ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 0%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 164
مشاہدے: 80471
ڈاؤنلوڈ: 1487

تبصرے:

ضربِ کلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80471 / ڈاؤنلوڈ: 1487
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

سلطان ٹیپو کی وصیت

تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

*

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز

ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

*

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں

محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول

*

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول

*

باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!

***

۶۱

غزل

نہ میں اعجمی نہ ہندی ، نہ عراقی و حجازی

کہ خودی سے میں نے سیکھی دوجہاں سے بے نیازی

*

تو مری نظر میں کافر ، میں تری نظر میں کافر

ترا دیں نفس شماری ، مرا دیں نفس گدازی

*

تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت

کہ موافق تدرواں نہیں دین شاہبازی

*

ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا

کہ سکھا سکے خرد کو رہ و رسم کارسازی

*

نہ جدا رہے نوا گر تب و تاب زندگی سے

کہ ہلاکی امم ہے یہ طریق نے نوازی

***

۶۲

بیداری

جس بندۂ حق بیں کی خودی ہو گئی بیدار

شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق

*

اس کی نگہ شوخ پہ ہوتی ہے نمودار

ہر ذرے میں پوشیدہ ہے جو قوت اشراق

*

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

تو بندۂ آفاق ہے ، وہ صاحب آفاق

*

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی

وہ پاکی فطرت سے ہوا محرم اعماق

***

۶۳

خودی کی تربیت

خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف

کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز

*

یہی ہے سر کلیمی ہر اک زمانے میں

ہوائے دشت و شعیب و شبانی شب و روز!

***

آزادی فکر

آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی

رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

*

ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!

***

۶۴

خودی کی زندگی

خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی

نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر

*

خودی ہو زندہ تو دریائے بے کراں پایاب

خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیان و حریر

*

نہنگ زندہ ہے اپنے محیط میں آزاد

نہنگ مردہ کو موج سراب بھی زنجیر!

***

حکومت

ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن

شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات

*

قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاع کردار

بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات

*

گرچہ اس دیر کہن کا ہے یہ دستور قدیم

کہ نہیں مے کدہ و ساقی و مینا کو ثبات

*

قسمت بادہ مگر حق ہے اسی ملت کا

انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخاب حیات!

****

___________________

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

۶۵

ہندی مکتب

اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا

موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات

*

بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے

پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات

*

آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال

کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات!

*

آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت

محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات

*

آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور

محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات

*

محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا

ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات

*

محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی

موسیقی و صورت گری و علم نباتات

***

۶۶

تربیت

زندگی کچھ اور شے ہے ، علم ہے کچھ اور شے

زندگی سوز جگر ہے ، علم ہے سوز دماغ

*

علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

*

اہل دانش عام ہیں ، کم یاب ہیں اہل نظر

کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ!

*

شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں

کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ!

***

خوب و زشت

ستارگان فضا ہائے نیلگوں کی طرح

تخیلات بھی ہیں تابع طلوع و غروب

*

جہاں خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب

یہاں بھی معرکہ آرا ہے خوب سے ناخوب

*

نمود جس کی فراز خودی سے ہو ، وہ جمیل

جو ہو نشیب میں پیدا ، قبیح و نا محبوب!

***

۶۷

مرگ خودی

خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور

خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام

*

خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب

بدن عراق و عجم کا ہے بے عروق و عظام

*

خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر

قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!

*

خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور

کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامۂ احرام!

***

مہمان عزیز

پر ہے افکار سے ان مدرسے والوں کا ضمیر

خوب و ناخوب کی اس دور میں ہے کس کو تمیز!

*

چاہیے خانۂ دل کی کوئی منزل خالی

شاید آ جائے کہیں سے کوئی مہمان عزیز

***

۶۸

عصر حاضر

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی

اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام

*

مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر

چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

*

مردہ ، 'لا دینی افکار سے افرنگ میں عشق

عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام!

***

طالب علم

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

*

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

***

۶۹

امتحان

کہا پہاڑ کی ندی نے سنگ ریزے سے

فتادگی و سر افگندگی تری معراج!

