ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 0%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 164
مشاہدے: 80347
ڈاؤنلوڈ: 1487

تبصرے:

ضربِ کلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80347 / ڈاؤنلوڈ: 1487
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

مدنیت اسلام

بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے

یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں

*

طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب

یگانہ اور مثال زمانہ گو نا گوں!

*

نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری

نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں

*

حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی

یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں!

*

عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال

عجم کا حسن طبیعت ، عرب کا سوز دروں!

***

۴۱

امامت

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے

حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

*

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق

جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

*

موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست

زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے

*

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے

فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

*

فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی

جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

***

۴۲

فقر و راہبی

کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی

تری نگاہ میں ہے ایک ، فقر و رہبانی

*

سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار

فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی

*

پسند روح و بدن کی ہے وا نمود اس کو

کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی

*

وجود صیرفی کائنات ہے اس کا

اسے خبر ہے، یہ باقی ہے اور وہ فانی

*

اسی سے پوچھ کہ پیش نگاہ ہے جو کچھ

جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی

*

یہ فقر مرد مسلماں نے کھو دیا جب سے

رہی نہ دولت سلمانی و سلیمانی

***

۴۳

غزل

تیری متاع حیات، علم و ہنر کا سرور

میری متاع حیات ایک دل ناصبور!

*

معجزۂ اہل فکر، فلسفۂ پیچ پیچ

معجزۂ اہل ذکر، موسی و فرعون و طور

*

مصلحتاً کہہ دیا میں نے مسلماں تجھے

تیرے نفس میں نہیں، گرمی یوم النشور

*

ایک زمانے سے ہے چاک گریباں مرا

تو ہے ابھی ہوش میں، میرے جنوں کا قصور

*

فیض نظر کے لیے ضبط سخن چاہیے

حرف پریشاں نہ کہہ اہل نظر کے حضور

*

خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم

عشق ہو جس کا جسور ، فقر ہو جس کا غیور

***

۴۴

تسلیم و رضا

ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا

پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا

*

ظلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا

ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشوونما کا

*

فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند

مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا

*

جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے

اے مرد خدا، ملک خدا تنگ نہیں ہے

***

۴۵

نکتۂ توحید

بیاں میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے

ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے

*

وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لا الٰہ میں ہے

طریق شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے

*

سرور جو حق و باطل کی کارزار میں ہے

تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے

*

جہاں میں بندۂ حر کے مشاہدات ہیں کیا

تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے

*

مقام فقر ہے کتنا بلند شاہی سے

روش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہیے!

***

۴۶

الہام اور آزادیِ جان و تن

عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی

روح کس جوہر سے، خاک تیرہ کس جوہر سے ہے

*

میری مشکل، مستی و شور و سرور و درد و داغ

تیری مشکل، مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے

*

ارتباط حرف و معنی، اختلاط جان و تن

جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے!

***

لاہور و کراچی

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر

*

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

*

آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں

حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'

***

۴۷

نبوت

میں نہ عارف ، نہ مجدد، نہ محدث ،نہ فقیہ

مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام

*

ہاں، مگر عالم اسلام پہ رکھتا ہوں نظر

فاش ہے مجھ پہ ضمیر فلک نیلی فام

*

عصر حاضر کی شب تار میں دیکھی میں نے

یہ حقیقت کہ ہے روشن صفت ماہ تمام

*

''وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش

جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام''

***

آدم

طلسم بود و عدم، جس کا نام ہے آدم

خدا کا راز ہے، قادر نہیں ہے جس پہ سخن

*

زمانہ صبح ازل سے رہا ہے محو سفر

مگر یہ اس کی تگ و دو سے ہو سکا نہ کہن

*

اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں

'وجود حضرت انساں نہ روح ہے نہ بدن،!

***

۴۸

مکہ اور جنیوا

اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام

پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم

*

تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملت آدم

*

مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام

جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم!

***

۴۹

اے پیر حرم

اے پیر حرم! رسم و رہ خانقہی چھوڑ

مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا

*

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!

دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا

*

تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے

مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا

*

دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی

دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

*

کہہ جاتا ہوں میں زور جنوں میں ترے اسرار

مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا!

***

۵۰

مہدی

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف

یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو

*

مجذوب فرنگی نے بہ انداز فرنگی

مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو

*

اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار

نومیدۂ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو

*

ہو زندہ کفن پوش تو میت اسے سمجھیں

یا چاک کریں مردک ناداں کے کفن کو؟

***

۵۱

مرد مسلمان

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!

*

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

*

ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان

*

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن!

*

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

*

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان

*

فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمن

*

بنتے ہیں مری کار گہ فکر میں انجم

لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان

***

۵۲

پنجابی مسلمان

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت

کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

*

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

*

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے

یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

***

آزادی

ہے کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے

حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد

*

چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدہ پارس

چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد

*

قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر

چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد

*

ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا

اسلام ہے محبوس ، مسلمان ہے آزاد

***

۵۳

اشاعت اسلام فرنگستان میں

ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی

فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام

*

بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں

قبول دین مسیحی سے برہمن کا مقام

*

اگر قبول کرے، دین مصطفی ، انگریز

سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

***

لا و الا

فضائے نور میں کرتا نہ شاخ و برگ و بر پیدا

سفر خاکی شبستاں سے نہ کر سکتا اگر دانہ

*

نہاد زندگی میں ابتدا 'لا' ، انتہا 'الا'

پیام موت ہے جب 'لا ہوا الا' سے بیگانہ

*

وہ ملت روح جس کی 'لا 'سے آگے بڑھ نہیں سکتی

یقیں جانو، ہوا لبریز اس ملت کا پیمانہ

***

۵۴

امرائے عرب سے

کرے یہ کافر ہندی بھی جرأت گفتار

اگر نہ ہو امرائے عرب کی بے ادبی!

*

یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس امت کو؟

وصال مصطفوی ، افتراق بولہبی!

*

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

محمد عربی سے ہے عالم عربی

***

___________________

بھوپال شیش محل میں لکھے گئے

۵۵

احکام الہی

پابندی تقدیر کہ پابندی احکام!

یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خرد مند

*

اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر

ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ، ابھی خورسند

*

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

***

موت

لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے

اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے

*

مہ و ستارہ ، مثال شرارہ یک دو نفس

مے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے

*

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے!

***

۵۶

قم باذن اللہ

جہاں اگرچہ دگر گوں ہے ، قم باذن اللہ

وہی زمیں ، وہی گردوں ہے ، قم باذن اللہ

*

کیا نوائے 'انا الحق' کو آتشیں جس نے

تری رگوں میں وہی خوں ہے ، قم باذن اللہ

*

غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا

فرنگیوں کا یہ افسوں ہے ، قم باذن اللہ

***

تعلیم و تربیت

مقصود

(سپنوزا)

نظر حیات پہ رکھتا ہے مرد دانش مند

حیات کیا ہے ، حضور و سرور و نور و وجود

(فلاطوں)

نگاہ موت پہ رکھتا ہے مرد دانش مند

حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود

*

حیات و موت نہیں التفات کے لائق

فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود

***

__________________

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۵۷

زمانۂ حاضر کا انسان

'عشق ناپید و خرد میگزدش صورت مار'

عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا

*

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

*

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا

آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

*

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا!

***

اقوام مشرق

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو

آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

*

زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر

یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور!

***

۵۸

آگاہی

نظر سپہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ شناس

نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ

*

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا

وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ

*

وہی نگاہ کے ناخوب و خوب سے محرم

وہی ہے دل کے حلال و حرام سے آگاہ

***

مصلحین مشرق

میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے

کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی

*

نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں

پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی!

***

مغربی تہذیب

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

*

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید

ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف

***

۵۹

اسرار پیدا

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

*

ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے

وہ عالم مجبور ہے ، تو عالم آزاد

*

موجوں کی تپش کیا ہے ، فقط ذوق طلب ہے

پنہاں جو صدف میں ہے ، وہ دولت ہے خدا داد

*

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرۂ افتاد

***

۶۰