیادہ اختلاف ہے لیکن مشہور بیس رکعت ہیں انہیں کو نمازتراویح کے نام سے یاد کیا جاتاہے اور یہ جماعت سے انجام دی جاتی ہیں اس مطلب کی تائید میں ھم اھل تسنن کے جید علماء کے نظریات پیش کرتے ہیں ۔
مذہب اہلسنت کی عظیم ترین کتاب صحیح بخاری کی معتبر ترین شرح عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری میں تحریر ہے (وقد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرة
) نافلہ ماہ رمضان کی تعداد رکعات میں علماء کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہے بعض افراد اکتالیس رکعت کے قائل ہیں تو بعض اڑتیس رکعت کے ، کچھ نے چھتیس کو ترجیح دی ہے تو کسی نے چونتیس رکعت کو اپنایا ہے ، کوئی چوبیس رکعت کا قائل ہوا توکسی نے اکیس رکعت کواخذ کیا ، لیکن مشہور و معروف بیس رکعت ہے اور اسکے علاوہ نماز وتر ہے اگرچہ بعض افراد سولہ رکعت اور کچھ تیرہ رکعت ہی کے معتقد ہیں بلکہ بعض نے رمضان کی نافلہ اور غیر رمضان کی نافلہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں جانا بلکہ کہا ہے کہ ہر شب صرف گیارہ رکعت نماز نافلہ مستحب ہے۔
علامہ قسطلانی نے بخاری شریف کی شرح ارشاد الساری میں تحریر کیاہی کہ (المعروف و هو الذی علیه الجمهور انه عشرون رکعة بعشر تسلیمات و ذالک خمس ترویحات ، کل ترویحة اربع رکعات بتسلیمتین
) ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کے بارے میں معروف یہ ہے کہ بیس رکعت ہیں یہی علماء جمہور کا نظریہ ہے کہ جو دس سلام کے ساتھ یعنی دو دو رکعت کرکے انجام دی جاتی ہے اسمیں پانچ ترویحہ (آرام و استراحت)ہیں اور ہر ترویحہ چار رکعت کے بعد ہے۔
بہرحال گزشتہ گفتگو سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کا وجود مذہب امامیہ شیعہ اثنا عشری اور مذہب اہلسنت دونوں کے نزدیک ثابت ہے لیکن اختلاف رکعتوں کی تعداد اور کیفیت میں ہے ۔ لھذا اصل موضوع یہ ہے کہ نمازتراویح کہ جو ماہ مبارک رمضان میں ہر شب بیس رکعت جماعت کے ساتھ دو دو رکعت کرکے انجام دی جاتی ہے اور ہر چار رکعت کے بعد آرام و استراحت کیا جاتا ہے اسی کی وجہ سے اسکو نمازتراویح کہتے ہیں یہ نماز اس و کیفیت اور جماعت کے ساتھ کب ؟ اور کہاں سےشروع ہوئی ؟ کس نے شروع کی ؟!!!
نماز تراویح کی ایجاد ! مؤجد کون ؟
کسی بھی چیز کی حقیقت تک پہونچنے کیلیئے بھترین طریقہ یہی ہے کہ اسکی ایجاد وآغاز کی تفتیش کی جائے کہ یہ اسلام محمدی میں کب سے وارد ہوئی ؟ کیوں وارد ہوئی ؟ اور کسنے ایجاد کی ؟ اگرچہ نماز تراویح کا شمار ان بدعتوں میں سے ہے کہ جسکے بارے میں زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ مذہب اہلسنت کی عظیم ترین کتاب صحیح بخاری میں نمازتراویح کی حقیقت مفصل درج ہے (عن ابن شهاب عن عروة بن الزبیر عن عبد الرحمن بن عبد القاری انه قال خرجت مع عمربن الخطاب لیلة فی رمضان الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسه ویصلی الرجل فیصلی بصلاته الرهط فقال عمر انی اری لو جمعت هولاء علی قاری واحد لکان امثل ثم عزم فجمعهم علی ابی بن کعب ثم خرجت معه لیلة اخری والناس یصلون بصلاة قارئهم قال عمر نعمت البدعة هذه والتی ینامون عنها افضل من التی نقومون یرید آخر اللیل وکان الناس یقومون اوله