*

ترا یہ حال کہ پامال و درد مند ہے تو

مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج

*

جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا

کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارہ یا کہ زجاج

***

مدرسہ

عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا ، جس نے

قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش

*

دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا

زندگی موت ہے، کھو دیتی ہے جب ذوق خراش

*

اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا

جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش

*

فیض فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا

جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش

*

مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو

خلوت کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش

***

۷۰

حکیم نطشہ

حریف نکتۂ توحید ہو سکا نہ حکیم

نگاہ چاہیے اسرار 'لا الہ' کے لیے

*

خدنگ سینۂ گردوں ہے اس کا فکر بلند

کمند اس کا تخیل ہے مہرو مہ کے لیے

*

اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی

ترس رہی ہے مگر لذت گنہ کے لیے

***

اساتذہ

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں

بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو

*

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار

کیا مدرسہ ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو!

*

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

***

۷۱

غزل

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ

اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

*

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ

*

فروغ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے

تری نظر کا نگہباں ہو صاحب 'مازاغ'

*

وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس

چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ

*

کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

***

۷۲

دین و تعلیم

مجھ کو معلوم ہیں پیران حرم کے انداز

ہو نہ اخلاص تو دعوئے نظر لاف و گزاف

*

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

*

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے

قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

*

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

***

۷۳

جاوید سے

(۱)

غارت گر دیں ہے یہ زمانہ

ہے اس کی نہاد کافرانہ

*

دربار شہنشہی سے خوشتر

مردان خدا کا آستانہ

*

لیکن یہ دور ساحری ہے

انداز ہیں سب کے جاودانہ

*

سرچشمۂ زندگی ہوا خشک

باقی ہے کہاں م ے شبانہ!

*

خالی ان سے ہوا دبستاں

تھی جن کی نگاہ تازیانہ

*

جس گھر کا مگر چراغ ہے تو

ہے اس کا مذاق عارفانہ

*

جوہر میں ہو 'لاالہ' تو کیا خوف

تعلیم ہو گو فرنگیانہ

*

۷۴

شاخ گل پر چہک ولیکن

کر اپنی خودی میں آشیانہ!

*

وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا

ہر قطرہ ہے بحر بیکرانہ

*

دہقان اگر نہ ہو تن آساں

ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ

*

''غافل منشیں نہ وقت بازی ست

وقت ہنر است و کارسازی ست''

***

۷۵

(۲)

سینے میں اگر نہ ہو دل گرم

رہ جاتی ہے زندگی میں خامی

*

نخچیر اگر ہو زیرک و چست

آتی نہیں کام کہنہ دامی

*

ہے آب حیات اسی جہاں میں

شرط اس کے لیے ہے تشنہ کامی

*

غیرت ہے طریقت حقیقی

غیرت سے ہے فقر کی تمامی

*

اے جان پدر! نہیں ہے ممکن

شاہیں سے تدرو کی غلامی

*

نایاب نہیں متاع گفتار

صد انوری و ہزار جامی!

*

ہے میری بساط کیا جہاں میں

بس ایک فغان زیر بامی

*

۷۶

اک صدق مقال ہے کہ جس سے

میں چشم جہاں میں ہوں گرامی

*

اللہ کی دین ہے ، جسے دے

میراث نہیں بلند نامی

*

اپنے نور نظر سے کیا خوب

فرماتے ہیں حضرت نظامی

*

''جاے کہ بزرگ بایدت بود

فرزندی من نداردت سود''

***

۷۷

(۳)

مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز

دین و دولت ، قمار بازی!

*

ناپید ہے بندۂ عمل مست

باقی ہے فقط نفس درازی

*

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر

جس فقر کی اصل ہے حجازی

*

اس فقر سے آدمی میں پیدا

اللہ کی شان بے نیازی

*

کنجشک و حمام کے لیے موت

ہے اس کا مقام شاہبازی

*

روشن اس سے خرد کی آنکھیں

بے سرمۂ بو علی و رازی

*

حاصل اس کا شکوۂ محمود

فطرت میں اگر نہ ہو ایازی

*

۷۸

تیری دنیا کا یہ سرافیل

رکھتا نہیں ذوق نے نوازی

*

ہے اس کی نگاہ عالم آشوب

درپردہ تمام کارسازی

*

یہ فقر غیور جس نے پایا

بے تیغ و سناں ہے مرد غازی

*

مومن کی اسی میں ہے امیری

اللہ سے مانگ یہ فقیری

***

مرد فرنگ

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا

مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں

*

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں

گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

*

فساد کا ہے فرنگی معاشرت پہ ظہور

کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

***

۷۹

ایک سوال

کوئی پوچھے حکیم یورپ سے

ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش

*

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بے کار و زن تہی آغوش!

***

پردہ

بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے

خدایا یہ دنیا جہاں تھی ، وہیں ہے

*

تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں میں نے

وہ خلوت نشیں ہے ، یہ خلوت نشیں ہے

*

ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم

کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

***

۸۰