)
ترجمہ : ابن شھاب نے عروۃ بن زبیر سے اسنے عبدالرحمن بن قاری سے روایت کی ہے کہ عبدالرحمن کا بیان ہےکہ میں ایک شب ماہ رمضان میں عمربن الخطاب کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا تو دیکھا کہ لوگ جداجدا نماز نافلہء ماہ رمضان انجام دے رہے ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نمازوں میں مشغول ہے عمر نے کہا میری رای یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اور کچھ عور و فکر کرنے کے بعد ابی بن کعب کی اقتداء میں سب کو جماعت کا حکم دیا۔ پھر اگلی شب عمر کے ساتھ مسجد کی روانہ ہوا تو دیکھا کہ لوگ جماعت کے ساتھ نافلہ نماز میں مشغول ہیں تب عمر نے کہا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور وہ لوگ جو آرام سے سورہے ہیں وہ ان نمازگذاروں سے افضل ہیں (چونکہ وہ آخر شب میں نافلہ انجام دینگے جب کہ یہ اول شب میں تراویح پڑھ رہے ہیں)۔
شرح : انی اری میری رائ یہ ہے اس جملے کا لغوی ترجمہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں لیکن اصطلاحی ترجمہ اسطرح ہوگا کہ میری نظر یہ ہے، میری رائی یہ ہے، میرا نظریہ یہ ہے کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ عمر ظاہر بظاہر اپنے نظریے اور اپنی رائی سے دین میں کمی و زیادتی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اسی حملہ کی تفسیر صاحب عمدۃ القاری نے صحیح بخاری کی شرح میں تحریر کی ہے کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ جناب عمر نے اپنے اجتھاد و رائی سے یہ فعل انجام دیا اور انکے استنباط کیلیے تین دلیلیں ہوسکتی ہیں۔(ہم قارئین کے حضور تینوں دلیلیں مع جوابات پیش کررہے ہیں)
دلیل اول :
پیغمبر اسلام کی رضایت کہ چند روز لوگوں نے آپکی اقتداء میں نماز تراویح انجام دی!
جواب : یہ روایت اور اسکی حقیقت انشاءاللہ آئندہ آئےگی جبکہ واضح رہے کہ اگر پیغمبراکرم اس کام کو انجام دیتے تو عمر کبھی بھی اسکو بدعت نہ کہتے ، بدعت کہنا بتارہا ہےکہ یہ کام اس سے پہلے اسلام میں انجام ہی نہیں دیا گیا۔
دلیل دوم :
استحسان ، کہ یہ کام عمر کو اچھا لگا لھذا انجام دینے کا حکم دے دیا!
جواب : شریعت اسلام میں استحسان حجت نہیں ہے اور استحسان بھی ہرکس وناکس کا کہ جو بھی اچھا لگے دین میں داخل کرلیا جائے اور جو برا لگے اسکو دین سے نکال دیا جائے تو پھر دین کی کیا حالت ہوگی یہ لمحۂ فکریہ ہے! جبکہ قرآن کریم میں ارشاد گرامی ہے کہ ہر چیز جو تمہیں اچھی لگے اسکے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں بھی اچھی ہو بلکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو آپکو اچھی لگتی ہیں لیکن آپ کے لیے اچھی نہیں ہیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ آپ کو بری لگتی ہیں جبکہ آپ کے لیے اچھی ہیں عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیرلکم
دلیل سوم :
قیاس ، چونکہ واجب نمازوں میں جماعت جائز ہے بلکہ مستحب ہے لھذا نافلہ نماز میں بھی جماعت ہونی چاہیے!
جواب : قیاس دین مقدس اسلام میں باطل ہے ، اول من قاس فھو ابلیس۔ نیز یہ قیاس مع الفارق ہے اس لیے کہ واجب نمازوں میں جماعت کی تشریع موجود ہے نافلہ نمازوں میں جماعت کی تشریع تو کجا بلکہ انکار و تحریم ہے سوائے بعض موارد کے کہ جو روایات کی رو سے استثناء ہیں ۔
ثم خرجت معہ لیلۃ اخری جب دوسری رات عمر کے ساتھ مسجد کی طرف کو نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے ساتھ نمازتراویح میں مشغول ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز تراویح عمر نے نہ پڑھی ہے اور نہ پڑھائی ہے جبکہ خلیفہ وقت ہونے کی صورت میں اور انکے حضور و صحت و سلامتی کے دوران کسی دوسرے کا امامت کرنا یہ خود ذہن مسلمین میں بہت سے خطور پیدا کرتاہے ۔
نعمت البدعۃ ھذہ یعنی یہ کام بدعت ہے سنت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے پہلے کسی نے انجام دیا۔
والتی ینامون عنها افضل من التی یقومون
جناب عمر کی نظر میں نمازتراویح کو انجام دینے والوں سے انجام نہ دینے والے بہتر و افضل ہیں، جبکہ اس فعل خود ہی موجد بھی ہیں۔
اور اسکے علاوہ تمام ہی محدثین و مؤرخین و فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نمازتراویح کی ایجاد عمر کے ذریعہ سے ہوئی مثلا علامہ ابن سعد الطبقات الکبری میں عمر کا زندگینامہ تحریر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ عمر ہی نے پہلی مرتبہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو تراویح میں تبدیل کیا لوگوں کو تراویح کے لیے جمع کیا اور دوسرے شہروں میں تراویح کے سلسلے میں نامے ارسال کیے یہ چودہ ہجری کے ماہ رمضان کی بات ہے۔
علامہ ابن عبدالبر عمر کی تاریخ زندگی تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمر ہی نے پہلی مرتبہ نمازتراویح کے لیے لوگوں کو جمع کیا۔
علامہ قلقشندی ان چیزوں کو تحریر کرتے ہوئے کہ جنکی ابتداء عمر نے کی اور اس سے پہلے اسلام میں موجود نہ تھیں لکھتے ہیں کہ اولیات عمر میں سےایک ماہ رمضان کی تراویح ہے کہ عمر نے لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں نمازتراویح کیلیے جمع کیااس وقت چودہ ہجری تھی۔
صاحب محاضرات الاوائل تحریر کرتے ہیں نافلۂ ماہ رمضان کو جماعت سے انجام دینا عمر کی ایجادات میں سے ہے ۔
علامہ زرقانی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں کہ عمر ہی وہ پہلے ہیں کہ جنہوں نے نمازتراویح کی ایجاد ڈالی اور اسکو بدعت کا نام دیا چونکہ لفظ بدعت اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کام اس سے پہلے انجام نہیں دیا گیا۔
علامہ کحلانی تحریر کرتے ہیں عمر نے نمازتراویح کی بنیاد ڈالی اور اسکو بدعت کہا۔
بہر حال خود علماء اھل تسنن کے اعتراف کے مطابق نمازتراویح بدعت ہے اور یہ بعد میں جناب عمر کے ذریعہ اسلام میں وارد ہوئی ہے لھذا اب دیکھنا یہ ہے کہ خود بدعت کسکو کہتے ہیں اور بدعت کا اسلام میں کیا مقام ہے ؟
بدعت کی تعریف
باعتبار لغت : علامہ زبیدی نے تاج العروس میں علامہ فراھیدی نے کتاب العین میں علامہ راغب اصفہانی نے معجم مفردات میں علامہ ازھری نے تھذیب اللغہ میں علامہ ابن منظور نے لسان العرب میں علامہ جوھری نے صحاح اللغہ میں اور علامہ طریحی نے مجمع البحرین میں بلکہ تمام ہی لغویین نے بدعت کے ایک ہی معنی بیان کیے ہیں کہ(البدعة هو الشیء الذی یبتکر و یخترع من دون مثال سابق ویبتداء به بعد ان لم یکن موجود من قبل
) یعنی بدعت اسکو کہتے ہیں کہ کسی چیز کا اسطرح ایجاد کرنا کہ وہ خود یا اسکی مثال و نظیر قبلا موجود نہ ہو۔
اصطلاح شریعت میں بدعت کا مفھوم : علماء و بزرگان کی تصانیف و تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوے بدعت کا مفھوم شرع و شریعت کی اصطلاح میں اسطرح سامنے آتا ہے (ادخال ما لیس من الدین فی الدین
) کسی ایسی چیز کو دین میں داخل کرنا کہ جو دین میں سے نہ ہو اسکو اور واضح کرنے کیلیے مغنی لغوی کو بھی اگر سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ بدعت اسکو کہتے ہیں کہ کسی ایسی چیزکو دین میں داخل کرنا کہ جو نہ خود قبلا دین میں موجود ہو اور نہ اسکی مثال و نظیر موجود ہو اسکے ساتھ ساتھ بعض علماءنے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ تطلق شرعا علی مقابل السنہ یعنی بدعت سنت کے مقابل کی ایک شی ہے اور ظاہر ہے کہ جو شی مد مقابل ہوتی ہے اسکو خود اس شی میں داخل نہیں کیا جاسکتا لھذا بدعت کبھی بھی کسی بھی حال میں سنت واقع نہیں ہوسکتی ۔ اس صاف و شفاف بدعت کی تعریف کو دیکھتے ہوئے تراویح کی حقیقت خود سامنے آجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اہلسنت نے اسطرح کی بدعتوں کو شریعت کا لباس پنہانے کیلیے بدعت کی تقسیم حسنہ و قبیحہ سے کی ہے ایکن کیا واقعا بدعت قابل تقسیم ہے ؟
کیا بدعت قابل تقسیم ہے ؟
بدعت باعتبار لغت ممکن ہے کہ تقسیم ہوجائے بلکہ انصافا عقلا بھی بدعت کی تقسیم ممکن ہے لیکن شرعا ؟ جبکہ اصطلاح شریعت میں بدعت سنت کے مقابل ایک شی ہے اور یہ جملہ البدعۃ تطلق علی مقابل السنۃ نشانگر ہے کہ بدعت کو تقسیم کرکے بدعت حسنہ کو شریعت میں داخل کرنا غیر معقول ہے چونکہ بدعت ولو حسنہ ہی کیوں نہ ہو لیکن سنت نہیں ہوسکتی اس مدعی پر محکم دلیل خود رسول اکرم کی وہ حدیث شریف ہے کہ جسکو اسلام کے تمام مکاتب فکر نے نقل کیا ہے کہ حضور کا ارشاد گرامی ہے (کل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار
) ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی راہی جہنم کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ بدعت کی کسی بھی قسم کا سنت میں داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس حقیقت کے بہت سے علماء اہلسنت بھی معتقد ہیں جیسے علامہ کحلانی اپنی کتاب سبل السلام میں رقمطراز ہیں کہ (قول عمر: نعم البدعة فلیس فی البدعة ما یمدح بل کل بدعة ضلالة
) عمر کا قول کہ یہ اچھی بدعت ہے! جبکہ بدعت میں کوئی اچھائی نھیں پائی جاتی بلکہ ہر بدعت گمراھی ہے۔
علامہ شاطبی کتاب الاعتصام میں لکھتے ہیں کہ بدعت کے سلسلے میں جتنی بھی احادیث پیغبراکرم(ص) سے منقول ہیں سب کی سب عام و مطلق ہیں اور لفظ کل کے ساتھ وارد ہوئی ہیں جیسے کل بدعۃ ضلالۃ تو اگر بدعت کو تفسیم بھی کیا جائے توبھی اسکی ہر قسم ضلالت و گمراھی ہے لھذا بدعت کی کسی بھی قسم کو شریعت میں داخل نہیں کرسکتے اور پھر لکھتے ہیں کہ (انه من باب مضادة الشارع و اطراح الشرع وکل ما کان بهذه المثابة فمحال ان ینقسم الی حسن و قبح وان یکون منه مایمدح و یذم
) بدعت، شارع مقدس اسلام کی ضد ہے بدعت کو اپنانا گویا شریعت کو ترک کرنا ہے اور جو اس مقام پر ہو اسکی حسن و قبح اور اچھی و بری سے تقسیم محال و ناممکن ہے۔
ابن رجب حنبلی تحریر کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) کا ارشادگرامی کل بدعۃ ضلالۃ ، بدعت کی تمام اقسام کو شامل ہے چونکہ اسمیں کسی چیز کو استثنا اور جدا نہیں کیاگیاہے بلکہ یہ قول جوامع حکم میں سے ہے کہ جس سے کوئی چیز خارج و علیحدہ نہیں ہوتی اور یہ ایک اصل عظیم ہے کہ جسمیں احکام و افعال دین کو تولا جاسکتاہے کہ ہر وہ چیز یہ جو بدعت ہے دین نہیں ہے بلکہ گمراھی و ضلالت ہے۔
انکے علاوہ اور بھی بہت سے علماء اھل حل و عقد ہیں کہ جو یا تو اصلا تقسیم بدعت کے قائل نہیں ہیں یا تقسیم کے ساتھ بدعت کی ہر قسم کو گمراھی و ضلالت مانتے ہیں۔یہی بات معقول و قرین قیاس بھی نظر آتی ہے اسلئے کہ :
اولا : یہ قاعدہ کلی و اصلی عملی ہے کہ جو چیز شریعت میں بار بار بیان کی جائے مختلف حالات و زمان میں تکرار ہوتی رہے اور ہمیشہ عام و مطلق بیان ہو، کسی چیز کو کسی بھی وقت جدا و علیحدہ نہ کیا جائے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ شی اپنے اجزاء و اقسام کے ساتھ منظور ہے یہی حال بدعت کا ہے کہ مختلف اوقات و حالات میں متعدد مرتبہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا کل بدعۃ ضلالۃ اور کسی مرتبہ بھی تخصیص و تقیید نہ کی تو مقصد یہ ہوا کہ ہر بدعت گمراھی و ضلالت ہے۔
ثانیا: بدعت کو اگر حسنہ اور اچھا تسلیم کرکے دین میں داخل کرلیا جائے تو دین کو ناقص ماننا لازم آئےگا اسلئے کہ آیۃ اکمال(
الیوم اکملت لکم دینکم
)
کی مخالفت ہوگی کہ جو کفر ہے۔
ثالثا: بدعت کو اگر حسنہ مان کر دین میں داخل کرلیں تو دین بازیچہ بن کر رہ جائےگا اور کوئی بھی اپنی خواہش نفس کے مطابق کسی بھی چیز کو بدعت حسنہ کہکر دین میں داخل کرسکتا ہے۔
رابعا: اگر کسی چیز کو بدعت حسنہ کہکر دین میں داخل کیا جاسکتا ہے تو کسی بھی چیز کو اسی نام سے خارج بھی کیا جاسکتاہے اسلئے کہ جب بڑھانے میں کوئی حرج نہیں تو کم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا اور پھر دین کا کیا حشر ہوگا یہ خدا بہتر جانتاہے۔
خامسا: اگر بدعت کی تقسیم کو قبول بھی کرلیا جائے تو بھی کس میزان پر پرکھا جائے کہ یہ حسنہ ہے اور یہ قبیحہ ہے کس پیمانے سے ناپا جائے اور کس ترازو میں تولا جائے، بدعت حسنہ کو بدعت قبیحہ سے کیسے مشخص کیا جائے؟؟؟
اسمیں بدعت کون سی چیز ہے؟
البتہ ایک سادہ لوح انسان کے لیے یہ سوال پیش آسکتا ہے کہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں مذھب شیعہ میں بھی موجود ہیں اور مذھب اھلسنت میں بھی، نافلہ نمازوں کو اسلام کے تمام فرقوں میں شرعی حیثیت حاصل ہے یہ پہلے بھی مستحب تھیں اور آج بھی مستحب ہیں تو پھر بدعت کون سی چیز ہے؟
جواب،گزشتہ مطالب کو بغور مطالعہ کرنے سے واضح ہو جائےگا کہ نماز نافلہ پڑھنے والوں کو ایک خاص کیفیت کے ساتھ ایک شخص کے پیچھے جماعت کا حکم دینا اور انکا اس نماز کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے، ورنہ واقعا اس حادثہ سے پہلے بھی یہ لوگ نافلہ پڑھتے تھے جس شب عمر نے جماعت کا حکم دیا اس شب بھی نافلہ ہی پڑھ رہے تھے لیکن اگلی شب جب سب کو نمازنافلۂ ماہ رمضان جماعت سے پڑھتے دیکھا تو کہا نعمت البدعۃ ھذہ ، یعنی نافلہ نمازوں کا جماعت سے پڑھنا بدعت ہے۔ اسی کا علماء اہلسنت نے بھی اعتراف کیا ہے لھذا علامہ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں(سماها ای عمر بدعة لانه صلی الله علیه وسلم لم یبین لهم الاجتماع لها ولا کانت فی زمن الصدیق
) اسکا نام عمر نے بدعت اس لیے رکھا چونکہ رسول اکرم(ص) نے اس نماز کو جماعت سے انجام دینے کیلیے بیان نہیں فرمایا تھا اور نہ ہی یہ جماعت ابوبکر کے زمانے میں تھی۔
ابن قدامہ کا بیان ہے کہ(نسبة التراویح الی عمر بن الخطاب لانه جمع الناس علی ابی بن کعب
)نماز تراویح عمر ابن خطاب سے اسلیے منسوب ہے کہ عمر نے لوگوں کو ابی بن کعب کے ساتھ سے پڑھنے کا حکم دیا۔
علامہ عینی رقمطراز ہیں (انما دعاها بدعة لان رسول الله لم یسنها لهم و لاکانت فی زمن ابی بکر
) عمر نے اسکو بدعت اسلیے کہا کہ چونکہ رسول اکرم(ص) نے اس جماعت کو سنت قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی یہ ابوبکر کے زمانے میں تھی۔
کحلانی لکھتے ہیں (ان عمر هو الذی جعلها جماعة علی معین و سماها بدعة
) یہ عمر ہی ہیں جنہوں نے نافلہ ماہ رمضان کو جماعت سے قرار دیا اور اسکا نام بدعت رکھا۔